سوالات

ج۔رمضان المبارک کے ماہ سعید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اور اسی شوق اور محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کا قیام بھی بڑھا دیتے۔ رمضان المبارک میں درج ذیل معمولات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا حصہ ہوتے۔

1۔ کثرتِ عبادت و ریاضت

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

’’جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔‘‘

(بیہقی ، شعب الایمان۔۳۶۲۵)

2۔ سحری و افطاری

رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سحری کھانے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘ (مسلم ، کتاب الصیام۱۰۹۵)

ایک اور مقام پر حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘ (مسلم کتاب الصیام ۱۰۹۶)

3۔ قیام اللیل

رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتیں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز میں کھڑے رہنے، تسبیح و تہلیل اور ذکر الٰہی میں محویت سے عبارت ہیں۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے اسی معمول کا حصہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا 

’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس دن وہ بطن مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا۔‘‘

4۔ کثرت صدقات و خیرات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے خالی واپس نہ جاتا رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ 

عبدا للہ ابن عباس کہتے ہیں

’’جب حضرت جبریل امین آجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔‘‘

حضرت جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ محبت لے کر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ وہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں مثلاًآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جود و سخا کا بیان۔رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان۔نیک بندوں کی ملاقات پر جود و سخا اور خیرات کی زیادتی کا بیان۔قرآن مجید کی تدریس کے لئے مدارس کے قیام کا جواز۔

5۔ اعتکاف

رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف کیا۔‘‘

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

قاعدہ قانون کے مطابق سحری کا وقت طلوع فجر سے پہلے پہلے ہی ہے۔لیکن فطری بات ہے انسان کبھی کبھار لیٹ بھی ہو سکتا ہے چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے فہم و فراست ، عقل و دانش اور شعور کے شہنشاہ ، شارع علیہ السلام نے خصوصی رعایت فرمائی ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:’’ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔‘‘نوٹ: تمام بڑے بڑے محدثین نے اس حدیث کو ’’کتاب الصوم‘‘ میں نقل کیا ہے۔مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے ملا علی القاری حنفی  لکھتے ہیں:’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی (رمضان میں) صبح کی اذان سْنے ، اس حال میں کہ (سحری) کے کھانے پینے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہے ، تو کھا پی کر اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے ہاتھ سے نہ رکھے۔لہٰذا اس قدر شدت نہیں ہونی چاہیے جس طرح بعض لوگ کرتے ہیں کہ اذان شروع ہوتے ہی جو لقمہ منہ میں ہو وہ بھی باہر پھنک دیا جائے کیونکہ عام طورپر لوگ وقت ختم ہونے سے پہلے ہی سحری کھا لیتے ہیں مجبوراً ہی کوئی بالکل آخری وقت میں کھا پی رہا ہوتا ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

روزہ دار کے حلق میں غبار، عطر کی خوشبو، دھونی یا دھواں چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اگر کسی روزہ دار نے غبار یا دھویں کو قصدًا اپنے حلق میں داخل کیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جی ہاں! روزے کی حالت میں مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا جائز ہے بشرطیکہ ٹوتھ پیسٹ کے اجزا حلق سے نیچے نہ جائیں البتہ مسواک سے دانت صاف کرنا سنت ہے۔ مسواک کے سوکھے یا تر ہونے یا خشک ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

رمضان کے روزوں کی قضائ￿ واجب ہے اور اس میں وسعت رکھی گئی ہے، وقت کی کوئی قید نہیں ہے لہٰذا قضائ￿  روزے لگاتار رکھیں یا سال میں وقفے وقفے کے ساتھ، دونوں طرح جائز ہیں۔ 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ رب العزت کی خاص رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ دعاؤں کو شرف قبولیت ملتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی اور روحانی فیوضات بھی اللہ کی رحمت کا حصہ ہیں جو انسان کو صرف روزہ کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ وہ شخص بدنصیب ہے جو بغیر کسی شرعی رخصت یا مرض کے روزہ چھوڑ کر اس کی رحمت سے محروم ہو جائے، ایسے شخص کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص بغیر شرعی رخصت اور بیماری کے رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو چاہے پھر وہ زندگی بھر روزے رکھتا رہے وہ اس رمضان کے روزے کا بدل نہیں ہو سکتے۔‘‘

فقہاء کے نزدیک جس نے روزہ کی حالت میں جان بوجھ کر کھا پی لیا اس پر قضائ￿  اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔

()

جی ہاں، روزہ کی حالت میں سرمہ لگانا جائز ہے جیسا کہ حدیث پاک میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ میری آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے۔ کیا میں روزہ کی حالت میں سرمہ لگا سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  ہاں! (روزے کی حالت میں سرمہ لگا سکتے ہو)۔‘‘

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

زید کی شادی ۲۷،۲۸ سال پہلے ہوئی تھی۔ زوجین نے پرمسرت ازدواجی زندگی گزاری۔ ان کے درمیان کسی طرح کی ناچاقی نہیں تھی۔ اس عرصے میں ان کی پانچ اولادیں ہوئیں، جو بحمد اللہ اب جوان ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹی کی شادی بھی ہوچکی ہے۔ زید کی بیوی نے گزشتہ دس سال سے اس کے کمرے میں سونا چھوڑدیا ہے۔ وہ اپنے جوان بچوں کے ساتھ الگ کمرے میں سوتی ہے اور شوہر دوسرے کمرے میں اکیلاسوتاہے۔ زید اسے باربار  اس کا فرض یاد دلاتاہے اور اسے اپنے کمرے میں سُلانا چاہتا ہے۔مگر وہ کہہ دیتی ہے کہ بچے اب بڑے ہوگئے ہیں۔ وہ کیا سوچیں گے؟ زید عمر کے اس مرحلے میں پہنچ چکاہے، جہاں وہ چاہتاہے کہ اس کی بیوی زیادہ اوقات اس کے ساتھ رہے۔ شادی صرف جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے تو نہیں کی جاتی۔ اس کی بیوی بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے، لیکن عملاً وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے سے غفلت برتتی اور جوان اولاد کی دیکھ بھال کو ترجیح دیتی ہے۔ اب وہ صرف اپنے بچوں کی ماں بن کر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں درج ذیل اُمورجواب طلب ہیں:
۱۔ کیا زید اور اس کی بیوی کے درمیان زن و شوہر کی حیثیت باقی ہے؟ یا ختم ہوگئی ہے؟
۲۔ بیوی کا رویّہ کہیں شوہر سے خلع حاصل کرنے کے زمرے میں تو نہیں آتا؟
۳۔ کیا دونوں ایک مکان میں رہ سکتے ہیںاور بلاکراہت ایک دوسرے سے بات چیت کرسکتے ہیں؟

بچوں کی عمر کے کس مرحلے میں ان کے ساتھ کیسامعاملہ کیاجائے؟ قرآن وحدیث میں اس کے اشارے ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انھیں الگ سلایاجائے (مسند احمد، ۲/۱۸۰)اس سے اشارۃً معلوم ہوتاہے کہ ان کے بستر ماں باپ کے بستر سے بھی الگ ہونے چاہییں   سورۃ نورمیں، جہاں حجاب سے متعلق مختلف احکام دیے گئے ہیں، وہیں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ قریب البلوغ بچوں کو مخصوص اوقات میں ماں باپ کے کمروں میں بغیر اجازت لیے نہیں داخل ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمھارے لونڈی غلام اور تمھارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمھارے پاس آیا کریں، صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب کہ تم کپڑے اتارکر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمھارے لیے پردے کے وقت ہیں‘‘۔(النور ۵۸)
آگے بالغ بچوں کو بھی ایسا ہی کرنے کاحکم دیاگیا ہے:
’’اور جب تمھارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں‘‘۔(النور ۵۹)
ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ بچے جب بڑے ہوجائیں تو پردے کے احکام ان سے بھی اسی طرح متعلق ہوجاتے ہیں جس طرح بڑوں سے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف متعدد ایسی آیات اور احادیث ہیں، جن سے زوجین کے ایک کمرے میں رات گزارنے کااشارہ ملتاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کااندیشہ ہو انھیں سمجھائو، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو‘‘۔(النسا ۳۴)’’مضاجع‘‘کاترجمہ بستر بھی کیاگیا ہے اور خواب گاہ بھی۔ اس کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے:
وَلَاتَھْجُرْاِلّافِی الْبَیْتِ ابوداود: ۲۱۴۲’’اور بیوی سے مت علیحدگی اختیارکرو، مگر خواب گاہ میں‘‘۔
بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی صورت میں اس کی تادیب و اصلاح کے لیے بستر میں، یاخواب گاہ میں اس سے علیحدہ رہنے کو کہاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں زوجین کا ساتھ رہنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔
اوپر کے خط میں سائل نے بیوی کے جس رویّے کی شکایت کی ہے، اس کا تعلق نام نہاد مشرقی تہذیب سے ہے۔ عموماً جب بچّے کچھ بڑے اور باشعور ہوجاتے ہیں تو عورتیں ان کی موجودگی میں اپنے شوہروں کے کمروں میں رہنے سے شرماتی اور اسے ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے بجائے بچوں کی ایسی دینی اور اخلاقی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ اس عمل کو اجنبی اور غیراخلاقی نہ سمجھیں۔ ویسے بھی ازدواجی تعلق صرف جنسی عمل کا نام نہیں ہے۔ بہت سے معاملات و مسائل روزمرّہ کی زندگی میں ایسے ہوتے ہیں، جن پر بچوں کی غیرموجودگی میں زوجین کا تنہائی میں گفتگو کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ بیوی کے فرائض میں سے ہے کہ وہ شوہر کو گھر میں سکون فراہم کرے اور جائز امور میں اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اللہ کے رسولﷺسے کسی نے دریافت کیاکہ سب سے اچھی عورت کون ہے؟ فرمایا:
’’وہ عورت جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے، وہ اسے کسی چیز کا حکم دے تو اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کے بارے میں اس مال کے بارے میں جو اس کی تحویل میں ہے، شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے‘‘۔
اس معاملے میں زوجین کو افراط و تفریط سے بچناچاہیے نہ انھیں اپنے باشعور بچوں کے سامنے کھلے عام ایسی ’حرکتیں‘ کرنی چاہییں، جن کا شمار بے حیائی میں ہوتا ہو اور نہ ایک دوسرے سے بے تعلق ہوجانا چاہیے کہ دوسرا فریق اسے اپنی حق تلفی شمار کرنے لگے۔ رہیں وہ باتیں، جن کاتذکرہ خط کے آخر میں کیاگیا ہے، وہ جاہلانہ باتیں ہیں۔ بیوی کے کچھ عرصہ شوہر سے الگ دوسرے کمرے میں رہنے سے نہ تو ازدواجی حیثیت ختم ہوجاتی ہے نہ یہ عمل خلع حاصل کرنے کے زمرے میں ٓتاہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے چاہییں اور ان کی ادائیگی کے لیے شرحِ صدر کے ساتھ خود کوآمادہ کرنا چاہیے۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

شرعی طور سے انگوٹھی پہننا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے جائز ہے۔ ہاں سونا (Gold)امتِ محمدیہ کے مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس لیے سونے کی انگوٹھی پہننا ان کے لیے جائز نہیں۔احادیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی، جس سے آپﷺمہر کاکام لیاکرتے تھے۔ اس پر ’محمدرسول اللہ‘ کندہ تھا۔
جہاں تک حجریات کی تاثیر کا معاملہ ہے تو طب کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتاہے۔ مختلف حجریات کے بارے میں بتایاگیاہے کہ انھیں اپنے پاس رکھنے، گردن میں لٹکانے یا کسی اور طرح سے اس کے خارجی استعمال سے جسم انسانی پر فلاں فلاں اثرات پڑتے ہیں۔ اس کا تعلق عقیدہ سے نہیں، بلکہ تجربے سے ہے۔ اگر کسی پتھر کا خارجی استعمال طبّی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہو تو اسے انگوٹھی کا نگینہ بنالینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔مگر اس کے ساتھ کوئی عقیدہ وابستہ کرنا ناجائز ہے ۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

میرے شوہر کا انتقال دوسال قبل ہوگیاہے۔ میں ایک گرلزاسکول کی پرنسپل شپ سے وظیفہ یافتہ ہوں۔ کچھ جائیداد میرے شوہر کی موروثی ہے۔ کچھ ان کی خریدی ہوئی ہے اور کچھ جائیداد میں نے اپنی آمدنی سے بنائی ہے۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے۔ دوسرے رشتہ دار ہیں۔ میں ان تمام جائیدادوں کو شرعی اعتبار سے تقسیم کرناچاہتی ہوں۔ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔
۱۔میرے سسرصاحب اور ساس صاحبہ کا عرصہ ہوا انتقال ہوچکا ہے۔ چند ایکڑ زرعی زمین ان کے ورثہ میں تھی۔ خسر صاحب کے انتقال کے وقت ان کے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں۔ ان میں سے میرے شوہر کا حال میں انتقال ہوگیا ہے۔ اس جائیداد میں میرے شوہر کا یا میرا کیا شرعی حق بنتا ہے؟
۲۔میرے شوہر نے ایک مکان ہائوسنگ بورڈ سے قسطوں پر خریداتھا۔ ابھی تقریباً ایک لاکھ روپے ہائوسنگ بورڈ کو اور ادا کرنا ہے۔ انتقال کے وقت ان کے اکائونٹ میں تیرہ ہزار روپے تھے۔ ان کے تین بھائی اور پانچ بہنیں حیات ہیں۔ اس مکان کو فروخت کرکے اس کی شرعی تقسیم کس طرح کی جائے؟
۳۔اپنے والدین سے وراثت میں مجھے چند ایکڑ زرعی زمین ملی ہے۔ اس کے علاوہ میری آمدنی سے بنایاگیا مکان اور کچھ پلاٹ ہیں۔ میری جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ میری حیات کے بعد کاہے۔ مگر میں چاہتی ہوں کہ مستقبل میں کوئی مسئلہ یا نزاع میرے میکے اور سسرال والوں کے درمیان نہ ہو۔ فی الوقت میرے تین بھائی اور دوبہنیں حیات ہیں۔ دوبہنوں کا انتقال ہوچکاہے۔ ان کے بچے موجود ہیں۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں:
الف۔ مجھے جو زرعی زمین اپنے والدین سے ملی ہے کیا وہ پوری زمین ان کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ کرسکتی ہوں۔ فی الوقت اسے بیچنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ میری بہنوں کی زمین بھی مشترک ہے۔ کیا اس کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے؟
ب۔ میں اپنی کل جائیداد میں سے کتنا حصہ اللہ کی راہ میں دے سکتی ہوں؟

 

 کیا میں اپنی جائیدادثوابِ جاریہ کے لیے یارشتہ داروں کے حق میں وصیت کرسکتی ہوں؟
جواب: آپ قابل مبارک باد ہیں کہ آپ کو وراثت کے حکم ِ الٰہی کی اہمیت کااحساس ہے اور اپنے مرحوم شوہر کی میراث اور مملوکہ جائیداد کو شرعی اعتبار سے تقسیم کرنا چاہتی ہیں اور اپنی جائیداد کی بھی مناسب تقسیم کے لیے فکر مند ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر عطا فرماے۔ آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
۱۔ آپ کے خسر صاحب کی وفات کے وقت ان کے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں حیات تھے۔ ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد ان لوگوں کے درمیان قرآنی اصول للذکر مثل حظ الانثین ایک مرد کاحصہ دو عورتوں کے برابر کے مطابق تقسیم ہونی چاہیے۔ مذکورہ جائیداد کے پندرہ حصّے کیے جائیں۔ ہر لڑکی کو ایک حصہ اور ہر لڑکے کو دو حصے کے اعتبار سے دیاجائے۔ اس جائیداد میں سے آپ کے شوہر کا جو حصہ بنتاہے پندرہ حصوں میں سے دو حصے وہ ان کے انتقال کے بعد ان کے وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔
۲۔ میراث کی تقسیم قرض کی ادائی کے بعد عمل میں لائی جاتی ہے۔ آپ کے شوہر کے خریدے ہوئے مکان کی قیمت میں سے ابھی ایک لاکھ روپے کی قسطیں ادا کی جانی ہیں۔ اس مکان کو فروخت کرکے اس میں 
سے ایک لاکھ روپے مہیا کردے جائیں۔ بقیہ رقم میں ان کے اِکائونٹ میں موجود روپے تیرہ ہزار میںشامل کرکے اسے وارثوں کے درمیان تقسیم کیاجائے۔ آپ کے شوہر کے متعلقین میں آپ بیوی کے علاوہ تین بھائی اور پانچ بہنیں زندہ ہیں۔ قرآنی حکم کے مطابق اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیوی کا حصہ ایک چوتھائی اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ہے۔ اس اعتبار سے آپ کے شوہر کی میراث میں آپ کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ بقیہ تین حصوںکی میراث ان کے بھائی بہنوں کے درمیان جو اصطلاح فقہ میں ’عصبہ‘ کہلاتے ہیںاس طرح تقسیم ہوگی کہ ایک مرد کو دوعورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ بالفاظ دیگر بقیہ میراث کے گیارہ حصّے کیے جائیں۔ ہربہن کو ایک حصہ اور ہر بھائی کو دو حصّے دیے جائیں۔
۳۔ آپ جس جائیداد کی مالک ہیں، خواہ وہ آپ کو میراث میں ملی ہو، یا آپ نے اپنی کمائی سے حاصل کی ہو، اس میں آپ اپنی صواب دید پر جس طرح چاہیں تصّرف کرسکتی ہیں۔ البتہ اس معاملے میں چند باتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
۱۔ تقسیم میراث کا مسئلہ وفات کے بعد سے متعلق ہوتاہے۔ کسی جائیداد کامالک اپنی حیات میں اس میں سے جتنا چاہے جس کو چاہے دے سکتا ہے۔
۲۔ اپنی جائیداد کسی دوسرے کو دینے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اپنی زندگی میں کسی کو اس کامالک بنادے اسے ہبہ کہتے ہیں۔ یا یہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد میری فلاں جائیداد فلاں شخص کی ہوگی۔ یہ وصیت کہلاتی ہے۔ ہبہ کی کوئی مقدار متعین نہیں۔ آدمی جتنا چاہے کسی کو ہبہ کرسکتا ہے۔ لیکن وصیت اپنی جائیداد میں سے ایک تہائی سے زیادہ کرنا جائز نہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ  نے اپنے پورے مال کی وصیت کرنی چاہی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس سے منع فرمادیا۔ انھوں نے دریافت کیا: کیا نصف مال کی وصیت کردوں؟ آپﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا۔ انھوںنے پھر عرض کیا تو ایک تہائی مال کی؟ آپﷺنے فرمایا:ہاں ایک تہائی ٹھیک ہے اور یہ بہت ہے۔ بخاری:۲۷۴۴، مسلم: ۱۶۲۸
۳۔ ورثا میں سے کسی کے حق میں وصیت کرنی جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:اِنّ اللّٰہَ قَدْاَعْطیٰ لِکُلِّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہ‘ فلَاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ترمذی:۲۱۲۰’’اللہ نے ہرصاحب حق کا حق بیان کردیاہے۔ اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں‘‘
۴۔ ورثا کو محروم کرنے کے مقصد سے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد ٹھکانے لگادینا جائز نہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص(رض) نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اپنے پورے مال کی وصیت کرنے کی اجازت چاہی تو آپ(ص) نے انھیں ایک تہائی سے زائد وصیّت کرنے کی اجازت نہیں دی اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا:
اِنَّکَ اَنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ اَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِّنْ اَنْ تَذَرَھُمْ عَالَۃٌ یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ۔  بخاری: ۱۲۹۵، مسلم:۱۶۲۸’’تم اپنے ورثاکو مال دار چھوڑکر جائو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں غربت کی حالت میں چھوڑو اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھائیں‘‘۔
بیوی کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا
سوال: کہا جاتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب یہ بات عجیب سی لگتی ہے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب: صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مخصوص مواقع پر بڑی مصلحت کے پیش نظر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جس کی طرف اوپرسوال میں اشارہ کیاگیا ہے۔
حضرت اسماء بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے، مگر صرف تین مواقع پر ،آدمی کا اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا اس کو خوش رکھنے کے لئے، دوران جنگ جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے جھوٹ بولنا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنے کی اجازت عام حالات میں نہیں دی گئی ہے۔ جن تین مواقع کا تذکرہ احادیث بالا میں ہے وہ مخصوص اور استثنائی صورتیں ہیں۔ دورانِ جنگ جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ایسی باتیں کرے، جن سے مسلم فوج کا طاقت ور ہونا معلوم ہو، اس کا حوصلہ بڑھے اور دشمن دھوکے میں پڑجائے۔ لوگوں کے درمیان مصالحت کے لیے جھوٹ بولنے کامطلب یہ ہے کہ وہ ایک شخص کی طرف سے دوسرے تک ایسی بات پہنچائے جس سے ان کے درمیان پائی جانے والی تلخیاں دْور ہوں اور ان کے تعلقات میں خوش گواری آئے، چاہے وہ بات اس نے اس شخص سے نہ سنی ہو۔ اور بیوی سے جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اس سے زیادہ سے زیادہ محبت اور تعلق خاطر کااظہار کرے، خواہ وہ اپنے دل میں اس سے اتنی محبت نہ پاتا ہو۔ اس کا مقصد ازدواجی تعلقات میں خوش گواری پیداکرنا اور اس کو جاری رکھنا ہے۔ شوہر کا بیوی سے یا بیوی کا شوہر سے جھوٹ بولنا صرف اسی وقت جائز ہوسکتا ہے جب ان میں سے کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو یا کوئی ایسی چیز نہ وصول کررہاہو جس کا اسے حق نہ ہو۔‘‘
مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا: ’’اللہ کی قسم کھا کر کہو: کیا تم کو مجھ سے محبت ہے؟ عورت نے جواب دیا: تم نے قسم دلاکر پوچھا ہے تو میں صحیح بات کہوں گی۔ مجھے تم سے ذرا بھی محبت نہیں ہے۔ اس شخص نے غصہ میں آکر طلاق دے دی۔ حضرت عمرؓ نے اس عورت کو بلایا اور اس سے دریافت کیا: کیا تم نے اپنے شوہر سے کہا تھا کہ تمہیں اس سے محبت نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: اے امیر المومنین! اس نے مجھ سے قسم دلاکر پوچھا تھا، پھر میں جھوٹ کیسے بولتی؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس موقع پر تم کو جھوٹ بولنا چاہئے تھا۔ انہوں نے مزید فرمایا : ’’تمام خاندانوں کی بنیاد محبت پر نہیں قائم ہوتی ہے، لیکن لوگ اسلامی تعلیمات اور خاندانی روابط کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔‘‘
حضرت عمربن خطاب کے مذکورہ بالاقول میں بڑی حکمت ودانائی پائی جاتی ہے۔ وہ جوڑے بڑے خوش قسمت ہیں جن کے درمیان بھرپور سچی محبت ہو، ورنہ بہت سے جوڑے ایسے ہوتے ہیں جن کے درمیان مزاجی ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ سرپرستوں کے ذریعے وہ نکاح کے بندھن میں باندھ دیے جاتے ہیں اور کافی عرصہ ایک ساتھ رہنے کے باوجود ان کے درمیان محبت پروان نہیں چڑھتی، بلکہ ایک دوسرے سے تنافر باقی رہتاہے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک اگر دوسرے کو ناپسند کرتاہو تو بھی اسے اظہار ناپسندیدگی سے اجتناب کرناچاہئے اور خوش گوار تعلق رکھناچاہئے۔ کیوں کہ اگر اس میں ناپسندیدگی کی ایک وجہ ہوگی تو عین ممکن ہے کہ ساتھ ہی خیر کے بہت سے پہلو بھی ہوں۔ اس نے شوہروں کو مخاطب کرکے حکم دیا ہے:’’ان (یعنی بیویوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اْسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ رہی ہو۔‘‘
ازدواجی تعلقات میں خوش گواری کی بنیاد باہم اعتمادپر ہے۔ اگر کبھی اس میں دراڑ پڑجائے تو پوری زندگی اسے بحال کرناممکن نہ ہوسکے گا۔ حدیث میں بیوی سے جھوٹ بولنے کی اجازت اظہار محبت کے معاملے میں دی گئی ہے۔ اگر شوہر اس کو مستقل اپنا وتیرہ بنالے تو قوی اندیشہ ہے کہ بیوی پر جلد یا بدیر اس کی حقیقت منکشف ہوجائے گی اور وہ اس کااعتماد کھودے گا۔ اس لیے دانائی اسی میں ہے کہ ازدواجی زندگی کے عام معاملات میں جھوٹ بولنے سے احتراز کیا جائے۔

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

بائبل میں صراحت ہے کہ حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت تھی۔ اس میں ہے:
’’تب موسیٰ نے خداوند سے کہا: اے خداوند! میں فصیح نہیں، نہ تو پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تو نے اپنے بندے سے کلام کیا،بلکہ رک رک کر بولتا ہوں اور میری زبان کندہے۔‘‘ (کتاب مقدس، خروج، ۱۰:۴، اردو ترجمہ ،بائبل سوسائٹی آف انڈیا بنگلور،۱۹۷۹ )
اور تالمود میں تفصیل سے وہ واقعہ بیان کیاگیاہے جو ان کی زبان میں لکنت پیدا ہونے کا سبب بناتھا، اور جس کی طرف اوپر سوال میں اشارہ کیاگیاہے۔
 تفسیر کی کتابوں میں سورہ طہ کی آیت کی تفسیر کے ضمن میں عموماً وہ واقعہ بیان کیاگیاہے کہ بچپن  میں زبان پر آگ کا انگارہ رکھ لینے کی وجہ سے حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اسرائیلیات کے زیراثر یہ روایات قبول کرلی گئی ہیں۔موجودہ دور کے بعض اردو مفسرین نے حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت ہونے کا سختی سے انکارکیا ہے۔ ذیل میں ان کے اقتباسات نقل کردینا مناسب معلوم ہوتاہے:
جناب شمس پیرزادہ صاحب نے لکھاہے:
’’زبان کی گرہ سے مراد بولنے میں روانی کی کمی ہے نہ کہ لکنت۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت تھی اور یہ جو قصہ تفسیروں میں بیان ہواہے کہ حضرت موسٰی نے بچپن میں، جب کہ وہ فرعون کے زیرپرورش تھے، منہ میں انگارا ڈال لیاتھا، جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت پیداہوگئی تھی، تویہ اسرائیلیات میں سے ہے اور قابل رد ہے۔ دراصل دعوت کو موثر انداز میں پیش کرنے کے لیے خطابت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت موسٰی اپنے اندر طلاقتِ لسانی کی کمی محسوس کررہے تھے اس لیے انھوںنے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی کہ زبان کی اس رکاوٹ کوکہ وہ روانی کے ساتھ بات نہیں کرسکتے، دور کردے۔‘‘ (دعوت القرآن، ادارہ دعوۃ القرآن، ممبئی)
مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں:
’’لکنت کی روایت تورات میں ہے۔ وہیں سے ہماری تفسیر کی کتاب میں داخل ہوئی اور پھر اس کو مستند کرنے کے لیے ہمارے مفسرین نے ایک عجیب و غریب واقعہ بھی گھڑلیا۔۔۔ قرآن میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے لکنت کا ثبوت ملتا ہو۔ وَاحلْل عْقدَۃً مِّن لِّسَانِی یَفقہْوا قَولِی  کے الفاظ میں بھی جس بات کی درخواست کی ہے وہ لکنت دور کرنے کی نہیں، بلکہ اظہار و بیان کی وہ قابلیت و صلاحیت بخشے جانے کی درخواست ہے جو فریضہ نبوت و رسالت کی ادائی کے لیے ضروری تھی۔۔۔ الغرض ہمارے نزدیک یہ لکنت کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حضرات انبیاء کو اللّٰہ تعالیٰ جس طرح اخلاقی عیوب سے محفوظ رکھتا ہے اسی طرح خِلقی نقائص سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی بات یہ ہے کہ قرآن میںاس روایت کی تائید کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، تاج کمپنی، دہلی:۵۔۳۹،۴۰)
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی حضرت موسٰی کی زبان میں لکنت اور اس کے سبب کے طورپر جو اقعہ بیان کیاجاتاہے، دونوں کا رد کیاہے۔ ان کے نزدیک یہ باتیں بائبل اور تالمود میں بیان کی گئی ہیں۔ وہیں سے منتقل ہوکر تفسیر کی کتابو ںمیںرواج پاگئی ہیں، لیکن عقل انھیں ماننے سے انکارکرتی ہے۔ انھوں نے لکھاہے:
’’قرآن کے الفاظ سے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہ پاتے تھے اور ان کو اندیشہ لاحق تھا کہ نبوت کے فرائض ادا کرنے کے لیے اگر تقریر کی ضرورت کبھی پیش آئی (جس کا انھیں اس وقت تک اتفاق نہیں ہواتھا) تو ان کی طبیعت کی جھجک مانع ہوجائے گی۔ اس لیے انھوںنے دعا فرمائی کہ ’یا اللّٰہ! میری زبان کی گرہ کھول دے، تاکہ میں اچھی طرح اپنی بات لوگوں کو سمجھاسکوں۔‘ یہی چیز تھی جس کا فرعون نے ایک مرتبہ ان کو طعنہ دیاکہ ’یہ شخص تواپنی بات بھی پوری طرح بیان نہیں کرسکتا‘ لَا یکادَیْبِینْ (الزخرف:۵۲) اور یہی کم زوری تھی جس کو محسوس کرکے حضرت موسٰی نے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون کو مددگار کے طورپر مانگا۔ سورہ قصص میں ان کایہ قول نقل کیاگیا ہے: ’’میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے۔ اس کو میرے ساتھ مددگار کے طورپر بھیج۔‘‘ آگے چل کر معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسٰی کی یہ کم زوری دور ہوگئی تھی اور وہ خوب زوردار تقریر کرنے لگے تھے۔ چنانچہ قرآن میںاور بائبل میں ان کی بعد کی جو تقریریں آئی ہیں وہ کمالِ فصاحت وطلاقتِ لسانی کی شہادت دیتی ہیں۔‘‘

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

کسی شخص کے ماتحت کچھ ملازمین ہوں تو اس پر لازم ہے کہ ان کا مشاہرہ وقت پر اداکرے۔ اس کی ادائی میں تاخیر کرنا یا اس میں لیت و لعل سے کام لینا یا اس کاکچھ حصہ روک لینا، تاکہ وہ ملازمین اس کے یہاں کام کرتے رہیں، اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ حدیث ہے کہ’’مزدور کو اس کی مزدوری دے دو، اس سے پہلے کہ اس کا پسینہ سوکھ جائے۔‘‘
ملازمین کامشاہرہ ان کے قبضے میں دینے کے بعد، آدمی ضرورت مند ہوتو ان سے قرض لے سکتا ہے۔ یہ قرض خواہی بھی بغیر دباؤ کے ہونی چاہیے کہ ملازمین میں سے جو چاہے اسے قرض دے اور جو چاہے منع کردے۔ ساتھ ہی قرض کی شرائط بھی طے کرلی جائیں کہ وہ کتنی مدت کے لیے قرض لے رہاہے؟ واپسی یک مشت ہوگی یا قسطوں میں؟ وغیرہ۔اگر قرض کی صراحت کے بغیر وہ شخص اپنے کسی ملازم کا مشاہرہ اپنے پاس روکتا ہے، یا کوئی ملازم اپنامشاہرہ اس کے پاس رکھواتا ہے تو وہ رقم اس کے پاس بہ طور امانت ہوگی۔ اس میں تصرف کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ رقم کے مالک کی اجازت کے بغیر اسے کاروبار میں لگانا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔
آدمی کو اپنے ماتحت کام کرنے والے ملازمین کاخیرخواہ ہونا چاہیے۔ اگر کسی شخص کا کاروبار مستحکم ہو اور وہ سمجھتا ہو کہ ملازمین کی کچھ رقم اپنے کاروبار میں لگانے سے انھیں فائدہ ہوگا اور ان کی رقم میں اضافہ ہوگا تو وہ انھیں اعتماد میں لے کر اور ان کی مرضی سے دی ہوئی رقم کو کاروبار میں لگاسکتا ہے، لیکن ضروری ہے کہ ابتدا ہی میں وہ ان پر واضح کردے کہ وہ نفع و نقصان میں برابر کے شریک ہوںگے۔
صحیح حدیث میں ایک شخص کاواقعہ تفصیل سے مذکور ہے، جس کے پاس بہت سے ملازم کام کرتے تھے۔ ان میں سے ایک ملازم اپنی اجرت لیے بغیر چلاگیا اور پلٹ کر نہیں آیا۔ اس شخص نے اس کی اجرت کو اپنے کاروبار میں لگالیا۔ کافی دنوں کے بعد وہ ملازم آیا اور اس نے ڈرتے ڈرتے اپنی اجرت مانگی تو اس شخص نے ایک وادی کی طرف اشارہ کرکے کہاکہ اس میں جانوروں (گایوں، بکریوں، بھیڑوں وغیرہ)کا جتنا بڑا ریوڑ دکھائی دے رہاہے وہ سب تمھارا ہے۔ میں نے تمھاری مزدوری کو اپنی تجارت میں شامل کرلیاتھا، جس سے تمھاری مزدوری کی مالیت بڑھتے بڑھتے اتنی ہوگئی ہے۔ وہ آدمی خوشی خوشی اپنے ریوڑ کو ہانک لے گیا۔ اللّٰہ تعالیٰ کو اس کا یہ عمل بہت پسند آیا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعد اس شخص نے اپنے اس عمل کا واسطہ دے کر اللّٰہ تعالیٰ سے ایک دعا کی، جسے اس نے شرفِ قبولیت بخشا۔ (صحیح بخاری: ۲۲۷۲)

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

اسلامک فقہ اکیڈمی کا سولہواں فقہی سمینار ۳۰مارچ تا ۲،اپریل ۲۰۰۷  جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ میں منعقد ہواتھا۔ اس میں دیگر موضوعات کے ساتھ اس موضوع پر بھی غورخوض کیاگیاتھا اور یہ قراردادیں منظور کی گئی تھیں:
۱۔ اگر مریض مصنوعی آلہ تنفس پرہو، لیکن ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس نہ ہوئے ہوں اور امید ہو کہ فطری طورپر تنفس کا نظام بحال ہوجائے گا تو مریض کے ورثا کے لیے اسی وقت مشین ہٹانا درست ہوگا جب کہ مریض کی املاک سے اس علاج کو جاری
 رکھنا ممکن نہ ہو، اورنہ ورثا ان اخراجات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نہ اس علاج کو جاری رکھنے کے لیے کوئی اور ذریعہ میسّر ہو۔
۲۔اگر مریض آلہ تنفس پر ہو اور ڈاکٹروں نے مریض کی زندگی اور فطری طورپر نظام تنفس کی بحالی سے مایوسی ظاہر کردی ہوتو ورثا کے لیے جائز ہوگاکہ مصنوعی آلہ تنفس علاحدہ کردیں۔‘‘

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ادْعُوہُمْ لِآبَاءِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاء ہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ ۔۔۔۔۔ 
تم اْن (مْنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔(الاحزاب، 33: 5)
آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اْن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (بخاری، الصحیح، 3: 1292، رقم: 3317، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامۃ)
جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم:
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘
بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6385
مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 63
باپ دادا سے منہ پھیرنے والے کا حکم:
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا ؤ اجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔(بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6386مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 62)
باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(ابن ماجہ، السنن، 2: 870، رقم: 2609، بیروت: دار الفکر)
مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، دمشقی، کوفی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشندی، چشتی، سہروردی، شازلی، سلفی دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا اِمْرَأَۃَ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃَ لُوطٍ۔۔۔۔
اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت (واعلہ) اور لوط (علیہ السلام) کی عورت (واہلہ) کی مثال بیان فرمائی ہے۔( التحریم، 66: 10)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:
وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا اِمْرَأَۃَ فِرْعَوْنَ ۔۔۔۔اور اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجہِ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 11
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔بخاری، الصحیح، 2: 531، رقم: 1393
اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:
یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔بخاری، الصحیح، 5: 1950، رقم: 4780
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اْن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ 
لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئے بغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔


 

(مفتی محمد شبیر قادری)

نکاح کے معاملہ میں شریعت نے مردو عورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار دیا ہے اور والدین کو جبر و سختی سے منع کیا ہے۔ دوسری طرف لڑکے اور لڑکی کو بھی ترغیب دی کہ وہ والدین کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی قدم اٹھائیں۔بہتر یہی ہے کہ والدین کو راضی کر لیں تاکہ آنے والی زندگی میں وہ آپ کا ساتھ دے سکیں، اور خدا نہ کرے کوئی مسئلہ بن جائے تو آپ کو والدین کی حمایت حاصل ہو۔ ان کو شادی میں بھی شامل کریں۔ انہیں قرآن وحدیث کا حکم سنائیں اور دکھائیں کہ شرعی طور پر یہ حکم ہے۔ امید ہے راضی ہو جائیں گے۔ اگر کسی صورت بھی وہ آپ کی پسند کی شادی نہیں کرتے تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن والدین کا احترام کرنا اور ہر صورت ان کی خدمت کرنا آپ کا فرضِ اولین ہے

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

 چونکہ اعمال کا دار و مدار ایمان پر ہے، مسلمان ہو تو نیک اعمال کار آمد اور مسلمان نہ ہو تو نیک اعمال قابل قبول نہیں، دنیا میں کافر کو نیکی کا بدلہ مل جاتا ہے لیکن آخرت میں کوئی نیک عمل کافر کے نامہ اعمال میں ہے ہی نہیں۔ لہذا وہ ہمارے نیک اعمال تو نہیں لے سکتا لیکن یہ بات ضرور ہے کہ کافر کے ساتھ دھوکہ اس کا مال چوری کرنا وغیرہ گناہ ہے، اگر کوئی مسلمان ایسا کرے گا تو گناہ ہوگا۔ امام حاکم روایت کرتے ہیں کہ جنگ حنین میں ایک صحابی فوت ہو گئے :اس کی وفات کا ذکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے ساتھی پر نماز پڑھو، صحابہ کرام حیران ہوگئے، فرمایا اس نے اللہ کی راہ میں خیانت کی ہے، صحابہ نے اس کے مال کی تفتیش کی تو اس میں ایک نگینہ مل گیا جو کسی یہودی کے مال سے چوری کیا ہوا تھا اور دو درھم کے برابر بھی نہیں تھا۔اس سے اندازہ کرنا چاہیے کہ غیر مسلموں سے بھی فراڈ، دھوکہ دہی وغیرہ ناجائز ہے۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

یہ ایک غلط بات مشہور ہو چکی ہے کہ زوال کے وقت عبادت جائز ہے یا ناجائز۔ اصل میں 24 گھنٹوں میں تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنا اور سجدہ تلاوت جائز نہیں ہے۔ وہ اوقات درج ذیل ہیں:
1۔ طلوع آفتاب یعنی سورج نکلنے کا وقت۔
2۔ وقت استواء۔ جب سورج بالکل درمیان میں ہوتا ہے۔
3۔ غروب آفتاب ۔جب سورج غروب ہوتا ہے۔
زوال کا وقت تو وقت استواء کے بعد شروع ہوتا ہے یعنی جب سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے۔ معلوم ہوا زوال کے وقت نماز اور سجدہ تلاوت جائز ہے۔ ممنوعہ اوقات بیان کر دیئے گئے ہیں۔ باقی رہا تلاوت قرآن اور دیگر تسبیحات ہر وقت جائز ہیں۔ ان کے لیے کوئی ممنوع وقت نہیں ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جی ہندو کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا جائز ہے۔ البتہ ہندو کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز نہیں ہے۔ اگر کسی ہندو نے کوئی حلال جانور بھی ذبح کیا تو جائز نہیں ہے، اور حرام ہے۔ چاہے اسے کوئی ہندو پکائے یا مسلمان۔ اگر جانور کو مسلمان نے ذبح کیا اور ہندو نے پکایا تو پھر کھانا جائز ہے۔ کیونکہ ہندو بتوں کے نام سے ذبح کرتے ہیں اور یہ حرام ہے۔ہندو کے پکانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اس کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا جائز ہے۔ مثلاً سبزیاں، دالیں، چاول اور باقی سب کھانے ماسوائے ذبیحہ۔ باالفاظ دیگر ہندوؤں کے ذبیحہ کو چھوڑ کر ہندو کے ہاتھ سے بنی ہوئی ہر چیز شرعاً کھانا جائز اور حلال ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

ذات باری تعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے۔ کسی چیز، دن یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بْرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ نفع و نقصان کا اختیار سو فیصد اللہ کی ذات کے پاس ہے۔ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔کوئی وَقت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ درحقیقت اصل نْحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔
صفر اسلامی تقویم کی ترتیب کا دوسرا مہینہ ہے، جس کا لفظی معنیٰ ’خالی ہونا‘ ہے۔ عرب زمانہ جاہلیت میں ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے ہوئے اسے ’صفر المکان‘ یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے، کیونکہ وہ تین پے در پے تین حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم) کے بعد اس مہینے میں گھروں کو خالی کر کے لڑائی اور قتل و قتال کے لیے میدانِ جنگ کی طرف نکل پڑتے تھے۔ جنگ و جدال اور قتل و قتال کی وجہ بیشمار انسان قتل ہوتے، گھر ویران ہوتے اور وادیاں برباد ہو جاتیں‘ عربوں نے اس بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ کی طرف توجہ دینے، جنگ و جدل سے کنارہ کشی کرنے کی بجائے اس مہینے کو ہی منحوس بلاؤں، مصیبتوں کا مہینہ قرار دے دیا۔ حقیقت میں نہ تو اس مہینے میں نحوست و مصیبت ہے اور نہ ہی یہ بدبختی اور بھوت پریت کا مہینہ ہے بلکہ انسان اپنے اعمال کی وجہ سے مصائب و آفات میں مبتلا ہوتا ہے اور اپنی جہالت کی وجہ سے دن، مہینے اور دیگر اسباب کو منحوس تصور کرنے لگتا ہے۔ 
ماہِ صفر میں بلائیں اور آفات اترنے اور جنات کے نزول کا عقیدہ من گھڑت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر و تاثیر میں زمانے کو کوئی دخل نہیں، اس لیے ماہِ صفر بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے۔ اگر ایک شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہتا ہے، ذکر اذکار کرتا ہے، حلال و حرام کی تمیز رکھتا ہے، نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا ہے تو یقیناً یہ مہینہ اس کے لیے مبارک ہے، اور دوسرا شخص اس مہینے میں گناہ کرتا ہے، جائز و ناجائز اور حرام و حلال کی تمیز مٹاتا ہے، حدود اللہ کو پامال کرتا ہے تو اس کی بربادی کے لئے اس کے اپنے گناہوں کی نحوست ہی کافی ہے‘ اپنی شامتِ اعمال کو ماہِ صفر پر ڈالنا نری جہالت ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

مستند ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس کی ممانعت نہیں ہے۔ تاہم اس بات کا خیال رہے کہ دوائی انسانی صحت کے لیے نقصا ن دہ نہ ہو۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

اگر مرد و خواتین شرعی حدود، اخلاقی آداب اور شرم و حیاکا خیال رکھیں تو مرد لیکچرار عورتوں کو لیکچر دے سکتا ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک مجالس میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شامل ہوتیں تھیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو بھی وعظ و نصیحت کرتے تھے۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

جی ہاں آدھے بازو تک شرٹ پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے اور نماز ہو جاتی ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

بسنت کوئی مذہبی تہوار نہیں ہے اس کو علاقائی موسمی یا کلچرل تہوار کہہ سکتے ہیں۔ ایسے موسم ورواج بنیادی طور پر ناجائز وحرام بھی نہیں ہوتے اور سنت و واجب یا فرض بھی نہیں ہوتے جو مناتے ہیں ان کو منانے دیں اور جس کا من پسند نہ کرے وہ نہ منائے لیکن منانے والوں کو الزام نہ دیں۔
برصغیر پاک وہند میں موسم بہار کی آمد کے موقع پر بسنت منایا جاتا ہے، یہ ایک اظہار خوشی ہوتا ہے، جو بہار کے استقبال پر کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر پتنگ اڑائے جاتے ہیں یا اور بھی خوشی منانے کے طریقے اپنائے جاتے ہیں، ان میں اس وقت تک کوئی ممانعت نہیں جب تک وہ غلط رنگ نہ پکڑ جائیں۔ یعنی خوشی منانے کے جو جائز طریقے ہیں وہ اپنائے جائیں، جس میں فحاشی وعریانی یا پھر لوگوں کے جان ومال کا عدم تحفظ آ جائے اس طریقے کی مذمت کی جائے اور اس کو سرے سے ختم کیا جائے۔ مثلاً پتنگ اڑانا بنیادی طور پر حرام وناجائز نہیں ہے لیکن جب اس کو اڑانے کے لیے ایسے طریقے اپنائے جائیں جن سے لوگوں کے جان ومال محفوظ نہ ہوں پھر یہ جائز نہیں ہونگے۔ اسلام بھی اور دنیا بھر کے قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے، جیسا کہ پتنگ اڑانے کے لیے دھاتی تار استعمال کی جاتی ہے، جو لوگوں کی گردنیں کاٹ دیتی ہے، بجلی کا نقصان ہوتا ہے اور بہت سے لوگ کرنٹ لگنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اسی طرح بسنت کے موقع پر فائرنگ کرنا جو لوگوں کی موت کا سبب بنتا ہے، شراب پینا، گندی فلمیں دیکھنا اور مجرے وغیرہ سب برے کام ہیں، جن کی اجازت نہ بسنت کے موقع پر ہے نہ ہی اس کے علاوہ ایسی حرکات کی اجازت ہے۔ اس لیے ہم براہ راست بسنت کو برا بھلا کہنا شروع نہیں کر دیں گے بلکہ غور طلب بات یہ ہے کہ بنیادی طور پر بسنت کیا ہے اور اس موقع پر ہونے والے پروگرام کیا رخ اختیار کر گئے ہیں؟ تبدیلی کی ضرورت کہاں ہے؟ کیا تہوار ہی چھوڑ دیا جائے یا اس کو منانے کے لیے جو غلط طریقے آ چکے ہیں ان کو تبدیل کیا جائے ؟ اس پر غور کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

سیاہ رنگ کے لباس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ آپ نے سیاہ رنگ کا لباس استعمال کیا ہو اور نہ ہی اس کی ممانعت پر کوئی روایت ہے اس لیے جائز ہے۔ البتہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاہ رنگ کا عمامہ استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لباس اور جوتوں کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :
حضرت سالم اپنے والد سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے تکبر سے اپنا تہبند یا شلوار ٹخنوں سے نیچی رکھی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے تہبند کا ایک سرا نیچے ہوتا ہے۔ لیکن یہ تکبر کی وجہ سے نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ان میں سے نہیں جو تکبر سے ایسا کرتے ہیں۔(بخاری، 1 : 860)
امام ترمذی روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند نیچے رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نگاہ رحمت سے نہیں دیکھے گا۔(ترمذی، 1 : 206)
ایسی متعدد احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خْیلاء(متکبرین) کی قید لگائی ہے۔ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اس بات پر صریح دلالت کرتی ہیں کہ اگر ایسا کرنا تکبر سے نہ ہو تو جائز ہے۔ علماء اور محدثین کرام بھی جواز کے قائل ہیں۔ آج کل بعض لوگ کسی بھی معاملے پر ایک آدھ حدیث کو پڑھ کر دوسروں پر فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ محض کسی ایک حدیث کو کل دین سمجھنے کی بجائے اس موضوع پر دیگر سینکڑوں کتب احادیث کا بھی مطالعہ کریں۔ سینکڑوں احادیث ایسی ہیں جو کراہیت اور جواز دونوں پر دلالت کرتی ہیں۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ کوئی لباس انگریزی، عیسائی، ہندو یا یہودی نہیں ہوتا۔ ہر وہ لباس جو باپردہ ہو، گرمی سردی کی شدت سے بچائے اور پہنا ہوا اچھا لگے وہ اسلامی لباس ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے علاوہ کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اس لیے مذکورہ بالا شرائط پر پورا اترنے والا ہر لباس پہنا جا سکتا ہے۔اسلام ہر علاقے کے لوگوں کو اپنے ثقافتی لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے، اگر وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں۔ کیونکہ ہر علاقے، ثقافت اور کلچر کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ اسلام کسی ایک علاقے کے لیے نہیں آیا بلکہ یہ ایک آفاقی دین ہے جس نے ساری دنیا میں قابلِ قبول بننا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسلام آفاقی انداز اپنائے۔ کسی ایک علاقے کے لباس، زبان اور رسوم کو لاگو نہ کرے۔ہر دور اور ہر علاقے کے اپنے رنگ ہوتے ہیں، جو عربوں سے نہ بھی ملتے ہوں یا عہدِ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہ بھی ہوں توبھی قابلِ قبول ہیں۔اگر برِ صغیر پاک و ہند کے اکثر مسلمانوں کا لباس دیکھا جائے تو وہ شلوار قمیض ہے، جبکہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شلوار قمیض پہننے کی کوئی مستند روایت نہیں ملتی الاّ یہ کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پسند فرمایا۔ اس کے علاوہ کھانے، پینے، سواری کرنے اور دیگر بہت سی اشیاء ہم ایسی استعمال کرتے ہیں جن کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استعمال نہیں کیا۔ جیسے موبائل فون، کمپیوٹر، گاڑیاں، موٹر سائیکل، اے سی، پنکھے، کھانے پینے میں برگر، بوتل، پیزے وغیرہ اور ہزاروں ایسی اشیاجن کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔رہا لباس کا مسئلہ تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ مدینہ اور عرب علاقوں کے یہودی اور عیسائی جبّے پہنتے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر جبہ پہننے کو ناجائز اور غیر اسلامی قرار نہیں دیا بلکہ خود پہن کر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی لباس غیر اسلامی نہیں ہے جو باپردہ اور دیدہ زیب ہو۔ٹائی لباس کا حصہ ہے، مذہب کا نہیں۔ کوئی بھی اس کو عیسائیت کا حصہ نہیں سمجھتا۔ اگر ٹائی عیسائیت کی علامت ہوتی تو عیسائی اپنے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو یہ نہ پہننے دیتے اور دوسری طرف ہر ٹائی پہنے ہوئے کو عیسائی سمجھا جاتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ درست نہیں کہ پینٹ کوٹ اور ٹائی کو عیسائی لباس قرار دے دیا جائے اور ہر ٹائی لگانے والے کو عیسائی سمجھا جائے۔ جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان ہونے کے لیے کسی ایک لباس کو لازمی قرار نہیں دیا تو ہمارا بھی یہ فریضہ ہے کہ ہم امت پر تنگی نہ کریں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

عالَم خواب اور نیند میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہونا برحق ہے، بشرطیکہ دیدار کا دعویٰ کرنے والا سچا، ثقہ اور اہل حق میں سے ہو، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی صورتِ مبارکہ پر ہی دیکھا ہو اور یہ خواب دلائلِ شرعیہ کے خلاف نہ ہو۔ اگر کوئی شخص اکثر معاملات میں جھوٹ بولتا ہے اور اس کا جھوٹا ہونا مشہور ہے تو ایسے شخص کے دعویٰ کوماننا ضروری نہیں۔ خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بھی بسا اوقات تعبیر کی محتاج ہوتی ہے، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواں سال دیکھے تو اور تعبیر ہوگی، اور پیرانہ سالی میں دیکھے تو دوسری تعبیر ہوگی۔ خوشی کی حالت میں دیکھے تو اور تعبیر ہوگی اور رنج و بے چینی کے عالم میں دیکھے تو دوسری تعبیر ہوگی، وعلیٰ ہذا!خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سعادت کی بات ہے، لیکن یہ دیکھنے والے کی عنداللہ مقبولیت و محبوبیت کی دلیل نہیں بلکہ اس کا مدار بیداری میں اتباعِ سنت پر ہے۔ بالفرض ایک شخص کو روزانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوتی ہو لیکن وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا تارک ہو اور وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو تو ایسا شخص مردود ہے۔ اور ایک شخص نہایت نیک اور صالح متبع سنت ہے، مگر اسے کبھی زیارت نہیں ہوئی وہ عنداللہ مقبول ہے۔ خواب تو خواب ہے، بیداری میں جن لوگوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی دولت سے محروم رہے وہ مردود ہوئے، اور اس زمانے میں بھی جن حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں ہوئی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہوئی وہ مقبول ہوئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا جھوٹا دعویٰ کرنا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر افتراء ہے، اور یہ کسی بھی شخص کی شقاوت و بدبختی کے لئے کافی ہے۔ اگر کسی کو واقعی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ہو تب بھی اس کا اظہار مناسب نہیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

حضرت جعفر صادق نے فرمایا ہے کہ خواب میں سبز اور سفید رنگ خیر و برکت اور دینداری کی دلیل ہے، کیونکہ یہ اہل بہشت کا لباس ہے۔ حضرت ابن سیرین رحمتہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سبز رنگ عورتوں اور مردوں کے لئے دین اور دنیا میں اچھا ہے۔مذکورہ خواب بھی مبارک خواب ہے۔ آپ کی بیوی کی سہیلی سے آپ کی بیوی کو دین کا علم یا کوئی نیکی نصیب ہوگی

(مفتی محمد شبیر قادری)

خواب میں کسی عزیز کو مردہ حالات میں دیکھنے کی عموماً تعبیر یہ کی جاتی ہے کہ جس عزیز کو آپ نے مردہ حالت میں دیکھا ہے وہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا جس کی آپ اس سے توقع رکھے ہوئے ہیں۔ یہ فیصلہ خواب دیکھنے والے کو کرنا ہوتا ہے کہ خواب میں جس شخص کو مردہ حالت میں دیکھا ہے اْس کی اِس کے نزدیک کیا اہمیّت ہے اور اسے کس زاویے سے دیکھنا چاہتا ہے۔خواب میں کسی کو مردہ دیکھنے کی ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ جس کو مردہ دیکھا گیا ہے اس کی بڑھتی ھوئی عمر میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں یا ہونے والی ہیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

اپنے اعمال پر غور کریں، اگر کوئی غلط کام کرتے ہیں تو چھوڑ دیں، اللہ تعالی کی بارگاہ سے معافی مانگیں۔ اللہ تعالی آپ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے، ذیل میں ایک وظیفہ درج ہے، آپ ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ یہ وظیفہ کر لیا کریں اور پھر پانی پر دم کر کے وہ پانی کھانے پینے میں استعمال کریں، اللہ کرم فرمائے گا۔
سورۃ الفاتحہ ایک مرتبہ،آیت الکرسی ایک مرتبہ،سورۃ الاخلاص ایک مرتبہ،سورۃ الفلق ایک مرتبہ،سورۃ الناس ایک مرتبہ،سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 102 میں سے : وَمَا ھم بِضَآرِّینَ بہِِ مِن اَحَدٍ اِلاَّ بِاِذنِ اللّہِ. تین مرتبہ ،اول آخر تین تین مرتبہ درود وسلام پڑھ کر پانی دم کر کے استعمال کریں ان شاء اللہ نجات مل جائے گی۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کی بیوی کے اپنے بھائی کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں۔ یہاں اس خواب کی دو صورتیں بن رہی ہیں:اگر بھائی کے ساتھ تعلقات خراب ہیں تو ان کو صحیح کیا جائے۔ پرانی رنجشیں بھلا کر نئے اور خوشگوار تعلقات کا آغاز کیا جائے۔ آئندہ کے لیے صلح صفائی کے ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کا بھلا سوچیں۔اگر تعلقات میں کوئی خرابی نہیں تو حسبِ توفیق اپنے بھائی کے نام کا صدقہ خیرات کر دیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
خواب تین طرح کے ہوتے ہیں، سچا و نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، دوسری قسم آدمی اپنے نفس سے ہی گفتگو کرے، تیسری قسم شیطان کی طرف سے ڈرانا ہے۔
نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے خوشخبری اور بشارت ہوتا ہے، برا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، تیسرا تحدیث النفس، منتشر الخیالی جیسے آپ نے دیکھا کہ لاہور کے کسی علاقہ میں پیدل چل رہے ہیں کہ اچانک سیلاب آجاتا ہے، آپ نے رخ تبدیل کیا تو گاؤں میں پہنچ گئے، اس قسم کے اوٹ پٹانگ خوابوں کو منتشر الخیالی کہتے ہیں، ان کی کوئی تاویل یا تعبیر نہیں ہوتی۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

خواب میں زرد کپڑا دیکھنا بیماری کی علامت ہے اور چاند دیکھنا عورت کے لیے شادی کی طرف اشارہ ہے۔لہٰذا خواب دیکھنے والی اگر شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہے تو وہ شادی کر لے اور مستقبل میں جسمانی و ایمانی بیماریوں سے حفاظت کے لیے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

عام لوگوں کے سارے خواب سچے نہیں ہوتے خواہ دن میں آئیں یا رات کو آئیں۔ اور جو کچھ خواب میں نظر آتا ہے ہوبہو سارا اسی طرح بھی نہیں ہوتا۔ نظر کچھ اور آتا ہے اس کی تعبیر کچھ اور ہوتی ہے۔ لہذا سارے خواب سچے نہیں ہوتے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

حضرت دانیال رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ خواب میں انسان کا پاخانہ دیکھنا مالِ حرام، چوپائے کا پاخانہ دیکھنا مالِ حرام اور درندوں کا پاخانہ دیکھنا ایسے مال کی دلیل ہے جو ظلم سے حاصل ہوگا۔حضرت جابر مغربی رحمۃاللہ نے فرمایا ہے کہ خواب میں فضلہ و غلاظت کا آدمی سے جدا ہونا نقصان کی دلیل ہے۔ اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ غلاظت میں گیا اور اس میں غرق ہوا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ خواب دیکھنے والے کو حاکم سے غم و تکلیف پائے گا اور اگر دیکھے کہ ناپاکی اس کے جسم اور کپڑوں پر گری ہے تو دلیل ہے کہ خواب دیکھنے والے کا نقصان ہوگا۔یہ فیصلہ خواب دیکھنے والے نے کرنا ہے کہ اس نے غلاظت کس حال میں دیکھی، اسی کے مطابق خواب کی تعبیر ہوگی۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

خواب میں آگ دیکھنا بشارت، لڑائی، دشمن، حسن، گناہ اور برکت سمیت کئی مرادیں ہوسکتی ہیں۔ مذکورہ خواب میں آگ پر قابو پانا اور جلنے کے نقصانات سے بچ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ خواب دیکھنے والا دشمن پر غالب آئے گا اور وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے۔ آپ قرآن مجید کے چاروں قل ہر رات پڑھ کو سویا کریں اور پانی پر دم کر کے پیا کریں۔ نیز دفع آفات و بلیات کے لیے آپ یا والی کا وظیفہ کریں۔اس وظیفہ کی برکت سے ہر قسم کی آفات و بلیات ٹل جاتی ہیں اور گھر بار کے افراد ہر قسم کے آفات و بلیات سے محفوظ رہتے ہیں۔سورہ البقرہ تین، پانچ یا سات دن اونچی آواز سے تلاوت کریں او رپانی دم کر کے پیئیں اور گھر میں چھڑکیں۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

یہ خواب آپ کو اپنے بزرگوں سے عقیدت اور محبت کی وجہ سے ہی آ رہے ہیں، آپ جو نیک کام کر رہے ہیں، اس پر قائم رہیں، یہ تعلق کی بنا پر بھی آ سکتے ہیں اور علماء سے محبت کی بنا پر بھی، یہ ان بزرگوں کی طرف سے اشارہ ہے کہ آپ اپنے اس کام پر قائم اور ثابت قدم رہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو علم و عمل اور محبت میں ثابت قدم رکھے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

اپنے کاروبار یا ملازمت پر غور کریں اور دیکھیں کہ کہیں کوئی خرابی تو نہیں ہو رہی ہے یا ہونے کا خدشہ تو نہیں ہے، اس کے علاوہ حسب توفیق صدقہ خیرات کر دیں۔

 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

خواب میں اپنے آپ کو گمنام حالت میں دیکھنا اچھے ارادے سے گمنامی کی طرف آنے پر دلالت کرتا ہے۔کبھی اس کی دلالت رزق اور عمر کے ختم ہونے پر بھی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ آپ اپنے تعلقات گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ بہتر جانتے ہیں۔ ناراضی ختم کریں۔ کسی کے ساتھ اگر لڑائی جھگڑا ہے تو صلح کریں۔ سب کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کریں۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

بہت اچھا خواب ہے آپ کو مبارک ہو۔ آپ مزید نیک کاموں کی طرف توجہ دیں اور ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

خواب میں خود کو ننگے پاؤں دیکھنا سفر میں مشکلات کی طرف اشارہ ہے۔ اگر صالح مرد اپنے آپ کو ننگا دیکھے تو خیر اور نیکی کی طرف اشارہ ہے اور اگر گنہگار دیکھے تو برائی، رسوائی اور بے حرمتی کی طرف اشارہ ہے۔لہٰذا اپنے اعمال کی طرف توجہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے معافی طلب کریں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

حضرت ابنِ سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ خواب میں نیولا‘ چور ہے۔ اگر خواب دیکھنے والے نے خواب میں نیولے کو پکڑا اور اس کو مارا ہے تو اس کی تعبیر ہے کہ وہ چور کو پکڑے گا اور اس پر فتح پائے گا۔ اگر دیکھے کہ اس نیولے کا گوشت کھایا ہے یا اس کے جسم سے کوئی چیز ہاتھ میں آئی ہے تو اس کی تعبیر ہوگی کہ خواب دیکھنے والا چور کو پکڑے گا اور چوری کا مال لے گا۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

آپ نے یہ بیان نہیں کیا کہ آپ نے کبوتر کس رنگ میں دیکھا ہے، بہرحال تعبیر الرویا میں امام ابنِ سیرین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ اس نے کبوتر پکڑا ہے، یا کسی نے اسے دیا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شادی کرے گا۔ یا اگر دیکھے کہ خریدا ہے اور اس کے ہاتھ سے اڑا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ عورت کو طلاق دے گا۔ حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خواب میں کبوتر دیکھنا تین وجہ سے ہے:منفعت،معیشت،غم و اندوہ

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اچھا خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے پس جب تم میں سے کوئی شخص ناگوار خواب دیکھے تو وہ بائیں جانب تین بار تھوک دے اور اس خواب کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے پھر وہ خواب اس کو ضرر نہیں دے گا۔
اسی طرح ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب اچھا خواب دیکھو تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرو اور اسے اچھے لوگوں کو بتاؤ جن سے محبت کرتے ہو۔ اور جب برا خواب دیکھو تو یہ شیطان کی طرف سے ہے کسی کو نہ بتاؤ اور بائیں طرف تین بار تھوک دو اور اللہ تعالی کی پناہ مانگو پھر وہ خواب ضرر نہیں دے گا۔ متفق علیہ۔تو پتہ چلا کہ اچھا خواب دیکھ کر اسے اچھے لوگوں کو بیان کرنا چاہیے اور برا خواب کسی کو بھی نہیں بتانا چاہیے بلکہ اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہیے تو اللہ تعالی اس کو ہر شر سے محفوظ رکھے گا۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

سنن بیہقی، تاریخ ابن عساکر اور تاریخ ذہبی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے سورہ بقرہ مکمل یاد کرنے کی خوشی میں ایک اونٹ ذبح کر کے لوگوں کی دعوت کی تھی۔ اس واقعے سے اتنا معلوم ہوا کہ خوشی کے موقع پر اس طرح کا کوئی اہتمام کرنا، جب کہ اس کو ضروری اور اور دین کا حصہ نہ سمجھا جائے، شرعی نقطہ نگاہ سے جائز ہے۔ بدعت اس نئے عمل یا عقیدے کو کہا جاتا ہے جس کو ضروری سمجھ کر دین کا حصہ قرار دے دیا گیا ہو، چونکہ یہ عمل کہیں بھی ضروری اور دین کا حصہ سمجھ کر نہیں کیا جاتا، اس لیے اس عمل پر بدعت کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اگر کہیں پر لوگوں کے اس عمل کو ضروری اور دین کا حصہ سمجھ بیٹھنے کا شبہ ہو تو اس کو ترک کیا جاسکتا ہے۔بہرحال اس کو ضروری نہ سمجھا جائے اور مسجد یا وقف فنڈ سے اس کا اہتمام نہ ہو تو ختم پر شیرینی وغیرہ تقسیم کی جاسکتی ہے ۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

عید کے موقع پر معانقہ کوسنت نہ سمجھا جائے صرف اظہارِ محبت وسلوک کے لیے کوئی گلے ملتاہے توجائزہے۔

 

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرفالمخلوقات بناکر فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے ان خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطہ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے ۔دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن باحیاء بن کر معاشرے میں امن وسکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔ نبی اکرم نے ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی کو دیکھا جو اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم نہ کیا کرو آپ نے سنا تو ارشاد فرمایا : دعہ فان الحیاء من الایمان۔ (مشکوۃ 2۔431) ترجمہ : اس کو چھوڑدو کیونکہ حیا ایمان کا جز ہے۔ دوسری حدیث میں ہے : الحیاء لا یا تی الا بخیر وفی روایۃ الحیا ء خیرکلہ۔ترجمہ : حیاء4 خیر ہی کی موجب ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیاء سراسر خیر ہے۔گو انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی۔حیاء ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے نبی اکرم نے ارشاد فرمایا : الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذآء من الجفآ فی النار۔مشکوۃ۔431
ترجمہ ۔ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء (زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ 
حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے آئیں تو ان کی چال وڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ فرمایا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فجآتہ احدٰ ھما تمشیی علی استحیآء (سورۃ القصص۔25) ترجمہ : اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب باحیاء انسان کی رفتاروگفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہو یہی وجہ ہے کہ حدیث میں حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد مبارک ہے : الحیآ ء شعبۃ من الایمان۔( مشکوٰۃ۔12) لہٰذا جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی توقع رکھنا بھی فضول ہے۔ چنانچہ نبی کریم کا ارشاد ہے : اذالم تستحیی فاصنع ما شئت۔(مشکوٰۃ۔431) ترجمہ : جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔ اس سے معلوم ہوا کہ بے حیاء انسان کسی ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں ہوتا اور اس کی زندگی شترِ بے مہار کے طرح ہوتی ہے۔حیا ہی وہ صفت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی گزارتاہے لہٰذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ حیا کی صفت کو اپنانے کی مکمل کوشش کریں تاکہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ فقط واللہ اعلم

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

سائل کو چاہئے کہ پہلے وہ تحقیق کرلے اور تحقیق کے بعد اگر واقعتاً حرام کی آمدنی کا عنصر غالب ہو تو پھر ان سے تحفہ تحائف لینے اور ان کے ہاں کھانا کھانے سے اجتناب کریں محض شک کی بنیاد پرکسی کی آمدنی کو ناجائز کہہ دینا درست نہیں۔ فقط واللہ اعلم

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

طیب نفس کے بغیر کسی کا مال حلال نہ ہونے کی تشریح کا اہم اور قابل غور پہلو ہی یہی ہے جس سے متعلق سائل کا استفسار ہے کہ کسی شخص کا مال اس وقت تک حلال نہیں جب تک کہ وہ بغیر کسی معاشرتی، اخلاقی اور سماجی دباؤ کے اپنے مال کے استعمال کی اجازت نہ دیدے، لہذا جہاں یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہاں طیب نفس نہیں پایا جا رہا بلکہ مالک نے کسی دباؤ کے تحت اجازت دی ہے یا اپنا مال خرچ کیا ہے تو یقیناًاس حدیث کی رو سے اس کے مال سے استفادہ کرنا یا معاشرے کی اس قسم کی تقریبات اور دعوتوں میں شرکت کرنا جائز نہیں ،اس لیئے درحقیقت اجازت کہلانے کے لائق ہی وہ صورت ہے جس میں کسی قسم کا خارجی دباؤ شامل نہ ہو بلکہ خالص اپنی رضا اور خوشنودی سے یہ اجازت دی گئی ہو۔واللہ اعلم

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

سالگرہ منانا اور کیک وغیرہ کاٹنا بے کار رسم و رواج ہے،اس سے احتراز بہتر ہے۔تاہم کیک اور دیگر اشیاء کا کھانا اگر حلال آمدنی سے ہو تو فی نفسہ جائز ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

مرد درزی نامحرم عورتوں کے کپڑوں کی سلائی کرسکتا ہے بشرطیکہ ذہنی کدورت یا قلبی فساد کا اندیشہ نہ ہو اگر کسی ایسے فتنے کاخوف ہو تو یہ دل و دماغ کا گناہ ہوگا۔البتہ یہ واضح رہے کہ سلائی کے لیے نامحرم عورتوں کے جسم کا ناپ وغیرہ لینا ناجائز ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

چہرے کے بال صاف کرنے کے لیے تھریڈنگ کا طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے، مگر ایسی شکل بنانا جائز نہیں جس سے ہیجڑوں کے ساتھ مشابہت ہوجائے۔ اگر خواتین کی ابرؤوں کے بال اس قدر بڑھ جائیں جس کی وجہ سے مردوں سے مشابہت ہو تو ایسی صورت میں انہیں کم کرنے کی گنجائش ہے۔ جبڑے کی ہڈی کے اوپر گالوں پر جو بال اْگ آئیں انہیں صاف کرنا جائز ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

صورت مسؤلہ میں مذکورہ طریقہ کے مطابق عمرہ ادا کرنا یعنی مدینہ منورہ سے ذو الحلیفہ عمرہ کی نیت کرکے مکہ مکرمہ جانا اور عمرہ کرنا درست ہے، عمرہ ادا ہو جائے گا۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

کمپنی خود صارف کو ائیر ٹائم فروخت کرے یا کسی سے خرید کر صارف کو فروخت کرے بہر دو صورت صارف کمپنی کا پندرہ روپے کا مدیون مقروض ،صارف کے ذمے واجب الادا ہو جاتا ہے جبکہ مقروض سے قرضے کی مقدار سے زائد وصولی سود کہلاتی ہے۔ اس لیے کمپنی جو زائد ساٹھ پیسے کاٹتی ہے وہ سود ہے البتہ اگر کمپنی پندرہ روپے لون دے کر اوپر ساٹھ پیسے وصول نہ کرے بلکہ شروع ہی سے پندرہ روپے ساٹھ پیسے کا پیکج رکھے صارف کو پندرہ روپے کے بقدر خدمت وسہولت فراہم کرے اور پندرہ روپے ساٹھ پیسے اس کے عوض وصول کرے تو جائز ہو گا۔ جیسا کہ پندرہ روپے کی چیز خرید کر پندرہ روپے ساٹھ پیسے پر فرخت کرنا جائزہے مگر پندرہ روپے کی فروخت کرکے پندرہ روپے خریدار کے ذمہ لازم ہونے کے بعد پندرہ روپے کے بجائے پندرہ روپے ساٹھ پیسے وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس تفصیل سے دونوں صورتوں کا فرق بھی واضح ہو گیا۔ پہلی صورت میں واجب الادا رقم سے زائد کی وصولی ہے جبکہ دوسری صورت میں حسب معاہدہ واعلان اجرت کی وصولی ہے۔ جواز کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کمپنی ساٹھ پیسے 456پر میسج بھیجنے کی اجرت وصول کرلے اور اتنی اجرت وصول کرے جتنی عام طور پر ایک میسج کی وصول کرتی ہے۔پندرہ روپے قرض دینے کی بناء پر زیادہ وصول نہ کرے۔نیز صارف کے سامنے وضاحت بھی کردے کہ ساٹھ پیسے لون خدمات منگوانے کے لئے بھیجے گئے مسیج کے بدلے میں  کاٹے گئے ہیں۔

ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ سود ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ہماری معلومات کے مطابق ایچ بی ایل فریڈم اکاؤنٹ کے ذریعے ملازمین کو تنخواہوں کی ترسیل ہوتی ہے، اور اسی ترسیل کے لیے یہ اکاؤنٹ بنتا ہے۔ اس اکاؤنٹ پر ملنے والی چیک بک وغیرہ سہولیات سے فائدہ اٹھانا اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے اس بنا پر جائز ہوگا کہ یہ درحقیقت کمپنی یا ادارہ مالکین کی جانب سے اپنے ملازم کو بذریعہ بینک دی جانے والی سہولیات ہیں، اس لیے یہ سہولیات سود شمار نہیں ہوں گی۔ 

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

مذکورہ شخص دومعنیٰ بات کسی ظلم سے بچنے کی خاطرکرتاہے تو ایسا کرنیکی گنجائش ہے اوراگرکسی کو دھوکہ دینے کی خاطرذومعنیٰ بات کرتاہے تواس طرح کا عمل شرعاً درست نہیں ہے اورایسے شخص کے متعلق حدیث میں واردہے کہ قیامت کے دن اس کی زبان آگ کی بنادی جائیگی۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

یر مسلم بھی انسان ہیں اگر کوئی ظاہری نجاست موجود نہ ہواور کھائی جانے والی چیز حلال ہو تو ان کے ساتھ کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں خواہ وہ غیر مسلم ہندو ہو یا عیسائی یا کچھ اور۔
 

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

جواب:
جہاں تک کسی اچھی اور دل کش آواز کے اصولی طور پر مباح اور جائز ہونے کا تعلق ہے، چاہے وہ کسی انسان کے گلے سے نکلی ہو یا کسی ساز باجے سے، تو میرے فہم کی حد تک اس نکتے میں کوئی خاص اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس پر کم وبیش اتفاق ہے کہ اچھی آواز فی نفسہ ممنوع یا مذموم نہیں اور یہ کہ اس میں قباحت یا حرمت کا پہلو دراصل کسی زائد وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر موسیقی کے ساتھ کوئی فحش یا سفلی جذبات کو انگیخت کرنے والا کلام پڑھا جائے یا اسی مقصد کے تحت رقص وغیرہ کو ساتھ شامل کر لیا جائے تو ایسی موسیقی کی حرمت میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اصل اختلاف اس میں ہے کہ وہ زائد وجہ کون کون سی ہو سکتی ہے جس کے پیش نظر موسیقی کو حرام کہا جا سکتا ہے۔ جمہور علما کے نزدیک ایک بڑی اور بنیادی وجہ موسیقی کا ’لہو‘ ہونا ہے، یعنی یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان پر ایک خاص کیفیاتی لذت طاری کر کے اسے اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہے۔ اب چونکہ یہ صورت کم وبیش ہر موسیقی میں پائی جاتی ہے، اس لیے جمہور علما دف کے علاوہ، جس کی اجازت حدیث میں منصوص طور پر بیان ہوئی ہے، باقی کسی بھی آلہ موسیقی کے استعمال کو ناجائز کہتے ہیں۔ اس کے برعکس غامدی صاحب اور بعض دوسرے اہل علم فی نفسہ کسی چیز کے ’لہو‘ ہونے کو حرمت کی کافی دلیل نہیں سمجھتے، کیونکہ دل کو بہلانے والے بہت سے امور کی اجازت شریعت میں ثابت ہے، بشرطیکہ وہ دل کو بہلانے تک محدود رہیں اور انسان اس سے آگے بڑھ کر ان میں اس طرح کھو نہ جائے کہ دین ودنیا کے فرائض اور ذمہ داریوں سے ہی غافل ہو جائے۔ مزید برآں ’دف‘ کی اجازت حدیث سے ثابت ہونے کے بعد دوسرے آلات موسیقی کو فی نفسہ مباح تسلیم نہ کرنے کی بھی کوئی معقول وجہ دکھائی نہیں دیتی، اس لیے کہ ایک دلکش اور سرور بخش آواز پیدا کرنے میں تمام آلات موسیقی شریک ہیں، چنانچہ اگر باقی آلات موسیقی کو بھی ’دف‘ پر قیاس کرتے ہوئے فی نفسہ مباح کہا جائے تو بظاہر اس میں کوئی مانع دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح جمہور علما اور غامدی صاحب کے مابین اس ضمن میں بھی اختلاف ہے کہ آیا ایک بالغ عورت کی آواز کا غیر محرم مرد کے کان میں پڑنا فی نفسہ ممنوع ہے یا نہیں۔ جمہور علما اسے صرف ضرورت کی حد تک جائز سمجھتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ اور خاص طور پر گانے وغیرہ کی صورت میں موجب فتنہ ہونے کی وجہ سے اسے جائز نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس غامدی صاحب کے نزدیک غیر محرم کے لیے عورت کی آواز کا سننا فی نفسہ ممنوع نہیں ہے۔ بعض روایات وآثار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا غیر محرم عورتوں کی آواز میں غنا سننا مروی ہے۔ عام اہل علم کے نقطہ نظر کی رو سے اس اجازت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ آپ عام لوگوں کے بالمقابل فتنے سے خاص طور پر مامون ومحفوظ تھے یا پھر اسے لونڈیوں سے متعلق قرار دیا جا سکتا ہے جن کے لیے آزاد عورتوں کے مقابلے میں حجاب وغیرہ کے احکام نسبتاً نرم رکھے گئے تھے، تاہم غامدی صاحب اس اباحت کو اصولی طو رپر سب کے لیے عام سمجھتے ہیں۔
اس موضوع پر غامدی صاحب کی کوئی باقاعدہ اور مفصل تحریر میری نظر میں نہیں ہے اور مذکورہ توضیح بعض یادداشتوں اور استنباط پر مبنی ہے، اس لیے اس میں ان کے یا جمہور علما کے نقطہ نظر کی ترجمانی میں کسی خامی یا غلط فہمی کا پایا جانا بعید از امکان نہیں۔ بہتر ہوگا کہ اس موضوع پر دیگر تفصیلی تحریروں کا مطالعہ کر لیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 

جواب
انسانوں کے بنائے ہوئے کسی بھی قانون کی اطاعت کو ’کفر‘ صرف اس صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ اللہ کے دیے ہوئے کسی قانون سے ٹکراتا ہو اور اللہ کے قانون سے سرکشی کرتے ہوئے یا اسے عمداً نظر انداز کرتے ہوئے انسانوں کے بنائے ہوئے کسی قانون کو اختیار کر لیا جائے۔ سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے اسی طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکافرون (آیت ۴۴)
’’اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
یعنی کافر ہونے کا فتویٰ اس صورت میں ہے جب کسی معاملے میں اللہ نے کوئی قانون اتارا ہوا ہو اور انسان اس کے مطابق فیصلہ کرنے سے گریز کریں۔ اس سے واضح ہے کہ اس متعین اور محدود دائرے سے ہٹ کر جس میں اللہ نے شریعت کا کوئی ابدی قانون اتارا ہے، دوسرے کسی معاملے میں نہ تو انسان پر اپنے عقل وفہم اور تجربے کی روشنی میں قانون بنانے پر کوئی پابندی ہے اور نہ ایسے کسی قانون کی پیروی کو محض اس بنیاد پر کفر قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ کا اتارا ہوا نہیں۔ قرآن مجید نے ’کفر‘ کا یہ فتویٰ ان یہود کے بارے میں دیا ہے جن کے پاس تورات موجود تھی او روہ اس کے احکام پر عمل کرنے
کے لیے پوری طرح آزاد تھے، لیکن اس کے باوجود اپنی خواہشات اور مفادات کی پیروی میں اس سے گریز کا رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ نیز یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ قرآن نے یہاں ’کفر‘ کا لفظ کفر عملی کے معنی میں استعمال کیا ہے نہ کہ کفر اعتقادی اور کفر قانونی کے معنی میں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ طرز عمل اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک کافرانہ طرز عمل ہے۔ جہاں تک دنیا کے ظاہری احکام کے لحاظ سے کسی کو کافر قرار دینے کا تعلق ہے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے اور جب تک کوئی شخص کسی تاویل کے بغیر کھلم کھلا اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کو قبول نہ کرنے یا انھیں مسترد کرنے کا اعلان نہ کر دے، اسے کافر قرار دینے اور اس پر کفر کے ظاہری قانونی احکام جاری کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
مذکورہ توضیح پیش نظر رہے تو واضح ہوگا کہ اگر مسلمان اپنے آپ کو کسی ایسی صورت حال میں پائیں جہاں قانون سازی کا کلی اختیار ان کے پاس نہ ہو، جیساکہ غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کی صورت حال ہے، اور وہ عملی مجبوریوں کے تحت شرعی قوانین پر عمل نہ کر سکیں تو ان پر مذکورہ وعید کا اطلاق نہیں ہوتا، البتہ ایسی صورت میں مسلمان اس بات کے مکلف ہوں گے کہ وہ اپنے امکان کی حد تک شرعی قوانین پر عمل کی کوشش کریں اور اس بات کی بھی جدوجہد کرتے رہیں کہ ریاستی قانون میں مسلمانوں سے متعلق معاملات میں شرعی احکام کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے۔ یہ جدوجہد اس معاہدۂ سکونت یا معاہدۂ شہریت کی شرائط کے دائرے میں ہونی چاہیے جس کے تحت مسلمان ان ممالک میں رہ رہے ہیں، کیونکہ ملک کے عمومی قوانین کو توڑ کر یا انھیں چیلنج کرتے ہوئے ایسی کوئی جدوجہد شریعت کی نظر میں معاہدے کی خلاف ورزی قرار پائے گی۔ میرے فہم کے مطابق جائز دنیوی اور دینی مصلحتوں کے تحت مسلمانوں کا غیر مسلم ممالک میں سکونت پذیر ہونا ازروے شریعت جائز ہے اور ایسی صورت حال میں جن شرعی احکام پر عمل کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہو، وہ ان کے مکلف نہیں ہیں۔ اسلامی شریعت کے کلی نفاذ کا میدان غیر مسلم ممالک نہیں، بلکہ مسلمان معاشرے ہیں، اس لیے اگربعض مسلمان غیر مسلم معاشروں کے قانون اور ماحول پر
اطمینان محسوس نہ کریں تو انھیں چاہیے کہ وہ کسی مسلم معاشرے میں سکونت اختیار کر لیں، نہ یہ کہ غیر مسلم معاشروں کے نظم اور قانون کو چیلنج کرتے ہوئے دین کی دعوت اور اس پر عمل کے ان مواقع سے بھی مسلمانوں کو محروم کر دیں جو انھیں اس ماحول میں میسر ہیں۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 

                                                                                                                                                      Unitجواب:پوری نماز ایک اکائی u                                                                                                                                                                            ہے۔ رکعتوں کوالگ الگ کرکے ایک رکعت کودرست اور دوسری رکعت کونادرست قرار دینا صحیح نہیں۔ یا توپوری نماز صحیح ہوگی یا پوری فاسد ہوگی۔                                                                                                                                                                                            اگر کسی غلطی کی وجہ سے امام صاحب کی نماز فاسد ہوگئی اور انہیں دہرانی پڑی تو تمام مقتدیوں کوبھی نماز دہرانا ہوگی۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس رکعت میں غلطی تھی ، اس میں شریک نہیں تھا، اس لیے ان کی صحیح رکعت میں ایک اوررکعت شامل کرکے میری نماز درست ہوگئی۔ اس بنا پر ان صاحب کی نماز نہیں ہوئی۔ انہیں اس کی قضا کرلینی چاہیے۔

()

فقہ مالکی اور قیام میں ہاتھ باندھنا
سوال:’زندگی نو‘ جنوری ۲۰۱۶ میں نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق سوال کے جواب میں آپ نے حدیثوں کا تفصیلی حوالہ دیا ہے، پھر لکھا ہے کہ جمہورعلماء(احناف ، شوافع، حنابلہ) کے نزدیک نمازی کو دورانِ قیام ہاتھ باندھنا چاہئے، البتہ امام مالک سے اس سلسلے میں کئی اقوال مروی ہیں۔ ان اقوال کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھوں کا کھلا چھوڑنا یعنی مطلق نہ باندھنا قابل ترجیح ہے۔
آپ کے جواب سے مزید چند سوالات ابھرتے ہیں:
۱۔ احادیث کی بیش تر کتابیں بعد کے زمانے میں مرتب ہوئی ہیں۔ قدیم ترین مجموعہ احادیث غالباً خود امام مالک کا مرتب کردہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی کتاب ’موطا‘ میں کیا اس کے متعلق کوئی وضاحت ہے ؟
۲۔ امام مالک کی پوری زندگی مدینہ منورہ میں گزری۔ انہوں نے طویل عمر پائی۔ عرصہ تک وہ مسجد نبوی میں درس دیتے رہے۔ انہوں نے مدینہ میں تابعین اورتبع تابعین کی ایک بڑی تعداد کو لمبے عرصے تک مسجد نبوی میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نماز ایسی عبادت ہے جس کا تواتر وتسلسل رسول اللہ کے عہد سے لے کر آج تک قائم ہے اور قیامت تک رہے گا۔ ظاہر ہے کہ دوسرے ائمہ کے مقابلے میں امام مالک کو اہلِ مدینہ کا تعامل و تواتر دیکھنے کا زیادہ موقع ملا تھا۔ ایسی صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ اہلِ مدینہ کا تواتر وتعامل اس مسئلہ میں کیا رہا ہے 
اگران سوالات کی مناسب وضاحت ہوجائے تواس مسئلہ کا شافی جواب مل سکتا ہے۔

جواب: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے طریقہ نماز سے متعلق جواحادیث مروی ہیں ، ان میں سے بعض میں یہ صراحت موجود نہیں ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد آپ ہاتھ باندھ لیتے تھے البتہ بعض میں اس کاذکر ہے۔ احناف ، شوافع اورحنابلہ نے موخر الذکر احادیث کے پیش نظر ہاتھ باندھنے کوسنت قرار دیا ہے، جبکہ امام مالک کے نزدیک وہ احادیث قابلِ ترجیح ہیں جن میں ہاتھ باندھنے کا تذکرہ نہیں ہے۔
موطا امام مالک میں مذکور بعض احادیث میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے۔ مثلاً حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں:کَانَ النَّاسْ یْومَرْونَ اَن یَّضَعَ الرَّجْلْ الیَدَ الیْمنٰی عَلَی ذِرَاعِہِ الیْسرَیٰ فِی الصَّلاَۃِ (حدیث نمبر ۷۰۸)’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نمازمیں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھے۔‘‘اس حدیث کی بنا پر امام مالک ہاتھ باندھنے کو’مندوب‘ کہتے ہیں ، لیکن وہ اسے سنت نہیں قراردیتے۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ، عبدالرحمن الجزیری ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۲۴ھ : ۲۲۷۱)
علامہ ابن رشد مالکی نے اپنی تصنیف ’بدایۃ المجتہد ‘میں امام مالک کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ ہاتھ باندھنا افعال نمازمیں سے نہیں ہے ، بلکہ وہ استعانت کے قبیل سے ہے۔ اسی لیے امام مالک نے نفل میں اس کی اجازت دی ہے ، فرض میں نہیں۔‘‘ (بدایۃ المجتہد ، دارالباز ، مکۃ المکرمۃ : ۱۳۷۱)علامہ ابن عبد البر مالکی نے بیان کیا ہے کہ ’’امام مالک زندگی کے آخری لمحے تک ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے رہے۔‘‘ (فقہ السنۃ ، السید سابق، دارالفکر ، بیروت :۱۲۳۱)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنے کا کیا حکم ہے ؟ فقہاء ثلاثہ اسے مسنون کہتے ہیں ، جبکہ امام مالک مندوب قرار دیتے ہیں۔

()

رسول اللہ ﷺکی سواری
سوال: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع شدہ جناب طالب ہاشمی کی کتاب ’خیر البشر کے چالیس جاں نثار ‘ میں حضرت معاذ بن جبل کے تذکرہ میں ایک جگہ ان کے حوالے سے لکھا ہوا ہے :’’ میں ایک دن گدھے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوارتھا اورآپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔‘‘ (ص :۳۰۷) یہ بات بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ گدھا چھوٹے قد اورمعمولی قسم کا جانورہے۔ اس پر سواری کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کی جسامت اتنی مختصر ہوتی ہے کہ دو اشخاص اس پر سوارہی نہیں ہوسکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گدھے کی سواری زیب نہیں دیتی اورآپ کے پیچھے ایک صحابی کا بیٹھنا عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔
مجھے سنہ۲۰۱۱ میں حج کی سعادت نصیب ہوئی اورتقریباً پینتالیس دنوں تک سعودی عرب میں میرا قیام رہا۔ اس عرصہ میں مکہ معظمہ ، منیٰ ، عرفات اور مدینہ منورہ وغیر جانا ہوا۔ پورے سفر میں کہیں بھی مجھے گدھا نظر نہیں آیا۔کہیں ایسا تونہیں ہے کہ مصنف نے انگریزی الفاظ ASSیا DONKEY کا ترجمہ ’گدھا‘ کردیا ہو ، جب کہ ان الفاظ کا اطلاق خچر پر بھی ہوتا ہے۔ جسمانی ساخت میں خچر گھوڑے سے کم تر، لیکن اس کی نسل سے ہوتا ہے۔ اسے سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، جب کہ گدھے کوکہیں سوار ی کے لیے نہیں استعمال کیا جاتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس طرح کے جملوں کا استعمال بے ادبی محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جملے خارج کردیے جائیں۔

جواب: سطورِ بالا میں جواشکال ظاہر کیا گیا ہے وہ نقلی اورعقلی دونوں اعتبار سے غلط ہے۔ حضرت معاذؓ بن جبل سے جوحدیث مروی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں:کْنتْ رِدفَ رَسْولِ اللہِ صَلیّٰ اللہِ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَلَی حِمَارِ (مسلم :۴۸)’’میں ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عربی زبان میں ’حمار‘ اس جانور کوکہا جاتا ہے جسے ہمارے یہاں’ گدھا‘ کہا جاتا ہے۔کسی کتاب کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ضرور ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ کس زمانے اورکس جگہ سے متعلق ہے ؟ زمان ومکان کی تبدیلی سے معانی میں بھی فرق آجاتا ہے۔ مثا ل کے طورپر ہمارے یہاں ’اْلّو‘ کونحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے ، لیکن یورپی ممالک میں اسے ’عقل ودانش‘ کی نشانی سمجھا گیا ہے۔ اسی طرح گدھا ہمارے یہاں بے وقوفی کی علامت ہے، جب کہ عرب میں اسے صبر واستقامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے : فلان اصبر من حمار فی الحروب (فلاں شخص جنگوں میں گدھے سے زیادہ ثابت قدمی کا مظاہر ہ کرتا ہے ) خلافتِ بنی امیہ کے آخری حکم ران کا نام مروان بن محمدتھا۔ اس کے زمانے میں بہت زیادہ بغاوتیں ہوئیں ، جن کا اس نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا تھا ، اسی لیے اس کا لقب ’الحمار‘ ہوگیا تھا اوراسے ’مروان الحمار‘ کہا جاتا تھا۔
علامہ ابن القیم نے اپنی تصنیف ’زاد المعاد فی ہدی خیر العباد‘ میں ان جانوروں کی تفصیل بیان کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں تھے۔ ان میں فرس (گھوڑا ) ناقۃ (اونٹنی ) جمل (اونٹ) بغل (خچر) شاۃ (بکری) اورحمار(گدھا) کا ذکر ہے۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، ابن القیم الجوزیۃ ، تحقیق : شعیب الارنووط ،عبدالقادر الارنووط، موسسہ الرسالۃبیروت، ۱:۱۹۹۸،۱۲۹۔۱۲۸) احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں گدھے کوبھی سواری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مختلف روایتوں میں حضرت سعدبن معاذ، حضرت
انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اورحضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کے گدھے پر سوار ہونے کا ذکر ہے۔ بعض روایات میں ایک گدھے پر دو افراد کے سوار ہونے کی صراحت ہے۔ مثلاً ایک روایت میں حضرت ابوذر غفاریؓ بھی ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گدھے پر سوار ہونیکی صراحت کرتے ہیں۔ ( ابوداود: ۴۰۰۲)سائل موصوف کوان کے سفر حج اور سعودی عرب میں ڈیڑھ ماہ قیام کے دوران کہیں گدھا نظر نہیں آیا ، اس کو انہوں نے اس چیز کی دلیل بنا لیا کہ سعودی عرب میں گدھا پایا ہی نہیں جاتا۔ اگر بکریوں ، دنبوں اوراونٹوں کی قربانی نہ ہوتی تویہ جانوربھی شہری علاقوں میں نظر نہ آتے۔ پھرکیا یہ چیز دلیل بن سکتی ہے کہ یہ جانور سعودی عرب میں نہیں پائے جاتے۔
کتاب میں لفظ ’ گدھا‘ کا استعمال انگریزی الفاظ ASSیا DONKEYکا ترجمہ کرکے نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ یہ عربی لفظ ’حمار‘ کا ترجمہ ہے۔ عربی زبان میں خچر کے لیے’ بغل‘ اور گدھے کے لیے ’حمار‘ کا لفظ آتاہے۔عہدِ نبوی میں یہ دونوں جانور پائے جاتے تھے اوردونوں سواری کے لیے مستعمل تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خچر پر بھی سواری کی ہے اورگدھے پر بھی۔ اس سے آپ کی بے ادبی کا پہلو نہیں نکلتا۔ کوئی چیز ہمارے عرف میں ناپسندیدہ ہو توضرور ی نہیں کہ دوسری جگہوں پر بھی اسے ناپسند یدہ سمجھا جاتا ہو۔

()

جواب: قرآن کریم میں ہے :اِنَّ الصَّلٰوۃ کَانَت عَلَی المْومِنِینَ کِتٰبًا مَوقْوتَا (النساء: ۱۰۳)’’نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان پر نمازیں ان کے اوقات میں فرض کی گئی ہیں۔ کسی نماز کو اس کا وقت شروع ہونے سے پہلے نہیں پڑھا جاسکتا اوراگر اس کے وقت میں اسے ادا نہیں کیا جائے گا تووہ قضا ہوجائے گی۔یہ بات درست ہے کہ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ بغیر کسی عذر کے حضر میں دونمازیں جمع کی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر سفر کے، ظہر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں۔ اس موقع پر آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی اکٹھی پڑھی تھیں۔‘‘ ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعیدسے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے فرمایا : آپ چاہتے تھے کہ میری امت میں سے کوئی شخص مشقت میں نہ پڑے۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین ، باب الجمع بین الصلوٰتین فی الحضر ) صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ’سفر ‘کی جگہ ’بارش‘ کا لفظ ہے۔اس حدیث سے حضر میں جمع بین الصلوٰتین پر استدلال کرتے وقت یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ حضرت ابن عباسؓ نے صرف ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کی روایت کی ہے۔پوری حیاتِ طیبہ میں کسی اور موقع پر آپ سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ خود اس حدیث کے راوی حضرت ابن عباس سے ثابت نہیں ہے کہ وہ حضر میں جمع بین الصلوٰۃ کرتے تھے۔البتہ حضرت ابن عباس نے کم از کم ایک بار مدینہ میں رہتے ہوئے مغرب اورعشاء کی نمازوں کو جمع کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک موقع پر کسی شدید ضرورت کے تحت ایسا کیا تھا ،ورنہ آپ نمازوں کو ان کے اوقات پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے۔

()

جواب:نکاح ایک معاہدہ ہے جب تک اسے شعوری طور پر ختم نہ کیا جائے وہ ختم نہ ہوگا۔ طلاق کے ذریعے اس معاہدہ کوختم کیا جاتاہے۔ قرآن کریم میں ہے :بِیَدِہِ عْقدَۃْ النِّکَاحِ (البقرۃ: ۲۳۷) ’’ اس (مرد) کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے۔‘‘
بیوی کے لمبے عرصے تک شوہر سے علیحدہٰ رہنے یا اس کے اپنے شوہر کوبرا بھلا کہنے سے طلاق نہیں ہوجاتی۔ اس پر تمام فقہا کا اتفاق ہے۔

()

جواب : احادیث میں پانی پینے کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی شخص برتن میں سانس نہ لے ، بلکہ سانس لیتے وقت اْسے منہ سے ہٹادے ، ایک سانس میں نہ پیے، بلکہ دو یا اس سے زائد گھونٹ میں پیے اورکھڑے ہوکر نہ پیے، بلکہ پیتے وقت بیٹھ جائے۔ پانی بیٹھ کر پیا جائے یا کھڑے ہوکر بھی پیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں۔حضرت انس اور حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے (مسلم۲۰۲۴) حضرت ابوہریرہ توآپ کے حوالے سے یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بھول سے کھڑے ہوکر پی لے تو اسے قے کر دینی چاہیے۔ (مسلم:)حضرت علی نے ایک مرتبہ وضو کیا ، پھر بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیا اور فرمایا : میں نے نبی کریم کواس طرح پانی پیتے دیکھا ہے۔(بخاری:۵۶۱۶)حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج الوداع کے موقع پر زمزم کھڑے ہوکر پیا ( بخاری : ۱۶۳۷،مسلم:۲۰۲۷)حضرت عمر وبن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کوکھڑے ہوکر اوربیٹھ کر دونوں حالتوں میں پانی پیتے دیکھا ہے۔‘‘ (ترمذی:۱۸۸۳)صحابہ کرام میں سے حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن زبیر، اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے کھڑے ہوکر پانی پینا ثابت ہے۔ (موطا امام مالک:۳۹۳۴تا ۳۹۳۸)مذکورہ بالا احادیث میں جواختلاف پایا جاتا ہے اسے علما نے تین طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کھڑے ہوکر پینے کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث راجح ہیں۔ بعض کے نزدیک ممانعت والی احادیث منسوخ ہیں۔ تیسرا طریقہ تطبیق کا ہے ، یعنی ممانعت والی احاد یث میں کراہتِ تنزیہی کا بیان ہے ، یعنی کھڑے ہوکر پینا پسندیدہ نہیں ہے ، اس کے برعکس مضمون کی احادیث جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ علامہ نووی نے لکھا ہے :
’’ممانعت اور جواز دونوں طرح کی روایتیں صحیح ہیں۔ ان میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ جن احادیث سے ممانعت کا ثبوت ملتا ہے ، انہیں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے اوریہ سمجھا جائے کہ آپ کا کھڑے ہوکر پانی پینا اثباتِ جواز کے لیے ہے۔‘‘ حافظ ابن حجرنے بھی اسی رائے کوترجیح دی ہے۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، دارالمعرفۃ،بیروت،لبنان) 
اس موضوع پر مولانا سید جلال الدین عمری نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے ممانعت اورجوازدونوں پر دلالت کرنے والی احادیث نقل کی ہیں ، ان کی توجیہ کے سلسلے میں علماء کی آرا ذکر کی ہیں۔ آخر میں لکھا ہے : ’’اصل بات یہ ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے میں جلد بازی اورعجلت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ متانت اورشائستگی سے ہٹا ہوا ہے۔ اس میں بعض اوقات دوسروں کا حق مارنے کا جذبہ بھی کام کرتا ہے۔ یہ سب باتیں ناپسندیدہ ہیں۔ کھڑے کھڑے کھانا پینا طبی نقطہ نظر سے بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات اس کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے مشک یا چھاگل اوپر ٹنکی ہوتی ہو، یا نل کسی اونچی جگہ نصب ہواوران سے براہِ راست پانی پینا پڑے۔ اسی طرح کبھی جگہ کی کمی ہوتی ہے یا بیٹھنے کا معقول انتظام نہیں ہوتا۔ کبھی وقت کی کمی ہوتی ہے اورآدمی کھڑے کھڑے کھاپی کر جلد فارغ ہوناچاہتا ہے اوربھی اسباب اس کے ہوسکتے ہیں۔ اسلام نے ان سب باتوں کی رعایت کرتے ہوئے اس معاملے میں سختی نہیں کی ہے ، گنجائش رکھی ہے۔‘‘

()

جواب: ہر مسلمان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جوچیزیں فرض کی گئی ہیں ان میں سے ایک حج ہے۔ حج ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ صاحبِ استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ مصارفِ سفر برداشت کرسکے اوراتنا مال چھوڑ کر جائے جواس کی واپسی تک اس کے زیر کفالتِ افراد کی ضرور یا ت کے لیے کافی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَلِلہِ عَلیَ النَّاسِ حِجّْ البَیتِ مَنِ استَطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلًا (آل عمران:۹۷)
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جواس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔‘‘اگر کسی شخص نے حج پر قدرت کے باوجود حج نہیں کیا ، یہاں تک کہ وہ سفر سے معذور ہوگیا ، یا اس کا انتقال ہوگیا توحج بدل کے طور پر دوسرا شخص اس کی طرف سے حج کرسکتا ہے۔ایک عورت خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئی اوراس نے سوال کیا : میری ماں نے حج کرنے نذر مانی تھی ، لیکن وہ حج نہ کرسکی ،یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا ، کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا :ہاں اس کی طرف سے حج کرلو۔ ( بخاری: ۱۸۵۲، مسلم :۱۱۴۹)
لیکن اگر کسی شخص پر حج فرض ہو اوروہ اس کی ادائیگی پر قادر بھی ہو ، اس کے باوجود وہ خود حج نہ کرے ، بلکہ اپنی جگہ کسی اور کوبھیج دے تواس صاحبِ استطاعت شخص کا حج ادا نہ ہوگا اوروہ گنہ گار ہوگا

()

جواب :ناک کے بال اکھاڑنا منع ہے، ناک، کان کے بال کاٹ سکتے ہیں۔ بھنووں کےیچ کے بال بڑے ہوں اور بدنما معلوم ہوں تو انھیں کاٹ سکتے ہیں۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :بہتر یہ ہے کہ مونچھیں قینچی وغیرہ سے نکالی جائیں اور اس قدر چھوٹی کردی جائے کہ مونڈنے کے قریب معلوم ہوں، باقی استرہ اور بلیڈ سے صاف کرنا بھی جائز ہے ، لیکن خلاف اولیٰ اور غیر بہتر ہے۔ استرہ سے صاف کرنے کے متعلق بدعت اور سنت دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں، اور جو فعل سنت وبدعت کے درمیان ہو اس کا ترک کرنا ہی بہترہے۔ 

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :مونچھیں کاٹنے میں سنت یہ ہے کہ اْن کو اس طرح کاٹا جائے کہ ہونٹوں کے اوپر کی سرخی نظر آنے لگے۔حضرت عمرؓ مونچھیں بڑی بڑی نہیں رکھتے تھے؛بلکہ ان کی مونچھیں بھی سنت کے مطابق چھوٹی ہواکرتی تھیں ؛البتہ ان کے بارے میں منقول ہے کہ وہ مونچھوں کے دونوں کناروں کے بال نہیں تراشتے تھے ،واضح رہے کہ حضرت کا یہ عمل جمیع صحابہ کا عمل نہ تھا اسی وجہ سے ان کی یہ خصوصیت بیان کی جاتی ہے ؛اس لیے بال کے اس حصے کو بھی تراش لینا بہتر ہے باقی اگر کوئی اس کو ترک کردے تو گنجائش ہے کہ حضرت عمر کے عمل سے ثابت ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :درزی کے پاس کٹنگ اور سلائی کے لیے جو کپڑے آتے ہیں ،وہ اس کے پاس امانت ہوتے ہیں ،وہ ان کپڑوں کا مالک نہیں ہوتا۔ اس لیے کٹنگ میں جو کپڑا بچ جائے یا تجربہ و مہارتِ فن سے بچالیا جائے ،اس کی واپسی ضروری ہے،اسے رکھ لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ۔البتہ اگر کترن قسم کا معمولی کپڑا ہو، جسے مالک لوگ عام طور پر بیکار سمجھ کر چھوڑدیتے ہیں اور دلالتاً اسے رکھ لینے کی اجازت ہوتی ہے تو اسے واپس کرنا واجب وضروری نہیں۔
(۲): ہر گاہک کا بچا ہوا کپڑا، اس کے تیار شدہ کپڑے کے ساتھ رکھ دیا جائے، اس صورت میں اگر گاہک دیر سے آتا ہے، تب بھی اس کا بچا ہوا کپڑا تلاش کرنے کی ضرورت نہ ہوگی ، مالک کا پورا کپڑا بآسانی واپس کرنا ممکن ہوگا۔ اور اگر کپڑے کا مالک بچا ہوا کپڑا درزی کو دیدے کہ یہ آپ ہی رکھ لیں تو اس صورت میں درزی کے لیے وہ کپڑا بلا شبہ جائز ہوگا، وہ اپنی جس ضرورت میں چاہے، استعمال کرسکتا ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :لپ اسٹک میں اگر ناپاک چیز شامل نہ ہو تو عورتوں کے لیے اس کا لگانا جائز ہے؛ البتہ اگر لپ اسٹک تہہ دار ہوجس کی وجہ سے ہونٹوں تک پانی نہ پہنچ سکے، تو اس کو صاف کیے بغیر وضو اور غسل صحیح نہیں ہوگا۔
ناخن کاٹنا

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :ناخن تراشنے کے لیے کوئی خاص دن کوئی خاص وقت اور کوئی مخصوص طریقہ مروی نہیں ہے، جب چاہے جس دن چاہے اور جس انگلی سے چاہے شروع کرسکتا ہے۔ اسی طرح ناخن تراشنے کا طریقہ بعض فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے، جو صرف بہتر ہے مسنون نہیں ہے۔ طریقہ یہ ہے: داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے کاٹتے ہوئے خنصر تک آئے، اور پھر بائیں ہاتھ کی خنصر سے کاٹتے ہوئے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کرے ۔جب کہ پیر کے اندر داہنے پیر کی خنصر سے شروع کرے اور بائیں پیر کی خنصر پر ختم کرے۔ 

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :ساس اور سسر مثل والد والدہ کے ہیں ان کا اسی طرح احترام کرنا چاہئے۔ ساس اور داماد میں پردہ نہیں ہے البتہ اگر ساس جوان ہو اور فتنہ کا اندیشہ ہو تو داماد کو خلوت میں ساس کے ساتھ رہنا نہیں چاہئے ۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :لباس کی کیفیات اور تفصیلات کے بارے میں قرآن وحدیث میں ہدایات نہیں ملتیں۔ دنیا میں ہرملک اور ہرقوم کا علیحدہ علیحدہ لباس ہے، البتہ یہ اصول ضرور بتایا گیا ہے کہ ایسا لباس جو کسی خاص قوم کا مذہبی یا قومی لباس ہو تو اسے اپنانا اور ان کی مشابہت اختیارکرنا مسلمانوں کے لیے منع کیا گیا ہے۔ کرتا، لنگی، پاجامہ پہننا، چادر اوڑھنا یہ سب جائز لباس ہے، کرتے کی کالر اور جیب کی تفصیلات احادیث میں نہیں ملتیں۔ اگر کسی کا ستر نماز کی حالت میں ایک چوتھائی یا اس سے زیادہ کھل گیا تو اس کی نماز نہ ہوگی۔ پیچھے دیکھنے والوں کی نماز صحیح ہوگی۔ ان کی نماز میں کوئی فساد نہ ہوگا۔ 

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :اگر ساڑھی پہننے کا آپ کے علاقہ میں عام رواج ہے ، غیر مسلم اور مسلمان سب عورتیں ساڑھی پہنتی ہیں تو وہاں ساڑھی پہننے میں مضائقہ نہیں ہے، بشرطیکہ ساڑھی اس طرح پہنی جائے کہ اس سے پورا جسم چھپ جائے اور اس طرح کی ساڑھی پہن کر نماز پڑھنا بھی درست ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :ختنہ کرانا سنت ہے، یہ مسلم کی پہچان ہے، افسوس ہے کہ ۲۵ سال کی عمر ہوگئی اور اب تک آپ نے ختنہ نہیں کرایا، ختنہ بالغ ہونے سے پہلے پہلے کرالینا چاہیے تھا۔ اب بالغ ہونے کے بعد کسی کے سامنے ستر کا کھولنا بھی حرام ہے۔ اور اب آپ لکھتے ہیں کہ مجھ میں ختنہ کرانے کی ہمت نہیں، آپ اس عمر میں ختنہ کرانے کی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتے، لہٰذا ایسے ہی غیرمختون رہنے دیجیے، آپ عقائد و اعمال کے اعتبار سے پکے اور صحیح ہیں تو آپ مسلمان ہیں، آپ کی مسلمانی میں کوئی فرق نہیں آئے گا، البتہ ترک سنت کا گناہ ملے گا۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :مروجہ تبلیغی جماعت میں جانا نہ تو فرض ہے نہ واجب نہ سنت، بلکہ یہ عمل مْباح ہے اگر کوئی جائے اور دینی محنت کرے وہ اجر وثواب کا مستحق ہوگا، اور اگر کوئی نہیں گیا تو اللہ کے یہاں اس کی کوئی پکڑ نہ ہوگی، جو شخص یہ کہتا ہے کہ مروجہ تبلیغی جماعت میں چلنا جنت میں داخل ہونے کی ضمانت ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص پوری زندگی جماعت میں نہیں نکلا تووہ گنہ گار نہ ہوگا۔
 

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :آپ کا سوال مکمل واضح نہیں ہے، بظاہر جو مفہوم سمجھ میںآ تا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے چند باتیں لکھی جاتی ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کا ہرچز پر قادر ہونا ایک مستقل عقیدہ ہے؛ لیکن کسی چیز پر قدرت ہونے کے لیے اس کا صادر ہونا لازم نہیں ہے، قدرت اللہ کی صفت کمال ہے،اس کے بغیر عجز لازم آتا ہے، جو الوہیت کے منافی ہے اور کسی ایسی چیز کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے صادر ہونا جو اس کی شایانِ شان نہ ہو، یہ عیب اور نقص ہے، اس لیے اجمالاً بس اتنا عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے؛ لیکن قدرت کے لیے فعل کا صادر ہونا ضروری نہیں ہوتا، لہٰذا قدرت کی نفی جیسے کفر ہے، اسی طرح عیب اور اس کی شان کے خلاف کسی فعل کے صدور کا عقیدہ رکھنا بھی کفر ہے، لہٰذا جو شخص صدورِ کذب کا قائل ہوگا وہ کافر ہوگا۔
(۲) اللہ تعالیٰ جگہ اورمکان سے منزہ وبالاتر ہے وہ کسی مکان میں محدود نہیں ہے، اس کو کسی مکان کے ساتھ مختص کرنا کفر ہے۔ اور نصوص میں جو عرش کی بات آئی ہے، اس سے مراد عرش پر اس کا خاص تسلط اور استیلاء ہے جس کی کیفیت وہی خوب جانتا ہے وہ اپنے علم کے اعتبار سے ہرچیز کو محیط ہے۔
(۳) نصوص میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو اعضا وغیرہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یا تو ان کو مخلوق جیسے اعضاء سے تشبیہ کی نفی کرتے ہوئے ظاہری معنی پر محمول کیا جائے گا اور اس کی حقیقت کا علم اللہ کے حوالے کیا جائے گا اور یا ان کی تاویل کی جائے گی، مثلاً ید سے مراد اللہ کی قدرت ہوگی۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :جب ایک مرتبہ کسی جگہ مسجد تعمیر ہوجاتی ہے تو وہ تحت الثری سے لے کر عنانِ سماء تک ہمیشہ کے لیے مسجد ہوجاتی ہے یعنی اس کے اوپر نیچے پورا حصہ بہ حکم مسجد ہوتا ہے؛ لہٰذا آپ کے یہاں پرانی مسجد کی جگہ پر از سر نو جو مسجد تعمیر ہوگی، مسجد شرعی کی حدود میں اس کے کسی منزل میں بھی وضو خانہ، ٹوائلٹ اور امام مؤذن کے رہائش کمرے وغیرہ تعمیر کرنا جائز نہیں ہے، وضو خانہ وغیرہ کے لیے کوئی اور تدبیر سوچی جائے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:(1) انبیا علیہم الصلاۃ والسلام کی عصمت پر اجماع امت ہے۔ تمام انبیا 4 کفر و شرک، کبائر و صغائر سے پاک ہیں۔
(2) جی ہاں صحابہ کرام معیار حق ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اقوال و افعال حق و باطل کی کسوٹی ہیں، ان حضرات نے جو فرمایا یا جو دینی کام کیا وہ ہمارے لیے مشعل راہ، حجت اور ذریعہ فلاح ہیں۔ 
(3) انبیا علیہم السلام کی عصمت اور صحابہ کرام کا معیارِ حق ہونا اہل سنت والجماعت کے اجماعی مسائل میں سے ہے، ان میں سے کسی ایک چیز کا منکر اہل سنت والجماعت سے خارج ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :بندہ نہ تو پورے طور پر خود مختار ہے، نہ ہی پورے طور پر مجبورِ محض ہے، بلکہ اللہ نے بندے کو کچھ اختیار دیا ہے اور کچھ مجبور بھی رکھا ہے، اسی کا نام تقدیر ہے، جس کا علم ہمیں بعد میں ہوتا ہے۔ اللہ نے ہمیں عقل سمجھ اور علم دیا، حلال و حرام، جائز و ناجائز کا بتایا۔ سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے نہ کرنے کا ہمیں موقع دیا۔ ان حالات میں کسی بھی ناجائز کام کا اقدام کرنا ہماری بہت بڑی غلطی ہے اسی لیے وہ حرام ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جنت کے عوض میں ہمارے جسم کو خرید لیا ہے۔ ہم اپنے جسم کے خود مالک نہ رہے کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں۔ اسی حالت میں اپنے جسم کو خود کشی کرکے ہلاک کرنا، یہ بیجا تصرف ہے جو بلاشبہ حرام ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: استواعلی العرش اور دیگر صفات متشابہات کے بارے میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت سے بحث نہیں کرتے، یقیناً جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی مخلوق کے اوصاف سے منزہ اور نقص وحدوث کی علامات سے مبرا ہے جیسا کہ ہمارے متقدمین کی رائے ہے اور ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت اور شرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تاکہ کم فہم سمجھ لیں مثلاً یہ کہ ممکن ہے استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت، تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے ؛ البتہ جہت ومکان کا اللہ تعالی کے لیے ثابت کرنا ہم جائز نہیں سمجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وہ جہت ومکانیت اور جملہ علامات حدوث سے منزہ وعالی ہے‘‘۔
***

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:اللہ تعالیٰ نے نبوت کا ادارہ ایک خاص مقصد کے لیے بنایا ہے۔ وہ مقصد یہ ہے کہ خدا کا پیغام خدا کے بندوں تک بے کم و کاست پہنچ جائے۔ یہ پیغام عام طور پر وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں ہوتا اور وہ اسے سننا ہی نہیں چاہتے۔ اب اللہ تعالیٰ کو اس کار عظیم کے لیے انسانوں میں سے ہی افراد کا انتخاب کرنا تھا۔ دوسری طرف عام انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے جو دنیا بنائی ہے اس میں ان طبقات کو (جن کا ذکر سوال میں کیا گیا ہے) ہمیشہ کمزور سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں یہ ضروری تھا کہ نبی اس شخص کو بنایا جائے جس کے مقام اور حیثیت کی بنا پر لوگ اس کی بات سننے پر آمادہ تو ہو جائیں۔ اگر یہ منصب کسی کمزور طبقے کے فرد کو دیا جاتا تو کوئی اس کی بات ہی نہ سنتا۔ جس کے نتیجے میں وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہی نہ ہو پاتا جس کے لیے نبوت کا ادارہ بنایا گیا ہے۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ فوجیوں کو جنگوں میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے جسمانی طور پر بہترین فٹنس کے لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اب ایک شخص یہ اعتراض کرے کہ فوج میں معذوروں کو نہ لینا عدل کے خلاف یا معذوری کے خلاف امتیازی سلوک ہے تو یہ اعتراض درست نہیں ہوگا۔ فوج کا میرٹ اور عدل ہی یہ ہے کہ وہاں جسمانی طور پر فٹ لوگ لیے جائیں۔
مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی سماج میں رائج انھی امتیازات کے خاتمے کے لیے انبیاء کو بھیجا ہے۔ ان کی تعلیم ہی یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ کل قیامت کی اصل زندگی میں یہ لوگ ہی ہیں جو سب سے زیادہ مقام پائیں گے۔ ہاں آج کی امتحان کی دنیا میں کوئی چھوٹا ہے اور کوئی بڑا، کوئی طاقتور ہے کوئی کمزور، کوئی مرد ہے اور کوئی عورت۔ لیکن یہ سب امتحان کے لیے ہے نہ کہ خدا کا ابدی فیصلہ۔ اس کا ابدی فیصلہ کل قیامت کے دن ظاہر ہو گا اور وہاں وہ عزت پائے گا جو تقوی والا ہوگا۔امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی۔
عورتوں کو ماہواری کی تکلیف کیوں
آپ کے طویل ای میل میں مرکزی سوال ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ہر ماہ ما ہواری کے ایام اور زچگی کی تکلیف میں کیوں ڈالا۔ پھر یہ کہ اس تکلیف میں جسمانی طور پر ڈالنے کے ساتھ نماز روزہ نہ کرنے کا حکم دے کر اسے ایک روحانی اذیت میں بھی ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیوں کیا۔ جبکہ وہ اس کے بغیر بھی پورا نظام بنا سکتے تھے۔
اس بات کے جواب میں پہلی اور اصولی بات یہ سمجھ لیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عورتوں کو دی گئی کوئی سزا نہیں ہے۔جس طرح کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہورہا ہے۔ نہ ہی یہ بات ہے کہ اللہ نے صرف عورتوں پر مشقت ڈالی ہے اور مرد کوئی ان کے لاڈلے ہیں ان کو ہر طرح کی مشقت سے بری رکھا ہے۔دیکھیے یہ نسوانی تکالیف اس مجموعی خدائی ا سکیم کا حصہ ہیں جس کے تحت امتحان کی اس دنیا میں کوئی نہ کوئی تکلیف ہر کسی کو لاحق ہوتی ہے۔ عورتوں کو اگر ایام و زچگی کی تکلیف لگی ہے تو مردوں کو ہر دور میں اپنے خاندان کی کفالت اور ان کی حفاظت کے لیے زبردست جسمانی اور ذہنی مشقت جھیلنے کی مشقت لگادی گئی ہے انھی مشقتوں کی وجہ سے مجموعی طور پر ان کی اوسط عمر عورتوں سے ہمیشہ کم رہی ہے۔ ساتھ ساتھ وہ جان جانے ، زخمی ہوجانے ، حادثات کا شکار ہوجانے جیسے اندیشوں سے نہ صرف دوچار رہتے ہیں بلکہ تازیست عورتوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ، زیادہ درد اور زیادہ اسٹریس برداشت کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔ جو مرد اس مشقت کو مشقت سمجھتے ہیں ، ان کی زندگی عذاب بنی رہتی ہے مگر جو مرد اسے خدائی اسکیم کا حصہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔اس لیے اصل مسئلہ انداز فکر کا ہے ، خدائی نظا م میں کسی خامی یا کمزوری کا نہیں۔ اگر حیض و زچگی کے مراحل ایسے ہی ناقابل برداشت اور تکلیف دہ ہوتے تو اس دنیا میں کوئی خاتون زندہ نہ ہوتی اور سب اس تکلیف کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو چکی ہوتیں۔تاہم اس کے باوجود ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ تو پھر کیا کیا جائے ؟ کیا ساری تکالیف ختم کر دی جائیں ؟ایسا ہوا تو پھرآپ کا امتحان بھی نہیں رہے گا۔ اور امتحان نہیں تو پھر جنت ملنے کا امکان بھی نہیں رہے گا۔
آپ کے سوال سے دوسری بات یہ عیاں ہے کہ آپ انسانی سماج میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے غیرمساویانہ سلوک پر ناخوش ہیں۔ آپ کی یہ بات ٹھیک ہے کہ یہاں بارہا خواتین کے ساتھ زیادتی ہوجاتی ہے۔ مگر اس میں اصل قصور انسانوں کا ہے۔ انسان ہر کمزور کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔خود خواتین بھی جب طاقت کے مقام پر آتی ہیں تو دوسرے کمزوروں کے ساتھ اکثر یہی سلوک کرتی ہیں۔ یہی اس دنیا کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ دنیا بنا کر ایسے ہی لوگوں کو ڈھونڈرہے ہیں جو اختیار کے باوجود زیادتی نہ کریں اور جن پر زیادتی ہو وہ منفی سوچ کا شکار ہونے کے بجائے صبر سے کام لیں۔ چنانچہ دنیا کی اس خرابی میں بھی یہی حکمت ہے کہ اس خرابی کے بغیر وہ اعلیٰ انسان نہیں مل سکتے جو جنت میں بسائے
جائیں جہاں کوئی حیض ہو گا نہ دیگر تکالیف۔ آپ کے سوال کا یہ پہلو بھی جواب طلب ہے کہ خواتین کو اس میں نماز روزہ سے کیوں منع کیا گیا ہے۔دیکھیے یہ ہدایت ایک ڈسپلن کا حصہ ہے۔ لیکن اس ڈسپلن کی پابندی کرتے ہوئے بھی خواتین خود کو روحانی طور پر اللہ سے قریب کرسکتی ہیں۔ سب سے بڑ ی اور بنیادی عبادت اللہ کی یادہے۔ اس پران دنوں میں کس نے پابندی لگارکھی ہے۔ اللہ کو یاد کرتی رہیں آپ کی روحانیت بالکل اسی سطح پر رہے گی۔خلاصہ یہ ہے کہ ہم جس امتحان میں ہیں اس میں ہر طرح کے حالات میں ہم کو اپنے انداز فکر کو درست رکھنا ہے۔ ایسا کریں گے تو ہمیں کوئی چیز خراب نہیں لگے گی۔ انداز فکر منفی کر لیں گے تو کوئی چیز بھی ہمیں ٹھیک نہیں لگے گی۔
آخر میں ایک واقعہ سن لیجیے جس میں اس طرح کے سارے سوالات کا جواب اللہ کے ایک جلیل القدر نبی حضرت عیسیٰ نے دے دیا تھا۔ ان سے ایک دفعہ شیطان نے اسی نوعیت کا ایک سوال کیا تھا۔ یعنی خدا تو جو چاہے کرسکتا ہے آپ خدا سے بات کر کے اس سے اپنی مرضی کا معاملہ کیوں نہیں کراتے۔ آنجناب نے جو جواب دیا اسے یاد کر لیجیے۔ یہ ہر مسئلے کی کنجی ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ خدا نے یہ دنیا ہمارے امتحان کے لیے بنائی ہے۔ اس لیے نہیں بنائی کہ ہم خدا کی حکمت اور قدرت کو چیلنج کر کے خداکا امتحان لینا شروع کر دیں۔

(ابو یحییٰ)

عزت و شرف کا معیار اور بزرگوں کے ہاتھ چومنا
سوال:سر مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا کوئی صرف بزرگ ہستیوں کے گھر میں پیدا ہو جانے سے لوگوں کے لیے عزت و شرف کا باعث بن جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی بچہ سید گھرانے میں پیدا ہو جائے تو وہ بچہ دوسرے مسلمانوں سے کسی برتر درجے پر فائز ہو گا؟ اسی طرح اگر کوئی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان سے نسبت رکھتا ہو تو کیا صرف نسبت کی بنا پر اسے دوسرے مسلمانوں پر کوئی درجہ و فضیلت حاصل ہو گی؟اگر ہاں، تو یہ برہمنیت سے کیسے مختلف ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بیان کی جاتی ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ’’ اے فاطمہ! خود کو جہنم کی آگ سے بچانا، اگر اللہ پاک نے پکڑ لیا تو میں کچھ کام نہ آ سکوں گا‘‘تو اس کا کیا مطلب ہو گا ؟ اور اسی طرح:’’ اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے۔‘‘کا کیا مطلب ہو گا؟اور اگر نہیں تو پھر قرآن پاک میں سورۃ الاحزاب آیت 32 میں نبی کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے بارے میں جو کہا گیا ہے کہ
’’ لستن کاحد من النسا‘‘
یعنی تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اس کا کیا مطلب ہے۔ براہِ کرم ذرا وضاحت فرما دیجیے۔اور ازراہِ کرم اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ کسی حقیقی فضیلت کی بنا پر جیسے والدین یا عام لوگوں میں مشہور متقی لوگ مثلاً عرف عام میں پیر صاحبان وغیرہ کے ہاتھوں یا پاؤں کو عقیدت سے چومنا کیسا ہے۔

جواب:ہمارے دین میں کسی شخص کو اللہ کے نزدیک کیا مقام حاصل ہے اس کا فیصلہ قرآن کریم اپنے نزول کے وقت ہی کر چکا ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو‘‘ (الحجرات 13:49)
اس بات کو مزید سمجھنا ہو تو قرآن مجید میں بیان ہونے والی بنی اسرائیل کی داستان پڑھیے۔ وہ حضرت ابراہیم اور ان کے بعد آنے والے متعدد جلیل القدر انبیا کی اولاد تھے۔ مگر کیا اس سے کوئی فرق پڑا۔ ہرگز نہیں اللہ نے ان سے ان کے اعمال کے مطابق معاملہ کیا اور جب ان کے اعمال بگڑے تو ان پر لعنت کر دی گئی۔خود حضور کو دیکھ لیجیے۔ ابو لہب کا رشتہ حضور سے سگے چچا کا تھا، مگر وہ بھی اس کے کام نہ آیا۔ اس کا انجام سورہ لہب میں پڑھ لیں۔قرآن کی طرح حدیث میں بھی کوئی ایسی بات ہرگز نہیں بیان ہوئی ہے جس سے یہ تاثر ملے کہ کسی خاندان سے نسبت انسان کو دوسروں پر شرف اور برتری دے دیتی ہے۔ کچھ احادیث آپ ہی نے نقل کر دی ہیں، ان کے علاوہ خطبہ حجۃ الوداع سے متعلق ایک روایت میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر، اسی طرح کسی گورے کو کالے پر کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے۔
رہی سورہ احزاب کی آیت کی بات تو یہ فضیلت کا نہیں ذمہ داری کا معاملہ تھا۔ یعنی حضور کی ازواج کا معاملہ اور ان کی ذات کی حساسیت عام خواتین کی طرح نہ تھی۔ بلکہ ان کے حوالے سے کوئی الزام لگایا جاتا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا تو اس سے خود حضور کی ذات اور شخصیت کا متاثر ہونا لازمی امر تھا۔ اس لیے ان کو کچھ خصوصی احکام دیے گئے تاکہ منافقین کو کسی طرح کی فتنہ انگیزی کا ذریعہ نہ مل سکے۔ آپ کا نقل کردہ جملہ اسی پس منظر کا ہے۔ قرآن مجید کے سیاق و سباق سے بالکل واضح ہے کہ یہ کسی خاندانی فضیلت کا بیان نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منصب کی بنا پر عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں، اسی طرح ان کی ازواج بحیثیت اہل خانہ عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان پر لگی ہوئی کسی بھی تہمت سے آپ کا متاثر ہونا لازمی ہے۔
باقی ہاتھ پاؤں چومنے کا جو معاملہ ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ اظہار عقیدت کا ایک ذریعہ ہے۔ انسان محبت میں اپنے فطری جذبات کے اظہار کے لیے ماں یا باپ کے ہاتھ چوم لیتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر مذہبی لوگوں سے اس طرح کی عقیدت اکثرخرابی کا سبب بنتی ہے۔ اس سے بچنا بہتر ہے۔

(ابو یحییٰ)

اندیشہ کی بنا پر قتل ناحق ؟
سوال:میں نے سورہ کہف پر آپ کا آرٹیکل پڑھا۔ بہت اچھا اور متاثر کن تھا۔ لیکن میرا ایک سوال ہے جو میں کافی دیر سے پوچھنا چاہ رہی تھی لیکن کبھی موقع نہ مل سکا اس لیے آپ سے پوچھ رہی ہوں۔ سورہ کہف میں بیان کردہ واقعہ کے مطابق جب حضرت خضر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان باتوں کی وضاحت کر رہے تھے تو کشتی کو عیب زدہ کرنے اور گرتی ہوئی دیوار کو (بلا معاوضہ) سیدھا کر دینے کی بنیاد حقائق پر مبنی تھی۔ لیکن جب انہوں نے ایک چھوٹے بچے کو جان سے مار ڈالا تو یہ انہوں نے ’’ محض خوف‘‘ کے تحت کیا نہ کہ کسی حقیقی واقعہ کے تحت۔ جب ہم کسی چیز سے ڈرتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ہوجائے لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ وقوع پذیر ہی نہ ہو۔ خدا کا کوئی باغی بھی کسی بھی وقت توبہ کر کے خدا کی طرف لوٹ سکتا ہے اور ایک اچھا انسان اور خدا کا فرمانبردار بندہ بن سکتا ہے۔ یقینی طور پر اس مخصوص واقعہ میں ہم جانتے ہیں کہ حضرت خضر کو یہ حکم خدا کی طرف سے ہی دیا گیا تھا۔ لیکن جب بھی میں ان آیات پر پہنچتی ہوں تو یہ سوال میرے ذہن میں پھر پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے وجدان پر کس حد تک اعتبار کر سکتے ہیں؟ اور مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حضرت خضر کے اس عمل کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی حقیقت کارفرما تھی جو کہ ان آیات میں کہیں مخفی ہے اور میری ابھی اس تک رسائی نہیں ہوئی۔

جواب:دیکھیے اس معاملہ میں ہمیں دو چیزیں ذہن میں رکھنی چاہئیں۔
۱۔ خضر ایک فرشتہ تھے اور انہوں نے جو بھی کیا اللہ تعالیٰ سے حکم ملنے کے بعد ہی کیا۔ لہٰذا ہم اپنے میں سے کسی کا بھی ان کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے۔
۲۔ دوسرے یہ کہ یہاں استعمال ہونے والے الفاظ مثلاً ’’خشینا‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعمال کیے گئے ہیں۔ ان کا مطلب ’’ممکن ہے ‘‘یا ’’شاید‘‘ کے نہیں ہے بلکہ یہ ’’یقینی امور‘‘ پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ ’’عسٰی‘‘ کا لفظ استعمال فرماتے ہیں۔ اس کا لغوی معنی ہے کہ ’’شائد‘‘ لیکن جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لیے استعمال فرماتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناًایسا کریں گے۔اصل میں یہ بادشاہوں کے کلام کرنے کا شاہانہ انداز ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب سے عظیم ہستی ہیں تو وہ ایسے اندازمیں کلام فرماتے ہیں۔
اس بات کو یاد رکھیے کہ یہاں پر خضر اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے بات واضح ہو گئی ہو گی۔
ہمیں کس کی پیروی کرنا چاہیے؟
سوال:سرمیں آپ کی کتاب ’’تیسری روشنی‘‘ پڑھ رہی تھی کہ کیسے آپ نے تمام مکاتب فکر کا مطالعہ کیا اور آپ ماشاء4 اللہ سب کا ہی احترام کرتے ہیں۔میں آپ کی رائے سے مکمل اتفاق کرتی ہوں کہ ہمیں دوسروں کے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں کہ دلوں کے حال صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں پھر ہمیں کس کی اتباع کرنی چاہیے؟ اور ہمیں کیسے پتہ چلے کہ کون اس راستے کے زیادہ قریب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔
جواب ۔ہمیں صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کرنی چاہیے۔ آپ کی ہستی ہی اب رہتی دنیا تک دین کا تنہا مآخذ ہے۔ علماء اور دیگر تمام لوگ دین کے حوالے سے اپنے فہم کو بیان کریں گے۔ اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کس کی دلیل مضبوط ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں علماء4 کے پیش کردہ دلائل کو دیکھنا ہے اور ان کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھنا ہے۔ اگر وہ دلائل قرآن اور سنت کے مطابق ہیں تو ہم انہیں قبول کر لیں گے وگرنہ ہم انہیں رد کر دیں گے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ نجات کے لیے جو امور ضروری ہیں وہ ہمارے دین میں انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ ہمیں ان پر عمل کرنے کے لیے کسی عالم کی ضرورت ہے اور نہ خود کو کسی فرقے سے جوڑنے کی حاجت ہے۔ مزید یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نجات کے لیے جو امور دینی تعلیم میں بیان ہوئے ہیں ان میں علماء کا کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔

 

(ابو یحییٰ)

جواب:
آپ کا فکشن اور نان فکشن ناول نگاری کی اجازت کے حوالے سے جو سوال ہے تو اس میں اگر کوئی اخلاقی سبق موجود ہو تو ایسی کہانیاں لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور اگر مصنف ہمیں واضح طو ر پر بتا بھی دے کہ کہانی فکشن پر مبنی ہے تواس کے سچ یا جھوٹ ہونے میں کوئی شبہ بھی باقی نہیں رہتا۔اسلام میں ایک بنیادی قانون ہے کہ دنیاوی معاملات میں ہر چیز کی اجازت ہے جب تک کہ یہ حرام ثابت نہ ہو جائے۔ اور قرآن و سنت میں ہمارے علم کی حد تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے اس طرح کی چیزوں کو حرام قرار دیا جا سکے۔دوسرے سوال میں آپ نے پوچھا کہ ناعمہ کو خواب کے ذریعے سے ہدایت ملی لیکن یہ ہر کسی کی حقیقی زندگی میں نہیں ہوتا۔ حقیقی زندگی میں ہدایت کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے پیغمبر اوراپنی کتابیں بھیجی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خود مداخلت فرمائی اور قرآن کے ذریعے سے ہم سے مخاطب ہوئے۔ یہ کیا کم عزت و شرف کی بات ہے کہ ہمارے پاس قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا کلام موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر ہدایت دی ہے اور جو اس ہدایت کی پیروی کریں ان کے لیے جنت کی گارنٹی بھی ساتھ ہی دی ہے۔ قرآن ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت ہی عظیم نعمت ہے، یہ دونوں جہانوں میں ہماری کامیابی کا فارمولا ہے مگر افسوس کہ ہم نے قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔اگر آپ کو قرآن کی ہدایت کے بارے میں مزید پڑھنا ہے تو میری کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان‘‘ کا مطالعہ کیجیے جس میں انہوں نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مومن کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ کامیاب ہو سکے۔ 

(ابو یحییٰ)

جواب:اللہ تعالیٰ اصلاً ایک رحمان و رحیم ہستی ہیں۔ ان کا یہی تعارف قرآن مجید کراتا ہے۔ یہی تعارف سورہ فاتحہ میں ہے جو ہر نماز کا لازمی جز ہے۔ یہی ہر سورت کے آغاز پر اللہ کا تعارف لکھا ہے کہ وہ رحمن و رحیم ہے۔ باقی رہا وہ سوال جو آپ نے اٹھایا تو اللہ کا یہ منفی تصور کہ وہ صرف لوگوں کو جہنم میں بھیجے گا اس وجہ سے عام ہو گیا ہے کہ لوگ قرآن مجید کو درست پیرائے میں نہیں پڑھتے۔ جہنم کفر اور سرکشی کی سزا ہے۔ قرآن مجید میں جو لوگ زیر بحث ہیں وہ عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ میں سے وہ کفار اور سرکش لوگ ہیں جنھوں نے حق کو جھٹلا دیا تھا۔ جس کے بعد ان پر سزا لازم ہوگئی تھی۔ جہنم کا جو ذکر قرآن مجید میں ہے وہ انھی لوگوں کے حوالے سے ہے۔ باقی لوگوں کا فیصلہ اللہ قیامت کے دن کریں گے۔ اگر کوئی شخص آج بھی سرکش، متکبر اور بڑے جرائم کا مرتکب ہے تو وہ یہ سزا پائے گا لیکن عام لوگ بالعموم ایسے نہیں ہوتے۔ ان کے بارے میں قرآن مجید اس طرح کی سزا کا تصور نہیں دیتا۔ یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ بڑ ے کریم و حلیم ہیں۔ خاص کر جو لوگ اپنے گنا ہوں کے احساس میں جیتے ہوں ان کے لیے تو وہ بہت کریم غفور اور ودود ثابت ہوتے ہیں۔ 

(ابو یحییٰ)

جواب:منافقت اس بات کا نام ہے کہ انسان دل سے ایمان کا منکر ہو لیکن اپنے ظاہر سے اس بات کا اظہار کرے کہ گویا وہ ایک مسلمان ہے۔ اگر عقلی طور پر اسلام کو دین حق سمجھتے ہیں اور دل سے اس کی تصدیق کرتے ہیں اور پھر آپ علانیہ طور پر اس کا اقرار بھی کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی بھی شخص خود کو منافق سمجھے۔ دین کی تعلیم یا اعتقاد پر کسی قسم کا سوال پیدا ہونا یا عملی طور پر کسی کمزوری کا ظہور ہونا منافقت نہیں ہوتا۔منافقت کی بیماری وہاں جنم لیتی ہے جہاں انسان ظاہری طور پر تو اسلام کا اقرار کرنے پر مجبور ہوتا ہے، مگر دل سے وہ حق کا منکر ہوتا ہے۔ اس طرح کا شخص اپنی منافقت کو کوئی بیماری نہیں سمجھتا وہ اسے حالات کا تقاضا سمجھتا ہے۔ چنانچہ آپ کا یہ سوال درست نہیں ہے کہ مجھے منافقت کی بیماری لاحق ہو تو اس کا کیا علاج ہے۔ منافق کو اپنا رویہ کبھی بیماری محسوس نہیں ہوتا۔ہاں بعض روایات میں منافق کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں جیسے بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے وغیرہ۔ یہ اس دورکے منافقین کی عام علامات تھیں۔ مومن صادق میں اس طرح کی چیزوں کا کوئی امکان نہیں۔ اگر ہو تو اسے پوری قوت سے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ سچ بولے اور وعدہ پورا کرے۔یہ چیزیں ضعف ایمان کی علامت ہوتی ہیں۔ یہ منافقت میں اس وقت بدلتی ہیں جب آدمی پورے شعور سے اپنے غلط رویے کو درست سمجھے اور پھر اصلاح کی فکر کرنے کے بجائے گناہوں کی تاویل کرنا شروع کر دے۔ یہ منافقت ہے، اس کا علاج سوائے توبہ کے کچھ نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر

(ابو یحییٰ)

جواب ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں ایک ناول کے قالب میں چیزوں کو بیان کر رہا ہوں۔ ناول میں آپ کو مکالمات لکھنے ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر آپ شخصیات کو زیادہ بیان نہیں کرسکتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کو بھی میں اگر بیان کرتا تو پھر مکالمات لکھنے پڑتے۔ اس معاملے میں چونکہ ہمارے ہاں لوگ بے حد حساس ہیں تو اس بات کا شدید اندیشہ ہوتا کہ کوئی فتنہ پرور کوئی فتنہ نہ پیدا کر دے اور اصل مقصد فوت ہو جائے۔ اس لیے میں نے اس سے احتراز کیا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت یا دیگر انبیا کی شخصیات نمایاں نہیں ہو گی۔ میں نے مرکزی کردار کا احوال لکھا ہے۔ اس لیے اس کو نمایاں کرنا پڑا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو مقام انبیائے کرام کا ہے وہ تو قیامت ہی کے دن پوری طرح نمایاں ہو گا۔ امید ہے بات واضح ہو گئی ہو گی۔
***

 

(ابو یحییٰ)

بغیرغسل کے میت کی تدفین
سوال (۱): ہمارے یہاں ایک صاحب شوگر کے مریض تھے، جس کی وجہ سے ان کا ایک پیر پوری طرح سڑگیا تھا اوراس میں کیڑے پڑگئے تھے۔ ان کاانتقال ہوا تو ڈاکٹروں نے تاکید کی کہ نہلاتے وقت ان کا پیر نہ کھولا جائے اوراس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ کر غسل دیا جائے۔جب میت کوغسل دیا جانے لگا تولوگوں میں اختلاف ہوگیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پورے بدن پر پانی پہنچانا فرض ہے۔ میت پر پانی ڈالنے سے کیا نقصان ہوگا۔ لیکن گھر والوں نے ڈاکٹروں کی بات مانتے ہوئے پیر میں جہاں زخم تھا اس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ دی اوربدن کے بقیہ حصے پر پانی بہایا گیا جس طرح غسل دیا جاتا ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میت کے کسی عضومیں زخم ہونے کی وجہ سے اگراس حصے پر پانی نہ بہایا جائے توغسل ہوجائیگا؟
سوال (۲): ایک صاحب کا بری طرح ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ ان کا سر بالکل کچل گیا اوربدن کے دوسرے حصوں پر بھی شدید چوٹیں آئیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم ہوا۔ اس کے بعد نعش کو ورثاء کے حوالے کیا گیا۔ میت کوغسل دینے میں زحمت محسوس ہورہی ہے۔ کیا بغیر غسل دیے تکفین وتدفین کی جاسکتی ہے؟ سنا ہے کہ شہداء کوبغیر غسل دیے دفنایا جاسکتا تھا۔ کیا ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کوشہید مان کراسے بغیر غسل دیے نہیں دفن کیا جاسکتا؟

جواب: اصطلاح شریعت میں’ شہید‘اس شخص کو کہا جاتا ہے جوراہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے مارا جائے۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔ غزو ہ احد کے موقع پر جو مسلمان شہید ہوگئے تھے، اللہ کے رسولﷺ نے ان کے بارے میں ہدایت دی تھی: اْدفْنْوہْم فِی دِ مَاءِہِم بخاری: ۳۶۴ا، (انہیں بغیر غسل دیے دفن کردو)
احادیث میں کچھ دوسرے افراد کے لیے بھی شہید کا لفظ آیاہے۔ مثلاً جوشخص پیٹ کے کسی مرض میں وفات پائے، جسے طاعون ہوجائے، یا جوڈوب کر مرے۔ (بخاری :۶۵۳) ایک حدیث میں ہے:’’ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔‘‘ (بخاری :۲۴۸۰، مسلم :۱۴۱) ان افراد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ انہیں غسل دیا جائیگا۔
ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کسی شخص کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے، نعش مسخ ہوجائے اور کچھ اعضاء ضائع ہوجائیں تواس صورت میں غسل کا کیا حکم ہے؟ احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ اگر بدن کے اکثر اعضاموجود ہیں توغسل دیا جائے گا، ورنہ نہیں۔ شوافع اورحنابلہ کے نزدیک جسم کا کچھ بھی حصہ موجود ہوتو اسے غسل دیا جائے گا۔ اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے موقع پر ایک پرندہ کسی میت کا ایک ہاتھ اڑا لایا تھا اوراسے مکہ میں گرادیا تھا۔تب اہل مکہ نے اسے غسل دیا تھا اوراس موقع پر انہوں نے نماز جنازہ بھی ادا کی تھی۔بسا اوقات میت کا کوئی عضو سڑجاتا ہے، اسے دھونے سے انفیکشن پھیل جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگرکسی ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ اس عضو کونہ دھویا جائے تواس پر عمل کرنا چاہے اوراس عضو کو چھوڑ کر بدن کے بقیہ حصوں پر پانی بہادینا چاہیے۔ اس طرح غسل ہوجائے گا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت، ۳ا۴۲۴۲ (تغسیل المیت) ۷۷۲۲۴(شہید)

(ابو یحییٰ)

جواب : حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَن صَلّٰی عَلٰی جَنَازٍَۃ فِی المَسجِدِ فَلَیسَ لَہْ شَئی (ابن ماجہ : ۷ا۸ا۔علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔) ’’جس شخص نے مسجدمیں نماز جنازہ پڑھی، اسے کچھ اجر نہیں ملے گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسجد نبوی کے باہر ایک جگہ نماز جنازہ کے لیے متعین کردی گئی تھی۔ وہیں آپ نماز پڑھایا کرتے تھے۔ بہت سی احادیث میں اس کا تذکرہ موجودہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ جگہ مسجد نبوی سے متصل مشرقی جانب تھی۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، المکتبہ السلفیہ ، ۳۰،۹۹ا)اس بنا پر بہتر یہ ہے کہ عام حالات میں سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے نماز جنازہ مسجد کے باہرادا کی جائے۔ لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں بعض مواقع پر مسجد میں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
لَقَد صَلّٰی رَسْولْ اللہِ صَلّٰی اللہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَلَی ابنَی بَیضَاءَ فِی المَسجِدِ(مسلم : ۹۷۳، ابوداؤد : ۸۹ا۳، ترمذی : ۰۳۳ا، نسائی : ۹۶۸ا)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں اداکی۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق اورحضرت عمر فاروق کی نماز جنازہ بھی مسجد میں ادا کی گئی۔ (مصنف عبدالر ز اق : ۶۵۷۶،موطا امام مالک : ۹۶۹)
اسی بنا پر امام بخاری نے یہ ترجمۃ الباب قائم کیا ہے : باب الصلاٰۃ علی الجنائز بالمصلیٰ وبالمسجد (اس چیز کا بیان کہ جنازہ گاہ اور مسجد دونوں جگہ نماز جنازہ اداکی جاسکتی ہے)
علامہ ناصر الدین البانی نے لکھا ہے : ’’مسجد میں نماز جناز ہ جائز ہے ( بہ طور دلیل انہوں نے کئی حدیثیں نقل کی ہیں، لیکن افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں ادا کی جائے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معمول تھا۔‘‘ (احکام الجنائز ، ص ۵۳۱)
فقہامیں امام شافعی اورامام احمدکے نزدیک اگر مسجد میں گندگی ہونے کا اندیشہ نہ ہوتو وہاں نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔ امام مالک کے نزدیک مسجد میں جنازہ کولے جانا مکروہ ہے ، البتہ اگروہ مسجد کے باہر رکھا ہو تومسجد میں موجودہ افراد اس کی نماز میں شریک ہوسکتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جس مسجد میں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے اس میں جنازہ کی نماز پڑھنی مکروہ ہے ، خواہ جنازہ اورنمازی دونوں مسجد میں ہوں ،یا جنازہ مسجد سے باہر اورنمازی مسجد کے اندر ہوں، یا جنازہ مسجد میں اور نمازی مسجد کے باہر ہو ں۔ البتہ بارش یا کسی دوسرے عذر کی بناپر مسجد میں نماز جنازہ بلا کراہت جائز ہے (الفتاویٰ الہندیۃ: ۱،۶۲ا فتاویٰ شامی :۱،۹ا۶۔)
اس موضوع پر تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: الموسوعۃالفقہیۃ کویت :۶ا،،۳۶۔۳۵

(ابو یحییٰ)

جواب: عہدِ جاہلیت میں نکاح کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ آدمی دوسرے سے کہتا تھا : تم اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے کردو ، میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تم سے کردوں گا اور دونوں کا مہر معاف ہوجائے گا۔ اسے ’نکاحِ شغار‘ کہاجاتا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ نکاح سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرفرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شغار سے منع کیا ہے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’اسلام میں ’شغار ‘ جائز نہیں ہے۔‘‘
بعض روایات میں ’ شغار‘ کا مطلب بھی بتایا گیا ہے:
’شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی سے دوسرے آدمی کا نکاح (اس شرط پر ) کردے کہ دوسرا اپنی بیٹی سے اس کا نکاح کردے اوران میں سے کسی کے ذمے اپنی بیوی کا مہر نہ ہو۔‘‘
علامہ شوکانی نے’ نکاح شغار‘ کی دو علّتیں قرار دی ہیں: ایک یہ کہ اس میں ہر لڑکی کوحقِ مہر سے محروم کردیا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ اس میں ہر نکاح دوسرے نکاح سے مشروط اوراس پر موقوف ہوتا ہے۔ (نیل الاوطار)
اگراس طریقہ نکاح میں دونوں لڑکیوں کا مہر تو مقرر کیا گیا ہو، لیکن دونوں نکاح ایک دوسرے سے مشروط اورمعلّق ہوں توبھی وہ ناجائز ہوں گے۔روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس کے بیٹے عباس نے عبدالرحمن بن الحکم کی لڑکی سے اورعبدالرحمن نے عباس بن عبداللہ کی لڑکی سے نکاح کیا اور دونوں لڑکیوں کا مہر بھی مقرر کیا گیا ، لیکن حضرت معاویہ کواس نکاح کی خبر پہنچی توانہوں نے مدینہ کے گورنر حضرت مروان کولکھا کہ اس نکاح کوفسخ کردیا جائے ، اس لیے کہ یہ وہی نکاحِ شغار ہے ، جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے نکاح شغار کی تین صورتیں بتائی ہیں اورتینوں کو ناجائز قرار دیا ہے : ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کوبدلے میں اپنی لڑکی دے گا اوران میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔دوسرے یہ کہ شرط تووہی ادلے بدلے کی ہو، مگر دونوں کے برابر مہر(مثلاً پچاس پچاس ہزار روپیہ )مقرر کیے جائیں اورمحض فرضی طورپر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کیا جائے،دونوں لڑکیوں کوعملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔ تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو ، بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔‘‘
بدلے کی شادیوں میں عموماً تلخی اورناخوش گواری کا اندیشہ رہتا ہے اوردونوں خاندانوں پر خانہ بربادی کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے۔ مثلاً اگرایک خاندان میں شوہر نے جایا بے جابیوی کی پٹائی کردی یا دونوں کے درمیان تعلق میں خوش گواری باقی نہیں رہی یا اس نے طلاق دے دی تو دوسرے خاندان میں لڑکے پر اس کے والدین یا دوسرے رشتے دار دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بھی لازماً وہی طرزِ عمل اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کرے۔لیکن اگر دونوں رشتوں کی مستقل حیثیت ہو، دونوں لڑکیوں کا مہر طے کیا جائے اوران کوادا کیا جائے اورایک رشتہ کسی بھی حیثیت میں دوسرے رشتے کومتاثر کرنے والا نہ ہو تو ایسے رشتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(ابو یحییٰ)

جواب: سلام اسلام کا شعار ہے۔ حدیث میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’تم لوگ جنت میں نہیں جاؤگے جب تک ایمان نہ لے آؤ اورتمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں کہ اگر اسے کرنے لگو توتمہارے درمیان آپس میں محبت پیدا ہوجائے گی۔ اپنے درمیان سلام کوعام کرو۔‘‘
علمانے بعض ایسے مواقع کی نشان دہی کی ہے جب سلام کرنا مناسب نہیں۔ مثلاً موذن ، نمازی، حالتِ احرام میں تلبیہ کہنے والے، تلاوتِ قرآن یا ذکر ودعا میں مشغول شخص کو سلام نہیں کرنا چاہیے۔ خطبہ جمعہ کے دوران جوشخص مسجد پہنچے اس کوبھی سلام کرنے سے احتراز کرنا چاہیے، اس لیے کہ خطبے کوخاموشی سے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص کھانا کھانے میں مصروف ہویا رفع حاجت کررہا ہوتواسے بھی سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ان مواقع پر اگر کوئی شخص سلام کرلے توجس کوسلام کیا گیا ہے اس کا جواب دینا ضروری نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گز ر ا۔ اس وقت آپ پیشاب کررہے تھے۔ اس نے آپ کو سلام کیا ، مگر آپ نے جواب نہیں دیا۔ 
کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تواس کوسلام کرنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ کوئی شخص کسی مجلس میں جائے توسلام کرے۔‘‘
البتہ احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر پروگرام شروع ہوگیا ہو تواتنی زور سے سلام نہ کرے کہ تمام حاضرین کے انہماک میں داخل پڑے اور خطیب کاذہن بٹ جائے، بلکہ اتنے دھیرے سے سلام کرے کہ پیچھے بیٹھے ہوئے چند لوگ سن لیں۔ سب کا جواب دینا بھی ضروری نہیں، بلکہ ان میں سے کوئی ایک بھی جواب دے دے تو سب کی طرف سے کفایت کرے گا۔
مجلس میں انگلیاں چٹخانے کی ممانعت میں کوئی حدیث مروی نہیں ہے ، لیکن اسے آدابِ مجلس کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ خاص طور سے مسجد میں دورانِ نمازیا نماز سے باہر اسے مکروہ کہا گیا ہے ۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس کے پہلومیں نماز ادا کی۔ دورانِ نماز میں نے انگلیاں چٹخائیں تو انہوں نے نماز کے بعد مجھے ڈانٹا۔
لفظ ’قلب‘ اوراس کے مترادفات

(ابو یحییٰ)

جواب : دیگر زبانوں کی طرح عربی میں بھی بہت سے الفاظ بہ طور مترادف مستعمل ہیں۔ ایسے متعددالفاظ کا استعمال قرآن کریم میں بھی ملتا ہے۔ علماء لغت نے ایک بحث یہ کی ہے کہ جن الفاظ کو مترادف سمجھا جاتا ہے ، ان کے درمیان بھی کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے۔ دو مترادف سمجھے جانے والے الفاظ سوفی صد ایک معنی میں نہیں ہوسکتے۔ ’فروق لغویہ‘ کے موضوع پر عربی زبان میں متعدد کتابیں پائی جاتی ہیں۔ اردو زبان میں اس موضوع پر ایک اچھی کتاب ’مترادفات القرآن‘ کے نام سے ہے، جو مولانا عبدالرحمن کیلانی کی تالیف ہے اوراس کی اشاعت ۲۰۰۹ میں مکتبہ دارالسلام لاہور سے ہوئی ہے۔اس کتاب سے متعلقہ بحث کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتاہے:
۱۔ قلب : مشہور عضو۔ روح وحیات کا منبع (جمع قلوب)۔ عقل ، فہم ، سوچ، فکرکے لیے اللہ تعالیٰ نے دل کومخاطب بنایا ہے۔ یعنی جوافعال جدید طب نے دماغ سے متعلق بتلائے ہیں ، قرآن نے دل سے متعلق کیے ہیں۔ ارشاد باری ہے :
لَہْم قْلْوب لَّا یَفقَہْونَ بِہَا (الاعراف: ۷۹ا)
’’ ان کے دل تو ہیں، لیکن وہ ان سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔‘‘
۲۔فواد:بعض علماء نے کہا ہے کہ جو فرق ’عین‘ اور’بصر‘ یا ’اْذن ‘ اور’سمع‘ میں ہے ، وہی فرق ’قلب‘ اور ’فواد‘ میں ہے۔ اس کی دلیل میںیہ آیت پیش کی جاتی ہے:
’’بے شک کان، آنکھ اوردل، ان سب (جوارح)سے ضرور باز پرس ہوگی۔‘‘(الاسراء :۳۶)
لیکن یہ صحیح نہیں۔۔۔.فواد (جمع افئدۃ) فاد سے مشتق ہے ۔۔۔.یہ لفظ گرمی اورشدیدحرارت پردلالت کر تاہے۔ لہٰذا جہاں انسان کے جذ با ت کی شدت اور اس کی تاثیر کا ذکر آئے گا وہاں اس لفظ کا استعمال ہوگا۔ مثلاً:
وَاَصبَحَ فْوادْ اْمِّ مْوسی فٰرِغًا(القصص:۰ا)
’’اور موسیٰ کی ماں کا دل خالی ہوگیا (یعنی اس میں قرار نہ رہا)‘‘
’’سر اْٹھائے دوڑتے ہوں گے۔ ان کی نگاہیں (بھی) ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی اور دل(دہشت کے مارے)اْڑرہے ہوں گے۔‘‘(ابراہیم:۴۳)
اللہ تعالیٰ نے فواد سے جس باز پر س کا ذکر فرمایا ہے وہ ایسے ہی اعمال سے متعلق ہوگی جوشدتِ جذبات کے تحت انسان کربیٹھتا ہے۔
۳۔ صدر: بہ معنی سینہ(جمع صدور) اورسینہ کے اند رہی دل ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
وَلِٰن تَعمَ القْلْوبْ الَّتیِ فِی الصّْدْورِ (الحج: ۴۶)
’’لیکن وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘
لہٰذا کبھی صرف’ صدور‘ کہہ کر قلوب مراد لیے جاتے ہیں ، جیسے شِفَاء لِّمَا فِی الصّْدْورِ (یونس:۵۷) اب چوں کہ صدر کا تعلق ظرف مکان سے ہے ، لہٰذا اگردل کی تنگی یا فراخی کاذکر مطلوب ہوتو صدور کا لفظ آئے گا۔ مثلاً:’’ اورہم جانتے ہیں کہ ان کی باتوں سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے۔‘‘ (الحجر:۹۷)
اَلَم نَشرَح لََ صَدرَک (الانشراح:۱)
’’ کیا ہم نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا۔‘‘
پھرکسی چیز کو چھپانے کے لیے بھی چوں کہ ظرف کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا راز کی بات کے چھپانے، خیالات اوروسواس کے ذکر میں بھی صدر کا استعمال ہوگا۔مثلاً:
’’وہ آنکھوں کی خیانت کوبھی جانتا ہے اورجو باتیں دلوں میں ہیں ان کوبھی جانتا ہے۔‘‘(المومن ۹ا)
الَّذی یْوَسوِسْ فِی اصْدْورِ النَّاسِ (الناس:۵)’’وہ( شیطان ) لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔‘‘
۴۔ اس معنیٰ میں قرآن میں ایک اورلفظ کا بھی استعمال ہوا ہے اوروہ ہے نفس (جمع نفوس)۔ اس سے خواہشات کا مبدا اورآرزو کرنے اورخوش ہوجانے والا دل مراد ہوتا ہے۔ جہاں تک پوشیدہ باتوں اور خیالات وغیرہ کو چھپانے کا تعلق ہے ، یہ صفت نفوس اورصدور میں مشترک ہے۔ ارشاد باری ہے :
’’اورتم اپنے دل میں وہ چیز چھپاتے تھے جسے اللہ ظاہر کرنیوالا تھا۔‘‘(احزاب ۳۷)
خواہشات کا تعلق نفس سے ہوتا ہے ، خواہ وہ اچھی ہوں یا بری۔ ارشاد باری ہے :
’’ یہ لوگ محض ظن (فاسد) اورخواہشاتِ نفس کے پیچھے چل رہے ہیں۔‘‘(النجم۲۳)
خوش ہونے کا تعلق بھی نفس سے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے :
’’پھر اگروہ عورتیں اپنے دل کی خوشی سے اس( یعنی اپنے مہر) میں سے تم کچھ چھوڑدیں تواسے شوق سے کھاؤ ۔‘‘(النسا:۴)
اس تفصیل سے ’دل‘ کے لیے قرآن میں مستعمل الفاظ (قلب، فواد، صدر اور نفس ) کے درمیان فرق کی کچھ وضاحت ہوجاتی ہے۔
تحریکی سرگرمیاں شوہر کی اجازت

(ابو یحییٰ)

تحریکی سرگرمیاں شوہر کی اجازت
سوال :میراخاندان تحریکی ہے۔ میرے خسر محترم جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے ، میرے شوہر محترم بھی جماعت کے کارکن ہیں۔ میں بھی حتی المقدور جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہتی ہوں۔ ابھی حال میں میری رکنیت کی درخواست منظور ہوئی ہے۔ اس پر میرے شوہر نے ناراضی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعت کے ذمہ دار کو رکنیت کی سفارش کرنے سے قبل ان سے ملاقات کرنی چاہئے تھی اوران سے اجازت حاصل کرنی ضروری تھی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں کا ’قوام ‘ بنایا ہے :الرِّجَالْ قَوَّامْونَ عَلیَ النِّسَاء۔ شوہر کی مرضی کے بغیر عورت کو گھر سے باہر جانے اورتحریکی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جماعت کے ذمہ دار کا رویہ عورت کو بے جا آزادی دینے کا ہے۔ اس سے ازدواجی تعلقات پر اثر پڑے گا اورگھر کے ماحول میں خواہ مخواہ ٹینشن پیداہوگا۔ ان باتوں سے میں ذہنی طورپر پریشان ہوگئی ہوں۔ بر اہ کرم میری رہ نمائی فرمائیں۔ میں کیا کروں؟

جواب: ہر مسلمان کی خواہ وہ مرد ہو یاعورت ذمہ داری ہے کہ وہ دین کافہم حاصل کرے، اس پر خود عمل کرے، پھر اللہ کے دوسرے بندوں تک اسے پہنچانے کی کوشش کرے۔ اہل ایمان سے مطلوب یہ ہے کہ اس کام میں وہ ایک دوسرے کاتعاون کریں:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ،زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقیناًاللہ سب پر غالب اورحکیم وداناہے۔‘‘(التوبہ: ا۷)ازدواجی زندگی میں شوہر بیوی کو بھی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دینی کاموں میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں اور اگر ایک سے کچھ کوتاہی ہو تو دوسرا اسے نرمی اورمحبت سے اس جانب توجہ دلائے۔ حدیث میں اس بات کو بہت لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ اس مرد پر رحم کرے جورات میں اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے۔ اگروہ نہ اٹھے تواس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے۔ اللہ اس عورت پر رحم کرے جورات میں اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے۔ اگروہ نہ اٹھے تواس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے۔‘‘
رحمتِ الٰہی کا یہ استحقاق صر ف نماز تہجد کے لیے خود اٹھنے اور دوسرے کواٹھانے تک محدود نہیں ہے ، بلکہ دین کے ہر کام میں اس طرح کا باہمی تعاون مطلوب ہے۔
جماعت اسلامی ہند امتِ مسلمہ کے تمام افراد کو خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین اسی مشن میں لگانا چاہتی ہے۔ وہ ہر مسلمان مرد اورعورت سے کہتی ہے کہ سب سے پہلے وہ دین کا صحیح فہم حاصل کرے، یہ جانے کہ اللہ اور اس کے رسول نے کن کاموں کا حکم دیا ہے اور کن کاموں سے روکا ہے۔ مامورات پر عمل کرنے اور منہیات سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے، آخر میں حسب توفیق اپنے پڑوسیوں ، اہل خاندان ، دیگر متعلقین اور عام افراد تک دین کی ان تعلیمات کو پہنچانے کی کوشش کرے۔ جولوگ جماعت کے اس مشن سے اتفاق ظاہر کرتے ہیں اور اس کے بعض بنیادی کاموں میں شریک ہوتے ہیں، انھیں وہ متفق اور کارکن بناتی ہے اور جواس کے دستور اور پالیسی و پروگرام سے مکمل اتفاق ظاہر کرتے ہوئے اس کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں انھیں وہ اپنا رکن بنالیتی ہے۔جماعت کے ذمہ داروں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کسی خاتون کو جماعت کارکن بنانے سے قبل اس کے شوہر سے ملاقات کرکے اس کی اجازت حاصل کریں، غیر ضروری ہے۔ اس کے بجائے اس خاتون کو جماعت کی رکنیت کے لیے خود کو پیش کرنے سے قبل اپنے شوہر یاسرپرست کواعتماد میں لینا چاہیے اور اس کی رضا مندی کے بعد ہی یہ اقدام کرناچاہیے، تاکہ گھر میں خوش گوار فضا قائم رہے اورآئندہ اس کی عملی سرگرمیوں میں اہل خانہ کاتعاون حاصل رہے۔ اگر اس کے بغیر یہ اقدام کیا گیا تو اسی صورت حال کا اندیشہ ہے، جس کا اوپر سوال میں تذ کر ہ کیاگیاہے۔اس سلسلے میں ایک اورچیز کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے لیے شوہر یا سرپرست کی اجازت ضروری ہے۔ اگروہ منع کردے تواس کا باہر نکلنا جائز نہیں۔ عہد نبوی میں عورتیں فرض نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی جایا کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہروں کو مخاطب کرکے فرمایا :’تمہاری عورتیں جب تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگیں توانھیں منع نہ کرو‘‘
اس حدیث کا خطاب عورتوں سے بھی ہے اور مردوں سے بھی۔ عورتوں سے یہ کہ وہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے مردوں سے اجازت طلب کریں اوران کی اجازت کے بعد ہی نکلیں اورمردوں سے خطاب یہ کہ جب ان سے اجازت طلب کی جائے تومنع نہ کریں۔ اجازت طلب کرنے اور اجازت دینے کایہ معاملہ صرف فرض نمازوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ تمام دینی ودنیاوی کاموں کے سلسلے میں ہے۔ تحریک سے باضابطہ وابستگی کے بعد گھر سے باہر کے تحریکی کاموں کی انجام دہی کے لیے عورت کا شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے اور اگر وہ کبھی اجازت نہ دے تو یہ معقول شرعی عذر ہے جسے ذمہ دارانِ جماعت کو قبول کرنا چاہیے۔ اب آپ جماعت کی رکن بن چکی ہیں۔ اجتماعات وغیرہ میں شرکت کے لیے گھر سے باہر جانا ہوتو شوہر محترم سے اجازت لے لیا کریں۔ وہ خود جماعت کے کارکن ہیں۔ ان کے دینی جذبے سے یہ توقع ہے کہ وہ بہ خوشی اجازت دے دیا کریں گے۔ واضح رہے کہ اجازت جس طرح صراحتاً ہوتی ہے اْسی طرح گھر میں جومعمول ہو وہ بھی اجازت ہی ہے۔
آخری بات یہ کہ دینی وتحریکی سرگرمیوں کی انجام دہی عورت کے گھر سے باہر نکلنے پر موقوف نہیں ہے۔ وہ گھر میں رہتے ہوئے تبلیغ واشاعتِ دین کا بہت سے کام کرسکتی ہے۔ اپنے گھروالوں ، رشتہ داروں ، ملاقاتیوں وغیرہ کو دین کی باتیں بتاسکتی ہے۔ چھوٹے بچوں بچیوں کی دینی تعلیم کاانتظام کرسکتی ہے۔ جدید ترقی یافتہ وسائل نے توگھر بیٹھے کام کاوسیع میدان فراہم کردیاہے۔ فون، موبائل ، ای میل ، فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے بے شمار افراد سے رابطہ کیاجاسکتاہے اور ان تک دین کی باتیں پہنچائی جاسکتی ہیں۔

(ابو یحییٰ)

جواب :کسی خاتون کے وارثوں میں صرف اس کا شوہر اورایک بیٹا ہو تواس کے انتقال پر اس کی وراثت اس طرح تقسیم ہوگی کہ شوہر کو اس کا ایک چوتھائی ملے گا اور بقیہ (تین چوتھائی) کامستحق اس کا بیٹا ہوگا۔ شوہر چاہے تواپنے حصے کا مالک بھی اپنے بیٹے کو بناسکتاہے۔
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ نابالغ لڑکے کی جائیداد اور جملہ مملوکہ اشیا کی حفاظت و نگرانی اس کے بالغ ہونے تک اس کا ولی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو، یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کوپہنچ جائیں، پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ توان کے مال ان کے حوالے کردو۔ا یسا کبھی نہ کرنا کہ حدِ انصاف سے تجاوزکرکے اس خوف سے ان کامال جلدی جلدی کھا جاؤکہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کامطالبہ کریں گے۔ یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جوغریب ہو وہ معروف طریقے سے کھائے‘‘۔(النساء:۶)
اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ یتیم کا سرپرست اگرمال دار اور صاحبِ حیثیت ہو تو بہتر ہے کہ وہ اس مال میں سے کچھ نہ کھائے، لیکن اگر غریب اور ضرورت مند ہو تواپنے حق الخدمت کے طورپر اس میں سے کچھ لے سکتاہے ، لیکن ضروری ہے کہ اس میں سے لینا معروف طریقے پر ہو، اتناہو کہ ایک غیر جانب دار آدمی بھی اسے مناسب خیال کرے۔
سوال میں جو حدیث پیش کی گئی ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک بوڑھے شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ میں نے اپنے بیٹے کوپال پوس کر بڑا کیا، اس کی ہرضرورت پوری کی، اس پر اپنا مال خرچ کیا۔ اب جب کہ میرے قویٰ مضمحل ہوگئے، میں کچھ کما نہیں سکتا، اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ لیتاہوں تووہ ناراضگی جتاتا ہے اور کہتاہے کہ میں اس کامال اڑا رہاہوں۔ آپ نے اس نوجوان کو بلا بھیجا۔ اس کے سامنے اس کے بوڑھے باپ کا دکھڑا پھرسنا(بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی باتیں سن کر آپ آب دیدہ ہوگئے) پھر آپ نے اس نوجوان کا گریبان پکڑا اور اسے اس کے باپ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: اَنت وَمَالْکَ لِاَبِیکَ 
اس سے معلو م ہوتاہے کہ بیٹے کے مال میں باپ کابھی حق ہے۔ وہ اس میں سے حسبِ ضرورت اور معروف طریقے سے لے سکتاہے۔

(ابو یحییٰ)

جواب:آدمی اپنا مال ضرورت مندوں میں خود بھی تقسیم کرسکتاہے اور کسی دوسرے کو بھی یہ ذمہ داری دے سکتاہے۔ جو شخص یہ ذمہ داری قبول کرلے اسے پوری امانت و دیانت کے ساتھ اسے انجام دینا چاہیے۔
جس شخص کو مذکورہ مال تقسیم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ، اس کے پاس یہ مال امانت ہے۔ بغیر اس کے مالک کی اجازت کے اس میں ادنیٰ سا تصرف بھی اس کے لیے جائز نہیں ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ صاحبِ مال نے جن کاموں میں خرچ کرنے یا جن افراد کو دینے کی صراحت کی ہو، انہی میں مال خرچ کیاجائے۔ ذمہ داری لینے والے کو اپنے طورپر فیصلہ کرنے اور مدّات میں تبدیلی کرنے کاحق نہیں ہے۔اسی طرح اگر وہ ذمہ دار اس مال کومستحقین تک پہنچانے میں ٹال مٹول سے کام لے یا بلاوجہ تاخیر کرے تو یہ بھی خیانت ہے۔ وہ مال کا کچھ حصہ اپنے ذاتی کام میں استعمال کرلے، پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کے پاس مال آجائے تو اسے بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردے، اس صورت میں وہ مال میں خیانت کرنے کامرتکب تو نہ ہوگا، لیکن بغیر صاحبِ مال کی اجازت کے ، مستحقین تک اس کے پہنچانے میں تاخیر کرنے کا قصور وار ہوگا۔ اس لیے ایسا کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔اب اگر ایسی کوتاہی ہوگئی ہے تواستغفار اور آئندہ احتیاط کا عہد کرنا چاہیے۔
***

 

(ابو یحییٰ)

جواب:

ذات باری تعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے۔کسی چیز، دن، یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بْرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ نفع ونقصان کے اختیار کا سو فی صد یقین اللہ کی ذات سے ہونا چاہیے کہ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف اللہ الا ہو ، وان یردک بخیر فلا رآد لفضلہ یصیب بہ مں یشاء من عبادہ وہو الغفور الرحیم 
اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
(سورۃ یونس، 10: 107)
سورۃشوریٰ میں ارشاد ہے:
وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر 
اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اْس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔
الشّْورٰی، 42: 30
درج بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی وَقت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ اللہ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ کو ناراض کرنے کاسبب ہے اور اس طرح گناہگار فی نفسہ منحوس ہوتا ہے، کیونکہ گناہ کے سبب وہ اللہ کی امان سے نکل جاتا ہے اور مصائب و مشاکل سے مامون و محفوظ نہیں رہتا۔ درحقیقت اصل نْحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
لاَ عَدوَی، وَلاَ طیَرَۃَ، وَیْعجِبْنی الفَالْ، قَالْوا: وَمَا الفَالْ؟ قَالَ: کَلِمَۃ طیِّبَۃ
صحیح البخاری، کتاب الطب، باب الطیر: 5776
’’چھوت لگناکوئی چیزنہیں اور بدشگونی (کی کوئی حقیقت) نہیں ہے، البتہ نیک فال مجھے پسندہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نیعرض کیا: نیک فال کیا ہے؟ حضوراکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھی بات منہ سے نکالنا یا کسی سے اچھی بات سن لینا۔‘‘
اگر کوئی شخص گھر سے کہیں جانے کے لئے نکلا اور کالی بلی نے اس کا راستہ کاٹ لیا، جسے اس نے اپنے حق میں منحوس جانا اور واپس پَلَٹ گیا یا یہ ذہن بنا لیا کہ اب مجھے کوئی نہ کوئی نقصان پہنچ کر ہی رہے گا، تو یہ بدشگونی ہے جس کی اسلام میں مْمَانَعَت ہے۔ اگرگھر سے نکلتے ہی کسی نیک شخص سے ملاقات ہوگئی جسے اْس نے اپنے لئے باعث خیر سمجھا تو یہ نیک فالی کہلاتاہے اور یہ جائزہے۔
آپ اپنی سہولت کے ساتھ جس دن چاہیں کپڑے کاٹ سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
(طالب محسن)

جواب: دین کا حکم یہ ہے کہ صلہ رحمی کرو۔ میری سمجھ کے مطابق یہ حکم اس اصرار کے ساتھ اور اس اہتمام کے ساتھ اس لیے دیا گیا ہے کہ اس پر عمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بعض اوقات ناشکری اور حق تلفی کے رویے کے باعث اور بعض اوقات ظلم اور زیادتی کے سبب سے۔
آپ نے جو احوال لکھے ہیں کسی نہ کسی رنگ انداز اور سطح پر تقریبا تمام لوگ ہی اس تجربے سے گزرتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہمارا تعلق ہوتا ہے ان سے ہماری بہت سی اچھی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا رویہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ مزید برآں اگر ان سے کوئی زیادتی سامنے آرہی ہو تو ہماری تکلیف بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے رشتے داروں کے ساتھ ہر حال میں حسن سلوک کرنا ہے۔ ان کی بے اعتنائی، نا شکری اور زیادتی کے باوجود۔ لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تین درجے ہو سکتے ہیں۔
پہلا یہ کہ آپ جس حد تک زیادتی ہوئی ہے اس کا بدلہ لے لیں اور تعلقات کو منقطع نہ کریں لیکن میل جول بھی نہ رکھیں۔ مطلب یہ کہ اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو بس سلام دعا کے بعد ایک دوسرے سے دور رہیں۔
دوسرا یہ کہ آپ اس طرح کے رشتے داروں کے ساتھ صرف غمی اور خوشی کا تعلق رکھیں اور عام حالات میں ان سے میل ملاقات نہ کریں۔ لیکن اگر کوئی شدید ضرورت سامنے آجائے تو آپ مدد کرنے سے گریز نہ کریں۔
تیسرا یہ کہ آپ زیادتیوں کو نظر انداز کریں اور حسن سلوک اور مہربانی کا برتاؤ بھی جاری رکھیں۔
پہلا درجہ اختیار کرنے پر آپ گناہ گار نہیں ہوں گے۔
دوسرا درجہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ نیکی کے مواقع ضائع نہیں ہوں گے۔
تیسرا درجہ فضیلت کا درجہ ہے۔ اللہ کی رضا زیادہ زیادہ حاصل کرنا پیش نظر ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔

()

عید الفطر خوشیوں کا دن
عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا۔
عید کے دن مندرجہ ذیل امور بجا لانا مسنون و مستحب ہیں :
۱۔مسواک کرنا
۲۔غسل کرنا
۳۔کپڑے نئے ہوں تو بہتر ورنہ دھلے ہوئے پہننا
۴۔خوشبو لگانا
۵۔صبح سویرے اْٹھ کر عیدگاہ جانے کی تیاری کرنا
۶۔نماز عید الفطر سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا
پیدل عید گاہ جانا
۷۔ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔
۸۔نماز عید الفطر کو جانے سے پہلے طاق عدد کھجوروں یا چھواروں کا کھانا یا کوئی اور میٹھی چیز کھالینا۔
۹۔عید الاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے۔ اگر قربانی کا گوشت میسر ہو تو نماز عید کے بعد اس کا کھانا مستحب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں کی ضیافت ہے۔ لیکن اگر کچھ کھا لیا تب بھی کوئی حرج نہیں۔
عیدین کی نماز کسی بڑے میدان میں ادا کرنا سنت ہے۔ لیکن بڑے شہر یا اس جگہ جہاں زیادہ آبادی ہو ایک سے زائد مقامات پر عیدین کے اجتماعات بھی درست ہیں اور میدان کی بھی شرط نہیں۔ بڑی مساجد میں بھی یہ اجتماعات صحیح ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک جگہ اجتماع ہوگا تو بہت سے لوگ نماز عید سے محروم رہ جائیں گے، کچھ تو حقیقی مشکلات کی وجہ سے اور کچھ اپنی سستی کے باعث۔
نمازِ عید کے لئے تکبیر تشریق کہتے ہوئے جانا۔ عید الاضحی میں با آواز بلند اور عید الفطر میں آہستہ کہنی چاہئے۔
عیدین کا خطبہ سنت ہے، یہ خطبہ نماز کے بعد ہوگا۔
اگر خطبہ نمازِ عید سے پہلے دیا تو کافی ہے اگرچہ مکروہ ہے بعد میں اعادہ نہیں کیا جائے گا۔
نماز عیدین کا حکم ہجرتِ مدینہ کے پہلے سال دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خوشی اور فرحت کے لئے سال میں دو اہم دن مقرر کئے جن میں سے ایک عید الاضحی اور دوسرا عید الفطر کا دن ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو (دیکھا کہ) وہاں کے لوگ دو دن کھیل تماشے میں گزارتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ دن کیا ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم ایام جاہلیت میں ان دو دنوں میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ اللہ قَدَابدَلَکْم بِھِمَا خَیرًا مِنھْمَا؛ یَومَ الَضحٰی وَ یَومَ الفِطرِ.
’’اللہ تعالیٰ نے ان ایام کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو ایام : یوم الاضحی اور یوم الفطر عطا فرمائے ہیں۔‘‘

کج133 نمازِ عید کی نیت اس طرح کی جاتی ہے کہ میں دو رکعت نماز عیدالفطر یا عیدالاضحی واجب مع تکبیرات زائد کی نیت کرتا ہوں۔

()

ج133 بغیر عذر کے عید کی نماز مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے۔

()

جواب :اگر کوئی شخص نماز عید کی جماعت میں نہ پہنچ سکا تو اکیلے اس کی قضاء نہیں پڑھ سکتا، البتہ اگر گھر لوٹ کر چار رکعت نفل پڑھ لے تو بہتر ہے۔

()

ج۔۔عید کی نماز میں نہ اذان ہوتی ہے اور نہ اقامت۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
شَھِدتْ مَعَ رَسْولِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصَّلَاۃَ یَومَ العِیدِ، فَبَدَاَ بِالصَّلَاۃِ قَبل الخْطبَۃ بِغَیرِ اَذَانٍ وَلَا اِقَامَۃٍ.
’’میں عید کے دن نماز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حاضر تھا۔ پس آپ نے اذان اور تکبیر کے بغیر خطبہ سے قبل عید کی نماز پڑھی

()

ج133 اگر امام تکبیرات سے فارغ ہوچکا ہو، خواہ قرآت شروع کی ہو یا نہ کی ہو، بعد میں آنے والا مقتدی تکبیرِ تحریمہ کے بعد زائد تکبیریں بھی کہہ لے اور اگر امام رْکوع میں جاچکا ہے اور یہ گمان ہو کہ تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رْکوع میں شامل ہوجائے گا تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد کھڑے کھڑے تین تکبیریں کہہ کر رْکوع میں جائے، اور اگر یہ خیال ہو کہ اتنے عرصے میں امام رْکوع سے اْٹھ جائے گا تو تکبیرِ تحریمہ کہہ کر رْکوع میں چلا جائے، اور رْکوع میں رْکوع کی تسبیحات کے بجائے تکبیرات کہہ لے، ہاتھ اْٹھائے بغیر، اور اگر اس کی تکبیریں پوری نہیں ہوئی تھیں کہ امام رْکوع سے اْٹھ گیا تو تکبیریں چھوڑ دے امام کی پیروی کرے، اور اگر رکعت نکل گئی تو جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رکعت پوری کرے گا تو پہلے قر?ت کرے، پھر تکبیریں کہے، اس کے بعد رْکوع کی تکبیر کہہ کر رْکوع میں جائے۔

()

ج133 اگر غلطی ایسی ہو کہ جس سے نماز فاسد نہیں ہوتی تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اور فقہاء نے لکھا ہے کہ عیدین میں اگر مجمع زیادہ ہو تو سجدہ سہو نہ کیا جائے کہ اس سے نماز میں گڑبڑ ہوگی۔

()

ج133 نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرلیا جائے، بشرطیکہ پیچھے مقتدیوں کو معلوم ہوسکے کہ سجدہ سہو ہو رہا ہے، اور اگر مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے گڑبڑ کا اندیشہ ہو تو سجدہ سہو بھی چھوڑ دیا جائے۔

()

ج۔۔ نیت باندھ کر پہلے زائد تکبیرات کہہ لے۔ امام کو رکوع میں پایا تو اگر رکوع نکل جانے کا اندیشہ نہ ہو تو پہلے زائد تکبیرات کہے، پھر رکوع میں جائے اور اگر رکوع نکل جانے کا اندیشہ ہو تو تکبیرہ تحریم کہہ کر رکوع میں چلا جائے
اور ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع ہی میں تینوں تکبیرات کہہ لے اور رکوع کی تسبیح ’’سبحان ربی العظیم‘‘ بھی پڑھ لے، دونوں کا جمع کرنا ممکن نہ ہو تو صرف تکبیرات کہے، تسبیحات چھوڑ دے، تکبیرات واجب اور تسبیحات سنت ہیں، اگر تکبیرات پوری کہنے سے پہلے ہی امام نے رکوع سے سر اٹھا لیا تو بقیہ تکبیرات چھوڑ کر امام کا اتباع کرے۔
اگر امام کو دوسری رکعت میں پایا تو بعینہ وہی تفصیل ہے جو اوپر درج کی گئی۔ البتہ امام کے سلام کے بعد جب فوت شدہ رکعت ادا کرے گا تو پہلے قراء ت کرے، پھر تکبیرات کہے۔ 
اگر کسی کی دونوں رکعتیں نکل گئیں، سلام سے پہلے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر حسب قاعدہ دونوں رکعتیں پڑھے اور تکبیرات اپنے اپنے مقام پر یعنی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد قراء ت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قراء ت کے بعد رکوع سے پہلے کہے۔ 
دوسری رکعت میں تکبیرات کو قراء ت سے موخر کرنا واجب نہیں: 
دوسری رکعت میں تکبیرات زائدہ کو قراء ت سے موخر کرنا اولی ہے، واجب نہیں۔

 

()

ج133 یہ سنت نہیں، محض لوگوں کی بنائی ہوئی ایک رسم ہے، اس کو دین کی بات سمجھنا، اور نہ کرنے والے کو لائقِ ملامت سمجھنا بدعت ہے۔
 

()

ج133 عید کا خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے، دْعا بعض حضرات نماز کے بعد کرتے ہیں اور بعض خطبہ کے بعد، دونوں کی گنجائش ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور فقہائے اْمت سے اس سلسلے میں کچھ منقول نہیں۔
 

()

ج 133 133 اگر کئی آدمیوں کی نماز عید رہ گئی تو وہ کسی دوسری مسجد یا عید گاہ میں جہاں پہلے عید کی نماز نہ ہوئی ہو اپنی الگ جماعت کر کے نماز عید پڑھ سکتے ہیں، ایسی مسجد یا عید گاہ نہ ملے تو کسی دوسری جگہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

()

ج133 ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی صبح سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر نماز فرض کے بعد ہر بالغ مرد اور عورت پر تکبیراتِ تشریق واجب ہیں، تکبیرِ تشریق یہ ہے کہ ہلکی بلند آواز سے یہ کلمات پڑھے: ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد۔‘

()

ج133 قرآن و حدیث یا اکابر کے ارشادات سے اس خیال کی کوئی سند نہیں ملتی، اس لئے یہ خیال محض غلط اور توہم پرستی ہے، جمعہ بجائے خود عید ہے، اور اگر جمعہ کے دن عید بھی ہو تو گویا ’’عید میں عید‘‘ ہوگئی، خدا نہ کرے کہ کبھی عید بھی مسلمانوں کے لئے بھاری ہونے لگے۔

()

ج133 عید کے روز اگر عیدی کو اسلامی عبادت یا سنت نہیں سمجھا جاتا، محض خوشی کے اظہار کے لئے ایسا کیا جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔

()

ج۔۔جی نہیں! عیدکے دن روزہ رکھنا جائز نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نَہی رَسْولْ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَن صِیَامِ یَومَینِ : یَومِ الفِطرِ وَ یَومِ الَضحَی.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو دنوں عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘

 

()

جواب :سلام کہنا سنت ہے، اور اس کا جواب دینا واجب ہے، جو پہلے سلام کرے اس کو بیس نیکیاں ملتی ہیں اور جواب دینے والے کو دس۔ غیرمسلم کو ابتدا میں سلام نہ کہا جائے اور اگر وہ سلام کہے تو جواب میں صرف ‘‘وعلیکم’’ کہہ دیا جائے۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: صحیح بخاری (ج:۲ ص:۶۲۹) میں حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
‘‘علمنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم التشھد وکفّی بین کفّیہ‘‘ 
ترجمہ:مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سکھائی، اور اس طرح سکھائی کہ میرا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔’’
اِمام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث ‘‘باب المصافحۃ’’ کے تحت ذکر فرمائی ہے، اور اس کے متصل ‘‘باب الاخذ بالیدین’’ کا عنوان قائم کرکے اس حدیث کو مکرّر ذکر فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنتِ نبوی ہے، علاوہ ازیں مصافحہ کی رْوح، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے تحریر فرمایا ہے:
اپنے مسلمان بھائی سے بشاشت سے پیش آنا، باہمی اْلفت و محبت کا اظہار ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص:۸۹۱)
اور فطرتِ سلیمہ سے رْجوع کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تواضع، انکسار، اْلفت و محبت اور بشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیں پائی جاتی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)


جواب:سلام اور مصافحہ ان لوگوں کے لئے مسنون ہے جو باہر سے مجلس میں آئیں۔ فجر و عصر کے بعد سلام اور مصافحہ کا جو رواج آپ نے لکھا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے یہاں اس کا معمول نہیں تھا، لہٰذا یہ رواج بدعت ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

سوال:میں کئی مرتبہ اخبار ‘‘جنگ’’ میں ‘‘فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم’’ کے عنوان کے تحت شائع ہونے والی حدیثوں میں ایک حدیث پڑھ چکا ہوں، جس کا لب لباب کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی محفل میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو صحابہ کرامؓ ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سخت ناپسند فرمایا اور اپنے احترام کے لئے کھڑے ہونے کو منع فرمایا۔
اب صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ آج کل کافی افراد اساتذہ یا بزرگوں یا پھر بڑے عہدوں پر فائز حکمراں افراد کے احترام میں کھڑے ہوکر استقبال کرتے ہیں، حدیث مبارکہ کی حقیقت سے انکار تو ممکن نہیں لیکن شاید ہم کم فہم لوگ اس کی تشریح صحیح نہ کرسکے ہیں۔ لہٰذا مہربانی فرماکر اس بات کی مکمل وضاحت فرمائیں کہ آیا کسی بھی شخص (چاہے وہ والدین ہوں یا ملک کا صدر ہی کیوں نہ ہو) کے لئے (اس حدیث کی روشنی میں) کھڑا ہونا جائز نہیں؟ یا پھر اس حدیث شریف کا مفہوم کچھ اور ہے؟

جواب:یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک یہ کہ کسی کا یہ خواہش رکھنا کہ لوگ اس کے آنے پر کھڑے ہوا کریں، یہ متکبرین کا شیوہ ہے، اور حدیث میں اس کی شدید مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ‘‘جس شخص کو اس بات سے مسرّت ہو کہ لوگ اس کے لئے سیدھے کھڑے ہوا کریں، اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔’’
بعض متکبر افسران اپنے ماتحتوں کے لئے قانون بنادیتے ہیں کہ وہ ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوا کریں، اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کی شکایت ہوتی ہے، اس پر عتاب ہوتا ہے اور اس کی ترقی روک لی جاتی ہے، ایسے افسران بلاشبہ اس ارشادِ نبوی کا مصداق ہیں کہ: ‘‘انہیں چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائیں۔’’
اور ایک یہ کہ کسی دوست، محبوب، بزرگ اور اپنے سے بڑے کے اکرام و محبت کے لئے لوگوں کا ازخود کھڑا ہونا، یہ جائز بلکہ مستحب ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمد پر کھڑے ہوجاتے تھے، ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے تھے اور ان کو اپنی جگہ بٹھاتے تھے، اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر کھڑی ہوجاتیں، آپ کا دست مبارک پکڑ کر چومتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (مشکوٰۃ ص:۲۰۴) یہ قیام، قیامِ محبت تھا۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضراتِ انصار رضی اللہ عنہم سے فرمایاتھا۔
‘‘قوموا الٰی سیّدکم! متفق علیہ۔’’ 
یعنی اپنے سردار کی طرف کھڑے ہوجاو۔ یہ قیام اِکرام کے لئے تھا۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہم سے گفتگو فرماتے تھے، پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہراتؓ میں سے کسی کے دولت کدے میں داخل نہ ہوجاتے۔ 
یہ قیام تعظیم و اِجلال کے لئے تھا، اس لئے مریدین کا مشائخ کے لئے، تلامذہ کا اساتذہ کے لئے اور ماتحتوں کا حکامِ بالا کے لئے کھڑا ہونا، اگر اس سے مقصود تعظیم و اِجلال یا محبت و اِکرام ہو تو مستحب ہے، مگر جس کے لئے لوگ کھڑے ہوتے ہوں اس کے دِل میں یہ خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ لوگ کھڑے ہوں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: آپ کی ٹریننگ کا یہ اْصول کہ سینٹر میں داخل ہوتے وقت یا باہر سے آنے والے اساتذہ وغیرہ کے سامنے رْکوع کی طرح جھکنا پڑتا ہے، شرعی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کرتے وقت جھکنے کی ممانعت فرمائی ہے، چہ جائیکہ مستقل طور پر اساتذہ کی تعظیم کے لئے ان کے سامنے جھکنا اور رْکوع کرنا جائز ہو۔ حدیث شریف میں ہے، جس کا مفہوم ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ‘‘ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی یا دوست سے ملے تو اس کے سامنے جھکنا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں!
مجوسیوں کے یہاں یہی طریقہ تھا کہ وہ بادشاہوں، امیروں اور افسروں کے سامنے جھکتے تھے، اسلام میں اس فعل کو ناجائز قرار دیا گیا۔ ٹریننگ کا مذکورہ اْصول اسلامی اَحکام کے منافی ہے، لہٰذا ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ وہ فوراً اس قانون کو ختم کریں۔ اگر وہ اسے ختم نہیں کرتے تو طلباء کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس سے انکار کریں، اس لئے کہ خدا کی ناراضی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔

()

جواب: وعلیکم السلام کہنے میں عار نہیں بلکہ جو شخص السلام علیکم کہنے میں پہل کرے، اس کے جواب میں ‘‘وعلیکم السلام’’ کہنا واجب ہے۔ غلط رواج کی اصلاح یوں ہوسکتی ہے کہ اگر دونوں ایک ساتھ سلام کہہ دیں تو دونوں ایک دْوسرے کے جواب میں ‘‘وعلیکم السلام’’ کہا کریں، اور اگر ایک پہلے ‘‘السلام علیکم’’ کہہ دے تو دْوسرا صرف ‘‘وعلیکم السلام’’ کہے۔

()

جواب: عیدین کا معانقہ کوئی دِینی، شرعی چیز تو ہے نہیں، محض اظہارِ خوشی کی ایک رسم ہے، اس کو سنت سمجھنا صحیح نہیں، اگر کوئی شخص اس کو کارِ ثواب سمجھے تو بلاشبہ بدعت ہے، لیکن اگر کارِ ثواب یا ضروری نہ سمجھا جائے محض ایک مسلمان کی دِلجوئی کے لئے یہ رسم ادا کی جائے تو اْمید ہے گناہ نہ ہوگا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب:عید کے بعد مصافحہ یا معانقہ کرنا محض ایک رواجی چیز ہے، شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں، اس لئے اس کو دِین کی بات سمجھنا بدعت ہے، لوگ اس دن گلے ملنے کو ایسا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اس رواج پر عمل نہ کرے تو اس کو بْرا سمجھتے ہیں، اس لئے یہ رسم لائقِ ترک ہے۔

()

جواب:بڑے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے، مگر بڑے کو دِل میں یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں، اس حدیثِ پاک کا یہی محمل ہے۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ فرض نماز باجماعت، تلاوتِ قرآن اور استغفار کی کثرت کا اہتمام کریں، گھر والوں کو بھی اس کی تاکید کریں اور درج ذیل اعمال بھی کریں، ان شاء اللہ کوئی آپ کا اور گھر والوں کا بال بیکا نہیں کر سکے گا: 1۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے " منزل" کے نام مختلف قرآنی دعاؤں پر مشتمل مختصر سا رسالہ مرتب کیا ہے، جو بازار میں عام ملتا ہے، روزانہ ایک بار ان آیات کا پڑھ لیں اور اسے اپنی زندگی کا معمول بنالیں. 2۔ یہ دو دعائیں کثرت سے پڑھیں : حَسبْنَا اللہْ وَنِعمَ الوَکِیل نِعمَ المَولیٰ وَنِعمَ النَّصِیر اور اللھم استْر عَورَاتِنَا وآمِن رَوعَاتِنَا.
پڑھتے وقت ان کاترجمہ ذہن میں رکھیں اور دعا کی طرح اللہ کریم سے مانگیں۔

()

ج : واضح رہے کہ بچے کی جنس معلوم کرنے کے لیے جستجو پسندیدہ عمل نہیں۔بچے کی جنس جو بھی ہو وہ دنیا میں آکر ہی رہے گا اور اگر جنس معلوم کرنے کے لیے الٹرا ساؤنڈ کرایا جائے اور اس کے لیئے ستر کھولنا پڑے تو یہ ناجائز عمل ہے ۔رہی سورہ لقمان کی آیت نمبر ۳۴ ،جس میں ارشاد باری تعالی ہے: ویعلم ما فی الارحام کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے، آیت سے مراد بچہ کی جنس کا علم نہیں بلکہ آیت غیبی امور پر دلالت کرتی ہے۔بچے کے غیبی امور یہ ہیں، ماں کے پیٹ میں کتنی مدت رہے گا، اس کی زندگی کتنی ہے، عمل کیسے ہوں گے، رزق کتنا ہوگا، نیک بخت ہے یا بدبخت، اور تخلیق مکمل ہونے سے پہلے بچہ ہے یا بچی۔ لیکن خلقت مکمل ہوجانے کے بعد یہ پتہ چل جانا آیا وہ بچہ ہے یا بچی تو یہ علم غیب میں سے نہیں کیونکہ اس کی خلقت مکمل ہوجانے کے بعد یہ علم ، علم الشہادۃ میں آچکا ہے۔واللہ اعلم۔

()

ج : آپ کے والد نے اپنی زندگی میں آپ کی شادی پر جو کچھ روپیہ پیسہ اپنی مرضی سے خرچ کیاتھا، بطور ادھار یا قرض نہیں دیا تھا،اس کا لوٹانا آپ کے ذمے نہیں ہے، اسی طرح جو زیور بنا کر آپ کو ان کا مالک بنا دیا ہے، آپ ان کے مالک ہیں اور ان میں آپ کی والدہ یا آپ کی بہن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

()

ج : مذکورہ معاملے کاتعلق باہمی معاہدے سے ہے اس لیے جو معاہدہ ہواہو اسی کے مطابق عمل درآمدکرنا چاہیے۔اگر کوئی معاہدہ نہ ہوتو اسکولوں کے رواج کے مطابق اگر فیس لی جاتی ہے تو ادائیگی واجب ہے۔فقط واللہ اعلم

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب۔حق تعالیٰ شانہ، بلا شبہ قادر مطلق ہے، اور ہرچیز پر قادرہے۔ مگر سوال میں یہ منطقی مغالطہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی سے عاجز فرض کرکے سوال کیا گیا ہے۔ کیونکہ کسی پتھر کو نہ اْٹھا سکنا عجز ہے۔ اور اللہ تعالیٰ عجز سے پاک ہے۔ پس جب ایسے پتھر کا وجود ہی ناممکن ہے تو اس کی تخلیق کا سوال ہی غلط ہے۔قدرت الہٰیہ ممکنات سے متعلق ہوتی ہے۔ محالات سے متعلق نہیں ہوتی۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب۔صحیح روایات کی رو سے بروز قیامت ہر شخص کو خود اس کے اور اس کے والد کے نام سے پکارا جائے گا۔ ماں کے نام سے پکارنے کا کسی صحیح اور مستند روایت میں تذکرہ نہیں ملتا۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب ۔اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ ’’خدا‘‘ کا استعمال جائز ہے۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں ’’عجمی سازش‘‘ نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ عربی میں لفظ رب ،مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ’’خدا‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جس طرح لفظ ’’رب‘‘ کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا اسی طرح لفظ ’’خدا‘‘ جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پرہوتاہے۔ کسی دوسرے کو ’’خدا‘‘ کہنا جائز نہیں۔
’’اللہ‘‘ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتاہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ ’’صفاتی نام‘‘ ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے۔ اور ہوتاہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ ’’خدا‘‘’’صاحب‘‘اور ’’مالک‘‘ کے معنی میں ہے۔ اور لفظ’’رب‘‘ کے مفہوم کی ترجمانی کرتاہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ ’’رب‘‘ کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائیگا؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ ایسی خودرائی سے اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھیں۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :صورت مسؤلہ میں کمرشل پلاٹ چونکہ حکومت کی ملکیت میں ہے لہٰذاآپ کے لیے صرف اپنا مکان بیچنا جائز ہے، کمرشل پلاٹ کو فروخت کرنا درست نہیں ہے۔ اور جو رقم بچوں نے کمرشل پلاٹ کی تعمیر میں لگائی ہے وہ چونکہ حکومت کی اجازت کے بغیر لگائی ہے ،لہٰذا اب وہ اس رقم کا تقاضا اور مطالبہ کسی سے نہیں کرسکتے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:۔ نماز میں تشھد پڑھتے ہوئے انگلی اٹھا نا متعدد شرعی نصوص سے ثابت ہے،اسی وجہ سے اس پر امت کا تسلسل کے ساتھ عمل چلا آرہا ہے ، حدیث اور فقہ کی تقریباً ہر کتاب میں اس کا ثبوت اور سنت ہونا واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔اس سلسلے میں اگر کسی قسم کا شک وشبہ بھی اگر کبھی پیدا ہوا ہو تو اس کا جواب بھی تفصیلی طور پر دیا گیا ہے،علامہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی سندھی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ٹھوس وقیع رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے،جس کا نام’’نورالعینین فی اثبات الاشارۃ فی التشھدین‘‘رکھا ہے،یہ رسالہ اگرچہ تاحال طبع نہیں ہوا مگر ہمارے پاس اس کا مخطوطہ موجود ہے،اور اس پر تحقیق و تخریج ہو چکی ہے ،رسالہ عربی زبان میں ہے، اہل علم کے فائدے کے لیے طباعت کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ہم یہاں پر ترمذی شریف کی ایک رویت نقل کرنے پر اکتفاکرتے ہیں ’’حضرت عباس بن سہل الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوحمید،ابواسید،سہل بن سعداور محمد بن مسلم رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا ،تو ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں،بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے (یعنی تشھد کے لیے) اور انہوں نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور دائیں پاؤں کا اگلا حصہ قبلہ رخ فرمایا اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پر رکھی اور بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر،اور اپنی انگلی سے اشارہ کیا (یعنی شھادت والی انگلی سے اشارہ کیا)۔امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(ترمذی شریف :38۔1)
مزید تفصیل کے لیے اہل علم حضرات اعلاالسنن،سنن ابی داؤد،سنن نسائی،سنن ابن ماجہ،بدائع الصنائع اور فتاویٰ شامی کی متعلقہ مباحث میں تفصیلات ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
ا

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:1۔ صورت مسؤلہ میں دفتر میں اکیلے نماز پڑھے تواذان و اقامت مستحب ہے البتہ دونوں کے بغیر بھی نماز جائز ہوجائے گی۔
2۔ وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ سوائے مغرب کے اور نمازوں میں کچھ تاخیرکرنامستحب ہے۔
3۔خواتین اذان ہوتے ہی نماز پڑھ لیا کریں، جماعت ہوجانے کا انتظارکرنا ضروری نہیں۔
4۔ فوت شدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہیں تو غالب گمان پر عمل کریں اگر کوئی غالب رائے نہ بنتی ہوتوپھر اتنی قضا نمازیں پڑھیں کہ یقین ہوجائے کہ اب کو ئی نماز ذمے باقی نہیں ہوگی۔
5۔عین طلوع،عین غروب اور دن کے بالکل بیچ کے وقت میں جس کو نصف النھار کہتے ہیں کوئی نماز،سجدہ تلاوت ،نماز جنازہ وغیرہ جائز نہیں سوائے اس دن کی عصرکی نمازکے،وہ غروب کے وقت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :مسجد میں نماز کے لیے بیٹھے ہوئے لوگوں پر جمعہ کی دوسری اذان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ اگر دینا چاہیں تو بغیر آواز کے جواب دے سکتے ہیں
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :لفظ " ض" کو صحیح ادا کرنے کے لیے ماہرِ تجوید قاری کی ضرورت ہوتی ہے ،اس کا صحیح فرق براہِ راست مشق ہی سے سمجھا جا سکتا ہے ،البتہ عوام کو یہ معلوم ہونا کافی ہے کہ لفظ "ض" کی ادائیگی میں "ظ" کی آواز نکلے یا"د"کی دونوں صحیح ہیں اور دونوں طرح پڑھنے والوں کی نمازہو جاتی ہے یہ دونوں لفظ عربی کے ہیں ،نماز میں غیر عربی قرأت جائز نہیں ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:حدیث شریف میں ان دعاؤں کا پڑھنا ثابت ہے لہٰذا صورت مسؤلہ میں نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے الفاظ پڑھ سکتے ہیں ،اسی طرح سجدے میں سبحان ربی الاعلیٰ کے بعد اور تشہد کے آخر میں کوئی بھی دعایا ایک سے زائد دعائیں عربی زبان میں مانگ سکتے ہیں،البتہ اگر امام ہوتو پھر مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے مذکورہ دعائیں نہ مانگے تو کوئی حرج نہیں۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :صورت مسؤلہ میں مشترکہ غسل خانہ اوربیت الخلاجس میں داخل ہونیکے لیے ایک ہی دروازہ ہوتاہے اس قسم کے غسل خانوں میں وضو کے دوران جودعائیں پڑھی جاتی ہیں وہ نہ پڑھی جائے کیونکہ یہ بیت الخلامیں پڑھنا شمارہوگااوربیت الخلا میں اذکار پڑھنے سے شریعت نے منع کیا ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:واضح رہے کہ احادیث میں دعاؤں کی جو برکات اور فضائل وارد ہوئے ہیں وہ ہر شخص کو بقدر یقین حاصل ہوتے ہیں۔ جتنا اس شخص کا ان کے صحیح ہونے پر یقین ہوگا اتنے ہی فضائل اس کو حاصل ہوں گے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دعاؤں کے ذریعے حفاظت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا دعاؤں اور معوذات کے موثر ہونے میں پختہ یقین تھا۔ لہذا جن دعاؤں سے آپ کو مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے دکھائی نہیں دیتے اس میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پڑھنے میں اور اس پر یقین و اعتقاد رکھنے میں کوتاہی ہوتی ہے۔ باقی دعاؤں کے بارے میں جو فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے وہ سو فیصد درست اور سچ ہے۔ 
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:1۔ بچوں کا پیشاب، پاخانہ دھلانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ 
2۔ اولاً تو اتنے چھوٹے بچوں کو جو مسجد اور نماز کے آداب سے واقف نہ ہوں مسجد لے جانا منع ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صراحۃً اس سے منع فرمایا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی پیمپر پہنے بچے کو گود میں اٹھا کر نماز پڑھتا ہے جب کہ اس پیمپر کے ناپاک ہونے کا یقین یا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ہوجائے گی۔ 

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

سنت اور حدیث میں فرق
سوال :میں نے ایک دیوبندی اہلسنت عالم ڈاکٹر علامہ خالد محمود حفظہ اللہ صاحب کا درس سنا، انہوں نے فرمایا کہ" ہر حدیث قابل اتباع یا قابل عمل نہیں ہوتی جو حدیث سنت کے درجے کو نہ پہنچے اس پر عمل جائز نہیں"۔انہوں نے کہا کہ" حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے مگر سنت کبھی ضعیف نہیں ہوتی"۔ نیز فرمایا کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث علم کا ذخیرہ ہیں اور ان کے اندر "سنت" کی تلاش یہ علم اور فقہ کا کام ہے"۔کیا مذکورہ عالم صاحب کا حدیث اور سنت میں یہ فرق کرنا درست ہے ؟ مجھے چند مثالوں سے سمجھا دیجیے۔ کیا أئمہ سلف یعنی حضرات صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین وغیرہ بھی حدیث اور سنت میں اس طرح کا فرق کیا کرتے تھے۔کیا صرف اہلسنت دیوبندی ہی حدیث اور سنت میں مذکورہ فرق کرتے ہیں یا تمام متقدمین محدثین اور ائمہ اہلسنت اور عصر حاضر میں اہل سنت کے دوسرے مسالک بھی اس فرق کو تسلیم کرتے اور بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم کی کونسی بات سنت ہے یہ حدیث مبارکہ ہی سے پتہ چلے گی۔ ایک عمل کو نبی اکرم کی سنت کہا جائے مگر وہ حدیث سے ثابت نہ ہو ، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟

جواب:۔ مذکورہ عالم دین کا حدیث اور سنت کے درمیان فرق کرنا درست ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور بچہ اٹھایا ہواتھا،اسی طرح ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ (کسی وجہ سے) کھڑے ہو کرپیشاب فرمایا،مگریہ دونوں باتیں حدیث سے ثابت ہونے کے باوجود سنت نہیں کہلاتیں، کیونکہ سنت کا معنیٰ ہے "چلنے کا راستہ" اورچلنے کا راستہ وہی ہوتا ہے جس پر بار بار چلا جائے، اس پر آنا جانا معمول کا حصہ ہو، مذکورہ دونوں عمل معمول کا حصہ نہیں تھے اسی لیے انہیں سنت نہیں کہا گیا۔
یہ فرق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر عصرِحاضر کے علماء تک ملحوظ رہا ہے ۔ہمارے علم کے مطابق اس فرق کو تمام مسالک کے حضرات تسلیم کرتے ہیں، اس قسم کے فرق کو سمجھنے کے لیے جو فطری فہم اور ایمانی فراست درکارہوتی ہے اسی کا نام علم اور فقہ ہے۔قرأن ،حدیث اور علم فقہ کا منبع ایک ہی ہے ،الگ الگ تقسیم کرنا اور سمجھنا غلط ہے ان کی باہمی نسبت بالکل ایسی ہے جیسے دودھ، دھی اور مکھن ، اگر ایک حقیقت سے نکلی ہوئی ان مختلف چیزوں میں تضاد نہیں سمجھا جاسکتا تو قران، حدیث اور فقہ میں بھی تضاد سمجھنا سنگین غلطی ہوگی۔ پس ہر سنت کا حدیث سے ثابت ہونا ضروری ہے مگر ہر حدیث کا سنت ہونا ضروری نہیں۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب : لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ طلوعِ فجر تک عشا کا آخری وقت باقی رہتا ہے اگر کسی شخص نے عشا کی نماز نہیں پڑھی اور سوگیا پھر طلوعِ فجر سے پہلے پہلے عشاکی نماز پڑھ لے تو وہ نمازادا شمارہوگی ،قضا شمار نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ عشاکا آخری وقت ہے۔البتہ آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے اس لیے آدھی رات سے پہلے عشاکی نماز پڑھ لیا کرے تاکہ کراہت نہ ہو۔
 

()

جواب :جو نام خلاف شرع ہوں مثلاً معنی اس کا نامناسب ہو جیسے عاصیہ(گناہ گار) یا عجب اور خودرائی وغیرہ کا اظہار اس سے ہوتا ہو، جیسے برّہ (نیکوکار) تو اس طرح کے ناموں کا بدلنا احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ وہ نام جن کا معنی اچھا ہو تو کشیدگی اور بیماریوں سے بچنے کے لیے ان کا بدلنا درست نہیں، بلکہ توہم پرستی میں داخل ہے۔ صورت مسؤلہ میں سائل کے بچوں کے نام محمد عبد الرحمٰن اور آمنہ بھی اچھے اور پسندیدہ نام ہیں ان کو بدلنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بعد کے تجویز کردہ دونوں نام صحیح اور بابرکت ہیں لیکن اس تبدیلی کا جو مقصد ہے وہ توھم پرستی معلوم ہوتا ہے، اس پر توبہ و استغفار کیا جائے اور آئندہ کے لیے اس قسم کے فیصلے کرنے سے پہلے استفسار کیا جائے، نہ کہ بعد میں۔***

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:زندیق کالفظ دراصل قدیم ایران میں استعمال ہوتا تھا۔ زندیق کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص زبان سے تو اسلام کا اظہار کرے زبان سے اسلامی اصطلاحات اور اسلامی تعلیمات سے وابستگی کا اقرار کرے لیکن اسلامی اصطلاحات اور اسلامی تعلیم کو وہ معنی پہنائے جو اسلام میں نہیں ہیں۔ ایسا آدمی چونکہ حضور ﷺ کے زمانے میں نہیں پایا جاتا تھا اس زمانہ میں لوگ یا مکمل طور پر مسلمان ہوتے تھے یا نہیں ہوتے تھے یامنافق ہوتے تھے اس کے بر عکس آدمی جو زبان سے اظہار کرے کہ میں مسلمان ہوں زبان سے قرآن کو بھی مانتا ہو یا نما ز، روزے کو بھی مانتا ہو لیکن ان سب اصطلاحات اور احکام کی تعبیر وہ کرے جو قرآن اور سنت کے خلاف ہو ایسا آدمی بعد میں پیدا ہوا۔ بعد میں اس طرح کے بہت سے لوگ سامنے آئے اور یہ باطینت کا ایک مظہر تھا۔ باطنیوں کی کوشش رہی ہے کہ اسلام کی وہ تعبیریں کی جائیں کہ جو مسلمان خالی الذہن ہیں یا اسلام کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے وہ گمراہی کا شکار ہو جائیں ان کو اسلام سے براہ راست بر گشتہ کرنے کے بجائے جو ذرا مشکل کام تھا بالواسطہ طور پر اسلام سے بر گشتہ کر دیا جائے اور اسلام کی تعلیم کو وہ معنیٰ پہنادیے جائیں جو اسلام میں نہیں ہیں۔ مثلاًنماز کے یہ معنیٰ کہ اللہ کو یاد کرنا کافی ہے پانچ وقت اٹھک بیٹھک کرنے کی ضرورت نہیں۔ روزے کے یہ معنی کہ آپ غیر ضروری خواہشات سے بچیں۔ پو را دن بھوکا رہنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کی تعبیرات ان لوگوں کو بہت پسند آتی ہیں جن کے دل میں پہلے سے چور ہو یا جن کا ایمان پختہ نہ ہو۔ آزادی فکر کے نام پر اس طرح کی تعبیرات کی اگر اجازت دے دی جاتی تو اسلام کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ اس لئے یہ اصطلاح زندیق کی اختیار کی گئی زندیق کی اصطلاح استعمال کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ایسے لوگوں کی تشخیص کی جائے ان کو identifly کیا جائے ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: متکلمین کی اصطلاح میں تقدیر مبرم سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جس میں انسان اپنے فیصلے سے کوئی تبدیلی نہیں کرسکتاہے مثلاً انسان کی موت کا وقت مقرر ہے انسان کی عمر مقرر ہے کوئی انسان چاہے کہ اپنی عمر میں اضافہ کر لے یا کمی کر لے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں فیصلہ کیا ہے کہ فلاں جگہ پیدا ہوں گا فلاں ماں باپ کے ہاں پیدا ہوں گافلاں جگہ مروں گا میں اپنے بارے میں کوئی فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتا اس طرح کے معاملات تقدیر مبرم کہلاتے ہیں۔
اس کے بر عکس جن معاملات میں میرے فیصلے یاchoiceسے فرق پڑتا ہے وہ تقدیر معلق ہے یہ محض اصطلاح کا فرق ہے ورنہ قرآن میں کوئی ایسی اصطلاحا ت نہیں آئیں اور نہ حدیث میں آئیں نہ متقدمین کے ہاں ملتی ہے بلکہ بعد والوں کے ہاں ملتی ہیں۔ تقدیر معلق کابدا ء سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بداء کا تصورجو شیعہ کلام میں پایا جاتا ہے وہ مختلف ہے بداء کا تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوجزوی واقعات کا علم پہلے سے حاصل نہیں ہے یہ علم ان کو ان جزوی واقعات کے وقوع پذیر ہوجانے کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو کائنات کے ایک ایک ذرے کا علم ہے ۔جب سوال یہ پیدا ہوا تو بعض حضرات خاص طور پر فلاسفہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو کلیات کا علم تو ہے جزئیات کا علم نہیں ہے میرے جیب اگر چار سکے ہیں تو چوتھا سکہ کون سا ہے؟ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کواس کا علم نہیں ہے ۔اس کو صرف کلیات کا علم ہے کہ ایک محمود غازی ہے اس کے پاس اتنے پیسے ہیں فلاں جگہ کام کرتا ہے یہ وہ بات جانتا ہے لیکن یہ تفصیلات جو میرے بارے میں ہیں یہ نعوذباللہ اس کے علم میں نہیں ہیں کچھ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور اس زمانے کی عقلیات کے لحاظ سے وہ اسی لغو نتیجے پر پہنچے ہیں جب یہ تصور ایک بار ایک حلقہ میں عام ہوگیا تو پھر یہ سوال پیدا ہو ا اللہ تعالیٰ جو بہت سے فیصلے کرتا ہے و ہ نعو ذباللہ اس مفروضے پر کرتا ہے اور نقل کفر، کفر نہ با شد بہت سی جزئیات اس کے علم میں نہیں ہیں بعد میں جب حکم دینے کے بعد پتا چلتا ہے کہ چونکہ جزئیات سامنے نہیں تھیں اس لئے غلط نتیجہ نکلا تو پھر اللہ تعالیٰ اس پر نظر ثانی کرتا ہے اس نظر ثانی کے عمل کو بدا ء کہتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ ایک غلط بات ہے اور بالبداہت غلط ہے لیکن چونکہ یہ لغو خیا ل اس زمانے میں ایک طبقہ میں پھیل گیا تھا اس لئے کچھ لوگ اس سے متاثر بھی ہو گئے تھے اس زمانے میں چونکہ لوگ اس کے قائل ہو ئے کہ خالق کائنات کو جزئیات اور انفرادی واقعات کا علم نہیں ہوتا ان میں بعض بڑے بڑے فلاسفہ بھی شامل ہیں جنہوں نے عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا علم صرف کلیات تک محدود ہے جزئیات تک محیط نہیں ہے۔ انہوں نے جن عقلی دلائل سے یہ بات کہی تھی آج وہ عقلی دلائل مضحکہ حیز معلوم ہوتے ہیں لیکن اس زمانے میں یہ بہت state of۔the۔art قسم کی چیزیں مانی گئیں یہ بات ایک زمانے میں عام تھی اور جو دلائل دیے گئے تھے وہ سب ایک ہی طرح کے تھے مثلاً ایک دلیل دی گئی کہ اگر بادشاہ ہو اور اس کی سلطنت میں دس لاکھ آدمی ہوں تو بیک وقت وہ دس لاکھ آدمیوں سے کیسے مخاطب ہو سکتا ہے وہ اپنے گو رنروں سے مخاطب ہو گا ولی سے مخاطب ہو گا گورنر نائب گورنر سے مخاطب ہو گا وہ فلاں سے ہو گا اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کرتا ہے کہ وہ کلیات سے رابطہ رکھتا ہے اور کلیات کے ذریعے جزئیات تک پہنچاجاسکتا ہے یہ بات آج بالبداھت کمزور اور غلط معلوم ہوتی ہے۔ 
جزئیات سے رابطہ اور ایک ایک آدمی کی بابت ہر بات کی بیک وقت اطلاع ہونا یہ بہت آسان بات ہے کئی سال پہلے میں انگلستان گیا تومیں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ وہاں انفرادی طور پر ہزاروں لاکھوں آدمیوں سے بیک وقت رابطہ رکھنے کا ایک نظام ہے اگر آپ انگلستان کہیں جانا چاہتے ہیں تو آپ کمپیوٹر سے اپنا ایڈریس وہاں نوٹ کروادیں کمپیوٹر آپ کو گائیڈ کرتا رہے گا کہ آپ سڑک کے دائیں ہو جائیں پھر آپ مین روڈ پر جائیں پچاس میل کے بعد پھر دائیں مڑ جائیں بائیں مڑ جائیں پھر وہ آپ سے کہے گا کہ آپ دو سو میل چلیں دو سومیل کے بعد آپ فلاں سٹرک ایم یا ایم ۲ پر ہوجائیں اور اس طرح آپ گھر تک پہنچ جائیں گے اس وقت میں نے اپنے دوست سے جو مجھے لے کر جا رہے تھے کہا کہ مجھے وہ جزئیات کے علم والامسئلہ یاد آرہا ہے کہ کس طرح یہ کمپیوٹر(جی پی ایس) ایک ایک آدمی کو انگلستان میں اس وقت کتنی گاڑیو ں کو ایک ایک گھر تک پہنچا رہا ہے جب انسانوں کی بنائی ہوئی مشین یہ کر سکتی ہے تواللہ تعالیٰ کیوں نہیں کر سکتا؟ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: یقیناًاللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کون کیا کرے گا لیکن یہ با ت کہ اللہ کے علم میں کیاہے یہ میرے اور آپ کے علم میں نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کے علم میں ہے جو اچھے یا برے کام کریں گے۔ اگر کوئی اچھا کام کرنے والا ہے اور وہ نہیں کرتا ہے تو اللہ کے علم میں یہ بھی ہے کہ وہ نہیں کرے گا اصل میں اللہ کے علم اور اندازے میں کوئی تعارض اور فرق نہیں ہے ہمارے علم اور اندازے میں تعارض اور فرق ہوتا ہے قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ مستقبل میں کیا ہوگا؟ یہ اللہ کے علم میں ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اناکل شئی خلقنا بقدر تقدیر اور قدر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا مفہوم assesment ہے اندازے کا ہے ۔بطور ایک استاد کے میرا اندازہ یہ ہو تا ہے میں جس کلاس کو پڑھاتا ہوں اس میں کون پاس ہوگا او رکون فیل ہو گا؟ ۸۰ فیصد ایسے ہی ہو تا ہے لیکن جو پاس ہوتا ہے وہ اس لیے پاس نہیں ہو تا ہے کہ میرا انداز ہ تھا کہ وہ پاس ہو گا جو فیل ہو تا ہے وہ اس لئے فیل نہیں ہوتا کہ میرا اندازہ تھا کہ وہ فیل ہو گا۔ وہ اپنی گارگردگی کی وجہ سے فیل یا پاس ہو ئے ہیں لیکن چونکہ میں ان کو جانتا ہوں اس لئے میرا اندازہ سو فیصد درست ہو تا ہے ۔اس لیے اس نے تقدیر کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کے معنیٰ ہیں اندازہ کرنے کے ہیں وہاں مجبوری کا مفہوم کہیں نہیں ہے استاد لائق طالب علم کو فیل ہونے پر مجبورنہیں کرتا ایک اچھا ڈاکٹر اندازہ کرتا ہے کہ مریض اگر اسی طرح سے بے احتیاطی کرتا رہا تو اسکو یہ اور یہ نقصانات ہو سکتے ہیں او ر وہ اس کی اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے ہوں گے ڈاکٹر کے اندازہ کی وجہ سے نہیں ایک انجینئر کو اندازہ ہو تا ہے کہ اتنی اونچی عمارت جس میں اس طرح کا مواد لگایا گیا ہے اگر یہی مواد لگا کر یہ عمارت مقررہ حدود سے زیادہ اونچی کی جائے تو یہ گر جائے گی اب یہ عمارت انجینئر کی وجہ سے نہیں گرتی وہ اس مواد کی کمزوری کی وجہ سے گرتی ہے یہی بات اللہ تعالیٰ کے اندازے کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جو سو فیصد درست ہو تا ہے۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: عقل و نقل کے عنوان سے کوئی مستقل کتاب کسی نے لکھی ہو تو میرے علم میں نہیں ہے لیکن جن حضرات نے عقل و نقل کے تقابل پر کتابیں لکھی ہیں اس میں ایک نام مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ہے جن کی تین کتابیں مفید ہیں ایک المصالح العقلیہ ہے جو کسی عربی کتاب کا آزاد ترجمہ اور تلخیص ہے انہی کی ایک کتاب اور ہے جس کا انگریزی ترجمہ Answer to Modernismکے نام سے ہو ا ہے جس میں انہوں نے آج کل کے معاملات کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں بتا ئی ہیں کہ اسلامی نقطہ نظر کو Formulateکرتے ہوئے کن اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے ایک آدھ کتاب ان کی اور ہے کو ئی خاص کتاب آپ کے ذہن میں ہو تو میں نہیں جانتا۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: جدید علم کوئی ایسا علم نہیں ہے کہ اس کو ایک کتاب میں لکھا جائے۔ جدید علم تو ایک سمندر ہے اور اس کے کسی ایک فن میں مہارت پیدا کرنے کے لیے بہت کچھ محنت درکار ہے اس لئے میرے خیال میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہو سکتی جو جدید علم پر مبنی ہو اور سارا جدید علم اس میں آجائے۔ جدید علم کلام پر بھی کوئی ایک کتاب نہیں ہے مختلف کتابیں سامنے رکھنی پڑیں گئیں۔لیکن میرے خیال میں ایک بہت اچھی کتاب کبری الیقینات الکونیہ ہے یہ ڈاکٹر سعید رمضان البوطی کی تصنیف ہے شام کے بہت بڑے عالم ہیں ۔میرے خیال میں اسلام کے بنیادی عقائد کو جدید انداز میں ذاتی طور پر سمجھنے کے لئے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ اردو میں آسان کتاب میرے خیال میں علامہ شبلی کی الکلام اور علم الکلام ہے جو کہ اس موضوع پر بلاشبہ ایک اچھی کتاب ہے۔
ا

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: مولانا ادریس کاندھلوی بلا شبہ بہت بڑے عالم فاضل انسان تھے ان کے کلام پر میں کیا تبصرہ کرسکتا ہوں البتہ میں ایک عمومی اور اصولی بات عرض کر سکتا ہوں۔ مولانا ادریس کاندھلوی یا مولانا شبلی نعمانی یا مولانا محمد قاسم نانوتوی یا اس طرح کے اور اکابر کی کتابیں بہت اچھی اور بڑی فاضلانہ کتابیں ہیں۔ لیکن وہ قدیم علم کلام کو قدیم اسلوب میں بیان کرتی ہیں اس لئے وہ علم کلام کے مختص طلبہ کے لئے مفید ہیں لیکن وہ جدیدعلم کلام کے تقاضوں کو شاید اس حد تک پو رانہ کر سکیں جس حد تک کہ آج کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا ادریس کاندھلوی کی کتاب میں نے کئی بار پڑھی ہے بہت عالمانہ کتاب ہے ۔مولانا قدیم علم کلام کے بڑے ماہر تھے لیکن قدیم علم کلام کے جو اصول موضوعہ ہیں وہ آج کے اس نئے دور تعلیم یا فتہ کے لیے قابل فہم نہیں ہیں نہ آج کل کے انسان کے ذہن میں وہ سوال پیدا ہو تے ہیں اور نہ قدیم انداز کے جوابات سے وہ مطمئن ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آج کل قائد اعظم یونیورسٹی کا کوئی طالبعلم نہ وہ جوہر کوجانتا ہے اور نہ عرض کو نہ وہ حادث کی اصطلاح سے واقف ہے نہ قدیم تصور سے آشنا ہے یہ مسائل اس کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ یہ کیٹگر یزاب ختم ہو گئی ہیں آج یہ مسائل زیر بحث نہیں ہیں لٰہذا وہ علم کلام جو ان اساسا ت پر مبنی ہو وہ آج کے طالب علم کے لئے غیر مفید ہے۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: میرا خیال ہے کوئی بھی آدمی ایسا نہیں ہو تا کہ آپ اس کے خیالات سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوں۔ سید حسین نصر بہت بڑے عالم فاضل انسا ن ہیں اور مسلکاً شیعہ ہیں یہ میں بھی جانتا ہوں لیکن ان کے خیالات میں کوئی ایسیseious اور قابل اعتراض بات نہیں ہے کہیں کہیں شیعہ نقطہ نظر کو بیان کرتے ہیں جو فطری بات ہے کیونکہ وہ خودشیعہ ہیں لیکن عمومی طور پر مغربی فکر پر ان کی تنقید اور اسلامی عقائد کے بارے میں انکا بیان بہت متوازن اور قابل قبول ہو تا ہے۔ اس لئے میرے خیال میں ایک مغربی تعلیم یافتہ انسان کے سامنے اسلام کا موقف بیان کر نے میں جو کتابیں مفید ثابت ہو تی ہیں اس میں ان کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: ظاہری شریعت اور باطنی شریعت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔ جو حقیقت میرے ظاہر اور باطن کی ہے وہی شریعت کے ظاہر و باطن کی ہے۔ آپ میرے باطن کو میرے ظاہر سے الگ نہیں کر سکتے اگر الگ کر دیں گے تو میری شخصیت نامکمل رہ جائے گی۔ اسی طرح سے اگر شریعت کے ظاہر کو شریعت کے باطن سے الگ سمجھا جائے گا وہ نامکمل رہ جائے گی۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: شریعت اسلامی مقامی عادات و اطوار، علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کو ہر گز ختم نہیں کرتی وہ ان سب کو ایک شرط کے ساتھ اپنے نظام اجتماعی اور اپنے تہذیبی مثالیہ یا پیراڈائم میں سمو لیتی ہے وہ شرط یہ ہے کہ ان میں سے کوئی چیز شریعت کے احکام سے متعارض اور غیر اخلاقی نہ ہو۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: علم لدنی سے مراد یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کا خاص انعام کسی انسان کے اوپر ہوتا ہے اور اس کو خصوصی علم حاصل ہوجاتا ہے ہم خود دیکھتے ہیں ایسے بڑے بڑے اکابر ہمارے زمانے میں بھی ہوئے ہیں کہ انہوں نے وہی تعلیم پائی جو ہم سب نے پائی لیکن ان میں سے بعض کو اللہ نے بڑا علم دے دیا۔ مولانا انور شاہ کشمیر ی اسی درس نظامی کے پڑے ہوئے ہیں لیکن ان کو اللہ نے جو علم دیا وہ باقی درس نظامی کے فضلا کو نہیں ملا۔ اس طر ح کا علم ، علم لدنی کہلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مہربانی سے کسی انسان کو سمجھ یا فہم کے ذریعہ دے دے اسکی حدیث سے بھی تائید ہو تی ہے حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا تھا کہ کیا رسولﷺ نے آپؓ کو کوئی خاص تعلیم بھی دی ہے انھوں نے کہا نہیں کوئی خاص تعلیم نہیں دی ہے کتاب اللہ سنت رسولﷺ اور یہ دستاویز جو میری تلوار کی نیام میں رکھی ہیں یا پھر وہ فہم جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی خاص بندے کو دے دے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کسی خاص بندے کو اگرخاص فہم دے جو اکثر دے دیتا ہے تواس فہم سے اس بندے کو ایک خاص علم حاصل ہو جاتا ہے اس کو علم لدنی کہہ دیتے ہیں۔یہ خاص فہم اگر شریعت کے مطابق ہے تو اللہ کی طرف سے ہے ورنہ محض انسان کے نفسانی خیالات یا ذہنی ژولیدگی کا نتیجہ ہے۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب جی نہیں! یہ اصطلاحات قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہیں قضا و قدر کی تنفیذ کا میرے خیال میں ان مناصب سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بہت سے حضرات سے یہ چیزیں بیان کی ہیں خاص طور پرابن عربی نے اس پر بہت بحث کی ہے اور تفصیل سے اور بڑی دلچسپ باتیں کیں ہیں۔ان مباحث سے پتا چلتا ہے کہ ابن عربی کی نظر میں ایک روحانی hierarchyبھی موجود ہے یہ روحانیhierarchyہی اللہ تعالیٰ کے احکام تکوینی پر عمل درآمد کراتی ہے میں نہیں جانتا انھوں نے یہ بات کس بنیاد پر لکھی ہے۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: میرے خیال میں ایسا نہیں ہے رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپ ﷺ سے براہ راست رہنمائی لینے کا اگر کوئی اہل تھا تو وہ صحابہ کرامؓ تھے۔ صحابہ کرامؓ بعض اوقات کسی مسئلے کے جواب میں سرگرداں رہتے تھے ایک ایک ماہ تک بحث رہتی تھی اور اسکے بعد اتفاق رائے سے مسئلہ حل کرتے تھے۔ اگر براہ راست حضورﷺ سے پوچھ سکتے تو صحابہ کرامؓ جاکر پوچھ لیاکرتے۔ حضرت عائشہؓ کو یہ فیصلہ کرنے میں بہت عرصہ لگا کہ مجھے جنگ جمل میں جا نا چاہیئے یا نہیں اس کے بعد وہ جنگ جمل میں شریک ہوئیں اس کے بعد ان کو احساس ہو اکہ انھوں نے غلط کیا ہے اس پر وہ توبہ بھی کیا کرتی تھیں اور صدقہ بھی دیا کرتی تھیں اپنے بھائی اور دوسرے رشتہ داروں کو ڈانٹاکرتیں تھیں کہ مجھے روکا کیوں نہیں اگر حضور سے وہ پوچھ سکتیں تو وہ ضرور پو چھتیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کوئی طریقہ ایسا نہیں ہے۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: محض نسبی بنیاد پر ولایت یا تقویٰ کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔ قرآن پاک میں انبیا علیھم السلام کے مختلف رشتہ داروں کا ذکر کر کے ان کی مثالیں دے کر یہ بتایا گیاہے کہ اپنے عمل سے ہی انسان اچھا یا برا ہو سکتا ہے۔ کسی کا نسب اسکو اچھا یا برا نہیں بنا سکتا ۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی کا نسب بھی اونچا ہو اور عمل بھی اونچا ہو اسکو اور زیادہ بڑا درجہ مل جائے لیکن عمل کے بغیر نسب ہی سب کچھ کر لے یہ ناممکن ہے۔ روحانیت میں پیدائشی ولی ہونے کی جہاں تک بات ہے توواقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو پیدائشی ولی بنانا چاہے تو جس کو چاہے بنا سکتا ہے یہ تو اس کی رحمت، و قدرت اور مشیئت کی بات ہے اس میں کیا رکاوٹ ہے ہر انسا ن میں اچھائی اور برائی کا داعیہ اللہ نے رکھا ہے اگر وہ کسی میں پیدائشی طور پر برائی کا کوئی داعیہ نہ رکھے یا کم رکھے تو میرا خیال ہے کہ ایسا ہو نا اس کی سنت سے متعارض نہیں۔ 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: غسل کی ضرورت ہو اور پانی موجود نہ ہو توغسل کے لیے بھی وضو والا تیمم ہی کیا جاتا ہے ۔

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: قرآن پاک میں آیا ہے کہ اتمواالصیام الی للیل، کہ روزے کو مکمل کر رات تک ۔ یہاں دو لفظ آئے ہیں لیل اور الیٰ یعنی رات اور تک ۔ اس کا مفہوم فقہا کی بڑی تعداد نے یہی سمجھا ہے کہ جب تک رات داخل نہ ہوجائے اس وقت روزہ رکھا جائے۔ جب لیل کا دخول شروع ہو جائے تو سمجھا جائے کہ نہا ر کا وقت ختم ہو گیا ہے اس وقت روزہ کھول دیا جائے گا لیکن لیل کیا ہوتی ہے اور کب شروع ہوتی ہے فقہا کی غالب اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ جب سورج کی ٹکیا نظروں سے اوجھل ہو جائے اور ڈوب جائے تو رات یعنی لیل شروع ہو جاتی ہے۔ سورج کے لئے ٹکیا کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اگر آپ ریگستان یا میدانی علاقے میں کھڑے ہو جائیں تو غروب ہو تا سورج ایک گیند کی طرح نظر آتا ہے جیسے فٹ بال ہو تا ہے اس گیند کو فقہا ٹکیہ کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔ تو فقہا کہتے ہیں کہ جب سورج کی ٹکیا ڈوبتے ڈوبتے اس کاآخری حصہ بھی ڈوب جائے تو اس وقت سمجھا جائے گا کہ دن ختم ہو گیا ہے اور رات شروع ہو گئی ہے اس وقت روزہ کھول لیا جائے گا۔ بعض فقہا جن میں شیعہ فقہا بھی شامل ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ محض ٹکیا کا ڈوبنا کا فی نہیں ہے بلکہ شفق کا غائب ہونا بھی ضروری ہے ۔شفق وہ سرخی ہے جو سورج کی ٹکیا غائب ہونے کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔جب تک یہ سرخی غائب نہیں ہوتی اس وقت تک گویا یہ سمجھا جائے گا کہ ٹکیا پوری طرح نہیں ڈوبی۔ شفق ٹکیا کے تابع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک چیز کسی دوسری چیز کے تابع ہو تی ہے تو تابع کا بھی وہ ہی حکم ہوتا ہے جو اصل کا حکم ہوتا ہے لہٰذا اصل اور تابع دونوں ڈوب جائیں تب رات شروع ہو گی۔ اس عمل میں دس بارہ منٹ مزید وقت لگتا ہے اس لئے وہ بارہ منٹ مزید انتظار کرتے ہیں۔ یہ محض لیل کی تعبیر میں اختلاف ہے کوئی قرآن یا سنت میں اختلاف نہیں۔ اکثریت کے خیال میں سورج کی ٹکیا کے غائب ہو نے سے رات شروع ہو جاتی ہے دوسرا فریق کہتا ہے کہ جب ٹکیا کے اثرات بھی ڈوب جائیں گے تو تب لیل شروع ہوگی ۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ فقہا کی غالب اکثریت کا کہنا درست ہے اس لئے کہ دن اس وقت شروع ہو تا ہے جب سورج نکلنے لگتا ہے۔ سورج کی ٹکیا کے ظہور سے قبل جب اس کی سرخی یا شفق ظاہر ہوتی ہے اس کو دن کا آغاز قرار نہیں دیا جاتا اس سے پہلے کے وقت کو نہار کہتے ہیں اور اس وقت تک فجر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے یہی اصول ٹکیا کے غائب ہو نے کے وقت بھی پیش نظر رکھنا چاہئے بہرحال یہ دو مختلف آرا ہیں ۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: اس میں اختلاف کی موجودگی تشویش ناک بات نہیں ہے رسولﷺْ نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے مجمع کے سامنے نمازیں پڑھیں اور مختلف انداز میں پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ رسول ﷺ نے نماز میں جس طرح سے بھی کیا اور جو جوبھی کیا وہ سب محفوظ رہے ۔ رسول ﷺ کی کوئی ادا ایسی نہ ہو جو مسلمانوں میں محفوظ نہ رہے اور مسلمانوں کا کوئی طبقہ اسے اختیار نہ کرے۔ رسولْﷺ بعض اوقات پوری پوری رات نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ پاؤں مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا۔ بعض اوقات مسجد نبویﷺ میں ظہر کے بعد طویل نوافل پڑھتے تھے۔ طویل نوافل میں جب آدمی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے تو بعض اوقات ہاتھ تھک جاتا ہے اور ہاتھ کو کھول کر نماز پڑھنے میںآرام ملتا ہے۔ تورسول ﷺ بھی طویل نمازوں میں کبھی کبھی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اب کسی نے دیکھا کہ حضور ﷺ دست مبارک چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ کبھی ہاتھ اوپر باندھ لیے اور تھک گئے توپھر نیچے باندھ لیے۔ نیچے تھک گئے تواوپر باندھ لیے ۔اس میں آرام مل جاتا ہے اس لئے اس میں نہ تو کسی جائز ناجائز کا مسئلہ ہے نہ اس میں کسی مکروہ اور مستحب کا مسئلہ ہے۔ ہر طرز عمل سنت ہے اور ان میں سے ہر طرز عمل جائز ہے ۔فقہا نے صرف یہ سوال اٹھایا ہے کہ ان میں افضل کو ن سا ہے ۔کچھ لوگوں نے کہا کہ ہاتھ چھوڑ کر پڑھنا افضل ہے کچھ نے کہا ہاتھ باندھ کر پڑھنا افضل ہے ۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ سب سنت کا حصہ ہے اس لیے اس میں کسی تشویش کی کوئی بات نہیں مسلمان چودہ سو بر س سے نماز اسی طر ح پڑھ رہے ہیں آئندہ بھی پڑھیں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں آپ کا جی چاہے تو سورہ فاتحہ میں آمین اونچی آواز میں پڑھئے اور جی چاہے تو آہستہ پڑھئے۔ جی چاہے تو رفع یدین کریں اور جی چاہے تو نہ کریں سب سورتیں جائز ہیں سب سنت ہیں اور سب کا تعلق سنت سے ہے جس میں کوئی شک نہیں 
نہ یہ چیزیں مسلمانوں میں افتراق کا موجب ہیں نہ ان سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ حرم شریف میں جاکر دیکھیں لاکھوں افراد کئی کئی طریقوں سے نماز پڑھتے نظر آتے ہیں کوئی زور سے آمین کہتاہے کوئی آہستہ سے کہتا ہے سب ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور کوئی لڑتا نہیں۔ ہمارے ہاں ان امور کو اختلاف کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لڑنے کے اسباب اور ہیں ان کا آمین زور سے یا آہستہ کہنے سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی اس کا رفع یدین سے کوئی تعلق ہے ۔نماز کے اندر رفع یدین کرنے سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا ہاں نماز سے باہر رفع یدین کرنے پر جھگڑا ہوتاہے۔ جب جاہل اور متعصب لوگ ایک دوسرے پر رفع یدین کرتے ہیں اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے۔

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: آپ کی بات بالکل درست ہے اپنے نفس کی پیروی نہیں کرنی چاہئے اور اپنی ذاتی پسند نا پسند پر شرعی امور کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ اللہ اور رسولﷺ نے جو حکم دیا ہے ہمیں اس کے مطابق چلنا چاہئے ۔جہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کو سمجھنے میں کسی غیر معمولی گہرائی اور فہم کی ضرورت ہے تو اگر ہمیں کسی کے علم اور فہم پر اعتماد ہے تو اس کی فہم کے مطابق عمل کرنا چاہئے ۔اس معاملہ میں بہتر اور محتاط راستہ تو یہ ہے کہ آپ اپنی رائے پر عمل کرنے کے بجائے کسی ایسے صاحب علم کی رائے پر عمل کریں جس کے علم اور تقویٰ پر آپ کو اعتماد ہو ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب:یہ عمل شروع سے ہو رہا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اس پر عمل پہلے بھی ہوتا تھا آج بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہو گا 
شریعت نے نہ امام ابوحنیفہ کی تقلید کا حکم دیا ہے اور نہ امام شافعی ؒ کی نہ امام احمد ؒ کی شریعت تو رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مکمل ہوگئی الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتینعمت تمام ہو گئی ہے دین مکمل ہوگیا شریعت مکمل ہوگئی ،اس لئے حضور ﷺکے بعد آنے والے کسی بھی آدمی کا کوئی قول فی نفسہ واجب التعمیل نہیں ہے حتیٰ کہ کسی صحابیؓ کی رائے بھی as such واجب اتعمیل نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص خود صاحب علم ہے اور اللہ نے اسے علم دیا ہے اور وہ دلائل سے یہ جان سکتا ہے کہ کسی امام کا قول قوی ہے یا بہتر ہے تو ا س کو اس رائے یا قول کو اختیا ر کرنے کی اجازت ہے لیکن ایک ایسے آدمی کو جس کے پاس شریعت کا علم نہ ہو یہ راستہ اختیار کرنے کی اجازت دی جائے تو بہت ساری قباحتیں پیدا ہو ں گی جن سے بچنا بہت دشوار ہے۔ اس کی ایک مثال فقہ کی سب کتابوں میں ملتی ہے میں آپ کو دیتا ہوں اکثر لوگوں نے یہ مثال بیان کی ہے شریعت کا حکم یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں تعلقات حیا کی بنیاد پر استوار ہوں خاص طور پر دو جنسوں کے درمیان میل جول شریعت کی حدود کے اندر ہو اور حیا کے احکام کے مطابق ہو۔ جب دو افرادرشتہ ازدواجی میں منسلک ہوں تو یہ کام اللہ کے احکام اور شریعت کے مطابق ہو یہ تعلق انسانوں کے علم میں ہو تمام لوگوں میں اس کا اعلان کیا گیا ہو کہ فلاں دو افراد آج سے رشتہ ازدواجی میں منسلک ہو رہے ہیں۔ یہ شریعت کے احکام ہیں ۔
اب شریعت کے ان احکام کے ضمن میں قرآن پاک میں بعض نصوص آئی ہیں احادیث میں کچھ نصوص آئی ہیں ان کو سامنے رکھ کر اور ان کامقصد سمجھ کر فقہا نے کچھ تفصیلی ضوابط مرتب کئے ہیں امام مالک ؒ نے اپنی فہم کے مطابق یہ ضابطہ مقرر فرمایا کہ جب نکاح ہو رہا ہو تو اس کے لئے کسی کو با قاعدہ گواہ بنانے کی ضرورت تو نہیں البتہ عام اعلان کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ اگر نکاح اس طرح ہو کہ معاشرہ میں عام لوگوں کو معلوم ہو جائے ،محلہ میں سب کو پتہ چل جائے کہ فلاں اور فلاں کی شادی ہو رہی ہے تو یہ کافی ہے چاہے دو آدمی بطور خاص گواہ بننے کے لیے موجود نہ ہوں۔ یہ امام مالکؒ کا نقطہ نظر ہے۔امام ابوحنیفہ ؒ یہ فرماتے ہیں کہ کم از کم دو متعین گواہ ضروری ہیں جو عقدہ نکاح میں موجود ہوں جو ایجاب ور قبول کو ہوتے دیکھیں یہ کم سے کم تقاضا ہے اور اس سے کم پر نہیں ہوگا یہ امام ابوحنیفہ ؒ کا نقطہ نظر ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اصل عقد میں تو دو گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے لیکن جب لڑکی رخصت ہو اور شوہر کے گھر جائے اس وقت کم از کم دو گواہ ہونے چاہئیں اور یہ ضروری ہے ۔
اب یہ تین مختلف نقطہ نظر ہیں مقصد سب کا ایک ہی ہے اب اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ ایک لڑکا اور لڑکی آپس میں رہنے لگیں اور یہ کہیں کہ امام مالک کے نزدیک دو گواہ ضروری نہیں تھے اور لوگوں کو بتانا بھی ضروری نہیں تھا اور صرف چراغاں اور دعوت کھلانا کافی ہے امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک چراغاں اور دعوت بھی ضروری نہیں تھی لہذا ہم نے چراغاں اور دعوت بھی نہیں کی عقد نکاح کے وقت امام شافعی ؒ کے نزدیک دو گواہ ضروری نہیں تھے وہ بھی نہیں کئے۔ رخصتی کے وقت امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ضروری نہیں تھے وہ بھی نہیں کئے یہ تو شریعت کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے اور محض بدکاری ہے یہ تو پرلے درجہ کی بداخلاقی اور بے حیائی ہے یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہو گا کہ اگر کسی شخص کو اپنے نفس کی پیروی کی اجازت دی جائے تو ا س کے نتائج اس طرح کے نکل سکتے ہیں ۔
اس لئے دو شرائط کا خیال رکھیں ۔ آپ جس فقیہ کے نقطہ نظر سے دلائل کے ساتھ اتفاق کریں ایک شرط یہ کہ واقعی اللہ کے حضور جوابدہی کے احساس کے ساتھ یہ اردہ ہو کہ اللہ کے حکم پرچلنا اور اللہ کی شریعت پر عمل کرنا ہے اور اس کو سمجھنا ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ارادہ ہے کہ نہیں ہے ۔دوسرا یہ کہ اتنا علم ہو کہ یہ معلوم ہو سکے کہ شریعت کا اصل مقصد کیا ہے شریعت کی تعلیمات اس بارے میں کیا ہیں اور ان کو کس انداز سے سمجھ کر اس فقیہ نے یہ رائے قائم کی ہے اس رائے سے یہ فقیہہ شریعت کے کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے یہ اگر حاصل ہے تو پھر دوسرے کسی فقیہہ کی رائے اختیار کر لینے کا عمل قابل قبول ہے ۔

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

: یقیناًآج کے دور میں جعلی مربیین کی کثرت ہے اصلی اور مخلص مربیین بہت کم ہیں لیکن مولانا رومی ؒ نے ایک بات بڑی اچھی لکھی ہے انھوں نے لکھا ہے کہ جعلی مربی کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ اصلی مربی بھی کہیں نہ کہیں موجو د ہیں اس لئے کہ جعلی سکہ اسی بازار میں چلتا ہے جہاں اصلی سکہ بھی موجو د ہو جہاں اصلی سکہ موجود نہ ہو وہاں جعلی سکہ چل ہی نہیں سکتا اس لئے جعلی سکے کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ اصل سکہ موجود ہے آپ کی تلاش کی بات ہے

()

میں نے آپ کو یاد ہو گا تین طریقے بتائے تھے ان تینوں طریقوں میں سے میں تو یہی تجویز کروں گا کہ قرآ ن کی تلاوت ، سیرت کا مطالعہ اور عبادات کی پابندی کے ساتھ کبا ئر سے اجتناب ہی سے آج کے دور میں روحانی پاکیزگی حاصل کی جاسکتی ہے ۔

()

یہ تو وہی بتاسکیں گے جو یہ کروارہے ہیں لیکن مجرد ذکر اچھی چیزہے قرآن و سنت میں اس کا ذکر ہے اجتماعی طور پر کرنا چا ہئے یا انفرادی طور پر اس کا شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا۔ آپ انفرادی طور پر کریں یا اجتماعی طور پر کریں شریعت میں دونوں کی گنجا ئش ہے۔ ضرب لگائیں نہ لگائیں اس پر مجھے ذاتی طور پر کبھی شرح صدر نہیں ہو ا لیکن ذکر فی نفسہ شریعت کا حکم ہے جس پر ہم سب کو عمل کرنا چاہئے۔ ضرب لگا نا اور اجتماعی طور پر ذکر با لجہر کرنا میرے خیال میں شریعت کے مزاج اور صحابہؓ کے طریقے کے مطابق نہیں ہے ۔ لیکن جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اس کو ایک علاج سمجھ کر کرتے ہیں اس پر نکیر ہر گز نہ کریں کیونکہ یہ ایک اجتہادی معاملہ ہے اور میں اس گفتگو میں ایک مرتبہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ اجتہادی یا اختلافی معاملے پر نکیر نہیں کرنی چاہیے علمی طور پر آپ ان سے اختلاف کرنا چاہیں تو ضرور کریں ۔ 

()

جو حضرات رائج الوقت تصوف کو بدعت کہتے ہیں اور اس سے مختلف پہلوؤں پر تنقید کرتے ہیں وہ درست کہتے ہیں۔ اس لئے کہ تصوف کے نا م پر اتنی خرافات رائج ہو گئی ہیں اور تصوف کے نا م پر کاروبار کے ایسے ایسے تجارتی اڈے لوگوں نے بنا لیے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ ایسے ایسے لوگ تصوف کے علم بردار بن گئے ہیں جن کی زندگی ایک شریف انسان کی زندگی بھی نہیں ایک اچھے مسلمان کی زندگی تو دور کی بات ہے اس لئے جن لوگوں نے تنقید کی ہے میرے خیا ل میں وہ بے بنیاد نہیں ہے ۔ 

()

داتا ایک لقب ہے جو شیخ علی ھجویری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ جو القاب ہوتے ہیں اس میں لغوی معنٰی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ لقب کا استعمال ادنیٰ مناسبت کی وجہ سے ہوتا ہے اس طرح کے القاب کے بارے میں بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں پر توحید کا شدت سے غلبہ ہو تا ہے اور اس غلبہ توحیدمیں وہ اس طرح کی عام چیزوں پر بھی اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ 
داتا کا لفظ گنج بخش فیض ؒ کے معنیٰ میں ہے انہوں نے لوگوں کو فیض پہنچایا اس لیے داتا ان کا لقب ہے۔ یعنی دینے والا۔ ہم معطی کہتے ہیں۔ دینے والے کا لفظ بھی ہم استعمال کرتے ہیں۔ داتا لغوی معنیٰ میں حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ 
لیکن داتا گنج بخش ایک لقب ہے۔ داتا گنج بخش اس معنیٰ کے اعتبار سے نہیں ہے۔ ایک ادنی ٰ منا سبت کی وجہ سے لقب رکھ دیا جاتا ہے امام اعظم ؒ کالقب اما م اعظم ؒ تھا اب اگر کوئی موحد کھڑا ہو جا ئے یا کوئی شان رسالت کا علم بردار یہ اعتراض کرنے لگے کہ مسلمانو ں کا امام اعظم رسول اللہ ﷺ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا اس لئے امام اعظم کہنا شرک فی النبوت ہے یہ صحیح نہیں ہوگا امام اعظم کو ایک خاص وجہ سے امام اعظم کہا جا تا ہے ۔قائد اعظم کوقائد اعظم ایک خاص مناسبت کی وجہ کہا جاتا ہے ۔ یہ لقب دینے والوں کی رائے میں وہ اپنے زمانے کے سیاسی قائدین میں سب سے بڑے قائد تھے۔ امام اعظم ؒ اپنے زمانے کے آئمہ فقہ میں سب سے بڑے امام مانے گئے اس لئے امام اعظم کالقب ان کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اس لئے کسی لقب پر لغویٰ معنیٰ کے اعتبار سے جب تک صراحتاً کوئی قابل اعتراض بات نہ ہو اعتراض نہیں کرنا چاہئے 

()

میں نے عرض کیا تھا کہ توکل کے بارے میں تین قسم کی غلط فہمیاں لو گوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں بالفاظ دیگر توکل کے بارے میں تین تصورات پائے جاتے ہیں ایک تصور تو وہ ہے جو شریعت کے مطابق ہے جس کی قرآن پاک میں اور سنت میں تعلیم دی گئی ہے ، فرمایا گیا کہ اسباب کو اختیار تو ضرور کرو لیکن اسباب کو اختیار کرنے میں حد سے آگے مت بڑھو جائز اسباب اختیار کرو شریعت کی حدود کے اندر رہ کر ان کوا ستعمال کرو اور نتیجے کو اللہ پر چھوڑ دو۔ یہ توکل کا مفہوم ہے جو قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہو تا ہے صحابہؓ اور تابعین ؒ نے اسی توکل کو اختیار کیا۔ انبیا ء ؑ نے بھی یہ ہی توکل اختیار کیا۔
اسباب کے بارے میں دوسرا رویہ یہ ہے جو ایک انتہا پر ہے کہ اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے۔ اسباب ہی کی فراہمی میں زندگی کی ساری توانائیاں لگا دی جائیں۔ شب و روز انسان اسباب ہی کی فکر میں گھلتا چلا جائے اورنتیجہ ملنے کااصل سبب بھی اسباب ہی کو قرار دے۔ یہ رویہ بھی درست نہیں ہے ایک اور رویہ بالکل دو سری انتہا پر ہے۔کہ سرے سے اسباب کو نظر انداز کیا جائے اور اسباب کو بالکل چھوڑ کر اللہ تعالی سے براہ راست نتیجہ کی امید لگائی جائے ۔یہ اللہ تعالیٰ کی عمومی سنت اور مشیت کے خلاف ہے اسباب کے بارے میں جو تعلیم شریعت نے دی ہے یہ رویہ اس کے مطابق نہیں ہے اگر ایسا ہو اکرتاتو انبیاء ؑ کو اور صحابہؓ کو میدان جنگ میں جانے کی اور بہت سی قربانیاں دینے کی اور بے شمار پریشانیاں اٹھانے کی ضرورت نہ ہوتی اللہ تعالیٰ براہ راست دین کو قائم کر دیتا براہ راست دشمنوں کی فوجوں کے چھکے چھوٹ جایا کرتے۔ براہ راست سب کچھ ہو جایا کرتا یہ جو صحابہ کرامؓ شہید ہوئے انبیاء ؑ کو آروں سے چیرا گیا انبیاء ؑ کو قید کیا گیا یہ سارے اسباب اختیار کرنے کے نتائج تھے ۔

 

()

باطنیوں میں سے کچھ لوگ تصوف کے نام پر سامنے آئے جنہوں نے غلط عقائد صوفیا سے منسوب کردیے۔ صوفیا کی کتابوں میں الحاقات ہوئے اور ایسی درجنوں مثالیں ہیں کہ بڑے بڑے صوفیا ء کی کتابوں میں الحاقات کیے گئے ہیں اور انکو باطنی نقطہ نظر کے قریب لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لئے جن حضرات نے تصوف پر تنقید کی ہے انہوں نے انہی اسباب کو سامنے رکھ کر تنقید کی ہے ان حضرات کی تنقید بڑی وزنی ہے اور اس کی مستحق ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ تزکیہ و احسان کے مقاصد کو آج کے دور میں حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چا ہیے۔ چوتھی پانچویں یا چھٹی صدی ہجری میں جب یہ صوفیانہ سلسلے وجود میں آئے تو انہوں نے بعض بڑی مفید خدمات سرانجام دیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں ان کے اثرات بہت مفید اور گہرے ہوئے ۔انہوں نے امت مسلمہ کو ایک مرکز پر جمع رکھا پھر وقت کے ساتھ انکی گرفت کمزور ہوتی گئی اور انکے جانشین محض ایک روایت کے ترجمان یا نمائندہ بن کر رہ گئے جیساکہ میں نے عرض کیا تھا کہ جب کوئی ادارہ بنتا ہے تو اس ادارے میں کچھ اسباب اور وسائل بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ و ہ وسائل مقاصد کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور مقاصدنظر انداز ہو جاتے ہیں۔ یہ بات جہاں اور بہت سے میدانوں میں ہوئی تصوف کے میدان میں بھی ہوئی۔ تصوف میں ایسے طریقے یا اعمال جن کی حیثیت دراصل تدبیر یا وسیلہ کی تھی وہ اصل مقاصد بن گئے اور جو اصل مقاصد تھے وہ نظر انداز ہو گئے۔ آ ج کے اہل علم اور تقویٰ کے لئے یہ بات غورکرنے کی ہے کہ آج تزکیہ و احسان کے مقاصد کو کیسے حل کیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ براہ راست قرآن مجید اور سنت سے اپنے آپ کو وابستہ کر لیں۔ آپ قرآن پاک کی تلاوت کریں مطالعہ کریں اور ایسے حضرات جن کے دین و تقویٰ اور علم و عقل پر آپ کو اعتماد ہو انکی کتابیں ،ان کا تذکرہ، انکی سوانح عمری مطالعہ میں رکھیں تو اس سے خود بخود نیکی کا تقویٰ اور اصلاح کا ایک رجحان پیدا ہو تا ہے۔ اللہ کی کتاب خودرہنمائی فراہم کرتی ہے اور آپ خودبخود اس راستے پر چل پڑتے ہیں۔ اگر صاحب علم و تقویٰ لوگ موجود نہ ہوں تو براہ راست قرآن سے رجوع کریں اس لیے کہ جس قرآن نے پہلے اتنی بڑی تعداد میں اصحاب تقویٰ اور ارباب تزکیہ واحسان پیدا کیے ہیں وہ آج کیوں پیدانہیں کر سکتا ؟ یقیناًوہ آج بھی پید اکر سکتا ہے ہو سکتا ہے کہ بغیر کسی صاحب احسان کی تربیت کے آپ براہ راست قرآن کی تربیت سے اس منزل تک پہنچ جائیں ۔
باطنیوں میں سے کچھ لوگ تصوف کے نام پر سامنے آئے جنہوں نے غلط عقائد صوفیا سے منسوب کردیے۔ صوفیا کی کتابوں میں الحاقات ہوئے اور ایسی درجنوں مثالیں ہیں کہ بڑے بڑے صوفیا ء کی کتابوں میں الحاقات کیے گئے ہیں اور انکو باطنی نقطہ نظر کے قریب لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لئے جن حضرات نے تصوف پر تنقید کی ہے انہوں نے انہی اسباب کو سامنے رکھ کر تنقید کی ہے ان حضرات کی تنقید بڑی وزنی ہے اور اس کی مستحق ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ تزکیہ و احسان کے مقاصد کو آج کے دور میں حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چا ہیے۔ چوتھی پانچویں یا چھٹی صدی ہجری میں جب یہ صوفیانہ سلسلے وجود میں آئے تو انہوں نے بعض بڑی مفید خدمات سرانجام دیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں ان کے اثرات بہت مفید اور گہرے ہوئے ۔انہوں نے امت مسلمہ کو ایک مرکز پر جمع رکھا پھر وقت کے ساتھ انکی گرفت کمزور ہوتی گئی اور انکے جانشین محض ایک روایت کے ترجمان یا نمائندہ بن کر رہ گئے جیساکہ میں نے عرض کیا تھا کہ جب کوئی ادارہ بنتا ہے تو اس ادارے میں کچھ اسباب اور وسائل بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ و ہ وسائل مقاصد کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور مقاصدنظر انداز ہو جاتے ہیں۔ یہ بات جہاں اور بہت سے میدانوں میں ہوئی تصوف کے میدان میں بھی ہوئی۔ تصوف میں ایسے طریقے یا اعمال جن کی حیثیت دراصل تدبیر یا وسیلہ کی تھی وہ اصل مقاصد بن گئے اور جو اصل مقاصد تھے وہ نظر انداز ہو گئے۔ آ ج کے اہل علم اور تقویٰ کے لئے یہ بات غورکرنے کی ہے کہ آج تزکیہ و احسان کے مقاصد کو کیسے حل کیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ براہ راست قرآن مجید اور سنت سے اپنے آپ کو وابستہ کر لیں۔ آپ قرآن پاک کی تلاوت کریں مطالعہ کریں اور ایسے حضرات جن کے دین و تقویٰ اور علم و عقل پر آپ کو اعتماد ہو انکی کتابیں ،ان کا تذکرہ، انکی سوانح عمری مطالعہ میں رکھیں تو اس سے خود بخود نیکی کا تقویٰ اور اصلاح کا ایک رجحان پیدا ہو تا ہے۔ اللہ کی کتاب خودرہنمائی فراہم کرتی ہے اور آپ خودبخود اس راستے پر چل پڑتے ہیں۔ اگر صاحب علم و تقویٰ لوگ موجود نہ ہوں تو براہ راست قرآن سے رجوع کریں اس لیے کہ جس قرآن نے پہلے اتنی بڑی تعداد میں اصحاب تقویٰ اور ارباب تزکیہ واحسان پیدا کیے ہیں وہ آج کیوں پیدانہیں کر سکتا ؟ یقیناًوہ آج بھی پید اکر سکتا ہے ہو سکتا ہے کہ بغیر کسی صاحب احسان کی تربیت کے آپ براہ راست قرآن کی تربیت سے اس منزل تک پہنچ جائیں ۔

 

()

: تصوف کی ایک غلط اور زوال پذیر دور کی تعبیر نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا اس سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا یقیناًتصوف میں زوال آیا لیکن یہ زوال فقہ میں بھی آیااس نے بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ۔وہ زوال جو تقلید کے نا م پر متأخرین میں آیا وہ مسلمانوں کی پر یشانیوں کا بہت بڑا سبب ہے۔ پچھلے دنوں مجھے ترکی کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہو ا خاص طور پر دو تین کتابیں مشہور ہیں ایک برکس کی ہے ایک برنا ڈلیوس کی ہے دونوں کتابیں بڑی کلاسک کی حیثیت رکھتی ہیں ایک دو اور کتابیں میں نے دیکھی ہیں مجھے پہلے سے یہ خیال تھا او ر اب ترکی کی تاریخ پر ازسر نو نظر ڈالنے کے بعد بہت شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے متا خرفقہائے اسلام کی ایک بڑی تعداد کی مقلدانہ ذہنیت نے اور تقلید پرستانہ اندازہ پر زور دینے کے رویہ نے ترکی میں سیکو لرازم کا راستہ ہموار کیا اور سلطنت عثمانیہ کے زوال میں اگر وہ براہ راست نہیں تو بالواسطہ ذریعہ ضرور بنے۔ اس لیے جہاں فکری زوال اور عقلی انحطاط آئے گاوہاں انحطاط پذیر خیالا ت بھی آئیں گے وہ تصوف میں آئیںیا فقہ میں یا تفسیر میں، نتیجہ سب کا ایک ہی نکلے گا ۔ایک زمانہ تھا کہ تفسیر قرآن پاک کو ایک زندہ کتاب کے طور پر مسلمانوں کے دلوں میں اتارتی تھی ان کے رگ وپے حصہ بناتی تھی اس کے بر عکس اگر آپ نویں سے بارہویں صدی ہجری کی تفسیریں دیکھیں تو ان میں سے متعدد تفسیروں میں اس طرح کے ازکار رفتہ مسائل آپ کو کثرت سے ملیں گے جن کا کوئی تعلق عملی زندگی سے نہیں ۔ایسے سوالات جو کبھی بھی مسلمانوں کے لیے عملی سوالات نہیں رہے ۔ان مسائل کا نام تفسیر رکھ دیاگیا۔ ظاہر ہے کہ ان تفسیروں کو پڑھ کر قرآن پر ایمان پختہ ہو تا ہے نہ قرآن کی گہرائیوں میں اترنا نصیب ہوتا ہے۔دور متاخر کے مسلمان مفسرین میں دقیق نقطے تو بہت پیدا ہوئے لیکن اس سے ضعفِ یقین کا علاج نہیں ہو سکا۔ اس لئے یہ بات میں محض تصوف تک محدود نہیں رکھتا بلکہ مسلمانوں کی ساری علمی روایت کو دسویں صدی ہجری کے بعد سے ایک زوال و انحطاط سے واسطہ پڑا اور بعد کے مزید تین سو سال میں وہ زوال اپنی انتہا تک پہنچ گیا۔ 
مزید برآں جلتی پر تیل ڈالنے کاکام مغرب کی ترقی نے انجام دے دیا۔ ایک طرف مغرب میں تیزی سے علم و فن کی ترقی ہور ہی تھی دوسری طرف مسلمان زوال کا شکار ہو رہے تھے ۔اس کفیت نے زمین آسمان کا فرق پید اکر دیا اور مسلمانوں کا زوال کھل کر سامنے آگیا۔ اس زوال و انحطاط کو صرف تصوف تک محدود کرنا میرے خیال میں درست نہیں ہے یہ مسلمانوں کی پوری علمی تاریخ کی ناکامی ہے یہ کسی ایک علم یا فن کی نا کامی نہیں ہے پوری روایت کی ناکامی ہے 

()

جہاں تک امام جعفرصادق ؒ کا تعلق ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ جو چیزیں ان سے منسوب ہیں وہ سو فیصد درست ہیں۔ امام جعفر صادق ؒ نے خود کوئی کتاب تحریر نہیں فرمائی انہوں نے کوئی چیز املا نہیں کروائی۔ ان کے کسی براہ راست شاگر د نے کوئی کتاب نہیں لکھی ۔ان سے جو بھی اقوال منسوب ہیں وہ بہت بعد کے لوگوں نے ان سے منسوب کیے ۔ہیں خاص طور پر جو اقوال باطنیت کے رجحانات رکھتے ہیں تو وہ بہت بعد میں باطنی اہل قلم نے خاص طور پر اسماعیلی اہل قلم نے ان سے منسوب کیے ہیں۔ اس لیے ان بیانات کے امام جعفر صادق ؒ کے اقوال ہو نے میں مجھے تامل ہے میرے خیال میں یہ امام جعفر صادق ؒ کے اقوال نہیں ہیں۔ یہ ہی بات مقاتل بن سلمان ؒ کے بارے میں کہی جا سکتی ہے البتہ مقاتل بن سلمان ؒ کا شمار بہت سے جید اہل علم کے نزدیک مستند لوگوں میں نہیں تھا ۔ لیکن جو دوسرے حضرات ہیں انہوں نے یقیناًبعض ایسے مسائل اٹھائے ہیں جن کا بعد کے لوگوں نے غلط استعمال کیا اور غلط استعمال ہر چیز کا ہو سکتا ہے اچھی چیز کا بھی غلط استعمال ہو سکتا ہے اور غلط چیز کا تو غلط استعمال ہو تا ہی ہے۔ میرے خیال میں مقاتل ابن سلمان کی تفسیر میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا کوئی ایسا مفہوم لیا جاسکتاہے جو قرآن و سنت کے خلا ف ہو۔ 
علمِ لدنی کا مفہوم جو اکابر صوفیا ء کے ہاں مشہور ہے وہ یہ ہی ہے کہ ایک فہم خاص جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو۔ بشرطیکہ وہ قرآن و سنت کی حدود کے مطابق ہو۔ کوئی ایسا فہم جو قرآن و سنت کی نفی کر دے وہ زندقہ ہے اور قابل قبول نہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ ایسے انسان ہر دور میں موجود ہو تے ہیں آپ نے بھی دیکھے ہو ں گے میں بھی دیکھے ہیں جو عام انسانوں سے بڑھ کر فہم وبصیرت رکھتے ہیں اور وہ فہم و بصیرت ظاہری اسباب کی محتا ج یا مرہون منت نہیں ہو تی۔ جو اسباب مجھے اور آپ کو حاصل ہیں وہ ہی انکو بھی حاصل ہو تے ہیں۔ میں اور آپ ایک درس گاہ میں داخل ہوتے ہیں ہمارے ساتھ دس طلبہ اوربھی ہوتے ہیں۔ ہم سب وہی تعلیم پاتے ہیں وہی کتاب و ہی استاد سب کچھ و ہی ہوتا ہے ان سب طلبہ میں سے ایک بہت نمایاں ہو کر صف اوّل کا مفکر بن جاتا ہے ۔وہ اکنامکس پڑھ کر ڈاکٹر محبوب الحق بن جاتا ہے باقی لوگ نہیں بن پاتے ۔ یہ محبوب الحق کیسے بنتا ہے صرف اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کوئی خاص بصیر ت دی تھی اور کوئی خاص عقل دی تھی کوئی خاص ذوق شوق اور ملکہ دیا تھا اس کو علم لدنی کہتے ہیں اگر یہ خصوصی فہم بصیرت دینی معاملات میں ہو تو اس کی پرکھ کا واحد ذریعہ قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ ہے اگر یہ بصیرت دنیاوی معاملات میں ہو تو انسانی عقل اور تجربہ اس کی پرکھ ہے۔ اگر یہ بصیرت انسانی عقل اور تجربہ کے خلاف ہے قرآن و سنت کے خلاف ہے تو دونوں صورتوں میں استرداد کے قابل ہے ۔ 

()

 تقرب کی حدود وہی ہیں جو شریعت میں بیان ہوئی ہیں۔ تقرب کی معراج یہ ہے کہ انسان کو درجہ احسان حاصل ہو جائے اور یہ یقین حاصل ہوجائے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ہے۔ اس حضوری کا احساس، شعور اور یقین اس کے لیے فطرت ثانیہ کے درجہ تک پہنچ جائے۔ یہ ہی تقر ب ہے ۔أناالحق جیسے دعوے بلا شک و شبہ شریعت سے متعارض ہیں ان کے شریعت سے متعارض ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔جن حضرات نے یہ دعوے کیے ہیں یا جن سے منسوب ہیں ان کے بارے میں مسلما نوں میں دو نقطہ نظر ہیں ایک نقطہ نظر اس دعوے کی تاویل کا ہے کہ ان دعاوی اور بیانات کی کچھ ایسی تاویل کی جائے کہ یہ شریعت سے متعارض نہ رہیں۔دوسرا نقطہ نظر وہ ہے جو ان کے معاصر علماکا تھا۔ آپ نے منصور اور حلاج دو نا م لیے ہیں یہ دو نام نہیں ہیں یہ ایک ہی شخص کا نام ہے۔ حسین ابن منصور حلاج پورا نام یہ تھا۔ یہ بغداد میں ایک شخص تھا میرے مطالعہ کی رو سے یہ ایک گمراہ زندیق اور ملحد شخص تھا۔ اس دور کے علماکرام نے اس کے بارے میںیہ ہی فیصلہ کیا تھا ۔اپنے دور کے سب سے بڑے مفسر سب سے بڑے محدث اور مستند ترین مؤرخ حافظ ابن کثیر نے البدایہ النہایہ میں حسین بن منصور کو بہت بڑا زندیق قرار دیا ہے اور ا س کے قتل کیے جانے پر تشکر کے الفاظ انہوں نے اپنے تاریخ میں لکھے ہیں میں تو منصور کے بارے میں حافظ ابن کثیر دمشقی ؒ کی رائے کا قائل ہوں ۔
اس زمانے کے جتنے معاصر تذکرے ہیں وہ سب اس شخص کو ملحد اور زندیق اور باطنی قرار دیتے ہیں بعد میں باطنی شعراء کی وجہ سے اس کی شہرت نیک نامی کے انداز کی ہو نے لگی اور بہت سے حضرات نے اس کے اقوال کی تاویل کرنا چاہی ۔شیخ با یزید بسطامی ؒ یا اور بہت سے دوسر ے حضرات جو ہر اعتبار سے متبع سنت بزرگ تھے۔ معاصر تذکرہ نویس ان کے تقویٰ اور اخلاص کی گواہی دیتے ہیں ان سے اگر اس طرح کے اقوال مروی ہو ں تو انکی بلاشبہ تاویل ہونی چاہیے اور درست تاویل کی جانی چاہیے۔ ان حضرات کے اقوال کی ایک تاویل یا تو جیہ تو وہ ہے جو حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات ان بزرگو ں کے شدت احساس کی وجہ سے ان پر ایک عالم وا رفتگی طاری ہو جاتا ہے اس کیفیت میں انکی زبان بے ساختہ الفاظ نکل جاتے ہیں جو بظاہر عام عقیدہ اور خیالات سے متعارض ہوتے ہیں۔ بایزید بسطامیؒ سے منسوب عبارتوں کی بھی انہوں نے یہ ہی تاویل کی ہے۔ شدت احساس کی وجہ سے کبھی کبھی اللہ کی حضور ی کا احساس انکے ہاں اتنا شدید ہو جاتا تھا کہ انکو یہ محسوس ہونے لگتا تھا کہ کائنات میں کچھ نہیں ہے ۔وہ صرف اللہ ہی کا وجود ہے اس شدت احساس کی وجہ سے انکی زبان سے اس طرح کے الفاظ نکل گئے جو اپنے ظاہری مفہوم میں نہیں لئے جانے چاہییں ۔
وحدت الوجود اور تقرب دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ وحد ت الوجود کوئی عقیدے کا مسئلہ نہیں نہ شریعت کا مسئلہ ہے۔ عقیدہ اور شریعت کا مسئلہ تو حید کا مسئلہ ہے جس کی ضد شرک ہے۔ وحدت فلسفہ کا مسئلہ ہے جس کی ضد کثرت ہے۔ جب تصوف میں فلسفیانہ عناصر شامل ہونے لگے اور یہ سلسلہ ساتویں آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے بھی کبھی کبھی ایسا ہو جاتا تھا۔ اس وقت سے بہت سے ایسے مباحث تصوف کی کتابوں میں آگئے جو نہ عقیدہ کا مسئلہ تھے اور نہ طریقت کا مسئلہ تھے نہ تقرب الی اللہ سے ان کا کوئی تعلق تھا۔ وہ فلسفہ کے مسائل تھے جو مثلاً و حد ت الوجود اور اس طرح کے مباحث کی صورت میں سامنے آئے۔ یہ مباحث تصوف میں بیان کرنے میں سب سے نمایاں کردار شیخ محی الدین ابن عربی کا ہے جو شیخ اکبر کے نام سے مشہور ہیں۔ شیخ اکبر کے بارے میں بھی دو نقطہ نظر امت میں پائے جاتے ہیں ایک شدید نقطہ نظر علامہ ابن تیمیہ ؒ کا ہے جو انکو دائرہ اسلام سے قریب قریب خارج ہی سمجھتے ہیں ۔؂دوسرا نقطہ نظر انکے متبعین کا ہے جو انکو شیخ اکبر اور خاتم الاولیا اور سب سے بڑا ولی کہتے ہیں۔ ایک معتدل اور درمیانہ نقطہ نظر شیخ احمد سرہندی ؒ کا ہے جو کہتے ہیں کہ میں انکا احترام کرتا ہوں لیکن میں انکی رائے سے اختلاف کرتا ہوں۔ ایک جگہ انہوں نے بہت زبردست بات کی ہے جو انکے مکتوبات میں بھی موجود ہے۔ کسی مرید نے انکو خط لکھا اور شیخ محی الدین ابن عربی کے متبعین میں سے کسی بزرگ کا کوئی قو ل نکل کیا جو بظاہر شریعت سے متعارض معلوم ہوتا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت مجدد ؒ نے فارسی میں لکھا کہ’’ فقیررااصلاًتاب استماع این سخناں نیست ۔بے اختیار رگِ فاروقیم بحرکت آمد‘‘ فقیرکو اس طرح کی باتیں سننے کی تاب نہیں ہے آپ کا خط پڑھتے ہی میری ر گ فاروقیت بے اختیار حرکت میں آگئی ۔پھر آگے انہوں نے لکھا کہ "مارا کلام محمد ﷺ عربی درکاراست نہ کلام ابن عربی :(ترجمہ) ہمیں محمد ﷺ عربی کا کلام درکا ر ہے نہ کہ ابن عربی کا کلام 
مارا بنص کارس است ، نہ بفص ، ہمیں نص قرآنی سے بحث ہے نہ کہ فص یعنی فصوص الحکم ( انکی مشہور کتاب ہے ) سے بحث نہیں ہے وفتوحات مدینہ ماراازفتوحات مکی مستغنی ساختہ یعنی فتوحات مدینہ یعنی حضور ﷺ کی فتوحات ( احادیث اور شریعت ) نے ہمیں فتوحات مکیہ سے ( جو ابن عربی کی کتاب ہے ) مستغنی کردیا ہے ۔
میرے خیال میں یہ نقطہ نظر سب سے معتدل ہے شیخ محی الدین ابن عربی کے اصل خیالات کیا تھے ؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے انکی کتاب فتوحات مکیہ آج سے کافی عرصہ پہلے میں نے پڑھی تھی۔ میں اپنا ذاتی تجربہ بتا رہا ہوں فتوحات مکیہ جب میں نے پہلی مرتبہ پڑھی آج سے کوئی تیس سال پہلے تو کچھ حصے اسکے سمجھ آئے اور کچھ حصے سمجھ میں نہیں آئے لیکن میرا تأثر یہ تھا کہ یا تو یہ شخص بہت اونچے درجہ کا عبقری تھا اتنا بڑا جینئس کہ اس سے بڑا "Genius"انسانوں میں کوئی پیدا نہیں ہوا یا پھر بہت ژولیدہ فکر انسان تھا جس سے بڑا ژولیدہ فکر مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا پھر اتفاق سے ۱۹۸۶میں مجھے شام جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں دمشق میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی جن کانام محمد محمود غراب تھا ان کے بارے میں بتایا گیا کہ اس وقت شیخ محی الدین ابن عربی کے علوم کے سب سے بڑے ماہر دنیا میں یہ ہیں۔ جب میں ان سے ملنے گیا تو ان سے گفتگو کے دوران پتا چلا کہ فتوحات مکیہ کے جو نسخے اس وقت مروج ہیں اور فصوص الحکم کے جو نسخے مروجہ ہیں وہ اکثر جعلی ہیں اور ان سب میں باطنیوں نے الحا قات کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک نسخہ دکھایا جو انکے بیان کے مطابق شیخ محی الدین ابن عربی کے اپنے ہاتھوں کا لکھا ہوا تھا۔ شیخ محی الدین ابن عربی کے بارے میں کوئی بات کہنا بڑا دشوار ہے۔ نہیں کہہ سکتے کہ کون سی بات انہوں نے کہی اور کون سی بات انہوں نے نہیں کہی ۔
یہ امر واقع ہے کہ جب پانچویں چھٹی صدی ہجری میں باطنیوں کو دنیائے اسلام کے بعض علاقوں میں عروج اور اثرورسوخ حاصل ہو امثلاً اسماعیلیوں کو مصر میں اور قرامطہ کو دوسرے علاقوں میں اور متعدد مقامات پر ان کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ مراکش میں، ملتان اور سندھ میں انہوں نے بڑے پیمانے پر بزرگان اسلام کا قتل کیا اور سینکڑوں ایسے واقعات ہوئے کہ باطنیوں نے مختلف خانقاہوں میں جا کر وہاں کے مقامی بزرگ کو شہید کیا اور خو د کو ان کا خلیفہ یا جا نشین ظاہر کر کے وہاں قبضہ کر لیا۔ ملتان کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہا ں بھی ایسا ہو ا ملتان میں شمس الدین سبزواری کے نا م سے جو بزرگ مدفون ہیں ان کے بارے میں بھی بعض اہل تحقیق کا بیان ہے کہ ملتان میں بھی اسی نام سے ایک باطنی شخص آیا اس کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شمس الدین تبریزی ہے جو مولانا روم ؒ کے شیخ تھے ۔ لیکن یہ شمس الدین وہ شمس الدین نہیں تھے شمس الدین سبز واری نا م کا ایک باطنی تھا جو یہاں آیا اور یہاں کے چند مقامی بزرگوں کو شہید کر کے انکی جگہ جانشین بن کر بیٹھ گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کیا کہ قلمی کتابیں لکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلائیں۔ ہندوستان کے بزرگوں کے بارے میں کتابیں عرب دنیامیں ، اور عرب دنیا کے بارے میں ماورالنہر میں اور ماوراء لنہر کے بزرگوں کی کتابوں کے بارے میں مراکش میں الحاقات کر کے ملحدانہ باطنی خیالات کو عام کیا ۔ شیخ عبد الوھاب شعرانی جیسے جید صاحب عالم بزگوں کو اپنی زندگی ہی میں اس کا تجربہ ہو ا اگر ایسا ہے تو پھر مزید احتیاط سے کام لیاچاہئے ۔

 

()

حافظ اور غالب کا تذکرہ تو ضمناً آیا تھا۔ علامہ اقبال ؒ کے بارے میں میرے خیالات حافظ شیرازی اور غالب جیسے ہر گز نہیں ہیں۔ علامہ اقبال کا ذکرتو میں مولانا جلال الدین رومی ؒ اور امام غٖزالی ؒ کے ساتھ کروں گا حافظ اور غالب کے ساتھ نہیں کروں گا ۔

()

یہ تبلیغی جماعت سے پو چھئے میرا تبلیغی جما عت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں ان کا ترجمان بھی نہیں ہوں۔ البتہ ان کا مداح ہو ں ان کا احترام کرتا ہوں لیکن میں ان کا نمائندہ نہیں ہوں ۔لہذا میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ توکل کی اسلامی اصطلاح کن معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ تو کل کے جو معنی شریعت کی رو سے میں نے سمجھے ہیں وہ میں نے عرض کر دیے ۔ 

()

جواب : اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کا وعدہ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ دشمنان اسلام سے آپ کی جان کی حفاظت کی جائے گی جب رسولﷺ میدان جنگ میں تشریف لے جاتے تھے تو آپ ﷺ کی خواہش ہو تی تھی کہ نبوت کے ساتھ ساتھ آپ کو شہادت کا منصب بھی حاصل ہو صحیح بخاری کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یعنی میری دلی آرزو ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھروقتل کیا جاؤں ۔۔۔۔۔گویا شہادت ایک ایسا رتبہ ہے جس کی آرزو نبی بھی کرتا ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف تھا کہ کو ئی نبی آخرزماں کی جان لینے کا ذریعہ بنے یہ بات ہوتی تو شاید پوری امت پر عذاب آتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی خواہش جزوی طور پر پوری کردی کہ حضور ﷺ اللہ کے راستہ میں کئی با ر زخمی ہو ئے اور پروردگار کے حضور میں اپنا خون بہایا اور کئی بار ایسا ہو ا۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب : وہ ملت ابراہیمی کے طریقے کے مطابق حج کرتے تھے ملت ابراہیمی کے بہت سے آثارعرب میں موجو د تھے کچھ چیزیں اس میں غلط شامل ہوگئی تھیں بعض قبائل غلط چیزوں میں مبتلا تھے بعض کم مبتلا تھے لیکن حج کے اکثر و بیشتر مراسم ملت ابراہیمی کے مطابق ادا ہوتے تھے۔
 

()

جواب : حضور اکرم ﷺ کو قیامت کے وقت کا قطعی او ر حتمی علم تھا یا نہیں یہ مجھے معلوم نہیں لیکن مشہور حدیث جبرائیل میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا مالمسؤل عنھا باعلم من السائل ؛یعنی میرا علم قیامت کے بارے میں جبرئیل کے علم سے زیادہ نہیں۔ یہ بات بہرحال واضح ہے کہ اس سے زیادہ قیامت کے بارہ میں حضورﷺ نے بتایا نہیں اگر کسی نے پو چھا کہ قیامت کب آئے گی مثلاً صحابی نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی تو آپ ﷺ نے جواب میں قیامت کا وقت نہیں بتایا بلکہ سائل سے پوچھا کہ تم نے قیامت کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟ ان صاحب نے کہا کہ میں نے نماز روزہ زیادہ نہیں کیا لیکن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم اس کے ساتھ ہو گے جس کے ساتھ تم محبت رکھتے ہو حضورﷺ نے قیامت کے دن یا وقت کا تعین نہیں کیا کیونکہ یہ اللہ کی حکمت اور سنت کے خلاف تھا ۔
 

()

جواب:نبی ﷺ کو معصوم کلی تو ہر مسلمان مانتا ہے ہر پیغمبر کو معصوم کلی ماننا ایمان کا تقاضا ہے اس میں اہل سنت اور کسی اور میں کو ئی فرق نہیں ۔
 

()

جواب:کم سے کم میری یہ حیثیت نہیں کہ میں حضور ﷺ کے علم کا وزن کر کے اس کی مقدار بیان کر سکوں حضور ﷺ کا علم بہت وسیع اور غیر معمولی تھا تمام انسانوں سے زیادہ اور تمام انبیاء ؑ کے علم سے بڑھ کر تھا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اولین اور آخرین کا علم دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں حضور ﷺ کا علم محدود علم تھا اس لئے جب اللہ تعالیٰ اور رسول کے علم کا تقابل ہو گا ( اگرچہ یہ ایک غیر ضروری اور بے فائدہ مشغلہ ہے ) تو اور بات کہی جائے گی اور جب حضور ﷺ کے علم کا موازنہ بقیہ انسانوں کے علم سے ہوگا ( جو کوئی فضول شخص ہی کرے گا ) تو پھر یہی کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کے علم کی کو ئی انتہا نہیں ہے۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب : جس حدیث میں یہ بات آئی ہے اس کی فنی حیثیت کے بارے میں بہت سی باتیں ہو ئی ہیں ان بحثوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک چیز یاد رکھنے کی ہے کہ عربی زبان میں ستر کا لفظ کثرت کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے یہاں ستر سے مراد سترکا عدد نہیں بلکہ کثرتِ تعداد مراد ہے۔ بتانا صرف یہ ہے کہ میری امت میں بہت سے فرقے ہوں گے اس کا یہ مطلب نہیں کہ میری امت میں لازماً ستر فرقے ہوں گے بیان یہ کیا گیا ہے کہ طرح طرح کی گمراہیاں پیدا کرنے والے آئیں گے تم لوگ میرے طریقے پر قائم رہنا اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ ماانا علیہ واصحابی کہ ان تمام گمراہیوں کے سیلاب میں میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ ہی حق کا محفوظ راستہ ہو گا۔ اسی روایت کے مطابق صحابہ نے پوچھا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اور میرے ا صحاب جس طریقے پر ہیں تم اس پر قائم رہنا حضورﷺ کے صحابہ کے طریقے پر جو رہے گا تو وہ کامیاب رہے گا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش ضرور ہو نی چاہئے ۔
 

()

جواب:ازواج مطہرات کے لئے پردہ لازمی تھا۔ قرآن مجید میں سخت پردے کا جو حکم ہے وہ براراست ازواج مطہرات ہی کے لئے تھا بعض فقہا کا یہ کہنا ہے کہ پردہ کے احکام ازواج مطہرات کے لئے نسبتاً زیادہ سخت تھے ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب : جی ہاں یہ بالکل درست ہے لیکن یہودیت کی تاریخ میں بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جنہوں نے یہودیت اختیار کیا عربوں میں کئی قبائل نے یہودیت اختیا ر کی عرب کے علاوہ بھی بعض لوگوں نے یہودیت اختیار کی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ یہودی سمجھے جا نے لگے آج یہ تعین کرنا کہ سا ئیبریا سے کر امریکہ تک جتنے یہودی ہیں وہ سارے یہو دی ماؤں کی اولاد ہیں یہ بڑا مشکل ہے ۔

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: احابیش سے مراد بعض غیر قریشی قبائل کا ایک مجموعہ تھا جو مکہ مکرمہ کے باہر آباد تھا قبیلہ قریش سے ان کا معاہدہ تھا ۔ ان کا سردار ابن الدغنہ قبیلہ قریش میں اثر رسوخ رکھتا تھا ۔ یہ لوگ احابیش کہلاتے تھے مکہ کے باشندے تھے لیکن قریش میں شامل نہیں تھے ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب:شریعت کی رو سے ہر منکر ختم نبوت اور مدعی نبوت دائرہ اسلام سے خارج ہے قادیانی ایک مدعی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں یہ تو شریعت کی بات تھی۔ ہمارے ہاں قومی اسمبلی کی متفقہ رائے سے ان کو غیر مسلم قرار دیا جاچکا ہے اور پاکستان میں ۱۹۴۷سے لے کر آج تک اتنے بڑے پیمانے پر اتفاق رائے کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ نیشنل اسمبلی جب یہ ترمیم کر رہی تھی توا س میں اس وقت ۱۰۰ فیصد حاضری تھی میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ ۱۰۰ فیصد ووٹ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حق میں ڈالے گئے۔ سینٹ میں بھی ۱۰۰ فیصد حاضری اور ۱۰۰ فیصد ووٹ تھا کوئی ایک ووٹ بھی غیر حاضر نہیں تھا۔ سب نے اتفاق رائے سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ اس لئے آپ اپنی اصلاح کیجئے ایسا غیر مسلم گروہ حنفی شافعی کی طرح اسلامی مسلک کیسے ہو سکتاہے ؟ پاکستا ن کے علاوہ بہت سے دوسرے اسلامی ممالک بھی قادیانیوں کو کافر قرار دیتے ہیں پاکستان سے بہت پہلے یہ فیصلہ متعدد دوسرے ممالک میں کیا جا چکا ہے مصر میں ۱۹۳۵ میں یہ فیصلہ کیا جاچکا تھا سعودی عرب میں ۱۹۷۴ کے اوائل میں یہ فیصلہ ہو اتھا کئی اور ممالک میں اس سے پہلے ہو چکا تھا ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: اصل میں یہودی تو وہی مانا جاتا ہے جو نسلاً یہودی ہو ۔یہودی اس کے علاوہ کسی اور کو یہودی نہیں مانتے لیکن یہودی دوسروں کو گمراہ کرنے میں ہمیشہ دلچسپی لیتے رہے ہیں ۔اگر کوئی عرب اپنے مذہب کو چھوڑکر اپنے آپ کو یہودی کہلوانا شروع کرتا تھا تو یہودی اس کو نہ روکتے تھے اس لئے کہ اس میں یہودیوں کا فائدہ تھا ان کے ہمدردوں میں اضافہ ہو تا تھا کم سے کم عامتہ الناس کی نظر میں ان کی تعداد بڑھتی تھی ۔
 

()

جواب: مدینہ منورہ میں شادی بیاہ کی وہی رسومات تھیں جو اسلام سے پہلے عرب میں رائج تھیں ان میں کچھ طریقے اسلام کے نقطہ نظر سے ناجائز تھے اس لئے اسلام نے ان کی ممانعت کردی رسول اللہ ﷺ نے ایسے تمام اخلاقی طریقوں کو منع فرمادیا جو طریقہ اب مسلمانوں میں رائج ہے اس کی آپ نے اجازت دے دی ۔ نکاح و طلاق کے احکام میں اصطلاحات آپ ﷺ نے فرمائی ہیں وہ شریعت کا ہر طالبعلم جانتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ نکاح رضامندی سے ہونا چاہئے ۔نکاح اعلان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ نکاح میں جو شرائط اور قیود رکھنی چاہییں ان کا ذکر قرآن اور حدیث میں صراحت سے ہوا ہے۔ جو چیزیں سراسرنا جائز تھیں ان کی آپ ﷺ نے ممانعت فرمائی ۔
 

()

جواب : اگرا س کا مفہوم یہی ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں تو بہت افسوس کی بات ہے ۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ اور تعبیر و تشریح بہت ذمہ داری کا کام ہے اس طرح سے تھوڑی سی عربی سیکھ کر مفتی نہیں بن بیٹھنا چاہے فاقتلوا ھم حیث وجدتمواھمکا مفہوم سمجھنے کے لئے سیاق وسباق کو سامنے رکھیں جس میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ سورۃ بقرہ میں جہاں یہ آیت آئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ لوگوں نے تم پر حملہ کیاہے تمہیں گھروں سے نکال دیا تھا تمہارے اوپر بیس سال سے مظالم کر رہے ہیں جب ان کے ساتھ جنگ میں مقابلہ کی نوبت آئے تو پھر بزدلی مت دکھاؤ جہاں پاؤ قتل کرو ۔یہ حکم تمام غیر مسلموں کے لئے نہیں ہے بہت سے غیر مسلموں کے ساتھ تو حضور ﷺنے معاہدے کئے مدینہ میں اور پورے جزیرہ عرب میں غیرمسلم رہتے تھے یہ سارے معاہدات حدیث میں موجود ہیں اس سارے ذخیرے کو نظر انداز کر کے آپ کہیں کہ فاقتلوا ھم حیث وجدتمواھمکا حکم ہر غیر مسلم کے لئے ہے یہ تفسیر کا صحیح طریقہ نہیں ہے یہ تو تحریف قرآن ہے ۔
 

()

جواب: بغیر عدالتی تحقیق کے کسی کو قتل نہیں کرنا چاہے جب تک عدالت سے ثابت نہ ہو کہ مجرم مستو جب قتل ہے اس وقت تک اس کے خلاف کوئی یک طرفہ کروائی کی اجازت کسی بھی قانون میں نہیں ہے۔ایسے ہی اسلا م میں بھی نہیں ہے۔
 

()

جواب:میرے خیال میں تو ضرورت کے وقت جائز ہے اگر بیٹھنے کا صحیح انتظام نہ ہو توکھڑے ہو کرکھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے ترمذی میں راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پیا شرب قائماً اسی شمائل ترمذی میں جس کا میں نے کئی بار ذکر کیا ہے اس میں ذکر ہے کہ حضورﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پیا ؛جہاں جگہ نہ ہو یا زیادہ لوگ ہوں اور بیٹھنے کا بندوبست نہ ہو سکتا ہو تو وہاں کھڑے ہو کر کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
 

()

جواب : عام اور پرامن حالات میں کسی تجارتی قافلہ کو لوٹنا بالکل ناجائز اور حرام ہے رسول اللہ ﷺ ازخود تو قافلہ روکنے کے لئے نہیں نکلے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے قریش اور بعض دشمن قبائل کے تجارتی قافلوں کو روکنے کا حکم دیا تھا ۔یہ بالکل درست ہے وہ حالت جنگ تھی جب دشمن کے خلاف اعلان جنگ ہو چکا ہو تو اس کی مدد کے لئے آنے والے سامان کے قافلے روکے جاسکتے ہیں آج پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہو جائے تو پاکستان کے لئے بھارت کے تجارتی جہازوں کی نقل و حرکت کو روکنا جائز ہوگا ۔یہاں ملک کے قابل احترام امیر البحر تشریف فرماہیں ان کی بحریہ بھارت کے لئے پٹرول وغیرہ لے جانے والے جہازوں کو کبھی نہیں چھوڑے گی یہ دنیا کے ہر قانون میں جائز ہے اسی طرح جب کفار مکہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے جنگ کی تیاری کر رہے تھے اور اسلحہ جمع کر رہے تھے تو ان وسائل کو روکنا اور ان کو مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو نے سے منع کرنے میں کوئی چیز غیر اخلاقی یا غیر قانونی نہیں تھی ۔
 

()

جواب : شیخ الاسلام علامہ ابن قیم فقہی اعتبار سے حنبلی تھے انہوں نے جہاں جہاں فقہی مسائل بیان کئے ہیں اکثر حنبلی نقطہ نظر کے حوالہ سے بیان کئے ہیں کہیں کہیں انہوں نے اپنے مسلک سے اختلاف بھی کیا ہے اور دوسری رائے ظاہر کی ہے ۔
 

()

جواب : میرے نزدیک تویہ عمل درست ہے میں تو جب بھی موقع ملتا ہے، ایسے بابرکت اور تاریخی مقامات پر نوافل ادا کرتا ہوں ۔ دوسرے ممالک مثلاً مصر ،اردن اور شام وغیرہ میں ایسے مقامات پر نوافل ادا کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیںآتی ؛لیکن چونکہ ہمارے سعودی بھائی اس کو بدعت سمجھتے ہیں اسلئے سعودی عرب میں ایسا کرتے وقت شرطہ سے بھی اپنی حفاظت کرنی پڑتی ہے یہ ذرا مشکل کام ہے کہ آپ نوافل بھی ادا کریں اور شرطہ سے بھی اپنی حفاظت کریں اگر آپ کو موقع ملے تو اس احتیاط کے ساتھ ضرور نوافل ادا کریں ۔
 

()

جواب : میرے خیال میں مسلمانوں کی طرف سے پڑھا اور بھیجے جانے والا درود شریف حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچایا جاتا ہے جو آپ درود بھیجتے ہیں وہ حضور ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے اور آپ کے علم میں آتا ہے۔ یہ بعض روایات سے ثابت ہے میں کوئی سخت لفظ نہیں بولنا چاہتا لیکن دور جدید کے بعض متشدد محققین کو ہر اس بات کی تردید سے دلچسپی ہے جس کا تعلق مسلمانوں کی ذات رسالت ماب ﷺ سے محبت اور عقیدت سے ہو ۔انہوں نے تحقیق کر کے ان احادیث کو بھی کمزور قرار دیا ہے ممکن ہے کہ یہ احادیث واقعی کمزور ہوں لیکن میں سردست اس بحث میں نہیں جاتا اگر کمزور بھی ہوں تو اس طرح کی احادیث کے بارے میں ہمیشہ دو آراء ہو سکتی ہیں 
(۱) ایک بات میں ذرا وضاحت سے کہ دوں نکیر اسلام کی ایک اصطلاح ہے اس کا مطلب ہے منکر پر اظہار ناپسند ید گی کرنا ۔
منکر پر ناپسندیدگی کا حسب استطاعت اظہار کرنا مسلمان کی ذمہ داری ہے منکر وہ ہے جو قرآن پاک اور حدیث کی نص قطعی کی رو سے براکام ہو اور ناجائز ہو۔ معروف اور منکر دو اصطلاحات ہیں ۔ بدکاری منکر ہے ،چوری،فحاشی ، جھوٹ بولنا، جعل سازی اور توہین انبیامنکر ہیں ان چیزوں کے منکرات ہو نے میں کوئی اختلاف نہیں ان پر نکیر کرنا مسلمان کی ذمہ داری ہے ،من راٰی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ یہ جو مشہور حدیث ہے اس میں منکر سے یہی منکر مراد ہے ۔
لیکن جو چیزیں مختلف فیہ ہوں جہاں قرآن و حدیث کی تعبیر کا مسئلہ ہو اور اس تعبیر کی بنیاد احادیث یا قرآن کی آیات پر ہو اس رائے سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن وہ منکر نہیں ہو تی اس پر نکیر نہیں کرنی چاہیے اگر کو ئی اس طرح کی مختلف فیہ بات پر نکیر کرتا ہے تووہ شریعت کو نہیں سمجھا ہے میں یہ با ت پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ جو شخص مختلف فیہ چیزوں پر نکیر کرتا ہے وہ شریعت کو نہیں سمجھتا۔

()

جواب: جی ہاں ،حضور ﷺ کبھی کبھی خاص طور پر گرمی کے شدید موسم میں سر اور داڑھی کے بالوں پر مہندی لگایا کرتے تھے رہی یہ بات کہ آپ کی داڑھی کی مقدار کتنی تھی اس کا کسی روایت میں کوئی متعین سائز نہیں ملتا صحابہؓ صرف اتنی روایت کرتے ہیں کہ کان کث اللحیۃ یعنی آپ کی داڑھی گھنی تھی ۔
 

()

جواب : رسول ﷺ کی خواہش تو یہ تھی کہ پوری انسانیت مسلمان ہو جائے آپ ﷺ کے بارے میں تو خود قرآن کے اندر یہ گواہی موجود ہے لعلک باخع نفسک الایکونو امؤمنین یعنی آپ ﷺ اس غم میں اپنے آپ کوفنا کیے دے رہے ہیں کہ لوگ مسلمان نہیں ہو رہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی جو عمومی حکمت اور مشیت ہے اس کے حساب سے کوئی اسلام میں داخل ہوتا ہے اور کوئی نہیں ہو تا ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ انک لاتھدی من احببت کہ تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے کیوں کہ ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے ۔
جناب ابوطالب کے قبول اسلام کے بارے میں مسلمانوں میں دو نقطہ نظر ہیں ایک نقطہ نظر کے مطابق انہوں نے اپنی وفات سے چند لمحے قبل اسلام قبول کیا تھا دوسر ے نقطہ نظر کے مطابق انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا یہ تاریخ کا مسئلہ ہے عقیدہ یا دین کا مسئلہ نہیں ہے ۔

 

()

جواب : اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے اختلاف کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس سے خیالات کا تنوع اور وارئٹی سامنے آتی ہے جتنی وارئٹی ہو گی اتنا خیالات اور افکار پھیلیں گے اور تعلیمی سطح بلند ہو گی لیکن ان خیالات کو ایک دوسرے سے جھگڑنے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ میں کئی معاملات میں اختلاف ہے ۔
لیکن امام مسلم ؒ امام بخاری ؒ کا اتنا احترام کرتے تھے کہ انہوں نے امام بخاری سے کہا کہ آپ اجازت دیں کہ میں آپ کے پاؤں چوم لوں ۔لیکن امام مسلم نے خود اسی صحیح مسلم کے مقدمہ میں امام بخاری پر اتنے احترام کے باوجود تنقید کی ہے تو احترام اپنی جگہ اور اختلاف اپنی جگہ دونو ں ہو سکتے ہیں 

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب : نماز میں کوئی فرق نہیں ہے ایک ہی طرح کی ہے سارے احکام ایک ہی جیسے ہیں ۔لیکن فقہا کا کہنا یہ ہے کہ جب خاتون سجدہ یا رکوع کی حالت میں جائے تو سجدہ ایسے کرے کہ اس کے جسم کے لئے زیادہ سے زیادہ ساتر ہو اور جسم کے جو خدوخال ہیں وہ نمایاں نہ ہو ں یہ بھی ایک حدیث سے استدلال کی بنیادپر ہے بعض لوگ کہتے ہیں کوئی ضرورت نہیں اسی طرح کرنی چاہیے جیسے آپ کا جی چاہے ویسے کرلیں۔
 

()

جواب : اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو ں گی اس لئے جوشخص علم نہ رکھتا ہو اسے اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یہ حکم بالشریعہ نہیں ہو گا بلکہ حکم بالتشہی ہو گا یعنی اپنی شہوت کے مطابق آدمی پیروی کرے گا۔ جو چیز کاروبار میں مفید ہوگی تو تاجر کہے گا کہ یہ رائے اختیار کریں جس کو کسی اور چیز میں فائدہ ہو گا وہ کہے گا اس چیز کو اختیار کریں تو اس سے بڑی قباحت پیدا ہوگی۔
 

()

جواب: بدعت وہ ہے جس کی کسی حدیث یا سنت یا حدیث میں یا حدیث کی تعبیر و تشریح میں کوئی اساس نہ ہو لیکن اگر کوئی عمل کسی حدیث کی تعبیر کی وجہ سے ہے، وہ تعبیر تو کمزور ہو سکتی ہے اور آپ اس تعبیرکو غلط بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس عمل کو بدعت نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے اگر کوئی حدیث ایسی ہے جو کمزور ہے مثلاً اسی ترمذی میں ہے جو میرے سامنے ہے جس میں پندرہ شعبان کو عبادت کرنے کا ذکر ہے ۔لیکن ضعیف حدیث ہے اکثرمحدثین اس کو ضعیف سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ حدیث ضعیف ہے اور اس کا ضعف بڑے کمزور درجہ کا ہے جو حضرات سمجھتے ہیں کہ اس کا درجہ اتنا کمزور نہیں وہ اس پر عمل کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اس لئے جو حدیث پر عمل کی نیت سے اس کام کو کررہے ہیں وہ بدعت نہیں ہے ۔
لہذا اگر کوئی پندرہ شعبان کی رات کو عبادت کرتا ہے یا دن کو روزہ رکھتا ہے تو نعوذ باللہ بدعت نہیں ہے لیکن جو پندرہ شعبان کو پھلجھڑی چلاتا ہے وہ یقیناًبدعت ہے جو سمجھتا ہے پندرہ شعبان کو حلوہ بنانا ضروری ہے وہ یقیناًبدعت ہے جو پندرہ شعبان کو چراغاں کرتا ہے وہ یقیناًبدعت کرتا ہے کیونکہ اس کو کوئی براہ راست یا بالواسطہ کسی کسی ضعیف حدیث میں بھی کہیں نہیں آیا۔ یہ فرق ہے بدعت اور غیر بدعت میں کسی چیز کا صحیح ہونایا نہ ہونا یہ الگ چیز ہے اور اس کا بدعت ہونا یا نہ ہونا الگ چیز ہے۔

 

()

جواب : ایک صحابیؓ نے اس یقین سے کہ اللہ کی کتاب میں شفا ہے( قرآن پاک میں اس کو شفا کہا گیا کہ فیہ شفاء لما فی الصدور )، پڑھ کر پھونک دیا اور اس قبیلہ کے سردار نے ہدیہ کے طور پر کچھ پیسے بھی دے دیئے اور انہوں نے لے لئے۔ یہ معاوضہ کی بات نہیں تھی کہ انہوں نے پہلے فیس مقرر کی ہو کہ پانچ سو روپے لیں گے اور پانچ سو روپے لیکر پھونک دیا یہ کسی صحابیؓ یا تابعی نے نہیں کیا ۔ اس لیے تحفتاً کوئی دے دے تو حرج نہیں لیکن معاوضہ طے کرنا ثابت نہیں۔
 

()

جواب : کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد سے پوچھئے بغیر اس کا نکاح نہ کرو الفاظ مجھے یاد نہیں لیکن مفہوم یہ ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب تم کسی بیٹی کی شادی کرو تو اس سے اجازت لے لو ۔ اس کی خاموشی اسکی اجازت ہے اور ایک ایسی مثال ہے کہ کسی صاحب نے اپنی زیر کفایت خاتون یا لڑکی کا نکاح کر دیا اور اس نے اعتراض کیا تو حضورﷺ نے اس نکاح کو ختم کروایا اور ان سے پوچھ کر ان کا نکاح کروایا اور ایسی بھی مثالیں ہیں کہ ایھا امرت نکحت بغیر اذن ولیھا فنکا حھا باطل باطلکہ جوخاتون اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ باطل ہے باطل ہے باطل ،اب بظاہر یہ دو احادیث ہیں اور ان دونوں میں تعارض ہے میں نے اس سے پہلے بتایا تھا کہ علماء نے تعارض کو حل کرنے کے کم سے کم پچاس اصول مقرر کئے ہیں ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جن احادیث میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرنے کا ذکر ہے ان احادیث کو ترجیح دی جائے گی اور ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جو ہوگا وہ باطل ہوگا ؛
امام ابوحنیفہ ؒ نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے تطبیق دینے کی کوشش کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جہاں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرنے کا ذکر ہے وہاں اس کے اخلاقی پہلو کوحضورﷺ نے بیان کیا ہے کہ اخلاقی طور پر ایک خاتون کو یہ حق نہیں دیتا کہ باپ سے پوچھے بغیر جہاں چاہیے نکاح کر لے اور باپ کو بعد میں پتا چلے وہ بیچارہ پریشان ہو اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بہت مضبوط اخلاقی ہدایت ہے لیکن کیااگر کوئی خاتون نکاح کرے تو کیا وہ نکاح legally valid ہوا کہ نہیں ہوا؟یہ بڑا نازک سا معاملہ ہے فرض کریں ایک خاتون نے نکاح کرلیا اور گھروالوں کو اطلاع نہیں دی ان کو دس سال بعد پتا چلا میں ایک مثال دیتا ہوں ایک لڑکی یہاں سے پڑھنے کے لئے انگلستان گئی وہاں اپنے کلاس فیلو سے شادی کر لی ماں باپ کو پتہ نہیں چلا دس سال بعد آئی تو شوہر صاحب بھی ساتھ آئے اور تین بچے بھی ساتھ تھے اب بتایئے کہ جو فقہا کہتے ہیں کہ نکاح جائز نہیں ہے ان بچوں کو کیا کہیں گے ؟امام ابو حنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ یہ نکاح قانوناًجائز ہے لیکن ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ان کو سزا دیں جرمانہ کریں قید میں بھی ڈالیں تھپڑ بھی لگائیں اس لئے کہ اس نے ایک ایسا کام کیا ہے جس کی اجازت حدیث میں نہیں دی گئی ہے لیکن قانوناً آپ اس کو منسوخ نہیں کر سکتے یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن دونوں بیانات کا خلاصہ یہ ہے۔پاکستان میں عدالتیں اکثر امام ابوحنفیہ ؒ کے نقطہ نظر کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں اس میں بھی عدالتیں کے بعض فیصلوں کے بارے میں مجھے بھی تامل ہے اس میں فیصلہ اس طرح نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اس موضوع پر ایک مفصل مرتب قانون ہونا چاہیے جب میں اسلامی کونسل کا رکن تھا تو وہاں میں نے یہ مسئلہ اٹھا یا تھا اور اس ضرورت کا اظہار کیا تھا کہ ایک مکمل اور جامع مسلم فیملی لا پاکستان میں تیار ہونا چاہیے جس میں اس طرح کے سارے مسائل کو مکمل طریقے سے بیان کردیا جائے اور جوکمزور پہلوہیں چھوٹے چھوٹے راستے ہیں ،ان کو بند کر دیا جائے ۔

 

()

جواب : جی ہاں ؛ امام ابو حنیفہ ؒ نے حضرت انسؓ کو دیکھا تھا ۔امام صاحب اپنے والد کے ساتھ حج کیلئے گئے تھے اس وقت ان کی عمر 14;13سال تھی حضرت انسؓ مکہ مکرمہ میں تشریف لائے ہوئے تھے اور امام ابوحنیفہؒ بیان کرتے ہیں کہ جب میں حج کیلئے گیا تو مسجد حرام کے باہر ہجوم تھا بہت لوگ جمع تھے ۔ہر شخص لپک کر اس ہجوم کے مرکز تک پہنچنا چاہتاتھا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟انہوں نے کسی سے پو چھ کر بتایا کہ صحابی رسولﷺ حضرت انسؓ آئے ہیں اور لوگ ان کو دیکھنے کیلئے جمع ہو رہے ہیں۔ تو امام ابو حنیفہؓ کہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کے درمیان سے نکل کر ان تک پہنچ گیا اور میں نے ان کی زیارت کی ۔
ا

()

جواب:نہیں استخارے میں خواب کا آنا ضروری نہیں ہے۔ استخارے کے معنیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے طلب خیر کی جائے۔ جب آپکے سامنے دو کام ہیں دونوں جائز ہیں یہ نہیں ایک جائز ہواور دوسرا ناجائز کہ سودکھاؤں کہ نہ کھاؤں اور استخارہ کرنے لگے یہ استخارہ نہیں ہوگا استخارہ وہاں ہو گا جہاں دو جائز کا م درپیش ہوں اور انتخاب میں مشکل پیش آرہی ہو مثلاً مکان خریدنے کا پروگرام ہے اور دو مکان مل رہے ہیں اور آپ کے لئے دونوں میں سے ایک کا منتخب کرناہے کہ کون سا اچھا ہے تو استخارہ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میرے لئے جو اچھا ہے اس کو میرے لیے آسان کر دے تو جو خیر ہوگی اللہ تعالیٰ اس کو آسان کر دے گا ۔خواب کا آنا کو ئی ضروری نہیں ہے 

()

جواب: دیکھئے چہرے کے پردے کے بارے میں شروع سے ایک گفتگو چلی آرہی ہے جس میں صحابہ اور تابعین کے زمانے سے بحث ہورہی ہے قرآن پاک کی جس آیت میں آیا ہے کہ پردہ کرو اس میں آیا ہے کہ الا ماظھر منھا سوائے اس کے کہ جوظاہر ہو ۔ فقہا، محدثین، صحابہ،تابعین ، اور تبع تابعین کی ایک بہت بڑی کا کہنا ہے کہ الا ماظھر منھا یعنی سوائے اس کے جو ظاہر ہو جائے اس میں جسم کی ساخت اور قدوقامت شامل ہے جس کو نہیں چھپایا جاسکتا۔جب ایک خاتون نکل کر کہیں جائے گی تو لوگ دیکھ لیں گے کہ دبلی ہے پتلی ہے موٹی ہے بھاری ہے تو یہ ظاہر ہوجائے گا اور جسم کی ساخت کا بھی اندازہ ہوجائے گا تو یہ تو نہیں چھپایا جاسکتا اس لئے اس میں یہ شامل ہے باقی سب چیزیں چھپانی چاہیں ۔کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اس میں جسم کے وہ اعضاء بھی شامل ہیں جن کا بعض اوقات کھولناضروری ہو تا ہے ۔ 
مثلاًکسی کام کے لئے خاتون جارہی ہے سفر پر جارہی ہے تو ہاتھ کھلا ہوگا پاؤں کھلے ہوں گے کسی مزدوری کے لیے ضرورت پڑی تو ہاتھ کھولنا پڑے گا اس میں کچھ لوگ چہرے کھولنے کو شامل سمجھتے ہیں اس لئے کہ چہرے کا پردہ واجب ہے کہ اس میں اختلاف شروع سے چلا آرہا ہے اس لئے کچھ لوگ جو چہرے کے پردے کھولنے کو بھی شامل سمجھتے ہیں ان میں امام احمد بن حنبل ؒ اورسعودی علماء شامل ہیں وہ ہر حال میں چہرے کے پردے کو لازمی سمجھتے ہیں ۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چہرے کا پردہ عام حالات میں تو کرنا چاہیے لیکن اگر کسی خاتون کو کوئی ناگزیر ضرورت ایسی پیش آجائے جس میں وہ وقتی یا مستقل طور پر چہرے کھولنے پر مجبور ہو تو چہرہ ہاتھ اور پاؤں کھولنے کی اجازت ہے ۔
تیسرا نقطہ نظریہ ہے جو مجھے بھی ذاتی طور پر دلائل وغیرہ دیکھ کر درست معلوم ہوتاہے لیکن آپ کا جو جی چاہیے وہ آپ اختیار کریں وہ ہے کہ چہرے کا ڈھکنا تو افضل اور عزیمت ہے لیکن کھولنا کی اجازت ہے چہرہ کھولنا رخصت ہے اگر وہ خاتون یہ سمجھتی ہیں کہ چہرہ نہ کھولنا سے اس کے لئے مشکلات ہیں تو وہ کھول سکتی ہیں ۔
اور یہ مسائل بعض اوقات یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں پیش آتے ہیں جہاں ہماری بہت سی بہنوں کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور باہر جانا پڑتا ہے وہاں کے ماحول میں ان کو سر ڈھانکنے کی اجازت بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے تو چہرے کے ڈھانکنے کی پابندی بھی اگر لازم کر دی جائے تو ان کے لئے شاید مشکل ہو جائے اس لئے جہاں حالات ناگزیر یا مشکل ہوں تو میرے خیال میں چہرہ کھول سکتی ہیں ۔

 

()

جواب :دراصل ہم جس چیز کے پابند ہیں تو وہ اللہ کی کتاب اور اللہ کو رسول ﷺ کی سنت ہے اور یہی شریعت کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن اور سنت نے کسی اور شخص یا کسی اور چیز کی پیروی کرنے کی پابندی نہیں لگائی ۔لہذا شرعاً نہ امام ابو حنیفہ ؒ کی پیروی لازم ہے نہ امام بخاریؒ نہ امام مسلم ؒ کی نہ کسی اہل حدیث کے فقہ کی پیروی شرعاً لازم ہے 
قرآن سنت کی پیروی لازم ہے لیکن ہر شخص قرآن و حدیث کا اتنا علم نہیں رکھتا کہ وہ ان کی صحیح پیروی کر سکے اس لئے جو علم نہیں رکھتا وہ مجبور ہے کہ وہ جاننے والوں سے پوچھے۔ علم جاننے والوں میں سے جس کے علم اور تقوٰی پر سب سے زیادہ اعتماد ہو جس کا علم اور تقویٰٰ اس درجہ کا ہو کہ آپ آنکھیں بند کر کے اس کی بات مان لیں۔
جب ائمہ فقہ اور ائمہ حدیث نے اپنے اپنے اجتہادات مرتب کئے تو بعض حضرات کے ارشادات کتابی شکل میں مرتب ہوگئے ان کے شاگردوں نے بڑی تعداد میں ان کے ارشادات اور فتاویٰ کو پھیلا دیا اس لئے ان کی بات پر عمل کر نا آسان ہوگیا۔ بقیہ فقہا کے اجتہادات اور اقوال مرتب نہیں ہوئے اس لئے ہم تک نہیں آئے ۔مثلاً امام بقی بن مخلد بہت بڑے محدث تھے ان کے خیالات کیا تھے وہ حدیث کی کیسے تعبیر کرتے تھے وہ آج ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں اس لئے ہم آج بقی بن مخلدکے اجتہادات پر عمل نہیں کرسکتے کہ وہ کیا مفہوم بیان کرتے تھے۔ لیکن امام مالک کے اقوال ہمارے سامنے موجود ہیں۔ امام بخاری ؒ کے فتاویٰ ہمارے سامنے ہیں اس لئے ان کے بارے میں یقین سے یہ کہنا آسان ہے کہ وہ کس حدیث کی کیاتعبیر کرتے تھے اس لئے جس کے علم اورتقویٰ پر آپ کو اعتماد ہو اختیار کرلیں لیکن ہر آدمی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جزوی مسائل میں پہلے یہ دیکھے کہ کیا چیز میرے لئے آسان ہے اس سے گمراہی اور افرتفری کا راستہ کھلتا ہے ۔
اگر صاحب علم دلائل کی بنیاد پر ثابت کر دے تو جائز ہے اور ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے آئندہ بھی ہوگا۔ لیکن جو عام آدمی قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتا وہ صرف آسانیاں تلاش کرنا چاہتا ہے کہ کتاب کھول کر جو چیز آسان لگے اس کو اختیا ر کر لے اس سے شریعت کے تقاضے ٹوٹتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اس لئے اگر صاحب علم دلائل سامنے لاکر ایسا کرتا ہے تو وہ واقعی ایسا کرسکتا ہے ایک عام آدمی جس کو نہیں معلوم کہ حدیث ضعیف کیا ہے حدیث موضوع کیا ہے جس کو یہ نہیں معلوم کہ قرآن کی کس آیت کاکیا مفہوم ہے کون سی آیت پہلے نازل ہوئی کون سی بعد میں نازل ہوئی وہ اگر اپنی مرضی سے عمل کرنا شروع کردے تو شاید غلطی کو شکار ہو جائے۔ اس لئے غلطی سے بچنے کے لئے معتبر اور معتمد اصحاب علم پر اعتماد کرنا چاہیے ۔

 

()

جواب :ایک اعتبار سے تو ہر مسلمان اہل حدیث ہے۔ کیا ہم سب مسلمان جو ایک ارب بیس کروڑ کی تعداد میں دنیا میں بستے ہیں کیا ہم حدیث رسولﷺ پر عمل نہیں کرتے ؟سب حدیث پر عمل کرتے ہیں اس لئے ہم سب اس مفہوم میں اہل حدیث ہیں لیکن اہل حدیث کے نام سے جو حضرات برصغیر میں مشہورو معروف ہیں یہ اصل میں وہ حضرات ہیں جو مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ کے زمانے میں اور ان کے بعض فتاویٰ کی روشنی میں کچھ احادیث پر عمل کرنے لگے تھے ۔ ان حادیث پر عمل کرنے کی وجہ سے باقی لوگوں سے ان کا تھوڑا اختلاف پیدا ہوگیا تھا۔ یہ لوگ شروع میں تو کسی خاص نام سے مشہور نہ تھے لیکن جب سید احمد شہید ؒ کی سربراہی میں تحریک جہاد شروع ہوئی اور مولانا اسماعیل شہید اس میں شریک ہوئے تو وہ سارے کے سارے لوگ انگریزوں کی تحریروں میں وہابی کہلانے لگے۔ انگریزوں نے انکو وہابی کے نام سے مشہور کر دیا اور ایک طرح سے ان کا نک نام وہابی پڑ گیا۔ وہابی کے لفظ کو انگریزوں اور کچھ دوسرے لوگوں نے غلط معنوں میں استعمال کیا تو جب یہ لوگ وہابی کے نام سے مشہور ہوئے ان کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
انگریزوں نے ان کو بڑا persecute کیا اور اس persecution کے بہت قصے مشہور ہیں اور بڑے دردناک اور سبق آموز ہیں ۔جب یہ سلسلہ بہت آگے بڑھا تو کچھ لوگو ں نے یہ چاہا کہ ہم وہابی کے بجائے کسی اور نام سے جانے جائیں تو بہت اچھا ہوگا ۔تو انہوں نے یہ طے کیا کہ ہمارا نام اہل حدیث ہونا چاہیے انہوں نے اہل حدیث کے لفظ کو رواج دے دیا تو وہ اہل حدیث کے نام سے مشہور ہوگئے۔ اس میں وہ حضرات بھی شامل ہیں جو مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ کے فتاویٰ پر عمل کرتے تھے اور زیادہ تر وہ حضرات شامل ہیں جن کا سلسلہ تلمذحضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے ملتا ہے جو بعد میں حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ کے ارشادات اور طریقہ کار پر چلتے تھے۔ میاں صاحب اتنے بڑے انسان تھے کہ وہ اپنے زمانے کے شیخ الکل کہلاتے تھے۔ یعنی سب کے استاد پورے ہندوستان کے استاد اور واقعی وہ علم حدیث میں شیخ الکل تھے۔ 

 

()

جواب: بعض احادیث کی تعبیر و تشریح میں اور قرآن پاک کی آیات کی تعبیر و تشریح میں بھی ایک سے زائد رائے کا امکان موجود ہے ۔صحابہؓ کے زمانے سے ایسی مثالیں موجود ہیں۔ رسولﷺ نے صحابہؓ کی ایک سے زائد تعبیروں اور ایک سے زائد توضیحات کو درست قرار دیا اور دونوں کو بیک وقت قابل قبول قرار دیا۔ اس سے پتا چلتاہے کہ اسلام میں بعض احکام ایسے دیئے گئے ہیں قرآن پاک میں بھی اور احادیث میں بھی جن کی تفسیریں اور تشریحات کی جاسکتی ہیں۔ یہ اجازت اس لئے دی گئی کہ مختلف حالات کے لحاظ سے مختلف زمانے کے متنوع تقاضوں اور لوگوں کی ضروریات کے لحاظ سے علماء اور فقہااور محدثین اس کی نئے نئے انداز سے تشریح کرسکیں ۔مثلاً قرآن پاک کی آیات میں کہ علی الموسع قدرہ وعلی المقتدرہ قدرہ ۔؛جب شوہر بیوی کانفقہ ادا کرے گا تو دولت مند اپنی استطاعت کے لحاظ سے اور غریب اور نادار اپنی استطاعت کے لحاظ سے ادا کرے گا حالانکہ مثال کے طور پر قرآن پاک کہہ سکتا تھا کہ شوہر سو درہم نفقہ دیا کرے یا ایک من گندم دیا کرے گا اس حکم کو بیان کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھا لیکن قرآن مجید میں اس طرح سے کوئی معین مقدار نہیں بتائی گئی بلکہ ایک عمومی بات بتائی جس کو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے لوگ سمجھیں اور اسکی تعبیر کریں۔ 
تعبیروں کا اختلاف اسلام کی بنیادی خصوصیات میں شامل ہے اس لئے حضور ﷺ نے اجازت دی اس کی۔ قرآن پاک میں اس کی گنجائش رکھی گئی مختلف اہل علم نے مختلف تعبیریں کیں اور جو شخص جس فقیہ کے علم اورتقویٰ پر اعتماد کرتا ہے اسکی بات مان لیتا ہے۔ اس زمانے میں جبکہ یہ سارے محدثین اور فقہا موجود تھے اس وقت بھی جن حضرات کو امام شافعی ؒ کے علم اور تقویٰ پر اعتماد تھا وہ امام شافعیؒ کے اجتہادات کو سر آنکھوں پر تسلیم کرتا تھے امام شافعیؒ اتنے اونچے درجے کے انسان تھے کہ اگر آج وہ آئیں اور ہم میں سے کوئی ان کے پاؤں چومنے کی کوشش نہ کرے تو بڑا بدبخت ہوگا۔ امام احمدبن حنبلؒ سے ہر مسلمان کو محبت اور عقیدت ہے لیکن امام احمد بن حنبل ؒ کے اجتہادات کو دنیائے اسلام میں بہت تھوڑے لوگ قبول کرتے ہیں مسلمانوں میں مشکل سے ایک فیصد لو گ ہوں گے جو فقہی معاملات میں امام احمد کی رائے اور اجتہا دپرعمل کرتے ہیں بقیہ ننانوے فیصد دوسرے فقہا کی پیروی کرتے ہیں لیکن امام احمد کے احترام میں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ تقلید سے مراد صرف یہ ہے کہ کسی شخص کے علم اور تقویٰ کی بنیاد پر اس کی بات مان کر عمل کر لیا جائے اس کو تقلید کہتے ہیں۔ امام احمد کی تقلید تھوڑے لوگوں نے کی لیکن احترام سب کرتے ہیں۔ تقلید کا تعلق احترام سے نہیں ہے احترام تو ہر صاحب علم کا ہوتا ہے۔ صحیح بخاری دنیائے اسلام میں ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے۔ اس وقت دنیائے اسلام میں امام ابو حنیفہ ؒ کی پیروی کرنے والے کم و بیش پینسٹھ فیصد مسلمان ہیں۔پوراایشیاپورا افغانستان پورا ترکی پورا مشرقی یورپ پورا ہندستان پورا پاکستان پورا بنگلہ دیش پورا چین یہ دنیائے اسلام کے تقریباً ساٹھ فیصد پینسٹھ فیصد مسلمان ہیں ۔یہ پیروی ان کے اجتہادات کی کرتے ہیں لیکن احترام سب کا کرتے ہیں۔تقلید صرف ایک صاحب علم کی رائے کو دوسرے سے بہتر جاننا ہے اس کا مطلب دوسرے صاحب علم کی توہین ہر گز نہیں۔

 

()

جواب:قرآن پاک کو کوئی بھی منسوخ نہیں کر سکتا پیغمبر بھی نہیں کر سکتا ۔ قل ما یکون لی ان ابد لہ من تلقاء نفسی ۔ ’’کہہ دیجئے کہ میں اپنی طرف سے اس میں ایک آیت بھی تبدیل نہیں کر سکتا ‘‘البتہ سنت کے احکام ایک حکمت کی وجہ سے تدریج کے اصول کے اعتبار سے حضورﷺ نے بعض جگہ منسوخ فرمائے ہیں ۔بعض احکام شروع میں دیئے گئے بعد میں انکو منسوخ کر کے دوسرا حکم دیا گیا۔ تدریج قرآن کے احکام میں بھی ملحو ظ رکھی گئی اور سنت میں بھی رکھی گئی ہے۔ جہاں تک قرآن پاک میں کسی تبدیلی کا حق ہے وہ تو خود قرآن میں رسول اللہ ﷺ کو یہ اعلان کر دینے کا حکم دیا گیا ہے کہ مجھے اس کتاب کی ایک آیت میں بھی ذرہ برابرتبدیلی کرنے کا اختیار نہیں لیکن سنت کے معاملے میں حضور اکرم ﷺ نے تدریج سے کام لیتے ہوئے بعض احکام میں تقدیم و تأخیر کی ہے اور بعض احکام میں تخصیص و تقیید فرمائی ہے ۔ 
 

()

جواب:یہ بات جو حضرت عمر فاروقؓ سے منسوب ہے یہ بہت Misquote اور Misuse ہوئی ہے اوّل تو میں نے بہت تحقیق کی کہ کسی مستند کتاب میں مجھے یہ بات مل جائے لیکن کسی مستند کتاب میں یہ بات نہیں ملی۔ حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں ہے نہ اس زمانے کے مستند ترین مؤرخین یا سیرت نگاروں میں سے کسی نے یہ بات لکھی ہے۔ یہ بات بعد کے لوگوں نے لکھی ہے ۔انہوں نے بھی جو لکھا ہے اسکا مفہوم صرف یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے قحط سالی کے دنوں میں یہ حکم دیا تھا کہ چوروں کے ہاتھ کاٹنے میں جلدی نہ کریں اور یہ دیکھو کہ اس نے کسی غربت یا فکر و فاقہ کی بنیاد پر تو چوری نہیں کی۔ یہ بات اس نتیجہ سے با لکل مختلف ہے جو متجدیدین اس وقعہ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہاں سیدنا عمر کو ئی نئے بات نہیں فرما رہے ہیں بلکہ شریعت ہی کے حکم کی یادہانی کرا رہے ہیں 
شریعت کا حکم یہ ہی ہے اور اس پر تمام فقہا ء کا اتفاق ہے کہ محتاج اور فقیر شخص اگر اپنی فوری حاجت یا ضرورت کی خاطر چوری کر رہا ہے تو وہ چوری نہیں سمجھی جائے گی اور اس پر قطع ید نہیں ہو گا ایک بھوکا آدمی اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی کے گھر جا کر چوری کر لے اور وہاں سے کھانا چرا کر کھا لے اس پر قطع ید کی سزا نہیں ہو گی۔ یہ بات فقہا ء اکرام نے قرآن پاک ہی کے الفاظ سے اخذ کی ہے والسارق و السارقۃ فا قطعو ا ایدیھما جزاء بما کسبا (اورچور خواہ عور ت ہو یا مرد دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ انکی کمائی کا بدلہ ہے ) جنہوں نے چوری کے ذریعے کسب کیا ہو یعنی اس میں کمانے کی یا کسب کی نیت شامل ہو کسی فوری اور حقیقی ضرورت کی تکمیل نہ ہو ۔
ایک غریب شخص مر رہا ہے علاج کے لئے اس کے پا س رقم نہیں آج کل چھ چھ ہزار آٹھ آٹھ ہزار کا ایک معمولی انجکشن آتا ہے اگر وہ نہ لگائے تو فوری طور پر جان کا خطرہ ہے یا جو دل کے مریض ہو تے ہیں وہ درد کے وقت فورا زبان کے نیچے گولی رکھتے ہیں ورنہ گڑبڑ ہو جاتی ہے اگر ایسی صورت میں وہ شخص کہیں سے قیمتی دوائیں چرا لے اور گولی لے کر منہ میں رکھ لے تو یہ اس شدید ضرورت کے تحت آئے گا اس پر قطع ید نہیں ہو گا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے آج کل کی اصطلاح میں کہہ سکتے ہیں ایک Directive جاری کیا تھا جس میں شریعت کے اس حکم کی یا دہانی کرائی گئی تھی اور اس پر سختی سے عمل کرنے کی ہدیت کی تھی 
حضرت عمر فاروقؓ سے منسوب یہ واقعہ اگر درست ہے تو اس کا یہ ہی مفہوم ہے اس کا کوئی تعلق قرآن پاک کے کسی حکم کو منسوخ کرنے سے نہیں ہے جو حکم واضح طور پر قرآن پاک میں دیا گیا ہے اسکو حضرت عمر فاروقؓ تو کیا سارے صحابہ کو مل کر بھی تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس وا قعہ کی یہ تعبیر جو آج کل بعض لوگ کرتے ہیں اور زورو شور سے دہراتے ہیں یہ تعبیر لغو اور مہمل ہے اصل حوالہ کوئی نہیں دیتا بس ایک مبہم بات کہہ دی جاتی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے حدمنسوخ کر دی ۔ اصل مین متجدد دین یہ کہنا چاھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کو حد ساقط کرنے کا اختیار تھا تو آخر ہم میں کیا کمی ہے ہمیں یہ اختیار کیوں نہیں مل سکتا ؟
یہ استدلال میرے خیال میں صحیح نہیں ہے اور نہ کسی فقیہ نے حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے سے لیکر آج تک یہ بات کہی آج کے زمانے میں استاد عبدلقادر عودہ جو اسلام کے فوج داری قانون پر سب سے بڑے آخری مصنف ہیں وہ خود مصری عدلیہ کے اعلی منصب پر فائز رہے اور زمانے کی ضرورت سے کم واقف نہیں تھے انہوں نے بھی یہ بات نہیں لکھی

()

جواب : میں کمپیو ٹر بالکل نہیں جانتا اس لیے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ سوال یا مثال درست ہے کہ نہیں لیکن میں ایک معلم ہوں اور بطور معلم میرا ایک تجربہ ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں مجھے اس تجربہ سے تقدیر کے مسئلے کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے ممکن ہے آپ کو بھی مدد ملے ۔
تقدیر کے لفظی معنی ہیں اندازہ ( Assesment)اللہ تعالیٰ خالق کائنات ہے ان کا اندازہ بھی مکمل ہے ہم مخلوق ہیں ہمارا اندازہ بھی نامکمل ہو تا ہے ایک بہت بڑا انجینئر جب اندازہ کرتا ہے کہ اسکی بلڈنگ کیسی ہو گی تو جتنا بڑا ماہر ہوتا ہے اتنی ہی وہ بلڈنگ اسکے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔ آپ اگر ایک اچھے معلم ہیں تو آپ کو اپنے طلبہ کی کارکردگی کا اندازہ ہو تا ہے میرا اپنے بارے میں یہ خیال ہے کہ میں اچھا معلم ہوں تو برا نہ مانیے گا کیونکہ ہر شخص اپنے بارے میں اچھا ہی خیال رکھتا ہے۔ میں اپنے بارے میں تجربہ رکھتا ہوں کہ مجھے اکثر اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ طالب علم اگرA پوزیشن میں نہیں تو Bمیں ضرور آئے گا اور وہ طالب علم کامیاب نہیں ہو گا فلاں طالب علم درمیان میں رہے گا۔ یہ اندازہ مجھے تقریباًسال کے وسط میں ہو جاتا ہے اور پچھلے تیس پینتیس سال میں کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ یہ اندازہ بالکلیہ غلط ثابت ہو ا ہو۔ جس کے بارے میں اندازہ ہو تا ہے کہ اسکی پو زیشن آئے گی عموماً کسی نا کسی اندازہ میں اسکی پو زیشن آ ہی جا تی ہے۔ یہ پو زیشن اس لئے نہیں آتی کہ میں نے ایسا اندازہ کیا تھا میرا اندازہ اسکی پوزیشن آنے کا سبب یا علت ہرگز نہیں ہوتا بلکہ طالب علم کی پو زیشن اس لیے آتی کہ اس طالب علم کی کارکردگی اچھی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا اندازہ با لکل قطعی اور سو فیصد مکمل ہو تا ہے کوئی چیز اسکے اندازہ سے باہر نہیں جاسکتی لیکن اللہ تعالیٰ کے اندازہ اور علم میں اور اللہ کے حکم اور فیصلے میں فرق ہے۔ بندہ اللہ کے حکم اور فیصلے کا پابند ہو تا ہے۔ اسکا اندازہ انسان کو مجبور نہیں کرتا کہ انسان اچھی یا بری پرفامنس دے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کی کارکردگی کیسی ہو گی۔ ماں اپنے بچے کو جانتی ہے کہ چلنا سیکھا ہے چل سکتا ہے کہ نہیں سکتا جب ماں بچے کو بلاتی ہے کہ آؤ اور اسکو چلنے کی تربیت دے رہی ہوتی ہے تو اسکو معلوم ہوتا ہے کہ کتنے قدم چل سکے گا کتنے قدم نہیں چل سکے گا۔ جب وہ اتنے قدم چل لیتاہے تو لپک کر آگے بڑھ کر اسکو پکڑ لیتی ہے تو اندازہ ہمارے آئے دن کے مشاہدے میں ہے جو عموماً صحیح ہو تے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کیا ہے ''اناکل شئی خلقناہ بقدر''(ہم نے ہر چیزکا ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے )'''وما امرنا الا واحدۃ کلمح بالبصر",(اور ہمارے حکم میں ایک لمحہ کی تا خیر اور دیر نہیں ہوتی ) اس لیے اللہ تعالیٰ کا اندازہ مکمل ہے اس لئے تقدیر کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ تقدیر انسان کو مجبور نہیں کرتی ، بلکہ تقدیر انسان کو محرک فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس اندازہ کے مطابق ڈھال لے ۔اگر اچھا استاد کلاس میں کھڑے ہو کر کہے کہ میں یہ توقع رکھتا ہو ں کہ ہر طالب علم اپنی کارکردگی بہتر بنائے اور اس کی پوزیشن یہ اور یہ آنی چاہئے۔ استاد کے اس اندازہ سے اچھے طلبہ میں ایک داعیہ پیدا ہو گا اور وہ اپنی کارکردگی بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ تقدیر کا غالباً یہی منشا ہے ورنہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف سے بعید تر ہے کہ اس نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ میں جہنمی ہو ں اور بعد میں اپنے اسی سابقہ فیصلہ کے مطابق مجھے جہنم میں بھیج دے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ میرا ہاں عدل و انصاف کے خلاف کوئی کام نہیں ہو تا " وما انا بظلا م للعبید،،ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ ''(اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم اپنے بندوں پر نہیں کرتا ) یہ ظلم تو بنیادی انسانی اوصاف کا حامل انسان بھی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی ذات تو اس سے بہت بعید ہے ۔

 

()

جواب : یہ بات کہ انسانی عقل میں ارتقا ہوا ہے درست ہے۔ انسانی عقل اورا س کے مزاج و طبیعت میں انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا کے ساتھ ساتھ ارتقاہوا ہے۔ اس نے طفولیت کے دورسے لڑکپن کے دور میں، لڑکپن سے جوانی اور پختگی کے دور میں قدم رکھا ہے۔ اسی حساب سے اللہ تعالیٰ کے انبیا عقیدے کو بیان کرتے رہے ہیں عقیدے کی حقیقت تو ایک ہی رہی ہے لیکن اس کے بیان کا انداز مختلف انبیاء کے زمانے میں مختلف رہا ہے ۔جیسے ایک بچہ پرائمری سکول میں پڑھتا ہے تو اس کو اس سطح پر مضامین پڑھاتے ہیں کہ وہ سمجھ سکے جب وہ پرائمری سے بڑھ کر مڈل میں داخل ہوتا ہے تو اسے آپ تاریخ کے ساتھ جغرافیہ بھی پڑھاتے ہیں۔ تاریخ و جغرافیہ میں کوئی تعارض نہیں ہو تا۔ ایک ہی تاریخ اور جغرافیہ ہے جو پرائمری مڈل اور آگے کے مراحل میں پڑھائی جاتی ہے لیکن سطح میں فرق ہو تا ہے ۔یہ فرق انبیا کی تعلیم میں ضرور رہا ہے شروع میں جو انبیا ء آئے انہوں نے عقیدے کو اس انداز سے اور اس سطح پر بیان کیا کہ اس زمانے کا ابتدائی انسان اس کو سمجھ سکے۔ جب انسانیت پختگی کے دور میں داخل ہو گئی اور بین الا قوامیت کا ایک دور آگیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان تمام سوالات کا جواب اپنی زبان مبارک سے یا قر آن پاک کی شکل میں انسانیت کو دے دیا جس کی بنیا د پر آئندہ آنے والے تمام ادوار میں انسان عقیدے کو بیان کر سکے۔ یہ بات خود علم کلام کی تاریخ سے بھی نمایا ں ہے جو انداز عقیدے کو بیا ن کرنے کا فقہ اکبر میں ہے وہ انداز امام غزالی ؒ کی کتابوں میں نہیں ہے ۔یہ بات امام ابو حنیفہ ؒ یا ان کے معاصرین کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہو گی۔کہ جو گہرائی امام غزالی ؒ کے یا امام رازی کے انداز میں ہے وہ الفقہ الا کبر میں نہیں ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس انداز سے عقائد کو بیان کرنے کی اما م ابو حنیفہ ؒ نے ضرورت نہیں سمجھی۔ اس لیے کہ ان کے دور کے وہ مسائل نہیں تھے جس انداز سے مسائل کو مثال کے طور پر شاہ ولی اللہ ؒ نے بیان کیاوہ انداز بہت سے متقدمین کے انداز سے مختلف ہے ۔مجد د الف ثانی ؒ نے جو انداز اختیار کیا وہ امام رازی و امام غزالی ؒ کے انداز سے مختلف ہے اسی طرح علامہ اقبال ؒ نے جو انداز اختیار کیا وہ ان تمام سے مختلف ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ آنے والے اس سے مختلف انداز اختیار کریں گے۔ اس لیے انداز بیان اور اسالیب استدلال میں تو ارتقا ء ہوتارہے گا لیکن عقیدے کی Coreمیں کسی بھی ارتقاء کی ضرورت نہیں اس لیے کہ وہ Coreان بنیادوں کو فراہم کرتی ہے یا ان بنیادوں کی نمائندگی کرتی ہے ان بنیادوں پر انداز بیان کی تبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ ہو تی رہے گی آپ کہہ سکتے ہیں کہ ارتقا ء علم کلام اور فکر کاہو تا رہے گا ۔
 

()

جواب : آپ نے شاید میری پوری بات نہیں سنی میں نے کہا تھا کہ طیبات کو حلال قرار دیا گیا ہے اور خبیثات کو حرام قرار دیا گیا ہے حلال کی حدود بتا دی گئی ہیں جن کی روشنی میں کسی چیز کے طیب ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔قواعد کی نشاندہی کر دی گئی ہے بعض طیبات کی مثال دے کر بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ اور اس طر ح کی چیزیں طیبات ہیں۔ خبیثات کے ساتھ بھی اسی طرح ہو ا وہاں بھی ضرور ی قواعد کی نشاندہی کر دی گئی لیکن اس سب تفصیل کے باوجود بعض نئی صورتیں ایسی پیش آسکتی ہیں کہ Grey Areaوہ ہو طبیات اور خبیثات کے درمیان کا علاقہ ہو جس میں رائے کا اختلاف پیدا ہو نے کا خاصا امکان ہے۔ ایک شخص کا ذوق اور رائے اس کو طیبات کی ایک قسم قرار دے اور دوسرے کا ذوق اور رائے اس کو خبیثات میں سے قرار دے۔ اس طرح کے معا ملا ت کو جو بہت مستثنیات میں سے اور بہت شاذونادر ہوں گے سلیم الطبع لوگوں کے ذوق اور صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ۔مثال کے طور پر ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ ہر ،، ذی مخلب ،، یعنی جو پنجے والا جانور ہے جو شکار کر کے گوشت کھا تا ہے یا جانور کو پکڑ کر کھا تا ہے وہ حرام ہے ۔اس طرح سے چوپائیوں میں ہر وہ جانور جو شکار کر کے گوشت کھاتا ہے وہ حرام ہے چنانچہ بھیڑیا شیر چیتا یہ سب حرام ہیں وہ جانور جو پنجے والے نہیں یا وہ جاندار جو شکار کر کے نہیں کھاتے جن کی اصل غذا نبا تا تی ہے اور انسانوں میں ان کا دودھ استعمال کرنے کا رواج شروع سے چلا آرہا ہے وہ جائز ہیں۔ اب کچھ جانور جو متعین ہیں یعنی بکری بھیڑ گائے بیل بھینس و غیرہ یہ تو معلوم ہیں ان دونوں کے درمیان ہو سکتا ہے کہ ایسے کئی جانور بعض علاقو ں میں پائے جاتے ہوں جن کے بارے میں قطعیت کے ساتھ یہ تعین دشوار ہو کہ اس کا تعلق کون سی قسم سے ہے۔ یہ جانور بعض علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور بعض علا قو ں میں نہیں پائے جاتے مثال کے طور پر زیبرے کے بارے میں یہ اختلاف پید ا ہو ا کہ زیبرے کا تعلق کس گرہ سے ہے زیبرے کو خالص جنگی جانور مانے جائے گا جیسا کہ مثلا گدھا ہے یا اس کو اس طرح کا جانور مانا جائے جس طرح مثا ل کے طور پر بیل یا ہرن یا نیل گائے ہے۔ اس کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے اس طرح کا اختلاف شریعت نے ذوق پرچھوڑ دیا کہ آپ کا ذوق اور شریعت کا فہم جو فیصلہ کرے اس کے مطابق آپ عمل کریں۔ اسی طرح سے مثال کے طور پر قرآن مجیدمیں کہا گیا ہے ،، احل لکم صید البحر و طعامہ ،، کہ سمندر کا شکار اور سمند ر کا کھانا تمہارے لیے حلا ل قرا ردیا گیا ہے اب سمندر کے کھانے اور سمندر کے شکار سے کیا مراد ہے ؟ 
کچھ فقہاء کا مثلاً امام ابو حنیفہ ؒ کا خیال ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے اس لیے کہ مچھلی ہی وہ غذا ہے جسے طبع سلیم ہر دور میں پسند کرتی چلی آرہی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں، صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اور تابعین کے زمانے میں مچھلی کھانے کا عام طور پر عربوں میں رواج تھا اور وہ مچھلی کھایا کرتے تھے۔ وہ جانور جن کو عرب کا سلیم الطبع انسان فطری طور پر ناپسند کرتا تھا وہ اگر سمندر سے پکڑے جائیں تو کیا وہ جائز ہوں گے مثلا کیکڑا یا اس طرح کے دوسرے جانور انکو امام ابو حنیفہ ؒ ناجائز کہتے ہیں جب کہ بعض دوسرے فقہا ء جائز قرار دیتے ہیں ۔

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب : وہ ملت ابراہیمی کے طریقے کے مطابق حج کرتے تھے۔ ملت ابراہیمی کے بہت سے آثارعرب میں موجو د تھے کچھ چیزیں اس میں غلط شامل ہوگئی تھیں بعض قبائل غلط چیزوں میں مبتلا تھے بعض کم مبتلا تھے لیکن حج کے اکثر و بیشتر مراسم ملت ابراہیمی کے مطابق ادا ہوتے تھے۔
 

()

جواب: اسلام کی تعلیم کے مختلف حصے ہیں ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق انسان کے عقائد سے ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق انسان کے جذبات و احساسات سے ہے۔ تیسر ا حصہ وہ ہے جس کاتعلق انسان کے ظاہری اعمال اور جوارح سے ہے۔ پہلے دو حصو ں کا ریاست سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے اس میں فرد خود ہی بڑی حد تک شریعت پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ معاشرہ اپنے اثرو رسوخ سے، خاندان اپنے دباؤ سے،اور نظام تعلیم اپنی تعلیم وتربیت سے ان دونوں چیزوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا ۔
شریعت کا تیسرا حصہ جس کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال سے ہے اس میں بھی کچھ احکام تو وہ ہیں جو فرد کی براہ راست ذمہ داری ہے اور فرد ہی ان پر عمل درآمد کا مکف ہے۔ عبادات کے معاملات ہوں،اسی طرح سے نکاح و طلاق ،گھر کے اندر کے معا ملات ہوں ان میں بھی عمومی طور پر عام حالات میں ریاست کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔ اسی طرح معاشرت اور آداب ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک اور سنت نے ہدایت دی ہے ۔ان معاشرتی آداب پر عمل درآمد میں بھی چند مستثنیات کے علاوہ ریاست کا کوئی رول اور کوئی کردار نہیں ہے البتہ جہاں تک تعلق ہے ان قوانین کا جن کے مخا طین اصحاب حکومت ہیں جن کے مخاطبین اولو الامر ہیں وہ براہ راست ریاست کی ذمہ داری ہیں اور ریاست بہرحال انکو نافذ کرے گی اور انکو توڑنے والوں کو سزا بھی دے گی ۔اگر اسلام کوئی معاشرہ قائم کرتا ہے کوئی تہذیب قائم کرتا ہے تو اس تہذیب کے تحفظ کے لئے ریاست بھی قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اور وہ ریاست اسلامی قوانین کے مطابق کام کرتی ہے تو وہاں یہ کہنا انتہائی لغو اور مہمل بات ہے کہ ریاست قا نون پر عمل درآمد کے معاملہ میں مداخلت نہ کرے اس لغو اور مہمل بات کے معنی یہ ہیں کہ مثلاً چور کو کچھ نہ کہا جائے اس لئے کہ شریعت نے انسانوں کو آزادی دی ہے۔ یہ بات دنیا کا کوئی بھی نظام یا نظریہ قبول نہیں کرتا۔ نہ یہ کوئی معقول عذر ہو گا کہ چونکہ شریعت نے آزادی دی ہے لہذا چوری کی آزادی ہو نی چاہئے بد اخلاقی کی آزادی بھی ہو نی چاہئے مخدرات کے استعمال کی آزادی بھی ہو نی چاہئے۔ ان امور کا تعلق اسلام کے قوانین فوجداری سے ہے اوریہ وہ چیزیں ہیں جن پر عمل در�آمدکرانا لازماً ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ دنیا کی ہر ریاست کی طرح اسلامی ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فوجداری قوانین کو نافذ کرے۔ دنیا کی ہر ریاست اپنے قوانین کو نافذکرتی ہے اسی طرح اسلام کی ریاست بھی قوانین کو نافذ کرے گی۔
اسلام کے قوانین کی اساس اخلاقی ضوابط اور رو حانی اصولوں پر ہے اس لئے اسلام میں بعض او قات قانون اور اخلاقیات کی حدودمل جاتی ہیں۔ کہیں کہیں ایک ہو جاتی ہیں اور وہاں تعیین دشوار ہو تاہے کہ کس حد تک قانون کی ذمہ داری ہے اورکہاں قانون کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ شریعت نے اس معاملہ میں واضح ہدایات دی ہیں۔ اس ضمن میں کہیں کہیں دو ر جدید کے قانونی تصورات سے اسلامی قانون کا اختلاف پیدا ہو تا ہے۔اسلامی قانون بنیادی طور پر ایک اخلاقی قانون ہے اور وہ اسلام کی دینی تعلیم اور اخلاقی اصو لوں سے ہی اپنی سند جواز حاصل کرتا ہے۔ وہ اپنی قوت نافذہ قانونی اصول سے اخذ کرتا ہے لہذٰ ا اسلام میں قانونی اصو ل کا اصل مقصد اخلاقی اصول پر عملدرآمد کو یقینی بنانا اور اخلاقی معاشرہ قائم کرنا ہے ۔لہذا یہاں قانون اور اخلاق میں اس نو عیت کی علیحدگی ممکن ہی نہیں جواہل مغرب نے پید اکر دی ہے تاہم ریاست کی مداخلت کا دائرہ عام طور پر صرف قانونی معاملات ہیں اخلاقی امور عام طور پر ریاست کی مداخلت کے بغیر ہی انجام پانے چاہییں ۔
اسلامی تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں کہ حکومت وقت نے کوئی فیصلہ کرنا چاہا اورریاست کے کسی شہری نے اس کو ذاتی آزادی کے خلاف سمجھا سیدنا عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ یہ فیصلہ کیا کہ مہر کی رقم کو محدود کر دیا جائے، لوگ مقابلہ کرنے لگے ہیں کہ زیادہ کون مہر رکھتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے سوچ کر یہ طے کیا کہ اس کی ایک حد بندی ہونی چاہئے اور پابند کیا جائے کہ لوگ ایک خاص حد سے زیادہ مہر ادا نہ کریں انہوں نے اس کا اعلان کیا جب وہ خطبہ دے کر نماز کے بعد مسجدسے باہر نکل رہے تھے تو دیکھا کہ ایک خاتون کھڑی ہوگئیں بوڑھی خاتون تھیں انہوں نے خلیفہ راشد کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے قرآن پاک تو کہتا ہے ’’ واٰتیتم احداھن قنطارا فلا تأ خذوا منہ شیئا ،،( اگر تم نے اسے سونے کا ایک ڈھیر بھی دیا ہوا ہو تو واپس نہ لو )لہذا جہاں سونے کا ڈھیر دیا جاسکتا ہے تو وہاں آپ کی حد بندی کیا معنی رکھتی ہے حضرت عمرؓ نے کہا کہ اصابت امرأۃ و اخطأعمر ،، (عورت نے صحیح کہا اور عمر نے غلطی کی ) دوبارہ لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا لوگ دوبارہ جمع ہوئے فرمایا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی میں اس کو واپس لیتا ہوں ۔اس لیے کہ انہوں نے فوراً احساس کر لیا کہ یہ فرد کا معاملہ ہے اور خاندان کے افراد آپس میں مشورے سے جو طے کرنا چاہتے ہیں وہ کر یں اس طرح کے معاملا ت میں ریاست کو مدا خلت نہیں کرنی چاہئے لہذا اخلاقی ہدایات اور قانونی احکام کے درمیان میر اخیال ہے حدوو ہیں وہ بہت واضح ہیں ان میں کوئی التباس اسلامی شریعت کے اعتبار سے نہیں ہے ۔
*

()

جواب: جنازے کے ساتھ چلنا اور میت کی چارپائی اٹھانے کو اسلام نے میت کے حقوق میں شامل کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ تَبِعَ جَنَازَۃً، وَحَمَلَہَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ قَضَی مَا عَلَیْہِ مِنْ حَقِّہَا.جو شخص جنازہ کے پیچھے چلا اور اسے تین مرتبہ اٹھایا اس نے جنازہ کا وہ حق ادا کر دیا جو اس کے ذمہ تھا۔اور جنازے کے چاروں پائیوں کو باری باری کندھا دینا سنت ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
مَنِ اتَّبَعَ جِنَازَۃً فَلْیَحْمِلْ بِجَوَانِبِ السَّرِیرِ کُلِّہَا؛ فَإِنَّہُ مِنَ السُّنَّۃِ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ فَلْیَتَطَوَّعْ، وَإِنْ شَاءَ فَلْیَدَعْ.
جو شخص جنازہ کے پیچھے چلے، اُسے چارپائی کے پورے (چاروں) پائے پکڑنے چاہئیں کیونکہ یہ سنت ہے پھر اس کے بعد چاہے پکڑے اور چاہے چھوڑ دے۔

 

(منہاج القرآن)

جواب: میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
”حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحب زادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کو غسل دے رہے تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ طاق غسل دو یعنی تین یا پانچ بار، اور آخر میں کافور
ملا لیں۔ غسل کا سلسلہ اپنی جانب سے اور وضو کے اعضا سے شروع کریں۔“میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تخت پر میت کو نہلانے کا ارادہ ہو اس کو تین، پانچ یا سات مرتبہ دھونی دیں۔ پھر اس پر میت کو لٹا کر تمام کپڑے اتار دیئے جائیں سوائے لباس ستر کے، پھر نہلانے والا اپنے ہاتھ پہ کپڑا لپیٹ کر پہلے استنجا کرائے پھر نماز جیسا وضو کرائے لیکن میت کے وضو میں پہلے گٹوں تک ہاتھ دھونا اور کلی کرنا اورناک میں پانی چڑھانا نہیں ہے کیونکہ ہاتھ دھونے سے وضو کی ابتدا زندوں کے لیے ہے۔ چونکہ میت کو دوسرا شخص غسل کراتا ہے، اس لیے کوئی کپڑا بھگو کر دانتوں اور مسوڑھوں اور ناک کو صاف کیا جائے پھر سر اور داڑھی کے بال ہو تو پاک صابن سے دھوئیں ورنہ خالی پانی بھی کافی ہے۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر دائیں طرف سر سے پاؤں تک بیری کے پتوں کا جوش دیا ہوا پانی بہائیں کہ تخت تک پانی پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ لٹا کر بائیں طرف اسی طرح پانی بہائیں۔ اگر بیری کے پتوں کا اُبلا ہوا پانی نہ ہو تو سادہ نیم گرم پانی کافی ہے۔ پھر ٹیک لگا کر بٹھائیں اور نرمی سے پیٹ پر ہاتھ پھیریں اگر کچھ خارج ہو تو دھو ڈالیں۔ پھر پورے جسم پر پانی بہائے۔ اس طرح کرنے سے فرض کفایہ ادا ہوگیا۔ اس کے بعد اگر دو غسل اور دیئے تو سنت ادا ہو جائے گی ان کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو دوسری بار بائیں کروٹ لٹایا جائے اور پھر دائیں پہلو پر تین بار اسی طرح پانی ڈالا جائے جیسا کہ پہلے بتایا گیا۔ پھر نہلانے والے کو چاہیے کہ میت کو بٹھائے اور اس کو اپنے سہارے پر رکھ کر آہستہ آہستہ اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرے۔ اگر کچھ خارج ہو تو اس کو دھو ڈالے یہ دوسرا غسل ہوگیا۔ اسی طرح میت کو تیسری بار غسل دیا جائے تو سنت ادا ہو جائے گی۔ابتدائی دو غسل نیم گرم پانی بیری کے پتے/ صابن کے ساتھ دیئے جائیں۔ تیسرے غسل میں پانی میں کافور استعمال کی جائے۔ اس کے بعد میت کے جسم کو پونچھ کر خشک کر لیا جائے اور اس پر خوشبو مل دی جائے۔
 

(منہاج القرآن)


جواب:عورت جنازے کو کندھا نہیں دے سکتی اور نہ ہی جنازے کے ساتھ چل سکتی ہے، لیکن نماز جنازہ ادا کر سکتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:نُہِینَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَاءِزِ وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا.ہمیں (عورتوں کو) جنازوں کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا‘ مگر تاکید سے منع نہیں ہوا۔مراد یہ ہے کہ عورت جنازے کو کندھا دے یا جنازے کے ساتھ چلے تو مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہو گا جس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے، لہٰذا عورتیں باپردہ ہو کر الگ سے جناز گاہ پہنچ جائیں تو وہاں اُن کے لیے نماز جنازہ میں شریک ہونے کا باپردہ الگ تھلگ انتظام ہو تو وہ نماز جنازہ ادا کر سکتی ہیں کیونکہ حدیث مبارکہ سے ثبوت ملتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی تھی جیسا کہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:ادْخُلُوا بِہِ الْمَسْجِدَ حَتَّی اُصَلِّیَ عَلَیْہِ.ان کی میت کو مسجد میں لاؤتاکہ میں اس پر نماز جنازہ پڑھوں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازِ جنازہ باقی مسلمانوں کی طرح دعائے مغفرت کی صورت میں نہیں ہوئی تھی بلکہ تمام مرد وخواتین اور بچوں نے باری باری گروہوں کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودو سلام بھیجا تھا یعنی عورتیں بھی شامل تھیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے تو مردوں کو داخل کیا تو انہوں نے بغیر امام کے اکیلے اکیلے صلاۃ و سلام پڑھا پھر عورتوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا پھر بچوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا۔ پھر غلاموں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ پڑھا اکیلے اکیلے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر امامت نہ کروائی۔
اگر مرد موجود نہ ہوں تو عورتوں کا نمازِ جنازہ ادا کرنا بھی جائز ہے:جان لو کہ نماز جنازہ میں عورتوں کی جماعت مکروہ نہیں کیونکہ یہ نماز فرض ہے۔اگر عورت اکیلی نماز جنازہ پڑھ لے تو فرض ساقط ہوجاتا ہے۔
درج بالا تمام اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ عورتیں نمازِ جنازہ میں شریک ہو سکتی ہیں‘

(منہاج القرآن)

جواب:نمازِ پنجگانہ کے اوقات مقرر ہیں۔ جب نماز کا وقت شروع ہو جائے تو نماز ادا کرسکتے ہیں، نماز کی ادائیگی کے لیے اذان سننا شرط نہیں۔ مگر اسے عادت نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اذان باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے دی جاتی ہے اور بلاوجہ باجماعت نماز ترک کرنا گناہ ہے۔(مفتی: محمد شبیر قادری)

(منہاج القرآن)

جواب:بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآءِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْتم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔(الاحزاب، 33: 5)
آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اُن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:
عَنْ اَبِی ذَرٍّ اَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ یَقُولُ: لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَیْرِ اَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُہُ إِلَّا

کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَیْسَ لَہُ فِیہِمْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ.
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم:
عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ یَقُولُ: مَنِ ادَّعَی إِلَی غَیْرِ اَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ غَیْرُ اَبِیہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔
باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ: مَنْ انْتَسَبَ إِلَی غَیْرِ اَبِیہِ اَوْ تَوَلَّی غَیْرَ مَوَالِیہِ، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلَاءِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِینَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشبندی،سلفی، دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ضَرَبَ اللہ مَثلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَت نوحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْط
اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت اور لوط (علیہ السلام) کی عورت کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 10
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:
وَضَرَبَ اللہ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْن اور اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجہ فرعون کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 11
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:امْرَاَۃُ ابْنِ مَسْعُودٍ.
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔
اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:
ہَذِہِ زَوْجَۃُ النَّبِیِّ.یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اُن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔
لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام

ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئے بغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
(مفتی: محمد شبیر قادری)

(منہاج القرآن)

جواب:علماء وآئمہ میں سے کوئی بھی مردوں کے سر ڈھانپنے کے وجوب کا قائل نہیں ہے، لیکن کچھ علماء کرام نے اسے مستحبات میں شمار کیا ہے، اور انہوں نے لوگوں کے سامنے سر ننگا کرنے کو خلاف مروت قرار دیا ہے۔ مردوں کا سر ڈھانپنا، سر پر عمامہ رکھنا اور ٹوپی پہننا علاقائی رواج یا آب ہوا کے پیش نظر ایک ضرورت ہو سکتی ہے، مگر اسے فرض، واجب یا ایسی سنت قرار نہیں دیا گیا جس کے نہ کرنے سے مرد گنہگار ہوں۔
(مفتی: محمد شبیر قادری)

(منہاج القرآن)

جواب:ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَا یَنْہٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔اور مزید فرمایا:
اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo
اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور
تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر

(تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔(الممتحنۃ، 60: 8-9)
مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں ہم ان لوگوں سے بھلائی کر سکتے ہیں جو ہمارے ساتھ جنگ نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں گھروں سے نکالتے ہیں یعنی فتنہ فساد نہیں کرتے۔ یہ بھلائی مالی حوالے سے تعاون کرنا بھی ہو سکتی ہے اور دیگر معاملات میں مدد کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا
جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)۔(المائدۃ، 5: 32)
مذکورہ بالا آیت مقدسہ میں مسلم وغیر مسلم کی تقسیم کئے بغیر ناحق انسانی جان کو قتل کرنا، تمام انسانیت کو قتل کرنے اور اس کو بچانا، تمام حیاتِ انسانی کو بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا فتنہ پرور غیر مسلموں کے علاوہ باقی کفار کے ساتھ بطورِ انسان بھلائی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مَرَّتْ بِنَا جَنَازَۃٌ فَقَامَ لَہَا النَّبِیُّ وَقُمْنَا لَہٗ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللہِ، إِنَّہَا جِنَازَۃُ یَہُودِیٍّ قَالَ: إِذَا رَاَیْتُمْ الْجِنَازَۃَ فَقُومُوا.
ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو (خواہ مرنے والے کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو)۔
مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے امن پسند غیر مسلم کی جان بچانے کی خاطر خون کا عطیہ دینا جائز ہے۔(مفتی: عبدالقیوم ہزاروی)

 

(منہاج القرآن)

جواب:لڑکی آرائش و زیبائش کے لیے بال کاٹ سکتی ہے مگر اس کا انداز ایسا نہ ہو جس سے مَردوں کی مشابہت ہو۔
فتاوی دارالعلوم دیو بند 

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اور کیکڑا مچھلی میں داخل نہیں، لہٰذا کیکڑا حلال نہیں، جھینگے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ جن حضرات کے نزدیک اس کا مچھلی ہونا محقق ہے وہ جائز کہتے ہیں۔ اور جن کے نزدیک مچھلی کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی وہ اسے ناجائز کہتے ہیں، بہرحال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کسی جانب تشدد اختیار کرنا ٹھیک نہیں، اورجھینگا کھانے سے اجتناب کرنا زیادہ مناسب اور احوط ہے: جھینگے کی شرعی حیثیت کے عنوان سے ایک مفصل اور محقق مقالہ فقہی مقالات مولفہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب میں موجود ہے اس کا مطالعہ فرمالیں۔
 

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:جی رات میں ناخن کاٹ سکتے ہیں، بالوں میں کنگھا بھی کرسکتے ہیں اور پہنے ہوئے کپڑے کی سلائی بھی کرسکتے ہیں،شرعااس میں کوءی مضاءقہ نہیں

 

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:اس سے قبل کئی مرتبہ اس طرح کا انکشاف ہوچکا ہے، مگر ہرانکشاف معتبر نہیں ہوتا ہے۔ دو چار دین دار دیانت دار مسلمان جب تک اپنی آنکھوں سے شراب سے بنی ہوئی الکوحل ملاتے ہوئے نہ دیکھیں اور وہ لوگ اس کی باقاعدہ گواہی نہ دیں، کو کاکولا پر کوئی شرعی حکم نہیں لگایا جائے گا۔ افواہوں اور بے بنیاد باتوں پر کوئی شرعی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ صرف یقینی اور قطعی مشاہَدْ چیزوں پر شرعی حکم لاگو ہوتا ہے۔    

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:مندرجہ ذیل اشخاص کو سلام کرنا مکروہ ہے: ایسے شخص کو جو نماز میں یا تلاوت میں یا کھانے پینے میں مشغول ہویا وعظ ودرس میں مشغول ہو اسی طرح ایسے شخص کو جو اذان دے رہا ہو یا خطبہ دے رہا ہو یا فریقین کے درمیان فیصلے کے لیے بیٹھا ہو یا شطرنج وغیرہ کھل رہا ہو یا بول وبراز (پیشاب، پاخانہ) کے لیے بیٹھا ہو یا کشف عورت کی حالت میں ہو وغیرہ۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

واب:جی ہاں ان کے حق میں دعا کرے اور حسن سلوک ترک نہ کرے کیونکہ پھر بیٹا بھی حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ظالم ہوجائے گا اور بیٹے کا ظالم ہونا باپ کی نسبت زیادہ سنگین ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:بہتر یہ ہے کہ آپ خود ان سے نہ کہا کریں کہ ہروقت مت آیا کرو بلکہ کسی دوسرے ایسے شخص سے کہ جو بااثر نیک معاملہ فہم سنجیدہ مزاج ہو۔ آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے ہمدردی کا تعلق رکھتا ہو اس سے کہلوادیں وہ موقع محل دیکھ کر حکمت سے ان کو سمجھادے کہ بیٹی کے سسرال والے گھر میں زیادہ آمد ورفت اچھی نہیں ہوتی اس سے بسا اوقات بیٹی کی سسرال والوں کی نظر میں قدر ومنزلت باقی نہیں رہتی، بیٹی کے میکہ والوں کا یہ جواب بھی اچھا نہیں کہ ہم نے بیٹی دی ہے‘ ہروقت آیا کریں گے، اس قسم کی باتوں سے وقار اور بھرم گھٹ جاتا ہے اور بیٹی بھی شوہر اور اس کے گھر والوں کی نظروں سے گرجاتی ہے۔ اللہ پاک دونوں طرف کے لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائے، حسنِ اخلاق حُسنِ انداز اور حُسن معاملہ برتنے کی توفیق دے، آپسی منافرت سے محفوظ رکھے۔ آمین
٭٭٭

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:مکان کا کرایہ لینا حرام نہیں ہے،جبکہ روپے کا کرایہ، یعنی سود لینا حرام ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ان اشیا پر کرایہ لینا جائز ہوتا ہے جو استعمال کی جاتی ہیں، صرف (خرچ۔یعنی استعمال کر کے چیز ختم ہو جائے)نہیں کی جاتیں۔ مثلاً جب آپ گھر کرایے پر لیتے ہیں تو آپ اسے بیچ کر اس کے عوض کوئی اور مال نہیں لیتے، بلکہ مکان جیسے ہوتا ہے ویسے کا ویسا پڑا رہتا ہے، بس آپ اس میں رہایش اختیار کرتے ہیں اور جب آپ روپیہ قرض پر لیتے ہیں تو آپ اسے مکان کی طرح ایک جگہ پر پڑا نہیں رہنے دیتے، بلکہ اسے مارکیٹ میں صرف کر کے اس کے بدلے میں کوئی اور شے لیتے ہیں، پھر اسے کہیں لے جا کربیچتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے کاروبار میں ہو سکتا ہے کہ جو چیز آپ نے روپے کے عوض خریدی ہے، وہ کہیں ضائع ہو جائے، اس میں کوئی کمی واقع ہو جائے، اسے کوئی آفت لاحق ہو جائے یا وہ مطلوبہ قیمت پر نہ بکے۔ بہرحال اب آپ کو قرض خواہ کی رقم یہ شے بیچ کر اس کی قیمت میں سے ادا کرنی ہے۔ اس صورت میں معاملہ مکان کے کرایے والا نہیں رہتا، بلکہ اس میں کئی طرح کے خطرات شامل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس پر متعین مدت میں متعین اضافہ بالکل ناجائز ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب:اسلام میں تصویر اور موسیقی بذات خود حرام نہیں ہیں۔ البتہ، ان کے ساتھ اگر کوئی آلایش لگی ہوئی ہو تو وہ انھیں مکروہ یا حرام بنا دیتی ہے۔مثلاً، فحش تصاویر بنانا حرام ہے۔ مشرکانہ تصاویر اور مجسمے بنانا حرام ہے۔ اسی طرح وہ موسیقی جو سفلی جذبات پیدا کرتی ہے یا وہ جس کے ساتھ شراب و کباب کی محفلیں برپا ہوتی ہیں، وہ حرام ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب:تورات کا کچھ حصہ الواح کی شکل میں نازل ہوا تھا، باقی تورات قرآن ہی کی طرح بتدریج نازل ہوئی تھی۔ قرآ ن مجید میں تورات، انجیل اور خود قرآن تینوں کے لیے نازل کرنے کا لفظ بولا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:''اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا تیری طرف اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا۔'' (البقرہ۵۴:۲)
''اس نے تم پر کتاب اتاری حق کے ساتھ، مصداق اس کی جو اْس کے آگے موجود ہے اور اْس نے تورات اور انجیل اتاری اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور پھر فرقان اتارا۔''(آل عمران۴۔۳:۳)
 آسمانی کتب اصلاً فرشتوں کے ذریعے سے نازل کی گئی ہیں، جیسا کہ قرآن مجید کی سورہ نحل میں ارشاد فرمایا:”اپنے بندوں میں سے وہ جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی وحی کے ساتھ فرشتے اتارتا ہے کہ لوگوں کو خبر دار کرو کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں، اِس لیے تم مجھی سے ڈرو۔'' (۲:۶۱)

(محمد رفیع مفتی)

جواب:یوسف علیہ السلام کو مصر میں ملک چلانے کے پورے اختیارات حاصل تھے۔ اس کی دلیل درج ذیل آیات ہیں:
''اور بادشاہ نے کہا، اْس کو میرے پاس لاؤ، میں اْس کو اپنا معتمد خاص بناؤں گا۔ پھر جب اْس سے بات چیت کی تو کہا: اب تم ہمارے ہاں بااقتدار اور معتمد ہوئے۔ اس نے کہا: مجھے ملک کے ذرائع آمدنی پر مامور کیجیے، میں متدین بھی ہوں اور با خبر بھی۔ اور اِس طرح ہم نے یوسف کو ملک میں اقتدار بخشا، وہ اْس میں جہاں چاہے متمکن ہو۔''(سورہ یوسف)
 ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ وہ مصری حکومت کے ملازم نہیں، بلکہ مصر کے با اقتدار فرماں روا تھے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب:اس میں کوئی شک نہیں کہ جس خاتون سے انسان بہت محبت رکھتا ہو، اس کے ساتھ شادی کرنے میں بہت مخلص ہو، اس کو بھی کسی نسوانی اور جنسی پہلو سے دیکھتے رہنا، چھونا، اس سے اسی نوعیت کی گفتگو کرنا اور اس کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا وغیرہ، یہ سب باتیں دینی اعتبار سے بالکل ناجائز ہیں۔البتہ جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے، وہ آخرت سے متعلق ہے، اس کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں پر ہو سکتا ہے کسی کو اس کے کیے کی کوئی سزا دی جائے یا نہ دی جائے،لہٰذا آپ جہاں شادی کرنا چاہتے ہیں، وہاں خواہ مخواہ کوئی شک نہ کریں۔ اپنی معلومات کے مطابق تسلی رکھیں اور وہم میں نہ پڑیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب:اگر میاں کی جائداد بھی ہے اور بیوی کی بھی تو دونوں کو اپنی اپنی جائداد پر زکوٰۃ دینا ہو گی۔غامدی صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق اسلام نے ہم پر درج ذیل شرح سے زکوٰۃ عائد کی ہے:
'' پیداوار،تجارت اورکاروبار کے ذرائع، ذاتی استعمال کی چیزوں اور حد نصاب سے کم سرمائے کے سوا کوئی چیزبھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ہرمال، ہر قسم کے مواشی اور ہر نوعیت کی پیداوارپر عائد ہوگی اور ہر سال ریاست کے ہر مسلمان شہر ی سے لازماً وصول کی جائے گی۔
 اس کی شرح یہ ہے:مال میں ڈھائی فی صدی سالانہ (اگر وہ مال ۲۴۶گرام چاندی کی مالیت سے زیادہ ہے)۔
پیداوار میں اگر وہ اصلاً محنت یااصلاً سرمائے سے وجود میں آئے تو ہر پیداوارکے موقع پراْس کا دس فی صد، اور اگر محنت اورسرمایہ، دونوں کے تعامل سے وجود میں آئے تو۵ فی صدی، اور دونوں کے بغیر محض عطیہ خداوندی کے طور پر حاصل ہو جائے تو ۰۲ فی صدی۔''
اس اصول کے مطابق آپ کو ان مکانوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں دینا جن میں آپ رہ رہے ہیں یا وہ آپ کے زیر استعمال ہیں۔ جو مکان کرایے پر اٹھے ہیں تو ان کے کرایے کا دس فی صد دینا ہو گا اور اگر وہ محض جائداد کی صورت میں قیمت بڑھنے پر بیچنے کے لیے روکے ہوئے ہیں تو پھر ہر سال ان کی حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد دینا ہو گا۔
زیورات پر مال کی زکوٰۃ (حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد) لگے گی۔اپنے کاروبار سے (جس میں آپ کا سرمایہ اور آپ کی محنت، دونوں صرف ہوتے ہیں اس سے) ہونے والی آمدنی اگر آپ کی حقیقی ضروریات کے بقدر رقم سے زیادہ ہے تو پھر کل آمدنی کا پانچ فی صد آپ کو دینا ہو گا۔    

 

(محمد رفیع مفتی)

جواب:آخرت میں اس کی معافی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ دنیا میں آدمی لازماً سزا پا چکا ہو، بلکہ محض سچی توبہ اور اصلاح سے بھی یہ آخرت میں معاف ہو سکتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب:شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی سے بھی جنسی تعلق قائم کرنا زناہی ہے اور بے شک یہ گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ:''اور جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو سوائے حق کے ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جو کوئی یہ کام کرے گا، وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اْس کو مکرر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ سوائے اس کے کہ کوئی(ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔''(الفرقان)
ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ بے شک زنا گناہ کبیرہ ہے اور اس کی سزا جہنم کا ابدی عذاب ہو سکتی ہے، لیکن اگر اللہ چاہے تو یہ سچی توبہ اور اصلاح سے بالکل معاف بھی ہو سکتا ہے۔    

(محمد رفیع مفتی)

جواب:آپ نے جو بات سنی ہے، وہ صحیح ہے. ہمارے فقہا یہ بات اسی طرح بیان کرتے ہیں. ان کی اس بات کی بنیاد یہ سوال ہے کہ اگر کسی آدمی کی بیوی کا انتقال ہوجائے تو کب اسکے لیے اپنی بیوی کی بہن سے نکاح جائز قرار پاتا ہے، کیونکہ قرآن نے ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرنا حرام ٹھہرایا ہے.
1- کیا اس کے وفات پانے کے کچھ عرصہ بعد؟
2- کیا اْس کی لاش کے دفنا دینے کے فوراً بعد؟
3- کیا اس کی وفات پانے کے فوراً بعد؟
فقہا اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ قانونی طور پر بیوی کی وفات کے فوراُ بعد اس کی بہن سے نکاح جائز ہو جاتا ہے. وہ اس بات کا لازمی تقاضا یہ محسوس کرتے ہیں کہ وفات کے فوراً بعد بیوی کے مردہ جسم کو شوہر کے لیے نامحرم خاتون کا جسم قرار دے دیا جائے.    
تا ہم بعض حضرات اس کے خلاف بھی رائے رکھتے ہیں اور ان کی دلیل بعض صحابہ کا عمل ہے۔

 

(محمد رفیع مفتی)

جواب:سفلی علوم (جادو ٹونے) کے عاملوں سے لازماً بچنا چاہیے، کیونکہ یہ لوگ شیاطین کو خوش کرنے کے لیے کئی طرح کے مشرکانہ اور کافرانہ عمل کرتے ہیں۔ جو لوگ ان سے اپنا کوئی کام کراتے ہیں، وہ دراصل خدا کو چھوڑ کر ان کے شیاطین کی مدد سے اپنا کام کراتے ہیں۔رہی ان لوگوں کی یہ بات کہ ہم تو اپنا عمل کرتے ہیں، شفا تو اللہ ہی دیتا ہے تو یہ بس ان کے منہ کی بات ہے جو شاید یہ مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے ہیں، ورنہ جادو کرنا کرانا تو صریح کفر ہے۔ ان کے اس قول کی مثال یہ ہے کہ کوئی چور بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں تو بس چوری کرتا ہوں، رزق تو مجھے اللہ ہی دیتا ہے۔ یقینا چور اللہ کے اذن ہی سے چوری پر قادر ہوتا اور جادو کرنے والا اللہ کے اذن ہی سے جادو کر پاتا ہے اور اس کا جادو اللہ کے اذن ہی سے کامیاب ہوتا ہے، لیکن اللہ کی رضا اچھے کام کرنے میں ہے اور ناراضی برے کام کرنے میں ہے گو برے کام بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہو سکتے۔چنانچہ آپ ان کے اس جملے سے دھوکا نہ کھائیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب:یقینا آدم علیہ السلام ہی دنیا کے پہلے انسان تھے۔ارشاد باری ہے:
خَلَقَہ، مِن تْرَابٍ ثْمَّ قَالَ لَہ، کْن فَیَکْونْ.(آل عمران)
''خدا نے اس (آدم) کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا کہ تو ہو جا تو وہ ہو گیا۔''
 یعنی آدم کے ماں باپ نہ تھے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ نے آدم کو مٹی سے کیسے بنایا تو یہ اْن امور میں سے ہے، جن کا اللہ نے ہمیں مشاہدہ نہیں کرایا۔لہٰذا، ہم یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے، بس جتنے الفاظ قرآن میں آئے ہیں، انھی کو بیان کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ وہ مٹی جس سے آدم کو بنایا گیا تھا،وہ پہلے گارا تھی پھر سوکھ کر کھنکھنانے لگی، پھر ایک مرحلے پر اس میں روح پھونکنے کا عمل ہوا تھا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس عمل کی حقیقت کیا تھی۔
یقیناآدم علیہ السلام ہی پہلے نبی تھے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰہَ اصطَفٰی اٰدَمَ وَ نْوحًا وَّاٰلَ اِبرٰہِیمَ.(آل عمران)
'' بے شک اللہ نے منتخب فرمایا (نبوت کے لیے) آدم، نوح اور آل ابراہیم کو۔''
اس آیت میں آدم علیہ السلام کی نبوت کا ذکر ہے۔
فرشتوں کے سجدہ کرنے کا واقعہ تمثیلی نہیں،بلکہ حقیقی ہے۔ اس کا حکم اللہ نے تخلیق آدم سے پہلے ہی فرشتوں کو دے دیا تھا۔ ارشادباری ہے:
وَاِذ قَالَ رَبّْکَ لِلمَلٰءِکَۃِ اِنِّی خَالِق بَشَرًا مِّن صَلصَالٍ مِّن حَمَاٍ مَّسنْونٍ فَاِذَا سَوَّیتْہ، وَنَفَختْ فِیہِ مِن رّْوحِی فَقَعْوا لَہ، سٰجِدِینَ.(الحجر)
'' اور یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اس کو مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک لوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو تخلیق آدم سے پہلے ہی سجدے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ یہ بات تمثیلی نہیں ہو سکتی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب:اصل دین میں کوئی اختلاف نہیں ہے، یعنی اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ خدا ایک ہے، رسالت برحق ہے، آخرت یقینی ہے، خدا نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ انسان کو خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت کرنی ہے، اپنے معاملات سیدھے اور صاف رکھنے ہیں اور اچھے اخلاق کو اپنانا ہے، لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں۔
البتہ، فروعی مسائل اور اجتہادی آرا میں ضرور اختلاف ہے۔ ان اختلافات کو آپ اسی طرح حل کریں، جیسے آپ اپنی بیماری کے معاملے میں کئی ڈاکٹروں کی مختلف آرا میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے ہیں، حالانکہ آپ ڈاکٹر نہیں ہوتے اور نہ آپ کے پاس مختلف ڈاکٹروں کے استدلال کا کوئی جواب ہوتا ہے۔    

 

(محمد رفیع مفتی)

جواب:ترجموں کے حوالے سے آپ نے جو بات لکھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عالم نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، وہ تو کچھ عربی جانتا تھا، چنانچہ اس نے عربی قرآن کا فارسی میں ترجمہ کر لیا، لیکن جن لوگوں نے قرآن کا ترجمہ مثلاً اردو میں کیا ہے، وہ عربی کوئی خاص نہیں جانتے تھے، البتہ وہ فارسی بہت اچھی جانتے تھے،چنانچہ وہ فارسی ترجمے ہی کی مدد سے اردو میں قرآن کا ترجمہ کرنے پر مجبور تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کے اردو ترجمے کو دیکھیے، وہ ایک بے مثال ترجمہ ہے۔ کوئی شخص بھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ مسلمان امت میں قرآن کا ترجمہ عربی زبان سے ناواقف لوگوں نے کیا ہے اور جو عربی زبان جانتے تھے، انھوں نے ایسے ترجمے اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے دیے اور خود اس ضمن میں کوئی کام نہ کیا۔اس طرح کے اشکالات عموماً ان لوگوں کے ہاں پیدا ہوئے ہیں جو عربی زبان سے ناواقف تھے۔    
 

(محمد رفیع مفتی)

جواب: قرآن مجید جس معاشرے میں نازل ہوا تھا، وہ نہ صرف لباس پہننے والوں کا معاشرہ تھا، بلکہ ان کے ہاں عورتوں کے جسم ڈھانپنے کا یہ عالم تھا کہ ان کی کنواریوں کی پنڈلیاں کسی بڑی آفت ہی کے موقعے پر غیر لوگوں کے سامنے کھلتی تھیں۔ چنانچہ اس سوسائٹی میں انسانوں کو فحاشی سے بچانے، زنا جیسے قبیح فعل سے بہت دور رکھنے اور ان کے دلوں کو پاکیزہ بنانے کے لیے مرد و زن کے اختلاط کے مواقع پر مردوں اور عورتوں، دونوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے سے غض بصر کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور عورتوں کو اس کے ساتھ مزید یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے سر کی اوڑھنیوں سے اپنے سینے پر اچھی طرح سے بکل مار لیں، اپنی زینت کی نمایش نہ کریں اور زمین پر اس طرح سے پاؤں مارتی ہوئی بھی نہ چلیں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر ہو جائے۔ قرآن کے ان احکام کا مطلب یہ ہے کہ مومن مرد اور مومنہ عورتیں اپنے جسموں کے ہر اس حصے کو ڈھانپیں جسے شیطان کھلوا کر ان کو فحاشی کی طرف لے جانا اور انھیں زنا کے قریب کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک قرآن مجید کی مجموعی تعلیم اور اس کے ان احکام کے بعد عورتوں کے لیے، مثلاً یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کندھے، بازو اور پنڈلیاں یا اپنا پیٹ اور کمر لوگوں کے سامنے نمایاں کرتی پھریں۔”سورہ نور میں مرد و زن کے اختلاط کے جو آداب بیان ہوئے ہیں، وہ انسان کو اِسی طرح کی چیزوں سے بچانے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اْن کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد وعورت، دونوں اپنے جسمانی اور نفسیاتی تقاضوں کے لحاظ سے اپنی نگاہوں کو زیادہ سے زیادہ بچا کر اوراپنے جسم میں اندیشے کی جگہوں کو زیادہ سے زیادہ ڈھانپ کررکھیں اورکوئی ایسی بات نہ کریں جو ایک دوسرے کے صنفی جذبات کو برانگیختہ کرنے والی ہو۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان جب کسی معاشرے میں زناکو عام کرنا چاہتاہے تو وہ اپنی تاخت کی ابتدا بالعموم اِنھی چیزوں سے کرتا ہے۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم و حوا پر بھی وہ اِسی راستے سے حملہ آور ہوا تھا۔ چنانچہ فرمایا ہے:
یٰبَنِی اٰدَمَ، لاَ یَفتِنَنَّکْمْ الشَّیطٰنْ کَمَآ اَخرَجَ اَبَوَیکْم مِّنَ الجَنَِّۃ، یَنزِعْ عَنہْمَا لِبَاسَہْمَا لِیْرِیَہْمَا سَواٰتِہِمَا، اِنَّہ، یَرٰکْم ہْوَ وَقَبِیلْہ،، مِن حَیثْ لاَ تَرَونَہْم، اِنَّا جَعَلنَا الشَّیٰطِینَ اَولِیَآء َ لِلَّذِینَ لاَ یْؤمِنْونَ.(الاعراف)
''آدم کے بیٹو، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے، جس طرح اْس نے تمھارے والدین کو اْن کے لباس اتروا کرکیا کہ اْن کی شرم گاہیں اْن کے سامنے کھول دے، اْس باغ سے نکلوا دیا تھا (جس میں وہ رہ رہے تھے)۔ وہ اور اس کے ساتھی تمھیں وہاں سے دیکھتے ہیں، جہاں سے تم اْنھیں نہیں دیکھ سکتے۔ اِس طرح کے شیطانوں کو (البتہ)، ہم نے اْنھی لوگوں کا ساتھی بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔''
یہ حملہ کس طرح ہوتا ہے؟''... وہ اپنی وسوسہ اندازیوں سے پہلے لوگوں کو اْس لباس تقویٰ و خشیت سے محروم کرتاہے جو اللہ نے بنی آدم کے لیے اِس ظاہری لباس کے ساتھ ایک تشریف باطنی کی حیثیت سے اتاراہے...جب یہ باطنی جامہ اتر جاتا ہے تو وہ حیا ختم ہو جاتی ہے جو اِس ظاہری لباس کی اصل محرک ہے۔ پھر یہ ظاہری لباس ایک بوجھ معلوم ہونے لگتاہے۔ بے حیائی صنفی اعضا میں، جن کا چھپانا تقاضائے فطرت ہے، عریاں ہونے کے لیے تڑپ پیدا کرتی ہے، پھر فیشن اس کو سہارا دیتا ہے اوروہ لباس کی تراش خراش میں نت نئی اختراعات سے ایسے ایسے اسلوب پیدا کرتا ہے کہ آدم کے بیٹے اورحوا کی بیٹیاں کپڑے پہن کر بھی لباس کے بنیادی مقصد،یعنی ستر پوشی کے اعتبار سے گویا ننگے ہی رہتے ہیں۔پھر لباس میں صرف زینت اورآرایش کا پہلو باقی رہ جاتا ہے اور اْس میں بھی اصل مدعا یہ ہوتاہے کہ بے حیائی زیادہ سے زیادہ دل کش زاویہ سے نمایاں ہو۔ پھر آہستہ آہستہ عقل اِس طرح ماؤف ہوجاتی ہے کہ عریانی تہذیب کا نام پاتی ہے اور ساتر لباس وحشت و دقیانوسیت کا۔ پھر پڑھے لکھے شیاطین اٹھتے ہیں اور تاریخ کی روشنی میں یہ فلسفہ پیدا کرتے ہیں کہ انسان کی اصل فطرت تو عریانی ہی ہے، لباس تو اس نے رسوم و رواج کی پابندیوں کے تحت اختیار کیا ہے۔ یہ مرحلہ ہے جب دیدوں کا پانی مر جاتا ہے اورپورا تمدن شہوانیت کے زہر سے مسموم ہوجاتا ہے۔''

(محمد رفیع مفتی)

جواب:ایسا نہیں ہے کہ دعائے استخارہ سے ہمارا خدا کے ساتھ رابطہ ہو جاتا ہے اور ہم اپنے مسئلے میں خدا کی بات یقینی صورت میں معلوم کر لیتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تا تو پھر ظاہر ہے کہ اس کی مخالفت صریحاً غلطی ہوتی۔
دعائے استخارہ دراصل، خدا سے خیر طلب کرنے کی دعا ہے۔ یہ دعا درج ذیل ہے:
''اے اللہ، میں تیرے علم کے واسطے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطے سے قدرت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل عظیم کا سوال کرتا ہوں، اس لیے کہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور تو جانتا ہے، میں نہیں جانتا اور تو علام الغیوب ہے۔ اے اللہ، اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین اور میری زندگانی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کردے اور آسان بنا دے، پھر اس میں برکت پیدا کر دے اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین اور میری زندگانی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے۔ (پروردگار)، میرے لیے خیر کو مقدر فرما، وہ جہاں کہیں بھی ہو، پھر مجھے اس سے راضی کر دے۔''
اس میں ہم اللہ سے اس کے علم کے مطابق جو چیز بہتر ہو،وہ طلب کرتے ہیں۔ جب یہ دعا قبول ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اشارے کے ذریعے سے خدا ہمیں اپنا کوئی فیصلہ سنا دیتا ہے، بلکہ دعا کی قبولیت کی صورت میں وہ اس چیز کو جو ہمارے لیے بہتر ہو،اسے ہمارے مقدر میں لکھ دیتا ہے، اس کے بارے میں ہمارا تردد ختم کر دیتا ہے، وہی ہماری پسند اور ہماری رائے بن جاتی ہے، لہٰذا جو بات خواب وغیرہ میں ہم دیکھیں، اگر اس پر ہمارا دل نہیں جم رہا اور وہ ہمیں صحیح محسوس نہیں ہو رہی تو پھر اسے نہیں ماننا چاہیے۔ البتہ، اگر وہ ہمارے علم و عقل کے مطابق ہمیں بہتر محسوس ہو تب اس پر عمل کر لینا چاہیے، کیونکہ دعا کی قبولیت کی صورت میں خدا کے نزدیک جو بات بہتر ہے، اس نے مقدر ہو جاناہے۔خدا سے دعا مانگنے کے لیے دل کا اخلاص ضروری ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

تعمیر مسجد سے متعلق بعض مسائل

 


سوال: (۱) ایک صاحب نے مسجد کی تعمیر کے لئے ایک پلاٹ وقف کیا تھا۔ اس پر مسجد کی تعمیر کی گئی تو کچھ جگہ باقی بچ گئی۔ کیا اس جگہ پیش امام صاحب یا موذن صاحب کے لیے رہائش گاہ بنائی جاسکتی ہے جس میں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ سکیں، جبکہ یہ جگہ مسجد سے متصل مغربی جانب ہے۔
(۲) مسجد کے لیے جو پلاٹ وقف کیا گیا تھا اس سے متصل مشرق کی جانب کچھ کھلی جگہ اہل محلہ کے لیے چھوڑی گئی تھی۔ مسجد کی تعمیر کے وقت اس میں سے کچھ حصہ مسجد میں شامل کرلیاگیا۔ اس وقت کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی تھی اور کہا تھا کہ مسجد صرف اتنی جگہ پر تعمیر کی جائے جو اس کے لیے وقف ہے، لیکن تعمیری کام کے ذمے داروں نے ان کی بات کو نظرانداز کردیا اور کچھ زائد جگہ شامل کرکے اس پر مسجد تعمیر کرلی۔ کیا اس زائد جگہ پر نماز پڑھنا جائز ہے؟
(۳)مسجد کے سامنے مشرق کی جانب کالونی کی کھلی جگہ ہے۔ مسجد نمازیوں سے بھر جاتی ہے تو لوگ اس کھلی جگہ بھی نماز پڑھتے ہیں۔ کیا نمازیوں کی آسانی کے لیے وہاں چبوترہ بنایا جاسکتا ہے؟

جواب:(۱) مسجد کے لیے کوئی اراضی خریدی گئی ہو یا کسی نے وقف کی ہو، اس پر مسجد کی اصل عمارت کے ساتھ دیگر متعلقہ تعمیرات (مثلاً وضو خانہ، طہارت خانہ، موذن کا کمرہ، امام کا کمرہ وغیرہ) کی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے نہ اس صراحت کی ضرورت ہے کہ اسے مسجد کی اصل عمارت کے لیے دیا گیا ہے یا دیگر کاموں کے لیے اور نہ کسی وقف کرنے والے کے لیے مسجد کی اصل عمارت کے لیے خاص کرکے وقف کرنا مناسب ہے۔ وہ اسے مسجد کے لیے وقف کرے اور حسب ضرورت اسے مسجد سے متعلق کسی کام میں استعمال کیا جائے۔
(۲) مسجد کی تعمیر کسی مشتبہ یا نامعلوم جگہ پر کرنا شرعی و دینی اعتبار سے بھی درست نہیں ہے اور سماجی اور حکومتی طور پر بھی۔ ایسا کرنے سے بعد میں تنازعات پیدا ہوتے ہیں اور بسااوقات حکومت کی طرف سے ناجائز قبضہ ہٹانے کے لیے توڑ پھوڑ کی جاتی ہے تو مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے مسجد کی تعمیر صرف اس جگہ پر اور اتنی ہی جگہ پر کی جائے جتنی مسجد کے لیے خریدی گئی ہے، یا اسے کسی نے وقف کیا ہے۔ کسی مشتبہ زمین پر اگر مسجد کا کوئی حصہ تعمیر کرلیاگیا ہے تو یاتو اسے جلد ازجلد  Legalizeکرلیا جائے یا اس سے دستبردار ہوجایا جائے۔
(۳) مسجد بھر جائے اور اس میں نمازیوں کے لیے جگہ باقی نہ رہے تو مسجد کے باہر سڑکوں، راستوں پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ایسی جگہوں پر، جو مسجد کی ملکیت میں نہ ہو، پڑھی گئی نماز درست ہے، لیکن اس جگہ چبوترہ بنانا مناسب نہیں ہے، اس لیے کہ یہ چیزبعد میں تنازع کا باعث بن سکتی ہے۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب: جن عورتوں سے نکاح حرام ہے ان کی فہرست سورہ نساء میں مذکور ہے۔ ان میں بہن بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”تم پر حرام کی گئیں تمھاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں ……..،،(النسا)
نسبی رشتے سے بہن کی تین قسمیں ہیں:
(۱) سگی بہن (یعنی لڑکے اور لڑکی کی ماں  بھی ایک ہو اور باپ بھی)
(۲) علّاتی بہن (یعنی دونوں کا باپ ایک ہو، لیکن ماں الگ الگ ہوں)
(۳) اخیافی بہن (یعنی دونوں کی ماں ایک ہو، لیکن باپ الگ الگ ہوں)
ان تینوں قسموں پر بہن کا اطلاق ہوتا ہے اور ان سے نکاح کرنا حرام ہے۔ بہ الفاظ دیگر نسبی حرمت اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جب لڑکے اور لڑکی دونوں کا، والدین یا ان میں سے کسی ایک میں اشتراک ہو۔
سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے اس میں لڑکے اور لڑکی کے ماں اور باپ الگ الگ ہیں،اس لیے ان دونوں کے درمیان آپس میں نکاح ہوسکتا ہے۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

بیوی کے ترکے میں شوہر کا حصہ
سوال:ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ ان سے کئی بچے تھے۔ انھوں نے بعد میں دوسری شادی کرلی۔ مرحومہ کے زیورات اور ان کی ملکیت کی دیگر چیزیں انھوں نے دوسری بیوی کو دے دیں۔ ان سے کہا گیا کہ ان میں تو مرحومہ کے بچوں کا بھی حصہ تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ تمام زیورات اور دیگرچیزیں میں نے ہی خرید کر دی تھیں اور میں ہی برابر ان کی زکوٰۃ ادا کرتا رہا ہوں۔براہ کرم واضح فرمائیں، کیا ان کا یہ عمل صحیح ہے؟ اور مرحومہ کے بچوں کا ان کے ترکہ میں کوئی حق نہیں بنتا؟
جواب: عورت کا انتقال ہوجائے اور اس کے پسماندگان میں شوہر اور بچے ہوں تو ترکہ میں شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ (النساء: ۱۲) بقیہ ترکہ بچوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابلے میں دوگنا ملے گا“۔ (النساء:۱۱)
زیورات خرید کر اگر شوہر بیوی کو دے اور ساتھ ہی صراحت کردے کہ ان کا مالک میں رہوں گا، تمھیں صرف استعمال کے لیے دے رہا ہوں تو اس کی بات مانی جائے گی، لیکن اگر وہ صراحت نہ کرے تو عْرف کا اعتبار کیا جائے گا۔ شوہر کا بیوی کے زیورات کی زکوٰۃادا کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان پر اس کی ملکیت قائم ہے۔ بیوی کو اپنے زیورات کی زکوٰۃ خود ادا کرنی چاہئے، لیکن اگر اس کی طرف سے شوہر ادا کردے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

 

جواب: عورت کا انتقال ہوجائے اور اس کے پسماندگان میں شوہر اور بچے ہوں تو ترکہ میں شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ (النساء: ۱۲) بقیہ ترکہ بچوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابلے میں دوگنا ملے گا“۔ (النساء:۱۱)
زیورات خرید کر اگر شوہر بیوی کو دے اور ساتھ ہی صراحت کردے کہ ان کا مالک میں رہوں گا، تمھیں صرف استعمال کے لیے دے رہا ہوں تو اس کی بات مانی جائے گی، لیکن اگر وہ صراحت نہ کرے تو عْرف کا اعتبار کیا جائے گا۔ شوہر کا بیوی کے زیورات کی زکوٰۃادا کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان پر اس کی ملکیت قائم ہے۔ بیوی کو اپنے زیورات کی زکوٰۃ خود ادا کرنی چاہئے، لیکن اگر اس کی طرف سے شوہر ادا کردے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب: کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کا ایک تہائی حصہ وصیت کرسکتا ہے، لیکن یہ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح فرمان ہے:”کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے“۔
ہبہ اور وصیت میں فرق ہے۔ ہبہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں دوسرے شخص کو اپنی ملکیت کی کوئی چیز بطور تحفہ دے دے اور اسے مالک بنا دے۔ جبکہ وصیت میں وہ چیز، دینے والے کی زندگی میں اس کی ملکیت اور تصرف میں رہتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد، وہ شخص جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے، اس چیز کا مالک بنتا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ ہبہ کی رجسٹریشن فیس زیادہ ہے اور وصیت کی کم، اس لیے ہبہ کو بہ شکل وصیت رجسٹرڈ کرانا صحیح نہیں ہے۔کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی چیزوں میں سے جو بھی چاہے دوسرے کو ہبہ کرسکتا ہے، لیکن اس معاملے میں اپنی اولاد کے درمیان تفریق کرنا، کسی کو نوازنا اور دوسروں کو محروم رکھنا درست نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
کسی شخص کی اولادوں میں سے بعض معاشی اعتبار سے مضبوط اور بعض کمزور ہوسکتے ہیں۔ وہ کمزور اولاد کی مدد کرسکتا اور اسے سہارا دے سکتا ہے، لیکن یہ کام اگر وہ اپنے دوسرے لڑکوں کو اعتماد میں لے کر کرے تو انھیں شکایت نہیں ہوگی اور باہم اعتماد، محبت اور ہمدردی کی فضا قائم رہے گی۔
والدین کی خدمت کرنا، ان کا خیال رکھنا اور ان کی تمام ضرورتیں پوری کرنا اولاد پر فرض ہے۔ جو اس میں کوتاہی کرتا ہے وہ گنہگار ہوگا اور جو یہ تمام کام خوش دلی سے بڑھ چڑھ کر انجام دیتا ہے وہ بارگاہ الٰہی میں اجر وانعام کا مستحق ہوگا۔ والدین کو چاہئے کہ وہ محض اس بنیاد پر کہ ان کی اولادوں میں سے کون ان کی زیادہ خدمت کرتا ہے اور کون انھیں نظرانداز کرتا ہے، ان کے درمیان تفریق نہ کریں اور سب کے ساتھ برابر کا سلوک کریں۔

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب:اسلام میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے اور اسے آسان تر بنایاگیا ہے اور زنا و بدکاری کے بارے میں سخت وعید سنائی گئی ہے اور ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں کہ اس کاارتکاب دشوار تر ہوجائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نکاح کو بہت بابرکت قرار دیا ہے جس کے مصارف کم سے کم ہوں۔ قرآنی ہدایات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پرعمل کے نتیجے میں عہد نبوی میں نکاح بہت آسان تھا۔ کنواری لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ شوہر دیدہ عورتیں بھی اگر نکاح کرناچاہتیں تو اس میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ کسی خاتون کی طلاق ہوجاتی یا اس کا شوہر کسی غزوہ میں شہید ہوجاتا یا اس کی طبیعی موت ہوجاتی تو عدّت پوری ہوتے ہی اس کے پاس نکاح کے متعدد پیغامات آجاتے اور اسے فیصلہ کرناپڑتاکہ وہ کس کے ساتھ نکاح کرے؟
اسلام میں نکاح کے مصارف برداشت کرنا مرد کے ذمے کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:”اے نوجوانوں کے گروہ! تم میں سے جو نکاح کرسکتا ہو اسے ضروراس کی کوشش کرنی چاہئے۔“
لڑکی اور اس کے خاندان پر نکاح کے مصارف کا کوئی بارنہیں ڈالا گیا ہے، بلکہ اسلامی احکام و تعلیمات پر عمل ہو تو اس موقع پر لڑکی خاطرخواہ رقم پاتی ہے۔ اسے مہر ملتا ہے، شوہر اس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری لیتا ہے، رشتے داروں کی طرف سے اسے تحائف دیے جاتے ہیں۔
غیراسلامی اثرات کے نتیجے میں اب لڑکیوں کی شادیاں دشوار ہوگئی ہیں۔ منگنی، بارات، جہیز،تلک اور دیگر بے بنیاد رسموں کی مارلڑکیوں کے خاندان والوں پر پڑتی ہے۔ خاطرخواہ رقم جمع نہ ہونے کے سبب شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے،بہت سی لڑکیاں کنواری بیٹھی رہ جاتی ہے اور نتیجے میں معاشرہ فتنہ وفساد کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔اس صورت حال میں معاشرہ کے سنجیدہ اور باشعور طبقہ کو اس سماجی مسئلے کے حل کے لیے فکرمند ہوناچاہئے۔ ایسے میں اگر کچھ لوگ کسی ادارے کے تحت غریب مسلم بچیوں کے نکاح کا انتظام کررہے ہیں تویہ ایک بڑا کارِ خیر ہے، جس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (یا فرمایا کہ) رات میں مسلسل عبادت کرنے والے اور دن میں مسلسل روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“
دوڑ دھوپ میں ان کی خبرگیری کرنا، ان کی ضروریات پوری کرنا، ان کی پریشانیاں دْور کرنا اور وقتِ ضرورت ان کے نکاح کے انتظامات کرنا سب شامل ہے۔
ایک مجلس میں نکاح خواہ ایک جوڑے کا ہو، یا بہت سے جوڑوں کی اجتماعی طور سے شادی کردی جائے، دونوں صورتیں شرعی اعتبار سے جائز ہیں۔ بس ضروری ہے کہ نکاح کے تمام ضابطے پورے کرلیے گئے ہوں۔ مثلاً دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہو، مہر طے کیا گیا ہو۔ وغیرہ۔ اس موقع پراگر کوئی ایک فردیا چند افراد مل کر یاکوئی ادارہ نکاح کے مصارف برداشت کرلے، گھریلو ضروریات کی کچھ چیزیں فراہم کردے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ پسندیدہ کام ہے۔ محض یہ بات کہ عہد نبوی میں اس انداز سے شادیاں نہیں ہوتی تھیں، اس کام کے غیر شرعی ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب:کوئی چیز ہبہ کرکے اسے واپس لینے کے سلسلے میں متعدد احادیث مروی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ہمارے پاس اس سے بری کوئی اور مثال نہیں۔ جو شخص کوئی چیز ہبہ کرکے واپس لیتا ہے وہ کتے کی طرح ہے، جو قے کرکے اسی کو چاٹ لے۔“
دوسری روایت میں، جو حضرت ابن عباس اور ابن عمر سے مروی ہے، کچھ تفصیل ہے۔ اس میں ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کو کوئی عطیہ دے یا کوئی چیز ہبہ کرے، پھر اسے واپس لے لے، صرف باپ کو اجازت ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو دی ہوئی کوئی چیز واپس لے سکتا ہے۔ جو شخص ایسا کرتا ہے اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ وہ بھرپیٹ کھائے، یہاں تک کہ اسے قے ہوجائے، پھر وہ اسی کو چاٹ لے۔“
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز ہبہ کرکے اسے واپس لینا جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والے کو کتے سے تشبیہ دی ہے، جو قے کرکے دوبارہ اسے چاٹ لے۔ حدیث میں باپ کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے کہ وہ اگر اپنے بیٹے کوکوئی چیز ہبہ کردے تو اسے واپس لے سکتا ہے۔ بعض احادیث میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔ ایک صحابی اپنے ایک بیٹے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر پہنچے اور عرض کی: میں نے اپنے اس بیٹے کو فلاں چیزدی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا: کیا تم نے وہ چیز اپنے تمام بیٹوں کو دی ہے۔ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔تب آپ نے فرمایا: یہ غلط ہے۔ یا تو اپنے تمام بیٹوں کو وہ چیز دو یا اِس سے بھی واپس لے لو۔ اس سے معلوم ہوا کہ باپ کے اپنے بیٹے کو دی ہوئی چیز واپس لینے کی اجازت کا تعلق ظلم وزیادتی سے ہے کہ اگر اس نے دوسرے بیٹوں کی حق تلفی کرتے ہوئے کوئی چیز کسی ایک بیٹے کو دی ہے تو اسے واپس لے لے۔
فقہاء کرام میں سے مالکیہ، شافعیہ، اور حنابلہ کامسلک درج بالااحادیث کے مطابق ہے، یعنی کوئی چیز ہبہ کرکے اسے واپس لیناجائز نہیں ہے۔
لیکن احناف کہتے ہیں کہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہبہ واپس لیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہبہ کرنے والا اپنے ہبہ کا زیادہ مستحق ہے،اگر اس نے اس کا کوئی بدلہ نہ حاصل کرلیا ہو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ ہبہ دینے والے کواسے واپس لینے کا قانونی طور پر حق ہے۔ جن احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے ان کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔ ان کا استدلال اس سے بھی ہے کہ حضرات صحابہ میں سے عمر، عثمان، علی، ابن عمر، ابودرداء اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہم ہبہ دے کر اسے واپس لے لینے کو جائز سمجھتے تھے اور دیگر صحابہ سے اس کے خلاف مروی نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں تمام صحابہ کا اجماع ہے۔
احناف کے نزدیک ہبہ کی واپسی کاعمل اس وقت صحیح ہوگا جب دونوں فریق راضی ہوں یا ہبہ واپس چاہنے والا اپنا معاملہ عدالت میں لے جائے اور قاضی اس کی واپسی کا حکم دے۔ لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں جب احناف کے نزدیک بھی ہبہ کی ہوئی چیز واپس نہیں کی جائے گی۔
(۱) وہ چیز پورے طور پر تلف ہوگئی ہے۔ اگر کچھ حصہ تلف ہوگیا ہو اور کچھ باقی ہو اور ہبہ دینے والا اس باقی حصے کو وا پس مانگ رہاہو تو اسے واپس کرنا ہوگا۔
(۲)وہ چیز جس کو ہبہ کی گئی ہو اس کی ملکیت سے نکل گئی ہو۔ مثلاً اس نے اسے بیچ دیا ہو یا کسی اور کو ہبہ کردیا ہو۔
(۳)اس میں کوئی ایسا اضافہ کردیاگیا ہو، جو اس سے الگ نہ ہوسکے، مثلاً کوئی زمین ہو اور اس میں گھر بنالیاگیا ہو، یا درخت لگادیے گئے ہوں۔
(۴)ہبہ کرنے والے کو اس کے ہبہ کے بدلے میں کوئی چیز دی گئی ہو اور اسے اس نے قبول کرلیاہو۔
(۵)اس چیز کی ماہیت بدل گئی ہو۔ مثلاً گیہوں کو پیس لیاگیا ہو، یا آٹا کو گوندھ لیاگیا ہو۔
(۶)دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوگیا ہو۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

ج:اس آیت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ عین حق ہے۔ یقینا انسان اسی زمین سے پیدا کیا گیا ہے، وہ مر کر اسی زمین میں لوٹتا ہے اور قیامت کے دن وہ اسی زمین سے نکالا جائے گا۔ لیکن آپ یہ فرمائیے کہ درج ذیل آیات کا کیا مطلب ہے، یہ بظاہر اس سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ شھدا کے بارے میں فرمایا
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتًا بل احیاء عند ربھم یرزقونہ فرحین بما آتاھم اللہ من فضلہ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفہم الا خوف علیھم ولا ھم یحزنون(آل عمران3: 169، 170)
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انھیں روزی مل رہی ہے، وہ فرحاں و شاداں ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل میں سے ان کو دے رکھا ہے، اور وہ ان لوگوں کے باب میں بشارت حاصل کر رہے ہیں، جو ان کے اخلاف میں سے اب تک ان سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
وحاق بآل فرعون سوء العذاب النار یعرضون علیھا غدوًا وعشیًا ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا آل فرعون اشد العذاب (المؤمن40: 45، 46)
اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔یعنی قیامت سے پہلے اس وقت وہ صبح و شام آگ پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق لا تعلمھم نحن نعلمھم سنعذبھم مرتین ثم یردون الی عذابٍ عظیمٍ (التوبہ۹: 101
تم ان (منافقوں) کو نہیں جانتے، ہم انھیں جانتے ہیں۔ ہم انھیں دو مرتبہ عذاب دیں گے۔ پھر یہ عذاب عظیم کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔
یعنی ایک مرتبہ دنیا میں عذاب، دوسری مرتبہ عالم برزخ میں اور پھر اس کے بعد جہنم کا عذاب عظیم۔ چنانچہ ان دونوں آیات سے یہ پتا چلتا ہے کہ کم از کم رسولوں کے مخاطبین کے ساتھ اس عذاب و ثواب کا معاملہ ضرور پیش آتا ہے، یعنی وہ عالم برزخ میں بھی عذاب میں گرفتار ہوتے یا نعمتیں پاتے ہیں، جیسا کہ شہدا کا معاملہ ہے۔ عالم برزخ کیا چیز ہے؟ ارشاد باری ہے
حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحًا فیما ترکت کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا ومن وراء ھم برزخ الی یوم یبعثون فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتساء لون فمن ثقلت موازینہ فاولئک ھم المفلحون ومن خفت موازین فاولئک الذین خسروا انفسھم فی جھنم خالدون (المؤمنون23: 99- 103)
جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا: اے میرے رب، مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ میں دنیا میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں کچھ نیکی کما لوں، ہرگز نہیں، یہ محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور اب ان سب مرنے والوں کے آگے اس دن تک کے لیے ایک پردہ ہو گا، جس دن یہ اٹھائے جائیں گے۔ چنانچہ جب صور پھونکا جائے گا، تو اس دن نہ آپس کا نسب کام آئے گا اور نہ وہ ایک دوسرے سے مدد کے طالب ہوں گے۔ پس جن کے پلے بھاری ہوں گے، وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلے ہلکے ہوں گے تو وہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا، وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
آپ دیکھ لیجیے کہ درج بالا آیات میں بہت وضاحت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ موت کے بعد قیامت کا دن آنے تک لوگ برزخ میں رہیں گے، (جہاں شہدا اللہ سے نعمتیں پائیں گے اور فرعون والوں پر آگ کا عذاب پیش کیا جاتا ہو گا، وغیرہ) پھر جب قیامت آئے گی تو صور پھونکا جائے گا، پھر اعمال کا وزن ہو گا اور اس کے بعد لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم میں جائیں گے۔ چنانچہ قرآن سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان جب مر کر زمین میں چلا جاتا ہے، تو وہاں موت کی اس حالت میں بھی اس کو کوئی ایسے مراحل پیش آتے ہیں جن کی ہمیں یہ خبر دی گئی ہے۔ یہ قرآن کا صریح بیان ہے اور ہمیں اس کے انکار کی کیا ضرورت ہے۔ برزخ کا لفظ تو قرآن میں آیا ہے
قرآن کا یہ اسلوب واضح طور پر بتا رہا ہے کہ ان کا کوئی وجود ہے جس کے آگے کوئی پردہ ہوتا ہے اور جو وجود اس پردے کے پیچھے ہوتا ہے۔ اسی ما ورائے برزخ کو جہاں یہ وجود موجود ہوتے ہیں، عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ یہ سارا کچھ تو قرآن کا بیان ہے جس سے ایک برزخ کا تصور ہمارے سامنے آتا ہے۔ جن مردوں کے بارے میں قرآن یہ بات کرتا ہے، یہ وہی مردے ہیں جنھیں ہم زمین میں قبر بنا کر دفنا دیتے ہیں۔ انسان جس وجود کو قبر میں رکھتا ہے قرآن اسی کو برزخ کے پیچھے قرار دے رہا ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صاحب قبر کا برزخ سے کوئی تعلق ہوتا ہے جبھی تو خدا نے اسے برزخ کے پیچھے قرار دیا ہے۔ قبر اپنے ظاہر میں ہمارے مشاہدے کی چیز ہے، یہ ہمارے لیے متشابھات میں سے نہیں ہے، جب کہ برزخ کا لفظ من جملہ متشابھات ہے۔ متشابھات وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کی حقیت سے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہم واقف ہو ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ ایسی چیزوں کے حوالے سے ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ پر ایمان رکھیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب اللہ تعالی ہمارے پریہ چیزیں کھول دے گا۔ بہرحال، اس بحث سے اتنی بات واضح ہو جاتی ہے کہ برزخ کے ساتھ قبر کا کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے پاس دو ہی لفظ ہیں: ایک زندگی اور دوسرا موت۔ دنیا میں انسان زندہ ہوتا ہے اور آخرت میں بھی وہ اسی طرح زندہ ہو گا، قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔ دنیا اور آخرت کا درمیانی عرصہ جس میں انسان مردہ ہوتا ہے، اس عرصے کے بارے میں قرآن نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ اس میں شہدا تو اپنے رب کے پاس ہوتے ہیں اور وہاں انھیں روزی دی جاتی ہے اور آل فرعون کے حوالے سے بتایا کہ وہ اسی عرصے کے دوران میں صبح و شام آگ پر پیش کیے جا رہے ہیں، جیسا کہ درج ذیل آیات اس پر دلالت کرتی ہیں 
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انھیں روزی مل رہی ہے، وہ فرحاں و شاداں ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل میں سے ان کو دے رکھا ہے، اور وہ ان لوگوں کے باب میں بشارت حاصل کر رہے ہیں، جو ان کے اخلاف میں سے اب تک ان سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (آل عمران3: 169، 170)
اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔ (المؤمن40: 45، 46)
اب بتائیے قرآن کی بتائی ہوئی اس خبر کا کیا کریں؟ جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سب باتیں سچی ہیں۔ چنانچہ یہ درمیانی عرصہ جس میں انسان مردہ ہوتا ہے اس میں اس کے ساتھ کوئی معاملہ ضرور پیش آتا ہے، لیکن مردے کی وہ حالت ہماری دنیوی زندگی سے کچھ ایسی مختلف ہوتی ہے کہ ہم اس کا کوئی شعور ہی نہیں رکھتے، یہ وہی بات ہے جو قرآن مجید نے شہدا کے حوالے سے ہمیں بتائی ہے، لہذا، ہم مردے پر گزرنے والے احوال کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ مرنے کے بعد قیامت سے پہلے تک کی حالت کوئی ایسی حالت ہو سکتی جس کا ہمیں شعور نہ ہو تو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موت کے زندگی کی ضد ہونے کی حقیقت بھی ہمارے شعور سے بالا ہو۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:عورتیں قبرستان جا سکتی ہیں۔اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ قبرستان، چونکہ عام طور پر آبادیوں سے ہٹ کر نسبتاً ویران جگہوں پر ہوتے ہیں، اس لیے خواتین کا وہاں تنہا جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے ضرور احتیاط کرنی چاہیے۔عورت طہر اور حیض دونوں زمانوں میں قبرستان میں جا سکتی ہے۔ قبرستان کا معاملہ مسجد کی طرح کا نہیں ہے۔ وہ کسی قبر پر کھڑے ہو کر دعائے مغفرت بھی کر سکتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: حرام رزق کے ساتھ جو نماز پڑھی جاتی ہے، وہ اللہ کے ہاں مقبولیت نہیں پاتی، لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ انسان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے جس عمل کے ساتھ بھی دل کی گہرائی کے ساتھ چپکا ہوتا ہے، وہی عمل بالآخر دوسرے اعمال پر غلبہ پا لیتا ہے۔یہ بات تو ظاہر ہے کہ اس وقت اس شخص کی نماز سچے عابد کی نماز نہیں ہے، کیونکہ خدا کا سچا بندہ اپنے دل سے خدا کا فرماں بردار بھی ہوتا ہے، لیکن اگر یہ شخص اپنے جرائم کو آج یا آیندہ کسی وقت دل سے ناگوار جانتا، خود کو غلط قرار دیتا اور اللہ کے سامنے شرمندہ ہوتا رہتا ہے، گو یہ ابھی ان سے باز نہیں بھی آ رہا تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کی نماز اس کی بد اعمالیوں پر غلبہ پا لے، یہ توبہ کر لے اور اپنے اچھے انجام کو پہنچے۔ البتہ، اگر معاملہ برعکس ہوا تو پھر توقع بھی برعکس ہی کی ہے،کیونکہ ارشاد باری ہے:''البتہ جس نے کمائی کوئی بدی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیاتو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔'' (بقرہ2: 81)
یعنی انسان خواہ کیسا ہی نمازی یا روزے رکھنے اور حج کرنے والا کیوں نہ ہو، اگر اس نے کسی ایک برائی کو سچے دل کے ساتھ اس طرح سے چمٹ کر اختیار کر لیا کہ وہ برائی اس پر چھا گئی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیا تو اب اس کی سب نیکیاں برباد ہو جائیں گی اور وہ جہنم میں جائے گا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اگر آپ کے شوہر کا یہ بیان کہ "میں نے طلاق کے الفاظ ارادۃً ادا نہیں کیے تھے، بلکہ صرف تمھیں ڈرانے کے لیے بولے تھے" بالکل درست اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے، یعنی وہ حلفاً ایسا کہہ سکتے ہیں تو پھر صحیح بات یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی۔ چنانچہ آپ تسلی سے ان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔البتہ اگر دوسروں کی باتوں یا کسی اور وجہ سے آپ خود کسی تردد میں مبتلا ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ بات شاید بہتر ہو گی کہ آپ ایک طلاق واقع ہونے والا فتوی تسلیم کرتے ہوئے احتیاطاً اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح کر لیں۔ تاہم یہ واضح رہے کہ یہ کوئی فقہی و شرعی حل نہیں ہے، بلکہ اس تجویز کا مقصد محض آپ کے تردد کو دور کرنا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:موسیقی میں سے ہر اس چیز کی نفی کی ضرورت ہے جو اخلاقی اور دینی اعتبار سے ممنوع ہے۔ مثلاًموسیقی کی وہ دھنیں جو سفلی جذبات کو ابھارتی ہیں، ان سب کی نفی ہونی چاہیے۔موسیقی کے ساتھ جو کلام پیش کیا جاتا ہے، اس میں سے شرکیہ، فحش اور انسان میں فتنہ یا کوئی دینی و اخلاقی خرابی پیدا کرنے والے سب مضامین کی نفی ہونی چاہیے۔محافل موسیقی میں ہر اس مغنی یا مغنیہ کی نفی ہونی چاہیے جو اپنے چہرے، جسم یا انداز و ادا ہی سے فتنے کا باعث ہو۔بعض محافل موسیقی میں شراب و کباب کا وجود بھی پایا جاتا ہے، چنانچہ ظاہر ہے ایسی سب حرام چیزوں کی نفی ہونی چاہیے۔سننے والا اگر محسوس کرے کہ موسیقی اس کے تزکیہ نفس کے راستے میں رکاوٹ ہے تو اس کے لیے جائز موسیقی بھی ممنوع ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:مغربی جمہوریت کو اگر اس کے پورے تصور کے ساتھ دیکھا جائے تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہے، کیونکہ وہ انسان کو خدا سے ہٹ کر قانون سازی کا اختیار دیتی ہے۔ اس کے نزدیک انسان کثرت رائے سے اپنے لیے جس چیز کو چاہے حلال کر لے اور جس چیز کو چاہے حرام کر لے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ اختیار انسان کو حاصل نہیں ہے، چنانچہ جو فلسفہ و فکر انسان کو یہ اختیار دیتا ہے وہ سراسر باطل ہے۔ البتہ مغربی جمہوریت کا ایک پہلو جو " امرھم شوری بینھم" سے مماثل ہے اور وہ جائز ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہم خدا اور اس کے رسول کی فرماں برداری میں " امرھم شوری بینھم" کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جب اپنے معاملات طے کر رہے ہوں اور اس میں نزاع کا کوئی موقع پیدا ہو جائے تو کیا ہمارے لیے اسی طرح کثرت رائے سے کسی نتیجے تک پہنچنا جائز نہیں ہے جیسے اہل جمہوریت اپنے نزاعات کو ووٹنگ کے ذریعے سے حل کرتے ہیں؟ ہمارے خیال میں یہ بالکل جائز ہے۔ مثلاً قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ذیلی قانون سازی کرتے ہوئے باہمی اختلاف کی صورت میں ووٹنگ وغیرہ کے طریقے کو اختیار کیا جا سکتا ہے یا خلیفہ اور صدر کے انتخاب میں اسی طریقے کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:تقدیر،مقدر اور قسمت یہ تینوں الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ ان سے مراد انسان کے بارے میں خدا کے فیصلے ہیں۔ خدا کے بعض فیصلوں میں انسان مجبور ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ وہ کہاں پیدا ہو گا، اس کے ماں باپ کون ہوں گے، اسے کتنی عمر ملے گی وغیرہ، وغیرہ۔ البتہ خدا کے بعض فیصلوں میں وہ اپنے افعال و اعمال کا ارادہ کرنے کی حد تک آزاد ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور اسے ان پر نیکی یا بدی ملتی ہے۔تقدیر کو اس طرح بیان کرنا کہ ''ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو ہمارے مقدر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے'' یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ شاید ہم مجبور محض ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہم بے جان پتلیاں ہیں جنھیں خدا جس طرح چاہتا ہے، نچاتا ہے۔ وہی ہم میں سے کسی کو جبراً قاتل بناتا ہے اور کسی کو جبراً مقتول، وہی کسی کو جبراً نیک بناتا ہے اور کسی کو جبراً بد۔ چنانچہ پھر اس سے کوئی شخص یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہونے والے جرائم اور اچھے اعمال کا ذمہ دار صرف خدا ہے، انسان تو معصوم ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ ہم جو اعمال بھی سر انجام دیتے ہیں، خدا کی اجازت کے ساتھ اپنی مرضی سے انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس لیے صالح کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے مطابق استعمال کرتے ہوئے، نیک کام کیا ہوتا ہے اور اس لیے مجرم کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے خلاف استعمال کرکے برا کام کیا ہوتا ہے۔البتہ، اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا خدا مستقبل کو جانتا ہے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہاں بالکل اسے آیندہ ہونے والے سارے واقعات اور حالات کا پتا ہے، کیونکہ وہ عالم الغیب ہے، وہ زمانے کے وجود میں آنے سے پہلے اسے پوری تفصیلات کے ساتھ جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا آیندہ ہونے والے واقعات خدا کے جبر سے بالکل اسی طرح وجود پذیر ہوتے ہیں، جیسے اس کا علم ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب ہو گا کہ نہیں، بلکہ جن چیزوں کو وہ جبراً ایک خاص طریقے پر کرنا چاہتا ہے، صرف انھیں وہ جبراً کرتا ہے اور جنھیں اختیار و ارادہ کی آزادی دیتا ہے، وہ اسی کے اذن سے، اپنے اختیار و ارادہ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔البتہ خدا کا علم دونوں کے بارے میں غلطی سے پاک ہوتا ہے۔جن مواقع کے حوالے سے خدا نے یہ فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ انسان اپنے لیے اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے جس چیز کو طلب کرے گا، وہ اسے دے دی جائے گی، ان مواقع پر انسان کی تدبیر ہی سے اس کی تقدیر بنتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:عورتوں کا اپنی زیب و زینت کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا خالصتاً معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف تہذیبیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دوسری تہذیب سے غیر شرعی رسوم لینے سے منع کرتا ہے اور جو رسوم غیر شرعی نہیں ہیں، ان کو اپنا لینے پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ناک میں سوراخ کرا کر لونگ پہننا مسلمانوں نے خواہ ہندووں ہی سے لیا ہو، لیکن اب یہ خود بعض علاقوں کے مسلمانوں میں رائج ہو گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی اسے اختیار کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:علم نجوم کوئی سائنس نہیں ہے۔ اگر نجوم کا علم واقعی ایک سائنس قرار پا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو براہ راست مشاہدے اور تجربے کے ذریعے سے یہ یقینی خبر مل گئی ہے کہ آیندہ ہونے والے واقعات ستاروں کی مختلف گردشوں کے ذریعے سے ظاہر کیے جاتے ہیں، جیسا کہ ہم براہ راست تجربے اور مشاہدے سے یہ جانتے ہیں کہ غلے کے اگنے میں بارش یا پانی ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ پھر اس صورت میں علم نجوم کو ایک سائنس قرار دیا جائے گا۔
ابھی تک اس علم کا سائنس ہونا اپنے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچا اورروایات میں بھی اس علم کے حق ہونے کے بارے میں کوئی بیان موجود نہیں ہے۔ چنانچہ یہ محض اندازہ اور خیال آرائی ہی ہے۔ اس کے اندر یا تو کوئی اصول اور قانون نہیں پایا جاتا یا پھر انسان ابھی تک اسے دریافت نہیں کر سکا۔ چنانچہ اس وقت انسان اسے نہ سائنس کے طور پرقبول کر سکتا ہے اور نہ کسی مذہبی خبر کی بنا پر،لہٰذا اس علم سے بچنا ہی چاہیے، کیونکہ یہ انسان کو شدید قسم کے وہموں میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ ستاروں کو موثربالذات سمجھنے لگتا اور شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے یا ان کے بارے میں غیر مذہبی اور غیر سائنسی (غیر علمی) بنیادوں، یعنی اوہام کی بنا پر کچھ صفات کا قائل ہو جاتا ہے اور یوں وہ 'افتراء علی اللّہ' (خدا پر جھوٹ باندھنے) کا مجرم بنتا ہے۔ جہاں تک موسم کے بارے میں پیش گوئیوں کا تعلق ہے تو وہ خالصتاً مادی حالات کے سائنسی مشاہدہ کی بنا پر کی جاتی ہیں، جبکہ علم نجوم کا معاملہ یہ نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'ان العین حق'،''بے شک نظر کا لگ جانا سچ ہے۔'' (بخاری، رقم 5740، 5944؛ مسلم، رقم 2187، 2188)نظرِ بد کیا چیز ہے؟  یہ غالباً بعض کیفیتوں میں انسان کی آنکھ سے نکلنے والے وہ اثرات ہیں جو دوسرے شخص پر خدا کے اذن سے اثر انداز ہوتے اور اسے بیمار وغیرہ کر دیتے ہیں۔ ان اثرات کا معاملہ بالکل وہی ہے جو عام انسانی اقدامات کا معاملہ ہوتا ہے، جیسا کہ ایک آدمی (خدا کے قانون کے تحت) دوسرے کو پتھر مار کر زخمی کر سکتا ہے، اسی طرح بعض لوگوں کی نظر بھی خدا ہی کے اذن سے دوسرے پر اثر انداز ہو جاتی ہے۔ نظر مؤثر بالذات ہرگز نہیں ہوتی جو کچھ ہوتا ہے،خدا کے قانون ہی کے تحت ہوتا ہے۔
نظر اگر لگ گئی ہو تو اس کو اتارنے کے لیے لوگوں نے مختلف حل تلاش کیے ہیں، سرخ مرچوں کو جلا کر سنگھانا، انھی میں سے ایک ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر اتارنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جس آدمی کی نظر لگی تھی، اس کے وضو کا مستعمل پانی نظر کے مریض پر ڈالا۔ہمارا خیال ہے کہ نظر بد کے اثرات جو کہ شاید نفسیاتی ہوتے ہیں یا کسی اور طرح کے غیر مادی اثرات ہوتے ہیں، انھیں دور کرنے کے لیے یہ طریقے لوگوں نے اپنے تجربات سے ایجاد کیے ہیں، ان میں اگر کوئی مشرکانہ بات نہ ہو تو انھیں اختیار کیا جا سکتا ہے۔جس طرح عام بیماری میں ہم خدا سے شفا کے طالب ہوتے ہیں، کیونکہ شفا اسی کی طرف سے ملتی ہے، اسی طرح نظر بد سے شفا کے معاملے میں بھی دوا کے ساتھ اللہ ہی کی پناہ پکڑی جائے گی اور اسی سے دعا کی جائے گی۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:آپ نے نکاح کے حوالے سے خدا کی گواہی کی جو بات سنی ہے، وہ درست نہیں ہے اور اس پرآپ کا تردد بالکل صحیح ہے.
شریعت نے نکاح کیلیے جن باتوں کو لازم قرار دیا ہے. وہ درج ذیل ہیں:
1.    حق مہر
2.    پاک دامنی
3.    علانیہ ایجاب و قبول(کم از کم دوگواہوں کا موجود ہونا)
4.    مستقل رفاقت کی نیت

 

(محمد رفیع مفتی)

فرائضِ منصبی میں کوتاہی کی تلافی کیسے ہو؟
سوال:میں ایک سرکاری کالج میں تقریباً بیس سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد ابھی حال میں ریٹائر ہوا ہوں۔ آخر میں چند سال میں نے وائس پرنسپل کی حیثیت سے بھی گزارے ہیں۔ ہمارے کالج میں بیش تر اساتذہ عموماً وقت کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ کالج کا وقت شروع ہوجانے کے بعد تاخیر سے آتے تھے اور وقت ختم ہونے سے قبل ہی چلے جایا کرتے تھے۔ بعض اساتذہ تو کئی کئی روز کالج نہیں آتے تھے، پھر جب آتے تھے توگزشتہ دنوں کی بھی حاضری لگادیاکرتے تھے۔ اس معاملے میں مجھ سے بھی کوتاہی ہوتی رہی ہے۔میرا تعلق ایک دینی جماعت سے ہے۔ میرے اوپر اس کی بعض ذمہ داریاں رہی ہیں۔ کالج کے کچھ اوقات میں نے ذاتی کاموں میں صرف کیے ہیں تو کچھ اوقات میں جماعت کاکام کیاہے۔ بسااوقات میں نے شہر کے باہر بعض اجتماعات میں شرکت کی ہے، ان ایام میں میں نے کالج سے رخصت نہیں لی، بلکہ بعد میں جاکر حاضری رجسٹر میں ان ایام کے خانوں میں بھی دستخط کردیے۔اب مجھے احساس ہورہاہے کہ میں نے وقت کی پابندی نہ کرکے اور غیرحاضری کے ایام میں بھی حاضری کے دستخط کرکے غلطی کی تھی۔ اسی طرح مجھے یہ احساس بھی ستارہاہے کہ جن اوقات یا ایام میں تدریسی کام نہ کرکے میں نے اس کا مشاہرہ لیا ہے وہ میرے لیے جائز نہ تھا۔ اب اس کی تلافی کیسے کروں؟ سوچتاہوں کہ اتنی رقم کا اندازہ کرکے اس کا صدقہ کردوں۔ کیا اس سے میری کوتاہی کی تلافی ہوجائے گی؟
بہ راہ کرم میری رہ نمائی فرمائیں۔

 

جواب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یاَیّْھَا الَّذِینَ اٰمَنْوا اَوفْوا بِالعْقْودِ         (المائدۃ:۱)
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، عہدو پیمان کو پورا کرو“
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام نے لکھاہے کہ اس میں وہ عہدو پیمان بھی شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں نے کیے ہیں اور وہ عہدو پیمان بھی جو مختلف دنیاوی معاملات میں لوگ آپس میں کرتے ہیں۔
ملازمت کے ضمن میں ہونے والا عہدو پیمان دو طرح کاہوسکتا ہے: ایک کام کا، یعنی ملازم اِس چیز کاپابند ہو کہ اسے جو کام دیاگیا ہے اسے پورا کرے، خواہ کتنے ہی کم وقت میں اسے کرڈالے یا کتنا ہی زیادہ وقت اس میں لگے۔ دوسرا وقت کا، یعنی جتنے وقت کا اس سے معاہدہ کیاگیا ہے، اتنا وقت ضرور گزارے، چاہے اس نے اپنامفوضہ کام اس سے کم وقت میں نمٹالیاہو۔عموماً کالجوں، یونی ورسٹیوں، فیکٹریوں اوردیگر اداروں میں ملازمین کام کے ساتھ وقت کے بھی پابند ہوتے ہیں اور ان کے لیے متعینہ اوقات جائے ملازمت پر گزارنا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ تو سراسر فراڈ اور دھوکہ بازی ہے کہ آدمی کام پر نہ جائے اور رجسٹر میں حاضری دکھادے، ساتھ ہی یہ بھی معاہدہ کی خلاف ورزی اور دیانت و امانت کے خلاف ہے کہ وہ متعینہ اوقات کی پابندی نہ کرے، جب چاہے کام پر جائے اور جب چاہے وہاں سے چل دے۔ عموماً سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر ملازمین اس کاخیال نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں ضابطے موجود ہوتے ہیں، اساتذہ کو تاکید کی جاتی ہے کہ متعینہ اوقات میں وہ کالج یا یونی ورسٹی کے کیمپس میں ہی رہیں، چاہے ان کے پیریڈ خالی ہوں، تاکہ ان کی موجودگی سے طلبہ فائدہ اٹھائیں، لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے اساتذہ ان ضوابط کی پابندی نہیں کرتے۔ وہ خالی پیریڈ میں کیمپس میں موجود رہنا ضروری نہیں سمجھتے۔ شروع کے پیریڈ خالی ہوں تو دیر سے کالج یا یونی ورسٹی پہنچتے ہیں اور آخر کے پیریڈ خالی ہوں تو کالج یا یونی ورسٹی کاوقت پورا ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکل لیتے ہیں، حالاں کہ یہ معاہدہ ملازمت کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض دین دار حضرات بھی اس مجرمانہ کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اگر وہ کسی دینی جماعت سے وابستہ ہوں تو تدریسی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہ کرکے اور اپنی ملازمت کے فرائض سے غفلت برت کر جماعت کے کاموں کی انجام دہی کو کارِ خیر سمجھتے ہیں، حالاں کہ اس طرح حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی دھوکہ کرتے ہیں اوراپنی ملازمت کے معاملے میں بھی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
آدمی کو جب بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس ہوجائے اسے توبہ اور بارگاہِ الٰہی میں مغفرت طلب کرنی چاہیے۔ امید ہے، اللہ تعالیٰ ضرور درگزر فرمائے گا۔ وہ ملازمت میں ہوتو ساتھ ہی یہ بھی پختہ عزم کرے کہ آئندہ وہ اپنے کارہائے مفّوضہ ٹھیک ٹھیک انجام دے گا اور کسی طرح کی خیانت کاارتکاب نہیں کرے گا۔ دورانِ ملازمت بہ طور مشاہرہ جو رقم حاصل ہوئی ہے اس میں سے کتنی جائز ہے اور کتنی ناجائز، اس کاحساب آسان نہیں ہے اور ناجائز رقم کی واپسی میں ٹیکنیکل دشواریاں ہیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے صدقہ وخیرات کرتا رہے۔ امید ہے، اس طرح اس کی کوتاہیوں کی تلافی ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں کو درگزر فرمائے گا۔

 

()

جواب : نکاح کے ضمن میں جن چیزوں کا حکم دیاگیاہے ان میں سے ایک مہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاٰتْواالنِّسَاء صَدْقٰتِہِنَّ نِحلَۃٍ                                                (النساء:۴)
”اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔“
نکاح منعقدہوتے ہی لڑکی مہر کی مستحق ہوجاتی ہے اور اگر بروقت شوہر مہر ادا نہ کرسکے تو وہ اس کے ذمّے قرض رہتاہے۔ اس لیے اگر رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال ہوجائے تو بھی لڑکی پورے مہر کی مستحق ہوگی۔
قرآن کریم میں عدّتِ وفات کاتذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے:
وَالَّذِینَ ْتَوَفَّونَ مِنہْم وَتذَرْونَ اَزوَاجًا َّتَرَبَّصنَ بِاَنفْسِہِنَّ اَربَعۃََ اَشہْرٍ وَّعَشرًا                                                         (البقرۃ:)”تم میں سے جو لوگ مرجائیں، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کوچار مہینے دس دن روکے رکھیں۔“
یہ حکم عام ہے، اس لیے اس میں ہرطرح کی عورتیں شامل ہیں۔ وہ بھی جن کانکاح تو ہوگیا ہو، لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو۔ عدّتِ وفات کا حکم اصلاً شوہر کی وفات پر اظہارِ غم کے لیے دیاگیا ہے۔

()

جواب :  شریعت میں وراثت اور وصیت دونوں کے احکام کھول کھول کر بیان کردیے گئے ہیں، اس لیے وصیت کی بنیاد پر وراثت کے احکام کو معطل نہیں کیاجاسکتا۔ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں اور غیروارث کے لیے کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت نہیں کی جاسکتی۔
صورتِ مسؤلہ میں گود لی ہوئی لڑکی اور اس کے شوہر کے حق میں صرف ایک تہائی مال و جائداد (پراپرٹی) کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ سائل کا انتقال ہونے کی صورت میں ان کی اہلیہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک چوتھائی ترکہ کی حق دار ہوں گی     (النساء:۱۲) بقیہ ترکہ عصبہ ہونے کی وجہ سے ان کے بھائیوں کو ملے گا۔

 

()

جواب: ترکہ کی تقسیم سے قبل قرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس کے بعد جو کچھ بچے گا وہ پورے کاپورا والد کاہوگا۔ والد کی موجودگی میں بھائیوں کا کچھ حصہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اگر میت صاحبِ اولاد ہوتو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیاجائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو، پوری کردی جائے اور قرض جو اس پر ہو، ادا کردیاجائے۔“
اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ ترکہ کی تقسیم وصیت کی تکمیل اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی۔
۲۔اگر میت کی اولاد ہو اور اس کے والدین بھی زندہ ہوں تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
۳۔اگر میت کی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین زندہ ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا۔
۴۔اگر میت کے بھائی بہن ہوں اور اس کے والدین بھی زندہ ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
مذکورہ بالا صورتوں میں سے موخرالذکر دو صورتوں میں باپ کے حصے کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے علماء نے یہ استنباط کیاہے کہ ان صورتوں میں باپ کاکوئی متعین حصہ نہیں ہے، بلکہ ماں کا حصہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچے وہ سب باپ کاہوگا۔
کسی شخص کے انتقال کے وقت اگر اس کے والدین زندہ ہوں اور اس کے بھائی بہن بھی ہوں تو بھائیوں بہنوں کو کچھ نہ ملے گا، پورا ترکہ ماں باپ میں تقسیم ہوجائے گا۔ اگر والدہ کا انتقال پہلے ہوچکا ہو اور والد زندہ ہوں تو وہ پورے ترکے کے مستحق ہوں گے، اس صورت میں بھی بھائیوں بہنوں کاکچھ حصہ نہ ہوگا۔

()

جواب: غیرمسلموں سے تعلقات کے ضمن میں یہ اصول ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کے مشرکانہ کاموں میں شرکت اور تعاون کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، البتہ ان کے غیرشرکیہ کاموں اور تہواروں میں شرکت کی جاسکتی ہے اور انھیں تعاون بھی دیا جاسکتا ہے۔جہاں تک پرساد کا معاملہ ہے، اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو کسی مسلمان کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر بھی وہ جائز نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں حرام ماکولات کی جو فہرست بیان کی گئی ہے ان میں یہ بھی ہے:
وَمَا اْہِلَّ بِہ لِغَیرِ اللہِ                             (البقرۃ:)
”وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیاگیا ہو۔“
غیرمسلم اس طرح کی کوئی چیز دیں تو ان سے دریافت کیاجاسکتاہے اور اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو اسے لینے سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ انھیں بات سمجھادی جائے تو وہ اسے دینے پر اصرار نہیں کریں گے، آئندہ احتیاط کریں گے اور اس کا بْرابھی نہیں مانیں گے۔

 

()

جواب: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا ہو اسے چاہئے کہ وہ شکرانے کے طور پر دوسرے غریب اور ضرورت مند انسانوں پر خرچ کرے۔ قرآن میں ہے:
وَفِی اَموَالِہِم حَقّ لِّلسَّاءِلِ وَالمَحرْومِ۔ (الذاریات: ۱۹)
”اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لئے“
مال خرچ کرنے کو ’انفاق‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں انفاق کی ترغیب دی گئی ہے اور اللہ کی خوش نودی کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ اس کی انتہا یہ ہے کہ آدمی کے پاس اس کی اپنی بنیادی ضروریات سے زیادہ جتنا مال ہو، سب خرچ کردے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”پوچھتے ہیں: ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو“۔
انفاق کی ایک مخصوص صورت زکوٰۃ کی ہے۔جس شخص کے پاس کم از کم مال کی ایک متعین مقدار ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ان میں سے کسی ایک کی مالیت کے بقدر نقد رقم ہو اور وہ سال بھر اس کے پاس محفوظ رہے تو اس میں سے ڈھائی فیصد نکالنا اور اس کی مخصوص مدات میں اسے خرچ کرنا اس پر فرض ہے۔ اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔
جس شخص پر جتنی رقم بطور زکوٰۃ عائد ہوتی ہے وہ اس سے زیادہ خرچ کرسکتا ہے۔ اس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کا مستحق ہوگا، لیکن ڈھائی فیصد سے اوپر کی رقم کو زکوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔ اسے صدقہ، خیرات، عطیہ، ہبہ، اعانت، کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اور ہرفرض کی رکعتیں بھی متعین کردی ہیں۔ اب کوئی شخص ان اوقات میں مزید نمازیں پڑھ سکتا ہے، لیکن ان کی حیثیت نوافل کی ہوگی، وہ فرض رکعتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرسکتا۔
زکوٰۃ اور صدقات کو الگ الگ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ زکوٰۃصرف مخصوص  مدات میں خرچ کی جاسکتی ہے، جن کی صراحت قرآن کریم (التوبۃ:) میں کردی گئی ہے۔ جبکہ صدقات کی رقمیں ہر کارِ خیر میں صرف کی جاسکتی ہیں۔ جو تنظیمیں یا ادارے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں وہ بھی زکوٰۃ اور صدقات کا الگ الگ حساب رکھتے ہیں، اس لئے انھیں کوئی رقم حوالے کرتے وقت یہ صراحت مناسب، بلکہ ضروری ہے کہ اس میں سے اتنی رقم زکوٰۃ کی ہے اور اتنی عطیہ ہے۔

()

جواب: زکوٰۃکی جو مدات قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک ’وفی الرقاب‘ (التوبۃ) ہے،یعنی گردنوں کو چھڑانے میں۔ نزولِ قرآن کے عہد میں غلامی کا رواج تھا۔ انسانوں کی گردنیں اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں۔ قرآن نے ان کی گلوخلاصی کو کارثواب قرار دیا۔ جمہور علماء و مفسرین کا خیال ہے کہ ’فی الرقاب‘ سے مراد غلام ہیں۔ چوں کہ غلامی کی یہ رسم الحمد للہ اب ختم ہوگئی ہے،اس لیے زکوٰۃ کا یہ مصرف اب باقی نہیں رہا۔اْس زمانے میں ایسے قیدی بھی پائے جاتے تھے، جو مختلف جنگوں میں گرفتار کرلیے جاتے تھے، اس لئے کتبِ فقہ میں ایک بحث یہ ملتی ہے کہ کیا زکوٰۃ قیدیوں کو چھڑانے میں صرف کی جاسکتی ہے؟ جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ قیدی کو چھڑانے میں زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی، لیکن بعض علماء، جن میں ابن عبدالحکم مالکی، قاضی ابن العربی مالکی، امام احمد(ایک روایت کے مطابق) اور علامہ ابن تیمیہ قابل ذکر ہیں، اس کی اجازت دیتے ہیں۔ادھرکچھ عرصے سے ہندوستانی مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے نوجوانوں کو بلاکسی قصور کے جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔ ان پر اتنے مقدمات لا ددیے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی میں برسوں گزر جاتے ہیں اورجیلوں سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہوپاتی۔ ان کی رہائی کے لئے قانونی چارہ جوئی کرنا، ان کے مقدمات کی پیروی کرنا، انھیں قید وبند سے چھٹکارا  دلانا اور ان کی فلاح وبہبود کے دیگر کام انجام دینا وقت کااہم تقاضا ہے۔ امت کے سربرآوردہ طبقے کو اس کی فکر کرنی چاہیے اوراس کے لیے ہرممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔کیا  ریاستی  دہشت گردی کے شکار ان اسیران کے مقدمات کی پیروی اور ان کو رہائی دلانے کی کوششوں میں زکوٰۃکی رقم خرچ کی جاسکتی ہے؟فقہائے کرام کو اس موضوع پر غور کرنا چاہئے۔ راقم کی رائے ہے کہ مذکورہ معاملہ زکوٰۃ کا مصرف بن سکتا ہے۔ قرآن نے ’وفی الرقاب‘ (گردنیں  چھڑانے میں) کی جامع تعبیر اختیار کی ہے۔ زمانہ قدیم میں اس کا انطباق غلاموں پر ہوتا تھا۔ موجودہ دور میں ہندوستان کے اسیرانِ بلا کی حالت ان سے مختلف نہیں ہے۔ان مظلومین کے سلسلے میں کرنے کے دو کام اور ہیں، جو شاید ان کے مقدمات کی پیروی سے زیادہ اہم ہیں:اول یہ کہ یہ نوجوان عام طور پر اپنے گھروں کا سہارا ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعہ معاش پر ان کے پورے خاندان کا انحصار ہوتا ہے۔ قیدوبند کی بنا پر ان کا سلسلہ معاش منقطع ہوجانے کی وجہ سے ان کے خاندان بڑی آزمائش میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ بسا اوقات ان کے افراد خانہ دانے دانے کو محتاج ہوجاتے ہیں۔ ایسے موقع پر ضروری ہے کہ متمول حضرات ان خاندانوں کی خبر گیری کریں اور ان کی معاشی کفالت کی ذمے داری لیں۔ دوم یہ کہ جیلوں میں ان نوجوانوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے، ان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں اور ان کو جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ ایسے میں ان نوجوانوں کی راحت رسانی کی بھی کوشش کرنی چاہئے، ممکن ہوتو انھیں کچھ سہولیات مثلاً پہننے کے کپڑے اور غذائی اشیاء وغیرہ پہنچائی جائیں۔ دینی لٹریچر، کتب ورسائل بھی پہنچائے جائیں، تاکہ ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہو اور ذہنی ونفسیاتی سکون بھی مل سکے۔

()

جواب: خلع کے وقت اگر شوہر نے ایک طلاق کی صراحت کی تھی تو دوبارہ ازدواجی رشتہ قائم ہونے کی گنجائش ہے، لیکن اگر اس وقت تین طلاق دینے کی صراحت کی گئی تھی تو اب دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں۔ خلع کے نتیجے میں ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔ یعنی نئے نکاح اور نئے مہر کے ساتھ دونوں کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم ہوسکتا ہے۔
 

()

جواب: شوہر کے انتقال کے بعد اس کی میراث اس کے مذکورہ پسماندگان میں اس طرح تقسیم ہونی چاہئے تھی:
بیوی  : کل مال کا چوتھائی حصہ (۴/۱)
 تین چچیرے بھائی:بقیہ مال ان کے درمیان برابر تقسیم ہونا چاہئے تھا۔ (عصبہ ہونے کی وجہ سے)
 چچیری بہن کا کچھ حصہ نہیں۔
 پھر بیوی کے انتقال کے بعد اس کا مال اس کے مذکورہ وارثین کے درمیان اس طرح تقسیم ہونا چاہئے کہ اس کے چار حصے کیے جائیں۔ ایک ایک حصہ دونوں بہنوں کو دیا جائے اور دو حصہ بھائی کو۔

 

()

صلہ رحمی کے بدلے میراث کی عدم تقسیم
سوال:میرے سامنے کچھ مسائل اور الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں، براہ کرم انھیں حل فرمائیں۔ میں ازحدشکرگزار ہوں گا۔
میرا ایک بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والدین کا عرصہ ہوا انتقال ہوگیا ہے۔ ایک بہن اپاہج پولیوکی مریضہ اور غیرشادی شدہ ہے۔ شروع سے اب تک میں ہی اس کی کفالت کرتارہاہوں۔ باقی دو بہنیں شادی شدہ ہیں۔ ہر ایک کے کئی بچے ہیں۔ بڑے بہنوئی کافی عرصہ مریض رہے۔ انھیں ٹی بی ہوگئی تھی۔ ان کے علاج میں کافی روپیہ خرچ ہوا، جو میں نے برداشت کیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بچوں کی کفالت کی، ان کی لڑکی کی شادی کے تمام مصارف برداشت کیے۔ اسی طرح دوسری بہن بیوہ ہوگئیں تو ان کی اور ان کے بچوں کی بھی کفالت کی۔ میرے بھی پانچ بچے ہیں،میرا بھائی بہت پہلے گھر چھوڑکر کہیں چلاگیاتھا۔ معلوم ہواہے کہ وہ راجستھان میں ہے۔ اس نے بہنوں اور ان کے بچوں کی کفالت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔والد صاحب کی جائیداد میں صرف ایک مکان ہے، جس میں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتاہوں۔ اب بہنیں اس میں اپنا حصہ مانگ رہی ہیں۔ جب کہ بڑی بہن پہلے کہہ چکی تھیں کہ ”میری لڑکی کی شادی کرادو، میں ترکے میں اپنا حصہ نہیں لوں گی۔“ میں چاہتاہوں کہ میرے تمام اخراجات، جو میں نے بہنوں اور ان کے بچوں کی کفالت میں کیے ہیں، مجھے دے دیے جائیں اور تمام فریق مکان کے ترکے میں اپنا حصہ لے لیں۔
براہ کرم اس معاملے میں میری رہ نمائی فرمائیں۔

جواب:آپ نے اپنے حالات بیان کرکے جو مسائل اٹھائے ہیں ان کا جواب درج ذیل ہے:
۱- آپ نے اپنی بہنوں، ان کے شوہروں اور ان کے بچوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر اللہ تعالیٰ آپ کو اچھا بدلہ دے گا۔ آپ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرنے اور آخرت میں اس کا اجر چاہنے کے لیے ہی کیا ہوگا۔ دنیا میں اس کا کوئی بدلہ حاصل کرنا آپ کا مقصود نہیں ہوگا۔
۲- شریعت میں کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ تقسیم کرنے کا صاف الفاظ میں حکم دیاگیا ہے۔ آپ کے والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ تقسیم ہونا چاہیے تھا، جو نہیں ہوا۔ بہرحال اب اس کی تقسیم ہوجانی چاہیے۔
۳- کسی شخص کے وارثان میں صرف لڑکے لڑکیاں ہوں تو ترکہ اس طرح تقسیم ہوگاکہ ہر لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔ آپ کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق ترکہ کے سات حصے کیے جائیں گے۔ ایک ایک حصہ آپ کی تینوں بہنوں کا ہوگا، دو حصے آپ کے اور دو حصے آپ کے بھائی کے۔
۴- آپ کا جو بھائی باہر رہتاہے وہ بھی ترکہ پانے سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
۵- حق داروں میں سے کوئی بھی اگر چاہے تو اپنی مرضی سے اپنا حصہ چھوڑسکتا ہے یا دوسرے کو دے سکتا ہے۔
۶- آپ کی بہن نے اگر کہاتھا کہ ”میری لڑکی کی شادی کرادو میں اپنا حصہ نہیں لوں گی“ تو انھیں اپنی بات پر قائم رہنا چاہیے۔ اگر وہ اس سے انکار کرتی ہیں اور آپ کے پاس کوئی ثبوت ہوتو پیش کیجیے۔
۷-آپ نے اپنی بہنوں، ان کے شوہروں اور ان کے بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی کفالت کرکے جو عظیم اجرو ثواب کمایا
 ہے اسے ترکہ کے معاملے میں اپنی بہنوں اور بھائی سے جھگڑا کرکے ضائع مت کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کشادہ دلی کا اچھا بدلہ دے گا اور امید ہے کہ وہ آخرت میں ان اچھے کاموں کے اجر کے ساتھ اس دنیا میں بھی آپ کو کشادگی عطافرمائے گا۔

 

()

جواب:احناف کے نزدیک اگر کسی شخص کاحالتِ سفر میں کسی جگہ پندرہ دن  ٹھہرنے کاارادہ ہوتو وہ نمازمیں قصر کرے گا۔ اگر اس نے ٹھہرنے کاارادہ توچند دنوں کا کیاتھا، لیکن اس کاکام نہ ہونے کی وجہ سے قیام کی مدت بڑھتی رہی اور اسے متعین طورپر معلوم بھی نہ ہو کہ اسے مزید کتنے دن ٹھہرنا پڑسکتا ہے تو وہ قصر کرتا رہے گا، خواہ کتنے ہی دن اسے ٹھہرنا پڑے۔ مولانا مجیب اللہ ندوی نے لکھاہے:”اگر کہیں راستے میں یا منزل پر دوچار دن ٹھہرنے کا ارادہ تھا، مگر دوچار دن کے بعد نہ جاسکے اور دوچار دن پھر رک گئے۔ اس طرح اگر یک بارگی پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ ہوتو چاہے جتنے دن ٹھہرے وہ مسافر رہے گا اور قصرِ نمازکرے گا۔“ 
 

()

جواب:کوشش کرنی چاہیے کہ زکوٰۃ کی رقم صحیح طریقے سے مستحقین تک پہنچے۔ اسے فوراً خرچ کرنا ضروری نہیں ہے۔ مولانامجیب اللہ ندوی نے لکھاہے:
”اگر کسی نے زکوٰۃ کی نیت سے روپیہ نکال کر علیٰحدہ کردیا اور یہ ارادہ کیاکہ سال بھر کے اندر تھوڑا تھوڑا غریبوں پر خرچ کردے گا تو یہ جائز ہے۔“ 
یہی معاملہ اداروں اور جماعتوں کا ہے۔ ان کی حیثیت مستحقین کے نمائندہ اور وکیل کی ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کی جو رقم ان کے پاس جمع ہو، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمان داری کے ساتھ اور صحیح طریقے سے ان تک پہنچائیں۔ مالِ زکوٰۃ کو تقسیم کرنے کے لیے کسی ادارہ یا جماعت کے حوالے کرنے سے صاحبِ نصاب کا فرض ادا ہوجاتا ہے اور وہ بری الذمہ ہوجاتاہے۔ اب ادارہ یا جماعت کی ذمہ داری قرار پاتی ہے کہ وہ ایک نظم بناکر اسے مستحقین تک پہنچائے۔ ایک رمضان میں جمع کی گئی رقم اگلے رمضان سے قبل خرچ کردی جائے تو بہتر ہے، لیکن اگر اس میں سے کچھ بچ رہے اور اسے بعد میں خرچ کرنے کی نوبت آئے تو اس میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے۔

()

جواب: دیگر مذاہب کے ماننے والے مرد اور عورت اگر اپنے مذہب کے مطابق نکاح کے بندھن میں بندھے ہوں تو اسلام اسے تسلیم کرتا ہے۔ قرآن کریم میں امراۃ فرعون القصص:۹، امراۃ العزیز یوسف:۲۱،، امراۃ ابی لہب لھب:۴ وغیرہ کا تذکرہ موجود ہے۔ اس بنا پر اگر کوئی جوڑا اسلام قبول کرے تو اس کے نکاح کی تجدید کی ضرورت نہیں۔ عہد نبوی میں جو حضرات
 اپنی بیویوں کے ساتھ اسلام لائے تھے، ان میں سے کسی کے بارے میں مذکور نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازسرِنو اس کا نکاح پڑھایا ہو۔ شرح السنہ میں ہے کہ ”بہت سی خواتین نے اسلام قبول کیا، بعد میں ان کے شوہر بھی اسلام لے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ نکاح پر ہی انھیں ان کے شوہروں کے حوالے کردیا۔“ حضرت ام حکیم بنت حارث کا واقعہ مشہور ہے۔ وہ اسلام لائیں، مگر ان کے شوہر عکرمہ بن ابی جہل نے اسلام قبول نہیں کیا اور بھاگ کر یمن چلے گئے۔ حضرت ام حکیم کی خواہش پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں امان دے دی۔ وہ یمن جاکر انھیں بلالائیں اور ان کی کوشش سے حضرت عکرمہ  ایمان لے آئے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کے سابقہ نکاح پر باقی رکھا۔لموسوعہ الفقہیہ کویت میں ہے:
”زوجین کا نکاح اگر حالتِ شرک میں جائز طریقے سے ہواتھا تو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے درست ماناجائے گا۔“
مشہور عالم دین مفتی عبدالرحیم لاجپوری  نے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں یہ فتویٰ دیا ہے:”شوہر اور بیوی پہلے ہندوتھے اور انھوں نے ہندو طریقہ کے مطابق نکاح کیاتھا اور اس کے بعد خدا کی توفیق سے دونوں مسلمان ہوگئے تو دوبارہ نکاح کرنا ضروری نہیں۔ اسلام لانے کے بعد بلاتجدید نکاح دونوں میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔“٭٭٭

 

()

عورت کو مار پیٹ کرنے والے پڑھے لکھے پاگل کے متعلق شرعی حکم
س-85 ایک آدمی پڑھا لکھا ہے، اسلامیات میں ایم اے کیا ہوا ہے، بیوی کو کوئی عزت نہیں دیتا، بیوی پر طرح طرح کے الزامات لگاتا ہے، ہر کام میں نقص نکالتا ہے، ہر نقصان کا ذمہ دار بیوی کو ٹھہراتا ہے، گندی گندی گالیاں بکتا ہے، بیوی کی پاک دامنی پر الزامات لگاتا ہے، بیوی کے رشتہ داروں کی پاک دامنی پر بھی الزامات لگاتا ہے، بیوی کو اس کے رشہ داروں کے گھر جانے نہیں دیتا۔ بیوی کا دِل اگر چاہتا ہے کہ وہ بھی اپنے میکے میں کہیں جائے تو ڈَر کی وجہ سے اجازت طلب نہیں کرتی، کیونکہ شوہر اس کے گھر والوں کا نام سنتے ہی آگ بگولہ ہوجاتا ہے اور چِلَّا چِلَّاکر اس کے گھر والوں کو گندی گندی گالیاں بکتا ہے، بیوی بے چاری مہینوں مہینوں اپنے گھر والوں کی صورت کو بھی ترس جاتی ہے، بے بس ہے، جب زیادہ یاد آتی ہے تو چپکے چپکے رو لیتی ہے، اور صبر و شکر کرکے خاموش ہوجاتی ہے۔ بیوی کے گھر والے اگر بلائیں تو (شوہر جو کہ شکی مزاج ہے) بیوی اور اس کے میکے والوں پر گندے گندے الزامات لگاتا ہے۔ زیادہ غصہ آئے تو چہرے پر تھپڑوں کی بھرمار کردیتا ہے۔کچھ عرصے کی بات ہے کہ شوہر نے اپنی بیوی کو گالیاں دیں اور بہت سے مردوں کے نام لے کر اس کی پاک دامنی پر الزام لگایا، یہاں تک کہ بیوی کے بھانجوں اور بھتیجوں تک کے ساتھ الزام لگانے سے باز نہ آیا، اس کے میکے والوں پر بھی گندے گندے الزامات لگائے، تین چار روز بعد بیوی سے کہا کہ: مجھے معاف کردو بیوی نے کہا کہ: ’’اب تو میں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی، کیونکہ آپ ہر بار معافی مانگنے کے بعد بھی یہی کرتے ہیں لیکن شوہر بارہا معافی مانگتا رہا اور اس نے یہاں تک وعدہ کیا کہ: ‘‘دیکھو میں کعبۃ اللہ کی طرف ہاتھ اْٹھاکر حلفیہ تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ اب میں کبھی بھی تم پر اور تمہارے گھر والوں پر کوئی الزام نہیں لگاؤں گا’’ بیوی نے معاف کردیا، مگر ابھی اس معافی کو بمشکل دو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ شوہر صاحب پھر وعدہ بھلاکر اپنی پْرانی رَوِش پر اْتر آئے، اب تو بیوی بالکل بھی معاف نہیں کرتی، شوہر جب بھی اس کی پاک دامنی پر الزامات لگاتا ہے تو بیوی چار بار آسمان کی طرف اْنگلی اْٹھاکر چار گواہوں کی طرف سے اللہ کو گواہ بناتی ہے اور پانچویں بار اللہ کو گواہ بناکر اپنی پاک دامنی پر لگائے ہوئے الزامات کا بدلہ اللہ کو سونپ دیتی ہے، کیونکہ کہتے ہیں کہ عورت کی پاک دامنی پر الزام کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے الزام لگانے والے پر ۸۰ دْرّوں کی سزا رکھی ہے، اب بیوی اپنے شوہر کی ہر بات صبر اور شکر سے سنتی ہے، اور خاموش رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو کہتی ہے کہ: ‘‘اے اللہ! تو ہی انصاف سے میرے ساتھ کی جانے والی تمام حق تلفیوں کا بدلہ دْنیا اور آخرت میں لے لینا’’ مولانا صاحب ایسے مرد کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

ج-85 اس شخص کے جو حالات آپ نے لکھے ہیں، ان کے نفسیاتی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ‘‘پڑھا لکھا پاگل’’ ہے، گالیاں بکنا، تہمتیں دھرنا، مارپیٹ کرنا، وعدوں سے پھرجانا، اور قسمیں کھاکھاکر توڑ دینا، کسی شریف آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔ جو شخص کسی پاک دامن پر بدکاری کا الزام لگائے اور اس پر چار گواہ پیش نہ کرسکے، اس کی سزا قرآنِ کریم نے ۸۰ دْرّے تجویز فرمائی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بڑے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے، اور جو شخص اپنی بیوی پر تہمت لگائے، بیوی اس کے خلاف عدالت میں لعان کا دعویٰ کرسکتی ہے، نکاح ختم کرنے کا دعویٰ کرسکتی ہے، جس کی تفصیل یہاں ذکر کرنا غیرضروری ہے۔ اب اگر آپ اپنا معاملہ یوم الحساب پر چھوڑتی ہیں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آپ کو ان تمام زیادتیوں کا بدلہ دِلائیں گے، اور اگر آپ دْنیا میں اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہیں تو آپ کو عدالت سے رْجوع کرنا ہوگا کہ مظلوم لوگوں کے حقوق دِلانا عدالت کا فرض ہے۔ اس کے علاوہ آپ یہ بھی کرسکتی ہیں کہ دو چار شریف آدمیوں کو درمیان میں ڈال کر اس سے طلاق لے لیں اور کسی دْوسری جگہ عقد کرکے باعزت زندگی بسر کریں۔ حضور ؐ نے فرمایا ‘‘خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی۔’’(مشکوٰۃ ص:۱۸۲)
‘‘تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے اچھا ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب سے بڑھ کر اچھا ہوں۔’’
 لڑکیوں سے قطع تعلق اور حصے سے محروم کرنا

()

ج- بیٹیوں سے قطع تعلق؟ توبہ کیجئے! یہ سخت گناہ ہے، اسی طرح ان کو جائیداد سے محروم کرنے کی خواہش بھی سخت گناہ ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو وارث بنایا ہے، بیوی کے اصرار پر اس کو محروم کرنے کی کوشش کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بیوی خدا اور رسول سے زیادہ عزیز ہے۔

()

ج-عورتوں کی معاش کا ذمہ دار مردوں کو بنایا گیا ہے، مگر عورتوں نے یہ بوجھ خود اْٹھانا شروع کردیاہے ۔ جب عورت اپنی خوشی سے کماکر لاتی ہے تومردوں کے لئے کیوں حلال نہیں؟البتہ عورتوں کو کمانے پر مجبور نہیں کیاجا سکتا۔

()

ج- اگر زیور بیوی کی ملکیت ہے تو وہ جس طرح چاہے اور جہاں چاہے خیرات کرسکتی ہے، شوہر کا اس پر کوئی حق نہیں۔ لیکن حدیثِ پاک میں ہے کہ عورت کے لئے بہتر صدقہ یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بال بچوں پر خرچ کرے۔ اس لئے میں اس نیک بی بی کو جو پندرہ سو روپے خرچ کرنا چاہتی ہے، مشورہ دْوں گا کہ وہ اپنے زیور سے اپنے شوہر کا قرضہ ادا کردے، اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجائیں گے اور اس کو جنت میں بہترین زیور عطا کریں گے۔

()

ج- حضرت خدیجہ والی بات صحیح ہے آج بھی یہ بات برائی نہیں لیکن اس کی صورت یہ ہے کہ خود یا اپنی سہیلیوں کے ذریعے اپنی والدہ تک اپنی خواہش پہنچادے، اور یہ بھی کہہ دے کہ میں کسی بے دِین سے شادی کرنے کے بجائے شادی نہ کرنے کو ترجیح دْوں گی، اور اللہ تعالیٰ سے دْعا بھی کرتی رہے۔

()

اسلامی اَحکامات میں والدین کی نافرمانی کس حد تک؟
س-85 آج کل کے ماحول میں اگر اسلامی تعلیمات پر کوئی شخص پوری طرح عمل کرنا چاہے تو باقی دْنیا اس کے پیچھے پڑجاتی ہے، اور اگر وہ شخص اپنی ہمت اور قوّتِ برداشت سے ان کا مقابلہ کر بھی لیتا ہے تو اس کے گھر والے خصوصاً والدین اس کے راستے میں سب سے بڑی رْکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مثلاً: میں کئی لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اپنے ماں باپ کی وجہ سے تنگ آکر اپنی داڑھیاں تک کٹوادیں، اور اگر والدین کو سمجھاؤ تو کہتے ہیں کہ:‘‘اسلام میں تو باپ اور ماں کا بہت مقام ہے، ماں کی اجازت کے بغیر جہاد پر بھی نہیں جاسکتے، لہٰذا کوئی عمل بھی ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا۔’’ خصوصاً جب کوئی شخص اپنا لباس اور چہرہ سنت کے مطابق بنالیتا ہے تو پھر اس کے گھر والے اس کا جینا حرام کردیتے ہیں، یا کوئی شخص ٹی وی دیکھنا چھوڑ دے، گانے سننا چھوڑ دے، بینک میں نوکری نہ کرے، نامحرَم سے بات چیت نہ کرے، اور حتی الامکان اپنے آپ کو منکرات سے بچائے تو والدین کہتے ہیں کہ: ’’جناب! یہ کونسا اسلام ہے کہ آدمی باقی دْنیا سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھ جائے‘‘ اسلام کے اندر کیا حدود ہیں، کسی سنت کو اگر والدین منع کریں تو ہم اس کو چھوڑ دیں؟

ج-85 یہ اْصول سمجھ لینا چاہئے کہ جس کام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو، اس میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ نہ ماں باپ کی، نہ پیر اور اْستاد کی، نہ کسی حاکم کی۔ 
والدین کے کہنے سے ٹی وی دیکھنا، گانے سننا اور نامحرَموں سے ملنا بھی حرام ہے، جب ان گناہوں پر قہرِ اِلٰہی نازل ہوگا تو نہ والدین بچاسکیں گے اور نہ عزیز و اقارب اور دوست احباب۔
والدین کا بڑا درجہ ہے اور ان کی فرمانبرداری اولاد پر فرض ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ والدین کسی جائز کام کا حکم کریں، لیکن اگر بگڑے ہوئے والدین اپنی اولاد کو جہنم کا ایندھن بنانے کے لئے گناہوں کا حکم کریں تو ان کی فرمانبرداری فرض کیا، جائز بھی نہیں، بلکہ ایسی صورت میں ان کی نافرمانی فرض ہے۔ ظاہر ہے کہ والدین کا حق اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر نہیں۔ اور یہ دلیل جو پیش کی گئی کہ والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانا بھی جائز نہیں، یہ دلیل غلط ہے، اس لئے کہ یہ تو شریعت کا حکم ہے کہ اگر جہاد فرضِ عین نہ ہو اور والدین خدمت کے محتاج ہوں تو والدین کی خدمت کو فرضِ کفایہ سے مقدّم سمجھا جائے، اس سے یہ اْصول کیسے نکل آیا کہ والدین کے کہنے پر فرائضِ شرعیہ کو بھی چھوڑ دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانیوں کا بھی ارتکاب کیا جائے۔اور یہ کہنا کہ ‘‘یہ کونسا اسلام ہے کہ آدمی باقی دْنیا سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھ جائے؟’’ نہایت لچر اور بے ہودہ بات ہے، اسلام تو نام ہی اس کا ہے کہ ایک کے لئے سب کو چھوڑ دیا جائے قرآنِ کریم میں ہے:‘‘آپ فرمادیجئے کہ یقینا میری نماز اور میری ساری عبادات اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے، جو مالک ہے سارے جہان کا، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔’’(سورہ اَنعام)کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اللہ تعالیٰ کے اَحکام کی تعمیل کے لئے باقی ساری دْنیا سے الگ تھلگ نہیں ہوگئے تھے؟
 اگر دْنیا بگڑی ہوئی ہو تو ان سے الگ تھلگ ہونا ہی آدمی کو تباہی و بربادی سے بچاسکتا ہے۔

()

ج- ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے افضل ہے، اور سال کے دنوں میں عرفہ کا دن سب سے افضل ہے، اور عرفہ جمعہ کے دن ہو تو نور علیٰ نور ہے، ایسا دن افضل الایام شمار ہوگا۔

()

ج-جمعہ کے دن کی فضلیت یہ ہے کہ یہ دن ہفتے کے سارے دنوں کا سردار ہے، ایک حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر دن جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے، جمعہ کا دن ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کو جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن ان کو جنت سے نکالا (اور دْنیا میں) بھیجا گیا۔ اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اور اسی دن ان کی وفات ہوئی۔ بہت سی احادیث میں یہ مضمون ہے کہ جمعہ کے دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اس پر بندہ مومن جو دْعا کرے وہ قبول ہوتی ہے، جمعہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے دْرود پڑھنے کا حکم آیا ہے۔ یہ تمام احادیث مشکوٰۃ شریف میں ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں جمعہ کی فضیلت آئی ہے۔ اس سکھ نے جو سوال کیا تھا، اس کا جواب یہ تھا کہ یوں تو ہمارے مذہب میں کسی دن کی بھی چھٹی کرنا ضروری نہیں، لیکن اگر ہفتے میں ایک دن چھٹی کرنی ہو تو اس کے لئے جمعہ کے دن سے بہتر کوئی دن نہیں، کیونکہ یہودی ہفتے کے دن کو معظم سمجھتے ہیں، اور اس دن چھٹی کرتے ہیں، عیسائی اتوار کو لائقِ تعظیم جانتے ہیں اور اس دن چھٹی کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو جمعہ کے افضل ترین دن کی نعمت عطا فرمائی ہے، اور اس کو سیّد الایام بنایا ہے، اس لئے یہ دن اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو عبادت کے لئے مخصوص کردیا جائے اور اس دن عام کاروبار نہ ہو۔

()

ج- حدیث کے جو الفاظ آپ نے نقل کئے ہیں، وہ تو مجھے نہیں ملے، البتہ اس مضمون کی متعدّد احادیث مروی ہیں، ایک حدیث میں ہے:
ترجمہ:- ‘‘جس شخص نے تین جمعے محض سستی کی وجہ سے، ان کو ہلکی چیز سمجھتے ہوئے چھوڑ دئیے، اللہ تعالیٰ اس کے دِل پر مہر لگادیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘لوگوں کو جمعوں کے چھوڑنے سے باز آجانا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دِلوں پر مہر کردیں گے، پھر وہ غافل لوگوں میں سے ہوجائیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘جس شخص نے بغیر ضرورت اور عذر کے جمعہ چھوڑ دیا اس کو منافق لکھ دیا جاتا ہے، ایسی کتاب میں جو نہ مٹائی جاتی ہے، نہ تبدیل کی جاتی ہے۔’’
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:‘‘جس شخص نے تین جمعے پے درپے چھوڑ دئیے، اس نے اسلام کو پسِ پشت پھینک دیا۔’’
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا ترک کردینا بدترین گناہِ کبیرہ ہے، جس کی وجہ سے دِل پر مہر لگ جاتی ہے، قلب ماؤف ہوجاتا ہے اور اس میں خیر کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی، ایسے شخص کا شمار اللہ تعالیٰ کے دفتر میں منافقوں میں ہوتا ہے، کہ ظاہر میں تو مسلمان ہے، مگر قلب ایمان کی حلاوت اور شیرینی سے محروم ہے، ایسے شخص کو اس گناہِ کبیرہ سے توبہ کرنی چاہئے اور حق تعالیٰ شانہ سے صدقِ دِل سے معافی مانگنی چاہئے۔
اوور ٹائم کی خاطر جمعہ کی نماز چھوڑنا 

()

ج- وہاں جمعہ اگر نہیں ہوتا تو کسی اور جامع مسجد میں چلے جایا کیجئے، جمعہ چھوڑنا تو بہت بڑا گناہ ہے، تین جمعے چھوڑ دینے سے دِل پر منافقت کی مہر لگ جاتی ہے۔ محض معمولی لالچ کی خاطر اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرنا ضعفِ ایمان کی علامت اور بے عقلی کی بات ہے۔ کمپنی کے اربابِ حل و عقد کو چاہئے کہ جمعہ کی نماز کے لئے چھٹی کردیا کریں۔
بڑے گاؤں میں جمعہ فرض ہے، پولیس تھانہ ہو یا نہ ہو

 

()

س- ہمارا ایک قریہ ہے جس نام کربلا ہے، جس کی آبادی تقریباً دس ہزار پر مشتمل ہے، جس میں نو مسجدیں بھی ہیں، چار مسجدیں تو اتنی بڑی ہیں کہ ایک وقت پر تقریباً ڈیڑھ سو افراد ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، اور اس قریہ میں ضروریاتِ زندگی کا سامان ہر وقت مل سکتا ہے۔ ہائی اسکول، پرائمری اسکول، ڈاک خانہ، اسپتال، ٹیلیفون، بجلی، غرض یہ سب چیزیں موجود ہیں، مدرسہ بھی ہے، جس میں تقریباً بڑے چھوٹے تقریباً۳۰۰ طلبہ پڑھ رہے ہیں، لیکن یہاں پر جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، ہمارے یہاں سے تقریباً آٹھ میل کی مسافت پر ضلع پشین میں جمعہ کی نماز باقاعدہ ہوتی ہے۔ علمائے دین نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ یہاں پر جمعہ پڑھنا واجب ہے۔ فتویٰ جن علماء نے دیا ہے ان کے نام یہ ہیں: مفتی عبدالحق صاحب اکوڑہ خٹک، مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم کورنگی، مفتی زین العابدین فیصل آباد، مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کراچی۔ مقامی علمائے دین فتویٰ کو نہیں مانتے۔ ہمارے علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہاں پر پولیس تھانہ نہیں ہے، اور اس طرح جمعہ آس پاس گاؤں والوں پر واجب ہوجائے گا، اور اگر آپ لوگ کوئی بھی یہاں جمعہ پڑھوگے تو آس پاس کے گاؤں والے جھگڑا کریں گے۔ اب بتائیں کہ کیا اس قریہ میں جمعہ پڑھنا ضروری ہے؟

ج- اگر آپ کے مقامی علماء ، اتنے بڑے بڑے علماء کے فتویٰ کو نہیں مانتے تو مجھ طالبِ علم کی بات کب مانیں گے؟ تاہم ان سے گزارش ہے کہ اس قصبے میں جمعہ فرض ہے، اور وہ ایک اہم فرض کے تارک ہو رہے ہیں، اگر تھانہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو جھگڑے کا شبہ ہے تو اس کا حل تو بہت آسان ہے، اس سلسلے میں گورنمنٹ سے استدعا کی جاسکتی ہے کہ یہاں ایک پولیس چوکی بٹھادی جائے، بہرحال تھانے کا وہاں موجود ہونا صحتِ جمعہ کے لئے شرطِ لازم نہیں۔
 

()

ج-8 جمعہ کی نماز تو صحیح ہے، لیکن اگر امام پنج گانہ نمازیں نہ پڑھائے تو اہلِ محلہ کا فرض ہے کہ ایسے امام کو برطرف کردیں، اور کوئی ایسا امام تجویز کریں جو پانچ وقت کی نماز پڑھایا کرے، مسجد میں پانچ وقت کی اذان و جماعت مسجد کا حق ہے، اور اس حق کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے تمام اہلِ محلہ گناہگار ہیں

()

ج- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف ایک تھی، یعنی اذانِ خطبہ، دْوسری اذان جو جمعہ کا وقت ہونے پر دی جاتی ہے، اس کا اضافہ سیّدنا عثمان بن عفان خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا، قرآنِ کریم میں جمعہ کی اذان پر کاروبار چھوڑ دینے اور جمعہ کے لئے جانے کا حکم فرمایا، صحیح تر قول کے مطابق یہ حکم پہلی اذان سے متعلق ہے، لہٰذا پہلی اذان پر جمعہ کے لئے سعی واجب ہے، اور جمعہ کی تیاری کے سوا کسی اور کام میں مشغول ہونا ناجائز اور حرام ہے۔

()

ج- جمعہ کے دن مردوں کے لئے جمعہ کی نماز ظہر کے قائم مقام ہے، اس لئے وہ صرف جمعہ پڑھیں گے، ظہر نہیں پڑھیں گے۔ عورتوں پر جمعہ کی نماز فرض نہیں، ان کو حکم ہے کہ وہ اپنے گھر پر صرف ظہر کی نماز پڑھیں، اور اگر کوئی عورت مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کی یہ نمازِ جمعہ بھی ظہر کے قائم مقام ہوگئی۔ خلاصہ یہ کہ جمعہ اور ظہر دونوں کو ادا کرنے کا حکم نہیں، بلکہ جس نے جمعہ پڑھ لیا، اس کی ظہر ساقط ہوگئی۔

()

اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی رائے کا مدار سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، بلکہ حقائق و شواہد پر ہوتا ہے۔ مسلَّمہ فقہی قاعدہ ہے: ‘‘یقین شک سے زائل نہیں ہوتا’’، تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے، کیونکہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے۔ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:‘‘اور جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پید ا ہو، وہ ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، حتیٰ کہ اگر بھیڑیے نے بکری سے ملاپ کیا، تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی جائز ہے’’۔ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں: ‘‘کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ عہدِ غلامی کا مسئلہ ہے)، کیونکہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتاہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے، اور ماں (مادہ) کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے۔ (فتح القدیر، ج: 9، ص: 532)’’۔

(مفتی منیب الرحمان)

 اس میں ان امور کا خیال رکھنا ہوگا: جس دن پاکستان میں کسی ایسے شخص کی قربانی بطور وکیل کی جا رہی ہے، جو امریکہ یا کینیڈا میں مقیم ہے، توضروری ہے کہ اس دن وہاں قربانی کے ایام ہوں (یعنی دس تا بارہ ذوالحجہ) اور یہاں بھی وہ قربانی کا دن ہو، خواہ وہ یہاں کے اعتبار سے عید کا پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا، کیونکہ بعض اوقات امریکہ یا کینیڈا میں عید ایک دن پہلے ہو جاتی ہے۔ البتہ وقت میں مقامِ ذبح کا اعتبار ہوگا، جن شہروں یا قصبات میں نماز عید ہوتی ہے، وہاں دس ذوالحجہ کو پہلی نمازِ عید کے بعد قربانی کی جائے گی، تین دن اور دو راتیں ایام قربانی ہیں، ہمارے فقہائے کرام نے رات کو قربانی کرنے کو مکروہ لکھا تھا اور اس کی علت رات کا اندھیرا ہے، لیکن اب بجلی کی روشنی کے سبب وجہِ کراہت مرتفع ہوچکی ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

ایک فقہی مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص کسی بھی سبب سے حج کے موسم (شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ) میں حرم میں پہنچ گیا تو اس پر حج فرض ہو جائے گا اور حج فرض ادا نہ کیا تو گنہگار ہوگا۔ اب پاکستان سے لوگ رمضان المبارک میں عمرے کے لیے جاتے ہیں اور بعض اوقات فلائٹ میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے انھیں شوال کے ابتدائی دنوں تک مجبوراً رکنا پڑ تا ہے اور اب خود سعودی حکومت شوال کے مہینے میں عمرے کے ویزے جاری کرتی ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا ان پر حج فرض ہو جائے گا اور نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے، حالانکہ اُن کے پاس حج تک کے لیے قیام وطعام کے لیے پیسے نہیں ہوتے، مزید یہ کہ سعودی حکومت کے نزدیک ان کا قیام غیر قانونی ہوتا ہے اور قانون کی گرفت میں آنے کی صورت میں انہیں سزا ہو سکتی ہے یا ملک بدر کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں لوگ غیر قانونی طور پر رک جاتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ واپس اپنے وطن چلے آئیں، اُن پر حج فرض نہیں ہوا اور حج اد اکیے بغیر واپس آنے کی صورت میں وہ گنہگار نہیں ہوں گے، کیونکہ حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے اور ایامِ حج تک رکنے اور مصارفِ حج ادا کرنے کی ان کے پاس استطاعت ہی نہیں ہے، اور اگر اُن کے پاس تکمیلِ حج تک سعودی عرب میں قیام اور دیگر مصارفِ حج کی استطاعت تو ہے، لیکن سعودی حکومت ان دنوں میں وہاں قیام کی اجازت نہیں دیتی، تو غیر قانونی طور رکنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ کیونکہ جب ہم کسی ملک کا ویزا لے کر جاتے ہیں تو اس کے ضمن میں اُس ملک کے قوانین کی پابندی کا عہد بھی شامل ہوتا ہے اور قانون شکنی کی صورت میں سزا یا بے توقیری کے ساتھ ملک بدری کی نوبت بھی آسکتی ہے، لہٰذا یہ شرعاً ناجائز ہے۔ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: ‘‘مؤمن کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے، صحابہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) کوئی شخص اپنے آپ کو کیوں ذلیل کرے گا؟، آپ ﷺنے فرمایا: وہ اپنے آپ کو ایسی صورتِ حال سے دوچارکرے، جس سے عہدہ برا ہونے کی وہ طاقت نہیں رکھتا، (اور انجامِ کار اسے ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے) (ترمذی: 2254)’’۔ الغرض مؤمن کے لیے عزتِ نفس اور اپنے شخصی وقار کا تحفظ ضروری ہے۔

()

ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے، وہ یکم ذو الحجہ سے عیدالاضحی کے دن تک یا جس دن قربانی کرے گا، اُس وقت تک ناخن اور بال نہ ترشوائے، اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں کہ یہ مستحب ہے واجب نہیں۔ احادیث مبارکہ میں طہارت و نظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے، بغل اور زیرِ ناف بال صاف کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رہنا مکروہِ تحریمی ہے، حدیث میں ہے: ‘‘حضرت انس بیان کرتے ہیں: مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (مسلم:599)’’۔امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ‘‘اگرکسی شخص نے۱ ۳ دن کسی عذر کے سبب یا بلاعذر نہ ناخن تراشے ہوں، نہ خط بنوایا ہو کہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوگیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتاہو، اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا، اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا مکروہِ تحریمی ہے، اور مستحب کی رعایت کرنے کے لیے واجب کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ ردالمحتار میں ہے: ذوالحجہ کے دس دنوں میں ناخن کاٹنے اور سرمنڈانے کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ سنّت کو موخر نہ کیا جائے جبکہ اس کے متعلق حکم وارد ہے، تاہم تاخیر واجب نہیں ہے۔ تو یہ بالاجماع استحباب پر محمول ہے اور وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیں ہے، لہٰذا مستحب ہے۔ ہاں! اگر استحباب پر عمل اباحت کی مدت میں تاخیر کا باعث بنے جس کی انتہا چالیس روز ہے، تواستحباب پر عمل کو ترک کردے۔ (فتاویٰ رضویہ،جلد20، ص:354،بتصرف)’’۔ بہتر اور افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، اُنہیں ذوالحجہ کے چاند سے ایک دو دن پہلے طہارت یعنی ناخن تراشنے، مونچھیں اور ضرورت سے زیادہ بال کٹوالینے چاہییں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترکِ سنّت لازم نہ آئے۔
 

(مفتی منیب الرحمان)

ہماری قدیم کتبِ فقہ میں لکھا تھا: مکہ الگ مقام ہے، منیٰ و عرفات و مزدلفہ الگ مقامات ہیں، لہٰذا جب حجاجِ کرام ۸ ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے مِنیٰ کی طرف جائیں گے تو اگر کوئی حاجی اس سے پہلے مکہ میں پندرہ دن کے لیے مقیم نہیں تھا، تو وہ مسافر ہوگا اور ان مقامات پر قصر نماز پڑھے گا۔ لیکن اب چونکہ بلدیہ مکۃ المکرمہ کی حدود وسیع ہو چکی ہیں اور منیٰ و عرفات و مزدلفہ حدودِ بلدیہ میں آچکے ہیں، لہٰذا اب یہ مکہ مکرمہ میں شامل ہیں اور الگ مقامات نہیں ہیں۔ مکہ مکرمہ میں رہنے والے علمائے کرام نے اس مسئلے کی جانب متوجہ کیا، لہٰذا ہم نے یہ فتویٰ دیا: ‘‘اگر حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام، ایامِ حج میں منیٰ و عرفات و مزدلفہ میں قیام اور بعدالحج مکہ مکرمہ میں قیام کی مجموعی مدت کم از کم پندرہ دن یا اس سے زیادہ بنتی ہو تو ان تمام دنوں میں وہ پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ اس پر سفرکا نہیں، بلکہ اِقامت کا حکم عائد ہوگا۔ پاک و ہند کے کئی علماء نے اس رائے کو اختیار کیا ہے۔
ہمارے مفتیانِ کرام میں سے علامہ مفتی محمد رفیق حسنی صاحب نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا ہے اور انہوں نے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے استفسار کے جواب میں سابق امامِ حرم شیخ عبداللہ بن سبیل کے مندرجہ ذیل مکتوب کاحوالہ دیا ہے: ‘‘ہمارے لیے جو ظاہر ہے وہ یہ کہ آج جب کہ مکہ مکرمہ کی عمارات نے منیٰ کی حدود کا احاطہ کر لیا ہے اور وہ عرفات تک پھیل گئی ہیں، اس بنا پر منیٰ عرفات وغیرہ مکہ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے، سو مکہ سے منیٰ جانے والے کو مسافر شمار نہیں کیا جاتا، اس بنا پر حاجی کے لیے جائز نہیں ہے کہ منیٰ میں قصر کرے اور نہ اس کے لیے عرفات میں نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے، یہ مسئلہ اُن علماء کی رائے کے مطابق ہے جو یہ کہتے ہیں کہ منیٰ میں قصر کی علّت مسافر ہونا ہے، کیونکہ منیٰ جانے والا حدودِ مکہ سے خارج نہیں ہوا۔ البتہ جن علماء کا کہنا یہ ہے کہ منیٰ وغیرہ میں قصر ایک مستقل عبادت ہے، جیسا کہ مالکیہ کا مذہب ہے، سو آپ پر مخفی نہیں کہ حکم ثابت ہے۔ رہا آپ کا یہ سوال کہ آیا سعودی عرب کی حکومت ان دونوں مقامات کے ساتھ ایک شہر جیسا معاملہ کرتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ منیٰ مکہ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے، صرف اتنی بات ہے کہ حکومت کا منیٰ میں عمارتیں بنانے سے منع کرنا مصلحتِ عامہ کی بنا پر ہے، کیونکہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ کا مالک ہو اور منیٰ و دیگر مَشاعر (مزدلفہ وعرفات) میں سے کوئی شے اس کے ساتھ خاص ہو، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: منیٰ ہر اس شخص کے لیے جائے قرار ہے جو پہلے وہاں پہنچے’’۔ علامہ علی القاری نے لکھا ہے: ‘‘مالکیوں کا مذہب یہ نہیں ہے کہ قصر فی نفسہٖ عبادت ہے، بلکہ اُن کا مذہب یہ ہے کہ نمازوں کو جمع کرنا نُسُک ہے اور یہ سفر کے ساتھ خاص نہیں ہے، غیرِ مسافر بھی عرفہ میں نمازیں جمع کر سکتا ہے’’۔
مفتی محمد شریف الحق امجدی لکھتے ہیں: ‘‘جو لوگ مکہ معظمہ میں حج کی نیت سے حاضر ہوں اور بشمول منیٰ و عرفات مکہ معظمہ میں بلکہ حج کے بعد کے ایام بھی ملا کر پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتے ہوں، تو وہ مکہ معظمہ میں بھی قصر پڑھیں گے اور منیٰ وغیرہ میں بھی اور جو حضرات ان تمام ایام یعنی ایامِ حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام، ایامِ حج اور حج کے بعد مکہ مکرمہ میں قیام کے ایام کو ملا کر مکہ معظمہ میں پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کا ارادہ رکھتے ہوں، وہ مکہ معظمہ میں بھی پوری نماز پڑھیں گے حتیٰ کہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ ہر جگہ پوری پڑھیں گے۔ (نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج:2،ص: 650،بتصرف)’’۔

(مفتی منیب الرحمان)

فقہِ حنفی میں ہے کہ عرفات میں غروبِ آفتاب کا یقین ہوجانے پر مزدلفہ روانہ ہو، وہاں پہنچ کر مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کرے اور پھر طلوعِ فجر سے قبل مناسب وقت تک آرام کرنا سنت ہے کہ آپ ﷺ نے امت کی آسانی کے لیے اس رات تہجد کی نماز بھی ادا نہیں فرمائی۔ صبح صادق کے بعد اور سورج کے طلوع ہونے سے پہلے تک مزدلفہ کی حدود میں وقوف واجب ہے، اگر نہیں کرے گا تو دم لازم آئے گا۔ البتہ بیماری، کمزوری یا بڑھاپے کے سبب ضُعف لاحق ہو تو صبح صادق سے پہلے جاسکتا ہے۔ علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ‘‘اگر مزدلفہ کی حدود سے طلوعِ فجر سے پہلے چلا گیا، تو اس پر دم لازم ہے، کیونکہ اس نے وقوفِ مزدلفہ کو ترک کیا، لیکن اگر اُسے کوئی عذر درپیش ہے یا بیمار ہے یا ضعیف ہے اور اژدحام کا خوف ہے اور وہ رات ہی کو چلا گیا تو اس پر دم واجب نہیں ہے۔ اَلسِّرَاجُ الْوَہَّاج میں اسی طرح ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، ج: 1، ص:231)’’۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کل اژدحام بھی عذر ہے۔ ‘‘حضرت عبداللہ بن عمر اپنے گھر کے کمزور افراد کو پہلے منیٰ بھیج دیا کرتے تھے’’۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ‘‘میں اُن لوگوں میں سے تھا جن کو نبی ﷺ نے مزدلفہ کی رات میں کمزور افراد کے ساتھ منیٰ روانہ کردیا تھا۔ (صحیح البخاری : 1676-78)’’۔ لہٰذا اگر ضعیف لوگ یا کم عمر بچے یا عورتیں بیماری اور کمزوری کے سبب یا اژدحام کے خوف سے صبح صادق سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ چلے جائیں تو عذر کی بنا پر اُن کو اجازت ہے اور اُن پر دم واجب نہیں ہوگا۔

(مفتی منیب الرحمان)

فقہِ حنفی کا اصولی مسئلہ تو یہی ہے کہ سفرحج و عمرہ کا ہو یا دیگر مقاصد کے لیے، اگر اس کی مسافت اٹھانوے کلومیٹر کے برابر ہے، تو عورت شوہر یا محرم کی رفاقت کے بغیر سفر نہیں کرسکتی۔ لیکن عورتوں کو مشکلات درپیش ہیں کہ یا تو وہ کسی محرم کا خرچ برداشت کریں یا اس عذر کے سبب حج و عمرے پر جانے سے محروم رہیں۔ نیز ہمارے فقہائے کرام نے اس مسئلے پر بھی بحث کی ہے کہ اگر عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت دستیاب نہیں ہے، اور وہ اپنی زندگی میں فریضہ حج ادا نہیں کرسکتی، تو کیا اس پر حجِ بدل کی وصیت کرنا یا کسی کو فرض حجِ بدل کے لیے بھیجنا لازم ہے۔ فقہائے کرام میں سے جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے محرم کی رفاقت حج کے فرض ہونے کی شرط ہے، اُن کے نزدیک اس پر نہ کسی کو حجِ بدل پر بھیجنا اور نہ اس کی وصیت کرنا لازم ہے، البتہ جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے شوہر یا محرم کی رفاقت حج کے ادا کرنے کی شرط ہے، تو اُن کے نزدیک اس کے لیے فرض حجِ بدل کرانا یا اس کی وصیت کرنا لازم ہے، ورنہ گناہگار ہوگی۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ثقہ عورتوں کی ایک جماعت حج یا عمرے پر جا رہی ہے، توجس عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، وہ اُن کے ساتھ جا سکتی ہے۔ بعض حالات میں ہمارے فقہائے کرام نے دفعِ حرج اور یُسر کے لیے دوسرے ائمہ کے مذہب پر عمل کی اجازت دی ہے، اور ہمارے معاصر فقہاء میں سے مفتی محمد رفیق حسنی نے لکھا ہے: ‘‘اب احناف کو موجودہ دور میں امام شافعی کے مذہب کے مطابق فتویٰ دینا چاہیے، اگر ثقہ خواتین عورتوں کا کوئی گروپ ہو تو وہ عورت جسے شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، اُن کی رفاقت میں فریضہ حج ادا کرلے۔(رفیق المناسک،ص: 481) 
ہماری رائے میں اب مفتیانِ کرام کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے، اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سفر آسان ہے، بس یا ہوائی جہاز میں عورتوں کو ایک ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ ٹورسٹ گروپوں میں یا سرکاری اسکیم میں حج پرجاتے ہیں، اُن میں بھی عورتوں کو الگ کمرے میں ٹھہرایا جاتا ہے اور اس میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہیں ہوتا۔ سو بجائے اس کے کہ گروپ لیڈر جھوٹ کا سہارا لے کر کسی مرد کو کسی عورت کا محرم ظاہر کرے، بعض مخصوص صورتوں میں اس رخصت پر غور کرنا چاہیے۔

(مفتی منیب الرحمان)

حقیقی ذبیحہ تو دور کی بات ہے، محض شک کی بنیاد پر مسلمانوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں، اس لیے جہاں جان اور آبرو کا خطرہ ہو،مسلمانوں کو چاہیے کہ گائے کی قربانی سے احتراز کریں، اور بھینس، اونٹ یا بکرے دنبے کی قربانی کے ذریعے سنتِ ابراہیمی کو ادا کریں۔

(مفتی منیب الرحمان)

شوہر و زن میں سے کسی ایک کے وصال پر نکاح ختم ہوجاتا ہے، لیکن آخری دیدار کر سکتے ہیں۔ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

اکثر لڑکیوں کو شادی کے بعد سسرال کے گھر یعنی شوہر کے ماں باپ کے گھر رہنا پڑتا ہے جہاں دیور اور جیٹھ سے پردہ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میری شادی کو تین سال ہو گئے ہیں گھر میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں میں اپنی مرضی سے رہ سکوں نہ ہی پردے کا کوئی انتظام ہے کمرہ بھی الگ نہیں ہے ہر وقت کا آنا جانا ہے۔ میرا سوال یہ یے کے ایسی صورت حال میں گناہ شوہر کو ہو گا یا بیوی کو؟

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

اگر کسی چیز کی قیمت 9 ڈالر ہو تو اس کو ادھار دیتے وقت یہ طے کیا جائے کہ اس کی قیمت 10 ڈالر ہو گی۔ ایسا کرنا جائز ہے۔ یعنی 9 ڈالر کسی کو ادھار دے کر 10 ڈالر وصول نہیں کیے جا رہے ہیں بلکہ سودا طے پا رہا ہے کہ یہ چیز ہے اس کی قیمت بعد میں دی جائے گی چیز ابھی وصول کی جائے گی۔ اس میں گاہک کے لیے آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

بتول کے معنیٰ عفت و عصمت والی کنواری کے ہیں۔ یہ سیدہ مریم اور سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہما کا لقب بھی ہے۔بتول دراصل ایسی خاتون کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے اپنی دنیاوی خواہشات کو قربان کے دے۔ جو دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا سے اَلگ رہے۔ جو اللہ کی بندگی میں اخلاص پیدا کرلے اور جس کے اعمال خالصتاً صرف خدائے بزرگ و برتر کی خوشنودی کے لیے ہوں۔

(مفتی محمد ثنا اللہ طاہر)

یہ حدیث پاک بخاری شریف میں موجود ہے۔ امام بدرالدین عینی نے اپنی مشہور شرح بخاری ''عمدۃ القاری'' میں اس حدیث پاک پر طویل بحث کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت کریمہ تھی کہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے اور عذر کی بنا پر جواز کے لیے کھڑے ہو کر پیشاب کیا تاکہ امت کو یہ مسئلہ معلوم ہو کہ اگر بیٹھنے کی جگہ نہ ہو یا کوئی اور عذر ہو تو کھڑا ہو کر پیشاب کرنابھی جائز ہے، لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے۔
 

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

سونا چاندی قدیم زمانہ سے آج تک ثمن مطلق تسلیم کیا جا چکا ہے، بین الاقوامی لین دین میں مرکزی حیثیت آج بھی سونے کو حاصل ہے۔ گویااس مسئلہ میں تمام دنیا نے اسلام کی دہلیز پر سر جھکایا ہے فالحمد للہ کہ سونے چاندی کو ثمن مطلق اسلام نے قرار دیا ہے۔جب یہ بات واضح ہو گئی تو جس شخص کے پاس نصاب کے برابر سونا یا چاندی موجود ہے، خواہ ڈلی کی صورت میں ہو، زیورات کی صورت میں، برتن کی صورت میں، اس مالیت کے برابر کرنسی نوٹ یا اس کے مساوی مال تجارت ان سب پر سال گزرنے کے بعد مقررہ شرح کے مطابق زکوٰۃ فرض ہے۔ خواہ زیورات پہنے یا نہ پہنے، گھر میں رکھے یا لاکرز میں ملکیت شرط ہے۔ استعمال کبھی کبھی کریں، روزانہ یا کبھی نہ کریں اس میں فرق نہیں۔
روپے پیسے یا سونے چاندی کا جو بھی مالک ہے اس پر زکوٰۃ بھی فرض ہے اور صدقہ، فطر بھی واجب ہے۔ آپ جتنے بہن بھائی اکٹھے رہتے ہیں ان کے زیورات اور نقد لامحالہ اپنی اپنی ملکیت ہو گا، یہ تو نہیں ہوتا کہ زیور بھی مشترک ہو لہٰذا جس کے پاس شرعی نصاب ہے وہ ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرے جو مالک نصاب نہیں اس پر زکوٰۃ نہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

فرشتے صرف اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں وہ کتا یا تصویر ہو جس کا رکھنا حرام ہے۔ رہا وہ جس کا رکھنا حرام نہیں مثلا شکاری کتا، کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والا کتا اور وہ تصویر جوقالین اور تکیہ وغیرہ پر روندی جاتی ہیں یا ڈیکوریشن پیس ہیں، ان کی وجہ سے فرشتوں کا داخلہ ممنوع نہیں ہوتا۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

بسم اللہ شریف کے فضائل اور برکات مختلف روایات سے واضح ہیں اس لیے 786 لکھنے سے بندہ ان تمام برکات سے محروم رہتا ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر مقام پر جہاں تسمیہ لکھنا ہو پورا لکھنا چاہیے، ابجد کے اعداد استعمال نہیں کرنے چاہیے۔ ماضی میں تمام مفسرین، محدثین، فقہا اور علماء مکمل تسمیہ لکھتے تھے اور اس پر تمام اہل اسلام کا عمل جاری ہے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

بیوٹی پارلر کا کاروبار کرنا یا اس میں کام کرنا دونوں جائز ہیں۔ شرعاً اس کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، مگر اس میں خیال رکھا جائے گا کہ اگر بیوٹی پارلر میں خواتین کام کرنے والی ہوں اور فقط خواتین ہی بناؤ سنگھار کے لیے آئیں یا میک اپ کروانے آئیں تو ٹھیک ہے۔ یعنی پارلر میں کام کرنے والی بھی خواتین ہوں اور میک اپ وغیرہ کے لیے بھی صرف خواتین ہی آئیں۔دوسری صورت میں مرد و خواتین میں اختلاط ہو یعنی خواتین مردوں کے لیے کام کریں یا مرد خواتین کا میک اپ کریں تو ایسا کرنا حرام ہے۔ ایسی جگہ پر کام کرنا اور ایسا کاروبار کرنا دونوں حرام ہیں۔ اس کے علاوہ بیوٹی پارلر پر خلاف شریعت اگر کوئی کام لیا جائے تو پھر بھی یہ ناجائز اور حرام ہوگا۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

مرد ضرورت کے مطابق سینے اور بازوؤں کے بال اتار سکتا ہے، یہ جائز ہے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

خون اضطراری حالت میں دیا جاتا ہے۔ جیسے اضطراری حالت میں خنزیر جائز ہے۔ یہ چیزیں روز مرہ کی نہیں ہوتی، بلکہ مجبوری کی حالت ہوتی ہے، لہذا غیر مسلم کا خون مسلمانوں کو لگایا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ خون مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا، خون فی نفسہ حرام ہے اور اس کا حکم غلیظ نجاست کا ہے۔
اس مسئلہ کو اس مثال سے سمجھئے کہ ابوجہل کے خون نے اپنے بیٹے عکرمہ پر کوئی اثر نہیں کیا، ابوجہل دوزخ میں جائے گا اور اس کا بیٹا صحابی ہے، اور وہ جنت میں جائے گا۔

 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

معاوضہ دینی کاموں کا نہیں لیا جاتا، بلکہ پابندی وقت کا لیا جاتا ہے۔ اگر اتنا وقت روزی کمانے کے لئے لگایا جائے تو روزی کما سکتا ہے۔ لیکن مذہبی امور کی انجام دہی مسئلہ بن جائے گی۔ نہ وقت پر اذان، نہ نماز، نہ مسجد کی صفائی، نہ کھولنے اوربند کرنے اور دیگر اشیاء کی حفاظت ہو سکے گی۔ اب جو شخص ان تمام امور کو پابندی سے ادا کرے گا وہ اکثر معاش کمانے کے لئے معقول بندوبست نہیں کر سکتا۔ حالانکہ اس پر اپنا، اپنے والدین، بیوی بچے اور دیگر زیر کفالت افراد کا نان و نفقہ اور ضروریات زندگی مہیا کرنا بھی فرض ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد، آپ کے جانشین، خلیفہ اول اور مسلمانوں کے پہلے منتخب حکمرانوں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب یہ معاشی مسئلہ پیش ہوا، تو محدثین کرام کی زبانی مسئلہ اور اس کا جمہوری اسلامی حل سن لیجئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے، فرمانے لگے، میری قوم کو معلوم ہے کہ میرا کاروبار، میرے اہل و عیال کا خرچہ بخوبی پورا کرتا ہے۔ اب میں مسلمانوں کے معاملات میں مصروف ہو گیا ہوں، اب ابوبکر کے اہل و عیال اس مال (بیت المال) سے کھائیں گے اور وہ مسلمانوں کے امور نمٹائیں گے۔پس آج بھی دینی فرائض انجام دینے والے مسلمانوں کے دینی امور نمٹا رہے ہیں۔ اور اس وقت کا حق الخدمت لے رہے ہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

کریڈٹ کارڈ کے استعمال کی چند صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی بینک یا ادارہ غیرسودی معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرے، تو اس کا استعمال بلاشبہ جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی ادارہ ایسے معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرتا ہے جس میں معین وقت تک قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں کارڈ ہولڈر کو اضافی رقم ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور کارڈ ہولڈر معین وقت سے پہلے قرض کی واپسی کو یقینی بنائے تاکہ سود عائد ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس صورت میں بھی کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہوگا۔مذکورہ بالا دونوں صورتوں کے برعکس تیسری صورت یہ ہے کہ اگر بینک یا ادارہ ایسا معاہدہ کرتا ہے جس میں کارڈ ہولڈر کو ہر صورت میں سودی معاملہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں بلاحالتِ اضطرار، کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔ اس صورت میں بھی اگر کارڈ ہولڈر، کریڈٹ کارڈ سے اگر کوئی شخص حلال اشیاء خریدتا ہے تو وہ حرام نہیں ہوں گی، بلکہ وہ حلال ہی رہیں گی اور ان کا استعمال بھی درست ہوگا۔ لیکن سودی معاملہ کرنے اور سود ادا کرنے پر وہ گناہ گار ہوگا۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

عقیق سمیت تمام پتھر ہر مسلمان مرد وعورت کے لیے پہننا جائز ہیں، شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت بھی نہیں۔ ان کا ناموں اور ستاروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی باتیں کرتا ہے یہ اس کی جہالت ہے، لیکن افسوس آج کل ایسی جاہلانہ باتیں کرنے والے ٹی وی چینلز پر بھی آ چکے ہیں، جو لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں لیکن دینی تعلیم سے دوری کی وجہ سے لوگ اس طرح کے جاہل لوگوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور ان کی جاہلانہ باتوں میں آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

عقیق سمیت تمام پتھر ہر مسلمان مرد وعورت کے لیے پہننا جائز ہیں، شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت بھی نہیں۔ ان کا ناموں اور ستاروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی باتیں کرتا ہے یہ اس کی جہالت ہے، لیکن افسوس آج کل ایسی جاہلانہ باتیں کرنے والے ٹی وی چینلز پر بھی آ چکے ہیں، جو لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں لیکن دینی تعلیم سے دوری کی وجہ سے لوگ اس طرح کے جاہل لوگوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور ان کی جاہلانہ باتوں میں آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

پتنگ اڑانا جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، اور اس کے ناجائز ہونے کی بھی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ البتہ اس میں اعتدال ہونا ضروری ہے۔پتنگ اڑاتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سے کسی کی گردن نہ کٹے، فائرنگ وغیرہ نہ کی جائے، مرد و خواتین کا اختلاط نہ ہو، غلط قسم کی محفلیں نہ سجائی جائیں۔ گانے نہ چلائے جائیں، رقص و سرود کی محفلیں نہ ہوں۔ پتنگ اڑاتے وقت کرنٹ والی ڈوری استعمال نہ کی جائے، اسی طرح ایسی ڈوری جو لوگوں کی گردنیں کاٹ دے، فحاشی کے کام نہ ہوں۔اگر یہ ساری چیزیں ہوئیں تو پھر ان حرام چیزوں کی وجہ سے پتنگ بازی ناجائز اور حرام ہے، صرف مشغلہ کے طور پر یا سپورٹس فن کے طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

اگر نمازی کم ہیں اور گرمی کی شدت زیادہ ہے تو آدھے پہلی صف میں اور آدھے دوسری صف میں برابر برابر کھڑے ہو جائیں اور اگر نمازی زیادہ ہیں مثلاً زیادہ صفیں ہوں تو ایسی صورت میں پہلے پہلی صف مکمل کریں پھر دوسری اور اس طرح باقی صفیں۔ نمازی تھوڑے ہونے کی صورت میں جائز ہے اور زیادہ کی صورت میں پہلی صف کو مکمل کیے بغیر جائز نہیں ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تین وتر دو سلاموں کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، جبکہ احناف تین وتر ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اس لیے تین وتر دو سلاموں کے ساتھ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ کے مطابق ادا کیے جاتے ہیں۔ شوافع کے نزدیک وتر دو سلاموں کے ساتھ ادا کرنا افضل ہے۔ احناف کے نزدیک تین وتر ایک سلام کے ساتھ ادا کرنا مسنون ہے۔ 

(مفتی محمد شبیر قادری)

اگر کوئی شخص تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تعظیم انبیاء، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور اولیاء کرام کا ادب کرنے والا ہو تو اس کے پیچھے نماز جائز ہے، خواہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی فرقے سے منسوب کرتا ہو۔
جب تک کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ گستاخ یا بے ادب ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔

 

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

اگر تین یا چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پڑھ کر بھولے سے ایک طرف یا دونوں طرف سلام پھیر دے تو جب تک کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے نماز جاتی رہتی ہو، یاد آنے پر فوراً کھڑا ہو جائے اور باقی نماز پڑھ کر آخر میں سجدہ سہو کر لے تو نماز مکمل ہو جائے گی۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری نہیں ہے، حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ایک وضوسے تمام نمازیں ادا فرمائیں اور موزوں پر مسح کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ آج آپ نے وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں کیا تھا! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! میں نے یہ کام جان بوجھ کر کیا ہے۔’’
اور حضرت ابو اسد بن عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے وضو کے متعلق دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر نماز کے لئے تازہ وضو فرمایا کرتے تھے اور ہم ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھ لیا کرتے تھے۔’’
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں، لیکن یہ خیال رکھے کہ جب تک بآسانی وضو قائم رہے تو اسی وضو سے نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر جب تنگی محسوس کرے تو نیا وضو کرنا بہتر واحسن عمل ہے۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، ان پر صدقہ و خیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدستی اور کمزور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔
صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ پھوپھی، چچا اور ان کی اولادیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ اپنے والدین کے دوست احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں، ان سب کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہی قطع رحمی کہلاتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔
صلہ رحمی ہر دور میں کی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کی وہ استطاعت رکھتا ہو، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثلاً ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے، ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے، ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے، غمی خوشی میں شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں۔ قطع رحمی کی سزا تو دنیا میں بھی مل جاتی ہے، جب بھائی مشکل وقت میں اپنے بھائی کا ساتھ نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو نہ سمجھا جائے۔ جب خون سفید ہو جائے، تعلقات ختم کریں، جب ضرورت ہو تو اس کی ضرورت کو پورا نہ کیا جائے، حتی کہ ایک دوسرے کے ساتھ مرنا جینا ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سزا ہی ہے۔ اور قیامت کے دن صلہ رحمی کے متعلق پوچھا جائے گا کہ ہم نے ان رشتوں کے تقدس کا کتنا خیال رکھا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن یُّوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَoالبقرۃ، 2: 27
(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیںo
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے، اگر اس کے خلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہونگے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غریب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں، جیسا کہ آجکل رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنے دوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اولاد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا والدین اولاد کے لیے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی، جس نے ان کی خدمت کی اس نے جنت کو پا لیا ورنہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صلہ رحمی کا صحیح مفہوم سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اسی میں اتفاق و اتحاد ہے اور دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی ہے۔

 

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

موت کے بعد روح کا دنیا میں لوٹنا مابعد الطبیعات میں سے ہے اور ایسی غیر مرئی و غیر محسوس چیزوں کو تسلیم کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح فرمان ہی تسلی بخش ہو سکتا ہے۔ چونکہ اسلسلے میں قرآن و حدیث میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا اس لیے متوفین کی ارواح کے اپنے گھر یا کسی جگہ لوٹنے کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا اور ارواح کے بِاذن الٰہی کہیں آنے جانے کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے اس مسئلہ میں کوئی ضابطہ متعین کرنا مشکل ہے۔
 

(منہاج القرآن)

اس مسئلہ کی شرعاً دو صورتیں ہو سکتی ہیں:اگر مکینک گاہک کو پابند کرتا ہے کہ فلاں دوکان سے سامان خریدنا ہے’ چاہے مارکیٹ ریٹ سے مہنگا ہی ملے، اس کے علاوہ کسی دوکان کا سامان قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ اس صورت میں دوکاندار کا زائد قیمت وصول کرنا اور مکینک کا کمیشن لینا جائز نہیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ مکینک دوکاندار کی صرف تشہیر کرتا ہے اور گاہک اپنی مرضی سے اس دوکاندار سے سامان خریدتے ہیں۔ اس صورت میں مکینک کا کمیشن لینا جائز ہے کیونکہ اس نے اپنے کمیشن کی لالچ میں گاہک کو مخصوص دوکاندار سے سامان خریدنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ صرف دوکاندار کی تشہیر کی ہے اور اسی کے عوض اسے کمیشن دیا گیا ہے۔
 

(مفتی محمد شبیر قادری)

الکحل پرفیوم لگاتے وقت ہوا میں اڑ جاتی ہے اور اس کا اثر باقی نہیں رہتا۔ لہذا ایسے پرفیوم کے ساتھ نماز جائز ہے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
 

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

کسی شخص سے کوئی چیز مقررہ کرائے پر لینا یا مقررہ اجرت پر کسی سے مزدوری کروانا اجارہ کہلاتا ہے۔ فقہائے کرام کے نزدیک اجارہ سے مراد ہے:‘‘عقدِ اجارہ ایک معاہدہ ہے جو کسی معاوضہ کے بدلے کسی منفعت پر کیا جائے۔’’
یعنی اجارہ سے مراد ایسا معاہدہ ہے جو مقررہ مال کے بدلے اپنی خدمات پیش کرنے پر عمل میں آتا ہے۔ مزدوری، ٹھیکہ، کرایہ اور ملازمت وغیرہ سب ہی اجارہ کی مختلف اقسام ہیں۔ آجر یا مستاجر اس شخص یا ادارے کو کہتے ہیں جو کسی سے اجرت پر کام لے رہا ہو اور اجیر وہ شخص ہے جو اجرت کے بدلے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔
جو صورت آپ نے پیش کی ہے یہ بھی اجارہ ہی کی ایک شکل ہے جس میں معاوضہ یا اجرت کے بدلے اپنی خدمات اور معاونت پیش کرتے ہیں۔ اس لیے معاونت کے بدلے آپ کے لیے کمیشن لینا جائز ہے۔ لیکن ملازمت دلوانے کے لیے کسی کی حق تلفی کرنا جائز نہیں، اس لیے میرٹ کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ اگر کمیشن لینے کی لالچ میں میرٹ کی خلاف ورزی کی گئی اور غیرشرعی و غیرقانونی ذرائع کی مدد لی گئی تو پھر کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔ میرٹ کے مطابق، شرعی و قانونی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مدد کرنا اور اس کے بدلے کمیشن لینا جائز ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

حدیث پاک سے خلافت عثمانی میں سیدنا حذیفہ بن الیمان فتح ارمینیہ و آذر بیجان کے زمانہ میں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ اس زمانہ میں اہل عراق و شام کے ہمراہ شریک جہاد تھے۔ آپ نے لوگوں میں قرأتِ قرآن کریم کے بارے میں جو اختلاف پایا جاتا تھا، اس پر اظہار پریشانی کیا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کی، امیر المومنین!اس سے پہلے کہ امت کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے جیسے یہود ونصاریٰ نے کیا۔ اس کو سنبھال لیجئے۔اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ قرآن کریم کا نسخہ (مصحف) ہمیں بھیج دیں تاکہ اسے کئی مصاحف میں ہم نقل کر لیں، پھر آپ کو یہ نسخہ واپس کر دیں گے، سو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ نسخہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن الزبیر، سیدنا سعید بن العاص، سیدنا عبدالرحمن بن الحارث بن ھشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا۔ ان حضرات نے متعدد مصاحف میں اسے نقل فرمایا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان میں سے تین قریشیوں سے فرمایا۔ جب کسی لفظ قرآن میں تم اور زید بن ثابت میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا۔ کہ قرآن انہی کی زبان میں اترا ہے سو ان حضرات نے ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ جب مصاحف کے نسخے تیار ہوگئے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ نسخہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس کر دیا اور لکھے گئے نسخوں میں سے ہر علاقے میں ایک نسخہ بھیج کر ساتھ ہی یہ حکم دیدیا کہ اس کے علاوہ کسی بھی صحیفے یا مصحف میں لکھا ہوا قرآن جلا دیا جائے۔صحیح بخاری، 2:746
ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے۔
‘‘جب قرآن کریم پرانا ہو جائے اور پڑھا نہ جائے اور ضائع ہونے کا ڈر ہو تو اسے پاکیزہ کپڑے میں باندھ کر دفن کر دیا جائے اور دفن کرنا اس سے بہتر ہے کہ کسی ایسی جگہ رکھ دیا جائے جہاں اس پر نجاست وغیرہ پڑنے کا ڈر ہو اور دفنانے کے لئے لحد کھودے کیونکہ اگر سیدھا گڑھا کھودا اور اس میں بوسیدہ قرآن دفن کردیا تو اوپر مٹی ڈالنے کی ضرورت پڑے گی اور اس میں ایک طرح کی بے ادبی ہے۔ ہاں اگر اوپر چھت ڈال دے کہ قرآن کریم تک مٹی نہ پہنچے تو یہ بھی اچھا ہے۔ قرآن کریم جب بوسیدہ ہو جائے اور اس سے قرأت مشکل ہو جائے توآگ میں نہ جلایا جائے۔
فتاویٰ عالمگیری، ۵:۳2۳ طبع ترکی
لہذا بہتر یہی ہے کہ بوسیدہ اوراق قرآن کریم کے ہوں یا حدیث پاک کے یا کسی دینی کتاب کے جن میں قرآن و حدیث کے حوالے نقل کئے گئے ہوں ان کو جلایا نہ جائے اور مذکورہ بالا طریقہ سے ان کو دفنا دیا جائے۔ مگر اس خیال سے کہ آج کل دفنانے کیلئے محفوظ زمین کا ملنا مشکل ہے بالخصوص شہروں میں نیز جہاں محفوظ جگہ سمجھ کر ان اوراق کو دفنایا گیا ہے، عین ممکن ہے کہ کوئی انسان لاعلمی میں اس جگہ پر پیشاب کرے اور گندے اثرات ان اوراق مبارکہ تک پہنچ جائیں۔ دریا برد کرنے میں بھی بے ادبی کا آج کل بہت امکان ہے جبکہ اختلاف و انتشار امت سے بچنے اور فتنہ و فساد کے امکانات ختم کرنے کی خاطر صحابہ کرام کی موجودگی میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے نسخوں کو جلوا دیا اور کسی صحابی نے اس پر انکار نہ کیا۔ پس جلانے کا جواز موجود ہے۔ جبکہ نیت قرآنی تقدس کی حفاظت کرنا ہو۔ صحابہ کرام کا اجماع ہو چکا ہے۔ اسی لئے فقہائے کرام نے بہت نرم لہجے میں جلانے سے منع فرمایا مگر جلانے پر کوئی سخت حکم نہ لگایا، کہ اس کے جواز کی بنیاد موجود تھی۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ایک واقعہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص ابن التیبہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا، جب وہ (زکوٰۃ وصول کر کے) آئے تو انہوں نے کہا یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ‘‘ان عاملوں کا کیا حال ہے کہ میں ان کو (زکوٰۃ وصول کرنے) بھیجتا ہوں اور یہ آ کر کہتے ہیں:یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ (تحفہ) کیا گیا ہے۔ یہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا ہوتا پھر ہم دیکھتے کہ اس کو کوئی چیز ہدیہ کی جاتی ہے یا نہیں..! قسم اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! تم میں سے جو شخص بھی ان اموال میں سے کوئی چیز لے گا قیامت کے دن وہ مال اس کی گردن پر سوار ہو گا (کسی شخص کی گردن پر) اونٹ بڑبڑا رہا ہو گا، یا گائے ڈکرا رہی ہو گی یا بکری منمنا رہی ہو گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ اتنے بلند کیے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: اے اللہ میں نے تبلیغ کر دی ہے۔’’
اس حدیثِ پاک سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے تحائف وصول کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے کیونکہ کسی عہدہ پر متمکن شخص کو تحائف کی صورت میں رشوت دے کر لوگ غلط کام کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عُمال و افسران کو دورانِ خدمات ہدیہ وصول کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں عُمال اور صاحبانِ اختیار کو دیئے جانے والے تحائف پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ دورِ حاضر میں دواساز کمپنیوں کی طرف سے میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف کو دیے جانے والے تحائف بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ فقہائے فتاویٰ ہندیہ کے مطابق اگر کسی صاحبِ اختیار (جیسے زیرِبحث معاملے میں ڈاکٹر یا اس کا سٹاف) کو محض دوستی و تعلق کی بناء پر کوئی تحفہ دیا جائے تو لینے والے کے لیے تحفہ لینا اور دینے والے کے لیے تحفہ دینا’ دونوں جائز ہیں۔ اس معاملے کی دیگر صورتوں پر فتاویٰ ہندیہ درج ذیل الفاظ میں بحث کی گئی ہے:
اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کو اس غرض سے ہدیہ (تحفہ) دینا کہ اس کے اور سلطان (یعنی صاحبِ اختیار) کے درمیان معاملہ ٹھیک رہے اور بوقتِ ضرورت مدد کرے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اگر کوئی حرام حاجت پوری کروانے کے لیے تحفہ دیا گیا ہے تو تحفہ دینا اور لینا دونوں ناجائز ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تحفہ کسی مباح (ناقابل اعتراض) کام کے لیے دیا جائے تو اس کی بھی مزید دو صورتیں ہیں: اگر تحفہ کسی کام میں مدد کرنے کی شرط کے ساتھ دیا گیا تو اس کا لینا جائز نہیں، البتہ دینے کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تحفہ دیتے ہوئے اگرچہ کوئی شرط نہیں لگائی گئی تاہم مقصد یہی ہے کہ صاحبِ اختیار میری مدد کرے’ اس صورت میں بھی جواز و عدمِ جواز کا اختلاف ہے، تاہم عامہ مشائخ کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص صاحبِ اختیار کو کسی (عہدہ و منصب کے حصول جیسے) قضاء وغیرہ کے لیے تحفہ دے تو دینے والے کے لیے دینا اور لینے والے کے لیے لینا’ دونوں جائز نہیں ہے۔’’
درج بالا تصریحات کو زیرِ بحث معاملے پر منطبق کرنے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر دواساز کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے’ محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اپنی مصنوعات متعارف کروانے کے لیے دیا گیا تحفہ بھی وصول کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔لیکن اگر یہ تحائف، مالی منفعت، کھانے یا دیگر سہولیات اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہیں کہ مریضوں کو مخصوص کمپنی کی ادویات تجویز کی جائیں گی یا طبی معائنہ (Medical Test) کسی مخصوص لیبارٹری کا ہی قبول کیا جائے گا یا اس طرح کی دیگر شرائط کے ساتھ تحائف دینا اور لینا سراسر حرام ہے۔ اسی طرح غیر شرعی یا غیرقانونی امور کی انجام دہی کے لیے دیئے تحائف وصول کرنا بھی ممنوع ہے۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

مچھر، مکھی اور دیگر حشرات الارض جو انسانی جان کے لیے نقصان دہ ہوں ان کو مارنے کا حکم ہے، اور مارنے میں احسان کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان فرض کیا ہے اس لیے جب تم لوگ کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقے سے (ایک ہی وار میں) مارو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔اسی بنا پر مچھروں اور دیگر حشرات کو مروجہ برقی مشین (Electric Insect Killers) سے مارنا جائز ہے۔
مچھر برقی مشین میں جل کر نہیں بلکہ بجلی کے جھٹکے سے مرتا ہے’ اِسے آگ میں جلانا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ برقی مشین میں کرنٹ ہوتا ہے’ آگ نہیں۔ اس پر اگر کاغذ یا کپڑا رکھا جائے تو وہ جلتا نہیں ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشین میں آگ نہیں ہوتی اور اس سے لگ کر مرنے والے جاندار جل کر نہیں بلکہ برقی جھٹکے سے مرتے ہیں۔ یہ موذی جانور کو مارنے کا کم تکلیف دہ طریقہ ہے جس کی شریعت میں ترغیب دلائی گئی ہے۔ اس لیے برقی کیڑے مار (Electric Insect Killers) مشین کا استعمال جائز ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

اللہ عربی زبان میں خالق کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ فارسی اور اردو زبانوں میں خالق کے لیے خدا اور پروردگار کے الفاظ بھی ادا کیئے جاتے ہیں۔ کھواری زبان میں اللہ کے لیے خدائی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح انگریزی میں عربی زبان کے اللہ کا متبادل لفظ گاڈ (God) ہے۔ لفظ اللہ کا استعمال صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور دیگر اسلامی ممالک میں رہنے والے عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی خالق یا پروردگار کے لیے یہی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بائبل کے عربی ترجمہ میں بھی گاڈ (God) کا ترجمہ اللہ ہی کیا جاتا ہے۔
 

(مفتی محمد شبیر قادری)

اگر شوہر ہوش و حواس میں طلاق دے تو واقع ہو جاتی ہے، خواہ زبانی دی جائے’ کاغذ پر لکھ کر دے یا ایس ایم ایس کے ذریعے ارسال کرے۔ ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق بھی اسی طرح معتبر ہے جس طرح زبانی دی گئی طلاق ہے۔ 
 

(مفتی محمد شبیر قادری)

بلاشک و شبہ مسواک کے بارے میں اتنی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں جو مسواک کی فضیلت اور اس کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ مسواک کا معنی ہے، صاف کرنے والا آلہ۔ یعنی وہ چیز جس سے منہ کو صاف کیا جاتا ہے۔ اسلام میں مسواک کی اتنی اہمیت اور فضیلت جو بیان کی گئی اس کا مقصد ہی صفائی ہے، جو کسی بھی چیز سے حاصل ہو سکتا ہے، تو یہی مقصد ٹوتھ پیسٹ سے حاصل ہو جاتا ہے۔ لہذا ٹوتھ پیسٹ مسواک کے ہی قائم مقام ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسواک ہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
 

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ڈرامہ، دھوکہ اور فراڈ ہے۔ سادہ لوح لوگوں سے جاہل عاملوں کا پیسے بٹورنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ سب جہالت اور سادگی ہے اور عاملوں کا دھوکہ اور فراڈ ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
 

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

غسل کے فرائض تین ہیں: (1) کلی کرنا، (2) ناک میں پانی ڈالنا، (3) پورے بدن پر پانی بہانا۔
شاور، ٹوٹی، نل اور ٹب وغیرہ کے ذریعے غسل کرنے کے لیے اگر اچھی طرح کلی کر لی گئی اور ناک میں نرم ہڈی تک پانی ڈال لیا گیا اور پھر پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ اس طرح پانی بہا لیا گیا کہ بدن کا کوئی حصہ بال برابر بھی خشک نہ رہا تو غسل کے واجبات ادا ہو جائیں گے۔ غسلِ واجب کی صورت میں جسم پر لگی ہوئی نجاست کو پہلے دھونا سنت ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

نماز میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو ساری نماز نہ دہرائی جائے بلکہ جس رکعت میں وضو ٹوٹا ہو تو وضو کر کے اسی سے شروع کر کے نماز مکمل کرے۔ اس عمل کو بنا کرنا کہتے ہیں، البتہ نماز دہرانا زیادہ افضل ہے۔حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
‘‘جسے نماز میں قے، نکسیر، یا مذی آجائے وہ لوٹ کر وضو کرے اور جہاں نماز کو چھوڑا تھا وہیں سے شروع کر دے لیکن اس دوران کلام نہ کرے۔’’

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

اگر کسی کو دعائے قنوت یاد نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دعا کو یاد کرے اور جب تک دعائے قنوت یاد نہ ہو تو اس کی جگہ یہ پڑھ لے:رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo
اور اگر یہ دعا بھی نہ یاد ہو تو تین مرتبہ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا پڑھ لے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

یہ بھی حقیقی بہنوں کی طرح ہی بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ ایک مر جائے یا اس کو طلاق دے دی جائے تو اس کی عدت پوری ہو جانے کے بعد دوسری سے نکاح ہو سکتا ہے ورنہ جائز نہیں ہے، بلکہ نکاح ہی قائم نہیں ہوگا۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

ایک مسلمان کے لیے غیرمسلم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا ، غیرمسلم کے ہاتھ سے منگوایا ہوا اور پکویا ہوا کھانا بھی جائز ہے، بشرطیکہ کھانا شرعاً حلال ہو۔ اس میں غیرمسلم کتابی (یہودی اور مسیحی) یا غیرکتابی (ہندو، سکھ، بدھ، جین اور دھریے وغیرہ) کا کوئی فرق نہیں۔ البتہ ایسے غیرمسلم جو اہلِ کتاب میں سے نہ ہو اس کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں ہے۔کیونکہ غیراہلِ کتاب ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتے اس لیے ان کا ذبیحہ حرام ہے۔کسی بھی غیرمسلم کے استعمال شدہ برتن دُھلنے کے بعد مسلمان کے لیے قابلِ استعمال ہوتے ہیں۔ غیرمسلم کا جوٹھا کھانے کی مختلف صورتیں ہیں: ایک صورت یہ ہے کہ حرام کھانے جن کو کھانا ہمارے لیے جائز نہیں، وہ کسی بھی صورت میں نہیں کھائے جائیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر غیرمسلم حلال کھانا کھا رہا ہو تو باوقار طریقے سے اس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

آپ کی زندگی خوف و دہشت سے دوچار ہے، خواب میں وہی منظر نظر آتا ہے، دعا کرتا ہوں اللہ تعالی آپ کو خوف و غم سے اور ہر قسم کی بیماری و شر سے حفاظت فرمائے اور خوشگوار زندگی نصیب کرے (آمین) ہرنماز کے بعد یہ دعا بطور خاص پڑھا کریں۔ اَللّٰہم إنّی أعُوذبک من الہم والحزن والجبن والبخل، رَبَّنَا آتنا فی الدنیا حسنۃً وفی الآخرۃ حسنۃً وقنا عذاب النار۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

جو تعویذات و عملیات خلاف شرع ہوں یا ان ہی پر اعتماد و تکیہ ہویا ان کو موثر حقیقی سمجھ لیا جائے یہ تو شرعاً ممنوع ہے، ہاں جو تعویذات شرع کے موافق ہوں اور ان کو منجملہ تدبیر کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس کی اجازت ہے، شرعاً اس میں قباحت نہیں، تاہم اس صورت میں بھی افضل یہی ہے کہ ان تعویذات سے احتراز کیا جائے اور محض دعا پر اکتفا کیا جائے۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

بھاری رقم ایڈوانس میں لینا اور متعارف کرایہ سے کم پر کرایہ داری کا معاملہ کرنا جائز نہیں؛ کیوں کہ کرایہ داری کے معاملہ میں کرایہ دار ڈپازٹ کے نام پر مکان مالک کو جو رقم دیتا ہے، وہ شرعاً بہ حکم قرض ہوتی ہے، اور مکان مالک ڈپازٹ ہی کی بنیاد پر اس سے متعارف کرایہ سے کم کرایہ لیتا ہے؛ جب کہ شریعت میں قرض خالص تبرع اور احسان کا معاملہ ہے، قرض کی وجہ سے مقروض سے کوئی بھی نفع حاصل کرنا جائز نہیں، وہ بہ حکم سود ہوتا ہے؛ اس لیے صورت مسؤلہ میں ہیوی ڈپازٹ دے کرمتعارف کرایہ سے کم پر کرایہ داری کا معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

کرایہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ مالک اور کرایہ دار کرایہ کا معاملہ کرنے سے پہلے بغیر کسی بڑی رقم لیے باہم ماہانہ کرایہ کا معاملہ طے کریں،آج کل جو یہ رواج چل پڑا ہے کہ مالک مکان ایک بڑی رقم لے کر یا تو کرایہ بالکل ہی معاف کردیتا ہے یا معمولی برائے نام کرایہ لیتا ہے یہ قرض سے انتفاع کی شکل ہوتی ہے جو شرعاً جائز نہیں۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

دکان،مکان، فلیٹ اور پلاٹ وغیرہ کی خریداری میں بیعانہ کے نام سے پیشگی طور پر ثمن کا جو حصہ ادا کیا جاتا ہے، اگر کسی وجہ سے خرید وفروخت کا معاملہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے تو بائع کے لیے اس کا ضبط کرلینا شرعاً جائز نہیں؛ بلکہ خریدار کو اس کا پورا پیسہ واپس کردینا ضروری ہے۔ صورت مسؤلہ میں آپ کا بائع اگر مسلمان ہے تو آپ اسے شرعی مسئلہ بتائیں،إن شاء اللہ وہ آپ کا پورا پیسہ واپس کردے گا، اور اگر وہ غیر مسلم ہے تو آپ اس سے صرف درخواست کرسکتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا، ممکن ہے کہ اس کا دل نرم ہو اور وہ آپ کا پورا پیسہ واپس کردے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

اگرچہ بار بار مصافحہ کرنا فی نفسہ تو بدعت نہیں تاہم اسے ضروری سمجھنا بدعت ہے۔ اگر بار بار مصافحہ کرنے میں سامنے والے شخص کا حرج ہو یا اس کے لئے تکلیف کا موجب ہو تو ایسی صورت میں ایک دن میں ایک مرتبہ کرلینا کافی ہے اور تکلیف ہونے کی صورت میں اس سے بھی احتیاط لازم ہے۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

جی ہاں ان کے حق میں دعا کرے اور حسن سلوک ترک نہ کرے کیونکہ پھر بیٹا بھی حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ظالم ہوجائے گا اور بیٹے کا ظالم ہونا باپ پر زیادہ سنگین ہے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

جی ہاں رات میں ناخن کاٹ سکتے ہیں، بالوں میں کنگھا بھی کرسکتے ہیں اور پہنے ہوئے کپڑے کی سلائی بھی کرسکتے ہیں، شرعاً اس میں مضائقہ نہیں۔
 

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

لیٹ کر بھی اذان کا جواب دے سکتے ہیں جائز ہے قرآن میں ہے اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّعَلیٰ جُنُوْبِہِمْ الایۃ (پ: ۴/ آل عمران: ۱۹۱) البتہ بیٹھ کر جواب دینا زیادہ ادب ظاہر کر تا ہے ۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

کینہ اور بغض دونوں مترادف ہیں دشمنی، عداوت، حسد، جلن کے معنی میں مستعمل ہیں، کسی سے کینہ اور بغض رکھنا تو شرعاً ممنوع ہے ہاں اگر کوئی کسی دوسرے سے دینی یا دنیاوی مصلحت سے بات چیت نہ کرے جبکہ اس شخص کے دل میں دوسرے کے خلاف کوئی دشمنی، حسد، جلن نہ ہو اور نہ اس کا برا چاہتا ہو نہ اس سے قطع تعلق مقصود ہو بلکہ اصلاح و تنبیہ کی غرض سے ہو یا اس کے شر سے بچنا مقصود ہو تو شرعاً اس میں حرج نہیں اور اعلیٰ بات یہ ہے کہ اگر کوئی برائی سے پیش آئے تو ہم اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں، اگر کوئی ظلم کرے تو ہم معاف کردیں اگر کوئی قطع رحمی کرے تو ہم اس کے ساتھ صلہ رحمی کریں حدیث میں ہے: صل من قطعک واعف عمن ظلمک وأحسن إلی من أساء إلیک-B7 اور ایک روایت میں ہے: لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی إذا قطعت رحمہ وصلہا یعنی وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو برابر سرابر کا معاملہ کرنے والا ہو بلکہ صلہ رحمی کرنے والا دراصل وہ ہے جو دوسرے کے توڑنے پر صلہ رحمی کرے۔ حضرت شیخ الحدیث زکریا رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فائدہ کے ذیل میں لکھتے ہیں: بالکل ظاہر اور بدیہی بات ہے جب آپ ہر بات میں یہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسا برتاؤدوسرا کرے گا ویسا ہی میں بھی کردوں گا تو آپ نے کیا صلہ رحمی کی؟ یہ بات توہر اجنبی کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ جب دوسرا شخص آپ پر احسان کرے گا تو آپ خود اس پر احسان کرنے میں مجبور ہیں۔ صلہ رحمی تو درحقیقت یہ ہے کہ اگر دوسرے کی طرف سے بے التفاتی بے نیازی قطع تعلق ہو تو تم اس کے جوڑنے کی فکر میں رہو، اس کو مت دیکھو کہ وہ کیا برتاؤ کرتا ہے۔ اس کو ہر وقت سوچو کہ میرے ذمہ کیا حق ہے؟ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ دوسروں کے حقوق ادا کرتے رہو، ایسا نہ ہو کہ اس کا کوئی حق اپنے ذمہ رہ جائے جس کا قیامت میں اپنے سے مطالبہ ہوجائے اور اپنے حقوق کے پورا ہونے کا واہمہ بھی دل میں نہ لو بلکہ اگر وہ پورے نہیں ہوتے تو اور بھی زیادہ مسرور ہوکہ دوسرے عالم میں جو اجرو ثواب اس کا ملے گا وہ اس سے بہت زیادہ ہوگا جو یہاں دوسرے کے ادا کرنے سے وصول ہوتا۔ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے رشتہ دار ہیں میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں وہ قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان پر احسان کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں میں ہر معاملے میں تحمل سے کام لیتا ہوں وہ جہالت پر اترے رہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر یہ سب کچھ صحیح ہے تو توُ ان کے منہ میں خاک ڈال رہا ہے (یعنی خود ذلیل ہوں گے) اور تیرے ساتھ اللہ جل شانہ کی مدد شامل حال رہے گی جب تک تو اپنی اس عادت پر جمع رہے گا’’ (مشکوۃ) اور جب اللہ جل شانہ کی مدد کسی کے شامل حال رہے تو نہ کسی کی برائی سے نقصان پہنچ سکتا ہے نہ کسی کا قطع تعلق، نفع پہنچنے سے مانع ہو سکتا ہے’’

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

جی ہاں! اگر چھینکنے والے نے الحمد للہ کہا اور سننے والے نے (بلاعذر شرعی) جواب نہیں دیا تو وہ گنہگار ہوگا، البتہ اگر مجلس میں ایک سے زائد لوگ موجود ہوں تو ہر ایک کا جواب دینا واجب نہیں، صرف ایک کا جواب دیدینا کافی ہے، اور اگر سبھی حاضرین جواب دیدیں تو یہ افضل ہے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

اگر کوئی آدمی واٹس اَیپ وغیرہ میں کسی کو مخاطب کرکے سلام کرتا ہے، تحریری شکل میں ہو یا Voice SMSکے ذریعہ ہو، تو اس سلام کا جواب زبان سے فی الفور دینا واجب ہے، اور تحریری طور پر یا Voice SMSکے ذریعہ جواب دینا مستحب ہے۔ اس کے علاوہ واٹس اَیپ کی عام تقریروں اور تحریروں میں جو سلام کیا جاتا ہے اس سلام کا جواب دینا واجب نہیں؛ البتہ اگر کوئی پروگرام براہ راست Liveکیا جائے اور اس میں کوئی سلام کرے تو احتیاطاً سلام کا جواب دیا جائے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

سوتیلی ماں اور خالہ دونوں ہی ماں کے درجہ میں ہوتی ہیں لہٰذا ان میں سے ہرایک کا ادب واحترام واجب ہے یعنی ان کی شان میں گستاخی یا انھیں کسی طرح سے بھی ایذا پہنچانا جائز نہیں۔ اگر حیثیت ہے تومالی خدمت کرکے انھیں خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اطاعت فرمانبرداری کے ذریعہ ان کا حق ادا کیا جائے ۔سوتیلی ماں اور خالہ میں سے چونکہ خالہ سے خونی رشتہ بھی ہے اس لیے ان کے ساتھ محبت بھی زیادہ ہوگی اور ان کی طرف سے شفقت ومحبت کا ظہور بھی۔ لیکن سوتیلی ماں سے تعلق باپ کی وجہ سے ہے اس لیے قابل احترام وہ بھی ہیں، اگرچہ بسا اوقات آدمی محسوس کرتا ہے کہ سوتیلی ماں سے وہ پیار نہیں مل رہا جو اس کی اپنی حقیقی ماں سے ملتا یا خود سوتیلی ماں کے بچوں کو اس سے مل رہا ہے تو یہ طبعی اور کبھی غیر اختیاری بات ہوتی ہے لہٰذا آپ اس طرح کی منفی باتیں نہ سوچیں۔ اور ان کی طرف سے ناگوار باتوں پر صبر
 کریں اس سے بھی آدمی کا درجہ آخرت میں بڑھتا ہے۔

 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

اگر آفس میں سہولت ہو تو مصلی یا رومال بچھا کر وہیں سجدہ تلاوت کرلیں یہ بہتر ہے اور اگر کسی وجہ سے آفس میں نہ کر سکیں تو گھر جاکر کرلیں اس کی بھی اجازت ہے۔ آیت سجدہ آنے کے بعد اپنی تلاوت وہیں موقوف نہ کر دیں بلکہ آگے بھی قرآن پڑھتے رہیں سجدہ تلاوت گھر جاکر یا مسجد میں جاکر کر لیا کریں۔ فوری طور پر سجدہ تلاوت کرنا ضروری نہیں ہے۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

وقف لازم کی علامت پر وقف کرنا واجب ِ شرعی نہیں ہاں قواعدِ تجوید کی رو سے لازم ہے ۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

نظر اتار نے میں اس کا مفید ہونا اگر تجربات سے ثابت ہو تو دیگر طریقہ علاج کی طرح یہ طریقہ بھی اختیار کرسکتے ہیں، شرعا ًاس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

غسل کے شروع میں وضو کی طرح بسم اللہ پڑھنا تو مسنون ہے؛ لیکن غسل کے شروع میں یا غسل کرتے ہوئے کلمہ پڑھنا ثابت نہیں، یہ بے اصل بات ہے، جو عوام میں رائج ہے؛ اس لیے اس سے احتراز چاہیے ۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں بے شمار دعائیں وارد ہوئی ہیں ان دعاؤں کو بہت سے علما ومحدثین نے کتابی شکل میں یکجا کردیا ہے جیسے علامہ جزری نے ‘‘حصن حصین’’ کے نام سے، امام نووی نے ‘‘الاذکار’’ کے نام سے علامہ سخاوی نے ‘‘القول البدیع’’ کے نام سے پھر بعض علماء نے ان کتابوں سے لوگوں کی سہولت کے لیے دعاؤں کو سات حصوں میں تقسیم کرکے جمع کردیا ہے تاکہ روزانہ اگر ایک حصہ پڑھاجائے تو سات دن میں تمام دعائیں زبان سے ادا ہوجائیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ نے انھیں میں سے جو مجموعہ تیار کیا اس کا نام مناجات مقبول رکھا اور علی بن سلطان محمد القاری المعروف بملا علی قاری شارح مشکاۃ نے جو مجموعہ ترتیب دیا اس کا نام ‘‘الحزب الاعظم’’ رکھا۔یہ دونوں کتابیں دعاؤں کا مجموعہ ہے، روزانہ ایک حصہ پڑھا جائے تو سات دن میں تمام دعاؤں کے پڑھنے اور مانگنے کی برکت ثواب اور جزا حاصل ہوجائے گی۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

ضروریاتِ دین سے وہ تمام دینی امور مراد ہوتے ہیں جو نبی کریم ﷺ سے قطعی طور پر تواتر کے ساتھ ثابت ہوں اور جن کا دین محمدی ہونا ہر خاص وعام کو بداہۃً معلوم ہو یعنی ان کا حصول کسی خاص اہتمام اور تعلیم پر موقوف نہ ہو بلکہ عام طور پر وہ امور مسلمانوں کو وراثتاً معلوم ہوجاتے ہوں ۔مثلاً:نماز،روزہ حج، زکوۃ کی فرضیت اور زنا،قتل،چوری،شراب خوری وغیرہ کی حرمت وممانعت وغیرہ اسی طرح نبی کریم ﷺ کا خاتم الأنبیاء ہونا،حشرونشر،جزاء سزا وغیرہ۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

ایمان اصطلاح شرع میں تصدیق قلبی کا نام ہے، یعنی دل سے اللہ تعالی کی توحید اور رسول کی رسالت کو سچا ماننا اور اسلام نام ہے اعمال ِظاہرہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا؛ لیکن شریعت میں تصدیق قلبی اس وقت تک قابل اعتبار نہیں جب تک اس کا اثر جوارح کے اعمال و افعال تک نہ پہنچ جائے جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ کا اقرار کرے۔ اسی طرح اسلام اگرچہ اعمال ظاہرہ کا نام ہے؛ لیکن شریعت میں اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں تصدیق نہ آجائے، اس طرح اسلام و ایمان مبدأ اورمنتہی کے اعتبار سے تو الگ الگ ہیں کہ ایمان باطن اور قلب سے شروع ہوکر ظاہر اعمال تک پہنچتا ہے اور اسلام افعال ظاہرہ سے شروع ہوکر باطن کی تصدیق تک پہنچتا ہے؛ مگر مصداق کے اعتبار سے ان دونوں میں تلازم ہے کہ ایمان اسلام کے بغیر معتبر نہیں اور اسلام ایمان کے بغیر شرعا معتبر نہیں(معارف القرآن)۔ گویا لغوی معنی کے اعتبار سے تو دونوں میں فرق ہوسکتا ہے؛ لیکن دونوں کے شرعی مصداق میں کوئی فرق نہیں ہے، لہذا شریعت کی نظر میں دونوں کے انعامات اور دونوں کا مقام و مرتبہ بھی برابر ہوگا۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

قرآن و سنت کی تصریحات سے اتنی بات تو بلاشبہ ثابت ہے کہ یاجوج و ماجوج انسانوں ہی کی قومیں ہیں اور عام انسانوں کی طرح نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں کیونکہ قرآن کریم کی نص صریح ہے وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہ ہُمُ الْبٰقِیْنَ یعنی طوفان نوح (علیہ السلام) کے بعد جتنے انسان زمین پر باقی ہیں اور رہیں گے وہ سب حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں ہوں گے اور جمہور محدثین و مو رخین ان کو یافث ابن نوح (علیہ السلام) کی اولاد قرار دیتے ہیں،ان کے نکلنے کا وقت ظہور مہدی (علیہ السلام) پھر خروج دجال کے بعد ہوگا جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہو کر دجال کو قتل کرچکیں گے،اس سے متعلق سب سے زیادہ تفصیلی اور صحیح حدیث حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی ہے جس کو صحیح مسلم اور تمام مستند کتب حدیث میں نقل کیا گیا ہے اور محدثین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، اس میں خروج دجال، نزول عیسیٰ (علیہ السلام) پھر خروج یاجوج و ماجوج وغیرہ کی پوری تفصیل مذکور ہے،دیکھیے: معارف القرآن: ۵/۸۳۶، سورہ یوسف)باقی معلومات کہ قوم یاجوج وماجوج کون سی قوم ہے؟ اور اس وقت کہاں کہاں ہے، اس پر نہ کوئی اسلامی عقیدہ موقوف ہے اور نہ قرآن کریم کی کسی آیت کا سمجھنا اس پر موقوف ہے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

اللہ تعالیٰ کا دیدار اس دنیا میں عقلاً ممکن ہے لیکن شرعاً ممتنع ہے، حضرت مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: لَن تَرانی یعنی آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے) اس میں اشارہ ہے کہ رویت ناممکن نہیں مگر مخاطب بحالت موجودہ اس کو برداشت نہیں کرسکتا ورنہ اگر رویت ممکن ہی نہ ہوتی تو لن ترانی کے بجائے لن اُری کہا جاتا کہ میری رویت نہیں ہوسکتی (مظہری) اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار دنیا میں بھی عقلاً ممکن تو ہے مگر اس آیت سے اس کا ممتنع الوقوع ہونا بھی ثابت ہوگیا اور یہی مذہب ہے جمہور اہل سنت کا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رویت عقلاً ممکن ہے مگر شرعاً ممتنع جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے لن یری أحد منکم ربّہ حتی یموت یعنی تم میں سے کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا۔ (معارف القرآن ج۴ص۱۶-۲۶)

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے اور صدیوں سے اکابرین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے، انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں’’عجمی سازش‘‘نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہم نواؤں نے پیدا کیا اور بہت سے پڑھے لکھے، شعوری و غیرشعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے کی ہے۔ عربی لفظ میں رب مالک اور صاحب کے معنی میں ہے، اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ خدا کے ساتھ کیا گیا ہے، چنانچہ جس طرح لفظ رب کا اطلاق بغیر اضافت کے غیراللہ پر نہیں کیا جاتا، اسی طرح لفظ خدا بھی جب مطلق بولا جائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے، کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔
غیاث اللغات میں ہے:’’خدا بالضم بمعنی مالک، صاحب چوں لفظ خدا مطلق باشد بر غیر ذات باری تعالیٰ اطلاق نکنند مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کد خدا، ودہ خدا۔‘‘ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ رب کا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ’’اللہ‘‘تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے، جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتا ہے نہ کیا جاتا ہے، دوسرے اسمائے الٰہیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیرعربی میں کردیا جائے اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ ‘‘خدا’’صاحب اور مالک کے معنی میں ہے اور لفظ ‘‘رب ’’کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا؟ کیا انگریزی میں لفظ ‘‘رب ’’کا کوئی اور ترجمہ نہیں کیا جائے گا؟ اور کیا اس ترجمے کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گی؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ماں کی تو خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بچی اپنے گھر میں خوش و خرم رہے، تعجب ہے کہ آپ کی والدہ کا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ بہرحال آپ کی والدہ کی ناراضی بے جا ہے، آپ اپنی والدہ کی جتنی خدمت بدنی، مالی ممکن ہو کرتی رہیں اور اس کی گستاخی و بے ادبی ہرگز نہ کریں۔ اس کے باوجود اگر وہ ناراض رہتی ہیں تو آپ کا قصور نہیں، آپ سے انشاء اللہ اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

کسی چیز کا تدریجاً (آہستہ آہستہ) وجود میں آنا اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ فاعل اس کو دفعتاً وجود میں لانے پر قادر نہ ہو، اس لئے وہ مجبور ہے کہ وہ اس چیز کو آہستہ آہستہ وجود میں لائے۔ اور دوسری صورت یہ کہ فاعل تو اس چیز کو دفعتاً وجود میں لانے پر قادر ہے مگر کسی حکمت کی بنا پر وہ اس کو آناً فاناً وجود میں نہیں لاتا، بلکہ آہستہ آہستہ ایک خاص معین مدت کے اندر اسے وجود میں لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو آسمان و زمین کو ۶ دن میں پیدا فرمایا اس کی وجہ پہلی نہیں تھی بلکہ دوسری تھی۔ اس لئے آپ کا اشکال تو ختم ہوجاتا ہے، البتہ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ وہ کیا حکمت تھی جس کی بنا پر آسمان زمین کی تخلیق تدریجاً ہوئی؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ افعالِ الٰہیہ کی حکمتوں کا احاطہ کون کرسکتا ہے؟ اس میں جو حکمتیں بھی ملحوظ ہوں وہ سراپا خیر ہوں گی۔ مثلاً: ایک حکمت بندوں کو آہستگی اور تدریج کی تعلیم دینا ہوسکتی ہے کہ جب ہم نے قادر مطلق ہونے کے باوجود اپنی تخلیق میں تدریج ملحوظ فرمائی ہے تو تمہیں تو کوئی کام کرتے ہوئے بدرجہ اولیٰ تدریج سے کام لینا چاہئے، یا مثلاً: یہ حکمت ہوسکتی ہے کہ اس دنیا کا نظام اسباب کے تدریجی سلسلہ کے تحت چلے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ قادر ہیں کہ انسان کو ایک لمحہ میں پیدا فرماکر جیتا جاگتا کھڑا کردیں، مگر نہیں! اس کی حکمت ایک خاص نظام کے تحت تدریجاً اس کی نشوونما کرتی ہے۔ یہی حال نباتات وغیرہ کا بھی ہے، اور اگر غور کیا جائے تو اس عالم کی تمام ترقیات تدریج ہی کے تحت چل رہی ہیں، کیا عجب ہے کہ آسمان و زمین کی تدریجی تخلیق میں یہ حکمت بھی ملحوظ ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ان علوم کے بارے میں چند باتوں کو سمجھ لینا ضروری ہے۔
اوّل۔ مستقبل بینی کے جتنے طریقے ہیں، سوائے انبیاء علیہم السلام کی وحی کے، ان میں سے کوئی بھی قطعی و یقینی نہیں، بلکہ وہ اکثر حساب اور تجربے پر مبنی ہیں، اور تجربہ و حساب کبھی صحیح ہوتا ہے، کبھی غلط۔ اس لئے ان علوم کے ذریعہ کسی چیز کی قطعی پیش گوئی ممکن نہیں کہ وہ لازماً صحیح نکلے، بلکہ وہ صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔
دوم ۔کسی غیریقینی چیز کو یقینی اور قطعاً سمجھ لینا عقیدہ اور عمل میں فساد کا موجب ہے، اس لئے ان علوم کے نتائج پر سو فیصد یقین کرلینا ممنوع ہے کہ اکثر عوام ان کو یقینی سمجھ لیتے ہیں۔
سوم ۔مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں دو قسم کی ہیں، بعض تو ایسی ہیں کہ آدمی ان کا تدارک کرسکتا ہے، اور بعض ایسی ہیں کہ ان کا تدارک ممکن نہیں۔ ان علوم کے ذریعہ اکثر پیش گوئیاں اسی قسم کی کی جاتی ہیں جن سے سوائے تشویش کے اور کوئی نفع نہیں ہوتا ، جیسا کہ سوال میں بھی اس طرح اشارہ کیا گیا ہے، اس لئے ان علوم کو علومِ غیرمحمودہ میں شمار کیا گیا ہے۔
چہارم ۔ان علوم کی خاصیت یہ ہے کہ جن لوگوں کا ان سے اشتغال بڑھ جاتا ہے، خواہ تعلیم و تعلّم کے اعتبار سے، یا استفادے کے اعتبار سے، ان کو اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق نہیں رہتا، یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ان علوم میں مشغول نہیں ہونے دیا، بلکہ ان کے اشتغال کو ناپسند فرمایا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے سچے جانشین بھی ان علوم میں اشتغال کو پسند نہیں کرتے۔ پس ان علوم میں سے جو اپنی ذات کے اعتبار سے مباح ہوں، وہ ان عوارض کی وجہ سے لائقِ احتراز ہوں گے۔

 

()

ان پھلوں کے خراب ہونے سے پہلے تک تو مالک کا انتظار کیا جائے، جب خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو مالک کی طرف سے کسی محتاج کو دے دئیے جائیں۔ اگر بعد میں مالک آئے تو اس کو صحیح صورت سے آگاہ کردیا جائے، اگر مالک اس صدقہ کو جائز رکھے تو ٹھیک، ورنہ مالک کو ان پھلوں کی قیمت ادا کردیں اور یہ صدقہ آپ کی طرف سے شمار ہوگا۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

اگر تلاش کے باوجود اس بکری کے بچے کا مالک نہیں مل سکا تو اس کا حکم گمشدہ چیز کا ہے کہ مالک کی طرف سے صدقے کی نیت کرکے کسی غریب محتاج کو دے دیا جائے، اگر بالفرض کبھی مالک مل جائے تو اس کو اختیار ہوگا، خواہ اس صدقے کو برقرار رکھے یا آپ سے اس کی قیمت وصول کرلے۔ دُوسری صورت میں یہ صدقہ آپ کی طرف سے ہوجائے گا۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

یہ شخص اگر کسبِ معاش اس لئے کرتا ہے کہ اس کو خدائے تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنے والدین اور اولاد کے لئے رزقِ حلال کی کوشش کرو، اور واقعی رزقِ حلال کے لئے کوشش کرتا ہے تو واقعی وہ عبادت میں مصروف ہے، کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص روزی اس لئے کماتا ہے کہ اپنے بال بچوں کی پروَرِش کرے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور اسے خدائے تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو وہ شخص ہر وقت عبادت میں مصروف ہے اور اس کی یہ کمائی بھی عبادت کے درجے میں ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دُوسرے فرائض سے غافل ہوجائے، جس طرح والد کی خدمت کرنے والا اور والدہ کی خدمت نہ کرنے والا قابلِ مؤاخذہ ہے، ایک بچے کی پروَرِش کرنے والا اور دُوسرے بچے کی پروَرِش نہ کرنے والا قابلِ مؤاخذہ ہے، اس کی مثال بالکل اس طرح ہوگی کہ ایک شخص کسی جگہ نوکری کرتا ہے اور اس کے ذمہ دو کام لگائے جاتے ہیں، اب اگر وہ ایک کام میں اتنا منہمک ہوجائے کہ دُوسرے کام سے جاتا رہے تو ایسے شخص کے لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی نوکری کے فرائض پورے کر رہا ہے، بلکہ اس کو نوکری سے جواب مل جائے گا۔ اسی طرح خدائے تعالیٰ نے فرائض مقرّر کئے ہیں، اب جو شخص جس جس فرض کو پورا کرے گا تو اس کو اس فرض کی ادائیگی کا ثواب ملے گا، اور اگر ایک فرض میں بھی کوتاہی کرے گا تو وہ اس فرض کے سلسلے میں پکڑا جائے گا اور اس کو اس جرم کی سزا دی جائے گی۔ کسی ایک فرض کی ادائیگی سے دُوسرے فرض سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکتا۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

اگر زیور بیوی کی ملکیت ہے تو وہ جس طرح چاہے اور جہاں چاہے خیرات کرسکتی ہے، شوہر کا اس پر کوئی حق نہیں۔ لیکن حدیث پاک میں ہے کہ عورت کے لئے بہتر صدقہ یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بال بچوں پر خرچ کرے۔ اس لئے میں اس نیک بی بی کو جو پندرہ سو روپے خرچ کرنا چاہتی ہے، مشورہ دُوں گا کہ وہ اپنے سارے زیور سے اپنے شوہر کا قرضہ ادا کردے، اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجائیں گے اور اس کو جنت میں بہترین زیور عطا کریں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

وراثت تو موت کے بعد تقسیم ہوتی ہے، زندگی میں والد اپنی اولاد کو جو کچھ دے دے وہ عطیہ ہے، اور ظاہر ہے کہ عطیہ دینے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرتا ہے تو بعض أئمہ کے نزدیک اس کو چاہئے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر رکھے، اور بعض أئمہ کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ سب کو برابر دے، لیکن اگر لڑکوں کو دو حصے دئیے اور لڑکی کو ایک حصہ دیا تب بھی جائز ہے۔ لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں اس شخص کی تقسیم صحیح ہے اور لڑکیوں کا اصرار صحیح نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

میں ایک فیکٹری میں اسٹور کیپر کی حیثیت سے ملازم ہوں، ہمارے پاس جو مال ہوتا ہے، یعنی جو چیز فیکٹری کے لئے آتی ہے اس کی خرید و فروخت وغیرہ ہمارے سیٹھ یعنی فیکٹری کے مالک کرتے ہیں، ریٹ وغیرہ مال سپلائی کرنے والے سے خود طے کرتے ہیں۔ میرا صرف یہ کام ہوتا ہے کہ جب فیکٹری میں مال آئے، اس کو چیک کروں کہ مال صحیح ہے، خراب تو نہیں؟ یا وزن کم تو نہیں؟ وہ میں چیک کرکے وصول کرتا ہوں مال بھی صحیح ہوتا ہے، اور وزن بھی ٹھیک ہوتا ہے، مگر مال سپلائی کرنے والے مجھے فی نگ ۵ روپے کمیشن دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب کو دیتے ہیں، جن جن کے پاس ہمارا مال جاتا ہے، یہ کمیشن وہ مجھے خود دیتے ہیں، میں ان سے نہیں مانگتا۔ اور میں نے ان کو اس بات سے آگاہ کیا ہوا ہے کہ اگر مال کا وزن کم ہوا یا مال خراب ہوا تو میں واپس کر دُوں گا۔ اور اگر سیٹھوں نے کہا کہ ان سے مال منگواؤ تو آپ کو آرڈر دُوں گا ورنہ نہیں۔ ریٹ میں اگر فرق آئے تو میں مالکان فیکٹری کو آگاہ کردیتا ہوں، اگر وہ کہیں کہ مال کا آرڈر دو، تو دیتا ہوں، ورنہ مال دُوسرے سے منگوالیتے ہیں، لیکن مالکان فیکٹری کو یہ معلوم نہیں کہ ہمارا اسٹور کیپر ان سے کمیشن لیتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ آپ بتائیں کہ یہ میرے لئے جائز ہے یا کہ حرام؟
 

ان لوگوں کی آپ سے رشتہ داری تو نہیں ہے کہ آپ کو تحفہ دیں، نہ آپ ان کے پیرزادہ ہیں کہ آپ کی خدمت میں ہدیہ پیش کریں، اب سوائے رشوت کے اس کی اور کیا مد ہوسکتی ہے؟ اس لئے آپ کے لئے اس کمیشن کا لینا جائز نہیں۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

اجماع کا لفظ دو معنی میں بولا جاتا ہے۔ ایک اجماع امت ہے اور ایک اجماع فقہا ہے۔ اجماع امت کا مطلب یہ ہے کہ امت کسی چیز کو دین کے طور پر حضورﷺ سے منسوب کرنے میں اپنے ہر زمانے میں بالکل متفق ہو۔ یہ رائے کا اتفاق نہیں ہے بلکہ حضور سے دین کو نقل کرنے پر اتفاق ہے یہی ‘‘اجماع’’ دین کا ماخذ ہے اور اس سے اختلاف جائز نہیں۔ دوسرا اجماع رائے پر اجماع ہے یہ اصل میں نصوص سے استنباط پر علما کا متفق ہونا ہے۔ اگرچہ یہ اجماع محض دعویٰ ہے لیکن لوگ بہت سی دینی آرا پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں۔ اس طرح کے اجماع سے اختلاف میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ رائے سے اختلاف ہے۔ یہ دین کے کسی جزو سے اختلاف نہیں ہے۔آپ نے گمراہی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ علمی آرا میں غلط اور صحیح کا معاملہ ہوتا ہے حق اور باطل کا معاملہ نہیں ہوتا ۔ علمی آرا میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرا گمراہ ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنی رائے پر عمل کریں تو دین پر عمل کر رہے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والا اپنی رائے پر عمل کرے تو وہ دین پر عمل کر رہا ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاق کے معاملے میں دو آرا پائی جاتی ہیں ایک رائے یہ ہے کہ یہ تین طلاق ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ایک طلاق ہے۔ جس کی جو بھی رائے ہے وہ اس پر عمل کرنے میں گناہ گار نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات پر گمراہی کا لفظ درست نہیں ہے۔

(طالب محسن)

اللہ تعالی کے نظام تکوین میں کچھ ہستیاں شریک ہیں۔ یہ تصور بالعموم دو صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی نے کچھ ہستیوں کو خود سے کچھ کاموں میں خود سے شریک کر رکھا ہے یا وہ شریک ہی کی حیثیت سے ہمیشہ سے موجود ہیں۔ یہ شرک کی وہ صورت ہے جو تمام مشرکانہ مذاہب میں بیان کے فرق کے ساتھ موجود ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کچھ ہستیاں عبادت و ریاضت سے اپنے آپ کو مقبول بارگاہ بنا لیتی ہیں اور اس طرح اللہ تعالی ان کو کچھ امور کا ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ دونوں طرح کے شرک زیر بحث آئے ہیں اور ان پر ایک ہی تنقید کی ہے کہ ان کے پاس کوئی سلطان (authority) نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات وحی کے سوا کسی طریقے سے معلوم نہیں ہو سکتی کہ اللہ نے کچھ شرکا بنا رکھے ہیں یا امور تکوینی تک رسائی کا کوئی قاعدہ بنا رکھا ہے۔ چونکہ خدا کی کسی کتاب میں نہ صرف یہ کہ اس طرح کی کسی بات کی طرف اشارہ بھی موجود نہیں ہے بلکہ صریح الفاظ میں ان کی تردید ہوئی ہے اس لیے ان کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ بھی اس تصور پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان تک پیغام رسانی ہوتی ہے۔ یہ بات دو پہلوؤں سے ناقابل قبول ہے۔ ایک یہ کہ کچھ ریاضتوں سے انسان مخاطبہ الہی کا اہل ہو جاتا ہے۔ یہ بات اوپر والی بات ہی کی طرح بے بنیاد ہے۔ دوسرا یہ کہ ختم نبوت کا تصور اس کے نتیجے میں باطل ہو جاتا ہے اور نبوت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی انسان کو مخاطبہ الہی کا مقام حاصل ہو جائے۔ قطب و ابدال جیسے تصورات درحقیقت اسی بنیاد پر باطل ہیں اور ان کے ماننے سے خدائی میں شرکت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور ان تصورات کو ماننے والوں کے ہاں اس کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔اس حوالے سے مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی کتاب حقیقت شرک اور حقیقت توحید آپ حاصل کرکے پڑھ لیجیے۔ امید ہے آپ کو بہت ساری باتیں واضح ہو جائیں گی۔آپ نے ستاروں کے اثرات کے ماننے کے شرک ہونے پر بھی تعجب ظاہر کیا ہے۔ قرآن مجید نے جبت کو جرم قرار دیا ہے۔ جبت کا مطلب یہ ہے کہ اوقات اور اشیا کے ماورائی اثرات مانے جائیں۔ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے اور اس تصور کی بھی الہامی لٹریچر سے کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ یہ بھی انسانوں ہی کے بنائے ہوئے تصورات ہیں اور انسان کو سعی وجہد کرنے والا اور خدا پر بھروسا کرنے والا بنانے کے بجائے توہم پرست بناتے ہیں۔ قرآن مجید نے جبت کو گناہ قرار دیا ہے اور ستاروں کے اثرات ماننا جبت ہی کے تحت آتا ہے۔
 

(طالب محسن)

نذر ایک قدیم مذہبی رسم ہے جو تقریباً ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ جس طرح دعا تمام مذاہب میں موجود ہے اسی طرح نذر بھی تمام مذاہب میں موجود ہے۔ نذر کا مطلب اپنے معبود کے سامنے اپنے مال میں سے کوئی چیز پیش کرناہے۔ اس کی دونوں صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ معبود کو راضی کرنے کے لیے نذر پیش کرنا دوسری یہ کہ اپنے کسی کام کے ہونے پرپہلے سے طے شدہ نذر پیش کرنا۔ اسلام میں بھی یہ مذہبی رسم قائم ہے۔ اس نے اسے پورا کرنے کی تلقین کی ہے اور پورا نہ کرسکنے کی صورت میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
 

(طالب محسن)

ہمارے نزدیک، نقود کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی سے نصاب مقرر کیا تھا۔ نقود میں کرنسی نوٹ، سونا اور چاندی سب شامل ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اصل نصاب باون تولے چاندی ہے۔ اس کی قیمت کے برابر اگر روپے موجود ہیں یا سونا یا چاندی موجودہے تو آدمی صاحب نصاب ہے۔ ان کا الگ نصاب مقرر نہیں کیا گیا۔ سونے کا نصاب جو ہمارے ہاں بیان کیا جاتا ہے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باون تولے چاندی کے برابر تھا۔ یہ مقدار سونے کا کوئی الگ نصاب بیان کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ چاندی کی مالیت کے اطلاق کا بیان ہے۔ آپ چاندی، سونا، کرنسی نوٹ اور روپے کو محفوظ کر کے رکھنے کی اختیار کی گئی دوسری تمام صورتوں کو جمع کر کے زکوۃ نکالیں گے۔
 

(طالب محسن)

یہ سوال جس الجھن پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہوتا ہے ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہمیں یہ اصولی بات معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے سب پہلے سے طے کر رکھا ہے تو پھر یہ آزادی بالکل بے معنی ہے۔ پھر جزا یا سزا یا وقوع قیامت یہ سب باتیں اپنی معنویت کھو دیتی ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تدبیر کریں اور تدبیر کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ ہم ان آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بھی دعائیں کریں جو دوسرے انسانوں اور قدرتی عوامل کی وجہ سے پیش آتی رہتی ہیں اور جن کا کبھی ہمیں شعور نہیں ہوتا اور اگر کبھی شعور ہو بھی تو ہم اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔حضور کی سکھائی ہوئی ایک دعا کے الفاظ ہیں:
اے اللہ مجھے اس شر سے محفوظ رکھ جس کا آپ نے فیصلہ کیا ہے، کیونکہ تو فیصلے کرتا ہے تیرے اوپر فیصلے نہیں ہوتے۔
یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ ہماری دعا سے اللہ کے فیصلے تبدیل ہوسکتے ہیں۔
اللہ تعالی نے ہمیں یہاں آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔ آزمایش کے ضروری ہے کہ انسانوں کو خیر وشر کے انتخاب کی حقیقی آزادی حاصل ہو۔ وہ چاہیں تو اچھے اعمال کریں اور چاہیں تو بداعمالیا ں کریں۔ یہ آزادی بالکل محدود ہو جائے گی اگر انسانوں کو دنیوی معاملات میں فیصلے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ مطلب یہ کہ شادی، کاروبار، تعلیم، محنت، پرہیز، علاج، ہنر، طرز زندگی،لباس،رسم ورواج غرض زندگی کے بہت سے دائروں میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اصل میں یہ آزادی ہی ہمارا مقدر ہے۔ جسے اللہ نے اپنی قدرت کے بل پر جاری وساری کر رکھا ہے۔آپ کی بات بالکل درست ہے کہ شادی میں کئے گئے فیصلے بھی اسی آزادی کے تحت ہیں۔ لیکن یہ آزادی بعض اوقات صرف ارادے تک محدود رہتی ہے اور ایک انسان کو عمل کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی اس مداخلت کے پیچھے کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ ایک انسان کو بہت سی آزمایشیں اس کے ماحول میں موجود انسانوں کے اعمال سے پیش آتی ہیں۔ لہذا مداخلت کرکے اس آزمایش کو مطلوب درجے تک رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر الف ب کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلے اور ب کو قتل نہ ہونے دینا مقصود ہو تو ب کو مداخلت کرکے بچا لیا جاتا ہے۔ لیکن فیصلہ کرنے والا قتل کا مجرم بن جاتا ہے اور آخرت میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک بندے کے مستقبل کو بعض آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی مداخلت کی جاتی ہے۔ وغیرہ
اس وضاحت کو شادی کی مثال پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے زور زبردستی کی ہے انھوں نے اللہ کے دیے ہوئے ایک حق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ الا یہ کہ وہ یہ مداخلت کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بچوں کا فیصلہ غلط ہے اور اس سے ان کا نقصان ہوگا۔اس کا دوسرا پہلو بھی کہ اللہ تعالی نے اس معاملے میں مداخلت کرکے آئندہ کے لیے کسی آفت سے حفاظت کا بندوبست کیا ہو۔

 

(طالب محسن)

انسان علم کے معاملے میں مختلف سطحوں پر ہوتے ہیں۔ ہر سطح کے اعتبار سے طریق کار مختلف ہے۔ وہ آدمی جو دین کی واجبی معلومات رکھتا ہے اور کسی ایک نقطہ نظر کو اختیار کیے ہوئے ہے، وہ اپنے مسلک کے مطابق ہی جیے گا اور یہی اس کے لیے ضروری بھی ہے۔ اس آدمی کو یہ کہنا کہ تم براہ راست قرآن وسنت سے دین کے مسائل معلوم کرو،درست نہیں ہے۔ دین کی صحیح بصیرت اور اس کے فنون کا اچھا علم حاصل کیے بغیر یہ کام کرنا کسی بھی صورت میں روا نہیں ہے۔اس آدمی کے لیے ہر حال میں تقلید ہی کا راستہ ہے، اس کے لیے صرف یہی ممکن ہے کہ یہ ایک عالم کی تقلید چھوڑ کر دوسرے عالم کی تقلید اختیار کر لے۔
دوسرا آدمی وہ ہے جو عالم ہے، وہ اپنے مسلک کا استدلال سمجھ سکتا ہے اور اگر اس کے مسلک پر اعتراض کیا جائے تو اس کا جواب بھی دے سکتا ہے۔یہ آدمی اس بات کا مکلف ہے کہ اگر اسے کوئی اعتراض قوی لگے اور اپنے مسلک کی غلطی اس پر واضح ہو جائے تو یہ اسے چھوڑ دے اور اس مسئلے کی حد تک اپنے مسلک میں ترمیم کر لے۔
تیسرا آدمی وہ ہے جو علوم دینیہ پر گہری نظر پیدا کر لیتا ہے۔ تمام مجتہدین کا کام اس کے سامنے ہوتا ہے اور وہ اصول ومبادی سے فروع ومسائل تک نظر ثانی کی اہلیت پیدا کر لیتا ہے۔ یہ آدمی کبھی کسی فقہ یا مسلک کا مقلد نہیں ہوتااور اگر ہوتا ہے تو اسی وقت تک جب وہ کسی مسئلے میں خود تحقیق کرکے اپنی کوئی راے قائم نہیں کر لیتا۔
یہ ایک نمایاں تقسیم ہے۔ اس سے ہر فرد آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے اور تقلید کے معاملے میں اسے کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہم میں سے ہر آدمی کو حق کے سچے طلب گار کی حیثیت سے جینا ہے۔ اسے صرف وہی چیز دین کے طور پر اختیار کرنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری ہوئی ہے۔ اسے اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اس چیز کی تسلی کا اہتمام کرنا ہے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے دین پر عمل پیرا ہے۔ وہ جس عالم کا پیروکار ہے، وہ اسے صرف اور صرف وہی چیز دین کے طور پر بتاتا ہے جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔

 

(طالب محسن)

قرآن مجید نے سائل اور محروم کا الگ الگ ذکرکیا ہے اور ان کو دینے کی تلقین کی ہے۔ اس لیے آپ مانگنے والے کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں نہ دیناچاہیں تو معذرت بھی کر سکتے ہیں۔ بھیک مانگنا ایک بری بات ہے لیکن اسے ناجائز قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ جن محتاجوں کی کوئی شنوائی نہ ہو وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ ایک پیشہ بھی بن گیا ہے اس وجہ سے اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اس میں امکان ہے کہ حقیقی محتاج موجود ہو اس لیے اس کے بارے میں کوئی ایک قاعدہ اختیار کرنا درست نہیں ہو گا۔
 

(طالب محسن)

کپڑے کی جراب اور چمڑے کی جراب میں فرق کرنے کا سبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جرابوں پر مسح کا ذکر ہوا ہے، اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ غالباً متأخرین میں دونوں کی ساخت کا فرق بھی اختلاف کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انھی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا، مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔ جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کاسبب رفعِ زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالیٰ نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں، اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت، یعنی رفعِ زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔
 

(طالب محسن)

پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ حج بدل کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہی سوال کیا گیا تھا تو آپ نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔
دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ سورہ نجم کی آیت میں جو اصولِ اجر بیان کیا گیا ہے وہ اٹل حقیقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی کو اس کے کیے ہی کا اجر ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اعمال جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا اس میں بدل کا کوئی قائل نہیں ہے۔ جیسے نماززکوۃ اس پر فرض ہے جس کے پاس نصاب کے مطابق مال ہے ہمارے گھروں میں بیویوں کے پاس زیورات ہوتے ہیں اور ان کی بڑی تعداد کی اپنی کوئی آمدنی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان پر عائد ہونے والی زکوۃ ان کے شوہر ادا کرتے ہیں۔ جس اصول پر یہ زکوۃ ادا ہو جاتی ہے اسی اصول پر حج بدل بھی ہو سکتا ہے۔ حج کا ایک حصہ مال ہے اور دوسرا سعی و جہد ہے۔ ایک شخص صاحب مال ہے اور سعی و جہد کی سکت نہیں رکھتا اور اس کا حج کرنے کا پختہ ارادہ ہے اس شخص کا اپنے مال سے کسی دوسرے کو اپنی جگہ بھیجنا کیوں رائگاں جائے گا۔تیسری بات کا جواب یہ ہے کہ ارکان دین پانچ ہیں۔ ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت میں کسی کی شرکت کا کوئی سوال نہیں ہے۔ نماز میں ہر معذوری پر رعایت دے کر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ فرد کو خود ہی ادا کرنی ہے۔ روزہ میں قرآن نے تفصیلی احکام دے کر یہ بیان کر دیا ہے کہ یہ بھی ہر مسلمان کو خود ہی رکھنا ہے۔ مستقل معذور کے لیے بھی فقہا نے فدیے کا طریقہ بیان کیا ہے جو بجائے خود قرآن سے ماخوذ ہے۔ زکوۃ ادا کرنے میں دو جگہ شرکت ہو سکتی ہے ایک یہ کہ زکوۃ ادا کرنے میں مطلوب رقم فراہم کرنے میں کوئی مدد کر دے ۔ دوسرے یہ کہ کسی تک زکوۃ کی رقم پہنچانے میں کوئی ہاتھ بٹا دے۔ حج میں معذور ہونے کی صورت میں اپنی آمدنی سے کسی کو اپنی جگہ پر بھیج دے۔

 

(طالب محسن)

قرآن مجید میں روزے کے جو احکام بیان ہوئے ہیں، ان میں عارضی طور پر روزے کا فدیہ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ اجازت ختم کر دی گئی۔'' جو آیت 'شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ' کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے، اُس میں فدیے کی اجازت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حکم کوبعینہٖ دہرا کر اُس میں سے 'وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ،' سے 'اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ' تک کے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔ رمضان کے بعد عام دنوں میں روزہ رکھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے ، اِس لیے جب تک طبائع اِس کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہو گئیں، اللہ تعالیٰ نے اِسے لازم نہیں کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے کہ فدیے کی یہ اجازت اِس لیے ختم کردی گئی ہے کہ تم روزوں کی تعداد پوری کر و اور جو خیروبرکت اُس میں چھپی ہوئی ہے، اُس سے محروم نہ رہو۔''
اصل میں بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ رمضان گزرنے کے بعد چھوٹنے والے روزے پورے کیے جائیں 
میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ ممکن ہے اس کا کوئی حل نکل آئے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کچھ روزے چھوڑ دیا کریں اور رمضان کے بعد تعداد پوری کر لیا کریں۔علما فدیے کا آپشن اب صرف ان مریضوں کے لیے بیان کرتے ہیں جن کا مرض مستقل نوعیت کا ہواور روزے رکھنا اب ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہو۔ میرا خیال نہیں ہے کہ آپ اس نوع سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا مناسب علاج کرائیں اور جب تک ٹھیک نہ ہوں، کچھ روزے چھوڑ کر بعد میں تعداد پوری کر لیں۔آپ نے کہا کہ آپ نقاہت محسوس کرنے کی وجہ سے خوش دلی سے روزے نہیں رکھ پاتیں۔ اگر آپ یہ بات اپنے سامنے رکھیں کہ اس مشقت کو جھیلنے میں آپ کا اجر دوسرے روزے داروں سے زیادہ ہے تو یہ نفسیاتی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔

 

(طالب محسن)

اسلام میں داخل ہونے سے کیا مراد ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور ہمارے پاس ان سے دین سیکھنے اور جاننے کا براہ راست موقع ہو تو کسی فقہ کے ساتھ تمسک کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ عملًا معاملہ یہ ہے کہ ہم قرآن و سنت کے عالم ہوں تب بھی بہت سے معاملات میں ہمیں دوسرے علما کی رائے اور سوچ سے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ عام آدمی جو قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتا وہ علما کی رائے قبول کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رکھتا ہے۔ اس کو یہ مشورہ دینا مہلک ہے کہ تم براہ راست قرآن و سنت سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے اسے اختیار کرو اور کسی عالم کی رائے اور تحقیق کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھو۔ عام آدمی کو صحیح مشورہ یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت ہی کو دین کا ماخذ جانے اور علما سے وہی رائے قبول کرے جو اسے قرآن وسنت کے دلائل پر مبنی لگتی ہو۔ اگر کسی شخص کا اختلاف اس کے سامنے آئے تو وہ اس اختلاف کو اپنی استعداد کی حد تک دلائل ہی کی بنا پر رد کرے اور اس اختلاف کی حقیقت کو سمجھنے میں اپنے دینی رہنما ہی سے مدد لے۔ لیکن اگر اسے محسوس ہو کہ اختلاف کرنے والے کی رائے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہے تو اسے اختیار کرلے اور اپنے گروہ کے ساتھ وابستگی کو تعصب نہ بننے دے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اپنے گروہ کی رائے ساتھ اصرار اگر اللہ اور رسول کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ ہو تو مطلوب ہے۔ تقلید انسانی مجبوری ہے۔ اسے صرف اس وقت برا قرار دینا چاہیے جب یہ حق کے مقابلے میں کھڑی ہو جائے اور بندہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کر دے۔
 

(طالب محسن)

خالص قانونی نقطہ نظر سے ہر آدمی اپنا کوئی حق چھوڑ بھی سکتا ہے اور دوسرے کو تفویض بھی کر سکتا ہے۔ اسی طرح طلاق کا حق بھی مرد عورت کو تفویض کر سکتا ہے۔ طلاق قرآن مجید کی صریح نص کے مطابق مرد کا حق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 'بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ' (بقرہ2: 237)،''اس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔'' اس کا ایک مقصد ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
''یہاں 'بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ' کے الفاظ میں ایک اور نکتہ بھی ہے جو اس دور کے معاشرتی مفکروں اور مصلحتوں کو خاص طور پر نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ وہ یہ کہ نکاح کی گرہ جس طرح مرد کے قبول سے بندھتی ہے، اسی طرح اسی کی طلاق سے کھلتی ہے، گویا یہ سر رشتہ اصلاً شریعت نے مرد ہی کے اختیار میں رکھا ہے۔ '' (تدبر قرآن 1 / 548 ۔ 549)
استاد گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے اپنی کتاب''میزان'' میں ''طلاق کا حق'' کے تحت لکھا ہے:
''سورہ کی ابتدا 'اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ' کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ اِس کے بعد یہاں بھی اور قرآن کے بعض دوسرے مقامات پر بھی طلاق کے احکام جہاں بیان ہوئے ہیں، اِس فعل کی نسبت مرد ہی کی طرف کی گئی ہے۔ پھر بقرہ (2) کی آیت 237 میں قرآن نے شوہر کے لیے 'الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ' (جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ طلاق کا اختیار شریعت نے مرد کو دیا ہے۔ اِس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ عورت کی حفاظت اور کفالت کی ذمہ داری ہمیشہ سے مرد پر ہے اور اِس کی اہلیت بھی قدرت نے اُسے ہی دی ہے۔ قرآن نے اِسی بنا پر اُسے قوام قرار دیا اور بقرہ ہی کی آیت 228 میں بہ صراحت فرمایا ہے کہ 'لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ' (شوہروں کو اُن پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے)۔ چنانچہ ذمہ داری کی نوعیت اور حفظ مراتب، دونوں کا تقاضا ہے کہ طلاق کا اختیار بھی شوہر ہی کو دیا جائے۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ خاندان کا ادارہ انسان کی ناگزیر ضرورت ہے۔ ذمہ داریوں کے فرق اور وصل و فصل کے یکساں
 اختیارات کے ساتھ جس طرح دنیا کا کوئی دوسرا ادارہ قائم نہیں رہ سکتا، اِسی طرح خاندان کا ادارہ بھی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ عورت نے اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت و کفالت کے عوض اگر اپنے آپ کو کسی مرد کے سپرد کر دینے کا معاہدہ کر لیا ہے تو اُسے ختم کر دینے کا اختیار بھی اُس سے معاملہ کیے بغیر عورت کو نہیں دیا جا سکتا۔ یہی انصاف ہے۔ اِس کے سوا کوئی دوسری صورت اگر اختیار کی جائے گی تو یہ بے انصافی ہو گی اور اِس کا نتیجہ بھی لامحالہ یہی نکلے گا کہ خاندان کا ادارہ بالآخر ختم ہو کر رہ جائے گا۔ '' (ص 441)
ان دونوں اقتباسات سے واضح ہے کہ تفویض طلاق ممکن تو ہے، لیکن یہ چیز قرآن مجید کے مقصد سے مناسبت نہیں رکھتی۔

 

(طالب محسن)

جواب:آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
اگر معاہدے میں طے کیا گیا ہے کہ فلاں دن کے بعد زید مذکورہ پراپرٹی کا مالک بن جائے گا’ خواہ بقیہ رقم ادا کرے یا نہ کرے تو زید کو عبید سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، مقررہ مدت کے بعد ملکیت منتقل ہو جائے گی اور زید اس پراپرٹی کو جیسے چاہے استعمال میں لاسکتا ہے اور فروخت بھی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہے کہ ملکیت کی منتقلی کے لیے تمام قیمت ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے تو پھر زید اس پراپرٹی کو عبید کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں کرسکتا۔اگر پلاٹ کے بارے میں ضروری معلومات(جیسے: پلاٹ کس شہر / ٹاؤن میں ہے، اس کی پیمائش، قیمت وغیرہ کیا ہے) فائل میں درج ہیں تو فائلز خرید سکتے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلرز اگر ہاؤسنگ کے بارے میں حقائق بیان کر کے اس کی فائلز سیل کریں تو ان کے لیے کمیشن لینا جائز ہے۔ اس کے برعکس جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ فراڈ سے لوگوں کو پھنسانا حرام ہے۔ 
اگر پراپرٹی کا مالک ڈیلر کو اجازت دے کہ میری یہ پراپرٹی فلاں قیمت پر بیچ دو تو ڈیلر خریدنے والے سے زیادہ قیمت پر طے کر کے بیچ دے تو اضافی رقم اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔(مفتی: محمد شبیر قادری)

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب :اشتہارات سے ہونے والی آمدن کی حلت و حرمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اشتہار کس شے کا ہے؟ جس شے کی تشہیر کی جا رہی ہے حلت و حرمت کے حوالے سے اس کی اپنی حیثیت کیا ہے؟ اگر اشتہارات ایسی مصنوعات کے ہیں جن کا استعمال اسلام میں جائز ہے تو اس سے ہونے والی آمدن بھی جائز اور حلال ہے، اور اگر اشتہارات ممنوعہ اشیاء کے ہیں جیسے: شراب، سور کا گوشت یا فحش فلمیں وغیرہ یا پھر فحش و بیہودہ اشتہارات ہیں تو ان سے حاصل کی جانے والی آمدن بھی جائز نہیں۔
 

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب:آپ نے واضح نہیں کیا کہ آپ لوگ شادی کے بعد پہلا بچہ ہی چار سال تک پیدا نہیں کرنا چاہتے یا ایک بچے کی پیدائش کے بعد چار سال کا وقفہ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر شادی کے بعد بلاوجہ پہلا بچہ چار سال تک پیدا نہیں کرنا چاہتے تو یہ نہ صرف شرعی نقطہ نظر سے ناجائز ہے بلکہ کسی طور بھی فائدہ مند نہیں ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ آپ ایک بچے کی پیدائش کے بعد دوسرا بچہ چار سال بعد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ نہ صرف شرعی نقطہ نظر سے جائز ہے بلکہ ماں اور بچے کی صحت کے لیے ضروری بھی ہے۔ اس سے پہلا بچہ مدت رضاعت پوری کر کے چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے گا اور آنے والا بچہ بھی صحت مند ہوگا۔مانع حمل کا جوطریقہ بھی مستند ڈاکٹر تجویز کرے اپنایا جاسکتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ طبی نقطہ نظر نقصان دہ نہ ہو۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب:ختنہ کروانا سنت مؤکدہ ہے اور یہ سب انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے ختنہ کروانا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر کوئی نہیں کرواتا تو وہ تارک سنت ہو گا۔ادھیڑ عمر مرد اگر مسلمان ہو جائے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ ختنہ کروائے اگر نہیں کروائے گا تو اس کے مسلمان ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ وہ بہرصورت مسلمان ہو گا۔
جن ممالک میں خواتین کے ختنے کئے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، علماء کے درمیان اس معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک ختنہ کرنا جائز اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے۔ ختنہ کا مقصد عورتوں سے شہوت کم کرنا ہے۔ لہذا ہمارے نزدیک بھی عورتوں کا ختنہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ شہوت کا ہونا ان کا بھی حق ہے۔ لہذا اگر کوئی کرواتا ہے تب بھی ٹھیک اور اگر کوئی ختنے نہیں کرواتا تب بھی ٹھیک ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب:جی ہاں غیر اسلامی ملک میں روزگار کے لیے جانے کی شرعی اجازت ہے۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، ساری روئے زمین اللہ رب العزت کی ہے اور اس میں موجود خزانے اللہ تعالی نے اپنے انسانوں کے لیے پیدا کیے ہیں۔ غیر اسلامی ممالک کی دو اقسام ہیں۔دار الکفر،دار الحرب
دار الکفر۔ایسے ممالک جہاں پر حکومت کفار و مشرکین اور غیر مسلموں کی ہو جیسے، امریکہ، یورپ کے سب ممالک، برطانیہ وغیرہ، ان ممالک میں اگرچہ حکومت غیر مسلموں کی ہے لیکن وہاں پر اسلامی تعلیمات پر چلنے کی اجازت ہے۔ ان ممالک میں مسلمان پوری آزادی کے ساتھ اللہ کی عبادت کر سکتے ہیں،اور جمیع اسلامی تعلیمات پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایسے ممالک میں روزگار کے لیے جانے پر شرعی اجازت ہے کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔
دار الحرب ۔ایسا ملک جہاں پر غیر مسلموں کی حکومت ہو ان کا نظام ہو اور وہاں پر اسلامی تعلیمات پر چلنے کی اجازت نہ ہو۔ عبادت کرنے، مساجد کی تعمیر کرنے پر پابندی ہو۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف ظلم ہو رہا ہو، انہیں قتل کیا جا رہا ہو۔ یعنی مسلمانوں کے لئے مشکل ہو کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کر سکیں تو ایسے ممالک میں روزگار کے لئے جانا جائز نہیں ہے، فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ وہاں پر رہنے والے لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی ایسے ممالک سے ہجرت کر کے کسی ایسے ملک میں جائیں جہاں اسلام کی مطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکیں۔ جب ان کو حکم ہے کہ وہ ہجرت کریں تو پھر دوسرے ملک سے دار الحرب جانا مسلمانوں کے لئے بدرجہ اولی ممنوع اور ناجائز ہے۔

 

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب:اگر یہ عمل بار بار نہ ہو بلکہ ایک یا دو بار ایسا کر لیا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ عمل قلیل ہے۔ اس کے برعکس اگر اس نے بار بار ایسا کیا تو عمل کثیر کی بنا پر نماز فاسد ہو جائے گی۔موبائل سامنے رکھے ہونے کی صورت میں نمازی نے دورانِ نماز اگر ایک آدھ مرتبہ موبائل پر آنے والے فون کا نمبر دیکھ کر زبان سے تکلم کیے بغیر اسے بند کر دیا تو اس سے بھی نماز فاسد نہیں ہوگی۔‘‘نمازی نے (دورانِ نماز) ارادتاً یا غیر ارادی طور پر کسی تحریر کی طرف دیکھا اور اسے سمجھ لیا خواہ وہ قرآن یا اس کے علاوہ کوئی تحریر ہے تو ادب کے خلاف ہے لیکن نطقِ کلام نہ پائے جانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔’’
 

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب:چاند گرہن اور سورج گرہن کے حاملہ عورت پر کوئی اثرات واقع نہیں ہوتے۔ یہ احمقانہ اور جہالت پر مبنی باتیں ہیں جو ہمارے معاشرے کے اندر رواج پا گئی ہیں۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب:اگر نمازی کم ہیں اور گرمی کی شدت زیادہ ہے تو آدھے پہلی صف میں اور آدھے دوسری صف میں برابر برابر کھڑے ہو جائیں اور اگر نمازی زیادہ ہیں مثلاً زیادہ صفیں ہوں تو ایسی صورت میں پہلے پہلی صف مکمل کریں پھر دوسری اور اس طرح باقی صفیں۔ نمازی تھوڑے ہونے کی صورت میں جائز ہے اور زیادہ کی صورت میں پہلی صف کو مکمل کیے بغیر جائز نہیں ہے۔
 

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب:اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ڈرامہ، دھوکہ اور فراڈ ہے۔ سادہ لوح لوگوں سے جاہل عاملوں کا پیسے بٹورنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ سب جہالت اور سادگی ہے اور عاملوں کا دھوکہ اور فراڈ ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب:فرض نماز کی ادائیگی اس کے وقت میں ہی درست ہے، چاہے اذان کے بعد ادا کی جائے یا اذان سے پہلے’ نماز کا وقت شروع ہونے سے پہلے ادا کی گئی نماز درست نہیں۔اذان’ نماز کا وقت شروع ہونے کا اعلان نہیں ہوتا بلکہ نماز کا وقت اس سے پہلے ہی شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ اذان کا مقصد جماعت کے لیے لوگوں کو اکھٹا کرنا ہوتا ہے اس لیے اذان نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔ اگر آپ نے بھی فجر کے وقت میں نمازِ فجر ادا کی ہے تو نماز ہوگئی، قضاء پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر نماز کا وقت ہی شروع نہیں ہوا تھا تو نماز لوٹانا ضروری ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب:موسیقی فی نفسہ ممنوع نہیں ہے۔ تاہم جب اس کے ساتھ فحش کلام اور عریاں رقص کو شامل کر لیا جائے تو اس کی خرید و فروخت کر کے اسے فروغ دینا قطعاً حرام ہو جاتا ہے۔ اگر اپنی ویب سائٹ پر آپ فحش گانے اور عریاں ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں تو اس کی آمدنی ناجائز ہے، ورنہ نہیں۔
 

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب:کھڑے ہو کر کھانا پینا شرعاً جائز ہے
‘‘حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا جبکہ وہ حویلی کے دروازے کے پاس تھے تو انہوں نے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا اور ارشاد ہوا کہ اگر کوئی آدمی کھڑا ہو کر پانی پیئے تو کچھ لوگ اسے مکروہ جانتے ہیں حالانکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے’’۔(بخاری الصحیح، 5: 2130، باب الشرب قائما، رقم: 5292، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت)
‘‘عبد الملک بن میسرہ کا بیان ہے کہ میں نے نزال بن سبرہ سے سنا کہ انہوں نے نمازِ ظہر پڑھی، پھر لوگوں کی حاجت روائی کرنے کے لئے کوفہ کی جامع مسجد کے سامنے والے چبوترے پر بیٹھ گئے، یہاں تک کہ نمازِ عصر کا وقت ہوگیا۔ پھر آپ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا تو آپ نے نوش فرمایا اور اپنے منہ ہاتھ دھوئے۔ شعبہ راوی نے سر اور پیروں کا بھی ذکر کیا ہے پھر آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے کھڑے بچا ہوا پانی نوش فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بعض لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ جانتے ہیں حالانکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا جیسے میں نے کیا ہے۔’’
بخاری، الصحیح، 5: 2130، رقم: 5293
‘‘جان لیجئے کہ کھڑے ہو کر پینے کی حدیثیں بھی آئی ہیں اور منع کی بھی جواز کی حدیثوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں امام بخاری نے یہاں روایت کیا ہے اور حدیث ابن عمر جسے ترمذی نے نافع سے ذکر کیا ہے اور کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں چلتے پھرتے کھانا کھاتے تھے اور کھڑے ہو کر پیتے تھے۔
پھر ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے ابن ماجہ اور ابن حبان نے ذکر کیا ہے۔ اور حدیث سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جسے ترمذی نے شمائل میں ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر پیتے تھے، اس کی سند حسن ہے اور حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جسے امام نسائی نے مسروق کے حوالہ سے ان سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھے ہوئے پیتے دیکھا ہے اور حدیث انس رضی اللہ عنہ جسے امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں ذکر فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، مشکیزہ لٹک رہا تھا، سرکار نے اس کے منہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث، جسے ہم نے اپنے شیخ زین الدین رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے، جسے انہوں نے فوائد ابوبکر شافعی کے دسویں جزء میں زیاد بن المنذر عن بشیر بن غالب عن حسین بن علی کی روایت سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا ہے اور خباب بن الارت کی حدیث جسے ہم نے اپنے شیخ اور وہ حضرت مجاہد سے طبرانی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا ہمیں سخت پیاس لگی، ہمارے پاس پانی نہ تھا ہم میں سے ایک صاحب کی اونٹنی بیٹھی ہوئی تھی دیکھتے کیا ہیں کہ اس کے پاؤں کے درمیان مشکیزے کی طرح دودھ سے بھرا ہوا ہے تو ہم نے اس کا دودھ پیا۔ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں یہ فعل صحابہ کرام کا ہے جو مرفوع کے حکم میں ہے اور معجم صغیر طبرانی حضرت سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پانی کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے اور ام سلیم کی حدیث مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے گھر میں مشکیزہ لٹک رہا تھا آپ سرکار نے اس سے کھڑے ہو کر پانی پیا اور حدیث کبشہ جسے ترمذی اور ابن ماجہ نے ان سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے مشکیزہ سے کھڑے کھڑے پانی پیا اور حدیث کلثم جسے ابو موسیٰ المدینی نے اپنی کتاب معرفۃ الصحابہ میں ان سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور لٹکے ہوئے مشکیزے سے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث جسے امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑے اور بیٹھے پانی پیتے دیکھا ہے اور عبد اللہ بن سائب بن خباب عن ابیہ عن جدہ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ نے مشکیزہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا۔ اسے محمد بن ابی حاتم الرازی نے سند صحیح سے روایت کیا ہے’’۔(بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، 21: 193، دار احیاء التراث العربی بیروت)
منع کی روایت:
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے:
‘‘اگر کھڑے ہو کر پینے والے کو معلوم ہو تو قے کر دے’’۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر ہرگز نہ پئے بھول ہو جائے تو قے کر دے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے ڈانٹا ہے یونہی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹا ہے۔ ترمذی نے جارود بن المعلی سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اہل ظاہر نے ان احادیث سے کھڑے ہو کر پینے کو حرام کہا ہے۔
تطبیق:
1۔ نہی محمول ہے مکروہ تنزیہی پر تحریمی پر نہیں۔ اسی قول کی طرف وہ آئمہ گئے ہیں جو حدیث و فقہ میں مطابقت کرتے ہیں جیسے الخطابی، ابو محمد بغوی، ابو عبد اللہ المازری، قاضی عیاض، ابو العباس القرطبی، ابو زکریا النووی رحمھم اللہ تعالٰی۔
2۔ یہاں کھڑے ہو کر پینے والے سے مراد چلتے پھرتے پینے والا ہے ۔
3۔ یہ ارشاد اس صورت پر محمول ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں کیلئے مشروب لائے اور کھڑے کھڑے پہلے خود پینا شروع کر دے یہ معنی ابو الولید الباجی اور المازری نے ذکر کیا ہے۔
4۔ کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کی حدیثیں ضعیف ہیں یہ قول مالکیہ کی ایک جماعت نے کیا ہے جن میں علامہ ابو عمر ابن عبد البر بھی شامل ہیں اور اس قول میں گفتگو کی گنجائش ہے۔
5۔ منع کی حدیثیں منسوخ ہیں یہ بات ابو حفض بن شاھین اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں کہی ہے۔
6۔ ابن حزم ظاہری نے کہا منع کی حدیثیں کھڑے ہو کر پینے کی روایات کی ناسخ ہیں۔
7۔ امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا صحیح تر بات یہ ہے کہ یہ ممانعت مکروہ تنزیہی کو ثابت کرتی ہے رہا سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کھڑے ہو کر پینا تو یہ بیان جواز کیلئے ہے۔ لہٰذا کوئی اشکال و تعارض نہیں ۔
علامہ بدر الدین عینی، عمدۃ القاری، شرح بخاری، 21: 193
فقہائے اسلام:
‘‘کھڑے ہو کر پینے میں کوئی حرج نہیں ہے چلتا پھرتا نہ پیئے مسافروں کے لیے اسکی رخصت ہے اور ایک سانس میں نہ پیئے’’۔
(الشیخ نظام و جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، 5: 341، دار الفکر)
خلاصہ کلام:
خلاصہ ان تصریحات شرعیہ کا یہ ہے کہ معذور افراد کیلئے تو ویسے ہی ہر قانون میں رعایت و استثناء موجود ہے وہ نماز، روزہ، حج اور کھانے پینے میں اس شرعی رعایت سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن کھڑے ہو کر کھانے پینے میں غیر معذور افراد کو بھی گناہ گار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولیٰ کہہ سکتے ہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب:اگر کسی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی آمدنی مکمل یا اکثر حرام ہے، تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی کی آمدنی کے حلا ل و حرام ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ غیرمسلم ممالک میں نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کی حلال وحرام مخلوط آمدنی اس کے حق میں ہے، ملازم کے حق میں تو اس کی اجرت ہے۔ جہاں تک مسئلہ بینک کے سود کا ہے تو سود خواہ بینک کے ذریعہ ہو یا کسی بھی ذریعہ سے ہو وہ حرام ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :قسم کھانے سے احتراز بہتر ہے، تاہم اگر کسی نے جائز امر کی قسم کھائی ہے تو اسکو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ لیکن اگرکوئی اپنی قسم پوری نہ کرسکے تو توبہ واستغفار کرے اورقسم توڑنے کا کفارہ دے۔ کفارہ میں دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا کپڑے دیدے۔ اگر ان دونوں کی استطاعت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ماتطعمون اہلیکم او کسوتہم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: جھینگے کی حلت و حرمت کا دارومدار اس پر ہے کہ جھینگا مچھلی ہے یا نہیں؟ ماہرین لغت اس کو مچھلی کی ہی ایک قسم مانتے ہیں۔ جبکہ حیوانات کے ماہرین اس کو مچھلی تسلیم نہیں کرتے ۔ اس لئے جو حضرات اس کو مچھلی قرار دیتے ہیں وہ حلال کہتے ہیں اور جو اس کو مچھلی نہیں مانتے وہ اس کو حرام کہتے ہیں۔ زیادہ راجح اس کا مچھلی ہونا ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :رواداری کی مصلحت کے پیش نظر رمضان میں غیر مسلم کی طرف سے افطار کی دعوت میں شرکت کرنا درست ہے، بشرطیکہ اس کو کوئی سیاسی رخ نہ دیا جائے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: مشروم بارش کے بعد زمین سے اگنے والی ایک سفید نباتات ہے، جس میں کسی طرح کی کوئی قباحت شرعاً نہیں ہے۔ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے اس لئے مشروم کھانا جائز ہے۔ البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مشروم زہریلا نہ ہو کیونکہ بعض مرتبہ زہریلا مشروم بھی زمین سے اُگ آتا ہے؛ اس لئے احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:اگر کوئی خلاف شرع امر نہ پایا جائے،کوئی مذہبی موقع نہ ہو، اسی طرح کسی مفسدہ کا خطرہ نہ ہو تو اگرکھانا حلال ہے تو دعوت میں جانا بھی درست ہے اور دعوت دے کر اپنے گھر مہمان نوازی کرنا بھی درست ہے۔ مسلمانوں کو غیروں سے بھی معاملات اچھے رکھنے چاہئیں۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: کھیل کے سلسلے میں شریعت کے بنیادی اصول یہ ہیں۔ جن کھیلوں کی احادیث و آثار میں ممانعت آگئی ہے وہ ناجائز ہیں جیسے نرد،شطرنج کبوتر بازی اور جانوروں کو لڑانا ۔ جو کھیل کسی حرام و معصیت پر مشتمل ہوں وہ ا س معصیت یا حرام کی وجہ سے ناجائز ہوں گے ۔ جو کھیل فرائض اور حقوق واجبہ سے غافل کرنے والے ہوں وہ بھی ناجائز ہیں ۔جس کھیل کا کوئی مقصد نہ ہو بلا مقصد محض وقت گزاری کے لیے کھیلا جائے وہ بھی ناجائز ہوگا کیوں کہ یہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ایک لغو کام میں ضائع کرنا ہے۔ جو کھیل بدن کی ورزش، صحت اور تندرستی باقی رکھنے کے لیے یا کسی دوسری دینی و دنیوی ضرورت کے لیے یاکم از کم طبیعت کا تکان دور کرنے کیلیے ہوں اوران میں غلو نہ کیا جائے کہ انہی کو مشغلہ بنالیا جائے اور ضروری کاموں میں ان سے حرج پڑ نے لگے تو ایسے کھیل شرعاً مباح اور دینی ضرورت کے نیت سے ہوں تو ثواب بھی ہے۔

 مذکورہ بالا اصول کو سامنے رکھ کر سوال میں مذکورہ کھیلوں کا جائز ہ لیا جاسکتاہے۔سوال میں اسنوکر اور بلئیر کا تذکرہ ہے جس کی حقیقیت اور کیفیت کا ہمیں علم نہیں ہے اس لیے اس کا حکم ذکر کرنے سے گریز ہے۔ تاش:کھیلنے کو فقہاء نے منع کیا ہے اس لیے کہ اس میں ایک تو تصاویر ہوتی ہیں اور بالعموم اس سے جوا کھیلا جاتا ہے، فساق و فجار کے کھیلنے کا معمول ہے، اسی طرح انہماک بھی غیر معمولی ہوتا ہے، اس لیے تاش کھیلنا ناجائز ہے۔ہاں تعلیمی تاش جس میں حروف سے الفاظ بنائے جاتے ہیں جو بذات خود تعلیمی طور پر مفید ہے عام طور پر اس سے جوا نہیں کھیلا جاتا ہے اس لیے اگر اس میں بے جاانہماک نہ ہو تو جائز ہے۔ کیرم بورڈ: اس کھیل میں بذات خود کوئی بات ناجائز نظر نہیں؛ البتہ اس میں بعض اوقات انہماک اتنا ہوجاتا ہے جو فرائض سے غافل کردیتا ہے ایسا انہماک بالکل ممنوع ہے البتہ جسمانی یا ذہنی تھکن دور کرنے کے لیے دوسرے ممنوعات سے بچتے ہوئے اگر کچھ وقت کے لیے کھیل لیا جائے تو گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ لوڈو:کا بظاہر وہی حکم ہے جو کیرم بورڈ کا ہے بشرطیکہ کوئی اور ممنوع چیزمثلاً تصویر وغیرہ نہ ہو۔ وڈیوگیمز: جدید کھیلوں میں اس کا رواج بہت بڑھ رہا ہے اصولی طور پر یہاں بھی کھیلوں کے مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھا جائے گا وڈیوگیمز میں اگر جاندار کی تصاویر ہوں تو یہ جائز نہیں ہے۔اوراگر جاندار کی تصاویر نہ ہوں بلکہ گاڑی یا جہاز کی تصاویر وغیرہ ہو اور صرف تفریح کے لیے کھیلا جائے تو ان شرائط کیساتھ جائز ہوگا۔ اس میں جوا شامل نہ ہو۔ نماز ضائع نہ ہو۔ حقوق العباد پامال نہ ہوں ۔ پڑھائی اور ضرور ی کام متاثر نہ ہوں ۔ اسراف نہ ہو۔ مذکورہ تمام کھیل مذکورہ شرائط کے ساتھ جائز ہیں لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ان شرائط کی رعایت نہیں ہوپاتی ہے بلکہ بعض کھیل جنون کی حد تک پہنچ جاتے ہیں جیسے وڈیو گیمز وغیرہ اس لیے گو اصولی طور پر یہ جائز ہیں لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے عدم جواز تک پہنچ جاتے ہیں اس لیے اس طرح کے کھیلوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: بکر نے دودھ پیا تو بکر سے رضاعت ثابت ہوگی اور بکر کے لئے رضاعی بہن سے یا اس کی اولاد سے نکاح حرام ہوگا، لیکن زید کا اس رضاعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے زید کا نکاح اسی خالہ کی لڑکی سے درست ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: عورت مسلمان ہو کر کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے، وہ مسلمان ہونے کے بعد تین حیض گزار لے اور پھر نکاح کرے تو نکاح درست ہوجائے گا۔ اسلام لانے کے بعد تین حیض گزرنے سے خود بخود نکاح ختم ہوجائے گا۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ اور اگر بھول جائے تو یاد آنے پرکھانے کے درمیان بسم اللہ اولہ وآخرہ پڑھنا حدیث شریف سے ثابت ہے (ترمذی شریف)۔ کھانے کے درمیان بسم اللہ، الحمدللہ وغیرہ کی صراحت والی کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری تاہم نعمت خداوندی پر شکرگزاری کی روایات بکثرت ہیں۔ اس لئے اگر بغیر لازم سمجھے کوئی ذکر کرے تو مباح و درست ہے، اس میں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: مذکورہ شخص اگر قرآن کریم حفظ پڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، قرآن کریم اچھی طرح پڑھنا جانتا ہے تو حفظ پڑھانے کے لئے اس کا تقرر درست ہے۔ حفظ پڑھانے کے لئے خود حافظ ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر خود بھی حافظ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ باقی تین سال میں حفظ مکمل کرلینے کا وعدہ ہے تو محنت کرنی چاہئے، لیکن اگر حفظ مکمل نہ کرسکے تو بھی اس کا عہدہ پر بحال رہنا اور تنخواہ لینا جائز ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب : اپنی زمین کسی کو اس طرح کرایہ پر دینا کہ اس میں جو بھی غلہ پیدا ہوگا وہ مالک زمین اور کاشتکار میں نصف نصف تقسیم ہوگا، یہ معاملہ درست ہے۔ البتہ اس کا خیال رہے کہ غلہ کی پیداوار کم یا زیادہ بھی ہوسکتی ہے اس لئے فی صد ہی متعین ہو، اگر کسی نے اپنے لئے کچھ غلہ متعین کرلیا کہ پیداوار جو بھی ہو مجھے اس میں سے اتنی مقدار پہلے نکال دی جائے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: بیع ایک عقد ہے جسے پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صورت مذکورہ میں اس کی نیت ہے کہ خرید کر کام کرکے واپس کردوں گایعنی عقد کے ساتھ ہی عقد کو ختم کرنے کی نیت کرنا ہے جو کہ اوفوا بالعقود کے خلاف ہے اس لئے مشتری کا یہ عمل کہ خرید کر واپس کردوں گا یہ درست نہیں ہے۔ نیز واپس کرنے میں ایک قسم کا دھوکہ بھی شامل ہے اس لئے کہ واپس کرنے والا بظاہر یہ نہیں کہتا ہے کہ میری ضرورت پوری ہوگئی اس لئے واپس کررہاہوں، بلکہ وہ اپنے عمل سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ چیز میں لے کر گیا تھالیکن مجھے یہ سامان پسند نہیں ہے، اس لئے میں واپس کررہا ہوں اس طرح وہ نفع اٹھانے کو چھپاتاہے جبکہ اس نے نفع اٹھاکر سامان کو کسی نہ کسی درجہ میں عیب دار بنادیا ہے۔البتہ اگر وہ بائع کو صاف بتادے کہ میں نے سامان خریدا تھا پھر کچھ استعمال کیا اور اب واپس کرنا چاہتاہوں اور بائع سامان واپس لے لے تو کوئی خرابی نہیں ہے، لیکن صورت مذکورہ ایک دھوکہ ہے جو کہ کسی صورت جائز نہیں۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب : آپ کے سوال سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ وخیرات کے لئے قرض لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہی مقصد ہے تو قرض لینا جائز ہے لیکن قرض لینے سے حتی الامکان احتراز کریں۔ نفلی صدقہ وخیرات واجب نہیں ہیں، نہ دیں تو کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، لیکن اگر قرض ادا نہ کرسکے تو عنداللہ مواخذہ ہوگا۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب : کرایہ کے مکان وغیرہ میں اصلاح و مرمت کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے اس لیے کہ کرایہ دار نفع وصول کرتا ہے اور اس نفع کے عوض وہ اجرت دیتاہے اس لیے کرایہ کے سامان میں اگر کوئی خرابی ہوتی ہے اس کی ذمہ داری مالک کے اوپر ہوتی ہے۔تاہم اگر دونوں باہم مشورہ سے یہ طے کرلیں کہ کرایہ کے سامان میں اصلاح و مرمت کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی اور جن چیزوں کی اصلاح کی بات کی گئی ہے وہ متعین بھی ہے تواس طرح کی شرط لگانا درست ہے اور خراب ہونیکی صورت میں اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی۔تاہم مذکورہ مسئلہ میں جو خرابی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری مالک پر ہوگی کرایہ دار پر نہیں ہوگی اس لیے کہ کرایہ دار پر اصلاح و مرمت کی ذمہ ڈالنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر کرایہ دار کی کوتاہی اور غلطی سے سامان خراب ہوا تو اس کی اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی جب کی یہاں پر جو سامان خراب ہوا ہے اس میں کرایہ دار کی کوئی غلطی نہیں ہے اس لیے ان چیزوں کی اصلاح کی ذمہ داری مالک مکان پر ہوگی۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

 جواب:ایسی صورت میں قرآن شریف اٹھاکر بوسہ دیدینا ہی کافی ہے، کسی طرح کا صدقہ وغیرہ لازم نہیں ہے۔ اس کو ضروری نہ سمجھنا چاہئے۔ البتہ اگر اس غلطی کے بعد ثواب کی نیت سے کچھ صدقہ کردے تو بہتر ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب : وطن سے محبت ایک فطری چیز ہے، اور احادیث حب وطن کے جواز پر دلالت کرتی ہیں تاہم مذکورہ جملہ حدیث کی کتابوں میں ہمیں نہیں ملا۔ ہوسکتا ہے کسی نے اپنی طرف سے بیان کیا ہو اور یہ مطلب لیا ہو کہ وطن سے محبت ایمان کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب : ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛ البتہ دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ان شاء اللہ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب : مسواک جس طرح مردوں کے لئے سنت ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی سنت ہے۔ اگر مسواک کرنے میں کوئی دشواری ہو یا مسواک نہ ہو تو انگلی کا استعمال اس کے قائم مقام ہوجاتاہے ۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

ج ۔آپ پر واجب یہ ہے کہ اسے نصیحت کرتے رہیں اور اسے سگریٹ پینے کے نقصان بتلاتے رہیں اور ایسی چیز تلاش کریں جو اس کے اور سگریٹ کے درمیان حائل ہو سکے۔ ان باتوں پر آپ کو اجر ملے گا اور اگر آپ اس کے فعل پر راضی نہیں تو آپ پر کچھ گناہ نہیں۔ بلکہ آپ نے تو بیوی پر گرفت کی اور اسے نصیحت کی ہے۔ آپ پر واجب ہے کہ نصیحت کرتے جائیں اور جب یہ سمجھیں کہ وہ اس سے باز نہیں آتی تو اگر اس بات پر اسے سرزنش کرنی پڑے تو وہ بھی کریں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے ہدایت کی دعا کرتے رہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔برونائی دارالسلام میں منعقدہ آٹھویں اسلامی فقہی کانفرنس کے متفقہ فیصلے کے مطابق اگر مریضہ کے طبّی چیک اَپ کے لیے لیڈی ڈاکٹر موجود ہو تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ بذاتِ خود چیک اَپ کا فریضہ سرانجام دے اور اگر مسلمان لیڈی ڈاکٹر میسّر نہ ہو تو غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر بھی اْسے چیک کرسکتی ہے اور اگر غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر میسر نہ ہوتو مسلمان ڈاکٹر یہ فریضہ سرانجام دے سکتا ہے اور اگر مسلمان ڈاکٹر میسر نہ ہو تو پھر غیر مسلم ڈاکٹر چیک اَپ کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ مرض کی تشخیص اور علاج کی غرض سے عورت کے بدن کے متاثرہ حصے کو ہی دیکھے اور حتی المقدورغض بصر سے کام لے اور پھر عورت کے علاج معالجے کا معاملہ،خلوتِ محرّمہ کے ارتکاب سے بچنے کے لئے خاوند یا محرم یا قابل اعتماد عورت کی موجودگی میں ہو۔ بعض مریض خواتین ڈاکٹر کے کہنے سے پہلے ہی بغیر کسی مصلحت اور ضرورت کے اپنے بدن کا کوئی حصہ کھول دینے میں حرج محسوس نہیں کرتیں حالانکہ اْنہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔دودھ پلانا منع نہیں پلانے والی اپنی طاقت دیکھ لے جیسے سحری کھانے کے بغیر روزہ رکھنا منع نہیں۔ روزہ دار اپنی طاقت دیکھ لے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔حائضہ عورت قرآن کریم کی زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ حائضہ کی تلاوتِ قرآن کریم کی ممانعت پر بعض روایات تو موجود ہیں لیکن وہ تمام روایات یا تو ضعیف ہیں یا ان میں حرمت کا واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔

ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:

 " حائضہ عورت اور جنبی شخص قرآن میں سے کچھ بھی نہ پڑھے " سنن ترمذی حدیث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنی ( 1 / 117 ) سنن البیھقی ( 1 / 89 ).

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ یہ اسماعیل بن عیاش حجازیوں سے روایت کرتے ہیں، اور اس کا حجازیوں سے روایت کرنا ضعیف ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث کا علم رکھنے والوں کے ہاں بالاتفاق یہ حدیث ضعیف ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

حائضہ عورت کی تلاوت کی ممانعت میں کوئی صریح اور صحیح نص نہیں ملتی۔ اور ان کا کہنا ہے: کہ یہ تو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی عورتوں کو حیض آتا تھا، لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن کی تلاوت سے منع نہیں کیا، جس طرح کہ انہیں ذکر و اذکار اور دعاء سے منع نہیں فرمایا۔

فلہٰذا حائضہ عورت زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ جہاں تک قرآن کو دیکھ کر پڑھنے کا تعلق ہے تو راجح قول کے مطابق حائضہ عورت قرآن کو دیکھ کر پڑھ تو سکتی ہے لیکن وہ قرآن مجید کو چھونے سے گریز کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے:لا یمسہ الا المطہرون‘‘ اسے پاکبازوں کے علاوہ اور کوئی نہیں چھوتا‘‘۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔عورت اگر عورتوں کوہی پڑھاتی ہوتو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور اگر مردوں کو پڑھاتی ہو تو اس میں چونکہ فتنے کا اندیشہ ہے ،لہذا احتیاط بہتر ہے۔لیکن مجبوری کی حالت میں پڑھا بھی سکتی ہے ،جب کوئی مرد دستیاب نہ ہو،اور شرعی پردے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔سنت ،مستحب اور نفل ایک ہی چیز کے تین نام ہیں۔یعنی ہر وہ عمل جس کا شارع نے حکم دیا ہو ،لیکن اس کی تاکید نہ فرمائی ہو۔فرض اور واجب میں جمہور اہل علم کے ہاں کوئی فرق نہیں ہے۔صرف احناف فرق کرتے ہیں۔احناف کے ہاں ہر وہ حکم جو قطعی ذریعہ سے حاصل ہو وہ فرض ہے اور جو ظنی ذریعہ سے حاصل ہو ہو واجب ہے۔ نہیں! ان اصطلاحات کو استعمال کرنا تقلید نہیں ہے،یہ اصطلاحات اہل علم ہی استعمال کرتے ہیں اور وہ اپنے اجتہاد سے ان کا نفاذ کرتے ہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

س ۔دوسری شہید خاتون کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے،ہاں البتہ اسلام کی پہلی شہید خاتون کے بارے میں آتا ہے کہ وہ سیدنا عمار بن یاسر کی والدہ محترمہ سیدہ سمیہ بنت خیاط تھیں ،جنہیں بد بخت ابو جہل نے نیزہ مار کر شہید کردیا تھا۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج ۔کتا بو ں کی طرف مراجعت اور اجتہا د کر نے کے بعدوہ جوا ب دو جس کے بارے میں ظن غا لب یہ ہو کہ وہ صحیح ہے اور اس طرح سوالوں کے جواب دینے میں کو ئی حر ج نہیں جب کسی جوا ب کے بارے میں شک ہو اور واضح نہ ہو کہ صحیح جواب کیا ہے تو کہہ دو اس جوا ب کا مجھے معلوم نہیں اور طا لبات سے یہ وعدہ کر لو کہ تحقیق کر کے اس کا جواب بتا ؤں گی پھر کتا بوں کا مطا لعہ کر و یا اہل علم سے اس کا جوا ب پوچھ لو تا کہ معلوم ہو جا ئے کہ صحیح جواب کیا ہے ۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے شعائر اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور ایسے مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے جو غیر مسلموں کے شعائر اختیار کرتے ہیں۔ صورت مسؤلہ میں اگر تو واقعتا ایسا ہے کہ زیورات کی یہ جو صورتیں متعین ہیں اور ہندو مذہب میں بطور شعائر معروف ہیں تو ان سے مسلمان عورتوں کو اجتناب کرنا چاہیے۔ یہاں کسی مولوی صاحب کے کہنے کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ آپ کو خود یہ سروے کرنا ہو گا کہ زیورات کی یہ دو قسمیں ہندو مذہب میں عورتوں کا مذہبی شعار ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو ممنوع ہے اور اگر نہیں ہیں تو محض مخصوص ڈیزائن کے زیورات اگر غیر مسلم عورتیں پہنتی ہوں تو ان کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔سجدۂ شکر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی مصیبت دور ہو جائے یا انسان کو کوئی نعمت حاصل ہو۔ یہ سجدہ اسی طرح ہے جس طرح نماز سے باہر کا سجدہ تلاوت ہوتا ہے۔ بعض علماء کی رائے ہے کہ سجدہ شکر بھی باوضو ہونا چاہیے اور اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے۔ بعض کی رائے ہے کہ صرف سجدہ کو جاتے وقت اللہ اکبر کہا جائے، پھر سجدہ میں گر جائے اور ‘‘سْبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی’’ پڑھنے کے بعد دعا کرے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔شاعری بمثل کلام کے ہے،اچھی شاعری اچھا کلام ہوتی ہے اور بری شاعری برا کلام ہوتی ہے۔بذات خود شاعری مذموم یا ممدوح نہیں ہے،اس کا حکم اس کے معانی اور موضوع کے مطابق ہوگا۔جس طرح براکلام ممنوع اور حرام ہے اسی طرح بری شاعری ممنوع اور حرام ہے۔امام ابن قدامہ فرماتے ہیں ‘‘ شعر کے مباح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف میں سے بھی مکرم لوگ شعر کہا کرتے تھے،نیز لغت عرب کی معرفت اور تفسیر میں استشہاد کے لئے شعر عربی کی ضرورت پڑتی ہے۔ شعر سے کلام الہی اور کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی کی معرفت ہوتی ہے اور اس سے نسب ،تاریخ اور ایام عرب پر استدلال کیا جاتا ہے۔ ’’متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھا کرتے تھے ،سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو آپ نے خود حکم دے کر شعر کہنے کو کہا۔ قرآن وحدیث میں جن شعروں یا شاعروں کی مذمت آئی ہے ان سے مراد ایسے شعر ہیں جو خلاف شرع ہوں ،شرک و بدعت اورجھوٹ پر مبنی ہوں۔لیکن جن شعروں میں تفقہ فی الدین ،اسلام کی سربلندی ،شان صحابہ اور عظمت اسلام کے موضوعات بیان کئے گئے ہوں ایسے اشعار مستحسن اور جائز ہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِن یَکَادْ الَّذِینَ کفَرْوا لَیْزلِقْونَکَ بِاَبصَٰرِھِم-القلم:51

’’اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ وہ الگ الگ دروازے سے داخل ہوں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:‘نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔’’سنن ابی داود، الطب، باب فی الطیرۃ، حدیث: ۲۵۳۹ وجامع الترمذی، الاطعمۃ، باب ماجاء فی الاکل مع المجزوم، حدیث: ۱۸۱۷

اسی طرح امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ‘‘میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔’’ یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (مَن تَتَّہِموْنَ ) ‘‘تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔’’سنن ابن ماجہ الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی)

 پھر آپ نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔’’

واقعات سے بھی نظر بد لگنے کی شہادت ملتی ہے، بلاشبہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

نظر بد لگنے کی حالت میں درج ذیل شرعی علاج استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔

 دم کرنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

‘‘ جھاڑ پھونک یادم نظر لگنے یا کے لیے ہے۔’’

جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:

بِاسمِ اللّٰہِ اَرقِیکَ، مِن کْلَّ شَیءٍ یْوذِیکَ، مِن شَرِّ کْلِّ نَفسٍ اَو عَینٍ حَاسِدٍ، اَللّٰہ یَشفِیکَ، بِاسمِ اللّٰہِ اَرقِیکَ(صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶)۔

‘‘اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔’’

۲۔ دھونا: جیسا کہ سابقہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا (کہ وہ خود کو دھوئیں) اور پھر اس پانی کو مریض پر انڈیل دیا جائے۔

نظر لگانے والے کے بول و براز کو مذکورہ مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اسی طرح اس کے پاؤں کی مٹی کو استعمال کرنا بھی بے اصل بات ہے، ثابت وہی ہے جس کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کے اعضا اور ازار کے اندرون کو دھلایا جائے گا اور شاید اسی کی مثل اس کے رومال، ٹوپی اور قمیض وغیرہ کو بھی اندر سے دھلانا ہو۔ واللہ اعلم

نظر بد سے پیشگی حفاظت تدبیر اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ایسا کرناتوکل کے منافی بھی نہیں بلکہ یہی عین توکل ہے، کیونکہ یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر اعتماد کرنا اور ان اسباب کو اختیار کرنا ہے جن کو اس نے مباح قرار دیا یا جن کے استعمال کا اس نے حکم دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے:اَعِیذْکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِن کْلِّ شَیطَانٍ وَّھَامَّۃٍ وَمِن کْلِّ عَینٍ لَامَّۃٍ-BBصحیح البخاری، احادیث الانبیاء ، باب ۱۰، ح: ۳۳۷۱وسنن ابن ماجہ، الطب، باب ما عوذ بہ النبی وما عوذ بہ، ح: ۳۵۳۵،

‘‘میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان اور زہریلی بلا کے ڈر سے اور ہر لگنے والی نظر بد کے شر سے۔’’

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسماعیل واسحاق علیہما السلام کو اسی طرح دم کیا کرتے تھے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب: اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ بیرون مسجد، پارکس، مکانات وغیرہ میں جو جماعت کا اہتمام ہوتا ہے، اس میں نماز باجماعت تو یقینا ادا ہوگی لیکن مسجد کا ثواب نہیں ملے گا۔ اگر پانچ روزہ یا دس روزہ تراویح و ختم قرآن سے لوگ یہ سمجھ لیں کہ بس ایک قرآن ختم ہوگیا، اب تراویح سے بھی فارغ، تو یہ طرز عمل اور سوچ بالکل غلط ہے، تراویح پورے ماہ رمضان کی سنت ہے، لہذا جن لوگوں کا ختم قرآن ستائیسویں کو ہوتا ہے، ان کو بھی چاہئے کہ بقیہ دنوں کی تراویح باقاعدگی سے پڑھیں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ کھول لیتے تو فرماتے: پیاس چلی گئی، رگیں تر ہوگئیں، اور انشاء اللہ اجر ثابت ہوگیا ہے، (مشکوٰۃبحوالہ ابوداؤد)’’۔ دوسری حدیث میں ہے: معاذبن زہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار فرمالیتے تو یہ دعا پڑھتے: اللٰھم لک صمت وعلیٰ رزقک افطرت۔‘‘اے اللہ! میں نے تیری رضا کے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطا کردہ پر افطار کیا’’۔

حدیث مبارک کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ افطار سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اظہار بندگی اور تشکر نعمت باری تعالیٰ کے لئے یہ دعا فرماتے۔ امام احمد رضا خان قادری فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ ملا علی القاری شارح مشکوٰۃ نے بھی یہی لکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد یہ دعا مانگتے تھے، اور ابن المبارک نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ ‘‘ای قرا بعد الافطار’’ یعنی آپ افطار کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ اور اگر کوئی شخص اس دعاء کو ‘‘قبل افطار’’ پر محمول کرتا ہے تو وہ بلا ضرورت حدیث میں تاویل کرتا ہے، یعنی اس صورت میں کلمات حدیث ‘‘اذا افطر’’ کے معنی یہ کرنا پڑیں گے کہ ‘‘ای اذا اراد الافطار’’ یعنی جب آپ افطار کا ارادہ فرماتے، اور بلاضرورت حدیث پاک میں اپنی من پسند تاویل کرنا درست نہیں ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: جی نہیں، دس سالہ بچی پر روزہ فرض نہیں ہے، البتہ وہ شوق سے نفلی روزہ رکھ سکتی ہے۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر علامات بلوغ ظاہر ہوجائیں تو اس پر بلوغت کا حکم لگایا جائے گا اور اس پر احکام شرعیہ فرض ہوجائیں گے، اور کم از کم نو سال کی عمر میں بلوغت ممکن ہے، اگر علامات ظاہر نہ ہوں تو پندرہ سال پورے ہونے پر بالغ تصور کیا جائے گا۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: یہ اطمینان کی بات ہے کہ خواتین کے علاج اور آپریشن کے لئے خواتین ڈاکٹر موجود ہیں۔ شہوت کے لئے ستر کو دیکھنا اور چھونا حرام ہے، علاج کے لئے جائز ہے اور اس سے ڈاکٹر کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ یہ انسانیت کی خدمت ہے۔ اگر کوئی خدا ترس مسلمان ڈاکٹر یہ کہے کہ مزید بچے پیدا ہونے سے عورت کی صحت یا زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو مصنوعی طریقے سے عمل تولید کی بندش جائز ہے اور شوہر کی رضا مندی ہو تو بہر صورت جائز ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: ڈاکٹر صاحبان سے ہم نے اس سلسلے میں جو معلومات حاصل کی ہیں، ان کے مطابق سانس کے مریض کے پھیپھڑے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں تکلیف اور دشواری محسوس ہوتی ہے۔ ان ہیلر کے ذریعے ایسے کمیکلز گیس یا مائع بوندوں کی شکل میں ان کے پھیپھڑوں میں پہنچتے ہیں جن کی بناء-04 پر ان کے پھیپھڑے (LUNGS) کھل جاتے ہیں اور وہ دوبارہ آسانی سے سانس لینے لگتا ہے، تو چونکہ مریض کے بدن کے اندر ایک مادی چیز جاتی ہے لہذا ا س کا استعمال مناسب نہیں۔لیکن اگر مرض اس درجے کا ہے کہ پورے روزے کا وقت ان ھیلر کے استعمال کے بغیر مریض کے لئے گزار نا مشکل ہے تو پھر وہ معذور ہے، بربنائے عذر و بیماری روزہ نہ رکھے اور فدیہ ادا کرے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: روزے کی حالت میں سرمہ لگانے کی اجازت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ البتہ دوا کے قطرے ڈالنے کے بارے میں علماء کی آرا مختلف ہیں اور یہ اختلاف آراء اس بات پر مبنی ہے کہ آنکھ سے حلق کی طرف کوئی نالی یا سوراخ ہے یا نہیں۔ جدید طبی تحقیق یہ ہے کہ آنکھ سے حلق کی طرف نالی (ROUTE) ہے، لہذا ہم اس رائے سے متفق ہیں کہ آنکھ میں دوا کے قطرے ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: جی ہاں روزہ بدستور قائم رہے گا، جتنی جلد ہوسکے غسل واجب ادا کر کے پاک ہوجائیں تا کہ کسی وقت کی نماز قضا نہ ہو جائے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: ویسے تو لپ اسٹک مفسد صوم نہیں ہے، لیکن اگر ہونٹوں پر زبان پھرنے کی عادت ہے اور اس سے لپ اسٹک کے ذرات پیٹ میں چلے جاتے ہیں تو روزہ ٹوٹ جائے گا، لہذا احتیاط بہتر ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: جائز ہے، لیکن اگر بتی سلگا کر اسے دانستہ ناک کے قریب لے جا کر اس کا دھواں ناک کے اندر کھینچے تو دھواں اندر جانے کی صورت میں روزہ فاسد ہو جائے گا اور قضا لازم آئے گی۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب : جی ہاں پڑھی جاسکتی ہے، لیکن کھڑے ہوکر پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھی جائے تو ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب : آپ اس طرح اعتکاف پر بیٹھ سکتی ہیں، اپنے گھر پر ایک جگہ متعین کرکے، صرف کھانا پکانے کے لئے ضرورتاً کچن میں جائیں اور کھانا اٹھاکر اپنی جائے اعتکاف پر لاکر کھائیں اور باقی معمولات میں احکامِ اعتکاف کی پابندی کریں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اگر بیوی کا ‘‘بائی پاس’’ آپریشن ہوا ہے اور کوئی خدا ترس دین دار ڈاکٹر یہ مشورہ دیتا ہے کہ روزہ رکھنے سے مریض کا مرض بڑھنے کا اندیشہ ہے تو روزہ چھوڑ دیں اور فدیہ دیں، ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، یا اس کے مساوی نقد رقم دینا ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: روزہ، ایک محدود وقت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے عبادت کی نیت سے، کھانے، پینے اور جنسی عمل سے رک جانے کا نام ہے۔ لہٰذا جوں ہی صبح صادق شروع ہوئی، جس کا وقت انتہائے سحر کے عنوان سے آج کل ریڈیو، ٹیلی وژن، مختلف اداروں کے مطبوعہ نقشہ جات، اخبارات اور مساجد سے مشتہر ہوجاتا ہے ،اور اذانِ فجر سحری کا وقت ختم ہونے پر ہی شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا اس وقت کھانا پینا منع ہے اور اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس کی قضا لازم ہوگی۔ آپ سحری ختم ہونے کے چند منٹ بعد کھائیں یا چند گھنٹے بعد، آپ نے شریعت کی بندش کو توڑ دیا تو روزہ نہ رہا۔ ایسی صورت میں بغیر کچھ کھائے پیے روزے کی نیت کرلیا کریں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اس سلسلے میں ہمارے سامنے دو نصوص حدیث ہیں، ایک یہ کہ ‘‘الصَّومْ یَومَ یَصْومْونَ وَالفِطرْ یَومَ یْفطِرْونَ’’ یعنی تم جس مقام پر ہو اس کے مطابق روزہ رکھو یا عید مناؤ، یعنی ان کی پیروی کرو، لہٰذا اگر تمہارے تیس روزے پورے بھی ہوگئے ہیں، تب بھی اس مقام والوں کا ساتھ دو، اس مقام کی اتباع میں آپ کے لئے ابھی رمضان جاری ہے۔

دوسرا یہ کہ ماہ رمضان زیادہ سے زیادہ تیس دن کا ہوتا ہے، اگر آپ کے تیس روزے پورے ہوگئے ہیں تو آپ یہاں اب31 واں دن کا روزہ نہ رکھیں۔

جبکہ ‘‘فَمَن شَھِدَ مِنکْم الشَّھرَ فَلیَصْمہْ’،’‘‘پس تم میں سے جو اس ماہ رمضان کو پائے تو اس پر لازم ہے کہ اس کے روزے رکھے’’ والی آیت قرآنی کی رو سے آپ اس مقام پر رمضان کو پارہے تھے، لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ روزہ رکھیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ آپ کے لئے یہ رمضان 31 دن کا متحقق ہوگا، آپ کے مخصوص حالات کی بناء پر۔

اور اگر آپ یہاں سے روزہ رمضان کا آغاز کرکے سعودی عرب جائیں اور وہاں بالفرض 29 ویں رمضان کو چاند نظر آئے گا، جبکہ آپ کے ابھی اٹھائیس روزے ہوئے کیونکہ پاکستان میں رمضان ایک دن پیچھے شروع ہوا تھا، تو اب کے پاس دو راستے ہیں ‘‘الصَّومْ یَومَ یَصْومْونَ وَالفِطرْیَومَ یْفطِرْونَ’’پر عمل کرتے ہوئے روزہ نہ رکھیں اور بعد میں ایک دن کی قضا رکھیں، کیونکہ رمضان المبارک 29دن سے کم کا نہیں ہوتا۔ یا ‘‘اَکمِلْواالعِدَّۃَ’’ پر عمل کرتے ہوئے ان کے ساتھ عید نہ منائیں اور اپنے روزے مکمل کرلیں۔

()

جواب: کسی عملِ خیر کو کسی خاص وقت، دن اور تاریخ کے ساتھ اس نظریے کے ساتھ متعین کرکے ادا کرنا کہ اس کا اجر و ثواب اس تعین کے ساتھ مشروط ہے یا یہ تعین اجرِ زائد کا سبب ہے اسے تعینِ شرعی کہتے ہیں، اور دلیل ِشرعی کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں۔ یوں تو قرآن مجید کی ہر سورت مقدس اور مبارک ہے اور کسی بھی دن اور کسی بھی تاریخ کو اس کا پڑھنا باعث ِبرکت ہے (بشرطیکہ کوئی اور شرعی مانع نہ ہو) اور رمضان المبارک میں تو نفل عبادت کا ثواب دیگر ایام کے فرائض کے برابر ہوتا ہے، لہٰذا اگر کچھ لوگ ستائیسویں شب کو ‘‘سورۃ الروم’’ اور ‘‘سورۃ العنکبوت’’ پڑھتے ہیں یا حسب ِتوفیق اور بھی سورتیں پڑھیں تو بلاشبہ یہ اجر و ثواب اور سعادت کی بات ہے لیکن تعینِ شرعی کی نیت سے پڑھنا درست نہیں ہے۔

تعین ِشرعی سے مراد ہے کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ خاص اس رات کو یہ سورتیں پڑھنے کا حکم دیا گیاہے یا یہ کہ اس دن دوسری سورتوں کے مقابلے میں ان کا زیادہ ثواب ہے یا یہ کہ یہ شارع علیہ الصلوٰۃوالسلام کا خاص معمول تھا درست نہیں ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب : روزے کی حالت میں ٹیسٹ کے لئے خون نکالنا مفسدِ صوم نہیں ہے، روزہ صحیح رہتا ہے، کیونکہ حدیث پاک میں ہے: ‘‘الفطر ممادخل لیس مماخرج’’، بدن میں کوئی چیز جانے سے روزہ ٹوٹتا ہے نہ کہ خارج ہونے سے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اْلٹی آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ البتہ اگر حاملہ عورت کی صحت کمزور ہو اور روزہ رکھنے سے زچہ و بچہ کی صحت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو اور کوئی خدا ترس دین دار ڈاکٹر یہ مشورہ دے کہ روزہ نہ رکھو تو اس صورت میں وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں لیکن بعد میں اتنے دنوں کی قضا کرنی پڑے گی۔ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صحت اچھی ہے تو روزہ رکھتی رہیں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اس مسئلے میں ہمارے فقہاء-04 کرام کی دو آراء ہیں، ایک یہ کہ ماہ ِرمضان المبارک میں فرض نماز جماعت کے ساتھ نہ بھی پڑھی ہو تو اس کا وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے، اور دلائل کے اعتبار سے یہی نظریہ راجح ہے، جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ ‘‘فرضِ عشاء’’ جماعت کے ساتھ نہ پڑھے ہوں، تو وتر بھی جماعت کے ساتھ نہ پڑھے بلکہ تنہا پڑھے، دلائل کے اعتبار سے یہ نظریہ مرجوح ہے۔

فقہاء ِکرام میں یہ اختلاف آراء ایک اور اختلاف پر مبنی ہے، وہ یہ کہ آیا رمضان المبارک میں وتر کی جماعت، ‘‘فرضِ عشاء ’’ کی جماعت کے تابع ہے یا تراویح کی جماعت کے۔ قول صحیح یہ ہے کہ فی نفسہ نماز وتر تو فرض عشاء کے تابع ہے، لیکن وتر کی جماعت کا مسنون ہونا تراویح کی جماعت کے مسنون ہونے کے تابع ہے، کیونکہ اگر وتر کی جماعت عشاء کی جماعت کے تابع ہوتی تو وتر سارا سال جماعت کے ساتھ مسنون ہوتے، اس لئے کہ عشاء کی نماز میں جماعت سارا سال واجب ہے، جبکہ وتر تو صرف رمضان المبارک میں جماعت کے ساتھ مسنون ہیں، پس ثابت ہوا کہ وتر کی جماعت کا مسنون ہونا تراویح کی جماعت کے مسنون ہونے کے تابع ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب : نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ زبان سے کہنا شرط نہیں، مگر زبان سے کہہ لینا مستحب ہے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب : جس طرح نماز میں کلام کی نیت کی مگر بات نہ کی تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ یوں ہی روزے میں توڑنے کی نیت سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ جب تک توڑنے والی چیز نہ کرے ۔اور اگر رات میں روزہ کی نیت کی پھر پکا ارادہ کر لیا کہ نہیں رکھے گا تو وہ نیت جاتی رہی۔ اگر نئی نیت نہ کی اور دن بھر بھوکا پیاسا اور روزہ دار کی طرح رہا تو روزہ نہ ہوا۔ (در مختار وغیرہ)

(سید عمر فاران بخاری)

جواب : سحری کھانا بھی اصل میں نیت ہی ہے خواہ رمضان کے روزے کے لیے ہو یا کسی اور روزے کے لیے مگر جب سحری کھاتے وقت یہ ارادہ ہے کہ صبح کو روزہ نہ رکھوں گا۔ تو یہ سحری کھانا نیت نہیں ۔

(سید عمر فاران بخاری)

جوا ب :اس رات میں دعاؤں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺسے پوچھا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے ارشاد فرمایا یہ پڑھا کرو۔ اَللّٰھْمَّ اِنَّکَ عَفْوٌّتْحِبّْ العَفوَ فَاعفْ عَنِّی۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :روزہ کی حالت میں جان بوجھ کرکھانے پینے سے، نفسانی خواہش کوپوراکرنے یا جسم میں موجود منافذ (سوراخ)کے راستہ کسی دوا یا غذا کے معدے تک پہنچ جانیکی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتاہے۔ویکسنگ،تھریڈنگ ،ہئیرکٹنگ وغیرہ اشیاء جن کاسائلہ نے تذکرہ کیاہے،ان سے روزہ تونہیں ٹوٹتاالبتہ خواتین کے لیے ان چیزوں کی عام حالات میں بھی ممانعت ہے۔اس لیے روزے میں اجتناب اور بھی ضروری ہے ۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :کسی بھی کام کے عبادت ہونے کے لیے یہ ضابطہ ذہن میں رکھا جائے کہ وہ احکام اسی وقت، اسی کیفیت اورانہی شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے جن کے ساتھ اس کا ثبوت شریعت مطہرہ میں ہو، اپنی طرف سے کسی خاص وقت میں، کسی خاص کیفیت یا خاص شرائط کے ساتھ کسی کام کی انجام دہی عبادت نہیں بلکہ بدعت ہوگی۔اسی ضابطہ کے پیش نظرشرعاً جن مواقع پر روزہ رکھنے کی ترغیب یا اجازت ہے ان مواقع پر توروزہ رکھنا عبادت ہوگا، لیکن جن مواقع یا ایام میں قرون اولیٰ سے روزہ رکھنے کا ثبوت نہیں ہے، ان ایام میں اس دن کی اہمیت کے پیش اگرہم اپنی طرف سے روزہ کااہتمام شروع کردیں تو شرعاً یہ روزہ بجائے عبادت کے بدعت کے زمرہ میں آئیگا۔چنانچہ خلفائے راشدین یا کسی اورصحابی کی شہادت یا وفات کے دن روزہ رکھنے کا ثبوت قرون اولیٰ میں ہمیں نہیں ملتااس لیے اس دن مخصوص نسبت کے ساتھ روزہ رکھنے کی اجازت بھی نہیں، البتہ اگرکسی کا عام معمول ہو روزہ رکھنے کا ہو اور اس دوران کوئی ایسا دن آجاتاہے تو وہ حسبِ معمول روزہ رکھ سکتا ہے، جس کا تعلق اس دن کے ساتھ نہیں ہوگا بلکہ اس کے معمول کا حصہ ہوگا۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کرنا، حلق میں اثرات جانے کے خطرے کی وجہ سے مکروہ ہے۔ اگر حلق میں ٹوتھ پیسٹ جائے گا تو روزہ فاسد ہوجائے گا، اس لیے روزہ کے دوران ٹوتھ پیسٹ استعمال نہ کیا جائے۔

(سید عمر فاران بخاری)

سوال : مجھے چند برسوں سے یہ مرض لاحق ہے کہ روزانہ وقتاً فوقتاً میرے دانتوں سے اچانک خون نکلنے لگتا ہے۔ اور یہ کبھی تھوک کی مقدار سے کم ہوتا ہے اور کبھی تھوک کی مقدار پر غالب ۔ ایسی صورتحال پورے دن کے عام اوقات میں عموماً جب کہ نیند سے بیداری کے وقت خصوصاً زیادہ پیش آتی ہے۔ جس وقت کہ نیم بیداری کا عالم ہوتا ہے، قویٰ پوری طرح متحرک نہیں ہوتے اور خون والا تھوک پیٹ میں چلے جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔ نیز اس کے علاوہ بھی بسا اوقات ایسی صورت پیش آجاتی ہے کہ فوری طور پر تھوک پھینکا نہیں جاسکتا۔ یا خون اتنا اچانک نکلتا ہے کہ جب اس کی آمیزش والا تھوک حلق سے ہوکر پیٹ کی طرف جاتا ہے تب ہی خون کا احساس ہوتا ہے۔ الغرض یہ کہ خون کو پیٹ میں جانے سے روکنا خاصا مشقت والا کام اور کبھی کبھی تو ناممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ خون نکلنے کے درمیان اچھا خاصا وقت گزر جاتا ہے۔ یعنی نماز کے اعتبار سے تو میں معذور نہیں بنتا۔

اس مذکورہ صورتحال میں میرے روزے کا کیا حکم ہے کہ جب اس طرح خون نکلے اور میں اسے نیند کے غلبے یا اور کسی مجبوری یا اچانک و لاعلمی کی وجہ سے پھینک نہ سکوں اور اس طرح یہ حلق سے اتر جائے ؟ آیا میرا روزہ باقی رہے گا یا نہیں؟ نیز اگر باقی نہیں رہے گا تو یہ بھی مد نظر رہے کہ عموماً پورے سال میں مجھے اس مرض سے کوئی خاص افاقہ نہیں ہوتا۔ باوجود اس کے کہ میں نے اس کا مختلف معالجین سے علاج بھی کرایا ہے۔ تو اگر روزہ باقی نہ رہے تو جب بھی قضا کروں گا تو اندیشہ یہی ہے کہ اس وقت بھی یہی صورت حال ہوگی۔ نیز یہ کہ یہ مرض روزے کی حالت (یعنی کچھ نہ کھانے پینے کے وقت) نسبتاً شدت ہی اختیار کرجاتا ہے۔

جواب :صورت مسؤلہ میں جب خون تھوک پر غالب ہو اور پیٹ میں چلے جانے کا یقین ہو تو ایسی صورت میں روزہ فاسد ہوجائے گا، سائل کو جب اس مرض سے چھٹکارا مل جائے تو اس وقت ان روزوں کی قضاکرلے اور اگر شفایابی کا یقین نہ ہو تو ہر روزہ کے بدلہ میں ایک صدقۃ الفطر کی مقدار فدیہ دے دے، بعد میں اگر شفایابی ہوجاتی ہے تو پھر قضا بھی کرلے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :ساری دنیا میں ایک ہی دن روزہ رکھنا اور عید منانا یا مملکت سعودی عرب کو بنیاد بناکر اس کے ساتھ روزہ یا عید منانا شرعاً ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ہر جگہ کی اپنی رؤیت ہوتی ہے جو اپنی مخصوص حدود تک لاگو ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ایک جگہ رمضان یا عید کا چاند نظر آجائے تو ساری دنیا کے مسلمانوں پر اس کی اتباع لازم ہوجائے، بلکہ ایک ملک میں بھی ایک جگہ چاند نظر آجائے تو ایک ماہ کی شرعی مسافت یعنی 480 میل کے فاصلہ پر مطلع بدل جانے کی وجہ سے اس مسافت کے بعد رہنے والوں کے لیے اس رؤیت کے مطابق روزہ یا عید منانا لازم نہیں ہوتا۔ لہٰذا نہ آسٹریلیا اور نہ امریکا والوں کا سعودی عرب کے ساتھ عید اور رمضان منانا ضروری ہے، نہ کسی اور کا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے زمانہ میں بھی اس کی نظیر ملتی ہے کہ شام والوں نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا، لیکن مدینہ والوں نے اس پر اکتفاء-04 نہیں کیا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بعض حضرات شام گئے تھے وہاں رمضان کا چاند نظر آنے پر انھوں نے روزے رکھنا شروع کردیے، ماہ رمضان کے آخر میں ان کی مدینہ واپسی ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے معلوم کیا کہ تم لوگوں نے ماہ رمضان کا چاند کب دیکھا تھا، انھوں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو لوگوں نے چاند دیکھا تھا ان کے ساتھ ہم نے بھی روزہ رکھا، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات کو چاند دیکھا تھا، لہٰذا ہم اپنے اعتبار سے تیس روزہ مکمل کریں گے یا اگر چاند نظر آگیا تو 29 روزے رکھیں گے، انھوں نے سوال کیا کہ کیا آپ وہاں شام والوں کی رؤیت پر اکتفاء نہیں کرتے؟ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں، ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی حکم دیا تھا۔ دیکھیں، یہاں شام میں چاند نظر آیا، انھوں نے روزہ رکھ لیا اور مدینہ والوں نے اس کے ایک دن بعد چاند دیکھا تو انھوں نے اپنی رؤیت کا اعتبار کیا اور ایک دوسرے پر کوئی نکیر بھی نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ ہر جگہ کی رؤیت اسی جگہ کے لیے معتبر ہوتی ہے، دوسروں پر اس کی اتباع لازم نہیں۔ لہٰذا اس مسئلہ کو اختلاف اور نزاع کا باعث نہیں بنانا چاہیے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :واضح رہے کہ اگر کسی کے ذمہ قضا روزے باقی ہوں اور اس کا انتقال ہو جائے یا وہ اس قدر بیمار ہو جائے کہ اب اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ رہے تو ایسے حد درجہ عمر رسیدہ شخص کی طرف سے اس کے قضا روزوں کا فدیہ ادا کیا جائے گا۔لیکن اگر وہ شخص حیات ہے اور بیمار تو ہے لیکن اس قدر بیمار ہے کہ وہ ایک ایک دو دو کرکے وقفہ وقفہ سے روزے رکھ سکتا ہے تو اس کے ذمے روزہ کی قضا ہی ضروری ہوگا، فدیہ ادا کرنے سے ذمہ ختم نہیں ہوگا۔ لہٰذا اگر مذکورہ شخص روزے رکھنے پر بالکل قادر نہیں اور اس کے صحت مند ہونے کا امکان بھی نہیں ہے تو ہر روزے کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار پونے دوکلو گندم فقراء و مساکین پرصدقہ کرنا واجب ہے ۔فدیہ میں صدقہ فطر کی طرح گندم کی جگہ اس کی قیمت بھی ادا کرنا جائز ہے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :اگرروزہ رکھنے سے خوداپنی یا پیٹ میں موجود بچہ کی جان کاخدشہ ہوتو حاملہ عورت کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، بعدمیں قضا کرلے لیکن صرف حمل کوبہانہ بناکرروزہ چھوڑنا درست نہیں۔صحت کو خطرہ نہ ہو تو ضرور روزہ رکھنا چاہیے ۔حمل کا بہانہ روزہ چھوڑنے کے لیے کافی نہیں جب کہ صحت اچھی ہو اور بچے کو بھی کوئی احتمال نہ ہو

(سید عمر فاران بخاری)

جواب: و اضح رہے کہ ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق مطلقاً شوگرروزے کیلیے مانع نہیں بلکہ بعض درجے کی شوگرکیساتھ روزہ رکھ سکتا ہے۔ اس لیے شوگرکے مریض کوچاہیے کہ کسی دین دار مسلمان ڈاکٹر سے رائے لے اگر وہ رائے دے کہ مریض ے حق میں روزہ رکھنا مہلک ہے تو اس کے لیے روزہ چھوڑدینے اورروزہ کے بدلے فدیہ دینے کی اجازت ہے۔

(سید عمر فاران بخاری)

ج۔ صحیح روایات کی رو سے بروز قیامت ہر شخص کو خود اس کے اور اس کے والد کے نام سے پکارا جائے گا۔ ماں کے نام سے پکارنے کا کسی صحیح اور مستند روایت میں تذکرہ نہیں ملتا۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ میاں بیوی جب انفرادی نماز پڑھ رہے ہوں تو اس کے لیے کوئی خاص شرائط نہیں ہیں، نہ شوہر کا آگے ہوکر کھڑا ہونا ضروری ہے اور نہ ہی قریب ہوکر نماز پڑھنے سے نماز فاسد ہوتی ہے، خواہ جسم بھی آپس میں مس کررہے ہوں یا نہ ہوں، معمول کے مطابق نماز پڑھی جائے گی۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ فرض نماز کی اس طرح سے ادائیگی درست نہیں۔ گاڑی کو کسی جگہ روک کر رکوع سجدہ کا اہتمام کرتے ہوئے نماز پڑھنے سے نماز کا ذمہ ادا ہوگا۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے لیے پوری زمین کو مثل مسجد نماز پڑھنے کی جگہ بنادیا ہے، کسی بھی پاک جگہ پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ سائل کا جب اپنی جائے اقامت سے 78 کلو میٹر یا اس سے زائد سفر کا ارادہ ہو تو حدود شہر سے نکلنے کے بعد دوران سفر:

  1. چار رکعت والی فرض نماز قصر کرکے دو رکعت پڑھنی ہوں گی۔
  2. فجر کے علاوہ بقیہ نمازوں کی سنتیں پڑھنے کے بارے میں اختیار ہے، پڑھیں تو ثواب اور نہ پڑھیں تو کوئی گناہ نہیں ہے
  3. وتر بہرحال پڑھنا واجب ہے۔
  4. فجر کی سنتیں بھی بہرصورت ادا کرنے کا حکم ہے۔
  5. روزہ کے بارے میں اختیار ہے کہ چاہے دوران سفر رکھیں اور چاہے تو سفر کے بعد دوران سفر رہ جانے والے روزوں کی قضاکرلیں، البتہ دوران سفر رکھنا افضل ہے۔

یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت نہ ہو۔ اگر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کی نیت کرلی تو پھر تمام نمازیں مکمل پڑھی جائیں گی اور روزہ رکھنا بھی ضروری ہوگا۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ شریعت میں گناہ و ثواب کا مدار انسان کے قول اور عمل پر ہے، اس کے دل و دماغ میں آکر گزرنے والے خیالات و افکار پر نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کسی شخص کے دل میں مختلف وساوس اور شیطانی خیالات پیدا ہوتے ہوں مگر وہ اپنی زبان سے ان کا اقرار کرتا ہے اور نہ عملی طور پر کوئی ایسا کام کرتا ہے تو محض ان خیالات و افکار کی بنیاد پر اس کی پکڑ اور مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ لہذا آپ کے ذہن و دل میں جب ایسے وسوسے پیدا ہوں تو آپ ان کو بھلا کر اپنے آپ کو نیک کام میں مشغول کرلیں اور کثرت سے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد کرتے رہیں، اور ان وساوس کے بارے میں زیادہ سوچنے سے پرہیز کریں۔ یہ وساوس اور باطل افکار آپ کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ اگر کوئی ادارہ قربانی کے جانور اور ہڈیوں کو فروخت کرتا ہے اور اس کی رقم کو اپنی ضروریات میں استعمال کرتا ہے تو شرعاً یہ جائز ہے، البتہ خود قربانی کرنے والے کے لیے ان اشیاء کو فروخت کرکے حاصل شدہ رقم اپنی ضروریات میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس رقم کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ جائزہے، بشرطیکہ رکھنے کی جگہ اور خوراک و پانی وغیرہ کا مناسب انتظام کیا جائے، نیز ان کے کاروبار سے حاصل شدہ آمدنی بھی جائز ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ صورت مسؤلہ میں سائل کے ایجنٹ کے طور پر کام کے کمپنی سے جو 5 فیصد کمیشن لیتا ہے وہ تو جائز ہے البتہ لوگوں کو بتلائے بغیر اور لوگوں سے کوئی معاہدہ کیے بغیر ان سے جو نفع وصول کرتا ہے یہ ناجائز ہے۔ البتہ اگر کمپنی کی طرح لوگوں سے بھی طے کرکے کمیشن لیا جائے تو جائز ہوگا۔

نوٹ: مذکورہ حکم کا تعلق صرف ایجنٹ کے کمیشن سے متعلق سوال کے جواب سے ہے۔ مضاربت کا کام کرنے والی کمپنی کی شرعی، قانونی اور عملی پوزیشن کیا ہے، اس سے متعلق نہ سوال ہے اور نہ ہی جواب دیا گیا ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ واضح رہے کہ عورت کا تعلق خاندانی اعتبار سے جس برادری اور قوم سے ہو شادی کے بعد بھی وہی رہتی ہے، شادی سے اس میں تبدیلی نہیں ہوتی، البتہ قانونی آسانیوں کے لیے بسا اوقات کاغذات وغیرہ میں صرف اتنی تبدیلی کی جاتی ہے کہ عورت کی نسبت والد کے بجائے شوہر کی طرف کردی جاتی ہے، شرعاً یہ بھی کوئی ضروری امر نہیں ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

س۔جناب میں CA کی ٹریننگ فرم میں ٹریننگ کرتا ہوں، ہمارے آفس میں ہر شخص اپنے وقت کی پابندی کرتا ہے، آفس کا ٹائم صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک ہے، اور یہی اس کی پالیسی میں لکھا ہوا ہے۔ ہم اکثر اوقات، مقررہ اوقات کی پابندی نہیں کرتے کیونکہ ہم دوسری کمپنیوں میں جاکر آڈٹ کرتے ہیں، عموماً ہم ابتدا میں دیر سے جاتے ہیں اور جلدی واپس آتے ہیں، اور آخری دنوں میں کافی دیر تک رک جاتے ہیں تاکہ مطلوبہ کام مقررہ مدت میں ختم ہوجائے۔ مگر دوسری جانب ہمیں اپنے منیجر کے احکامات بھی ماننے ہوتے ہیں اور وہ ہمیں جلدی بھی بلا سکتا ہے اور جلدی چھٹی بھی دے سکتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم منیجر کی بات مان سکتے ہیں یا آفس کے مقررہ وقت کی پابندی کرنا ضروری ہے؟ اگر ہم صرف آفس کے وقت کی پابندی کریں تو ہم کام مکمل نہیں کرسکیں گے۔ جیسے ایک دفعہ میں نو بجے آفس پہنچا اور تین بجے میرے منیجر نے مجھے دوسرے کام پر لگا دیا جو دس بجے ختم ہوا، تو کیا ایسی صورت میں، میں ساڑھے تین بجے ہی جاسکتا ہوں جو کہ آفس کی چھٹی کا وقت ہے؟ اسی طرح بعض اوقات جب کوئی کام نہیں ہوتا تو میں بارہ بجے جاتا ہوں اور دو بجے واپس آجاتا ہوں اور میرا منیجر بھی اس پر راضی ہے۔

ج۔صورت مسؤلہ میں اگر آپ کے منیجر کو کمپنی کی جانب سے اتنے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اپنے ماتحتوں کو اپنی مرضی سے بلاسکے اور چھٹی دے سکے تو ایسی صورت میں آپ منیجر کے احکامات اور اس کی رضامندی سے آمد و رفت کے اوقات متعین کرسکتے ہیں۔ اور اگر کمپنی نے منیجر کو یہ اختیارات نہیں دیے تو آپ پر کمپنی کے اوقات کی پابندی ضروری ہے، تاہم آپ اپنی خوشی اور رضامندی سے مقررہ وقت سے زائد وقت کام کرلیں تو یہ آپ کی جانب سے کمپنی کے ساؒتھ احسان ہوگا، تاہم مقررہ وقت سے کم وقت دینے کی گنجائش نہیں ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ "یا لطیف" کا ورد کرنا درست ہے اس سے پہلے کوئی عمل ضروری نہیں ہے۔ تاہم دیگر فرض عبادتوں کی ادائیگی زیادہ اہم اور ضروری ہے اور ان عبادتوں کی ادائیگی سے سارے مسائل اور پریشانیاں خود بخود حل ہوجائیں گی۔ پریشانیوں کے ازالہ کے لیے نمازوں کا باجماعت اہتمام اور بکثرت استغفار کریں۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ میاں بیوی کے درمیان اگر نااتفاقی ہو اور شرعی حدود کے اندر رہنا دونوں کے لیے مشکل ہورہا ہو تو شرعی حکم یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک طلاق رجعی دے دے، اگر شوہر طلاق نہ دے رہا ہو تو بیوی اس کو خلع پر آمادہ کرے۔ صورت مسؤلہ میں اگر میاں بیوی میں نباہ نہ ہورہا ہو تو اس کے لیے طلاق یا خلع میں سے کوئی صورت اختیار کی جائے۔ عملیات وغیرہ کے ذریعہ جدائی کی کوشش نہ کی جائے، یہ جائز نہیں ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔اقوام متحدہ میں ملازمت کے جواز اور عدم جواز کا تعلق مفوضہ کام کی نوعیت اور ان کی سرگرمیوں کے مقاصد سے ہے، اس تفصیل کے بغیر حتمی حکم نہیں لگ سکتا۔ تاہم اگر آپ کے ذمہ غیر شرعی اور اسلام مخالف کام نہیں لگائے جاتے تو شرعاً اس تنظیم کے ساتھ کام کرنا جائز ہوگا۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ 1- امام کی دعا کے دوران وظیفہ پڑھنا جائز ہے۔

2- جس جگہ قرآن کریم کی تلاوت باآواز بلند کی جارہی ہو تو اس تلاوت کا سننا واجب ہے، اس لیے جہاں ایک سے زیادہ لوگ تلاوت کررہے ہوں تو سب کو آہستہ آواز میں تلاوت کرنی چاہیے، تاکہ قرآن کریم کی تلاوت سننے کے واجب حکم میں خلل نہ آئے اور یا پھر جو بلند آواز سے تلاوت کررہا ہو اس کی تلاوت سنی جائے اور اپنی موقوف کردی جائے یہ بہتر ہے اگرچہ اپنی تلاوت جاری رکھنا بھی جائز ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔یہ دھوکہ دہی ہے اس کی شرعاً قطعی اجازت نہیں ہے۔ بل کا استعمال سے زیادہ آنا واقعی ظلم ہے، لیکن ظلم کے تدارک کے لیے ظلم اور خیانت کا راستہ اختیار کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ 1- وقت اور کیفیت کی شرعی تحدید کے اعتقاد کے بغیر یہ عمل کیا جائے اور شرکت نہ کرنے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے تو یہ عمل جائز ہے۔

2- فرائض کے بعد دعا بھی اگر نماز کا تکمیلی حصہ نہ سمجھتے ہوئے اجتماعی شکل میں کی جائے اور اس دعا میں شرکت نہ کرنے والوں پر کوئی لعنت، ملامت بھی نہ ہو تو یہ دعا جائز ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ صورت مسؤلہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعتاً درست ہے اور شوہر نے مذکورہ الفاظ ہوش و حواس میں کہے ہیں تو سائلہ کے شوہر مذکورہ جملہ‘‘نہ ہی میں اللہ پر یقین رکھتا ہوں، نہ ہی مجھے اللہ کی ذات کے ہونے پر یقین ہے’’ کہنے سے دائرہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں اور اس کی وجہ سے سائلہ کا نکاح اپنے شوہر سے ختم ہوچکا ہے۔ سائلہ کا شوہر جب تک تجدید ایمان اور تجدید نکاح نہ کرلے اس وقت تک دونوں کا ساتھ رہنا قطعاً حرام ہے۔ اگر مذکورہ شخص اپنے کفریہ کلمات سے توبہ کرتے ہوئے ایمان اور نکاح کی تجدید نہ کرے تو جس دن یہ کفریہ جملہ کہا گیا تھا اس وقت سے سائلہ کی عدت شروع ہوچکی ہے، وہ اپنی شرعی عدت مکمل کرنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ اگر وہ عیب ایسا ہے کہ اس سے کسی دوسرے مسلمان کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے تو اس عیب کا چھپانا آپ کا اخلاقی فرض بنتا ہے۔ کسی مسلمان کی پردہ دری کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور پردہ پوشی کرنے کے بہت فضائل ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ 1- زخمی جانوروں کا علاج معالجہ کرنا نہ صرف جائز بلکہ رحمدلی کا تقاضہ بھی ہے۔ انسانوں کی طرح حیوانوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا اسلامی تعلیم کا حصہ ہے۔

2- بلی پالنا جائز ہے، البتہ بغیر ضرورت کے شوقیہ کتا پالنا منع ہے اور رحمت کے فرشتوں سے محرومی کا باعث بھی ہے۔ ضرورۃً کھیتی باڑی کے لیے یا حفاظت کے لیے یا شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ کسی نامحرم لڑکے اور لڑکی کا آپس میں کسی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں، چاہے اس تعلق کو محض دوستی کا نام دیا جائے یا بھائی بہن جیسے تعلق کا نام دیا جائے، اسی طرح اس تعلق میں چاہے بدنظری ہو یا بغیر دیکھے صرف میسج پر تعلق قائم ہو۔ ایسے ہر قسم کے تعلقات رکھنا سراسر حرام اور گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتا ہے، اس سے پرہیز اور احتیاط لازم ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

جواب: اس دنیا کا اصل اصول آزمائش ہے۔ یہاں جو کچھ بھی پیش آ رہا ہے اس سے آزمایش کا پہلو کبھی الگ نہیں ہوتا۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض اوقات ہماری کسی غلطی کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے آتا ہے اور کبھی قدرت ہماری تنبیہ اور تربیت کے لیے حسب ضرورت ہماری کسی غلطی پر گرفت بھی کرتی ہے لیکن بہر صورت آزمایش کا پہلو ہر حال میں ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔

حتمی طور پر یہ بات کہنا کہ فلاں حالات فلاں وجہ سے پیش آئے ہیں ناممکن ہے۔ البتہ ہمیں اس کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کہیں یہ مشکل ہماری کسی غلطی پر تنبیہ کے لیے تو نہیں آئی تاکہ قدرت کا مقصود حاصل ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: یہ سوال پیدا ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ایک وجہ عقلی ہے اور وہ یہ کہ تمام دنیا کی اقوام کے لیے ہدایت کا اہتمام ہونا چاہیے۔یہ اہتمام ہوا ہے تو اس کے آثار کیا ہیں۔ اور اگر اس کے آثار نظر نہیں آتے اور واقعہ بھی یہ ہے کہ بہت سارے خطوں میں پیغمبروں کی بعثت کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں تو پھر ان کے ناحق پر ہونے کا انجام کیا ہوگا۔

دوسری وجہ قرآن مجید کے ایک آیت ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے۔ لکل قوم ہاد(رعد:7)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمام اقوام کے لیے ایک پیغمبر بھیجا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مختلف اقوام کے لیے جو پیغمبر بھیجے گئے ان کے نام کیا تھے اور ان کی تعلیمات کیا تھیں۔

قرآن مجید اور بائیبل میں جن پیغمبروں کا ذکر ہے ان کا تعلق اس علاقے سے ہے جو نیل وفرات سے ملحق ہیں اور انھی میں آباد اقوام میں انھوں نے دعوت کا کام کیا۔ اس وجہ سے ہمیں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ ہم قرآن کی بنیاد پر باقی اقوام کے بارے میں کوئی حتمی بات کہہ سکیں۔

اس صورت حال کو دو طریقوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک یہ ہے کہ اصل میں تمام اقوام میں پیغمبر آئے تھے لیکن مرور زمانہ سے ان کی شخصیات اور تعلیمات اصل تعارف اور صورت میں باقی نہیں رہیں۔ چنانچہ یہ نقطہ نظر قیاساً بدھا، کرشنا، زرتشت اور کنفیوشش جیسی شخصیات کو اسی دائرے میں رکھتا ہے اور جہاں اس طرح کی شخصیات کا تذکرہ نہیں ملتا اسے تاریخ کی ستم آزمائیوں کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔

دوسرا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے دو طریقے اختیار کیے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں مختلف اقوام میں رسول بھیجے اور اس زمانے میں زیادہ تر یہ ہوا کہ ان پیغمبروں کی قوموں کو آسمانی سزا نے صفحہ ہستی سے نابود کر دیا۔ لہذا ان کے کسی باقاعدہ ریکارڈکے دستیاب ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔حضرت ابراہیم کے بعد ان کے خاندان کو دعوت کی ذمہ داری دی گئی اور انھی پر یہ فرض تھا کہ یہ باقی اقوام تک خدا کا دین پہنچائیں۔ لہذا حضرت سلیمان، داؤد علیہم السلام کے زمانے میں اس وقت کی اقوام تک یہ دعوت پہنچائی گئی اور ان کے زوال کے بعد اس خاندان کی دوسری شاخ نے اس کام کو سنبھالا اور حضورﷺاور صحابہ کی قائم کردہ ریاست نے ایک بار پھر ساری دنیا تک اس حق کردہ حق کو پہنچانے کا کام کیا۔باقی رہا کچھ لوگوں کا حق کی دعوت سے محروم رہنا تو اس کے بارے میں یہ دونوں نقطہ نظر اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا مؤاخذہ فطرت میں ودیعت ہدایت کی بنیاد پر ہو گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :دین کا حکم یہ ہے کہ صلہ رحمی کرو۔ میری سمجھ کے مطابق یہ حکم اس اصرار کے ساتھ اور اس اہتمام کے ساتھ اس لیے دیا گیا ہے کہ اس پر عمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بعض اوقات ناشکری اور حق تلفی کے رویے کے باعث اور بعض اوقات ظلم اور زیادتی کے سبب سے۔

آپ نے جو احوال لکھے ہیں کسی نہ کسی رنگ، انداز اور سطح پر تقریباً تمام لوگ ہی اس تجربے سے گزرتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہمارا تعلق ہوتا ہے ان سے ہماری بہت سی اچھی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا رویہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ مزید برآں اگر ان سے کوئی زیادتی سامنے آرہی ہو تو ہماری تکلیف بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

اصولی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے رشتے داروں کے ساتھ ہر حال میں حسن سلوک کرنا ہے ان کی بے اعتنائی، نا شکری اور زیادتی کے باوجود۔ لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تین درجے ہو سکتے ہیں۔

پہلا یہ کہ آپ جس حد تک زیادتی ہوئی ہے اس کا بدلہ لے لیں اور تعلقات کو منقطع نہ کریں لیکن میل جول بھی نہ رکھیں۔ مطلب یہ کہ اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو بس سلام دعا کے بعد ایک دوسرے سے دور رہیں۔

دوسرا یہ کہ آپ اس طرح کے رشتے داروں کے ساتھ صرف غمی اور خوشی کا تعلق رکھیں اور عام حالات میں ان سے میل ملاقات نہ کریں۔ لیکن اگر کوئی شدید ضرورت سامنے آجائے تو آپ مدد کرنے سے گریز نہ کریں۔تیسرا یہ کہ آپ زیادتیوں کو نظر انداز کریں اور حسن سلوک اور مہربانی کا برتاؤ بھی جاری رکھیں۔

پہلا درجہ اختیار کرنے پر آپ گناہ گار نہیں ہوں گے۔

دوسرا درجہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ نیکی کے مواقع ضائع نہیں ہوں گے۔

تیسرا درجہ فضیلت کا درجہ ہے۔ اللہ کی رضا زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا پیش نظر ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:یہ سوال جس الجھن پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہوتا ہے ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہمیں یہ اصولی بات معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے سب پہلے سے طے کر رکھا ہے تو پھر یہ آزادی بالکل بے معنی ہے۔ پھر جزا یا سزا یا وقوع قیامت یہ سب باتیں اپنی معنویت کھو دیتی ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تدبیر کریں اور تدبیر کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ ہم ان آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بھی دعائیں کریں جو دوسرے انسانوں اور قدرتی عوامل کی وجہ سے پیش آتی رہتی ہیں اور جن کا کبھی ہمیں شعور نہیں ہوتا اور اگر کبھی شعور ہو بھی تو ہم اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔حضور کی سکھائی ہوئی ایک دعا کے الفاظ ہیں:

اے اللہ مجھے اس شر سے محفوظ رکھ جس کا تم نے فیصلہ کیا ہے، کیونکہ تو فیصلے کرتا ہے تیرے اوپر فیصلے نہیں ہوتے ۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ ہماری دعا سے اللہ کے فیصلے تبدیل ہوسکتے ہیں۔

اللہ تعالی نے ہمیں یہاں آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔ آزمایش کے ضروری ہے کہ انسانوں کو خیر وشر کے انتخاب کی حقیقی آزادی حاصل ہو۔ وہ چاہیں تو اچھے اعمال کریں اور چاہیں تو بداعمالیا ں کریں۔ یہ آزادی بالکل محدود ہو جائے گی اگر انسانوں کو دنیوی معاملات میں فیصلے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ مطلب یہ کہ شادی، کاروبار، تعلیم، محنت، پرہیز، علاج، ہنر، طرز زندگی ،لباس ،رسم ورواج غرض، زندگی کے بہت سے دائروں میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اصل میں یہ آزادی ہی ہمارا مقدر ہے۔ جسے اللہ نے اپنی قدرت کے بل پر جاری وساری کر رکھا ہے۔آپ کی بات بالکل درست ہے کہ شادی میں کئے گئے فیصلے بھی اسی آزادی کے تحت ہیں۔ لیکن یہ آزادی بعض اوقات صرف ارادے تک محدود رہتی ہے اور ایک انسان کو عمل کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی اس مداخلت کے پیچھے کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ ایک انسان کو بہت سی آزمایشیں اس کے ماحول میں موجود انسانوں کے اعمال سے پیش آتی ہیں۔ لہذا مداخلت کرکے اس آزمایش کو مطلوب درجے تک رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر الف ب کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلے اور ب کو قتل نہ ہونے دینا مقصود ہو تو ب کو مداخلت کرکے بچا لیا جاتا ہے۔ لیکن فیصلہ کرنے والا قتل کا مجرم بن جاتا ہے اور آخرت میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک بندے کے مستقبل کو بعض آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی مداخلت کی جاتی ہے وغیرہ۔

اس وضاحت کو شادی کی مثال پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے زور زبردستی کی ہے انھوں نے اللہ کے دیے ہوئے ایک حق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ الاّ یہ کہ وہ یہ مداخلت کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بچوں کا فیصلہ غلط ہے اور اس سے ان کا نقصان ہوگا۔اس کا دوسرا پہلو بھی کہ اللہ تعالی نے اس معاملے میں مداخلت کرکے آئندہ کے لیے کسی آفت سے حفاظت کا بندوبست کیا ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے یا سنتے ہوئے سجدے میں گر پڑنا اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جو بندہ مومن پر وفور شکر یا وفور خوف کی وجہ سے طاری ہوتی ہے۔ مسجدوں سے تلاوت کی آوازوں سے اس کیفیت کے پیدا ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :سوال امیری اور غریبی کا نہیں ہے۔ اصل سوال فیملی کے کلچر کے فرق کا ہوتا ہے۔ اصل مطلوب موافقت ہے۔ آپ کی اور اس کی آمدنی میں کافی فرق ہے۔ ہمارے معاشرے کے مرد بیوی پر فائق رہنا چاہتے ہیں۔ جب وہ کسی پہلو سے بیوی سے کم ہوں تو یہ چیز ان کے رویوں کو متوازن نہیں رہنے دیتی اور وہ کسی نہ کسی پہلو سے اوور ری ایکٹ کرنے لگ جاتے ہیں جس سے گھریلو زندگی ناخوشگوار ہو جاتی ہے۔ تعلیم کا فرق ذوق کا فرق بھی پیدا کر دیتا ہے اور سوچ کا فرق بھی۔ یہ چیز بھی عدم موافقت کا سبب بن سکتی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس شخص کی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ کے اور اس کے علمی، ذہنی اور مالی سٹیٹس کا فرق اس کی شخصیت کے دوسرے محاسن میں ایڈجسٹ ہو سکتا ہے تو رشتہ کر لیجیے اور اگر نہیں تو بہتر ہے کہ یہ شادی نہ کی جائے۔ شرعی اعتبار سے شادی ہو سکتی ہے۔ لیکن فقہا نے ہم رتبہ ہونے کو مناسب اہمیت دینے پر اصرار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی کو ناکام ہونے سے بچانا بھی شریعت کے مقاصد کا حصہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :تقدیر کے دو جزو ہیں۔ ایک جز وہ ہے جس میں فیصلہ اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ شکل و صورت، علاقہ، خاندان، صلاحیت وغیرہ سراسر اللہ کے فیصلے ہیں اور اس دائرے میں اجر وثواب کا کوئی سوال ہے اور نہ ان کے حوالے سے قیامت میں جواب دہی ہے۔ دوسرا جز ہے جہاں تقدیر انسان کو آزادی دیتی ہے۔ یہ دائرہ سعی وجہد اور نیکی یا بدی کے اختیار کرنے کا ہے۔ اس دائرے میں اللہ تعالی کی طرف سے وہیں مداخلت ہوتی ہے جہاں اللہ تعالی کی آزمایش کی سکیم کے مطابق مداخلت ضروری ہو۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اصل آزمایش خیر وشر کی ہے اس لیے وہاں تمام انسان یکساں ہیں۔ مالی اور نسبی فرق آخرت کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہوتا اس لیے اس حوالے سے اس کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہے۔

دنیا میں انسانوں کا فرق ان حالات کو پیدا کرنے کے لیے ہے جس میں ہر شخص آزمایا جائے۔ غریب بھی شکر و صبر کی آزمایش میں ہے اور امیر بھی۔ پھر حق کو پہچاننے، جاننے اور اپنانے میں دونوں آزمایش میں ہیں۔ پھر اخلاق کے دائرے میں دونوں آزمایش میں ہیں۔ اس امتحان گاہ میں بعض پہلوؤں سے امیر سہولت میں ہے اور بعض پہلوؤں سے غریب۔ لہذا آزمایش میں کامل انصاف کا اہتمام ہے۔اس دنیا کے حوالے سے پیدا ہونے والے تمام فکری سوالات کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں مل سکتا جب تک آخرت کو شامل کرکے اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس کے جواب کے لیے اذن اور رضا کے فرق کو سمجھنا چاہیے ۔ اس دنیا میں جتنے بھی کام ہیں وہ اللہ کے حکم یا اذن ہی سے ہو رہے ہیں۔ صرف جادو ہی نہیں مادی فنون کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بندوق سے نکلی ہوئی گولی ہو یا کسی کا کیا ہوا تعویز دونوں اسی صورت میں کار گر ہوتے ہیں جب اللہ کا اذن ہو۔ اس لحاظ سے جادو اور غیر جادو میں فرق ہے اور نہ مادی اور غیر مادی میں فرق ہے۔آپ غالباً یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہاروت و ماروت پر اتارا ہوا علم چونکہ خدائی ہے اس لیے اس کے ساتھ اللہ کے اذن کا تصور ٹھیک ہے اور جادو چونکہ شیطانی ہے اس لیے اس کے ساتھ اللہ کے نام کا حوالہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں اللہ کا نام اس پہلو سے نہیں لیا گیا کہ اس میں اللہ کی رضا ہے بلکہ اس پہلو سے لیا گیا ہے کہ یہ اگر کہیں اپنے اثرات دکھاتا ہے تو اللہ کے اذن سے دکھاتا ہے اللہ کے اذن کے بغیر نہیں دکھا سکتا۔اصل میں مادی قوانین کی طرح الفاظ کی تاثیر کا فن ہو یا شیاطین کی کارفرمائیاں یہ ساری چیزیں اور امکانات اللہ تعالی کے منصوبے کے تحت وجود پذیر ہوئے اور ان پر اللہ تعالی کی نگرانی مسلسل قائم ہے اور وہی کچھ ظاہر ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتاہے۔ اس معنی میں نہیں کہ اللہ اس سے خوش ہے۔ ہر گز نہیں اللہ کسی جرم پر خوش نہیں ہوتا۔ البتہ وہ قانون آزمایش کے پیش نظر کچھ جرائم کو واقع ہونے دیتا ہے یہاں اذن اللہ کا لفظ اسی محل میں آیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :اصل میں احناف کا نقطہ نظر جس بنا پر قائم ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نمازنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے سامنے اور روزانہ پانچ مرتبہ پڑھی ہے اور جو عمل سب کے سامنے ہوا ہو اس کے بارے میں خبر واحد سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح پانچ نمازوں کے معاملے میں خبر واحد کی کوئی حیثیت نہیں ہے اسی طرح نماز کے ظاہری اعمال میں بھی اس کی حیثیت نہیں ہے۔ احناف عین صحابہ کے متصل زمانے میں کام کر رہے تھے اور اگر رفع یدین نماز کا معمول بہ حصہ ہوتا تو احناف اتنی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ کہ اس زمانے میں احناف سے اس معاملے میں اختلاف کرنے والے بھی عمل متواتر اور جاری نماز کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کرتے بلکہ اخبار آحاد پیش کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں وہی نتیجہ نکلتا ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آپ نے ایک جنگ میں ایک ایسے آدمی کا انجام پوچھا ہے جس نے عین قتل کے موقع پر اظہار ایمان کیا تھا۔ یہ روایت اصلاً اس مضمون کی حامل ہے کہ دنیا میں ظاہر پر معاملہ کیا جائے گا۔ ہماری دل تک رسائی نہیں ہے اس لیے ہم مجبور ہیں کہ قانونی طور پر اس شخص کو مسلمان قرار دیں جو ایمان قبول کرنے کا اعلان کیے ہوئے ہے۔ اور اسے وہ تمام قانونی حقوق دیں جو ایک مسلمان کو دیے گئے ہیں۔ باقی رہا آخرت کا معاملہ تو وہ حقیقت کی بنیاد پر ہوگا۔ ممکن ہے بہت سے اس دنیا کے مسلمان آخرت میں مسلمان کی حیثیت سے قبول نہ کیے جائیں۔ موت کو سامنے دیکھ کر کی گئی توبہ اور ایمان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ فرعون پر یہی اصول نافذ ہوا ہے۔ مذکورہ واقعے میں مقتول کے بارے میں اس طرح کی کوئی تصریح کتب حدیث میں نہیں ہے۔ بعض شارحین کا خیال ہے کہ وہ پہلے سے مومن تھا لیکن اس کا ایمان ظاہر نہیں تھا۔ اگر معاملہ یہ ہے تو اس کی بخشش ہو گی اور اگر نہیں تو معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :اجماع کا لفظ دو معنی میں بولا جاتا ہے۔ ایک اجماع امت ہے اور ایک اجماع فقہا ہے۔ اجماع امت کا مطلب یہ ہے کہ امت کسی چیز کو دین کے طور پر حضور سے منسوب کرنے میں اپنے ہر زمانے میں بالکل متفق ہو۔ یہ رائے کا اتفاق نہیں ہے بلکہ حضور سے دین کو نقل کرنے پر اتفاق ہے۔ یہی اجماع، دین کا ماخذ ہے اور اس سے اختلاف جائز نہیں۔ دوسرا اجماع رائے پر اجماع ہے یہ اصل میں نصوص سے استنباط پر علما کا متفق ہونا ہے۔ اگرچہ یہ اجماع محض دعوی ہے یعنی لوگ بہت سی دینی آرا پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں۔ اس طرح کے اجماع سے اختلاف میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ رائے سے اختلاف ہے۔ یہ دین کے کسی جزو سے اختلاف نہیں ہے۔

 علمی آرا میں غلط اور صحیح کا معاملہ ہوتا ہے حق اور باطل کا معاملہ نہیں ہوتا۔ علمی آرا میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرا گمراہ ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنی رائے پر عمل کریں تو دین پر عمل کر رہے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والا اپنی رائے پر عمل کرے تو وہ دین پر عمل کر رہا ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاق کے معاملے میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ تین طلاق ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ایک طلاق ہے۔ جس کی جو بھی رائے ہے وہ اس پر عمل کرنے میں گناہ گار نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات پر گمراہی کا لفظ درست نہیں ہے

(مولانا طالب محسن)

 سوال :میں ایک حدیث سے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ "پیغمبر نوح علیہ السلام نے بھی بیت اللہ کا حج کیا"۔ یہ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے جو کہ عروہ بن الزّبیرسے مروی ہے۔" ہود اور صالح علیہما السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں نے بیت اللہ شریف کا حج کیا۔ پیغمبر نوح نے بیت اللہ شریف کا دورہ کیا۔ پھر جب سیلاب نے زمین کو ڈبو دیا اور بیت اللہ پانی کے نیچے ڈوب گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو صحیح راستے کی طرف لائیں۔ حضرت ہود تبلیغ کے کاموں میں اتنے مصروف رہے کہ وہ بیت اللہ کا حج نہ کر سکے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ والی پاک جگہ دکھائی گئی تو انہوں نے بھی وہاں کا حج کیا، اور اس طرح ان کے بعد تمام پیغمبروں نے جو کہ آپ کے بعد تشریف لائے"۔ (راوی۔ البیہقی، کتاب السنن)

میں بیہقی کی ان احادیث کی نوعیت جاننا چاہتا ہوں۔ یہ کس درجے کی حدیث ہے، جب کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے کی۔

جواب : آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ مجھے تلاش کے باوجود بیہقی میں نہیں ملی۔ البتہ ازرقی کی اخبار مکہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے۔

ترجمہ ۔‘‘عثمان کا بیان ہے کہ مجھے ابن اسحاق نے خبر دی کہ مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جسے میں متہم نہیں سمجھتا کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تعمیر ہوا کہ وہ اس کا طواف کریں اور اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ حضرت نوح نے غرق سے پہلے حج کیا وہ اس کے پاس آئے انھوں نے اس کی تعظیم کی- جب زمین پر غرق کا مرحلہ آیا اور اللہ نے قوم نوح کو ہلاک کر دیا تو بیت اللہ کے ساتھ وہی ہوا جو زمین کے ساتھ ہوا۔ پھر اس کی نشانی کے طور پر ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے ہود علیہ السلام کو عاد کی طرف مبعوث کیا وہ اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے۔ یہاں تک ان کی قوم بھی ہلاک ہوگئی۔ انھوں نے بھی حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ٹھکانا عطا فرمایا۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مناسک بھی سیکھے۔ لوگوں کو اس کی زیارت کے لیے دعوت بھی دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا جس نے اس کا حج نہ کیا ہو۔’’

اس روایت کی سند ہی سے واضح ہے کہ قبولیت روایت کے معیار کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی روایات کو اس معیار پر پرکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تاریخی روایات کے بارے میں اصول یہی ہے کہ وہ قابل قبول ہیں الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اس روایت میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب اس زمانے سے متعلق ہیں جن کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لہذا تردید و تصویب کے لیے ہمارے پاس کوئی محکم بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اس کی بعض باتوں کی تائید ہوجاتی ہے لیکن اکثر باتوں کے لیے قرآن میں کوئی تائید نہیں ہے۔

 آپ کے سوال سے میں یہی سمجھا ہوں کہ مسئلہ کعبے کے بارے میں مسلمانوں میں رائج تصورات پر ایک مکتب فکر کی تنقید کا ہے۔ اصل میں مذہب کے بارے میں یہ تصور کہ اس کا مقصود خالق و مالک کے ساتھ تعلق کی درستی اور اس کے لیے مطلوب رسوم و آداب کی تعیین کا ہے، زمانہ حاضر کے بعض مفکرین کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور وہ دین کو ایک ایسے نظام کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔ اس زاویہ نظر سے نہ نماز کی وہ ہیئت قابل قبول رہتی ہے جو امت میں رائج ہے اور نہ حج کے مناسک قابل قبول رہتے ہیں جنھیں صدیوں سے ادا کیا جا رہا ہے۔

 بنیادی مسئلہ میرے نزدیک یہی ہے۔ ہمارا دین اصل میں خدا کے اس منصوبے کے فہم پر مبنی ہے کہ اس نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے اور اصل مسئلہ آخرت کے امتحان کا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے صحیح عقیدہ وعمل اختیار کرنا ہے تاکہ اس امتحان میں سرخروئی حاصل ہو۔

اس کے برعکس ان مفکرین کے نزدیک آخرت یہ معنی و مفہوم نہیں رکھتی۔ اور دین بھی پرستش اور پوجا پاٹ کا نام نہیں بلکہ ان طریقوں کو جاننے اور اپنانے کا نام ہے جن سے نوع انسانی کی فلاح وابستہ ہے۔

اس تصور کی تبدیلی کے نتیجے میں احادیث کے مقام اور تفسیر کے اصولوں کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت پڑی اور امت کے مانے ہوئے مسلمات علم وعمل کو رد کرنا پڑا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے سورہ یاسین کی آیت 14 کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اس میں تین رسولوں سے کون مراد ہیں۔

اس حوالے سے دو آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا دعوتی کام مراد ہے۔ یہ بستی شام کی ایک بستی انطاکیہ ہے۔ لیکن جس طرح قرآن میں بات بیان ہوئی ہے اس سے حواری مراد لینا محل نظر ہے۔

دوسری رائے یہ کہ پہلے دو سے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام مراد ہیں اور تیسرے سے وہ ہستی مراد ہے جو فرعون کے دربار میں تھا اور کئی موقعوں پر اس نے ان دونوں رسولوں کا ساتھ دیا۔ ہمارے سامنے پیغمبروں کی جتنی داستانیں ہیں ان میں سے بیک وقت دو پیغمبروں کی طرف بعثت کا واقعہ صرف ایک ہی ہے۔ اس لیے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اس آیات میں مصر کی طرف اشارہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ یہ ہرگز کار خیر نہیں ہے۔ صرف ایک صورت ہے جس میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اور وہ یہ کہ کسی کی جان بچانا مقصود ہو۔ آپ نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اس کا حل توریہ ہے۔ توریہ کی سب سے اچھی مثال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سفر ہجرت میں حضور کے بارے میں جواب ہے۔ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کہ آپ راستہ بتانے والے ہیں۔ یہ جملہ دشمن کے لیے اور معنی رکھتا تھا اور حضرت ابوبکر کے لیے اور مطلب۔ یعنی ایسا جملہ بنانا جس میں بولنے والا ایسے الفاظ میں اپنی بات بیان کرے جو خلاف حقیقت نہ ہوں لیکن سننے والے کو اصل بات بھی معلوم نہ ہو۔ بعض موقعوں پر زیادہ مناسب یہ ہوتا ہے کہ آپ صاف کہہ دیں کہ میں بات نہیں بتا سکتا۔ اگر یہ بات اعتماد سے کی جائے اور اس کو نبھایا جائے تو لوگ آہستہ آہستہ اس بات کو سراہنے لگ جاتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ خاموش رہیں اور ایسا کوئی اظہار آپ کی طرف سے نہ ہو کہ آپ کو اصل بات معلوم ہے۔ آپ یہ بھی کر سکتے ہیں صرف بات کا وہ حصہ چھپا لیں جو نقصان دہ ہے اور باقی بات بیان کر دیں۔ اسی طرح ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ موضوع کو سلیقے سے بدل دیں اور اپنے آپ کو غلط بیانی سے بچالیں۔ غرض یہ کہ اگر جھوٹ سے بچنا مطمح نظر ہو تو کئی راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ اگر آدمی کہیں پھنس جائے اور خلاف واقعہ بات اس کے منہ سے نکل جائے اور اس کے پیش نظر صرف اور صرف اصلاح احوال ہو اور اس صورت حال سے نکلتے ہی بندہ سچے دل سے اللہ سے معافی مانگ لے تو اللہ کی طرف سے رحمت اور بخشش ہی کی امید ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں رزق کے حوالے سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ زمین کے ہر جاندار کا رزق اللہ تعالی پر ہے۔ یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہتے ہیں کھلا رزق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نپا تلا رزق دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ گھبراؤ اللہ وہاں سے رزق کا سامان کر دے گا جہاں سے تمھیں گمان بھی نہ ہو۔

یہ دنیا آزمایش کے اصول پر چل رہی ہے اس لیے ہماری زندگی کا ایک بڑا دائرہ محنت اور کوشش کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ رزق کا حصول بھی اصلاً اسی اصول پر قائم ہے۔ قرآن صرف یہ واضح کرتا ہے کہ رزق کے لیے تمھاری کوشش تمھیں اس زعم میں مبتلا نہ کرے کہ یہ تمھاری کوشش کا نتیجہ ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ذات ہے جو تمھاری کوشش کو جتنا چاہتی ہے پھل لگاتی ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہمیں اسی اصول پر زندگی گزارنی ہے کہ اپنے لیے اچھے حالات پیدا کرنے کے لیے محنت اور کوشش کروں لیکن اس میں اصل اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نفخ روح سے انسان سمیع و بصیر بن جاتا ہے۔ اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کے حیوانی قالب کو نفخ روح سے انسانی شعور عطا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ روح کے بارے میں کوئی بات کہنا نا ممکن ہے اور شاید ہمارے لیے مفید مطلب بھی نہیں ہے۔

روح کی پاکیزگی کی اصطلاح قرآن مجید میں نہیں آئی۔ قرآن مجید میں تزکیہ نفس کی اصطلاح آئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ایمان ، عمل اور اخلاق کو پاکیزہ بنائے اور اس کا طریقہ قرآن مجید کی تعلیمات کو سمجھنا ، ماننا اور اپنانا ہے۔ چونکہ یہ سارا عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک کامل نمونے کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے اس لیے وہی سمجھ، رویہ ، ایمان اور عمل معتبر ہے جو حضور کے اسوہ کے مطابق ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: دیکھیں، حکم کی علت پہلے متعین کرنی پڑتی ہے۔ آدمی کے مرنے کے بعد اس کا مال جن لوگوں کو ملنا ہے تو آ پ کس principle پر ان کو دیں گے؟ اگر تو اصول یہ ہے کہ جو زیادہ ضرورت مند ہے، اس کو زیادہ ملنا چاہیے تو پھر آپ کی بات درست ہے۔ قرآن نے تو بیان کیا ہے کہ وہ ترکے کو ضرورت اور حاجت کے اصول پر تقسیم نہیں کر رہا۔ وہ منفعت کے اصول پر کر رہا ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے انسان کو جس رشتہ دار سے زیادہ منفعت مل سکتی ہے، بالقوۃ یا بالفعل، قرآن چاہتا ہے کہ اس کو زیادہ ملے۔ یہ تقسیم ضرورت کے اصول پر نہیں ہے۔ ضرورت کے دائرے میں اس نے آپ کو وصیت کا حق دیا ہے۔ تو اصل میں اصول بدل گیا ہے۔ اصول اگر وہ ہوتا تو آپ کی بات ٹھیک تھی۔ قرآن کہتا ہے کہ ترکے کی تقسیم کا اصول اللہ کے نزدیک یہ نہیں ہے۔ اصول یہ ہے کہ جس سے زیادہ منفعت مل رہی ہے، اس کو زیادہ حصہ ملے گا۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 جواب: دیکھیں، جب بھی کسی دینی حکم کو ہم سمجھتے ہیں یا اس کو interpret کرتے ہیں تو اس کے دو مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ہوتا ہے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا۔ دین میں ترتیب یوں نہیں ہے کہ پہلے آپ حکم کا rationale سمجھیں اور پھر اس کو قبول کریں۔ اس کے برعکس دین میں آپ پہلے حکم کو مانتے ہیں کہ یہ خدا کا حکم ہے اور پھر اس کی حکمت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً اگر وراثت میں خدا کا حکم نہ ہوتا توہم بالکل آزاد ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک روایت میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ بچوں میں جب تحفے تحائف تقسیم کرو تو برابری ملحوظ رکھا کرو۔ بیٹے اور بیٹی میں امتیاز نہیں ہونا چاہیے، بلکہ آپ نے اپنا رجحان یہ بیان کیا کہ اگر برابری کا اصول مانع نہ ہوتا تو میرا یہ جی چاہتا تھا کہ میں بیٹیوں کو زیادہ دوں۔ تو اگر یہاں وراثت کے معاملے میں خدا نے اپنا اصول بیان نہ کیا ہوتا کہ اس اصول پر ترکہ تقسیم ہونا چاہیے اور حصوں کا تناسب نہ بیان کیا ہوتا تو ہمیں یہ فیصلہ کرنے کا پورا حق ہوتا کہ چونکہ ضرورت عورت کو زیادہ ہے، اس لیے ہم اس کو زیادہ دیں گے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک معاملے میں اللہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ پہلے تو ہم نے اس کو ماننا ہے۔ اس کے بعد ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جتنا سمجھ میں آجائے، اچھا ہے۔ اللہ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے، لیکن وہ پوری طرح ہماری سمجھ میں بھی آ جائے، یہ ضروری نہیں۔ ایسی چیزیں موجود ہیں جو پوری طرح انسانی عقل کی گرفت میں نہیں آتیں۔ اگر حکمت سمجھ میں نہ آئے تو یہ نہیں کہیں گے کہ ہم نہیں مانتے، بلکہ یہ ایمان ہونا چاہیے کہ ان اللّٰہ کان علیمًا حکیمًا۔ اللہ نے یہ بات اسی لیے کہہ دی ہے کہ اللہ زیادہ علم والا اور حکمت والا ہے۔ اللہ نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ تم اصل میں یہ طے ہی نہیں کر سکتے کہ کس رشتہ دار کا حصہ کتنا ہونا چاہیے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ فی نفسہ بیٹوں سے جو منفعت ملتی ہے، وہ چونکہ بیٹیوں سے زیادہ ہے، اس لیے قرآن کہتا ہے کہ اگر صرف بیٹے ہیں تو سارا مال ان کو مل جائے گا، لیکن بیٹے موجود نہیں ہیں تو بھی فی نفسہ بیٹیوں کی منفعت چونکہ اس درجے کی نہیں ہے جو بیٹوں سے والدین کو ملتی ہے، اس لیے سارا مال بیٹیوں کو نہ دے دیا جائے۔ اگر ایک بیٹی ہے تو نصف اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہیں تو دو تہائی ان کو دے دیا جائے۔ باقی مال کے بارے میں اس صورت میں قرآن یہ چاہتا ہے کہ بیٹیوں کے علاوہ جو دوسرے رشتہ دار ہیں، ان کو دینا چاہیے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: سب سے پہلے غالباً علامہ اقبال نے یہ بات کہی کہ عورت کو چونکہ شوہر کی طرف سے بھی حصہ مل جاتا ہے، اس لیے اس کے حصوں میں توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اپنے حکم کا underlying principle قرآن نے خود بیان کیا ہے۔ قرآن یہ نہیں کہہ رہا کہ چونکہ خاتون کو اگلے گھر سے حصہ مل جائے گا، اس لیے یہاں اسے آدھا دے دو۔ ہو سکتا ہے آگے جا کر اس کو کچھ بھی نہ ملے۔ قرآن تو سادہ بات کہہ رہا ہے کہ آپ کو اپنے بیٹے سے جو منفعت دنیا میں عام حالات میں ملتی ہے، وہ چونکہ زیادہ ہے، اس لیے آپ کے مال سے اس کو حصہ بھی زیادہ ملنا چاہیے۔ بیٹی سے آپ کو جو منفعت دنیا میں ملتی ہے، وہ اس کے مقابلے میں کم ہے۔ اب وہ کتنی کم ہے، اس کی پیمایش کا ہمارے پاس کوئی معیار نہیں۔ اس لیے خود قرآن نے متعین کر دیا کہ تم نہیں طے کر سکتے کہ کتنا فرق ہے۔ خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ بیٹے سے آدھی ہے، اس لیے تمھارے مال سے اس کو حصہ کم ملنا چاہیے۔ قرآن کی بات بالکل سادہ ہے۔ اسی کو حکم کا rationale بنانا چاہیے، بجائے ا س کے کہ ہم وہ چیزیں بیان کریں جو یقینی نہیں ہیں اور جن کا خود قرآن نے ذکر بھی نہیں کیا۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: ہر بات کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ قرآن نے جب پہلے وراثت کے بارے میں احکام دیے تو اولاد کو تو سب ہی دیتے تھے، لیکن اولاد کے علاوہ والدین یا دوسرے رشتہ داروں کوکچھ حصہ نہیں ملتا تھا تو قرآن نے پہلے مرحلے میں اس کا پابند کیا کہ جن لوگوں کی موت قریب ہو، مرنے سے پہلے ان پر لازم ہے کہ وہ ان سب کے حق میں وصیت کر کے جائیں، کیونکہ سوسائٹی میں جو دستور چلا آ رہا ہے، وہ یہ نہیں تھا۔ دستور یہ تھا کہ ساری جائیداد اولاد، بلکہ اولاد میں سے بھی صرف لڑکوں کو مل جائے۔ تو قرآن نے ہدایت کی کہ مرنے والا وصیت کر کے جائے کہ صرف اولاد کو نہیں، بلکہ میرے والدین کو او ر دوسرے رشتہ داروں کو بھی اتنا اتنا حصہ ملے گا۔ ابتدا میں قرآن نے صرف اتنی بات کہی ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں قرآن نے یہ کہا ہے کہ ملنا تو سب کو ہے۔ اولاد کو بھی ملنا ہے، بیوی کو بھی ملنا ہے، بہن بھائیوں کو بھی ملنا ہے، البتہ کس تناسب سے ملنا چاہیے؟ وہ خدا نے خود متعین کر دیا کہ اس تناسب سے حصے تقسیم کر دیے جائیں۔ اس تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اب جب ورثا کے حصے خدا نے خود متعین کر دیے ہیں تو اب کسی وارث کے لیے اس سے ہٹ کر کوئی الگ وصیت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کی تقسیم پر راضی نہیں۔ مثلاً خدا نے کہا ہے کہ بھائی کو اتنا ملے۔ اب کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تو بھائی کو اتنا دینا چاہتا ہوں۔ اب اس وارث کے حق میں وصیت کا حق اس کے پاس نہیں ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ جس صورت کی ہم بات کر رہے ہیں، وہ اس سے مختلف ہے۔ اگر محض قرابت داری کے علاوہ کسی دوسری بنیاد پر، مثلاً کسی مخصوص وارث کی ضرورت اور احتیاج کے پیش نظر یا کسی اور معقول وجہ سے اس کے لیے مقررہ حصے کے علاوہ کوئی وصیت کی جائے تو یہ شرعی ممانعت کے خلاف نہیں ہوگا۔ چنانچہ دیکھیے، قرآن مجید نے سورۃ بقرہ کی آیت ۲۴۰ میں خود اس کی تاکید کی ہے کہ مرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے بارے میں یہ وصیت کر کے جائے کہ اس کے مرنے کے بعد ایک سال تک اسے اسی گھر میں رہنے دیا جائے اور اسے سامان زندگی بھی فراہم کیا جائے۔ فقہا عام طور پر اس کے قائل ہیں کہ یہ ہدایت ترکے میں ورثا کے حصے متعین ہونے کے بعد منسوخ ہو گئی ہے، لیکن فقہا کو یہ رائے اس لیے قائم کرنا پڑی کہ انھوں نے وراثت میں متعین حصہ ملنے کا مطلب یہ سمجھا کہ اب کسی زائد ضرورت کی بنا پر بھی کسی وارث کے لیے وصیت نہیں کی جا سکتی، حالانکہ قرآن کی یہ ہدایت ایک مستقل اصول پر مبنی ہے جس پر حصوں کی متعین تقسیم کا حکم اثر انداز نہیں ہوتا۔ قرآن نے بیوہ کے لیے ایک سال تک سامان زندگی کی وصیت کرنے کی ہدایت دراصل اس کی ضرورت و احتیاج اور مخصوص حالات کے پیش نظر دی ہے اور اس کے لیے یہ انتظام میت کے ترکے میں سے وراثت کے متعین حصے کے علاوہ ہی کیا جائے گا۔ قرآن کی اس ہدایت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رشتہ داری سے ہٹ کر ایسی اضافی وجوہ، مثلاً ضرورت و احتیاج ہو سکتی ہیں جن کے پیش نظر وارث کے حق میں معمول کے حصے کے علاوہ زائد مال کی وصیت بھی کی جائے۔ ضرورت احتیاج پر ہم خدمت کو بھی قیاس کر سکتے ہیں۔ مثال کے طو رپر مرنے والا اگر یہ چاہے کہ اپنے کسی دوست کے لیے وصیت کر جائے جس نے زندگی کے آخری ایام میں اس کی بڑی خدمت کی اور اس کے ساتھ بہت معاونت کی تو اس کو پورا حق ہے۔ یہ کسی رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اس کو اس سے جو فائدہ ملا، اس کے صلے کے طو رپر ہے۔ جب کسی دوست کے لیے، کسی اجنبی کے لیے خدمت کی بنا پر وصیت کی جا سکتی ہے تو وہی خدمت اور وہی منفعت اگر رشتہ داروں میں سے کسی نے معمول کی ذمہ داریوں سے ہٹ کر کی ہو تو وہ کیوں اس کو اس کا مستحق نہیں بناتی کہ اس کے حق میں زائد وصیت کی جائے؟ آپ کا ایک بیٹا بیرون ملک چلا گیا۔ اس نے اس طرح سے آپ کی خدمت نہیں کی جیسے آپ کے ساتھ رہنے والے بیٹے نے کی ہے تو آپ کا یہ حق بنتا ہے کہ پاس رہ کر خدمت کرنے والے بیٹے کے حق میں زائد وصیت کر دیں۔ رشتہ داری کی بنیاد پر سب بیٹوں کو یکساں حصہ ملے گا، اس لیے کہ بیٹا وہ بھی ہے، بیٹا یہ بھی ہے، لیکن خدمت کے صلے میں ایک بیٹے کو کچھ زائد دے دیا جائے تو یہ ایک بالکل معقول اور مبنی برانصاف بات ہوگی۔ گویا اصول یہ ہے کہ قرابت داری کے علاوہ اگر کوئی زائد وجہ ہے جو اس کا تقاضا کرتی ہے تو آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ ایک بچے نے خدمت زیادہ کی ہے یا کسی بچے کے بارے میں آپ سمجھتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر ذرا پیچھے رہ گیا ہے اور اس کو زیادہ ضرورت ہے تو اس کے حق میں وصیت کر سکتے ہیں۔ ہاں، عام حالات میں نہیں کر سکتے۔ اسی طرح اس اختیار کے غلط استعمال کا امکان بھی چونکہ موجود ہے تو کچھ نہ کچھ شرائط لگانی پڑیں گی۔ مثلاً آپ اس کا ایک کیس بنا کر جج کو بھیج دیں کہ یہ میرے فیصلے کی وجوہ ہیں اورمیں اس بنیاد پر یہ وصیت کر رہا ہوں۔ جج اس کی توثیق کر دے تو ٹھیک ہے۔ معقول شرائط کے ساتھ کسی وارث کے حق میں وصیت کی گنجایش تسلیم کرنے کی بات حدیث کے منافی نہیں ہے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: جو بیٹا بیرون چلا گیا ہے، ا س کے حصے میں کمی نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ وہ تو اس کو ملنا ہے بیٹا ہونے کی بنیاد پر۔ بیٹا تو وہ ہے ہی، الاّ یہ کہ نافرمان ہو اور اس نے رشتہ داری کے جو حقوق ہیں، ان کو پامال کیا ہو۔ پھر تو میرے نقطہ نظر کے مطابق اسے محروم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کا رویہ نافرمانی کا نہیں ہے، اس نے معمول کے تعلقات کو بحال رکھا ہے، اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ آپ کی خدمت بھی کرتا رہا ہے تو پھر اس کو حصہ پورا ملے گا۔ دوسرے بیٹے کے حق میں، جس نے زیادہ خدمت کی ہے، وصیت کرنے کو پہلے بیٹے کے حصے میں کمی کرنا نہیں کہتے۔ حصہ تو اس کو برابر ملے گا۔ آپ کا یہ اختیار ہے کہ آپ اپنے مال میں سے ایک حصہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں، دے دیں۔ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے آپ اس بیٹے کے لیے الگ سے وصیت کر جائیں۔ یہ حصہ دینے کے بعد جو مال بچ جائے گا، وہ سب ورثا میں برابر تقسیم ہو جائے گا۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی قانونی حد تو بیان نہیں کی اور کوئی legal instruction آپ نے نہیں دی، البتہ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی خواہش یہ تھی کہ وصیت کا اختیار کم سے کم استعمال کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ مال وارثوں کو ہی جانا چاہیے۔ ایک صحابی نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں سارا مال اللہ کے راستے میں دے دینا چاہتا ہوں۔ آپ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ انھوں نے کہاکہ آدھے کی اجازت دے دیجیے۔ آپ نے نہیں دی۔ انھوں نے کہا کہ ایک تہائی کا اختیار تو دے ہی دیں۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، لیکن ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ اب یہ بات ایسے اسلوب میں بیان ہوئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ کی اجازت دینے کو پسند نہیں کرتے۔ اس سے فقہا یہ حکم infer کرتے ہیں کہ ایک تہائی تک وصیت کا اختیار ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ روایت میں یہ بات کسی قانونی حکم یا پابندی کے انداز میں بیان نہیں ہوئی، لیکن فقہا نے ا س کو ایک قانونی شکل دے دی ہے اور اس پرکم وبیش ان کا اتفاق ہے کہ اس سے زیادہ مال کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔ میرے نزدیک اگرچہ حدیث میں یہ تحدید قانونی انداز میں بیان نہیں ہوئی، لیکن فقہا کا استنباط غلط نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اسلوب میں یہ بات ارشاد فرمائی ہے، اس سے لگتا ہے کہ ایک تہائی وہ زیادہ سے زیادہ مقدار ہے جس کی وصیت کیے جانے کو آپ نے گوارا کیا۔ تو اگرچہ یہ strictly legal نہیں ہے، لیکن بہرحال اس سے یہ منشا تو سمجھ میں آتا ہے کہ غیر ورثا کے حق میں وصیت کا حق کم سے کم ہی استعمال کیا جانا چاہیے ا ور زیادہ سے زیادہ مال ورثا کو جانا چاہیے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 جواب: میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ کوئی بہت آئیڈیل شکل ہے۔ میں نے یہ عرض کیا ہے کہ اس کی گنجایش ہمارے فقہا بہت شروع سے مان چکے ہیں۔ اس کی گنجایش موجود ہے کہ خاوند اپنا حق عورت کو دے دے۔ لڑکی نکاح کے وقت طلاق کا حق مانگ سکتی ہے، لیکن عام حالات میں یہ خاوند کی رضامندی سے مشروط ہے کہ وہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ قانون اس کو پابند نہیں کرتا۔ لڑکی مطالبہ کرے تو شوہر کہہ سکتا ہے کہ میں یہ حق نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو ریاست قانون کا اختیار استعمال کرتے ہوئے خاوند کو پابند کر سکتی ہے۔ قانون اس کا پورا اختیار رکھتا ہے کہ کسی بھی فردکے حق کو restrict کر دے یا کسی بھی فرد کو ایسا حق جو عام طو رپر اس کو حاصل نہیں ہوتا، مخصوص صورت حال میں وہ حق اس کو دے دے۔ تو اگر آپ ایک قانونی پابندی لگا دیں کہ ہر نکاح کے موقع پر خاوند اپنا حق طلاق ان ان شرائط کے ساتھ بیوی کو دے دے تو میرے نزدیک فقہی طور پر اس کی گنجایش موجود ہے۔ یہاں چونکہ بیوی کی طرف سے بھی اس حق کے غلط استعمال کا احتمال ہے اور یہ یقینی نہیں کہ ہر عورت اس حق کا استعمال انصاف سے ہی کرے گی، اس لیے کچھ شرائط بھی لگانی پڑیں گی۔ اگر آپ مطلق طور پر عورت کو حق طلاق دے دیں تو جو سوئے استعمال آپ مرد کی طر ف روکنا چاہتے ہیں، اس کا امکان عورت کی طرف بھی ہے۔ اگر خاتون کو آپ علی الاطلاق، بالکل absolute right دے دیتے ہیں کہ وہ جب چاہے، مرد سے الگ ہو جائے تو رشتہ نکاح کی وہ اصل ہیئت بھی قائم نہیں رہے گی جو اللہ نے قائم کی ہے اور غلط استعمال کی مثالیں بھی خواتین کی طرف سے زیادہ سامنے آئیں گی۔ اس لیے عورت کو حق طلاق کے استعمال کا موقع دینے میں کچھ نہ کچھ restrictions لگانا بہرحال ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر یہ شرط لگائی جا سکتی ہے کہ بیوی اگر کسی موقع پر یہ مطالبہ کرے کہ مجھے طلاق چاہیے اور بیوی کا باپ یا سرپرست یا خاندان کا کوئی دوسرا ذمہ دار آدمی اس مطالبے کی توثیق کر دے کہ ہاں اس کا مطالبہ بجا ہے تو پھر خاوند پابند ہوگا۔ اسی طرح اس مشکل کے حل کے لیے مالکی فقہا کی رائے سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے سورۃ نساء کی آیت ۳۵ میں میاں بیوی کے مابین تنازع اور عدم موافقت کی صورت میں تصفیے کے لیے دونوں خاندانوں کی طرف سے جو حکم (Arbitrator) مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے، ان کا دائرہ اختیار صرف صلح کرانے اور میاں بیوی کو سمجھانے بجھانے تک محدود نہیں، بلکہ اگر اصلاح احوال کی پوری کوشش کے بعد وہ یہ محسوس کریں کہ میاں بیوی کے مابین نباہ نہیں ہو سکتا تو انھیں یہ بھی اختیار ہے کہ وہ دونوں کے ما بین تفریق کر دیں، چاہے فریقین نے انھیں واضح طور پر اس کا اختیار نہ دیا ہو اور ان کے فیصلے کے نتیجے میں قانونی طو رپر طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ مالکیہ کی یہ رائے فقہی طور پر اور عملی مشکلات کے تناظر میں بہت قابل غور ہے اور اگر اس کو قانونی شکل دی جا سکے تو ہمارے ہاں عام طور پر خواتین کو طلاق کے حصول میں جن بے جا رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا ایک معقول حل نکل سکتا ہے۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: خلع یہ ہے کہ عورت کسی وجہ سے خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور وہ خاوند سے کہتی ہے کہ مجھے طلاق دے دو، جبکہ میں اتنا مال تمھیں دے دیتی ہوں۔ طلاق کے بدلے میں مالی عوض لینے کا جو جواز سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے مابین نباہ ممکن نہیں اور خاوند بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ نباہ نہیں ہو سکتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خاوند نے شادی بیاہ کے موقع پر یا اس کے بعد بہت سے تحفے تحائف بیوی کو دے رکھے ہیں اور وہ یہ سوچتا ہے کہ اب یہ سارے کا سارا اس کے ساتھ ہی چلا جائے گا۔ اصولی طور پر تو جو کچھ وہ دے چکا ہے، وہ عورت کا ہو چکا ہے۔ شوہر اسے واپس لینے کا حق نہیں رکھتا، لیکن اگر نباہ نہیں ہو رہا اور جدائی کے فیصلے میں رکاوٹ صرف یہ دیا ہوا مال ہے تو قرآن اس موقع پر یہ ہدایت کرتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت نے جو کچھ لیا ہوا ہے، وہ واپس کر دے اور خاوند سے طلاق لے لے۔ فقہا اسی لیے یہ بات کہتے ہیں کہ خاوند کے لیے طلاق کے عوض کے طور پر اس سے زیادہ مال بیوی سے لینا پسندیدہ نہیں جتنا اس نے اس کو دے رکھا ہے۔خلع میں یہ ہوتا ہے کہ عورت طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر تو معاملہ آپس میں ہی طے ہو گیا اور خاوند نے طلاق دے دی تو بات ختم ہو گئی۔ نہیں تو عورت قاضی کے پاس چلی جائے گی کہ میں طلاق لینا چاہتی ہوں، جیسے ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ میں اپنے خاوند کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ طے کروا دیا کہ تم نے فلاں فلاں چیز جو خاوند سے لی ہے، وہ اس کو واپس کر دو اور خاوند سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 جواب: نشوز کی کوئی متعین صورت شریعت نے نہیں بتائی۔ اس کی تعیین مختلف ثقافتوں کے لحاظ سے مختلف ہو گی۔ اس کو ایک سادہ مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ بخاری میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان ہوئی ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو مکہ میں کلچر مختلف تھا اور بیوی کا مرد کی کسی بات پر اس کو reactکرنا یا اس کو جواب دینا بڑی معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔ یہ بات گستاخی سمجھی جاتی تھی کہ خاوند نے ایک بات کی اور بیوی نے آگے سے اس کا جواب دے دیا۔ (گویا مکہ کے کلچر کے لحاظ سے یہ ‘نشوز’ تھا کہ بیوی اپنے خاوند کو ترکی بہ ترکی جواب دے۔) سیدنا عمر کہتے ہیں کہ ہم جب مدینہ آئے تو وہاں انصار کے ہاں ماحول مختلف تھا۔ عورتیں شوہروں سے بحث بھی کر لیتی تھیں، جواب بھی دے لیتی تھیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے واقعات آپ حدیثوں میں پڑھیں، وہ  بڑے دلچسپ ہیں۔ یہاں آ کر اختلاط ہوا اور ہماری عورتوں نے انصار کی عورتوں کے پاس آنا جانا شروع کیا، ان کے گھروں میں جا کر ان کا ماحول دیکھا تو ہماری خواتین نے بھی شوہروں کو جواب دینا شروع کر دیا۔ حضرت عمر اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے گھر میں کوئی بات کی تو میری بیوی نے اس پر آگے سے مجھے جواب دے دیا۔ میں نے کہا کہ اچھا، نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے! تم یہاں کے ماحول میں آ کر بگڑ گئی ہو اور جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ بیوی نے کہا کہ آپ ہمیں کیا کہتے ہیں، جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دیکھیں۔ آپ کی بیویاں آپ سے بحث بھی کرتی ہیں اور آپ سے ناراض بھی ہو جاتی ہیں اور رسول اللہ کو منانا پڑتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا، یہ صورت حال ہے۔ میں پہلے جا کر اپنی بیٹی کی خبر لیتا ہوں۔ وہ گئے اور جا کر سیدہ حفصہ کو ڈانٹا اور کہا کہ تمھیں معلوم نہیں کہ تم کس کے گھر میں ہو؟ ان کو ڈانٹ پلا کر یہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے گئے۔ حفصہ تو بیٹی تھیں، وہ ڈانٹ سن کر خاموش رہیں۔ ام سلمہ کے پاس جب گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہو تو وہ ام سلمہ تھیں۔ انھوں نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو دخل دینے والے؟ یہ ہمارا میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ تم ہر معاملے میں دخل دیتے ہو، اب یہاں بھی آ گئے ہو!

سو ‘نشوز’ (disobedience یا defiance) یہ ہے کہ جس معاشرے میں آپ رہ رہے ہیں، وہاں کے کلچر اور norms کے لحاظ سے یہ سمجھا جائے کہ ایک عورت اپنے شوہر کا جو مقام ہے، اس کی جو حیثیت ہے اور اس کی جو اتھارٹی ہے، اس کو چیلنج کر رہی ہے۔ اب اس کا عملی مصداق پاکستان میں کچھ اور ہوگا، افغانستان میں کچھ اور ہوگا اور امریکہ میں کچھ اور ہوگا۔ قرآن نے اس کے مصداق کو متعین نہیں کیا۔ عرف کے لحاظ سے جو چیز سرکشی سمجھی جائے اور یہ دکھائی دے کہ خاتون اس جگہ پر آ گئی ہے کہ خاوند کے رشتے کو یا اس رشتے کے واجبات کو تسلیم نہیں کر رہی اور سرکشی کا رویہ اختیار کر رہی ہے تو یہ نشوز کہلائے گا۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب :سید اور غیر سید کی باہم شادی ہو سکتی ہے۔ اسلام میں اس طرح کی کوئی ممانعت نہیں۔پچھلی صدیوں میں اس خاندان کی ہر شاخ میں یہ کام ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ شادی نہ کرنے کا تصور برصغیر میں جاگیردارانہ کلچر کی پیداوار ہے۔ میرے علم کی حد تک عربوں میں اس طرح کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ شاید اب پایا جاتا ہے۔ اسلام کسی ہستی کے ساتھ وابستگی کی بنا پر کسی فضیلت کو روا نہیں رکھتاصرف تقوی اور اعمال کی بنا پر فضیلت کو روا رکھتا ہے ۔ جہاں تک سید ہونے کے مدعی شخص کی عزت کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا مظہر ہے۔ اس سے عزت کرنے والے مسلمانوں کو توان شاء اللہ فائدہ حاصل ہوتا ہے لیکن اس کا اس سید کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔ باقی رہا آپ کا یہ اشکال کہ سید زکوۃ نہیں لے سکتاچنانچہ یہ بچے زکوۃ لے سکیں گے یا نہیں؟ عرض ہے کہ ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو زکوٰۃ لینے سے روکنے کا ایک خاص سبب تھا جو اب موجود نہیں اس لیے ان کے زکوۃ لینے میں کوئی حرج نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے اور اپنے خاندان کے لوگوں کے لیے زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ لینے کی ممانعت فرمائی تو اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ تھی کہ اموال فے میں سے ایک حصہ آپ کی اور آپ کے اعزہ واقربا کی ضرورتوں کے مقرر کر دیا گیا تھا۔ یہ حصہ بعد میں بھی ایک عرصے تک باقی رہا۔ لیکن اس طرح کا اہتمام، اب موجو د نہیں لہذا بنی ہاشم کے فقراومساکین کی ضرورتیں بھی زکوٰۃ کے اموال سے اب بغیر کسی تردد کے پوریی کی جا سکتی ہیں۔قیامت کے روز ماں کے نام سے پکارے جانے کا معاملہ اگر یہ خبر درست ہے تو ہر انسان سے متعلق ہے اور قیامت کے ساتھ خاص ہے۔ اس سے دنیا کے معاملات میں استنباط کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ محققین کے نزدیک یہ بات درست نہیں۔

آپ کا یہ خیال درست ہے کہ ہمارے ہاں خاندان باپ کی نسبت سے طے ہوتا ہے۔ یہ ایک کلچرل مسئلہ ہے۔ اسلام نہ اسے درست قرار دیتا ہے اور نہ غلط ۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب : عقیقے کے بارے میں یہ اختلاف ہمیشہ سے ہے کہ یہ کوئی مستقل دینی حکم ہے یا نہیں۔فقہ کی مشہور کتاب ‘بدایۃ المجتہدونہایۃ المقتصد’ میں فقہی آراء کا خلاصہ ان الفاظ میں منقول ہے:‘‘ایک گروہ نے جس میں ظاہری علما شامل ہیں، عقیقہ کو واجب قرار دیا ہے۔ جمہور نے اسے سنت کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ اسے فرض مانتے ہیں نہ سنت۔ ان کی بات کا ماحصل یہ ہے کہ یہ نفل ہے۔ ’’موسیقی کے حوالے سے آپ کا اشکال یہ ہے کہ موسیقی کا صحیح استعمال کیا ہے۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موسیقی کی رائج صورتوں میں تو قباحت ہی قباحت نظر آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ گانوں کی شکل میں جو موسیقی ہر جگہ سنی اور سنائی جا رہی ہے اسے قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک بھی اس طرح کی موسیقی سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔ لیکن دین کے ایک عالم کو اصولی بات بھی بتانا پڑتی ہے۔ اصولاً موسیقی کو ناجائز قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ موسیقی کے عمومی استعمال میں جو قباحت موجود ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر استعمال درست نہ ہو تو یہ گناہ ہے۔ جائز موسیقی کی بعض صورتیں ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ جیسے جنگی اور ملی ترانے، حمدیہ اور نعتیہ کلام، اچھے مضامین کی حامل غزلیں اور نظمیں جنھیں آلات موسیقی کے ساتھ اور فن موسیقی کے مطابق گایا جاتا ہے موسیقی کے صحیح استعمال کی مثالیں ہیں۔ موسیقی کی طرح شاعری بھی ایک فن لطیف ہے۔ جس طرح شاعری میں اعلی اورادنی ، علمی، عاشقانہ اور سماجی معاملات نظم کیے جاتے ہیں اسی طرح موسیقی بھی عمدہ اور کم تر مظاہر رکھتی ہے۔ جس طرح شاعری کی بعض صورتیں گناہ ہیں۔ اسی طرح موسیقی کی بعض صورتیں بھی گناہ ہیں۔ غرض یہ فنون لطیفہ تلوار کی طرح ہیں۔ استعمال کرنے والا چاہے تو اسے جہاد میں استعمال کرکے جنت خرید لے اور چاہے تو اسے کسی بے گناہ کو قتل کر جہنم واصل ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :اسلام کی تعلیمات کو سامنے رکھیں تو مساوات کے بجائے عدل کا لفظ زیادہ صحیح ہے۔ مساوات سے بھی وہی مساوات مراد ہے جو عدل کے مقصد سے مطابقت رکھتی ہے۔ آپ نے قرآن مجید کی جن دوتعلیمات پر اشکال ظاہر کیا ہے ان کا تعلق اسلام کے پیش نظر خاندانی نظام سے ہے۔جس طرح کسی بھی نظام میں مناصب اہلیت کی بنا پر دیے جاتے ہیں اسی طرح خاندان میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو اللہ تعالی نے عورت اور مرد کی شخصیت میں کچھ فرق رکھا ہے ۔ دوسرے اسلام میں کفالت کا ذمہ دار مرد کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ان دو اسباب کے تحت مرد کو گھر کا سربراہ قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح ہر نظام میں سربراہ کو تادیب کے اختیار حاصل ہوتے ہیں اسی طرح گھر کے اس باس کوبھی تادیب کا اختیار حاصل ہے۔قرآن مجید میں یہ ساری بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:

الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضہم علی بعض وبما انفقوا باموالہم (النساء۴:۳۴)

 ‘‘مرد عورتوں پر قوام ہیں اس وجہ سے اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔’’شوہر کو بیوی کا باس قرار دینے کی وجہ بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اچھی بیوی کی دو صفات بیان کی ہیں ایک یہ کہ وہ فرماں بردار ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ گھر کے بھیدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید نے اگر بیوی شوہر کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردے تو اصلاح کے لیے نصیحت، بستر سے علیحدگی اور بدرجہ آخر مارنے کا طریقہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔اگر اللہ کے دین میں دیا گیا خاندانی نظام پیش نظر ہو تو اس میں یہ ساری باتیں معقول ہیں۔ البتہ اگر خاندانی نظام کے بجائے معاشرے کو کسی دوسرے طریقے پر استوار کرنا پیش نظر ہے تو پھر نہ ان ہدایات کی ضرورت ہے اور نہ کسی خصوصی اختیار اور حیثیت کی۔قانون وراثت کے ضمن میں عرض ہے کہ اس کی اساس خود اللہ تعالی نے بیان کردی ہے۔ اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ وارثت کے یہ احکام اس لیے دیے گیے ہیں کہ تم خود سے بالعموم ٹھیک ٹھیک متعین نہیں کر سکتے کہ مرنے والے سے منفعت میں سب سے زیادہ کون قریب ہے۔ اس لیے ہم نے خود سے حصے مقرر کر دیے ہیں۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ مرد کو کفیل ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ مردوں پر آئندہ کفالت کی ذمہ داری ہے لہذا انھیں زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ اسی قانون میں ماں باپ کا حصہ برابر ہے۔ حالانکہ ان میں بھی ایک مرد اور ایک عورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس پر معاش کی ذمہ داری کی وہ صورت نہیں ہے۔ہر قانون اور ضابطہ کچھ مصالح اور مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ قانون پر تنقید کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس مصلحت اور مقصد کو سمجھا جائے۔ دو صورتیں ہوں گی۔ ہمیں اس مقصد اور مصلحت ہی سے اتفاق نہ ہو۔ پھر بحث اس موضوع پر ہو گی ۔ دوسری یہ کہ اس مصلحت اور مقصد کو یہ قانون پورا نہ کرتا ہو۔اس صورت میں گفتگو اس دوسرے پہلو سے ہو گی۔ قرآن مجید کا معاملہ یہ ہے کہ یہ علیم و خبیر خدا وند عالم کی کتاب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے اس کی کوئی بات انسانی فطرت اورعقل وفہم کے موافق نہ ہو۔ ہم اپنی کوتاہی دور کر لیں ہر چیز واضح ہو جاتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : فقہا کے نزدیک بحث کا انحصار ستر کے تعین پر ہے۔ نماز میں نمازی کے لیے ستر ڈھانپنا واجب ہے۔ عورت اور مرد کے ستر میں فرق ہے۔ عام فقہا کے نزدیک عورت کا ستر ہاتھ اور چہرا چھوڑ کر باقی سارا جسم ہے۔وہ قرآن مجید کی آیت ‘ولا یبدین زینتہن الا ما ظہر’(عورتیں اپنی زینتیں ظاہر نہ کریں سوائے ان کے جو آپ سے آپ ظاہر ہوں)سے استدلال کرتے ہیں ۔‘الا ما ظہر’ کا اطلاق ان کے نزدیک ہاتھوں اور چہرے پر ہوتا ہے۔عورتوں کے ضمن میں آپ ؐنے فرمایا:

عن عائشۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال:لا یقبل اللہ صلوٰۃ حائض الا بخمار۰(ابوداؤد، رقم۵۱۶)

 ‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی دوپٹے کے بغیر بالغ عورت کی نماز قبول نہیں کرتے۔’’اسی طرح آپؐ کا ارشاد ہے:

عن ام سلمہ رضی اللہ عنہا انہا سألت النبی صلی اللہ علیہ وسلم أتصلی المرأۃ فی درع وخمار لیس علیہا أزار؟ قال: إذا کان الدرع سابغا یغطی ظہور قدمیہا۰(ابوداؤد، رقم۶۴۰)

 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت قمیص اور دوپٹے کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا: صرف اس صورت میں جب لمبی قمیص نے پاؤں کی پشت کو ڈھانپا ہوا ہو۔’’ان روایات سے وہ کم از کم اہتمام معلوم ہوتا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔غرض یہ کہ عورت شایستہ اور مناسب لباس پہن کر نماز پڑھے۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ آپ کی اہلیہ کی نماز کے ادا ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے فقہا کا رجحان یہ ہے کہ جس لباس اور جس اخفائے زینت کا تقاضا اللہ تعالی نے مردوں کے سامنے آنے پر کیا ہے وہی اہتمام نماز میں بھی ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے ۔یہ بات لازم تو نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس کا اہتمام کیا جائے تو یقینا پسندیدہ ہو گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہے کہ روزے اور حج کے مہینے قمری تقویم یعنی چاند کی ماہانہ گردش سے طے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قمری مہینے کا تعین کیسے ہو۔سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام چاند دیکھ کر کیا جائے گا۔لیکن انسان نے بہت پہلے یہ بات جان لی تھی کہ چاند کی گردش معین ہے اور ہلال کے طلوع کو حساب کتاب سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قمری مہینے کے ہونے اور نہ ہونے کا تعین دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔ رؤیت ہلال سے بھی اور گردش قمر کے حساب سے بھی۔ اب یہ حساب کتاب اتنا یقینی ہو چکا ہے کہ اہل فن سیکنڈ کے حساب سے چاند کے طلوع ہونے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا دین میں چاند کے تعین میں کسی خاص طریقے کو ترجیح دی گئی ہے۔قرآن مجید میں اس حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مدار بحث ایک روایت ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:

صوموا لرؤیتہ وافطرو لرؤیتہ فان غمی علیکم فأکملوا العدد (مسلم، رقم۱۰۸۱)

 ‘‘چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔اگر مطلع صاف نہ ہو تو گنتی پوری کرو۔’’

اس روایت کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ رمضان اور عید کا تعین صرف چاند دیکھ کر کرنا چاہیے۔ درآنحالیکہ یہ بات اس جملے سے لازم نہیں آتی۔روزے کے حوالے سے سحری اور افطار کا تعین بھی طلوع فجر اور غروب آفتاب سے متعلق ہے۔ لیکن وہاں ہم نے کسی رؤیت صبح صادق اور تعین غروب آفتاب کا اہتمام نہیں کیا۔ سورج کی گردش کے متعین حساب کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اوقات متعین کر دیے گئے ہیں اور لوگ گھڑیاں دیکھ کر سحر اور افطار کرتے ہیں۔حالانکہ قرآن مجید نے یہاں بھی دو مظاہر فطرت کو آغاز صوم اور اختتام صوم کا نشان قرار دیا تھا۔جس طرح یہاں سورج کی گردش کے حساب پر اعتماد کیا گیا ہے اسی طرح چاندکی گردش کے حساب پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا اس صورت میں بھی بتمام وکمال پورا ہوتا ہے۔قدیم علما بھی جب مطلع صاف نہ ہو اور رؤیت ممکن نہ رہے تو حساب کتاب ہی کو فیصلے کا مدار قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں دو آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور دوسری رائے یہ ہے کہ گردش کا حساب دیکھ کر طے کیا جائے کہ آج طلوع ہلال ممکن تھا یا نہیں۔ جو رائے قائم ہو اس پر عمل ہونا چاہیے۔یہ دوسری رائے امام شافعی سے بھی مروی ہے۔ اس رائے میں بھی بنیادی اصول یہی کار فرما ہے کہ اصل مسئلہ آغاز رمضان یا اختتام رمضان کا تعین ہے۔ روئیت ہلال اس کا ذریعہ ہے اس کی شرط نہیں ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ اختلاف مطالع کے باعث مختلف علاقوں میں عید اور رمضان کے اوقات بدل جاتے ہیں۔ اس کا کیا حل ہے؟ ہمارے نزدیک سارے عالم اسلام یا سارے ملک میں ایک ہی دن عید کرنے کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔جن علاقوں کا مطلع مختلف ہے ان میں عید کا دن مختلف ہی ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالی نے قمری گردش کو مذہبی تقویم قرار دیا ہے تو یہ فرق اسی کا نتیجہ ہے۔ ہوائی سفر میں نماز اور روزے کا حساب ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ جس علاقے سے سفر شروع کیا گیا ہے۔ وقت کا فرق کم ہو تو اس علاقے کے اوقات ملحوظ رکھنے چاہییں۔ لیکن اگر فرق زیادہ ہو تو جس علاقے سے جہاز گزر رہا ہو یا پہنچنے والا ہو اس کا اعتبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسافر کی صوابدید پر ہے وہ جسے بھی اختیار کرے گا امید یہی ہے کہ اس کے روزے اور نماز کے مقبول ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :مولاناامین احسن اصلاحی کے استاد جناب مولانا حمید الدین فراہی اپنے شاگردوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ ہمیشہ اعلیٰ کتابیں پڑھنی چاہییں۔ اعلیٰ کتابیں ہی مطالعے کا صحیح ذوق پیدا کرتی ہیں۔کتابوں کی بھی دو سطحیں ہوتی ہیں اور طالب مطالعہ کے بھی دو درجے ہوتے ہیں۔ ایک وہ دور ہوتا ہے جب ایک پڑھنے لکھنے والا آدمی ہر فن کی واجبی واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس فن کے ماہرین سے پوچھ لے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والی کتاب کون سی ہے۔ آدمی کو اس مرحلے میں اسی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔جب آدمی اس مرحلے سے گزر جائے تو اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ فن اس کی دلچسپی کا ہے یا نہیں۔ اگر اس کی دلچسپی کا ہو تو اسے اس فن کی اعلی کتابوں میں سے کسی ایک جامع کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کی مشکلات کو سمجھنے کے لیے اس فن کے کسی استاد سے رابطہ رکھنا چاہیے۔ ایک مذہبی عالم کو نیچرل سائنس کی چیزوں سے اتنا واقف ضرور ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے فنون میں ان کے حوالے سے آنے والی بات کو سمجھ سکے۔ لیکن اسے معیشت، معاشرت، تاریخ،قانون، تہذیب وتمدن، فلسفہ، نفسیات وغیرہ تمام انسانی علوم سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔ بطور خاص وہ علوم جو جدید انسان کی سوچ اور طرز زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں ان کی اچھی واقفیت کے بغیر دین کی دعوت اور دین کے دفاع کا کام کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔اس سلسلے میں آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیت کی سطح، اپنی طبیعت کے رجحان اور اپنے ماحول کے داعیات کو سامنے رکھ کر اپنے لیے لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ یہ سب خدا کے فیصلے ہیں اور انھی پر راضی ہونا بندے کے شایان شان ہے۔ ان کے ساتھ لڑائی ایک تو آدمی کو نتائج سے محروم کر دیتی ہے اور دوسرے خود اس کی اخلاقی شخصیت کے لیے ضرر کا باعث بنتی ہے۔باقی رہا، پڑھی ہوئی باتوں کا یاد رہنا تو اس کا تعلق یادداشت کی قوت اور اس علم سے واسطہ پڑتے رہنے سے ہے۔ اس کے لیے کسی اضافی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ جب کسی کتاب سے گزر جاتے ہیں تو اس میں بیان کردہ باتوں کا ایک تاثر آپ کو ذہن میں ضرور قائم رہتا ہے۔ جب کبھی ضرورت پڑے تو تفصیلی معلومات کو آدمی دوبارہ تازہ کر لیتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :نماز کی اصل ہیئت کے جس قدر قریب ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ بیماری اور تکلیف میں رخصت کا مطلب صرف یہ ہے کہ نماز کے وقت پر ہر حال میں نماز پڑھی جائے اور کسی مجبوری کو اس راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔ ہیئت میں رخصت کتنی ہے یہ بات طے نہیں کی گئی۔ نمازی کی معذوری، حالات اور مزاج کے فرق کی وجہ سے یہ اسی پر چھوڑنا بہتر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ آپ والی مثال لے لیں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا کہاں ہے: گھر میں ہے؟ مسجد میں ہے؟ سفر میں ہے؟ کسی کا ہاں مہمان ہے؟ کتنا جھک سکتا ہے؟ کرسی کون سی دستیاب ہے؟ مراد یہ ہے کہ ہر ہیئت اور حالات میں نماز کی اصل ہیئت سے قربت کی صورت بدل جائے گی۔ چنانچہ نمازی ، اس کی بیماری اور دستیاب حالات تینوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ ہو گا کہ نماز ادا کرنے کی بہتر صورت کیا ہوگی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :اس روایت کے حوالے سے دو رائیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس واقعے ہی کو سرے سے نہ مانا جائے۔ اس کے قرائن بھی اس روایت میں موجود ہیں۔ سب سے قوی قرینہ یہ ہے کہ کاغذ اور قلم نہ لانے کی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جارہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو مطعون کرنا ایک زمانے میں باقاعدہ مسئلہ رہا ہے۔ ممکن ہے یہ واقعہ بھی اسی جذبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہو۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وفات سے تین چار دن پہلے پیش آیا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعۃ کوئی چیز لکھوانا چاہتے تھے تو آپ وہ چیز دوبارہ کہہ کر لکھوا سکتے تھے۔ تیسرا قرینہ یہ ہے کہ اس روایت کے راویوں میں ابن شہاب بھی ہیں۔ حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں وہ روایات جن میں ان کی کوئی نہ کوئی خرابی سامنے آتی ہو ان کی سند میں بالعموم یہ موجود ہوتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس واقعے کو درست مان لیا جائے۔شارحین نے اس واقعے کو درست مانتے ہوئے اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ نے یہ رائے قائم کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ان کی طرف سے جاری کردہ کوئی امر نہیں تھا بلکہ محض ایک مشورہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو افاقہ بھی ہوا تو آپ نے یہ خواہش دوبارہ نہیں کی۔میں ذاتی طور پر یہی محسوس کرتا ہوں کہ یہ واقعہ قابل قبول نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس سے حتمی طور پر معلوم ہوکہ جہنم کہاں ہو گی۔ البتہ قرآن مجید سے ہمیں احوال قیامت کے ضمن میں جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کی روشنی میں ہم ایک اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمین وآسمان زبردست تباہی سے گزریں گے۔ ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اسی طرح لپیٹ دیا جائے گا جیسے کاغذ رول کیا جاتا ہے۔ ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان زمین وآسمان کو نئے زمین و آسمان سے بدل دیا جائے گا۔اس تفصیل سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جہنم اور جنت کسی نئی دنیا میں ہوں گے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ کا جذبہ بہت اعلی ہے۔ اس ہدف کے درست ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان کا ایمان اس کی اپنی دریافت ہو۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ کسی مسلمان کو اندھا مقلد اور اپنے افکار پر جامد نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سوچ اتنی اچھی ہے کہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔لیکن میرے خیال میں بچوں کے حوالے سے آپ کی بات میں کچھ تبدیلیاں ضروری ہیں۔ بچے ہمارے بتانے سے کم اور ہمارے عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ لہذا بنیادی اصول تو یہ ہے کہ جو آپ اپنے بچوں کو بنانا چاہتی ہیں وہ خود بنیں۔ اگر بچے آپ کو دیکھیں گے کہ آپ باتیں تو آزادی فکر کی کرتی ہیں لیکن خود اس پر عامل نہیں ہیں تو آپ کی باتیں تاثیر سے محروم رہیں گی۔ دوسرا انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ تمام بچے یکساں فکری صلاحیت نہیں رکھتے۔ لہذا بچوں کی تربیت اور اٹھان میں ان کی صلاحیت اور طبعی رجحانات ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ممکن ہے آپ کے سارے بچے آپ کی فکری نہج کو اپنا لیں۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہونا چاہیے جب آپ یہ دیکھیں کہ وہ اس کے لیے مناسب اہلیت رکھتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے اور اسے بھی ایک اصول ہی کی حیثیت حاصل ہے کہ انسانی نفسیات خلا میں نہیں جیتی۔ انسانی طبیعت کچھ تصورات اور شخصیات کے ساتھ وابستگی ہی سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اگر آپ اس کی رعایت نہیں کریں گی اور بچوں کو شروع ہی میں ان کی ہمت سے باہر کے دائرے میں رد وقبول کی راہ دکھائیں گی تو وہ فکری انتشار اور عملی انحطاط کا شکار ہو جائیں گے۔تعلیم کا اصول یہ ہے کہ بچوں کو نیچرل سائنسز ہوں یا انسان سے متعلق علوم باتیں اسی طرح سکھائی جاتی ہیں جیسے کہ وہ ہر شک وشبے سے پاک ہوں۔پھر ان کی معلومات کے دائرے کو بڑھاتے بڑھاتے اس پوزیشن میں لے آتے ہیں کہ وہ دلائل کی کمزروی اور قوت کو سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر ان میں اہلیت ہو تو وہ خود دریافت کرنے یا ترجیح دینے کے عمل میں کارکردگی دکھانے لگ جاتے ہیں۔ ورنہ ان کا سفر معلوم کے معلوم ہونے تک محدود رہتا ہے۔مذہب میں بھی یہی صورت ہوگی۔ بچوں کو آپ اپنے دینی خیالات اسی طرح سکھائیں گی جیسے کہ وہ ایک حقیقت ہیں۔ پھر انھیں مختلف افکارو نظریات سے آگاہی کا موقع ملے گا۔ یہ وہ وقت ہے جب آپ کو انھیں یہ سکھانا بھی ہے اور اس کا نمونہ بھی بننا ہے کہ ہر بات دلیل کی بنیاد پر مانی اور رد کی جاتی ہے۔مذہب کے حوالے سے یہ حقیقت بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ مذہبی استدلال اور تجرباتی علوم کے استدلال میں فرق ہے۔ لہذا اس فرق کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو فکری نتائج بڑے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ نیچرل سائنسز کے غلبے کے اس زمانے میں بعض ذہین لوگ اسی فکری تضاد میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اور انھیں اس سے نکالنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ذہن کا خاصا یہ ہے کہ اسے نئی بات میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ مذہب اللہ تعالی کی سکھائی ہوئی باتوں کو ماننے کا نام ہے۔دین کی تعلیم کا کام کرنے والوں کو اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر معاملہ کرنا چاہیے۔

بچے اپنے والدین اور اساتذہ کو آئیڈیالائز کرتے ہیں۔ آپ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیے گا۔ بلکہ اسی کو استعمال کرتے ہوئے ان کی تربیت کا کام کیجیے گا۔ اللہ تعالی آپ کو اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائیں(آمین)

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ مغرب میں قانونی طور پر کسی فرد کے کسی عمل کو ممنوع ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں ہے جب تک وہ فعل دوسروں کے جسم وجان کے لیے ضرر رساں یاان کے کسی حق کو تلف کرنے کا باعث نہ ہو۔اس کے برعکس اسلام میں وہ تمام چیزیں بھی ممنوع ہیں جو انسان کے اخلاقی وجود کے منافی ہیں۔ شراب کوسورہ بقرہ کی آیت ۲۱۹میں اثم یعنی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ‘اثم’ کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘اثم کا لفظ…………اخلاقی مفاسد اور گناہوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ج۱، ص۵۱۴)اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت ۹۰میں اسے ‘رجس’ گندگی اور عمل شیطان قرار دیا گیا ہے۔ یہ آیت بھی شراب کی اخلاقی قباحت ہی کو واضح کرتی ہے۔سورہ نساء کی آیت ۴۳ سے واضح ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت کا اصل باعث اس کا نشہ آور ہونا ہے۔ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ جب تم نشے میں ہو تو نماز نہ پڑھو۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ شراب کی حرمت کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس آیت میں نشے اور جنابت دونوں کو نماز کے لیے مانع قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے اشتراک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ‘‘نشہ اور جنابت دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرکے اور دونوں کو یکساں مفسد نماز قرار دے کر قرآن نے اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ دونوں حالتیں نجاست کی ہیں، بس فرق یہ ہے کہ نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی۔ شراب کو قران نے جو ‘رجس’ کہا ہے یہ اس کی وضاحت ہو گئی۔’’ (تدبر قرآن، ج۲، ص۳۰۲)میں نے قرآن کا منشا بیان کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسلام کا نقطہ نظر آپ کے سامنے آگیا ہو گا۔ لیکن مغرب میں پہلے اس اصول کو منوانا ضروری ہے کہ انسان کے اخلاقی وجود کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ جب تک یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی قرآن کا یہ موقف ان کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :اصلاً یہ دنیا تدبیر پر چل رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت تدبیر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی تدبیر کی کامیابی اور ناکامی میں ایک حصہ تدبیر کے حسن وقبح کا ہے اور اصل چیز خدا کی تائید یا عدم تائید ہے۔ کھیتی کی مثال دیکھیے۔ اگر کسان ہل نہیں جوتے گا، بیج نہیں ڈالے گااور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرے گا تو کوئی پیداوار نہیں آئے گی۔ لیکن جب وہ یہ سب کچھ کرتا ہے تو اس کھیتی کی کامیابی کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔کسان کی تدبیر کے دائرے سے باہر کے امکانات کی موافقت بھی ضروری ہے۔مثلاً موسم اور دوسری آفات کا نہ ہونا۔ چنانچہ صحیح تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی توفیق ہی سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ناکامی پیش آئے تو دونوں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک یہ کہ تدبیر میں کیا کمی رہ گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کو کیا آزمایش کرنا پیش نظر تھی۔ ہم اگرچہ پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی عمل کے جو نتائج نکلے ہیں ان میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مایوسی اور بے ہمتی کا شکار ہونے کے بجائے نئے عزم سے اور بہتر تدبیر کے ساتھ نئی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔باقی رہا تقدیر کا معاملہ تو رزق کے معاملے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو کم اور کسی کو بے حساب رزق دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالی یہ فیصلہ کسی حکمت ہی کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صحیح تدبیر کریں اللہ تعالی کے ساتھ بندگی اور توکل کے تعلق کو قائم رکھیں اور جو کچھ نتائج نکلیں کامیابی کی صورت میں اسے شکر کی آزمایش سمجھیں اور ناکامی کی صورت میں اسے صبر کی آزمایش کے طور پر دیکھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:پردے کا لفظ قرآن مجید کے احکام کو پوری طرح بیان نہیں کرتا۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سورہ نور میں مرد وعورت دونوں کو گھر ہو یا کوئی دوسری جگہ جب یہ ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو کچھ آداب واحکام کا پابند کیا ہے۔

 دو حکموں میں مردوعورت مشترک ہیں اور دو حکم عورت کے لیے اضافی ہیں۔

۱۔ دونوں اپنی نظریں بچا کر رکھیں۔

۲۔ دونوں شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

۳۔ عورتیں اپنی زیب وزینت اپنے قریبی اعزہ اور متعلقین کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔

۴۔ عورتیں اپنے سینے کو ڈھانپ کر رکھیں۔

نظریں بچانے سے مراد یہ ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے کے حسن وجمال سے آنکھیں سینکنے، خط وخال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں۔

شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ مرد وعورت ایک جگہ موجود ہوں تو چھپانے کی جگہوں کو اور بھی زیادہ اہتمام سے چھپائیں۔ اس میں ظاہر ہے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ لباس با قرینہ ہو۔ عورتیں اور مرد دونوں ایسا لباس پہنیں جو زینت کے ساتھ ساتھ صنفی اعضا کو بھی پوری طرح چھپانے والا ہو۔ پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی شخص برہنہ نہ ہونے پائے۔

 لباس کے حوالے سے عورتوں کو مزید ہدایت سینے سے متعلق ہے کہ وہ اسے اپنے دوپٹوں سے ڈھانپ کر رکھیں۔اس ہدایت پر عمل کرنے میں تشدد اور نرمی دونوں طرح کے رویے پیدا ہوئے ہیں۔ جو خواتین زیادہ سے زیادہ ڈھانپنے کی طرف مائل ہیں وہ بھی اور جو احکام کے تقاضا پورا کر دیتی ہیں دونوں ہمیشہ سے معاشرے میں موجود رہی ہیں۔ اس کا انحصار ذوق اور حالات پر ہوتا ہے کہ کوئی عورت کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ہم کسی رویے کو اس وقت ہی غلط قرار دے سکتے جب وہ حکم کے الفاظ ہی سے متجاوز ہو۔سورہ احزاب میں بڑی چادر لینے کا حکم فتنہ پردازوں سے بچنے کے لیے ایک تدبیر تھا۔ یہ کوئی مستقل حکم نہیں تھا۔ لیکن ہمارے فقہا نے اسے ایک ابدی حکم سمجھا ہے۔ لہذا وہ اسے اب بھی لازم قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل اور ابدی حکم سورہ نور کا ہے اور باحیا اور باوقار لباس جو عورت کی زیب و زینت اور جسم کو نمایاں کرنے والا نہ ہوحکم کا تقاضا پورا کر دیتا ہے۔سر ڈھانپنے کے حوالے سے کوئی حکم قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد بھی نہیں ہے جس میں آپ نے سر ڈھانکنے کی ہدایت کی ہو۔یہ بات معلوم ہے کہ عرب میں سر ڈھانکنے کا رواج تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں اور اصحاب کی ازواج نے اس کو جاری رکھا۔ اس اعتبار سے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تائید حاصل ہے اور قرآن مجید کے احکام بھی اس طرز معاشرت کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں۔ ایک روایت سے یہ تائید مزید محکم ہوتی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے بالغ عورتیں اگر اوڑھنی لیے بغیر نماز پڑھیں تو اللہ اسے قبول نہیں کرتے۔معلوم ہے کہ نماز میں قاعدے کا لباس پہننا چاہیے۔ عورت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے قاعدے کے لباس میں اوڑھنی شامل ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :بطور انسان سب برابر ہیں۔ جس طرح معاشرے میں صلاحیت ، تعلیم اور حیثیت سے حقوق وفرائض میں فرق واقع ہو جاتا ہے اسی طرح خاندان میں بھی یہ فرق واقع ہوتا ہے۔ بطور انسان اولاد اور والدین بھی برابر ہیں لیکن حیثیت اور مرتبے میں اولاد پر والدین کو فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔بطور انسان عوام اور حکمران بھی برابر ہیں لیکن حکمرانوں کو عوام پر ایک فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔ اسی طرح جب دو مرد وعورت میاں بیوی بن کر رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان میں سے مرد کو برتر حیثیت حاصل ہے۔ دین میں بھی یہ حیثیت مرد کو دی گئی ہے اور اس کی وجہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ یہ ایک انتظامی حیثیت ہے۔ اس کو سمجھنے اور ماننے میں گھر کی زندگی کی ترقی اور سکون کا راز مضمر ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :کپڑے کی جراب اور چمڑے کی جراب میں فرق کرنے کا سبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جربین پر مسح کا ذکر ہوا ہے اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ غالباً متأخرین میں دونوں کی ساخت کا فرق بھی اختلاف کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انھی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کاسبب رفع زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالی نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت یعنی رفع زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :اہل حدیث حضرات کا نقطہ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے فہم پر مبنی ہے۔ بعض روایات میں اوتر بواحدۃ (ایک سے طاق کر لو)کے الفاظ آئے ہیں۔اگر اس کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ایک رکعت پڑھ لوجیسا کہ اہل حدیث حضرات نے سمجھا ہے تو ایک وتر پڑھنا حدیث سے ثابت ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس جملے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز کو طاق پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ کسی نماز کو طاق کرنے کا کم از کم مطلب یہ ہے کہ دو کو تین کیا جائے۔ امام مالک نے یہی رائے دی ہے کہ یہ نماز کم از کم تین رکعت ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس کا اصل وقت طلوع فجر سے پہلے ہے۔ عام مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت دینے کی وجہ سے اسے عشا کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ہمارے نزدیک ایک رکعت پڑھنا درست نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاوہ نہیں ہے جسے بعض لوگ نے اس جملے سے اخذ کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :یہ علوم کبھی بھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکے کہ انھیں سائنس قرار دیا جا سکے۔ یہ محض اندازوں اور اٹکل پر مبنی ہیں اور ان کے پیچھے مشرک معاشروں کی مائتھالوجی کے اثرات کار فرما ہیں۔ کسی شے میں ماورائے اسباب تاثیر ماننا جبت ہے۔ غیب کا علم کسی کو نہیں ہے۔ اس طرح کے علوم غیب دانی کے مدعی ہوتے ہیں۔ یہ بات قرآن مجید کی نصوص کے خلاف ہے۔ اصلاً یہ لوگ شیاطین کا آلہ کار بنتے ہیں۔ اس طرح کے علوم سے احتراز کرنا ہی محفوظ راستہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :تعویز اس دعوے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ اس دعوے کے پیچھے کوئی دینی دلیل موجود نہیں ہے۔ یعنی قرآن وحدیث میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں کوئی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں وہ اپنے مختلف تجربات بیان کرتے ہیں۔ لیکن ان تجربات کا کوئی غیر جانبدارانہ تجزیہ موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں یہ طے ہو سکے کہ اس دعوے کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اس فن کے لوگ موجود رہے ہیں لیکن نہ قدیم نہ جدید کسی معاشرے نے اس فن کو ایک قابل اعتماد تدبیر قرار نہیں دیا۔ مزید دیکھیے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں دو ہی طریقے سکھائے ہیں۔ ایک یہ کہ عملی تدبیر کی جائے اور اللہ تعالی سے اس تدبیر کے کامیاب ہونے کی دعا کی جائے۔ کبھی کسی تعویز یا وظیفے وغیرہ کا طریقہ نہ سکھایا گیا ہے اور نہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کا معاشرہ ہمیں اس طرح کی چیزوں سے خالی ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی سے دعا کرکے اپنے جسم پر پھونکا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے تعویز کا تصور نہیں نکالا جا سکتا اس لیے کہ تعویز کلمات کی تاثیر کے تصور پر مبنی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :باجماعت نماز اور مسجد کی حاضری نماز کے اجر کو بڑھانے والی چیز ہیں۔ اس میں کوتاہی نماز کے اجر کو کم کرنے والی چیز ہے۔ جس طرح کی مصروفیات آپ کو نماز باجماعت سے محروم کر دیتی ہیں انھی سے پیچھا چھڑا کر جماعت میں شریک ہونا وہ مجاہدہ ہے جو ازدیاد اجر کا باعث ہے۔ اس لیے کوشش یہی کرنی چاہیے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انفرادی نماز قبول نہیں ہوتی۔ البتہ آدمی اجر کے ایک بڑے حصے سے محروم ضرور ہو جاتا ہے۔ نماز سے غفلت جو وبال کا باعث بنے گی یا نماز کی عدم قبولیت کی وجہ بن سکتی ہے وہ نماز کو بے وقت پڑھنا۔ نماز میں اہتمام اور خوبی کے پہلو کا نہ ہونا اور ان اخلاق کی عدم موجودگی ہے جو ایک نمازی میں ہونے چاہئیں۔سورہ ماعون میں یہی غفلت مراد ہے۔

(مولانا طالب محسن)

سوال :کسی نجومی سے مشورہ کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ اسی طرح کی پیشین گوئی ہے جیسے طوفان ، زلزلے اور بارش وغیرہ کی پیشین گوئی کی جاتی ہے۔میرا ایک ذاتی تجربہ ہے مجھے کسی نجومی نے بتایا تھا کہ فلاں وقت ملک سے باہر جانے کا امکان ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ مجھے فائدہ یہ ہوا کہ میں نے اس کے لیے مناسب تیاری کر رکھی تھی۔ اگر نجومیوں سے اس نوع کا فائدہ اٹھایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج-85 رشوت لینے والا تو ہر حال میں ‘‘فی النار’’ کا مصداق ہے، اور رشوت دینے والے کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ دفعِ ظلم کے لئے رشوت دی جائے تو اْمید ہے کہ اللہ تعالیٰ مواخذہ نہیں فرمائیں گے۔ رشوت دے کر جو نوکری حاصل کی گئی ہو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ شخص اس ملازمت کا اہل ہے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے اسے ٹھیک ٹھیک انجام دیتا ہے تو اس کی تنخواہ حلال ہے، (گو رشوت کا وبال ہوگا)، اور اگر وہ اس کام کا اہل ہی نہیں تو تنخواہ بھی حلال نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- رشوت کے بارے میں جناب نے مجھ پر جو اعتراض کیا تھا، میں نے اعترافِ شکست کے ساتھ اس بحث کو ختم کردینا چاہا تھا، لیکن آنجناب نے اس کو بھی محسوس فرمایا، اس لئے مختصراً پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر اس سے شفا نہ ہو تو سمجھ لیا جائے کہ میں اس سے زیادہ عرض کرنے سے معذور ہوں۔

 جناب کا یہ ارشاد بجا ہے کہ رشوت قطعی حرام ہے، خدا اور رسول نے راشی اور مرتشی دونوں پر لعنت کی ہے، اور اس پر دوزخ کی وعید سنائی ہے۔ لیکن جناب کو معلوم ہے کہ اضطرار کی حالت میں مردار کی بھی اجازت دے دی جاتی ہے، کچھ یہی نوعیت رشوت دینے کی ہے۔ ایک شخص کسی ظالم خونخوار کے حوالے ہے، وہ ظلم دفع کرنے کے لئے رشوت دیتا ہے، فقہائے اْمت اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ‘‘اْمید ہے کہ اس پر مواخذہ نہ ہوگا’’ اور یہی میں نے لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس پر عام حالات کا قانون نافذ نہیں ہوسکتا، اس لئے رشوت لینا تو ہر حال میں حرام ہے اور گناہِ کبیرہ ہے، اور رشوت دینے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ جلبِ منفعت کے لئے رشوت دے، یہ حرام ہے، اور یہی مصداق ہے ان احادیث کا جن میں رشوت دینے پر وعید آئی ہے۔ اور دْوسری صورت یہ کہ دفعِ ظلم کے لئے رشوت دینے پر مجبور ہو، اس کے بارے میں فقہاء فرماتے ہیں کہ: ‘‘اْمید ہے کہ مواخذہ نہ ہوگا’’۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- شوہر اگر حرام کا روپیہ کماکر لاتا ہے تو عورت کو چاہئے کہ پیار محبت سے اور معاملہ فہمی کے ساتھ شوہر کو اس زہر کے کھانے سے بچائے، اگر وہ نہیں بچتا تو اس کو صاف صاف کہہ دے کہ: ‘‘میں بھوکی رہ کر دن کاٹ لوں گی، مگر حرام کا روپیہ میرے گھر نہ لایا جائے، حلال خواہ کم ہو میرے لئے وہی کافی ہے۔’’ اگر عورت نے اس دستور العمل پر عمل کیا تو وہ گناہگار نہیں ہوگی، بلکہ رشوت اور حرام خوری کی سزا میں صرف مرد پکڑا جائے گا، اور اگر عورت ایسا نہیں کرتی بلکہ اس کا حرام کا لایا ہوا روپیہ خرچ کرتی ہے تو دونوں اکٹھے جہنم میں جائیں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- رشوت لینا حرام ہے، اور اس حرام روپے سے کسی کی خدمت کرنا اور اس پر ثواب کی توقع رکھنا بہت ہی سنگین گناہ ہے۔ بعض اکابر نے لکھا ہے کہ حرام مال پر ثواب کی نیت کرنے سے ایمان سلب ہوجاتا ہے۔ آپ کے حاتم طائی کو چاہئے کہ رشوت کا روپیہ اس کے مالک کو واپس کرکے اپنی جان پر رحم کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج-  رشوت کا پیسہ حرام ہے، اور حدیث میں ارشاد ہے کہ: ‘‘آدمی حرام کماکر اس میں سے صدقہ کرے، وہ قبول نہیں ہوتا’’ حضراتِ فقہاء نے لکھا ہے کہ مالِ حرام میں صدقے کی نیت کرنا بڑا ہی سخت گناہ ہے، اس کی مثال ایسی ہے کوئی شخص گندگی جمع کرکے کسی بڑے آدمی کو ہدیہ پیش کرے، تو یہ ہدیہ نہیں گا بلکہ اس کو گستاخی تصوّر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی میں گندگی جمع کرکے پیش کرنا بھی گستاخی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جو لوگ ذاتی تعلق و محبت اور بزرگ داشت کے طور پر ہدیہ پیش کرتے ہیں وہ تو ہدیہ ہے، اور اس کا استعمال جائز اور صحیح ہے۔ اور جو لوگ آپ سے آپ کے عہدے کی وجہ سے منفعت کی توقع پر مٹھائی پیش کرتے ہیں، یعنی آپ نے ان کو اپنے عہدے کی وجہ سے نفع پہنچایا ہے یا آئندہ اس کی توقع ہے، یہ رشوت ہے، اس کو قبول نہ کیجئے، نہ خود کھائیے، نہ گھر والوں کو کھلائیے۔ اور اس کا معیار یہ ہے کہ اگر آپ اس عہدے پر نہ ہوتے، یا اس عہدے سے سبکدوش ہوجائیں تو کیا پھر بھی یہ لوگ آپ کو ہدیہ دیا کریں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو یہ ہدیے بھی رشوت ہیں، اور اگر ان ہدیوں کا آپ کے منصب اور عہدے سے کوئی تعلق نہیں تو یہ ہدیے آپ کے لئے جائز ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- میں سرکاری ٹھیکے دار ہوں، مختلف محکموں میں پانی کی ترسیل کی لائنیں بچھانے کے ٹھیکے ہم لیتے ہیں، ہم جو ٹھیکے لیتے ہیں وہ باقاعدہ ٹینڈر فارم جمع کراکے مقابلے میں حاصل کرتے ہیں، مقابلہ یوں کہ بہت سے ٹھیکے دار اس ٹھیکے کے لئے اپنی اپنی رقم لکھتے ہیں اور بعد میں ٹینڈر سب کے سامنے کھولے جاتے ہیں، جس کی قیمت کم ہوتی ہے، سرکار اسے ٹھیکہ دے دیتی ہے۔ اس کام میں ہم اپنا ذاتی حلال کا پیسہ لگاتے ہیں اور سرکار نے پانی کے پائپوں کا جو معیار مقرّر کیا ہے وہی پائپ لیتے ہیں جو کہ محکمے سے منظور شدہ کمپنی سے خریدا جاتا ہے، اور جو قسم محکمے والے مقرّر کرتے ہیں، وہی خریدتے ہیں۔ ہم اپنے طور پر کام ایمان داری سے کرتے ہیں، مگر چند ایک چھوٹی چیزیں مثلاً پائپ جوڑنے والا آلہ جس کی موٹائی محکمے والے ۱۰، اِنچ مقرّر کرتے ہیں، وہ ہم پانچ اِنچ موٹائی کا لگادیتے ہیں۔ اس سے لائن کی مضبوطی میں فرق نہیں پڑتا لیکن ہمارے ساتھ مجبوری یہ ہے کہ محکمے کے افسران جو کہ اس کام پر مامور ہوتے ہیں ان کو ہمیں لازماً افسران کے عہدوں کے مطابق ٹینڈر کی قیمت کے ۲ فیصد سے ۵ فیصد تک پیسے دینے پڑتے ہیں، جبکہ وہ سرکاری ملازم ہیں اور محکمے سے تنخواہ لیتے ہیں، اور جو پیسے وہ ہم سے لیتے ہیں وہ سرکار کے خزانے میں نہیں بلکہ ان کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ اگر ہم انہیں یہ پیسے نہ دیں تو وہ کام میں رْکاوٹ ڈالتے ہیں، اور اگر ہم سو فیصد کام صحیح کریں جب بھی اس میں نقص نکال کر ہمارے پیسے رْکوادیتے ہیں اور آئندہ کے لئے کاموں میں رْکاوٹ ڈال دیتے ہیں۔ آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ یہ بتائیے کہ ہماری یہ آمدنی حلال ہے کہ نہیں؟ کیونکہ اگر ہم افسران کو پیسہ نہ دیں تو وہ ہماری سو فیصد ایمان داری کے باوجود ہمارے کام بند کرادیتے ہیں اور ہمارے بل رْکوادیتے ہیں۔ کام شروع سے ہم اپنے ذاتی پیسوں سے کرتے ہیں، اور تکمیل کے دوران سرکار ہمیں کچھ ادائیگی کرتی رہتی ہے، جبکہ رقم کا بڑا حصہ ہمارا ذاتی پیسہ ہوتا ہے۔

ج- رشوت ایک ایسا ناسور ہے جس نے پورے ملک کا نظام تلپٹ کر رکھا ہے، جن افسروں کے منہ کو یہ حرام خون لگ جاتا ہے وہ ان کی زندگی کو بھی تباہ کردیتا ہے اور ملکی انتظام کو بھی متزلزل کردیتا ہے، جب تک سرکاری افسروں اور کارندوں کے دِل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور قیامت کے دن کے حساب و کتاب اور قبر کی وحشت و تنہائی میں ان چیزوں کی جواب دہی کا احساس پیدا نہ ہو، تب تک اس سرطان کا کوئی علاج نہیں کیا جاسکتا۔ آپ سے یہی کہہ سکتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو ان کتوں کو ہڈی ڈالنے سے پرہیز کریں، اور جہاں بے بس ہوجائیں وہاں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- میں بلڈنگ ڈپارٹمنٹ میں سب انجینئر ہوں، ملازمت کی مدّت تین سال ہوگئی ہے، ہمارے یہاں جب کوئی سرکاری عمارت تعمیر ہوتی ہے تو ٹھیکے دار کو ٹھیکے پر کام دے دیا جاتا ہے، اور ہم ٹھیکے دار سے ایک لاکھ۰ ۲ ہزار روپے کمیشن لیتے ہیں، جس میں سب کا حصہ ہوجاتا ہے (یعنی چپراسی سے لے کر چیف انجینئر تک)، اس میں ۲ فیصد حصہ میرا بھی ہوتا ہے، ایک لاکھ پر دو ہزار، یہ ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ہوتا ہے۔ اس وقت میرے زیر نگرانی ۲۰ لاکھ کا کام ہے اور ہر ماہ ۴ لاکھ کے بل بن جاتے ہیں، اس طرح ۸ہزار روپے تنخواہ کے علاوہ مجھ کو مل جاتے ہیں، جبکہ تنخواہ صرف ۱۷۰۰ روپے ہے۔ ٹھیکے دار حضرات کام کو دئیے ہوئے شیڈول کے مطابق نہیں کرتے، اور ناقص مٹیریل استعمال کرتے ہیں۔ سیمنٹ، لوہا وغیرہ گورنمنٹ کے دئیے ہوئے معیار کے مطابق نہیں لگاتے، حتیٰ کہ بہت سی اشیا ایسی ہوتی ہیں جن کا صرف کاغذات پر اندراج ہوتا ہے اور درحقیقت جائے وقوع پر اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ لیکن ہم لوگوں کو غلط اندراج کرنا پڑتا ہے اور غلط تصدیق کرنا پڑتی ہے۔ جب ہم کسی منصوبے کا اسٹیٹمنٹ بناتے ہیں تو اس کو پہلے سپرنٹنڈنگ انجینئر کے پاس لے جانا پڑتا ہے، جہاں پر سائٹ انچارج سے اس کو پاس کرانے کے لئے آفیسر اور اسٹاف کو کام کی نسبت سے کمیشن دینا پڑتا ہے۔ اس کے بعد وہ فائل چیف انجینئر کے آفس میں جاتی ہے، وہاں اس کو بھی کام کی نسبت سے کمیشن دینا پڑتا ہے۔ اور اس کا ایک اْصول بنایا ہوا ہے، اس کے بغیر اسٹیٹمنٹ پاس نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے ہم لوگوں کو بھی ٹھیکے داروں سے مجبوراً کمیشن لینا پڑتا ہے، ورنہ ہم اگلے مراحل میں ادائیگی کہاں سے کریں۔ ٹھیکے دار اس کمی کو پورا کرتا ہے خراب مال لگاکر اور کام میں چوری کرکے، جس کا ہم سب کو علم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح ہم جھوٹ، بددیانتی، رشوت، سرکاری رقم (جو کہ درحقیقت عوام کی ہے) میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس کو بْرا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ میرا دِل اس عمل سے مطمئن نہیں ہے۔ براہِ کرم میری سرپرستی فرماویں کہ آیا میں کیا کروں؟ کیا دْوسروں کو ادا کرنے کے لئے کمیشن لے لوں اور اس میں سے اپنے پاس بالکل نہ رکھوں؟ یا کچھ اپنے پاس بھی رکھوں؟ یا ملازمت چھوڑ دْوں؟ کیونکہ مذکورہ بالا حالات میں سارے غلط اْمور کرنا پڑتے ہیں۔

ج- جن قباحتوں کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان کی اجازت تو نہ عقل دیتی ہے نہ شرع، نہ قانون نہ اخلاق، اگر آپ ان لعنتوں سے نہیں بچ سکتے تو اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ نوکری چھوڑ دیجئے، اور کوئی حلال ذریعہ معاش اپنائیے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آپ نوکری چھوڑ دیں گے تو بچوں کو کیا کھلائیں گے؟ اس کے دو جواب ہیں۔ ایک یہ کہ دْوسری جگہ حلال ذریعہ معاش تلاش کرنے کے بعد ملازمت چھوڑئیے، پہلے نہ چھوڑئیے۔ دْوسرا جواب یہ ہے کہ آپ ہمت سے کام لے کر اس بْرائی کے خلاف جہاد کیجئے اور رشوت کے لینے اور دینے سے انکار کردیجئے۔ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کے محکمے کے تمام شریکِ کار افسرانِ بالا سے لے کر ماتحتوں تک آپ کے خلاف ہوجائیں گے، اور آپ کے افسر آپ کے خلاف جھوٹے سچے الزامات عائد کرکے آپ کو برخاست کرانے کی سعی کریں گے۔ اس کے جواب میں آپ اپنے مندرجہ بالا خط کو سنوار کر مع ثبوتوں کے صفائی نامہ پیش کردیجئے، اور اس کی نقول صدرِ مملکت، وزیراعظم، صوبائی حکومت کے اَربابِ اقتدار اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی وغیرہ کو بھیج دیجئے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کا محکمہ آپ کو نوکری سے الگ کردے گا، لیکن پھر اِن شاء اللہ آپ پر زیادہ خیر و برکت کے دروازے کھلیں گے۔ اگر آپ محکمے کی ان زیادتیوں سے کسی بڑے اَربابِ حل و عقد کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کی نوکری بھی نہیں جائے گی، البتہ آپ کو کسی غیراہم کام پر لگادیا جائے گا اور آپ کو ۱۷۰۰ روپے میں گزر اوقات کرنی پڑے گی، جس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے، بشرطیکہ آپ خالی وقت میں کوئی کام کرسکیں۔ تو میرے عزیز! جس طرح آپ ہزاروں میں سے ایک ہیں جو مجھ کو ایسا تقوے والا خط لکھ سکتے ہیں، اسی طرح کسی نہ کسی کو اس اندھیرنگری میں حق کی آواز اْٹھانی ہے، اللہ کی مدد آپ کے شاملِ حال ہو اور ہم خیال بندے آپ کی نصرت کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- میں جس فرم میں ملازم ہوں، وہاں اشیاء کی نقل و حرکت کے لئے ٹرانسپورٹرز سے معاہدہ ہے، جن کا کرایہ حکومت سے منظور شدہ ہوتا ہے اور انہیں ماہانہ ادائیگی کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کے کرایوں کے نرخ میں اضافہ کردیا گیا، لیکن منظوری میں تاخیر کی وجہ سے اس دوران کا حساب کرکے ان کو بقایا جات ادا کئے گئے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جس وقت ادائیگی کے بل ادا کئے گئے، لوگوں نے ان سے مٹھائی کا مطالبہ شروع کردیا، جس پر انہوں نے رضامندی ظاہر کی، لیکن ان سے کہا گیا کہ ہمیں کچھ رقم دے دی جائے جس سے ہم پانچ چھ افراد پارٹی (لنچ یا ڈنر) کرسکیں۔ ان سے یہ رقم وصول کی گئی اور اس وقت یہ صاف طور پر کہہ دیا گیا کہ یہ پیسے کسی اور ضمن میں نہیں بلکہ آپ کی خوشی سے مٹھائی کے طور پر لئے جارہے ہیں۔ جس پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ نہیں ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔ ایک ٹرانسپورٹر نے اچھی خاصی رقم دی جسے تین افراد نے آپس میں تقسیم کرلیا اور باقی وصول ہونے والی رقم سے چار پانچ مرتبہ لنچ کیا گیا۔ برائے مہربانی آپ یہ وضاحت کردیں کہ یہ رقم کھانا جائز ہے جبکہ کھانے والے حضرات یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ آفس میں افسرانِ بالا کو یا اور لوگوں کو اس بات کا علم نہ ہو، جبکہ اس میں کسی اور منفعت کو دخل نہیں، ہمارا ادارہ ایک نجی ادارہ ہے۔

ج- اس قسم کی شیرینی جو سرکاری اہل کاروں کو دی جاتی ہے، رشوت کی مد میں آتی ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ شیرینی نہیں بلکہ زہر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- کام کے عوض جو روپیہ اس کو دیا جاتا ہے وہ رشوت ہے، اس کا لینا اس کے لئے جائز نہیں، اگر بعینہ اسی رقم سے کوئی چیز خرید کر وہ کسی کو تحفہ دیتا ہے تو اس کا لینا بھی جائز نہیں، اور اگر اپنی تنخواہ کی رقم سے یا کسی اور جائز آمدنی سے تحفہ دیتا ہے تو اس کا لینا دْرست ہے۔ اور اگر یہ معلوم نہ ہو کہ یہ تحفہ جائز آمدنی کا ہے یا ناجائز کا؟ تو اگر اس کی غالب آمدنی صحیح ہے تو تحفہ لے لینا دْرست ہے، ورنہ احتیاط لازم ہے، اور اگر اس کی دِل شکنی کا اندیشہ ہو تو اس سے تو لے لیا جائے مگر اس کو استعمال نہ کیا جائے، بلکہ بغیر نیتِ صدقہ کے کسی محتاج کو دے دیا جائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں دوزخی ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں بہت سی اور احادیث بھی ہوں گی۔ پاکستان میں ٹریفک پولیس اور ڈرائیور حضرات کے درمیان یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ گاڑیوں سے ماہوار رشوت لیتے ہیں، بعض جگہ جب بھی کسی چوک میں گاڑی مل جائے تو روک کر روپے لیتے ہیں۔ اگر ان کو گاڑی کے کاغذات بتادئیے جائیں، کاغذ مکمل ہونے کی صورت میں پھر بھی وہ کوئی نہ کوئی الزام لگادیتے ہیں۔ مثلاً: ‘‘گاڑی کا رنگ دْرست نہیں ہے، تم تیزرفتاری سے گاڑی چلاتے ہو۔’’ اگر ان کو رشوت نہ دی جائے اور کہہ دیا جائے کہ چالان کرو اور ہم گورنمنٹ کو فیس دیں گے تو وہ چالان سلپ پر اتنی دفعات لگادیتے ہیں کہ جب ہم مجسٹریٹ کے سامنے جاتے ہیں تو وہ کئی کئی ہزار روپے تک جرمانہ کرتا ہے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ ایک ماہ تک لائسنس کا بھی یا گاڑی کے کاغذات کا بھی پتا نہ چلے، یہ کام وہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کو آئندہ روپے آرام سے دئیے جائیں۔ پھر ایک ڈرائیور مجبوری سے ۵۰،۱۰۰ روپے دے دیتا ہے اور اس کے عوض وہ اوور لوڈ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ گاڑی کے کاغذ نہیں رکھتے کہ کاغذ ہوتے ہوئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ میرا اس بیان سے مقصد یہ نہیں کہ ہم جرم کرتے رہیں اور روپے دیتے رہیں، بلکہ اگر کسی کا کوئی جرم ہے اور وہ روپے بھی دیتا ہے تو اسلام میں اس کا کیا مقام ہے؟ اگر سب کچھ دْرست ہونے کے باوجود صرف رشوت اس لئے دی جائے کہ وہ ناجائز تنگ کریں گے اور زیادہ روپے دینے پڑیں گے، کیا اس حدیث کی روشنی میں ڈرائیور اور پولیس والا دونوں کے لئے بس وہ حدیث ہوگی، یعنی دونوں کا جرم برابر کا ہوگا؟

ج- کوئی کام غیرقانونی تو حتی الوسع نہ کیا جائے، اس کے باوجود اگر رشوت دینی پڑے تو لینے والے اپنے لئے جہنم کا سامان کرتے ہیں، دینے والا بہرحال مجبور ہے، اْمید ہے کہ اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔ اور اگر غیرقانونی کام کے لئے رشوت دی جائے تو دونوں فریق لعنت کے مستحق ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں دوزخی ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں بہت سی اور احادیث بھی ہوں گی۔ پاکستان میں ٹریفک پولیس اور ڈرائیور حضرات کے درمیان یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ گاڑیوں سے ماہوار رشوت لیتے ہیں، بعض جگہ جب بھی کسی چوک میں گاڑی مل جائے تو روک کر روپے لیتے ہیں۔ اگر ان کو گاڑی کے کاغذات بتادئیے جائیں، کاغذ مکمل ہونے کی صورت میں پھر بھی وہ کوئی نہ کوئی الزام لگادیتے ہیں۔ مثلاً: ‘‘گاڑی کا رنگ دْرست نہیں ہے، تم تیزرفتاری سے گاڑی چلاتے ہو۔’’ اگر ان کو رشوت نہ دی جائے اور کہہ دیا جائے کہ چالان کرو اور ہم گورنمنٹ کو فیس دیں گے تو وہ چالان سلپ پر اتنی دفعات لگادیتے ہیں کہ جب ہم مجسٹریٹ کے سامنے جاتے ہیں تو وہ کئی کئی ہزار روپے تک جرمانہ کرتا ہے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ ایک ماہ تک لائسنس کا بھی یا گاڑی کے کاغذات کا بھی پتا نہ چلے، یہ کام وہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کو آئندہ روپے آرام سے دئیے جائیں۔ پھر ایک ڈرائیور مجبوری سے ۵۰،۱۰۰ روپے دے دیتا ہے اور اس کے عوض وہ اوور لوڈ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ گاڑی کے کاغذ نہیں رکھتے کہ کاغذ ہوتے ہوئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ میرا اس بیان سے مقصد یہ نہیں کہ ہم جرم کرتے رہیں اور روپے دیتے رہیں، بلکہ اگر کسی کا کوئی جرم ہے اور وہ روپے بھی دیتا ہے تو اسلام میں اس کا کیا مقام ہے؟ اگر سب کچھ دْرست ہونے کے باوجود صرف رشوت اس لئے دی جائے کہ وہ ناجائز تنگ کریں گے اور زیادہ روپے دینے پڑیں گے، کیا اس حدیث کی روشنی میں ڈرائیور اور پولیس والا دونوں کے لئے بس وہ حدیث ہوگی، یعنی دونوں کا جرم برابر کا ہوگا؟

ج- کوئی کام غیرقانونی تو حتی الوسع نہ کیا جائے، اس کے باوجود اگر رشوت دینی پڑے تو لینے والے اپنے لئے جہنم کا سامان کرتے ہیں، دینے والا بہرحال مجبور ہے، اْمید ہے کہ اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔ اور اگر غیرقانونی کام کے لئے رشوت دی جائے تو دونوں فریق لعنت کے مستحق ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- ‘‘جنگ’’ اخبار میں ‘‘آپ کے مسائل اور ان کا حل’’ کے کالم میں آپ نے جو جواب ‘‘تحفہ یا رشوت’’ کے سلسلے میں شائع کیا ہے، اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ادارے میں ملازم ہے اور اپنے کام میں وہ بھرپور محنت کرتا ہے تو ادارہ اس کی خدمات سے خوش ہوکر اگر اسے اضافی تنخواہ یا کوئی تحفہ دیتا ہے تو یہ رشوت میں شامل نہیں ہوگا، حالانکہ اگر یہ اسی عہدے پر قائم نہیں ہوتا تو یقینا نہیں ملتا، کیونکہ اسے اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ لیکن اب چونکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ محنت اور خلوص سے کام کر رہا ہے اور انتظامیہ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے انعام دیتی ہے تو یہ رشوت میں شامل نہیں ہوگا، کیونکہ اسلام ہمیشہ محنت کشوں کی حوصلہ افزائی کی تاکید کرتا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ کام کرنے کا جذبہ بڑھتا ہے بلکہ انسان مزید بْرائیوں سے بھی بچتا ہے، لہٰذا مجھ گنہگار کی ناقص رائے ہے کہ آپ مزید اپنے اعلیٰ علمی تجربوں کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج- حکومت کی طرف سے جو کچھ دیا جائے، اس کے جائز ہونے میں کیا شبہ ہے؟ مگر سرکاری ملازم لوگوں کا کام کرکے ان سے جو ‘‘تحفہ’’ وصول کرے وہ رشوت ہی کی ایک صورت ہے۔ ہاں! اس کے دوست احباب یا عزیز و اقارب تحفہ دیں تو وہ واقعی تحفہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ گورنمنٹ یا انتظامیہ اپنے ملازمین کو جو کچھ دیتی ہے، خواہ تنخواہ ہو، بونس ہو، یا انعام ہو، وہ سب جائز ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج-85 کسی شخص کا نمبر نکل آنا ایسی چیز نہیں کہ اس کی خرید و فروخت ہوسکے، اس لئے پیسے دے کر نمبر خریدنا جائز نہیں، اور جس شخص نے پیسے لے کر اپنا نمبر دے دیا اس کے لئے وہ پیسے حلال نہیں ہوں گے، بلکہ ان کا حکم رشوت کی رقم کا ہوگا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: انشورنس کے نظام میں اصولاً کوئی غلطی نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی ادارہ لوگوں سے پیسے لے کر ان کو اس وقت ادا کردے جب پہلے سے طے کردہ ضرورت سامنے آجائے۔ یہ ادارہ کوئی کاروبار کرکے اس سرمائے میں اضافہ کرے اور اس اضافے کی ایک شرح لوگوں کی رقوم میں شامل کرتا رہے اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ ہمارے ملک میں انشورنس کے ادارے ممکن ہے کہ سرمایہ کاری سودی طریقے پر کرتے ہوں۔ اس صورت میں صرف یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اس طرح کے ادارے سے انشورنس نہ کروائی جائے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کی آنکھ ہی اس وقت کھلی ہے جب سورج طلوع ہو چکا ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ یہ نماز ‘‘ادا نماز’’ قرار پائے گی ۔ دوسری یہ کہ نماز سستی اور غفلت کی وجہ سے رہ گئی ۔ اس صورت میں یہ نماز قضا ہوگی۔ مکمل نماز سے غالباًآپ کی مراددو سنت اوردوفرض یعنی چار رکعت پڑھنا ہے۔ دو سنت اصل میں نفل نماز ہے اور احناف اسے سنت اس لیے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مداومت کے ساتھ پڑھے ہیں۔ بہرحال ان کا پڑھنا دونوں صورتوں میں لازم نہیں ہے ۔ لیکن ان کی ادائی کا اجر بہت زیادہ ہے اس لیے دونوں صورتوں ہی میں اسے پڑھنا افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی یہی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس معاملے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قضا نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔ دوسری یہ کہ اس کوتاہی پر خدا سے توبہ کرنی چاہیے۔آئندہ نمازوں میں پابندی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا فورا ازالہ کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ایک اندازہ قائم کرکے قضا نمازیں پڑھ لینی چاہئیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مشورہ یہ ہے کہ سنن کی جگہ اگر یہ نمازیں پڑھ لی جائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالی دونوں کا اجر ادا کر دیں گے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قرآن مجید کی ایک آیت کی مراد سے متعلق ہے اور دوسرا مولوی صاحب کی رائے پر مشتمل۔ جہاں تک آیت کریمہ کا تعلق ہے تو اس میں نجات اخروی کا اصل الاصول بیان کیا گیا ہے۔ ہماری ایمانیات کی اصل صرف یہ ہے کہ ہم اس کائنات کے خالق ومالک کے وجود اور اس کے حضور جواب دہی پر ایمان رکھتے ہوں۔ کتابوں، فرشتوں اور نبیوں پر ایمان اس ایمان کے ایک تقاضے کی حیثیت سے سامنے آتاہے۔(ان تین چیزوں میں بھی اصل کی حیثیت انبیا کی ہے۔ کتابوں اور فرشتوں پر ایمان اس کے لواحق میں سے ہے) لیکن یہ تقاضا ایک ایسا تقاضا ہے جس کے پورا نہ کرنے کا نتیجہ جہنم کی صورت میں نکلتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اگر کسی شخص کو یہ واضح ہے کہ فلاں شخص خدا کا پیغمبر ہے تو اس کی نیکیاں اورخدا اور آخرت پر ایمان اکارت چلا جائے گا اگر وہ اس شخص کا خدا کا پیغمبر نہیں مانتا اور اس کی لائے ہوئے دین کو اختیار نہیں کر لیتا۔اس وضاحت سے آپ یہ بات سمجھ گئے ہوں گے کہ مولوی صاحب کی بات ادھوری ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ہر وہ نیک غیر مسلم جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کا یقین ہے وہ اگر مسلمان نہیں ہوتا تو وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اس کی ساری نیکیاں رد کر دی جائیں اور عذاب میں مبتلا کر دیا جائے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: تفصیلی معلومات کے لیے آپ مولانا فہیم عثمانی صاحب کی کتاب حفاظت وحجیت حدیث کا مطالعہ فرمائیں۔ مختصراً عرض ہے کہ تاریخ میں متعدد صحابہ کے نام آتے ہیں جن کے پاس لکھی ہوئی احادیث کا ذخیرہ موجود تھا۔اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو لکھنے کی اجازت دی اور بعض لوگوں کی لکھ کر دینے کی فرمایش بھی پوری کی۔بہر حال دور اول کی جو تصنیف اب بھی دستیاب ہے وہ موطا امام مالک رحمہ اللہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: دور اول کی تصنیفات میں سے موطا امام مالک رحمہ اللہ ہی دستیاب ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا سال وفات۱۷۹ھ ہے۔ غرض یہ کہ یہ دوسری صدی ہجری کی تصنیف ہے۔ کتب حدیث کا ماخذ مختلف راوی ہوتے ہیں۔ بعض راوی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس احادیث لکھی ہوئی صورت میں بھی ہوتی تھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن اس امت کواجماع وتواتر سے منتقل ہوا ہے اور حدیث خبر واحد ہے۔ قرآن قطعی ہے اور حدیث ظنی ہے۔ حدیث سے قرآن کے لفظ ومعنی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی جبکہ قرآن کی روشنی میں حدیث کو سمجھا جائے گا اور تطبیق کی کوئی صورت پیدا نہ ہو تو اسے مخالف قرآن قرار دیا جائے گا اور اس سے دین میں استشہاد نہیں کیا جائے گا۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ کوئی حدیث قرآن کی کسی آیت کا متبادل نہیں ہو سکتی۔سوال: امام بخاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کتنے سال بعد بخاری لکھی اور اس کا ماخذ کیا تھا؟جواب:امام بخاری کا سال وفات۲۵۶ھ ہے۔ اس طرح یہ تیسری صدی ہجری کے نصف اول کی تصنیف معلوم ہوتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہ کتاب رواۃ سے احادیث لے کر مرتب کی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:بخاری کی حدیثوں کی گنتی میں فرق ہے ۔ ابن حجررحمہ اللہ کی گنتی کے مطابق بخاری میں ۵۷۵۶روایات ہیں۔ چند روایات کو چھوڑ کر بخاری کی روایات صحیح کے محدثانہ معیار پر پوری اترتی ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: حدیث اور قرآن میں تضاد کی بیشتر مثالیں بالعموم قرآن کی روشنی میں حدیث کو حل نہ کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ مزید برآں کلام فہمی کے جو اصول بعض فقہا کے پیش نظر رہے ہیں وہ بھی اس کا باعث بنے ہیں کہ بعض چیزوں کو متضاد یا مختلف قرار دے دیاجائے۔ ہمارے خیال میں صحیح روایت اور قرآن مجید میں تضاد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ بطور اصول یہی بات کہی جائے گی کہ جو حدیث قرآن سے ٹکرا رہی ہو وہ قبول نہیں کی جا سکتی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: کتب حدیث میں کچھ روایات کو چھوڑ کر تمام روایات روایت بالمعنیٰ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو راوی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ حدیث کہنے کی وجہ یہ ہے کہ محدث کے نزدیک وہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جب کوئی فن مرتب ہو جاتا ہے تو اس کے بنیادی الفاظ اصطلاح کے طور استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کا لغوی مفہوم پس منظر میں چلا جاتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: روایت کا لفظ راوی کی نسبت سے بولا جاتا ہے اور حدیث کا لفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے۔ یعنی موقع استعمال کے پہلو سے یہ دو لفظ ہیں۔یہ اطلاق کے پہلو سے انھیں مترادف ہی قرار دیا جائے گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ انھی آیات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنت پر عمل کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً یاایہا الذین آمنوا اطیعواللہ واطیعواالرسول……(النساء۴:۵۹) وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ جب کسی ہستی کو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کرتے ہیں تو وہ دین میں ان پر ایمان لانے والوں کے مقتدا ہوتے ہیں۔یہ بات آپ سے آپ واضح ہے اس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (النساء۴:۶۴) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دین پر عمل کرتے تھے۔ دین کے ساتھ وابستگی کے تقاضے کو پورا کرتے تھے تو اس میں کمال بندگی اور حسن تعمیل کا عنصر نمایاں ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی پہلو سے ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: ظاہر ہے جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنت قرار نہ دیں اسے کوئی اور کیسے سنت قرار دے سکتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: ایک مسلمان کا مؤاخذہ صرف انھی امور پر ہو گا جو اخلاق کی رو سے اس پر لازم آتے ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دین قرار دیا ہو۔ کسی دوسرے کے کسی عمل کو کوئی دینی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ جوشخص خود سے کسی عمل کو دین قرار دیتا ہے وہ بدعتی ہے۔ جو اس پر عمل نہیں کرتا اس نے اپنا دین محفوظ رکھا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: یہ سوال ایک اصولی حقیقت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ میں اپنی بات کو مثال سے واضح کرتا ہوں۔ اخبارات میں آئے دن مقدمات کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آپ انتظامیہ سے متعلق ہیں اور آپ قانونی پروسیجر ،دفعات اور اخبارات کی خبروـں میں فرق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان خبروں سے قانونی ضوابط کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمات کے فیصلوں سے متعلق روایات واقعات کا محض جزوی بیان ہیں۔ راوی نے معلوم نہیں واقعے کے کن اہم پہلوؤں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ زنا کی سزا قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح حرابہ کی سزا بھی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ہم ذرہ برابر شبے کے بغیر یہ کہتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قانون اور انصاف کے سب تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر مجرموں کو سزائیں دی ہیں۔جس مجرم کو حرابہ کی سزا دی گئی ہے وہ یقینا اسی سزا کا مستحق تھا۔ کسی راوی کے بیان سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔ اصولی بات یہ ہے کہ واقعات سے قانون اخذ کرنا درست نہیں۔ قانون کی روشنی میں واقعات کو سمجھا جائے گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: میں نے ریاض السنہ کا متعلقہ حصہ دیکھا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصر اور فجر کی نماز کی طرف خصوصی توجہ دلانا مقصود ہے۔ اگر روایات کو اسی معنی میں سمجھا جائے تو یہ بات درست ہے اس لیے کہ یہ دونوں نمازیں زیادہ غفلت کا شکار ہو تی ہیں۔ آپ نے روایات سے جو معنی اخذ کیے ہیں الفاظ کی حد تک ان کی نفی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن پانچ نمازیں جس قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں اور ان کی فرضیت جس طرح ہر شک وشبے سے بالا ہے ’روایت کے یہ معنی قطعی طور پر ناقابل قبول ہیں۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم راوی کو قصور وار ٹھہرائیں کہ اس نے بات صحیح طریقے سے بیان نہیں کی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: عربی زبان میں بالخصوص اور عام زبانوں میں بھی فعل کی فاعل سے نسبت اس کے معنی میں تغیر کر دیتی ہے۔ اس کی اردو میں مثال محبت ہے۔ ماں بیٹے کی محبت اور میاں بیوی کی محبت دو مختلف چیزیں ہے لیکن ایک اشتراک کے باعث لفظ ایک ہی بولا جاتا ہے۔‘ صلی’ کا لفظ جب بندوں کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس سے رحمت کی دعا کرنا مقصود ہوتا ہے اور جب اللہ تعالی کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس میں رحمت کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔بے شک اللہ تعالی خالق اور بے نیاز ہیں۔ لیکن وہی سب کا سہارا اور ملجاوماوی بھی ہیں۔ لہذا ان کی عنایات ہی سے یہ کاروبار زیست رواں دواں ہیں۔ سورہ اخلاص میں یہ دونوں پہلو یکجا بیان ہو گئے ہیں ‘ہواللہ احد’ وہ یکتا ہے یعنی ہر شے سے غنی ہے ۔ ‘اللہ الصمد’ اللہ سب کا سہارا ہے۔ یعنی سب مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب کا حاجت روا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس معاملے میں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن وسنت میں کوئی قطعی چیز نہیں ہے جو اس میں مانع ہو۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ غیر مسلم کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: ہر مسلمان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ صرف اسی بات کو دین سمجھے اور اسی کو دین کی حیثیت سے اختیار کرے جس کے بارے میں اس کی رائے یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتائی ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کی یہ رائے براہ راست مطالعے سے بنی ہے یا اس نے یہ بات کسی عالم دین سے جانی ہے۔ یہ رائے اگر غلط بھی ہو تو امید ہے اجر ملے گا۔ بشرطیکہ یہ آدمی اپنی غلطی واضح ہونے کی صورت میں اپنی رائے اور اپنے عمل کو تبدیل کرنے کے لیے ہمہ وقت تیارر ہے اور اسے صرف صحیح دین پر عمل کرنے پر اصرار ہو۔ دین میں گمان اور تمنا پر عمل خطرناک راستہ ہے۔ دین کے ساتھ خلوص بنیادی شرط ہے اس کے ساتھ اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ کئی غلطیاں نظر انداز کر دی جائیں گی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید میں اہل جہنم کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے۔ اس میں اتباع کرنے والے اپنے بڑوں سے کہتے ہیں ہم تمھارے پیرو تھے کیا تم ہمارے عذاب میں سے ہمارا کچھ بوجھ ہلکا کرو گے۔ وہ جواب میں کہیں گے کہ اگر اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی تو ہم تمھیں بھی راہ ہدایت دکھاتے۔ اب ہمارے لیے یکساں ہیں ہم چیخیں چلائیں یا صبر کریں ۔ فرار کی کوئی راہ نہیں۔ (ابراہیم۱۴:۴۱) اس مکالمے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر آدمی اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے ۔ اللہ تعالی نے ہر آدمی کو جو سوجھ بوجھ دی ہے وہ اسے استعمال کرتاہے اور اسی بات کو اختیار کرتا ہے جو اس کے نزدیک درست ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے کیے کا انجام بھی خود ہی دیکھے گا۔ اگر کسی کو علمی غلطی لگی ہے اور وہ حق کا سچا طالب ہے تو اس کا عذر اللہ کی رحمت سے ہو گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: ایک ملک جہاں مجرموں سے نمٹنے کا نظام قائم ہو وہاں خود بدلہ لینا انارکی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ ہمارے جیسے معاشروں میں عام ہے۔ یہ اس بات کا عذر نہیں بنانی چاہیے کہ ہم خود ہی کسی کو مجرم ٹھہرائیں اور خود ہی اسے سزا دے ڈالیں۔ بہتر یہی ہے کہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیاجائے۔ اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ حالات کو بدل دے اور مجرم اپنے کیفر کردار کو پہنچ جائیں۔ اگر اس کی مصلحت یہی تھی کہ اس دنیا میں ایسا نہ ہو توآخرت میں مجرم بھی اپنے انجام کو پہنچے گا اور مظلوم بھی وہ کچھ پالے گا جس کے بعد کوئی شکایت باقی نہ رہے گی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید نے لونڈیوں اور غلاموں کے نظام کو واضح مصالح کے پیش نظر یک قلم ختم نہیں کیا۔ ایسے معاشرے جہاں غلام ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں اور ہر گھر میں ان کے معاشی سیٹ اپ کا حصے بنے ہوئے ہوں۔ غلامی کو یک قلم ختم کرنا انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بے سہارا اور بے گھر کر دینے کے مترادف تھا۔ اللہ تعالی نے جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کو غلام بنانے کا آپشن ختم کر دیا اور یہ کہا کہ انھیں فدیہ لے کر یا احسان کرکے چھوڑ دیا جائے۔ موجود غلاموں کو مکاتبت کی اجازت دے کر ان کے لیے آزادی حاصل کرنے کی راہ پیدا کر دی۔خلافت راشدہ میں انھی دونوں ضوابط پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ مشکل یہ پیش آئی کہ اسلام سے باہر کی سوسائٹی میں غلام بنانے کا عمل جاری رہا اور مکاتبت کی راہ سے فائدہ اٹھانے کا عمل بھی بہت محدود پیمانے پر ہوا چنانچہ آئندہ کئی صدیوں تک غلامی کا رواج قائم رہا۔غلام بنانا ایک کریہہ عمل ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے جائز رکھتے۔ سورہ محمد (۴۷:۴) کی محولہ آیت نے واضح طور پر غلام بنانے سے روک دیا ہے۔ جاری غلامی کو ختم کرنے کی جو کوشش امویوں اور عباسیوں کو کرنی چاہیے تھی وہ انھوں نے نہیں کی اور اس کا اعزاز امریکیوں کو حاصل ہوا کہ انھوں نے اس مکروہ کاروبار کو بالکلیہ ختم کر دیا۔ کسی کو غلام بنانا ایک ناپسندیدہ فعل ہے اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے تو اس کی تخصیص کی طرف نہیں ہے۔ جہاد سے یہاں ان کے نزدیک وہ مشقتیں اور تکالیف ہیں جو دین کی خاطر اٹھائی جارہی تھیں۔سبل سے مراد دنیا اورآخرت کی کامیابی کی راہوں کا کھلنا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ معاملہ صحابہ ہی کا زیر بحث ہے۔ لیکن جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ عام ہے۔ یہ توفیق ایزدی کا مژدہ ہے جس کا خدا کی رضا کا ہر طالب مستحق ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اگر بڑی آزمایش یا سخت آزمایش کا مصداق صرف جسمانی تعذیب کو قرار دیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعواے ایمان کو آزمایشوں سے گزارتے ہیں تاکہ دل کا کھوٹ یا ایمان کی کمزوری واضح ہو جائے اور کسی عذر کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ یہ آزمایشیں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی بھی۔ معاشی بھی ہوتی اور معاشرتی بھی۔ مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوطائف کے سفرمیں بھی ایک ابتلا پیش آئی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر جب تہمت لگی تو وہ بھی ایک ابتلا تھی۔ اگر آزمایش کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی درجے کی ہیں۔ اسی طرح وہ آدمی جس کو غربت کی آزمایش نے ایمان کی بازی ہرا دی اور جہنم میں چلا گیا اور وہ آدمی جس کی دولت نے ایمان کی بازی ہر ادی اور وہ دوزخ میں چلا گیا آخرت کے نقطہ نظر سے دیکھیں دونوں بڑی آزمایش سے گزرے۔ ہاں دنیا میں ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ دولت والے پر کوئی آزمایش نہیں آئی۔حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول آزمایش کا بیان ہے۔ جب اللہ تعالی ایمان کو پرکھتے ہیں تو اسی سطح پر پرکھتے ہیں جس سطح کا دعوی ہے۔ ظاہر ہے انبیاء جس سطح پر اللہ تعالی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اسی سطح کے مطابق ان پر امتحان بھی آتے ہیں اور وہ ان امتحانات سے سرخرو نکلتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے نیک لوگوں کا بھی ہے۔ جو ان امتحانات میں کامیاب ہو جاتے ہیں انھیں یقینا اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوگا۔ لیکن یہ بات قیامت کے دن ظاہر ہو گی۔ دنیا میں بڑی تکلیف کا آنا لازماً بلند مرتبہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آزمایش کے دو پہلو ہیں۔ ایک آزمایش یہ کہ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں اس کی حقیقت اچھی طرح متعین ہو جائے۔دوسرا یہ کہ دین پر عمل کرتے ہوئے تزکیہ نفس کا جو سفر ہم نے شروع کیا ہے وہ بھی تکمیل کو پہنچے۔ ہمارے اخلاق اور دین وایمان پر استقامت ہر لمحے معرض امتحان میں رہتے ہیں۔جب جب آزمایش آتی ہے اور یہ صبر اور شکر دونوں پہلوؤں سے ہوتی ہے اور ہم اس میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں تو یہ ہمارے ایمان میں ترقی کا زینہ بنتی چلی جاتی ہے۔ اس پہلو سے آپ کی بات درست ہے کہ موـمن کے لیے بلند درجے کے حصول کا ذریعہ ہے۔ آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ بعض تکلیفیں غفلت سے بیداری کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا اظہار بھی ہیں کہ انھوں نے گرتے ہوئے شخص کو سنبھلنے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ لیکن آزمایش کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں ایک دو امور کی طرف اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے واقعات میں بھی ہوا ہے۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے ہے۔ اس میں امتحان اور اس کے لوازم کی حیثیت سے ترغیب وترہیب کے مراحل بھی پیش آتے ہیں۔ لیکن ہر واقعے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہمارے ادراک کے لیے ممکن نہیں ہے حضرت موسی علیہ السلام کے اس سفر سے ایک یہ بات بھی واضح ہوتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: لاہوت غیر مادی عالم کے لیے بولا جاتا ہے۔ فرشتے، عرش ، لوح محفوظ اور امور تکوینی سب کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ ملکوت خدا کی بادشاہی کے معنی میں آتا ہے۔ جبروت قہر وقوت کے معنی میں ہے۔

 خدا کی نسبت سے اس میں بھی کامل اقتدار ہی کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ اہل تصوف کے ہاں ممکن ہے ان کا کوئی دوسرا مفہوم رائج ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے تو اس کی تخصیص کی طرف نہیں ہے۔ جہاد سے یہاں ان کے نزدیک وہ مشقتیں اور تکالیف ہیں جو دین کی خاطر اٹھائی جارہی تھیں۔سبل سے مراد دنیا اورآخرت کی کامیابی کی راہوں کا کھلنا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ معاملہ صحابہ ہی کا زیر بحث ہے۔ لیکن جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ عام ہے۔ یہ توفیق ایزدی کا مژدہ ہے جس کا خدا کی رضا کا ہر طالب مستحق ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعواے ایمان کو آزمایشوں سے گزارتے ہیں تاکہ دل کا کھوٹ یا ایمان کی کمزوری واضح ہو جائے اور کسی عذر کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ یہ آزمایشیں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی بھی معاشی بھی ہوتی اور معاشرتی بھی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوطائف کے سفرمیں بھی ایک ابتلا پیش آئی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر جب تہمت لگی تو وہ بھی ایک ابتلا تھی۔ اگر آزمایش کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی درجے کی ہیں۔ اسی طرح وہ آدمی جس کو غربت کی آزمایش نے ایمان کی بازی ہرا دی اور جہنم میں چلا گیا اور وہ آدمی جس کی دولت نے ایمان کی بازی ہر ادی اور وہ دوزخ میں چلا گیا آخرت کے نقطہ نظر سے دیکھیں دونوں بڑی آزمایش سے گزرے۔ ہاں دنیا میں ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ دولت والے پر کوئی آزمایش نہیں آئی۔

حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول آزمایش کا بیان ہے۔ جب اللہ تعالی ایمان کو پرکھتے ہیں تو اسی سطح پر پرکھتے ہیں جس سطح کا دعویٰ ہے۔ ظاہر ہے انبیاء جس سطح پر اللہ تعالی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اسی سطح کے مطابق ان پر امتحان بھی آتے ہیں اور وہ ان امتحانات سے سرخرو نکلتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے نیک لوگوں کا بھی ہے۔ جو ان امتحانات میں کامیاب ہو جاتے ہیں انھیں یقینا اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوگا۔ لیکن یہ بات قیامت کے دن ظاہر ہو گی۔ دنیا میں بڑی تکلیف کا آنا لازماً بلند مرتبہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آزمایش کے دو پہلو ہیں۔ ایک آزمایش یہ کہ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں اس کی حقیقت اچھی طرح متعین ہو جائے۔دوسرا یہ کہ دین پر عمل کرتے ہوئے تزکیہ نفس کا جو سفر ہم نے شروع کیا ہے وہ بھی تکمیل کو پہنچے۔ ہمارے اخلاق اور دین وایمان پر استقامت ہر لمحے معرض امتحان میں رہتے ہیں۔جب جب آزمایش آتی ہے اور یہ صبر اور شکر دونوں پہلوؤں سے ہوتی ہے اور ہم اس میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں تو یہ ہمارے ایمان میں ترقی کا زینہ بنتی چلی جاتی ہے۔ اس پہلو سے آپ کی بات درست ہے کہ موـمن کے لیے بلند درجے کے حصول کا ذریعہ ہے۔ آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ بعض تکلیفیں غفلت سے بیداری کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا اظہار بھی ہیں کہ انھوں نے گرتے ہوئے شخص کو سنبھلنے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ لیکن آزمایش کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں ایک دو امور کی طرف اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے واقعات میں بھی ہوا ہے۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے ہے۔ اس میں امتحان اور اس کے لوازم کی حیثیت سے ترغیب وترہیب کے مراحل بھی پیش آتے ہیں۔ لیکن ہر واقعے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہمارے ادراک کے لیے ممکن نہیں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر سے ایک یہ بات بھی واضح ہوتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: پہلی دونوں چیزوں کا ماخذ سنت متواترہ ہے۔ وضو میں اختلاف کی وجہ آیت قرآنی کی تاویل میں اختلاف سے پیدا ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو میں پاؤں دھوتے تھے۔

معجزات اور تقدیر اللہ پر ایمان کے لوازم میں سے ہیں۔ حدیث میں جو معجزات بیان ہوئے ہیں ان پر اگر سنداً کوئی اعتراض نہیں ہے تو ماننے میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری زندگی، موت، والدین، بہن بھائی اور اس طرح متعدد چیزیں جن میں ہماری سعی کا کوئی تعلق نہیں ہے خود مقرر کر رکھی ہیں۔ اسے ماننا اللہ تعالی کو خالق ومالک ماننے کا نتیجہ ہے۔ یہی بات احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے ۔ جن حدیثوں سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا نیک وبد ہونا بھی مقدر ہے تو وہ راویوں کے سوئے فہم کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں بیان کیا گیا قانون آزمایش اس تصور کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔

ارضی قبر کو عالم برزخ قرار دینے کی وجہ حدیث نہیں ہے حدیث کا فہم ہے۔ قبر کی تعبیر عالم برزخ کے لیے اختیار کرنا زبان کے عمومی استعمالات میں بالکل درست ہے۔اس سے یہ سمجھنا کہ قبر ہی عالم برزخ ہے سخن نا شناسی ہے۔

مجھے نہیں ـ ـمعلوم کس روایت میں تجسیم باری تعالی بیان ہوئی ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں اللہ تعالی کے ہاتھ اور چہرے کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح عرش پر استوا کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ، اسی طرح کی تعبیرات احادیث میں بھی ہیں۔ ان سے تجسیم کا نتیجہ نکالا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ الفاظ معنوی پہلو سے استعمال ہوئے ہیں۔ خود قرآن مجید ہی میں یہ بات بیان ہوگئی ہے کہ اللہ تعالی کے مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ اس ارشاد سے واضح ہے کہ اوپر مذکور تعبیرات ابلاغ مدعا کے لیے ہیں۔ان کا لفظی اطلاق درست نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: ہر گز جائز نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا ایمان کی نفی کی علامت ہے اور حبط اعمال کا باعث ہوگا۔ اگر کوئی شخص روایت ودرایت کے اصول پر کسی بات کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کو درست نہیں مانتا تو یہ دراصل کسی محدث سے اختلاف ہے حضورسے نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن مجید پیغمبرانہ انذار کی کتاب ہے اور اس کا اصل موضوع خدا کی سکیم سے آگاہی اور اس کی بندگی کے اصول وضوابط کی تلقین ہے۔ اس میں اس کائنات اور انسان کے وجود میں خدا کی تخلیق کے بعض پہلوؤں کا ذکر ضرور ہے لیکن اس کا ہدف بھی اصل میں بندوں کو ان کے پروردگار کی طرف متوجہ کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی عظمت کا ادراک پیدا کرنا ہے۔سائنسی اکتشافات قرآن کا موضوع نہیں ہیں۔

سائنسی اکتشافات کے حوالے سے دو رویے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک رویہ یہ ہے کہ سائنس دان جو کچھ بھی دریافت کریں اس کا کوئی نہ کوئی سراغ قرآن مجید سے نکال لیا جائے۔ اس کے لیے بعض لوگ قرآن کے الفاظ اور سیاق وسباق کو نظر انداز کرکے من مانی تاویل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے یہ رویہ صریح طور پر غلط ہے۔ اس لیے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کل سائنس کا کو ئی قانون یا نظریہ کسی نئی دریافت کے نتیجے میں تبدیل ہو کر رہ جائے اور ہم نے جس بات کو اپنی نادانی سے خدا کی بات بنا دیا تھا وہ غلط ثابت ہو جائے۔دوسرا رویہ وہ ہے جسے آپ نے بھی بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں زمین وآسمان اور انسان کی تخلیق یا ساخت کے بارے میں کچھ بیانات ہیں ۔ یہ بیانات انھی الفاظ اور تعبیرات میں ہیں جن میں نزول قرآن کے زمانے کا عرب انھیں سمجھ سکتا تھا اور اس کا کچھ نہ کچھ شعور بھی رکھتا تھا۔یہ درست ہے کہ یہ بیانات کبھی غلط نہیں ہو سکتے اور نئی سائنسی دریافتیں اگر ان کی تائید کرتی ہیں تو اس سے ان کے خدا کا کلام ہونے کا پہلو مزید نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ میں وہ معنی داخل کردیں جو ان کا حصہ نہیں تھے اور کل کی کوئی نئی دریافت ہمیں اپنی بات واپس لینے پر مجبور کردے۔

اصل یہ ہے کہ سائنس کی دریافتیں قرآن کی تائید کریں یا نہ کریں قرآن اپنی جگہ پر اٹل ہے۔ ہمیں اس کی حقانیت انھی دلائل سے ثابت کرنی چاہیے جو ہمیشہ کار آمد ہیں اور جن پر بوسیدگی طاری نہیں ہوتی۔ ہاں محتاط طریقے سے اگر سائنسی دریافتوں کو قرآن کے مقدمات کے حق میں استعمال کیا جائے تو اس کے مفید ہونے میں شبہ نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: شفاعت کے عقیدے کی بنیاد بعض روایات پر ہے۔ قرآن مجید نے شفاعت کے بارے میں بالکل واضح طور پر کہا ہے کہ کوئی شفاعت اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہو گی اور دوسرے یہ کہ وہاں جو بھی کوئی بات کہے گا وہ صحیح بات کہے گا۔ اسی طرح قرآن مجید نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ قیامت کامل عدل کا دن ہے وہاں نہ کوئی فدیہ کام آنے والا ہے اور نہ کوئی مدد وسفارش۔ ان ساری باتوں سے واضح ہے کہ شفاعت ان ہستیوں کے لیے ایک اعزاز ہے جنھیں اللہ تعالی کے ہاں تقرب حاصل ہوگا۔ یہ انھی لوگوں کے کرنے کی اجازت دی جائے گی جو اللہ تعالی کے نزدیک گناہوں کے باوجود رعایت کے مستحق ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر یہ بیان بھی کیا ہے کہ جہنم میں وہی لوگ رہ جائیں گے جنھیں قرآن نے روک رکھا ہے۔ مراد یہ ہے کہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: پردے کا لفظ قرآن مجید کے احکام کو پوری طرح بیان نہیں کرتا۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سورہ نور میں مرد وعورت دونوں کو گھر ہو یا کوئی دوسری جگہ جب یہ ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو کچھ آداب واحکام کا پابند کیا ہے۔

 دو حکموں میں مردوعورت مشترک ہیں اور دو حکم عورت کے لیے اضافی ہیں۔

۱۔ دونوں اپنی نظریں بچا کر رکھیں۔

۲۔ دونوں شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

۳۔ عورتیں اپنی زیب وزینت اپنے قریبی اعزہ اور متعلقین کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔

۴۔ عورتیں اپنے سینے کو ڈھانپ کر رکھیں۔

نظریں بچانے سے مراد یہ ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے کے حسن وجمال سے آنکھیں سینکنے، خط وخال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں۔

شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ مرد وعورت ایک جگہ موجود ہوں تو چھپانے کی جگہوں کو اور بھی زیادہ اہتمام سے چھپائیں۔ اس میں ظاہر ہے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ لباس با قرینہ ہو۔ عورتیں اور مرد دونوں ایسا لباس پہنیں جو زینت کے ساتھ ساتھ صنفی اعضا کو بھی پوری طرح چھپانے والا ہو۔ پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی شخص برہنہ نہ ہونے پائے۔

لباس کے حوالے عورتوں کو مزید ہدایت سینے سے متعلق ہے کہ وہ اسے اپنے دوپٹوں سے ڈھانپ کر رکھیں۔

اس ہدایت پر عمل کرنے میں تشدد اور نرمی دونوں طرح کے رویے پیدا ہوئے ہیں۔ جو خواتین زیادہ سے زیادہ ڈھانپنے کی طرف مائل ہیں وہ بھی اور جو احکام کے تقاضا پورا کر دیتی ہیں دونوں ہمیشہ سے معاشرے میں موجود رہی ہیں۔ اس کا انحصار ذوق اور حالات پر ہوتا ہے کہ کوئی عورت کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ہم کسی رویے کو اس وقت ہی غلط قرار دے سکتے جب وہ حکم کے الفاظ ہی سے متجاوز ہو۔

سورہ احزاب میں بڑی چادر لینے کا حکم فتنہ پردازوں سے بچنے کے لیے ایک تدبیر تھا۔ یہ کوئی مستقل حکم نہیں تھا۔ لیکن ہمارے فقہا نے اسے ایک ابدی حکم سمجھا ہے۔ لہذا وہ اسے اب بھی لازم قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل اور ابدی حکم سورہ نور کا ہے اور باحیا اور باوقار لباس جو عورت کی زیب و زینت اور جسم کو نمایاں کرنے والا نہ ہوحکم کا تقاضا پورا کر دیتا ہے۔سر ڈھانپنے کے حوالے سے کوئی حکم قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد بھی نہیں ہے جس میں آپ نے سر ڈھانکنے کی ہدایت کی ہو۔یہ بات معلوم ہے کہ عرب میں سر ڈھانکنے کا رواج تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں اور اصحاب کی ازواج نے اس کو جاری رکھا۔ اس اعتبار سے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تائید حاصل ہے اور قرآن مجید کے احکام بھی اس طرز معاشرت کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں۔ ایک روایت سے یہ تائید مزید محکم ہوتی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے بالغ عورتیں اگر اوڑھنی لیے بغیر نماز پڑھیں تو اللہ اسے قبول نہیں کرتے۔معلوم ہے کہ نماز میں قاعدے کا لباس پہننا چاہیے۔ عورت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے قاعدے کے لباس میں اوڑھنی شامل ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: بطور انسان سب برابر ہیں۔ جس طرح معاشرے میں صلاحیت ، تعلیم اور حیثیت سے حقوق وفرائض میں فرق واقع ہو جاتا ہے اسی طرح خاندان میں بھی یہ فرق واقع ہوتا ہے۔ بطور انسان اولاد اور والدین بھی برابر ہیں لیکن حیثیت اور مرتبے میں اولاد پر والدین کو فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔بطور انسان عوام اور حکمران بھی برابر ہیں لیکن حکمرانوں کو عوام پر ایک فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔ اسی طرح جب دو مرد وعورت میاں بیوی بن کر رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان میں سے مرد کو برتر حیثیت حاصل ہے۔ دین میں بھی یہ حیثیت مرد کو دی گئی ہے اور اس کی وجہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ یہ ایک انتظامی حیثیت ہے۔ اس کو سمجھنے اور ماننے میں گھر کی زندگی کی ترقی اور سکون کا راز مضمر ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: بیوہ عورت کے لیے اپنے اسی گھر میں عدت گزارنا واجب ہے جس گھر میں رہائش رکھے ہوئے اسے خاوند کی وفات کی اطلاع ملی تھی، کیونکہ رسول کریمؐ نے یہی حکم دیا ہے۔ کتب ِ سنن میں نبی کریمؐ کی درج ذیل حدیث مروی ہے کہ آپؐ نے فریعۃ بنت مالکؓ کو فرمایا تھا:

‘‘تم اسی گھر میں رہو جس گھر میں تمہیں خاوند فوت ہونے کی اطلاع ملی تھی، حتیٰ کہ عدت ختم ہوجائے۔ فریعۃؓ کہتی ہیں: چنانچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت بسر کی تھی’’۔

اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اکثر اہلِ علم کا بھی یہی مسلک ہے، لیکن اُنھوں نے یہ اجازت دی ہے کہ اگر کسی عورت کو اپنی جان کا خطرہ ہو یا پھر اس کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی دوسرا شخص نہ ہو اور وہ خود بھی اپنی ضروریات پوری نہ کرسکتی ہو تو کہیں اور عدت گزار سکتی ہے۔

علامہ ابن قدامہؒ کہتے ہیں:

‘‘بیوہ کے لیے اپنے گھر میں ہی عدت گزارنے کو ضروری قرار دینے والوں میں عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم شامل ہیں، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے، اور امام مالک، امام ثوری، امام اوزاعی، امام ابوحنیفہ،امام شافعی اور امام اسحاقؒ کا بھی یہی قول ہے’’۔

ابن عبدالبرؒ کہتے ہیں:

‘‘حجاز، شام اور عراق کے فقہائے کرام کی جماعت کا بھی یہی قول ہے’’۔

اس کے بعد لکھتے ہیں:

‘‘چنانچہ اگر بیوہ کو گھر منہدم ہونے یا غرق ہونے یا دشمن وغیرہ کا خطرہ ہو تو اس کے لیے وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہونا جائز ہے، کیونکہ یہ عذر کی حالت ہے اور اسے وہاں سے منتقل ہوکر کہیں بھی رہنے کا حق حاصل ہے’’۔ (مختصراً)

سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کونسل کے علمائے کرام سے درج ذیل سوال کیا گیا کہ ایک عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہے اور جس علاقے میں اس کا خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس عورت کی ضرورت پوری کرنے والا کوئی نہیں، کیا وہ دوسرے شہرجاکر عدت گزار سکتی ہے؟

کونسل کے علمائے کرام کا جواب تھا:

‘‘اگر واقعتا ایسا ہے کہ جس شہر اور علاقے میں خاوند فوت ہوا ہے، وہاں اس بیوہ کی ضروریات پوری کرنے والا کوئی نہیں، اور وہ خود بھی اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتی تو اس کے لیے وہاں سے کسی دوسرے علاقے میں جہاں وہ محفوظ ہو اور اس کی ضروریات پوری کرنے والا ہو، منتقل ہونا شرعاً جائز ہے’’۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، ۴۷۳/۲۰)

اور اُن فتاویٰ جات میں ساتھ ہی یہ بھی درج ہے:

‘‘اگر آپ کی بیوہ بہن کو دورانِ عدت اپنے خاوند کے گھر سے کسی دوسرے گھر میں ضرورت کی بنا پر منتقل ہونا پڑے، مثلاً وہاں اسے اکیلے رہنے میں جان کا خطرہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، وہ دوسرے گھر میں منتقل ہوکر عدت پوری کرلے’’۔

اس بنا پر اگر یہ عورت اکیلے رہنے سے ڈرتی ہے، یا پھر گھر کا کرایہ نہیں اداکرسکتی تو اپنے میکے جاکر اُسے عدت گزارنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم!

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب: بیوی کے اخراجات معروف طریقہ سے خاوند کے ذمہ واجب ہیں، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ وَ کِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

‘‘اور وہ مرد جس کا بچہ ہے اس کے ذمے معروف طریقہ کے مطابق ان عورتوں کا کھانا اور ان کا کپڑا ہے’’۔ (البقرہ:۲۳۳)

اور دوسرے مقام پر اللہ رب العزت کا فرمان ہے: وَاِِنْ کُنَّ اُولاَتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ

‘‘اور اگر وہ عورتیں حاملہ ہوں تو تم ان کے وضع حمل تک ان پر خرچ کرو’’۔ (الطلاق:۶)

اور اس لیے بھی کہ نبی کریمؐ سے ثابت ہے: ‘‘ان عورتوں کا تم پر نان و نفقہ اور ان کا لباس معروف طریقے کے مطابق واجب ہے’’۔ (مسلم: ۱۲۱۸)

اور اس لیے بھی کہ نبی کریمؐ نے سیدہ ہند سے فرمایا تھا:‘‘تم اتنا مال لے لیا کرو جو تمھیں اور تمھاری اولاد کو معروف طریقے سے کافی ہو’’۔ (بخاری: ۵۳۶۴)

اس کے علاوہ اس اُصول یعنی خاوند کا اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے واجب ہونے کے بہت سارے شرعی دلائل ہیں ، جو بیوی کے کھانے پینے اور لباس و رہائش وغیرہ کو شامل ہیں، اور اس کے ساتھ بیوی کا علاج معالجہ اور بدن کی قوت بحال کرنے کے اخراجات بھی خاوند کے ذمہ ہیں۔ لیکن یہ نان و نفقہ ‘معروف’ یعنی بہتر طریقہ کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، اور یہ خاوند کی حالت کے مطابق ہوگا، اگر وہ تنگ دست ہے تو اس کے مطابق اور اگر مالدار ہے تو اس کے مطابق خرچ کرے گا۔

البتہ بیوی کی ملازمت پر جانے کے اخراجات اس کے خاوند پر واجب نہیں، تاہم دو صورتوں میں واجب ہوگا:

پہلی صورت: اگر خاوند نے بیوی کو یہ ملازمت کرنے کا حکم دیا ہو تو اس صورت میں اس کے آنے جانے وغیرہ کے اخراجات خاوند برداشت کرے گا۔

دوسری صورت: عقدِ نکاح میں بیوی نے یہ شرط رکھی ہو کہ ملازمت کے اخراجات خاوند برداشت کرے گا، تواس شرط کو پورا کرنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ

‘‘اے ایمان والو! اپنے معاہدے پورا کیا کرو’’۔

اور اس لیے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:‘‘جن شروط کو سب سے زیادہ پورا کرنے کا تمھیں حق ہے، وہ شرطیں ہیں جن کے ساتھ تم نے شرم گاہیں حلال کی ہیں’’۔(بخاری:۲۵۷۲، مسلم: ۱۴۱۸)

اور ایک حدیث میں رسول کریمؐ کا فرمان ہے: ‘‘مسلمان اپنی شرطوں پر قائم رہتے ہیں’’۔ (سنن ابوداؤد:۳۵۹۴)

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب: اوّل: اگر خاوند تباہی والے کام مثلاً شراب نوشی یا نشہ کرنے پر اصرار کرے تو بیوی کے لیے خاوند سے طلاق طلب کرنا جائز ہے، اور اگر خاوند طلاق دینے سے انکار کردے تو پھر شرعی عدالت میں قاضی کے سامنے معاملہ پیش کیا جائے تاکہ وہ خاوندپر طلاق لازم کرے، یا پھر خاوند کے طلاق دینے سے انکار کرنے کی صورت میں شرعی قاضی نکاح فسخ کردے۔

اور اگر شرعی عدالت اور شرعی قاضی نہ ہو تو پھر اس معاملہ کو اپنے علاقے میں موجود اسلامی مرکز یا اسلامک سینٹر میں اُٹھانا چاہیے تاکہ وہ خاوند کو طلاق دینے پر راضی کریں، یا پھر اُسے خلع کی دعوت دیں، اور اس شرعی طلاق کے بعد ضرورت کی بنا پر اسے غیرشرعی عدالت سے تصدیق کرانا جائز ہے۔

دوم: جب آپ نے غیرشرعی عدالت کا سہارا لیا اور عدالت نے خاوند کو طلاق دینے کا کہا تو خاوند نے طلاق کے الفاظ بولے یا پھر طلاق کی نیت سے طلاق کے الفاظ لکھ دیے تو طلاق واقع ہوگئی ہے۔

اور اگر خاوند نے نہ تو طلاق کے الفاظ بولے اور نہ ہی طلاق کی نیت سے طلاق کے الفاظ لکھ کر دیے، بلکہ عدالت نے طلاق کا فیصلہ کردیا تو کافر جج کی طلاق واقع نہیں ہوتی، کیونکہ فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ قاضی کو مسلمان ہونا چاہیے جومسلمانوں کے فیصلے کرے۔ بایں وجہ کہ قضا ایک قسم کی ولایت ہے اور کافر شخص کسی مسلمان شخص کا ولی نہیں بن سکتا۔

فقہائے شریعت کونسل امریکہ کی دوسری کانفرنس جو کوپن ہیگن، ڈنمارک میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت ۴ تا ۷ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۵ھ بمطابق ۲۲ تا ۲۵ جون ۲۰۰۴ء میں منعقد ہوئی، اس کا اختتامی بیان یہ تھا:

‘‘جب کسی ایسے ملک میں جہاں اسلامی قوانین اور شرعی عدالتیں نہ ہوں اور کسی حق کو حاصل کرنا متعین ہوجائے یا پھر اپنے سے ظلم روکنا مقصود ہو تو غیرشرعی عدالت سے رجوع کرنے کی اجازت ہے’’۔

لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ شرعی علمائے کرام سے اس سلسلہ میں رجوع ضرور کیا جائے تاکہ اس موضوع کے بارے میں واجب کردہ شرعی حکم کو نافذ کیا جاسکے، اور دوسری عدالتوں سے صرف تنقیذ کی سعی کی جائے’’۔

اور اسی اختتامی بیان کے ساتویں بند میں اسلامی ممالک سے باہر دوسرے ممالک کی سول کورٹس میں جاری ہونے والی طلاق کے متعلق درج ہے:

‘‘جب مرد اپنی بیوی کو شرعی طلاق دے دے تو اس کے لیے ان غیرشرعی عدالتوں سے طلاق توثیق کرانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جب خاوند اور بیوی کا طلاق کے متعلق آپس میں جھگڑا اور تنازع ہو تو پھر شرعی عدالت نہ ہونے کی صورت میں قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد اسلامی مراکز شرعی عدالت کے قائم مقام ہوں گے’’۔

اور شادی کو ختم کرنے کے لیے صرف یہ قانونی کارروائی مکمل کرنے سے ہی شرعی طور پر شادی ختم نہیں ہوگی۔ اس لیے جب عورت سول کورٹ سے طلاق حاصل کرلے تو وہ اسلامی مراکز جاکر اس طرح کے معاملات کا فیصلہ کرنے والے اہلِ علم سے رجوع کرے تاکہ شرعی طور پر اس معاملہ کو پورا کیا جاسکے۔ مختلف جگہوں پر اسلامی مراکز ہونے کی وجہ سے اور ان سے رجوع کرنے میں سہولت ہونے کی بنا پر اس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔

اس بنا پر آپ کو اپنے علاقے کے اسلامی مرکز یعنی اسلامک سنٹر سے رابطہ کرنا چاہیے، وہ آپ کے اس معاملہ کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔

سوم: جب عورت کو اپنے خاوند سے پہلی یا دوسری طلاق ہوجائے اور اس کی عدت گزر جائے تو اس کے لیے اسی خاوند سے نئے مہر کے ساتھ ولی اور گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا جائز ہے۔ لیکن اگر اسے تیسری طلاق ہوچکی ہو تو خاوند کے لیے اپنی مطلقہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں حتیٰ کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے بہ رغبت نکاح کرے اور یہ نکاحِ حلالہ نہ ہو، پھر وہ شخص اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو پہلے خاوند کے لیے اس سے نکاح کرنا جائز ہوجائے گا۔ واللہ اعلم!

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب: جنبی شخص کے لیے نماز ادا کرنے سے قبل غسل کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا

‘‘اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اور طہارت اختیار کرو’’۔ (المائدہ:۶)

اور اگر پانی کی غیرموجودگی، یا پھر کسی عذر یعنی پانی استعمال کرنے میں بیماری کو ضرر ہو، یا پھر شدید سردی میں پانی استعمال کرنے سے بیماری میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہو، یا پانی گرم کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو وغیرہ کی بناپر انسان پانی استعمال کرنے سے عاجزہو تو غسل کی جگہ تیمم کرسکتا ہے، کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا (المائدہ:۶)

‘‘اور اگر تم مریض ہو یا مسافر یا تم میں سے کوئی ایک قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو، پھر تم نے بیوی سے جماع کیا ہو اور تمھیں پانی نہ ملے تو پاکیزہ اور طاہرمٹی سے تیمم کرلو’’۔

اس آیت میں دلیل ہے کہ جو مریض شخص پانی استعمال نہ کرسکتا ہو یا پھر اسے غسل کرنے سے موت کا خدشہ ہو، یا مرض زیادہ ہونے کا، یا پھر مرض سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا تو وہ تیمم کرلے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تیمم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ (المائدہ:۶)

‘‘تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس مٹی سے مسح کرو’’۔

شریعت ِ اسلامیہ کے اس حکم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (المائدہ:۶)

‘‘اللہ تعالیٰ تم پر کوئی تنگی نہیں کرنا چاہتا، لیکن تمھیں پاک کرنا چاہتا ہے، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو’’۔ (دیکھیں تبصرۃ الاحکام:۲۶/۱، اور الموسوعۃ الفقھیۃ: ۲۹۵/۳۳)

اور سیدنا عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں: ‘‘غزوہ ذاتِ سلاسل کی شدید سرد رات میں مجھے احتلام ہوگیا۔ اس لیے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہوجاؤں گا اس لیے میں نے تیمم کرکے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھا دی۔ چنانچہ اُنھوں نے اس واقعہ کا نبی کریمؐ کے سامنے ذکر کیا تو رسول کریمؐ فرمانے لگے: اے عمرو! کیا تم نے جنابت کی حالت میں ہی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی تھی؟ میں نے رسول کریمؐ کو غسل میں مانع امر کا بتایا اور کہنے لگا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا فرمان سنا ہے: وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا (النساء:۲۹) ‘‘اور تم اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والاہے’’۔

چنانچہ رسول کریمؐ مسکرانے لگے اور کچھ بھی نہ فرمایا۔ (سنن ابوداؤد:۳۳۴)

حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں: ‘‘اس حدیث میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ سردی وغیرہ کی بنا پر اگر پانی استعمال کرنے سے ہلاکت کا خدشہ ہو تو تیمم کیا جاسکتا ہے، اور اسی طرح تیمم کرنے والا شخص وضو کرنے والوں کی امامت بھی کروا سکتا ہے’’۔

اور شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کہتے ہیں: ‘‘اگر تو آپ گرم پانی حاصل کرسکیں، یا پھر پانی گرم کرسکتے ہوں یا پھر اپنے پڑوسیوں وغیرہ سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ کے لیے ایسا کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ یعنی ‘‘اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو’’۔ اس لیے آپ اپنی استطاعت کے مطابق عمل کریں، یا تو پانی گرم کرلیں یا پھر کسی سے خرید لیں، یا پھر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ جس سے آپ پانی کے ساتھ شرعی وضو کرسکیں۔ لیکن اگر آپ ایسا کرنے سے عاجز ہوں، اور شدید سردی کا موسم ہو اور اس میں آپ کو خطرہ ہو، اور نہ ہی پانی گرم کرنے کی کوئی سبیل ہو اور نہ ہی اپنے اردگرد سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ معذور ہوں، بلکہ آپ کے لیے تیمم کرنا ہی کافی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مذکورہ فرمان ہمیں یہی بتاتا ہے اور ایک مقام پر فرمانِ باری ہے: فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ

‘‘چنانچہ اگر تمھیں پانی نہ ملے تو تم پاکیزہ مٹی سے تیمم کرو اور اپنے چہروں اور ہاتھ پر مٹی سے مسح کرو’’۔

 ‘‘اور پانی استعمال کرنے سے عاجز شخص کا حکم بھی پانی نہ ملنے والے شخص کا ہی ہے’’۔(مجموع الفتاویٰ ابن باز: ۱۹۹/۱۰، ۲۰۰)

جہاں تک آپ کے خاص سوال کا تعلق ہے تو آپ کو چاہیے کہ جتنے جسم کا آپ غسل کرسکتے ہیں، اس کاغسل کرلیں، مثلاً اگر آپ کے لیے کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو تو بازو اور ٹانگیں وغیرہ جو کچھ دھو سکتے ہیں وہ دھو لیں، اور پھر تیمم کرلیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد از جلد شفایاب کرے، اور آپ کی بیماری کو آپ کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بنائے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب: اللہ تعالیٰ نے مساجد کے بارے میں فرمایا: فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔ (النور:۳۶)

‘‘ان گھروں میں جن کے بلند کرنے ، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہا ں صبح و شام اللہ تعالٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں’’۔

سیدنا ابن عباسؓ، مجاہدؒ، حسن بصری ؒ وغیرہ کے نزدیک اس آیت کریمہ میں بیوت سے مراد مساجد ہیں۔ اہلِ علم کا موقف یہ ہے کہ مساجد دراصل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اقامت ِ صلوٰۃ کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ مساجد کی تعظیم کی جانی چاہیے اور ان کو نجس و گندگی جیسی چیزوں سے پاک رکھنا چاہیے جیساکہ امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں بھی بیان کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ‘‘مساجد کو لہوولعب، بے کار اور ایسے اُمور سے پاک رکھنا چاہیے جو اُن کے لائق نہیں ہیں’’۔ علامہ جلال الدین سیوطی کے مطابق: ‘‘یہ آیت کریمہ مساجد کی عظمت اور اُنھیں ہلکی نوعیت کے کاموں سے دُور رکھنے کو بیان کرتی ہے’’۔ غرض ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ مساجد کے مخصوص احکام و آداب ہیں جن کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں مساجد کی ہیبت و احترام اور وقار برقرار رہے۔ جیساکہ سیدنا بریدہؓ سے مروی حدیث میں آتا ہے کہ ایک موقع پر ایک صحابی مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کر رہا تھا تو آپؐ نے فرمایا: لا وجدت انما بنیت المساجد لما بینت لہ۔

‘‘اللہ کرے تو اپنی گم شدہ چیز نہ پائے۔ مساجد ان مقاصد کے لیے ہی ہیں جن کے لیے اُنھیں تعمیر کیا گیا ہے’’۔

امام نوویؒ فرماتے ہیں: ‘‘اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ مساجد میں گم شدہ چیزیں ڈھونڈنا ممنوع ہیں۔ ایسے ہی مساجد میں خریدوفروخت کرنا بھی ناجائز ہے۔ مساجد میں آوازیں بلند کرنا بھی درست نہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے شخص کے لیے یہ کہنا کہ تمھیں وہ اعلان کرنا چیز نہ ملے ، اس سے تہدید و توبیخ کا بھی پتا چلتا ہے’’۔ (شرح النووی علی مسلم:۲۱۵/۲)

ایک بار سیدنا عمر بن خطاب نے ایک شخص کو مسجد میں بلندآواز سے باتیں کرنا سنا تو اس سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ: ‘‘یہ بلند آواز مسجد میں کیسی؟ تمھیں معلوم نہیں کہ تم کہاں کھڑے ہو’’۔ (تفسیر قرطبی: ۲۶۹/۱۲)

ایسے ہی سیدنا ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھے تو آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ بلندآواز سے تلاوتِ قرآن کر رہے ہیں تو آپ نے پردہ ہٹا کر اُنھیں فرمایا: الا ان کلکم مناجٍ ربہ فلا یؤذین بعضکم بعضًا ولا یرفع بعضکم علٰی بعض فی القراء ۃ أو قال فی الصلاۃ (سنن ابی داؤد:۱۳۳۲)

‘‘تم میں سے ہرشخص رب کریم سے مناجات کرتا ہے۔ کوئی شخص دوسرے کے لیے باعث ِ اذیت بنے اور نہ ہی تلاوتِ قرآن یا نماز میں اپنی آواز بلند کرے’’۔

حتیٰ کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے مساجد میں بلند آواز اختیار کرنے والوں کو تعزیر یعنی سزا دینے کا بھی ارادہ فرمایا۔

مذکورہ بالا آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد کے احکام دیگر عمارتوں سے مختلف ہیں۔ اور ایک دین دار مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ شعائر اللہ کا احترام کرے اور بلاشبہہ مساجد شعائراللہ ہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ (الحج:۳۲)

‘‘جو شعائر اللہ کا احترام کرے تو ایسا دلوں میں اللہ سے تقویٰ کی بنا پر ہے’’۔

مذکورہ بالا اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے واضح رہنا چاہیے کہ مساجد میں نکاح کرنا اچھا عمل ہے جیساکہ فقہائے حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور بعض حنابلہ کے ہاں مساجد میں نکاح کا انعقاد بہتر عمل ہے۔ تاہم نکاح سے مراد یہاں عقدِ نکاح ہی ہے اور عقد ایجاب و قبول کا نام ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم و دیگر اہلِ علم کا بھی موقف یہی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی اس حدیث سے ہے جس میں نبی کریمؐ کا فرمانِ گرامی روایت کیا گیا ہے: أعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ فی المساجد (جامع ترمذی:۱۰۸۹)

‘‘نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس کو مساجد میں منعقد کرو’’۔

واضح رہے کہ اس حدیث کا آخری جملہ مستند طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ نہیں، حافظ ابن حجر نے تلخیص الحبیر (۲۰۱/۴) میں اس جملہ کو ضعیف قرار دیا ہے اور اکثر محدثین کرام کا یہی موقف ہے کہ حتیٰ کہ علامہ محمد ناصرالدین البانی نے اپنی کتاب میں اس جملہ کو‘منکر’ قرار دیا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ:۹۸۲)

 اس حدیث کے بعض راویوں کو حافظ ذہبی نے تلخیص العلل المتناہیہ میں اور حافظ ابن جوزی اور امام ابوحاتم نے بھی ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔

سعودی عرب کے مشہور مفتی و عالم شیخ محمد عثیمین فرماتے ہیں:

‘‘ائمہ فقہا اورسلف کا مساجد میں نکاح کو مستحب قرار دینے کی وجہ دراصل اس مبارک جگہ کی برکت سے فائدہ اُٹھانے کا نظریہ ہے۔ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی مل جائے تو بہتر ہے، تاہم میں اس بارے میں کسی صحیح حدیث کو نہیں جانتا’’۔ (الشرح الممتع: ۱۳۲/۵)

تاہم جمہور فقہائے کرام کا مساجد میں نکاح کا موقف صرف مذکورہ بالا حدیث کی بنا پر نہیں بلکہ اس سلسلے میں صحیح بخاری میں ایک اور مشہور حدیث بھی آتی ہے جو سہل بن سعد ساعدیؓ سے مروی ہے:‘‘ایک خاتون نے کہا کہ میں اپنی ذات آپؐ کو ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں۔ نبی کریمؐ نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ اسی اثنا میں ایک صحابی رسولؐ کھڑے ہوئے اور نبی کریمؐ سے مخاطب ہوئے کہ اگر آپؐ کو اس میں کوئی حاجت نہیں تو آپؐ اس خاتون کا نکاح مجھ سے فرما دیجیے۔ تو نبی مکرمؐ نے اس صحابی کی طرف سے اس عورت کا حق مہر قرآنِ کریم کی تعلیم کو قرار دے کر، ان دونوں کا نکاح کرا دیا’’۔ (بخاری:۵۱۴۹)

اس حدیث مبارکہ کے بارے میں حافظ ابن حجر صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ خاتون کی آمد کا یہ واقعہ مسجد میں پیش آیا تھا جیساکہ امام سفیان ثوری کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے۔ (فتح الباری: ۲۰۶/۹)

اس حدیث نبویؐ سے معلوم ہوا کہ مساجد میں نکاح منعقد کیا جاسکتا ہے اوراس کا شریعت اسلامیہ میں جواز موجود ہے تاہم واضح رہنا چاہیے کہ دورِ نبوی میں آپؐ کے صحابہ کے بہت سے نکاح ہوئے، خلفائے راشدینؓ کے اَدوار میں بھی بہت سے نکاح منعقد ہوتے رہے لیکن مساجد میں نکاح کی مستند روایت ان اَدوار میں شاذونادر ہی ملتی ہے۔ چنانچہ مساجد میں نکاح کے لیے درج ذیل ضوابط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:

۱- مساجد میں یہ نکاح روزمرہ معمول نہیں بننے چاہییں، اور نہ ہی اس کو مسجد میں کوئی خاص باعث ِفضیلت سمجھنا چاہیے۔

۲- مساجد کے احکام، اوراس کے شرعی آداب بہرطور ملحوظ رکھنے جانے چاہییں۔ چنانچہ مساجد میں آوازیں بلند کرنا، اور مساجد کو کھانے پینے اور حلویات سے آلودہ کردینا بالکل درست نہیں ہے۔

۳- مساجد میں آنے والے دولہا کو سادگی اور وقار اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ مساجد تفریح کے مراکز نہیں اور ان میں وقار قائم رہنا چاہیے جیساکہ نبی کریمؐ کا فرمان اُوپر گزرا کہ ‘‘مساجد اسی کے لیے ہیں، جس لیے انھیں بنایا گیا ہے’’۔

۴- مساجد میں مرد وزن کا اختلاط بالکل منع ہے۔ اسی طرح مساجد میں فیشن زدہ خواتین کا اپنے زرق برق یا شرم و حیا سے عاری ملبوسات میں آنا، مساجد میں یادگاری تصاویر وغیرہ لینا، یہ چیزیں بالکل غیر شرعی ہیں، ان سے کُلی اجتناب ہونا چاہیے۔

۵- مساجد میں موسیقی، طبلے، گانے بجانے، گانوں اور عروسی نظموں سے بھی پرہیز ہونا چاہیے۔

الغرض یاد رہنا چاہیے کہ نکاح کی تقریبات کے ذریعے کسی طرح بھی مسجد کا وقارو احترام متاثر نہ ہونے پائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مساجد اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، اللہ کی عبادت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان کا احترام شعائر اللہ ہونے کے ناتے ہرمسلم پر فرض ہے۔ جہاں تک مساجد میں شادی کی تقریبات کا تعلق ہے تو اس کا مقصد، مساجد کے مقام و مرتبہ کو لوگوں کو ذہنوں میں راسخ کرنا اور لوگوں کا مساجد سے تعلق کو پختہ کرناوغیرہ ہے۔ یہ مقاصد نیک ہیں، اور ان مقاصد کو دیگر اچھے ذرائع سے حاصل کرنے کی بھی جدوجہد کرنا چاہیے۔

شیخ محمد صالح العثیمین سے پوچھا گیا کہ کیا مساجد میں نکاح کرنا عیسائیوں سے مشابہت رکھتا ہے کہ وہ بھی اپنے گرجاؤں میں نکاح کی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔

جواب: نہیں، ایسی بات نہیں ہے حتیٰ کہ علمائے شریعت نے مساجد میں نکاح کو مستحب قرار دیا ہے اور ان کی یہ دلیل ہے: ان أحب البقاع الی اللّٰہ مساجدہا،‘‘روئے ارض پر سب سے مبارک قطعہ ارضی اللہ کی مساجد ہیں’’۔ سو اللہ کے گھر ہونے کے ناتے مساجد میں نکاح کرنا ایک بابرکت فعل ہونا چاہیے۔ تاہم یہ ایک منطقی توجیہ ہی ہے، ہمیں نبی کریمؐ کی سنت ِ مبارک میں ایسے نہیں ملتا کہ آپ بطور ِ خاص مسجد میں تشریف لے جاتے ہوں اور وہاں نکاح منعقد کرنے کی جستجو کرتے ہوں۔ جب سنت ِ مطہرہ میں ایسا منقول نہیں ہے تو اس کو روز مرہ عادت بنا لینا بھی مناسب نہیں۔

شیخ عبدالعزیز بن بازؒ سے سوال کیا گیا کہ مساجد میں نکاح کے بارے میں آپ کا فتویٰ کیا ہے، ہم یہ کام اس مقصد سے کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے نئے جوڑے اور دونوں خاندانوں کو اللہ کی رحمت اور برکت حاصل ہوگی۔

جواب: کسی مخصوص مقام پر نکاح کے انعقاد کے بارے میں ، میرے علم میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ مساجد یا دیگر مقامات پر نکاح میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم میرے علم میں مساجد میں نکاح کا التزام کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔

شرعی طور پر یہ امر واضح ہے کہ کتاب و سنت میں مساجد میں نکاح منعقد کرنے کی پختہ روایت نہیں ملتی۔ تاہم فی زمانہ برصغیر پاک و ہند میں نکاح کے ساتھ شان و شوکت، نمائش و اِسراف ، بینڈ باجے اور بے جا رسومات کی جو متعدد عادات و رواجات منسلک ہوچکے ہیں تو مساجد میں نکاح منعقد کر کے ان غیرشرعی رسومات کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے، کیونکہ مساجد کا ماحول ایسی بہت سی باتوں کا اپنی پاکیزگی کی بنا پر متحمل نہیں ہوسکتا۔ عقدِ نکاح سے قبل جو خطبہ ارشاد فرمایا جاتا ہے، اس کی تاثیر کے لیے بھی مبارک اور باوقار ماحول درکار ہے، تب ہی اس کے اثرات اوراس موقع پر کی جانے والی دعا کی تاثیر پیدا ہوسکتی ہے۔ ان مقاصد کے پیش نظر ، جن میں سادگی، رسوم و رواج کا خاتمہ اور ہندوانہ عادات کی بیخ کنی وغیرہ شامل ہیں، مساجد میں نکاح کو اختیار کیا جاسکتا ہے، تاہم یہ بعض نیک مقاصد کی بنا پر ہی ہے۔ اور اگر لوگ یہ طریقہ اختیار کرلیں کہ نکاح تو مسجد میں کریں اور غیراسلامی عادات اور شان و شوکت کے لیے شادی کی مستقل تقریبات منعقد کریں تو اس سے یہ اصل مقصد ختم ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ چونکہ ان کی پرشکوہ مجالسِ شادی بیاہ کے لیے خطبہ نکاح یا کسی عالم دین کا آکر وہاں وعظ و تلقین کرنا اجنبی محسوس ہوتا ہے۔ اس بنا پر وہ شادی کی تقریب میں اپنے دنیادارانہ شوق پورے کرتے ہیں اور اس کے دینی پہلو کے لیے مسجد میں ایک رسمی مجلس کرکے، جس میں چند ایک رشتہ دار حاضر ہوجاتے ہیں، نکاح کے شرعی پہلو سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں۔ جن مقاصد کے لیے مساجد میں نکاح کو فروغ دیا جا رہا ہے ، اگر وہ مقاصد پورے نہیں ہو رہے بلکہ اس سے اسلام اور اہلِ اسلام کی بے توقیری سامنے آرہی ہو تو پھر مساجد میں نکاح کے انعقاد کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ شریعت ِ اسلامیہ کی رُو سے مساجد میں نکاح منعقد ہوسکتا ہے اور نیک مقاصد کے لیے اس کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک صرف اِس کے مبارک ہونے اور اس سے برکت لینے کا تعلق ہے تو دورِ نبویؐ اور ادوارِ صحابہؓ و تابعینؒ میں مساجد سے اس تبرک کی کوئی مستند روایت موجود نہیں ہے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب : روزہ جسے عربی میں صوم کہتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں ‘‘رکنا’’ ۔قرآن کریم میں ‘‘صوم’’ کو صبر سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ ضبط نفس ، ثابت قدمی اور استقلال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک روزہ کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی نفسانی ہوا و ہوس اور جنسی خواہشوں میں بہک کر غلط راہ پر نہ پڑے اور اپنے اندر موجود ضبط اور ثابت قدمی کے جوہر کو ضائع ہونے سے بچائے۔

روزمرہ کے معمولات میں تین چیزیں ایسی ہیں جو انسانی جوہر کو برباد کرکے اسے ہوا وہوس کا بندہ بنا دیتی ہیں یعنی کھانا، پینا اور عورت مرد کے درمیان جنسی تعلقات انہی چیزوں کو اعتدال میں رکھنے اور ایک مقررہ مدت میں ان سے دور رہنے کانام روزہ ہے۔لیکن اصطلاح شریعت میں مسلمان کا بہ نیت عبادت ، صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ کی پانچ قسمیں ہیں:

1۔ فرض، 2۔ واجب، 3۔ نفل، 4۔ مکروۂ تنزیہی اور5۔  مکروۂ تحریمی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : فرض معین جیسے رمضان المبارک کے روزے جو اسی ماہ میں ادا کیے جائیں۔ اور فرض غیر معین جیسے رمضان کے روزوں کی قضا اور کفارے کے روزے ، کفار ہ خواہ روزہ توڑنے کا ہو یا کسی اور فعل کا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : واجب معین جیسے نذر و منت کا وہ روزہ جس کے لیے وقت معین کر لیا ہو اور واجب غیر معین جس کے لیے وقت معین نہ ہو۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : صوم دہر یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا۔ صوم سکوت یعنی ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے، صوم وصال کہ روزہ رکھ کر افطار نہ کرے اور دوسرے دن پھر روزہ رکھ لے۔ یہ سب مکرؤ ہ تنز یہی ہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جیسے عیدالفطر کا روزہ۔عیدالاضحی کاروزہ ۔ایام تشریق (یعنی ذی الحجہ کی ۱۱،۱۲،۳ ۱تاریخ ) کے روزے ۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : نفلی روزے جیسے عاشور ا یعنی دسویں محرم کا روزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی۔ ایام بیض یعنی ہر مہینے میں تیر ہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کا روزہ عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ ، شوال کے چھ روزے ، صوم داؤد علیہ السلام یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار۔ پیر اور جمعرات کا روزہ ۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ کا بلا عذر شرعی ترک کرنے والا سخت گناہگار اور فاسق و فاجر ہے اور عذاب جہنم کا مستحق۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : خدا و رسول ہی اس کی حکمت کو بہتر جانتے ہیں۔ ہاں بظاہر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ قمری حساب پر رکھنے میں عام مسلمانوں کو یہ فائد ہ پہنچتا ہے کہ قمری مہینہ ادل بدل کر آنے سے کل دنیا کے مسلمانوں کے لیے مساوات قائم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شمسی مہینہ روزوں کے لیے مقرر کر دیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ موسم سرما کی سہولت میں روزے رکھتے اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ گرمی کی سختی اور تکلیف میں رہا کرتے اور یہ امر عالم گیر دین اسلام کے اصول کے خلاف ہوتا کیونکہ جب نصف دنیا پر سردی کا موسم ہوتا ہے تو دوسرے نصف پر گرمی کا موسم ہوتا ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ٭سحری کھانے کی حرص اوراس میں تاخیر کرنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ سحری کیا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ’’ صحیح بخاری ( 4 / 139 )۔

٭افطاری میں جلدی کرنا

 اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ‘‘ جب تک لوگ افطاری جلدی کرتے رہیں گے ان میں خیروبھلائی موجود رہے گی ) صحیح بخاری ( 4 / 198 )۔

 ٭حدیث میں بیان کی گئی اشیا سے روزہ افطار کرنا

 انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے قبل چند رطب ( تازہ کھجور) سے افطاری کرتے اگر رطب نہ ہوتیں تو چند ایک پکی ہوئی کھجوریں کھا لیتے ، اوراگر یہ بھی نہ ہوتیں تو ایک آدھ پانی کا گھونٹ پی کر افطار کرتے تھے ۔’’ سنن ترمذی ( 3 / 79 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 922 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

٭افطاری کے وقت دعا مانگنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطاری کے وقت یہ دعا مانگا کرتے تھے :ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب افطاری کرتے تویہ دعا پڑھا کرتے تھے : ( ذھبت الظم ، وابتلت العروق ، وثبت الاجر ان شاء اللہ ) پیاس جاتی رہی اوررگیں تر ہوگئیں اورانشا اللہ اجر ثابت ہوگیا۔

٭بے ہودہ بات چیت اوراعمال سے اجتناب کرنا ۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے‘‘ تم میں سے جب کوئی روزہ سے ہو تووہ گناہ کے کام نہ کرے’’ رفث معصیت وگناہ کوکہاجاتا ہے۔اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘جوکوئی بے ہودہ باتیں اوران پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کواس کے بھوکے اورپیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1903 )۔ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ بہت سے روزہ دارایسے ہیں جنہیں بھوک کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 539 ) صحیح الترغیب ( 1 / 453 )۔

٭روزہ دار کوشور شرابا نہیں کرنا چاہیے

 کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ اگر روزہ دار سے کوئی شخص لڑائی جھگڑا کرے یا اسے گالی گلوچ دے تو اسے یہ کہنا چاہیے میرا روزہ ہے ۔’’ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1894 )۔

٭ کھانا پینے میں کمی کرنا

 ، اس لیے کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ ابن آدم کا بھرا ہوا پیٹ سب سے برا برتن ہے۔۔۔۔ ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2380 )۔

 ٭روزہ میں علم و مال میں سخاوت کرنا

صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے ، اوررمضان المبارک میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین ملتے تو آپ اوربھی زیادہ جود وسخا کرتے۔ جبریل امین ہر رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زیادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے۔ ’’صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6 )۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ٭ نفوس اورماحول کو عبادت کے لیے تیار کرنا ۔

٭ توبہ و اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے میں جلدی کرنا ۔

٭ ماہ رمضان کے آنے پر خوشی محسوس کرنا ۔ ٭روزے کو اچھے اوربہتر انداز اورپختگی سے رکھنا ۔

٭ لیلۃ القدر کی تلاش اورعبادت کرنا ۔

٭ ایک بارقرآن مجید پڑھنے کے بعد دوبارہ غوروفکر اورتدبر سے پڑھنا ۔

٭ رمضان میں عمرہ کرنا (یہ حج کے برابر ہے)

٭ کھلے دل سے صدقہ وخیرات کرنا۔

٭ رمضان المبارک میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : سفر میں روزہ نہ رکھنے کی شرط یہ ہے کہ وہ عرف یا مسافت کے لحاظ سے سفر شمار ہو۔ امت اس پر متفق ہے کہ مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے چاہے وہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا بھی ہو۔جوشخص مقیم ہونے کی صورت میں روزے کا آغاز کرے پھر دن کے دوران ہی سفر کرے تو اس کیلیے روزہ افطار کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے سفر کو رخصت کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے : جوکوئی بھی مریض یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے ۔ ہروقت سفر کرنے والے کے لیے بھی روزہ نہ رکھنا جائز ہے مثلا ڈاکیا جومسلمانوں کی مصلحت کے لیے سفر میں ہی رہتا ہے اوراسی طرح گاڑیوں کے ڈرائیور ، اورہوائی جہاز کے پائلٹ ، اورملازم حضرات اگرچہ وہ روزانہ ہی سفر پر رہتے ہوں لیکن انہیں قضامیں روزے رکھنا ہونگے ۔اسی طرح وہ ملاح بھی جس کی خشکی پر رہائش ہوروزہ افطار کر سکتا ہے لیکن وہ ملاح جس کیساتھ اس کی بیوی اورضروریات زندگی سب کشتی میں ہوں اوروہ ہر وقت سمندر میں سفر پر ہی رہتا ہو توایسا شخص نہ تو نماز قصرکرے گا اورنہ ہی روزہ افطار کرے گا۔اوراسی طرح وہ خانہ بدوش جوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہوں اپنا ٹھکانہ بدلتے ہوئے سفر میں نماز بھی قصر کرسکتے ہیں اورروزہ بھی افطار کرسکتے ہیں ، لیکن جب وہ سردیوں اورگرمیوں والے اپنے ٹھکانہ پرپہنچ جائیں تووہ نماز مکمل پڑھیں گے اورروزہ بھی رکھیں گے، چاہے وہ اپنے جانوروں کے پیچھے ہی بھاگتے پھریں۔جب کسی ملک میں وہ رمضان کی ابتدا کرکے کسی دوسرے ملک میں جائے جہاں ایک دن قبل یا بعد میں رمضان شروع ہوا ہو تو اس کا حکم بھی ان کے ساتھ ہی ہوگا وہ ان کیساتھ ہی روزہ رکھے گا اوران کے ساتھ ہی عید کریگا ، اگرچہ تیس سے بھی زیادہ روزے ہوجائیں ۔اوراگر اس کے روزے انتیس سے بھی کم ہوجائیں توعید کے بعد اسے انتیس کرنا ہوں گے کیونکہ ہجری مہینہ انتیس یوم سے کم نہیں ہوتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ہروہ مرض جس کی وجہ سے انسان صحت کی تعریف سے خارج ہوجائے اس کی وجہ سے روزہ افطار کرنا جائز ہے ،اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :

 جو کوئی مریض ہویا مسافر وہ دوسروں دنوں میں گنتی پوری کریں ۔ لیکن ہلکی پھلکی بیماری مثلا زکام ، اورسردرد ، وغیرہ کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز نہیں۔جب طبی طور پر یہ علم ہویا پھر کسی شخص کی عادت یا تجربہ کی وجہ سے یا پھر اس کا ظن غالب ہو کہ روزہ رکھنے سے مریض ہونے یا مرض میں زیادتی یا پھر مرض سے شفایابی میں تاخیر کا باعث ہوگا تواس کیلیے روزہ چھوڑنا جائز ہے بلکہ اس کے حق میں روزہ رکھنا مکروہ ہے۔اوراگرمرض زیادہ ہو تو مریض پر واجب نہیں کہ وہ رات کو روزے کی نیت نہ کرے چاہے یہ احتمال ہو کہ وہ صبح تک صحیح ہوجائے گا ،کیونکہ معتبر تو موجودہ وقت ہے نہ کہ مستقبل۔ اوراگر روزہ رکھنا اس کے لیے بے ہوشی کا سبب بنتا ہو تواسے روزہ افطار کرنے کی اجازت ہے اوراس کے بدلے وہ قضا میں روزہ رکھے گا۔ اورجب کوئی روزہ دار روزہ کی حالت میں بے ہوش ہوجائے اورمغرب سے قبل یا پھر مغرب کے بعد ہوش میں آئے تواس کا روزہ صحیح ہوگا کیونکہ اس نے روزہ رکھا تھا ، اوراگر وہ فجر سے لیکر مغرب تک بے ہوش رہے توجمہور علماء کرام کے ہاں اس کا روزہ صحیح نہیں۔اوربے ہوشی والے شخص پر جمہور علماء کے نزدیک بھی قضاء واجب ہے چاہے یہ بے ہوشی جتنی بھی طویل ہو۔بعض اہل علم کا فتوی ہے کہ : جوکوئی بے ہوش ہوجائے یا اسے کسی مصلحت کی بنا پرنیند کی دوائی دی جائے یا اسے سن کردیا جائے جس کی بنا پر اسے ہوش نہ رہے لھذا اگرتواس کی یہ حالت تین یا اس سے کم ایام ہوں تووہ سونے والے پر قیاس کرتے ہوئے قضاء کرے گا ، لیکن اگر تین ایام سے زیادہ بے ہوش رہے تو مجنون پر قیاس کرتے ہوئے قضاء نہیں کرے گا۔ جس شخص کوبہت زیادہ بھوک کمزور کردے یا شدید قسم کی پیاس نڈھال کردے جس کی بنا پر اسے ہلاک ہونے کا خدشہ ہو یا ظن غالب کی بنا پریہ خدشہ ہوکہ اس کے ہوش وحواس قائم نہیں رہیں گے تواس حالت میں وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے ، کیونکہ نفس کو بچانا واجب ہے ، لیکن جب وہم ہو تو پھر نہیں۔ لیکن صرف شدت یا تھکاوٹ اورمرض کے خوف اوراحتمال کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، اورجولوگ مشقت والے کام کرتے ہیں انہیں اپنے کام کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ رات کو ہی روزہ کی نیت کریں ،اوردن میں اگر انہیں روزہ نقصان دے اوران سے برداشت نہ ہوسکے یا پھر انہیں اپنے ہلاک ہونے کا خدشہ ہویا اس کی وجہ سے زیادہ مشقت کا شکار ہوں جس کی بنا پروہ روزہ افطار کرنے پر مجبور ہوجائیں توپھر وہ اپنی مشقت دور کرنے کے لیے افطار کرسکتے ہیں اوراتنا ہی کھائیں جوان کی قوت بحال کرے اورپھر باقی دن انہیں کھانے پینے سے پرہیز کرنا ہوگا ، اور اس دن کی بعد میں قضاء ادا کریں گے۔وہ مزدور جو لوہے وغیرہ کی بھٹیوں پر معدنیات پگھلانے کا کام کرتے ہیں جس کی بنا پر وہ روزہ برداشت نہیں کرسکتے انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کام رات کے وقت کریں ، یا پھر رمضان میں چھٹیاں حاصل کرلیں اگرچہ یہ چھٹیاں بغیر تنخواہ ہی حاصل ہوں ، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے توانہیں کوئی اورکام تلاش کرنا چاہیے جس میں دینی اوردنیاوی واجبات کوجمع کیا جاسکے ، کیونکہ جو شخص بھی اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کیلیے کوئی راستہ نکال دیتا ہے ، اوراسے رزق بھی وہاں سے دیتا ہے جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔طلاب کے لیے امتحانات ایسا عذر نہیں کہ اس کی وجہ سے روزہ افطار کرلیا جائے ، اوراسی طرح روزہ چھوڑنے میں بھی والدین کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو امتحان کی بنا پر روزہ رکھنے سے منع کریں ، اس لیے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔ جس مریض کی شفایابی کی امید ہو وہ اپنی شفایابی کا انتظار کرے اورصحت بحال ہونے کے بعد قضا میں روزے رکھے گا ، اسے فدیے میں کھانا کھلانا کافی نہیں ہوگا ، اور وہ مریض جس کی مرض دائمی ہواوراس کی شفایابی کی امید نہ ہواوراسی طرح وہ بوڑھا جوعاجز ہووہ بھی ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے جوعادی غلہ میں سے نصف صاع بنتی ہے ( موجود تول کے مطابق تقریبا ًڈیڑھ کلو چاول )۔یہ بھی جائز ہے کہ وہ سارا فدیہ اکٹھا کرے اورمہینہ کے آخر میں مساکین کو کھلائے یا پھر ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی ثقہ تنظیم کو کھانا خرید کر تقسیم کرنے پر وکیل بناتے ہوئے نقد رقم ادا کرے کہ وہ غلہ خرید کر اس کی جانب سے مساکین میں تقسیم کردیں۔وہ مریض جس نے رمضان میں روزے چھوڑے اورقضا کے لیے شفایابی کے انتظار میں تھا پھر اسے یہ علم ہوا کہ اس کا مرض دائمی ہے اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ اورشفایابی کی امید والے مرض والا مریض اگراپنی بیماری میں ہی چل بسے تواس صورت میں نہ تواس پراورنہ ہی اس کے اولیاء پر کچھ ہے ، اورایسا مریض جوکسی دائمی مرض میں مبتلاتھااوراس نے اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کا فدیہ مساکین کوادا کردیا ، لیکن کچھ مدت بعد طب میں اس کا علاج دریافت کرلیاگیا ، اوروہ اس علاج کے ذریعہ شفایاب ہوگیا تواس پر گزشتہ روزوں کی کوئی چیز واجب نہیں کیونکہ اس نے اپنے واجب کردہ کو ادا کردیا تھا۔ وہ مریض جوشفایابی حاصل کرسکنے اورقضاکی استطاعت کے باوجود بھی روزے قضا نہ رکھ سکا اوراس سے پہلے ہی فوت ہوگیا تواس کے مال سے ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا دیا جائے گا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : بوڑھا اورقریب الموت شخص جس کی تمام طاقت ختم ہوچکی ہو اورہردن وہ موت کے قریب ہورہا ہو اورکمزوری بڑھتی چلی جائے اس پرروزے رکھنے لازم نہیں ، بلکہ ان دونوں کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہیں کیونکہ روزہ رکھنے میں ان کے لیے مشقت ہے۔ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما مندرجہ ذیل آیت کے بارہ میں کہا کرتے تھے :

‘‘اوران لوگوں پرجواس کی طاقت نہیں رکھتے ان پر ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ہے ۔ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ بوڑھے مرد اورعورت کیلیے ہے جوروزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ وہ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے۔اورایسا شخص جوکسی میں تمیز ہی نہ کرسکے اوربے وقوفی کی حدتک جا پہنچے تو اس پر اوراس کے گھروالوں پر کچھ نہیں کیونکہ وہ مکلف ہی نہیں رہا ، اوراگر بعض اوقات وہ تمیز کرتا ہو اوربعض اوقات ھذیان کی حالت ہو اورعقل فاسد ہوجاتی ہو توتمیز کی حالت میں روزہ واجب ہوگا ، لیکن حالت ھذیان میں روزہ واجب نہیں۔ جودشمن سے جنگ کررہا ہو یا دشمن نے اس کے ملک کا گھیراؤ کرلیا ہو اوراسے خدشہ ہو کہ روزہ اسے لڑائی سے کمزور کردے گا تواس لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے ، چاہے وہ سفر میں نہ بھی ہو ، اور اسی طرح اگر اسے لڑائی سے قبل روزہ افطار کرنے کی ضرورت ہو تووہ افطار کرسکتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو لڑائی سے قبل فرمایا تھا :‘‘تم صبح دشمن کا مقابلہ کرنے والے ہو لھذا روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ طاقت کا باعث ہوگا توصحابہ کرام نے روزہ نہ رکھا ’’ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1120 ) طبع عبدالباقی۔ اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے اوراہل شام کو اسی کا فتوی دیا تھا کیونکہ تتاریوں نے جب شامیوں پر حملہ کیا تو شیخ الاسلام وہیں تھے اوریہی فتوی جاری کیا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : فرضی روزے میں نیت شرط ہے اوراسی طرح ہر واجبی روزے میں بھی نیت کی شرط ہے مثلا قضا ، اورکفارہ وغیرہ کے روزے اس لیے کہ حدیث میں فرمان نبوی ہے ۔

 کسی فعل پر دل کا عزم کرنا نیت کہلاتا ہے۔

نیت کے الفاظ کی ادائیگی بدعت ہے ۔

 جسے یہ علم ہوکہ صبح رمضان ہے اوروہ روزہ رکھنے کا ارادہ بھی کرے تویہی اس کی نیت ہے۔

رمضان کے روزے رکھنے والا ہررات تجدید نیت کا محتاج نہیں بلکہ رمضان کے شروع میں ہی نیت کافی ہے ، لیکن اگرسفر یا کسی مرض کی بنا پر نیت ختم کردے توپھر عذر زائل ہونے کی صورت میں اسے تجدید نیت کرنا ہوگی۔

 نفلی روزہ میں مطلقاً شرط نہیں کہ رات کو نیت کی جائے کیونکہ حدیث میں ہے :

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھرمیں داخل ہوئے اور فرمانے لگے کیا تمہارے پاس کچھ ہے تو ہم نے جواب دیا کچھ نہیں ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے پھر میں روزہ سے ہوں۔صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2 / 809 ) عبدالباقی۔

لیکن معین نفلی روزہ مثلاً یوم عرفہ ، اورعاشورا ، میں احتیاط یہ ہے کہ رات کو نیت کی جائے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : نفلی روزہ رکھنے والے کے لیے افضل اور بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ پورا کرے لیکن اگر اس کے ختم کرنے میں کوئی شرعی مصلحت پائی جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے۔ جوشخص واجب روزہ کو شروع کردے مثلاً قضا اورنذر اورکفارہ وغیرہ اسے مکمل کرنا ضروری ہے ، اوراس میں بغیر کسی عذر کے روزہ افطار کرنا جائز نہیں ، لیکن نفلی روزے میں اسے اختیارہے کہ وہ افطار کرلے یا نہ کرے حدیث میں ہے :

( نفلی روزے والا اپنے آپ کا امیر ہے چاہے وہ روزہ رکھے اورچاہے تو افطار کرلے ) مسند احمد ( 6 / 342 )

نفلی روزہ والا بغیر کسی عذر بھی روزہ افطار کرسکتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک بار روزہ سے تھے پھر بغیر کسی عذر کے کھا لیا جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث ہے : عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھرمیں آئے تو کہنے لگے کچھ کھانے کو ہے ہم نے کہا کچھ نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے میرا روزہ ہے ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے بعد میں بطور ھدیہ چوری لائی گئی ، بعدمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو میں نے کہا کہ کچھ ہدیہ آیا ہے اوراس میں سے میں نے کچھ آپ کے لیے چھپا کررکھا ہے نبی صلی اللہ علیہ کہنے لگے میں نے صبح روزہ رکھا تھا لاؤ توآپ نے وہ تناول فرمالیا۔صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1154 )

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : قیدی اورمحبوس شخص بھی اگر چاند دیکھ لے یا اسے کسی ثقہ شخص کے ذریعہ رمضان شروع ہونے کا علم ہوتواس پر بھی روزے رکھنا واجب ہیں ، لیکن اگر اسے علم نہ ہوسکے تووہ ظن غالب کے مطابق اجتھاد کرتا ہوا روزے رکھے اگر تواس کا روزہ رمضان کے موافق ہوتوجمہور علماء کے ہاں یہ روزہ ادا ہوجائے گا۔اوراگر اس کا روزہ رمضان کے بعد ہوا توجمہور فقھاء کے ہاں یہ روزہ ہوجائے گا ، اوراگر رمضان سے قبل ہوا تو کافی نہیں بلکہ اسے قضا میں روزہ رکھنا ہوگا ، اوراگر محبوس شخص کے کچھ روزے رمضان میں ہوں اورکچھ رمضان کے بعد تورمضان اوراس کے بعد رکھے ہوئے روزے کافی ہیں لیکن رمضان سے قبل رکھے گئے روزے کافی نہیں ہونگے۔اوراگر اشکال اسی طرح رہے اوراسے رمضان کا علم نہ ہوسکے تواس کے لیے یہ روزے کفائت کرجائیں گے کیونکہ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کی ہے ، اوراللہ تعالی بھی کسی کواس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب سورج کی ٹکیا غائب ہوجائے توروزے دار کا روزہ افطار ہوجاتا ہے افطاری میں افق پر سرخی باقی رہنا معتبر نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ‘‘جب اس طرف سے رات آجائے اورادھرسے دن چلا جائے اورسورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کا روزہ افطار ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1954 ) افطاری میں سنت یہ ہے کہ افطاری جلدی کی جائے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب سے قبل ہی افطاری کرتے تھے چاہے پانی پی کرہی کرلیں۔

اگر روزہ دار کو افطاری کے لیے کوئی چیز نہ مل سکے تواسے دل سے ہی افطاری کی نیت کرلینی چاہیے ۔افطاری میں وقت سے پہلے افطاری کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا قابل سزا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کونچوں کے بل لٹکا ہوا دیکھا کہ ان کی باچھیں کٹی ہوئی اوران سے خون بہہ رہا ہے ، جب ان کے بارہ میں فرشتوں سے پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ افطاری کے وقت سے قبل ہی روزہ افطارکرلیتے تھے۔

جسے یہ یقین ہوجائے یا پھر اس کا ظن غالب یا شک ہوکہ اس نے مغرب سے قبل ہی افطاری کرلی ہے تواسے ایک روزہ کی قضاء کرنا ہوگی اس لیے کہ اصل یہی ہے کہ دن باقی تھا۔

 جب طلوع فجر جو کہ مشرقی جانب ایک چوڑی سفیدی سی پھیلتی ہے ہوجائے توروزہ دار کو چاہیے کہ وہ کھانا پینا بند کردے یعنی سحری کا وقت ختم ہوجائے گا ، چاہے اس نے اذان سنی ہویا نہ سن سکے ، اوراسی طرح جب یہ علم ہو کہ مؤذن فجر کی اذان طلوع فجر سے قبل ہی کہتا ہے تو کھانا پینا بند کرنا واجب نہیں۔اوراگر مؤذن کے بارہ میں علم نہ ہو یا پھر اذانوں میں اختلاف پیدا ہوجائے اورخود بھی طلوع فجرمعلوم نہ کرسکتا ہو - جیسا کہ روشنی کی بنا پر شہروں میں ہوتا ہے - توپھر اس صورت میں اسے چھپے ہوئے کیلنڈروں کے مطابق عمل کرنا چاہیے لیکن جب ان میں بھی واضح غلطی ہو تو پھر نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ان ممالک میں جہاں پر دن اور رات چوبیس گھنٹوں میں ہوتی ہے مسلمانوں پر روزہ رکھنا فرض ہے چاہے دن جتنا بھی لمبا ہوجائے جب تک دن اور رات میں تمیز باقی ہے وہ روزہ رکھیں ، اورجن ممالک میں دن اوررات میں تمیز ممکن نہیں وہ اپنے قریب ترین ممالک جہاں پر دن اوررات میں تمیز ہو کے مطابق عمل کریں گے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ دار کا روزہ اس وقت ٹوٹتا ہے جب اس میں تین شرطیں پائی جائیں :وہ علم رکھتا اورجاہل نہ ہو ، اسے یاد ہوبھول کرنہیں ، مختار ہو مجبور اورمضطر نہ ہو۔

٭ روزہ توڑنے والی کچھ اشیا کھانے پینے کے معنی میں آتی ہیں : مثلا ادویات ، اور کھائی جانے والی گولیاں ، اورغذائی ٹیکے ، اوراسی طرح خون لگوانا اورخون دینا۔لیکن وہ انجیکشن جو کھانے پینے کے عوض میں نہیں آتے بلکہ صرف بطور علاج استعمال ہوتے ہیں مثلا پنسلین ، اورانسولین یا پھر جسم کو نشیط رکھنے کے لیے یا وبائی امراض کے ٹیکے لگوانا یہ سب روزے کو نقصان نہیں دیتے چاہے یہ گوشت میں لگائے جائیں یا نس میں۔ لیکن احتیاط یہ ہے کہ یہ سب انجیکشن بھی رات کیوقت لگائے جائیں ۔

٭راجح یہی ہے کہ انیمہ وغیرہ کرانا اورآنکھوں اورکانوں میں قطرے ٹپکانا ، دانت نکلوانا ، اورزخموں کی مرہم پٹی کروانا ان سب سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

٭دمہ کے لیے سپرے کا استعمال روزہ کو نقصان نہیں دیتا کیونکہ یہ گیس ہوتی ہے جو صرف پھیپھڑوں میں جاتی ہے اورکھانا نہیں ، اورپھر مریض اس کا رمضان اورغیررمضان میں ہر وقت محتاج رہتا ہے ، اوراسی طرح ٹیسٹ کے لیے خون نکالنا بھی روزے کو فاسد نہیں کرتا بلکہ ضرورت کی بناپر اس سے معاف ہے۔

٭غرغرہ والی دوائی کو اگر نگلا نہ جائے تو وہ بھی روزے کو کچھ نقصان نہیں دیتی ، اورجس کے دانت میں طبی سوراخ یعنی کھوڑ بھری جائے جس کا ذائقہ حلق میں بھی محسوس ہو تویہ بھی اس کے روزے کو نقصان نہیں دیتی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : مندرجہ ذیل امور روزہ کو کوئی نقصان نہیں دیتے :

٭ کان کی صفائی۔ ناک میں قطرے ٹپکانا ، یا ناک کے لیے سپرے ، ان میں سے اگرکوئی چیز بھی حلق میں پہنچے تو اسے نگلا نہیں جائے گا۔

٭ سینہ کے امراض کے لیے زبان کے نیچے رکھی جانے والی گولیوں کا استعمال ، جب کہ حلق میں جانے والی چیز کو نگلا نہ جائے۔

٭ دانت میں کھوڑ ، داڑھ نکالنا ، دانتوں کی صفائی ، مسواک یا ٹوتھ برش کا استعمال ، لیکن حلق میں جانے والی چیز کونگلنا نہیں چاہیے بلکہ تھوک دیں۔

٭ کلی اورغرارے کرنا ، سپرے کا استعمال ان میں بھی حلق میں جانے والی چیز کو نگلا نہیں جائے۔

٭ جلدی علاج کے انجیکشن ، عضلاتی ، اور وریدی انجیکشن ، لیکن اس میں غذائی انجیکشن اورڈرپ شامل نہیں کیونکہ اس سے روزہ ختم ہوجاتا ہے۔

٭ آکسیجن گیس کا استعمال۔

 سن کرنے والی گیسیں ، جب تک مریض کوغذائی محلول نہ دیے جائیں۔

٭ جلد میں جذب ہوکر داخل ہونے والی اشیاء مثلا تیل،اورمرہم اوراسی طرح جلدی علاج کی پٹیاں جن پر کیمائی اوردوائی مواد لگا ہوتا ہے۔

٭ علاج یا تصویر کیلیے دل اوردوسرے اعضاء کی شریانوں میں باریک نالی داخل کرنا۔

٭ پیٹ کے چمڑے کے ذریعہ انتڑیوں وغیرہ کے چیک اپ کیلیے کوئی آلہ داخل کرنا یا پھر کوئی جراحی عمل کروانا۔

٭ جگر یا دوسرے اعضاء کے ٹیسٹ کے لیے نمونہ لینا ، لیکن جب اس میں کوئی محلول نہ دیا جائے۔

٭ معدہ میں کوئی آلہ داخل کرنا جب کہ اس میں کوئی محلول نہ دیا گیا ہو۔

٭ دماغ میں کوئی آلہ یا پھر علاج کے لیے مواد داخل کرنا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب کوئی کسی کوروزہ کی حالت میں بھول کرکھاتا پیتا دیکھے تواسے اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان کے عموم پر عمل کرتے ہوئے یاد دہانی کروانی چاہیے : ‘‘ تم نیکی اوربھلائی اورتقوی میں ایک دوسرے کاتعاون کیا کرو ۔’’

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ جب میں بھول جایا کروں تو مجھے یاد دلا دیا کرو ’’۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگرکوئی شخص کسی معصوم کو بچانے کے لیے روزہ توڑنے کا محتاج ہو تووہ روزہ توڑ دے جیسا کہ غرق ہونے والوں یا پھر آگ میں پھنسے ہوئے اشخاص کو بچانا مقصود ہو۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اپنے آپ پر کنٹرول رکھنے والے شخص کے لیے اپنی بیوی سے معانقہ ، اس کا بوسہ لینا ، چھونا ، اوربار بار اسے دیکھنا جائز ہے ، اس کی دلیل صحیحین کی مندرجہ ذیل حدیث میں پائی جاتی ہے : ‘‘عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں میرا بوسہ لیتے اورمجھ سے مباشرت کرتے ، لیکن انہیں تم سے زیادہ اپنے آپ پر کنٹرول تھا۔’’ (یہاں مباشرت سے مراد بوسہ اور جسم کا ملانا مراد ہے)

لیکن جب کوئی شخص شہوت پر کنٹرول نہ کرسکتا ہو اس کے لیے بوس وکنار جائز نہیں اس لیے کہ ایسا کرنا روزے کو فاسد کردے گا ، اورانزال اورجماع جیسے کام سے رک نہیں سکے گا۔

اورشرعی قاعدہ ہے کہ جوچیز بھی کسی حرام کا وسیلہ بنے وہ چیز بھی حرام ہوتی ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر جنبی حالت میں ہی صبح ہوجائے تو روزہ صحیح ہے ۔ غسل جنابت اورحیض اورنفاس کے غسل میں طلوع فجر کے بعد تک تاخیر کرنا جائز ہے ، لیکن غسل کرنے میں جلدی کرنی چاہیے تاکہ نماز ادا کرسکے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

 جواب : اگر سوتے ہوئے روزے دار کو احتلام ہوجائے تو اس سے بالاجماع روزہ فاسد نہیں ہوگا ، بلکہ روزہ مکمل کرنا چاہیے ، اوراسی طرح غسل میں تاخیر بھی روزہ کو کوئی ضرر نہیں دے گی لیکن غسل جلدی کرنا چاہیے تا کہ نماز کی ادائیگی وقت پر ہوسکے اور فرشتے بھی اس کے قریب آسکیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جسے خود ہی قے آئے اس پرقضا نہیں ، لیکن جوعمداً قے کرے اس پر قضا ہوگی۔ دیکھیں صحیح سنن ترمذی ( 3 /89 )۔جس شخص نے حلق میں انگلی ڈال کریا پھر پیٹ دبا کر قے کی یا جان بوجھ کرکوئی کراہت والی چیز سونگھی یا قے لانے والی چیز کومسلسل دیکھتا رہے جس کی بنا پر قے آجائے تواسے قضا ادا کرنا ہوگی ، اوراگر اس پر قے غالب آگئی اورخود بخود ہی رکنے پر قضاء واجب نہیں کیونکہ اس میں اس کا ارادہ شامل نہیں ، اوراگر اس نے اسے واپس کردیا تو قضا ہوگی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر دانتوں میں پھنسی ہوئی چیز بغیرقصد کے نگلی جائے ، یا بالکل قلیل ہونے کے باعث اس میں تمیز کرنا اورچبانا مشکل تھا اسے تھوک کے تابع سمجھا جائے گا اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔اوراگر زیادہ ہو اوراس کا پھینکنا ممکن ہوتو پھینک دے اس کے پھینکنے پر کچھ نہیں لیکن اگرجان بوجھ کر نگل جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔اوراگرچبا لی یعنی جبڑے کی ورزش کے لیے حرکت دینے کے لیے کوئی چیز چبانے میں ذائقہ یا مٹھاس ہو تواس کا چبانا حرام ہے ، اوراگر حلق تک جا پہنچے تواس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب کلی کرنے کے بعد پانی نکال دیا جائے اورباقی بچنے والی نمی اور رطوبت کوئی نقصان دہ نہیں ، کیونکہ اس سے احتراز ممکن نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جسے نکسیر پھوٹ پڑے اس کا روزہ صحیح ہے ، کیونکہ یہ اس کے اختیار میں نہیں۔

اوراگر مسوڑھوں میں پیپ ہو یا مسواک کرنے سے خون نکلنا شروع ہوجائے تواسے نگلنا جائز نہیں بلکہ اسے خون تھوکنا ہوگا لیکن اگر اس کے اختیار کے بغیر حلق میں چلا جائے تواس پرکچھ لازم نہیں آتا۔

پانی صاف کرنے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کا پانی کی بھاپ سونگھنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : بغیر کسی ضرورت کے کھانا چکھنامکروہ ہے کیونکہ ایسا کرنے میں روزہ کے فاسد ہونے کا خدشہ ہے ۔ ماں کا اپنے بچے کے لیے کسی چیز کو چبا کردینے جب اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو اوراسی طرح کھانے کی پکائی چکھنے میں اوراسی طرح جب کسی چیز کی خریداری کے وقت چکھنے کی ضرورت ہو توبغیر کسی چیز کے نگلنے سے روزہ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ دارکے لیے سارا دن مسواک کرنا سنت ہے چاہے مسواک تازہ بھی ہو، روزہ کی حالت میں مسواک کرنے پر اگر مسواک کا ذائقہ وغیرہ ہو تو اس کے نگلنے یا اسے تھوک کر باقیماندہ نگلنے پرروزہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن ایسی چیز جس کا مادہ تحلیل ہونے والا ہو مثلا تازہ مسواک یا اس میں لیمون اورپودینہ کا ذائقہ ہو اسے نکال دینا چاہیے اورعمدا ًاسے نگلنا جائز نہیں ، لیکن اگر بغیر کسی قصد کے نگل لے تو اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ دار کے حلق میں اس کے اختیار کے بغیر نکسیر یا زخم کی وجہ سے خون یا پانی اورپٹرول جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اوراسی طرح اگر اس کے پیٹ میں گردوغبار یا دھواں اوردھند بغیر کسی ارادہ وقصد کے چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اوراسی طرح ایسی چیز جس سے بچنا محال ہوجیسے تھوک نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اوراسی طرح راستے کا گردوغبار اورآٹا چھانتے وقت دھوڑ وغیرہ سے نہیں ، اورعمداً تھوک جمع کرنے سے بھی صحیح قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا۔

اسی طرح حلق تک آنسو کا جانا ، یا سروغیرہ میں تیل لگانا ، اورمہندی لگانے سے حلق میں ذائقہ محسوس ہونے پر بھی روزہ کو کچھ نہیں ہوگا ، اوراسی طرح سرمہ ڈالنے اورتیل اورمہندی لگانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اوراسی طرح جلد کو ملائم کرنے والی مرہم وغیرہ سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا ، خوشبوسونگھنے اور استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں اور روزے دار کے لیے عود کی دھونی لینے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن ناک کے ذریعہ پیٹ میں نہیں لیجانی چاہیے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : بہتر یہ ہے کہ ٹوتھ پیسٹ روزے کی حالت میں استعمال نہ کی جائے ، بلکہ رات کو استعمال کرنی چاہیے کیونکہ یہ قوی نفوذ رکھتی ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب کوئی شخص غروب شمس کے گمان میں سورج غروب ہونے سے قبل ہی افطاری کرلے ، توجمہور علماء کرام کے ہاں اسے اس دن کی قضاکرنا ہوگی کیونکہ اصل یہی ہے کہ دن باقی ہے اورشک سے یقین زائل نہیں ہوتا ، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس پر قضانہیں ہوگی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب طلوع فجر ہواور کسی کے منہ میں کھانا یا پانی ہو تو علماء کرام اس پر متفق ہیں کہ اسے نکال پھینکنا چاہیے ، اوراس کاروزہ صحیح ہے ، اوراسی طرح جس نے بھول کرکھا پی لیا اوریاد آنے کے وقت جوکچھ مونہہ میں ہواسے جلدی سے نکال دینے پرروزہ صحیح رہے گا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : پورے رمضان میں میاں بیوی کے اختلاط پر پابندی کا حکم تو کبھی نہیں ہوا، البتہ یہ حکم تھا کہ سونے سے پہلے پہلے کھانا پینا اور صحبت کرنا جائز ہے۔ سوجانے سے روزہ شروع ہوجائے گا، اور اگلے دن اِفطار تک روزے کی پابندی لازم ہوگی، آپ کا اشارہ غالباً اسی کی طرف ہے۔آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ صحیح ہے، اور صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اس نوعیت کا واقعہ متعدّد حضرات کو پیش آیا تھا، لیکن اس واقعے سے سیّدنا عمر یا دْوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، بلکہ ان حضرات کی ایک فضیلت اور بزرگی ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ان حضرات کو اللہ تعالیٰ نے قوّتِ قدسیہ عطا فرمائی تھی، اور وہ بتوفیقِ الٰہی ضبطِ نفس سے کام بھی لے سکتے تھے، لیکن آپ ذرا سوچئے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کوئی واقعہ نہ پیش آتا اور قانون یہی رہتا کہ عشاء کی نماز کے بعد سے کھانا پینا اور بیوی کے پاس جانا ممنوع ہے، تو بعد کی اْمت کو کس قدر تنگی لاحق ہوتی؟ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ایسے واقعات پیش آئے کہ ان کی وجہ سے پوری اْمت کے لئے آسانی پیدا ہوگئی، اس لئے یہ حضرات لائقِ ملامت نہیں، بلکہ پوری اْمت کے محسن ہیں۔جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ سورہ بقرہ کی آیت۱۸۷ہے، اس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:‘‘تم لوگوں کے لئے روزہ کی رات میں اپنی بیبیوں سے ملنا حلال کردیا گیا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ کو علم ہے کہ تم اپنی ذات سے خیانت کرتے تھے سو اللہ نے تم پر عنایت فرمادی، اور تم کو تمہاری غلطی معاف کردی ۔۔۔۔’’

قرآنِ کریم کے اصل الفاظ آپ قرآن مجید میں پڑھ لیں، آپ کو صرف اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی اس غلطی کو ‘‘اپنی ذات سے خیانت’’ کے ساتھ تعبیر کرکے فوراً ان کی توبہ قبول کرنے، ان کی غلطی معاف کرنے اور ان پر نظرِ عنایت فرمانے کا اعلان بھی ساتھ ہی فرما دیا ہے، کیا اس کے بعد ان کی یہ غلطی لائقِ ملامت ہے؟ نہیں! بلکہ یہ ان کی مقبولیت اور بزرگی کا قطعی پروانہ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : آپ کا یہ نظریہ تو صحیح نہیں کہ: ‘‘روزہ رکھ کر گناہ کرنے سے بہتر کیا یہ نہ ہوگا کہ روزہ رکھا ہی نہ جائے’’ یہ بات حکمتِ شرعیہ کے خلاف ہے۔ شریعت، روزہ رکھنے والوں سے یہ مطالبہ ضرور کرتی ہے کہ وہ اپنے روزے کی حفاظت کریں، اور جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا کھانا پینا تک چھوڑ دیا ہے تو بے لذّت گناہوں سے بھی احتراز کریں، اور اپنے روزے کے ثواب کو ضائع نہ کریں، مگر شریعت یہ نہیں کہے گی کہ جو لوگ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں وہ روزہ ہی نہ رکھا کریں۔ آپ نے جن اْمور کا تذکرہ کیا ہے یہ روزے کی رْوح کے منافی ہیں، روزہ دار کو قطعی ان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ البتہ واقعہ یہ ہے کہ رمضان مبارک کے معمولات اور روزے کے آداب کی پابندی کے ساتھ اگر ماہِ مبارک گزار دیا جائے تو آدمی کی زندگی میں انقلاب آسکتا ہے، جس کی طرف قرآنِ کریم نے لعلکم تتقون کے چھوٹے سے الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کو پرہیز کی بہت ہی تاکید فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ: ‘‘بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو رتجگے کے سوا کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔’’ایک اور حدیث میں ہے کہ:‘‘جو شخص جھوٹ بولنے اور غلط کام کرنے سے باز نہیں آتا، اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھڑانے کی کوئی ضرورت نہیں۔’’

 آپ نے لغویات کے ضمن میں سو رہنے کا بھی ذکر فرمایا ہے، لیکن روزے کی حالت میں سوتے رہنا مکروہ نہیں، اس لئے آپ کے سوال میں یہ الفاظ لائقِ اصلاح ہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اِفطار کرانے کا ثواب تو یکساں ہے، غریب کی خدمت اور عزیز کے ساتھ حسنِ سلوک کا ثواب الگ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : غیرمعتکف کا مسجد میں سونا مکروہ ہے، جو حضرات مسجد میں جائیں وہ اِعتکاف کی نیت کرلیا کریں، اس کے بعد ان کے سونے کی گنجائش ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : حالتِ جنابت میں سحری کی تو روزہ ہوجائے گا، اور اس میں کوئی تردّد نہیں، لیکن آدمی جتنی جلدی ہوسکے پاکی حاصل کرلے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : یہ مسئلہ جو عوام میں مشہور ہے کہ ‘‘شش عید کے لئے عید کے دْوسرے دن روزہ رکھنا ضروری ہے’’ بالکل غلط ہے، عید کے دْوسرے دن روزہ رکھنا کوئی ضروری نہیں، بلکہ عید کے مہینے میں، جب بھی چھ روزے رکھ لئے جائیں، خواہ لگاتار رکھے جائیں یا متفرق طور پر، پورا ثواب مل جائے گا، بلکہ بعض اہلِ علم نے تو عید کے دْوسرے دن روزہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ مکروہ نہیں، دْوسرے دن سے بھی شروع کرسکتے ہیں۔ شوال کے چھ روزے رکھنے سے رمضان کے قضا روزے ادا نہیں ہوں گے، بلکہ وہ الگ رکھنے ہوں گے، کیونکہ یہ نفلی روزے ہیں، اور رمضان کے فرض روزے، جب تک رمضان کے قضا روزوں کی نیت نہیں کرے گا، وہ ادا نہیں ہوں گے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : سحری آخری وقت میں کھانا مستحب ہے، اور سحری کے بعد سوجانے میں اگر فجر کی جماعت فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مکروہ ہے، ورنہ نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : یہ صورت ان بے شمار لوگوں کو پیش آتی ہے جو پاکستان یا سعودی عرب وغیرہ ممالک میں رمضان شروع کرکے عید سے پہلے پاکستان یا ہندوستان میں آجاتے ہیں، ان کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان پہنچ کر یہاں کے رمضان کی گنتی پوری کریں اور اکتیسواں روزہ بھی رکھیں، یہ زائد روزہ ان کے حق میں نفل ہوگا، لیکن پاکستان اور ہندوستان کے تیسویں روزے کے دن ان کے لئے عید منانا جائز نہیں۔

ایک صورت اس کے برعکس یہ پیش آتی ہے کہ بعض لوگ پاکستان یا ہندوستان میں رمضان شروع ہونے کے بعد سعودی عرب یا دْوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں، ان کا اٹھائیسواں روزہ ہوتا ہے کہ وہاں عید ہوجاتی ہے، ان کو چاہئے کہ سعودی عرب کے مطلع کے مطابق عید کریں اور ان کا جو روزہ رہ گیا ہے اس کی قضا کریں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جمعۃ الوداع کے لئے کوئی خصوصی عبادت شریعت نے مقرّر نہیں کی، رمضان المبارک کی ہر رات اور ہر دن ایک سے ایک اعلیٰ ہے، خصوصاً جمعہ کا دن اور جمعہ کی راتیں، اور علی الخصوص رمضان کے آخری عشرے کی راتیں، اور ان میں بھی طاق راتیں۔ ان میں تلاوت، ذکر، نوافل، اِستغفار، دْرود شریف کی جس قدر ممکن ہو کثرت کرنی چاہئے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : کان میں پانی خودبخود داخل ہوجانے سے صحیح روایت کے مطابق روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ البتہ قصداً پانی ڈالنے کی صورت میں احتیاطاً ایک روزہ قضاء کرلینا بہتر ہے۔ روزے کی حالت میں کان میں تیل ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : دمے کے مریض کے لیے روزے کے دوران انہیلر یا وینٹولین لینے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے کیونکہ اس میں لیکویڈ دوائی ہوتی ہے جو پمپ کرنے کی صورت میں اندر جاتی ہے اور دوائی اندر جانے سے روزہ فاسدہوجاتا ہے لہٰذا سائل پر اس روزے کی قضا ہے کفارہ نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر کوئی شخص بیماری کی بنا پر روزہ نہیں رکھتا تو اس نے جتنے روزے نہیں رکھے صرف اس کی قضاہے اور اسی طرح اگر روزہ رکھ کر بیماری کی بنا پر توڑ دیا تو ایسے شخص پر بھی صرف قضا ہے کفارہ نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : صورت مسؤلہ میں بیک وقت ایک روزہ میں، نفل اورفرض کی نیت نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا شوال کے چھ روزوں یا ذی الحجہ،عاشورہ کے روزوں کے ساتھ،قضا روزوں کی ادائیگی کی نیت کرناصحیح نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے قضا روزوں کو ادا کیا جائے کیونکہ ان کی ادائیگی لازم ہے،اس کے باوجود اگر کوئی ان نفلی روزوں کو رکھ لیتا ہے توثواب ملے گا۔

 نمازکاوقت داخل ہوجانے پرمرداورعورت دونوں کے لیے،داخل شدہ وقت کی نمازپڑھناجائزہے،اذان ہو جانے کا انتظارکرناضروری نہیں ہے۔البتہ مردکیلیے شرعاًیہ حکم ہے کہ مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرلیا کریں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر بیماری ظاہری طور پر دائمی ہے تو ایسی صورت میں فدیہ دینے کا حکم ہے،ہر روزے کے بدلے پونے دوکلو گندم یا اس کی قیمت مستحقِ زکوٰۃ فرد کو دی جائے۔ گذشتہ سالوں کے روزوں کا فدیہ گندم کی موجودہ قیمت (پونے دو کلو گندم) کے حساب سے ادا کریں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : کسی بھی کام کے عبادت ہونے کے لیے یہ ضابطہ ذہن میں رکھا جائے کہ وہ احکام اسی وقت، اسی کیفیت اورانہی شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے جن کے ساتھ اس کا ثبوت شریعت مطہرہ میں ہو، اپنی طرف سے کسی خاص وقت میں، کسی خاص کیفیت یا خاص شرائط کے ساتھ کسی کام کی انجام دہی عبادت نہیں بلکہ بدعت ہوگی۔اسی ضابطہ کے پیش نظرشرعاً جن مواقع پر روزہ رکھنے کی ترغیب یا اجازت ہے ان مواقع پر توروزہ رکھنا عبادت ہوگا، لیکن جن مواقع یا ایام میں قرون اولیٰ سے روزہ رکھنے کا ثبوت نہیں ہے، ان ایام میں اس دن کی اہمیت کے پیش اگرہم اپنی طرف سے روزہ کااہتمام شروع کردیں تو شرعاً یہ روزہ بجائے عبادت کے بدعت کے زمرہ میں آئیگا۔چنانچہ خلفائے راشدین یا کسی اورصحابی کی شہادت یا وفات کے دن روزہ رکھنے کا ثبوت قرون اولیٰ میں ہمیں نہیں ملتااس لیے اس دن مخصوص نسبت کے ساتھ روزہ رکھنے کی اجازت بھی نہیں، البتہ اگرکسی کا عام معمول ہو روزہ رکھنے کا اور اس دوران کوئی ایسا دن آجاتاہے تو وہ حسبِ معمول روزہ رکھ سکتا ہے، جس کا تعلق اس دن کے ساتھ نہیں ہوگا بلکہ اس کے معمول کا حصہ ہوگا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

ج : صالحین نماز جنازہ پڑھنے سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ نہیں کہ نماز جنازہ نہیں ہو گی۔ نماز جنازہ ہر مسلمان کی پڑھ لینی چاہیے ۔ احناف کے خیال میں اگر عمومی شہرت کی بنیاد پر مسلمان ہے تو جنازہ عمومی دعا کے ساتھ پڑھ لینا چاہیے۔ احناف جو دعا پڑھتے ہیں وہ براہ راست میت کی مغفرت کی دعا نہیں ہے بلکہ عمومی دعا ہے یعنی اللھم اغفرلحیّنا…… بس یہ پڑھ لیجیے اور اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجیے ، نہ ہونے کا مسلہ نہیں لیکن البتہ صالحین اس سے اجتناب کریں تو کوئی حرج نہیں ۔ حضورﷺ ایسا کرتے تھے کہ بعض مجرموں یا ایسے لوگوں کا جنازہ پڑھنے سے آپﷺ خود اجتناب کر لیتے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج : تقسیم کرنے سے مراد کیا ہے ، اگر آپ نے واقعی دے دیا ہے تو مسئلہ ختم ہو گیا لیکن اگر تقسیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ویسے توتقسیم کر کے رکھ دیا لیکن خود پہن لیا تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ دھوکہ بازی ہے ، اس سے آدمی کو پناہ مانگنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس وہم کودور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالکل بے پروا ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیں ۔اللہ کے پیغمبر نے اس کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے ، وہم کی بیماری آدمی کو دین سے دور لے جاتی ہے اور بالکل ایک ایسا آدمی بنا دیتی ہے جس سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں ، اس لیے آپ بالکل بے پروا ہو جائیں ۔ اس بات کو بالکل نہ سوچیں ، نماز پڑھیں ، جب آپ اس طرح بے پروا ہو جائیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کا وہم بھی ختم ہو جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہماری خواتین کی تربیت ایسی ہے کہ وہ بالکل اس کو برداشت نہیں کرتیں اور میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ جب تک کوئی بہت ناگزیر صورت نہ ہو یہ کام نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کا بڑھاپا بالکل رسوا ہو کر رہ جائے گا۔ اصولاً اجازت کی ضرورت نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: طالب علمانہ رویے سے مراد ہے کہ آدمی ہر وقت بات سمجھنے کے لیے تیار ہو ، ہمدردی کے ساتھ سننے کے لیے تیار ہو ، اس پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہو ۔اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ کی مخلوق سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ آپ کو اپنی ماں سے ، باپ سے ، بھائیوں سے ، بچوں سے ، بنی نوع انسان سے محبت ہوتی ہے تو یہ محبت اللہ نے خود فطرت میں رکھی ہے اوراس پر دنیا کی معاشرت قائم ہے ، اس وجہ سے اگر آپ اس محبت کو اپنے اندر نہیں پاتے ہیں تو یہ خلاف فطرت بات ہے ۔ہاں ہر محبت ا للہ کی محبت کے تابع ہونی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بڑے حادثے کی بات ہے ۔ اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ یہ صورت کسی بیٹے کی باپ کے ساتھ نہ ہو ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے بعد سب سے بڑا حق والدین کاہے اور قرآن تو کہتا ہے کہ تم والدین کے مقابلے میں اف تک نہیں کر سکتے تو اسکے لیے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔ باقی آپ بچے کے اچھے دوستوں سے کہیے کہ اسے سمجھانے کی کوشش کریں ، براہ راست بات کرنے کے بجائے اسے صالحین کے پاس اچھی محافل میں بیٹھنے کے مواقع دیں کہ اللہ اس کا دل نرم کر دے تو یہ طریقے اختیار کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ معاش کی جیسی بھی جدوجہد کر رہے ہیں بہرحال کچھ نہ کچھ وقت تو بچتا ہو گا ، جو وقت آپ تفریح وغیر ہ میں صرف کرتے ہوں گے ۔اسی میں اگر ہفتے میں پون گھنٹہ نکال سکیں کہ اللہ کے دین کو سمجھ لیں تو آہستہ آہستہ آپ کے اندر شوق پیدا ہو جائے گااور وہی وقت جو آپ کو بہت تنگ لگتا ہے وہ بہت زیادہ لگنے لگے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں جب یہ الفاظ اکٹھے آتے ہیں تو کتاب قانون کے لیے آتا ہے اور حکمت ایمانیات کے لیے آتا ہے یعنی دین میں جو باتیں عقیدے کے طور پر ماننے کی ہیں وہ دین کا فلسفہ ہیں تو حکمت کا لفظ اس کے لیے آتا ہے اور کتاب کا لفظ شریعت اور قانون کے لیے آتا ہے اور جو چیزیں دین کے فلسفے میں شا مل ہیں یعنی حکمت کی رو سے اس میں اللہ پر ایمان ہے ، توحید کا تصور ہے ، آخرت پر ایمان ہے ، رسالت اور نبوت کا صحیح تصور ہے اور اس پر ایمان کے تقاضے ہیں ، اس طرح خیر وشر ، سنن الٰہیہ کا بیان ہے ، یہ چیزیں حکمت میں شامل ہیں اور شریعت میں سیاست ، معیشت ، معاشرت ، حدود ، تعزیرات ، جہاد اس طرح کی بہت سی چیزوں کے بارے میں ا حکام ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی سے بہت زیادہ معافی اور توبہ کرنی چاہیے ، اللہ کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے ، اگر وہ تلف کیا ہے تو یہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے ، معافی مانگے لیکن یہ حقوق العباد کی چیز ہے تو قیامت کے دن معاملہ پیش ہو جائے گا ، اگر والد معاف کر دیں تو اللہ بھی معاف کر دے گا اور اگر معاف نہیں کریں گے تو پھر اپنی نیکیاں دے کے اور ان کی برائیاں لیکر ہی جان چھڑانی پڑے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صحابہ کرامؓ کوئی شک نہیں آپس میں رحمدل تھے اور کفار کے مقابلے میں اس کے معنی سخت نہیں بلکہ ایسے جری تھے کہ انہیں کوئی رام نہیں کر سکتا تھا ، شدید کا مطلب یہ ہے ، جنگ صفین جوہوئی وہ حق کے لیے ہوئی یعنی دونوں گروں سمجھتے تھے کہ وہ حق کے لیے لڑ رہے ہیں ، حق کے معاملے میں وہ ہمیشہ سخت رہے ، رحمدلی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ چور کا ہاتھ کاٹنے سے انکار کر دیں ، آپ زانی کو سنگسار کرنے سے انکار کر دیں یعنی نبیﷺ نے بھی مجرموں کو سزائیں دی ہیں اور حق کے لیے لڑائیاں لڑی ہیں حالانکہ آپ رحمت اللعالمین تھے ، رحمدل ہونے سے مراد ہے کہ آپس میں ان میں محبت کے تعلقات تھے اور اگر کسی موقع پر حق کے لیے آپس میں اختلاف ہوا ہے تو انہیں سخت ہونا چاہیے تھا اور وہ ہوئے ، دونوں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اسی لیے لڑ گئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: زکوۃ ریاست جبراً وصول کر سکتی ہے ، اسلامی ریاست میں اس کی نوعیت ٹیکس کی ہے ، یہ لازماً آپ کو دینا پڑے گی ورنہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرح حکومت بھی تلوار اٹھا سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلی بات یہ سمجھ لیجیے کہ آپ کو بہرحال اس دنیا میں زندگی بسر کرنی ہے اور اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے آپ کو اپنے لیے معاش کا کوئی نہ کوئی ذریعہ تلاش کرنا ہوتا ہے ، یہ خدا کا بنایا ہوا قانون ہے ، والدین جب آپ سے کہتے ہیں کہ ایسی تعلیم حاصل کیجیے کہ جس سے آپ اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے کسی بہتر جگہ پر کھڑا کر سکیں تو آپ کی بھلائی میں کہتے ہیں ، آپ اس کو یوں دیکھیے کہ آپ جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے کوئی مشکلات کا باعث تو نہیں بن جاتی ۔ اس کے ساتھ دین بھی سیکھیے ۔ حفظ کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کیجیے اور اگر آپ سمجھیں کہ یہ معاملہ موخر کیا جا سکتا ہے اس سے آپ کا کوئی نقصان نہیں ہو گا تو سال دوسال موخر کر کے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا لیجیے اور اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ کام بعد میں ہو سکتا ہے تو بعد میں کر لیں لیکن یہ کوئی دو متضاد چیزوں کا معاملہ نہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہے ، آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آپ نے دنیا میں رہنا ہے اس کی تیاری بھی ضروری ہے اور آخرت کی تیاری بھی ضروری ہے ، توازن ہی کو اختیار کرنے سے صحیح زندگی وجود میں آتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ٹھیک ہے ، خدا کے پیغمبر کے ہوتے ہوئے کوئی اور امامت کی کیسے جسارت کر سکتاہے البتہ ایسا ضرور ہوا کہ حضورﷺ کو کوئی معذوری لاحق ہو گئی یا آپ کو آنے میں تاخیر ہو گئی ، آپ وضو کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے یا کہیں اور مجلس میں شریک تھے تو اس میں نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا تو کسی صحابی نے کھڑے ہو کر جماعت کرادی اور جب حضورﷺ کی آہٹ بھی سنی تو انہوں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی ، اگر کبھی اس طرح نماز شروع ہو گئی تو آپ نے ا شارے سے کہا کہ نہیں ایسے ہی مکمل کر لو تو حضور کے ہوتے ہوئے کوئی جسارت نہیں کر سکتالیکن اگر حضورﷺ موجود نہیں اور نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے تو جماعت ہو جائے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ نصیب کوسمجھ لینا چاہیے ، اللہ تعالی کی طرف سے جو چیزیں ملتی ہیں توان کے بارے میں یہ طے ہوتا کہ فلاں فلاں محنت کے بغیر مل جائے گی اور فلاں فلاں چیز محنت کے بغیر نہیں ملے گی تو اس وجہ سے اللہ کا قانون یہی ہے کہ آپ کو جدوجہد کرنی ہے ، عین ممکن ہے کہ جو چیز آپ سمجھ رہے ہوں کہ آپ کو حاصل ہو سکتی ہے وہ اللہ تعالی نے اس محنت سے مشروط کی ہو تو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ نصیب کے معنی یہ ہیں، یہی معاملہ رزق کے ساتھ بھی ہے ، رزق کا کچھ حصہ آپ کو محنت کے بغیر ملے گا اور کچھ حصہ محنت کے ساتھ مشروط ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت لوطؑ رسول تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں دو باتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ جن کاتعلق قرآن کی تعبیر ، تحقیق سے ہے ، اس میں جس کی بات آپ کو زیادہ معقول لگے ، (آپ تفاسیر بھی دیکھ سکتے ہیں) اور جو بات آپ کو معقول نظر آئے اسے آپ اختیار کر سکتے ہیں ، دوسرا پہلو اس کا مسئلے مسائل کا پہلو ہے جس کے بارے میں پوچھا گیا تھا کہ یہ بدعتیں جوعام طور پر ایجاد ہو جاتی ہیں تو ان میں پڑنے کا کوئی امکان نہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ پوچھیے اس کا ماخذ کیا ہے تو بدعت کا کبھی ماخذ نہیں ہوتا ، اس میں کوئی تاویل کا اختلاف نہیں ہوتا ،تاویل کے اختلاف میں آپ کو پورا حق ہے کہ آپ جس کی رائے کو زیادہ بہتر سمجھیں اسے قبول کر لیں لیکن بدعت میں پڑنے کا اندیشہ ختم ہوجاتا ہے اگر آپ یہ اصرار کریں کہ ہم وہی بات مانیں گے عمل کے معاملے میں جو اللہ کے پیغمبر سے ثابت ہو گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سستی کوئی وجہ نہیں ہوتی کسی کام کی، آپ اگر معقولیت سے محسوس کرتے ہیں کہ پانی اتنی دور ہے کہ آپ کے لیے زحمت کا باعث بن جائے گا تو آپ تیمم یا مسح کر سکتے ہیں ،اصل اصول زحمت ہے ، دین میں کوئی خاص مسافت مقرر نہیں کی گئی اور یہ حالات کے لحاظ سے ہو بھی نہیں سکتی تھی ، مثال کے طور پر گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ کو نماز پڑھنی ہے ، ہو سکتا ہے کہ پانی ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہو لیکن وہاں جانا اور وضو کرنا گاڑی چھوٹنے کا باعث بن جائے گا تواس وجہ سے اگر دین اس کی مسافت مقرر کرتا تو یہ حالات کے خلاف معاملہ ہو جاتا تو آپ اپنے طور پر اس کا فیصلہ کر لیجیے باقی اگر نیک نیتی سے آپ نے کوئی اجتہاد کیا ہے اور غلط بھی کیا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کا اجر ملتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شہادت کے بارے میں اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب آدمی کسی حق کے لیے جان دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جان دے رہا ہے تو تبھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اگر وہ ماں کے بارے میں ، مال کے بارے میں یا کسی اور چیز کے بارے میں اسی جذبے سے میدان میں اترتا ہے تو یہ اللہ کے ہاں اس کے اجر کا باعث بنے گا۔اس کا تعلق آدمی کی نیت پر ہے ، کسی خاص عمل پر نہیں ۔ اگر میدان جنگ میں بھی آدمی کی نیت خدا کی راہ میں جان دینی کی نہ ہو تو اس کا بھی کوئی اجر نہیں ۔تو اس نیت کے تحت آدمی جس چیز کے لیے بھی اترتا ہے وہ اس کے لیے یقینا شہادت بن جاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس سے تو کسی بھی چیز کی حرمت نہیں نکلتی ، اس میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ایک طرف اللہ کا پیغمبر ہے جو دین کی دعوت دے رہا ہے اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جو لھو ولعب کی مجلس سجا کر بیٹھ گئے ہیں تو جب یہ چیزیں پیغمبر کے مقابلے میں ہونگی تو وہ خدا کے مقابلے میں بڑی سرکشی بن جائے گی ، اس میں حرمت کا کیا سوال ہے ۔ آپ یہ دیکھیے کہ جمعے کے خطبے کے موقع پر جب لوگ اسی طرح مال تجارت کی طرف چلے گئے تھے ، مال تجارت میں جا کر سودا خریدنا کوئی بری چیز تو نہیں لیکن اللہ تعالی نے اس پر تنبیہہ کی ، موقعے موقعے کی بات ہوتی ہے

(جاوید احمد غامدی)

ج: سرزد ہو جاتا ہے ،ان الفاظ پر غو رکیجیے ، یعنی جذبات کے غلبے میں آدمی خود پر قابو نہیں پاسکا ، خدا سے ڈرتا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو لیکن پھسل گیا ، یہ سرکشی نہیں ہے ، اس کے بعد ایسا آدمی نادم ہو گا اور فورا رب کی طرف رجوع کرے گا ، معافی مانگے گا ، اور اللہ تعالی نے قرآن میں کہا ہے کہ جب کوئی آدمی اس طرح جذبات کے غلبے میں آکر کوئی گنا ہ کر لیتا ہے اور فورا معافی مانگ لیتا ہے تو اللہ نے لازم کر رکھاہے کہ اس کی توبہ کو قبول کرے ، یہ خدا کی بڑی رحمت اور بڑا کرم ہے لیکن آدمی اگر منصوبہ بندی کر رہاہو کہ گناہ کر کے معافی مانگ لوں گا تو یہ بڑی سرکشی کی بات ہے ، ایک چیز ہے انسان سے ہو گئی اور ایک چیز وہ کرنے پر مصر ہو گیا تو ان دونوں میں بڑا فرق ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ ایسا محسوس کرتے ہیں تو اجتناب کر سکتے ہیں لیکن رد عمل میں کوئی بری بات نہ کہیے ، بس اعراض کر کے چلے جائیے ، دینا آپ پر لازم نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز جمعہ کی کوئی قضا نہیں ہوتی ، بس آپ ظہر کی نماز پڑھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کوئی بسم اللہ نہیں ، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، اللہ کا نام لینا چاہیے جیسے لینے کا حق ہے ، اس طرح کی علامتیں بہت سی گمراہیوں کا باعث بن جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

786

ج: یہ کوئی بسم اللہ نہیں ، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، اللہ کا نام لینا چاہیے جیسے لینے کا حق ہے ، اس طرح کی علامتیں بہت سی گمراہیوں کا باعث بن جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

786

ج: دین او رمذہب تو ہمارے ہاں ارد و میں بالکل مترادف بولے جاتے ہیں اور ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ، شریعت اللہ کے نازل کردہ قانون کو کہتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورتوں کے اس طرح کے معاملات میں چند اصولی باتیں جان لینی چاہیےں جس کے بعد آپ کو بہت سی چیزوں کا خود ہی جواب مل جائے گا، ایک تو وہ چیزیں ہیں جن میں دوسروں کو دھوکا دیاجاتاجیسے خواتین دوسروں کے بال ساتھ ملا کر اپنے بال لمبے کر لیتی ہیں ، حضورﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا یعنی اللہ نے انسان کو جو ہئیت دی ہے اس میں کسی کمزوری یا کمی کا علاج کرنا ایک چیز ہے اور اس میں نمائش کا پہلو پیدا کر کے اسے دوسروں کے لیے فریب کا ذریعہ بناد ینا اس کو پسند نہیں فرمایا ، اسی طرح بعض بد ہئیتی کی چیزیں عورتیں بناؤ سنگھار میں اختیار کرلیتی ہیں جیسے جسم پر بعض نام کھدوا لیتے ہیں ، طرح طرح کے نقش و نگار بنا لیتے ہیں تو اس کو حضورﷺ نے ناپسند فرمایا ، باقی بناؤ سنگھار کی چھوٹی موٹی چیزیں جو خواتین کرتی ہیں اس کے بارے میں کوئی حرج نہیں ۔ 

(جاوید احمد غامدی)

ج : اگرچہ قرآنی آیات سے علاج کی کوئی بنیاد قرآن وسنت میں نہیں ہے اور اس کی بنیاد سراسر انسانوں کے اندازوں اور بعض لوگوں کے دعوے کے مطابق تجربے پر ہے۔ اس لیے اسے جائز اور ناجائز قرار دینے کا مسئلہ دو بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک یہ کہ قرآن وسنت میں کوئی چیز موجود ہو جس کی بنیاد پر اسے ناجائز کہا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس طریق کار میں کوئی ایسی چیز ہو جو اسلام کے اصولی یا عملی پہلوؤں کے خلاف ہو۔ قرآنی عملیات کو جادو قرار دے کر خلاف اسلام قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ ان کے ساتھ جو رسوم و آداب وابستہ کر دیے جاتے ہیں وہ محل نظر ہیں۔ اسی طرح قرآنی آیات کا یہ استعمال خود قرآن کے مقصد نزول سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا یہ پہلو بھی اسے پسندیدہ نہیں رہنے دیتا۔ پھر یہ کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کو تدبیر اور دعا کے اصول پر استوار کیا ہے اس طرح کے عمل اس کے بھی خلاف ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اصل میں یہ تینوں دعوے انسانی ہیں اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے اس کی بنیاد قرآن مجید اور حدیث میں نہیں ہے۔ اس طرح کی چیزیں پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی کیونکہ ان کے نتائج نکلنے کی شرح اتنی نہیں ہے کہ اسے طب یا انجینئرنگ کی طرح کا ایک باقاعدہ فن قرار دیا جا سکے۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اللہ تعالی سب کی سنتے ہیں۔ نیک آدمی خدا کے پسندیدہ ہیں۔ اس سے توقع پیدا ہوتی ہے کہ ان کی دعائیں بھی اللہ قبول کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے لیکن اللہ تعالی کی طرف سے یہ کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے دعا قبول کرنے کے اصول ہیں وہ ان اصولوں کے مطابق ہونے والی دعا قبول کرتے ہیں۔ کوئی دعا ایسی نہیں ہے جو ان کی درگاہ میں نہیں پہنچتی۔

(مولانا طالب محسن)

ج : تصوف ایک علم ہے جس میں ایک حصہ ان کے نظام فکر کا ہے اور دوسرا حصہ ان کے نظام تربیت کا ہے۔ پہلا حصہ سب سلاسل میں مشترک ہے اگر کچھ فرق ہے تو وہ بہت معمولی ہے اور بالعموم طرز بیان کا ہے۔ دوسرا حصہ عملی ہے اور اس میں وظائف، چلوں اور ریاضت کے طریقوں کا فرق ہے۔اصولاً تو شیخ کی وہی حیثیت ہے جو کسی بھی فن میں استاد کی ہوتی ہے۔ لیکن تصوف میں شیخ کو کم وبیش وہی مقام دیا گیا ہے جو قرآن مجید میں حضور کو امتیوں میں دیا گیا ہے۔ یہ بات محل نظر ہے اور کسی بھی غیر نبی کا اپنی حدود سے تجاوز ہے۔مرنے کے بعد کسی روح کے لیے اس دنیا سے کوئی رابطہ ممکن نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج : یہ سوال جس الجھن پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہوتا ہے ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہمیں یہ اصولی بات معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے سب پہلے سے طے کر رکھا ہے تو پھر یہ آزادی بالکل بے معنی ہے۔ پھر جزا یا سزا یا وقوع قیامت یہ سب باتیں اپنی معنویت کھو دیتی ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تدبیر کریں اور تدبیر کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ ہم ان آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بھی دعائیں کریں جو دوسرے انسانوں اور قدرتی عوامل کی وجہ سے پیش آتی رہتی ہیں اور جن کا کبھی ہمیں شعور نہیں ہوتا اور اگر کبھی شعور ہو بھی تو ہم اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔حضور کی سکھائی ہوئی ایک دعا کے الفاظ ہیں:

اے اللہ مجھے اس شر سے محفوظ رکھ جس کا آپ نے فیصلہ کیا ہے، کیونکہ تو فیصلے کرتا ہے تیرے اوپر فیصلے نہیں ہوتے ۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ ہماری دعا سے اللہ کے فیصلے تبدیل ہوسکتے ہیں۔

اللہ تعالی نے ہمیں یہاں آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔ آزمایش کے ضروری ہے کہ انسانوں کو خیر وشر کے انتخاب کی حقیقی آزادی حاصل ہو۔ وہ چاہیں تو اچھے اعمال کریں اور چاہیں تو بداعمالیا ں کریں۔ یہ آزادی بالکل محدود ہو جائے گی اگر انسانوں کو دنیوی معاملات میں فیصلے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ مطلب یہ کہ شادی، کاروبار، تعلیم، محنت، پرہیز، علاج، ہنر، طرز زندگی ،لباس ،رسم ورواج غرض زندگی کے بہت سے دائروں میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اصل میں یہ آزادی ہی ہمارا مقدر ہے۔ جسے اللہ نے اپنی قدرت کے بل پر جاری وساری کر رکھا ہے۔آپ کی بات بالکل درست ہے کہ شادی میں کئے گئے فیصلے بھی اسی آزادی کے تحت ہیں۔ لیکن یہ آزادی بعض اوقات صرف ارادے تک محدود رہتی ہے اور ایک انسان کو عمل کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی اس مداخلت کے پیچھے کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ایک انسان کو بہت سی آزمایشیں اس کے ماحول میں موجود انسانوں کے اعمال سے پیش آتی ہیں۔ لہذا مداخلت کرکے اس آزمایش کو مطلوب درجے تک رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر الف ،ب کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلے اور ب کو قتل نہ ہونے دینا مقصود ہو تو ب کو مداخلت کرکے بچا لیا جاتا ہے۔ لیکن فیصلہ کرنے والا قتل کا مجرم بن جاتا ہے اور آخرت میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک بندے کے مستقبل کو بعض آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی مداخلت کی جاتی ہے وغیرہ ۔اس وضاحت کو شادی کی مثال پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے زور زبردستی کی ہے انھوں نے اللہ کے دیے ہوئے ایک حق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ الا یہ کہ وہ یہ مداخلت کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بچوں کا فیصلہ غلط ہے اور اس سے ان کا نقصان ہوگا۔اس کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس معاملے میں مداخلت کرکے آئندہ کے لیے کسی آفت سے حفاظت کا بندوبست کیا ہو۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اس طرح کی کمیٹی سود کے بغیر نہیں چلائی جا سکتی اور سود کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں دھوکے کا عنصر بھی موجود ہے۔ یعنی لوگوں کو اصل حقیقت نہیں بتائی جاتی اور انھیں لالچ دے کر ان کے پیسے ذاتی استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس کی شکل بھی جوئے سے ملتی ہے۔ان پہلوؤں کے ہوتے ہوئے یہ کمیٹی جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔         

(مولانا طالب محسن)

ج : آپ کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ مالی پریشانی بہت سی پریشانیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے اس کا حل ہونا ضروری ہے۔آپ ذرا تصور کیجیے کہ حضور کے زمانے میں اگر حضورﷺ سے یہی سوال کیا گیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کیا جواب دیتے۔ آپ کی سیرت کی کسی بھی کتاب میں ہمیں کسی طرح کا وظیفہ بتانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ بہت غور طلب بات ہے۔ حدیث کا مستند ذخیرہ ہو یا قران مجید کی 114 سورتیں ہمیں اس طرح کی کوئی چیز کیوں نہیں ملتی۔اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ طریقہ کہ اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے کوئی وظیفہ کیا جائے اس کا کوئی تعلق قرآن وسنت سے نہیں ہے۔یہ اگر کوئی علم ہے تو بعد میں دریافت ہوا ہے۔ ہم لوگ قرآن وسنت کی روشنی میں دین بیان کرتے ہیں۔ لہذا ہمارا اس طرح کے فنون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قرآن و حدیث سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو ارادہ و عمل کی آزادی دی ہے۔ اس کا لازمی تقاضا تھا کہ انسانی زندگی میں نتائج کو سعی و جہد پر منحصر کر دیا جائے۔ اس میں معاش بھی شامل ہے۔ چنانچہ اس معاملے میں اصل الاصول یہ ہے کہ ہم اپنی سعی کی خامیوں کا جائزہ لیں اور اس کو اپنے امکان کی حد تک بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔لیکن یہ کوشش اپنی کامیابی کے لیے بہت سے موافق امکانات کی محتاج ہے۔ یہ امکانات دیکھے بھی ہیں اور ان دیکھے بھی ہیں۔ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ اپنے بل پر انھیں میسر کر سکے اس کے لیے صرف دعا کا راستہ ہے۔چنانچہ میں آپ کو بھی یہی تجویز کروں گا کہ آپ اپنی سعی کا جائزہ لیں اس میں وہ کمیاں جو آپ اپنی محنت اور عمل سے دور کر سکتے ہیں انھیں دور کریں اور ان کے کامیاب ہونے کے اللہ سے دعا کریں۔

جو لوگ اللہ کے ساتھ بندگی، شکر اور صبر کے ذریعے جڑے رہتے ہیں اور بندوں کے ساتھ احسان کا رویہ رکھتے ہیں اللہ ان کی غیب سے مدد کرتا ہے اور ان کے معاملات عزت سے انجام پاتے رہتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

ج : ایصال ثواب میں کوئی آدمی اپنے کسی کار خیر کا اجر دوسرے کو منتقل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات اس سے بالکل مختلف ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی مغفرت کی دعا کرے۔ پہلی صورت میں بندہ اصل میں اس اصول کو مانتا ہے کہ میری نیکی کا اجر دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے اور دوسری صورت محض سفارش ہے۔ پہلی صورت کی کوئی دلیل قرآن میں موجود نہیں اور دوسری صورت یعنی دعا کے حق میں متعدد نصوص ہیں۔دعا کا نفع بخش ہونا دعا کی قبولیت کے اصولوں پر قائم ہے۔        

(مولانا طالب محسن)

ج : نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانا کھانے کے حوالے سے جو کچھ منقول ہے میرے مطالعے کی حد تک یہ ہے:

1۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا

2۔ دائیں ہاتھ سے کھانا

3۔ اپنے آگے سے کھانا

4۔ مشروبات میں پھونک نہ مارنا

کھانا کھانے کے دوران میں گفتگو نہ کرنا میرے مطالعے میں اس مضمون کی کوئی روایت نہیں ہے۔میرا خیال یہ ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے بولنے میں گلے میں لقمہ پھنسنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے بڑے ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ غالباً اسی بات نے بڑھتے بڑھتے وہ صورت اختیار کر لی ہے جو آپ نے بیان کی ہے۔ میرے خیال میں سلام کرنے اور سلام کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بس یہ خیال رکھیں کہ لقمہ منہ میں صحیح جگہ پر ہو۔           

(مولانا طالب محسن)

ج : معراج کا واقعہ ایک معجزہ ہے اور معجزہ مادی قوانین کے مطابق نہیں ہوتا۔ اس لیے انسانی ذہن کی گرفت سے باہر ہے۔ سائنس کی جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ مادی قوانین کے فہم میں ہوئی ہے۔ ماورائے مادی امور مسائل نہ اس کی پہنچ میں ہیں اور نہ اس کا موضوع۔یہ معاملہ اللہ تعالی کے امر سے وقوع پذیر ہوا تھا۔ اور اس کے ماننے کی بنیاد مخبر پر ہمارا یقین ہے۔ البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اگرچہ انسانی عقل ان مسائل کو اپنے وسائل کی مدد سے حل نہیں کر سکتی لیکن ان کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی شعور کی بناوٹ میں مذہب کی قبولیت کا مادہ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تہذیبیں مذہبی ہوتی رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ وہ معاشرے جنھیں ہم ترقی یافتہ معاشرے سمجھتے ہیں وہاں حقیقی مذہب ہو یا نہ ہو توہم پرستی اور عامل ٹائپ لوگوں کا وجود انسانی شعور کی اس سرگرمی کا واضح ثبوت ہے۔

میں نے اپنے جواب میں دو نکات بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ معراج کا واقعہ ہمارے دریافت کردہ طبیعیاتی قوانین سے ماورا ہے لہذا ان قوانین سے اس کی حقیقت سمجھ میں

 نہیں آ سکتی۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کے واقعات کے ماننے کی بنیاد خبر دینے والے پر ہمارا اعتماد ہے۔پھر میں نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ اعتماد اندھا بہرا نہیں ہے۔ ہم اپنے شعور سے انھیں سمجھنے اور ماننے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ خدا قادر مطلق ہے اور معراج اس کی قدرت کا ایک اظہار ہے۔    

(مولانا طالب محسن)

ج : اجماع کا لفظ دو معنی میں بولا جاتا ہے۔ ایک اجماع امت ہے اور ایک اجماع فقہا ہے۔ اجماع امت کا مطلب یہ ہے کہ امت کسی چیز کو دین کے طور پر حضور سے منسوب کرنے میں اپنے ہر زمانے میں بالکل متفق ہو۔ یہ رائے کا اتفاق نہیں ہے بلکہ حضور سے دین کو نقل کرنے پر اتفاق ہے۔ یہی اجماع دین کا ماخذ ہے اور اس سے اختلاف جائز نہیں۔ دوسرا اجماع رائے پر اجماع ہے یہ اصل میں نصوص سے استنباط پر علما کا متفق ہونا ہے۔ اگرچہ یہ اجماع محض دعوی ہے لیکن لوگ بہت سی دینی آرا پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں۔ اس طرح کے اجماع سے اختلاف میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ رائے سے اختلاف ہے۔ یہ دین کے کسی جزو سے اختلاف نہیں ہے۔ علمی آرا میں غلط اور صحیح کا معاملہ ہوتا ہے حق اور باطل کا معاملہ نہیں ہوتا۔ علمی آرا میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرا گمراہ ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنی رائے پر عمل کریں تو دین پر عمل کر رہے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والا اپنی رائے پر عمل کرے تو وہ دین پر عمل کر رہا ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاق کے معاملے میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ تین طلاق ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ایک طلاق ہے۔ جس کی جو بھی رائے ہے وہ اس پر عمل کرنے میں گناہ گار نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اصل میں احناف کا نقطہ نظر جس بنا پر قائم ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نمازنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے سامنے اور روزانہ پانچ مرتبہ پڑھی ہے اور جو عمل سب کے سامنے ہوا ہو اس کے بارے میں خبر واحد سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح پانچ نمازوں کے معاملے میں خبر واحد کی کوئی حیثیت نہیں ہیپر اسی طرح نماز کے ظاہری اعمال میں بھی اس کی حیثیت نہیں ہے۔ احناف عین صحابہ سے متصل زمانے میں عمل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر رفع یدین نماز کا معمول بہ حصہ ہوتا تو احناف اتنی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آج بھی احناف سے اس معاملے میں اختلاف کرنے والے عمل متواتر اور جاری نماز کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کرتے بلکہ اخبار آحاد پیش کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں وہی نتیجہ نکلتا ہے جو آپ نے غامدی صاحب کے حوالے سے بیان کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اللہ تعالی کے نظام تکوین میں کچھ ہستیاں شریک ہیں۔ یہ تصور بالعموم دو صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی نے کچھ ہستیوں کو خود سے کچھ کاموں میں شریک کر رکھا ہے یا وہ شریک ہی کی حیثیت سے ہمیشہ سے موجود ہیں۔ یہ شرک کی وہ صورت ہے جو تمام مشرکانہ مذاہب میں بیان کے فرق کے ساتھ موجود ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کچھ ہستیاں عبادت و ریاضت سے اپنے آپ کو مقبول بارگاہ بنا لیتی ہیں اور اس طرح اللہ تعالی ان کو کچھ امور کا ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ دونوں طرح کے شرک زیر بحث آئے ہیں اور ان پر ایک ہی تنقید کی ہے کہ ان کے پاس کوئی سلطان (authority) نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات وحی کے سوا کسی طریقے سے معلوم نہیں ہو سکتی کہ اللہ نے کچھ شرکا بنا رکھے ہیں یا امور تکوینی تک رسائی کا کوئی قاعدہ بنا رکھا ہے۔ چونکہ خدا کی کسی کتاب میں نہ صرف یہ کہ اس طرح کی کسی بات کی طرف اشارہ بھی موجود نہیں ہے بلکہ صریح الفاظ میں ان کی تردید ہوئی ہے اس لیے ان کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ بھی اس تصور پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان تک پیغام رسانی ہوتی ہے۔ یہ بات دو پہلوؤں سے ناقابل قبول ہے۔ ایک یہ کہ کچھ ریاضتوں سے انسان مخاطبہ الہی کا اہل ہو جاتا ہے۔ یہ بات اوپر والی بات ہی کی طرح بے بنیاد ہے۔ دوسرا یہ کہ ختم نبوت کا تصور اس کے نتیجے میں باطل ہو جاتا ہے اور نبوت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی انسان کو مخاطبہ الہی کا مقام حاصل ہو جائے۔ قطب و ابدال جیسے تصورات درحقیقت اسی بنیاد پر باطل ہیں اور ان کے ماننے سے خدائی میں شرکت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور ان تصورات کو ماننے والوں کے ہاں اس کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔آپ نے ستاروں کے اثرات کے ماننے کے شرک ہونے پر بھی تعجب ظاہر کیا ہے۔ قرآن مجید نے جبت کو جرم قرار دیا ہے۔ جبت کا مطلب یہ ہے کہ اوقات اور اشیا کے ماورائی اثرات مانے جائیں۔ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے اور اس تصور کی بھی الہامی لٹریچر سے کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ یہ بھی انسانوں ہی کے بنائے ہوئے تصورات ہیں اور انسان کو سعی وجہد کرنے والا اور خدا پر بھروسا کرنے والا بنانے کے بجائے توہم پرست بناتے ہیں۔ قرآن مجید نے جبت کو گناہ قرار دیا ہے اور ستاروں کے اثرات ماننا جبت ہی کے تحت آتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

س : میں ایک حدیث سے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ "پیغمبر نوح علیہ السلام نے بھی بیت اللہ کا حج کیا"۔ یہ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے جو کہ عروہ بن زبیر سے مروی ہے۔" ہود اور صالح علیہما السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں نے بیت اللہ شریف کا حج کیا۔ پیغمبر نوح نے بیت اللہ شریف کا دورہ کیا۔ پھر جب سیلاب نے زمین کو ڈبو دیا اور بیت المقدس پانی کے نیچے ڈوب گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو صحیح راستے کی طرف لائیں۔ حضرت ہود تبلیغ کے کاموں میں اتنے مصروف رہے کہ وہ بیت المقدس کا حج نہ کر سکے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ والی پاک جگہ دکھائی گئی تو انہوں نے بھی وہاں کا حج کیا، اور اس طرح ان کے بعد تمام پیغمبروں نے جو کہ آپ کے بعد تشریف لائے"۔ (راوی۔ البیہقی، کتاب السنن) میں بیہقی کی ان احادیث کی نوعیت جاننا چاہتا ہوں۔ یہ کس درجے کی حدیث ہے، جب کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے کی۔

ج : آپ نے تعمیر کعبہ اور حج کے حوالے سے مختلف پیغمبروں کے عمل سے متعلق بیہقی کی ایک روایت کے بارے میں رائے دریافت کی ہے۔آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ مجھے تلاش کے باوجود بیہقی میں نہیں ملی۔ البتہ ازرقی کی اخبار مکہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے۔

‘‘عثمان کا بیان ہے کہ مجھے ابن اسحاق نے خبر دی کہ مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جسے میں متہم نہیں سمجھتا کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تعمیر ہوا کہ وہ اس کا طواف کریں اور اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ حضرت نوح نے غرق سے پہلے حج کیا وہ اس کے پاس آئے انھوں نے اس کی تعظیم کی- جب زمین پر غرق کا مرحلہ آیا اور اللہ نے قوم نوح کو ہلاک کر دیا تو بیت اللہ کے ساتھ وہی ہوا جو زمین کے ساتھ ہوا۔ پھر اس کی نشانی کے طور پر ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے ہود علیہ السلام کو عاد کی طرف مبعوث کیا وہ اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے۔ یہاں تک ان کی قوم بھی ہلاک ہوگئی۔ انھوں نے بھی حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ٹھکانا عطا فرمایا۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مناسک بھی سیکھے۔ لوگوں کو اس کی زیارت کے لیے دعوت بھی دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا جس نے اس کا حج نہ کیا ہو۔"

اس روایت کی سند ہی سے واضح ہے کہ قبولیت روایت کے معیار کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی روایات کو اس معیار پر پرکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تاریخی روایات کے بارے میں اصول یہی ہے کہ وہ قابل قبول ہیں الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اس روایت میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب اس زمانے سے متعلق ہیں جن کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لہذا تردید و تصویب کے لیے ہمارے پاس کوئی محکم بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اس کی بعض باتوں کی تائید ہوجاتی ہے لیکن اکثر باتوں کے لیے قرآن میں کوئی تائید نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : آج کل مسجدوں میں جس طرح محراب بنائے جاتے ہیں، اس کا رواج صدرِ اول میں نہیں تھا۔ چنانچہ مسجد نبوی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں محراب نہیں تھا۔ سب سے پہلے اس کی تعمیر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ۹۱ھ میں کی، جب وہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے۔

محرابِ مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کے سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ شوافع ، مالکیہ (مشہور قول کے مطابق) اور بعض حنفیہ کا قول ہے کہ فرض نماز کے لئے امام کا محراب میں کھڑا ہونا جائز ہے۔ حنابلہ اور بعض احناف اسے مکروہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ بعض فقہائے احناف کہتے ہیں کہ امام کو محراب ہی میں کھڑا ہونا چاہئے، محراب کے علاوہ اس کا اور کہیں کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ امام احمد سے ایک قول یہ مروی ہے کہ امام کا محراب میں کھڑا ہونا مستحب ہے۔

امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد نے الجامع الصغیر میں امام کے محراب میں کھڑے ہونے کو مکروہ لکھا ہے۔ انھوں نے اس مسئلے کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی ہے، اسی لئے بعد کے فقہا میں اس کی تفصیلات میں اختلاف ہوگیا ہے۔ جو حضرات اسے مکروہ قرار دیتے ہیں وہ اس کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں۔ مثلاً بعض حضرات کہتے ہیں کہ محراب میں رہنے سے امام مقتدیوں سے الگ تھلگ سا ہوجاتا ہے، نیز اس میں اہل کتاب کے عمل سے بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس صورت میں مسجد میں دائیں اوربائیں جانب رہنے والے مقتدی امام کے حال سے واقف نہیں رہ پاتے۔ گویا اگر امام محراب میں رہتے ہوئے مقتدیوں سے الگ تھلگ نہ معلوم دے اور مقتدی اس کے حال سے واقف رہیں تو محراب میں کھڑے ہوکر امامت کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے-97 اس موضوع پر تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے الموسوعہ الفقہیہ الکویت، بہ عنوان ‘محراب’

()

جواب : تخلیقِ انسانی کا عمل کس طرح انجام پاتا ہے اس کی طرف قرآن کریم کی ایک آیت میں یوں اشارہ کیاگیا ہے: انَّا خَلَقنَا الاِنسَانَ مِن نّْطفَۃ اَمشَاج۔ (الدھر:۲)

‘‘ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے’’۔

یہ مخلوط نطفہ مرد کے مادہ منویہ (Sperm) اور عورت کے بیضہ (Ovum) کے اتصال سے ترکیب پاتا ہے۔ دونوں کا اتصال رحم (Uterus) کے بالائی دونوں سروں پر پائے جانے والے ٹیوب جسے فلوپین ٹیوب کہتے ہیں میں ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں عمل بارآوری (Fertilization) انجام پاتا ہے۔ پھر یہ بارآور بیضہ رحم میں داخل ہوتا ہے، جہاں جنین کی شکل میں اس کی نشوونما ہوتی ہے-97 بسااوقات جنسی اعضاء میں سے کسی عضو میں کوئی نقص ہوتا ہے جس کی بنا پر مرد کے مادہ منویہ اور عورت کے بیضہ کا اتصال و امتزاج نہیں ہوپاتا، مثلاً مرد کے مادہ منویہ کو خصیوں سے عضو تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں، یا عورت کے خصیہ الرحم سے کسی سبب سے بیضہ کا اخراج نہ ہوپا رہا ہو، یا فلوپین ٹیوب پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں یا کسی مرض کے سبب مسدود ہوگئے ہوں۔ اس صورت میں مرد کا مادہ منویہ اور عورت کا بیضہ حاصل کرکے دونوں کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کیا جاتاہے، پھر ایک متعین مدت کے بعد اس مخلوط نطفہ کو عورت کے رحم میں منتقل کردیاجاتا ہے۔ اگر فطری طریقے سے استقرارِ حمل نہ ہوپا رہا ہو تو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تکنیک اختیار کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ شوہر کے نطفے اور بیوی کے بیضے کے اختلاط و امتزاج سے بارآوری کا عمل انجام دیاجائے۔

جدید میڈیکل سائنس نے اس تکنیک کو بہت ترقی دی ہے۔ مثلاً اگر شوہر کا مادہ منویہ ناکارہ ہو تو کسی دوسرے کا مادہ منویہ حاصل کرلیا جاتا ہے، اس کے لئے ‘اسپرم بینک’ قائم ہوگئے ہیں۔ اگر بیوی کے خصیہ الرحم سے بیضہ خارج نہ ہورہا ہو تو دوسری عورت سے بیضہ حاصل کیاجاتا ہے۔ اگر بیوی کے رحم میں کسی خرابی کی بنا پر اس میں استقرار حمل اور جنین کی پرورش ممکن نہ ہوتو کسی دوسری عورت کا رحم اس کام کے لئے کرایہ پر لے لیاجاتاہے۔ اس چیز نے عالمی سطح پر ایک منافع بخش انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔اسلامی شریعت کی رو’ سے یہ تمام صورتیں ناجائزہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لَا یَحِلّْ لامریٍ یْو مِنْ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الآخِرِ اَن یَّسقِیَ مَاوْہْ زَرعَ غَیرِہ (ابوداود: ۸۵۱۲)

‘‘کسی شخص کے لئے، جو اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتا ہو، جائز نہیں کہ اپنے پانی (مادہ تولید) سے کسی دوسرے کے کھیت (یعنی غیر عورت) کو سیراب کرے’’۔

خلاصہ یہ کہ ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے عمل بار آوری کی صرف وہ صورت جائز ہے جس میں شوہر کے نطفے اور بیوی کے بیضے کو استعمال کیاگیا ہو۔

()

سوال:مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی سے ‘اسلامی خاندان’ کے نام سے ایک مجموعہ مقالات شائع کیا گیا ہے۔ اس کے صفحہ ۵۲ پر یہ حدیث درج ہے:

‘‘حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا جو آپ کو اچھی لگی۔ آپ اسی وقت زوجہ مطہرہ حضرت سودہ کے پاس تشریف لائے۔ وہ اس وقت خوشبو تیار کر رہی تھیں اور ان کے پاس دوسری خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے تنہائی حاصل کی اور اپنی ضرورت پوری کی، پھر فرمایا: ‘‘جو شخص کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کو بھلی لگے، اسے چاہئے کہ اپنی بیوی کے پاس جائے، کیونکہ اس کے پاس وہی ہے جو اس کے پاس ہے’’۔

اس حدیث کو پڑھ کر میں سخت پریشانی اورالجھن میں پڑگیا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر محرم عورت پر نگاہ ڈالی اور اتنی دیر تک ڈالی کہ وہ ان کو اچھی لگی۔ کیا واقعی پیغمبر غیر محرم عورت پر نگاہ جماتے تھے؟کیا واقعی پیغمبر کی شان یہ ہے کہ وہ غیر محرم عورتوں کو دیکھے اور دوسروں کو بھی دیکھنے کی ترغیب دے اور کہے کہ اگر کوئی عورت تم دیکھو اور وہ بھلی لگے تو فوراً اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔ اگر کوئی مرد کنوارا یا بغیر بیوی کے (رنڈوا) ہوتو وہ کہاں جائے؟ اس حدیث سے یہ مطلب بھی نکالاجاسکتا ہے کہ اس وقت عورتیں بے پردہ رہتی تھیں یا ہوسکتا ہے کہ یہ احکامِ پردہ سے پہلے کا واقعہ ہو۔ میری اس الجھن کو رفع فرمائیں، عنایت ہوگی۔

جواب : جو حدیث اوپر بیان کی گئی ہے ، اس کا حوالہ ‘اسلامی خاندان’ میں مشکوٰۃ المصابیح کا دیا گیا ہے۔ مشکوٰۃ میں اسے سنن دارمی کے حوالے سے نقل کیاگیا ہے۔ دارمی کے علاوہ یہ بیہقی کی شعب الایمان میں بھی مروی ہے۔ اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت جابر سے مروی ہے، البتہ اس میں اْم المومنین حضرت زینب کا نام آیا ہے۔ اس کی تخریج مسلم، ابوداؤد ، بیہقی اور احمد نے کی ہے۔ اس سے ملتا جلتا مضمون ایک اور حدیث میں آیا ہے، جو حضرت ابوکبشہ الانماری سے مروی ہے اور اس کی روایت احمد اور طبرانی نے (الاوسط میں) کی ہے اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں بھی اسے نقل کیا ہے۔ علامہ محمد ناصرالدین البانی نے اس حدیث کو سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ میں جگہ دی ہے اور اس کے تمام طرق نقل کرکے ان پر بحث کی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے-97درایت کے اعتبار سے بھی اس حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس پر کوئی اشکال یا شبہ وارد ہو، بلکہ اس سے چند اہم نکات کا استنباط ہوتا ہے:

(۱) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت نمایاں ہوتی ہے۔ آپ اپنی رسالت و نبوت کے باوصف دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ آپ نے دوسرے انسانوں کی طرح شادی شدہ زندگی گزاری۔ آپ دوسرے انسانوں کی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے، کھاتے پیتے اور دیگر انسانی ضروریات پوری کرتے تھے۔ دوسرے انسانوں کی طرح آپ پر بشری جذبات طاری ہوتے تھے اورآپ جواز کی حدودمیں رہتے ہوئے ان کی تکمیل فرمایا کرتے تھے۔

 (۲) کسی غیر محرم عورت پر کسی مرد کی نظر پڑجائے تو شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ وہ فوراً اپنی نظریں پھیر لے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو مخاطب کرکے فرمایا:‘‘اے علی! (کسی غیر محرم عورت پر) ایک بارنظر پڑ جائے تو دوبارہ نہ دیکھو ، اس لئے کہ پہلی نظر تو معاف ہے، لیکن دوسری مرتبہ دیکھنے کا تمھیں حق نہیں ’’۔(ترمذی: ۷۷۷۲)

حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اگر کسی غیر محرم عورت پر اچانک نگاہ پڑجائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا : اپنی نگاہ پھیر لو’’۔ (مسلم: ۲۱۵۹)

زیرِ بحث حدیث سے بھی اتنی ہی بات معلوم ہوتی ہے۔ جس بات کا حدیث سے اظہار نہ ہوتا ہے اسے ہم اپنی طرف سے فرض کرلیں، پھر اس پر اعتراض جڑدیں، یہ کوئی درست اور معقول رویہ نہیں ہے۔ نعوذ باللہ اس حدیث میں کہاں یہ بات آئی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غیرمحرم عورت پر دیر تک نظر ڈالی، یا یہ کہ آپ غیر محرم عورتوں پر نگاہ جماتے تھے۔ کوئی چیز دل کو بھلی لگ جائے اس کے لئے اسے بار بار دیکھنا، ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا یا گھورنا ضروری نہیں ہے، یہ ایک بار دیکھنے سے بھی ہوسکتا ہے۔

 (۳) اس حدیث میں غیرمحرم عورتوں کو دیکھنے کی ترغیب نہیں دی گئی ہے، بلکہ اگر کبھی کسی غیر محرم عورت پر نگاہ پڑجائے اور اس کے نتیجے میں دل میں نفسانی خواہش پیدا ہو تو اس کا علاج بتایا گیا ہے۔

جنس (Sex) کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نظر اعتدال اور توازن پر مبنی ہے۔ وہ نہ تو جنسی خواہش کو کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ اسے بے مہار چھوڑ دیتا ہے کہ بغیر حدود وقیود کے جس طرح بھی کوئی شخص چاہے، اس کی تکمیل کرلے، بلکہ اسلام جنسی خواہش کی تکمیل کا جائز طریقہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے لئے ہر ممکن سہولیات فراہم کرتا ہے۔ حضرت ابوکبشہ سے مروی حدیث کے آخر میں ہے کہ آں حضرت نے صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا: فاِنَّہ’ مِن اَمَاثِلِ اَعمَالِکْم اِتیَانْ الحَلَالِ۔ (احمد۱۸۰۵۷)

‘‘تمھارے بہترین اعمال میں سے یہ ہے کہ تم (جنسی خواہش پوری کرنے کا) جائز طریقہ اختیار کرو’’۔

(۴) کوئی شخص کنوارا یابغیر بیوی کے (رنڈوا) ہوتو اسے چاہئے کہ وہ اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لئے نکاح کرے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی بالغ مرد بغیر بیوی کے اور کوئی بالغ عورت بغیر شوہر کے رہے۔ وہ سرپرستوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے ماتحتوں کے نکاح کا جلد از جلد انتظام کریں۔ اس کے باوجود جو لوگ سماج میں غیر شادی شدہ ہوں اور کسی وجہ سے ان کا نکاح نہ ہوپایا ہو انہیں اسلام اپنے جنسی جذبات پر قابو رکھنے کی مختلف تدابیر بتاتا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: مَنِ استَطَاعَ مِنکْمْ البَایَ فَلیَتَزَوّج فاِنَّہ’ اَغَضّْ لِلبَصَرِ وَاَحصَنْ لِلفَرجِ وَمَن لَّم یَستَطِع فَعَلَیہِ بِالصَّوم فاِنَّہ’ لہ’ وجاء۔ (بخاری: ۱۹۰۵)

‘‘تم میں سے جو شخص نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہئے، اْس لئے کہ یہ نگاہ کی پاکیزگی اور شرم گاہ کی حفاظت کا بہترین طریقہ ہے۔ اور جو شخص اس پر قادر نہ ہو وہ روزہ رکھے۔ اس سے اس کی جنسی خواہش کنٹرول میں رہے گی’’۔

(۵) عہد نبوی کے متعدد واقعات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بعض خواتین اپنے چہرے بھی ڈھکے رکھتی تھیں اور بعض اپنے چہرے کھلے رکھتی تھیں۔ اس لئے زیر بحث حدیث کو احکام پردہ کے نزول سے پہلے کا ماننا ضروری نہیں۔

()

سوال : میرے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں، سب کی شادی ہوچکی ہے۔ بڑا لڑکا اور اس کی فیملی میرے ساتھ رہتی ہے۔ باقی دولڑکے اپنا الگ الگ مکان بنواکر رہ رہے ہیں۔ میں نے انھیں الگ نہیں کیا ہے، بلکہ وہ اپنی مرضی سے الگ رہ رہے ہیں۔ میں ریٹائرڈ پنشنر ہوں۔ میرے ساتھ میری اہلیہ بھی ہیں۔بڑا لڑکا ہی ہمارے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔ میری اہلیہ چار پانچ سال سے بیمار چل رہی ہیں۔ بڑا لڑکا اور اس کی بیوی بچے دیکھ بھال کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہنے کی امید ہے۔ دونوں لڑکے کبھی کبھی صرف دیکھنے آجاتے ہیں، بس۔میرے دو کشادہ مکان ہیں۔ میں نے مکان کا تہائی حصہ اپنی بڑی بہو کے نام وصیت رجسٹرڈ کردیا ہے۔ میں اپنے بڑے لڑکے کی مزید مدد کرناچاہتا ہوں۔ کیا حقِ خدمت کے طور پر میں یہ وصیت کرسکتا ہوں کہ جب سے میرے دوسرے لڑکے الگ ہوئے ہیں اس وقت سے میرے انتقال تک وہ میرے بڑے لڑکے کوبیس ہزار روپے سالانہ کے حساب سے دے کر ہی وہ مکان تقسیم کریں اور اپنا حصہ لیں-97براہ کرم درج بالا مسئلے میں رہ نمائی فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔

جواب : مکان، زمین جائداد اور دیگر مملوکہ چیزوں کی تقسیم وتملیک کے سلسلے میں تین اصطلاحات مستعمل ہیں: ہبہ، وصیت اور وراثت۔ ہبہ یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں اپنی کسی چیز کا دوسرے کو بلاعوض مالک بنا دے۔ اور اگر وہ اپنی موت کے بعد ملکیت منتقل کرے، مثلاً کہے کہ میرے مرنے کے بعد میری فلاں جائداد فلاں شخص کی ہوگی تو یہ وصیت ہے اس تقسیم وتملیک کا اختیار صاحب مال کو حاصل رہتا ہے۔ تیسری صورت وراثت کی ہے، یعنی کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی جائداد کس طرح تقسیم ہوگی، یہ اللہ تعالیٰ نے طے کردیا ہے۔ہبہ میں آدمی کوقانونی لحاظ سے اختیار ہوتا ہے کہ وہ جس کو چاہے اور جس قدر چاہے دے دے، اس لیے کہ مال اس کا ہے اور اپنے مال میں تصرف کرنے کا اسے پورا اختیار ہے۔ وہ اس میں سے جتنا چاہے صدقہ وخیرات کرسکتا ہے، یا اپنے کسی ایسے رشتے دار کو ، جو مستحقینِ وراثت میں سے نہ ہو، دے سکتا ہے، یااپنے کسی وارث کو بھی مالک بناسکتا ہے۔ یہ قانونی اعتبار سے ہے، ورنہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ وہ بلاکسی شدید ضرورت کے کسی مستحق و راثت کو اپنے مال سے محروم کرنے کی کوشش نہ کرے، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنا مال، مکان، زمین جائداد وغیرہ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرناچاہے تو اگرچہ اسے قانونی حق حاصل ہے کہ کسی کو کم دے کسی کو زیادہ، لیکن اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ سب کے درمیان برابر برابر تقسیم کرے۔ ایک حدیث حضرت نعمان بن بشیر سے مروی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد انھیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول، میں نے اپنے اس بیٹے کو فلاں چیز ہبہ کردی ہے، آپ گواہ رہئے۔ آپ نے دریافت کیا: کیا تم نے یہ چیز اپنے تمام بیٹوں کو دی ہے۔ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔ تب آپؐ نے ارشاد فرمایا: میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو’’۔ (بخاری: ، مسلم: ) وصیت کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ کسی مستحقِ وراثت کے لئے وصیت نہیں کی جاسکتی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ قَد اَعطیٰ کْلَّ ذِی حَقِ حَقَّہ’، فَلَاوَصِیۃَّ لِوَارِثِِ(ابوداود:۲۸۷۰)

‘‘اللہ نے ہر مستحقِ وراثت کا حق بتا دیا ہے، اس لئے کسی وارث کے حق میں وصیت نہ کی جائے’’۔اسی طرح کسی کے حق میں ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جاسکتی۔ (بخاری:۲۷۴۴) آپ نے اپنی بڑی بہو کے حق میں اپنے مکان کے ایک تہائی حصے کی وصیت کردی ہے۔ آپ کا یہ وصیت کرنا صحیح ہے، لیکن اپنے بڑے لڑکے کے حق میں آپ جو وصیت کرناچاہتے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔آپ کے بیٹے بہو آپ کی اور اپنی ماں کی جو بھی خدمت کر رہے ہیں، وہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے کر رہے ہیں۔ انھیں ایسا کرنا ہی چاہئے۔ قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت تاکید آئی ہے اور ان کے حقوق کی پامالی کو بڑے گناہوں میں شمار کیاگیا ہے۔ اس پر نہ وہ آپ سے حقِ خدمت کے طالب ہوں گے اور نہ آپ کو اس کی فکر کرنی چاہئے۔ لیکن اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے بڑے بیٹے کثیر العیال یا تنگ حال ہیں اور باقی دونوں بیٹے فارغ البال ہیں تو آپ اپنی جائداد میں سے حسب ضرورت اپنے بڑے بیٹے کو اپنی زندگی میں ہبہ کرسکتے ہیں۔ اس کا آپ کو قانونی طور پر حق حاصل ہے۔

()

جواب: والدین کی زندگی میں اولاد کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور ان کی خدمت اور خبر گیری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ قرآن وحدیث میں اس کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَقَضَی رَبّْکَ اَلَّا تَعبْدْوا اِلَّا اِیَّاہْ وَبِالوَالِدَینِ اِحسَاناً۔ (بنی اسرائیل:۳۲)

‘‘تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔’’

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی طلب میں آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کی بیعت کرناچاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا : ہاں، دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے اس شخص سے پھر سوال کیا: کیا تم اللہ سے اجر کے طالب ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں تب آپ نے فرمایا: فَارجِع اِلَیھِمَا فَاَحسِن صْحبَتَھْمَا (مسلم:۹۴۵۲) ‘‘تب اپنے والدین کے پاس واپس جاواور ان کی اچھی طرح خدمت کرو۔’’

آدمی پوری زندگی والدین کی خدمت کرتا رہے، لیکن ان کی زندگی کے آخری لمحات میں وہ کسی وجہ سے ان کے پاس نہ ہو، اس وجہ سے ان سے اپنی کوتاہیوں کی معافی نہ مانگ سکے تو کوئی حرج نہیں، ان کی دْعائیں اس کی ترقی درجات کا ذریعہ بنیں گی، لیکن اگر وہ پوری زندگی ان سے غافل رہے، ان کے حقوق ادا نہ کرے، بلکہ بات بات پر ناگواری کااظہار کرے، لیکن زندگی کے آخری لمحات میں رسم دنیا نبھانے کے لیے اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگنے بیٹھ جائے تو ایسی معافی تلافی کس کام کی؟

والدین کی وفات کے بعد اولاد کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ان کے لیے برابر دْعائے مغفرت کرے اور ان کی طرف سے وقتاً فوقتاً صدقہ وخیرات کرتا رہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘اِذَا مَاتَ الاِنسَانْ انقَطَعَ عَنہْ عَمَلْہ اِلَّا مِن ثَلَاثَ: اِلَّا مِن صَدَقَ جَارِیَ اَوعِلمٍ یّْنتَفَعْ بِہِ اَو وَلَدٍ صَالِحٍ یَدعْولَہ۔’’(مسلم: ۰۱۳۴)

‘‘جب کسی انسان کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین کاموں کا ثواب اسے بعد میں بھی ملتا رہتا ہے۔ (۱) صدقہ جاریہ (۲) علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے (۳) نیک اولاد، جو اس کے لئے دْعائے مغفرت کرتی رہے۔’’

حضرت ابن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا: ‘‘اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری ماں کاانتقال ہوگیا ہے۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا اجر ملے گا؟ آپ نے جواب دیا: ہاں، تب انہوں نے عرض :کیا میرے پاس کھجور کا ایک باغ ہے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ گواہ رہیے کہ میں نے اسے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کردیا۔’’ (ترمذی ۹۶۶، ابوداود:۴۸۸۲، نسائی:۵۵۶۳)

امام ترمذی نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ‘‘اس حدیث کی بنا پر اہل علم کی رائے ہے کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد اسے اجر وثواب ملنے کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ ہاں ،کوئی اْس کی طرف سے صدقہ کرے یا اس کے حق میں دْعا کرے تو اس کا اسے فائدہ پہنچتا ہے۔’’

()

جواب:حدیثِ رسولﷺ اگر صحیح ہو تو اس کے بارے میں توجیہ اور تطبیق کاذہن بنانا چاہئے، نہ کہ اس پر اعتراض کرنے، شبہ وارد کرنے اور اسے قرآن کے خلاف سمجھ کر رد کردینے کا۔

یہ حدیث سنن ابی داود (۸۴۳۳) میں جس سند سے مروی ہے، اسے علامہ البانی نے صحیح قرا ر دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ صحیح بخاری (۳۴۴،۴۹۳۲)، صحیح مسلم (۹۸۶۱)اور سنن بیہقی (۱۶۲۱۱، ۸۰۳۲۱)میں بھی آئی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی احادیث دیگر صحابہ سے مروی ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر ایک شخص سے ایک اونٹ قرض لیا تھا۔ اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ آپ نے اس کی ادائی کا حکم دیا۔ آپ کو بتایاگیا کہ ویسا اونٹ تو نہیں ہے، ہاں، اس سے اچھا اونٹ ہے۔ آپ نے فرمایا: اسی کو دے دو۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: فَاِنَّ خَیرَکْم اَحسَنْکْم قَضَاء ًا (بخاری: ۰۹۳۲)

‘‘تم میں سے بہتر لوگ وہ ہیں جو ادائی بہتر طریقے سے کریں۔’’

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: فَاِنَّ مِن خِیَارِ النَّاسِ اَحسَنْھْم قَضَاء ً (بخاری:۲۹۳۲)

‘‘بہترین لوگ وہ ہیں جو ادائی بہتر طریقے سے کرتے ہیں۔’’

حضرت جابرسے مروی حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجرعسقلانی اور علامہ شوکانی دونوں نے لکھا ہے:

‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنا قرض لیاگیا ہو اس سے بڑھ کر واپس کرنا جائز ہے، اگر معاملہ میں اسے مشروط نہ کیاگیا ہو۔ لیکن اگر قرض لیتے وقت اس میں اضافہ کے ساتھ واپسی کی شرط لگائی گئی ہو تو یہ حرام ہے۔ اس پر جمہور علماء کا اتفاق ہے۔ (فتح الباری، شرح صحیح البخاری، دارالمعرفۃ بیروت، ۷۵۵، نیل الاوطار)

اس سے معلوم ہواکہ سود کا اطلاق اس زیادتی پر ہوتا ہے جسے قرض کے لین دین کے وقت طے کرلیا گیا ہو اور اس کی ادائی قرض لینے والے پر لازم ہو۔ لیکن اگر زیادتی کے ساتھ قرض کی واپسی مشروط نہ ہو اور قرض لینے والا اپنی خوشی سے اس میں کچھ بڑھا کر واپس کرے تو یہ نہ صرف جائز ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے پسندیدہ ہے۔

()

جواب : لاوڈ اسپیکر کے استعمال میں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہئے۔ اگر اس کا استعمال مسجد میں باجماعت نماز کے لیے ہورہا ہو تو اسے اسی وقت لگایا جائے جب مجمع اتنا بڑا ہو کہ بغیر اس کے تمام نمازیوں تک امام صاحب کی آواز نہ پہنچ سکتی ہو۔ لیکن اگر صرف چند نمازی ہوں تو لاوڈ اسپیکر کے استعمال کی کوئی ضرورت نہیں۔

مسجد یا کسی ہال میں کوئی دینی اجتماع ہورہا ہو تو لاوڈ اسپیکر کی آواز اتنی تیز رکھنی چاہئے کہ وہاں موجود لوگ اچھی طرح سن سکیں۔ وہاں ہونے والے خطبات ومواعظ کی آواز کو آبادی میں دور دور تک پہنچانے کے لئے لاوڈاسپیکر کا Volumeتیز رکھنا مناسب نہیں۔ اس لیے کہ آبادی میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں، جن کے معمولات میں تیز آواز سے خلل ہو یا انہیں اذیت پہنچے۔ اسی طرح پبلک مقامات، شاہ راہوں اور چوراہوں پر مذہبی اجتماعات یا دیگر پروگرام منعقد کرتے وقت بھی خیال رکھنا چاہئے کہ راہ چلنے والوں یا آس پاس میں رہنے والوں کو کسی طرح کی زحمت نہ ہو اور وہ تکلیف یا پریشانی محسوس نہ کریں۔ اس سلسلے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد گرامی اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے: مَن کَانَ یْومِنْ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الاٰخِرِ فَلَا یْوذِ جَارَہ۔(بخاری :۸۱۰۶، مسلم ۳۸۱)

‘‘جو شخص اللہ اور روز آخرت پرایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائے۔’’

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ ایک غزوے میں نکلے۔ راستے میں وہ کسی اونچے مقام پر چڑھتے یا کہیں نشیبی جگہ میں اْترتے تو زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرتے، اسی طرح جب وہ واپس ہوئے تو مدینہ سے قریب پہنچنے پر بھی بلند آواز سے نعرے لگانے لگے۔ اس موقع پر آپ نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: اَیّْھَا النَّاسْ، اربَعْوا عَلٰی اَنفْسِکْم، اِنَّکْم لَیسَ تَدعْونَ اَصَمَّ وَلَاغَائِبًا، اِنَّکْم تَدعْونَ سَمِیعًا قَرِیبًا وَھْوَ مَعَکْم۔ (بخاری، ۶۳۲۶، مسلم،۷۳۰۷)

‘‘لوگو، ٹھہرو، تم کسی بہرے یا غیرحاضر کو نہیں پکار رہے ہو، تم جس ذات کی کبریائی بیان کررہے ہو، وہ ہر بات سننے والا اور قریب ہے اور وہ ہر وقت تمہارے ساتھ ہے۔’’

اگر آبادی مخلوط ہو اور ساتھ ہی دیگر مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں تو اس معاملے میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں لاپروائی سے بسااوقات نہ صرف دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی اور نفرت پیدا ہوتی ہے، بلکہ کبھی معاملہ اشتعال انگیزی اور تنازعہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔

()

جواب : غزوہ احزاب ہجرتِ مدینہ کے پانچویں سال ہواتھا۔ پورا عرب مدینہ پر چڑھ آیا تھا۔ یہود، مشرکین مکہ اور دیگر بہت سے قبائل اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ اس جنگ کی منصوبہ بندی مسلمانوں نے نہیں کی تھی کہ انھوں نے پہلے اس کے لیے پوری تیاری کرلی ہو، تمام وسائل فراہم کرلیے ہوں، نفع ونقصان کا تخمینہ کرلیا ہو، سامانِ رسد اور غذائی اشیاء کا ذخیرہ کرلیا ہو،اس کے بعد جنگ چھیڑی ہو، بلکہ جنگ ان پر مسلط کی گئی تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے لشکر عظیم کی خبر ملی تو آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسی نے، جو کچھ عرصہ پہلے ہی ایمان لائے تھے، یہ تجویز پیش کی کہ فارس میں جب ہم اس طرح کے محاصرے کی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو اپنے گرد خندق کھود لیتے ہیں۔ یہ تجویز آپ کو بہت پسند آئی۔ آپ نے فوراً اس پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔ مدینہ کے بعض اطراف میں پہاڑیاں ، پتھریلی زمین اور کھجور کے باغات تھے۔ ادھر سے حملے کا اندیشہ تھا۔ جو حصہ کھلا ہوا تھا ادھر خند ق کھودنے کا منصوبہ بنایاگیا۔ دس دس افراد کے گروپ بنائے گئے اور انھیں چالیس چالیس ہاتھ خندق کھودنے کا حکم دیاگیا۔ تقریباً تین ہفتوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد خندق تیار ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس صحابہ کرام کے ساتھ خندق کی کھدائی میں شریک رہے۔ بعض مواقع پر، جب زیر زمین کوئی چٹان کھدائی میں رکاوٹ ڈالتی تھی اور صحابہ کرام اسے توڑ نہیں پاتے تھے تو آپ آگے بڑھتے تھے اور آپ کی ایک ضرب سے چٹان پاش پاش ہوجاتی تھی۔

صحیح احادیث میں ہے کہ اس زمانے میں مدینہ میں خورونوش کی اشیاء کی شدید قلت تھی۔ بخاری:۴۱۰۱ تھوڑا سا جو مل جاتا تو صحابہ کرام اسے پرانے تیل میں پکاکر کھالیتے تھے۔ فتح الباری، ۳۹۲/۷ کبھی انھیں صرف کھجوروں پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ البدایۃ والنہایۃ، ۹۹/۴ بسا اوقات تین تین دن تک کھانے کی کوئی چیز ان کے منھ کو نہ لگتی تھی۔بخاری: ۴۱۰۱۔ اس دوران آں حضرت کے دست مبارک سے متعدد معجزات کا ظہور ہوا۔ تھوڑا سا کھانا، جو گنتی کے چند افراد کے لیے کفایت کرسکتا تھا، اس میں اتنی برکت ہوئی کہ سیکڑوں افراد اس سے شکم سیر ہوئے۔

اسی موقع کی ایک روایت حضرت ابوطلحہ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں: شَکَونَا اِلیٰ رَسْولِ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ علیہ وسلم الجْوعَ وَرَفَعنا عَن بْطْونِنَا عَن حَجَرِ حَجَرِ، فَرَفَعَ رَسْولْ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ علیہ وسلم عَن حَجَرَینِ۔

‘‘ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ کھول کر دکھائے، جن پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا۔ یہ سن کر آپ نے اپناشکم مبارک کھول کر دکھایا۔ اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے’’۔

اس روایت کی تخریج امام ترمذی نے کتاب الزہد ۱۷۳۲ میں کی ہے، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے: ھٰذا حدیث غریب لانعرفہ الامن ھٰذا الوجہ یہ حدیث غریب ہے، جو صرف اسی سند سے مروی ہے ۔علامہ البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن غزوہ خندق کے موقع پر بھوک کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ پر باندھنا صحیح روایات سے ثابت ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے: ثْمَّ قَامَ وَبَطنْہ مَعصْوب بِحَجَرِِ بخاری: ۱۰۱۴

‘‘پھر آپ کھڑے ہوئے۔ اس وقت آپ کے پیٹ پر ایک پتھر بندھا ہوا تھا’’۔

عربوں میں اس زمانے میں ایک چلن یہ تھا کہ وہ شدت بھوک کے احساس کو دبانے کے لیے پیٹ پرپتھر باندھ لیا کرتے تھے۔ ایسے پتھر کو مْشبِعَ کہا جاتا تھا، یعنی بھوک کا احساس ختم کرنے والا اور آسودگی کا احساس دلانے والا۔ علامہ ابن حجر نے بخاری کی مذکورہ بالاروایت کی شرح میں لکھا ہے:

‘‘پیٹ پر پتھر باندھنے کا فائدہ یہ ہے کہ پیٹ جب بھوک کی وجہ سے سکڑ جاتا ہے تو کمر جھک جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگر پیٹ پر پتھر رکھ کر اوپر سے کپڑا باندھ لیاجائے تو پیٹھ سیدھی رہتی ہے’’۔ فتح الباری، ۷/ ۳۹۶

کسی واقعے پر غور کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے زمانہ وقوع اور اس جیسے حالات میں لے جاکر اس پر غور کیاجائے۔ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ کھیتوں میں کام کرنے والے یا محنت مزدوری کرنے والے اپنے پیٹ پر انگوچھا کس کر باندھ لیتے ہیں، اس کے بعد کام کرتے ہیں تو انھیں تکان کا احساس کم ہوتا ہے۔ ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھنے اور مرغن غذائیں آسودہ ہوکر کھانے والوں کی عقل میں اس عمل کی افادیت نہیں آسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہتر گھنٹے بھوکے رہیں، پھر پانچ چھ گھنٹے سخت زمین پر پھاؤڑا چلائیں، تب انھیں بہ خوبی اندازہ ہوجائے گاکہ پیٹ پر کپڑا باندھ کر پھاؤڑا چلانے سے تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے یا کچھ راحت محسوس ہوتی ہے۔

()

سوال : زکوٰۃ کے درج ذیل مسائل کی براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیے:

۱۔ زکوٰۃ کے لیے سونے اور چاندی کا الگ الگ نصاب متعین ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس اتنی مقدار میں سونا ہو کہ نصاب تک پہنچ جائے اور اتنی مقدار میں چاندی ہو کہ نصاب تک پہنچ جائے تبھی زکوٰۃ واجب ہوگی، اگر دونوں الگ الگ اپنے نصاب سے کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے، جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دونوں کو ملاکر ان کی مالیت کسی ایک کے نصاب کے برابر پہنچ جائے تو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ ان میں سے کون سی بات صحیح ہے؟

۲۔ ماں نے اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر ہونے والی بہو کے لیے کچھ زیورات خریدے۔ شادی زیورات کی خریداری کے ڈیڑھ سال بعد ہوئی۔ ان زیورات کی زکوٰۃ کا حساب کریں گے تو وہ کس پر واجب ہوگی؟ ماں پر یا بیٹے پر؟

۳۔ ماں نے ایک خلیجی ملک سے چند سونے کے سکے خریدے اور وطن پہنچ کر انھیں بیچ کر کچھ زیورات بنوا لیے۔ جب زکوٰۃ کا حساب کریں گے تو کیا سونے کے سکوں پر بھی زکوٰۃدینی پڑے گی؟

جواب: ۱۔ اگر کسی شخص کے پاس سونے اور چاندی کے زیورات اتنی مقدار میں ہوں کہ دونوں الگ الگ نصاب کو نہ پہنچتے ہوں تو ان پر وجوب زکوٰۃ کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ احناف اور مالکیہ کے نزدیک دونوں کو ملاکر اگر کسی ایک کا نصاب پورا ہوجائے تو زکوٰۃ واجب ہوجائے گا۔ یہی امام ثوری اور امام اوزاعی کی بھی رائے ہے۔ امام شافعی کے نزدیک دونوں کو ملایا نہیں جائے گا۔ زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب دونوں یا ان میں سے کسی ایک کا نصاب پورا ہوجائے۔ امام احمد سے دورائیں مروی ہیں۔ فقہاء کے اپنے اپنے دلائل ہیں، تفصیل کتبِ فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

۲۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک زیورات میں زکوٰۃ عائد ہوتی ہے دیگر ائمہ کے نزدیک استعمالی زیورات پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ زکوٰۃ کی ادائی اس کے ذمے ہوگی جو ان کا مالک ہو۔ کسی عورت نے اپنی ہونے والی بہو کے لیے زیورات خریدے تو شادی سے قبل تک اسی کو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور شادی کے بعد جب بہو ان کی مالک ہوجائے گی تو زکوٰۃ کی ادائی اس کے ذمے ہوگی۔

۳۔ سونا چاہے سکوں کی شکل میں ہو یا زیورات کی شکل میں، دونوں صورتوں میں اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔

()

جواب : کسی زمین کی خریداری کے وقت اگر اس کی تجارت کی نیت نہیں تھی تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اسے فروخت کرنے کے بعد جو رقم ملے، دوسرے اموال زکوٰۃ کے ساتھ اس پر بھی زکوٰۃ عائد ہوگی، اگر وہ رقم اْس وقت موجود ہو جب اس کا مالک صاحبِ نصاب ہوا ہو۔

اگر کوئی زمین ابتدا ہی میں تجارت کی نیت سے خریدی جائے تو سال گزرنے کے بعد اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔ اس صورت میں قیمتِ خرید کا نہیں بلکہ اس کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔

()

جواب : قبر کے پاس تلاوتِ قرآن کریم کے مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ مالکیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ سلف سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ البتہ متاخرین مالکیہ نے اس کی اجازت دی ہے۔

احناف، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ قبر کے پاس قراتِ قرآن مکروہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے انتقال کے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین کے بعد قبر کے پاس سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی جائے۔مشہور حنفی فقیہ ابن عابدین نے شرح اللباب کے حوالے سے لکھا ہے:

‘‘آدمی کو قبر کے پاس سورہ فاتحہ، سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات المفلحون تک آیت الکرسی، سورہ بقرہ کی آخری آیات آمن الرسول تا ختم سورہ سورہ یٰس ، سورہ ملک، سورہ تکاثر اور سورہ اخلاص تین، سات، گیارہ یا بارہ مرتبہ میں سے جو بھی توفیق ہو پڑھے’’۔

ایک قول یہ ہے کہ ‘‘قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پیروں کی طرف کھڑے ہوکر اس کی آخری آیات پڑھی جائیں’’۔ الموسوع الفقہی، کویت، ۲۳/ ۵۵۲-۶۵۲

()

جواب : حضرت عبدالرحمن بن عوف کا نکاح ہوا۔ اس کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ نے انھیں مبارکباد دی اور فرمایا: اَولِم وَلَوبشاۃبخاری: ۸۴۰۲ ، مسلم: ۷۲۴۱ ‘‘ولیمہ کرو ، خواہ ایک بکری کے ذریعے’’

آپ نے خود بھی اس پر عمل کرکے دکھایا۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ حضرت زینب بنت حجش سے نکاح کے موقع پر آپ نے بکری ذبح کروائی تھی اور لوگوں نے شکم سیر ہوکر گوشت روٹی کھائی تھی۔ بخاری: ۱۷۱۵، مسلم: ۸۲۴۱

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولیمہ میں گوشت کھلانا ضروری ہے۔ دعوت میں کچھ بھی کھلایا جاسکتا ہے۔ غزوہ خیبر کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ سے نکاح کیا تو ولیمہ میں صحابہ کو ‘حیس’ کھلایا تھا بخاری: ۵۱۶۹، مسلم: ۱۳۶۵ ‘حیس’ اس کھانے کو کہتے تھے جسے کھجور ، پنیر اور گھی ملاکر تیار کیاجاتا تھا۔

 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضر ت صفیہ سے نکاح کے موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ صحابہ کرام کو ولیمہ کے لیے بلاکر لاؤ۔ اس موقع پر گوشت روٹی کا اہتمام نہیں کیاگیا تھا۔ صحابہ آئے تو دسترخوان بچھا دیاگیا اور اس پر کھجور ، پنیر اور گھی رکھ دیاگیا ’’۔ بخاری: ۵۸۰۵ حضرت صفیہ بنت شیبہ بیان کرتی ہیں کہ بعض ازواج مطہرات سے آں حضرت کے نکاح کے موقع پر ولیمہ میں صرف دومْد ایک پیمانہ جَو کا استعمال کیاگیا تھا۔ بخاری: ۲۷۱۵

نکاح ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی اس موقع پر اپنی خوشی میں اپنے اعزہ اور احباب کو شریک کرے۔ اب یہ اس کے اوپر ہے کہ وہ ان کی ضیافت اور لذتِ کام ودہن کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق جو چاہے انتظام کرے۔

()

جواب : وہ چیزیں جو صرف پوجا پاٹ اور مشرکانہ مراسم کی ادائی میں استعمال کی جاتی ہیں ان کی تجارت کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ایک اعتبار سے شرکت و بت پرستی میں تعاون ہے۔ البتہ وہ چیزیں، جنھیں غیر مسلم پوجاپاٹ کے کاموں میں استعمال کرتے ہیں اور ان کے دیگر عام استعمالات بھی ہیں، انھیں دوکان میں رکھ کرفروخت کیا جاسکتا ہے۔

()

جواب : میری بہن نے پوچھا ہے کہ جب مرد جنت میں داخل ہو گا تو اسے "حور" یا ایک خوبصورت عورت ملے گی۔ جب ایک عورت جنت میں داخل ہو گی تو اسے کیا ملے گا؟

 قرآن میں حور کا لفظ چار مختلف مقامات پر استعمال ہوا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :

 سورہ دخان آیت 54، سورہ طور آیت 25 سورہ رحمان آیت 50 اور 73، سورہ واقعہ آیت 33 بیشتر تراجم و تفاسیر خصوصاً اْردو تراجم میں لفظ حور کے معنی خوبصورت عورت ہی بتائے گئے ہیں۔ اگر اس لفظ کے معنی واقعی صرف ایک خوبصورت عورت ہی ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو جنت میں کیا عطا ہو گا؟لیکن دراصل معاملہ یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی صرف خوبصورت عورت نہیں ہیں۔ یہ لفظ حور اصل میں جمع ہے جس کا واحد اَحْورَ بھی ہے اور حَوَرْ بھی۔ ان میں سے ایک لفظ مذکر ہے اور ایک مؤنث جب کہ جمع دونوں کی حور ہی ہے۔لفظ کا لغوی مطلب ہے "بڑی خوبصورت آنکھیں"۔ اسی مقصد کے لیے قرآن میں مختلف مقامات پر ازواج کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ مثال کے طور پر :

سورہ بقرہ، آیت 25 سورہ نساء، آیت 57

ازواج کا لفظ زوج کی جمع ہے اور زوج کی مطلب ہے ساتھی، شریک زندگی، مرد کے لیے عورت زوج ہے اور عورت کے لیے مرد زوج ہے۔ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ کرنے والوں نے بالعموم اس لفظ کا ترجمہ درست کیا ہے۔ مثال کے طور پر محمد اسد حور کا ترجمہ Spouse کرتے ہیں۔ عبد اللہ یوسف علی نے لفظ حور کا ترجمہ Companion کیا ہے۔ یہ دونوں لفظ ایسے ہیں جن کی کوئی جنس مخصوص نہیں ہے۔ یہ لفظ مذکر کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور مؤنث کے لیے بھی۔

 اس کا مطب یہ ہوا کہ مرد کو جنت میں ایک بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت شریک زندگی ملے گی اور عورت کو بھی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والا ساتھی ملے گا۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : میرے بھائی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا ہے کہ دو خواتین کی گواہی اسلام میں ایک مرد کی گواہی کے برابر کیوں ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں قرار دی جاتی۔ ایسا صرف چند مخصوص صورتوں میں ہی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کم از کم پانچ مقامات ایسے ہیں جہاں گواہی کا ذکر موجود ہے بغیر کسی قسم کی جنسی تفریق کے۔

بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : وَاستَشھِدْوا شَھِیدَینِ من رِّجَالِکْم فَاِن لَّم یکْونَا رَجْلیَنِ فَرَجْل وَامرَاَتَانِ مِمَّن تَرضَونَ مِنَ الشّْھَدَاءِ اَن تَضِلَّ احدَاھْمَا فَتْذکَِّرَ ااِحدَاھْمَا الاْخریَ ۔ سورہ 2، آیہ 282)

"اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے میں) گواہ کر لیا کرو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی۔"

سورہ بقرہ کی اس آیت میں ذکر صرف مالی معاملات کا ہو رہا ہے۔ صرف مالی اور معاشی نوعیت کے معاملے میں ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کے برابر دی جا رہی ہے۔ بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ مالی معاملات میں دو مردوں کی گواہی بہتر ہے اور اگر دو مرد گواہی دینے والے نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنیں۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کریں آپ کوئی سرجری کروانا چاہتے ہیں یا کوئی آپریشن کروانا چاہتے ہیں۔ اب ظاہر ہے آپ کی خواہش ہو گی کہ سرجری سے قبل کم از کم دو ماہر ڈاکٹروں کے ساتھ مشورہ کریں۔ اب فرض کیجیے آپ کو صرف ایک ماہر سرجن دستیاب ہے۔ اس صورت میں آپ ایک سرجن کی رائے کے ساتھ دو عام ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی رائے بھی جاننا چاہیں گے۔ اس کا سبب یہی ہو گا کہ آپریشن کے بارے میں ایک عام ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے مقابلے میں ایک سرجن کا علم زیادہ ہوتا ہے۔

ایسا ہی معاملہ گواہی کا ہے۔ چونکہ اسلام نے فکر معاش کا ذمہ دار مرد کو بنایا ہے لہذا ظاہر ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں معاشی معاملات کے بارے میں مرد کو علم زیادہ ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ معاشی معاملات میں دو مردوں کی گواہی کو ترجیح دی گئی ہے اور اگر آپ سورہ مائدہ کی تلاوت کریں تو وہاں یہ ارشاد باری تعالٰی موجود ہے : یاَا اَیّْھَا الَّذِینَ آمَنْوا شَھَادَۃ بَینِکْم اِذَا حَضَرَ اَحَدَکْمْ المَوتْ حِینَ الوَصِیۃَِّ اثنَانِ ذَوَا عَدلٍ مِّنکْم و آخَرَانِ مِن غَیرِکْم اِن اَنتْم ضَرَبتْم فیِ الاَرضِ فَاَصَابَتکْم مّْصِیبَۃْ المَوتِ (سورۃ 5، آیہ 106)

"مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آ موجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم مسلمانوں میں سے دو مرد عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان گواہ نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کر لو)۔"

یہاں بھی چونکہ معاملہ معاشی نوعیت کا ہے لہذا مرد کی گواہی کو ترجیح دی گئی ہے۔ بعض علمائے قانون کی رائے یہ ہے کہ "قتل " کے معاملے میں بھی جرم کی مخصوص نوعیت کے پیش نظر اور عورت کی فطرت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے یہی اْصول لاگو ہونا چاہیے۔ یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے مساوی قرار دی جانی چاہیے۔

صرف دو معاملات ایسے ہیں جہاں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی ہے یعنی :

(1) مالی معاملات

 (2) قتل کا معاملہ

کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر جگہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہو گی لیکن اگر قرآنی ہدایات کی مجموعی طور پر پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی۔

آیئے دیکھتے ہیں قرآن ہمیں اس بارے میں کیا احکامات دیتا ہے :

سورہ نور میں ارشاد باری تعالٰی ہے : وَالَّذِینَ یَرمْونَ اَزوَاجَھْم وَلَم یْکن لَّھْم شْھَدَاء ْاِلَّا اَنفْسْھْم فَشَھَادَۃْ اَحَدِھِم اَربَعْ شَھَادَاتٍ بِاللّہَِ اِنّہْ لَمِنَ الصَّادِقِینَ۔ وَالخَامِسَۃْ اَنَّ لَعنَتَ اللَّہِ عَلَیہِ اِن کَانَ مِنَ الکَاذِبِینَ۔ وَیَدرَؤْا عَنھَا العَذَابَ اَن تَشھَدَ اَربَعَ شَھَادَاتٍ باللَّہِ اِنّہْ لَمِنَ الکاذِبِینَ۔ وَالخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللَّہِ عَلَیھَا اِن کَانَ مِنَ الصَّادِقِینَ۔ (سورہ 24، آیات 6 -96 9)

"اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو۔ اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو۔"

مندرجہ بالا آیت سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بیوی شوہر پر الزام لگائے یا شوہر بیوی پر۔ دونوں کی ذاتی گواہی اس معاملے میں مساوی ہے۔

اسی طرح رویت ہلال کے معاملے میں بھی عورت اور مرد کی گواہی میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ بعض فقہا کا کہنا ہے کہ رمضان کے چاند کی رویت کے لیے ایک اور شوال کے چاند کے لیے دو گواہ درکار ہو گے لیکن گواہ کے مرد یا عورت ہونے سے وہاں بھی فرق کوئی نہیں پڑتا۔

کچھ معاملات میں صرف عورت ہی گواہی دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر معاملہ غسل میت کا ہو، کیونکہ جب تک کوئی عورت دستیاب ہو عورت کو غسل میت عورت ہی دے گی۔ یعنی اس معاملے میں گواہی کی ضرورت پڑے تو عورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔

میں امید رکھتا ہوں کہ معاملہ آپ کے ذہنوں میں واضح ہو چکا ہو گا۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : میری بہن نے پوچھا ہے کہ اسلام میں کثرت ازدواج کی اجازت کیوں دی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں مرد ایک سے زیادہ بیویاں کیوں رکھ سکتا ہے؟ بہن نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے Polygamy۔ پولی گیمی کا مطلب ہے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ ایک لفظ ہے Polygamy جو ایک مرد کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور دوسرا لفظ ہے Polyandry جو عورت کے ایک سے زائد شوہر رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا دو طرح کی کثرت ازدواج ممکن ہے جن میں سے ایک کے بارے میں بہن نے سوال پوچھا ہے۔ یعنی یہ کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کیوں کر سکتا ہے؟

میں سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہوں گا کہ قرآن دنیا کی واحد الہامی کتا ب ہے جو ایک ہی شادی کی ترغیب دیتی ہے اور کوئی ایسی مقدس کتاب موجود نہیں ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہو۔

آپ پوری "گیتا" پڑھ جائیں، پوری "راماین" پڑھ لیں، پوری "مہا بھارت" پڑھ لیں۔ کہیں آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ ایک شادی کرو حتٰی کہ بائبل میں بھی آپ ایک شادی کا حکم تلاش نہیں کر سکیں گے۔بلکہ اگر آپ ہندوؤں کے متون مقدسہ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بیشتر راجوں، مہاراجوں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ "وشرتھ" کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ کرشنا کی بھی بہت سی بیویاں تھیں۔اگر آپ یہودی قانون کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہودیت میں گیارھویں صدی عیسوی تک مرد کو کثرت ازدواج کی اجازت حاصل رہی ہے۔ یہاں تک ربی گرشم بن یہوداہ نے اس پر پابندی عاید کر دی۔ اس کے باوجود عرب علاقوں میں آباد یہودی ۱۹۵۰تک ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے لیکن 1950ء میں اسرائیل کے علما نے کثرت ازدواج پر مکمل پابندی لگا دی۔اسی طرح عیسائی انجیل بھی کثرت ازدواج کی اجازت دیتی ہے۔ یہ تو چند صدیاں پہلے عیسائی علما نے ایک سے زاید شادیوں پر پابندی لگائی ہے۔

اگر آپ ہندوستانی قانون کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پہلی دفعہ 1954ء میں کثرت ازدواج پر پابندی لگائی گئی۔ اس سے قبل ہندوستان میں قانونی طور پر بھی مرد کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔

1954ء میں ہندو میرج ایکٹ کا نفاذ ہوا جس میں ہندوؤں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔

 اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو صورتِ حال آپ کے سامنے واضح ہو جائے گی۔ یہ اعداد و شمار "اسلام میں عورت کا مقام" کے عنوان سے تحقیق کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں شامل ہیں۔ 1975ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے صفحہ 66 اور 67 پر ایک سے زاید شادیوں کے حوالے سے اعداد و شمار دیے گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں میں ایک سے زاید شادیوں کی شرح پانچ اعشاریہ چھپن فی صد تھی جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح چأر اعشاریہ ۳۱ فی صد تھی۔

لیکن چھوڑیئے اعداد و شمار کو۔ ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ آخر اسلام میں مرد کو ایک سے زاید شادیوں کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا اس وقت قرآن ہی دنیا کی واحد مذہبی کتاب ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہے۔

سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے : وَاِن خِفتْم اَلاَّ تْقسِطْوا فیِ الیَتَامَی فَانکِحْوا مَا طَابَ لکْم مِّنَ النِّسَاءِ مَثنَی وَثْلاَثَ وَرْبَاعَ فَاِن خِفتْم اَلاَّ تَعدِلْوا فَوَاحِدۃً اَو مَا مَلکَت اَیمَانْکْم ذَلِکَ اَدنَی اَلاَّ تَعْولْوا۔ (سورہ،نسا آیہ 3)

اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔"

یہ حکم کہ پھر ایک ہی شادی کرو، قرآن کے علاوہ کسی صحیفہ مقدسہ میں نہیں دیا گیا۔ عربوں میں اسلام سے قبل مرد بہت سی شادیاں کیا کرتے تھے۔ بعض مردوں کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں۔

اسلام نے ایک تو بیویوں کی حد مقرر کر دی اور زیادہ سے زیادہ تعداد چار معین کر دی اور ایک سے زاید شادیوں کی صورت میں ایک بہت سخت شرط بھی عاید کر دی وہ یہ کہ اگر آپ ایک سے زاید شادیاں کرتے ہیں تو پھر آپ کو اپنی دونوں، تینوں یا چاروں بیویوں کے درمیان پورا عدل کرنا ہو گا بصورتِ دیگر ایک ہی شادی کی اجازت ہے۔

اللہ تبارک و تعالٰی سورہ نسا آیت ۱۲۹ میں فرماتا ہے : "اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کر سکو اگرچہ تم کتنا بھی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلان طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کر لو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔"

گویا ایک سے زیادہ شادیاں کوئی اْصول نہیں ہے بلکہ ایک استثنائی صورتحال ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ شادیوں کا حکم دیتا ہے۔لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسلام میں اعمال کے پانچ درجے یا اقسام ہیں :

پہلا درجہ "فرض" ہے۔ یعنی وہ کام جن کا کرنا ضروری اور لازمی ہے۔

دوسرا درجہ مستحب اْمور کا ہے۔ ان کاموں کا جنہیں فرض تو نہیں کیا گیا لیکن ان کے کرنے کی تاکید یا حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

تیسرے درجے میں وہ کام آتے ہیں جن کی نہ حوسلہ افزائی کی گئی اور نہ روکا گیا ہے۔

چوتھے درجہ میں مکروہ اْمور آتے ہیں۔ اور

 پانچواں درجہ حرام کاموں کا ہے یعنی جن سے قطعی طور پر منع کر دیا گیا ہے۔

 ایک سے زیادہ شادیوں کا معاملہ تیسرے یا درمیان والے درجے میں آتا ہے۔ یعنی وہ کام جن کے کرنے کی نہ تو قرآن و سنت میں تاکید کی گئی ہے اور نہ ہی منع کیا گیا ہے۔ پورے قرآن میں اور اسی طرح احادیث میں بھی وہ ہمیں کوئی ایسا بیان نہیں ملتا جس میں کہا گیا ہو کہ جو مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو ایک ہی شادی کرتا ہے۔

آئیے تجزیہ کرتے ہیں کہ اسلام مرد کو ایک سے زاید شادیوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟

قدرتی طور پر مرد اور عورتیں تقریباً مساوی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں لیکن جدید علم طب ہمیں بتاتا ہے کہ بچیوں میں قوت مدافعت بچوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی جراثیم اور بیماریوں کا مقابلہ بہتر طریقے سے کر سکتی ہے بہ نسبت ایک بچے کے۔لہذا ہوتا یہ ہے کہ شیر خوارگی کی سطح پر ہی بچیوں کی تعداد بچوں سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔

دنیا میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ دورانِ جنگ مردوں کی اموات عورتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ حالیہ دور میں ہم نے دیکھا کہ افغانستان میں ایک طویل جنگ ہوئی۔ اس جنگ کے دوران تقریباً پندرہ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ان مرنے والوں میں غالب اکثریت مردوں کی تھی۔ شہداء کی کثیر تعداد مردوں پر ہی مشتمل تھی۔

اس طرح اگر آپ حادثات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی اکثریت بھی مردوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ منشیات کے استعمال سے ہونے والی اموات میں بھی غالب اکثریت مردوں ہی کی ہوتی ہے۔

مندرجہ بالا تمام عوامل و اسباب کے نتیجے میں دنیا میں مردوں کی آبادی عورتوں کے مقابلے میں کم ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے چند ایک ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں ہی عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے۔ جن ممالک میں عورتوں کی آبادی کم ہے ان میں سے ایک اہم ملک ہندوستان ہے۔ اور ہندوستان میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلے میں کم ہونے کا بنیادی سبب ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ یہاں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ اسقاطِ حمل کیے جاتے ہیں اور یہ معلوم ہوتے ہی کہ پیدا ہونے والی بچی ہو گی اسقاط کرواد دیا جاتا ہے۔ اور اس طرح بچیوں کو قتل کیے جانے کی وجہ سے ہی مردوں کی آبادی زیادہ ہے۔

اگر آج یہ کام بند ہو جائے تو چند ہی دہائیوں میں آپ دیکھیں گے کہ ہندوستان میں بھی عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑھ جائے گی۔ جیسا کہ باقی ساری دنیا میں ہے۔اس وقت صرف امریکہ کے شہر نیویارک میں عورتوں کی تعداد مردوں سے ایک لاکھ زیادہ ہے۔ پورے امریکہ میں صورتِ حال یہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں 78 لاکھ خواتین زیادہ ہیں۔ مزید برآں کہا جاتا ہے کہ نیویارک میں ایک تہائی مرد ہم جنس پرست ہیں۔ پورے امریکہ میں ہم جنس پرست مردوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔برطانیہ کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ وہاں بھی مردوں کے مقابلے میں چالیس لاکھ عورتیں زیادہ ہیں۔ جرمنی میں یہ فرق اس سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں مردوں کے مقابلے میں پچاس لاکھ عورتیں زیادہ موجود ہیں۔ روس میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں ستر لاکھ زیادہ ہے۔اسی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا میں مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کس قدر کم ہے۔ فرض کیجیے میری بہن امریکہ میں رہتی ہے اور تعداد کے اس فرق کی وجہ سے وہ ان خواتین میں شامل ہے جنہیں شادی کے لیے شوہر نہیں مل سکتا۔ کیونکہ تمام مرد ایک ایک شادی کر چکے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اس کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں۔پہلی صورت تو یہ ہے کہ وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کر لے اور دوسری یہ کہ وہ عوامی ملکیت بننے کے راستے پر چل پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ اور یہی دونوں راستے باقی بچتے ہیں۔ میں نے بے شمار لوگوں سے یہ سوال پوچھا سب نے ایک ہی جواب دیا کہ ایسی صورتحال میں وہ پہلی صورت کو ہی ترجیح دیں گے۔ آج تک کسی نے دوسری صورت کو پسند نہیں کیا۔ البتہ بعض ذہین لوگوں نے یہ جواب دیا کہ وہ پسند کریں گے کہ ان کی بہن ساری عمر کنواری ہی رہے۔لیکن علم طب ہمیں بتاتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ مرد یا عورت کسی کے لیے بھی ساری عمر کنوارا رہنا بہت مشکل ہے اور اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ بدکرداری ہی کی صورت میں برآمد ہو گا۔ کیونکہ اور کوئی صورت ہے ہی نہیں۔

وہ "عظیم" جوگی اور سنت جو تارک الدنیا ہو جاتے ہیں اور شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں کی جانب نکل جاتے ہیں ان کے ساتھ دیوداسیاں بھی نظر آتی ہیں، کیوں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ایک رپورٹ کے مطابق چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ پادریوں اور ننوں کی اکثریت، جی ہاں اکثریت بدکرداری اور ہم جنس پرستی وغیرہ میں ملوث ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی تیسرا راستہ موجود ہی نہیں یا تو شادی شدہ مرد سے شادی ہے اور یا جنسی بے راہ روی ہے۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے لیے کیا کیا شرائط ہیں۔ ایک ہی شرط عاید کی گئی ہے اور وہ یہ کہ شوہر اپنی دونوں، یا تینوں یا چاروں بیویوں میں پورا انصاف کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ عدل کر سکتا ہے تو اسے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ بصورت دیگر اسے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا ہو گا۔

متعدد ایسی صورتیں ہیں جن میں مرد کے لیے ایک سے زاید شادیاں کرنا بہتر ہوتا ہے۔ پہلی صورت تو وہی ہے جس کا ذکر گزشتہ سوال کے جواب میں کیا گیا۔ چونکہ خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اس لیے خواتین کی عفت اور عصمت کی حفاظت کے حوالے سے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ضروری ہے۔

 اس کے علاوہ بھی متعدد صورتیں ہیں۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے ایک نوجوان خاتون کی شادی ہوتی ہے اور شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ کسی حادثے کا شکار ہو کر معذور ہو جاتی ہے، اور اس کے لیے وظایف زوجیت ادا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اب اس صورت حال میں شوہر کے پاس دو راستے ہیں یا تو وہ اپنی اس معذوربیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لے اور یا اس بیوی کو بھی رکھے اور دوسرے شادی کر لے۔میں آپ سے پوچھتا ہوں ، فر ض کر لیجیے کہ خدانخواستہ یہ بدقسمت خاتون جو حادثے کا شکار ہوئی ہے، آپ کی بہن ہے۔ آپ ان دونوں صورتوں میں سے کون سی صورت پسند کریں گے؟ یہ کہ آپکے بہنوئی دوسری شادی کر لیں یا یہ کہ وہ آپ کی بہن کو طلاق دے کر پھر دوسری شادی کرے؟اسی طرح اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے بیوی اپنے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہو جاتی ہے تو اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ شوہر دوسری شادی کر لے۔ اور یوں یہ دوسری بیوی نہ صرف اپنے شوہر کی بلکہ پہلی بیوی کی بھی دیکھ بھال کرے اور اگر پہلی بیوی کے بچے موجود ہیں تو ان بچوں کی بھی پرورش کرے۔بہت سے لوگ یہاں یہ کہیں گے کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ شوہر اس مقصد کے لیے، یعنی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ملازمہ یا آیا وغیرہ رکھ لے۔ بات درست ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں، بچوں اور معذور بیوی کا خیال رکھنے کے لیے تو ملازمہ رکھی جا سکتی ہے لیکن خود شوہرکا خیال کون رکھے گا؟عملاً یہی ہو گا کہ بہت جلد ملازمہ اس کا بھی "خیال رکھنا" شروع کر دے گی۔ لہذا بہترین صورت یہی ہے کہ پہلی بیوی کو بھی رکھا جائے اور دوسری شادی بھی کر لی جائے۔اسی طرح بے اولادی بھی ایک ایسی صورت ہے جس میں دوسرے شادی کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔ طویل عرصے تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں جب کہ شوہر اور بیوی دونوں اولاد کی شدید خواہش بھی رکھتے ہوں بیوی خود شوہر کو دوسری شادی کا مشورہ دے سکتی ہے۔یہاں بعض لوگ کہیں گے کہ وہ کسی بچے کو گود بھی تو لے سکتے ہیں۔ لیکن اسلام اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان وجوہات کی تفصیل میں، میں یہاں نہیں جاؤں گا۔ لیکن اس صورت میں بھی شوہر کے پاس دو ہی راستے باقی بچتے ہیں یعنی یا تو وہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرے اور یا پہلی شادی کو برقرار رکھتے ہوئے دوسری شادی کرے اور دونوں کے ساتھ پورا عدل کرے۔میرے خیال میں یہ کافی وجوہات ہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : میرے بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ کیا عورت سربراہِ مملکت بن سکتی ہے؟

میرے علم کی حد تک قران میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں، کوئی ایسا حکم موجود نہیں کہ عورت "سربراہِ حکومت نہیں بن سکتی۔"لیکن متعدد احادیث ایسی موجود ہیں مثال کے طور پر ایک حدیث جس کا مفہوم ہے :"وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنا سربراہ عورت کو بنایا۔"

بعض علماء کا کہنا ہے کہ ان احادیث کا تعلق اسی زمانے سے ہے۔ یعنی ان کا حکم اسی زمانے کے لیے محدود ہے جس زمانے میں فارس میں عورت حکمران تھی۔ جب کہ دیگر علماء کی رائے مختلف ہے۔ وہ اس حکم کو ہر زمانے کے لیے عام سمجھتے ہیں۔

آئیے ہم تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کے لیے سربراہِ حکومت بننا اچھا ہے یا نہیں؟ اگر ایک اسلامی ریاست میں عورت سربراہِ حکومت ہو گی تو لازماً اسے نمازوں کی امامت بھی کروانی ہو گی۔ اور اگر ایک عورت نماز باجماعت کی امامت کرواتی ہے تو اس سے لازماً نمازیوں کی توجہ بھٹکے گی۔ کیونکہ نماز کے متعدد ارکان ہیں۔ مثلاً قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ۔ جب ایک عورت مرد نمازیوں کی امامت کروائے گی اور یہ ارکان ادا کرے گی تو مجھے یقین ہے کہ نمازیوں کے لیے پریشانی پیدا ہو گی۔اگر عورت ایک جدید معاشرے میں سربراہِ حکومت ہو گی، جیسا کہ ہمارا آج کل کا معاشرہ ہے تو بسا اوقات اسے بحیثیت سربراہِ حکومت دوسرے سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کرنی ہوں گی جو کہ بالعموم مرد حضرات ہوتے ہیں۔ اس طرح کی ملاقاتوں کا ایک حصہ عموماً بند کمرے کی ملاقات بھی ہوتا ہے۔ جس میں دونوں سربراہان تنہائی میں ملاقات کرتے ہیں جس کے دوران کوئی اور موجود نہیں ہوتا۔ اسلام ایسی ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کسی عورت کو تنہائی میں کسی نامحرم سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام مرد و عورت کے اختلاط کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ بحیثیت سربراہ حکومت عورت کو منظر عام پر رہنا ہوتا ہے۔ اس کی تصاویر بنتی ہیں۔ اس کی ویڈیو بنتی ہیں۔ ان تصاویر میں وہ نامحرم مردوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ کوئی بھی عورت مثال کے طور پر مارگریٹ تھیچر اگر سربراہِ حکومت ہو تو آپ کو اس کی بے شمار تصاویر مل سکتی ہیں جن میں وہ مردوں سے ہاتھ ملا رہی ہو گی۔ اسلام اس طرح کے آزادانہ اختلاط کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔بحیثیت سربراہِ مملکت ایک عورت کے لیے عوام کے قریب رہنا اور ان سے مل کر ان کے مسائل معلوم کرنا بھی مشکل ہو گا۔جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ایام حیض کے دوران عورت میں متعدد نفسیاتی، ذہنی اور رویے سے متعلق تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ ہارمون ایسٹوجن ہوتے ہیں۔ اب اگر یہ عورت سربراہِ مملکت ہے تو یہ تبدیلیاں یقیناً اس کی قوت فیصلہ پر اثر انداز ہوں گی۔ سائنس ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ عورت میں بولنے کی، گفتگو کی صلاحیت مرد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ مرد میں ایک خاص صلاحیت Special agility زیادہ ہوتی ہے۔ اس صلاحیت سے مراد ہوتی ہے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے، مستقبل کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت۔ یہ صلاحیت ایک سربراہِ حکومت کے لیے از حد ضروری ہے۔ عورتوں کو گفتگو کی صلاحیت مردوں کے مقابلے میں زیادہ دی گئی ہے کیونکہ یہ صلاحیت بحیثیت ماں کے اس کے لیے ضروری ہے۔

 ایک عورت حاملہ بھی ہو سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں اسے چند ماہ کے لیے آرام کرنا ہو گا، اس دوران اس کے فرائض کون ادا کرے گا۔ اس کے بچے ہوں گے اور ماں کے فرائض نہایت اہم ہیں۔ ایک مرد کے لیے سربراہِ حکومت کی ذمہ داریاں اور ایک باپ کی ذمہ داریاں بیک وقت ادا کرنا زیادہ قابل عمل ہے۔ جب کہ ایک عورت کے لیے سربراہِ مملکت اور ماں کی ذمہ داریاں بیک وقت ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ان وجوہات کے باعث میری رائے ان علمائے کرام کے زیادہ قریب ہے جو کہتے ہیں کہ عورت کو سربراہِ مملکت نہیں بنایا جانا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت فیصلوں میں حصہ نہیں لے سکتی یا قانون سازی کے عمل میں شریک نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا عورت یقیناً قانون سازی کے عمل میں حصہ لے سکتی ہے۔ اسے ووٹ دینے کا حق بھی حاصل ہے۔ صلح حدیبیہ کے دوران حضرت اْم سلمٰی رضی اللہ تعالٰی عنہا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیتی رہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب تمام مسلمان پریشان تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی بھی فرمائی اور انہیں مشورے بھی دیے۔

آپ جانتے ہیں کہ سربراہِ حکومت تو صدر یا وزیر اعظم ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات سیکریٹری یا PA کو بہت سے فیصلے کرنے ہوتے ہیں لہذا یقیناً ایک عورت مرد کی مدد ضرور کر سکتی ہے۔ اور اہم فیصلے کرنے میں اسے مفید مشورے اور رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : میری بہن نے ایک بہت اچھا سوال پوچھا ہے کہ اگر اسلام حقوق نسواں میں یقین رکھتا ہے، اگر اسلام مرد اور عورت کو برابر سمجھتا ہے تو پھر اسلام پردے کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اور دونوں جنسوں یعنی مرد اور عورت کو الگ رکھنے کی تاکید کیوں کرتا ہے۔اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ عورت کو حجاب کا حکم دینے سے پہلے قرآن مرد کو حجاب کا حکم دیتا ہے :

سورہ نور میں ارشادِ باری تعالٰی ہے : قْل لِّلمْؤمنیِنَِ یَغْضّْوا مِن اَبصَارِھِم وَیَحفَظْوا فْرْوجَھْم ذَلِکَ اَز کی لَھْم اِنَّ اللَّہَ خَبِیر بِمَا یَصنَعْونَ۔ (سورہ نور (24)، آیہ 30)

"آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔"

اور اس کے بعد اگلی ہی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : وَقْل لِّلمْؤمِنَاتِ یَغضْضنَ مِن اَبصَارِھِنَّ ویَحفَظنَ فْرْوجَھْنَّ وَلَا یْبدِینَ زِینَتَھْنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنھَا وَلیَضرِبنَ بِخْمْرِھِنَّ عَلَی جْیْوبِھِنَّ۔۔۔۔۔۔ (سورہ نور (24)، آیہ 31)

"اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں۔۔۔۔۔۔۔"

اس کے بعد رشتہ داروں کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ خواتین بھی اس میں شامل لیں۔ ان کے علاوہ اسے تمام لوگوں سے پردہ کرنا ہے۔ یعنی "حجاب" کے اْصولوں پر عمل کرنا ہے۔ اسلامی حجاب کے یہ اْصول قرآن مجید اور احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ اْصول تعداد میں چھ ہیں :

٭ پہلا اْصول حجاب کی حد یا معیار کا ہے۔ جو کہ مرد اور عورت کے لیے مختلف ہیں۔ مرد کے لیے ستر کی حد ناف سے گھٹنے تک ہے جبکہ عورت کے لیے سارا جسم ہی سترِ عورت میں شامل ہے۔ جو اعضا نظر آ سکتے ہیں وہ صرف چہرہ اور کلائیوں تک ہاتھ ہیں۔ ان کے علاوہ سارے جسم کا حجاب یعنی چھپایا جانا ضروری ہے۔ اگر وہ چہرہ اور ہاتھ بھی چھپانا چاہے تو اسے منع نہیں کیا گیا لیکن ان اعضا کا محرم کے سامنے چھپانا لازم نہیں ہے۔ یہ وہ واحد اْصول ہے جو مرد اور عورت کے لیے مختلف ہے۔ باقی تمام اْصول دونوں کے لیے یکساں ہیں۔

٭ دوسرا اْصول یہ ہے کہ عورت کا لباس تنگ اور چست نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی اس قسم کا لباس نہیں پہننا چاہیے جس سے جسم کے نشیب و فراز واضح طور پر نظر آنے لگیں۔

٭ تیسرا اْصول یہ ہے کہ عورت کا لباس شفاف نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے جس میں سے آرپار نظر ائے۔

٭ چوتھا اْصول یہ ہے کہ لباس بہت زیادہ شوخ اور بھڑکیلا نہیں ہونا چاہیے یعنی ایسا لباس بھی نہیں ہونا چاہیے جو جنس مخالف کو ترغیب دینے والا ہو۔

٭ پانچواں اْصول یہ ہے کہ جنس مخالف سے مشابہت رکھنے والا لباس نہیں پہننا چاہیے یعنی مردوں کو عورتوں جیسے اور عورتوں کو مردوں جیسے لباس پہننے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جس کی ایک مثال مردوں کا کانوں میں بالیاں وغیرہ پہننا ہے۔ اگر آپ ایک کان میں بالی پہنتے ہیں تو اس سے مراد کچھاور لی جاتی ہے لیکن اگر دونوں کانوں میں پہنی جائے تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ اس سے اسلام میں منع کیا گیا ہے۔

٭ چھٹا اور آخری اْصول یہ ہے کہ آپ کو ایسا لباس بھی نہیں پہننا چاہیے جس میں کفار سے مشابہت ہوتی ہو۔

مندرجہ بالا نکات میں اسلامی حجاب کے بنیادی اْصول بیان کر دیے گئے ہیں۔ اب ہم اصل سوال کی جانب آتے ہیں۔ یعنی یہ کہ عورتوں پر پردے کی پابندی کیوں لگائی گئی ہے اور دوسرے یہ کہ دونو ں جنسوں کے اختلاط سے کیوں روکا گیا ہے؟

اس مقصد کے لیے ہم دونوں طرح کے معاشروں کا تجزیہ کرتے ہیں یعنی وہ معاشرے جن میں پردہ کیا جاتا ہے اور وہ معاشرے جن میں پردہ موجود نہیں ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ جرائم جس ملک میں ہوتے ہیں وہ ملک امریکہ ہے۔

امریکی تحقیقاتی ادارے "فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن" کی 1990 میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس ایک سال کے دوران ایک ہزار دو سو پچاس زنا بالجبر کی وارداتیں ہوئیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کی رپورٹ ہوئی۔ اور یہی رپورٹ کہتی ہے کہ صرف 16 فی صد واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس حساب سے اگر آپ اصل تعداد معلوم کرنا چاہیں تو وہ خود ضرب تقسیم کر لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ صرف ایک سال کے عرصے میں کتنی خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کے واقعات ہوئے۔ بعد میں یہ تعداد بڑھ گئی اور یہاں تک پہنچی کہ روزانہ ایک ہزار نو سو واقعات ہونے شروع ہو گئے۔شاید امریکی زیادہ بولڈ ہو گئے ہوں گے۔

1993 کی رپورٹ کے مطابق ہر 13 منٹ کے بعد ایک خاتون کے ساتھ زنا بالجبر کا واقعہ ہو رہا ہے۔

لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

امریکہ نے خواتین کو زیادہ حقوق دیے ہیں اور وہاں زیادتی کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔

مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ صرف دس فیصد مجرم گرفتار ہوتے ہیں۔ یعنی صرف 16 فیصدواقعات رپورٹ ہوتے اور دس فیصد گرفتاریاں ہوتی ہیں یعنی عملاً صرف 16 فی صد ملزم گرفتار ہوتے ہیں۔ ان گرفتار ہونے والوں میں سے بھی نصف باقاعدہ کوئی کیس چلنے سے قبل ہی رہا کر دیے جاتے ہیں یعنی اعشاریہ آٹھ فیصد مجرموں کے خلاف باقاعدہ کیس چلتا ہے۔اس سارے تجزیے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سو پچیس خواتین کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے تو امکان یہ ہے کہ ایک دفعہ اس کے خلاف باقاعدہ قانونی کاروائی کی جائے گی۔اس صورت میں بھی پچاس فی صد امکان یہ ہے کہ اسے ایک سال سے بھی کم قید کی سزا ہو گی۔

اگر امریکی قانون میں زنا بالجبر کی سزا عمر قید ہے لیکن اگر مجرم پہلی مرتبہ گرفتار ہوا ہے تو قانون اسے ایک موقع دینے کے حق میں ہے اور اسی لیے پچاس فی صد واقعات میں مجرم کو ایک سال سے بھی کم سزا سنائی جاتی ہے۔

خود ہندوستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ نیشنل کرائم بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق جو یکم دسمبر 1992 کو شائع ہوئی ہے، ہندوستان میں ہر 54 منٹ کے بعد زنا بالجبر کا ایک کیس رپورٹ ہوتا ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر 26 منٹ کے بعد جنسی استحصال کا ایک واقعہ ہوتا ہے اور ہر ایک گھنٹہ 43 منٹ کے بعد جہیز کی وجہ سے قتل کی ایک واردات ہوتی ہے۔اگر ہمارے ملک میں ہونے والی زنا بالجبر کی وارداتوں کی کل تعداد معلوم کی جائے تو تقریباً ہر دو منٹ کے بعد ایک واردات کی اوسط نکلے گی۔

اب میں ایک سادہ سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ یہ بتائیے کہ اگر امریکہ کی ہر عورت پردہ کرنا شروع کر دے تو کیا ہو گا؟کیا زنا بالجبر کی وارداتوں کی شرح یہی رہے گی؟کیا ان وارداتوں میں اضافہ ہو گا؟یا ان وارداتوں میں کمی واقع ہو گی؟

پھر یہ کہ اسلامی تعلیمات کو ان کے مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اسلام حکم دیتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ کوئی عورت پردہ کرے یا نہ کرے، مرد کے لیے بہرحال لازم ہے کہ وہ نظریں نیچی رکھے۔اور اگر کوئی مرد زنا بالجبر کا مرتکب ہوتا ہے تو اسلام میں اس کے لیے سزائے موت ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ "وحشیانہ سزا" ہے؟میں نے یہ سوال بہت سے لوگوں سے کیا ہے اور آپ سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔ فرض کیجیے آپ کی بہن کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور آپ کو جج بنا دیا جاتا ہے۔ اب اس سے قطع نظر کہ اسلامی قانون کیا کہتا ہے اس سے بھی قطع نظر کہ ہندوستانی قانون کیا کہتا ہے اور اس سے بھی قطع نظر کہ امریکی قانون کیا کہتا ہے؟ اپ بتائیے کہ اگر آپ کو جج بنا دیا جاتا ہے تو آپ مجرم کو کیا سزا سنائیں گے؟

ہر کسی نے ایک ہی جواب دیا : "سزائے موت"بعض تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور کہا کہ وہ مجرم کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنا پسند کریں گے۔

میں دوبارہ پوچھتا ہوں کہ اگر امریکہ میں اسلام شریعت نافذ کر دی جائے تو ان وارداتوں میں اضافہ ہو گا؟ کمی ہو گی؟ یا ان کی تعداد یہی رہے گی؟اگر ہندوستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کر دیا جائے تو پھر کیا ہو گا؟ کیا زنا بالجبر کی شرح یہی رہے گی؟ کمی ہو گی یا بڑھ جائے گی؟

اگر ہم عملی تجزیہ کریں تو جواب واضح ہے۔

آپ کہتے ہیں کہ آپ نے عورت کو حقوق دیے ہیں۔ مگر یہ حقوق محض نظری طور پر دیے گئے ہیں عملاً آپ نے عورت کو ایک طوائف اور ایک داشتہ کی حیثیت دے دی ہے۔میں محض پردے کے موضوع پر کئی دن تک گفتگو کر سکتا ہوں۔ لیکن میں اپنا جواب مختصر رکھتے ہوئے ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔فرض کیجیے دو خواتین ہیں جو آپس میں جڑواں بہنیں ہیں۔ اور دونوں خواتین یکساں خوبصورت ہیں۔ دونوں ایک گلی میں سے گزر رہی ہیں۔ گلی کی نکڑ پر ایک بدمعاش کھڑا ہے۔ جو لڑکیوں کو چھیڑتا ہے، تنگ کرتا ہے۔ یہ دونوں خواتین یکساں خوبصورت ہیں لیکن ایک اسلامی لباس میں ہے، یعنی اس نے پردہ کیا ہوا ہے جب کہ دوسرے مغربی لباس میں ہے یعنی اس نے منی سکرٹ وغیرہ پہنا ہوا ہے۔ اب یہ بدمعاش ان میں سے کسے چھیڑے گا؟ ظاہر ہے کہ مغربی لباس والی خاتون کو۔یا فرض کیجیے کہ ان میں سے ایک خاتون تو پردے میں ہے اور دوسری بھی شلوار قمیص میں ہے لیکن اس کا لباس تنگ ہے، سر سے دوپٹہ غائب ہے، اس صورت میں بھی وہ کسے چھیڑے گا؟ پردہ دار خاتون کو یا بے حجاب خاتون کو؟ صاف ظاہر ہے کہ دوسری خاتون کو۔یہ اس بات کا ایک عملی ثبوت ہے کہ اسلام نے عورت کو حجاب کا حکم اس کی عزت اور وقار کی حفاظت کے لیے دیا ہے اس کی عزت گھٹانے کے لیے نہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : سورہ مائدہ میں اس حوالے سے ارشاد ہوتا ہے "آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ ہے کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔"

 اس آیت کی روشنی میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ مسلمان مرد اہل کتاب عورت سے شادی کر سکتا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک اہل کتاب عورت، یہودی یا عیسائی عورت ایک مسلمان مرد سے شادی کرے گی تو اس کا خاوند یا اس کے خاوند کے اہل خاندان اور گھر والے اس عورت کی مقدس ترین ہستیوں یعنی انبیائے کرام کی توہین یا ان کی شان میں کسی گستاخی کے مرتکب نہیں ہوں گے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم یہودیوں اور عیسائیوں کے انبیائے کرام یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔چونکہ اس اہل کتاب عورت کے انبیائے کرام ہمارے لیے بھی محترم ہیں اس لیے مسلمان خاندان میں اس عورت کا مذاق نہیں اْڑایا جائے گا۔ لیکن اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے۔ لہذا اگر ایک مسلمان عورت اہل کتاب خاندان میں جائے گی تو وہاں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور تقدس ملحوظ نہیں رکھا جائے گا اور عین ممکن ہے کہ اس کے عقاید کا مذاق اْڑایا جائے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورت کو اہل کتاب مرد سے شادی کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ مسلمان مرد کو اہل کتاب عورت سے شادی کی اجازت ہے۔اہل کتاب میں سے بھی انہیں خواتین سے شادی کرنے کی اجازت ہے جو ایمان لانے والی ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں بلکہ پیغمبر تسلیم کرتی ہیں۔ اور ایک اللہ پر ایمان رکھتی ہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : کوئی بھی عاقل اور بالغ عورت، اس سے قطع نظر کہ وہ شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ، یہ حق رکھتی ہے کہ آزادی سے اپنی جائیداد کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کر سکے۔ وہ چاہے تو اس سلسلے میں کسی سے مشاورت کر سکتی ہے ورنہ اس کی بھی پابندی نہیں۔اسے وصیت کرنے کا بھی حق حاصل ہے اور اسلام اس سے قطعا منع نہیں کرتا۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : اس سلسلے میں آپ کو چند نکات ذہن میں رکھنے چاہییں۔ پہلی بات تو یہ کہ مرد میں جنسی خواہش اور جذبہ عورت کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ دونوں جنسوں کی حیاتیاتی ساخت میں فرق اس نوعیت کا ہے کہ مرد کے لیے ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ زندگی گزارنا آسان ہے جب کہ عورت کے لیے بہت مشکل۔ طبی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ایام حیض کے دوران عورت کچھ ذہنی اور نفسیاتی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان بیش تر جھگڑے انہی دنوں میں ہوتے ہیں۔خواتین کے جرائم کے بارے میں ایک رپورٹ امریکہ میں شایع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجرم خواتین کی اکثریت ایام حیض کے دوران جرائم کی مرتکب ہوئی۔اس لیے اگر ایک عورت کے ایک سے زیادہ خاوند ہوں تو اس کے لیے ذہنی طور پر اس صورتِ حال سے نپٹنا بہت مشکل ہے۔ایک اور سبب یہ ہے کہ جدید علم طب کے مطابق اگر ایک عورت ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ جنسی روابط رکھتی ہے تو اس کے بیماریوں کے شکار ہونے اور یہ بیماریاں پھیلانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ جب اگر ایک مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے تو ایسے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر ایک مرد کی ایک سے زیادہ بیویوں سے اولاد ہے تو اس کے ہر بچے کو اپنی ماں کا بھی علم ہو گا اور باپ کا بھی۔ یعنی یہ بچہ اپنے والدین کی یقینی شناخت کر سکے گا۔ دوسری طرف اگر ایک عورت کے شوہر ایک سے زیادہ ہیں تو اس کے بچوں کو اپنی ماں کا تو علم ہو گا لیکن باپ کا علم نہیں ہو گا۔اسلام والدین کی شناخت کو بھی بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اور ماہرین نفسیات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک بچے کو اپنے والدین کا علم نہ ہو تو یہ بات اس کے لیے ذہنی صدمے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدکردار عورتوں کے بچوں کا بچپن بالعموم بہت برا گزرتا ہے۔اگر ایک ایسے بچے کو آپ سکول میں داخل کروانا چاہیں تو کیا کریں گے۔ ولدیت کے خانے میں دو نام لکھنے پڑیں گے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے بچے کو کیا کہہ کر پکارا جائے گا؟میں جانتا ہوں کہ آپ جواباً کچھ دلائل پیش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر بے اولادی کی وجہ سے، بیوی کے بانجھ ہونے کی وجہ سے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت ہے تو شوہر میں کوئی خرابی ہونے کی صورت میں بیوی کو دوسری شادی کی اجازت کیوں نہیں ہے؟اس سلسلے میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ کوئی مرد سو فیصد نامرد نہیں ہوتا۔ اگر وہ جنسی عمل سر انجام دے سکتا ہے تو اس کے باپ بننے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ خواہ وہ نس بندی ہی کیوں نہ کروا لے۔ لہذا اولاد کی ولدیت میں شک بہرحال موجود رہے گا۔ کوئی بھی ڈاکٹر آپ کی سو فی صد گارنٹی نہیں دے سکتا کہ یہ شخص باپ نہیں بن سکتا۔اسی طرح آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر بیوی کے حادثے کا شکار ہونے یا شدید بیمار ہونے کی صورت میں شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے تو شوہر کے کسی حادثے کا شکار ہونے یا بیمار ہونے کی صورت میں یہی اجازت بیوی کو بھی ہونی چاہیے۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایسی کسی صورتحال کے دو طرح کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ ایک تو یہ ہو گا کہ شوہر کے لیے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہے گا اور دوسرے یہ کہ وہ بیوی کے ازدواجی حقوق ادا نہیں کر سکے گا۔

جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے اسلام ایسی کسی صورتحال کے لیے "زکوٰۃ کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں ان کی مدد زکوٰۃ کی رقوم سے کی جانی چاہیے۔دوسرے مسئلے کا معاملہ یہ ہے کہ طبی سائنس کی تحقیقات کے مطابق عورت میں جنسی خواہش مرد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے لیکن اگر عورت سمجھے کہ وہ غیر مطمئن ہے تو اس کے پاس "خلع" کے ذریعے علیحدگی کا راستہ موجود ہے۔ وہ اپنے شوہر سے خلع لے کر دوسری شادی کر سکتی ہے۔ اس طرح عورت کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ کیونکہ خلع کے ذریعے علیحدہ ہونے والی عورت صحت مند ہوتی ہے۔ اور دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر، اگر وہ خود بیمار یا معذور ہو تو کون اس سے شادی کرے گا۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : میرے بھائی نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کتب مقدسہ میں تو اچھی باتیں ہی لکھی ہوئی ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ لوگ عملاً کیا کرتے ہیں۔ یقیناً ہمیں نظری گفتگو سے زیادہ اہمیت عمل کو دینی چاہیے۔ لہذا میں اس بات کی پوری حمایت کرتا ہوں۔ اور یہی ہم کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنی گفتگو کے دوران بھی واضح کیا بہت سے مسلمان معاشرے قرآن و سنت کی تعلیمات سے دور ہٹ چکے ہیں اور ہم یہی کر رہے ہیں کہ لوگوں کو دعوت دیں کہ وہ دوبارہ قرآن و سنت کی طرف لوٹ آئیں۔جہاں تک سوال کے پہلے حصے کا تعلق ہے کہ تمام مذہبی کتابوں میں اچھی باتیں ہی لکھی ہوئی ہیں تو میں اس بات سے قطعا اتفاق نہیں کرتا۔ میں آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ تمام متون مقدسہ میں اچھی باتیں ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔ میں "اسلام اور دیگر مذاہب میں عورت کا مقام" کے موضوع پر ایک لیکچر دے چکا ہوں جس میں میں نے اسلام میں عورت کے مقام کا تقابل بدھ مت، ہندو مت، عیسائیت اور یہودیت میں عورت کے مقام کے ساتھ کیا تھا۔ آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ میرا وہ لیکچر سن کر آپ خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا مذہب خواتین کو زیادہ حقوق دیتا ہے۔ اب ہمیں کرنا یہ ہے کہ ان تعلیمات پر عمل بھی کریں۔اور جزوی طور پر ان تعلیمات پر عمل کیا بھی جا رہا ہے۔بعض پہلوؤں پر عمل ہو رہا ہے اور بعض پر نہیں۔ مثال کے طور پر جہاں تک حدودکے نفاذ اور اسلامی نظامِ تعزیرات کا تعلق ہے۔ سعودی عرب میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔ الحمد للہ سعودی حکومت اس حوالے سے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ اگرچہ بعض معاملات میں وہ بھی قرآن سے دور ہٹ گئے ہیں۔ ہمیں کرنا یہ چاہیے کہ سعودی عرب کے نظامِ قانون کی مثال سامنے رکھیں، اس کا جائزہ لیں اور اگر یہ نظام مؤثر ہے تو پوری دنیا میں اس پر عمل کیا جائے۔اسی طرح اگر کسی اور معاشرے میں اسلام کے معاشرتی قانون پر عمل ہو رہا ہے تو اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے اور اگر وہ مؤثر ہے تو پوری دنیا میں اس کا نفاذ ہونا چاہیے۔ اسلامی قانون ہی بہترین قانون ہے۔ اگر ہم اس قانون پر عمل نہیں کر رہے ہیں تو یہ ہمارا قصور ہے، دین اسلام کا نہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ خاندان کا سربراہ مرد ہے۔ سو اگر خاندان اور گھر کا سربراہ مرد ہے تو پھر قوم کی سربراہی عورت کس طرح کر سکتی ہے؟جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا سربراہی کی صورت میں عورت کو امامت بھی کرنی پڑے گی۔ اگر ایک عورت امام ہے اور مقتدی مرد ہیں تو پھر ارکانِ نماز یعنی رکوع و سجود کے دوران لازماً نمازیوں کو پریشانی ہو گی۔ ایک پیغمبر کو عام لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک عورت پیغمبر ہوتی تو اس کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا۔ کیونکہ اسلام مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط ہی کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح اگر ایک عورت پیغمبر ہو اور وہ حاملہ ہو جائے تو ظاہر ہے کہ کچھ عرصے تک وہ اپنے فرائض سر انجام نہیں دے سکے گی۔ ایک مرد کے لیے ایک ہی وقت میں بہ طور باپ اور بہ طور پیغمبر اپنی ذمہ داریاں نبھانا آسان تھا جب کہ عورت کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن اگر پیغمبر سے آپ کی مراد کوئی مقدس اور متبرک ہستی ہے تو پھر ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ بہترین مثال جو میں آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں وہ حضرت مریم کی ہے۔اسی طرح فرعون کی بیوی آسیہ کی بھی اللہ نے تعریف کی ہے۔ اسلام میں حضرت مریم اور حضرت آسیہ علیہما السلام کے علاوہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ، حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما جیسی برگزیدہ خواتین بھی موجود ہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

 جواب : حضورﷺ کی شادیاں اللہ کی طرف سے ایک خصوصی اجازت تھی۔اگر آپ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام شادیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ شادیاں یا تو معاشرتی اصلاحات کے لیے کی گئی تھیں اور یا سیاسی وجوہات سے۔ اپنی خواہش کی تسکین کے لیے یہ شادیاں ہرگز نہیں کی گئی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کیا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی عمر 25 سال تھی۔ جب کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر 40 سال تھی۔ جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حیات رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 50 سال تھی، جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی کا انتقال ہوا۔اپنی عمر کے 53ویں سال سے 56 سال کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نکاح فرمائے۔ اگر ان شادیوں کی وجوہات جنسی ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانی میں زیادہ نکاح فرماتے۔ کیونکہ علم طب تو یہ کہتا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ جنسی خواہش گھٹتی چلی جاتی ہے۔صرف دو نکاح ایسے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے فرمائے۔ حضرت خدیجہ کے ساتھ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ۔ باقی تمام نکاح حالات کے پیش نظر اور سیاسی معاشرتی اصلاح کے لیے کیے گئے تھے۔ صرف دو امہات المؤمنین کے علاوہ باقی سب کی عمریں 36 اور 50 سال کے درمیان تھیں۔ ہر نکاح کی وجوہات اور اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں۔مثال کے طور پر حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا معاملہ دیکھیں۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنی مصطلق سے تھا۔ اس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات بہت خراب تھے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے ان پر حملہ کر کے انہیں شکست دی۔ اس کے بعد جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کر لیا تو مسلمانوں نے قبیلہ بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو یہ کہہ کر رہا کر دیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو کس طرح قید رکھ سکتے ہیں؟ اس واقعے کے بعد اس قبیلہ کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے ہو گئے۔اسی طرح حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا قبیلہ نجد کے سردار کی بہن تھیں۔ یہ وہی قبیلہ ہے جس نے مسلمانوں کے ایک 70 افراد پر مشتمل وفد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ قبیلہ مسلمانوں کے شدید ترین مخالفین میں شمار ہوتا تھا لیکن اس شادی کے بعد اس قبیلہ نے مدینے کو اپنا مرکز اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما تسلیم کر لیا۔اْم المؤمنین حضرت اْم حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مکہ کے سردار ابو سفیان کی صاحبزادی تھیں۔ لہذا ظاہر ہے کہ اس نکاح نے فتح مکہ کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔اْم المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک اہم یہودی سردار کی بیٹی تھیں۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے نکاح کر لینے کے بعد مسلمانوں کے تعلقات یہودیوں کے ساتھ خوشگوار ہو گئے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سیاسی اور معاشرتی وجوہات کے پیش نظر یہ نکاح فرمائے۔ حضرت زینب کے ساتھ شادی یہ غلط تصور ختم کرنے کے لیے کی گئی کہ متبنٰی اصل بیٹے کی طرح ہوتا ہے اور اس کی مطلقہ کے ساتھ شادی نہیں ہو سکتی۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

 جواب : بھائی پوچھتے ہیں کہ کیا اسلام میں بچے کو گود لینے Adoption کی اجازت ہے یا نہیں۔ اگر تو گود لینے سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک غریب اور بے سہارا بچے کا سہارا بنیں اور اس کو روٹی کپڑا مکان مہیا کریں تو یقیناً اسلام اس کے حق میں ہے بلکہ قرآن میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کی مدد پر بڑا زور دیا گیا ہے اگر آپ اس طرح کسی بچے کے لیے پدرانہ شفقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے کام آنا چاہتے ہیں تو اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن جہاں تک تعلق ہے قانونی طور پر متبنٰی کرنے کی تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ قانونی طور پر اس بچے کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام نہیں لکھوا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانونی طور پر اس بچے کو آپ کی اولاد قرار دینے کے نتیجے میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بچے یا بچی کی اپنی شناخت بالکل ختم ہو جائے گی۔دوسری بات یہ کہ اگر آپ بے اولادی کی وجہ سے بچے کو گود لیتے ہیں اور اس کے بعد آپ کی اپنی اولاد پیدا ہو جاتی ہے تو اس گود لیے ہوئے بچے کے ساتھ آپ کے رویے میں تبدیلی آ جائے گی۔تیسری بات یہ کہ اگر آپ کی اپنی اولاد اور متبنٰی بچے کی جنس مختلف ہے تو پھر ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ وہ بہرحال حقیقی بہن بھائی تو نہیں ہیں۔ اسی طرح بالغ ہوجانے کے بعد مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے، کیونکہ اگر وہ لڑکا ہے تو گھر کی خواتین کو پردہ کرنا پڑے گا۔ اور اگر لڑکی ہے تو اسے اپنے نام نہاد باپ سے بھی پردہ کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اس کا حقیقی باپ تو نہیں ہے۔مزید برآں اس طرح وراثت کے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ وفات کے بعد فوت ہونے والے کی تمام جائیداد اْس قانون کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے جو قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر گود لیے ہوئے بچے کو یہ مال ملتا ہے تو گویا دیگر رشتہ داروں کا حق مارا جاتا ہے۔اگر گود لینے والے شخص کی اپنی اولاد بھی موجود ہے تو پھر اس اولاد کا حق مارا جائے گا اور اگر اولاد نہیں ہے تو بیوی اور دیگر رشتہ داروں کا۔اس پیچیدگی سے بچنے کے لیے اسلام نے بچوں کو قانونی طور پر گود لینے کی اجازت نہیں دی ہے۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : طلاق کی صورت میں دورانِ عدت یہ مرد کا فرض ہے کہ وہ عورت کے اخراجات برداشت کرے اور اسے نان و نفقہ فراہم کرے۔ یہ مدت غالباً تین ماہ یا اگر عورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک ہے۔ اس کے بعد یہ باپ اور بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو تمام ضروریات زندگی فراہم کریں۔ اگر بالفرض والدین اور بھائی یہ فرض ادا نہیں کر سکتے تو اس صورت میں دیگر قریبی رشتہ داروں کا فرض بنتا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ بھی ایسا نہیں کر سکتے تو اس صورت میں یہ مسلم اْمت کا فریضہ بن جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ہم سب کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ایسے ادارے تشکیل دیں اور زکوٰۃ کی تقسیم کا ایسا نظام بنائیں کہ ان خواتین کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : بیش تر صورتوں میں عورت کا آدھا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن ہر صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر : اگر مرنے والے کی کوئی اولاد نہ ہو تو ماں اور باپ دونوں کو ہی چھٹا حصہ ملتا ہے۔ بعض اوقات اگر مرنے والی خاتون ہو، اس کی اولاد بھی نہ ہو تو اس کے شوہر کو نصف، ماں کو تیسرا حصہ اور باپ کو چھٹا حصہ ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بعض صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں عورت کا حصہ مرد سے دوگنا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اس مثال میں ماں کا حصہ باپ کے مقابلے میں دگنا ہے۔لیکن میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ بیش تر صورتوں میں عورتوں کا حصہ مردوں کے مقابلے میں آدھا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے اسلام میں معاشی ذمہ داریاں مرد پر ڈالی گئی ہیں اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے مرد کا حصہ زیادہ رکھا گیا ہے۔ خاندان کے تمام معاشی اخراجات پورے کرنے کی وجہ سے ضروری ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کو زیادہ حصہ ملے۔ میں یہاں ایک مثال پیش کرتا چاہوں گا۔ فرض کیجیے ایک صاحب فوت ہوئے۔ ان کی جائداد میں سے باقی تمام حقوق ادا کرنے کے بعد بچوں کے حصہ میں ڈیڑھ لاکھ روپے آتے ہیں۔ اس شخص کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ اسلامی شریعت کی رو سے بیٹے کو ایک لاکھ اور بیٹی کو پچاس ہزار روپے ملیں گے۔ لیکن بیٹے پر ایک پورے خاندان کی معاشی ذمہ داریاں ہیں۔ لہذا اسے اس میں ایک لاکھ کا بیشتر حصہ مثال کے طور پر 10 ہزار یا شاید پورا ایک لاکھ ہی ان ذمہ داریوں کی وجہ سے خرچ کرنا پڑ جائے گا۔ دوسرے طرف خاتون کو پچاس ہزار ملیں گے لیکن یہ ساری رقم اسی کے پاس رہے گی کیونکہ اس پر ایک پائی کی بھی ذمہ داری نہیں ہے۔ لہذا اسے خاندان پر کچھ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

 جواب : بہن نے سوال پوچھا ہے کہ مرد کو تو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکے۔ لیکن کیا عورت کو بھی یہ حق ہے کہ وہ طلاق دے سکے۔اس سوال کا جواب یہی ہے کہ عورت طلاق نہیں دے سکتی۔ طلاق عربی کا لفظ ہے اور یہ اسی موقع کے لیے خاص ہے جب شوہر اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرے۔ اسلام میں میاں بیوی کی علیحدگی کے پانچ طریقے ہیں۔پہلا طریقہ تو باہمی رضا مندی کا ہے۔ اگر دونوں فریق یہ فیصلہ کر لیں کہ بس ہم اور اکٹھے نہیں چل سکتے اور ہمیں علیحدہ ہو جانا چاہیے تو وہ اس رشتے کو ختم کر سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر اپنی مرضی سے بیوی کو چھوڑ دے۔ اسے طلاق کہتے ہیں۔ اس صورت میں اسے مہر سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور اگر ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اور جو کچھ وہ تحایف کی صورت میں دے چکا ہے وہ بھی بیوی ہی کی ملکیت رہتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ عورت اپنی مرضی سے نکاح کو ختم کرنے کا اعلان کر دے۔ جی ہاں۔ بیوی بھی اس طرح کر سکتی ہے اگر یہ بات معائدہ نکاح میں طے ہو جائے کہ بیوی کو بھی یہ حق ہو گا۔چوتھی صورت یہ ہے کہ اگر بیوی کو شوہر سے شکایات ہوں کہ وہ اس سے برا سلوک کرتا ہے یا اس کے حقوق ادا نہیں کرتا یا اس کے اخراجات کے لیے وسائل فراہم نہیں کرتا تو وہ عدالت میں جا سکتی ہے اور قاضی ان کا نکاح فسخ کر سکتا ہے۔ اس صورت میں وہ شوہر کو مہر کی پوری یا جزوی ادائیگی کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ پانچویں اور آخری قسم خلع ہے۔ اگر بیوی محض ذاتی ناپسندیدگی کے باعث علیحدگی چاہتی ہے۔ شوہر میں کوئی خرابی نہیں مگر وہ پھر بھی علیحدہ ہونا چاہتی ہے تو وہ خود علیحدگی کی درخواست کر سکتی ہے۔ اسے خلع کہتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں بہت کم گفتگو کی جاتی ہے۔بہر حال اسلام میں علیحدگی کی یہی اقسام ہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

 جواب : پورے قرآن میں کسی بھی جگہ خواتین کو مساجد میں جانے سے منع نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی احادیث میں خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے۔ بعض لوگ ایک خاص حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ کمرے میں پڑھے۔ لیکن یہ لوگ صرف ایک حدیث پر زور دیتے رہے ہیں اور باقی تمام احادیث کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب 27 گنا زیادہ ہے۔ ایک خاتون نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شیرخوار بچے ہیں اور ہمیں گھر کا کام کاج کرنا ہوتا ہے ہم کس طرح مسجد میں آ سکتی ہیں۔ تو جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے مسجد کی بہ نسبت گھر میں گھر کے صحن کی بہ نسبت کمرے میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ اگر اس کے بچے چھوٹے ہیں یا کوئی اور مسئلہ ہے تو اسے وہی ثواب ملے گا جو مسجد میں نماز پڑھنے کا ہے۔

متعدد احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کو مسجد میں آنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو۔" ایک اور حدیث کا مفہوم ہے۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہروں کو کہا کہ اگر ان کی بیویاں مسجد میں جانا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے۔"اس طرح کی متعدد احادیث میں ہیں۔ میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسلام خواتین کو مسجد میں آنے سے نہیں روکتا۔ شرط یہ ہے کہ مسجد میں خواتین کے لیے انتظام اور سہولت موجود ہو کیونکہ مرد اور عورت کے اختلاط کی اجازت اسلام نہیں دیتا۔اگر آپ سعودی عرب جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ خواتین مساجد میں آتی ہیں اگر آپ امریکہ جائیں یا لندن جائیں تو وہاں بھی خواتین مسجد میں نماز پڑھتی ہیں۔ صرف ہندوستان اور کچھ اور ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتیں۔یہاں تک کہ حرم شریف اور مسجد نبوی میں بھی خواتین کو آنے کی اجازت ہے۔ ہندوستان میں بھی اب بعض مساجد میں خواتین کے لیے اہتمام ہوتا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ مزید مساجد میں بھی یہ اہتمام ہو گا۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب : اسلام میں مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا پابند نہیں کیا گیا۔قرآن میں ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے ایک ہی شرط عاید کی گئی ہے اور وہ ہے عدل۔ اگر وہ اپنی بیویوں میں عدل کر سکتا ہے تو وہ ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر پہلی بیوی کی اجازت سے دوسری شادی کی جائے تو شوہر اور بیویوں کے تعلقات زیادہ خوشگوار رہیں گے۔صرف ایک ہی صورت ہے جس میں مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینی پڑتی ہے اور وہ یہ کہ اگر بیوی نے شادی کے وقت نکاح کے وقت یہ شرط رکھی ہو کہ شوہر دوسری شادی نہیں کرے گا تو پھر دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت لازمی ہو جاتی ہے۔ بصورتِ دیگر کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

ج- سنتِ غیرموکدہ اور نفل قریب قریب ہیں، ان میں کوئی زیادہ فرق نہیں، البتہ یہ فرق ہے کہ سننِ غیرموکدہ منقول ہیں، اس لئے ان کا درجہ بطورِ خاص مستحب ہے، اور دْوسرے نوافل منقول نہیں، اس لئے ان کا درجہ عام نفلی عبادت کا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- رات کی سنتوں اور نفلوں میں اختیار ہے کہ خواہ آہستہ پڑھے یا جہراً پڑھے، اس لئے رات کی سنتوں اور نفلوں میں جہراً پڑھنے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، دن کی سنتوں اور نفلوں میں جہراً پڑھنا دْرست نہیں، بلکہ آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اور اگر بھول کر تین آیتیں یا اس سے زیادہ پڑھ لیں تو سجدہ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، قواعد کا تقاضا یہ ہے کہ سجدہ سہو واجب ہونا چاہئے اور یہی احتیاط کا مقتضا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- آپ کی خالہ اور نانی غلط کہتی ہیں، یہ لوگوں کی اپنی ایجاد ہے کہ تمام نمازوں میں وہ پوری نماز کھڑے ہوکر پڑھتے ہیں، مگر نفل بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ نفل بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے سے ثواب آدھا ملتا ہے، اس لئے نفل کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- یہ حدیث جس کا آپ کے بھائی جان نے حوالہ دیا ہے، صحیح ہے، اور اس حدیث شریف کی بنا پر سنن و نوافل کا گھر پر ادا کرنا افضل ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ گھر کا ماحول پْرسکون ہو اور آدمی گھر پر اطمینان کے ساتھ سنن و نوافل ادا کرسکے، لیکن گھر کا ماحول پْرسکون نہ ہو، جیسا کہ عام طور پر آج کل ہمارے گھروں میں مشاہدہ کیا جاتا ہے، تو سنن و نوافل کا مسجد میں ادا کرلینا ہی بہتر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- صبحِ صادق کے بعد سنتِ فجر کے علاوہ نوافل مکروہ ہیں، سنتوں سے پہلے بھی اور بعد بھی، اور جن صاحب نے یہ کہا کہ: ’’تہجد کے بعد اور فجر کی سنتوں سے قبل سجدہ ہی حرام ہے‘‘ یہ مسئلہ قطعاً غلط ہے، سنتِ فجر سے پہلے سجدہ تلاوت کرسکتے ہیں اور قضا نمازیں بھی پڑھ سکتے ہیں، ہاں! صبحِ صادق کے بعد سنتِ فجر کے علاوہ اور نوافل جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- بہت سی احادیث میں فجر اور عصر کے بعد نوافل کی ممانعت آئی ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک ان احادیث کی بنا پر حرم شریف میں بھی فجر و عصر کے بعد نوافل جائز نہیں، جو شخص ان اوقات میں طواف کرے، اسے دوگانہ طواف سورج کے طلوع اور غروب کے بعد ادا کرنا چاہئے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج-آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد کی نماز فرض تھی یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں، اور اختلاف کا منشاء یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب پنج گانہ نماز فرض نہیں ہوئی تھی، اس وقت تہجد کی نماز سب پر فرض تھی، بعد میں اْمت کے حق میں فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی فرضیت منسوخ ہوگئی یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہوا۔ امام قرطبی اور علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اس کو ترجیح دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی فرضیت باقی نہیں رہی، اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی پابندی فرماتے تھے، سفر و حضر میں تہجد فوت نہیں ہوتی تھی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- تہجد پڑھنے کے لئے کسی عمر کی تخصیص نہیں، اللہ تعالیٰ توفیق دے ہر مسلمان کو پڑھنی چاہئے، اپنی طرف سے تو اہتمام یہی ہونا چاہئے کہ تہجد کبھی چھوٹنے نہ پائے، لیکن اگر کبھی نہ پڑھ سکے تب بھی کوئی گناہ نہیں، ہاں! جان بوجھ کر بے ہمتی سے نہ چھوڑے اس سے بے برکتی ہوتی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- سوکر اْٹھنے کے بعد رات کو جو نماز پڑھی جائے وہ تہجد کہلاتی ہے، رکعتیں خواہ زیادہ ہوں یا کم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سے بارہ تک رکعتیں منقول ہیں، اور اگر آدمی رات بھر نہ سوئے، ساری رات عبادت میں مشغول رہے تو کوئی حرج نہیں، اس کو قیامِ لیل اور تہجد کا ثواب ملے گا، مگر یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں، اس لئے جن اکابر سے رات بھر جاگنے اور ذکر اور عبادت میں مشغول رہنے کا معمول منقول ہے، ان پر اعتراض تو نہ کیا جائے، اور خود اپنا معمول، اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق رکھا جائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- تہجد کی نماز میں چار سے لے کر بارہ رکعتیں ہوتی ہیں، ان کے ادا کرنے کا کوئی الگ طریقہ نہیں، عام نفل کی طرح ادا کی جاتی ہیں۔ ہر رکعت میں تین بار سورہ اِخلاص پڑھنا جائز ہے، مگر لازم نہیں۔ جن لوگوں کے ذمہ قضا نمازیں ہوں، میں ان کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ تہجد کے وقت بھی نفل کے بجائے اپنی قضا نمازیں پڑھا کریں، ان کو انشاءاللہ تہجد کا ثواب بھی ملے گا اور سر سے فرض بھی اْترے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جو شخص آخرِ شب میں نہ اْٹھ سکتا ہو، وہ وتر سے پہلے کم از کم چار رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ لیا کرے، انشاءاللہ اس کو ثواب مل جائے گا، تاہم آخرِ شب میں اْٹھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے، اس کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد دو رکعتیں، اور مغرب و عشاء کے بعد دو دو رکعتیں تو سنتِ موکدہ ہیں، ان کو نہیں چھوڑنا چاہئے، اور عشاء کے بعد وتر کی رکعتیں واجب ہیں، ان کو بھی ترک کرنے کی اجازت نہیں۔ باقی رکعتیں نوافل ہیں، اگر کوئی پڑھے تو بڑا ثواب ہے، اور نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں، ان کو ضروری سمجھنا صحیح نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- چونکہ مغرب کی نماز جلدی پڑھنے کا حکم ہے، اس لئے حنفیہ کے نزدیک مغرب سے پہلے نفل پڑھنا مناسب نہیں، گو جائز ہے، اس لئے خود تو نہ پڑھیں، مگر جو حضرات پڑھتے ہیں انہیں منع نہ کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- عشاء کی ضروری رکعتیں تو اتنی ہیں جتنی آپ نے لکھی ہیں، یعنی ۴ فرض، ۲ سنت اور تین وتر واجب، کل ۹ رکعتیں۔ عشاء سے پہلے سنتیں اگر پڑھ لے تو بڑا ثواب ہے، نہ پڑھے تو کچھ حرج نہیں، اور وتر سے پہلے دو، چار رکعت تہجد کی نیت سے بھی پڑھ لے تو اچھا ہے، لیکن نوافل کو ایسا ضروری سمجھنا کہ ان کی وجہ سے فرائض و واجبات بھی ترک کردئیے جائیں، بہت غلط بات ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- اگر جاگنے کا بھروسا ہو تو وتر، تہجد کی نماز کے بعد پڑھنا افضل ہے، اس لئے اگر صبحِ صادق سے پہلے وقت میں اتنی گنجائش نہ ہو کہ نوافل کے بعد وتر پڑھ سکے گا تو پہلے تہجد کے نفل پڑھے، اس کے بعد وتر پڑھے، اور اگر کسی دن آنکھ دیر سے کھلے اور یہ اندیشہ ہو کہ اگر نوافل میں مشغول ہوا تو کہیں وتر قضا نہ ہوجائیں تو ایسی صورت میں پہلے وتر کی تین رکعتیں پڑھ لے، پھر اگر صبحِ صادق میں کچھ وقت باقی ہو تو نفل بھی پڑھ لے، تہجد کی نماز کا ایک معمول تو مقرّر کرلینا چاہئے کہ اتنی رکعتیں پڑھا کریں گے، پھر اگر وقت کی وجہ سے کمی بیشی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰۃ الحاجت کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ آدمی خوب اچھی طرح وضو کرے اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھے، نماز سے فارغ ہوکر حق تعالیٰ شانہ کی حمد و ثنا کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دْرود شریف پڑھے، مسلمانوں کے لئے دْعائے مغفرت کرے اور خوب توبہ، اِستغفار کے بعد یہ دْعا پڑھے:

لا الٰہ الا اللہ الحلیم الکریم سبحان اللہ رب العرش العظیم الحمد للہ رب العالمین، اسلک موجبات رحمتک ومنجیات امرک وعزائم مغفرتک والغنیمۃ من کل بر والسلامۃ من کل اثم لا تدع لی ذنبًا الا غفرتہ ولا ھمًّا الا فرجتہ ولا حاجۃ ھی لک رضًا الا قضیتھا یا ارحم الراحمین۔

اس کے بعد اپنی حاجت کے لئے خوب گڑگڑاکر دْعا مانگے، اگر صحیح شرائط کے ساتھ دْعا کی تو انشاء اللہ ضرور قبول ہوگی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- نہ وقت مقرّر ہے، نہ تعداد، البتہ مکروہ وقت نہیں ہونا چاہئے، اور تعداد دو رکعت سے کم نہیں ہونی چاہئے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- یہ نمازیں ظہر اور عصر سے پہلے پڑھنے میں تو کوئی اِشکال نہیں، البتہ فجر سے پہلے اور صبحِ صادق کے بعد سوائے فجر کی دو سنتوں کے اور نوافل پڑھنا دْرست نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- کوئی کام درپیش ہو، اس کی آسانی کی دْعا کرنے کے لئے شریعت نے ’’صلوٰۃ الحاجۃ‘‘ بتائی ہے، اور کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے توبہ کرنے کے لئے ’’صلوٰۃ التوبہ‘‘ فرمائی ہے، اور یہ نفلی نمازیں ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ظہر، عصر اور عشاسے پہلے پڑھ سکتی ہے، صبحِ صادق کے بعد سے نمازِ فجر تک صرف فجر کی سنتیں پڑھی جاتی ہیں، دْوسرے نوافل دْرست نہیں، سنتوں میں تحیۃ الوضو کی نیت کرلینے سے وہ بھی ادا ہوجائے گا، اور مغرب سے پہلے پڑھنا اچھا نہیں، کیونکہ اس سے نمازِ مغرب میں تاخیر ہوجائے گی، اس لئے نمازِ مغرب سے پہلے بھی تحیۃ الوضو کی نماز نہ پڑھی جائے، بہرحال اس مسئلے میں مرد و عورت کا ایک ہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- اگر کوئی شخص مسجد میں جاتا ہے اور جماعت ہونے میں دو تین منٹ باقی ہیں، کیا وہ نفل تحیۃ الوضو پڑھے یا تحیۃ المسجد پڑھے؟

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- امام ابوحنیفہ کے نزدیک سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی فرض نماز ادا کرنے سے قبل نوافل پڑھنا اس وجہ سے مکروہ ہے کہ اس سے مغرب کی نماز میں تاخیر ہوتی ہے، ورنہ بذاتِ خود وقت میں کوئی کراہت نہیں، آپ کے یہاں چونکہ مغرب سے پہلے نوافل کا معمول ہے اور جماعت میں تاخیر کی جاتی ہے، اس لئے تحیۃ المسجد پڑھ لینے میں مضائقہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- شبِ برات میں اجتماعی نوافل ادا کرنا بدعت ہے، امام صاحب نے مشکوٰۃ شریف کا جو حوالہ دیا ہے، وہ ان کی غلط فہمی ہے، مشکوٰۃ شریف میں ایسی کوئی روایت نہیں جس میں شبِ برات میں نوافل باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج ۔ نکاح کے لئے ایجاب و قبول شرط ہے، یعنی ایک طرف سے کہا جائے کہ: ‘‘میں نے نکاح کیا’’ اور دْوسری طرف سے کہا جائے: ‘‘میں نے قبول کیا’’۔ ایجاب و قبول ایک بار کافی ہے، تین بار کوئی ضروری نہیں، اور کلمے پڑھانا بھی کوئی شرط نہیں، مگر آج کل لوگ جہالت کی وجہ سے کفر کی باتیں بکتے رہتے ہیں، اس لئے بعض مولوی صاحبان کلمے پڑھادیتے ہیں تاکہ اگر لڑکے نے نادانی سے کبھی کلمہ کفر بک دیا ہو تو کم سے کم نکاح کے وقت تو مسلمان ہوجائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج ۔ نکاح ایجاب و قبول سے ہوجاتا ہے، خطبہ اس کے لئے سنت ہے، دو گواہوں کا ہونا اس کے لئے شرط ہے۔ قاضی صاحبان جو کلمے پڑھاتے ہیں وہ کچھ ضروری نہیں، غالباً ان کلموں کا رواج اس لئے ہوا کہ لوگ جہالت کی وجہ سے بسااوقات کلماتِ کفر بک دیتے ہیں اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کلمہ کفر زبان سے کہہ کر اسلام سے خارج ہو رہے ہیں۔ نکاح سے پہلے کلمے پڑھادئیے جاتے ہیں تاکہ خدانخواستہ ایسی صورت پیش آئی ہو تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائیں تب نکاح ہو۔ بہرحال نکاح سے پہلے کلمے پڑھانا کوئی ضروری نہیں اور کوئی بْری بات بھی نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج - شریعت نے کوئی کم سے کم وقفہ تجویز نہیں کیا، البتہ جلدی رْخصتی کی ترغیب دی ہے، اس لئے جہیز کی وجہ سے رْخصتی کو ملتوی کرنا غلط ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج - شرعاً جائز ہے، اور کوئی خاص رْکاوٹ نہ ہو تو لڑکے لڑکی کے جوان ہوجانے کے بعد اسی میں مصلحت بھی ہے، ورنہ بگڑے ہوئے معاشرے میں غلط کاریوں کے نتائج اور بھی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ حلال کے لئے ‘‘تباہ کن نتائج’’ (جو محض فرضی ہیں) پر نظر کرنا اور حرام کے ‘‘تباہ کن نتائج’’ (جو واقعی اور حقیقی ہیں) پر نظر نہ کرنا، فکر و نظر کی غلطی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س ۔ دو ایک سوال کے جواب میں نکاح کی بابت آپ نے جو کچھ فرمایا، جس کا نچوڑ یہ ہے کہ بالغ لڑکا اور لڑکی کا نکاح ان کے والدین کی مرضی کے خلاف ان کی عدم موجودگی میں صرف اسی صورت جائز ہوگا جب دونوں لڑکا اور لڑکی، برادری، تعلیم، اخلاق، مال، عقل و شکل میں (آپ کے الفاظ میں) ہم پلہ ہوں۔ قبلہ! جہاں تک اخلاق کی بات ہے وہ تو قابلِ فہم، باقی باتیں میری ناقص عقل میں نہیں آتیں۔ میں نے اب تک تو یہی پڑھا اور سنا ہے کہ مذہبِ اسلام میں کسی عربی کو عجمی پر اور گورے کو کالے پر فوقیت حاصل نہیں، اور مسلمانوں کی حیثیت و مرتبہ کا تعین صرف تقویٰ، ایمان و اخلاق اور نیک اعمال سے ہوگا، نسل، برادری، وجاہت و دولت سے نہیں۔ اور جب یہ بات ہے تو بالغ مرد و عورت کے نکاح کے لئے مذکورہ بالا شرائط مثلاً: عقل و شکل، مال، برادری وغیرہ کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ (خواہ یہ نکاح والدین کی مرضی کے مطابق نہ ہو)۔ حضورِ والا! اگر کچھ اس پر روشنی ڈالیں تو مجھ کم علم کی اْلجھن دْور ہوجائے۔

ج ۔ جناب نے ‘‘اسلامی مساوات’’ کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے، وہ بالکل دْرست اور بجا ہے۔ اسلام کسی کو کسی پر فخر کی اجازت نہیں دیتا، نہ رنگ و نسل، عقل و شکل اور برادری یا مال کو معیارِ فضیلت قرار دیتا ہے۔ لیکن اس پر بھی غور فرمائیے کہ ‘‘نکاح’’ اس مقدس رشتے کا نام ہے جو نہ صرف زوجین کو بلکہ ان کے تمام متعلقین کو بھی بہت سے حقوق و فرائض کا پابند کرتا ہے، اور ان تمام حقوق و فرائض کی ادائیگی نہ صرف میاں بیوی کی مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی پر موقوف ہے بلکہ دونوں طرف کے اہلِ تعلق کے درمیان باہمی اْنس و احترام کو بھی چاہتی ہے ۔ادھر انسانی نفسیات کی کمزوری کا یہ عالَم ہے کہ بہت ہی کم اور شاذ و نادر ایسے حضرات ہوں گے جو صرف ‘‘اِنَّ اَکرَمَکْم عِندَ اللہِ اَتقٰکْم۔’’ کے اْصول کو رشتہ ازدواج میں کافی سمجھیں، اور ان کی نظر نہ لڑکے، لڑکی کی عقل و شکل پر جائے، نہ تعلیم و تہذیب پر، نہ رنگ و نسب پر، نہ جاہ و مال پر۔ رشتہ ازدواج چونکہ محض ایک نظریاتی چیز نہیں، بلکہ زندگی کی امتحان گاہ میں ہر لمحہ اسے عملی تجربوں سے گزرنا ہوتا ہے اور اس رشتے سے بڑھ کر (اپنے عملی آثار و نتائج کے اعتبار سے) کوئی رشتہ اتنا نازک، اتنا طویل اور ایسے وسیع تعلقات اور ذمہ داریوں کا حامل نہیں۔ اس لئے اسلام نے جو صحیح معنوں میں دِینِ فطرت ہے انسانی فطرت کی ان کمزوریوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا، اور نہ وہ ایسا کرسکتا تھا، اس لئے اس نے اپنے ‘‘اْصولِ مساوات’’ کے مطابق جہاں یہ فتویٰ دیا کہ ایک مسلمان خاتون کا نکاح، بلاتمیز رنگ و نسل، عقل و شکل اور مال و وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے، وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ اس عقد سے متاثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضامندی کے بغیر بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے، تاکہ اس عقد کے نتیجے میں ناخوشگواریوں، تلخیوں اور لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا نہ ہوجائے۔ یہ حاصل ہے اسلام میں مسئلہ کفو کی اہمیت کا۔ اس مختصر سی وضاحت کے بعد اب میں مسئلہ لکھتا ہوں۔ ایک اعلیٰ ترین خاندان کا فرد، اپنی فرشتہ سیرت اور حور شمائل صاحب زادی کا عقد اس کی رضامندی سے کسی نومسلم حبشی کے ساتھ کردیتا ہے تو اسلام نہ صرف اس کا جائز رکھتا ہے، بلکہ اسے دادِ تحسین دیتا ہے۔ یہ تو ہوا اسلام کا اْصولِ مساوات۔ اب لیجئے دْوسری صورت: کہ ایک شریف اور اعلیٰ خاندان کی لڑکی صرف اپنے جوشِ عشق میں کسی ایسے لڑکے سے نکاح کرلیتی ہے، جو حسب و نسب، عزّو شرف، دِین و تقویٰ، علم و فضل، مال و جاہ کے لحاظ سے کسی طرح بھی اس کے جوڑ کا نہیں، اور یہ عقد والدین اور اقربا کی رائے کے علی الرغم ہوتا ہے، تو چونکہ رشتہ ازدواج میاں بیوی کو دو بکریوں کی طرح باندھ دینے کا نام نہیں، بلکہ اس کے کچھ حقوق و فرائض بھی ہیں، اور اسلام یہ دیکھتا ہے کہ ان حالات میں اس مقدس رشتے کے نازک ترین حقوق اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ادا نہیں ہوسکیں گے، اس لئے والدین اور اولیاء کی رضامندی کے بغیر اسلام اس بے جوڑ عقد کو ناروا قرار دے کر ان تمام فتنوں اور لڑائی جھگڑوں کا دروازہ بند کردینا چاہتا ہے، جو اس بے جوڑ عقد کے نتیجے میں پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر جناب ان معروضات پر توجہ فرمائیں گے تو مجھے توقع ہے کہ اسلام کا دِینِ فطرت ہونا بھی آپ پر کھل جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب:جدید تاویلات ایک بے معنی ترکیب ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر زمانے میں نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ان کو حل کرنے کے لیے نصوص سے استنباط کیا جاتا ہے۔ اصول استنباط میں بھی بہت سے اختلافات ہیں اور ان کے اطلاق میں بھی اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ ہر مکتب فکر کچھ آراء ونتائج میں دوسرے سے مختلف ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ لوگوں کا کام ہے۔ جب تک وہ نام واضح نہ ہو اس کے اثرات بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ دین کا ماخذ صرف قرآن وسنت کو مانا جائے اور ان کو پڑھنے اور ان سے استنباط کرنے میں ساری سعی اس بات کی ہو کہ شارع کا منشا کیا ہے۔ باہر سے کوئی نتیجہ یا رائے قائم کرکے اسے قرآن وسنت سے مؤکد کرنے کی کوشش درحقیقت دین سازی ہے ۔ یہ بات کسی صورت میں درست نہیں ہے۔ یہاں میں پھر یہ عرض کروں گا کہ جدید تاویلات و تعبیرات کی ترکیب مبہم ہے۔ دین کے مقصد کو طے کرنے میں اور شریعت کے اصول ومقاصد کے تعین میں قدیم سے اختلافات ہیں۔ ہروہ فہم دین وشریعت جو فہم متن کے مسلمہ اصولوں پر مبنی ہو وہ درست ہے اصل سوال یہ ہے کہ کسی شخص کا کام دین کو اور شارع کے منشا کو سمجھنے کی کوشش ہے یا نہیں۔ صحت کا معیار نہ قدیم ہے اور نہ جدید۔ جو بات اوفق بالقرآن والسنہ ہے وہی حق ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: مراقبہ لغوا ًنگرانی اور نگہبانی کے معنی رکھتا ہے۔ اسی سے اس میں غور وفکر اور خدا کے تعلق کی نسبت سے اپنے ایمان وعمل کا جائزہ لینے کے معنی پیدا ہو گئے ہیں۔ مزید برآں انسان کے تصور کرنے کی صلاحیت پر ارتکاز کے لیے بھی مراقبے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ صوفیہ کے مقامات کی سیر غالباً اسی نوع کے مراقبے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ نہ دین میں اس طرح کے کسی عمل کی تعلیم دی گئی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : پندرہ علوم سے ہمارے ہاں متداول علوم مراد ہیں۔ مثلاًفہم کلام کے لحاظ سے: لغت، نحو، صرف، بلاغت، بیان اور اصول تفسیروغیرہ، حدیث کے ضمن میں رجال، روایت اور درایت کے اصول، فقہ کے حوالے سے اصول فقہ اور خود فقہ، علوم عقلیہ میں فلسفہ، منطق اور علم کلام اور تاریخ میں سیرت اور اسلامی تاریخ ۔اسی طرح خود قرآن مجید اور سنت اور حدیث سے براہ راست واقفیت وغیرہ۔ میں نے آپ کو ذہن میں موجود معلومات کو سامنے رکھ کر ایک اصولی جواب دیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس موضوع پر لکھی کتابوں میں اس تفصیل میں کچھ فرق ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے ایک رواج کو نا پسند فرمایا تھا۔ کچھ لوگ طمطراق اور طنطنہ ظاہر کرنے کے لیے عربوں میں رائج ازار کے لباس تہبند کو اتنا نیچے باندھتے تھے کہ وہ چلتے وقت زمین پر گھسٹتا رہے۔ ظاہر ہے، یہ گھمنڈ ہے جسے ہمارے دین میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ہماری امت میں دو نقطہ نظر رائج ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق علت کو اہمیت دی جائے گی اور لباس کی ہر وہ ہیئت ناپسندیدہ قرار دی جائے گی جس کا محرک تکبر ہو۔ چنانچہ ٹخنوں کا ننگا ہونایا ڈھکا ہونا اس معاملے میں غیر اہم ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کے معاملے میں ٹخنوں کو ننگا رکھنے کا حکم دیا تھا۔ لہذا کوئی بھی لباس ہو ٹخنے ہر حال میں ننگے رکھے جائیں گے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل اہمیت علت کی ہے۔ اگر کسی لباس میں نیچے رکھنے سے تکبر کی علت نہیں ہے تو ٹخنے ننگے رکھنا ضروری نہیں رہتا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:عام طور پر ایک روایت کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر غلطی ہو تو ایک اجر ہے اور اگر درست ہو تو دہرا اجر ہے۔ اس روایت کے بارے میں کچھ قیل وقال ہے۔ لیکن قرآن میں اجر کے مرتب ہونے کے جو اصول بیان ہوئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بات ٹھیک لگتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس غلطی پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے جس میں آدمی کا اپنا ارادہ اور نیت شامل نہیں ہے۔مجتہد یا قاضی چونکہ صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ غلطی کے باوجود اسے اجر ملنا سمجھ میں آتا ہے۔ درست فیصلے یا نتیجے پر دہرا اجر درحقیقت اس محنت کا عوض ہے جو اس نے صحیح بات تک پہنچنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرکے کی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:صحابہ کی دین میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ ہمارے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جماعت صحابہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو دین کے منتقل ہونے کا ذریعہ بنی ہے۔ چنانچہ وہ دین جو ان کے اجماع سے امت کو منتقل ہوا ہے وہ امت کے لیے واجب الاتباع ہے۔ اس کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ باقی رہیں ان کی آراء یا ان کے ذریعے سے امت کو ملنے والی اخبار آحاد تو ان کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے لیکن ان کو قبول کرنے کے لیے انھیں روایت درایت اور فہم کے اصولوں پر پرکھا جائے گا۔ اگر درست ہوں گی تو مان لی جائیں گی ورنہ دوسری رائے قائم کرنے کا رستہ اختیار کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ امت کے ائمہ نے اس باب میں یہی راستہ اختیار کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:نماز پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ساتر اور موزوں لباس پہنا ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ چیز معاشرے کے معروف پر مبنی ہیں۔ سر کا ڈھانکنا شرائط نماز میں شامل نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معاشرے کے معمول کا لباس پہنتے تھے۔ اگر کسی چیز کو اسوہ قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ بھی یہی ہے کہ معاشرے کے معروف کے مطابق رہن سہن اور طعام ولباس اختیار کیا جائے الا یہ کہ وہ دین کے کسی حکم کے منافی ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:ٹائی کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ یہ محض تزئین کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک مذہبی علامت کی ہے اور یہ صلیب کا نشان ہے۔ اولاً تو اسی بات کو ثابت کرنے میں مسائل ہیں۔ ثانیاًاب تمام دنیا میں کوٹ پتلون اور ٹائی کا رواج ہے اور اگر اس کا کوئی مذہبی پس منظر تھا بھی تو اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ اس کو ایک تزئینی لباس کے طور پر ہی پہنا جاتا ہے۔ ٹائی پہننے میں اصولاً کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:دین میں اصل اہمیت صبر کی ہے۔ صبر سے مراد ثابت قدمی اور استقامت ہے دین پر عمل کرنے کے حوالے سے ۔ سوسائٹی کے حوالے سے ایک مسلمان پر دین کی رو سے عائد ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے استقامت یعنی صبر کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے اور اسی پردین و دنیا کے اعلی نتائج منحصر ہیں۔ صبر محض ایک نئی اصطلاح ہے۔ غالباً اس سے مراد کسی طرح کے اقدام سے گریز ہے۔ یہ اصطلاح کسی حکمت عملی کے لیے تو شاید ناگزیر ہو لیکن دینی زندگی کے لیے یہ ایک بے معنی بات ہے۔ دین کا ہر حکم دین میں بیان کی گئی شرائط کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔ کسی خود ساختہ حکمت کو دینی قرار دینا کسی طرح موزوں نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:بنیادی اختلاف ایک ہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسی ہستیوں کو ماننا جو براہ راست اللہ تعالی سے رہنمائی پاتی ہوں اور خطا سے محفوظ ہوں اور دین میں اصل انحصار انھی پر ہو۔باقی دینی اختلافات بالعموم اسی فرع سے پھوٹے ہوئے ہیں۔ باقی رہا دور اول کا سیاسی جھگڑا تو اس کے دینی اور سیاسی اثرات بھی اہم ہیں لیکن اس معاملے میں امت کے بہت سے لوگ اہل تشیع کے ہمنوا ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف کرنا ایمان کے منافی ہے۔ البتہ اہل علم اس بات میں اختلاف کرتے ہیں کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے پیش کی جارہی ہے وہ اپنی نسبت میں درست ہے یا نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : ولایت کوئی منصب نہیں ہے۔ لہذا اس کے لیے دلیل کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ اگر کسی شخص سے اس طرح کا کوئی واقعہ صادر ہوتا ہے تو یہ ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مقبول بارگاہ ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات میں افسانہ زیادہ اور حقیقت کم ہی ہوتی ہے۔ باقی رہا نبوت کا معاملہ تو اسے کئی طرح کے دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے ۔ معجزہ ان میں سے ایک ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اذان کے بعد کی دعا میں دونوں صورتیں درست ہیں۔ میرے علم کی حد تک اس میں مسجد کے اندر یا باہر کا فرق بھی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ دعا ہاتھ اٹھائے بغیر مانگی جاتی ہے۔ اذان کا جواب دینے میں اگر آپ چاہیں تو ہر اذان کا جواب دیں اور اگر ایک اذان کا جواب دیں تو اس میں بھی حرج نہیں۔ اسی طرح چاہیں تو ایک اذان کے بعد دعا مانگیں اور چاہیں تو ہر اذان کے بعد دعا کریں۔ یہ امور نفلی ہیں ۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : شادی بیاہ کی رسومات ہر سماج میں مختلف ہیں۔ ان کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان پر عمل کرنے میں حرج نہیں ہے۔ بارات کا کھانا ہم اپنے سماجی مصالح کے تحت اگر موزوں نہ سمجھتے ہوں تو اسے ختم بھی کر سکتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :بنیادی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے جملے کی زیادہ سے زیادہ حیثیت ایک قسم کی ہے۔یہ ایک ناموزوں اور حق تلفی پر مبنی قسم ہے اسے توڑنا لازم ہے۔ اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ ان صاحب کو بس یہ کرنا ہے کہ یہ قسم کا کفارہ ادا کردیں اور اپنی سسرال میں نارمل زندگی گزاریں۔

قسم کا کفارہ یہ ہے: ‘‘قسم کھانے والا دس مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلائے جو وہ عام طور پر اپنے اہل وعیال کو کھلاتا ہے، یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے یا غلام آزاد کرے۔ان میں سے کچھ بھی میسر نہ ہو تو اسے تین دن کے روزے رکھنا ہوں گے۔’’

(مولانا طالب محسن)

جواب : امت میں اس بات کا کوئی بھی مدعی نہیں ہے کہ حدیث شریف میں قرآن پاک کی مکمل وضاحت ہے۔ بلکہ اصل صورت معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست نسبت سے قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے میں وضاحت پر مشتمل احادیث کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی۔ البتہ حدیث کا بہت بڑا حصہ سنت پر حضور کے عمل کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے بڑے بڑے مؤیدین بھی تفسیری اور فقہی کام کی نفی نہیں کرتے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : وسیلہ کا عربی میں مطلب قرب ہے۔ اردو کے لفظ وسیلہ کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اللہ تعالی سے عبد ومعبود اور دعاومناجات کے تعلق کے لیے کسی طرح کے واسطے کی ضرورت نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ سحر ایک فن ہے جو سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ اس کا دائرہ عمل کیا ہے ؟ اس ضمن میں قرآن وحدیث سے کوئی بات طے کرنا موزوں نہیں ۔ اس لیے کہ ان میں اس کا تذکرہ کچھ واقعات کے حوالے سے آیا ہے ۔ براہ راست اس فن کو موضوع نہیں بنایا گیا۔یہ سرتاسر تجربے پر موقوف ہے۔اس فن کے لوگ اسے باقاعدہ علم کی شکل نہیں دے سکے لہذا اس کے نتائج کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ البتہ ہمیں قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس فن کی ایک صورت غالباً جسے کالا علم کہا جاتا ہے کفر ہے۔ اور دوسری صورت بھی ایک فتنہ ہے۔ لہذا ان سے گریز ہی بہتر ہے۔ قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں پڑھ کر پھونکنے میں حرج نہیں اور اگر ضرورت ہو تو لکھ کر تعویز بھی بنایا جا سکتا ہے۔لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ عمل کرنے والا اپنے لیے خود کرے ۔پڑھ کر اپنے اوپر پھونکنے کاعمل حضور سے روایات میں بیان ہوا ہے لیکن تعویزکرنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : آپ کی یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید میں جس چیز کو جرم قرار دیا گیا ہے وہ سود خوری ہے۔ آپ نے جس اختلاف کا ذکر کیا ہے اس کا باعث قرآن مجید کی کوئی آیت نہیں ہے۔ سود دینے کو گناہ قرار دینے والوں کی بنائے استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ مسلم میں نقل ہوا ہے: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٰکل الربوٰا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ وقال: ہم سواء۰(مسلم،رقم۱۵۹۸) ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور کھلانے والے اور اس کی دستاویز لکھنے والے اور اس دستاویز کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔’’

اس روایت کے لفظ ـ‘مؤکل’ (کھلانے والے) کا اطلاق عام طور پر علماء اس آدمی پر کرتے ہیں جو قرض پر سود ادا کرتا ہے۔بعض علما ـ‘مؤکل’ کا لفظ سودی کاروبار کے ایجنٹ کے لیے کہتے ہیں۔ اس لفظ کاعام طور پر طے کردہ مفہوم ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک، سود ادا کرنا ایک کوتاہی ضرور ہے لیکن اسے اسطرح حرام قرار دینا مناسب نہیں جس طرح سود لینا حرام ہے

(مولانا طالب محسن)

جواب : انشورنس کے نظام میں اصولاً کوئی غلطی نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی ادارہ لوگوں سے پیسے لے کر ان کو اس وقت ادا کردے جب پہلے سے طے کردہ ضرورت سامنے آجائے۔ یہ ادارہ کوئی کاروبار کرکے اس سرمائے میں اضافہ کرے اور اس اضافے کی ایک شرح لوگوں کی رقوم میں شامل کرتا رہے اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ ہمارے ملک میں انشورنس کے ادارے سرمایہ کاری سودی طریقے پر کرتے ہوـں۔ اس صورت میں صرف یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اس طرح کے ادارے سے انشورنس نہ کروائی جائے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اس کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کی آنکھ ہی اس وقت کھلی ہے جب سورج طلوع ہو چکا ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ یہ نماز ‘‘ادا نماز’’ قرار پائے گی ۔ دوسری یہ کہ نماز سستی اور غفلت کی وجہ سے رہ گئی ۔ اس صورت میں یہ نماز قضا ہوگی۔ مکمل نماز سے غالباًآپ کی مراد،دو سنت اوردوفرض یعنی چار رکعت پڑھنا ہے۔ دو سنت اصل میں نفل نماز ہے اور احناف اسے سنت اس لیے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مداومت کے ساتھ پڑھے ہیں۔ بہرحال ان کا پڑھنا دونوں صورتوں میں لازم نہیں ہے ۔ لیکن ان کی ادائی کا اجر بہت زیادہ ہے ۔ اس لیے دونوں صورتوں ہی میں اسے پڑھنا افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی یہی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اس معاملے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قضا نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔ دوسری یہ کہ اس کوتاہی پر خدا سے توبہ کرنی چاہیے۔آئندہ نمازوں میں پابندی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا فوراً ازالہ کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ایک اندازہ قائم کرکے قضا نمازیں پڑھ لینی چاہئیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مشورہ یہ ہے کہ سنن کی جگہ اگر یہ نمازیں پڑھ لی جائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالی دونوں کا اجر ادا کر دیں گے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قرآن مجید کی ایک آیت کی مراد سے متعلق ہے اور دوسرا مولوی صاحب کی رائے پر مشتمل۔ جہاں تک آیت کریمہ کا تعلق ہے تو اس میں نجات اخروی کا اصل الاصول بیان کیا گیا ہے۔ ہماری ایمانیات کی اصل صرف یہ ہے کہ ہم اس کائنات کے خالق ومالک کے وجود اور اس کے حضور جواب دہی پر ایمان رکھتے ہوں۔ کتابوں، فرشتوں اور نبیوں پر ایمان اس ایمان کے ایک تقاضے کی حیثیت سے سامنے آتاہے۔(ان تین چیزوں میں بھی اصل کی حیثیت انبیا کی ہے۔ کتابوں اور فرشتوں پر ایمان اس کے لواحق میں سے ہے) لیکن یہ تقاضا ایک ایسا تقاضا ہے جس کے پورا نہ کرنے کا نتیجہ جہنم کی صورت میں نکلتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اگر کسی شخص کو یہ واضح ہے کہ فلاں شخص خدا کا پیغمبر ہے تو اس کی نیکیاں اورخدا اور آخرت پر ایمان اکارت چلا جائے گا اگر وہ اس شخص کو خدا کا پیغمبر نہیں مانتا اور اس کے لائے ہوئے دین کو اختیار نہیں کر لیتا۔اس وضاحت سے آپ یہ بات سمجھ گئے ہوں گے کہ مولوی صاحب کی بات ادھوری ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ہر وہ نیک غیر مسلم جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کا یقین ہے وہ اگر مسلمان نہیں ہوتا تو وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اس کی ساری نیکیاں رد کر دی جائیں اور عذاب میں مبتلا کر دیا جائے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : تفصیلی معلومات کے لیے آپ مولانا فہیم عثمانی صاحب کی کتاب حفاظت وحجیت حدیث کا مطالعہ فرمائیں۔ مختصراً عرض ہے کہ تاریخ میں متعدد صحابہ کے نام آتے ہیں جن کے پاس لکھی ہوئی احادیث کا ذخیرہ موجود تھا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو لکھنے کی اجازت دی اور بعض لوگوں کی لکھ کر دینے کی فرمایش بھی پوری کی۔بہر حال دور اول کی جو تصنیف اب بھی دستیاب ہے وہ موطا امام مالک رحمہ اللہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : دور اول کی تصنیفات میں سے موطا امام مالک رحمہ اللہ ہی دستیاب ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا سال وفات۱۷۹ھ ہے۔ غرض یہ کہ یہ دوسری صدی ہجری کی تصنیف ہے۔ کتب حدیث کا ماخذ مختلف راوی ہوتے ہیں۔ بعض راوی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس احادیث لکھی ہوئی صورت میں بھی ہوتی تھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : امام بخاری کا سال وفات۲۵۶ھ ہے۔ اس طرح یہ تیسری صدی ہجری کے نصف اول کی تصنیف معلوم ہوتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہ کتاب رواۃ سے احادیث لے کر مرتب کی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اس کی وجہ امام بخاری رحمہ اللہ کا معیار تحقیق ہے۔لیکن اس کے جو نتائج نکال لیے گئے ہیں ان سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : حدیث اور قرآن میں تضاد کی بیشتر مثالیں بالعموم قرآن کی روشنی میں حدیث کو حل نہ کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ مزید برآں کلام فہمی کے جو اصول بعض فقہا کے پیش نظر رہے ہیں وہ بھی اس کا باعث بنے ہیں کہ بعض چیزوں کو متضاد یا مختلف قرار دے دیاجائے۔ ہمارے خیال میں صحیح روایت اور قرآن مجید میں تضاد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ بطور اصول یہی بات کہی جائے گی کہ جو حدیث قرآن سے ٹکرا رہی ہو وہ قبول نہیں کی جا سکتی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : کتب حدیث میں کچھ روایات کو چھوڑ کر تمام روایات روایت بالمعنیٰ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو راوی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ حدیث کہنے کی وجہ یہ ہے کہ محدث کے نزدیک وہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جب کوئی فن مرتب ہو جاتا ہے تو اس کے بنیادی الفاظ اصطلاح کے طور استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کا لغوی مفہوم پس منظر میں چلا جاتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : روایت کا لفظ راوی کی نسبت سے بولا جاتا ہے اور حدیث کا لفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے۔ یعنی موقع استعمال کے پہلو سے یہ دو لفظ ہیں۔ اطلاق کے پہلو سے انھیں مترادف ہی قرار دیا جائے گا۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب : فن حدیث میں روایت ہی کو بطور حدیث قبول کیا جاتا ہے۔ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ راوی کے الفاظ کو حضور کے الفاظ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے تو آپ کی بات درست ہے۔ لیکن محدثین نے واضح درست اور عملی وجوہ کے تحت اس بات پر اصرار نہیں کیا کہ صرف وہی روایت قبول کی جائے گی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ روایت ہوئے ہوں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ انھی آیات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنت پر عمل کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلا یاایہا الذین آمنوا اطیعواللہ واطیعواالرسول……(النساء۴:۵۹) وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ جب کسی ہستی کو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کرتے ہیں تو وہ دین میں ان پر ایمان لانے والوں کے مقتدا ہوتے ہیں۔یہ بات آپ سے آپ واضح ہے اس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ(النساء۴:۶۴) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : عربی زبان میں بالخصوص اور عام زبانوں میں بھی فعل کی فاعل سے نسبت اس کے معنی میں تغیر کر دیتی ہے۔ اس کی اردو میں مثال محبت ہے۔ ماں بیٹے کی محبت اور میاں بیوی کی محبت دو مختلف چیزیں ہے لیکن لفظ ایک ہی بولا جاتا ہے۔‘ صلی’ کا لفظ جب بندوں کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس سے رحمت کی دعا کرنا مقصود ہوتا ہے اور جب اللہ تعالی کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس میں رحمت کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔بے شک اللہ تعالی خالق اور بے نیاز ہیں۔ لیکن وہی سب کا سہارا اور ملجاوماوی بھی ہیں۔ لہذا ان کی عنایات ہی سے یہ کاروبار زیست رواں دواں ہیں۔ سورہ اخلاص میں یہ دونوں پہلو یکجا بیان ہو گئے ہیں ‘ہواللہ احد’ وہ یکتا ہے یعنی ہر شے سے غنی ہے ۔ ‘اللہ الصمد’ اللہ سب کا سہارا ہے۔ یعنی سب مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب کا حاجت روا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اس معاملے میں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن وسنت میں کوئی قطعی چیز نہیں ہے جو اس میں مانع ہو۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ غیر مسلم کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس نوعیت کا ایک واقعہ کتب تاریخ میں نقل ہوا ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پانچ سو روایات پر مشتمل ایک مجموعہ تیار کیا ہوا تھا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھا ہوا تھا۔ ایک رات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت بے چین ہیں۔ انھوں نے سبب پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ نسخہ منگوایا اور اسے جلا دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا سبب پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:‘ اندیشہ ہوا کہ میں مرجاؤں اور یہ مجموعہ میرے ہاں موجود رہے۔ درآنحالیکہ اس میں ایسی روایات موجود ہیں جو میں نے تو اپنے اعتماد کے آدمی سے سنی ہیں لیکن ممکن بات اس طرح نہ ہو جیسے اس نے مجھے بتائی ہے۔ جبکہ میں اسے نقل کرنے والا ہوں۔ یہ صورت معاملہ درست نہیں ہے۔’’

اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خصوصی حیثیت کی وجہ سے ایسا کیا ہے ۔ غالباً انھوں نے سوچا ہو گا کہ میرے مرتب کردہ مجموعہ کی جو حیثیت بن جائے گی وہ درست نہیں ہو گی ۔ جب اخبار احاد کو قطعیت حاصل نہیں ہے تو کوئی ایسا عمل بھی موزوں نہیں ہو گا جو اسے قطعی یا قطعیت کے قریب کر دے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : ایک ملک جہاں مجرموں سے نمٹنے کا نظام قائم ہو وہاں خود بدلہ لینا انارکی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ ہمارے جیسے معاشروں میں عام ہے۔ یہ اس بات کا عذر نہیں بنانی چاہیے کہ ہم خود ہی کسی کو مجرم ٹھہرائیں اور خود ہی اسے سزا دے ڈالیں۔ بہتر یہی ہے کہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیاجائے۔ اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ حالات کو بدل دے اور مجرم اپنے کیفر کردار کو پہنچ جائیں۔ اگر اس کی مصلحت یہی تھی کہ اس دنیا میں ایسا نہ ہو توآخرت میں مجرم بھی اپنے انجام کو پہنچے گا اور مظلوم بھی وہ کچھ پالے گا جس کے بعد کوئی شکایت باقی نہ رہے گی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : قرآن مجید نے لونڈیوں اور غلاموں کے نظام کو واضح مصالح کے پیش نظر یک قلم ختم نہیں کیا۔ ایسے معاشرے جہاں غلام ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں اور ہر گھر میں ان کے معاشی سیٹ اپ کا حصے بنے ہوئے ہوں۔ غلامی کو یک قلم ختم کرنا انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بے سہارا اور بے گھر کر دینے کے مترادف تھا۔ اللہ تعالی نے جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کو غلام بنانے کا آپشن ختم کر دیا اور یہ کہا کہ انھیں فدیہ لے کر یا احسان کرکے چھوڑ دیا جائے۔ موجود غلاموں کو مکاتبت کی اجازت دے کر ان کے لیے آزادی حاصل کرنے کی راہ پیدا کر دی۔خلافت راشدہ میں انھی دونوں ضوابط پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ مشکل یہ پیش آئی کہ اسلام سے باہر کی سوسائٹی میں غلام بنانے کا عمل جاری رہا اور مکاتبت کی راہ سے فائدہ اٹھانے کا عمل بھی بہت محدود پیمانے پر ہوا چنانچہ آئندہ کئی صدیوں تک غلامی کا رواج قائم رہا۔غلام بنانا ایک کریہہ عمل ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے جائز رکھتے۔ سورہ محمد(۴۷:۴) کی محولہ آیت نے واضح طور پر غلام بنانے سے روک دیا ہے۔ جاری غلامی کو ختم کرنے کی جو کوشش امویوں اور عباسیوں کو کرنی چاہیے تھی وہ انھوں نے نہیں کی اور اس کا اعزاز امریکیوں کو حاصل ہوا کہ انھوں نے اس مکروہ کاروبار کو بالکلیہ ختم کر دیا۔ کسی کو غلام بنانا ایک ناپسندیدہ فعل ہے اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب : قرآن مجید میں املا وہی قائم رکھی گئی ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی اسی حالت پر قائم رہے جس میں صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اسے امت کو منتقل کیا تھا۔ بعد میں املا کے طریقے تبدیل ہو گئے۔ یہ تبدیلی کئی پہلوؤں سے ہوئی ہے۔ اس کی روشنی میں قرآن کی املا کو تبدیل کرنا ناموزوں ہے۔ اگر قرآن میں موجود املا کو کوئی شخص غلط کہتا ہے تو وہ موجودہ املا کے قواعد کی روشنی میں کہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ قرآن کے بارے میں یہ بات اس طرح کہنے کے بجائے یہ کہنا چاہیے کہ قرآن میں بعض جگہ پر املا جدید املا سے مختلف ہے۔ باقی رہا یہ دعویٰ کہ قرآن میں گرامر کی غلطیاں ہیں تو اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ قرآن گرامر کے تابع نہیں ہے۔ گرامرقرآن کے تابع ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ گرامر اہل زبان کے تعامل کو دیکھ کر مرتب کی جاتی ہے۔ اس میں بعض قواعد ایسے بن جاتے ہیں جو اہل زبان کی بعض اختراعات کا احاطہ نہیں کر پاتے۔ اس طرح کی صورت حال میں صحیح رویہ یہ نہیں کہ اہل زبان کی تحریر کو غلط قرار دیا جائے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ گرامر کے اس قاعدے میں ضروری ترمیم کر دی جائے۔خدا کا کلام ہر طرح کے نقص سے پاک ہے۔ ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ طہ حسین اور بعض مستشرقین کی اس طرح کی مثالیں ان کی کم علمی کا مظہر ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

ج۔ زبان سے کسی چیز کا ذائقہ چکھ کر تھوک دیا تو روزہ نہیں ٹوٹا، مگر بے ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج۔ اگر خون منہ سے نکل رہا تھا، اس کو تھوک کے ساتھ نگل لیا تو روزہ ٹوٹ گیا، البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج۔ اگر حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا دْھواں خودبخود چلا گیا، یا گرد و غبار چلا گیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا، اور اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتا رہا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج۔ آنکھ میں دوائی ڈالنے یا زخم پر مرہم لگانے یا دوائی لگانے سے روزے میں کوئی فرق نہیں آتا، لیکن ناک اور کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، اور اگر زخم پیٹ میں ہو یا سر پر ہو اور اس پر دوائی لگانے سے دماغ یا پیٹ کے اندر دوائی سرایت کرجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب : اِس حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ اکثر حجاج تردد کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِس مسئلے میں صحیح رائے یہ ہے کہ ایّامِ منٰی میں مقامی اور آفاقی،تمام حجاج نمازوں کو قصر کر کے پڑھیں۔ دورانِ حج اِن مقامات پر پوری نمازیں پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْسوہ کے خلاف ہے۔ ابلیس کے خلاف جنگ کی تمثیل کے تقاضے سے اِن ایّام میں نمازوں کو قصر کرکے پڑھنا ہی آپ کا اْسوہ ہے۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اِن ایّام میں آپ نے نمازیں قصر کر کے پڑھی ہیں۔ (بخاری،رقم:1656,1655) یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اْس حج میں مکہ کے مسلمان بھی اِن نمازوں میں آپ کے ساتھ شریک تھے اور اْنہوں نے بھی آپ کے پیچھے نمازوں کو قصر کیا۔ آپ نے اْنہیں پوری نماز پڑھنے کی تاکید نہیں کی ؛جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں اْن کو کی تھی۔(المعجم الکبیر،طبرانی،رقم:517)اِس تفصیل سے واضح ہوا کہ ایام منٰی میں نمازوں کو قصر کر کے پڑھنے کا سفر سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ یہ مناسکِ حج کے ساتھ خاص ہے۔ منٰی کی قدیم ترین مسجد، مسجدِ خَیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اْسوہ کے مطابق آج بھی تمام نمازیں قصر ہی پڑھائی جاتی ہیں۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : پاک وہند کے اکثر حجاج یہی خیال کرتے ہیں کہ کنکریاں مزدلفہ کے میدان ہی سے اْٹھانی ہوں گی۔ وہ حج میں اِسے ایک عملِ مشروع اور مناسک کا حصہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ بالعموم دیکھا گیا ہے کہ اِس میدان میں پہنچ کر لوگوں کی ایک بڑی تعداد پہلے مغرب وعشا کی نمازوں کی ادائیگی کے بجائے کنکریاں اْٹھانے میں مشغول ہوجاتی ہے۔ اور مزید یہ کہ تمام ایاّمِ تشریق کی رمی کے لیے بھی کنکریاں وہیں سے اْٹھا کر وہ اپنے پاس محفوظ کرلیتے ہیں۔شریعت کی رو سے مناسکِ حج میں اِس عمل کی قطعاً کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔ آدمی جہاں سے چاہے،جتنی چاہے، کنکریاں اْٹھاسکتا ہے۔ اِس کے لیے کوئی خاص مقام شریعت میں مقرر نہیں کیا گیا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ادائیگی حج کے باب میں آپ کے اْسوہ کی روایتوں میں بھی اِس کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ چنانچہ اِس کی اصلاح کرلینی چاہیے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : جی ہاں،رسول اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اِن دس دنوں اور اِن میں کیے جانے والے اعمالِ صالحہ کو اللہ تعالٰی کے نزدیک غیر معمولی اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔ آپ کا فرمان ہے : اِن دس دنوں میں نیک اعمال انجام دینا اللہ تعالٰی کے نزدیک جتنا زیادہ محبوب اور افضل ہے ، وہ دوسرے کسی بھی دنوں میں نہیں ہے۔ اِس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا( اِن دنوں کے سوا باقی دنوں میں کیا گیا) اللہ کی راہ میں جہاد بھی ( اِن دس دنوں میں کیے گیے نیک اعمال سے) زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: جی ہاں، اْسے بھی یہ درجہ حاصل نہیں ہے،الّا یہ کہ کوئی شخص اپنے جان ومال کے ساتھ (اللہ کی راہ میں) نکلا ہو اور پھر وہ اپنا سبھی کچھ گنوا بیٹھے (تو اْسے بہرحال ارفع مقام حاصل ہے)۔ (بخاری، رقم: 969۔احمد،رقم:1968۔ ابوداود،رقم:2438۔ ترمذی،رقم 757۔ ابن ماجہ،رقم : 1414)مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ سے یہ بات بہرحال واضح ہے کہ عملِ صالح یہاں اپنے عموم میں بیان ہوا ہے۔ کوئی متعین یا خاص نیک عمل یا عبادت یہاں قطعاً زیر بحث نہیں ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : اِس موضوع سے متعلق احادیثِ کا استقصا کر کے ہم جب دقتِ نظر کے ساتھ اْن کا علمی تجزیہ کرتے ہیں تو دو طرح کی روایات ہمارے سامنے آتی ہیں :

 ایک وہ احادیث جن میں یہ بات روایت کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحج کے پہلے نو دن خاص اہتمام سے روزے رکھا کرتے تھے ، یا اْنہیں کبھی ترک نہیں کیا کرتے تھے۔ اِس مضمون کی احادیث مسند احمد (رقم: 22388, 26511, 27416) ابوداود (رقم:2437) اور نسائی (رقم:2416,2417,2418) میں نقل ہوئی ہیں،تاہم تحقیقِ سند کے معیارات اور علماے محققین کے اِن روایتوں پر کیے گئے کلام کی رو سے اِس مضمون کی کوئی ایک روایت بھی درجہ صحت کو نہیں پہنچتی۔اِس کی بعض ضعیف؛بعض نہایت ہی کمزور اور بعض سند اور متن،دونوں ہی اعتبارات سے معلول اور ناقابل استدلال ہیں۔ چنانچہ اِس درجے کی روایتوں کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ عمل ثابت نہیں ہوتا۔اِن احادیث کے بارے میں یہی رائے عصرِ حاضر کے مندجہ ذیل علما ومحققین کی ہے : شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز،شیخ محقق شعیب الارناوط ،شیخ محدث عبد اللہ بن عبد الرحمن آل سعد،شیخ ابو محمد الالفی ،شیخ عمر بن عبد اللہ المقبل

 اِس موضوع سے متعلق دوسری وہ احادیث ہیں جن میں صراحت کے ساتھ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ عشرہ ذو الحج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کا کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا یا اِن ایام میں آپ کو روزے کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔(مسند احمد ، رقم:24193,24970,25607۔ مسلم ، رقم:1176۔ ابوداود،رقم:2439۔ترمذی،رقم:756۔ابن ماجہ،رقم:1415)

سند کے اعتبار سے یہ احادیث اہل علم کے نزدیک درجہ صحت کو پہنچی ہوئی اور قابل حجت ہیں۔ اِن میں سند ومتن کے لحاظ سے کوئی علت یا کمزوری نہیں ہے۔

 چنانچہ اِس تمام تر تفصیل سے علمی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ذو الحج کے پہلے نو دنوں میں بالخصوص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روزے رکھنا اور اِس کا خاص اہتمام کرنا قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : تحقیقِ سند کے معیار کے مطابق اِس مضمون کی تمام احادیث بھی غیر ثابت اور ناقابل حجت ہیں۔ علما ومحدثین کی ایک بڑی تعداد نے اِس باب کی تمام روایات کو پوری صراحت کے ساتھ ناقابل اعتبار و استدلال قرار دیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے عشرہ ذو الحج کے روزوں کی خاص اِس طرح کی متعین کوئی فضیلت بھی علمی طور پر ثابت نہیں ہوتی۔ (السلسلۃ الضعیف،البانی،رقم : 5142,۔ ترمذی،رقم : 758۔ ابن ماجہ ، رقم:336)

(مولانا عامر گزدر)

جواب : جی ہاں،نفلی روزے کی حیثیت سے اِس کی فضیلت بہرحال "صحیح" احادیث سے ثابت ہے۔ اِس دن کے روزے کی فضیلت کو آپ نے اپنے ایک ارشاد میں اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ یومِ عرفہ کو روزہ رکھا جائے تو اِس کے صلے میں توقع ہے کہ اللہ تعالٰی ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ بخش دیں گے۔ (مسلم،رقم:2746)

 یہاں یہ البتہ،واضح رہے کہ گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو حقوق العباد سے متعلق نہیں ہیں یا جن کے لیے توبہ اور تلافی کرنا یا کفارہ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔

 تاہم حج کے موقع پر عرفہ کا یہ روزہ آپ نے نہیں رکھا۔ (بخاری،رقم:1988,1658۔مسلم رقم:2632)

 اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ حج کی مشقت کے ساتھ آپ نے اِسے جمع کرنا پسند نہیں فرمایا۔

(مولانا عامر گزدر)

 جواب : شریعتِ اسلامی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی روایات میں حجاج ومعتمرین کے اِس عمل کے مشروع اور پسندیدہ ہونے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ سنت کی رو سے حج وعمرہ کی عبادات میں مشروع طریقہ اصلاً یہ ہے کہ آدمی حج کے لیے اپنے وطن سے الگ سفر کرے اور عمرہ کے لیے الگ۔ دْور دراز سے آنے والوں کے لیے یہ حکم زحمت کا باعث ہوسکتا تھا،چنانچہ اِسی بنا پر اللہ تعالٰی نے اْنہیں اجازت دی ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے حج کے سفر میں عمرہ بھی ادا کرلیں۔ تاہم اِس رخصت سے فائدہ اْٹھانے کی بنا پر قرآن کی رو سے اْنہیں قربانی یا روزوں کی صورت میں فدیہ ادا کرنا ہوگا (البقرہ 196:2)۔

 قرآن کے اِس حکم سے اللہ تعالٰی کا یہ منشا بالکل واضح ہے کہ اِن عظیم عبادات کی ادائیگی کا اصل اور افضل طریقہ یہی ہے کہ آدمی اِن میں سے ہر کے لیے الگ سے عزمِ سفر کرے۔ اور فدیے کے حکم سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے جب حج کے سفر میں ایک عمرہ ادا کرنے پر فدیہ عائد کردیا ہے تو پھر اْس پروردگار کے نزدیک ایک سفر میں متعدد بار عمرہ کرنا کوئی پسندیدہ عمل کیسے ہوسکتا ہے!۔

 پھر جب اللہ تعالٰی کے نزدیک ایک عمل پسندیدہ نہیں ہے تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اْس کا رسول اْس عمل کو انجام دے یا اْسے دین میں پسندیدہ قرار دے۔ چنانچہ ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور حج وعمرہ کے باب میں آپ کے اْسوہ کی روایتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حج یا عمرہ کے کسی سفر میں حدودِ حرم سے باہر جاکر کبھی کوئی عمرہ کیا ہے،نہ آپ نے اِسے مسلمانوں کے لیے کسی پسندیدہ عمل کی حیثیت سے کبھی بیان ہی فرمایا ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نفلی عمرے کے لیے مکہ مکرمہ سے باہر نکلنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔سیدہ عایشہ کو بھی آپ نے خود اِس کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ بلکہ اْن کی مراجعت (اور اصرار) پر تالیف قلب کے لیے آپ نے اْنہیں اِس کی اجازت دی تھی۔ (الاختیارات العلمیۃ،ابن تیمیۃ،ص۹۱۱)۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح آج کل بہت سے لوگ مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر عمرہ کرتے ہیں؛نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس طرح عمرہ کرنا عمر بھر میں ایک بار بھی کبھی صادر نہیں ہوا۔ بلکہ آپ نے تو اپنے تمام عمرے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے ہی کیے ہیں۔ یہاں تک کہ منصبِ رسالت کے بعد آپ تیرہ سال مکہ ہی میں مقیم رہے ، لیکن سارے عرصے میں بھی یہ بات کہ آپ نے مکہ سے باہر نکل کر کوئی عمرہ کیا ہو، قطعاً کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔ (زاد المعاد،ابن القیم،86/2)

دار الھجرت مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار مرتبہ عمرے کا قصد کیا۔ جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :

پہلی مرتبہ 6 ھجری میں آپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ عمرے کا سفر کیا۔ تاہم حدیبیہ کے مقام پر مشرکین نے آپ کو روک لیا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے صحابہ اْس سال اپنے عمرے کو اتمام تک نہیں پہنچا سکے۔ بلکہ حدیبیہ ہی کے مقام اپنے ھدی کے جانور ذبح کر کے آپ اور آپ کے صحابہ نے اپنے سر منڈوائے اور اِس طرح حالتِ احرام سے نکل آے۔

عمرے کا دوسرا سفر آپ نے اگلے سال 7 ھجری میں کیا۔ اْس سال آپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا کیا اور تین دن مکہ میں قیام کر کے واپس مدینہ روانہ ہوئے۔

مدینہ سے تیسرا عمرہ آپ نے 8 ھجری میں جعرانہ کی میقات سے کیا۔ عمرہ کے لیے یہ تینوں اسفار ہر سال آپ نے ذو القعدہ ہی کے مہینے میں کیے تھے۔

آخری عمرہ آپ نے 10 ھجری کو حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے ادا کیا۔(زاد المعاد،ابن القیم:93-90/2)

عمرے کے اِن تمام اسفار میں کوئی ایک سفر بھی ایسا نہیں ہے جس میں آپ نے یا آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم نے مکہ میں قیام کے دوران میں اْس سے باہر نکل کر کوئی عمرہ ادا کیا ہو۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ جب 8 ھجری کے ماہِ رمضان کے آخری ایام میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اپنے اْس سفر میں آپ اْنیس دن مکہ میں مقیم رہے (بخاری،رقم:4298)،لیکن حدود حرم سے باہر جاکر اْس موقع پر بھی کوئی عمرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا،نہ آپ کے صحابہ نے۔ اِس طرح عمرہ کرنا دین میں اگر کوئی مشروع اور پسندیدہ عمل ہوتا تو آپ کے اْسوہ یا آپ کے ارشادات میں اِس کے شواھد ہمیں ضرور مل جاتے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ آپ کی نسبت سے اس عمل کا کوئی استناد کسی درجے میں بھی ثابت نہیں ہوتا۔ اور بالبداہت واضح ہے کہ عبادات کی نوعیت کا کوئی عمل اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے محروم ہے تو نہ صرف یہ کہ دینِ خداوندی میں اْسے کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوتی،بلکہ اْسے غیر مشروع اور بدعت ہی قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ محقق رائے یہی ہے کہ مکہ میں مقیم رہتے ہوئے حدودِ حرم سے باہر جاکر عمرہ کرنا قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْسوہ کی رو سے ایک خلافِ سنت عمل ہے۔ علمائے سلف میں سے یہی رائے امام ابن تیمیہ اور ابن قیم کی ہے (مجموع الفتاوی،ابن تیمیہ301-248/26۔زاد المعاد،ابن القیم:176,175,94/2)۔

بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس مسئلے میں سیدنا ابن عباس،سالم،عطا،طاووس اور مجاہد کی آرا بھی اِسی قول کی تائید کرتی ہیں (مصنف ابن ابی شیب?،رقم الباب515,480,50:)۔

عصر حاضر کے جلیل القدر علما میں سے امام ناصر الدین البانی،شیخ صالح العثیمین،شیخ خالد المصلح،شیخ محمد علی فرکوس کی بھی یہی رائے ہے۔

 مسئلہ زیر بحث سے متعلق اب محض ایک سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے سیدہ عائشہ نے حدودِ حرم سے باہر جاکر تنعیم کے علاقے سے احرام باندھ کر جو عمرہ کیا تھا؛اْس کی کیا حیثیت تھی ؟ اور اْس واقعہ سے کیا ثابت ہوتا ہے ؟

 اِس باب کی تمام روایتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ حجۃ الوداع کے اْس موقع پر مدینہ منورہ سے آپ کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوئی تھیں۔ پھر جب مکہ مکرمہ پہنچیں تو وہ ایام سے تھیں؛جس کی بنا پر اپناقصد کیا ہوا عمرہ وہ ادا نہ کرسکیں۔ اور نتیجتاً اْسی حالتِ احرام میں باقی رہیں،یہاں تک کہ ایام حج کا آغاز ہوگیا اور اْنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق تمام حجاج کے ساتھ اپنے اْسی احرام میں حج ادا کیا۔ حج کے بعد اْنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!کیا آپ سب حج وعمرہ دونوں کی ادائیگی کرکے لوٹیں اور میری واپسی صرف حج کے ساتھ ہو ؟آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:اے عائشہ! اللہ کے ہاں تمہیں بھی وہی کچھ ملے گا جو اِن سب کو ملے گا۔پھر سیدہ نے کہا:(اے اللہ کے رسول!)میرے دل میں یہ بات کھٹک رہی ہے کہ میں حج کرنے تک بیت اللہ کا طواف تک نہ کرسکی تھی۔(چنانچہ سیدہ کے اصرار کو دیکھ کر)آپ نے اْن کے بھائی سے کہا:اے عبد الرحمٰن!تم اِنہیں لے کر جاؤ اور تنعیم سے لاکر عمرہ کراو۔ (مسلم، رقم:1211-1213۔بخاری،رقم :1560۔ابوداود، رقم:1785)

 اِن تمام تر تفصیلات کو پیش نظر رکھ کر ہم اگر سیدہ عائشہ کے عمرہ تنعیم کا اْس کے پورے پس منظر کے ساتھ تجزیہ کریں تو اْس سے مندرجہ ذیل اْمور ونتائج ثابت ہوتے ہیں :

ایک یہ کہ اِس عمرے کے لیے سیدہ عائشہ کو آپ سے اجازت لینی پڑی ہے۔ یہ اگر دین میں کوئی پسندیدہ اور مشروع عمل ہوتا تو آپ کو اجازت حاصل کرنے کی ہر گز کوئی ضرورت نہ پڑتی۔ دوسرے یہ کہ سیدہ کی طلبِ اجازت اور اْن کے اصرار کی وجہ اصلاً وہ عمرہ تھا جس کا احرام باندھ کر وہ مدینہ سے روانہ ہوئی تھیں؛لیکن اپنی نسوانی معذوری کی بنا پر اْسے ادا نہ کرسکی تھیں۔بالبداہت واضح ہے کہ اْن کے ساتھ یہ معاملہ اگر نہ ہوا ہوتا تو اِس عمرے پر اصرار اور اِس کا قصد وہ قطعاً نہ کرتیں۔ جیساکہ معلوم ہے کہ حجۃالوداع کے اْس موقع پر بشمول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی شخص نے مزید عمرہ کرنے کی کوئی خواہش تک ظاہر نہیں کی۔ پھر واقعہ یہ ہے کہ اْس موقع پر سیدہ عائشہ کے بھائی عبد الرحمٰن،جن کے ساتھ وہ تنعیم تک گئی ہیں؛اور جن کے لیے موقع تھا کہ صورتِ حال سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے وہ بھی مزید ایک عمرہ کرلیتے؛نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اْنہیں اِس عمرے کی کوئی ترغیب دی،نہ اپنی دینی بصیرت کی بنا پر خود اْنہوں نے اِسے کوئی عملِ مشروع سمجھا۔چنانچہ سیدہ کی رفاقت کے باوجود اْنہوں نے کوئی عمرہ ادا نہیں کیا۔

 تیسرے یہ کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس واقعہ سے زیادہ سے زیادہ یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ حج کے کسی سفر میں اگر کسی خاتون کو وہی صورتِ حال پیش آجائے جو سیدہ عائشہ کو پیش آئی تھی تو اْس کے لیے اِس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ حج کے بعد،قصد کیا ہوا اپنا عمرہ ادا کرلے۔ اِس واقعہ سے اِسی استنباط کی بنا پر امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ تنعیم کے عمرے کو "عمرۃ الحائض" کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی اِس عمرے کی اگر کوئی مشروعیت ہے تو محض اْس عورت کے لیے جو گھر سے نکلتے ہوئے اپنا قصد کیا ہوا پہلا عمرہ اپنی ماہواری کے شروع ہوجانے کی بنا پر حج سے پہلے نہ کرسکی ہو۔

 غرضیکہ اِس تمام بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک سفر میں جس طرح حج ایک ہی ہوا کرتا ہے،عمرہ بھی ایک ہی مشروع ہے۔ اِس کے برخلاف عمل کرنا خلافِ سنت ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

 جواب : حالتِ احرام میں قربانی کا جانور مْحرِم کا اپنا ہو یا کسی دوسرے کا؛اْسے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حالتِ احرام میں قربانی کے علاوہ بھی اگر ضرورت پیش آجائے تو آدمی اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کرسکتا ہے۔ شریعت میں اِس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ مْحرِم کے لیے اِس باب میں جو چیز ممنوع ہے،وہ جانور ذبح کرنا نہیں ہے،بلکہ شکار کھیلنا ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : اِس طرح کی صورت حال کسی خاتون کو خواہ حج میں پیش آئے،خواہ عمرہ میں؛احرام باندھنے سے پہلے پیش آئے یا اْس کے بعد؛بہرحال وہ احرام کی تمام پابندیوں کا لحاظ رکھے گی،تلبیہ پکارے گی،دیگر حجاج ہی کی طرح تمام مناسک ادا کرے گی اور دعا ومناجات بھی کرے گی۔ تاہم شریعت کی رو سے یہ واضح رہے کہ اِس حالت میں خواتین جس طرح نماز سے مستثنٰی ہوتی ہیں،اْسی طرح وہ نماز کی جگہوں یعنی مساجد میں بھی حاضر نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر حج وعمرہ کی عبادات میں خواتین اِس حالت میں اْن مناسک کو بھی ادا نہیں کرسکتیں جو مسجدِ حرام میں ادا کیے جاتے ہیں۔ اور وہ دو ہی مناسک ہیں :ایک بیت اللہ کا طواف دوسرے صفا ومروہ کی سعی ۔اِن کے سوا باقی تمام مناسک وہ دیگر حجاج ومعتمرین ہی کی طرح ادا کریں گی۔ طواف اور سعی کو اْنہیں بہرحال پاکیزگی کی حالت لوٹ آنے تک موخر کرنا ہوگا۔صفا ومروہ کی پہاڑیوں اور اْن کے احاطے کو جس زمانے تک مسجدِ حرام میں شامل نہیں کیاگیا تھا،اْس وقت تک عورتوں کو ایام کی اِس حالت میں سعی کی اجازت بھی حاصل تھی؛جیساکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب سیدہ عایشہ رضی اللہ عنھا ایام سے تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اْن سے فرمایا : تم اِس حالت میں سوائے طواف کے،حج کے تمام مناسک ادا کرسکتی ہو۔(بخاری،رقم:294۔مسلم،رقم:1211)

(مولانا عامر گزدر)

جواب : حج وعمرہ کے احرام کے موقع پر پاک وہند میں عام طور پر دو رکعت نماز کی ادائیگی کو مسنون اور منجملہ مناسک سمجھا جاتا ہے۔ تحقیق کی رو سے خاص طور پر احرام سے متعلق اِس طرح کی کوئی نماز شریعت میں مقرر کی گئی ہے،نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد یا آپ کے اْسوہ سے اس طرح کا کوئی عمل ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اِس کی اصلاح کرلینی چاہیے۔ آدمی اگر چاہے تو بغیر کسی نماز کے حج یا عمرہ کی نیت کر کے حالتِ احرام میں داخل ہوجائے۔ اور وہ چاہے تو اْس موقع پر اگر کسی فرض نماز کا وقت ہو تو اْس سے فارغ ہوکر تلبیہ کا آغاز کرلے ؛ جیساکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے (مسلم ، رقم : ۸۱۲۱)۔ تاہم حدیث وسنت کی رو سے خاص اِس موقع کی کوئی نماز شریعتِ مناسک کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جاسکتی۔

(مولانا عامر گزدر)

 جواب : سود قرض پر اْس معین اضافے کو کہتے ہیں جسے قرض دینے والا اپنے مقروض سے محض اِس بنا پر وصول کرتا ہے کہ اْس نے ایک خاص مدت کے لیے اْسے روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔قرآن مجید نے اِسے پوری شدت کے ساتھ ممنوع قرار دیا ہے۔(البقرہ:۵۷۲،آل عمران:۰۳۱،الروم :۹۳) کسی ضرورت مند کو قرض دے کر اْس کی مدد کرنا منجملہ اعمالِ صالحہ ہے۔ لیکن اْس پر معین اضافے اور منفعت کا مطالبہ کرنا؛اصل رقم کی واپسی کے علاوہ سود کا بار بھی مقروض پر ڈال دینا ایک ظلم اور اخلاقی نجاست ہے۔ چنانچہ اِسی بنا پر شریعت میں اِسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ اِس سے واضح ہوا کہ اس باب میں اصل جرم مقروض سے منفعت حاصل کرنا ہی ہے۔ تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو سود کی حرمت وشناعت کے باب میں شریعت کے اولیّن ماخذ قرآنِ مجید میں بھی جو کچھ بیان ہوا ہے،وہ تمام کے تمام "سود کھانے" ہی سے متعلق ہے۔ اِسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض صحیح احادیث میں بھی "سود کھانے" ہی کو ہلاک کردینے والے بعض کبائر میں شمار کر کے اْن سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے(ابوداود:2874۔ نسائی:3671)۔ یعنی بظاہر دو طرفہ عمل ہونے کے باوجود اِس باب میں اصل جرم "سود کھانے" ہی کو قرار دیا گیا ہے۔ "سود دینا" اصلاً زیر بحث ہی نہیں آیا ہے۔اِس پر ہر سوچنے سمجھنے والے کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ "سود کھانے" کی حرمت ومذمت جس طرح قرآنِ مجید اور بعض احادیث میں بیان ہوئی ہے؛اْسی طرح آخر "سود دینے" کے عمل کو قرآن نے موضوع کیوں نہیں بنایا ؟

 اِس سوال کو ہم جب تدبر کی نگاہ سے دیکھتے اور سود دینے اور لینے کے عمل کی نوعیتوں کا دقتِ نظر سے تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر اِن دونوں میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے واضح فرق ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ قرض دے کر اْس پر سود کا مطالبہ کرنا اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک ایسے شخص پر جو پہلے ہی ضرورت مند ہے؛اْس کی مدد کرنے کے بجائے،اْس پر مزید بوجھ ڈال دینے کی بنا پر ظلم ہے۔ اِس میں کسی مجبوری اور اضطرار کا ظاہر ہے کہ کوئی سوال نہیں ہے۔ چنانچہ اِسی بنا پر قرآن نے اِسے حرام قرار دیا ہے۔دوسری طرف "سود دینے" کے عمل کی نوعیت یہ ہے کہ یہ مقروض پر قرض کی اصل رقم کے علاوہ ایک مزید بار ہے،جس کے لیے کوئی شخص بھی اْس وقت تک آمادہ ہی نہیں ہوسکتا،جب تک کہ وہ کسی بھی درجے میں ضرورت مند،محتاج اور مجبور نہیں ہوجاتا۔ چنانچہ یہ "سود کھانے" کے مترادف ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اور اِسی بنا پر قرآنِ مجید اِس کی مذمت وشناعت کے بیان سے خاموش ہے۔تفہیمِ مدعا کے لیے اِس بات کی تفصیلِ مزید اِس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ "سود دینے" کی ضرورت اور مجبوری انسان کو ہمیشہ دو وجوہات کی بنا پر لاحق ہوتی ہے :ایک یہ کہ وہ اپنی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے کی استطاعت نہ رکھنے کی بنا پر ضرورت مند اور محتاج ہوجائے۔ دوسرے یہ کہ معاشرے میں فرد یا ادارے کی سطح پر کوئی اْس کی مدد کرنے والا یا محض قرض دینے والا بھی نہ ہو۔چنانچہ اِس طرح کی صورت حال میں اْس کی وہ ضرورت اگر ناگزیر ہو تو اپنے حالات کی بنا پر لامحالہ وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ ایسے افراد یا اداروں سے رجوع کرے جو سود لیے بغیر اْس کی کسی بھی طرح کی مدد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اور ایسی صورت میں اْس کے لیے واحد یہی راستہ باقی رہ جاتا ہے،جسے اختیار کیے بغیر اْس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اِس تفصیل سے بھی واضح ہوا کہ "سود دینے والا" اور "لینے والا"؛دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ بلکہ سود خور ظلم پر قائم ہے اور مقروض بہرحال مظلوم اور حالات سے مجبور ہے۔ چنانچہ دین میں دونوں کا حکم یکساں کیسے ہوسکتا ہے ؟ اور یہ بات بھی جان لینی چاہیے ہے کہ قرآنِ مجید میں انسانی حالات کی رعایت سے "رفعِ حرج"،یعنی بندوں سے حرج اور تنگی کو دور کرنے کے مندرجہ ذیل واضح اْصول بیان ہوئے ہیں:

۱۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : "وَمَا جَعَلَ عَلَیکْم فِی الدِّینِ مِن حَرَجٍ"۔

"اور اْس پروردگار نے اپنے دین میں تم پر کوئی حرج اور تنگی نہیں رکھی"۔ (الحج78:22)

۲۔ اِسی طرح ارشاد فرمایا ہے :" لاَ یْکَلِّفْ اللہْ نَفسًا اِلاَّ وْسعَھَا"۔

"اللہ کسی نفس پر اْس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا"۔ (البقرہ286:2)

 انسانی مجبوری اور حالتِ اضطرار کو پیش نظر رکھ کر ہم اگر اسلامی شریعت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا اْصولوں ہی کے تحت انسانی حالات کی رعایت سے خود اللہ تعالٰی نے بھی اپنی شریعت کے بعض اْن ابدی احکام میں بھی،جن کی حیثیت اہل ایمان کے لیے بنیادی فرائض کی ہے؛اپنے بندوں کے لیے رخصتیں عنایت فرمائی ہیں۔ اور اِس طرح کے کئی احکام اپنے ماننے والوں کے لیے خود بیان کردیے ہیں۔رخصت کے اْن احکام کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں :

1۔ ماہِ رمضان میں مسلمانوں پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔تاہم آدمی اگر بیمار ہو یا اپنی کسی ضرورت سے حالتِ سفر میں ہو تو اْس صورت میں اْس کے لیے روزہ رکھنا چونکہ باعث مشقت ہوسکتاہے،چنانچہ قرآن نے مسلمانوں کو رخصت دی ہے کہ وہ چاہیں تو ایسے ایّام میں روزہ نہ رکھیں۔ روزوں کی تعداد بعد میں پورا کرلیں۔اِس پر کوئی حرج نہیں ہے۔ (البقرہ185:2)

2۔ نماز کے لیے پانی سے وضو کرنا اْس کی لازمی شرط ہے۔ تاہم پانی سے وضو کرنا کسی موقع پر آدمی کے لیے ممکن نہ رہے تو قرآنِ مجید کی رو سے وہ تیمّم بھی کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں وضو نہ کرنے کی بنا پر اْس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ (المائدہ6:5)

3۔ پانچ وقت کی لازمی نمازوں کی رکعتیں شریعت میں متعین ہیں۔ لیکن آدمی اپنی کسی ضرورت سے حالتِ سفر میں ہو تو وہ نماز کی فرض رکعتوں میں کمی(قصر) بھی کرسکتا ہے۔ اِس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ (النسا 101:4) ۴۔ خور ونوش کے باب میں مردار،خون،سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ شریعت اسلامی میں حرام قرار دیا کیا گیا ہے۔اِس کے باوجود آدمی اگر کسی موقع پر حالتِ اضطرار میں ہو اور اْس کے لیے اپنی جان بچانا مشکل ہوجائے۔ اور اِن مْحرَّمات کے استعمال کے سوا اْس کے پاس کوئی چارہ نہ رہے تو اْس صورت میں آدمی بقدر ضرورت اِن اشیا کا استعمال کر کے بھی اپنی جان بچا سکتا ہے۔اِس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ (البقرہ173:2)5۔ اپنے ایمان کی گواہی دینا اور اْس کا اظہار کرنا دین میں ایک ایسا بنیادی عمل ہے کہ جس کی بنا پر آدمی اِس دنیا میں مسلمان کی حیثیت اور شناخت پاتا ہے۔ تاہم اپنے ایمان کی بنا پر کسی خطہ زمین میں آدمی کو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اْس کے لیے اپنی جان بچانا مشکل ہوجائے تو شرح صدر کے ساتھ سچے ایمان پر قائم رہتے ہوئے وہ اِس طرح کی صورتِ حال میں اگر اظہارِ کفر بھی کرلے تو اِس پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہے۔(النحل106:16)غرضیکہ اِس تمام تر تفصیل کو پیشِ نظر رکھ ہر صاحبِ عقل اِس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے کہ جس پروردگار نے اپنی شریعت کے فرائض وواجبات میں اپنے بندوں کے لیے اْن کے حالات کی رعایت سے اتنی رخصتیں رکھی ہیں،وہ ایک مقروض اور مظلوم کی مجبوری کو یکسر نظر انداز کرکے اپنے دین میں اْس کے لیے کیسے تنگی پیدا کرسکتا ہے ؟ اور معلوم ہے کہ اْس پروردگار نے ایسا نہیں کیا،بلکہ اصل جرم ہی سے پوری شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔سود دینے والا اگر بغیر کسی حقیقی عذر کے یہ کام کر رہا ہے یا سود خود کے ایجنٹ اور معاونین ہیں تو وہ تَعاوْن عَلی الاِثم کے اْصول پرگناہ گار ٹھیریں گے ۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب :زمین وآسمان اورجوکچھ اس میں ہے سب کا سب اللہ تعالی کے حکم سے اپنی جگہ پر قائم ہے حتی کہ وہ چٹان بھی جس کے بارہ میں سوال کیا گیا ہے ، اللہ تبارک وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے : ‘‘ بلاشبہ اللہ تعالی ہی آسمان وزمین کوتھامے ہوئے ہے کہ وہ نہ گریں ، اوراگر وہ گر جائیں تواس کے بعد کوئی اورانہیں تھام ہی نہیں سکتا ۔’’ اور اللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا : ‘‘اوراس ( اللہ تعالی ) کی نشانیوں میں سے ہی ہے کہ آسمان وزمین اس کے حکم سے قائم ہیں ۔’’ بیت المقدس کی چٹان ہوا میں معلق نہیں کہ اس کے ہرطرف خلا ہو بلکہ وہ ابھی تک پہاڑ والی جانب سے پہاڑ کے ساتھ ملی ہوئی ہے اوروہ اپنے پہاڑ کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ پہاڑ اورچٹان دونوں عادی اورکونی اسباب کے ساتھ اپنی جگہ پرقائم ہیں اور یہ اسباب سمجھ میں بھی آنے والے ہیں ، پہاڑ اورچٹان کی حالت بھی کائنات کی دوسری اشیا کی طرح ہی ہے۔ لیکن ہم اللہ تعالی کی قدرت کا انکارنہیں کرتے کہ وہ فضا میں کائنات کی کسی چیز کا کوئی جزپکڑکرمعلق کردے ، اورپھرسب کی مخلوقات تواللہ تعالی کی قدرت سے فضا میں قائم ہیں جس کا ذکراوپر بھی گذر چکا ہے۔ قوم موسیٰ نے جب شریعت پرعمل کرنا چھوڑ دیا تواللہ تعالیٰ نے ان پرطورپہاڑکو اٹھا دیا جو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے معلق تھا ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ‘‘اورجب ہم نے تم سے وعدہ لیا اورتم پر طورپہاڑ کواٹھا کرکھڑا کردیا اور کہا کہ جو ہم نے تم کو دیا ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور جوکچھ اس میں ہے اسے یادکرو تاکہ تم بچ سکو (البقرۃ ( 63 )۔’’ اورفرمان باری تعالی کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے : ‘‘ اوروہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ اٹھا کرسائبان کی طرح ان کے اوپرمعلق کردیا اوران کو یقین ہوگیا کہ اب ان پر گرا ( اورہم نے کہا ) کہ جو کتاب ہم نے تم کودی ہے اسے مضبوطی سے تھام لواور اس میں جوکچھ احکام ہیں انہیں یاد کروتوقع ہے کہ تم اس سے متقی بن جاؤ گے (الاعراف )( 171 )۔’’

المختصر، جوچٹان بیت المقدس میں ہے وہ ہر جانب سے فضا میں معلق اورپہاڑسے کلی طور پرعلیحدہ نہیں بلکہ ایک طرف سے پہاڑکے ساتھ منسلک اورچمٹی ہوئی ہے۔

(عبداللہ صالح المنجد)

 جواب :عربوں میں کچھ نہ کچھ دین ابراھیم کی رمق باقی تھی اور یہودیوں اورعیسائیوں کے ساتھ ان کے تعلقات بھی تھے۔ لیکن جو مشکل پائی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے ساتھ اور بھی الہٰ اورمعبود بنا رکھے تھے جن کی عبادت کی جاتی تھی ، اورپھر وہ ان بتوں اورغیراللہ کی عبادت اس دلیل اورحجت پرنہیں کرتے تھے کہ وہ رب اورخالق ورازق ہیں بلکہ وہ انہیں اللہ تعالی اور اپنے درمیان واسطہ قرار دیتے اوروہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوتا ہے اور اسی لیے اللہ تعالی نے ان کے بارہ میں فرمایا : ‘‘اوراگرآپ ان سے یہ سوال کریں کہ انہیں پیدا کرنیوالا کون ہے تو یہی کہیں گے کہ اللہ تعالی پیدا کرنے والے ہے ۔’’ تویہ بات ان کے اس اعتراف پر دلالت کرتی ہے کہ خالق اللہ تعالی ہے ، اور ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا: ‘‘ اوراگر آپ ان سے یہ سوال کریں کہ آسمان وزمین کس نے پیدا کیے ہیں ؟ توضرور یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی نے ۔’’ اوراسی طرح اوربہت سی ایسی آیات ہیں جو اس پردلالت کرتی ہیں کہ وہ توحید ربوبیت پرایمان رکھتے تھے ، لیکن ان کا شرک توحید الوہیت میں تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے مندرجہ ذیل فرمان میں ذکر کیا ہے : ‘‘اورجن لوگوں نے اللہ تعالی کے سوا اولیابنا رکھے ہیں ( وہ کہتے ہیں ) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ( بزرگ ) اللہ تعالی کے قرب کے لیے ہماری رسائی کروا دیں ۔’’یعنی وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ تواس بنا پراللہ تعالی نے انہیں مشرک اورکافرقرار دیا کیونکہ توحید ربوبیت کا اقرار ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ توحید الوہیت اورتوحید اسما و صفات پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔

(عبداللہ صالح المنجد)

جواب :مسجد اقصی قبلہ اول اور ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفرکر کے جانا جائز ہے ، کہا جاتا ہے کہ اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ جیسا کہ سنن نسائی ( 693 )میں حدیث موجود ہے اوراسے علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔اورایک قول یہ ہے کہ پہلے سے موجود تھی توسلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی تھی اس کی دلیل صحیحین میں ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام ( بیت اللہ ) تومیں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : مسجد اقصی ، تومیں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3366 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 520 )۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کورات کے ایک حصہ میں بیت المقدس کی سیر کرائی گئی اوراس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے انبیا علیہم السلام کونماز پڑھائی۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے معراج کا واقعہ ذکرکرتے ہوئے فرمایا ہے : ‘‘پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے (الاسرا) ( 1 )۔ ’’

اورقبہ صخرہ توخلیفہ عبدالملک بن مروان نے ( 72 ھ ) میں بنوایا تھا۔ فلسطینی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ : مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدس پر ہوتاتھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبہ صخرہ جسے عبدالملک بن مروان نے 72 ھجری الموافق 691 میں بنوایا تھا جوکہ اسلامی آثارمیں شامل ہوتا ہے ، اورآج یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد پر بولا جاتا ہے۔ دیکھیں : الموسوعہ الفلسطینی? ( 4 / 203 )۔ اوراسی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ : مسجد اقصی کے صحن کے وسط اور قدس شہرکے جنوب مشرقی جانب یہ قبہ بنایا گیا ہے جو کہ ایک وسیع وعریض اور مستطیل شکل کا صحن جس کی مساحت شمال سے جنوب کی جانب تقریبا 480 میٹر اورمشرق سے مغرب 300 میٹربنتی ہے، اوریہ پرانے القدس شہر سے تقریبا پانچ گناہ زیادہ ہے۔ یہ عبارت کچھ کمی بیشی کے ساتھ پیش کی گئی ہے ، دیکھیں الموسوعہ الفلسطینی? ( 3 / 23 )۔

تووہ مسجد جوکہ نمازکی جگہ ہے وہ قبہ صخری نہیں ، لیکن آج کل قبہ کی تصاویرمنتشر ہونے کی بنا پراکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہیں ، حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں ، مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں واقع ہے اورقبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر۔ اوریہ بات تواوپربیان کی چکی ہے کہ زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پرہو تا تھا۔ اس کی تائید شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ : مسجد اقصیٰ اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سیلمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصیٰ کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ اس لیے کہ جب عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تواس وقت اونچی جگہ ( قبہ صخرہ ) پرزیادہ گندگی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی اس طرف نماز پڑھتے تھے تواس کے مقابلہ میں عیسائی اس جگہ کی توہین کرتے ، تو عمررضی اللہ تعالی عنہ نے اس گندگی کوصاف کرنے کا حکم صادر فرمایا ، اورکعب رضی اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے :

تیرے خیال میں ہمیں مسلمانوں کے لیے مسجد کہاں بنانی چاہیے ؟ ، توکعب رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا : کہ اس اونچی جگہ کے پیچھے ، توعمررضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے ، اویہودی ماں کے بیٹے ! تجھ میں یہودیت کی ملاوٹ ہے ، بلکہ میں تواس کے آگے بناؤں گا اس لیے کہ ہماری مساجد آگے ہوتی ہیں۔ دیکھیں : الرسائل الکبری لشیخ الاسلام ( 2 / 61 )۔

تویہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصیٰ بیت المقدس میں داخل ہوکرنماز پڑھتے تو اسی جگہ پرپڑھتے تھے جسے عمررضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیرکیا تھا ، اوراس اونچی جگہ ( گنبدوالی ) کے پاس نہ توعمراور نہ ہی کسی اورصحابی رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اورنہ ہی خلفائے راشدہ کے دور میں اس پرقبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمراورعثمان ، علی ، اورمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور یزید اورمروان کے دور حکومت میں یہ جگہ بالکل کھلی تھی۔

اورنہ ہی صحابہ کرام اورتابعین عظام میں کسی نے اس قبہ کی تعظیم کی اس لیے کہ یہ قبلہ منسوخ ہوچکا ہے ، اس کی تعظیم توصرف یہودی اورعیسائی کرتے ہیں ، اس کا معنی یہ نہیں کہ ہم مسلمان اس کی تعظیم نہیں کرتے بلکہ ہم اسے وہ تعظیم دیتے ہیں جوہمارے دین میں ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے جس طرح کہ ہر مسجد کوتعظیم دی ہے۔

اورعمررضی اللہ تعالی عنہ نے جوکعب رضی اللہ تعالی عنہ کی بات کا انکارکیا اورانہیں اے یہودی ماں کے بیٹے کہا تو یہ اس لیے تھا کہ کعب رضی اللہ تعالی عنہ اسلام سے قبل یہودی علمامیں سے تھے جب انہوں نے عمررضی اللہ تعالی عنہ کواس اونچی جگہ کے پیچھے مسجد بنانے کا مشورہ دیا تواس میں اس چٹان کی تعظیم ہوتی کہ مسلمان نماز میں اس کی طرف منہ کرکے نمازادا کریں ، اور اس چٹان کی تعظیم تو یہودیوں کے دین میں ہے نہ کہ مسلمانوں کے دین اسلام میں۔ مسلمانوں کا قبے کو ہی مسجد اقصیٰ سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تصویروں میں اسے اچھی عمارت وہئیت میں دیکھا ہے ، تویہ اس غلطی کوختم نہیں کرسکتا جوکہ مسجد اقصی اورقبہ کی تمیزمیں پیدا ہوچکی ہے۔ اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یہودی سازش کا نتیجہ ہو تا کہ ان کے اس قبہ کی تعظیم کی جانی لگے اور وہ اس کی جانب ہی متوجہ ہوجائیں ، یا پھر یہ کہ اس قبے کا اظہار اس لیے کیا جارہا ہے تا کہ مسجد اقصی کوختم کرکے ہیکل سلیمانی قائم ہوسکے۔

اوریہ سب کچھ اس لیے ہے کہ مسلمان یہ گمان کرنے لگیں کہ یہ قبہ صخرہ ہی مسجداقصیٰ ہیں ، اوراگر یہودی اصلی مسجداقصیٰ کومنہدم کرنے لگیں تومسلمانوں کے شوروغوغا کرنے پر انہیں یہ کہا جاسکے کہ یہ دیکھیں مسجد اقصیٰ تو اپنی حالت پرقائم ہے اور اس کی دلیل میں وہ تصویریں پیش کریں تواس طرح وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے اورمسلمانوں کے غیظ وغضب اورتنقید سے بھی بچ جائیں گے۔

(عبداللہ صالح المنجد)

 جواب :چانداورستارہ مسلمانوں کی علامت بنانے کی شریعت اسلامیہ میں کوئی اصل نہیں اور نہ ہی یہ دورنبوی اورخلفائے راشدین کے دور میں معروف تھا ، بلکہ بنو امیہ کے دورمیں بھی موجود نہیں تھا ، یہ توان ادوار کے بعدکی پیدوار ہے ، مؤرخین اس بارہ میں اختلاف کرتے ہیں کہ اس کی ابتدا کب اورکیسے ہوئی اورکس نے اسے شروع کیا۔ ایک قول تو یہ ہے کہ یہ فارسیوں نے شروع کیا ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے شروع کرنے والے اغریق تھے اوربعد میں یہ کچھ حادثات میں مسلمانوں میں منتقل ہوا۔ دیکھیں : الترتیب الاداریہ للکتانی ( 1 / 320 )۔ اوراس کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب مسلمانوں نے مغربی ممالک کوفتح کیا توان کے کنیسوں میں صلیب لٹک رہی تھی تومسلمانوں نے اس صلیب کے بدلہ میں ہلال رکھ دیا تواس بنا پریہ لوگوں میں منتشر ہوگیا۔ سبب جوبھی ہو معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے جھنڈے اورشعار سب کے سب شریعت اسلامیہ کے موافق ہونے ضروری ہیں ، اورجب کہ ہلا ل کے شعار ہونے پرکوئی شرعی دلیل نہیں ملتی۔اگرچہ مسلمانوں نے اسے اپنا رکھا ہے۔ اوررہا مسئلہ چاند ستاروں میں اعتقاد کا تومسلمانوں کا یہ اعتقاد ہے کہ یہ اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ذاتی طور پرنہ توکسی کونفع دے سکتے اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں اورنہ ہی زمینی احداث میں ان کی کوئی تاثیر ہی ہے ، یہ تو صرف اللہ تعالی نے بشروانسان کے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ، اسی کو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے : ‘‘آپ سے ہلا ل کے بارہ میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجیے یہ تولوگوں کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہیں ۔ البقرۃ( 189 )۔’’ اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا : ‘‘ہم نے رات اوردن کواپنی قدرت کی نشانیاں بنایا ، رات کی نشانی کوتوہم نے بے نور کردیا اوردن کی نشانی کوروشن بنایا ہے تا کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور اس لیے بھی کہ سالوں کا شمار اورحساب معلوم کرسکو ۔ الاسرا( 12 )۔’’

اورستاروں کے بارہ میں علما نے کہا ہے کہ اللہ تعالی نے ستاروں کوتین مقاصد کے لیے پیدا فرمایا ہے ، انہیں آسمان کی زینت بنایا ، اورشیاطین کورجم کرنے کے لیے ، اور ایسی علامتیں بنایا جن سے راستہ معلوم کیا جاتا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے صحیح بخاری کتاب بد الخلق میں کہا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ‘‘اوروہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کوپیدا کیا تا کہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں اورخشکی میں اورسمندر میں راستہ معلوم کرسکو ۔ الانعام ( 97 )۔’’ اوراللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

‘‘ بلاشبہ ہم نے آسمان دنیا کوچراغوں ( ستاروں ) سے مزین کیا ہے اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنادیا اورشیطانوں کے لیے ہم نے دوزخ کا عذاب تیار کیا ہے۔ الملک ( 5 )۔’’

(عبداللہ صالح المنجد)

جواب :جنبی شخص کے لیے نماز ادا کرنے سے قبل غسل کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ‘‘اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اور طہارت اختیار کرو۔’’ اور اگر پانی کی غیر موجودگی یا پھر کسی عذر (مثلاً پانی استعمال کرنے میں بیماری کو ضرر ہو یا پھر شدید سردی میں پانی استعمال کرنے سے بیماری میں اور اضافہ ہونے کا خدشہ ہو ، یا پانی گرم کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو ) کی بنا پر پانی استعمال کرنے سے عاجز ہو تو غسل کی جگہ تیمم کرسکتا ہے کیونکہ فرمان باری تعالی ہے : ‘‘اور اگر تم مریض ہو یا مسافر یا تم میں سے کوئی ایک قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو یاپھر تم نے بیوی سے جماع کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاکیزہ اور طاہر مٹی سے تیمم کر لو۔’’ اس آیت میں دلیل ہے کہ جو مریض شخص پانی استعمال نہ کرسکتا ہو یا پھر اسے غسل کرنے سے موت کا خدشہ ہو یا مریض زیادہ ہونے کا یا پھر مرض سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا، تو وہ تیمم کر لے۔’’ اس تشر یع کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘اللہ تعالی تم پر کوئی تنگی نہیں کرنا چاہتا لیکن تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ المائدہ 6 ۔’’ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ‘‘غزوہ ذات سلاسل میں شدید سرد رات میں مجھے احتلام ہو گیا ، اس لیے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا توہلاک ہو جاؤں گا ۔ اس لیے میں نے تیمم کر کے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھا دی چنانچہ انہوں نے اس واقعہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : ‘‘اے عمرو! کیا آپ نے جنابت کی حالت میں ہی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی تھی؟ ’’ چنانچہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل میں مانع چیز کا بتایا اور کہنے لگا کہ میں نے اللہ تعالی کا فرمان سنا ہے : ‘‘اور تم اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرویقینا اللہ تعالی تم پر رحم کرنے والا ہے۔ النسا 29 ۔ ’’ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے اورکچھ بھی نہیں فرمایا۔ ’’ سنن ابو داؤد حدیث نمبر 334 علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابو داؤد میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ‘‘ اس حدیث میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ سردی وغیرہ کی بنا پر اگر پانی استعمال کرنے سے ہلاکت کا خدشہ ہو تو تیمم کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح تیمم کرنے والا شخص وضو کرنے والوں کی امامت بھی کروا سکتا ہے۔’’ دیکھیں فتح الباری (454/1) اور شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: ‘‘اگر تو آپ گرم پانی حاصل کرسکیں یا پھرپانی گرم کرسکتے ہوں یا پھر اپنے پڑوسیوں وغیرہ سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ کے لیے ایسا کرنا واجب ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ‘‘اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو۔’’ اس لیے آپ اپنی استطاعت کے مطابق عمل کریں ، یا تو پانی گرم کر لیں یا پھر کسی سے خرید لیں یا پھر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ جس سے آپ پانی کے ساتھ شرعی وضو کرسکیں۔ لیکن اگر آپ ایسا کرنے سے عاجز ہوں اور شدید سردی کا موسم ہو اور اس میں آپ کو خطرہ ہو اور نہ ہی پانی گرم کرنے کی کوئی سبیل ہو اور نہ ہی اپنے اردگرد سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ معذور ہوں گے اور آپ کے لیے تیمم کرنا ہی کافی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ‘‘اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کا تقوی اختیار کرو۔’’ آپ کو چاہیے کہ جتنے جسم کا آپ غسل کر سکتے ہیں اس کا غسل کریں مثلا اگر آپ کے لیے کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو تو بازوؤں اور ٹانگیں وغیرہ جو کچھ دھو سکتے ہوں وہ دھو لیں اور پھر تیمم کرلیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کو جلد از جلد شفایاب کرے اور آپ کی بیماری کو آپ کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بنائے ۔ واللہ اعلم۔

(عبداللہ صالح المنجد)

 سوال :قرآن مجید میں آتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت وتبلیغ کا کام کیا۔ اب تک میرا خیال تھا کہ انسان کی اوسط زندگی اور قد کاٹھ ایک جیسا ہی ہے۔ دوچار انچ یا پانچ دس سال کا فرق تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن روایات میں جس طرح عوج بن عنق کے قد کاٹھ کے بارے میں جس طرح مبالغہ آرائی پائی جاتی ہے وہ حقیقت نظر نہیں آتی۔ چونکہ ان کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے اس لیے ہم آسانی سے اس کی تردید کر سکتے ہیں۔ لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کا ذکر قرآن مجید میں ہے جس کو ہم کسی قیمت نہیں جھٹلا سکتے۔ کیا حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے تمام افراد کی عمریں اتنی ہی تھیں؟ اس قوم کے قد کاٹھ ہمارے جیسے تھے یا ان کی نوعیت کچھ اور تھی۔ مجھے یاد پڑتاہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے بتاتے ہیں۔ چار پانچ ہزار سال انسانی تاریخ میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ بات کسی طور سمجھ میں نہیں آتی کہ صرف چار ہزار سال پہلے کسی کی عمر ہزار سال ہو۔ قرآن سے کسی اور پیغمبر کے بارے میں اس طرح کی بات معلوم نہیں ہوتی۔

جواب :حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ قبل تاریخ کا زمانہ ہے۔مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ بائیبل میں دیے گئے شجرہ نسب سے حضرت آدم اور حضرت نوح وغیرہ کے زمانے کا اندازہ لگانا درست نہیں ہے۔ اس شجرہ نسب میں وہی نام باقی رہ گئے ہیں جو بہت معروف ہوگئے تھے اور بیچ کی کئی نسلیں غائب ہیں۔ ان کے خیال میں یہ درحقیقت بڑے بڑے سرداروں کے نام ہیں۔ ایک اور دوسرے شخص کے بیچ میں ممکن ہے کئی سو برس کا فاصلہ ہو۔ ان کی اس رائے کو سامنے رکھیں جو واضح طور پر درست لگتی ہے تو حضرت نوح کے زمانے کے بارے میں کوئی اندازہ قائم کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اگر کوئی خارجی شواہد موجود ہوتے تو ہمیں کوئی رائے قائم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ لیکن حضرت نوح کے حوالے سے ایسے کوئی شواہد میرے علم کی حد تک ابھی تک نہیں ملے۔ اب ہمارے پاس واحد یقینی ذریعہ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید میں بھی صرف حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ہی کا ذکر ہے۔ کوئی اور بات اس زمانے کے انسانوں کے حوالے سے مذکور نہیں ہے۔ بائیبل کتاب پیدایش کے باب ۵ اور ۶ میں جو تفصیل منقول ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لمبی عمروں کا یہ سلسلہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ختم کر دیا گیا۔ قرآن مجید کے بیان کی روشنی میں ہم یہ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ بائیبل کا یہ بیان درست ہو۔ لیکن یقینی رائے کے لیے سائنسی شواہد کی دستیابی ضروری ہے البتہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں قرآن کا بیان حتمی ہے اور ان کے بارے میں ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی عمر یہی تھی۔ یہ سوال کہ اس زمانے کے لوگوں کے قد کاٹھ کیا تھے، اس کا واحد ماخذ اسرائیلی روایات ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس سلسلے میں جو کچھ مروی ہے وہ انھی روایات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ لہذا اس باب میں خاموشی ہی بہتر ہے۔ جو خارجی شواہد ابھی تک سامنے آئے ہیں ان سے تو قد کاٹھ کے بارے میں ان بیانات کی تائید نہیں ہوتی۔ لیکن قبل تاریخ کے انسان کے بارے میں ان تصورات کی قطعی تردید بھی شاید ابھی ممکن نہیں ہے۔ معلوم تاریخ کے انسان کی عمر اور قد کاٹھ کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ آج کے انسان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ خارجی شواہد یعنی عمارتیں اور دوسرے آثار سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا اس کی روشنی میں ہم قرآن کے بیان کی نفی کر سکتے ہیں۔ یقینا اس نفی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ قرآن کے بیان کو ماننے کے بعد ہم یہ اندازہ بھی قائم کر سکتے ہیں کہ ان کے زمانے میں عام عمریں بھی ایسی ہی تھیں۔ اس اندازے کی تائید بائیبل کے بیان سے بھی ہوتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کو ایک معجزہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ باقی رہا قد کاٹھ تو اس باب میں کوئی یقینی بات ہمارے پاس نہیں ہے۔ خارجی شواہد کی روشنی میں ہم ان اسرائیلی روایات کو رد بھی کر سکتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: نمازی کی سجدے تک کی جگہ سے گزرنا گناہ ہے۔ اگر اس نے اپنے آگے کوئی نشان قائم کر رکھا ہے تو اس کے پرے سے گزرا جا سکتا ہے ، خواہ وہ نشان ایک چھڑی کھڑی کر کے ہی قائم کیا گیا ہو۔ اگر ایسا کوئی نشان قائم نہ کیا گیا ہو تو سجدے کی جگہ چھوڑ کر گزرا جا سکتا ہے۔ اگر اتنا فاصلہ رکھا جائے جس سے نمازی کو کوئی الجھن پیش نہ آئے تو زیادہ بہتر ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :شدید مصروفیت کا لفظ درست نہیں ہے۔ سفر جس طرح قصر نماز کی رخصت کا باعث ہے اسی طرح سفرجیسی صورت حال جس میں آپ کے پاس بعض اوقات نماز پڑھنے کا موقع نہیں ہوتا دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔ لیکن گھر اور دفتر کی شدید مصروفیت نمازیں جمع کرنے کا سبب نہیں ہو سکتی۔ظہر اور عصر کی نمازیں جمع ہو سکتی ہیں اور مغرب اور عشا بھی جمع ہو سکتی ہیں۔ جمع کرنے میں ظہر کے وقت ظہر کے معاً بعد عصر یا عصر کے وقت عصر سے معاً قبل ظہر کو ملایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مغرب کے ساتھ عشا کو اور عشا کے ساتھ مغرب کو بھی ملایا جا سکتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب :اسلام میں داخل ہونے سے کیا مراد ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور ہمارے پاس ان سے دین سیکھنے اور جاننے کا براہ راست موقع ہو تو کسی فقہ کے ساتھ تمسک کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ عملاً معاملہ یہ ہے کہ ہم قرآن و سنت کے عالم ہوں تب بھی بہت سے معاملات میں ہمیں دوسرے علما کی رائے اور سوچ سے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ عام آدمی جو قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتا وہ علما کی آ را قبول کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رکھتا ۔ اس کو یہ مشورہ دینا مہلک ہے کہ تم براہ راست قرآن و سنت سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے اسے اختیار کرو اور کسی عالم کی را ئے اور تحقیق کیطرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھو۔ عام آدمی کو صحیح مشورہ یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت ہی کو دین کا ماخذ جانے اور علما سے اسی رائے کو قبول کرے جو اسے قرآن وسنت کے دلائل پر مبنی لگتی ہو۔ اگر کسی شخص کا اختلاف اس کے سامنے آئے تو وہ اس اختلاف کو اپنی استعداد کی حد تک دلائل ہی کی بنا پر رد کرے اور اس اختلاف کی حقیقت کو سمجھنے میں اپنے دینی رہنما سے مدد لے۔ لیکن اگر اسے محسوس ہو کہ اختلاف کرنے والے کی رائے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہے تو اسے اختیار کرے اور اپنے گروہ کے ساتھ وابستگی کو تعصب نہ بننے دے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اپنے گروہ کی رائے کے ساتھ اصرار اگر اللہ اور رسول کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ ہو تو مطلوب ہے۔ تقلید انسانی مجبوری ہے۔ اسے صرف اس وقت برا قرار دینا چاہیے جب یہ حق کے مقابلے میں کھڑی ہو جائے اور بندہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کر دے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :دنیا میں کامیابی یا فروغ پانا ہی اگر حق ہونے کی دلیل ہے تو وہ پیغمبر جنھیں ان کی قوموں نے جھٹلا دیا اور چند نفوس کے سوا کسی نے ان کی بات نہ سنی ان کے بارے میں دوسری رائے قائم کرنا پڑے گی۔ دنیا میں فروغ کے اسباب دوسرے ہیں۔ ہمارے مسلمانوں میں شرک کی بعض صورتیں رائج ہیں کیا رائج ہونے یااکثریت میں ہونے کی وجہ سے وہ بھی درست قرار پائیں گی۔ اس وقت بھی عیسائی مذہب کے ماننے والے سب سے زیادہ ہیں اور انھیں دنیاوی غلبہ بھی حاصل ہے۔ تثلیث کا عقیدہ ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ کیا یہ عقیدہ ان کی اس ترقی اور فروغ کی وجہ سے صحیح مان لیا جائے۔حق صرف وہ ہے جسے قرآن حق قرار دے۔ خواہ اس بات کو ماننے والا آدمی دنیا میں ایک ہو اور اس کی بات کو ساری دنیا رد کردے۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب :آپ کے سوالات کے حوالے سے میری گزارشات حسب ذیل ہیں:

کسی گروہ کو جو قطعی نصوص سے ثابت کسی امر کا منکر ہو، تاویل کی رعایت دیتے ہوئے تکفیر سے بچانے کا اصول بالکل درست ہے، تاہم اس کا عملی اطلاق کرتے ہوئے بہت سے دوسرے پہلووں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ قادیانیوں کے معاملے میں امت نے کم وبیش اجماعی طور پر اس اصول کے اطلاق کو درست نہیں سمجھا جس کے بنیادی وجوہ میرے فہم کے مطابق دو ہیں:

ایک یہ کہ تاویل کی رعایت علمی وعقلی طور پر اسی صورت میں دینی چاہیے جب اس بات کا کافی اطمینان ہو کہ منکر دیانت داری کے ساتھ غور کرتے ہوئے فی الواقع کسی شبہے کی وجہ سے انکار کر رہا ہے۔ مرزا غلام احمد کے معاملے میں یہ صورت نہیں پائی گئی۔ اول تو نبوت اور نزول وحی کا دعویٰ کرنا بذات خود ایک بہت بڑا جھوٹ اور افترا ہے۔ پھر مرزا صاحب کے ہاں کذب اور افترا اور اخلاقی بد دیانتی کی جو مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں ، وہ اس کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتیں کہ ان کے بارے میں کسی حسن ظن سے کام لیا جائے۔ مزید برآں کسی بھی گروہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تاویلات خود اپنی نوعیت کے لحاظ سے بھی یہ بتا دیتی ہیں کہ ان میں شبہے کا پہلوکتنا ہے اور عمداً تحریف کا کتنا۔ صدر اول میں جن گروہوں مثلاً جہمیہ وغیرہ اور بعد میں روافض کی تکفیر کے متعلق سلف نے عمومی طور پر جو احتیاط کی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ نصوص اور واقعات کی تعبیر میں عام انسانی نفسیات اور فہم کے اعتبار سے ایسی گنجائش محسوس کرتے ہیں جو ان گروہوں کے راہ راست سے بھٹکنے کا سبب بنی۔ خود قرآن نے یہود کے لیے'مغضوب علیہم' اور نصاریٰ کے لیے 'ضالین' کے الگ الگ الفاظ استعمال کر کے اس پہلو کو واضح کیا ہے اور کفر وضلالت میں دونوں گروہوں کے اشتراک کے باوجود قرآن کا لب ولہجہ یہود کے بارے میں بدیہی طور پر زیادہ سخت اور بے لچک، جبکہ نصاریٰ کے معاملے میں نسبتاً نرم ہے۔ قادیانی حضرات کی تاویلات کا معاملہ نصاریٰ سے زیادہ یہود سے مشابہت رکھتا ہے۔ مرزاصاحب اور ان کے حواریوں کی پیش کردہ تمام تاویلات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ نصوص کو خارج میں قائم کردہ ایک مفروضے کے اثبات کے لیے توڑنا مروڑنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے واضح ترین دلالتوں کو چھوڑ کر دور از کار تاویلات اور احتمالات کا سہارا لینے میں وہ کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ یہ ساری صورت حال میرے خیال میں اس کا سبب بنی ہے کہ علماے اسلام قادیانی گروہ کے معاملے میں تاویل اور شبہے کی وجہ سے عدم تکفیر کے اصول کا اطلاق کرنے پر مطمئن نہیں ہوئے اور ان کی تکفیر ہی پر امت کا اتفاق ہو گیا۔

دوسری اہم وجہ وہ اصول ہے جسے علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے اپنی تحریروں میں واضح کیا ہے۔ کسی گروہ کو تاویل کا فائدہ دینا اس لازمی شرط سے مشروط ہے کہ وہ گروہ امت مسلمہ کے بنیادی مذہبی تشخص سے ہٹ کر اپنے لیے کسی الگ مذہبی تشخص کا مدعی نہ ہو۔ دنیا کے مذاہب میں امت مسلمہ کا بنیادی مذہبی تشخص جو اسے سماجی اورمعاشرتی سطح پر دوسرے گروہوں سے ممتاز کرتا ہے، وہ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک دین کا واحد اور حتمی ماخذ ماننا۔ اگر کوئی گروہ ختم نبوت کے عقیدے میں تاویل کر کے ایک نئے مصدر اطاعت اور ماخذ ہدایت کی بنیاد پر اپنا الگ تشخص قائم کرتا ہے تو وہ غیر تشریعی، ظلی اور امتی نبی کی اصطلاحوں کا کتنا ہی سہارا لے، عملاً وہ اپنے آپ کو ایک نئے مرکز اطاعت سے وابستہ کر دیتا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے کے باوجود آپ کی تعلیمات کی تعبیر وتشریح میں وہ اس نئے مرکز اطاعت کو حتمی اتھارٹی کا درجہ دیتا ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی بات عملاً بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود قادیانی حضرات اپنے اس تصور کی رو سے مجبور ہیں کہ ایمان واسلام کے دائرے کو مرزا صاحب کے معتقدین تک محدود رکھتے ہوئے ان پر ایمان نہ رکھنے والی ساری امت مسلمہ کو 'کافر' شمار کریں۔

قادیانی گروہ کو قانونی طور پر مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم گروہ قرار دے دیے جانے سے امت مسلمہ کے تشخص اور اس کی اعتقادی حدود کی حفاظت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے البتہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قادیانی قیادت اور ان کے تاویلاتی جال میں پھنس جانے والے عام سادہ لوح مسلمانوں کو دعوت اور پیار سے واپس لانے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے مسلمان علما اور داعیوں کی ایک پوری جماعت تیار کی جائے

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب : درج ذیل اسباب کی بنا پر ایسا کرنا جائز نہیں۔اس طریقہ سے موسیقی لاؤڈ سپیکروں میں بجانا حرام ہے اس میں مومنوں کے لیے اذیت بھی ہے جو موسیقی سننے سے اذیت محسوس کرتے ہیں۔ ـ اس میں تکبر بھی پایا جاتا ہے ۔پھر ـ اس رواج میں سامان اور مہر میں زیادتی اور لوگوں سے آگے نکلنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے، اور یہ چیز شریعت مطہرہ کے مخالف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کی کمی اور شادی کے اخراجات میں آسانی کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔اس وجہ سے انسان اسراف و فضول خرچی میں بھی پڑ جائیگا جس سے اللہ سبحانہ و تعالی نے منع فرمایا ہے: فرمان باری تعالی ہے ۔اور تم اسراف و فضول خرچی مت کرو یقینا اللہ تعالی اسراف اور فضول کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا ۔ ـ یہ فعل ایسا ہے جس سے فقراء اور مسکین لوگوں کے دل ٹوٹ جائیں گے جو ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اتنا سامان نہیں دے سکتے۔ جب ایک فقیر اور مسکین و تنگ دست اپنی بچی کی شادی کریگا تو وہ غمگین رہے گا اور اس کا دل گھٹتا رہے گاکہ کاش وہ بھی اپنی بچی کو اس طرح سامان دیکھ سکتا۔اور پھر یہ خاندان کے درمیان بھی اختلافات اور جھگڑے کا سبب بن سکتا ہے، لڑکی اپنے والد سے بھی اتنا ہی سامان طلب کریگی جتنا کسی اور لڑکی کو دیا گیا لیکن اس کا والد ایسا نہیں کر سکیگا، یا پھر وہ ایسا کرنے پر راضی نہیں تو اس طرح جھگڑے اور اختلافات ہونگے۔ یہ فعل حسد و بغض کے دروازے کھولے گا، اور کمزور ایمان قسم کے لوگوں میں نفسیاتی پریشانی پیدا ہوگی۔ عقل و دانش والے لوگ اس طرح کی غلط عادت اور رسم و رواج کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور اس کا مقابلہ کریں، اور لوگوں کو قیمتی سامان اور شادی کے اتنے زیادہ اخراجات نہ کرنے کی ترغیب دلائیں، اور صرف اسی پر اکتفا کریں جو انسان کو ضرورت ہوتی ہیں۔

(عبداللہ صالح المنجد)

جواب :نکاح میں مہر کا ہونا ضروری ہے۔البتہ اس کی مقدار مقرر نہیں اور نہ ہی کوئی خاص قسم۔ حتی کہ ایک لوہے کی انگوٹھی کے عوض بھی نکاح ہو سکتاہے اور عورت کو قرآن مجید یا حدیث یا کوئی اور نفع مند علم سکھانے کے عوض نکاح کرنا بھی جائز ہے۔ اور جب انسان کسی عورت سے بغیر مہر شادی کرے تو اسے مہر مثل دینا ہو گا۔ مہر عورت کا حق ہے ۔اگر وہ خود مہر نہ لے اور اسے معاف کر دے تو یہ بھی صحیح ہو گا۔البتہ مہر مقرر کر نا ضروری ہے۔

(عبداللہ صالح المنجد)

جواب : شادی کی ضرورت ایک معتبر ضرورت شمار ہوتی ہے، اور بعض اوقات تو شادی کی ضرورت بالکل اس طرح ہوتی ہے جس طرح کھانے پینے اور رہائش کی ضرورت ہوتی ہے. اس لیے تنگ دست کی شادی کے لیے زکوۃ دینا جائز ہے ۔

(عبداللہ صالح المنجد)

جواب :مہر خاص بیوی کا حق ہے وہ اسے جہاں چاہے اورجس طرح چاہے خرچ کرے ، اس پر گھر کی تیاری اورسامان خریدنا واجب نہیں ۔ مصادر شریعہ میں کوئی نص نہیں ملتی۔

گھرکا سامان اوراسے بنانا خاوند پر واجب ہے ۔ وہی ہے جس پر بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کرنا اوراس میں ہر قسم کی ضرورت مہیا کرنا واجب ہیں ۔

(عبداللہ صالح المنجد)

جواب : بندہ ء مومن اس شعور کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے کہ اس کا وجود اور گرد و پیش کا ماحول اس کے لیے ایک عظیم نعمت ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ بہت سی نعمتوں کے لیے ہمہ وقت محتاج ہے۔ نعمت کا شعور شکر کا تقاضا کرتا ہے اور احتیاج دعا کا۔ وہ اپنی ہر ہر ضرورت کے لیے اور جو کچھ میسر ہو چکا ہے اس میں اضافے کے لیے اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتا ہے تو دعا وجود میں آجاتی ہے۔ اور ایمان ان دونوں ہی چیزوں سے وجود پذ یر ہوتاہے، یعنی شکر اور دعا کے ساتھ ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دعا اگر صحیح وقت پر صحیح طریقے پر اور اپنی حدود کا احساس کرتے ہوئے کی جائے تو بالعموم فوراً قبول ہو جاتی ہے۔ البتہ اس کا انحصار دعا پر بھی ہے کہ آپ کیا دعا مانگ رہے ہیں؟ مثلاً ہماری ہر مسجد میں لوگ دعا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو دنیا میں غلبہ حاصل ہو جائے، لیکن اس کے لیے جو کچھ انھیں خود کرنا چاہیے اس کو کیے بغیر وہ یہ دعا مانگتے ہیں، اس لیے قبول نہیں ہوتی۔ ہمیں جو کچھ کر کے یہ دعا کرنی چاہیے، وہ ہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی طرح انفرادی زندگی میں آپ دیکھیے کہ ایک آدمی بیماری میں، تکلیف میں، مشکلات میں، اپنی ذمہ داریوں کا کوئی شعور نہیں رکھتا اور دعا کیے جاتا ہے، چنانچہ وہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ جب صحیح وقت پر اور اپنی حدود کا لحاظ کر کے دعا کی جائے گی تو بالعموم قبول ہو جائے گی۔ اگر پھر بھی اس کا قبول ہونا خداتعالیٰ کی مجموعی حکمت کے خلاف ہو تو قبول نہیں ہو گی۔ مثال کے طور پر کسان کو ضرورت ہے کہ بارش ہو، جبکہ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا کچا کوٹھا نہ گر جائے۔ ہم دونوں ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی ایک کی دعا قبول ہو گی۔ دنیا کی مجموعی حکمت کے لحاظ سے یا خود دعا کرنے والے فرد کی اپنی بہبود کے لحاظ سے جب کہیں دعا قبول نہیں ہوتی تو پیغمبر اسلام نے بتایا ہے کہ اس کا اجر قیامت میں بندہ ء مومن کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی دعا کو محبوب رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ آپ سے دعا کی درخواست کریں۔ خود بھی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں اور آپ سے بھی درخواست کریں کہ آپ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس طرح کی باتیں لوگ بالعموم اپنے اعتقادات کی بنیاد پر کرتے رہتے ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک کام اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق لازماً ہونا ہی تھا۔ کسی نے اس کے لیے دعا بھی کر دی۔ اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کسی غلط عقیدے میں مبتلا ہو گیا اور بطور آزمایش وہ چیز پوری ہو گئی۔ اس لیے تمام پہلو ممکن ہیں، لیکن پیغمبر کے بعد ہمارے لئے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ فی الواقع یہ کام فلاں کی دعا کے نتیجے میں ہو گیا۔ آپ برے ہوں یا اچھے، سب اللہ تعالیٰ کے محتاج بندے ہیں، وہ اپنے قانون اور حکمت کے مطابق جب چاہتا ہے، جو بات چاہتا ہے، قبول کر لیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسی قبولیت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ جس نے دعا کی ہے، وہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ یہ بات تو اصول کے طور پر صحیح ہے کہ نیک لوگوں سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے، لیکن دعا کی ہر قبولیت اچھے پہلو سے نہیں ہوتی، بلکہ بطور آزمایش بھی ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ اگر شیطان کے پاس جانے والوں کو ہمیشہ محروم رکھے تو پھر کہیں کوئی شیطان کے پاس نہ جائے اور اس کے نتیجے میں آزمایش ختم ہو جائے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں نعمت اور امتحان ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر نعمت عنایت کے طور پر ہو۔ وہ سزا یا آزمایش اور کسی سر کش کو ڈھیل دینے کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دعا کی قبولیت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جگہوں اور مواقع کی اہمیت بیان کی ہے۔ مثلاً جمعہ کا دن، تہجد کا وقت، محلے کی مسجد، حرمین شریفین، یہ وہ جگہیں ہیں جن میں دعا کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ باقی جن جگہوں پر لوگ دعا کی قبولیت کا اعتقاد لے کر جاتے ہیں، ان کے لیے دین و شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دعا کی قبولیت میں آدمی کا تعلق خاطر اس کی محبت اور اس کی خدا تعالیٰ کے سامنے شکستگی اور آزردگی بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماں جس کیفیت میں دعا کرے گی، باپ جس طرح روح کی گہرائیوں سے دست بدعا ہو گا، مریض اپنی بے بسی کے جس احساس کے ساتھ خدا تعالیٰ کو پکارے گا، اس کی توقع آپ دوسرے لوگوں سے نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مظلوم کی پکار سے بچو۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ جس بے بسی اور شکستگی کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے، اس میں توقع کی جاتی ہے کہ خدا کی رحمت زیاد ہ متوجہ ہو جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: ہر چیز جس کی وہ ضرورت محسوس کرتا ہے، وہ اپنے رب ہی سے مانگے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اللہ تعالیٰ کوئی ایسی دعا قبول نہیں کرتے جو ان کی اپنی حکمت کے خلاف ہوتی ہے۔ ہاں، البتہ بندہ بعض اوقات کسی آزمایش کے لیے دست بدعا ہو جاتا ہے۔ وہ کوئی ایسی چیز طلب کر لیتا ہے جو اسے طلب نہیں کرنی چاہیے تھی، تواللہ تعالیٰ بطور آزمایش یا بطور سزا اسے وہ چیز دے دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ درست ہے کہ احادیث میں جن مواقع پر دعا کے زیادہ قبول ہونے کا ذکر آیا ہے، ان میں فرض نماز کے بعد دعا کرنا بھی شامل ہے، لیکن اس کا جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، وہ انفرادی دعا ہی کا تھا۔ اگر کوئی نمازی اپنی ضرورت محسوس کرتا تھا تو وہ دعا کر لیتا تھا۔ امام کے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، سوائے اس کے کہ کسی موقع پر آپ سے دعا کرنے کی درخواست کی گئی۔ مثلاً لوگوں نے کہا کہ بارش کے لیے دعا کیجیے یا کوئی معاملہ ہو گیا ہے تو اس کے لیے دعا کیجیے۔ یہ جو آج کل سلسلہ چل پڑا ہے کہ ہر فرض نما ز کے بعد امام صاحب دعا کرائیں اورمقتدی آمین کہیں۔ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ء کرام کے زمانے میں نہیں تھا اور اب بھی یہ طریقہ صرف پاکستان اور ہندوستان میں رائج ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اسلام میں کسی مخصوص جگہ کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہاں اگر دعا کی جائے گی تو وہ لازماً قبول ہو جائے گی۔ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ بعض جگہیں اور بعض مواقع دعا کی زیادہ قبولیت کا باعث بنتے ہیں۔ سو فی صد قبولیت کی کوئی بات نہیں۔ اگر سوفی صد دعائیں قبول کر لی جائیں تو ایک دن کے لیے بھی دنیا کا نظام نہیں چل سکتا۔ پرویز مشرف اور نواز شریف اگر ایک ہی وقت میں حرم میں داخل ہوں تو اندازہ کر لیجیے کہ وہ کیا دعا مانگیں گے اور اگر دونوں کی دعا قبول ہو جائے تو کیا نتیجہ ہو گا۔ یہ بات صحیح ہے کہ دعا قبول ہو تی ہے، لیکن وہ بندے کی اپنی بھلائی اور دنیا کی مجموعی حکمت کے لحاظ سے قبول ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بعض اوقات توایسا ہوتا ہے کہ آپ نے الفاظ میں دعا نہیں کی ہوتی، لیکن وہ ہماری شدید تمنا اور خواہش ضرور ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی حکمت کے مطابق پورا کر دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بین الاقوامی سطح پر مسلمان جو دعائیں کر رہے ہیں، ان دعا ؤ ں کے بعض تقاضے ہیں جنھیں پہلے پورا کرنا چاہیے۔ بدر میں نبی کریم نے اس وقت دعا کی جب مسلمانوں نے اپنی طرف سے سب تقاضے پورے کر دیے۔ بے سروسامانی کے باوجود میدان میں اترے، پوری فوج سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ان کے پاس جو کچھ تھا انھوں نے میدان میں رکھ دیا۔ اس کے بعد دعا کی گئی اور قبول ہوئی۔ اب مسلمانوں کو علم و ہنر اور دین و اخلاق میں جو تقاضے پورے کرنے چاہییں، اگر انھیں پورے کر کے دعا کی جائے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا۔ گھر کو تالا لگا کر دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے روزی دے دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے۔ مختصراً یہ کہ عقلی اور اخلاقی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں تو پھر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دعا قبول نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا نظام تدبیر پر قائم ہے۔ تقدیر اگرچہ اس تدبیر کے ساتھ بھی چلتی ہے اور اس کے خلاف بھی اور الگ راہ بھی نکالتی اور پیدا کرتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس جو سرا ہے وہ تدبیر اور دعا کا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ تقدیر کیا ہے۔ ہمارے علم میں تقدیر اس وقت آتی ہے جب وہ ماضی بن چکی ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رکھتے کہ اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے تدبیر اور محنت کریں اور کامیابی کے لیے دعا کریں۔ اگر کامیابی ہو تو شکر ادا کریں اور اگر ناکامی ہو تو اپنی تدبیر ہی کی خامیوں کی اصلاح کریں۔ یہ اس دنیا کی حقیقت ہے اور اس کے مطابق ہر پیغمبر نے زندگی بسر کی ہے۔ کوئی کھیت ہل چلائے بغیر نہیں اگتا۔ اور نہ ہل چلانا کامیاب کھیت اگنے کی ضمانت ہے۔ اس لیے ہل چلانا بھی ضروری ہے اور دعا کرنا بھی۔ تقدیر کا عقیدہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا نام نہیں۔ اس بات کو ماننے کا نام ہے کہ اس دنیا کا نظام اصل میں اللہ کے ہاتھ میں ہے ہماری تدبیر اسی نظام کا حصہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

سوال : میں ایک حدیث سے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ "پیغمبر نوح علیہ السلام نے بھی بیت اللہ کا حج کیا"۔ یہ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے جو کہ عروہ بن الزّبیر سے مروی ہے۔" ہود اور صالح علیہما السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں نے بیت اللہ شریف کا حج کیا۔ پیغمبر نوح نے بیت اللہ شریف کا دورہ کیا۔ پھر جب سیلاب نے زمین کو ڈبو دیا اور بیت المقدس پانی کے نیچے ڈوب گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو صحیح راستے کی طرف لائیں۔ حضرت ہود تبلیغ کے کاموں میں اتنے مصروف رہے کہ وہ بیت المقدس کا حج نہ کر سکے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ والی پاک جگہ دکھائی گئی تو انہوں نے بھی وہاں کا حج کیا، اور اس طرح ان کے بعد تمام پیغمبروں نے جو کہ آپکے بعد تشریف لائے"۔ (راوی۔ البیہقی، کتاب السنن)

میں بیہقی کی ان احادیث کی نوعیت جاننا چاہتا ہوں۔ یہ کس درجے کی حدیث ہے، جب کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ مزید بر آں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ سر سید اور پرویز کی فکر پر کیا تنقید ہے؟

جواب : آپ نے تعمیر کعبہ اور حج کے حوالے سے مختلف پیغمبروں کے عمل سے متعلق بیہقی کی ایک روایت کے بارے میں رائے دریافت کی ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے پرویز کے حوالے سے بھی دریافت کیا ہے کہ اس کی فکر پر کیا تنقید ہے۔ آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ مجھے تلاش کے باوجود بیہقی میں نہیں ملی۔ البتہ ازرقی کی اخبار مکہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے۔‘‘عثمان کا بیان ہے کہ مجھے ابن اسحاق نے خبر دی کہ مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جسے میں متہم نہیں سمجھتا کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تعمیر ہوا کہ وہ اس کا طواف کریں اور اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ حضرت نوح نے غرق سے پہلے حج کیا وہ اس کے پاس آئے انھوں نے اس کی تعظیم کی- جب زمین پر غرق کا مرحلہ آیا اور اللہ نے قوم نوح کو ہلاک کر دیا تو بیت اللہ کے ساتھ وہی ہوا جو زمین کے ساتھ ہوا۔ پھر اس کی نشانی کے طور پر ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے ہود علیہ السلام کو عاد کی طرف مبعوث کیا وہ اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے۔ یہاں تک ان کی قوم بھی ہلاک ہوگئی۔ انھوں نے بھی حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ٹھکانا عطا فرمایا۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مناسک بھی سیکھے۔ لوگوں کو اس کی زیارت کے لیے دعوت بھی دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا جس نے اس کا حج نہ کیا ہو۔"

 اس روایت کی سند ہی سے واضح ہے کہ قبولیت روایت کے معیار کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی روایات کو اس معیار پر پرکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تاریخی روایات کے بارے میں اصول یہی ہے کہ وہ قابل قبول ہیں الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اس روایت میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب اس زمانے سے متعلق ہیں جن کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لہذا تردید و تصویب کے لیے ہمارے پاس کوئی محکم بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اس کی بعض باتوں کی تائید ہوجاتی ہے لیکن اکثر باتوں کے لیے قرآن میں کوئی تائید نہیں ہے۔

سرسید اور پرویز کی فکر آپ درج ذیل اصولی بات سے سمجھ سکتے ہیں۔

اصل میں مذہب کے بارے میں یہ تصور کہ اس کا مقصود خالق و مالک کے ساتھ تعلق کی درستی اور اس کے لیے مطلوب رسوم و آداب کی تعیین کا ہے، زمانہ حاضر کے بعض مفکرین کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور وہ دین کو ایک ایسے نظام کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔ اس زاویہ نظر سے نہ نماز کی وہ ہیئت قابل قبول رہتی ہے جو امت میں رائج ہے اور نہ حج کے مناسک قابل قبول رہتے ہیں جنھیں صدیوں سے ادا کیا جا رہا ہے۔بنیادی مسئلہ میرے نزدیک یہی ہے۔ ہمارا دین اصل میں خدا کے اس منصوبے کے فہم پر مبنی ہے کہ اس نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے اور اصل مسئلہ آخرت کے امتحان کا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے صحیح عقیدہ وعمل اختیار کرنا ہے تاکہ اس امتحان میں سرخروئی حاصل ہو۔اس کے برعکس ان مفکرین کے نزدیک آخرت یہ معنی و مفہوم نہیں رکھتی۔ اور دین بھی پرستش اور پوجا پاٹ کا نام نہیں بلکہ ان طریقوں کو جاننے اور اپنانے کا نام ہے جن سے نوع انسانی کی فلاح وابستہ ہے۔اس تصور کی تبدیلی کے نتیجے میں احادیث کے مقام اور تفسیر کے اصولوں کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت پڑی اور امت کے مانے ہوئے مسلمات علم وعمل کو رد کرنا پڑا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : آپ نے میاں بیوی میں موافقت کے لیے کوئی سورہ پڑھنے کے لیے پوچھا ہے۔

عرض یہ ہے کہ قرآن مجید سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ ہر مسئلے کے لیے صحیح تدبیر کرو اور اس کی کامیابی کے لیے اللہ سے دعا کرو۔ بس یہ دونکاتی فارمولا ہے جس پر ہر مسلمان کو عمل کرنا ہے۔ اس معاملے میں صحیح تدبیر یہ ہے کہ ہر فریق یعنی میاں بھی اور بیوی بھی اپنی غلطی یا اپنی خامی کا صحیح تعین کریں۔ دونوں یہ طے کریں کہ جو چیز دوسرے کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ دونوں ایک دوسرے پر ایسا بوجھ نہ ڈالیں جو دوسرا آسانی سے اٹھا نہیں سکتا۔ وغیرہ ۔اس کے بعد وہ اللہ تعالی سے خلوص دل سے دعا کریں کہ وہ انھیں صحیح بات کو سمجھنے اور اس کو اپنانے کی ہمت دے اور غلط بات کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی صلاحیت دے۔ وہ دعا کریں کہ اللہ ان کے بیچ محبت کو بڑھائے اور ان کے معاملات کو درست کر دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی اعلی دعا سکھائی ہے۔ ‘‘اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑ دے۔ ہمارے بیچ کے معاملات کو درست کردے۔ ہمیں سلامتی کے راستوں پر چلا۔ ہمیں تاریکیوں سے نجات دے کر روشنیوں میں لے جا۔ ہمیں کھلی چھپی بے حیائی سے محفوظ رکھ۔ اے اللہ ہماری حفاظت فرما: ہماری سماعتوں میں، ہماری بصارتوں میں اور ہمارے ازواج میں۔ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا کہ ہم ان پر تیرے ثنا خواں رہیں اور ان نعمتوں کو ہم پر پورا کر۔’’   

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے سورہ یاسین کی آیت 14 کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اس میں تین رسولوں سے کون مراد ہیں۔اس حوالے سے دو آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا دعوتی کام مراد ہے۔ یہ بستی شام کی ایک بستی انطاکیہ ہے۔ لیکن جس طرح قرآن میں بات بیان ہوئی ہے اس سے حواری مراد لینا محل نظر ہے۔ دوسری رائے یہ کہ پہلے دو سے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام مراد ہیں اور تیسرے سے وہ ہستی مراد ہے جو فرعون کے دربار میں تھی اور کئی موقعوں پر اس نے ان دونوں رسولوں کا ساتھ دیا۔ ہمارے سامنے پیغمبروں کی جتنی داستانیں ہیں ان میں سے بیک وقت دو پیغمبروں کی طرف بعثت کا واقعہ صرف ایک ہی ہے۔ اس لیے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اس آیات میں مصر کی طرف اشارہ ہے۔          

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے تین الفاظ کے بارے میں پوچھا ہے:صدیقین، شہدا، صالحین۔یہ لفظ ایک ہی آیت میں آئے ہیں۔ ان میں پہلا لفظ انبیا کا ہے وہ غالباً آپ نے اس لیے نہیں لکھا کہ وہ تو واضح ہی ہے۔ اصل میں اس آیت میں صدیقین کا لفظ انبیا کی مناسبت ہی سے آیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ ہستیاں جو کسی پیغمبر کی تصدیق کرتی اور اس تصدیق کا حق ادا کر دیتی ہیں۔ صدیقین کے بعد وہ کیٹیگری ہے جو ان کے بعد ان کی امت میں ظاہر ہو گی مراد یہ ہے کہ غیر نبی ہستیاں جو دین کی دعوت کا کام اس طرح کریں کہ لوگوں پر حق واضح ہو جائے اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان کا ساتھ دیں۔ 

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے صدقہ، فطر، زکوۃ اور خیرات میں فرق پوچھا ہے اور مصیبت میں صدقہ دینے کی حقیقت دریافت کی ہے۔یہ تمام الفاظ ایک پہلو سے مشترک المعنی ہیں۔ وہ پہلو انفاق فی سبیل اللہ کا ہے اور یہ لفظ اس مشترک پہلو سے بھی لکھے اور بولے جاتے ہیں۔ انفاق سبیل اللہ ہی کی مختلف صورتوں کے لیے ان میں سے کچھ لفظ مختص بھی ہیں۔ مثلا بچتوں پر شریعت کی طرف سے لازم کیے گئے اڑھائی فیصد انفاق کے لیے زکوۃ کا لفظ مستعمل ہے۔ عید الفطر سے پہلے تمام افراد خانہ پر ایک دن کا کھانا عائد ہوتا ہے، جس کی مقدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع مقرر کی تھی، اسے فطرانہ یا صدقہ فطر کہا جاتا ہے۔ صدقہ اور خیرات کا لفظ نفلی خیرات کے لیے آتا ہے۔

 ان میں سے صدقے کا لفظ ہمارے ہاں ایک نئے تصور کے ساتھ متعلق ہو گیا ہے۔ وہ تصور یہ ہے کہ کسی مصیبت کو ٹالنے کے لیے کوئی چیز خیرات کی جائے۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ ایک حقیقت کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر تکلیف یا آزمایش ہوتی ہے یا تنبیہ۔ اس لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی طرف متوجہ ہو اور توبہ اور اصلاح کے راستے کو اختیار کرے۔ اصلاح عمل میں نماز ہے۔ حمد و تسبیح ہے۔ گناہوں سے اجتناب ہے اور اسی طرح خیرات اور دوسرے نیکی کے کام بھی ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا راستہ نکال لیں جس میں زندگی میں کوئی تبدیلی نہ کرنی پڑے اور مشکل سے جان بھی چھوٹ جائے۔ صدقے کے اس تصور کی ایک وجہ تو یہ ہے۔ دوسری وجہ عامل حضرات ہیں جنھوں نے لوگوں کو توہم پرستی کی چاٹ لگا رکھی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب: یہاں چند تفاسیر کے حوالے پیش خدمت ہیں امید ہے اس سے مطلب واضح ہو جائے گا۔اضواء البیان میں ہے:‘‘اس میں اقامت دین اور عدم تفرقہ سے مراد اللہ کے ساتھ دین کو مخلص کرتے ہوئے صرف اسی کی بندگی ہے۔ (ج9، ص47)

 ‘‘قرآن میں کئی آیات آئی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حق پر عمل کرنے کی نصیحت میں ساری شریعت اس کے اصول اس کی فروع اس کا ماضی اس کا حاضر سب شامل ہیں انھی آیات میں سے یہ آیت بھی ہے (ج9،ص94)

 التسہیل لعلوم التنزیل میں ہے:

‘‘ ان اقیموا الدین سے مراد اسلام کی اقامت ہے جو اللہ کی توحید ہے، اس کی طاعت ہے اس کے رسولوں اور دار آخرت پر ایمان ہے۔ جہاں تک فروع کا تعلق ہے تو اس میں شریعتیں مختلف ہیں۔ وہ یہاں مراد نہیں ہیں۔

در المنثور میں ہے:

‘‘ابن جریر نے سدی رضی اللہ عنہ سے 'ان اقیموا الدین' کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ کہا: اس پر عمل کرو’’۔

کشاف میں ہے:

 ‘‘ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔ میں دین سے مراد اسلام کی اقامت ہے۔ جو اللہ کی توحید،اس کی اطاعت،اس کے رسولوں ، کتابوں اور یوم جزا پر ایمان اور وہ ساری چیزیں جن کو اپنا کر کوئی شخص مسلمان بنتا ہے اور شریعتیں مراد نہیں ہیں کہ وہ امتوں کی مصلحتیں ہیں ان کے احوال کے موافق چنانچہ یہ مختلف اور متفاوت ہیں۔

تفسیر سعود میں ہے:

‘‘اس کی اقامت سے مراد اس کے ارکان کو صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے، دین کی ٹیڑھ سے محفوظ رکھنا ، اس پر مسلسل عمل اور اس کے لیے محنت ہے۔’’

تفسیر بیضاوی میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین سے مراد ہے ان چیزوں پر ایمان جن کی تصدیق واجب ہے اور اللہ کے احکام کی پیروی۔’’

‘‘ان اقیموا الدین سے مراد: اللہ نے حکم دیا ہے کہ دین کے تمام ضوابط اس کے اصول اوراس کے فروع کی اقامت کرو۔ یہ اقامت وہ اپنے نفوس پر بھی کرتے ہیں اور اپنے کے علاوہ پر بھی اس کی کوشش کرتے ہیں، یعنی وہ بر و تقوی پر تعاون کرتے اور اثم وعدوان پر تعاون نہیں کرتے۔’’

تفسیر سمرقندی میں ہے:

‘‘ابو العالیہ نے کہا: ان اقیموا الدین سے مراد اللہ کی عبادت میں مخلص ہونا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دین میں موافقت کرو۔’’

تفسیر سمعانی میں ہے:

‘‘ارشاد ان اقیموا الدین کا مطلب ہے توحید پر ثابت قدم ہو جاؤ۔ کہا گیا ہے کہ اقامت دین کا مطلب ہے دین پراستقامت۔ کہا جاتا ہے اقامت دین اصل میں طاعات پر عمل اور اوامر کا امتثال ہے۔’’

طبری میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین سے شریعت پر عمل مراد لیا گیا جیسے کہ ہم نے اس سے پہلے 'اقیموا الصلاۃ' کے حوالے سے بات کی تھی۔ ’’

سدی کی رائے یہ ہے کہ دین کی اقامت کرو سے مراد ہے دین پر عمل کرو

تنویر المقیاس فی تفسیرابن عباس میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین اللہ نے تمام انبیا کو حکم دیا ہے کہ وہ دین کی اقامت کریں کہ وہ دین میں متفق رہیں۔’’

فتح القدیر میں ہے:

‘‘مجاہد نے کہا ہے کسی نبی کو اللہ نے مبعوث نہیں کیا الا یہ کہ اسے نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے اور اللہ کے اقرار کی نصیحت نہ کی ہو۔ یہ دین ہے جسے اس نے ان کے لیے مشروع کیا ہے۔’’

ابن عربی کی احکام القرآن میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ یعنی اسے قائم کرو۔ مراد یہ ہے کہ اسے دائم، جاری، محفوظ، برقرار رکھو کہ نہ اختلاف ہو نہ اضطراب۔’’

 تفسیر العز بن عبدا السلام میں ہے:

‘‘ اقیموا الدین' اس پر عمل کرو یا اس کی طرف بلاؤ۔’’

امید ہے یہ اقتباسات اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارے مفسرین اس آیت کو کیسے دیکھتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے قربانی کرنے والے کے لیے ناخن اور بال نہ کاٹنے کے مستحب ہونے کے بارے میں پوچھا ہے۔یہ بات ایک روایت میں بیان ہوئی ہے۔ اسی روایت کی وجہ ہی سے اسے مستحب عمل قرار دیا جاتا ہے۔ کسی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے اس پر عمل کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ لھذا اس کے لازمی ہونے کا کوئی قائل نہیں ہے۔       

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے غلاف کعبہ کے بارے میں پوچھا ہے کہ کیا اس کا ہر سال بدلنا ضروری ہے اور اس خطیر رقم کو دوسرے کاموں میں صرف نہیں کیا جا سکتا۔جہاں تک قرآن وحدیث کا تعلق ہے اس میں غلاف کعبہ کے بارے میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ اس کا تعلق ہمارے جذبہ عقیدت سے ہے۔ ہم ہر سال بھی غلاف تبدیل کر سکتے ہیں اور چاہیں تو وقفہ بھی کر سکتے ہیں۔ غلاف سادہ بھی بن سکتا ہے اور قیمتی بھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ غلاف کعبہ کی روایت بہت قدیم ہے اور بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل اسلام سے ہے۔ روایات اگر درست نہج پر ہوں تو ان کے قیام و استحکام ہی میں خیر ہے۔ امت کی سطح پر غلاف کعبہ کا اہتمام کوئی بڑا خرچ نہیں ہے۔ امت مسلمہ کے پاس بہت وسائل ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ انھیں منصفانہ طور پر امت کی فلاح و بہبود پر صرف کرنے والی لیڈرشپ نہیں ہے۔ چنانچہ افراد امت کے دگرگوں حالات دیکھ کر ہمیں خیال ہوتا ہے کہ فلاں کام نہ ہو یا اس طرح ہو تو شاید یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ حالانکہ آپ بھی سمجھتے ہیں کہ غلاف کعبہ نہ بنے تب بھی غریب مسلمانوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اصل ضرورت امت کی مجموعی معاشی ترقی کے ایسے اقدامات کی ہے جس کے نتیجے میں ہر ہر فرد کے لیے اچھی روزی کمانے کے حالات پیدا ہوں۔   

(مولانا طالب محسن)

جواب: توفی کا لغوی معنی پورا پورا لے لینا ہے مگر یہ فعل ان افعال میں سے ہے جو اصلاً مجازی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اردو میں انتقال کا لفظ جب کسی انسان کے لیے بولا جائے گا تو اس سے مراد اس کا مر جانا ہے۔ لہذا بولنے اور لکھنے والے جب انسانوں کے لیے اس لفظ کو کسی دوسرے معنی میں استعمال کریں گے تو کلام میں ایسے واضح قرائن لاتے ہیں جن سے اس کا مدعا واضح ہو۔ اسی طرح توفی کا فعل موت کے لیے ایسا معروف ہے کہ اسے لغوی معنی میں لینا بعید از قیاس ہے۔ اگر ہم کسی کلام میں یہ کہتے ہیں کہ یہ لغوی معنی میں آیا ہے تو اس کے دلائل لانا پڑیں گے۔دلائل سے مراد یہ ہے کہ کلام اپنے اندر ایسے وہ اشارات رکھتا ہو جو لفظ کو اس کے مجازی کے بجائے لغوی معنی لینے پر مجبور کر دے۔ مثلا عبداللہ صاحب لاہور سے کراچی انتقال کر گئے ہیں اور یہ جملہ بھی اصل میں سنجیدہ جملہ نہیں ہے ایسی بات شرارت کے طورکہی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حدیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی روایات نہ ہوتیں تو اس آیت کا وفات کے علاوہ کوئی مطلب نہ کیا جاتا۔میرے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حضرت مسیح وفات کے بعد اٹھائے گئے تھے یا زندہ۔ اس لیے کہ دونوں صورتوں میں یہ ایک خارق عادت واقعہ ہے اور اس لیے بھی کہ حضرت مسیح نے اگر دوبارہ آنا ہے تو اللہ تعالی کے لیے دونوں صورتیں بالکل یکساں ہیں۔ زندہ کو بھیجنا یا زندگی دے کر بھیجنا۔          

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے اللہ تعالی کو ظاہری آنکھ یا دل کی آنکھ سے دیکھنے کے بارے میں سوال کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ذات باری کے مشاہدے کی صلاحیت ہی نہیں دی گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے سے واضح ہے کہ اس کی ہمیں تاب بھی نہیں ہے۔حدیث جبریل میں احسان کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ نے جو بات فرمائی ہے وہی اس کا آخری، حتمی اور مکمل جواب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ: تم نماز اس طرح پڑھو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگرچہ تم خدا کونہیں دیکھ رہے ہوتے پر وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے۔ اس ارشاد مبارک سے یہ نکات معلوم ہوتے ہیں:ایک یہ کہ انسان خدا کو نہیں دیکھتا۔دوسرے یہ کہ خدا انسان کو دیکھ رہا ہے اس حقیقت کو شعور میں لانا ہے۔تیسرے یہ کہ یہ شعور حضوری کی ایک گہری کیفیت پیدا کرنے میں مددگار ہے۔ چوتھے یہ کہ اس سے آگے کوئی چیز نہیں ہے۔       

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے تمام قویٰ پر عقل کے غلبے کا طریقہ پوچھا ہے اور حکمت ودانش سے بہرہ مند ہونے کی راہ دریافت کی ہے۔دین میں اس کی راہ دین کا گہرا مطالعہ ہے۔ بطور خاص قرآن مجید انسان کے اندر جو شعور پیدا کرتا ہے اس کا ذوق پیدا کرنا اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اپنے ظاہر وباطن کی صورت گری کرنا۔جس قدر آپ انسان کے نفس کی ساخت سے آگاہ اور خالق و مالک کے ساتھ اس کے تعلق میں گہرے ہوتے جاتے ہو اسی مناسبت سے آپ کے اندر حکمت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ دیکھیے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اس بات کو واضح کیا ہے : الحکمۃ مخافۃاللہ۔ حکمت خدا خوفی ہے۔         

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے پوچھا ہے کہ قول اور کلام میں کیا فرق ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ سوال قرآن مجیدکے حوالے سے ہے۔ اس لیے کہ خود قرآن مجید میں قرآن کے لیے کلام کا لفظ بھی آیا ہے اور قول کا لفظ بھی۔ مثلا، سورہ بقرہ کی آیت 75 کلام اللہ لفظ آیا ہے اور سورہ حاقہ کی آیت 40 میں قول کا لفظ آیا ہے۔ اہل لغت کے نزدیک کلام قول کے مقابلے میں زیادہ مکمل اور زیادہ معنی آفریں ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے لیکن قرآن مجید میں محولہ مقامات پر یہ فرق نہیں ہے۔ دونوں مقامات پر اس کی خدا سے نسبت کو نمایاں کرنا مقصود ہے۔ اصل یہ ہے کہ ان دونوں لفظوں کا اشتراک کسی کی زبان سے صادر ہونا ہے اور بعض اوقات الفاظ اسی پہلو سے استعمال ہو جاتے ہیں۔         

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے پوچھا ہے کہ رسول اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ عرض ہے کہ کچھ پیغمبروں کو اقتدار حاصل ہوا ہے لیکن ان کی جدوجہد کا ہدف کبھی بھی اقتدار نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کے بیانات سے واضح ہے کہ پیغمبروں کو اقتدار عطا کیا جاتا ہے وہ اقتدار حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ قرآن مجید کی مکی سورتیں، حضرت مسیح علیہ السلام کے اناجیل میں مواعظ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون سے گفتگوئیں سب اسی حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ پیغمبر صرف اور صرف انذار کرتے ہیں۔ ان کو صرف ابلاغ کی ذمہ داری دی جاتی ہے وہ یہ ذمہ داری ادا کرتے ہیں اور کچھ پیغمبروں کی زندگی میں یہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ وہ مسند اقتدار کو بھی زینت بخشتے ہیں۔میرے اس جواب کا یہ مطلب نہیں کہ مذہب کو اقتدار سے کوئی دل چسپی نہیں۔ اقتدار انسان کے معاشرتی ظہور کا لازمی نتیجہ ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ دین اس جہت سے بھی انسان کی رہنمائی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں اس حوالے سے رہنمائی موجود ہے۔ لہذا مسلمان جب بھی اقتدار پائیں گے وہ ان احکام پر بھی عمل کریں گے۔ اقتدار کچھ معاشرتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے ۔اس کا اپنا میکانزم ہے۔ دین کا ابلاغ اور انذار ایک دوسرا کام ہے۔ البتہ اس کے نتیجے میں آپ سے آپ وہ حالات پیدا ہو سکتے ہیں جو اقتدار پر منتج ہوں      

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے پوچھا ہے کہ اگر کسی کو نقصان پہنچانا یا فراڈ کرنا پیش نظر نہ ہو اور کسی مصلحت کے تحت جھوٹ بولا جائے تو کیا یہ جائز ہے۔جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ یہ ہرگز کار خیر نہیں ہے۔ صرف ایک صورت ہے جس میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اور وہ یہ کہ کسی کی جان بچانا مقصود ہو۔ آپ نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اس کا حل توریہ ہے۔ توریہ کی سب سے اچھی مثال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سفر ہجرت میں حضور کے بارے میں جواب ہے۔ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کہ آپ راستہ بتانے والے ہیں۔ یہ جملہ دشمن کے لیے اور معنی رکھتا تھا اور حضرت ابوبکر کے لیے اور مطلب۔ یعنی ایسا جملہ بنانا جس میں بولنے والا ایسے الفاظ میں اپنی بات بیان کرے جو خلاف حقیقت نہ ہوں لیکن سننے والے کو اصل بات بھی معلوم نہ ہو۔ بعض موقعوں پر زیادہ مناسب یہ ہوتا ہے کہ آپ صاف کہہ دیں کہ میں بات نہیں بتا سکتا۔ اگر یہ بات اعتماد سے کی جائے اور اس کو نبھایا جائے تو لوگ آہستہ آہستہ اس بات کو سراہنے لگ جاتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ خاموش رہیں اور ایسا کوئی اظہار آپ کی طرف سے نہ ہو کہ آپ کو اصل بات معلوم ہے۔ آپ یہ بھی کر سکتے ہیں صرف بات کا وہ حصہ چھپا لیں جو نقصان دہ ہے اور باقی بات بیان کر دیں۔ اسی طرح ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ موضوع کو سلیقے سے بدل دیں اور اپنے آپ کو غلط بیانی سے بچالیں۔ غرض یہ کہ اگر جھوٹ سے بچنا مطمح نظر ہو تو کئی راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ اگر آدمی کہیں پھنس جائے اور خلاف واقعہ بات اس کے منہ سے نکل جائے اور اس کے پیش نظر صرف اور صرف اصلاح احوال ہو اور اس صورت حال سے نکلتے ہی بندہ سچے دل سے اللہ سے معافی مانگ لے تو اللہ کی طرف سے رحمت اور بخشش ہی کی امید ہے۔  

(مولانا طالب محسن)

جواب : قرآن کی رو سے سر ڈھانپنا مطلوب اور پسندیدہ ہے۔ "اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے کہ مسلمان عورتیں اپنے ہاتھ، پاؤں اور چہرے کے سوا جسم کے کسی حصے کی زیبایش، زیورات وغیرہ اجنبی مردوں کے سامنے نہیں کھولیں گی۔ قرآن نے اِسے لازم ٹھیرایا ہے۔ سر پر دوپٹا یا اسکارف اوڑھ کر باہر نکلنے کی روایت اِسی سے قائم ہوئی ہے اور اب اسلامی تہذیب کا حصہ بن چکی ہے۔ عورتوں نے زیورات نہ پہنے ہوں اور بناؤ سنگھار نہ بھی کیا ہو تو وہ اِس کا اہتمام کرتی رہی ہیں۔ یہ رویہ بھی قرآن ہی کے اشارات سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دوپٹے سے سینہ اور گریبان ڈھانپ کر رکھنے کاحکم اْن بوڑھیوں کے لیے نہیں ہے جو نکاح کی امید نہیں رکھتی ہیں، بشرطیکہ وہ زینت کی نمایش کرنے والی نہ ہوں۔ قرآن کا ارشاد ہے وہ اپنا یہ کپڑا مردوں کے سامنے اتار سکتی ہیں، اِس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر ساتھ ہی وضاحت کر دی ہے کہ پسندیدہ بات اْن کے لیے بھی یہی ہے کہ احتیاط کریں اور دوپٹا سینے سے نہ اتاریں۔ اِس سے واضح ہے کہ سر کے معاملے میں بھی پسندیدہ بات یہی ہونی چاہیے اور بناؤ سنگھار نہ بھی کیا ہو تو عورتوں کو دوپٹا سر پر اوڑھ کر رکھنا چاہیے۔ یہ اگرچہ واجب نہیں ہے، لیکن مسلمان عورتیں جب مذہبی احساس کے ساتھ جیتی اور خدا سے زیادہ قریب ہوتی ہیں تو وہ یہ احتیاط لازماً ملحوظ رکھتی ہیں اور کبھی پسند نہیں کرتیں کہ کھلے سر اور کھلے بالوں کے ساتھ اجنبی مردوں کے سامنے ہوں۔’’     

(مولانا طالب محسن)

 جواب : آپ نے پوچھا ہے کہ ان حالات میں جبکہ بجلی بہت مہنگی ہے اور دوسروں کی چوری بھی ہمیں بھگتنی پڑتی ہے بجلی چوری کی جا سکتی ہے۔ آپ کا دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا رشوت دے کر نوکری حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ گھر کے حالات بہت خراب ہوں۔

 عرض ہے کہ مہنگائی ہو یا ظلم کسی شخص کے لیے حرام جائز نہیں ہو سکتا۔ وہ مجبوری جس میں حرام جائز ہو جاتا ہے بجلی چوری اس میں نہیں آتی۔ اس کا حل صرف ایک ہی ہے کہ ہم بجلی اتنی ہی استعمال کریں جتنی ہم خرید سکتے ہیں۔ رشوت کے ضمن میں عرض ہے کہ قطعی طور پر حرام وہ رشوت ہے جس میں آپ غلط کام کراتے ہیں۔ اپنا جائز حق لینے کے لیے اگر رشوت دینی پڑے تو اس میں اللہ تعالی کی طرف سے صرف نظر کی توقع ہے جبکہ رشوت دینے والا مجبور ہو۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب :اللہ تعالیٰ اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے کوئی نئی زبان ایجاد نہیں کرتے، بلکہ جس قوم میں وہ اپنا پیغام نازل کرتے ہیں، اسی کی زبان کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ دنیا کی زبانوں میں مرد و عورت کو مشترک طور پر مخاطب کرنے کے لیے مذکر ہی کا صیغہ استعمال کیا جاتاہے۔ چنانچہ جب قرآنِ مجید یہ صیغہ استعمال کرتا ہے تو عورتیں مردوں کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ مردوں کے لیے جنت کی کچھ خاص نعمتیں ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی اسی طرح جنت کی نعمتیں ہیں جس طرح مردوں کے لیے ہیں۔ جہاں تک ازواج کا تعلق ہے تو اس کے لیے قرآن نے ازواجِ مطہرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طرفین کے لیے پاکیزہ جوڑے ہوں گے۔ اس کے بجائے اگر یہ بات کہی جاتی کہ وہاں عورتوں کو دس دس مرد ملیں گے تو آپ خود سوچیے کہ کیا یہ کوئی شایستہ اسلوب ہوتا؟میرا خیال ہے کہ ہماری بہنوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عفت کا لحاظ کرتے ہوئے ساری بات ایک جملے میں بیان کر دی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب :قرآن مجید میں صدقے کا لفظ خیرات کے مفہوم میں آیا ہے۔ عربی میں صدقہ، خیرات، زکوٰۃ، یہ سب الفاظ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں ضرورت مند لوگوں کی مدد کی جائے، خواہ پیسے دیے جائیں یا کپڑے دیے جائیں یا بھوکے کو کھانا کھلایا جائے یا کسی اور شکل میں ان کی ضرورت پوری کر دی جائے۔ اسلام میں اس طرح کے صدقے کا کوئی تصور نہیں ہے کہ کالا بکرا دے دو یا چوراہے میں سری پھینک دو یا چھت پر یا پانی میں گوشت ڈال دو۔ یہ توہم پرستی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اللہ توفیق دے تو آپ ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔

(جاوید احمد غامدی)

 جواب :اس ضمن میں ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہر وہ چیز جو غلط ہے، وہ ہمیشہ غلط رہے گی۔ جھوٹ،بددیانتی، رشوت غلط ہے اور ہمیشہ غلط رہے گی۔ یہی معاملہ خودکشی کا ہے۔ یہ ایک گناہ کا کام ہے اور ہمیشہ گناہ ہی رہے گا۔ یہ ایک بالکل دوسری بات ہے کہ آپ نے کسی مجبوری کی وجہ سے کسی غلط کام کا ارتکاب کیا ہے۔ مجبوری کا ایک اصول قرآن مجید میں بیان ہو گیا ہے کہ اللہ چاہے گا تو اس کی رعایت دے دے گا۔ جس طرح حرام کے بارے میں فرمایا گیاہے کہ 'فمن اضطر غیر باغ ولا عاد' ( الانعام) اگر کوئی آدمی مجبور یا مضطر ہو گیا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ اٹھا دیتے ہیں، اس کا حساب کتاب نرم ہو جاتا ہے۔ یہی چیز اس معاملے میں بھی ہو گی۔ جب کوئی چیز حرام قرار دی جاتی ہے تو اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو امتحان کے لیے بھیجا ہے۔ جب ایک آدمی خود کشی کرتا ہے تو گویا وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری موت کے بارے میں جو فیصلہ کر رکھا ہے کہ فلاں وقت میں آنی چاہیے، وہ فیصلہ غلط ہے، میں اس کو نہیں مانتا۔ وہ اس کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ایک بڑا جرم ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی اقدام واقعی کسی مجبوری کی حالت میں کیا گیا ہے تو قرآن نے بڑے سے بڑے جرم کے بارے میں بھی یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ مجبوری کی رعایت ملے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

 جواب :مسلمانوں میں تعمیرمساجد کی سنت کا مقصد اصلاً اللہ کی عبادت ہے۔ ذرا دقت نظر سے دیکھا جائے تو مساجد اصلاً پانچ وقت کی لازمی نمازوں کی جماعت،نمازِ جمعہ وعیدین اور اعتکاف کی عبادت کے لیے قائم کی جاتی ہیں،تاہم ثانوی طور پر اِن میں تطوع نمازوں کا ادا کرنا، قرآن مجید کی تلاوت کرنا،دین کی تعلیم وتعلم کا اہتمام کرنا،غرضیکہ اللہ کی بندگی کی طرف لے جانے والے ہر عملِ خیر کا مسجد میں ہونا پسندیدہ اْمور میں سے ہے۔ جہاں تک مساجد میں لوگوں کی باہمی بات چیت اور گفتگو کرنے کا تعلق ہے تو اِس کا حکم مندرجہ ذیل نکات سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے :

1۔ مسجد کی حیثیت چونکہ ایک اجتماعی معبد کی ہے۔ اس لیے اِس میں کسی بھی قسم کی باہمی گفتگو ایسے انداز،آواز اور لب لہجے میں کرنا جو حاضرینِ مسجد کی عبادت میں خلل پیدا کرے یا اْن کے خشوع وخضوع کو مجروح کرے یا اْن کے لیے تشویش کا باعث بن جائے؛ قطعاً مناسب نہیں ہے۔اِس طرح کی بات چیت سے بہرحال اجتناب کرنا چاہیے۔

2۔ ہر وہ گفتگو جو مسجد کی حدود سے باہر ناجائز ہے ،وہ مسجد میں بطریق اْولٰی ممنوع ہے۔

3۔ ملاقات کے موقع پر دعا وسلام کرنا ، ایک دوسرے کے احوال پوچھنا اور دینی یا دنیوی امور پر کچھ گفتگوکر لینا جس طرح باہر مباح ہے،مسجد کے اندر بھی مباح ہیں۔ اِن کی حرمت یا کراہت پر قرآن وحدیث میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ تاہم مسجد چونکہ اللہ کی عبادت کا گھر ہے ، اِس لیے اْس میں گفتگو کرتے ہوئے دو اْمور کی رعایت اور اْن پر تنبہ ضروری ہے :

ایک یہ کہ گفتگو ایسی ہو کہ آواز اور لب ولہجہ سے حاضرینِ مسجد کے لیے کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ مباح اْمور پر کلام کرتے ہوئے بھی مسجد کی حیثیت ،مقصد اور اس کی روح کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے کثرت کلام سے اجتناب کیا جائے۔

4۔ مسجد میں خرید وفروخت اور کاروباری نوعیت کی بات چیت کرنا،کھیل اور تفریح پر گفتگو کرنا ، باہر کوئی چیز کھو گئی ہو تو مسجد کے اندر آکر حاضرین کے سامنے اْس کا اعلان کرنا،شعر وشاعری کی مجلس لگانا؛یہ تمام اقسامِ کلام مَعابد کی روح کے صریح منافی ہونے کی بنا پرمسجد کے احاطے میں قطعاً مناسب نہیں ہیں۔ چنانچہ اِن سے بہرصورت احتراز کیا جائے۔

بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید وفروخت کرنے،کھوئی ہوئی چیز کا اعلان کرنے اور شعر وشاعری کرنے سے منع فرمایا ہے۔

جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اْس حدیث کا تعلق ہے جس کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے کہ "مسجد میں بات چیت کرنا آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح چوپائے گھاس کو یا آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے "؛ یہ ناقابل التفات روایت ہے۔ علمِ روایت کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اس حدیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ جب اِس کا استناد ہی آپ سے ثابت نہیں ہے تو علم کی دنیا میں اِس سے اخذ کیے جانے والے حکم کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ اس روایت کے بارے میں یہی رائے امام ناصر الدین البانی نے پیش کی ہے۔ملا علی قاری نے بھی اِسے "موضوعات" یعنی من گھڑت روایات میں شمار کیا ہے۔یہ روایت اپنے متن کے لحاظ سے بھی کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ اِس کے بالکل برعکس صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سَمْرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مستند روایت میں نقل ہوا ہے کہ فجر کی نماز پڑھانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طلوع آفتاب تک اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے۔ پھر سورج کے طلوع ہوجانے کے بعد جب آپ اْٹھتے تو اپنے صحابہ کو دور جاہلیت کی باتوں میں محو ِگفتگو اور ہنستے ہوئے پاتے تو اْس موقع پر آپ بھی مسکراتے۔ (مسلم ، رقم : 670)

(مولانا عامر گزدر)

جوا ب :پہلی بات تو بجا طور پر درست ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ : وَمِن کْلِّ شَیء خَلَقنَا زَوجَینِ لَعَلَّکْم تَذَکَّرْونَ۔ ''اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم (اِس حقیقت کی )یاد دہانی حاصل کرو (کہ اِس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے)(الذاریات 51:49)۔ مخلوقاتِ دنیا کی تخلیق میں یہ اللہ تعا لیٰ کے عمومی اْصول کا بیان ہے۔تاہم،جیساکہ آگے واضح ہوگا، ہمارے نزدیک اِس بات کا سائل کے اصل سوال سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔

جہاں تک خواجہ سراؤں کے بارے میں اصل سوال کا تعلق ہے تو پہلی بات تو یہ واضح رہے کہ اْنہیں کسی ' قوم' کا عنوان دیا جاسکتا ہے،نہ اْنہیں کوئی الگ 'مخلوق' ہی شمار کیا جاسکتا ہے؛ جیساکہ خود سائل کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ دونوں ہی عنوانات خواجہ سراؤں کے لیے مناسب نہیں ہیں۔نہ وہ کوئی الگ' مخلوق' ہیں اور نہ ہی کوئی ' قوم'۔وہ انسان ہی ہیں۔خلقی اوصاف کے اعتبار سے اْن میں سے بعض کامل مردانہ اوصاف سے محروم ہوتے ہیں اور بعض زنانہ اوصاف سے۔یہ اْن کی تخلیق کا وہ نقص ہے جو اْن کے خالق اور پروردگار نے اْن میں ایسے ہی رکھا ہے جیسا کہ بعض انسانوں کو ہم خلقی اعتبار سے بعض دوسرے اعضا سے پیدایشی طور پر معذور پاتے ہیں۔اْن کے اور اِن کے مابین فرق محض ناقص اعضا کے اختلاف کاہے۔

یہ خوا جہ سراآج کی دنیا ہی میں پیدا نہیں ہوئے ہیں،بلکہ ماضی میں بھی ایسے خوا جہ سرا انسانوں کے مابین پیدا ہوتے رہے ہیں۔ بعض روایتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی ایسے بعض ناقص مردوں اور عورتوں کے وجود کا تذکرہ ملتا ہے۔قرآن مجید میں خوا جہ سراؤں کا براہ راست کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اور یہ تذکرہ نہ ہونا قرآن اور اْس کی دعوت میں کوئی نقص واقع نہیں کرتا۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآن میں پیدایشی نابینا انسانوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے؛سماعت سے معذور افراد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے؛ ہاتھوں سے معذور پیدا ہونیوالے انسانوں کا بھی کوئی تذکرہ نہیں ہے۔۔۔۔وغیرہ۔ اِس طرح کے انسانوں کی یہ معذوری ہی ہے جس کی وجہ سے اِنسانی معاشرہ بالعموم انہیں دوسرے درجے کا انسان سمجھتا ہے۔ دنیا اور اْس کی مخلوقات میں اِس طرح کے بعض نقائص جو اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں، یہ ظاہر ہے کہ آزمائش کے اْصول پر رکھے ہیں۔ایسے اِنسان جو کسی اعتبار سے معذور پیدا کئے گئے ہیں،وہ اگر خود کامل عقل وشعور رکھتے ہیں تو اْن کا امتحان ، اِس دنیا میں صبر کا امتحان ہے؛ دوسرے اِنسانوں کے لیے یہاں اْن کو دیکھ کر اپنے پروردگار کی شکرگزاری بجالانے کا امتحان ہے ،اور تمام اِنسانیت کے لیے ایک عمومی درس اِس طرح کے نقائص کے وجود میں یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر خوبیوں ، خصائص اور نعمتوں کے باوجود بہر حال دار النقائص ہے،دار الکمال نہیں ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب :میری تحقیق کے مطابق علمی طور پر نہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ امام مالک نماز میں ہاتھ چھوڑ کر قیام کرنے کے قائل تھے ، اور نہ ہی اِس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کی کوئی روایت موجود ہے۔

 نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کے عمل کو اگر تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو صحیح نقطہ نظر تک پہنچنے کے لیے میرے نزدیک مندرجہ ذیل نکات کو جاننا نہایت ضروری ہے :

ایک یہ کہ نماز کے اعمال میں ہاتھ باندھنے یا دوسرے لفظوں میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنے کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اْمت کے علمی اتفاق اور عملی تسلسل سے سنت کی حیثیت سے ثابت ہے۔ اور اِسی سنت کا بیان آپ سے مروی متعدد قولی وفعلی 'صحیح' احادیث میں موجود ہے۔ اِس باب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کے سوا کوئی دوسری چیز کسی صحیح یا ضعیف روایت میں بھی کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔ یہی بات امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب 'التمھہد' میں بیان فرمائی ہے۔ (20/74)

دوسرے یہ کہ حالتِ قیام میں دونوں ہاتھ باندھنے کا یہ عمل اپنے درجہ حکم کے اعتبار سے ایک مطلوب اور پسندیدہ سنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بہرحال نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے۔

تیسرے یہ کہ تمام صحابہ کرام ، فقہا ومحدثین اور سلف وخلف اِس عمل کے سنت ہونے کے بارے میں متفق ہیں ، سوائے اْمت کے ایک اقلِّ قلیل کے کہ جس کی نسبت سے اِس باب میں کچھ مختلف عمل یا نقطہ نظر نقل ہوا ہے۔ جس کی تفصیل اور تحقیقی تجزیہ درج ذیل ہے :

ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا

علم کی دنیا میں یہ بات بالکل متعین ہے کہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا سنت ہونا تو در کنار ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کسی صحیح یا ضعیف خبر واحد میں بھی اِس کا کہیں کوئی بیان موجود نہیں ہے۔ البتہ بعض افرادِ اْمت سے نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کی سنت سے مختلف عمل یعنی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا روایت ہوا ہے۔ اْن میں صحابہ کرام میں سے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ،تابعین اور اْن کے بعد کے فقہا میں سے سعید بن مسیب،حسن بصری،ابراہیم نخعی،لیث بن سعد اور ابن جریج کے نام بتائے جاتے ہیں۔ اِن حضرات کے بارے میں بعض لوگوں نے اپنا یہ مشاہدہ بیان کیا ہے کہ اْنہوں نے اِن کو حالتِ قیام میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے ہوئے دیکھا ہے۔اِس طرح کی غیر مرفوع روایات کے بارے ایک بات تو یہ واضح رہے کہ اِن اصحاب علم کی طرف اِس طرح کے مشاہدات کی یہ نسبت کسی یقینی ذریعے سے تو ثابت نہیں ہے۔ اِن کے بارے میں یہ معلومات محض ایک یا دو افراد کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں۔ لہذا کوئی شخص بھی اِن روایات کے ثبوت کی قطعیت کا دعوی نہیں کرسکتا۔ دوسرے یہ کہ اِن روایات کی صحت سند پر اگر کوئی شخص مطمئن بھی ہوجائے ، تب بھی اس بات پر تنبہ رہے کہ نماز کے قیام میں ہاتھ چھوڑنا اِن میں بعض حضرات کے ذاتی عمل ہی کے طور پر بیان ہوا ہے۔ یہ مرفوع احادیث کا درجہ رکھتی ہیں ، نہ حدیث وسنت میں اِس عمل کی کہیں کوئی بنیاد موجود ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اپنے ظاہر کے اعتبار سے متفق علیہ سنت کے خلاف ہونے کی بنا پر اِس طرح کی کوئی روایت قبول نہیں کی جاسکتی۔ الّا یہ کہ شریعت ہی کی روشنی میں اْس کی کوئی معقول تاویل کرلی جائے۔ مثال کے طور پر امام ابن عبد البر نے اِس کی تاویل میں بجا فرمایا ہے کہ اہل علم کا نماز میں اِس مقصد سے ہاتھ چھوڑنا کہ وہ لوگوں پر یہ بات واضح کریں کہ ہاتھ باندھنے کا عمل نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے تو اْس صورت میں اِن کے اِس طرح کے عمل کو خلاف سنت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یعنی اِس کا تعلق تو محض لوگوں کو اِس عمل کی دینی حیثیت کی تعلیم دینے سے ہے۔غرضیکہ تاویل یہ ہوئی کہ اْمت کے جن اصحاب علم کو بعض لوگوں نے اگر ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے تو اِس کی وجہ در اصل یہ نہیں ہوگی کہ وہ اِسے سنت سمجھتے ہیں ، کیونکہ علمِ دین کی روشنی میں یہ بات محال ہے ، بلکہ اْن کا مقصود یہی ہوگا کہ ہاتھ باندھنا چونکہ نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے ، اس لیے ضرورت کے بعض مواقع پر یا حالات کے تقاضے کے تحت لوگوں کو اِسی بات کی تعلیم دینے کے لیے اْنہوں نے ایسا کیا ہوگا۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اِس باب میں ایک قولی روایت بھی نقل ہوئی ہے جو اْن کے ہاتھ چھوڑنے کے روایت کردہ عمل کے بالکل برعکس اور عین سنت کے مطابق ہے،اور وہ یہ ہے :‘‘نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا سنت ہے’’۔ بلا شبہ اِس روایت کی صحت کا بھی پورے وثوق سے دعوی نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ یہ بھی اْن سے خبر واحد ہی کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے۔ تاہم بالبداہت واضح ہے کہ اْن کا یہ قول عین سنت ثابتہ کے مطابق ہے۔ روایت کے طریقے پر اگر یہ حضرت عبد اللہ سے صحت کے ساتھ ثابت نہ بھی ہو تو اِس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ کیونکہ قیام میں ہاتھ باندھنے کا یہ عمل،جیساکہ اوپر بیان ہوا،دین کے ماخذ میں پوری قطعیت کے ساتھ ثابت ہے۔

کیا حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنا مکروہ ہے؟

 ائمہ اربعہ میں سے اِس مسئلے کے بارے میں اگرچہ امام مالک کے حوالے سے،جیسا کہ سائل کے سوال سے بھی واضح ہے ؛ بالعموم عوام الناس میں اِس بات کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے کہ حالتِ قیام میں اْن کی رائے کے مطابق دونوں ہاتھوں کو چھوڑ کر رکھنا ہی سنت ہے۔ تاہم تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو میرے نزدیک خود امام مالک کی طرف اِس قول کی نسبت کچھ بہت قطعی نہیں ہے۔ اِس لیے کہ اِس باب میں خود اْن کے اپنے شاگردوں نے اْن سے جوکچھ روایت کیا ہے،اْس میں بہت کچھ اختلاف ہے؛جس کی تفصیل یہ ہے :

۱۔ ابن القاسم کی ایک روایت کے مطابق امام مالک کے نزدیک حالت قیام میں ہاتھوں کو باندھنا مطلقاً مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے۔ اور دوسری روایت کے مطابق وہ فرض نمازوں میں ہاتھ باندھنے کو مکروہ اور نوافل میں مباح یعنی جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک کی یہ رائے ابن القاسم کے سوا اْن کے کسی دوسرے شاگرد نے اْن سے نقل نہیں کی ہے۔ تاہم متاخرین مالکیہ کی بالعموم رائے اور اْن کا فتوی اِسی پر ہے۔

۲۔ اشہب بن عبدالعزیز کی روایت ہے کہ فرض نماز ہو یا نفل ، امام مالک کی رائے میں حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔یہی بات امام مالک سے اْن کے وہ شاگرد بھی روایت کرتے ہیں جو اہل مدینہ میں سے ہیں۔

۳۔ مطرف،ابن الماجشون اور ابن المنذر وغیرہ کا کہنا ہے کہ امام مالک نے نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کو مستحسن اور پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ علمائے مالکیہ میں سے ابن عبد البر،ابن رشد،قاضی عیاض،ابن عبد السلام،لخمی اور ابن العربی نے اِسی رائے کو اختیار کیا ہے ۔دیکھیے امام مالک سے خود اْن کے اپنے شاگردوں نے اِس مسئلے میں ایک نہیں ، بلکہ تین مختلف اقوال نقل کردیے ہیں۔ اِن کا اگر تحقیقی جائزہ لیا جائے تو علمِ دین کی روشنی میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ پہلے دونوں اقوال کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے حدیث وسنت میں کہیں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اور اِس طرح کے معاملات میں ظاہر ہے کہ آپ کی نسبت کے بغیر کسی بھی دینی نقطہ نظر کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ پھر مزید یہ کہ امام مالک سے منقول اِن دونوں اقوال میں سے دوسرے کو تو شاید کسی تاویل کے تحت لاکر قبول کیا جاسکتا ہے ، ورنہ دوسری صورت میں یہ دونوں ہی آرا اِس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالاجماع ثابت شدہ سنت کے خلاف ہونے کی بنا پر کسی طرح قبول نہیں کی جا سکتیں۔

امام ابن عبد البر نے بھی نماز میں ہاتھ باندھنے کی کراہت کے قول سے نہ صرف یہ کہ شدید اختلاف کیا ہے،بلکہ اِس معاملے میں فرض اور نفل کی تفریق کو بھی بالکل بے معنی قرار دیا ہے۔کیونکہ معاملہ فرض نماز کا ہو خواہ نفل کا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوائے ہاتھ باندھنے کوئی دوسری چیز کسی بھی ذریعے سے نقل نہیں ہوئی ہے۔ پھر جس چیز پر آپ کا عمومی عمل ثابت شدہ ہے ، اْسے مکروہ قرار دینا زیادہ جسارت کی بات ہے۔نماز میں ہاتھ باندھنے کا عمل اگر مکروہ ہے تو یہ کراہت محض رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے قول وفعل ہی سے ثابت ہوسکتی ہے۔ اِس کے سوا دین میں اِس کے ثبوت کے کسی ماخذ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

 جہاں تک امام مالک سے منقول اْن کے تیسرے قول کا تعلق ہے تو مندجہ ذیل وجوہات کی بنا پر روایت ودرایت کے اعتبار سے میرے نزدیک وہی اْن کا راجح اور واحد قابل قبول قول ہے :

1۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری شدہ سنت اور اِس معاملے میں اْمت کے علمی اتفاق اور اْس کے عملِ مسلسل کے موافق ہے۔

2۔ متعدد مرفوع اور صحیح احادیث سے بھی اِس کی مطابقت ہے۔

3۔ امام مالک کی اپنی موطا سے بھی اْن کے اِسی قول کا معتمد ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور موطا اْن کی وہ کتاب ہے ، جسے اْنہوں خود تالیف کیا،برسوں پڑھایا،وہ عمر بھر اْن کے سامنے پڑھی گئی اور اْن کے بے شمار شاگردوں نے اْسے اْن سے روایت کیا ہے۔ اْس میں امام مالک نے نماز میں ہاتھ باندھنے پر باقاعدہ باب باندھ کر اِس سے متعلق دو روایات بھی نقل کی ہیں۔ جس سے اِسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ بعد کے مالکی فقہا کی رائے سے قطع نظر،اْن کی اپنی رائے بہرحال ہاتھ باندھنے ہی کی تھی۔

4۔ جیساکہ اوپر بیان ہوا ؛ اْن کا کوئی ایک نہیں ، بلکہ متعدد شاگرد اْن سے اِس قول کو روایت کرتے ہیں۔ بر خلاف ابن القاسم کے جو اپنی روایت میں منفرد اور تنہا ہیں۔

5۔ محققین مالکیہ نے بھی،جیساکہ اوپر بیان ہوا، اْن کے اِسی قول کو اختیار ہے۔

چنانچہ ہمارے نزدیک لوگوں کا یہ کہنا کہ امام مالک کی رائے میں نماز کے قیام میں ہاتھ چھوڑ کر رکھنا سنت ہے،اْن سے مروی ایک مرجوح روایت کی بنا پر کہا جاتا ہے ، جسے علمی طور پر اْن سے ثابت کرنا آسان نہیں ہے۔

کیا ہاتھ باندھنے پر امت کا اجماع نہیں ہے ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے دیکھا جائے تو اِس عمل کو اْمت اپنے علم وعمل سے بالاتفاق سنت قرار دیتی ہے۔ آپ کی نسبت سے اِس معاملے میں کوئی دوسری بات کہیں پائی ہی نہیں گئی۔ چنانچہ آخر میں یہ بات بھی بالخصوص جان لینی چاہیے کہ اِس مسئلے میں اْمت کے ایک اقلِّ قلیل گروہ میں سنت سے مختلف ایسے نقطہ نظر کا وجود جس کا دین میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے ، اْمت کے اْس اجماع اور عملی تواتر کو توڑنے کی قطعاً صلاحیت نہیں رکھتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اِس معاملے میں آج تک چلا آرہا ہے۔ اور جس کی بنیاد ہی پر اْمت نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کو سنت قرار دیتی ہے۔اِس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہی کی نسبت سے قرآن مجید کی ایک قراء تِ عامہ پر اْمت کا علمی اتفاق اور قولی تسلسل ہے ، جسے اْسے بعد میں وجود پذیر ہونے والی دیگر قرآنی قرا ء تیں کسی طرح نہیں توڑسکیں۔ یہ چیز تو تبھی ہو سکتی تھی کہ جب ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی اِس رائے کے حق میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے قول وفعل سے کوئی دلیل فراہم کی جاتی،جیساکہ رفع یدین اور عدم رفع یدین کے باب میں ہوا ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب :اصولاً ٹی وی نشریات مباحات کے دائرے کی چیز ہیں۔ یعنی یہ اصولی حیثیت میں نہ گناہ کا مسئلہ ہیں نہ ثواب کا لیکن ان کی نوعیت اس کو جائز اور ناجائز بنا دیتی ہے۔ وہ نشریات جن میں کوئی بھی اخلاقی خرابی ہے ان کے نشر کرنے والے گنہگار ہیں۔ اس میں ہر ایک اپنی شرکت کے اعتبار سے سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ پاکستان میں جن چینلز کو قانونی اجازت حاصل ہے ان پر بھی ایسی چیزیں آتی ہیں جو قابل اعتراض ہیں مراد یہ ہے کہ ان کو پھیلانے سے گناہ ہوتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اس سے بچیں لیکن یہاں میں یہ وضاحت کر دوں قانونی چینلز کو چلانے سے حاصل ہونے والی آمدنی اصولاً جائز ہے۔ گناہ کا پہلو آمدنی میں نہیں بعض نشریات میں ہے لیکن آپ اگر جان بوجھ کر ایسی فلمیں یا گانے یا فحاشی پر مبنی کوئی بھی چیز نشر کریں گے تو آمدنی بھی ناجائز ہو جائے گی۔          

(مولانا طالب محسن)

جوا ب :ہمارے نزدیک صرف وہی تصویریں اور مجسمے حرام ہیں جن کو مقدس سمجھا جاتا اور ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ چونکہ ان کھلونوں کا اس طرح کے کسی تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ان کی موجودگی میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ہمارے گھروں میں ایسی تصویریں بھی موجود ہو سکتی ہیں ان کے بارے میں متنبہ رہنا چاہیے۔آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ سجدہ تلاوت کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کے کرنے کا طریقہ کیا ہے۔سجدہ تلاوت ایک نفلی عمل ہے اور یہ قرآن مجید کے ساتھ پڑھنے والے کے زندہ تعلق کو ظاہر کرتا ہے اس لیے اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ ہے کہ وہ تلاوت کرتے ہوئے جنت کے ذکر پر طلب کی دعا ، جہنم کے ذکر پر پناہ کی دعا اور اسی طرح ان مواقع پر سجدہ بھی کرتے تھے جن میں اس مناسبت کا مضمون آتا ہے۔ ہمارے لیے اس اسوہ میں قرآن کے ساتھ حقیقی تعلق کا نمونہ ہے جس کی پیروی میں ظاہر ہے برکت بھی ہے اور اجر بھی۔ کرنے کا طریقہ کوئی خاص مقرر نہیں ہے آپ چاہیں تو نماز کی طرح باقاعدہ مصلے پر بھی یہ سجدہ کر سکتے ہیں اور چاہیں تو بیٹھے بیٹھے بھی سجدہ کر سکتے ہیں۔     

(مولانا طالب محسن)

جواب : قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نفخ روح سے انسان سمیع و بصیر بن جاتا ہے۔ اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کے حیوانی قالب کو نفخ روح سے انسانی شعور عطا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ روح کے بارے میں کوئی بات کہنا نا ممکن ہے اور شاید ہمارے لیے مفید مطلب بھی نہیں ہے۔روح کی پاکیزگی کی اصطلاح قرآن مجید میں نہیں آئی۔ قرآن مجید میں تزکیہ نفس کی اصطلاح آئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ایمان ، عمل اور اخلاق کو پاکیزہ بنائے اور اس کا طریقہ قرآن مجید کی تعلیمات کو سمجھنا ، ماننا اور اپنانا ہے۔ چونکہ یہ سارا عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک کامل نمونے کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے اس لیے وہی سمجھ، رویہ ، ایمان اور عمل معتبر ہے جو حضور کے اسوہ کے مطابق ہو۔     

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں رزق کے حوالے سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ زمین کے ہر جاندار کا رزق اللہ تعالی پر ہے۔ یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہتے ہیں کھلا رزق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نپا تلا رزق دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ گھبراؤ اللہ وہاں سے رزق کا سامان کر دے گا جہاں سے تمھیں گمان بھی نہ ہو۔ یہ دنیا آزمایش کے اصول پر چل رہی ہے اس لیے ہماری زندگی کا ایک بڑا دائرہ محنت اور کوشش کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ رزق کا حصول بھی اصلاً اسی اصول پر قائم ہے۔ قرآن صرف یہ واضح کرتا ہے کہ رزق کے لیے تمھاری کوشش تمھیں اس زعم میں مبتلا نہ کرے کہ یہ تمھاری کوشش کا نتیجہ ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ذات ہے جو تمھاری کوشش کو جتنا چاہتی ہے پھل لگاتی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہمیں اسی اصول پر زندگی گزارنی ہے کہ اپنے لیے اچھے حالات پیدا کرنے کے لیے محنت اور کوشش کریں لیکن اس میں اصل اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے۔  

(مولانا طالب محسن)

جواب :میں آپ کے سوال کو اس معنی میں لے رہا ہوں کہ قرآن مجید میں رزق کا لفظ کس معنی میں آیا ہے۔عربی زبان میں رزق کا لفظ جہاں روزی روٹی کے معنی میں آتا ہے وہاں ہر طرح کی عنایات کے لیے بھی آتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی یہ مال و دولت کے لیے بھی ہے، متاع حیات کے لیے بھی آیا ہے اور ہدایت و معرفت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ مختصرا ًہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رزق کا لفظ اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو عطا ہونے والی ہر عنایت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔           

(مولانا طالب محسن)

جواب :حج بدل کسی شخص کا اپنی جگہ کسی دوسرے کو حج پر بھیجنا ہے۔ اس کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو خود حج کرنے سے معذور ہو۔ جس حدیث میں صدقہ جاریہ کا لفظ آیا ہے اس میں صدقہ جاریہ کے اعمال الگ بیان ہوئے ہیں اور صالح اولاد کا ذکر الگ ہوا ہے۔جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سواے تین کے : صدقہ جاریہ ، علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور صالح اولاد جو دعا کرے۔اصلاً صدقہ جاریہ ایک الگ چیز ہے اور صالح اولاد کی دعا ایک الگ چیز ہے۔ اولاد کو صدقہ جاریہ کہنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ والدین کے سکھائے ہوئے اعمال کو جاری رکھتی ہے۔ لیکن یہ بات حدیث کے مضمون کا اطلاق ہے براہ راست حدیث سے ماخوذ نہیں ہے۔ بچے کے کان میں اذان کیوں کہی جاتی ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ والدین کا عمل ہے یعنی ان کی طرف سے اولاد کے کان میں پہلی بات کیا ڈالی جانی چاہیے۔ دوسری یہ کہ اس عمر کے تمام واقعات انسان کے لاشعور کا حصہ بنتے ہیں اور یہ چیز اس کی شخصیت کے بنیاو میں ایک کردار ادا کرتی ہے اگرچہ وہ اپنی عمر کے کسی حصے میں بھی اسے دوبارہ یاد نہیں کر سکتا۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب :اجماع کا لفظ دو معنی میں بولا جاتا ہے۔ ایک اجماع امت ہے اور ایک اجماع فقہا ہے۔ اجماع امت کا مطلب یہ ہے کہ امت کسی چیز کو دین کے طور پر حضور سے منسوب کرنے میں اپنے ہر زمانے میں بالکل متفق ہو۔ یہ رائے کا اتفاق نہیں ہے بلکہ حضور سے دین کو نقل کرنے پر اتفاق ہے۔ یہی اجماع دین کا ماخذ ہے اور اس سے اختلاف جائز نہیں۔ دوسرا اجماع رائے پر اجماع ہے یہ اصل میں نصوص سے استنباط پر علما کا متفق ہونا ہے۔ اگرچہ یہ اجماع محض دعوی ہے لیکن لوگ بہت سی دینی آرا پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں۔ اس طرح کے اجماع سے اختلاف میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ رائے سے اختلاف ہے۔ یہ دین کے کسی جزو سے اختلاف نہیں ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ علمی آرا میں غلط اور صحیح کا معاملہ ہوتا ہے حق اور باطل کا معاملہ نہیں ہوتا۔ علمی آرا میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرا گمراہ ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنی رائے پر عمل کریں تو دین پر عمل کر رہے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والا اپنی رائے پر عمل کرے تو وہ بھی دین پر عمل کر رہا ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاق کے معاملے میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ تین طلاق ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ایک طلاق ہے۔ جس کی جو بھی رائے ہے وہ اس پر عمل کرنے میں گناہ گار نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات پر گمراہی کا لفظ درست نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : الحمد للہ: رمضان المبارک شروع ہونے کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو رمضان المبارک آنے کی خوشخبری دیتے اور انہیں اس کا خیال رکھنے پر ابھارتے تھے.ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے پاس بابرکت مہینہ آیا ہے، اللہ تعالی نے اس کے روزے تم پر فرض کیے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور سرکش قسم کے شیاطین پابندسلاسل کر دیے جاتے ہیں، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی بھلائی اور خیر سے محروم کر دیا گیا تو وہ محروم ہے"۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :صحابہ کرام سے وارد ہے کہ وہ ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیا کرتے اور کہتے: تقبل اللہ منا و منکم. اللہ تعالی ہم اور تم سے قبول فرمائے. مبارک باد ، مصافحہ اور معانقہ میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسے دین کا حصہ نہ سمجھا جائے اور ایک معاشرتی رواج کے طور پر کیا جائے ۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :میں نے یہ مسئلہ اپنے استاداورشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ تعالی سے پوچھاتوان کاجواب تھا :اسی کی امیدہے کہ اسے یہ اجرملے گا یعنی دونوں روزوں کا کیونکہ اللہ تعالی کافضل بہت وسیع ہے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں ، اورمسلمان کے لیے مشروع ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھے جس میں فضل عظیم اوربہت بڑا اجر و ثواب ہے ، کیونکہ جو شخص بھی رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزوں کا اجروثواب لکھا جاتا ہے۔ شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائدمیں یہ بھی شامل ہے کہ یہ روزے رمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اورنقص کو پورا کرتے ہیں اوراس کے عوض میں ہیں ، کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہوجاتی ہے اورگناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جوکہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے۔ اور روزقیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص نوافل سے پورا کیا جائے گا۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :درج بالا صورت میں کسی کفارے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق روزوں کی تعدادپوری کرنا ضروری ہے۔ اس لیے جو روزہ بھی کسی وجہ سے چھوٹ گیا ہو اسے رمضان کے بعدرکھا جاتا ہے۔         

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں روزے کے جو احکام بیان ہوئے ہیں، ان میں عارضی طور پر روزے کا فدیہ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ اجازت ختم کر دی گئی۔ رمضان کے بعد عام دنوں میں روزہ رکھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے ، اِس لیے جب تک طبائع اِس کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہو گئیں، اللہ تعالیٰ نے اِسے لازم نہیں کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے کہ فدیے کی یہ اجازت اِس لیے ختم کردی گئی ہے کہ تم روزوں کی تعداد پوری کر و اور جو خیروبرکت اْس میں چھپی ہوئی ہے، اْس سے محروم نہ رہو۔اصل میں بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ رمضان گزرنے کے بعد چھوٹنے والے روزے پورے کیے جائیں۔میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ ممکن ہے اس کا کوئی حل نکل آئے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کچھ روزے چھوڑ دیا کریں اور رمضان کے بعد تعداد پوری کر لیا کریں۔علما فدیے کا آپشن اب صرف ان مریضوں کے لیے بیان کرتے ہیں جن کا مرض مستقل نوعیت کا ہواور روزے رکھنا اب ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہے۔ میرا خیال نہیں ہے کہ آپ اس نوع سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا مناسب علاج کرائیں اور جب تک ٹھیک نہ ہوں، کچھ روزے چھوڑ کر بعد میں تعداد پوری کر لیں۔آپ نے کہا کہ آپ نقاہت محسوس کرنے کی وجہ سے خوش دلی سے روزے نہیں رکھ پاتیں۔ اگر آپ یہ بات اپنے سامنے رکھیں کہ اس مشقت کو جھیلنے میں آپ کا اجر دوسرے روزے داروں سے زیادہ ہے تو یہ نفسیاتی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہے کہ روزے اور حج کے مہینے قمری تقویم، یعنی چاند کی ماہانہ گردش سے طے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قمری مہینے کا تعین کیسے ہو۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام چاند دیکھ کر کیا جائے گا،لیکن انسان نے بہت پہلے یہ بات جان لی تھی کہ چاند کی گردش معین ہے اور ہلال کے طلوع کو حساب کتاب سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قمری مہینے کے ہونے اور نہ ہونے کا تعین دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔ رؤیت ہلال سے بھی اور گردش قمر کے حساب سے بھی۔ اب یہ حساب کتاب اتنا یقینی ہو چکا ہے کہ اہل فن سیکنڈ کے حساب سے چاند کے طلوع ہونے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا دین میں چاند کے تعین میں کسی خاص طریقے کو ترجیح دی گئی ہے؟ قرآن مجید میں اس حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مدار بحث ایک روایت ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے:''چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔اگرمطلع صاف نہ ہو تو گنتی پوری کرو۔''اس روایت کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ رمضان اور عید کا تعین صرف چاند دیکھ کر کرنا چاہیے۔ دراں حالیکہ یہ بات اس جملے سے لازم نہیں آتی۔روزے کے حوالے سے سحر اور افطار کا تعین بھی طلوع فجر اور غروب آفتاب سے متعلق ہے، لیکن وہاں ہم نے کسی رؤیت صبح صادق اور تعین غروب آفتاب کا اہتمام نہیں کیا۔ سورج کی گردش کے متعین حساب کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اوقات متعین کر دیے گئے ہیں اور لوگ گھڑیاں دیکھ کر سحر اور افطار کرتے ہیں،حالاں کہ قرآن مجید نے یہاں بھی دو مظاہر فطرت کو آغاز صوم اور اختتام صوم کا نشان قرار دیا تھا۔ جس طرح سورج کی گردش کے حساب پر اعتماد کیا گیا ہے، اسی طرح چاندکی گردش کے حساب پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا اس صورت میں بھی بہ تمام وکمال پورا ہوتا ہے۔قدیم علما بھی جب مطلع صاف نہ ہو اور رؤیت ممکن نہ رہے تو حساب کتاب ہی کو فیصلے کا مدار قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں دو آرا ہیں: ایک رائے یہ ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور دوسری رائے یہ ہے کہ گردش کا حساب دیکھ کر طے کیا جائے کہ آج طلوع ہلال ممکن تھا یا نہیں۔ جو رائے قائم ہو، اس پر عمل ہونا چاہیے۔یہ دوسری رائے امام شافعی سے بھی مروی ہے۔ اس رائے میں بھی بنیادی اصول یہی کار فرما ہے کہ اصل مسئلہ آغاز رمضان یا اختتام رمضان کا تعین ہے۔ رؤیت ہلال اس کا ذریعہ ہے، اس کی شرط نہیں ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ اختلاف مطالع کے باعث مختلف علاقوں میں عید اور رمضان کے اوقات بدل جاتے ہیں، اس کا کیا حل ہے؟ ہمارے نزدیک سارے عالم اسلام یا سارے ملک میں ایک ہی دن عید کرنے کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔ جن علاقوں کا مطلع مختلف ہے، ان میں عید کا دن مختلف ہی ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قمری گردش کو مذہبی تقویم قرار دیا ہے تو یہ فرق اسی کا نتیجہ ہے۔

ہوائی سفر میں نماز اور روزے کا حساب ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ جس علاقے سے سفر شروع کیا گیا ہے، وقت کا فرق کم ہو تو اس علاقے کے اوقات ملحوظ رکھنے چاہییں، لیکن اگر فرق زیادہ ہو تو جس علاقے سے جہاز گزر رہا ہو یا پہنچنے والا ہو، اس کا اعتبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسافر کی صواب دید پر ہے، وہ جسے بھی اختیار کرے گا، امید یہی ہے کہ اس کے روزے اور نماز کے مقبول ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :رمضان کے دوران میں شیاطین کا قید کر دیا جانا صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے۔ (بخاری )اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کے نفس میں گناہ کا داعیہ ہی سرے سے باقی نہیں رہتا۔ روزے کی حالت میں شیاطین کو وسوسہ اندازی سے روک دیا جاتا ہے` لیکن انسان اپنی نفسانی کمزوریوں کے تحت گناہ کی طرف مائل بھی ہو سکتا ہے اور اس کا مرتکب بھی۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب : روزہ کی پانچ قسمیں ہیں:

فرض، واجب، نفل، مکروۂ تنز یہی اور مکروۂ تحریمی۔ فرض وواجب ہر ایک کی دو قسمیں ہیں معین، غیر معین۔ فرض معین جیسے رمضان المبارک کے روزے جو اسی ماہ میں ادا کیے جائیں۔ اور فرض غیر معین جیسے رمضان کے روزوں کی قضا اور کفارے کے روزے ، کفار ہ خواہ روزہ توڑنے کا ہو یا کسی اور فعل کا۔ واجب معین جیسے نذر و منت کا وہ روزہ جس کے لیے وقت معین کر لیا ہو اور واجب غیر معین جس کے لیے وقت معین نہ ہو۔ نفلی روزے جیسے عاشور ایعنی دسویں محرم کا روزہ ۔ ایام بیض یعنی ہر مہینے میں تیر ہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کا روزہ ۔عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ ، شوال کے۶ روزے ،پیر اور جمعرات کا روزہ ۔مکروہ تنزیہی جیسے صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنا کہ یہ یہودیوں کا سا روزہ ہے۔ صوم دہر یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا۔ صوم سکوت یعنی ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے، صوم وصال کہ روزہ رکھ کر افطار نہ کرے اور دوسرے دن پھر روزہ رکھ لے۔ مکروہ تحریمی یعنی ممنوع روزے جیسے عیدکے دن روزہ ۔(بحوالہ در مختار اور عالمگیری)

(محمد صدیق بخاری)

جواب :نیت دل کے فعل کا نام ہے ۔ دل سے ارادہ کرنے کو نیت کہتے ہیں۔زبان سے کہنا شرط نہیں اگر کہہ لے تو کوئی حرج بھی نہیں۔ اس کے لیے نہ کوئی دعا مسنون ہے اور نہ ہی کوئی خاص الفاظ ۔

(محمد صدیق بخاری)

جواب :مراقبہ لغت میں نگرانی اور نگہبانی کے معنی رکھتا ہے۔ اسی سے اس میں غور وفکر اور خدا کے تعلق کی نسبت سے اپنے ایمان وعمل کا جائزہ لینے کے معنی پیدا ہو گئے ہیں۔ مزید برآں انسان کے تصور کرنے کی صلاحیت پر ارتکاز کے لیے بھی مراقبے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ صوفیہ کے مقامات کی سیر غالباً اسی نوع کے مراقبے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ نہ دین میں اس طرح کے کسی عمل کی تعلیم دی گئی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:پندرہ علوم سے ہمارے ہاں متداول علوم مراد ہیں۔ مثلافہم کلام کے لحاظ سے: لغت، نحو، صرف، بلاغت، بیان اور اصول تفسیروغیرہ، حدیث کے ضمن میں رجال، روایت اور درایت کے اصول، فقہ کے حوالے سے اصول فقہ اور خود فقہ، علوم عقلیہ میں فلسفہ، منطق اور علم کلام اور تاریخ میں سیرت اور اسلامی تاریخ ۔اسی طرح خود قرآن مجید اور سنت اور حدیث سے براہ راست واقفیت وغیرہ۔ میں نے آپ کو ذہن میں موجود معلومات کو سامنے رکھ کر ایک اصولی جواب دیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس موضوع پر لکھی کتابوں میں اس تفصیل میں کچھ فرق ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے ایک رواج کو نا پسند فرمایا تھا۔ کچھ لوگ طمطراق اور طنطنہ ظاہر کرنے کے لیے عربوں میں رائج لباس یعنی تہبند کو اتنا نیچے باندھتے تھے کہ وہ چلتے وقت زمین پر گھسٹتا رہے۔ ظاہر ہے، یہ گھمنڈ ہے جسے ہمارے دین میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ہماری امت میں دو نقطہ نظر رائج ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق علت کو اہمیت دی جائے گی اور لباس کی ہر وہ ہیئت ناپسندیدہ قرار دی جائے گی جس کا محرک تکبر ہو۔ چنانچہ ٹخنوں کا ننگا ہونایا ڈھکا ہونا اس معاملے میں غیر اہم ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کے معاملے میں ٹخنوں کو ننگا رکھنے کا حکم دیا تھا۔ لہذا کوئی بھی لباس ہو ٹخنے ہر حال میں ننگے رکھے جائیں گے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل اہمیت علت کی ہے۔ اگر کسی لباس میں نیچے رکھنے سے تکبر کی علت نہیں ہے تو ٹخنے ننگے رکھنا ضروری نہیں رہتا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:عام طور پر ایک روایت کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر غلطی ہو تو ایک اجر ہے اور اگر درست ہو تو دہرا اجر ہے۔ اس روایت کے بارے میں کچھ قیل وقال ہے۔ لیکن قرآن میں اجر کے مرتب ہونے کے جو اصول بیان ہوئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بات ٹھیک لگتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس غلطی پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے جس میں آدمی کا اپنا ارادہ اور نیت شامل نہیں ہے۔مجتہد یا قاضی چونکہ صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ غلطی کے باوجود اسے اجر ملنا سمجھ میں آتا ہے۔ درست فیصلے یا نتیجے پر دہرا اجر درحقیقت اس محنت کا عوض ہے جو اس نے صحیح بات تک پہنچنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرکے کی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:صحابہ کی دین میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ ہمارے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جماعت ِصحابہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو دین کے منتقل ہونے کا ذریعہ بنی ہے۔ چنانچہ وہ دین جو ان کے اجماع سے امت کو منتقل ہوا ہے وہ امت کے لیے واجب الاتباع ہے۔ اس کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ باقی رہیں ان کی آراء یا ان کے ذریعے سے امت کو ملنے والی اخبار احاد تو ان کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے لیکن ان کو قبول کرنے کے لیے انھیں روایت درایت اور فہم کے اصولوں پر پرکھا جائے گا۔ اگر درست ہوں گی تو مان لی جائیں گی ورنہ دوسری رائے قائم کرنے کا رستہ اختیار کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ امت کے ائمہ نے اس باب میں یہی راستہ اختیار کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: ٹائی کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ یہ محض تزئین کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک مذہبی علامت کی ہے اور یہ صلیب کا نشان ہے۔ اولاً تو اسی بات کو ثابت کرنے میں مسائل ہیں۔ ثانیاًاب تمام دنیا میں کوٹ پتلون اور ٹائی کا رواج ہے اور اگر اس کا کوئی مذہبی پس منظر تھا بھی تو اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ اس کو ایک تزئینی لباس کے طور پر ہی پہنا جاتا ہے۔ ٹائی پہننے میں اصولاً کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:دین میں اصل اہمیت صبر کی ہے۔ صبر سے مراد ثابت قدمی اور استقامت ہے۔ دین پر عمل، سوسائٹی کے حوالے سے ایک مسلمان پر دین کی رو سے عائد ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے استقامت یعنی صبر کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے اور اسی پردین و دنیا کے اعلی نتائج منحصر ہیں۔ صبر محض ایک نئی اصطلاح ہے۔ غالباً اس سے مراد کسی طرح کے اقدام سے گریز ہے۔ یہ اصطلاح کسی حکمت عملی کے لیے تو شاید ناگزیر ہو لیکن دینی زندگی کے لیے یہ ایک بے معنی بات ہے۔ دین کا ہر حکم دین میں بیان کی گئی شرائط کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔ کسی خود ساختہ حکمت کو دینی قرار دینا کسی طرح موزوں نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:بنیادی اختلاف ایک ہی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسی ہستیوں کو ماننا جو براہ راست اللہ تعالی سے رہنمائی پاتی ہوں اور خطا سے محفوظ ہوں اور دین میں اصل انحصار انھی پر ہو۔باقی دینی اختلافات بالعموم اسی فرع سے پھوٹے ہوئے ہیں۔ باقی رہا دور اول کا سیاسی جھگڑا تو اس کے دینی اور سیاسی اثرات بھی اہم ہیں لیکن اس معاملے میں امت کے بہت سے لوگ اہل تشیع کے ہمنوا ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف کرنا ایمان کے منافی ہے۔ البتہ اہل علم اس بات میں اختلاف کرتے ہیں کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے پیش کی جارہی ہے وہ اپنی نسبت میں درست ہے یا نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: ولایت کوئی منصب نہیں ہے۔ لہذا اس کے لیے دلیل کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ اگر کسی شخص سے اس طرح کا کوئی واقعہ صادر ہوتا ہے تو یہ ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مقبول بارگاہ ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات میں افسانہ زیادہ اور حقیقت کم ہی ہوتی ہے۔ باقی رہا نبوت کا معاملہ تو اسے کئی طرح کے دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے ۔ معجزہ ان میں سے ایک ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اذان کے بعد کی دعا میں دونوں صورتیں درست ہیں۔ میرے علم کی حد تک اس میں مسجد کے اندر یا باہر کا فرق بھی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ دعا ہاتھ اٹھائے بغیر مانگی جاتی ہے۔اذان کا جواب دینے میں اگر آپ چاہیں تو ہر اذان کا جواب دیں اور اگر ایک اذان کا جواب دیں تو اس میں بھی حرج نہیں۔ اسی طرح چاہیں تو ایک اذان کے بعد دعا مانگیں اور چاہیں تو ہر اذان کے بعد دعا کریں۔ یہ امور تطوع ہیں ۔

(مولانا طالب محسن)

آپ کے سوالات کے جواب حاضر ہیں۔

بنیادی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے جملے کی زیادہ سے زیادہ حیثیت ایک قسم کی ہے۔یہ ایک ناموزوں اور حق تلفی پر مبنی قسم ہے ۔اسے توڑنا لازم ہے۔ اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ ان صاحب کو بس یہ کرنا ہے کہ یہ قسم کا کفارہ ادا کردیں اور اپنی سسرال میں نارمل زندگی گزاریں۔ قسم کا کفارہ یہ ہے:‘‘قسم کھانے والا دس مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلائے جو وہ عام طور پر اپنے اہل وعیال کو کھلاتا ہے، یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے یا غلام آزاد کرے۔ان میں سے کچھ بھی میسر نہ ہو تو اسے تین دن کے روزے رکھنا ہوں گے۔’’

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس دنیا میں ہم انسانوں کے بس میں جو کچھ ہے وہ اسباب کے تحت ہے۔ یہ اسباب ضروری نہیں کہ معروف معنوں میں مادی ہوں۔ لیکن ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ کسی علم پر مبنی ہوتا ہے خواہ وہ علم مادے کے اندر چھپے خواص کا ہو یا نفسیات میں ودیعت کی گئی صلاحیتوں کا ہو اور خواہ اسے قواعد وضوابط مرتب کرکے باقاعدہ علم کی شکل دے دی گئی ہو اور خواہ یہ تجربات ومجربات کی صورت میں سینہ بہ سینہ چل رہا ہو۔ ہم اللہ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند ہیں اور اس سے نکلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ البتہ اللہ تعالی کی طرف سے خارق عادت معاملات ہوتے رہتے ہیں ان کی کسی فرد کی طرف نسبت کسی طرح بھی درست نہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ قرآن مجید میں شہدا کے لیے ایک نوع کی زندگی کی خبر دی گئی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے اشارات سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ مرنے والوں کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا سماع کا نقطہ نظر کسی محکم بنیاد پر قائم نہیں ہے۔وسیلہ کا عربی میں مطلب قرب ہے۔ اردو کے لفظ وسیلہ کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اللہ تعالی سے عبد ومعبود اور دعاومناجات کے تعلق کے لیے کسی طرح کے واسطے کی ضرورت نہیں۔اللہ تعالی کے سوا کسی اور سے ماسوائے اسباب استمداد اور استغاثہ جائز نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس دنیا میں ہم انسانوں کے بس میں جو کچھ ہے وہ اسباب کے تحت ہے۔ یہ اسباب ضروری نہیں کہ معروف معنوں میں مادی ہوں۔ لیکن ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ کسی علم پر مبنی ہوتا ہے خواہ وہ علم مادے کے اندر چھپے خواص کا ہو یا نفسیات میں ودیعت کی گئی صلاحیتوں کا ہو اور خواہ اسے قواعد وضوابط مرتب کرکے باقاعدہ علم کی شکل دے دی گئی ہو اور خواہ یہ تجربات ومجربات کی صورت میں سینہ بہ سینہ چل رہا ہو۔ ہم اللہ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند ہیں اور اس سے نکلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ البتہ اللہ تعالی کی طرف سے خارق عادت معاملات ہوتے رہتے ہیں ان کی کسی فرد کی طرف نسبت کسی طرح بھی درست نہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ قرآن مجید میں شہدا کے لیے ایک نوع کی زندگی کی خبر دی گئی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے اشارات سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ مرنے والوں کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا سماع کا نقطہ نظر کسی محکم بنیاد پر قائم نہیں ہے۔وسیلہ کا عربی میں مطلب قرب ہے۔ اردو کے لفظ وسیلہ کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اللہ تعالی سے عبد ومعبود اور دعاومناجات کے تعلق کے لیے کسی طرح کے واسطے کی ضرورت نہیں۔اللہ تعالی کے سوا کسی اور سے ماسوائے اسباب استمداد اور استغاثہ جائز نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ سحر ایک فن ہے جو سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ اس کا دائرہ عمل کیا ہے ؟ اس ضمن میں قرآن وحدیث سے کوئی بات طے کرنا موزوں نہیں ۔ اس لیے کہ ان میں اس کا تذکرہ کچھ واقعات کے حوالے سے آیا ہے ۔ براہ راست اس فن کو موضوع نہیں بنایا گیا۔یہ سرتاسر تجربے پر موقوف ہے۔اس فن کے لوگ اسے باقاعدہ علم کی شکل نہیں دے سکے لہذا اس کے نتائج کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ البتہ ہمیں قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس فن کی ایک صورت غالباً جسے کالا علم کہا جاتا ہے کفر ہے۔ اور دوسری صورت بھی ایک فتنہ ہے۔ لہذا ان سے گریز ہی بہتر ہے۔ قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں پڑھ کر پھونکنے میں حرج نہیں اور اگر ضرورت ہو تو لکھ کر تعویز بھی بنایا جا سکتا ہے۔لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ عمل کرنے والا اپنے لیے خود کرے ۔پڑھ کر اپنے اوپر پھونکنے کاعمل حضور سے روایات میں بیان ہوا ہے لیکن تعویزکرنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ مغرب میں قانونی طور پر کسی فرد کے کسی عمل کو ممنوع ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں ہے جب تک وہ فعل دوسروں کے جسم وجان کے ضرر رساں یاان کے کسی حق کو تلف کرنے کا باعث نہ ہو۔اس کے برعکس اسلام میں وہ تمام چیزیں بھی ممنوع ہیں جو انسان کے اخلاقی وجود کے منافی ہیں۔ شراب کوسورہ بقرہ کی آیت ۲۱۹میں اثم یعنی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ‘اثم’ کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘اثم کا لفظ…………اخلاقی مفاسد اور گناہوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ج۱، ص۵۱۴)اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت ۹۰میں اسے ‘رجس’ گندگی اور عمل شیطان قرار دیا گیا ہے۔ یہ آیت بھی شراب کے اخلاقی قباحت ہونے ہی کو واضح کرتی ہے۔سورہ نساء کی آیت ۴۳ سے واضح ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت کا اصل باعث اس کا نشہ آور ہونا ہے۔ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ جب تم نشے میں ہو تو نماز نہ پڑھو۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ شراب کی حرمت کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس آیت میں نشے اور جنابت دونوں کو نماز کے لیے مانع قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے اشتراک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ‘‘نشہ اور جنابت دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرکے اور دونوں کو یکساں مفسد نماز قرار دے کر قرآن نے اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ دونوں حالتیں نجاست کی ہیں، بس فرق یہ ہے کہ نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی۔ شراب کو قران نے جو ‘رجس’ کہا ہے یہ اس کی وضاحت ہو گئی۔’’ (تدبر قرآن، ج۲، ص۳۰۲)میں نے قرآن کا منشا بیان کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسلام کا نقطہ نظر آپ کے سامنے آگیا ہو گا۔ لیکن مغرب میں پہلے اس اصول کو منوانا ضروری ہے کہ انسان کے اخلاقی وجود کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ جب تک یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی قرآن کا یہ موقف ان کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:دارقطنی سمیت کسی حدیث کی کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔ البتہ تاریخ بغداد میں یہ روایت منقول ہے۔حرف العین من آباء الحسنین میں رقم۳۸۷۴کے تحت یہ روایت فیرزان کے قول کی حیثیت سے نقل ہوئی ہے اس کتاب میں یہ روایت جس صورت میں موجود ہے وہ کسی طرح بھی قابل اعتنا نہیں ہے۔دارقطنی حدیث کی کمزور کتب میں شمار ہوتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس سوال کا لب ولہجہ مناسب نہیں ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا کسی بات کو غلط قرار دینا چاہتا ہے لیکن براہ راست غلط کہنے کے بجائے اسے ایک تلخ سوال کی صورت میں بیان کررہا ہے۔ہمارا پورا دین قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔ قرآن مجید ہمارے عقیدہ وعمل دونوں کی اصلاح کرتا ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں کئی اعمال بھی پوری وضاحت کے ساتھ زیر بحث آئے ہیں۔ سنت دین کے اعمال کے منتقل ہونے کا ذریعہ ہے جو اللہ تعالی کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کے طور پر اپنے ماننے والوں کو سکھائے۔ آپ کا سوال ان لوگوں سے بنتا ہے جو صرف قرآن مجید کو دین کا ماخذ مانتے ہیں۔ سنت کے ذریعے جو دین ہمیں ملا ہے قرآن مجید اس کا ذکر ایک معلوم ومعروف عمل کی حثییت سے کرتا ہے۔ اس لیے اس کو اسے بیان کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن جہاں اسے کسی چیز کی اصلاح کرنا تھی اس نے عملی حصے کو بھی واضح کیا ہے جیسے وضو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید نے شرک کی تردید کرتے ہوئے یہ تنقید کی ہے کہ تمھارے پاس تمھارے اس عقیدے کی خدا کی وحی میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ گویا قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات وصفات اور ملکوت کے بارے میں کوئی بات ظن وتخمین یا عقلی استدلال سے کہنا غلط ہے اس کے لیے خود خدا کا کوئی بیان ہونا ضروری ہے۔ اس کی روشنی میں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں مابعد الطبیعاتی حقائق کی صحیح تعین صرف وحی سے ہو سکتی ہے۔ اسی بات کو کچھ لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ عقائد کا ماخذ قرآن ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کفار اور یہود کے اس نوعیت کے مطالبات زیر بحث آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خارق عادت امور صادر ہوں۔ اللہ تعالی نے ان کے جواب میں قرآن مجید کو پیش کیا ہے۔ شق قمر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ بعض سچی پیشین گوئیاں قرآن میں مذکور ہیں۔ احادیث میں متعدد خارق عادت واقعات مذکور ہیں۔ آپ نے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ واقعہ ہر اعتبار سے ایک معجزہ ہے۔جو واقعات اخبار آحاد سے نقل ہو رہے ہیں۔ ان پر محدثانہ تنقید تو ہوسکتی ہے لیکن بطور اصول ان کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دونوں اسماء وآیات کے اس نوع کے استعمال سے بالکل خالی ہیں۔اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف مسائل و مشکلات میں نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ نے ممکنہ تدبیر کی ہے اور اللہ تعالی سے مدد کی دعا مانگی ہے۔بعینہ یہی رویہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا نظر آتا ہے۔تعویز سے متعلق روایات عام طور پر سند کے اعتبار سے کمزور روایات ہیں۔ دین کے محکمات میں ان کی کوئی تائید نہ ہونے کی وجہ سے یہ اور کمزور ہو جاتی ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور قرآن مجید کا تعلیم کیا ہوا طریقہ تو وہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے۔رہا یہ سوال کہ وظائف میں کوئی تاثیر ہے یا نہیں، تو اس کا کوئی جواب ہمیں قرآن مجید یا صحیح احادیث میں نہیں ملتا۔ فیصلے کی بنیاد صرف مشاہدہ اور تجربہ ہی رہ گیا ہے۔ میرے علم کی حد تک فائدہ پہنچنے کی روایات بہت سی ہیں لیکن اس فن کو اس طرح مرتب نہیں کیا گیا کہ کوئی حتمی بات نہ سہی اعتماد ہی کا اظہار کیا جا سکے۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ وظائف کا یہ استعمال دینی اعتبار سے غلط ہے لیکن اس کی سفارش بھی نہیں کرتے۔ اسی سے جبت اور توہم پرستی کی راہیں نکلتی ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں دینی نقصان ہے۔ پھر یہ بعض اوقات صحیح تدبیر اور خدا پر اعتماد کا متبادل بن جاتے ہیں۔ اس پہلو سے یہ دنیوی نقصان کا باعث ہو سکتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اصلاً یہ دنیا تدبیر پر چل رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت تدبیر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی تدبیر کی کامیابی اور ناکامی میں ایک حصہ تدبیر کے حسن وقبح کا ہوتاہے لیکن اصل چیز خدا کی تائید یا عدم تائید ہے۔ کھیتی کی مثال دیکھیے۔ اگر کسان ہل نہیں جوتے گا، بیج نہیں ڈالے گااور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرے گا تو کوئی پیداوار نہیں آئے گی۔ لیکن جب وہ یہ سب کچھ کرتا ہے تو اس کھیتی کی کامیابی کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔کسان کی تدبیر کے دائرے سے باہر کے امکانات کی موافقت بھی ضروری ہے۔مثلا موسم اور دوسری آفات کا نہ ہونا۔ چنانچہ صحیح تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی توفیق ہی سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ناکامی پیش آئے تو دونوں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک یہ کہ تدبیر میں کیا کمی رہ گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کو کیا آزمایش کرنا پیش نظر تھی۔ ہم اگرچہ پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی عمل کے جو نتائج نکلے ہیں ان میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مایوسی اور بے ہمتی کا شکار ہونے کے بجائے نئے عزم سے اور بہتر تدبیر کے ساتھ نئی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔باقی رہا تقدیر کا معاملہ تو رزق کے معاملے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو کم اور کسی کو بے حساب رزق دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالی یہ فیصلہ کسی حکمت ہی کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صحیح تدبیر کریں اللہ تعالی کے ساتھ بندگی اور توکل کے تعلق کو قائم رکھیں اور جو کچھ نتائج نکلیں کامیابی کی صورت میں اسے شکر کی آزمایش سمجھیں اور ناکامی کی صورت میں اسے صبر کی آزمایش کے طور پر دیکھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:ہمارے ملک میں مساجد بالعموم محلے کے زیر انتظام چل رہی ہیں۔ اصولا جمعہ اور عیدین کی نماز کا اہتمام حکومت کو کرنا چاہیے اور علاقے کے حاکم یا اسی کے مقرر کردہ امام کو امامت کرانی چاہیے۔آپ کے مسئلے کا دینی حل یہی ہے۔ لیکن اس اصول پر مسئلہ حل ہو جائے اس کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے۔لہذا مسئلہ حل کرنے کا اس کا سوا کوئی راستہ نہیں کہ ہم کوئی اچھی حکمت عملی اختیار کریں۔دیہی علاقوں میں صورت حال جیسا کہ آپ کے علاقے کی مثال سے بھی واضح ہے کافی پیچیدہ ہوتی ہے۔ وہاں لوگ علاقے کے بڑے لوگوں کی گرفت میں ہوتے ہیں اور انھیں بڑے شہروں کے رہنے والے لوگوں کی طرح فیصلے کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر یہ بڑے لوگ نیک اور خوش اخلاق ہوں تو لوگ اطمینان سے رہ لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں تکلیف دہ حالات سے دوچار رہتے ہیں۔پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ اس صورت حال کو مان کر سوچنا چاہیے۔ وہ خارجی حالات جن کو تبدیل کرنے میں بہت سی دشواریاں حائل ہوں اور جن سے ٹکرانے کے نتیجے میں مشکلات بڑھ تو سکتی ہوں ان کے دور ہونے کا کوئی امکان نہ ہوان سے معاملہ حکمت اور دانش سے کرنا چاہیے۔میری تجویز یہ ہے کہ مسجد کے انتظام کو پہلے مرحلے میں ایک کمیٹی کے سپرد کرنا چاہیے۔ یہ کمیٹی ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جو نائب ناظم یا علاقے کے مؤثر لوگوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے معاملہ کر سکتے ہوں۔ یہ کمیٹی کسی جھگڑے کو مول لیے بغیر آہستہ آہستہ علاقے کے بڑے لوگوں سے فیصلے کرنے کا حق منوا لے۔ شروع میں اگر اس طرح کا کوئی بڑا آدمی کمیٹی میں شامل ہو تو منزل جلدی حاصل ہو سکتی ہے۔اس معاملے میں مولوی صاحب کا کردار بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اگر کوئی ایسا آدمی امام صاحب کی حیثیت سے دستیاب ہو جائے جسے اس طرح کے لوگوں سے نمٹنے کا تجربہ ہو اور وہ اپنے اخلاق وکردار اور علم سے ان کے دل میں اپنا احترام پیدا کر لے تو اس طرح کی ناگوار صورت حال کے امکانات مزید کم ہو جاتے۔

محکمہ اوقاف کے حوالے سے مجھے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کو محکمہ اوقاف سے رابطہ کرنا چاہیے اور ان کے قواعد وضوابط معلوم کرکے آپ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ مسجد اس محکمے کے زیر انتظام آجائے۔ علاقے کے بڑے لوگ اس کے بعد مداخلت سے باز آجائیں گے اس کا امکان مجھے کم ہی نظر آتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب۔ صدر الشریعہ فرماتے ہیں، رسوم کی بنا عرف پر ہے، یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ شرعاً واجب ہے یا سنت یا مستحب ہیں لہذا جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہو اس وقت تک اسے حرام یا ناجائز نہیں کہہ سکتے ، مگر یہ ضرور ہے کہ رسوم کی پابندی اس حد تک کر ے کہ کسی حرام فعل میں مبتلا نہ ہو۔ بعض لوگ اس قدر پابندی کرتے ہیں کہ ناجائز فعل کرنا پڑے توبھی پرواہ نہیں مگر رسم کا چھو ڑنا گوارہ نہیں۔ مثلا لڑکی جوان ہے اور رسوم ادا کرنے کو روپیہ نہیں تو یہ نہ ہوگا کہ رسمیں چھوڑدیں اورنکاح کردیں کہ سبکدوش ہوں اور فتنہ کا دروازہ بند ہو۔ اب رسوم کے پورا کرنے کو بھیک مانگتے ، طرح طرح کی فکریں کرتے ہیں اس خیال میں کہ کہیں سے قرض مل جائے تو شادی کریں۔ برسوں گزار دیتے ہیں ا ور یوں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ (بہار شریعت حصہ ہفتم ص ۹۶)اب ہم ان امور کا جائزہ لیتے ہیں جو سوال میں مذکور ہیں۔ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے رسوم کے متعلق دو اہم قواعد بیان فرمائے ہیں۔ جن کا سمجھنا ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، شرع شرف کا قاعدہ ہے کہ جس چیز کو خدا اور رسول اچھا بتائیں وہ اچھی ہے اور جسے برا فرمائیں وہ بری ، اور جس سے سکوت فرمائیں یعنی شرع میں نہ اسکی خوبی بیان ہوئی نہ برائی، وہ اباحت اصلیہ پر رہتی ہے کہ اس کے فعل و ترک میں ثواب نہ عتاب۔ دوم۔ کسی سے مشابہت کی بنا پرکسی فعل کی ممانعت اسی وقت صحیح ہے کہ جب فاعل کا ارادہ مشابہت کا ہو، یا وہ فعل اہل باطل کا شعار و علامت خاصہ ہو۔ جسکے سبب وہ پہچانے جاتے ہوں۔ یا اگر خود اس فعل کی مذمت شرع سے ثابت ہو تو اسے برا کہا جائے گا ورنہ ہر گز نہیں ،اور پھولوں کا سہرا ان سب باتوں سے پاک ہے لہذا جائز ہے۔ دولہا دلہن کو ابٹن لگانا، مائیو بٹھانا جائز ہے۔ (بشرطیکہ کوئی اور خلاف شرع امور جیسے گانا بجانا اور نا محرموں سے اختلاط وغیرہ نہ پائے جائیں)۔ دولھا کو مہندی لگانا، نا جائز ہے اور ریشمی کپڑے پہننا پہنانا حرام ہے۔ (بہار شریعت حصہ ہفتم ۱۷)فی زمانہ صرف مہندی کی رسم پر لاکھوں خرچ کردیے جاتے ہیں جوکہ اسراف و حرام ہے۔ پھر اس موقع پر عورتوں کا بن سنور کر بے پرد ہ نا محرموں کے سامنے آنا حرام مزید یہ کہ گانا بجانا ہوتا ہے وہ بھی حرام ستم بالائے ستم یہ کہ ان تمام خرافات کی وڈیو فلم بنائی جاتی ہے تاکہ بے پردہ عورتوں کے ناچ گانے اور دیگر بے حیائیاں جب دل چاہے دیکھی جائیں، ظاہر ہے کہ یہ ویڈیو فلم بنانا اور بنوانا بھی حرام و سخت گناہ کا باعث ہیں۔ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، نکاح کے اعلان کی خاطر بندوق سے چند فائر کرنا جائز ہے۔ جبکہ کھیل کود یا فخر و مستی کے طور پر جائز نہیں۔ آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب برات میں رائج ہے بیشک حرام ہے اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا، ارشاد ہوا، ( اور فضول نہ اڑا ، بیشک (مال) اڑانے والے سیطانوں کے بھائی ہیں)۔ (بنی اسرائیل) شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ماثبت بالسنہ میں فرماتے ہیں ، (ہندوستان کے اکثر شہروں میں لوگ کھیل تماشے کے لیے آتشبازی کرتے ہیں اور پٹاخے چھوڑتے ہیں، یہ بہت بری بدعتوں میں سے ہے)۔ ناچ اور گانے بجانے کی رسم کے متعلق صدر الشریعہ مولانا امجد علی قادری قدس سرہ فرماتے ہیں، اکثر جاہل گھرانوں میں رواج ہے کہ محلہ کی یا رشتہ دار عورتیں جمع ہوتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں یہ حرام ہے۔ اول ڈھول بجانا ہی حرام پھر عورتوں کا گانا ، مزید برآں عورتوں کی آواز نا محرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی اور وہ بھی عشق و ہجر و وصال کے اشعار۔(بہار شریعت حصہ ہفتم ص ۰۷)شیخ الاسلام اعلی حضرت فاضل بریلوی فرماتے ہیں، ایک ناپاک ملعون رسم جو بے تمیز احمق جاہل گھرانوں نے ہندوؤں سے سیکھی یعنی فحش گالیوں کے گیت گوانا اور مجلس میں حاضر مرودوں اور عورتوں کو لچھے دار سنانا، سمدھیانہ کی عفیف پاکدامن عورتوں کو زنا کے الفاظ سے تعبیر کرنا کرانا خصوصا اس ملعون بے حیا رسم کا عورتوں کے مجمع میں ہونا، ان کا اس ناپاک فاحشہ حرکت پر ہنسنا قہقہے اڑانا، اپنی کنواری لڑکیوں کو یہ سب کچھ سنا کر بد لحاظیاں سکھانا ، بے حیا بے غیرت خبیث بے حمیت مردوں کا اس شہدے پن کو جائز رکھنا، کبھی برائے نام لوگوں کے دکھاوے کو جھوٹ سچ ایک آدھ بار جھڑک دینا مگر قطعی بندوبست نہ کرنا۔ یہ وہ گندی و مردود رسم ہے جس پر اللہ عزوجل کی صد ہا لعنتیں اترتی ہیں، اس کے کرنے والے، اس پر راضی ہونے والے، اس کی مناسب روک تھام نہ کرنے والے سب فاسق و فاجر، مرتکب کبائر ، مستحق غضب جبار و عذاب نار ہیں۔ جس شادی میں ایسی حرکیتں ہوں مسلمانوں پرلازم ہے کہ اس میں ہر گز نہ شریک ہوں ، اگر نادانستہ شریک ہوگئے ہوں تو فوراً اسی وقت اٹھ جائیں اور اپنی بیوی بیٹی ماں بہن کو گالیں نہ دلوائیں، فحش نہ سنوائیں ورنہ یہ بھی ان ناپاکیوں میں شریک ہونگے اور غضب الہی میں حصہ لیں گے۔ (والعیاذ باللہ تعالی) ہرگز ہرگز اس معاملہ میں حقیقی بہن بھائی بلکہ ماں باپ کی بھی رعایت و مروت روا نہ رکھیں کیونکہ (خدا کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبرداری نہیں)۔ناچ کے متعلق صدر الشریعہ رقمطراز ہیں ، ناچ میں جن فواحش و بدکاریوں اور محزب اخلاق باتوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ ان کے بیان کی حاجت نہیں۔ ایسی ہی مجلسوں میں اکثر نوجوان آوارہ ہو جاتے ہیں، دھن دولت برباد کر بیٹھتے ہیں، بازاریوں سے تعلق اور برے برے نتائج رونما ہوتے ہیں اگر کوئی ان بدکاریوں سے محفوظ رہا تو اتنا تو ضرو ر ہو تا ہے کہ حیا و غیرت اٹھا کر طاق پر رکھ دیتا ہے۔ (بہار شریعت ، ہفتم ص ۱۷)مذکورہ بالا ناجائز رسموں کو ایسا لازم سمجھ لیا گیا ہے کہ گویا ان کے بغیر شادی ہی نہ ہوگی۔ صدر الشریعہ رقمطراز ہیں، ناچ ، باجے اور آتشبازی حرام ہیں، کون انکی حرمت سے واقف نہیں مگر بعض لوگ ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو گویا شادی ہی نہ ہوئی بلکہ بعض تو اتنے بیباک ہوتے ہیں کہ اگر شادی میں یہ حرام کام نہ ہوں تو اسے غمی اور جنازہ سے تعبیر کرتے ہیں (خدا کی پناہ) یہ خیال نہیں کرتے کہ بری رسم ایک تو گناہ اور شرعت کی مخالفت ہے دوسرے مال ضائع کرنا ہے تیسرے تمام تماشائیوں کے گناہ کا یہی سبب ہے اور سب کے گناہوں کے مجموعہ کے برابر اس اکیلے پر گناہ کا بوجھ ہے (کہ اگر یہ اپنے گھر گناہوں کے سامان نہ پھیلاتاتو آنے والے ان گناہوں میں مبتلا نہ ہوتے)۔

(حضرت مولانا محمد امجد علی اعظمیؒ)

ج-85 ‘‘جہیز’’ ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رْخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں، یہ رحمت و محبت کی علامت ہے، بشرطیکہ نمود و نمائش سے پاک ہو اور والدین کے لئے کسی پریشانی و اذیت کا باعث نہ بنتا ہو، لیکن مسلمانوں کی شامتِ اعمال نے اس رحمت کو زحمت بنادیا ہے۔ اب لڑکے والے بڑی ڈھٹائی سے یہ دیکھتے ہی نہیں بلکہ پوچھتے بھی ہیں کہ جہیز کتنا ملے گا؟ ورنہ ہم رشتہ نہیں لیں گے۔ اسی معاشرتی بگاڑ کا نتیجہ ہے کہ غریب والدین کے لئے بچیوں کا عقد کرنا وبالِ جان بن گیا ہے۔ فرمائیے! کیا اس جہیز کی لعنت کو ‘‘کافرانہ رسم’’ اور ‘‘رَسمِ بد’’ سے بھی زیادہ سخت الفاظ کے ساتھ یاد نہ کیا جائے۔

آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت فرمایا ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادیوں کو جہیز دیا تھا؟ جی ہاں! دیا تھا، لیکن کسی سیرت کی کتاب میں یہ پڑھ لیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو کیا جہیز دیا تھا؟ دو چکیاں، پانی کے لئے دو مشکیزے، چمڑے کا گدا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اور ایک چادر۔ کیا آپ کے یہاں بھی بیٹیوں کو یہی جہیز دیا جاتا ہے؟ کاش! ہم سیرتِ نبوی کے آئینے میں اپنی سیرت کا چہرہ سنوارنے کی کوشش کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جہیز کی جو چیزیں جس حالت میں ہیں وہ عورت کا حق ہے، لیکن استعمال سے جو نقصان ہو، وہ شوہر سے وصول نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ استعمال عورت کی اجازت سے ہوا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ہر وہ چیز جو لڑکی کو والدین اور شوہر والوں کی طرف سے ملی ہے وہ اس کی ملکیت ہے، شوہر کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- والدین کا جہیز کی واپسی کا مطالبہ غلط ہے۔ مرحومہ کی ملکیت میں جو چیزیں تھیں ان کو شرعی وارثوں پر تقسیم کیا جائے گا، چنانچہ مرحومہ کا ترکہ ۲۷ حصوں پر تقسیم ہوگا، ان میں سے ۲۱ - ۲۱ حصے مرحومہ کے والدین کے ہیں، اَٹھارہ حصے شوہر کے، دس دس حصے دونوں لڑکوں، اور پانچ پانچ دونوں لڑکیوں کے، نقشہ حسب ذیل ہے:

۲۷ = والد۲۱، والدہ ۲۱، شوہر ۸۱، بیٹا۰۱، بیٹا۰۱، بیٹی۵، بیٹی۵

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جو سامان آپ نے شادی کے موقع پر بہو کو دیا تھا اگر اس کی ملکیت کردیا تھا تو وہ سامان اسی کا ہے، اور آپ کو اس کا رکھنا جائز نہیں، اور اگر اس کی ملکیت نہیں کیا تھا بلکہ اس کو صرف استعمال کی اجازت دی تھی تو اس کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سامان آپ کے مرحوم بیٹے کی ملکیت تھا، اس صورت میں اس کا آٹھواں حصہ اس کی بیوہ کا ہے، نصف اس کی بیٹی کا اور باقی آپ کا، اور اگر مرحوم کی والدہ بھی زندہ ہے تو چھٹا حصہ اس کا، گویا کل ۴۲ حصے کئے جائیں گے ان میں تین بیوہ کے، ۲۱ لڑکی کے، ۴ماں کے اور ۵ والد کے۔اور اگر سامان خود آپ کی اپنی ملکیت ہے، آپ کا بیٹا بھی اس کا مالک نہیں تھا تو بیوہ کا اس میں کوئی حصہ نہیں، آپ اس کا جو چاہیں کریں۔ آپ کی جائیداد آپ کے انتقال کے بعد دو تہائی آپ کی تینوں لڑکیوں کو ملے گی (آپ کی اہلیہ زندہ ہیں تو آٹھواں حصہ ان کو ملے گا) اور باقی آپ کے جدی وارثوں کو دی جائے گی۔ آپ کی پوتی کو کچھ نہیں ملے گا۔ اگر آپ پوتی کو بھی کچھ دینا چاہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ آپ اپنی زندگی میں مناسب حصہ اس کے نام کردیں۔ دْوسری صورت یہ کہ آپ وصیت کرجائیں کہ آپ کی پوتی کو اتنا حصہ دیا جائے (تہائی مال کے اندر اندر وصیت کرسکتے ہیں)، اور اس پر گواہ بھی مقرّر کرلیں۔ اگر آپ نے ایسی وصیت کردی تو جائیداد کی تقسیم سے پہلے آپ کی پوتی کو وہ حصہ دیا جائے گا، وارثوں کو بعد میں دیا جائے گا۔بچی کے لئے حکم تو یہ ہے کہ بالغ ہونے تک اپنی والدہ کے پاس رہے، لیکن اگر والدہ کا مطالبہ نہ ہو یا اس نے کسی ‘‘غیرجگہ’’ نکاح کرلیا ہو تو آپ رکھ سکتے ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ولیمے میں نمود و نمائش کرنا، قرض لے کر زیر بار ہونا اور اپنی وسعت سے زیادہ خرچ کرنا منع ہے، نیز اس موقع پر فقراء و مساکین کو بھی کھلایا جائے، حدیث میں ارشاد ہے کہ:

‘‘عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: شر الطعام طعام الولیمۃ یدعٰی لھاا اللاغنیاء ویترک الفقراء۔’’ (مشکوٰۃ ص:۸۷۲) بدترین کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے جس میں اغنیاء کی دعوت کی جائے اور فقرا کو چھوڑ دیاجائے (صحیح بخاری و مسلم)

آج کل جس انداز سے ولیمے کئے جاتے ہیں ان میں فخر و مباہات اور نام و نمود کا پہلو غالب ہے، سنت کی حیثیت بہت ہی مغلوب نظر آتی ہے، حدیث میں ہے کہ:

‘‘عن عکرمۃ عن ابن عباس رضی اللہ عنھما: عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن طعام المتبارئین یوکل۔ رواہ ابو داود۔’’ (مشکوٰۃ ص:۹۷۲)

 ‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر و مباہات والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے۔’’

 اس لئے ایسے ولیمے کی دعوت کا قبول کرنا بھی مکروہ ہے جس میں نمود و نمایش اور فخر و مباہات ہو ۔علاوہ ازیں آج کل ولیمے کی دعوتوں میں مردوں اور عورتوں کا بے محابا اختلاط ہوتا ہے، یہ بھی جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ولیمہ صحیح ہے، میاں بیوی کی یکجائی کے بعد ولیمہ کیا جاسکتا ہے، ہم بستری شرط نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ولیمہ سنتِ نبوی ہے، اور بقدر سنت ادائیگی اب بھی ہوسکتی ہے۔ البتہ ولیمے کے نام سے جو نام و نمود اور فضول خرچی ہوتی ہے وہ حرام ہے، حکومت نے اس کو بند کیا ہے تو کچھ بْرا نہیں کیا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- شادی کی یہ ہندوانہ رسمیں جائز نہیں، بلکہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہیں۔ اور ‘‘خوشی میں سب کچھ جائز ہے’’ کا نظریہ تو بہت ہی جاہلانہ ہے، قطعی حرام کو حلال اور جائز کہنے سے کفر کا اندیشہ ہے۔ گویا شیطان صرف ہماری گنہگاری پر راضی نہیں بلکہ اس کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان، گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھیں، دِین کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام نہ جانیں، تاکہ صرف گنہگار نہیں بلکہ کافر ہوکر مریں۔ مرد کو سونا پہننا اور مہندی لگانا نہ خوشی میں جائز ہے نہ غمی میں۔ ہم لوگ شادی بیاہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے اَحکام کو بڑی جرات سے توڑتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ایسی شادی آخرکار خانہ بربادی بن جاتی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- آج کل اس اسلامی معاشرے میں چند نہایت ہی غلط اور ہندوانہ رسمیں موجود ہیں، افسوس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب کسی رسم کو اَجر و ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ مثلاً: لڑکی کی رْخصتی کے وقت اس کے سر پر قرآن کا سایہ کیا جاتا ہے، حالانکہ اس قرآن کے نیچے ہی لڑکی (دْلہن) ایسی حالت میں ہوتی ہے جو قرآنی آیات کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور پامالی کرتی ہے۔ یعنی بناو سنگھار کرکے غیرمحرَموں کی نظر کی زینت بن کر کیمرے کی تصویر بن رہی ہوتی ہے۔ اگر لڑکی کہتی ہے کہ یوں دْرست نہیں بلکہ باپردہ ہونا لازم ہے جو کہ اسی قرآن میں تحریر ہے جس کا سایہ کیا جاتا ہے، تو اسے قدامت پسند کہا جاتا ہے۔ اور اگر کہا جاتا ہے کہ پھر قرآن کا سایہ نہ کرو، تو اسے گمراہ کہا جاتا ہے۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں تحریر فرمائیں کہ دْلہنوں کا یوں قرآن کے سایہ میں رْخصت ہونا، غیرمحرَموں کے سامنے کیسا ہے؟ قرآن کیا اسی لئے صرف نازل ہوا تھا کہ اس کا سایہ کریں، چاہے اپنے اعمال سے ان آیات کو اپنے قدموں تلے روندیں؟

ج- دْلہن پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا محض ایک رسم ہے، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، اور دْلہن کو سجاکر نامحرَموں کو دِکھانا حرام ہے، اور نامحرَموں کی محفل میں اس پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا قرآنِ کریم کے اَحکام کو پامال کرنا ہے، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- میری شادی کو تقریباً تین سال ہونے کو ہیں، شادی کی پہلی رات مجھ سے دو ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جس کی چبھن میں آج تک دِل میں محسوس کرتا ہو۔ پہلی غلطی یہ ہوئی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ دو رکعت نماز شکرانہ جو کہ بیوی کا آنچل بچھاکر ادا کی جاتی ہے، نہ پڑھ سکا۔ یہ ہماری لاعلمی تھی اور نہ ہی میرے دوستوں اور عزیزوں نے بتایا تھا۔ بہرحال تقریباً شادی کے دو سال بعد مجھے اس بات کا علم ہوا تو ہم دونوں میاں بیوی نے اس نماز کی ادائیگی بالکل اسی طرح سے کی۔ نماز کے بعد اپنے رَبّ العزّت سے خوب گڑگڑاکر معافی مانگی مگر دِل کی خلش دْور نہ ہوسکی۔ دوسری غلطی بھی لاعلمی کے باعث ہوئی، ہماری ایک دْور کی ممانی ہیں، جنھوں نے ہمیں اس کا مشورہ دیا تھا کہ تم دونوں ایک دْوسرے کا جھوٹا دْودھ ضرور پینا، ہم (میاں بیوی) نے ایک دْوسرے کا جھوٹا دْودھ بھی پیا مگر جب میں نے اپنے ایک دوست سے اس بات کا ذکر کیا تو پتا چلا کہ جو لوگ ایک دْوسرے کا جھوٹا دْودھ پیتے ہیں بھائی بھائی یا بھائی بہن کہلاتے ہیں۔ جب سے یہ بات معلوم ہوئی ہے دِل میں عجیب عجیب خیالات آتے ہیں، للہ قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ ہمارے ان افعال کا کفارہ کس طرح ادا ہوسکے گا؟ جناب کی مہربانی ہوگی۔

ج- آپ سے دو غلطیاں نہیں ہوئیں بلکہ آپ کو دو غلط فہمیاں ہوئی ہیں، پہلی رات بیوی کا آنچل بچھاکر نماز پڑھنا نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت، نہ مستحب، یہ محض لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی بات ہے، لہٰذا آپ کی پریشانی بے وجہ ہے۔ آپ کے دوست کا یہ کہنا بھی غلط فہمی بلکہ جہالت ہے کہ میاں بیوی ایک دْوسرے کا جھوٹا کھاپی لینے سے بھائی بہن بن جاتے ہیں، یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں، لہٰذا آپ پر کوئی کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جھوٹی بات پر محض قرآن اْٹھانے اور ایک دْوسرے کا جھوٹا دْودھ پینے سے بہن بھائی نہیں بنا کرتے، اس لئے ان کی شادی صحیح ہے۔ جھوٹی بات پر قرآن اْٹھانا گناہِ کبیرہ ہے، اور یہ ایسی قسم ہے جو آدمی کے دِین و دْنیا کو تباہ کردیتی ہے، مسلمانوں کو ایسی جرات نہیں کرنی چاہئے۔بہن بھائی کا مفہوم واضح ہے، یعنی جن کا باپ ایک ہو، یا ماں ایک ہو، یا والدین ایک ہوں۔ یہ ‘‘نسبی بہن بھائی’’ کہلاتے ہیں۔ اور جس لڑکے اور لڑکی نے اپنی شیرخوارگی کے زمانے میں ایک عورت کا دْودھ پیا ہو وہ ‘‘رضاعی بہن بھائی’’ کہلاتے ہیں، یہ دونوں قسم کے بہن بھائی ایک دْوسرے کے لئے حرام ہیں۔ ان کے علاوہ جو لوگ منہ بولے ‘‘بھائی بہن’’ بن جاتے ہیں یہ شرعاً جھوٹ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب:پرائز بانڈ کی حقیقت کیا ہے۔اس کے طے ہونے پر اس کے جواز وعدم جواز کا فتوی موقوف ہے۔ پرائز بانڈ اصل میں حکومت کا عوام سے قرض لینا ہے۔ اس کے لیے حکومت دو طریقے اختیار کرتی ہے۔ ایک یہ کہ عوام کو طے شدہ منافع ادا کرتی ہے جیسے سیونگ سرٹیفکیٹ۔ دوسرے یہ کہ وہ کچھ لوگوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے انعامی رقوم دیتی ہے جیسے پرائز بانڈ۔ اس دوسرے طریقے میں سوال یہ ہے کہ انعام کی یہ رقم کہاں سے آتی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ وہی سود ہے جو سب افراد کو کسی شرح سے تقسیم کرنے کے بجائے چند افراد کو قرعہ اندازی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔اگر یہ بات د رست ہے تو ایک طرف تو انعام لینے والا اصل میں سود لے رہا ہے۔ دوسری طرف چونکہ یہ انعام قرعہ اندازی کے طریقے پر دیا جاتا ہے اس لیے اس میں جوئے سے ایک مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انعام کی رقم نئے پرائز بانڈ کے اجرا سے حاصل ہوتی ہے اس لیے یہ سود نہیں ہوتااور جوئے سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ جوئے میں ایک آدمی کی رقم اس طرح دوسرے کی جیب میں جاتی ہے کہ ایک آدمی محض کسی اتفاق کے تحت اپنی رقم سے محروم اور دوسرا مالک بن جاتا ہے۔ جبکہ پرائز بانڈ میں ہر آدمی کی رقم پوری طرح محفوظ ہوتی ہے۔اگر صورت حال یہ دوسری ہے تو پرائز بانڈ کو ممنوع قرار دینا مشکل ہے زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پرائز بانڈ خریدنے اور لینے میں اتفاق سے روپیہ حاصل کرنے کی نفسیات کو تقویت ملتی ہے جو جوئے کی اصل ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ اصلاً ممنوع جوا اور سود لیناہے۔ اگر پرائز بانڈ میں ان میں کوئی چیز موجود ہے یا دونوں موجود ہیں تو یہ غلط ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:کپڑے کی جراب اور چمڑے کی جراب میں فرق کرنے کا سبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جربین پر مسح کا ذکر ہوا ہے اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ غالباً متاخرین میں دونوں کی ساخت کا فرق بھی اختلاف کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انھی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کاسبب رفع زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالی نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت یعنی رفع زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اہل حدیث حضرات کا نقطہ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے فہم پر مبنی ہے۔ بعض روایات میں اوتر بواحدۃ (ایک سے طاق کر لو)کے الفاظ آئے ہیں۔اگر اس کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ایک رکعت پڑھ لوجیسا کہ اہل حدیث حضرات نے سمجھا ہے تو ایک وتر پڑھنا حدیث سے ثابت ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس جملے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز کو طاق پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ کسی نماز کو طاق کرنے کا کم از کم مطلب یہ ہے کہ دو کو تین کیا جائے۔ امام مالک نے یہی رائے دی ہے کہ یہ نماز کم از کم تین رکعت ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس کا اصل وقت طلوع فجر سے پہلے ہے۔ عام مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت دینے کی وجہ سے اسے عشا کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ہمارے نزدیک ایک رکعت پڑھنا درست نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاوہ نہیں ہے جسے بعض لوگ نے اس جملے سے اخذ کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: یہ علوم کبھی بھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکے کہ انھیں سائنس قرار دیا جا سکے۔ یہ محض اندازوں اور اٹکل پر مبنی ہیں اور ان کے پیچھے مشرک معاشروں کی مائتھالوجی کے اثرات کار فرما ہیں۔ کسی شے میں ماورائے اسباب تاثیر ماننا جبت ہے۔ غیب کا علم کسی کو نہیں ہے۔ اس طرح کے علوم غیب دانی کے مدعی ہوتے ہیں۔ یہ بات قرآن مجید کی نصوص کے خلاف ہے۔ اصلاً یہ لوگ شیاطین کا آلہ کار بنتے ہیں۔ اس طرح کے علوم سے احتراز کرنا ہی محفوظ راستہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:تعویز اس دعوے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ اس دعوے کے پیچھے کوئی دینی دلیل موجود نہیں ہے۔ یعنی قرآن وحدیث میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں کوئی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں وہ اپنے مختلف تجربات بیان کرتے ہیں۔ لیکن ان تجربات کا کوئی غیر جانبدارانہ تجزیہ موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں یہ طے ہو سکے کہ اس دعوے کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اس فن کے لوگ موجود رہے ہیں لیکن نہ قدیم نہ جدید کسی معاشرے نے اس فن کو ایک قابل اعتماد تدبیر قرار نہیں دیا۔ مزید دیکھیے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں دو ہی طریقے سکھائے ہیں۔ ایک یہ کہ عملی تدبیر کی جائے اور اللہ تعالی سے اس تدبیر کے کامیاب ہونے کی دعا کی جائے۔ کبھی کسی تعویز یا وظیفے وغیرہ کا طریقہ نہ سکھایا گیا ہے اور نہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کا معاشرہ ہمیں اس طرح کی چیزوں سے خالی ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی سے دعا کرکے اپنے جسم پر پھونکا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے تعویز کا تصور نہیں نکالا جا سکتا اس لیے کہ تعویز کلمات کی تاثیر کے تصور پر مبنی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:باجماعت نماز اور مسجد کی حاضری نماز کے اجر کو بڑھانے والی چیز ہیں۔ اس میں کوتاہی نماز کے اجر کو کم کرنے والی چیز ہے۔ جس طرح کی مصروفیات آپ کو نماز باجماعت سے محروم کر دیتی ہیں انھی سے پیچھا چھڑا کر جماعت میں شریک ہونا وہ مجاہدہ ہے جو زیاہ اجر کا باعث ہے۔ اس لیے کوشش یہی کرنی چاہیے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انفرادی نماز قبول نہیں ہوتی۔ البتہ آدمی اجر کے ایک بڑے حصے سے محروم ضرور ہو جاتا ہے۔ نماز سے غفلت جو وبال کا باعث بنے گی یا نماز کی عدم قبولیت کی وجہ بن سکتی ہے وہ نماز کو بے وقت پڑھنا،نماز میں اہتمام اور خوبی کے پہلو کا نہ ہونا اور ان اخلاق کی عدم موجودگی ہے جو ایک نمازی میں ہونے چاہئیں۔سورہ ماعون میں یہی غفلت مراد ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:ہمارے نزدیک دن کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ چنانچہ کسی شے کے فرض ونفل ہونا اس بات پر منحصر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا حیثیت دی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس سوال میں غلطی یہ ہے کہ اس میں صرف قرآن کو دین کا ماخذ قرار دے کر نماز کے اوقات اور اس کی تعداد کو قرآن سے متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ہمارے نزدیک نماز سرتاسر سنت سے ماخوذ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر بطور یاددہانی ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں نماز کے طریقے اور اوقات کے بارے میں وضو کی طرح کا کوئی جامع بیان موجود نہیں ہے ۔وضو کی مثال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز کی تیاری کے طریقے میں تو تصریح کی ضرورت تھی لیکن نماز کا طریقہ اور اوقات اس طرح واضح تھے کہ قرآن مجید میں اس کی تصریح کی ضر ورت پیش نہیں آئی۔ باقی رہا دلوک شمس تو اس کا اطلاق ظہر عصر اور مغرب تینوں اوقات کے لیے ممکن ہے۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے دلوک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘دلوک کے معنی زوال کے ہیں۔ سورج کے زوال کے تین درجے ہیں۔ ایک وہ جب وہ سمت راس سے ڈھلتا ہے۔ دوسرا جب وہ مر أی العین سے ڈھلتا ہے اور تیسرا جب وہ افق سے غائب ہو جاتا ہے۔ یہ تینوں اوقات ظہر، عصر اور مغرب کی نمازوں کے ہیں۔’’(تدبر قرآن،ج ۴، ص۵۲۹)دلوک کے بعد غسق کا لفظ آیا ہے۔ غسق کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا اصلاحی مرحوم نے لکھا ہے:‘‘غسق اللیل اول شب کی تاریکی جبکہ وہ گاڑھی ہوجائے۔ یہ عشا کا وقت ہے۔’’(تدبر قرآن،ج ۴، ص۵۲۹)اس کے بعد اس آیت میں قرآن الفجر کے الفاظ آئے ہیں۔ اصلاحی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے اس سے فجر کی نماز میں قرآن کی تلاوت ہے۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی تصریحات سے واضح ہے کہ یہ نمازپڑھنے کا حکم ضرور ہے لیکن اس میں اوقات کا ذکر تعین کے لیے نہیں ہے بلکہ نمازوں کے اوقات کے صبح وشام کے اوقات میں پھیلے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان الفاظ سے نہ نمازوں کی تعداد معین ہو سکتی ہے اور نہ اوقات ہی معین صورت میں سامنے آتے ہیں۔ البتہ جو نماز سنت سے معلوم ومعروف ہے اس کے حوالے سے ان الفاظ کو دیکھیں تو یہ اس کا ایک اجمالی بیان ضرور ہیں۔یہی معاملہ سورہ ہود کے طرفی النہار اور انائے لیل کے الفاظ کا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:رکعتوں کی تعداد کا ماخذ سنت ہے۔ یہ تعداد ہر شک وشبہ سے بالا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت ہر زمانے میں رکعتوں کی اس تعداد پر متفق ہے اور اس بات میں شک کوئی شائبہ بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس نماز کی کتنی رکعتیں مقرر کی تھیں۔جب کسی دینی عمل کی کوئی شکل مقرر کر دی گئی ہو تو اس میں تبدیلی نافرمانی قرار پائے گی اور یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ لہذا خواہ رکعت کم کی جائے یا زیادہ نافرمانی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والے صحائف بائیبل کی صورت میں جمع ہیں۔لیکن یہ ریکارڈ زیادہ امکان یہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نازل ہونے والے صحائف پر مبنی ہے۔یہ صحائف اصل صحائف کا ترجمہ ہیں اور اصل صحائف دنیا میں کہیں بھی فی الحال دستیاب نہیں ہیں۔حضرت موسی علیہ السلام کو کوہ طور پر بلا کر احکام مٹی کی تختیوں پر لکھوائے گئے تھے۔ موجودہ تورات میں اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:‘‘خصوصاً اس دن کی باتیں جب تو خداوند اپنے خداکے حضور حورب میں کھڑا ہوا کیونکہ خداوند نے مجھ سے کہا تھاکہ قوم کو میرے حضور میں جمع کر اور میں ان کو اپنی باتیں سناؤں گاتاکہ وہ یہ سیکھیں کہ زندگی بھر جب تک زمین پر جیتے رہیں میرا خوف مانیں اور اپنے بال بچوں کو بھی یہی سکھائیں۔ چنانچہ تم نزدیک جا کر اس پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوئے اور وہ پہاڑ آگ سے دہک رہا تھااور اس کی لو آسمان تک پہنچتی تھی اور گردا گرد تاریکی اور گھٹا اور ظلمت تھی۔ اور خدا وند نے اس آگ میں سے ہو کر تم سے کلام کیا۔ تم نے باتیں تو سنیں لیکن کوئی صور ت نہ دیکھی فقط آواز ہی آواز تھی۔ اس نے تم اپنے عہد کے دسوں احکام بتا کر ان کو ماننے کا حکم دیا اور انھیں پتھر کی دو لوحوں پر لکھ دیا۔(استثنا، باب۴، آیات۱۰۔۱۴)یہ تختیاں ٹوٹ گئی تھیں چنانچہ یہ احکام نئی تختیوں پر لکھ دیے گئے ۔ یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:‘‘اس وقت خداوند نے مجھ سے کہا کہ پہلی لوحوں کی مانند پتھر کی دو اور لوحیں تراش لے اور میرے پاس پہاڑ پر آجا اور ایک چوبی صندوق بھی بنالے اور جو باتیں پہلی لوحوں پر جن کو تو نے توڑ ڈالا لکھی تھیں وہی میں ان لوحوں پر بھی لکھ دوں گا۔پھر تو ان کو اس صندوق میں دھر دینا۔ سو میں نے کیکر کی لکڑی کا ایک صندوق بنایااور پہلی لوحوں کی مانند پتھر کی دو لوحیں تراش لیں اور ان دونوں لوحوں کو اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گیا۔اور جو دس حکم خداوند نے مجمع کے دن پہاڑ پر آگ کے بیچ میں سے تم کو دیے تھے۔ ان ہی کو پہلی تحریر کے مطابق اس نے ان لوحوں پر لکھ دیا۔ پھر ان کو خداوند نے میرے سپرد کیا۔ تب میں پہاڑ سے لوٹ کر نیچے آیااور ان لوحوں کو اس صندوق میں جو میں نے بنایا تھا دھر دیا اور خداوند کے حکم کے مطابق جو اس نے مجھے دیا تھا وہیں رکھی ہوئی ہیں۔(استثنا، باب۱۰، آیات۱۔۶)یہ تورات کے بیانات ہیں۔ بعد میں یہ صندوق اور اس کی لوحیں اور دوسرے تبرکات میرے علم کی حد تک دستبرد زمانہ کی نذر ہو چکے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید کی سورہ یونس میں فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیۃ، وان کثیرا من الناس عن آیاتنا لغافلون(۱۰:۹۲)پس آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں۔اس آیت کی شرح میں مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:‘‘قدرت کے انتقام کی اس عظیم نشانی کے اندر ایک دوسری عظیم نشانی یہ ظاہر ہوئی کہ فرعون کی لاش کو سمندر نے قبول نہیں کیاـــبلکہ اس کو ایک نشان عبرت بنانے کے لیے باہر پھینک دیا اور یہ لاش بعد لوگوں کو ملی بھی اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو خدائی کا مدعی تھا اس کا انجام کیا ہواـــمصرمیں لاشوں کو ممی کرکے محفوظ کرنے کا رواج تھااور ایک فرعون کی ممی کی ہوئی لاش قاہرہ کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ اس لاش کے بارے میں اثریات کے ماہرین چاہے اختلاف کریں کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے یا کسی اور کی۔ لیکن ان کے اٹکل پچو اندازوں کے مقابل میں قرآن کا یہ چودہ سو سال پہلے کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اس طرح قدرت نے اس کی لاش کو عبرت کی ایک ایسی نشانی بنا دیا جو آج کے فرعونوں کے لیے بھی محفوظ ہے لیکن دیکھنے کے لیے آنکھوں کی ضرورت ہے اور اس دنیا میں عبرت پذیر آنکھوں سے زیادہ کم یاب کوئی شے بھی نہیں۔ وانا کثیرا من الناس عن آیاتنا لغافلون میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔’’(تدبر قرآن ج۴،ص۸۴۔۸۵) مولانا وحید الدین خان نے بھی کم وبیش یہی بات لکھی ہے:‘‘خدا سے نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہے ، اس کا نمونہ دور رسالت میں بار بار انسان کے سامنے آتا تھا۔ تاہم اس قسم کے کچھ نمونے خدا نے مستقل طور پر محفوظ کر دیے ہیں تاکہ وہ بعد کے زمانہ میں بھی انسان کو سبق دیتے رہیں جبکہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا ہو۔ انھی میں سے ایک تاریخی نمونہ فرعون موسی (رعمیس ثانی)کا ہے جس کی ممی کی ہوئی لاش ماہرین اثریات کو قدیم مصری شہر تھیبس(Thebes) میں ملی تھی اور اب وہ قاہر کے میوزیم میں نمایش کے لیے رکھی ہوئی ہے۔’’ (تذکیر القرآن،ج۱،ص۵۵۵)

‘‘موجودہ زمانے میں فرعون کی لاش کا معمہ سائنس نے بھی حل کر دیا ہے ۔ اسی کی دہائی میں اسی لاش کو جو قاہرہ کے عجائب گھر میں ہے کے گلے میں پھپھوندی لگ گئی اس کو علاج کے لیے فرانس بھیجا گیا۔ ڈاکٹروں نے رپورٹ میں لکھا کہ اس کے گلے سے دریا کی مٹی نکلی ہے ۔ اخبارات میں یہ رپورٹ محفوظ ہے ۔ ادارہ سوئے حرم ’’

(مولانا طالب محسن)

جواب:قرآن مجید سے یہ مقدمہ بالصراحت ثابت ہے کہ تمام نسل انسانی ایک ہی جوڑے کی اولاد ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی اولاد میں شادیاں کیسے ہوئیں اور نسل انسانی کیسے آگے بڑھی۔ اس معاملے میـں قرآن مجیدمیں کوئی بات بیان نہیں ہوئی اور کسی آیت سے کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ یہی معاملہ حدیث کی معروف ومتداول کتابوں کا ہے۔ مجھے ان کتابوں میں کوئی ایسی روایت نہیں ملی جس میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہو۔ میرا یہ خیال ہے کہ یہ خیال قیاس پر مبنی ہے کہ حضرت آدم کی اولاد میں بہن بھائیوں کی شادی کی گئی ہوگی۔ یہ قیاس درست ہی معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس مسئلے کا کوئی دوسرا حل اولاد آدم کے ایک ہی نسل ہونے کی نفی کر دیتا ہے۔ میرے علم کی حدتک بائیبل میں بھی اس حوالے سے کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ قیاسی ہے اس معاملے میں کوئی مذہبی بیانات اگر موجود ہیں تو وہ اسی قیاس سے نکلے ہیں۔باقی رہا اولاد آدم کا ایک ہی دن میں جوان ہونا تو اس کے متعلق بھی مجھے کوئی بیان فی الحال نہیں ملا ۔ ممکن ہے دوران مطالعہ اس طرح کی کوئی بات سامنے آجائے۔ فی الحال میں اس معاملے میں آپ کی کوئی خدمت کرنے سے قاصر ہوں۔

اولادآدم کی شادی کا مسئلہ محرمات نکاح کے حوالے سے سوال پیدا کرتا ہے۔اس کے کئی جواب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ بہن کی حرمت فطری حرمت نہیں ہے۔ فطری حرمت صرف ماں کی ہے۔ بہن کی حرمت خاندانی نظام کے سامنے آجانے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ پہلی نسل کے لیے بہن کی حرمت اٹھا لی گئی ہووغیرہ۔ لیکن ہمیں اس قیاس آرائی کی ضرورت ہی کیوں ہے۔ ہمارے پاس اس دور کی تاریخ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ قرآن مجید اس معاملے میں خاموش ہے۔ جس معاملے میں قرآن خاموش ہے اس میں ہمارا کوئی کلام بے معنی ہے۔ اس لیے کہ یہ وہ معاملہ ہے جس کا علم صرف وحی ہی سے ممکن ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس میں شبہ نہیں کہ کاغذ بہت پہلے ایجاد ہو چکا تھا اور عربوں میں اس کے استعمال کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرب میں بآسانی دستیاب نہیں تھا۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ عربوں لکھنا جاننے والے لوگ بہت کم تھے۔چنانچہ جو لوگ لکھنا چاہتے تھے وہ اپنے ماحول میں دستیاب اشیاء ہی پر لکھنے پر مجبور تھے۔ خلافت راشدہ میں پورا قرآن مجید کاغذ پر لکھنے کا کام بھی کر دیا گیا تھا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:نماز کے آخر میں غلطی ہونے پر دو سجدے کیے جاتے ہیں۔ غلطی ایک ہو یا زیادہ سجدہ سہو کا طریقہ یہی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:دجال کی خبر حدیثوں میں بیان ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اور قرب قیامت کے حوالے سے کئی پیشین گوئیاں کی تھیں۔ دجال کے بارے میں خبر بھی اسی ذیل کی ہے۔ اس طرح کی کسی حدیث کے بارے میں یہ بحث تو ہو سکتی ہے کہ اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت درست ہے یا نہیں۔ لیکن جب تحقیق سے ہم کسی روایت کو درست مان لیں تو پھر اس کے انکار کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ پیغمبر کو پیغمبر ماننے کے بعد اس کی مستقبل سے متعلق اخبار کو نہ ماننا نبی پر ایمان سے موافق نہیں ہے۔ کتب حدیث میں دجال سے متعلق صحیح احادیث بھی ہیں اس لیے دجال کے آنے کی خبر پر یقین ہونا چاہیے۔روایات کے مطابق یہ خاص صلاحیتوں کا حامل ایک فرد ہو گا جو قیامت کے قریب ظاہر ہو گا۔دجال کا خروج اخبار نبی کا حصہ ہے اور اسے اسی حیثیت سے مانا جاتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

 

جواب: زکوٰۃ کے مصارف قرآن کریم کی سورۂ توبہ آیت ۶۰ میں بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک مصرف ‘فی سبیل اللہ’ ہے۔ اس پر ماضی میں بڑی معرکہ آرا بحثیں ہوئی ہیں۔ ان بحثوں کے نتیجے میں تین قسم کی آرا سامنے آتی ہیں:
۱۔ تضییق ( اس مد کو محدود تر کرنا): علما کی اکثریت ‘فی سبیل اللہ’ کو جہاد (عسکری جہاد) کے معنی میں لیتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صدر ِ اول سے اب تک تمام محدثین، مفسرین، فقہا سے یہی منقول ہے۔ گویا اس پر امت کا اجماع ہے۔ اس سے ہٹ کر جو آرا منقول ہیں وہ شاذ کا درجہ رکھتی ہیں۔
۲۔ تعمیم (اس مد کو وسیع تر کرنا): بعض علما اس سے تمام ‘وجوہ خیر’ مراد لیتے ہیں اور ہراچھے کام کو زکوٰۃ کا مصرف قرار دیتے ہیں۔
۳۔ توسیع: علما کے ایک طبقے نے بین بین کی راہ اختیار کی ہے۔ وہ نہ تو ایسی تعمیم کا قائل ہے جو دین کے نام پر ہونے والے ہر کام کو محیط ہو اور نہ اس کے نزدیک ایسی تنگی ہے کہ اس مصرف کے تحت مال زکوٰۃ کو قتال کے علاوہ احیائے دن کے کسی کام پر خرچ نہ کیا جا سکتا ہو۔ اس رائے کے حاملین فی سبیل اللہ کو جہاد فی سبیل اللہ کے معنی میں لیتے ہیں، لیکن ان کے نزدیک جہاد اپنے درجات اور مراحل کے اعتبار سے عسکری نوعیت کا بھی ہوتا ہے اور نظری و فکری بھی۔ غرض خالصۃً اعلائے کلمۃ کے مقصد سے کی گئی ہر جد و جہد پر فی سبیل اللہ کا اطلاق ہو گا۔
عصر حاضر کے بعض علما جو پہلی رائے رکھتے ہیں، وہ دوسری یا تیسری رائے رکھنے والوں پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ وہ اسے ‘‘مغربی تہذیب سے مرعوب اور مغربی عقلیت کے شکار بعض لوگوں کی ذہنی اختراع’’ قرار دیتے ہیں۔ (ملاحظہ کیجیے زکوٰۃ کے مصارف از مولانا عتیق احمد بستوی، مکتبہ حرا لکھنؤ، ۱۹۹۲ء، ص: ۱۵، ۱۶) لیکن یہ بات صحیح نہیں، بلکہ اس کے قائل متقدمین میں بھی لوگ رہے ہیں۔ فقہائے احناف میں ملک العلماء علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی (م ۵۸۷ ھ) اور ظہیر الدین ابو بکر محمد بن احمد (۶۱۹ ھ) تعمیم کے قائل ہیں۔ تفسیر رازی کے بموجب شافعی فقیہ محمد بن علی بن اسماعیل المعروف بالقفال الکبیر (م ۳۶۵ ھ) نے بھی بعض فقہا کی جانب اس قول کو منسوب کیا ہے۔
اس موضوع پر عصر حاضر کی بعض اکیڈمیوں کے فیصلوں پر نظر ڈالنی مفید ہو گی۔
اسلام فقہ اکیڈمی انڈیا کا پانچواں فقہی سمینار جامعۃ الرشاد، اعظم گڑھ میں ۳۱ اکتوبر تا ۳ نومبر ۱۹۹۲ ء منعقد ہوا تھا۔ اس میں یہ موضوع بھی زیر بحث تھا۔ عام شرکائے سمینار کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ سورۂ توبہ کی آیت ۶۰ میں مذکور فی سبیل اللہ کا مصداق غزوۂ احد اور جہاد عسکری ہے۔ دور حاضر میں دینی اور دعوتی کاموں کے لیے درکار سرمایہ کی فراہمی میں پیش آنے والی دشواری کے باوجود شرعاً اس کی گنجایش نہیں ہے کہ زکوٰۃ کے ساتویں مصرف فی سبیل اللہ کا دائرہ وسیع کر کے اس میں تمام دینی اور دعوتی کاموں کو شامل کر لیا جائے۔ کیونکہ قرون ِ اولیٰ میں اس تعمیم و توسیع کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نیز ایسا کرنے سے مسلمانوں کے محتاج، نادار اور افلاس زدہ طبقہ کی مال زکوٰۃ کے ذریعے کفالت جو زکوٰۃ کا اہم ترین مقصد ہے، فوت ہو جائے گا۔ شرکائے سمینار میں سے تین حضرات (جناب شمس پیرزادہ ممبئی، مولانا سلطان احمد اصلاحی، علی گڑھ، ڈاکٹر عبد العظیم اصلاحی علی گڑھ) نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ ان کے نزدیک فی سبیل اللہ میں عسکری جہاد کے ساتھ وہ تمام کوششیں شامل ہیں، جو آج کے دور میں واقعۃً دعوت اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جاری ہوں۔ (مجلہ فقہ اسلامی جز دوم، قاضی پبلشرز، نئی دہلی ۱۹۹۴ء، ص: ۹۵۶، ۹۵۷)
سعودی عرب کے ممتاز علما و فقہا پر مشتمل ایک ادارہ ہیئۃ کبار العلماء کے نام سے قائم ہے ۔ اس کے پانچویں اجلاس منعقدہ طائف ۵۔ ۲۳ شعبان ۱۳۹۴ھ (اگست ۱۹۷۴ء) میں زکوٰۃ کے ساتویں مصرف فی سبیل اللہ کا موضوع بھی شامل تھا۔ اس اجلاس کے شرکا نے یہ فیصلہ دیا کہ زکوٰۃ کے ساتویں مصرف فی سبیل اللہ کا مصداق صرف مجاہدین ہیں۔ تمام امور خیر اس میں شامل نہیں ہیں۔
البتہ عالم اسلامی کی ایک دوسری فقہی اکیڈمی کا فیصلہ اس سے مختلف ہے۔ ‘المجمع الفقہی الاسلامی مکہ مکرمہ، رابطہ عالم اسلامی کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس کا آٹھواں اجلاس ۲۸ ربیع الثانی تا ۷ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ ھ مکہ مکرمہ میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں اس موضوع پر غور کیا گیا کہ مصرف فی سبیل اللہ کا مصداق صرف اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ یا فی سبیل اللہ کا مفہوم عام ہے؟ غور و خوض کے بعد محسوس کیا گیا کہ اس مسئلے میں علما کی دو آرا ہیں۔ موضوع پر غور اور فریقین کے دلائل پر مناقشے کے بعد اکثریت کی رائے سے درج ذیل فیصلے کیے گئے:
۱۔ دوسری رائے کو بعض علمائے اسلام نے اختیار کیا ہے اور قرآن کریم کی بعض آیات میں یک گو نہ اس مفہوم کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
۲۔ جہاد بالسلاح کا مقصود چونکہ اعلائے کلمۃ اللہ ہے اور اعلائے کلمۃ اللہ جس طرح قتال سے ہوتا ہے، اسی طرح داعیوں کی تیاری اور ان کی مدد اور تعاون کے ذریعے دعوت الی اللہ اور اشاعت ِ دین سے بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا دونوں طریقے جہاد ہی کے ہیں۔
۳۔ اسلام پر آج ملحدین، یہود و نصاریٰ اور دشمنان دین کی طرف سے فکری اور عقائدی حملے ہو رہے ہیں اور دوسروں کی طرف سے انھیں مادی اور معنوی مدد مل رہی ہے۔ ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان ان کا مقابلہ انھی ہتھیاروں سے کریں، جن سے وہ اسلام پر حملے کرتے ہیں یا ان سے سخت ہتھیار سے مقابلہ کریں۔
۴۔ اسلامی ممالک میں جنگوں کے لیے مخصوص وزارتیں ہوتی ہیں او رہر ملک کے بجٹ میں ان کے لیے مالی ضوابط ہوتے ہیں۔ جبکہ دعوتی جہاد کے لیے بیش تر ممالک کے بجٹ میں کوئی تعاون و مد بھی نہیں ہوتی ہے۔
ان مذکورہ بالا امور کے پیش نظر اکثریت کی رائے یہ طے کرتی ہے کہ دعوت الی اللہ اور اس کے معاون اعمال آیت کریمہ میں مذکور زکوٰۃ کے مصرف فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل ہیں۔
نوٹ: شیخ صالح بن فوزان، شیخ محمد بن عبد اللہ السبیل، شیخ محمد رشید قبانی اور ڈاکٹر ابو بکر زید کو مذکورہ قرار داد سے اتفاق نہیں ہے اور ان حضرات کی رائے میں فی سبیل اللہ کو صرف عسکری مجاہدین کے لیے مخصوص رکھنا ضروری ہے۔ شیخ محمد محمود صواف کو قرار داد سے اتفاق ہے، بلکہ ان کی رائے میں یہ توسع اس قدر ہے کہ اللہ کی راہ میں انجام پانے والے خیر کے تمام کام شامل ہیں۔ (فقہی فیصلہ، طبع دہلی ۲۰۰۱ء، ص: ۱۷۳، ۱۷۴)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ مصرف فی سبیل اللہ کو کچھ علما عسکری جہاد کے لیے خاص کرتے ہیں تو کچھ دعوت و اشاعت دین کے کاموں کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں اور کچھ ہر اچھے کام کو مصرف زکوٰۃ قرار دیتے ہیں۔         ایک بات قابل غور یہ ہے کہ جو علما مصرف فی سبیل اللہ کے عموم کے قائل نہیں ہیں، وہ بھی عملاً اموال زکوٰۃ کو ہر طرح کے دینی کاموں میں خرچ کرتے ہیں، البتہ وہ اس کے لیے ایک ‘‘حیلہ’’ اختیار کرتے ہیں۔ اسے انھوں نے ‘‘حیلۂ تملیک’’ کا نام دیا ہے۔ یعنی پہلے کسی مستحق زکوٰۃ کو مال زکوٰۃ کا مالک بنا دیا جائے، پھر وہ اپنی طرف سے اس مال کو دینی کاموں میں خرچ کرنے کے لیے دے دے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جو آج کل اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے سیکرٹری اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ہیں، انھوں نے اپنی کتب ‘‘اسلام کا نظام عشر و زکوٰۃ’’ میں لکھا ہے:
‘‘البتہ اگر کہیں ایسے ضروری اقدامات موجود ہوں جو دینی اور قومی ضروریات کے اعتبار سے خاص اہمیت کے حامل ہوں، لیکن زمام حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ ہو اور نہ ایسا بیت المال موجود ہو، جس میں مختلف مدات کے لیے رقوم ہوں تو شرعی دینی ضرورت کی تکمیل کے لیے اس میں کوئی قباحت نہیں کہ بالواسطہ طور پر زکوٰۃ کی رقم اس مد میں صرف کی جائے۔ اسی کو ‘‘حیلۂ تملیک’’ کہا جاتا ہے۔
اس میں کوئی قباحت نہیں کہ ضروری دینی اور قومی کاموں کے لیے کسی فقیر محتاج اور مستحق زکوٰۃ کو مالک بنا کر دیا جائے، پھر وہ ان ضروریات میں اس رقم کو خرچ کرے۔
دینی مدارس میں جو رقوم صرف ہوتی ہیں ان میں حیلۂ تملیک سے بسہولت بچا جا سکتا ہے۔ مہتمم، سفراء اور منتظمین کی تنخواہیں تو اس لیے دی جا سکتی ہیں کہ فقہا نے ‘‘عاملین’’ میں زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کرنے والوں اور نظم و نسق انجام دینے والوں کو بھی شامل رکھا ہے۔ طلبہ کو جو کھانے دیے جاتے ہیں اگر وہ تقسیم کر کے طلبہ کو مالک بنا دیا جائے تو اس سے بھی زکوٰۃ ادا ہو گئی۔ ضروریات کے لیے جو وظائف دیے جاتے ہیں، اس میں بھی تملیک پائی جاتی ہے اور زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے۔ رہ گئی اساتذہ کی تنخواہیں اور دوسری مدات تو اگر طلبہ کو تعلیمی وظائف کی رقم دی جائے اور ان سے فیس وصول کر لی جائے تو اب حیلۂ تملیک کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔’’
‘‘حیلۂ تملیک کے اس طریقے سے ان ضروریات کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جو فی زمانہ اسلام کی سربلندی کے لیے پیدا ہو گئی ہیں۔ زکوٰۃ کے مصارف پر نظر ڈالنے سے صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بنیادی مقاصد حاجت مندوں کی ضروریات کی تکمیل اور اسلام کی سربلندی ہے۔ آج اسلام کی سربلندی کے لیے جو وسائل مطلوب ہیں، وہ ماضی سے بالکل مختلف نوعیت کے ہیں۔ ان مقاصد کے لیے تملیک کے حیلے کے ذریعے بالواسطہ زکوٰۃ کی آمدنی سے فائدہ اٹھانا مزاج شریعت کے عین مطابق ہے۔’’ (اسلام کا نظام عشر و زکوٰۃ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ص: ۱۳۵، ۱۳۶)
دار العلوم دیو بند کے مفتی اول مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی سے ایک صاحب نے ‘‘عملہ و دفتر، انجمن ہائے تبلیغ و حفاظت اسلام’’ کی تنخواہ اور مصارف خوراک و سفر پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے کی بابت سوال کیا۔ مفتی صاحب نے اس کا یہ جواب دیا:
‘‘غرض یہ ہے کہ فی سبیل اللہ میں بے شک موافق تفسیر صاحب بدائع کے جملہ مصارف خیر داخل ہیں۔ لیکن جو شرط اداءِ زکوٰۃ کی ہے وہ سب جگہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ بلا معاوضہ تملیک محتاج کی ہونی ضروری ہے۔ اس میں حیلۂ تملیک اول کر لینا چاہیے، تاکہ تملیک کے بعد تبلیغ وغیرہ کے ملازمین کی تنخواہ وغیرہ میں صرف کرنا اس کا درست ہو جائے۔’’ (حوالہ سابق، ص ۱۳۶، ۱۳۷، بحوالہ فتاویٰ دار العلوم ۶/ ۲۸۳)
اس تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ رقوم زکوٰۃ اساتذہ کی تنخواہوں اور مدرسہ کے دیگر کاموں میں بھی خرچ کی جا سکتی ہیں۔
(بشکریہ ماہنامہ ‘‘زندگی نو’’ نئی دہلی اکتوبر 2009ء)
 
()

جواب: تعزیت عربی زبان کا لفظ ہے، اس سے مراد کسی کے انتقال پر اْس کے رشتہ داروں اور پس ماندگان کو حوصلہ دینا، اور اظہارِ ہمدردی کرکے اْن کا غم غلط کرنا اور رنج و تکلیف کو کم کرنا ہے۔ جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اْس کے عزیزوں اور بال بچوں کو صدمہ اور غم ہوتا ہے، لہٰذا اْن سے اظہارِ ہمدردی مستحب اور پسندیدہ ہے۔ انھیں تسلی اور تشفی دینا اور صبروشکر کی تلقین کرنا سنتِ نبوی ہے۔ تعزیت اور ہمدردی کے موقع پر پس ماندگان سے مل کر دْعا کی تلقین کرنا پسندیدہ ہے:غَفَرَاللّٰہْ لِمَیِّتِکَ وَتَجَاوَزَ عَن سَیِّاتِہ بِرَحمَتِہ وَرَزَقَکَ الصَّبرَ عَلٰی مْصِیبَتِہ وَاَجَرکَ عَلٰی مَوتِہ، اللہ تعالیٰ مرنے والے کی مغفرت فرمائے، اْس کی خطاؤں سے درگزر کرے۔ اْس کو اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دے اور آپ کو اس حادثے پر صبر سے نوازے اور اْس کی موت کا رنج سہنے پر آپ کو اجروثواب عطا فرمائے۔رسول اللہ سے اِس موقع پر جو الفاظ منقول ہوئے ہیں، وہ یوں ہیں:اِنَّ لِلّٰہِ مَآ اَخَذَ وَلَہ مَآ اَعطٰی وَکْلّْ شَیءٍ عِندَہ بِاَجَلٍ مّْسَمًّی، یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے لے لیا ہے، وہ بھی اْسی کا ہے اور جو دیا ہے، وہ بھی اْسی کا ہے، اور ایک مقررہ وقت پر ہرشے کو اْسی کی طرف جانا ہے۔ گویا سب کچھ اللہ کا دیا ہے۔ اْس کے ہاں ہرچیز نپی تْلی ہے، یعنی اْس کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے۔تعزیت کرنے کا صحیح وقت تو تدفین کے بعد ہی ہے لیکن تدفین سے پہلے تعزیت کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ میت کے تمام رشتہ دار، چھوٹے ہوں یا بڑے، سب سے تعزیت کی جاسکتی ہے۔ تعزیت کے لیے باقاعدگی سے بیٹھ کر انتظار کرنا ضروری نہیں۔ لیکن اگر لوگ اظہارِ ہمدردی کے لیے آرہے ہوں، تو بیٹھنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ تین روز کے بعد تعزیت کے لیے جانا نامناسب ہے کہ اس سے اہلِ خانہ کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور موت کا احساس بھی طول پکڑتا ہے، البتہ کوئی شخص اگر سفر وغیرہ سے آئے تو اْس کے لیے تعزیت کی خاطر تین روز بعد جانا بھی جائز ہے۔میت کے جنازے کے موقع پر یا فوراً بعد میں مویشی ذبح کرنا، یا اس میں سے کھانا تقسیم کرنا، دعوتِ عام کرنا، ناپسندیدہ اعمال ہیں۔ بالخصوص اگر میت کے وارثوں میں ایسے لوگ ہیں جو نابالغ ہوں یا غیرموجود ہوں تو میت کے ترکے میں سے صدقہ و خیرات کرنا یا دعوت کرنا مکروہ ہی نہیں بلکہ قطعاً حرام ہیں کیونکہ پرائے مال کو تقسیم کرنا بلااجازت جائز نہیں ہے۔پسندیدہ عمل یہ ہے کہ میت کے ورثا اور اہلِ خانہ کے لیے پڑوسی اور دوست احباب کھانے پینے کا اہتمام کریں کیونکہ بسااوقات رنج و غم کی وجہ سے اہلِ میت خود اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ حضرت جعفر طیار کی وفات پر رسول اللہ نے مسلمانوں سے بالعموم اور اپنی بیٹی حضرت فاطمۃالزہراء سے بالخصوص فرمایا تھا کہ جعفر کے گھروالوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ اْن پر جو مصیبت آپڑی ہے اْس کے رنج و غم کی وجہ سے وہ کھانا بھولے ہوئے ہیں۔ تعزیت کا پْرسا دینا یا اظہار ہمدردی کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور اْمت کے جسدِ واحد ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔تعزیت کے موقع پر میت کی خوبیوں کا ذکر کرنا بھی اچھا ہے۔ اس کے نقائص سے اعراض کرنا چاہیے اور بہتر ہے کہ ان مواقع کو باہمی تذکیر، وعظ و نصیحت اور دینی رہنمائی کے لیے استعمال کیا جائے۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی بحوالہ ماہنامہ ترجمان ا لقرآن لاہور مئی ۲۰۱۰)

(مصباح الرحمٰن یوسفی)

سوال: میں کئی سالوں سے پریشان ہوں۔ میری اہلیہ عرصہ سے بیمار ہیں۔ خود میں بھی مختلف امراض میں مبتلا ہوں۔ مسجد جانا دشوار ہوتا ہے۔ وہ دن میرے لیے بڑا مبارک ہوتا ہے ، جس میں میری پنج وقتہ نمازیں مسجد میں ادا ہوتی ہیں۔ میرا بڑا لڑکا سروس میں ہے۔ ایک لڑکی کی شادی ہو گئی ہے، لیکن دو لڑکیاں، جو قبول صورت اور عصری تعلیم یافتہ ہیں، ان کی عمریں بھی زیادہ ہو رہی ہیں، لیکن اب تک ان کی شادی نہیں ہو پائی۔ کہیں حتمی طور پر نسبت طے ہو جاتی ہے، لیکن پھر یک لخت منسوخ ہو جاتی ہے۔ ایسے مواقع پر مجھے بہت ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں، جیسے سانپ، زہریلے کیڑے مکوڑے، موذی جانور، بول و براز میں گھرے ہونا وغیرہ۔ ایک موقعے پر حمام کی دیواروں پر انسانی پاخانہ دیکھا گیا۔ اس حمام میں صرف ایک دروازہ ہے۔ ایک اور موقعے پر سوکھے گوشت کا ٹکڑا چھت سے گرتا ہوا دیکھا گیا، جبکہ چھت آ رسی سی کی ہے۔ ان تمام باتوں کو ہم لوگ نظر انداز کرتے رہے۔ بعض حضرات کے مشوروں پر کثرت استغفار اور اسمائے حسنیٰ کا ورد کیا، مگر صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔آپ سے گزارش ہے کہ اپنی دعاؤں میں شامل رکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں۔

جواب: آپ نے اپنے جن حالات کا تذکرہ کیا ہے، وہ باعث تشویش ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو صبر کی قوت اور حالات سے نمٹنے کی صلاحیت عطا فرمائے اور آئندہ ان میں بہتری فرمائے۔ آپ کے حالات پر بہ حیثیت مجموعی غور کرنے سے میری سمجھ میں جو باتیں آئی ہیں، انھیں ذیل میں تحریر کر رہا ہوں۔ ممکن ہے ان میں کچھ کام کی باتیں آ گئی ہوں۔

آپ کی اہلیہ محترمہ عرصے سے بیمار ہیں۔ آپ خود مختلف امراض کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے خواہش کے باوجود آپ کے لیے پنج وقتہ نمازوں کے لیے مسجد جانا دشوار ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ آپ کی دو لڑکیوں کی ، شادی کی عمر کو پہنچ جانے اور تعلیم یافتہ اور قبول صورت ہونے کے باوجود، شادی نہیں ہو پا رہی ہے۔ ان چیزوں نے آپ کو شدید پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آپ کی یہ پریشانی جسمانی سے سے زیادہ ذہنی ہے۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں آپ کی پریشانی، ذہنی الجھن اور تفکرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں ایک مومن صادق کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ صبر کرے۔

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ مختلف انسانوں کے لیے مختلف حالات پیدا کر کے انھیں آزماتا ہے۔ کسی کی آزمائش خوش حالی، صحت مندی، مال و دولت کی فراوانی، عیش و عشرت کے وسائل اور دیگر تنعمات کے ذریعے ہوتی ہے تو کسی کو فقر و فاقہ، بیماری، تجارت میں خسارہ اور ذرائع معاش کی تنگی وغیرہ میں مبتلا کر کے آزمایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَےْرِ فِتْنَۃً وَ اِلَےْنَا تُرْجَعُوْنَ. (الانبیاء : ۳۵)

‘‘ اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ آخر کار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔’’

اللہ تعالیٰ نے اپنے ان نیک بندوں کا تذکرہ بڑے تعریفی و تحسینی کلمات سے کیا ہے جو کسی مصیبت کا شکار ہوتے تو اس پر جزع و فزع نہیں کرتے، بلکہ صبر کا دامن تھامے رہتے ہیں: وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ.الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَآ اَصَابَہُمْ. (الحج: ۳۴۔ ۳۵۔)

‘‘اور بشارت دے دو عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو، جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں۔’’

سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ. الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْآ اِنَّا ِﷲِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ. اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ. (البقرہ: ۱۵۵۔ ۱۵۷)

‘‘اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں او رجب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔’’

سورۂ تغابن میں ہے: مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اﷲِط وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاﷲِ یِہْدِ قَلْبَہٗ. (التغابن : ۱۱)

‘‘کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی، مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے۔’’

صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘ اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس پر راضی بہ رضا رہتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔’’ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر)

مصائب اور آزمائشوں پر صبر کرنا اور جزع و فزع نہ کرنا بڑی عزیمت کا کام ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ. (لقمان: ۱۷)

‘‘اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔’’

قرآن نے حضرت ایوب علیہ السلام کی حیات طیبہ صبر کی اعلیٰ ترین مثال کی حیثیت سے پیش کی ہے۔ وہ ایک شدید مرض میں مبتلا ہوئے، یہاں تک کہ ان کے متعلقین نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ مگر انھوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اس موضوع پر احادیث بھی کثرت سے موجود ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مومن کسی بھی آزمائش سے دو چار ہوتا ہے اور کسی بھی مصیبت اور پریشانی کا شکا رہوتا ہے تو یہ چیزیں اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہیں اور اگر وہ صبر کرے تو جنت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس موقع پر صرف ایک حدیث نقل کی جاتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے:

عجبت للمسلم، اذا اصابہ خیر حمد و شکر واذا اصابتہ مصیبۃ احتسب وصبر، المسلم یوجر فی کل شیء. (مسند احمد ۱/ ۱۷۷)

‘‘مسلمان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اسے کوئی خیر حاصل ہوتا ہے تو وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہے اور کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ اس طرح وہ ہر حال میں اجر کا مستحق ہوتا ہے۔’’

اپنی بیماری، اپنی اہلیہ کی بیماری، وقت پر بچیوں کی شادی نہ ہو پانا اور دیگر اعذار اور پریشانیاں، یہ سب آزمائش کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان پر راضی بہ رضا رہنا اور صبر کرنا ایک سچے مومن سے مطلوب و محمود ہے۔ صبر کی تلقین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو پریشانی درپیش ہے، اس سے نجات پانے کی کوشش نہ کی جائے۔ آدمی اگر کسی بیماری میں مبتلا ہے تو اس کا علاج معالجہ لازم ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے اس کا حکم دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: یا عباد اللّٰہ تداووا، فان اللّٰہ لم یضع داء الا وضع لہ دواء الا داء واحد الہرم. (جامع ترمذی: ۲۰۳۸)

‘‘ اے اللہ کے بندو، علاج کراؤ، اس لیے کہ اللہ نے کوئی بیماری ایسی نہیں رکھی ہے، جس کی کوئی دوا نہ رکھی ہو، سوائے ایک بیماری کے اور وہ ہے بڑھاپا۔’’

یہی حال دیگر پریشانیوں کا ہے کہ انھیں دور کرنے اور ان سے نجات پانے کی کوشش کرنے کو شریعت میں مطلوب قرار دیا گیا ہے۔ وقت پر بچیوں کی شادی نہ ہو پا رہی ہوتو والدین کی پریشانی فطری ہے۔ اس پریشانی کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے۔ اپنے خونی رشتہ داروں، سسرالی رشتہ دراوں، بڑی بیٹی کے سسرالی رشتہ داروں، اگر بیٹے کی شادی ہو گئی ہے تو اس کے سسرالی رشتہ داروں کاروباری متعلقین، تحریکی احباب اور دیگر وابستگان سے رابطہ کیجیے۔ ان سے عرض مدعا کیجیے۔ تحریکی اخبارات میں ضرورت رشتہ کے اشتہار کو بھی ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ امید ہے اس طرح کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور مل جائے گا۔

شادی ایک ایسا سماجی عمل ہے، جو بہت سی پیچیدگیاں رکھتا ہے۔ مختلف اسباب اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ایک سبب ‘معیار کی برقراری’ ہے۔ لڑکیاں جس سماجی معیار کے گھرانے کی ہوں ، خواہش ہوتی ہے کہ ان کی شادی بھی اسی سماجی معیار کے گھرانوں میں ہو۔ پھر اگر وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوں تو ان کی شادی کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے سے کرانے کی خواہش ہوتی ہے۔ عام حالات میں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو پا رہا ہو تو معیار مطلوب سے کم پر Compromise کر لینا دانش مندی کا تقاضا ہے۔ میں ایسے متعدد خاندانوں کو جانتا ہوں جن میں لڑکیوں کی شادیاں ان سے کم پڑھے لکھے لڑکوں سے ہوئیں، مگر وہ خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔

آپ نے جن ڈراؤنے خوابوں کا تذکرہ کیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ ان کا تعلق آپ کی ذہنی پریشانی سے ہے۔ عموماً صحت زیادہ گر گئی ہو، اور اعصاب کمزور ہوں تو ایسے خواب نظر آتے ہیں۔ آدمی دیگر پریشانیوں میں مبتلا ہو تو اس کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بچیوں کی نسبتیں طے ہوئیں، مگر کسی وجہ سے اچانک ٹوٹ گئیں تو اس موقع پر ذہنی پریشانی اور الجھن شدید ہوتی ہے۔ بیماری بھی لاحق ہو تو احساس کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں۔ نسبتوں کے ٹوٹنے کو کسی اور چیز پر محمول کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ جس طرح لڑکی کو شادی سے قبل لڑکے کے بارے میں ہر طرح کی تحقیقات کرنے کا حق حاصل ہے، اسی طرح لڑکے والے بھی تمام معلومات حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں او رانھیں بھی اس کا حق دینا چاہیے۔ شادی سے قبل نسبت ٹوٹ جانا زیادہ بہتر ہے اس کے مقابلے میں کہ شادی ہو جائے اور بعد میں لڑکی سسرال میں اذیتوں سے دو چار ہو۔

باتھ روم کی دیواروں پر غلاظت کا لگا ہونا یا کمرے میں اوپر سے سوکھے گوشت کا ٹکڑا گرنا، اگر اس طرح کے واقعات پے در پے پیش آئیں تب تشویش ہونی چاہیے اور ذہن دوسری طرف جانا چاہیے، لیکن اگر کئی سالوں میں ایک دو بار ایسا ہو گیا ہو تو اس کی کوئی معقول توجیہ کر لینی چاہیے۔ باتھ روم کی دیوار پر ممکن ہے روشن دان سے کبھی کسی گندگی کی چھینٹیں آ گئی ہوں، گوشت کا سوکھا ٹکڑا ممکن ہے کوئی چڑیا لائی ہو اور چھت کے پنکھے پر رکھ دیا ہو، بعد میں وہ وہاں سے نیچے گرا ہو۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہماری زندگی میں آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جن کی ہم بروقت کوئی توجیہ نہیں کر پاتے، لیکن وہ معمول کے واقعات ہوتے ہیں۔ ہمارا ذہن چونکہ دوسری طرف کام کر رہا ہوتا ہے، اس لیے ہم ان کی کوئی مناسب توجیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

ان حالات میں میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا التزام کیجیے۔ آپ کا ذہن اس طرف جا رہا ہے کہ کوئی آپ کے خلاف جادو ٹونا کر رہا ہے۔ میں اس امکان کو بالکلیہ رد نہیں کرتا، لیکن میرے نزدیک یہ امکان کم سے کم ہے۔ سحر کے اثرات ہوں تو بھی دعاؤں کے ذریعہ ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اپنے اطمینان کے لیے چاہیں تو کسی ‘عامل’ سے مدد لے لیں۔ لیکن ساتھ ہی خود بھی زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا اہتمام کیجیے۔ نماز تہجد کی پابندی کیجیے، رات کی تنہائی میں اللہ تعالیٰ بندے سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ عاجزی و فروتنی کے ساتھ بار گاہِ الٰہی میں اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے دعا کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ضرور سنے گا۔

()

سوال: یہاں کی ایک دینی تنظیم کا ایک جگہ معمولی تعمیر شدہ دفتر تھا۔ دینی ذہن رکھنے والے ایک بلڈر نے پیش کش کی کہ وہ اپنے والد محترم کے ایصال ثواب کے لیے اپنے خرچ سے تنظیم کی عالی شان عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے ان کی یہ پیش کش قبول کر لی اور اعتماد کی فضا میں اپنی زمین اور تعمیرہ شدہ معمولی عمارت ان کے حوالے کر دی، جسے توڑ کر اس زمین پر از سر نو بلڈنگ کی تعمیر کا کام ہونے لگا۔ ساری باتیں زبانی ہوئیں، کوئی تحریری معاہدہ نہیں کیا گیا۔ تعمیر کے دوران ہی بلڈر نے بعض سیاسی و معاشی مصلحتوں کا حوالہ دے کر تنظیم کے ذمہ داروں سے ایک مشترکہ ایگریمنٹ پر دستخط کروا لیے۔ جس کی رو سے نئی تعمیر شدہ عمارت کی دو منزلیں تنظیم کی اور دو منزلیں بلڈر کی قرار پائیں۔ بلڈر نے اس موقع پر تنظیم کے ذمہ داروں کو اعتماد میں لیتے ہوئے صراحت سے کہا کہ یہ محض بعض قانونی ضوابط کی خانہ پری ہے۔ ورنہ پوری عمارت اصلاً تنظیم کی ملکیت ہو گی۔ لیکن عمارت کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اسے انھوں نے تنظیم کے حوالے نہیں کیا، بلکہ اس کی اوپری دو منزلیں اپنے قبضے میں رکھتے ہوئے اس میں اپنا ذاتی دفتر قائم کر لیا۔ نیز اس میں ایک دینی پروجیکٹ شروع کر دیا۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ پوری عمارت کی ملکیت تنظیم کی تسلیم کرتے ہوئے اسے تنظیم کے حوالے کر دیں، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ مجبوراً تنظیم کے ذمہ داروں نے ان کے سامنے چار تجاویز رکھی ہیں: وہ غیر مشروط طور پر نئی تعمیر شدہ عمارت کو تنظیم کے حوالے کر دیں، اگر وہ اس کا کچھ حصہ کسی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو تنظیم کے ذمہ داروں سے اس کی باضابطہ اجازت لیں۔ وہ بلڈنگ پر صرف شدہ رقم تنظیم سے لے کر پوری عمارت تنظیم کے حوالے کر دیں یا آخری چارۂ کار کے طور پر زمین کی رقم تنظیم کو لوٹا دیں۔

اس پس منظر میں آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مندرجہ ذیل امور پر فتویٰ دے کر ہماری رہنمائی فرمائیں:

۱۔ تنظیم کے ذمہ داروں کو اعتماد میں لے کر اور اس کا غلط فائدہ اٹھا کر نئی تعمیر شدہ عمارت کی دو مزلیں اپنے نام رجسٹرڈ کروا لینا اور اس پر اپنا دعویٰ کرنا کیا دھوکا نہیں ہے؟ شریعت میں دھوکا دینے والے کے لیے کیا وعید آئی ہے؟

۲۔ بلڈر کبھی عمارت کے نصف حصے پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں اور کبھی پوری عمارت پر تنظیم کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کی حوالگی کے لیے مختلف شرائط عائد کرتے ہیں۔ حوالگی کے لیے شرائط کی فہرست دینا شریعت کی رو سے کیا حیثیت رکھتا ہے؟

۳۔ کسی کی عمارت پر بہ زور قبضہ جمائے رکھنا کیا شریعت کی رو سے صحیح ہے؟

۴۔ بلڈر قانونی پیپرز کا حوالہ دے کر عمارت کی دو منزلہ پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ کیا وہ غاصب اور ظالم نہیں ہیں۔ کیا غاصب و ظالم کے دباؤ میں آ کر اس کی کوئی تجویز قبول کر لینا صحیح ہے؟ کیا یہ ظلم کا ساتھ دینا نہیں ہوا؟

۵۔ تنظیم کے ذمہ داروں کے لیے کیا یہ رویہ صحیح ہے؟ وہ حکمت کے ساتھ ظلم کا مقابلہ کریں یا مذکورہ بلڈر سے رقم لے کر معاملہ رفع دفع کر لیں؟

جواب: سب سے پہلے تو میں یہ عرض کر دوں کہ میں کوئی رجسٹرڈ/ سند یافتہ مفتی نہیں ہوں، اس لیے میرے اس جواب کی حیثیت فتوے کی نہیں ہے۔ میں محض اسلامیات کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔ صورت مسئلہ کا جو جواب روح دین اور احکام شریعت کی روشنی میں میری سمجھ میں آیا ہے اسے ذیل میں تحریر کر رہا ہوں:

۱۔ دینی تنظیم اور مقامی بلڈر نے باہمی اعتماد کی فضا میں تنظیم کی عمارت کی از سر نو تعمیر کا آغاز کیا۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد باہمی اعتماد کے شفاف آئینہ میں لکیر پڑ گئی۔ فریقین کو غور کرنا چاہیے کہ ان سے غلطی کہاں ہوئی؟ بلڈر نے یہ کام ان کے بقول اپنے مرحوم والد کے ایصال ثواب کے لیے کیا تھا۔ ان کا یہ کام بڑا مبارک ہے۔ بچوں کے لیے یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ وہ اپنے والد کے انتقال کے بعد صدقۂ جاریہ کا کوئی ایسا کام کر دیں جس کا ثواب ان کو برابر پہنچتا رہے۔ حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ لیکن بعد میں انھوں نے جو رویہ اختیار کیا، انھیں سوچنا چاہیے کہ اگر ان کے والد مرحوم زندہ ہوتے تو کیا وہ خود ایسا رویہ اختیار کرتے؟ یا اپنے صاحب زادگان کو یہ رویہ اختیار کرتے ہوئے دیکھتے تو کیا وہ خوش ہوتے؟ کسی تنظیم سے وابستگی اجتماعیت کی روح کوپروان چڑھاتی ہے۔ اس میں اجتماعی مفاد پر انفرادی مفاد کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ صدقۂ جاریہ کے نام پر کوئی ایسا کام کرنا یا ایسا رویہ اختیار کرنا جس سے اس مرحوم شخصیت کی روح کو، جس کے ایصال ثواب کے لیے وہ کام انجام دیا گیا ہے، تکلیف پہنچے۔ میں اسے کوئی کار خیر نہیں سمجھتا۔ تنظیم کی غلطی یہ ہے کہ اسے ابتدا ہی سے تمام معاملات تحریری شکل میں طے کرنے چاہییں تھے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو بعد میں رونما ہونے والے اختلافات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکتا تھا۔ عموماً دینی حلقوں میں اس معاملے میں کوتاہی پائی جاتی ہے۔ شروع میں معاملات اعتماد کی فضا میں زبانی طے کیے جاتے ہیں، بعد میں اختلاف ہونے کی صورت میں فریقین کے بیانات میں تضاد ہوتا ہے او رمعاملہ الجھ کر رہ جاتا ہے۔ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت (البقرہ: ۲۸۲) جسے آیت مداینہ کہا جاتا ہے، اس میں قرض کے لین دین کے معاملے کو ضبط تحریر میں لانے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایک ایسے سماج، جہاں لکھنا جاننے والوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ انھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا، معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کا اتنا تاکیدی حکم کیوں دیا گیا؟

۲۔ آپ نے لکھا ہے کہ بلڈر تعمیر شدہ عمارت کی بالائی دو منزلوں میں سے ایک میں دینی پروجیکٹ چلا رہے ہیں۔ یہ بڑا مبارک کام ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے فروغ دے اور اس کے ذریعے گم کردہ راہ انسانوں کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے معاملات میں شفافیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آپ نے لکھا ہے کہ ابتدا میں انھوں نے اپنے والد مرحوم کے ایصال ثواب کی خاطر اپنے خرچ پر تنظیم کے لیے عمارت تعمیر کرنے کی پیش کش کی، مگر بعد میں انھوں نے تنظیم کے ذمہ داروں کو دھوکے میں رکھ کر ایک مشترکہ ایگریمنٹ کرا لیا اور اب وہ کبھی تعمیر شدہ عمارت کی مشترکہ ملکیت کی بات کہتے ہیں، کبھی تنظیم کی ملکیت تو تسلیم کرتے ہیں، مگر تنظیم کو اس کی حوالگی کے لیے مختلف شرائط عائد کرتے ہیں۔ یہ رویہ قرآن کا پیغام عام کرنے کے مشن کے علمبردار کسی شخص کو زیب نہیں دیتا۔ آدمی کی زبان ہر وقت قرآن کے ذکر اور پیغام کی تبلیغ میں منہمک ہو، لیکن اس کا کردار قرآن کی تعلیمات کی دھجیاں اڑاتا ہو، یہ رویہ کسی حقیقی اور با شعور مسلمان کا نہیں ہو سکتا۔ لیکن افسوس کہ ایسے کردار کے لوگ پائے جاتے ہیں او رآج ہی نہیں، ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کی پیش گوئی فرمائی تھی: ‘‘کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے، لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر شکار کے اندر سے ہو کر باہر نکل جاتا ہے۔ ’’ (بخاری، ۳۳۴۴، و دیگر مقامات)

احادیث میں دھوکے کی شدید الفاظ میں مذمت آئی ہے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔’’ (مسلم، ۱۰۱) ایک حدیث میں آپ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے: ‘‘دھوکا دہی کا انجام جہنم ہے۔’’ (بخاری، کتاب البیوع، باب النجش) ہم میں سے ہر شخص کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ چند روزہ زندگی میں وہ دوسرے کو دھکا دے کر کچھ مال حاصل کر سکتا یا کسی جائیداد پر قابض ہو سکتا ہے مگر میدان حشر میں بارگاہِ رب العزت کے رو برو جب اس کے اعضا اس کے خلاف گواہی دیں گے تو وہاں اس کے لیے حسرت و ندامت ہو گی اور اس وقت کی ندامت اس کے کچھ کام نہ آئے گی۔

۳۔ آپ نے لکھا ہے کہ تنازع کو حل کرنے کے لیے تنظیم کے ذمے داروں نے بلڈر کے سامنے چار تجاویز رکھی ہیں:

(الف) وہ غیر مشروط طور پر بلڈنگ تنظیم کے حوالے کر دیں۔

(ب) بلڈنگ پر تنظیم کی ملکیت تسلیم کرتے ہوئے اپنا پروجیکٹ چلانے کے لیے ذمہ داران تنظیم سے تحریری اجازت لیں۔

(ج) بلڈنگ پر صرف شدہ رقم تنظیم سے لے کر بلڈنگ اس کے حوالے کر دیں۔

(د) زمین کی رقم تنظیم کو لوٹا دیں۔

ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو چوتھی تجویز سے اتفاق نہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ بلڈر نے دھوکا دے کر عمارت کی دو منزلیں اپنے نام رجسٹرڈ کروا لی ہیں، وہ غاصب اور ظالم ہیں، زمین کی رقم لے کر پوری عمارت کو ان کے حوالے کر دینا ظلم کا ساتھ دینا ہے۔ اس لیے ان سے رقم لے کر معاملے کو ختم کرنے کے بجائے حکمت کے ساتھ آخر دم تک ظلم کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ذمہ داران تنظیم نے مذکورہ تجاویز پیش کر کے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ اگر ابتدائی دو تجاویز فریق مخالف کے نزدیک اس کے ظلم و جبر اور دھاندلی کی بنا پر درخور اعتنا نہیں ہیں تو آخری دو تجاویز میں سے کسی ایک پر باہم متفق ہو کر معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ذمہ داران مصالح تنظیم کو پیش نظر رکھ کر جس تجویز کو اس کے حق میں بہتر سمجھیں، اختیار کر لیں۔ صلح حدیبیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس موقع پر کفار قریش کی طرف سے جو شرائط پیش کی گئی تھیں، وہ سراسر ظالمانہ اور ایک طرفہ تھیں۔ اسی بنا پر بہت سے جلیل القدر صحابہ ان پر کسی طرح رضا مند نہ ہوتے تھے۔ مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قبول کرنے میں مصلحت سمجھی تو انھی پر معاہدہ کر لیا۔ ہجرت مدینہ کے موقع پر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی اور مشرکین کو چیلنج کیا کہ جو شخص بھی اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنانا چاہتا ہے، وہ مجھے روک کر دیکھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خفیہ طور پر چھپ چھپا کر ہجرت فرمائی۔ حضرت عمرؓ کا عمل بھی صحیح تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی غلط نہ تھا۔ بلکہ آپ کے اس اسوہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر موقع پر عزیمت، جرأت اور جواں مردی کا مظاہرہ کرنا مطلوب نہیں ہے۔ بلکہ بسا اوقات بہ ظاہر دب کر معاملات سلجھا لینا ہی حکمت و مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں چوتھی تجویز کے حق میں ہوں۔ میرا کہنا بس یہ ہے کہ تیسری اور چوتھی دونوں تجویزیں قابل اختیار ہیں۔ ذمہ داران تنظیم رفقا کے مشورے سے اور مصالح تنظیم کو پیش نظر رکھ کر کسی کو بھی قبول کر سکتے ہیں۔ البتہ میرے نزدیک تنظیم کی قانونی پوزیشن کمزور ہے۔ مشترکہ ایگریمنٹ پر ذمہ دار تنظیم نے بھی دستخط کیے ہیں۔ اگر فریق مخالف کی نیت میں فتور تھا اور اس نے غلط بیانی اور فریب دہی کے ساتھ اس ایگریمنٹ پر دستخط کروائے ہیں تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ وہ روز قیامت اس سے نمٹ لے گا۔ لیکن دنیا میں معاملات کا فیصلہ نیت پر نہیں، بلکہ ظاہر اعمال پر ہوتا ہے۔

ہر مسلمان کو یہ حقیقت ہر لمحہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دنیوی زندگی چند روزہ ہے۔ یہاں وہ جو کچھ اچھا یا برا کام کرے گا، اس کا انعام یا انجام آخرت میں پائے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ‘‘جس شخص نے کسی کی ایک بالشت زمین پر ناحق قبضہ کیا، اللہ تعالیٰ روز قیامت اس طرح کی سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈال دے گا۔’’ (بخاری: ۳۱۹۸، مسلم: ۱۶۱۰)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

(بشکریہ ماہنامہ ‘‘زندگی نو’’ نئی دہلی، نومبر 2009ء)

()

محترم ڈاکٹر حامدی صاحب!                السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

سوال: اللہ کی پکار کی میں نے ایجنسی لے رکھی ہے۔ہر شمارہ بغور پڑھتا ہوں ، اس کے افادی پہلوؤں کو بنظر اتفاق دیکھتا ہوں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک معاملے میں تنقید کی جرأت کررہاہوں آپ نے ایک شمارے میں لکھا ہے کہ فرض نمازوں کے علاوہ جتنی نمازیں ہیں، سب نوافل کا درجہ فرائض اور واجب کے برابر نہیں ہے، یہ چھوٹ جائیں تو ان کی قضا بھی نہیں ہے اور ان پر مواخذہ بھی نہیں ہے۔ یہ تحریر آنے پر میں نے دل میں اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اس سے غیر فرض نمازوں سے بے رغبتی پیدا ہوگی،وہ خواہ مخواہ نیکیوں سے محروم ہوں گے۔ ویسے بھی آج کا انسان بہت مصروف ہے۔ وہ سنتوں اور خصوصاً ان سنتوں کو چھوڑے گا ، جنہیں فقہا نے سنتِ مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ کی دوقسموں میں باٹنا ہے۔ یعنی ان سنتوں کی ادائیگی ایک فاضل چیز سمجھ لی جائے گی۔ میرا یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔ ایک صاحب آپ کا رسالہ پڑھ کرسختی سے اصرار کرتے ہیں کہ نمازیں یا فرض ہیں یا نفل ، سنت کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اسی دوران وہ گزشتہ سال حج بھی آکرئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوپاکستان اور بنگلہ دیش کے سوا وہاں عرب اور عجم ساری دنیا کے مسلمان فرض نمازوں پر اکتفا کرتے ہیں اور سنت نہیں پڑھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا منشا وہ نہیں ہوگاجو وہ سمجھ رہے ہیں۔ آپ نے ایک خالص علمی نکتہ بیان کیا ہے، یعنی فرائض کے بعد دیگر نمازیں اصطلاحاً نفل یا تطوع کہلاتی ہیں۔فقہائے کرام ان نمازوں کو سنت کے لفظ سے موسوم کرتے ہیں، جن پر عمل مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں بانٹا جاتا ہے۔ مؤکدہ کو بالالتزام پڑھا جائے اور غیر مؤکدہ کو یہ سمجھ کر پڑھا جائے کہ ان میں ثواب ہے ، جیسا حدیثِ قدسی میں ہے۔ان عبدی یتقرب الی بالنوافل۔

میرا خیال ہے کہ ایسی علمی موشگافی عوام الناس پر غلط اثرات ڈالتی ہے ، اس لیے اس سے احتراز بہتر ہے۔ کس نماز کوکیا کہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے، اور عبادات میں استخفاف اور ان کی پابندی میں کمی آجانا دوسری بات ۔ میرا خیال ہے آپ کے دوسرے قارئین نے بھی وہ کھٹک محسوس کی ہو گی جو مجھے ہوئی ہے۔ مناسب سمجھیں تو اس بارے وضاحت فرمائیں۔

تاج الدین اشعررام نگری

جواب: ہمارے بزرگ مراسلہ نگار نے اپنے مراسلے میں وہ سب کچھ تحریر کردیا ہے، جو عام طور سے لوگوں میں غلط مشہور ہے، جس کی تردید میں اور صحیح بات کی وضاحت میں نے قرآن و احادیث ہی سے نہیں ، بلکہ فقہ حنفی کی سب سے اولین مشہور کتاب ‘‘ القدوری’’ سے بھی حوالے کے ساتھ اللہ کی پکار جنوری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں کی ہے۔ اس پوری عبارت کو معمولی فرق سے یہاں دوبارہ نقل کیا جارہاہے۔ تاکہ مراسلے میں اٹھائی ہوئی بہت سی باتیں واضح ہو جائیں:

‘‘ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں نماز وں کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں۔

۱۔ فرض جن کا ادا کرنا لازمی ہے اور جن کا ادا نہ کرنا شدید گناہ ہے۔ یہ فرض نمازیں دیگر فرائض اُمور کی طرح اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں۔

۲۔ وہ نمازیں جو فرض کے علاوہ ہیں ، جن کو ادا کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ وہ نماز پڑھنے والے کی مرضی پر ہے۔ وہ ان کو چاہے تو ادا کرے اور چاہے تو نہ ادا کرے۔ ادا کرے گا تو ثواب کا مستحق ہوگا اور ادا نہ کرے گا تو ثواب سے محروم رہے گا۔انہیں نفل ، جمع نوافل (زائد) اور تطوع(راضی ، خوشی اپنی مرضی ) والی نماز کہا گیا ہے۔ ان کی ادائیگی کی طرف اس لیے ترغیب دلائی گئی ہے کہ بندہ اگر اللہ سے مزید قریب ہونا چاہتا ہے ، تو وہ نوافل (فرض نمازوں سے زائد نمازوں ) کو ادا کرے۔ ان کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ قیامت میں جب دیگر فرائض میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب ہو گا ، تو ان فرض نمازوں میں جو کمی ہوگی ، تو وہ کمی اللہ کے حکم سے نوافل نمازوں سے پوری کی جائے گی۔ لیکن غیر فرض نمازیں آدمی کی مرضی پر ہیں، ان کو ادا نہ کرنے پر گناہ نہیں ہے، اس سلسلے میں یہاں ایک ایسی حدیث کو نقل کررہا ہوں ، جس کا ذکر تقریباً تمام محدثین نے اپنی کتبِ حدیث میں کیا ہے۔ یہاں میں اس حدیث کو صحیح البخاری سے نقل کررہاہوں:‘‘ طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ ایک بدّو جس کے بال بکھرے ہوئے تھے ، اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا ۔ اس نے آپ سے دریافت کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے بتائیں کہ اللہ نے نمازوں میں سے مجھ پر کیا فرض (لازمی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : پانچ فرض نمازیں، اس کے علاوہ جو تم چاہو ، خوشی خوشی(بطورنفل) پڑھو۔ (اس کے بعد) اس نے کہا، رمضان کے مہینے کے روزے ، اس کے علاوہ جو تم چاہو، خوشی خوشی (بطورنفل)رکھو۔ (اس کے بعد)اس نے کہا، آپ مجھے بتائیں کہ اللہ نے مجھ پر زکوٰۃ میں سے کیا فرض ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے اسلام کے تعلق سے (اس سلسلے میں)اس پر عائد ہونے والے اُمور بتائے (اس کے بعد) اس بدّو نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت وتکریم سے نوازا ہے ! میں اپنی خوشی سے کچھ بھی مزید (یعنی نفل) نہیں ادا کروں گا اور نہ ہی اللہ کی طرف سے عائد کیے گئے فرائض میں کچھ کم کروں گا۔ (اس پر) اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : اگر اُس نے ایسا صحیح کہا ہے تو وہ فلاح یاب ہوگیا اور اگر اس نے صحیح کہا ہے تو جنت میں داخل کیا جائے گا۔’’

نماز کی مذکورہ بالا دونوں قسموں کو واضح کرنے والی ایک حدیث جو کہ جامع الترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ میں آئی ہے،کا ترجمہ دیا جارہاہے، جو شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلویؒ نے کیا ہے:‘‘بنی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب کیا جائے گا۔ اگر نماز اچھی نکلی تو وہ شخص کا م یاب ہوگا، اور بامراد اگر نماز بے کار ثابت ہوئی تو وہ نامراد و خسارے میں ہوگا۔اور اگر نماز میں کچھ کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں، جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے۔ اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائے گی، اس کے بعد اسی طرح باقی اعمال روزے ، زکوٰۃ وغیرہ کا حساب ہوگا۔’’(فضائلِ اعمال ، حصہ اوّل ، فضائلِ نماز، ص۲۵۰، نومبر ۱۹۸۶ء ، نئی دہلی)

فرض نمازوں کے بعد نفل نمازوں میں سب سے اہم نماز تہجد کی نماز/وتر/تراویح ہے ، جسے صلوۃاللیل /قیام باللیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس نفل نماز کا ذکر قرآن میں کہیں تفصیلاً ، کہیں اجمالاً اور کہیں اشارۃً آیا ہے۔(القرآن، بنی اسرائیل ۱۷:۷۸۔السجدۃ۳۲:۱۶، الذّاریات ۵۱:۱۷، المزمل ۷۳:۲۔۴،۶،۲۰،الفرقان ۲۵:۶۴،ھود۱۱:۱۱۴،۲:۱۸۵)

اس نماز کو احادیث میں بھی فرض نمازوں کے بعد سب سے اہم نمازقرار دیا گیا ہے۔(صحیح البخاری، صحیح مسلم) اس نماز کا اللہ کے رسول ﷺ اور السابقون الأولون صحابہ دونوں نہایت اہتمام فرماتے تھے ۔ شروع میں جب کہ صرف دو وقت کی نمازیں تھیں، اس زمانے میں تہجد فرض تھی،لیکن بعد میں پانچ نمازیں فرض ہونے پر اُمت پر سے اس کی فرضیت ختم کردی گئی، البتہ اللہ کے رسولﷺ اس کی نہایت پابندی کرتے تھے، اور مفسرین و محدثین کے نزدیک تہجد کی نماز اللہ کے رسولﷺ کے لیے ضروری تھی۔

اس کے بعد غیر فرض/نفل نمازوں میں جو نماز سب سے زیادہ اہم ہے ، وہ فجر کی دو رکعت فرض سے پہلے کی دو رکعت نفل نماز ہے۔اس کے بارے میں آیا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اس کی ادئیگی کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے، چنانچہ‘‘ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نفلوں میں کسی نماز کا اتنا اہتمام نہیں کرتے تھے ، جتنا اہتمام فجر کی دو رکعت کا کرتے تھے۔’’ (ترجمہ حدیث صحیح البخاری و صحیح مسلم)

سنتِ مؤکدہ، سنتِ غیر مؤکدہ کا مطلب ہے وہ نفل نمازیں ، جو اللہ کے رسولﷺ نے پابندی سے پڑھی ہیں۔ آج کل جن نمازوں کو سنتِ مؤکدہ قرار دے کر ضروری بتایا جاتا ہے، ان کو فقہ حنفی کی اولین کتاب‘‘ القدوری’’ میں نوافل قرار دیتے ہوئے باب النوافل کے تحت دیگر سنتِ غیر مؤکدہ کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ پھر حاشیے میں اس کی اس طرح تشریح کی گئی ہے:جمع نافلۃ وھی فی الغۃ الزیادۃ و فی الشرع عبارۃ عن فعل لیس نفرض ولا واجب الا مسنون و کل سنۃ نافلۃولیس کل نافلۃ سنۃ فلھذا القبہ بالنوافل۔

نوافل نافلۃ کی جمع ہے۔لغت میں اس کے معنیٰ زیادہ (یا مزید) کے ہیں اور شریعت میں یہ ایک ایسا فعل ہے ، جو نہ فرض ہے ،نہ واجب اورنہ مسنون۔ ہر سنت نفل ہوتی ہے، لیکن ہر نفل سنت نہیں ہوتی، اس لیے اس کو نوافل کہا گیاہے۔(ترجمہ عبارتِ مذکورہ)

افسوس تو اس بات کا ہے کہ کچھ علماء نے غلط طور سے سنتِ مؤکدہ کو قرآن و احادیث کے علی الرغم ضروری قرار دیتے ہوئے اس کو ادا نہ کرنے والے کے لیے گناہ لازم کردیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ دین میں اضافہ ہے، جس کو نہ اللہ نے نہ اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج کے علماء عام مسلمان کو وہ بات بتاتے ہیں جو کہ شریعت کے مطابق نہیں ہوتی ہے۔سوائے ان علماء کے جن پر اللہ کا خصوصی کرم ہوتا ہے۔‘‘واضح رہے کہ مسنون نفل نمازیں جن کو آج کل کی اصطلاح میں سنتِ مؤکدہ کہا جاتا ہے، اس کا اجرو ثواب احادیث میں بہت زیادہ بتایا گیاہے۔’’(اللہ کی پکار جنوری ۲۰۱۰ء، سوالات-جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں، ص85-88)

اوپر مذکورہ عبارت ایک مستفسر کے جواب میں ‘‘فقہ القرآن والسنۃ’’کالم کے تحت تحریر کی گئی ہے۔اللہ کی پکار میں اول روز سے اس بات کی پابندی کی گئی ہے کہ دین کے تعلق سے جو بات بھی پوچھی جائے، اسے حالات یا لوگوں کو معمول سے متاثر ہوئے بغیر قرآن و سنت کی روشنی میں بتایا جائے۔ایک عالمِ دین سے اس بات ہی کی توقع رکھی جانی چاہیے۔اس کے علاوہ اگر اس نے دین کو قرآن وسنت سے ہٹ کر بیان کیا تو نہ صرف یہ کہ دین و شریعت کی غلط ترجمانی ہوگی۔بلکہ آخرت میں باعثِ مؤخذاہ بھی، پھر میں نے اس بات کو نہایت وضاحت سے بتایا ہے کہ نماز سنتِ مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ کی تفصیل بہت بعد کی پیداوار ہے اور اب جو اس کی تشریح کی جاتی ہے کہ سنت مؤکدہ وہ ہے ، جس کو نہ پڑھنے سے گناہ ہوگا، وہ قرآن و سنت اور خودفقہائے احناف امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ اور پانچویں صدی ہجری میں تحریر کی گئی فقہ حنفی کی اولین کتاب ‘‘القدوری’’ جو کہ قرآن و سنت کے بہت حدتک قریب تھی،اس میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ فجر کے فرض سے پہلے کی دو رکعتوں ، فرض ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں ، فرض ظہر کے بعد کی دورکعتوں ، فرض عصر سے پہلے کی چار یا دورکعتوں،اور فرض عشاء سے پہلے چار اور فرض عشاء کے بعد چار یا دو رکعتوں، سب کو بغیر سنتِ مؤکدہ اور غیر مؤکدہ کی تخصیص کے بغیر‘‘ باب النوافل’’ ہی کے تحت بیان کیا ہے۔(القدوری، ص۳۱)

حاشیہ لکھا ہے ، اس میں بھی ‘‘نوافل ’’ کی اس طرح صراحت کی ہے:‘‘نوافل شریعت میں ایک ایسا فعل ہے، جو نہ تو فرض ہے، نہ واجب اور نہ مسنون۔ ہر سنت نفل ہوتی ہے، لیکن ہرنفل سنت نہیں ہوتی ، اس لیے اس کو ‘‘نوافل ’’ کہا گیا ہے۔’’ (ترجمہ حاشیہ کتاب القددری، ص ۱۳)

اس طرح مذکورہ عبارت سے بھی یہ بات واضح ہے کہ سنت نماز (چاہے وہ مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ) کا تعلق نفل ہی سے ہوتا ہے ، یعنی وہ نفل نماز، جس کو رسولﷺ نے پڑھا ہو، سنت کہلاتی ہے۔ لیکن ہر نفل نماز کا سنت ہونا ضروری نہیں ہے۔

گویا میری بات قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی کے بھی مطابق ہے۔ اب یہ بات مراسلہ نگار بتائیں کہ وہ جید فقہا، جن کا بتایا ہوا مسئلہ قرآن کے مطابق ہے، اسے مانا جائے گا یااسے جو کہ قرآن و سنت کے مطابق تو نہ ہو ، لیکن کسی بھی وجہ سے وہ لوگوں کے ذہن و دماغ میں بیٹھ گیا ہو۔

اس سب میں دل چسپ بات یہ ہے کہ سنتِ مؤکدہ کی تعریف یہ بتائی جاتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ان نمازوں کو بالالتزام ادا کیا ہے، اس لیے ان کا ادا کرنا ضروری ہے، جب کہ دوسری طرف ان احادیث کو نظرانداز کردیا جاتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ سنت نفل نمازیں ہیں، اس کے باوجود اگر لوگوں پر لازم کرنے اور کسی چیز کو ضروری قرار دینے کی یہی بنیاد ہے تو اللہ کے رسول ﷺنے تو نفلی روزے کے سلسلے میں بھی التزام کیا ہے، تو انہیں سنتِ مؤکدہ روزے کہہ کر لوگوں کے لیے کیوں ضروری نہیں قرار دیا جاتا، مثلاً:

‘‘حفصہؓ سے روایت ہے کہ چار چیزیں وہ ہیں ، جن کو رسولﷺ کبھی نہیں چھوڑتے تھے:

۱۔ عاشورہ کا روزہ ۲۔ عشرۂ ذی الحجہ(یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ نویں ذی الحجہ تک) کے روزے ۳۔ ہر مہینے کے تین روزے ۴۔ اور فجر کی نماز سے پہلے کی دو رکعتیں۔’’ (ترجمہ حدیث سنن النسائی)

‘‘قتادہ بن طلحان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ ہم لوگوں کو امر فرماتے تھے کہ ہم ایام بیض یعنی مہینے کی تیرہویں ، چودھویں، پندرہویں کو روزہ رکھا کریں اور فرماتے تھے کہ مہینے کے ان تین دنوں کو روزے رکھنا اجر و ثواب کے لحاظ سے ہمشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔’’(ترجمہ حدیث سنن ابی داؤد ، سنن النسائی)

ان دونوں احادیث میں اللہ کے رسول ﷺ کی سنتِ مؤکدہ کے تحت مخصوص دنوں کے روزے اور فجر کی نماز سے قبل کی دورکعتیں شامل ہیں ، لیکن کچھ لوگوں نے فجر کی دورکعتیں لے لیں اور انہیں سنتِ مؤکدہ کہہ کر لوگوں کے لیے لازم کردیا اور ان احادیث میں بیان کردہ روزوں کو فراموش کردیا۔حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ احادیث میں بیان کردہ (نماز اور روزے) یہ دونوں نفل ہیں، جو کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اگرچہ بالالتزام انجام دیے ہیں، مگر یہ بات واضح کردی ہے کہ ان کے کرنے پر اجر ہے، اور نہ کرنے پر اجروثواب بھی نہیں ہے، اور گناہ بھی نہیں ہے۔مراسلہ نگار نے جو حدیث کا ٹکڑا نقل کیا ہے، اس سے پہلے والا ٹکڑا جب تک نہ کیاجائے ، بات پوری نہیں ہوتی ہے۔

۔۔۔وما تقرب الی عبدی بشیء احب الی مما افترضت الیہ وما یزال ال عبدی یتقرب الی بالنفوافل حتی احببتۃ۔۔۔۔

‘‘ ۔۔۔اور میرا بندہ جن اعمال کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے، اس میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ اعمال ہیں ، جو میں نے اس پر فرض کیے ہیں ، پھر نوافل کے ذریعے مجھ سے برابر قریب سے قریب تر ہوتا رہتاہے۔۔۔۔’’(ترجمہ حدیثِ مذکورہ)

اس حدیث میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ، نماز سمیت تمام عبادات کے لیے فرض اور نفل ہی کا تذکرہ ہے، کسی اور کا نہیں۔

 نوافل کی اہمیت کا کوئی منکر نہیں ہے۔ احادیث میں ان کی بڑی فضیلت آئی ہیں۔لیکن جس اللہ کے رسولﷺ نے ان کی فضیلتیں بتائی ہیں، اس نے ان کی حیثیت و مقام اور درجہ بھی بتایا ہے۔ جہاں تک استخفاف کا معاملہ ہے تو یہ الزام تو اس وقت عائد کیا جاسکتاتھا، جب کہ نمازوں کے سلسلے میں قرآن و سنت سے ہٹ کر کوئی بات کہی جارہی ہو۔ پھر اگر اس کے باوجود استخفاف پر زور دیا جاتا ہے تو اس میں مجھ سے پہلے تو فقہائے کرام، محدثینِ عظام، تابعین، صحابۂ ہی نہیں بلکہ معاذاللہ، اللہ کے رسول خودآتے ہیں کہ وہ اس بدّو کو جنت کی خوش خبری سناتے ہیں کہ جو کہ اللہ کو رسولﷺ کے سامنے یہ عہد کرکے جاتا ہے کہ وہ فرضوں میں کسی قسم کی کمی نہیں کرے گا، لیکن زائد یعنی غیر فرض/نوافل میں سے کچھ بھی ادا نہ کرے گا۔ (صحیح البخاری)

اس حدیث سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ فرض و لازم و ضروری کون سی نماز ہے۔ ان سے غیر فرض یعنی نفل نمازوں اور ان کے اجر و ثواب کی نفی نہیں ہوتی، البتہ ان کے مقام و حیثیت کا پتا چلتا ہے۔ تہجد سمیت تمام نفل نمازوں کے بارے میں احادیث میں بے انتہا اجروثواب کو بیان کیا گیا ہے اور اہلِ ایمان کو ان کی ترغیب دلائی گئی ہے۔

فرض و نفل کے فرق کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں اکثر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ کسی بے نمازی کو جب نماز کی تر غیب دی جاتی ہے تو فرض کے ساتھ اس پر غیر فرض یعنی سنت نفل (سنتِ مؤکدہ ، سنتِ غیر مؤکدہ ) نمازوں کی بھی پابندی کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر و پیش تر افراد فرض سمیت تمام نمازوں سے ہی غافل ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہی حکمت ہے کہ اُسے پہلے فرض نمازوں کی پابندی پر زور دیا جائے اور اس کے پابند ہونے پر اجر و ثواب بتاکر نوافل کی ترغیب دی جائے۔

اس سلسلے میں ایک اہم بات بتانی اور ضروری ہے ۔وہ افراد جو کہ سروس پیشہ ہیں، سروس کے اوقات کے دوران میں فرض نماز اور اس میں لگنے والا وقت تو اللہ کا ہے، لیکن غیرفرض نماز میں سروس والا وقت لگانا سروس و خدمات کے سلسلے میں خیانت ہے، الَّا یہ کہ مالک/باس نے خود خوش دلی کے ساتھ اس کی اجازت دی ہو۔واللہ اعلم بالصواب واللہ ھو الموفق و ھو الھادی الی سبیل الرشاد۔

(بشکریہ ، ماہنامہ اللہ کی پکار دہلی مئی ۲۰۱۰)

(پروفیسر خالد حامدی)

جواب: دین اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ’۔ ‘‘جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے حقیقت میں اللہ کی اطاعت کی۔’’ آپ کی اطاعت اس لیے واجب ہے کہ آپؐ دین کے سلسلہ میں وحی کے بغیر نہیں بولتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘وما ینطق عن الہوی’ ، ‘ان ہو الا وحی یوحیٰ’ ۔ شریعت سازی کا اختیار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ دین میں ہم اپنی طرف سے کمی بیشی نہیں کر سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد’ (بخاری) ‘‘جس ے دین میں کوئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے (اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں)۔

بعض حضرات نماز جنازہ کے فوراً بعد چارپائی کے اردگرد کھڑے ہو کر اجتماعی شکل میں دعا کرتے ہیں۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں ایک بھی صحیح حدیث نہیں ملتی۔ کچھ لوگ جو علوم اسلامیہ کے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں، جنازہ کے بعد دعا کو درج ذیل آیت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں: ‘وقال ربکم ادعونی استجب لکم’ ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھ سے دعا کرو میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ حالانکہ ان لوگوں کا دعویٰ خاص ہے یعنی جنازہ کے فوراً بعد دعا کرنا، لیکن دلیل عام پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال تو اس طرح ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ زید گھر سے چلا گیا تو اس فقرے کا یہ معنی لینا کہ زید ضرور بالضرور حج بیت اللہ کے لیے گیا ہے ،کس قدر غلط ہے، اس لیے کہ حج کو جانا ایک خاص سفر ہے۔ اور زید کے گھر سے چلے جانے سے اس کے بیت اللہ شریف جانے کی دلیل ثابت نہ ہو گی۔ اگر وہ لوگ اس آیت کے عموم سے جنازہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت کرتے ہیں تو اسی آیت کے عموم کے پیش نظر درج ذیل مقامات پر بھی ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنی چاہیے۔ میت کو غسل دینے سے پہلے، پھر غسل دینے کے بعد، پھر گھر سے میت کی چارپائی رکھنے کے بعد، پھر جنازہ پڑھنے سے پہلے، پھر جنازہ پڑھنے کے بعد، تاکہ اس آیت پر مکمل عمل ہو سکے، لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ تو پتا چلا کہ درج بالا مقامات کو چھوڑ کر صرف نماز جنازہ کے بعد میت کی چارپائی پر گھیرا ڈال کر دعا کرنا سراسر من گھڑت اور دین میں ایک نئی ایجاد ہے۔

پھر ان حضرات کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ منع کی حدیث دکھائیں کہ نبیؐ نے جنازہ کے بعد دعا کرنے سے منع کیا ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس چیز کا وجود ہی نہیں ہے، اس سے منع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ حضرات جنازہ کے بعد اس حدیث سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعاء’ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ)

یہ لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

‘‘جب تم میت پر جنازہ پڑھ چکو تو اس کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرنا۔’’ اولاً اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق بقول ان کے کذاب راوی ہے۔ اہل حدیث جب مقتدی کے حق میں فاتحہ کی حدیث پیش کرتے ہیں تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں محمد بن اسحاق کذاب راوی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں ا س حدیث میں بھی تو یہی راوی ہے تو اب یہ حدیث کیسے صحیح ہو گئی؟ ثانیاً اس حدیث کا ترجمہ بھی غلط کیا جاتا ہے۔ اسی حدیث میں ‘اذا’ ظرفیہ شرطیہ ہے اور نحو کا قاعدہ ہے کہ جب ‘اذا’ شرطیہ ماضی پر آ جائے تو ماضی مستقبل کے معنی میں ہو جاتا ہے۔ (شرح جامی، ص ۲۳۶)تو اس حدیث کا صحیح معنی ہو گا ، جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھو تومیت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرو۔ چنانچہ احناف کے معتمد علیہ عالم مولانا عبد الحق دہلویؒ کا فارسی ترجمہ بالکل ہمارے ترجمہ کے عین مطابق ہے۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الجنائز مکتبہ نورانی پشاور)یہ حدیث بالکل اس حدیث کی طرح ہے جس میں نبیؐ نے فرمایا کہ ‘اذا صلیتم فاقیموا صفوفکم’ (مسلم شریف) ا س حدیث کا ترجمہ اگر اسی طرح کیا جائے جس طرح ہمارے بھائی دعا والی حدیث کا کرتے ہیں تو ترجمہ یوں ہو گا: جب تم نماز پڑھ چکو تو اپنی صفیں درست کرو۔ قارئین خود فیصلہ کریں۔ کیا یہ ترجمہ درست ہے؟ جب کہ قاعدہ کے مطابق صحیح ترجمہ یوں ہو گا: جب تم نمار پڑھنے لگو تو اپنی صفیں درست کرو۔ اسی طرح قرآن مجید میں ‘ فاذا قرأت القرآن فاستعذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم’ (اے پیغمبر جب آپ قرآن مجید کی تلاوت شروع کرنے لگیں تو اعوذ باللہ پڑھ لیا کریں۔) اگر ہمارے بھائیوں والا ترجمہ کیا جائے تو یوں ہو گا:‘‘جب تم قرآن پڑھ چکو تو اعوذ باللہ پڑھو’’۔ یہ ترجمہ عقل و نقل کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عربی گرامر کے بھی خلاف ہے۔یہ لوگ امام سرخسی کی کتاب مبسوط کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرؓ جنازہ کے بعد پہنچے تو کہا اگر تم نے مجھ سے پہلے نماز پڑھ لی ہے تو دعا میں مجھ سے آگے نہ بڑھو۔لیکن یہ روایت کسی معتبر حدیث کی کتاب میں نہیں ہے۔ اگر یہ روایت کسی معتبر کتاب میں ہوتی تواس کی سند ضرور ہوتی۔ بے سند چیز کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ یہ حضرات بیہقی کے حوالے سے ایک من گھڑت واقعہ سیدنا حضرت علی ؓ کے ذمے لگاتے ہیں کہ انھوں نے جنازہ کے بعد دعا کی۔ یہ سراسر جھوٹ ہے اور حقائق پر پردہ ڈالا گیا ہے۔ اصل واقعہ اس طرح ہے کہ سیدناعلیؓ نے ایک میت کی نماز جنازہ پڑھائی پھر جنازہ کے بعد کچھ لوگ آئے تو انھوں نے دوبارہ جنازہ پڑھا۔ اب دوبارہ جنازہ کی امامت حضرت قریظہ بن کعبؓ نے کی تو ان کے ساتھ شامل ہو کر حضرت علیؓ نے دوبارہ جنازہ پڑھا۔ چنانچہ خود امام بیہقی اس واقعہ کو اس باب کے تحت لائے ہیں کہ میت کی دوبارہ نمازہ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔ (السنن الکبریٰ، ح ۴، ص ۴۵)اس واقعہ میں تو دعا کا ذکر تک نہیں۔ پھر حضرت علی ؓ کے اس واقعہ سے ان کے اس نظریے کا بھی رد ہوتا ہے کہ دوبارہ نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔

نمازہ جنازہ کے فوراً بعد دعا کرنا فقہائے احناف کے نزدیک بھی جائز نہیں

۱۔ علامہ سراج الدین حنفی فرماتے ہیں: ‘اذا فرغ من الصلوٰۃ لا یقوم بالدعاء’۔ (فتاوی سراجیہ، ص ۲۳) جب نمازہ جنازہ سے فارغ ہو جائیں تو دعا کے واسطے نہ ٹھہریں۔

۲۔ حافظ الدین محمد بن شہاب حنفی فرماتے ہیں: ‘لا یقوم بالدعاء بعد صلوٰۃ الجنازۃ لانہ دعا مرۃ’ (فتاوی ہندیہ، ج ۱ ، ص ۴۸۳) جنازہ کے فوراً بعد دعا نہ کریں کیونکہ وہ ایک بار دعا کر چکا ہے۔

۳۔ علامہ ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں: ‘ولا یدعو بعد التسلیم’۔ (البحر الرائق ج ۲، ص ۱۸۳) نمازہ جنازہ سے سلام پھیرنے کے بعد دعا نہ کرے۔

۴۔ ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں: ‘ولا یدعو للمیت بعد صلوٰۃ الجنازۃ لانہ یشبہ الزیادۃ فی الصلوٰۃ الجنازۃ’۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، ج ۴، ص ۶۴) نماز کے بعد میت کے لیے دعا نہ کرے کیونکہ یہ نماز جنازہ میں زیادتی کے مشابہ ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ ‘‘ضیائے حدیث’’ لاہور، اپریل 2010ء)

(مولانا محمد اسماعیل بلوچ)

جواب: بچے خدا کے حکم سے پیدا ہوتے ہیں، لیکن اُن کی پیدایش کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس ماں باپ کے لیے اور جتنی تعداد میں چاہتا ہے، اُنھیں براہ راست آسمان سے نازل کر دیتا ہے۔ اُن کی پیدایش انسان کی وساطت سے اور اُس کے ارادے، فیصلے اور اقدام کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ انسان کے بارے میں یہ بات محتاج وضاحت نہیں ہے کہ اُس کے خالق نے اُسے عقل و شعور سے نوازا اور ارادہ و اختیار عطا فرمایا ہے۔ یہ دونوں چیزیں تقاضا کرتی ہیں کہ اپنے ہر فیصلے سے پہلے وہ اُس کے نتائج و عواقب کا جائزہ لے، علم و عقل کی روشنی میں معاملے کو سمجھے اور اِس کے بعد اقدام کرے۔ اِسے باغبان کی مثال سے سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:‘ء َ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہ،ٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ’(الواقعہ ۶۴: ۵۶)(یہ کھیتی تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں)؟ مدعا یہ ہے کہ باغ اور کھیتیاں تم نہیں، بلکہ خدا اگاتا ہے۔ لیکن اِس کے معنی کیا یہ ہیں کہ باغبان کا کام صرف بیج بکھیر دینا یا پنیری جما دینا ہے؟ ہر شخص مانے گا کہ ہرگز نہیں، اُس کی ذمہ داری ہے کہ باغ لگانے سے پہلے دیکھے کہ جو درخت وہ بونے جا رہا ہے، اُن کی کاشت، نگہداشت اور اُن میں پھل آنے کے بعد اُسے درختوں سے اتارنے اور منڈی تک پہنچانے کے اخراجات و لوازم کا تحمل کیا اُس کے لیے ممکن ہے؟ اُس نے زمین تیار کر لی ہے؟ درخت لگاتے وقت اُن کی ضرورت کے لحاظ سے زمین میں فاصلہ چھوڑ دیا ہے؟ اُن کے پھلوں کی منڈی میں مانگ بھی ہے یا نہیں، اِس کے لیے ضروری معلومات فراہم کر لی ہیں؟ یہ سب چیزیں دیکھنے کے بعد فیصلہ کرے کہ اُسے کیا بونا ہے اور کب بونا ہے اور کچھ بونا بھی ہے یا نہیں؟ ضبط ولادت کے معاملے میں لوگ جائز اور ناجائز کی بحث کرتے ہیں، دراں حالیکہ اِن سب چیزوں کو دیکھنا جس طرح باغبان کے لیے ضروری ہے، اِسی طرح بچے کے والدین کے لیے بھی ضروری ہے۔ اِنھیں باغبان نہیں دیکھے گا تو وہ بھی اِس کے نتائج بھگتے گا اور والدین نہیں دیکھیں گے تو وہ بھی بھگتیں گے۔

ہمارے معاشرے میں اِس کی مثالیں جگہ جگہ دیکھ لی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ بچے کی تمہید باندھنے سے پہلے والدین اِس بات کا جائزہ لیں کہ ماں بچے کا تحمل کر سکتی ہے؟ اُس کی صحت اِس قابل ہے کہ پیدایش اور پرورش کا بوجھ اُٹھا سکے؟ اِس سے پہلے اگر کوئی بچہ ہے تو اُس سے اِس حد تک فارغ ہو چکی ہے کہ دوسرے بچے کی نگہداشت کر سکے؟ اپنے زمانے اور حالات کے لحاظ سے ماں باپ کیا بچے کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کے لیے وقت، فرصت اور ضروری وسائل رکھتے ہیں؟ اِن سوالوں کا جواب اگر نفی میں ہے تو ضبط نفس سے کام لینا چاہیے یا منع حمل کا کوئی طریقہ اختیار کر لینا چاہیے، مگر بچے کی تمہید ہرگز نہیں باندھنی چاہیے۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہمارا یہ فیصلہ خدا کے کسی فیصلے کو روک سکتاہے۔ اُس کی حکمت کا تقاضا اگر یہ ہے کہ بچے کو دنیا میں آنا ہے تو وہ آکر رہے گا۔ ہماری یہ تدبیریں اُس کے قانون کی پیروی کے لیے ہیں، اُس کے کسی فیصلے کو روکنے کے لیے نہیں ہیں۔ بیماری خدا کے اذن سے آتی ہے، مگر حفظان صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے تو عام قانون یہی ہے کہ بیماری آئے گی۔ شفا خدا کے ہاتھ میں ہے، مگر علاج نہ کیا جائے تو عام قانون یہی ہے کہ بیماری بڑھے گی۔ رزق خدا ہی دیتا ہے، مگر عام قانون یہی ہے کہ اُس کے لیے جدوجہد کی جائے تو ملتا ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے اور انسان کو یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ وہ اپنی عقل کے مطابق اِن اسباب کو استعمال کرے۔ خداکی تقدیر یہاں بہت سے معاملات میں ہمارے ارادوں، فیصلوں اور اقدامات سے متعلق ہوتی ہے۔ سیدنا عمر نے طاعون کی جگہ سے بھاگنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم خدا کی تقدیر سے خدا کی تقدیر کی طرف جا رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب آپ سے منع حمل کی ایک تدبیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اِسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:مامن کل الماء یکون الولد، واذا اراد اللّٰہ خلق شء لم یمنعہ شیء.(مسلم، رقم ۱۴۳۸)‘‘ہر نطفے سے اولاد نہیں ہوتی، مگر اللہ جب کسی چیز کو پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُسے کوئی روک نہیں سکتا۔’’

(جاوید احمد غامدی)

سوال: زید کی شادی ۲۷، ۲۸ سال پہلے ہوئی تھی۔ زوجین نے پرمسرت ازدواجی زندگی گزاری۔ ان کے درمیان کسی طرح کی ناچاقی یا ناخوش گواری نہیں تھی۔ اس عرصے میں ان کی پانچ اولادیں ہوئیں، جو بحمد اللہ اب جوان ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی بیٹی کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ زید کی بیوی نے گزشتہ دس سال سے اس کے کمرے میں سونا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنے جوان بچوں کے ساتھ الگ کمرے میں سوتی ہے اور شوہر دوسرے کمرے میں اکیلا سوتا ہے۔ زید اسے بار بار اللہ اور رسولؐ کا واسطہ دے کر اس کا فرض منصبی یاد دلاتا ہے اور اسے اپنے کمرے میں سلانا چاہتا ہے۔ مگر وہ کہہ دیتی ہے کہ بچے اب بڑے ہو گئے ہیں۔ وہ کیا سوچیں گے؟ پھر انھیں اکیلے الگ کمرے میں رکھنا مناسب نہیں۔ ان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ زید عمر کے اس مرحلے میں پہنچ چکا ہے، جہاں وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی زیادہ اوقات اس کے ساتھ رہے۔ شادی صرف جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے تو نہیں کی جاتی۔ اس کی بیوی بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے، لیکن عملاً وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے سے غفلت برتتی اور جوان اولاد کی دیکھ بھال کو ترجیح دیتی ہے۔ اب وہ صرف اپنے بچوں کی ماں بن کر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں درج ذیل امور جواب طلب ہیں:

۱۔ کیا زید اور اس کی بیوی کے درمیان زن و شوہر کی حیثیت باقی ہے؟ یا ختم ہو گئی ہے؟

۲۔ بیوی کا رویہ کہیں شوہر سے خلع حاصل کرنے کے زمرے میں تو نہیں آتا؟

۳۔ کیا دونوں ایک مکان میں رہ سکتے ہیں اور بلاکراہت ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ ازدواجی تعلقات کا مطلب ہی یہ ہے کہ عام حالات میں بیوی ہمیشہ رات اپنے شوہر کے ساتھ گزارے۔ الاّ یہ کہ کوئی شرعی مجبوری آڑے آ گئی ہو۔

جواب: مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں، لیکن نکاح کے دو بول کہتے ہی ان کے درمیان انتہائی قریبی تعلق استوار ہو جاتا ہے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ یک جان دو قالب بن جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے:لم نر للمتاحبین مثل النکاح. (ابن ماجہ: ۱۸۴۷)‘‘نکاح کے ذریعے زوجین میں جیسی محبت پیدا ہو جاتی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ دو افراد کے درمیان ویسی محبت کسی اور ذریعے سے پیدا ہوتی ہو۔’’

ازدواجی زندگی کا ثمرہ جب بچے کی ولادت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تو عورت کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ اس کی محبت کا ایک اور حق دار وجود میں آ جاتا ہے۔ پہلے وہ اپنی تمام تر محبتیں اپنے شوہر پر نچھاور کرتی تھی اور اس کے تمام اوقات اور پوری توجہات اپنے شوہر کے لیے وقف تھیں، اب اس کا بچہ بھی اس کی نگاہ التفات کو اپنی طرف منعطف کر لیتا ہے اور اس کا خاصا وقت اس کی پرورش و پرداخت میں صرف ہونے لگتا ہے۔ بچہ اور بڑا ہوتا ہے تو ماں باپ دونوں مل کر اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر دھیان دیتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں شریک ہونے کے لیے اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ بچوں کی عمر کے کس مرحلے میں ان کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے؟ قرآن و حدیث میں اس کے اشارے ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انھیں الگ سلایا جائے۔ (مسند احمد ۲/ ۱۸۰) اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بستر ماں باپ کے بستر سے بھی الگ ہونے چاہییں۔ سورۂ نور میں، جہاں حجاب سے متعلق مختلف احکام دیے گئے ہیں، وہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قریب البلوغ بچوں کو مخصوص اوقات میں ماں باپ کے کمروں میں بغیر اجازت لیے نہیں داخل ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:‘‘اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمھارے لونڈی غلام اور تمھارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمھارے پاس آیا کریں۔ صبح کی نمازسے پہلے اور دوپہر کو جب کہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمھارے لیے پردے کے وقت ہیں۔’’(النور: ۵۸)

آگے بالغ بچوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے: ‘‘ اور جب تمھارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں۔’’(النور: ۵۹)

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے جب بڑے ہو جائیں تو پردے کے احکام ان سے بھی اسی طرح متعلق ہو جاتے ہیں جس طرح بڑوں سے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف متعدد ایسی آیات اور احادیث ہیں، جن سے زوجین کے ایک کمرے میں رات گزارنے کا اشارہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِع. (النساء: ۳۴)

‘‘اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو۔’’

‘مضاجع’ کا ترجمہ بستر بھی کیا گیا ہے اور خواب گاہ بھی۔ اس کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے: ولا تہجر الا فی البیت. (ابو داؤد: ۲۱۴۲)

‘‘اور (بیوی سے) مت علیحدگی اختیار کرو مگر خواب گاہ میں۔’’

بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی صورت میں اس کی تادیب و اصلاح کے لیے بستر میں، یا خواب گاہ میں اس سے علیحدہ رہنے کو کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں زوجین کا ساتھ رہنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔

اوپر کے خط میں سائل نے بیوی کے جس رویے کی شکایت کی ہے، اس کا تعلق نام نہاد مشرقی تہذیب سے ہے۔ عموماً بچے کچھ بڑے اور باشعور ہو جاتے ہیں تو عورتیں ان کی موجودگی میں اپنے شوہروں کے کمروں میں رہنے سے شرماتی اور اسے ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے بجائے بچوں کی ایسی دینی اور اخلاقی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ اس عمل کو اجنبی اور غیر اخلاقی نہ سمجھیں۔ ویسے بھی ازدواجی تعلق صرف جنسی عمل کا نام نہیں ہے۔ بہت سے معاملات و مسائل روز مرہ کی زندگی میں ایسے ہوتے ہیں، جن پر بچوں کی غیر موجودگی میں زوجین کا تنہائی میں گفتگو کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ بیوی کے فرائض میں سے ہے کہ وہ شوہر کو گھر میں سکون فراہم کرے اور جائز امور میں اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اللہ کے رسولؐ سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے اچھی عورت کون ہے؟ فرمایا: التی تسرہ اذا نظر وتطیعہ اذا امر ولا تخالفہ فی نفسہا ولا مالہا بما بکرہ.

‘‘وہ عورت جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہو جائے، وہ اسے کسی چیز کا حکم دے تو اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کے بارے میں، اس مال کے بارے میں جو اس کی تحویل میں ہے شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے۔’’

اس معاملے میں زوجین کو افراط و تفریط سے بچنا چاہیے۔ نہ انھیں اپنے باشعور بچوں کے سامنے کھلے عام ایسی ‘حرکتیں’ کرنی چاہییں، جن کا شمار بے حیائی میں ہوتا ہو اور نہ ایک دوسرے سے بے تعلق ہو جانا چاہیے کہ دوسرا فریق اسے اپنی حق تلفی شمار کرنے لگے۔ رہیں وہ باتیں، جن کا تذکرہ خط کے آخر میں کیا گیا ہے، وہ جاہلانہ باتیں ہیں۔ بیوی کے کچھ عرصہ شوہر سے الگ دوسرے کمرے میں رہنے سے نہ تو ازدواجی حیثیت ختم ہو جاتی ہے نہ یہ عمل خلع حاصل کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے چاہییں اور ان کی ادائیگی کے لیے شرح صدر کے ساتھ خود کو آمادہ کرنا چاہیے۔

()

جواب: کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت جانچنے کے لیے محدثین کرام نے مختلف اصول وضع کیے ہیں۔ ان کا تعلق روایت سے بھی ہے اور درایت سے بھی۔ مثلاً سند حدیث میں کسی راوی کا نام چھوٹ گیا ہو یا کسی راوی کا حافظہ کمزور ہو یا اس نے ضبط الفاظ میں تساہل سے کام لیا ہو یا اس کا اخلاق و کردار مشتبہ ہو یا وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ بولتا ہو تو اس کی روایت کو ضعیف کی اقسام میں شمار کیا گیا ہے۔ اسی طرح روایتوں کی داخلی شہادتوں سے بھی انھیں پرکھا گیا ہے۔ مثلاً کسی روایت میں لفظی یا معنوی رکاکت پائی جائے، وہ حکمت و اخلاق کی عام قدروں کے منافی ہو، حس و مشاہدہ اور عقل عام کے خلاف ہو، اس میں حماقت یا مسخرہ پن کی کوئی بات کہی گئی ہو، اس کا مضمون عریانیت یا بے شرمی کی کسی بات پر مشتمل ہو وغیرہ تو اس کا ضعیف و موضوع ہونا یقینی ہے۔حرمت سود کی شناعت بیان کرنے والی جو حدیث اوپر سوال میں نقل کی گئی ہے، اس کا موضوع ہونا کس اعتبار سے ہے؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ انداز سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر نقد درایت کے پہلو سے ہے۔ لیکن اس بنیاد پر اسے موضوع قرار دینا درست نہیں۔ ماں کی عزت و احترام انسانی فطرت میں داخل ہے۔ تما م مذاہب میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ تقدس کا رشتہ استوار ہوتا ہے، زنا و بدکاری تو دور کی بات ہے، کوئی سلیم الفطرت انسان اپنی ماں کی طرف بری نظر سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ سود کے انسانی سماج پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا شکار ہونے والوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں اور سودی کاروبار کرنے والوں کے اخلاق و کردار پر خراب اثر پڑتا ہے۔ اس کی خباثت و شناعت واضح کرنے کے لیے اسے ‘‘ماں کے ساتھ زنا’’ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں عریانیت یا ناشائستگی کی کوئی ایسی بات نہیں، جس کی بنا پر اس کو موضوع قرار دیا جائے۔ ایک زمانے میں منکرین حدیث نے یہ وتیرہ بنا لیا تھا کہ جو حدیث بھی کسی وجہ سے انھیں اچھی نہ لگے، اسے بلا تکلف موضوع قرار دے دیتے تھے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ‘‘سنت کی آئینی حیثیت’’ میں ان کا زبردست تعاقب کیا ہے اوران کے نام نہاد دعووں کا ابطال کیا ہے، جن لوگوں کے ذہنوں میں ایسے اشکالات پیدا ہوتے ہیں، جن کی ایک مثال اوپر درج سوال میں پیش کی گئی ہے، انھیں اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

()

جواب: انگوٹھی کا استعمال زمانۂ قدیم سے ہوتا رہا ہے۔ سونے، چاندی اور دیگر دھاتوں کی انگوٹھیاں بنائی اور پہنی جاتی رہی ہیں۔ شرعی طور سے انگوٹھی پہننا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے جائز ہے۔ ہاں سونا (Gold) امت محمدیہ کے مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس لیے سونے کی انگوٹھی پہننا ان کے لیے جائز نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: احل الذہب والحریر لاناث امتی وحرم علی ذکورہا. (نسائی: ۵۱۴۸)

‘‘سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہے۔’’

بعض احادیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کیا ہے۔ (بخاری: ۵۸۶۳، ۵۸۶۴، مسلم: ۲۰۶۶)احادیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی، جس سے آپؐ مہر کا کام لیا کرتے تھے۔ اس پر ‘‘محمدرسول اللہ’’ کندہ تھا۔ یہ انگوٹھی آپؐ کے وصال کے بعد خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ، پھر خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ، پھر خلیفۂ سوم حضرت عثمانؓ کے پاس رہی اور یہ حضرات اسے پہنتے رہے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں کہیں غائب ہو گئی۔ (بخاری: ۵۸۶۶، مسلم ۲۰۹۱)

انگوٹھی کا نگینہ اسی دھات سے بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً چاندی کی انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی کا ہو، اور دوسری دھات کا بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ عقیق، یاقوت اور دیگر قیمتی حجریات بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انگوٹھی بنوائی تھی، صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ (۵۸۷۰) لیکن صحیح مسلم میں روایت کے الفاظ یہ ہیں ‘کان خاتم رسول اللّّّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ورق وکان فصہ حبشیاً’ (۲۰۹۴) ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشہ کا بنا ہوا تھا’’۔ اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ وہ چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا تھا۔ جہاں تک حجریات کی تاثیر کا معاملہ ہے تو طب کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ مختلف حجریات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انھیں اپنے پاس رکھنے، گردن میں لٹکانے یا کسی اور طرح سے اس کے خارجی استعمال سے جسم انسانی پر فلاں فلاں اثرات پڑتے ہیں۔ اس کا تعلق عقیدہ سے نہیں، بلکہ تجربے سے ہے۔ اگر کسی پتھر کا خارجی استعمال طبی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہوتو اسے انگوٹھی کا نگینہ بنا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اس کے ساتھ کوئی مافوق الفطرت اثرات وابستہ کرلینا غیر اسلامی ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ ‘‘زندگی نو’’ نئی دہلی، فروری 2010ء)

()

ماں باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کئی چیزیں عنایت کرجاتے ہیں، ایسے ہی اُنہیں کسی بیٹے یا بیٹی سے طبعاً زیادہ محبت بھی ہوتی ہے لیکن اسلامی شریعت نے اس سلسلے میں چند ایک اُصول مقرر فرمائے ہیں جن کو پیشِ نظررکھنا مسلم والدین کے لیے ضروری ہے۔ اس نوعیت کے مسائل مسلم معاشرہ میں اکثروبیشتر پیش آتے رہتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں ایسے ہی احکام سوال و جواب کی صورت میں بیان ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ ہبہ کا لفظ عربی زبان میں کسی شے کو تحفہ دینا، گفٹ کردینا، عطیہ دینا وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ بعض جزوی اصلاحات، حوالہ جات اور ترتیب کے بعد یہ مضمون ہدیۂ قارئین ہے۔ (ح م)

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: دنیا میں جب بھی آپ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو اس کو انسانی زندگی کے تناظر میں دیکھنا پڑتاہے۔ مثال کے طور پر، اگریہ سوال کیا جائے کہ طب کیوں ہے؟تو یقینا اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ چونکہ انسان ہمیشہ ایک حالت میں نہیں رہتا، اس کو مختلف بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، اس لیے انسان کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ ان کا علاج دریافت کرے، بیماریوں کی نوعیت جاننے کی کوشش کرے، یہ جاننے کی کوشش کرے کہ بیماریاں کیوں لاحق ہوتی ہیں اور کیا وہ ان سے نجات حاصل کر سکتاہے۔یہی معاملہ تمام علوم وفنون کا ہے۔ اگر آپ تفریحات کی چیزوں کو الگ کر دیں تو جتنے بھی علوم وفنون ہیں وہ انسانی ضرورتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔اگر آپ جمالیات کے پہلو سے بھی فنون لطیفہ کا جائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احساس کی شدت سے بھی نوازا ہے اور صرف احساس کی شدت ہی سے نہیں نوازا، بلکہ وہ اس کے جمالیاتی اظہار سے تسکین بھی حاصل کرتا ہے۔ اس لیے فنون لطیفہ ، موسیقی، مصوری، شاعری اور اس طرح کی بہت سی چیزیں وجود میں آجاتی ہیں۔ انسان کو جس طرح اپنی صحت اور اپنے جمالیاتی احساسات کی تسکین کے مسائل درپیش ہیں، بالکل اسی طریقے سے موت بھی انسان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔انسان دنیا میں اپنی خواہشوں، امنگوں اور تمناؤں میں جی رہا ہوتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لے،وہ ارسطو اور افلاطون ہوتا ہے، زندگی کے منصوبے بناتا ہے،جوانی اور شباب کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے۔ یک بہ یک موت کا فرشتہ آتا ہے اور ہر چیز ختم ہو جاتی ہے۔موت کیوں آتی ہے ؟کیا اس سے انسانی زندگی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جاتا ہے؟ موت کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ ہم وہاں کس صورت حال سے دوچار ہو ں گے؟ مر کر مٹی ہو جائیں گے یا اٹھائے جائیں گے؟کوئی نئی زندگی شروع ہو گی یا یہی زندگی ہمارا خاتمہ ہے؟ اگر نئی زندگی شروع ہوگی تو اس کے اصول و قوانین کیا ہیں اور اس نئی زندگی میں جانے کے لیے کیا ہمیں اس دنیا میں کچھ کرنا ہے؟وہ زندگی بھی اسی طرح مختصر اور فانی ہے یاابدی ہے؟ اگر ابدی ہے تو اس کا اس کے ساتھ رشتہ کیا ہے؟ یہ وہ اہم ترین سوالات ہیں جن کا جواب فلسفے نے بھی دینے کی کوشش کی ہے،پھر ابتدا میں سائنس نے بھی دینے کی کوشش کی، لیکن اس وقت تک کی انسان کی کم و بیش پانچ ہزار سال کی علمی تاریخ بتاتی ہے کہ ان علوم میں سے کو ئی ایک چیز بھی ان سوالات کا معقول جواب نہیں دے سکی۔ اب تک کی دنیا میں ان سوالات کا سب سے زیادہ معقول ، فطری ، عقلی اور سائنٹیفک جواب صرف مذہب نے دیا ہے۔ اس لیے مذہب انسان کے سب سے بڑے مسئلے کا حل ہے اور اس کی ضرورت ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کے ہاں اوہام کی صورت میں جو مذہبی اعتقادات ہیں، یہ کیسے پیدا ہوئے؟ یہ سب کے سب انسان کی ضعیف الاعتقادی سے پیدا ہوئے ہیں ۔ کوئی بیماری آگئی، مصیبت آگئی ، انسان کے اوپر کوئی حادثہ ٹوٹ پڑا۔ اس موقع پر انسان کمزور ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی شخصیت کا توازن مجروح ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات سے مغلوب ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب اوہام پر مبنی مذاہب پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اصل میں مشرکانہ مذاہب ہیں۔ جس میں کسی دیوی دیوتا یا سورج چاند کومعبود بنا لیا جاتا ہے۔فطرت کی قوتوں کی پرستش کے جو احساسات اور جذبات انسان کے اندر پیدا ہوئے ہیں،یہ تو حید کے تصور سے انحراف کے نتیجے میں آئے ہیں۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت آج سے چودہ ، پندرہ سو سال قبل ہوئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انھوں نے توحید کی دعوت دی۔ قرآن مجید بھی توحید کی دعوت دیتا ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ ضعیف الاعتقادی مشرکانہ عقائد کے پیدا کرنے کا باعث بن گئی۔ یہی معاملہ اس سے پہلے کا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے جس مذہب کی ابتدا ہوئی وہ اسلام تھا، توحید تھی ، ایک خدا پر ایمان تھا، لیکن بعد کے مراحل میں جب انسان اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے تھوڑے فاصلے پر ہوا تو اس کے نتیجے میں وہی ضعیف الاعتقادی غالب آگئی۔ اس وقت ہمارے پاس قرآن موجود ہے، احادیث موجود ہیں،توحید پر ایمان کی ایک عظیم روایت موجود ہے۔اس کے باوجود عام لوگ ہر طرح کے مشرکانہ اوہام میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

انبیا علیہم السلام کی بعثت اسی لیے ہوئی کہ انسان کے ان اعتقادات کے معاملے میں اسے متنبہ کیا جائے،وہم سے نکالا جائے، اسے توحید کا صحیح شعور دیا جائے اور اسے بلند کرکے پروردگار کے ساتھ متعلق کیا جائے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی اس پہلی ہدایت پر قائم رہ جاتاتو پے در پے پیغمبر بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ قرآن مجید نے یہی بات سورۂ بقرہ میں بیان کی ہے کہ: ‘کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً۔’( البقرہ ۲:۲۱۳) انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے توحید پر پیدا کیا ہے۔وہ ایک ہی گروہ تھے، ان کے دین میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس کے بعد وہ ان اوہام کا شکار ہوئے۔‘ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ’(البقرہ ۲:۲۱۳) پھر اللہ تعالیٰ نے نبیوں کا سلسلہ جاری کیاجو بشارت دینے اور خبر دار کرنے کے لیے آئے۔ قرآن بھی اپنے نزول کا مقصد یہی بیان کرتا ہے کہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ دوسری جگہ بیان کیا: ‘لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ’ (حدید ۵۷:۲۵) تاکہ دین کے معاملے میں لوگ ٹھیک انصاف پر کھڑے ہو جائیں۔ یعنی انسان کو انحرافات سے نکال کر بالکل اس جگہ پر لے آیا جائے، جو انبیا علیہم السلام نے ان کے لیے متعین کی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ بات تعلیم کے ذریعے سے لوگوں کو بتانی چاہیے۔ ہمیں اپنی نئی نسلوں کو بتاناچاہیے، ان کے لیے اس کی تعلیم کے مواقع پیدا کرنے چاہییں۔ اعلیٰ درجے کے اہل علم کو یہ خدمت انجام دینی چاہیے۔ ہم بہت بے چین ہو جاتے ہیں، اگر ہم کو معلوم ہو کہ ہمارے ہاں بیماریاں موجود ہیں، لیکن ان کے لیے اعلیٰ درجے کے ہسپتال نہیں ہیں، اعلیٰ درجے کے ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ طب کی بہترین سہولتیں اپنے ملک میں فراہم کریں۔ لیکن افسوس کہ دین کے علم کے بارے میں ہم کبھی اتنے فکر مندنہیں ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ موت کا مسئلہ ہے۔ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ اس پر ہمیں سب سے زیادہ بے تابی ، سب سے زیادہ اضطراب ہونا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ معاملہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ گرد و پیش میں مذہب کی غلط تعبیریں ہجوم کر لیتی ہیں یعنی جب آپ غلط باتیں بیان کر دیتے ہیں اور گرد و پیش سے وہ آپ کے سامنے آتی ہیں تو اس کے نتیجے میں انسان ان چیزوں کا شکار ہو جاتا ہے۔انسان پر ماحول کے بے پناہ اثرات ہوتے ہیں اس کی وجہ سے اس کی فطر ت کی سادگی قائم نہیں رہتی۔ اگر اس کو آپ اس کی فطرت پر چھوڑ دیں اور پھر انبیا علیہم السلام کی تعلیم سادگی سے اس کے سامنے آئے تو وہ اسے قبول کرے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس کے لیے کسی بڑے تعلیمی منصوبے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ ہم اس معاملے میں بیدار اور حساس ہو جائیں۔ آج کے دور میں تو یہ بہت آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے غیر معمولی ذرائع پیدا کر دیے ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ ایک کمرے (ٹی وی اسٹوڈیو)میں بیٹھے ہوں گے اور ایک دنیا آپ کی بات سن رہی ہو گی۔ پہلے آپ اگر تعلیم دینا چاہتے تھے تو ایسے غیر معمولی لوگ پیدا کرنے پڑتے تھے جو گاؤں گاؤں جا کے لوگوں کو بتا سکیں۔ دنیا میں اعلیٰ درجے کے معلم بہت کم ہوتے ہیں۔ اس میں بھی بڑی مشکلات تھیں۔ آج یہ ضرورتیں بھی اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی ہیں اور ایسے اسباب فراہم کر دیے ہیں کہ آپ ایک جگہ بیٹھ کر پوری دنیا کو تعلیم دے سکتے ہیں۔ اس وجہ سے تعلیم دینا کوئی مشکل کام نہیں ،اس کے لیے کسی بڑے منصوبے کی بھی ضرورت نہیں۔ صرف ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تنقید سے ڈرتے ہیں۔ یہ تنقید ہی ہے جو اصل میں قوموں کی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اگر آپ یہ صلاحیت نہیں رکھتے اور آپ نے یہ چیز پیدا نہیں کی یعنی آپ نے کچھ مقدس رکاوٹیں (Taboos )بنا دی ہیں کہ آپ فلاں چیز کو نہیں چھیڑ سکتے، فلاں پر بات نہیں کر سکتے، تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ صرف ذہنی اور فکری بونے پیدا کریں گے۔ آپ کے ہاں وہ لوگ جو آزادی سے بات کر سکیں، بات سمجھا سکیں، سوال کر سکیں، وہ ختم ہونے شروع ہو جائیں گے۔ دنیا کے اندر ترقی کرنے کا راستہ یہ ہے۔ طب میں بھی بہت غیر معمولی اوہام تھے۔ لوگ معلوم نہیں کس کس طریقے سے علاج کرتے تھے۔ تعویذ گنڈے تھے، عطائی تھے، لیکن سائنسی طریقۂ کار نے ان سب کو ختم کر دیا۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ یہ جو چیزیں آپ نے بیان کی ہیں اگر ان سب کو تعلیم کے عمل سے گزار دیا جائے تو جو صحیح مذہب اوراس کی اصل حقیقت ہے، وہ ان سب کو بالکل اسی طریقے سے نگل جائے گا، جس طرح قرآن میں بیان ہوا کہ عصائے موسوی ساحروں کی رسیوں کو نگل گیا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ بات دور جدید کے ماہرین نفسیات نے کہی تھی۔ لیکن اگر اس کے اندر اتر کر اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ بات منطقی استدلال کی میزان میں پوری نہیں اترتی۔ آپ کو خوف اسی وقت لاحق ہو گا جب آپ کو کچھ چیزیں عزیز و محبوب ہوں گی۔ انسان کو جو خوف لاحق ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت کے مواقع پہلے موجود تھے۔انسان کو زندگی عزیز تھی، زندگی کا رہن سہن عزیز تھا ، وہ اپنی دنیا سے محبت کرتا تھا۔ اسی لیے تو اسے یہ خوف لاحق ہوا کہ زلزلہ مجھ سے یہ سب کچھ چھین لیتاہے۔ طوفان آتا ہے او رمیری کٹیا کو بہا لے جاتاہے، آندھی آتی ہے اور میرا سب کچھ برباد کر جاتی ہے۔ یہ سب کچھ جو اس کے پاس ہے، اس سے اس کو جو محبت محسوس ہوئی یا ہونی چاہیے تھی وہی اصل میں خوف کا باعث بنی۔ خوف کبھی مقدم نہیں ہوتا۔انسان کا مقدم ترین جذبہ محبت کا جذبہ ہے۔ جب اس طرح کی تصویر کھینچی جاتی ہے تواس بات کو بھلا دیا جاتا ہے کہ کیا ہمیشہ زلزلے اور طوفان ہی آتے ہیں؟ انسان کی نگاہ ان پہاڑوں، دریاؤں، تلاطم خیز موجوں اورگرد و پیش کی عطربیز ہوا پر کبھی نہیں گئی؟انسان نے اپنے گرد وپیش کی خوب صورتی اور اپنے وجود کے حسن کو کبھی نہیں دیکھا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حسن و خوبی سے کوئی محبت پیدا نہ ہوئی ہو اور خوف کا جذبہ سب سے پہلے آ گیا ہو۔ اس لیے یہ بات کہ مذہب خوف سے پیدا ہوا ہے ، ٹھیک نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ رسوم اور روایات مذہب کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے، یہ تو بڑی بعد کی چیزیں ہیں۔ مذہب کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ تمھیں ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے اور خدا کے حضور میں پیش ہونا ہے، اس پیشی کے بعد تمھاری ابدی زندگی کی ابتدا ہونی ہے۔ اس زندگی میں اللہ تعالیٰ نے جو فردوس آباد کر رکھی ہے، اس کے لیے وہ اس دنیا کے اندر لوگوں کا انتخاب کر رہا ہے۔ یہ انتخاب جس اصول پر ہو رہا ہے اس کو قرآن کی اصطلاح میں تزکیہ کہتے ہیں۔ یعنی دنیا کے اندر سے ، وہ لوگ جو اپنے نفس کا تزکیہ کر لیں، اپنے آپ کو پاکیزہ بنا لیں، ان کا انتخاب کیا جائے۔دراصل مذہب کا موضوع اخلاقی پاکیزگی ہے۔ اس معاملے میں تین چیزوں کو مذہب نے اپنے دائرے میں لیا ہے۔ ایک یہ کہ ہمارے بدن کو صاف ہونا چاہیے۔ دوسرے ہمارے کھانے پینے کی چیزوں کو پاکیزہ ہونا چاہیے اور تیسرے ہمارے اخلاق کو پاکیزہ ہونا چاہیے۔

 یہ مسئلہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ لوگوں کو مذہب کی حقیقت سمجھائی نہیں گئی۔ ہم نے اپنی نئی نسلوں کو مذہب کے بارے میں کبھی تعلیم نہیں دی ۔ کبھی ان کے سوالات کا جواب نہیں دیا ۔ کبھی ان کو جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔ اس بات کا کبھی جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کہاں سے مذہب لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا ہے، والدین اس کو تھوڑی بہت مذہبی معلومات فراہم کر دیتے ہیں۔ ایک قاری صاحب کے سپرد کرتے ہیں۔ قاری صاحب کچھ قرآن پڑھا دیتے ہیں، کچھ دعائیں یاد کرا دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ وہ بچہ مسجد میں چلا جائے گا اور وہاں سے کچھ باتیں سن لے گا۔ مذہب کی حقیقی تعلیم عملی اور عقلی استدلال کے ساتھ جس طرح دی جانی چاہیے ، وہ ہمارے بچوں کو کبھی دی ہی نہیں جاتی۔ اس وجہ سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس معاملے میں صحیح چیز کو جاننا چاہیے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو پہلے سے طے ہوتی ہیں مثلاً مجھے کہاں پیدا ہونا تھا ، میری شکل و صورت کیا ہو گی، مجھے کیا صلاحیتیں دی جائیں گی۔ قدرت کے نظام نے مجھے ایک خاص ملک میں پیدا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے میرے لیے ایک شکل و صورت اور صلاحیتوں کی نوعیت منتخب کر لی۔ ان کے بارے میں بھی فیصلہ ہو گیا۔ اب اس کے بعد میرا اخلاقی وجود ہے اور ان صلاحیتوں کی نشو و نما دینے کے میدان ہیں، جن میں مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو الگ الگ سمجھ لینا چاہیے۔ اس کے لیے کسی فلسفی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ ہماری روزہ مرہ کی زندگی اور ہماری عقل عام اس کا فیصلہ کر رہی ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کون سی چیزیں ایسی ہیں، جو قدرت کے فیصلے کے نتیجے میں ہم کوملی ہیں اور کون سی چیزیں ہیں جن میں ہم کواختیار دیا گیا ہے۔ہم نے کبھی اپنے کسی ملازم کا اس بات پر احتساب نہیں کیا ہے کہ اس کی ناک بڑی اور کان چھوٹے کیوں ہیں۔ یہ چیزیں تو وہ قدرت کی طرف سے لے کر آیا ہے۔ لیکن جس وقت وہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے، قاعدے کے خلاف معاملہ کرتا ہے، غبن کرتا ہے، خیانت کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، بددیانتی کرتا ہے، اس وقت ہم اس کا محاسبہ کرتے ہیں کیونکہ یہ اختیار کی چیز ہے۔ انسان اگر اپنے دل سے پوچھے تو دل ٹھیک فتویٰ دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کہاں وہ مجبور ہے اور کہاں مختار ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دراصل اس بارے میں ایک غلط مقدمہ قائم کر لیا گیا ہے۔ وہ مقدمہ یہ ہے کہ مذہب ہماری دنیوی زندگی کی کامیابی کے لیے آیا ہے۔ جبکہ یہ بات مذہب کا موضوع ہی نہیں ہے۔ انسان اگر دنیا میں ترقی پانا چاہتا ہے تو اس کے لیے اس کو علم حاصل کرنا ہے، اپنی طبعی زندگی کا مطالعہ کرنا ہے، اپنے اخلاقی وجود کو بہتر بنانا ہے، اپنے اندر آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے ۔ اگر وہ علم کے میدان میں آگے قدم بڑھاتا ہے اورمادے کو توانائی میں بدلنے کی کوئی نئی صورت دریافت کر لیتا ہے تو وہ آگے بڑھے گا، اس کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ہیں وہ چیزیں جن پر قوموں کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ مغرب کر لے یا مشرق کر لے، یکساں نتائج نکلیں گے۔

 دنیا کی زندگی کے اندر تین چیزیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک چیز آپ کے مادی وسائل ہیں،دوسرے آپ کاعلم ہے، تیسرے آپ کی اخلاقی شخصیت ہے۔ مذہب کا موضوع آپ کی اخلاقی شخصیت ہے یعنی اس معاملے میں وہ اثر انداز ہو گا۔ آپ جو اخلاقیات اہل مغرب کے ہاں پاتے ہیں یہ دراصل سیدنا مسیح علیہ السلام کا اعجاز ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کا اخلاقی وجود مغرب کے ریشے ریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس کو نکالا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کو آپ نام دیں، نہ دیں، وہ ان کی شخصیت ، ان کی نفسیات کا حصہ بن گیا ہوا ہے۔ یہ ہمدردی، محبت، انسانوں کے معاملے میں حساسیت، یہاں تک کہ جانوروں تک کے معاملے میں حساسیت اور ان کے حقوق کی پاس داری،یہ ساری کی ساری تعلیم درحقیقت سیدنا مسیح کی دی ہوئی تعلیم ہے۔ لیکن بعض اوقات جب انسان کے اندر ایک خاص طرح کا انحراف پیدا ہوتا ہے تو اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کے معاملے میں وہ دینے والوں کے لیے بھی ناشکری کا رویہ اختیار کر لیتا ہے۔

اس کے بعد بڑا مسئلہ موت کا ہے۔ اور یہ مسئلہ مغرب میں ختم نہیں ہوا ، بلکہ آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ مثال کے طور پر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ آپ انھیں بتائیں کہ کھانے پینے میں احتیاط کرو، ورنہ تمھیں کوئی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، اس وقت کی زندگی گزارنے دو ‘بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست’(یعنی اے بابر عیش وعشرت میں زندگی بسر کرو یہ دنیا دوبارہ حاصل نہیں ہوگی)، جب بیماری آئے گی، دیکھا جائے گا۔اس طرح کے بے شمار لوگ ہوتے ہیں۔ مغرب بھی بحیثیت مجموعی مذہب کے ساتھ دراصل یہی معاملہ کر رہا ہے۔ وہاں موت کے مسئلے کو کچھ دیر کے لیے نظر انداز کر دیا گیا ہے، لیکن یہ اپنی پوری طاقت سے نمودار ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں ہر شخص نے یہ فیصلہ کر لیا ہے۔ مغرب میں اس وقت بھی آپ کو ایسے کروڑوں لوگ ملیں گے جو غیر معمولی مذہبی وابستگی رکھتے ہیں۔ مذہب کے معاملے میں بڑے حساس ہیں۔ ان کے ہاں جو مذہبی روایت تھی، اس کے ساتھ دو آفات لاحق تھیں۔ ایک یہ کہ مذہب کے عقائد بدقسمتی سے صوفیانہ مظاہر کے زیر اثر بائبل سے بہت دور ہو چکے تھے۔ اس کو ہر عاقل نے رد کرنا ہی تھا، وہ رد ہو گئے۔ دوسری یہ کہ ان کے ہاں مذہب ایک Institution(ادارے) میں تبدیل ہو گیا تھا اور وہ پوپ کا Institution تھا ۔ اس کو ایک سیاسی اقتدار حاصل ہو گیا تھا۔ اس سے کچھ مفاسد پیدا ہوئے اور انھوں نے اس کے خلاف بغاوت پیدا کی۔ لہٰذا مغرب کے معاملے کو اس طرح دیکھنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: مذہب تو یقینا اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اصل میں تو انسان کی خواہشات اوراس کے تعصبات یہ کام کرتے ہیں۔ انسان کے اندر چونکہ انحراف کی بڑی غیر معمولی صلاحیت ہے ، جس وجہ سے وہ بعض اوقات مذہب جیسی مقدس اور پاکیزہ چیز کو بھی اس کے لیے استعمال کر لیتا ہے۔ جو چیز بھی اثر انگیز ہو گی اور انسانی شخصیت پر جس کی گرفت ہو گی، اس کو استعمال کر لیا جائے گا۔ چنانچہ ان نفرتوں کے لیے انسان نے قومی تعصبات کو بھی استعمال کیا ہے، انسان نے اپنے آدرشوں اور نصب العین کو بھی استعمال کیا ہے۔ پچھلی صدی کی ابتدا میں انسان نے یہ تصور دیا کہ ہم انسانوں کی بہتری کے لیے ایک ایسا نظام بنانا چاہتے ہیں، جس میں ملکیت کے ذرائع ختم کر دیے جائیں۔ اس میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ غریبوں کے مسئلے کو حل ہونا چاہیے، یہ بات تو بڑی اچھی ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ نے ایک نظام کا تصور قائم کیا اور پھر اس کو قائم کرنے کے لیے آپ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک صحیح چیز کا غلط استعمال ہے۔ اس طرح کا غلط استعمال مذہب کابھی ہو جاتا ہے۔ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم نے مذہب کے معاملے میں لوگوں کو educate کیا ہے؟ یقینا نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو اس طرح کے مسائل کبھی جنم نہ لیتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو اس بات کا بڑا غیر معمولی اہتمام کیا ہے کہ لوگ مذہب کو غلط استعمال نہ کر سکیں۔ لیکن ہم نے اس اہتمام سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔ اس لیے کہ آپ جتنا جی چاہیں اہتمام کر لیں، اعلیٰ سے اعلیٰ علم لوگوں کے سامنے رکھ دیں ، اگر آپ نے لوگوں تک اس کو پہنچانے کا اہتمام نہیں کیا تو اس کے نتیجے میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ طب کی اعلیٰ سے اعلیٰ کتابیں لکھ کے دے دیجیے اور ان کو لائبریری میں رکھ دیجیے،اگر آپ نے اپنی قوم کو educate کر کے اچھے ڈاکٹر پیدا کرنے کا اہتمام نہیں کیا تو عطائی راج کریں گے اور وہ لوگوں کی زندگی سے کھیلیں گے۔ یہی صورت حال مذہب میں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اسلام کا کوئی لباس نہیں ہے۔لوگ جو لباس چاہیں ، پہنیں، صرف اس میں ایک چیز ان کو لازماً ملحوظ رکھنی چاہیے کہ وہ لباس مہذب، شایستہ اور باحیا ہونا چاہیے۔ یعنی آپ ایسا لباس پہنیں، جو اعضا کو چھپانے والا ہو، آپ کو باوقار رکھے، آپ کو نماز پڑھنے میں سہولت دے اور اس میں آپ اپنے قومی تشخص کے ساتھ نمایاں ہوں۔ یہ باتیں پسندیدہ باتیں ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اسلام اس لحاظ سے خدا کی معرفت ہے کہ وہ ہمارا خالق ہے اور ایک دن ہمیں اس کے سامنے جواب دہ ہونا ہے اور یہ جواب دہی اچھے عمل کی بنیاد پر ہو گی۔ پورا message یہ ہے۔ اگر آپ چند لفظوں میں اسلام کی حقیقت بیان کرنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جس وقت میں یہ تسلیم کر لیتا ہوں کہ میرا ایک خالق ہے، ایک دن مجھے اس خالق کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ اور یہ جواب دہی کسی اور بنیاد پر نہیں ، علم و عمل کی اصلاح اور میری پاکیزگی کی بنیاد پر ہو گی تو جیسے ہی میں یہ مانتا ہوں تو میں ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ اب میں اسلام میں ہوں یعنی ایک مسلمان کی حیثیت سے جی رہا ہوں۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اس کی تفصیلات ہیں۔ اور تفصیلات کے معاملے میں قرآن نے بڑی صاف بات کہہ دی ہے کہ اس کی تفصیلات کے دو حصے ہیں۔ایک کا تعلق ایمان اور اخلاق سے ہے۔ اور دوسرے کا تعلق قانون سے ہے۔ ایمان اور اخلاق کے معاملے میں نہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ہاں کوئی اختلاف تھا، نہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے ہاں کوئی اختلاف تھا، نہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کوئی اختلاف ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ایمان و اخلاق تمام تر یکساں رہے ہیں۔ لیکن شریعت یا قانون ایسی چیز ہے جس میں کچھ قانونی پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ یہ حصہ ایسا ہے جو حالات کے لحاظ سے تبدیل بھی ہوتا رہا ہے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بعض صورتوں میں مختلف بھی رہا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: ہمارے ہاں جو علم تاریخ کے ماہرین ہیں، وہ دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ایک قبل از تاریخ کا زمانہ ہے اوردوسرا مابعد از تاریخ کا۔یعنی ایک دور وہ ہے جس کی بس کچھ معلومات ہمیں حاصل ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہم روشنی میں کھڑے ہیں۔ اور ایک وہ زمانہ ہے جو بالکل ایسا ہی ہے جیسے آج کے روز و شب گزر رہے ہیں۔ اس زمانے کی سب چیزیں روشنی میں ہیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ما بعد از تاریخ کے زمانے کے عین سرے پر ہوئی ہے۔ عین جب وہ روشن دور شروع ہو رہا ہے۔ پہلے دور میں جو قبل از تاریخ کا دور ہے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ انسانوں کے سامنے اللہ کی ایک حجت واضح ہو جائے اور پھر اس کی تجدید کی ضرورت نہ پڑے۔ اس دور میں اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے اندر انبیا علیہم السلام بھیجے ، پھر جب انسانیت ذرا تھوڑی روشنی میں آنے لگی تو سیدنا ابراہیم کی ذریت کو منتخب کر کے ایک علاقے کا انتخاب کیا گیا کہ اس علاقے میں دین کاایک مرکز بنایا جائے۔ یہی وہ دور ہے،جس میں سیدنا ابراہیم علیہم السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کی اور بیت المقدس کی تعمیر ہوئی یعنی ان کی نسل سے دو مراکز قائم کیے گئے تاکہ لوگوں کے سامنے دین کی حجت تمام ہو۔ اس پر پھر کوئی دو ہزار سال کے قریب گزرے۔ یہاں تک کہ انسان تاریخ کی روشنی میں آ گیا۔ جیسے ہی روشنی میں آیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ اب چونکہ انسان تاریخ کی روشنی میں آگیا تھا تو بار بار انبیا بھیجنے کی زحمت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ گویا عالمی سطح پر اللہ تعالیٰ انبیا کے ذریعے سے جو حجت تمام کرنا چاہتے تھے، وہ ہو گئی۔ پیغام پہنچ گیا، دعوت آ گئی۔ قرآن کو محفوظ کرنا ممکن ہو گیا۔ ہر چیز تاریخ کی روشنی میں آ گئی۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ ختم کیا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: فرقے بننے کی بڑی وجہ ضداور ہٹ دھرمی ہوتی ہے۔ اور یہ بات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے کہ ہم نے سب نبیوں کو ایک ہی دین دیا تھا ، اور اس میں جو بنی اسرائیل اور اہل کتاب نے اختلاف کیا ‘بَغْیْاً بَیْنَہُمْ۔’(البقرۃ ۲:۲۱۳) آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے کیا۔ شریعت کے اندر بنیادی اختلافات کہیں بھی نہیں ہیں۔البتہ چھوٹے چھوٹے Interpretation کے اختلافات ہیں۔ انسان جب تک انسان ہے اس میں علمی اختلاف ہو گا اور وہ قرآن مجید کی تعبیر میں بھی ہو جائے گا۔اس سے کوئی قیامت نہیں آتی۔ اختلافات زندگی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسی سے انسانی زندگی میں ایک تنوع، جدت اور ندرت رہتی ہے۔ اختلاف کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے اندر حسن ہے۔ ان کے ذریعے سے آپ چیزوں کے اندر اترتے ہیں۔ ایک ہی چیز کو دیکھنے کا ایک زاویۂ نظر اور دوسرا زاویۂ نظر آپ کو آگے بڑھنے میں، ترقی کرنے میں مدد دیتا ہے۔انسان کواگر آپ بالکل ایسی چیز بنا دیں کہ جو ایک سانچے میں سے نکل کر تیار ہو رہی ہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ انسان کے سوچنے کے انداز، اس کی فکر کے انداز، اس کے رد عمل کے انداز،اس کی نفسی صلاحیتیں، اس کی عبقریت،اور اس کی ذہانت، یہ سب چیزیں اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ان کی وجہ سے تھوڑے بہت اختلافات ہوتے ہیں۔ اس طرح کے اختلافات سائنس، طب سب علوم و فنون میں ہوتے ہیں ۔ فرقہ بندی میں اختلافات جو مخالفت میں ڈھل جاتے ہیں، جس سے لوگ ایک دوسرے سے ٹوٹنا شروع ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ ضدم ضدا کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی فرقے کے دوسرے فرقے کے ساتھ اختلافات کا جائزہ لے لیں، ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ اس میں کچھ شخصیات کے ساتھ غیر معمولی عقیدت وجود میں آ جاتی ہے۔ پھر اپنی اپنی بھیڑوں کو اپنے باڑے میں جمع کرنے کا جذبہ پیدا ہو جاتاہے۔ پھر اس میں بعض جگہوں کے اوپر تعلیم ناقص ہوتی ہے، اور جہالت در آتی ہے، یہ چیزیں ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑاتی بھڑاتی رہتی ہیں۔ ورنہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ایک چیز کو ایک زاویے سے دیکھ رہا ہوں اور آپ دوسرے زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسروں کو جہنمی قرار دینا، ان پر فتوے لگانا، مسلمانوں کی امت کو پھاڑنا، زبان سے یہ کہنا ہے کہ ہم ڈیڑھ ارب کے قریب ہیں، لیکن اپنے گروہ کے سوا کسی کو مسلمان نہیں ماننا اور پھر قتل و قتال تک نوبت پہنچا دینا ، یہ سب چیزیں جہالت سے پیدا ہوتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: روزے کی مقبولیت کے لیے سحری کھانا شرط نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے جس پر حضوؐر نے خود بھی عمل کیا اور لوگوں کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث نبوی ہے: تسحروا فان فی السحور برکۃ. (بخاری و مسلم)

‘‘سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔’’

اسی طرح سحری تاخیر سے کھانا بھی سنت ہے اور افطار میں جلدی کرنا بھی سنت ہے کیوں کہ اس طرح بھوک اور پیاس کی شدت کچھ کم ہو جاتی ہے اور اس طرح روزے کی مشقت میں بھی قدرے تخفیف ہوتی ہے۔ بلا شبہ دین اسلام نے عبادتوں میں حتی الامکان تخفیف اور آسانی کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ لوگوں کا دل ان عبادات کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو۔ انھیں آسانیوں میں سے حضوؐرکی یہ تاکید ہے کہ سحری تاخیر سے کھائی جائے اور افطار میں جلدی کی جائے۔ حضوؐر کی سنت کے اتباع میں فجر سے قبل اٹھنا باعث ثواب ہے ، چاہے ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی سے یہ سنت ادا کی جائے۔سحری میں ایک روحانی فائدہ بھی ہے۔ فجر سے قبل اٹھنا ایک ایسی گھڑی میں اٹھنا ہے جب اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے۔ بندے کا ایسی گھڑی میں اپنے خالق و مالک سے مناجات کرنا اورمغفرت کی دعائیں کرنابہت قیمتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ بستر پر سوتے پڑے رہنے کے برابر ہو سکتا ہے؟ ہم خود تصور کر سکتے ہیں کہ ان دونوں حالتوں میں کس قدر زمین و آسمان کا فرق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزے کی حالت میں احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس پر انسان کا بس نہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو کسی ایسے کام کا مکلف نہیں کرتا، جس پر اس کا بس نہ ہو۔ اسی طرح روزے کی حالت میں غسل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے غیر ارادی طور پر پانی اس کے کانوں سے ہوتا ہوا حلق تک پہنچ جائے یا کلی کرتے وقت حلق میں چلا جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَأْتُم بِہٖ وَلٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ.(الاحزاب:۵)

‘‘اور نادانستہ جو کام تم کرو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اس پر گرفت ضرور ہے، جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ایسے بوڑھے جنھیں روزہ رکھنے میں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھیں۔ اسی طرح وہ مریض جس کا مرض مستقل نوعیت کا ہو اور اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو، اس کے لیے بھی جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے بشرطیکہ یہ ایک ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہو یا روزے کی وجہ سے مرض میں اضافے کا خوف ہو۔ ان سبھی کے لیے رخصت کی بنیاد پر قرآن کریم کی یہ آیت ہے: یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ.(البقرۃ:۱۸۵)

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بوڑھے اور اس جیسے معذور اشخاص کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے: وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْراً فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ. (البقرہ:۱۸۴)

‘‘اور جو لوگ (مسکین کو کھلانے کی) قدرت رکھتے ہوں تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔’’

روزہ معاف ہونے کی صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ ہر ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔

حاملہ عورت اگر روزے کو اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے بھی روزے معاف ہیں کیونکہ ایک انسانی جان جو اس کے پیٹ میں ہے، اس کی حفاظت اس پر فرض ہے۔ تاہم ان روزوں کے بدلے میں وہ ان روزوں کی قضا کرے گی یا قضا کے ساتھ ساتھ مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی یا صرف کھانا ہی کافی ہے؟ اس امر میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ صرف روزوں کی قضا کرے گی۔

میری رائے یہ ہے کہ وہ عورت جو بہت تھوڑے وقفے سے حاملہ ہو جاتی ہو اس پر قضا واجب نہیں ہے کیونکہ عملاً چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس کے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ رہا خوشبو کا استعمال تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ روزے کی حالت میں خوشبو کا استعمال جائز ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب:تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مریض کے لیے روزہ معاف ہے۔ جب وہ اچھا ہو جائے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

تاہم ہر قسم کے مرض میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں جن میں روزہ رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً کمر میں یا انگلی میں درد وغیرہ۔ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں کہ روزہ رکھنا مفید ہوتا ہے مثلاً دست اور پیچش کا مرض۔ اس قسم کے امراض میں روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس مرض میں اس کی اجازت ہے جس میں روزہ رکھنے سے مرض میں اضافے کا اندیشہ ہو یا روزہ رکھنے سے شدید تکلیف ہوتی ہو۔ ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔ اگر ڈاکٹر کے مشورے کے باوجود اور تمام تکلیفوں کو سہتے ہوئے کوئی شخص روزہ رکھتا ہے، تو یہ ایک مکروہ کام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آسانی کی صورت فراہم کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ کی اس رخصت کو قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلاَ تَقْتُلُواْ اَنفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً.(النساء:۲۹)

‘‘اور اپنے آپ کو مار نہ ڈالو۔ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔’’

اب رہا یہ سوال کہ چھوٹے ہوئے روزوں کے بدلے کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مرض ہے جو وقتی ہوتا ہے اور کسی نہ کسی مرحلہ میں اس کے دور ہونے کی امید ہوتی ہے۔ اسی مرض میں اگر روزے چھوٹے ہوں تو ان کے بدلے صدقہ کرنا کافی نہیں بلکہ روزوں کی قضا واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے: فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

‘‘تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرو۔’’

دوسرا وہ مرض ہے جس کے دور ہونے کی تازیست کوئی امید نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔ بعض فقہاء مثلاً امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ کھانا کھلانے کے بجائے کسی مسکین کی مالی امداد کر دی جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ہر مسلمان شخص تمام عبادتوں کا مکلف ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھوٹ جائے تو اللہ کے نزدیک جواب دہ ہے۔ ایک عبادت ادا نہ کرنے سے دوسری عبادتیں قبول ہوں گی یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے:

۱۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ایک عبادت بھی ترک کر دی تو وہ کافر ہو گیا اور اس کی کوئی دوسری عبادت مقبول نہ ہو گی۔

۲۔ بعض کے نزدیک صرف نماز اور زکوٰۃ ترک کرنے والا کافر ہے۔

۳۔ بعض کے نزدیک صرف نماز ترک کرنے والا کافر ہے کیونکہ حضوؐر کا ارشاد ہے: بین العبدوبین الکفر ترک الصلاۃ.(مسلم)

‘‘بندے اور کفر کے درمیان نماز کاترک کرنا ہے۔’’

ان فقہاء کے نزدیک نماز ترک کرنے والے کا روزہ بھی مقبول نہ ہو گا کیونکہ وہ کافر ہے اور کافر کی عبادت مقبول نہیں ہو گی۔

۴۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان و یقین کامل رکھتا ہے کسی ایک عبادت کے ترک کردینے سے وہ کافر شمار نہیں ہو گا بشرطیکہ اس عبادت کا نہ وہ مذاق اڑاتا ہو اور نہ منکر ہو۔ اس لیے ایک عبادت ترک کرنے کی وجہ سے اس کی دوسری عبادتیں ہرگز برباد نہیں جائیں گی۔

میرے نزدیک یہی رائے زیادہ قابل ترجیح ہے۔ چنانچہ جو شخص صرف سستی اور کاہلی کی بنا پر کوئی ایک عبادت ادا نہیں کرتا ہے اور دوسری تمام عبادتیں ادا کرتا ہے، تو دوسری عبادتیں ان شاء اللہ مقبول ہوں گی۔ البتہ وہ ناقص اور ضعیف الایمان کہلائے گا اور جس عبادت میں اس نے کوتاہی کی ہے اس میں وہ گنہ گارہو گا اور اللہ کے نزدیک سزا کا مستحق ہو گا۔ بہرحال کسی ایک نیکی کے ضائع ہونے سے اس کی دوسری نیکیاں برباد نہیں ہوتیں۔ اس نے جو نیکی کی ہو گی اس کا اچھا بدلہ پائے گا اور جو برائی کی ہو گی اس کا برا بدلہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ. وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ. (الزلزال:۷۔۸)

‘‘پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزہ وہی نفع بخش اور باعث اجر و ثواب ہے، جو برائیوں سے روکے، نیکیوں پر آمادہ کرے اور نفس میں تقویٰ پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون. (البقرہ:۱۸۳)

‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے اس توقع سے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔’’

روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے روزے کو تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک رکھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے نصیب میں صرف بھوک اور پیاس ہی آئے اور روزے کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے۔ حضوؐر نے فرمایا:رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع. (نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

‘‘بعض ایسے روزے دار ہوتے ہیں کہ ان کے روزے میں سے انھیں صرف بھوک ہی نصیب ہوتی ہے۔’’

ایک دوسری حدیث میں ہے: من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ.(بخاری، احمد، اصحاب السنن)

‘‘جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا اور پینا ترک کر دے۔’’

اسی لیے ابن حزم کا قول ہے کہ جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین اپنے روزوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جس طرح کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اسی طرح گناہوں کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے: لیس الصیام من الشراب والطعام وحدہ ولکنہ من الکذب والباطل واللغو.

‘‘روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ، باطل کاموں اور لغویات سے رکنے کا نام بھی ہے۔’’

میرے نزدیک ارجح رائے یہ ہے کہ ان لغو کاموں سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ روزے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور روزہ دار روزے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ روزہ رکھنا اپنی جگہ ہے اور گناہ کے کام کرنا اپنی جگہ۔ ایک نیکی ہے اور دوسری برائی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنی چھوٹی بڑی نیکی اور برائی دونوں کا حساب و کتاب دے گا۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ذیل کی حدیث پر غور کیجیے:

 حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو میری بات نہیں مانتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں اور میں انھیں گالم گلوچ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ قیامت کے دن ان کے ساتھ میرا حساب و کتاب کیسا ہو گا؟ آپؐ نے جواب دیا ان غلاموں نے تمھاری جتنی نافرمانی اور خیانت کی ہو گی اور تم نے انھیں جتنی سزا دی ہو گی ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ اگر ان کی نافرمانی کے مقابلے میں تمھاری سزا کم ہو گی تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگر ان کی نافرمانی اور تمھاری سزا برابر ہو گی تو حساب کتاب برابر رہے گا۔ لیکن اگر تمھاری سزا ان کی نافرمانی کے مقابلے میں زیادہ ہو گی تو اسی حساب سے تمھاری بھلائی ان غلاموں کو دے دی جائے گی۔ یہ سن کر وہ صحابیؓ رونے لگے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ قرآن کی اس آیت کو پڑھو: ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئا و ان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین. (الانبیاء:۴۷)

‘‘قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔’’

 یہ سن کر صحابیؓ نے تمام غلام آزاد کر دیے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے تو اذان سنتے ہی اسے سحری کھانا چھوڑ دینا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر اس کے منہ میں نوالہ ہے تو اسے چاہیے کہ اسے اگل دے تاکہ یقینی طور پر اس کا روزہ صحیح ہو۔ تاہم اگر اسے یقین ہو یا کم از کم شک ہو کہ اذان وقت سے قبل ہو رہی ہے تو اذان سن کر کھانے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ اس بات کے یقین کے لیے کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے مختلف چیزوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلاً کیلنڈر یا گھڑی یا اس قسم کی دوسری چیزیں جو آج کل بآسانی دستیاب ہیں۔

عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے سوال کیا کہ سحری کھانے کے دوران میں اگر شک ہو کہ فجر کا وقت ہو گیا تو کیا میں سحری کھانا چھوڑ دوں؟ آپ ؓ نے جواب دیا کہ جب تک شک ہوکھاتے رہو۔ جب فجر کا یقین ہو جائے تو کھانا چھوڑ دو۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی یہی ہے۔

امام نووی کہتے ہیں کہ شوافع نے شک کی حالت میں کھاتے رہنے کا جواز درج ذیل قرآنی آیت سے اخذ کیا ہے: وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ.(البقرہ:۱۸۷)

‘‘اور راتوں کو کھاؤ پیو حتیٰ کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔’’

اس آیت میں یقین کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یقینی طور پر کچھ واضح ہو جائے۔ یعنی جب شک کی کیفیت نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ فجر کا وقت آگیا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے: اغنوھم فی ھذا الیوم.

‘‘اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے: اغنوھم فی ھذا الیوم.

‘‘اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تراویحـ کی نماز نہ عورتوں پر واجب ہے اور نہ مردوں پر۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت عظیم اجر و ثواب ہے۔ حدیث نبویؐ ہے: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے: من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفراللہ ما تقدم من ذنبہ.(بخاری،مسلم)

‘‘جس نے رمضان میں رات کی نمازیں ایمان اور احتساب کے ساتھ پڑھیں اللہ اس کے پچھلے گناہ بخش دے گا۔’’

عورتوں کا اپنے گھر میں رہ کر رمضان کی راتوں کی نمازیں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ الا یہ کہ مسجدوں میں جانے سے ان کا مقصد صرف تراویح پڑھنا نہیں بلکہ دو سرے نفع بخش نیک کام ہوں مثلاً وعظ و تذکیر کے پروگرام میں شامل ہونا یا درس و تدریس کی مجلس سے استفادہ کرنا یا کسی جید قاری کی قرأت سننا تو ان حالتوں میں ان کا مسجد جا کر نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں نماز پڑھنے کے علاوہ دوسری نیکیاں بھی مقصود ہیں اور اس لیے بھی کہ آج کل مرد حضرات اپنی عورتوں کو دینی تعلیم دلانے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ اس لیے ان عورتوں کا مسجد جا کر نماز با جماعت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا، ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر وہ گھر میں بیٹھی رہیں گی تو ممکن ہے کہ انھیں نماز میں وہ رغبت نہ پیدا ہوجو مسجد میں ہوتی ہے۔

لیکن بہر صورت عورتیں مسجدوں میں اپنے شوہروں کی اجازت ہی سے جا سکتی ہیں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکیں الا یہ کہ واقعی کوئی شرعی عذر ہو۔ حضوؐر فرماتے ہیں: لا تمنعوااماء اللہ مساجد اللہ.(مسلم)

 ‘‘اللہ کی باندیوں (عورتوں) کو مسجدوں سے نہ روکو۔’’

عذر شرعی کی صورت یہ ہے کہ مثلاً شوہر بیمار ہو اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہو۔ یا گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور انھیں گھر میں تنہا چھوڑنا مناسب نہ ہو۔ وغیرہ۔

 اگر بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں اور نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں تو انھیں تراویح کی نماز کے لیے مسجد لے جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اور اتنی دیر تک بچوں کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔ بخلاف پنج وقتہ فرض نمازوں کے کہ ان کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ رہا مسئلہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر باتیں کرنے کا تو ان کا حکم بھی مردوں جیسا ہے۔ یعنی جس طرح مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مسجدوں میں اونچی آواز میں باتیں کریں اور دنیوی معاملات کے متعلق گفتگو کریں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں ہے۔

 یہاں میں ایک خاص بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ کچھ ایسے حضرات ہوتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر تکلیف دہ حد تک پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انھیں کسی صورت میں مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ آج کل مسجدوں میں عورتو ں کے لیے علیحدہ محفوظ جگہ ہوتی ہے جبکہ حضوؐر کے زمانے میں عورتوں کے لیے کوئی علیحدہ جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ان میں بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی عورتوں کو مسجد میں سرگوشیوں تک کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ وہ خود اونچی آواز وں میں باتیں کرتے ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ غیرت ایک اچھی صفت ہے لیکن اس میں حد سے تجاوزکرنا ایک ناپسندیدہ بات ہے۔ فرمان نبویؐ ہے: ان من الغیرۃ ما یبغضہ اللہ ورسولہ.

 ‘‘ کچھ ایسی غیرت ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور اس کا رسول بھی۔’’

 دور حاضر نے نئی زندگی کے دروازے عورتوں پر بھی وا کیے ہیں۔آج عورتیں اپنے گھروں سے نکل کر اسکول، کالج اور بازار ہر جگہ آتی جاتی ہیں۔ لیکن اس جگہ جانے سے محروم ہو گئی ہیں جو اس سرزمین پر سب سے بہتر جگہ ہے یعنی مسجد۔ میں بغیر کسی تردد کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لیے بھی مسجدوں کے دروازے کشادہ کریں۔ انھیں بھی مسجدوں میں درس و تدریس کی مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔ انھیں بھی اللہ کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عطا کریں۔ بشرطیکہ عورتیں اسی انداز میں مسجد جائیں جس طرح مسجد جانے کا حق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ٹی وی ذرائع ابلاغ عامہ کا ایک حصہ ہے۔ اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور شر کا بھی۔ جس طرح دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً اخبارات و جرائد اور ریڈیو وغیرہ میں خیر و شر دونوں قسم کے پہلو ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ جو خیر ہو اس سے نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جو شر ہو اس سے اجتناب کرے، چاہے وہ روزے کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ لیکن روزے دار اور ماہ رمضان کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس مہینے میں اپنے آپ کو شر سے محفوظ رکھنے اور خیر کی سبقت لے جانے کا خاص اہتمام کرے۔ٹی وی دیکھنا فی نفسہ نہ مطلقاً حرام ہے اور نہ مطلقاً حلال۔ اس کا حرام یا حلال ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پروگرام دیکھ رہے ہیں؟ اگر یہ پروگرام بھلی باتوں پر مشتمل ہو مثلاً کوئی دینی پروگرام ہو یا نیوز کا پروگرام ہو یا کوئی مفید معلوماتی پروگرام ہو تو اس کا دیکھنا بالکل جائز ہے۔ لیکن اگر فحش قسم کے پروگرام ہوں تو ان کا دیکھنا ناجائز ہے چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا مہینہ۔ البتہ رمضان میں ان کا دیکھنا مزید باعث گناہ ہے۔ اسی طرح اگر ٹی وی دیکھنے میں اس قدر انہماک ہو کہ نماز وغیرہ سے غفلت ہو جاتی ہو تب بھی اس کا دیکھنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب شراب اورجوئے کو حرام قرار دیا تو اس کی حرمت کی علت یہ بتائی کہ یہ دونوں چیزیں انسانوں کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ فَہَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ.(المائدہ:۹۱)

‘‘شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: بخاری و مسلم کی حدیث ہے: من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ.

 ‘‘جس نے رمضان میں قیام لیل کا اہتمام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔’’

اللہ تعالیٰ نے رمضان میں دن کے وقت ہم پر روزے فرض کیے اور رات کے وقت نفل نمازوں کے اہتمام کی تاکید کی تاکہ یہ عبادتیں ہمارے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی نمازیں ہیں، جن سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن میں نماز کے ارکان و شرائط اور اس کے آداب کا پورا خیال رکھا گیا ہو۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی نماز کے ارکان میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے اس شخص کو، جس نے جلدی جلدی نماز ادا کی تھی، فرمایا: ارجع فصل فانک لم تصل.

‘‘واپس جاؤ پھر نماز پڑھو کیونکہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔’’

 اس کے بعد آپ نے اسے نماز پڑھنی سکھائی کہ کس طرح ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ نمازا دا کی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ. الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ.(المومنون:۱،۲)

‘‘کامیاب ہوئے وہ جو ایمان لائے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔’’

معلوم ہوا کہ وہ نماز کامیابی کی ضامن ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ خشوع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو دل کا خشوع یعنی اس بات کا پوری طرح احساس ہو کہ نماز کے دوران میں ہم کسی ہستی کے ساتھ ہم کلام ہیں اور یہ کہ وہ ہماری تمام حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ دل کا خشوع یہ بھی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھیں سمجھ کر پڑھیں۔ ایسا نہ ہو کہ زبان پر تو اللہ کا کلام ہو اور دل کہیں اور غائب۔

خشوع کی دوسری قسم بدن کا خشوع ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز میں احترام و ادب کا خاص خیال ہو۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا، کھٹا کھٹ رکوع و سجدہ کرنا، بار بار کھجلانا یا کپڑوں سے کھیلنا یہ سب احترام و آداب کے خلاف ہے۔

تمام مسلمان بھائیوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ خیال کر لیں کہ ہم کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں اور کس سے ہم کلام ہیں۔ ہمیں احساس ہو کہ وہ ہستی ہمیں دیکھ رہی ہے۔ نمازیوں ادا کرنا کہ گویا ایک مشکل مرحلہ تھا جو سر ہو گیا یا بھاری بوجھ تھا جسے منزل مقصود تک پہنچا دینا نماز کی حکمت و غایت کے عین منافی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان میں بیس رکعت تراویح چند منٹوں میں ختم کر لیتے ہیں۔ قرآن جلدی جلدی اور تیز تیز پڑھتے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں نماز ختم ہو جائے۔ نہ اطمینان سے رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ اور نہ خشوع و خضوع ہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی نماز ہوئی جس کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا: تعرج الی السماء وھی سوداء مظلمۃ تقول لصاحبھا ضیعک اللہ کما ضیعتنی.

‘‘یہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اس حالت میں کہ کالی اور تاریک ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ اللہ تمھیں ضائع کرے جس طرح تم نے مجھے ضائع کر دیا۔’’

بغیر خشوع اور اطمینان کے ساتھ تراویح پڑھنے والوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی آٹھ رکعتیں جلدی جلدی ادا کی گئی بیس رکعتوں سے بہتر اور افضل ہیں۔ اگر بیس رکعات پڑھنا مشکل ہو تو آٹھ رکعت ہی پر اکتفا کریں لیکن اطمینان اور خشوع و خضوع کا ضرور خیال کریں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں بلکہ اس کے نزدیک خضوع و خشوع کی اہمیت ہے اور یہی خشوع دراصل باعث مغفرت و رحمت ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 جواب: تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایام حیض میں روزے اور نماز دونوں معاف ہیں تاہم روزوں کی قضا لازمی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایام حیض میں عورتیں جسمانی طور پر کمزوری، تکلیف اور تکان محسوس کرتی ہیں اور یہ اللہ کی رحمت ہے ان پر کہ اللہ نے ان ایام میں انھیں یہ آسانی عطا کی ہے۔

 ایام حیض کو موخر کرنے کی خاطر دواؤں کے استعمال کے سلسلے میں میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ فطرت کے ساتھ جنگ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تمام معاملات اپنے فطری انداز میں انجام پاتے رہیں۔ حیض کا جاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی فطرت پر عورت کی تخلیق کی ہے اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ان ایام میں ان پر روزے اور نماز معاف کیے۔ اس لیے ہم بندوں کو چاہیے کہ ہم بھی اللہ کی فطرت اور اس کے منشا کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔تاہم میں ان دواؤں کے استعمال کو ناجائز بھی نہیں قرار دیتا۔ اگر ایسی دواؤں کا وجود ہے کہ جن سے ایام حیض کو منسوخ کیا جا سکتا ہو تو ان کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ نیت صرف یہ ہو کہ روزے قضا نہ ہوں اور یہ کہ صحت پر کوئی خراب اثر نہ پڑے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: قضا روزے کسی بھی مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں شعبان اور شوال کی کوئی قید نہیں ہے۔ روایتوں میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بسا اوقات بعض قضا روزے شعبان کے مہینے میں رکھتی تھیں۔ اس لیے آپ نے جو روزے شعبان میں رکھے ہیں ان شاء اللہ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوں گے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: وہ انجکشن جن کی دوائیں معدے تک نہیں جاتیں یا بالفاظ دیگر جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا نہیں ہوتا، ان کے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔البتہ انجکشن کی وہ قسمیں جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا ہوتا ہے مثلاً گلوکوز کا پانی چڑھانا وغیرہ تو اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسی چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانے میں تھا اور نہ سلف صالحین کے دور میں۔ یہ تو عصر جدید کی ایجاد ہے۔ علماء کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس قسم کے انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ روزے کی حالت میں مریض کے لیے اس کے استعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔

اگرچہ میں دوسرے طبقے کی رائے کو قابل ترجیح سمجھتا ہوں، تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ روزے کی حالت میں اس قسم کے انجکشن سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان کی راتوں میں یہ انجکشن لیے جا سکتے ہیں اور اگر دن کے وقت اس انجکشن کا لگانا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی مریض کے لیے روزے معاف کیے ہیں۔ اس قسم کے انجکشن سے معدہ میں براہ راست کوئی غذا تو نہیں پہنچتی البتہ اس کے استعمال سے بدن میں ایک قسم کا نشاط اور قوت آجاتی ہے اور یہ بات روزے کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو روزے ہم پر فرض کیے ہیں تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم بھوک پیاس کی تکلیف کو محسوس کر سکیں۔ اگر اس قسم کے انجکشن کی عام اجازت دے دی جائے تو صاحب حیثیت حضرات اس کا استعمال عام کر دیں گے تاکہ وہ بھوک پیاس کی تکلیف کو کم سے کم کر سکیں اور یوں روزے کا ایک مقصد فوت ہو جائے گا۔

رہی بات کانوں میں تیل ڈالنے یا آنکھوں میں سرمہ لگانے کی تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے علماء کے متشدد طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ معتدل قسم کے فقہاء کا خیال ہے کہ ان کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ ان کے استعمال سے نہ معدے تک کوئی غذا پہنچتی ہے اور نہ بدن میں کوئی مقوی شے جو بدن کو تقویت بخشے۔ میرے نزدیک یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہوتیں تو حضورؐ لازمی طور ان کے بارے میں لوگوں کو بتاتے کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہیں کیونکہ ان چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانہ میں بھی تھا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث نہیں ہے جس میں حضوؐر نے ان چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: زوال شمس سے قبل مسواک کرنا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے روزے کی حالت میں بھی اور عام دنوں میں بھی۔ زوال کے بعد مسواک کرنے کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک زوال کے بعد مسواک کرنا صرف مکروہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اس لیے روزے دار کو چاہیے کہ اس پسندیدہ چیز کو برقرار رکھے اور مسواک کرکے اسے زائل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شہیدوں کو ان کے خون آلودہ کپڑوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کی تلقین ہے کیونکہ قیامت کے دن ان کے خون آلود کپڑوں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔

میری رائے یہ ہے کہ حدیث میں روزے دار کے منہ کو مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ قراردینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے برقرار بھی رکھا جائے۔ کیونکہ کسی صحابی سے مروی ہے کہ : ارایت النبی یتسوک مالا یحصی وھو صائم.

‘‘میں نے نبیؐ کو اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا کہ جس کا کوئی شمار نہیں حالانکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔’’

مسواک کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، حضوؐر کی سنت ہے اور حضوؐر نے بارہا اس کی ترغیب دی ہے۔ حدیث میں ہے: السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب

 ‘‘مسواک منہ کے لیے پاکی کا باعث اور خدا کی رضا کا موجب ہے۔’’

اسی طرح دانتوں کی صفائی کے لیے روزے کی حالت میں پیسٹ کا استعمال بھی جائز ہے۔ البتہ اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ اس کا کوئی حصہ پیٹ میں نہ چلا جائے۔ کیونکہ جو چیز پیٹ میں چلی جاتی ہے روزہ توڑنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ روزے کی حالت میں پیسٹ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسٹ کا استعمال غایت درجہ احتیاط کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کا کچھ حصہ پیٹ میں چلا جائے تو میرے نزدیک اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ جان بوجھ کر اس نے وہ چیز پیٹ میں نہیں پہنچائی بلکہ غلطی سے چلی گئی اور اللہ کے نزدیک یہ بھول چوک معاف ہے۔ حدیث میں ہے: رفع عن امتی الخطا والنسیان وما استکر ھوا علیہ.

‘‘میری امت بھول چوک کے معاملے میں اور زبردستی کوئی غلط کام کرائے جانے کے معاملے میں مرفوع القلم ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ قضا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت موجود ہے: فَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَر. (البقرہ:۱۸۵)

 ‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

البتہ مسافت کی وہ مقدار جس پر سفر کا اطلاق ہو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ آپ نے جس مقدار کا تذکرہ کیا ہے، میرا خیال ہے کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اتنی مسافت کے سفر کو نماز قصر کرنے اور روزہ قضا کرنے کے لیے کافی تصور کیا جائے۔ کیونکہ جمہور فقہاء نے ۸۴ کلومیٹر کی مقدار کو متعین کیا ہے اور ۸۱ اور ۸۴ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ حضوؐراور صحابہؓ سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انھوں نے سفر کی پیمائش میٹر یا کلومیٹر سے کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک مسافت کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک ہر اس سفر کو جسے عرف عام میں سفر کہا جا سکے، اس میں نماز کی قصر اور روزہ کی قضا جائز ہے۔

سفر کی حالت میں اس بات کا اختیار ہے کہ روزہ رکھا جائے یا اسے قضا کیا جائے۔ روایتوں میں ہے کہ صحابہؓ، حضوؐرکے ساتھ سفر پر ہوتے تھے۔ ان میں بعض روزے کی حالت میں ہوتے تھے اور بعض بغیر روزے کے ہوتے تھے۔ حضوؐر نے ان دونوں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی۔ یعنی دونوں ہی حضورؐ کی نظر میں یکساں تھے۔

 سفر اگر پر مشقت ہو اور اس میں روزہ رکھنا تکلیف دہ ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے بلکہ شاید حرام ہو کیونکہ روایت میں نبیؐ نے ایک شخص کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگ اس پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ وہ روزے کی وجہ سے بد حال تھا اور وہ مسافر بھی تھا۔ آپؐ نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ روزے سے ہے۔ آپ نے فرمایا:لیس من البر الصیام فی السفر. (بخاری)

‘‘سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔’’

سفر اگر پر مشقت نہ ہو اور روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا اور اس کی قضا کرنا دونوں ہی جائز ہے جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا۔ البتہ اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ ان دونوں صورتوں میں افضل صورت کون سی ہے؟ بعض نے روزہ رکھنے کو افضل قرار دیا ہے جبکہ بعض نے روزہ چھوڑنے کو افضل قرار دیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں میں جو سب سے آسان ہو وہی افضل ہے۔ روایت میں ہے کہ حمزہ بن عامر الاسلمیؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ میں اکثر سفر پر رہتا ہوں۔ بسا اوقات رمضان میں بھی سفر کرتا ہوں، میں نوجوان ہوں اور بہ آسانی سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں۔ میرا روزہ رکھنا زیادہ افضل اور باعث اجر ہے یا روزہ قضا کرنا؟ آپؐ نے فرمایا: أی ذلک سئت یا حمزۃ.(ابوداؤد)

 ‘‘ان دونوں میں سے جو تم چاہو اے حمزہ۔’’

 یعنی جو تمھیں آسان لگے وہی کرو اور وہی افضل ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضوؐرنے جواب دیا: ھی رخصۃ من اللہ لک فمن اخذبھا فحسن ومن احب ان یصوم فلا جناح علیہ. (نسائی)

‘‘یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے چھوٹ ہے جس نے اس چھوٹ سے فائدہ اٹھایا تو بہتر ہے اور جس نے روزہ رکھا تو کوئی حرج نہیں۔’’

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس آیت میں مسافر کے لیے روزے کی قضا کی اجازت دی ہے اس میں رخصت کی علت سفر بتائی ہے، نہ کہ سفر کی مشقت۔ اس آیت میں یہ نہیں بتایا کہ سفر میں مشقت ہو تو قضا کی رخصت ہے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف سفر کی بنا پر ہمیں یہ رخصت عطا کی ہے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ خواہ مخواہ کی باریکیوں میں پڑ کر اس رخصت کو برباد نہ کریں جو لوگ اکثر سفر میں رہتے ہیں وہ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ سفر بہ ذات خود تکلیف دہ ہوتا ہے، چاہے گاڑی کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا۔ انسان کا اپنے وطن سے دور ہونا بہ ذات خود پریشانیوں کا سبب ہے کیونکہ اس کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور انسان نفسیاتی طور پر بے چین رہتا ہے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ہمیں صرف سفر کی بنا پر یہ رخصت عطا کی ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر کی مقدار سال بہ سال تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک محدود اور متعین مقدار ہے جسے نبیؐ نے مقرر کیا ہے۔ یہ مقدار ایک صاع یعنی تقریباً دو کلوگرام اناج ہے۔ میرے خیال میں صدقۃ الفطر کو اناج کی صورت میں مقرر کرنے میں دو حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

۱۔ پہلی حکمت یہ ہے کہ اس زمانے میں عربوں ، خاص کر دیہات میں رہنے والوں کے پاس دینار و درہم (پیسوں) کے مقابلے میں اناج اور غلہ زیادہ موجود ہوتا تھا۔ بہت سارے ایسے لوگ تھے جن کے پاس غلہ اور اناج تو ہوتا تھا لیکن نقد رقم کی صورت میں ان کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ صدقۃ الفطر کو پیسوں کی صورت میں ادا کرنا ہو تاتو شاید بہت سارے لوگ پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے۔

۲۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ پیسوں کی قوت خرید ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ آج اگر پانچ روپے کا ایک کلو چاول مل رہا ہے، تو کل اس ایک کلو چاول کی قیمت دس روپے بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے حضوؐر نے صدقۃ الفطر کو اناج اور غلے کی صورت میں مقرر کر دیا تاکہ مقرر شدہ اناج کی پوری مقدار غریبوں تک پہنچتی رہے۔

احناف کے نزدیک اس مقرر شدہ اناج کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ حضوؐر نے صدقۃ الفطر کے لیے اناج کی محض چند قسموں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان قسموں کے علاوہ دوسری قسموں کو بطور صدقۃ الفطر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ جس جگہ صدقۃ الفطر ادا کیا جا رہا ہے وہاں اناج کی جتنی قسمیں مستعمل ہیں، ان میں سے کسی بھی قسم سے صدقۃ الفطر نکالا جا سکتا ہے۔ چاہے گیہوں ہو یا چاول یا کھجور یا مکئی یا اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز۔

اگر آدمی صاحب حیثیت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مقرر شدہ اناج کے علاوہ کچھ رقم ادا کرے کیونکہ اس دور میں کھانا فقط چاول یا روٹی پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ سالن کی صورت میں دوسرے لوازمات بھی ضروری ہوتے ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: شافعی اور حنبلی مسلک کے لحاظ سے اگر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے آنے تک نہ ہو سکی تو ایسی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہؓ سے یہی منقول ہے۔ فدیہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ جمہور علماء کے نزدیک صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں۔

 میری رائے یہ ہے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا تو بہر حال لازمی ہے، اس سے کوئی مفر نہیں۔ البتہ فدیہ بھی ادا کر دیا تو زیادہ بہتر ہے ورنہ کوئی بات نہیں کیونکہ براہ راست حضوؐرسے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس میں فدیہ ادا کرنے کی بات ہو۔

شک کی صورت میں انسان اسی پر عمل کرے جس کا اسے یقین ہو یا کم از کم غالب گمان ہو۔ بہرحال مزید اطمینان کی خاطر زیادہ روزے رکھ لینا بہتر ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: رمضان کے علاوہ شعبان وہ مہینہ ہے، جس میں حضوؐر روزے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کے مطابق صرف رمضان ہی ایسا مہینہ ہے، جس میں حضوؐر پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ بعض عرب ملکوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو رجب شعبان اور رمضان تینوں مہینے لگاتار روزے رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ شعبان کے کچھ متعین ایام میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

اسلامی شریعت میں یہ بات جائز نہیں کہ بغیر شرعی دلیل کے کسی بھی دن یا مہینے کو روزے یا کسی دوسری عبادت کے لیے خاص کر لیا جائے۔ کسی دن کو کسی عبادت کے لیے خاص کرنا صرف شارع یعنی اللہ کا حق ہے۔ وہی ایسا کر سکتا ہے۔ کوئی بندہ نہیں۔ اسی لیے روزوں کے لیے ہم ان ہی ایام کو مخصوص کر سکتے ہیں، جن میں حضوؐر کا عمل موجود ہو۔ مثلاً حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضوؐر جب روزہ رکھنا شروع کرتے تو ایسا لگتا کہ اب ہمیشہ رکھیں گے۔ اور جب روزہ نہیں رکھتے تو ایسا لگتا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ حضوؐرسوموار اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ہر مہینے کے تین روشن دنوں میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔تا ہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ شعبان کی کسی خاص تاریخ کو آپؐ نے روزے کے لیے مخصوص کیا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: اللہ کا ایک قانون اس کے ماننے والوں کے لیے ہے اور ایک قانون اس کے نہ ماننے والوں کے لیے ہے۔ ماننے والوں کے لیے جو قانون ہے وہ بالکل بے لاگ قانون ہے اور اس قانون کا تقاضا یہ ہے کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے تقاضے پورے کریں گے تو وہ آپ کو سرفرازی دے گا، یہ اس کا وعدہ ہے۔ لیکن اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ذلیل و رسوا ہوں گے۔ جہاں تک دنیا کی دوسری عوام کا تعلق ہے تو ان کے لیے دوسرا قانون ہے اور وہ قانونِ امہال ہے۔ وہ جتنی سرکشی کریں گے اتنا اقتدار ان کو حاصل ہو گا۔ یہ دونوں قانون قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ کی طرف سے آنے والے خواب بشارت اور خوشی کے ہوتے ہیں اور شیطان کی طرف سے آنے والے خواب ڈراؤنے ہوتے ہیں۔ اُن میں انسان اپنے نفس کی بعض بڑی ہی مکروہ صورتیں دیکھتا ہے۔ ان کے اندر معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی نے اس کو دبا دیا ہے، اس کا گلا گھونٹ دیا ہے، وغیرہ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: خواتین تاریخ میں دو طرح کے کام کرتی رہی ہیں۔ ایک وہ کام ہیں جو زیبایش اور آرایش کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اور ایک وہ کام ہیں جو بگاڑ کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یعنی ایک بناؤ کے لیے ہوتے ہیں، ایک بگاڑ کے لیے ہوتے ہیں۔اس میں بڑی مشرکانہ رسوم بھی رہی ہیں، مثلاً جسم کے اوپر مختلف قسم کے نام گود لینا، رنگ لگا کر مختلف قسم کے نقوش پیدا کر لینا، اپنے بالوں میں مینڈیاں بنانا اور پھر اس میں لمبے لمبے پراندے ڈال کر عجیب و غریب قسم کی ہیئت بنا لینا۔ بناؤ کی سب چیزیں جائز ہیں اور بگاڑ کی سب چیزیں ممنوع ہیں۔ حدیثوں میں ‘واصلہ، مستوصلہ، واشمہ اور مستوشمہ کے جو الفاظ آتے ہیں،یہ سب اصل میں چہرے کو بگاڑنے والی چیزیں ہیں اور یہ سب مشرکانہ توہمات کے تحت ہوتا تھا۔ یعنی کسی پیر فقیر کے ہاں گئے، انہوں نے کہا کہ اگر سر پر لال پراندہ باندھ لیا جائے تو اولاد ہو گی، اس طرح کی چیزوں کو حضورؐ نے بالکل ممنوع قرار دیا اور کہا کہ ایسا کرنے والوں پر لعنت ہو۔ لوگ ان کا ٹھیک مطلب نہیں سمجھ سکے اور انھوں نے اس طرح کی چیزوں پر ان کا اطلاق کر دیا ۔بناؤ کی سب چیزیں اگر ایک حد کے اندر رہ کر کی جائیں تو جائز ہیں۔ اور جسم، چہرے اور بالوں کو بگاڑنے والی سب چیزیں ممنوع ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی آخری سورتیں معوذتین کو پڑھ کر اپنے اوپر پھونک دیا کرتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض معوذات یعنی اللہ سے پناہ مانگنے کی دعائیں جو حدیثوں میں بھی آئی ہیں، ان کو بھی آپ نے بسا اوقات کسی بیمار پر پڑھ کر پھونک دیا۔ اس وجہ سے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، لیکن وہی چیزیں ہونی چاہییں جن میں کوئی مشرکانہ پہلو نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عصبیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کوئی ایسا رویہ اختیار کرے جس میں اپنی قوم یا اپنے وطن یا کسی چیزکے بارے میں یہ خیال کرے کہ وہی حق ہے، اسی کی بنیاد پر باطل طے ہو گااور اس چیز کو ہی اپنے لیے زندگی میں ہر چیز کا معیار بنا لے۔

جہاں تک پاکستانی قومیت کی بات ہے تو اس کو مختلف مراحل سے گزر کر ایک جگہ ابھی پہنچنا ہے۔ یہ ملک جب بنا تو ایسا نہیں تھا کہ اس سے پہلے پاکستان نام کا کوئی ملک موجود تھا یا اس خطے کو کوئی غیر معمولی طریقے سے وحدت حاصل تھی۔ سندھ کی الگ تہذیب تھی، سرحد کی الگ تہذیب تھی، بلوچستان کی الگ تہذیب تھی، پنجاب کی الگ تہذیب تھی تو یہ ایک ملک بن گیا۔ اس میں اگر تعلیم عام کی جائے، لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع دیے جائیں، عدل پر مبنی نظام قائم کیا جائے، اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے، اُن کی ثقافت اور کلچر کے خلاف کوئی تعصب پیدا نہ کیا جائے ، اُن کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے ، اپنے معاملات میں جو کچھ وہ چاہتے ہیں، اس کا لحاظ رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک اچھی فضا پیدا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی ثقافت یا پاکستانی کلچر یا پاکستانی قومیت کا شعور بھی لوگوں میں گہرا ہو جائے گا۔ یہ وقت کے ساتھ ہوتا ہے، اس کو مصنوعی طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم پچھلے سارے عرصے میں اس کے خلاف صورت حال پیدا کر رہے ہیں ، اس کو بہتر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ان انعامی اسکیموں میں بعض ایسی ہیں کہ جن کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ مثال کے طور پر بعض لوگ اپنی Products بیچتے ہیں، اس کے اوپر کوئی Incentive دے دیتے ہیں تو اس کو علی الاطلاق غلط نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن بہت سی اسکیمیں بالکل جوئے کی طرح کی ہیں۔ اس معاملے میں دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ شعور کو بیدار رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ آدمی جوئے میں ملوث نہ ہو، دوسرا یہ کہ آدمی سود میں ملوث نہ ہو۔ یہ دونوں چیزیں بالکل ممنوع ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حلم ہمارے نفس کی حدیث ہوتی ہے، یعنی انسان کے اندر جو چیزیں ہیں وہی خواب کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ رؤیا عام خواب کو کہتے ہیں یعنی نیند کے عالم میں ہم جو عام مشاہدات کرتے ہیں، اس کو عربی میں رؤیا کہتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسے تمام مقامات جن پر آپ نذر پیش کرنے کے لیے یا حصول برکت کے لیے کوئی کھانا لے جاتے ہیں۔ نذر صرف اللہ ہی کے لیے مانی جاتی ہے اور برکت کا حصول بھی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ہوتا ہے۔ اگر آپ نے اللہ کے نام پر کوئی چیز دینی ہے تو اپنے گھر میں ذبح کیجیے اور اللہ کے نام پر دے دیجئے۔ خدا کی ساری زمین اللہ ہی کے لیے خاص ہے اور اگر فرض کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت خاطرِ تعلق کا اظہار کرنا ہے تو ہر جگہ مسجد بنی ہوئی ہے جس کو اللہ اپنا گھر کہتا ہے، وہاں دے آئیے، وہ اللہ کے لیے ہو گا۔ لیکن اگر آپ کسی دوسرے کے ہاں جاتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے ؟

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسے جانور کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ‘وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ’ (اور تم نہ کھاؤ ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو) جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اس کی جان لینے کے لیے آپ کو اذن ہی حاصل نہیں ہوا، اس لیے کہ آپ کون ہوتے ہیں خدا کے نام کے بغیر کسی کی جان لینے والے، لہٰذا وہ جانور بھی حرام ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے ہاں تو لوگ قرض حسنہ سے مراد یہ سمجھتے ہیں کہ جو قرض لے کر واپس نہ کرنے کے لیے لیا جائے، وہ قرض حسنہ ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں قرض حسنہ سے مراد اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا ہے۔ یعنی جب بندہ اللہ کے دین کے لیے خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ یہ میرے اوپر قرض ہے اور میں آدمی کو اس کا بدلہ اور اجر عطا فرماؤں گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فطری ہدایت سب میں یکساں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو فطرت پر پیدا کرتے ہیں پھر اس کا ماحول اس کو کسی خاص رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ پھر جب وہ شعور کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کرتے ہیں کہ حق اس کے سامنے آئے ۔ اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اُس نے اس کی قدر کی یا اُس کو جھٹلا دیا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب آپ کسی ایسے گھر مہمان کی حیثیت سے جاتے ہیں تو اس وقت آپ کھا سکتے ہیں۔اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خو د واضح فرما دیا تھا۔آپ کے گھر کسی نے گوشت بھیجا تو کسی نے آپ کو بتایا کہ جس بندے نے یہ گوشت بھیجا ہے اس کے پاس یہ صدقہ آیا تھا اور آپ کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ صدقے کا گوشت اس کے ہاں آ چکا ہے ۔ ہمارے لیے تو اب یہ ہدیہ ہے، جو ایک پڑوسی کی طرف سے آیا ہے۔ البتہ احتیاط کے لحاظ سے اگر آپ اجتناب کر سکیں تو اچھی بات ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ریشم اور سونا اصل میں اسراف بھی ہے اور دولت کی نمایش بھی۔ لہٰذا اس طرح کے تمام لباس اور چیزیں مردوں کے لیے تو بالکل ممنوع ہیں ۔ عورتوں کے لیے بھی ممنوع ہی ہیں، البتہ ان کو اتنی اجازت ہے کہ وہ اپنی آرایش کی ضرورتوں کے لیے پہن لیں۔ اسلام آپ کو ایک سادہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے، جس میں نہ فضول خرچی ہو، نہ دولت کی نمایش ہو۔ یہی چیز ہے جو معاشرے کے اندر انصاف، محبت، تعلقِ خاطر اور دوسرے چھوٹے لوگوں کے لیے ایک سہولت پیدا کرتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید نے جہاں جہاں تورات اور انجیل کا حوالہ دیا ہے، وہاں ظاہر ہے کہ تورات اور انجیل کے وہ مقامات سامنے لائے جائیں گے۔ سورۂ بقرہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ اُس میں یہود کی پوری تاریخ سنائی گئی ہے اور اس میں قرآن مجید نے اُن واقعات کی طرف اشارات دیے ہیں، یعنی اجمال کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ اُن کی تفصیل آپ اگر تورات یا انجیل سے بیان کریں تو یہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہ اللہ کی کتابیں ہیں۔ او رجب قرآن کی تائید ان کو حاصل ہو جائے تو پھر ان کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیا کے درمیان بھی درجات ہیں۔ اُن میں سے اللہ تعالیٰ نے کسی کو کسی معاملے میں فضیلت دی ہے اور کسی کو کسی معاملے میں فضیلت دی ہے۔ پھر نبیوں اور رسولوں میں بھی ایک درجے کا فرق ہے۔ انبیا علیہم السلام کا معاملہ عموم کا ہے اور اُن میں سے ایک خاص منصب ہے جس کو اللہ تعالیٰ رسالت سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ باتیں قرآنِ مجید میں بڑی صراحت سے بیان ہوئی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ جمرات اصل میں شیطان کی علامت ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب دنیا میں بھیجا تو اُسی موقع پر ابلیس نے انکار کر کے یہ اعلان کر دیا کہ میں انسان کا کھلا دشمن ہوں۔ یہ دشمنی یا یہ جنگ اصل میں شیطان اور انسان کے مابین اس دنیا میں قیامت تک جاری رہے گی۔ اس جنگ کو حج میں Symbolize کیا گیا ہے۔ یعنی علامت کے طور پر تین ستون بنا دیے گئے ہیں اور ان علامتوں کو شیطان سمجھ کر سنگ باری کی جاتی ہے۔ یہ ہماری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ بھی ہوتا ہے اور اُس پر لعنت بھی ہوتی ہے، اس بات کی یاددہانی کے لیے کہ دنیا کی زندگی میں بھی انسان کو شیطان کے خلاف اسی طرح برسرِ جنگ رہنا چاہیے۔ اِن جمرات کو بنایا اس طریقے سے گیا ہے کہ جس میں ایک بڑا ہے اور پھر چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔ یہ اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ شیطان غائب کبھی نہیں ہو گا۔ البتہ یہ ہے کہ جب آپ اس کے اوپر سنگ باری کر دیں گے تو پسپا ہو کر یا چھوٹا ہو کر آپ کے ساتھ رہے گا۔ آپ کا مغلوب ہو کر رہے گا، بالکل ختم نہیں ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دونوں ہی ضروری ہیں۔کوئی دوسرے کامتبادل نہیں ہے ۔آخرت میں یہ معاملہ اس طرح ہو گا کہ حقوق العباد کو پورا کرنے کے لیے جو نیکیاں ہیں وہ بھی میزان میں رکھی ہوں گی اور نماز کو چھوڑنے کے جو گناہ ہیں وہ بھی میزان میں رکھے ہوں گے ۔ اب میزان بتائے گی کہ کون سا پلڑا بھاری ہے ۔ نماز میں کوتاہی بہت بڑا گنا ہ ہے اور حقوق العباد کو پورا کرنا ایک بڑی نیکی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا ورد یہ ہے کہ ‘استعینوا بالصبر والصلوٰۃ’ یعنی ہر معاملے میں نماز کے ذریعے سے اور صبر کے ساتھ قائم رہ کر اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو۔ لوگ اس جانب تو توجہ نہیں کرتے، البتہ مختلف ورد پوچھتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ نماز اور سجدے کی حالت میں بندہ اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں دعا کیجیے، اللہ قبول کرے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ قانون دنیا کے بارے میں نہیں ہے، یہ قانون قیامت کے بارے میں ہے۔ آخرت میں آدمی کو اس کے اعمال کا اجر ملے گا۔ اور اس کا عمل ہی اس کے کام آئے گا۔ دنیا میں تو اللہ تعالیٰ بعض اوقات ہمیں بن مانگے اور بغیر محنت کی بھی دیتا ہے۔ دنیا میں جو ملتا ہے وہ ہماری سعی کا لازمی نتیجہ نہیں ہوتا، وہ انعام کے طور پر بھی ہوتا ہے اور آزمایش کے طور پر بھی ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آج کل کی رائج جرابوں پر بھی مسح بالکل ٹھیک ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جرابوں کی نوعیت تو تمدن کے ساتھ بدلتی جائے گی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رخصت دی ہے۔آپ اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ضرور اٹھائیے۔ اور حضور ؐ نے ہمیشہ اس طرح کے معاملات میں رخصت پر عمل کرنے ہی کو بہتر قرار دیا ہے۔ اس معاملے میں اصل چیز یہ ہے کہ جب پاؤں اس طرح جرابوں میں بندھے ہوئے ہوں تو پھر اس زحمت سے لوگوں کو بچا لیا جائے کہ وہ وضو کرتے وقت ان کو نہ اتاریں کیونکہ بعض اوقات سردی بھی ہوتی ہے اوربعض اوقات آدمی سفر میں بھی ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کھڑے ہو کر کھانا گناہ نہیں ہے۔ البتہ ہماری تہذیب میں یہ بات پسند کی گئی ہے کہ آپ بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ اور سلیقے کے ساتھ کھائیے۔أٓپ اس کا لحاظ کریں گے تو اچھی بات ہے۔ بغیر کسی سبب کے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔ اس طرح کھائیے کہ جس طرح ایک مہذب آدمی کو کھانا چاہیے، لیکن بعض تقریبات اور موقعوں پر اس کا اہتمام کرنا لوگوں کے لیے مشکل ہو جاتا ہے تو اُس موقع پر لوگ کھڑے ہو کر کھا لیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید میں دو طرح کی ہجرت بیان ہوئی ہے۔ ایک وہ ہجرت ہے جو اللہ کا کوئی پیغمبر اپنی قوم پر اللہ کی حجت پوری کرنے کے بعد کرتا ہے، جس کے بعد قوم پر عذاب آ جاتا ہے۔ یہ ہجرت آخری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور ختم ہو گئی۔ نہ اب کوئی پیغمبر آئے گا، نہ کسی کے ذریعے سے قوم پر حجت تمام ہو گی، نہ اس طرح کی ہجرت کرنے کا کوئی سوال پیدا ہوگا۔ ہجرت کی دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کسی ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں آپ کے لیے ایمان کے تقاضے پورے کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ آپ کو اپنے ایمان کا اظہار کرنے، نماز پڑھنے اور دین پر عمل کرنے کے لیے جان جوکھم میں ڈالنی پڑے تو اس طرح کی جگہوں پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کسی صاحب ِ ایمان کو نہیں رہنا چاہیے۔ اُس کے پاس اگر ہجرت کی کوئی جگہ ہے تو اللہ پر بھروسا کر کے اس جگہ کو چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ ہجرت قیامت تک کے لیے باقی ہے اور ہر جگہ جہاں مسلمان رہتے ہیں ان کو اپنے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ اگر ان کے لیے وہاں پر اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے تو پھر اُن کو اُس جگہ کو چھوڑ دینا چاہیے۔

‘جہاد’ بھی قرآن میں دو معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ دین کی دعوت ، جد وجہد اور سرگرمی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرنے کے لیے جہاں یہ استعمال ہوتا ہے، وہاں اس کے کچھ حدود اور کچھ شرائط ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد ظلم، عدوان ، زیادتی اور فتنے کے خلاف قیامت تک جاری رہے گا۔ اور جہاں بھی مسلمانوں کے پاس قوت ہو گی وہ ظلم کو مٹانے کے لیے جہاد کر سکتے ہیں۔

‘اقامت ِ دین’ کا مطلب ہے کہ دین کو پوری طرح اختیار کرنا ۔ یعنی دین میں اگر نماز کا حکم ہے تو نماز پڑھی جائے، اگر روزے کا حکم ہے تو روزہ رکھا جائے، اگر کوئی اور ہدایت کی گئی ہے تو اس کی پیروی کی جائے۔ دین پر پوری طرح عمل کرنے کو اقامت ِ دین کہتے ہیں۔

‘شہادت’ کا لفظ بھی قرآن میں کئی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ آپ جو عام گواہی دیتے ہیں اس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اسی طریقے سے آدمی کو جو حق بات کہنا ہوتی ہے اس کے لیے بھی شہادت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسے قرآن میں ‘کونوا قوامین بالقسط شہداء للّٰہ’استعمال ہوا ہے۔ ایک شہادت وہ ہے کہ جس کے منصب پر اللہ تعالیٰ کسی کو فائز کر دیتا ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فائز کیا گیا تھا۔ اُس وقت یہ اتمام حجت کے معنی میں ہوتی ہے۔ یعنی کسی گروہ، جماعت یا کسی فرد کو اللہ یہ حیثیت دیتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے دنیا کے اوپر حق واضح ہو جائے۔ جیسے انبیا کے ذریعے سے ہوا، جیسے صحابۂ کرام کے ذریعے سے ہوا۔ اس کے لیے ‘شہادت علی الناس’ کی اصطلاح ہے۔ گویا یہ لوگوں کے خلاف حق کی گواہی ہوتی ہے۔ یہ بھی صحابۂ کرام کے بعد اب ختم ہو گئی ہے۔ کسی اور کا اب یہ مقام نہیں ہے کہ وہ لوگوں میں اس مقام یا منصب پر کھڑا ہو۔

‘اعلائے کلمۃ اللہ’ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بات کو اونچا رکھنے کے لیے آدمی جدوجہد کرے۔

‘اسلام’ کی تعریف خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت بیان کر دی جب جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے اسلام کے بارے میں پوچھا ۔آپؐ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ گواہی دو کہ اللہ تنہا ہے، محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانو، نماز پڑھو، حج کرو، زکوٰۃ دواور روزے رکھو۔

‘تقویٰ’ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حدود کی پابندی کی جائے۔ ‘احسان’ کامطلب یہ ہے کہ دین میں کیا گیا ہر کام صحیح روح اور صحیح طریقے سے کیا جائے۔ ‘مسلم’ وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے دین کو مانتا ہے۔ ‘مومن’ وہ ہے کہ جو حقیقی ایمان رکھتا ہے۔ ‘اخلاقیات’ سے مراد وہ باتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اچھی باتیں ہونے کی حیثیت سے کرنے کو کہا ہے یا ان کے برے پہلوؤں سے روکا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بات معلوم ہے کہ جادو ایک فن ہے۔ دنیا کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے اور قرآن سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ اس فن کا اثرانسانی نفسیات پر ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر جو لوگ اس طرح کی باتیں بیان کرتے ہیں ، وہ وہم پرست ہوتے ہیں۔ لوگوں کو توہمات میں مبتلا کرتے ہیں، عام طور پر جھوٹے اور فراڈیے ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد اپنے مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر ایسا کوئی موقع ہو تو اللہ کو یاد کیجیے، نماز پڑھیے اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر نے جو معوذات سکھائی ہیں، وہ پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے رہیے۔ ان چکروں میں مت پڑیں ورنہ دین و ایمان ہر چیز جائے گی اور آپ دنیا میں بالکل ایک وہمی آدمی بن کر رہ جائیں گے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی بر بھروسا کرنا چاہیے، کیونکہ جو چیز ابھی سائنس نہیں بنی، اس کی طرف آپ اگر رجوع کریں گے تو اپنے آپ کو صرف اوہام میں مبتلا کریں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حلالہ ایک حرام کام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی عورت کو تین طلاقیں ہو چکی ہوں تو سازش کر کے نکاح کیا جائے، جیسا کہ آج کل کے زمانے میں لوگ پیپر میرج کرتے ہیں۔ اس میں ایک سازشی نکاح کر کے عورت کو طلاق دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد اس کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں قرآن کا قانون یہ ہے کہ جب تین مرتبہ زندگی میں طلاق دے دی گئی تو پھر وہ خاتون کسی دوسری جگہ اپنی آزادنہ مرضی سے شادی کرے، وہاں اگر اتفاق سے اس کو طلاق ہو جائے تب دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس کو لوگ ایک سازش کے طریقے پر کرتے ہیں۔ یہ بالکل ناجائز ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے میں ایک بات اصول کے لحاظ سے سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ صحیح گھر اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ایک مرد و عورت کے فیصلے سے بنتا ہے۔ اور یہ بات اس طرح بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے لیے جب جوڑا بنایا تو ایک ہی عورت بنائی، ایک سے زیادہ نہیں بنائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ رہنمائی دے دی کہ انسانی فطرت اگر صحیح گھر بنانا چاہتی ہے تو اس کے لیے یہی طریقہ ہو گا۔ اس کے بعد ایک دوسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانی تمدن کی ضروریات کا مسئلہ ہے۔ یعنی انسان جس طرح اب زندگی بسر کر رہا ہے، ہمیشہ سے ایسے زندگی بسر نہیں کرتا رہا۔ ہم اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر بعض اوقات ماضی کی صورت حال کا صحیح تصور نہیں کر پاتے۔ شہری زندگی میں ہم کو جو سہولتیں میسر ہو گئی ہیں، تمدن میں جو تبدیلیاں آ گئی ہیں، جس طرح منظم حکومتیں وجود میں آ گئی ہیں، یہ چیز پہلے نہیں تھی۔ انسان نے ایک بڑا زمانہ قبائلی تمدن میں گزارا ہے۔ اور عرب میں قبائلی تمدن ہی تھا، وہاں پر کوئی منظم حکومت نہیں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی نہیں تھی۔ بعض قبیلوں کو ایک نوعیت کا پدر سرانہ اختیار تھا اور قبیلوں کے شیوخ مل کر فیصلہ کر لیا کرتے تھے، لیکن ایسا نہیں تھا کہ جزیرہ نمائے عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تھی، اس کا کوئی سربراہ تھا، اس کی کوئی پولیس یا فوج تھی۔ لوگوں کو اپنے تحفظ کے لیے قبائلی زندگی میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا کہ ان کے زیادہ سے زیادہ اولاد ہو۔ جس آدمی کے پندرہ بیس بیٹے نہیں ہوتے تھے اس کے لیے اس معاشرے میں جینا آسان نہیں ہوتا تھا ۔ آدمی بالکل سقیم ہو کر رہ جاتا تھا۔ مختلف موقعوں کے اوپر اپنی، اپنے ناموس کی اور اپنے جان و مال کی حفاظت نہیں کر پاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو امن کا زمانہ آیا ہے، اس سے پہلے جزیرہ نمائے عرب میں تو یہ ہوتا تھا کہ وہ جو حالی نے کہا ہے کہ ‘‘کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا، کبھی گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا’’، اُس میں آدمی اپنی حفاظت کے لیے مجبور ہوتا تھا۔ معمولی سی بات پر کئی سالوں پر محیط جنگیں چھڑ جاتی تھیں۔ کوئی پولیس اور کوئی تھانہ نہیں کہ جہاں سے مدد حاصل کی جا سکتی۔ اپنی حفاظت کا خود بندو بست کرنا ہوتا تھا ۔ سکیورٹی ایجنسیز نہیں تھیں کہ گارڈ لا کے کھڑے کر دیئے جاتے، آدمی کے بیٹے اور اعزہ و اقربا ہی اس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ یہ چیز اصل میں عرب میں بے پناہ شادیوں کا باعث بنی۔ اور پھر جب ایک چیز روایت اور رسم بن جائے تو پھر ضرورت کے بغیر بھی عام طور پر یہ بات ہوتی رہی۔ ہر چیز کو اس کے تمدن کے اندر رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ ہمارے دین کا مزاج یہ ہے کہ وہ اُن معاملات کو نہیں چھیڑتا جو تمدنی ضروریات سے پیدا ہوتے ہیں، اگر تو ان میں کوئی بڑا مسئلہ ہے تو اس کو چھیڑنا چاہیے، ورنہ وقت کے ساتھ آپ جب عوامل تبدیل کرتے ہیں تو اس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ حال کو ماضی میں داخل کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آدمی کی بڑی غیر معمولی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، مثال کے طور پر اولاد ایک بہت بڑی ضرورت ہے، تب بھی ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ذرا کوئی بے اولاد آدمی دوسری شادی کر کے دیکھے، اس کی پگڑی پونجی غائب ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی روایات ہی یہ بن چکی ہوئی ہیں۔ یعنی عورت کی تربیت اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ اس کو گوارا ہی نہیں کرتی۔ لیکن عرب کے معاشرے میں یہ چیز نہیں تھی۔ عرب عورتیں تو اس بات پر بڑا فخر کرتی تھیں۔عرب عورتوں کی شاعری پڑھیں تو آپ کو اس کا اندازہ ہوگا۔ وہ تو کہتیں ہیں کہ تمھارا مرد کیا ہے جس نے زندگی میں صرف ایک شادی کی ہے، مجھے دیکھو نو سوکنوں کے ساتھ رہتی ہوں، مرد ہو تو ایسا ہو۔ ہمارے ہاں کی خواتین اس طرح کے جذبات نہیں رکھتیں۔ اس وجہ سے ہر تمدن اور تہذیبی روایت کو ا س کے اندر رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ اُس موقع کے اوپر اگر اسلام آکر کوئی ایسی اصلاح کر دیتا کہ جس کے نتیجے میں سارا تمدن ہی درہم برہم ہو جاتا تو یہ اصلاح کرنے کا کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اس کی ایک اور مثال دیکھیے اور یہ مثال بڑی عبرت ناک ہے اور تورات میں بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہے ۔قرآن مجید نے بھی اس کا حوالہ دیا ہے اور اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کو توفیق دی اور انھوں نے بالکل ویسا ہی خلافت کا نظام قائم کیا جس طرح کے حضور کے بعد قائم ہوا، کسی ملوکیت یا بادشاہت کی بنیاد پر نہیں۔ یعنی حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ جیسے پیوند لگے کپڑے پہننے والے حضرت موسیٰ کے خلیفہ تھے۔ لیکن زیادہ دن نہیں گزرے کہ بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمیں تو بادشاہ چاہیے۔ اس وقت چونکہ نبوت تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ نبی کی وساطت سے بات چیت ہو جاتی تھی۔ تو تورات میں اللہ تعالیٰ یہ کہتے ہیں کہ احمقو! دیکھو میں نے تمھیں ایک بادشاہ کی غلامی سے نکالا اور تم پھر اسی طرح کی غلامی اپنے لیے مانگ رہے ہو۔ اگر تم نے بادشاہ بنا لیا تو وہ تمہیں ذلیل کرے گا اور تمہاری بہو بیٹوں کی عزت پامال کرے گا۔ کیا تم یہ چاہتے ہو؟ لیکن وہ اس بات پر بضد رہے کہ ہمیں تو بس بادشاہت چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اصلاح کرنی تھی وہ تو کر دی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اچھی طرح تنبیہ کی اور پھر یہودیوں کی بات مان لی۔ آخر میں یہ کہا کہ ٹھیک ہے میں پھرطالوت کو بادشاہ بنا رہا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سموئیل نبی نے طالوت کے سر کا مسح کیا اور ان کو بادشاہ بنایا گیا۔ اس طرح ان کے ہاں بادشاہت قائم ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے بادشاہوں میں سے دو بادشاہوں، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو نبوت دی۔ ہمارے ہاں بھی یہی ہوا۔ یعنی خلفائے راشدین نے ایسی حکومت قائم کہ جس کی دنیا میں کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ اخلاقی لحاظ سے وہ گویا اعلیٰ تصورات کے مجسم ہو گئے۔ لیکن اس کے بعد کچھ عرصہ گزرا اور ملوکیت قائم ہو گئی۔ کیونکہ دنیا کا ضمیر ابھی اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کا ضمیر اس کو اتنا قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔ انسانی تمدن میں یہ جو تبدیلیاں آتی ہیں، ان کے بغیر اس معاملے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا عربوں کی شادیوں کو آپ ان کے تمدن میں رکھ کر سمجھئے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طلاق دی جائے اور اس کے بعد جو عدت کا کم و بیش تین مہینے کا زمانہ ہے، اس کو گزرنے دیا جائے۔ اگر اس کے دوران میں رائے بدل گئی تو آپ رجوع کر لیں۔ اس کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں، رجوع کر لینا ہی کافی ہے۔ اگر تین مہینے گزر گئے تو آپ سے آپ طلاق واقع ہو جائے گی۔ اور یہ ایک ہی طلاق ہے، اس کے بعد بیوی بھی آزاد ہے اور آپ بھی آزاد ہیں۔ اگر کبھی دوبارہ نکاح کرنے کا خیال ہوتا ہے تو نکاح ہو جائے گا۔ دین میں طلاق دینے کا یہ طریقہ ہے۔ دو طلاقیں دینا، تین طلاقیں دینا، وقفے وقفے سے طلاق دینا، یہ کوئی چیز نہیں ہے۔ نہ یہ قرآن میں بیان ہوا ہے، نہ یہ پیغمبر نے بیان کیا ہے۔ حضورؐ کے زمانے میں یہ کام بعض احمقوں نے کیا تو آپؐ نے بہت غصے سے یہ کہا کہ میں موجود ہوں اور لوگ اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہیں۔ طلاق دینے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ جب بھی طلاق دینی ہو ایک طلاق دیں۔ اگر آپ نے ایک طلاق دی اور پھر واپس لے لی تو اس کے بعد پھر کبھی زندگی میں لڑائی ہوتی ہے تو آپ کو دوسری مرتبہ طلاق دینے کا ہے۔ دوسری طلاق دے کر بھی آپ نے واپس لے لی تو پھر تیسری طلاق دینے کا حق ہے جو کہ پھر واپس نہیں لی جا سکتی۔ طلاق کا یہ مطلب ہے، یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک ہی دفعہ کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ طلاق، طلاق ، طلاق۔ یہ بالکل احمقانہ بات ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ جو فون پر نکاح کر دیا جاتا ہے اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ اگر والدین نے لڑکے سے اجازت لے لی ہے ۔ تو والد نکاح پڑھ سکتے ہیں یعنی وہ بیٹھ کر اپنی طرف سے یہ کہہ دیں کہ میں نے اپنے بچے کا نکاح اس بچی سے کر دیا اور یہ یہ شرائط میں نے قبول کر لی ہیں۔ اس سے نکاح ہو جائے گا۔ اس کے بعد اگر لڑکا اگر ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ تو ٹیلی فون پر نکاح کرنے کے بعد بھی اس سے انکار کر سکتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے ، لیکن اس تکلف کی ضرور ت نہیں ہوتی۔ اب اگر لڑکا دو سال تک پاکستان نہیں آتا تو اس صورت میں بھی نکاح موجود رہے گا۔ اگر معلوم ہوتا ہے کہ نیت میں خرابی پیدا ہو گئی ہے یا اس طرح کا کوئی مسئلہ ہو گیا ہے تو عورت اگر چاہے تو اس کے نہ آنے کی بنیاد پر نکاح کو فسق کرنے کی درخواست کر سکتی ہے، اس کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تیمم کا تصور ہمیشہ سے امتوں میں ہونا چاہیے۔ میرا رجحان یہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی رہا ہو گا کیونکہ قرآن نے جس طریقے سے خود لفظ تیمم استعمال کیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا Concept پہلے سے موجود تھا۔ دنیا میں ایک سادہ اصول یہ ہے کہ جب تک تصور موجود نہ ہو لفظ وجود میں نہیں آ سکتا۔ اس لیے جس طرح سے یہ قرآن میں استعمال ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس کے اصطلاحی مفہوم سے واقف تھے۔ لیکن یہود نے جس طرح دین میں سختیاں پیدا کیں ، اس میں اس معاملے میں بھی ابہام تھا تو قرآن نے اس کو دور کر دیا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے ہم کو جو ہدایت دی ہے، اُس ہدایت میں کسی دوسرے کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ یہ سب سے بڑا اللہ کا حق ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے معاملے میں جس معاملے میں اس نے ہم کو آزاد چھوڑا ہے اس میں اپنی عقل کو استعمال کریں، اپنے رہنماؤں کی طرف رجوع کریں ، اس میں کوئی قانون بنائیں ۔ انفرادی اور زندگی میں کوئی طریقہ اختیار کریں، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ضابطے اور قونین اپنے دین اور شریعت میں بیان کر دیے ہیں ، اس میں کسی دوسرے کو قابل التفات نہ سجھا جائے۔ اگر آپ اسی کو سامنے رکھ لیں گے تو باقی سب حقوق بھی اس کے اندر آ جائیں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بچوں کی پیدایش کے بارے میں ایک اصول ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے اور وہ اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام براہ راست نہیں کرتے۔ یہ انسانوں کی وساطت سے کرتے ہیں۔ جو کام انسانوں کی وساطت سے ہوتے ہیں ان کے لیے عقل استعمال کرنا واجب ہے۔ یعنی ایک کسان اپنے کھیت میں فصل بوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ‘ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَہُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ’ یعنی تم نہیں بوتے، ہم بوتے ہیں، تم نہیں اگاتے، ہم اگاتے ہیں۔ اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں، لیکن اس کے بعد کسان کیا ان سب باتوں کے بغیر ہی بوتا چلا جائے کہ وہ کھیتوں میں جائے اور جانے کے بعد نہ زمین تیار کرے، نہ اس کی زرخیزی دیکھے، نہ اس کو وقفہ دے، نہ اس کے معاملات دیکھے کہ فصل کی کاشت کس طرح ہونی ہے، آگے بکنی کہاں ہیں، منڈی میں جانی ہے یا نہیں جانی؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اس کے لیے ان تمام معاملات میں عقل استعمال کرنا واجب ہے۔ اس عقل کو استعمال کرنے کے لیے کیا ذرائع اپنائے جائیں؟ ظاہر ہے کہ تمدن کے ساتھ ان میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ مختلف ذرائع وجود پذیر ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح بچوں کی پیدایش کا معاملہ ہے۔ آپ اپنی طرف سے جو بھی احتیاط کر سکتے ہیں کر لیں، اس کے بعد خدا جو بھی فیصلہ کر دے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی حکمت پر اس کی حکمت نے غلبہ پا لیا۔ آپریشن وغیرہ صرف ان صورتوں میں کرانا چاہیے جن صورتوں میں کسی کی جان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو یا کوئی اس طرح کا معاملہ ہو کہ کوئی عورت اس بات کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کے معاملات کر بیٹھتے ہیں اور بعد میں اس طرح کی چیزیں ان کے لیے بڑا المیہ بن جاتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کے ناجائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔لیکن آدمی کو کوئی ایسا عضو دوسرے کو نہیں دینا چاہیے جس سے خود اُس کے اندر کوئی نقص پیدا ہو جائے۔ مثلاً اللہ نے آپ کو دو آنکھیں دی ہیں، آپ کہیں کہ ایک نکال لیجیے، یہ درست نہیں ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں کہ آدمی کے اوپر کیا بوجھ ڈالے گئے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا عضو ہے جس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا، جیسا کہ عام طور پر اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایک گردہ نکال لینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتاتو آپ دے سکتے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد تو کوئی مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، اس لیے آدمی جو عضو بھی دینا چاہے اُس کے بارے میں وصیت کر سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:اس میں کوئی شک نہیں کہ اِس طرح کی چیزیں انسان کی نفسیات پر اثر انداز ہوتی اور بہتری کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ ارتکازِ توجہ بجائے خود بہت سے امراض کا علاج ہے۔ اصول میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس میں چونکہ انھوں نے اللہ کے لفظ کو دیکھنے کے لیے کہا ہے اس وجہ سے اس کا بڑا اندیشہ ہے کہ یہ چیز ایک بدعت بن جائے اور بالکل اسی طرح صوفیانہ مراقبوں کی شکل میں رائج ہو جائے۔ دین کے معاملے میں ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر مسجد آپ کی معاشی ذمہ داریوں کی جگہوں مثلاً دفاتر، مارکیٹوں یا بازار وغیرسے دور ہے یا وہاں سے جانا زحمت کا باعث بنتا ہے تو آپ نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر سکتے ہیں۔ یہ ایک عارضی مسجد ہوتی ہے، اُس کو مسجد الدار کہتے ہیں۔ یہاں نماز پڑھنے کا اجر وہی ہو گا جو مسجد میں باجماعت نماز کا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صحابہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وقت گزارا، آپ کی صحبت اٹھائی، شب و روز آپ کے ساتھ رہے اور ایک قابل لحاظ مدت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو اپنے ایک ساتھی کی حیثیت سے دیکھتے رہے۔ان سب صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے ، بلکہ اس معاملے میں تو بہت تعیین ہو گئی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیعت رضوان کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو لوگ گئے اور انہوں نے حضور ؐ کے ہاتھ پر بیعت کی، ان سب کے بارے میں اللہ نے یہ بشارت دی ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: خاتون اگر اپنے باپ کے گھر میں ہے تو یہ باپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر باپ نہیں ہے تو بھائیوں کی ذمہ داری ہے، اگر اپنے شوہر کے گھر میں ہے تو ان کی ذمہ داری ہے۔ اور اس کی ضروریات پوری کرنا محض کوئی تطوع نہیں ، بلکہ فرض ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین پر عمل کرنے کے لیے کم سے کم ذمہ داری اللہ کے پیغمبر نے یہ بیان کی ہے کہ اپنے اخلاقی وجود کو درست کیجیے۔ نماز کا اہتمام کیجیے۔ روزوں کا مہینا آئے تو روزے رکھیے۔ اللہ توفیق دے تو حج کیجیے اور اپنے مال سے انفاق کیجیے۔اس ذمہ داری کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ آیت ایک خاص مقام پر آئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ محض بن ماں کا بیٹا ہونے کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ خدا نہیں ہو گئے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے ماں باپ، دونوں کے بغیر پیدا کیا، اس کے باوجود وہ خدا نہیں ہو گئے تو پھر حضرت عیسیٰ کیسے خدا ہو سکتے ہیں؟

(جاوید احمد غامدی)

ج: رضاعت اس وقت قائم ہوتی ہے جب بچے کو گود لے کر دودھ پلایا گیا ہو۔ اس صورت میں وہ کم ہو یا زیادہ، رضاعت قائم ہو جاتی ہے۔ مجبوری یا اتفاقاً معاملہ ہو جانے سے رضاعت قائم نہیں ہوتی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورتوں کے قبرستان جانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان آداب کا لحاظ رکھیں جو قبرستان جانے کے لیے ضروری ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عورتوں کو اس سے روکا تھا کیونکہ اس زمانے میں عورتیں نوحہ کرتی اور بال نوچتی تھیں۔ لیکن جب مسلمان عورتوں کی تربیت ہو گئی تو آپؐ نے فرمایا کہ اب تم جا سکتی ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:اس موقع پر جتنا ممکن حد تک قبلہ کا تعین ہو سکے کر لیں۔ سفر میں آپ چونکہ ایک ایسی سیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں جس میں آپ کے لیے بہت زیادہ انتخاب کا موقع نہیں ہوتا، اس لیے جس سمت میں آپ کے لیے نماز پڑھنا ممکن ہو اس میں پڑھ لیجیے ، ساری سمتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔البتہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ ممکن حدتک قبلے کی تعیین کا اہتمام ہو جائے ۔ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ تھوڑا رخ بدلنے کے نتیجے میں قبلے کی صورت حال بہتر ہو جائے گی توتھوڑی تاخیر کر لیجیے ۔ اگرسفر سے پہلے نماز جمع کر کے پڑھ سکتے ہوں تو پہلے جمع کر کے پڑھ لیجیے اور اگر بعد میں جمع کر سکتے ہوں تو بعد میں جمع کر کے پڑھ لیجیے۔ یہ ساری صورتیں موجود ہیں ان میں سے جس پر آپ چاہیں، عمل کر سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پورے کا پورا دین تطہیر اور تزکیے پر مبنی ہے۔ ہمارے دین کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو جسمانی، نفسی، روحانی، عقلی ، علمی ہر لحاظ سے پاک رکھا جائے۔ انسان اپنی عقل سے اس کا فیصلہ آسانی سے نہیں کر سکتا کہ یہ پاکیزگی کس درجے کی ہونی چاہیے اور کس معاملے میں کتنی ہونی چاہیے،۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں اس کے آداب اور حدود مقرر کر دیئے ہیں۔ بعض معاملات میں اتنا ہی کافی ہے کہ آپ اپنے اعضا کو دھو لیں اور بعض معاملات میں اللہ تعالیٰ نے پورے جسم کو اچھی طرح دھونا لازم کیا ہے۔ انسان چونکہ ایک حیوانی مرحلے سے گزرتا ہے اور یہ بہیمیت اس کے پورے کے پورے جسم کا حصہ بن جاتی ہے تو غسل ہی درحقیقت اس کو اس سے نکال کر صحیح انسانی سطح پر لاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل دے سکتے ہیں اور ایسی صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ یہ ایک خدمت ہے اور زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف ہے۔ زکوٰۃ کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر حکومت مانگے تو پھر تو اسی کو دینی چاہیے، اگر حکومت نہیں مانگتی اور آپ ذاتی طور پر ادا کر رہے ہیں تو پھر اس کا ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے یعنی دین کی خدمت یا لوگوں کی بہبود کا کوئی کام ہو تو اس میں آپ زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید میں صریح الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ حضور خاتم النبیین ہیں۔ قرآن نے اس میں بہت کمال یہ کیا ہے کہ ‘خَاتَمَ النبیین’ کہا ہے، ‘خَاتِمَ النبیین’ نہیں کہا۔ اور کسی تاویل کی گنجایش نہیں رہنے دی۔ ‘خَاتَمَ النبیین’ کا مطلب ہے ، نبیوں کی مہر ۔ مہر یا تو Seal ہوتی ہے یا Stamp ہوتی ہے۔ آپ Seal کے معنی میں لیں گے تب بھی نبوت ختم ہو گئی۔ stamp کے معنی میں لیں گے تب بھی ختم ہو گئی۔ اس لیے کہ پھر یہ سوال پوچھا جائے گا کہ اگر بعد میں کوئی آیا ہے تو اس کی نبوت کی تصدیق حضورؐ سے دکھا دیجیے۔ حضورؐ نے کسی آنے والے کی تصدیق نہیں فرمائی، لہٰذا آپ پر نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔

جہاں تک عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ کو آخری نبی قرار دینے کے معاملہ ہے تو اس بات کی تردید خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اپنی زندگی میں ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل ہمارے پاس موجود ہے۔ اس میں وہ جگہ جگہ فرماتے ہیں کہ ‘‘میرے بعد آنے والا مددگار ’’،‘‘ میرا اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے’’، ‘‘دیکھو میں جا رہا ہوں اور دنیا کا سردار آنے والا ہے’’۔ وہاں تو ختم نبوت کی کوئی آیت ہی نہیں ہے۔

 

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل کو قربانی کے لیے پیش کیا تھا۔ حضرت اسماعیل کا ذبیح ہونا قرآن مجید سے بھی واضح ہے اور تورات سے بھی واضح ہے۔ باوجود اس کے کہ تورات میں اس جگہ حضرت اسحاق کا نام داخل کیا گیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ غصہ کب کرنا چاہیے، اس پر قابو کب پانا چاہیے اور کتنا غصہ کرنا چاہیے۔ غصہ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی کے اندر غیرت، حمیت اور اخلاقی حدود کا احترام ختم ہو جائے گا۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس کا موقع ٹھیک ہونا چاہیے۔ اور اتنی مقدار میں کرنا چاہیے جتنی مقدار اس مقصد کے لیے موزوں ہے۔ اگر آدمی کے اندر غصہ نہیں ہو گا تو وہ اپنا دفاع، اپنی مدافعت، اپنی قوم کا دفاع، اپنے وطن کی مدافعت اور اپنے ناموس کی مدافعت کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔ اللہ نے یہ نعمت ایسے ہی نہیں دی ہوئی۔ اس کو کنٹرول کر کے رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت موسیٰ کو جس بات پر غصہ آیا تھا وہ بڑی ناجائز بات تھی۔ جب وہ کوہ طورپر گئے تو پیچھے قوم میں حضرت ہارون کو مقرر کر گئے تھے، جب وہ تورات لے کر واپس آئے تو معلوم ہوا کہ قوم کا ایک بڑا حصہ ایک بچھڑے کی پرستش کر رہا ہے۔ ان کو احساس ہوا گویا ہارون نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔ یہ بڑے صحیح موقع پر ان کو غصہ آیا۔ اگر کسی آدمی کو غلط موقع پر غصہ آئے تو اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہے۔ اور صحیح موقع پر نہ آئے تو اس سے بڑا بھی بیوقوف کوئی نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بڑی سادہ سی بات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر ہر معاملے میں طاق عدد پسند فرمایا ہے، جیسے آپ ہر کام میں دایاں پسند فرماتے تھے۔ دائیں طرف پاؤں پہلے رکھیں گے، دائیں طرف سے نکلیں گے۔ یہ حضورؐ کا عام طریقہ تھا۔ دائیں ہاتھ سے کھانا پینا تو آپ نے سنت کے طور پر جاری کر دیا، لیکن عام زندگی میں بھی آپ اس کا خیال رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت میں جب اللہ تعالیٰ اہل جنت کو نامۂ اعمال پکڑائیں گے تو وہ دائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کا احساس ہمیشہ زندگی میں رہے کہ ہمیں اللہ وہاں پر دائیں ہاتھ والوں میں اٹھائے۔ ایسے ہی حضور ؐ طاق عدد پسند کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ توحید کا تصور ذہن میں پوری طرح راسخ ہو جائے۔ اسی مناسبت سے جنازے کے موقع پر بھی صفوں کی طاق تعداد کا لحاظ کیا جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آدمی خود اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں اس وقت کیسی کیفیت میں ہوں کہ جو ایک مسافر کو لاحق ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی دی ہوئی رخصت ہے۔ اگر کوئی محسوس کرتا ہے کہ اس کے اوپر مسافرت کی کیفیت ہے تو نماز قصر کر لے۔اگر محسوس کرے کہ بہت آرام سے ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پوری پڑھ لے، اللہ اجر دے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فرقۂ اہلِ قرآن کسی ایک دور کی چیز نہیں ہے۔ مختلف ادوار میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو یہ کہتے رہے ہیں کہ قرآن کے علاوہ اور کہیں دین نہیں پایا جاتا۔ یہ ایک عام نقطۂ نظر رہا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی ابتدا چکڑالے کے بعض بزرگوں سے ہوئی، اس کے بعد اور بہت سے لوگ اس میں آتے رہے مثلاً احمد دین صاحب وغیرہ، یہاں تک کہ غلام احمد پرویز صاحب نے اس کو اپنے کمال پر پہنچایااور غالباً وہ اس کے آخری آدمی تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کھانا حرام نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کھانا کسی غیر اللہ کے نام پر نہیں پکایا جاتا۔ اور اگر اس کھانے کو کوئی مذہبی چیز قرار نہ دیا جائے تو اس کے پکانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ جب آپ کسی روایت یا تہوار میں مذہب داخل کرتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کو sanction حاصل ہو، اگر نہیں ہے تو پھر وہ چیز دین میں بدعت ہو جائے گی، جو ایک بڑا گناہ ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تزکیے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ خدا کے دین پر عمل کریں۔ دین اترا ہی اس لیے ہے کہ وہ آپ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تزکیہ کرے۔ جب آپ علم اور عمل دونوں میں پورے دین کو مکمل طور پر اپنا لیتے ہیں تو آپ کا مکمل تزکیہ ہو جاتا ہے۔ آپ جتنا اپناتے ہیں اس کے لحاظ سے آپ کا تزکیہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دین پر عمل کرنے کے لیے آدمی میں رغبت پیدا کرنے کے لیے یا اس کو متوجہ کرنے کے لیے بہت سے نفسیاتی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور وہ صوفیا بھی اختیار کرتے ہیں۔ جیسے ہم اپنے بچوں میں اسکول جانے کی رغبت پیدا کرتے اور ان کی سستی دور کرتے ہیں، ایسے ہی دین پر عمل کی رغبت پیدا کرنے کے لیے بھی نفسیاتی علاج معالجہ بھی ہوتا ہے اور بعض لوگ اس میں بڑا موثر طریقہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ صوفیا اگر اس کے لیے دین میں کوئی بدعت داخل نہ کریں تو یہ کوئی قابل اعتراض چیز نہیں، لیکن چونکہ وہ ان حدود کا لحاظ نہیں رکھتے، اس لیے بعض اوقات اس پر اعتراض کرنا پڑتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کلی کرنا، ناک صاف کرنا، منہ کو صاف رکھنایہ سب خود دین کے اندر ایک سنت کے طور پر جاری کیے گئے ہیں، لیکن وضو کا یہ لازمی حصہ نہیں ہیں۔ آپ کریں تو بہت اچھی بات ہے، آدمی کو اچھا وضو ہی کرنا چاہیے، لیکن اگر کسی وقت آپ نے نہیں کیا تو اس کے بغیر بھی وضو ہو جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آخرت میں سزا سے بچنے کے لیے توبہ و استغفار اور تلافی ضروری ہے۔ دنیا کی سزا اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ بچ جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چور کو ہم سزا دے رہے ہوں اور وہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ اور اس کے قانون دونوں کو گالیاں دے رہا ہو۔ آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب آپ دیکھ رہے ہیں کہ امام کی قراء ت آپ تک نہیں پہنچ رہی یا وہ سری نماز پڑھا رہا ہے تو آپ ضرور سورۂ فاتحہ پڑھیے۔ یہی عقلِ عام کا تقاضا ہے۔ اس معاملے میں چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی متعین حکم نہیں دیا، بلکہ لوگوں نے آپ کی بعض باتوں سے قیاس کیا ہے تو ان سب کو عقل عام کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے اور اس میں وہی رائے اختیار کرنی چاہیے جو معقولیت پر مبنی ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ پاکیزہ کلمات ہیں۔ ان میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جن کو دین یا شریعت کے خلاف کہا جا سکے۔ ان کے معنی بھی بہت اچھے ہیں، لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت اس معنی میں نہیں ہے کہ اللہ کے پیغمبر نے وہ مقرر کیے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں کہ علما نے لوگوں کو اچھی باتوں کی تعلیم دینے کے لیے ان کو جمع کر دیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے میں دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کے قانون کے مطابق عائلی عدالتیں موجود ہیں،یا تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔ وہاں فیصلہ ہو جائے گا۔اور جو بھی فیصلہ بھی ہو، اس سے بحث نہیں کہ وہ صحیح ہو یا غلط، وہ نافذ ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہی فیصلہ مانا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی صاحب علم کو ثالث بنائیں، اپنا مقدمہ اس کے سامنے پیش کریں اور وہ جو فیصلہ دے اس کو قبول کر یں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مرد و عورت کی دوستی جہاں بھی ہو گی ، فتنوں کا باعث بنے گی۔ اور یہ فتنہ ایسا ہے کہ ممکن ہے کہ اس کے نتائج اتنے خطرناک نکلیں کہ آگے کی زندگی بالکل ہی مخدوش ہو کر رہ جائے۔ اگر اس طرح کی دوستی کرنی ہے تو پھر عفت و عصمت جیسے احساسات کو اپنی سوسائٹی سے نکالنا ہو گا، کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے اس چیز کی کوئی گنجایش موجود نہیں۔ عمومی یا خیر سگالی کے تعلقات رکھنے یا اچھا رویہ اختیار کرنا میں تو کوئی حرج نہیں، لیکن اس سے آگے بڑھ کر جب بات جائے گی تو پھر وہ خرابیوں اور فتنوں کا باعث بنے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرے نزدیک عقیقے کے معاملے میں فیصلہ کن بات وہ ہے جو خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہو گئی ہے۔ آپ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا ۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ عقیقے وغیرہ کا لفظ تو پسند نہیں ہے، البتہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتو وہ اپنے بچے کے لیے قربانی کر لے۔ یہ ایک نفل قربانی ہے جو بچے کے شکرانے میں کی جاتی ہے۔ اس چیز کی کوئی پابندی نہیں ہے کہ آپ ایک قربانی کریں یا دو کریں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے حسن و حسین کی پیدایش کے موقع پر ایک بکرے کی قربانی کی۔ بعد کے فقہا نے اس میں لڑکے کے لیے دو اور لڑکی کے لیے ایک قربانی کرنے کا فرق قائم کیا ہے۔ یہ فرق لڑکے اور لڑکی کے معاملے میں جو تمدنی روایات ہیں، اس سے پیدا ہوا ہے، دین میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالیٰ کی شریعت میں چند چیزیں اس معاملے میں زیر ِ بحث آئی ہیں۔ ایک یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ عورتوں اور مردوں کو جب کبھی ملنا پڑے، خواہ وہ گھروں میں ہوں، خواہ باہر ہوں تو انھیں کن آداب کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ وہ آداب سورۂ نور میں بیان ہوئے ہیں کہ خواتین اور مردوں کو کس طریقے سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے، اپنی نگاہیں کس طرح رکھنی چاہییں، ان میں کیسی حیا ہونی چاہیے۔ عورتوں کے لیے مزید ایک بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے سر کی اوڑھنیاں اپنے سینے پر بھی اچھی طرح لے لیں اور اپنی زینتوں کی نمایش نہ کریں۔ یہ مردوں اور عورتوں کے ملنے جلنے کے آداب ہیں۔ دوسری بات شریعت میں جو بتائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ میاں اور بیوی کے ما بین جو رشتہ قائم ہوتا ہے ، اس میں مرد کو ایک درجہ برتری حاصل ہے تاکہ گھر کا نظم و نسق چلایا جا سکے۔ پھر اس کے بعد طلاق اور نکاح کے معاملے میں حدود و اختیارات بتائے گئے ہیں، جس میں کچھ مردوں کے حقوق ہیں اور کچھ عورتوں کے حقوق ہیں۔ اس کے علاوہ باقی معاملات کو اللہ تعالیٰ نے انسانی تمدن پر چھوڑ دیا ہے۔ ان کے حالات کے لحاظ سے عورتیں اپنا کردار متعین کرتی ہیں۔ اور یہ کردار ایک تمدن میں مختلف ہو سکتا ہے اور دوسرے میں مختلف۔ تمدنی تبدیلیاں انسانی زندگی میں آتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں جو عورتوں کا کردار اشرافیہ بیان کرتی رہی ہے، وہ تو صرف ان لوگوں کے ہاں تھا کہ جن کے ہاں پانچ سات ملازم ہوتے تھے۔ وہ عام خواتین کا کردار نہیں ہے۔ ہمارے دیہات میں عورتوں کو باہر نکل کر کام کرنا پڑتا تھا۔ کھیتوں میں جا کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی تھیں۔ جانورں کو چارہ ڈالنا، ان کے لیے چارہ کاٹ کر لانا،دودھ دوہنا یہ تو کم و بیش عورتوں ہی کی ذمہ داری تھی۔ اس وجہ سے اس معاملے میں کوئی لگا بندھا اصول شریعت میں قائم نہیں کیا گیا۔ باقی تمام معاملات میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے ۔ وہ اپنے حالات کے لحاظ سے اپنا کردار خود طے کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت جو بعض چیزیں ہو رہی ہیں ، وہ اپنے اندر بعض اخلاقی قباحتیں رکھتی ہیں، بعض تمدنی نقصانات رکھتی ہیں، ان پر عقل کی روشنی میں بات کرنی چاہیے اور لوگوں کو اس کے بارے میں توجہ بھی دلانی چاہیے، لیکن شریعت کے حدود اتنے ہی ہیں جتنے بیان ہو چکے ہیں۔ یہ ملنے جلنے کے اور باہر نکلنے کے آداب ہیں، ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ عورت اپنے کاروبار کے لیے، اپنے معاملات کے لیے باہر جا سکتی ہیں۔البتہ ان آداب کا انھیں ہر جگہ لحاظ کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس طرح کے تمام علوم زیادہ تر توہمات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ مختلف قسم کے قیافے ہیں جو لگائے گئے ہیں۔ انسان خواہ کتنا ہی پڑھ لکھ جائے، وہ بنیادی طور پر توہم پرست ہوتا ہے۔ اس طرح کی چیزوں میں اس کو بڑی رغبت محسوس ہوتی ہے۔ بندۂ مومن کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک طرف اپنے اللہ پر یقین رکھے اور اللہ کی کتاب اور پیغمبر سے رہنمائی حاصل کرے۔ اور دوسری جانب اس کو سائنٹیفک علوم میں دلچسپی ہونی چاہیے یعنی وہ علوم جو انسانیت کے لیے مفید ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیت اللہ کے ادب و احترام کی وجہ سے ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس جانب ہمارے پاؤں نہ ہوں۔ یہ آداب سے متعلق چیز ہے، ان آداب کا لحاظ حضورؐ نے بھی کیا، آپ کے صحابہ نے بھی کیا۔ یہ لازمی چیزیں نہیں ہیں اور نہ ان میں گناہ و ثواب کا مسئلہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرآپ کے والد ہیں تو آپ چارپائی بچھاتے وقت یہ خیال رکھیں گے کہ ان کی طرف آپ کے پاؤں نہ ہوں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے گھر کی حرمت اور ادب کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اس جانب آدمی پاؤں نہ کرے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اوپر جنات کا جو کچھ بھی تصرف ہوتا ہے ، وہ نفسیاتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ جب وہ نفسیاتی تصرف کرتے ہیں تو خود انسان کے اندر بعض اوقات ایسی تبدیلیاں آ جاتی ہیں کہ جس سے وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے سامنے یہ ہدف رہے کہ آپ کو جنت کی اعلیٰ ترین نعمتیں پانی ہیں اور یہ بات ذہن میں رہے کہ جنت کی نعمتیں پانے کے لیے اس دنیا میں اپنے نفس کو پاکیزہ رکھنا ہے اور اپنے دل کو خدا کی یاد سے آباد رکھنا ہے۔ اس طرح آپ بہت سی ایسی چیزوں سے بچ جائیں گے۔ اور اگر کہیں قدم پڑے گا بھی تو فوراً آپ کی کوشش یہ ہو گی کہ اپنے دل کو اس سے پاک کر لیں۔ یہ نہ کوئی فقہ کا مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی مفتی کے فتویٰ دینے کی چیز۔ وہ چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ نے صراحتاً ممنوع قرار دے دیا ہے، ان میں تو علما بتا سکتے ہیں۔ باقی چیزوں میں ایک مثبت پہلو ہے جس کو نگاہ میں رکھنا چاہیے کہ آپ اپنے دل کو آلایش سے پاک رکھیں اور اپنی زبان کو خدا کے ذکر سے تر رکھیں تواس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ یہ چیزیں خود بخود آپ کی رغبت سے نکل جائیں گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں شک نہیں کہ یہ معاملہ بالکل فطرت کے خلاف ہے۔ اس سے انسان کی نفسیات بالکل مجروح ہوجاتی ہے۔ مرد کو مرد بننا چاہیے اور عورت کو عورت بننا چاہیے۔ قرآن مجید نے بڑی خوبی کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس معاملے میں تم کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کرو، یعنی عورتیں عورت کی حیثیت سے اعلیٰ مقام پانے کی کوشش کریں اور مرد مرد کی حیثیت سے۔ یہ چیز ان کے طور اطوار، بولنے، اٹھنے بیٹھنے، اسی طرح لباس وغیرہ میں بھی نمایاں رہنی چاہیے۔ مردوں کا عورت بننے کی کوشش کرنا یا عورتوں کا مرد بننے کی کوشش کرنا یہ احساس کہتری کی علامت ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورتوں کے لیے یہ لازم نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ ؓنے اس کی وضاحت کر دی تھی، بلکہ بعض صحابہ نے جب اس پر اصرار کیا تو سیدہ عائشہؓ نے اس معاملے میں بہت تنبیہ کے ساتھ توجہ دلائی کہ عورتوں کو اس کی زحمت نہیں دی گئی۔ وہ اپنی چٹیا باندھے ہوئے، اپنے بال بنائے ہوئے، اسی طرح سے پانی بہا لیں تو مقصد پورا ہو جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب آپ بار بار اپنے آپ کو سمجھائیں گے کہ آپ کو دل صاف ہی رکھنا چاہیے تو ان شاء اللہ کچھ وقت گزرے گا کہ آپ کا دل صاف ہو جائے گا۔ یہ دنیا جس اصول پر بنی ہے، اس کا اگر آپ سنجیدگی سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہ نفرت کرنے، کینہ رکھنے، بغض رکھنے ، دوسروں کی تذلیل کرنے، جزع فزع کرنے کی دنیا نہیں ہے بلکہ صبرکرنے کی جگہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے: ‘وجزاہم بما صبروا جنۃ’ آپ جتنا صبر کر سکتے ہیں، کریں۔ صبر کا امتحان مسلسل رہتا ہے۔ بیوی کو شوہر سے، شوہر کو بیوی سے اوراولاد کو والدین سے یہ معاملہ پیش آتا رہتا ہے۔ آپ اگر اپنے اوپر تھوڑا سا قابو پالیں اور آہستہ آہستہ اپنے آپ کو یہ سمجھا لیں تو آپ کو جنت میں جا کر یہ احساس ہو گا کہ اس موقع پر جو آپ نے صبرکیا، اپنی زبان پر قابو رکھا، اپنا دل صاف کرنے کی کوشش کی، دوسرے کو معاف کر دیا تھا اس چھوٹے سے عمل کا کتنا غیر معمولی اجر آپ کے لیے موجود ہے۔ یہ بات اگر آدمی پر واضح ہو جائے تو پھر وہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بہت ملحوظ رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ‘‘اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو بہت پسند کرتا ہے جو اپنے غصے پر قابو پا لیں’’۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ آدمی کا کسی پہلوان کو پچھاڑ لینا، کون سی بڑی بات ہے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ وہ غصے پر قابو پا لے۔ اس لیے کہ غصے کے موقع پر انسان انسان کم اور شیطان زیادہ ہو تا ہے۔ اس موقع پر اپنے آپ کو کنڑول کر لینا بڑی بہادری کی بات ہے۔

جب آدمی اپنے غصے پر قابو نہیں پاتا، دوسرے پر چڑھ دوڑتا ہے، اس کو رعایت نہیں دیتا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کچھ عطا کیا ہے اس پر اکتفا نہیں کرتا اور ہر موقع پر جزع و فزع کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ درحقیت اللہ تعالیٰ کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے کہ یہ فیصلہ اس نے کیوں کر ڈالا۔ جب آپ ان ساری باتوں کو سمجھ لیں گے تو آپ کا دل بالکل صاف ہو جائے گا اور آپ مطمئن زندگی بسر کریں گے۔ پھر ایک اچھی بات آپ کو پیش آئے گی تو اتنی خوشی نہیں ہو گی جتنی کہ جذبات پر قابو پالینے سے ہو گی۔ آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ نے بڑی برتری حاصل کر لی ہے۔ اصل میں جو لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں پاتے انھیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت کتنے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اے کاش، کوئی ایسا آئینہ ہوتا جو ان کے باطن کی حالت انھیں دکھا سکتا تو وہ دیکھتے کہ وہ اس میں کتنے پست اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتے ہیں اسی لیے انھوں نے اپنے بندوں کو صالح فطرت دی۔ اسی لیے انہوں نے انبیا بھیجے، اسی لیے انہوں نے کتابیں نازل کیں۔لیکن اگر بندے جانتے بوجھتے اللہ کے مقابلے میں سر کشی کریں اور اللہ انھیں عذاب نہ دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ ساری آزمایش باطل ہو گئی۔ قیامت کے دن وہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وفاداری کا حق ادا کر دیا وہ بھی جنت میں چلے گئے او روہ جو اللہ کے مقابل میں سرکش ہوئے وہ بھی جنت میں چلے گئے اور وہ وہاں بیٹھ کر اہل ایمان کا ٹھٹھا اڑائیں کہ دیکھو، ایسے ہی تم مشقت اٹھاتے رہے، ہم بھی جنت میں آ گئے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ایسا کرے؟ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ وہ جس طرح محبت کرتا ہے، اسی طرح وہ عدل بھی کرتاہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایاہے ‘کتب علی نفسہ الرحمۃ لیجمعنکم الی یوم القیامۃ’ یہ میری رحمت ہے کہ میں عدل کا وہ دن لاؤں کہ جس دن اپنے بندوں کو جزا و سزا دے کر سرفرازی عطا فرماؤں۔ یہ تووفاکا حق ادا کرنے والوں کے ساتھ بے انصافی ہو گی اور اللہ بے انصافی کیسے کر سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جنات بھی با اختیار قوم ہیں۔ جنات کے جو مکالمے قرآن مجید میں نقل ہوئے ہیں بالخصوص سورۂ جن میں، اس میں خود جنات نے بڑی تفصیل سے یہ بتایا ہے کہ ہم میں صالح بھی ہیں اور شر پسندبھی۔ ہمارے اندر خدا پر جھوٹ باندھنے والے بھی ہیں اور خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے والے بھی۔جس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم یا مخلوق کی حیثیت سے پیدکیا ہے جو خیر و شر کا مادہ رکھتی ہے ایسے ہی ان کو پیدا کیا گیاہے۔ ابلیس کے عمل سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے چنانچہ اس نے یہ نافرمانی کی۔ اور اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو معاملہ ہمارے ساتھ ہو گا، وہی معاملہ ان کے ساتھ ہو گا۔ پھر قرآن نے بتایا ہے کہ جس طرح ہماری طرف اللہ کے نبی آئے ہیں اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ نے اپنے پیغمبر اور اپنے نبی بھیجے ہیں۔ اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ ان پر بھی اتمام حجت کریں گے۔یہ انسانوں سے باعتبار خِلقت افضل ہیں۔ یہ بات تو خود قرآن میں بیان ہو گئی ہے ۔ ابلیس نے اسی سے دلیل پکڑی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ مجھے تو آپ نے آگ سے پیدا کیا ہے۔ مادے کی جو مختلف شکلیں ہیں ،ان میں سب سے لطیف شکل وہ ہے جس سے فرشتے بنے ہیں، اس کے بعد جنات ہیں اور اس کے بعد انسان ہیں۔ اس لحاظ سے جنات بے شک انسانوں سے افضل ہیں، لیکن انسان اگر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا سچا بندہ بنا کر رکھے تو وہ اعلیٰ ترین مقام پانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔ خلقت کے لحاظ سے افضل ہونا اور چیز ہے اور اعمال کے لحاظ سے افضل مقام حاصل کر لینا بالکل ایک اور چیز ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ ہندوؤں کا تہوار نہیں بلکہ ہمارے ہاں یہ روایت مغربی اقوام سے آئی ہے اور اس روایت میں کوئی چیز دینی لحاظ سے غلط نہیں ہے۔ یعنی ایک بچہ سال ، دو سال کا ہو گیا، خاندان کے لوگوں نے مل بیٹھ کے خوشی منالی ، کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اس کا کوئی دینی پس منظر نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس کو غلط نہیں کہا جا سکتا البتہ اس میں اسراف ، نمایش اور اخلاق سے گری ہوئی محافل ممنوع ہیں۔ اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنے تہواروں میں یا روایات میں ہم اپنی تہذیب اور اپنی قوم کے زیادہ قریب رہیں۔ کوئی دوسرا آدمی اس میں مختلف رائے رکھ سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: برائی اور اچھائی انسان کی معلوم تاریخ میں ایک ہی جگہ کھڑی ہیں۔ ان کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ یہ انسان کی فطرت کا فتویٰ ہے اور اس کا الہام اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے۔ جو صورت آپ بیان کرتے ہیں یہ آج پیدا نہیں ہوئی یہ ہمیشہ سے ہے۔ انسان کو آزمایش میں ڈالا گیا ہے اور یہ آزمایش ہمیشہ اس کے ساتھ رہی ہے۔ وہ نوح علیہ السلام کے زمانے میں آزمایش میں ناکام ہوا۔ اللہ کے پیغمبر نے ساڑھے نو سو سال تک اتمام حجت کیا اور آخر میں صرف اتنے لوگ بچے جو ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ اس وجہ سے اس کے یہ ہر گز معنی نہیں ہوسکتے کہ آج کوئی نیا معاملہ ہو گیا یا ہمارا طریقہ کمزو ر ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی باوجود اس کے کہ میڈیا نے بے شمار ایسی چیزوں کی یلغار کر رکھی ہے جو دین واخلاق کے بالکل خلاف ہیں، لوگ مسجدوں میں آتے ہیں، دین سنتے ہیں، دینی مجالس میں شریک ہوتے ہیں، آخر یہ سب کیا ہے؟ ہمیں اس معاملے میں رجائیت پسند ہونا چاہیے۔ اچھے پہلو کو دیکھیں۔ کیا وجہ ہے کہ برے پہلو پر ہی ہماری نگاہ پڑتی ہے۔ آپ کسی محلے میں جا کر کہیں بھی مسجد بنا دیجیے ، کچھ دنوں کے بعد وہاں نماز بھی ہو رہی ہوگی اور لوگ آ کر جماعت میں شریک بھی ہورہے ہو ں گے۔ جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے کم و بیش تناسب یہی ہے۔ اس وجہ سے اس میں کوئی تردد کی بات نہیں ہے۔ دین کی بات کیجیے، خیر کی بات کیجیے، لوگوں تک پہنچائیے اور اس معاملے میں زیادہ متردد نہ ہوں۔ آدمی کو اپنے اوپر زیادہ نگاہ رکھنی چاہیے۔یہ بھی موجودہ زمانے کا ایک حادثہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل بن گئی ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے یا یہ کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ جبکہ اصل میں دیکھنا یہ چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قسطوں کا کاروبار تو منع نہیں ہے، لیکن اگر آپ اس میں ادھار اور نقد کی قیمت کم و بیش رکھیں گے تو یہ سود ہو جائے گا اور سود دین میں ممنوع ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے ہی مقرر فرمائی ہے۔ تمام انبیا علیہم السلام کے ہاں نماز ایسے ہی رہی تھی۔ صرف اس کے اذکار میں تھوڑی بہت تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی نماز اسی طرح تھی۔ یہود کے ہاں بھی نماز تھی، نصاریٰ کے ہاں بھی نماز تھی۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پیرو بھی نماز پڑھتے تھے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ناخن کتروائیں۔ یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی انبیا نے ایک سنت کے طور پر جاری کی ہے۔ اور اس چیز کو لازماً اختیار کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہر آدمی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ دین سمجھے اور یہ عین ممکن ہے کہ آپ کے اور کسی کے فہم دین میں اختلاف ہو۔ اس میں open dialouge ہوتے رہنا چاہیے تاکہ بات واضح ہوتی رہے ۔ اگر کوئی آدمی یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے کچھ لوگوں کو سیاسی جد و جہد کرنی چاہیے تاکہ یہاں ایک اچھی حکومت قائم ہوجائے تو یہ دین میں ممنوع نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ یہ بات ہر ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس کے لیے جدوجہد کرے تویہ ٹھیک نہیں ہے۔دین کا پیغام پہنچانے یادینی ماحول بنانے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایک آدمی اس کے لیے دعوت کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔ کسی میں صلاحیت ہے تو وہ سیاست کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔ یہ تدبیر کے معاملات ہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی چیز کو بھی لازم نہیں کیا۔ جو چیز لازم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جائے اور دین کی بات ان پر واضح کی جائے۔اگریہ بات حکمرانوں پر واضح ہو جائے تو آپ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بغیر سیاسی جدوجہد کے حاصل ہو جائے گا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور اسی طریقے سے کام کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ‘اقیموا الدین’ کا مطلب بالکل وہی ہے جو اقامتِ صلاۃ کا ہے یعنی جب قرآن کہتا ہے ‘اقیموا الصلٰوۃ’ یا ‘اقم الصلٰوۃ’ تو اس کا مطلب ہے کہ نماز کا اہتمام رکھو، نماز پر عمل پیرا ہو جاؤ، نماز کو مضبوطی سے پکڑو اور نماز کو اپنی زندگی کے اندر اختیار کرو۔ اسی طرح جب قرآن کہتا ہے کہ اقم الدین’ یا ‘اقیموا الدین’ تو اس کا مطلب ہے کہ دین پر پوری طرح عمل پیرا ہو جاؤ، دین کو اپنی زندگی بناؤ، دین کو پوری طرح اختیار کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین کو زبردستی دوسروں پر نافذ کرو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کے علم کے تین درجے ہیں۔ ایک درجہ وہ ہے جس پر عوام ہوتے ہیں۔ انہیں دین کا علم والدین، اساتذہ یا قریب کے علماسے ملتا ہے ،اور وہ اسی کو دین سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے دین کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے علم کو بڑھاتے رہیں اور اگر کسی دوسرے صاحبِ علم کی بات ان کے سامنے آئے اور وہ ان کو زیادہ معقول لگے تو اس پر ضرور غور کریں۔ حق کے معاملے میں اپنے کان اور آنکھیں بند نہ کریں۔ اس سے زیادہ عام آدمی کر بھی نہیں سکتا۔ یعنی وہ اہل علم سے ضروری باتیں معلوم کرتا رہے ،کیا چیز حرام ہے، کیا حلال ہے، کیا تقاضے ہیں وغیرہ۔اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی مختلف اہل علم کی آرا کو پڑھتا ہے ، علم کے حصول میں محنت کرتا ہے اور خداداد ذہانت کی وجہ سے مختلف آرا میں سے بہتر رائے کا انتخاب کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دیانتداری سے بہتر رائے پر عمل کرنا چاہیے۔ آخری درجہ یہ ہے کہ آدمی اس درجے کا عالم ہو کہ وہ براہِ راست دین کے مآخذ سے رائے قائم کر سکے۔ یہ درجہ کوئی پچیس تیس سال کی شبانہ روز محنت کے بعد حاصل ہوتا ہے لیکن میرے خیا ل میں یہ خدا داد ہے، ہر آدمی کو حاصل نہیں ہو جاتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پاکستان میں رہتے ہوئے ایک انقلاب توآپ ہر وقت برپا کر سکتے ہیں اور وہ آپ کی اپنی ذات میں انقلاب ہے۔ اسی کو زیادہ تر توجہ کا موضوع بنانا چاہیے۔ دوسرا انقلاب آپ یہ برپا کر سکتے ہیں کہ اپنے گرد و پیش کے ماحول میں اللہ کے دین کا شعور پیدا کیجیے۔ اس میں بھی کوئی مانع نہیں ہے ، اگر تھوڑا سا وقت نکالیں گے تو یہ انقلاب بھی برپا ہو جائے گا۔ باقی قوموں کے معاملات اللہ اپنی مشیت سے کرتا ہے۔ جب وہ کر دے گا تو انقلاب برپا ہو جائے گا۔ورنہ یہ دنیا اس نے جنت بنانے کے لیے نہیں بنائی۔ یہ دنیا آزمایش کی دنیا ہے۔ اس میں کوئی اگر اچھی حکومت قائم ہو بھی گئی تو اطمینان رکھیے زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ اس کے بعد اس میں بھی زوال آئے گا اور وہ کچھ سے کچھ ہو جائے گی۔ سوڈان میں کیا ہوا، لیبیا میں کیا ہوا، اس صدی کی پہلی دہائی میں محمد بن عبد الوہاب کے انقلاب کیا ہوا یہ سب آپ کے سامنے ہے ۔اللہ کی دنیا میں آزمایش کے دن بدلتے رہتے ہیں۔ حکومتوں میں بھی خرابیاں آتی رہتی ہیں، عوام میں بھی آتی رہتی ہیں۔ آپ یہ دیکھیے کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اُن ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی حسب استطاعت کوشش کیجیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کی یہ بات بالکل بھی ٹھیک نہیں۔ گھر کا نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے اسلا م کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ عورتیں قنوت کا رویہ اختیار کریں یعنی اُن کو سوسائٹی میں اپنے شوہروں کے ساتھ adjustment کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، نہ کہ بغاوت کا۔ یہ وہی چیز ہے جو فرق مراتب میں باپ کے مقابلے میں بچوں کو کرنا چاہیے۔اسی طرح شوہر کے مقابلے میں بیوی سے متوقع ہوتا ہے۔مرد اور عورت کی بات نہیں؟ کوئی بھی عورت جب ماں بن جاتی ہے یا بڑی بہن ہوتی ہے تو اس کے معاملے میں مردوں کو بھی یہی رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ماں کی اطاعت کریں گے اور اس کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ اسلام جو معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے وہ فرق مراتب کے اصول پر قائم ہے۔ یعنی رشتوں کا احترام قائم کیا گیا ہے۔ باپ کے لیے ایک مرتبہ ہے ، ماں کے لیے ایک مرتبہ ہے، بڑی بہن اور بڑے بھائی کے لیے ایک مرتبہ ہے۔ بالکل اسی طرح استاد کے لیے ایک مرتبہ ہے اور اسی طریقے سے شوہر کے لیے بھی ایک مرتبہ ہے۔ اس کا تعلق مرد اور عورت کے فرق سے نہیں ہے ، اس کا تعلق رشتوں اور ان کے احترام سے ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شوہروں پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئیتو حقیقت یہ ہے کہ ساری ذمہ داری ڈالی ہی ان پر گئی ہے۔ نان و نفقہ اور گھر چلانے کی ذمہ داری انھی پر ہے۔ کوئی خاتون اس معاملے میں ادنیٰ درجے میں بھی اس کی مدد نہ کرے تو اسے کوئی پوچھ نہیں۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ نے خاص تلقین کی ہے کہ ‘ ولا تنسوا الفضل بینکم’ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تم کو بیوی پر ایک درجہ فضیلت دی ہے کبھی اس کو فراموش نہ کرنااور اپنے حقوق کو پورا کرنے کے معاملے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کرنا۔ اور اگر کوئی غلطی اور کوتاہی ہوتی ہے تو عفو و درگزر اور محبت و شفقت سے کام لینا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے جو نصیحت کی وہ عورتوں کے بارے میں کی۔ اور لوگوں کو خبردار کیا کہ ان کے بارے میں تم سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ولادت کے بعد جب تک خون کی آلایش باقی رہے ، اُس وقت تک نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ جس نوعیت کے پانی کا آپ نے ذکر کیا ہے اس سے غسل لازم نہیں ہوتا۔ پیدایش کے بعد بچوں کو چالیس دن تک گھر سے باہر نہ نکالا جائے ، یہ محض توہمات ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسا اور اعتماد کر کے اپنے بچوں کو باہر لے جائیے۔ یہ ہندوانہ نوعیت کے توہمات ہیں، جن کی وجہ سے لوگ اس طرح کرتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سنت قائم کی ہے، وہ یہ ہے کہ امام مختصر سی ایک تقریر کرے، اس کے بعد چند لمحوں کے لیے بیٹھ جائے پھر اٹھ کر ایک دوسری تقریر کرے جس میں حضور زیادہ تر دعائیں کرتے تھے۔ یہ کل چند منٹ کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں یہ سب کچھ عربی میں ہوتا ہے یعنی عربی زبان میں ایک لکھا لکھایا خطبہ لوگ پڑھ دیتے ہیں۔ اس سے پہلے آدھ پون گھنٹے کی ایک پوری تقریر ہوتی ہے۔ یہ یہاں برصغیر کی ایجاد ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہی خطبہ دینا چاہیے اور وہ اردو زبان میں دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خطبہ متوجہ الی الناس ہوتا ہے۔ اگر آدمی نے عربی میں کچھ پڑھنا ہے تو اس کو کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھنا چاہیے، ہماری طرف منہ کر کے کیوں کھڑا ہوتا ہے۔ ہماری طرف اگر آدمی منہ کر کے کھڑا ہوا ہے تو پھر اس کو اپنی مقامی زبان میں گفتگو کرنی چاہیے اور نصیحت کرنی چاہیے۔اس میں زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے کے جو چند کلمات ہیں، وہ ابتدا میں پڑھ لے۔ اردو میں جو پہلے تقریر کی جاتی ہے یہ بس تقریر ہے، اس کا جمعے کے خطبے کی سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ عربی کے دونوں خطبے ہی اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت ہیں۔ لیکن میرے خیال میں پاکستان میں وہ اردو میں ہونے چاہییں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:اسلام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ایسے کام عورت کی فطرت کے خلاف ہیں۔ اسلام نے صرف یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت کے اندر گھر بنانے ، گھر کو چلانے اور بچوں کی پرورش کرنے کے لیے غیر معمولی صلاحیت رکھی ہے۔عورت کی فطرت میں فلاں فلاں چیز نہیں رکھی، ایسی کوئی بات نہ قرآن میں ہے ، نہ حدیث میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بہت سارے کام کرتی رہی ہیں اور آج کے زمانے میں بھی کر رہی ہیں۔ ہمارے دیہاتی معاشرے میں ہمیشہ سے عورتیں مردوں کے ساتھ معاشی زندگی میں بالکل برابر کی شریک رہی ہیں۔ یہ اشرافیہ کی معاشرت ہے جس میں پالکیوں میں بیٹھ کر عورتیں نکلتی رہی ہیں۔ اس کا اسلام یا اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت اس شعبے میں کام کر سکتی ہے کہ جہاں اس کی عزت و عصمت محفوظ رہے اور جہاں کام کرنے کے لیے اس کو اپنادین قربان نہ کرنا پڑے۔بلکہ یہ بات تو مردوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ انہیں ہر وہ شعبہ ترک کر دینا چاہیے جہاں ان کادین او رآخرت محفوظ نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید نے لازم کیا ہے کہ کسی جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کا نام نہیں لیا جائے گا۔ تیسری بات یہ کہ جب آپ ذبح کر رہے ہیں تو اس طریقے سے ذبح کریں جو انبیا علیہم السلام نے بتایا ہے۔ اور وہ طریقہ یہ ہے کہ جانور کا خون اچھی طرح سے نکل جائے، اس کی فوری موت واقع نہ ہو۔ اور ذبح کرنے والا وہ ہونا چاہیے جو اصلاً توحید کو اپنا دین سمجھتا ہو۔ جو لوگ دینِ شرک کو اپنائے ہوئے ہیں ان کا ذبیحہ جائز نہیں ہے، خواہ وہ اللہ ہی کے نام پر کیوں نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میں آپ لوگوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح نبیوں کا انتخاب کیا ، اسی طرح صحابۂ کرام کا انتخاب کیا ہے۔ جس طرح پیغمبروں کو شہادت کے منصب پر فائز کیا، اُن کو بھی اسی طرح شہادت کے منصب پر فائز کیا۔ جس طرح پیغمبروں کے ذریعے سے اللہ کی حجت تمام ہوئی، اسی طرح ان کے ذریعے سے دنیا کی ساری اقوام پر حجت تمام ہوئی۔ اور بیعت رضوان کے صحابہ کے بارے میں تو قرآن یہ کہتا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا۔ اس وجہ سے اس معاملے میں بہت متنبہ رہنا چاہیے اور کبھی لغو روایات اور قصے اور کہانیوں کی بنیاد پر آرا قائم نہیں کرنی چاہیے۔ آج ہمارے پاس بے شمار ذرائع ہیں، میڈیا ہے، ٹیلی وژن ہے، ریڈیو ہے، اخبارات ہیں اور مواصلات کے دیگر ذرائع ہیں، جگہ جگہ کی خبریں پہنچ رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی ایک واقعے کے بارے میں دس طرح کی رپورٹس ہوتی ہیں اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ اسی زمانے میں ہوا ہے۔اس کے بارے میں کتنی آرا ہیں۔ بارہ اکتوبر کا واقعہ اسی ملک میں ہوا ہے، کوئی صحیح نتیجے تک پہنچ سکا۔ کارگل کا واقعہ اسی زمانے میں ہوا کیا صحیح بات معلوم ہوئی؟ آج یہ حال ہے تو آپ کاکیا خیال ہے کہ اتنے برسوں پہلے کا ایک واقعہ من وعن پہنچ گیا ہے ۔ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن مجید موجود ہے اور قرآن مجید اس طرح کے تمام واقعات کی لغویت کو بالکل واضح کر دیتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ کا مرتبہ، ان کا مقام بہت غیر معمولی ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں ‘ہو اجتباکم’ اللہ تعالیٰ نے ان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس میں ہر آدمی کو زبان کھولتے ہوئے اس کا خیال کرنا چاہیے۔ حدیبیہ میں کوئی نافرمانی نہیں کی گئی بلکہ لوگ ایک سراسیمگی کی کیفیت میں تھے اور پوری توجہ کے ساتھ سن ہی نہیں سکے۔ انھیں باور ہی نہیں آیاکہ کیا واقعی حضورﷺ نے یہ حکم دیا ہے۔ اسی وجہ سے جب ام المومنین نے حضورﷺ کو یہ بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں، لوگ آپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتے۔ آپﷺ جا کے قربانی کیجیے، دیکھئے لوگ فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے تو ایسا ہی ہوا۔ صحابہ کے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا میرے نزدیک آدمی کا شہد کی مکھی کے بجائے ، گندگی کی مکھی بن جانا ہے کہ وہ چیز کے روشن پہلو کو دیکھنے کے بجائے جہاں غلاظت ہو ،اُس پر بیٹھ جائے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اپنے والد کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔ انھوں نے اگر کوئی نماز جان بوجھ کر قضا کی ہے تو اس کی کوئی تلافی نہیں ہو سکتی، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کی جائے ۔ اگر ان کی کوئی نماز کسی غلطی فہمی یا کسی معذوری کی وجہ سے چھوٹ گئی ہے تو اُس پر اللہ مواخذہ نہیں کریں گے۔ آپ کو اِس معاملے میں متردد نہیں ہونا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ آیت شریعت کی ذمہ داری کو بیان کرتی ہے یعنی اللہ نے جو دین اور شریعت دی ہے اور اس کے لحاظ سے جو احکام دیے ہیں، ان میں اتنا ہی بوجھ ڈالا ہے جتنا لوگ اٹھا سکیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں ایک ہی نشانی بیان ہوئی ہے اور وہ یاجوج و ماجوج کا خروج ہے۔یاجو ج و ماجوج سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد ہے ۔ یہ دنیا کے اوپر غلبہ پا لیں گے اور پوری دنیا کے اندر گویا ایک فساد بن کر نکل کھڑے ہوں گے۔ اس کو قیامت کی نشانی بتایا گیا ہے۔ مستند حدیثوں میں جو نشانی بیان ہوئی ہے ،میرے نزدیک سب سے زیادہ قوی وہی ہے جو حدیثِ جبرئیل میں بیان ہوئی ہے کہ غلامی اپنے institution کے طور پر ختم ہو جائے گی اور یہ عرب کے چرواہے اتنی اتنی بڑی عمارتیں بنائیں گے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ تینوں نشانیاں پوری ہو چکی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا کی قبولیت کا ایک ضابطہ ہے۔ جب آپ دعا کے قبول ہونے کی شرائط پوری کر دیں گے ، تب دعا قبول ہو گی۔ مثال کے طور پر آپ گھر میں بیٹھ جائیں، دروازہ بند کر لیں اور کہیں کہ پروردگار رزق عطا فرما، رزق عطا فرما ۔ یہ وہ بات ہے جس پر سیدنا مسیح علیہ السلام نے شیطان کو ڈانٹا تھا ۔ شیطان نے کہا کہ مسیح تمہیں اللہ تعالیٰ پر بڑا اعتماد ہے، ذرا یہ پہاڑ کے اوپر چڑھ جاؤ اور اپنے آپ کو گرا دو پھر دیکھو تمہارا خدا تم کو بچا لیتا ہے یا نہیں؟ حضرت مسیح نے کہا کہ دور ہو مردود۔ مجھے خدا نے آزمانا ہے میرا کام خدا کو آزمانا نہیں۔ اس لیے خدا کو آزمانا آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ اپنی ذمہ داریاں پوری کیجیے اور اس کے بعد اللہ سے دعا کیجیے پھر وہ اس کو قبول فرماتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قوم کے اجتماعی ضمیر کو بیدار کرنے کا بنیادی طریقہ تعلیم ہے۔تعلیم سے مراد صرف formal تعلیم نہیں ہوتی ۔ بچوں کی تعلیم کا اہتمام کیجیے، قوم کو عمومی طور پر educate کیجیے۔ سیمینار کیجیے، مذاکرے کیجیے، رسائل نکالیے۔ یہی طریقے ہیں جو دنیا میں عام ہوئے ہیں اور اب تو بہت ذرائع پیدا ہو گئے ہیں۔ انٹرنیٹ کی غیر معمولی سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ بہت سے چینلز وجود میں آ گئے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر جن لوگوں کو اپنی قوم کو بیدار کرنے کے لیے کچھ داعیہ محسوس ہوتا ہے ، وہ لوگ اپنے سب کے سب وسائل مجتمع کر کے ان چیزوں پر لگا دیں اور ان بے ہودگیوں میں نہ پڑیں جن میں وہ پڑے ہوئے ہیں تو اس قوم کے ضمیر کو بیدار کرنے کی جد و جہد کی جا سکتی ہے۔ لیکن پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ دیکھیں کہ کیا چیزیں ہیں جو قوم کو بتانی ہیں۔ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ ہر آدمی تشدد، مذہبی منافرت، فرقہ بندی، دوسروں پر چڑھ دوڑنے، خواب دیکھنے ، بغیر تیاری کے دنیا پر پِل پڑھنے کی تعلیم دے رہا ہے۔ پہلے آپ حقیقت پسندانہ طریقے سے یہ طے کیجیے کہ قوم کو بتانا کیا ہے؟ جب وہ باتیں آپ طے کر لیں تو اس کے بعد پھر بتانے کے ذرائع بہت ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عدت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس دوران میں ایک خاتون کو سوگ کی کیفیت میں رہنا ہے اور اس کو کسی سے نکاح نہیں کرنا۔ اگر کسی عورت کو ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ باہر جا سکتی ہے۔ جس چیز کو دین نے نا پسند کیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسی سرگرمی اُس کو نہیں کرنی چاہیے ، جس میں اُس پر کسی تہمت لگنے کا اندیشہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی ایک دعا ہے اور کچھ نہیں ہے۔ آپ کو اگر کوئی فیصلہ کرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے آپ خیر کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے ساتھ جو قصے کہانیاں وابستہ ہیں، یہ محض افسانہ طرازی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے پاس انبیا علیہم السلام کا دین ہے اور انبیا علیہم السلام کے دین میں ہم کو دنیا کے اندر رہ کر آخرت کی کھیتی کاٹنا ہے۔ اس لیے آپ دنیا کو چھوڑ نہیں سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارے دین میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔ ہم کو بیوی بچوں کے ساتھ رہنا ہے، زندگی کے معاملات انجام دینے ہیں اور اس میں رہتے ہوئے اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اکٹھے خرچ میں تو مساوات بیگانوں میں بھی نہیں ہوسکتی، ایک گھر میں کس طرح ہوگی؟ مثلاً سفر میں دو شخص اپنا خرچ ایک جگہ کریں تو ضرور کمی بیشی ہوگی۔ ایک وقت ایک کو بھوک پیاس نہیں ہوتی تو اس کی خاطردوسرا بھوکا نہیں رہ سکتا، کبھی ایک شخص ایک روٹی کھاتا ہے تو دوسرا دو یا تین کھا جاتا ہے۔ اسی طرح بیماری وغیرہ میں بھی پیسے کم وبیش خرچ ہوتے ہیں، سب سے احتیاط والی چیز یتیموں کا مال ہے، جس کے متعلق قرآن مجید میں سخت وعید بھی آئی ہے کہ جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ ڈالتے ہیں۔ اسی وجہ سے صحابہؓ نے یتیموں کا کھانا دانہ الگ کردیا مگر جب اس کا نبھانا مشکل ہوگیا تو ارشاد خداوندی ہوا:

وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (البقرہ: ۲۰۰) ‘‘یعنی اگر ان کو اپنے ساتھ ملا لو تو تمہارے بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادی اور مصلح کو خوب پہچانتا ہے’’۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اکٹھے خرچ میں مساوات کی کوئی صورت نہیں بلکہ ہر ایک کی ضرورت کے بقدر خرچ ہوتا ہے۔ کوئی کھانا زیادہ کھاتا ہے، کوئی کم اور کسی کے وجود پر کپڑے کا خرچ کم ہوتا ہے تو کسی کے وجود پر زیادہ، کیونکہ ان کے قدوقامت بھی برابر نہیں ہوتے۔ کسی کا وجود کمزور ہے، اس کو سردی میں زیادہ گرم کپڑے کی ضرورت ہے تو کسی کو ہلکا کافی ہے۔ کسی کے وجود پر کپڑا جلدی پھٹتا ہے اور وہ سال بھر میں کئی جوڑے چاہتا ہے، کوئی کم، بالخصوص لڑکیوں کے کپڑوں پر زیادہ خرچ ہوتا ہے بلکہ ساتھ ان کے زیور کا خرچ بھی ہے۔

جیساکہ قرآن مجید میں بھی ہے: اَوَمَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَۃِ (الزخرف:۱۸) ‘‘لڑکیوں کی پرورش زیورات میں ہوتی ہے’’۔ پھر بیماریوں وغیرہ کے موقع پر دواؤں اور حکیموں، ڈاکٹروں کی فیسوں میں ایک انداز پر خرچ نہیں ہوتا۔ اس طرح بیاہ شادی پر مختلف خرچ ہوتا ہے۔ اس طرح لڑکیوں کی شادی میں ایک قسم کے لڑکے نہیں ملتے اور نہ لڑکیاں ایک صفت، ایک لیاقت کی ہوتی ہیں تو پھر خرچ میں برابری کی کیا صورت ہے؟ اس طرح اولاد کی تربیت میں بھی تفاوت ہوتا ہے۔ ان کی لیاقت، استعداد اور ذہانت و طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ کسی کو طبابت، ڈاکٹری، کسی کو انجینئرنگ، کسی کو تجارت اور کسی کو عالمِ دین بنا کر خادمِ اسلام بنا دیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو بھی ان کے حسب ِ حال تعلیم دی جاتی ہے تو ان کے خرچ و اخراجات برابر کس طرح ہوسکتے ہیں؟

یہی صورت حال بیویوں کے بارے میں بھی ہے کہ ان میں بھی برابری کا حکم ہے مگر اس قسم کے اُمور میں ان کے درمیان بھی تفاوت ہوجاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے مہر مختلف تھے، ولیمے مختلف اور ان سے بات چیت مختلف تھی۔ ایک مرتبہ رسولؐ اللہ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کو سفر میں ساتھ لے گئے مگر رات کو اپنی سواری حضرت عائشہؓ کی سواری کے ساتھ رکھتے اور انہی سے بات چیت کرتے۔ حضرت حفصہؓ کو اس بات سے بڑی غیرت محسوس ہوئی۔ چنانچہ یہ لمبا قصہ صحیح بخاری میں باب القرعۃ بین النساء اذا أرادا سفرًا میں موجود ہے۔ اس طرح محبت میں بھی برابری نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ اختیاری شے نہیں بلکہ طبعی ہے۔ ایسے ہی جب تک طبعی میلان نہ ہو، مباشرت وغیرہ بھی نہیں ہوسکتی۔ البتہ ہرگھر میں باری باری جانا اختیاری شے ہے، اس لیے رسولؐ اللہ باری تقسیم کرنے کے بعد فرماتے: اللھم ھذہ قسمتی فیما أملک فلا تلمنی فیما تملک ولا أملک (ترمذی: ۱۱۴۰) ‘‘یااللہ! یہ میری تقسیم ہے، اس شے میں جس کا میں اختیار رکھتا ہوں، پس جس کا تو اختیار رکھتا ہے اور میں نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ فرما’’۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حوائجِ ضروریات اور تربیت میں برابری ناممکن ہے بلکہ ان میں وہی یتیموں والا اصول مدنظر رکھنا چاہیے یعنی وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (البقرہ:۲۲۰) ‘‘خدا مفسد کو اصلاح کرنے والے سے جانتا ہے’’۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے ہر ایک کی اصلاح اور بھلائی کی کوشش ہونی چاہیے، آگے ان کے اور والدین کے حسب ِ حال کسی بات میں تفاوت ہوجائے تو اس پر مؤاخذہ نہیں۔ البتہ حوائج اور ضروریات کے علاوہ زائد عطیہ میں ضرور برابری چاہیے۔ چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث میں جو نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ:

سألت أمی أبی بعض الموھبۃ من مالہ ، ثم بدا لہ موھبھا لی فقالت: لا أرضی حتٰی تشھد النبی فأخذ بیدی وأنا غلام فأتی بی النبی فقال: ان أمہ بنت رواحۃ سألتنی بعض الموھبۃ لھذا قال: ألک ولد سواہ؟ قال: نعم قال: فأراہ قال: لا أشھد علی جور (بخاری: ۲۶۵۰، مسلم: ۱۶۲۳)

آپ کے فرمان لا أشھد علی جُور ‘‘یعنی میں ظلم پر شہادت نہیں دیتا’’ میں اسی قسم کے عطیہ کا ذکر ہے اور ایک حدیث میں تصریح آتی ہے کہ سوّوا بین اولادکم فی العطیۃ (بیہقی:۶؍۱۷۷) چنانچہ فتح الباری کے حوالہ سے اس کا ذکر آگے آتا ہے، یعنی ضروریات کے علاوہ کوئی عطیہ دینا ہو تو اس میں برابری ضروری ہے۔ اسی بنا پر علما نے لکھا ہے کہ اگر کوئی سبب ایسا پیدا ہوجائے جس سے بعض اولاد کو عطیہ دینا پڑے تو اس صورت میں بعض کو دینے میں بھی کوئی حرج نہیں، مثلاً کوئی دائم المرض یا مقروض ہو تو اس صورت میں ان کو خاص بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری (۱۰؍۵۴۶) میں اس کی تصریح کی ہے اور علامہ شوکانیؒ نے نیل الاوطار (۵؍۲۴۲) میں بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ درحقیقت عطیہ نہیں بلکہ اولاد کی ضروریات میں داخل ہے کیونکہ دائم المرض اور مقروض ہونا ایک بڑی ضرورت اور مجبوری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضروریات تو کجا، اس عطیہ میں بھی برابری نہیں جو ضروریات میں داخل ہو۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: عطیہ میں بیٹے بیٹیوں میں برابری کا حکم ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حدیث میں لا أشھد علی جور فرمایا ہے، اس میں یہ بھی ہے: أکل ولدک نحلت مثلہ (صحیح مسلم: ۱۶۲۳) یعنی نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں: جب میرے والد نے مجھے ایک غلام ہبہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ بنانا چاہا تو آپؐ نے فرمایا: کیا اپنی تمام اولاد کو تو نے اس کے مثل ہبہ کیا ہے؟’’ میرے والد نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: اس ہبہ سے رجوع کرلے اور ایک روایت میں ہے کہ کیا تو نے اپنی باقی اولاد کو بھی اس کی مثل دیا ہے؟ کہا: نہیں، تو فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اولاد میں عدل کرو۔ ان الفاظ ‘‘اس کے مثل ہبہ کیا ہے یا اس کی مثل دیا ہے؟’’ سے معلوم ہوتا کہ اس بارے میں ذکور وأناث میں کوئی فرق نہیں کیونکہ اولاد کا لفظ لڑکے اور لڑکیوں سب کو شامل ہے اور اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:

قال: ‘‘أیسرک أن یکونوا الیک فی البرّ سواء’’ قال: بلی قال: ‘‘فلا اذًا’’

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تیری اولاد تیرے ساتھ برابر نیکی کرے؟ کہا: ہاں، تو آپؐ نے فرمایا: پس میں اس ہبہ پر گواہ نہیں بن سکتا’’۔ (ایضاً)

ان الفاظ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ تحفہ/ہبہ وغیرہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق نہیں، کیونکہ عموماً والدین چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد ہمارے ساتھ برابر نیکی کرے، خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ اس بارے میں لڑکے اور لڑکیوں میں برابری کی جائے۔ مذکورہ حدیث کی بعض روایتوں میں اگرچہ اولاد کے عام لفظ کی جگہ بیٹوں کا لفظ بھی آیا ہے مگر حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری (۱۰؍۵۳۹) میں کہا ہے کہ اگر صرف لڑکے ہی ہوں اور اگر لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں تو پھر لڑکوں کا ذکر محض غلبہ کی بنا پر ہے، اس کے بعد حافظ ابن حجرؒ نے بحوالہ ابن سعدؒ، نعمانؓ کے والد کی ایک بیٹی کا بھی تذکرہ ہے جس کا نام اُبیہ ہے جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جن روایتوں میں لڑکوں کا ذکر ہے وہ محض غلبہ و اکثریت کی بنا پر ہے جیسے والد اور والدہ، دونوں کو والدین ہی کہہ دیتے ہیں اور حافظ ابن حجرؒ نے یہ بھی کہا ہے کہ حدیث میں تسویہ (برابری کرنے کا حکم) اسی امر کی طرف شہادت دیتا کہ لڑکے لڑکیوں میں فرق نہیں، پھر اس کی تائید میں ایک روایت بھی ذکر کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: سووا بین أولادکم فی العطیۃ فلو کنت مفضلا أحدا لفضلت النساء (بیہقی: ۶؍۱۷۷) یعنی ‘‘اولاد کو عطیہ دینے میں برابری کرو۔ پس اگر علامہ شوکانی نے نیل الاوطار (۵؍۲۴۲) میں سعید بن یوسف نامی راوی ضعیف بتایا ہے مگر حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں: واسنادہ حسن ، یعنی اس کی اسناد حسن ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی ضعف ہوگا جس سے حدیث صحت کے درجہ سے نکل کر حسن کے درجہ کو پہنچ گئی، مثلاً حافظہ میں معمولی نقص ہوگا وغیرہ۔ بہرصورت اس حدیث سے تائید ضرور ہوتی ہے۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ عطیہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں برابری کی جائے۔

نوٹ: اس حدیث سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ اولاد میں ضروریات اور حوائج کے اندر برابری کا حکم نہیں بلکہ عطیہ میں برابری کا حکم ہے، جیساکہ اُوپر تحقیق ہوچکی ہے کیونکہ اس حدیث میں صراحت موجود ہے کہ اولاد میں عطیہ کے اندر برابری کرو۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: صورتِ مسؤلہ میں بیوی کی عدت پوری ہوچکی ہے، اس لیے اب وہ بیوی نہیں رہی۔ اب اس کا کوئی حق نہیں اور بیٹا مشرک ہے اور مشرک کافر ہے اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔ البتہ لڑکی وارث ہوسکتی ہے، اگرچہ اس کو دو ہزار روپیہ دے کر الگ کردیا ہے لیکن اس سے اس کی وراثت کا حق منقطع نہیں ہوتا کیونکہ وراثت موت کے وقت ہوتی ہے، اگر موت کے وقت زید کے پاس کچھ مال ہوگا تو لڑکی وارث ہوگی اور اگر موت سے پہلے صحت اور تندرستی میں زید سارا مال کسی ادارہ وغیرہ کو دے دے تو اس صورت میں لڑکی کا کوئی حق نہیں کیونکہ اس کی زید کو شرعاً اجازت ہے جیسے مشہور ہے کہ حضرت عمرؓ نے فی سبیل اللہ نصف مال دیا اور حضرت ابوبکرؓ نے سارا مال دیا۔ رہا بیماری میں دینا تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ بیماری لمبی ہو جس میں موت کا واقع ہونا کم ہوتا ہے، جیسے دمہ، کھانسی، بواسیر وغیرہ جو عمربھر ساتھ رہتی ہیں اور کچھ علاج معالجہ سے صحت بھی ہوجاتی ہے تو ایسا بیمار تندرست کے حکم میں ہی ہے کیونکہ عموماً انسان تھوڑا بہت بیمار رہتا ہی ہے، جیساکہ حضرت ابوبکرؓ اس زہر سے فوت ہوئے جو ہجرت کے موقعہ پر غارِ ثور میں کسی شے کے کاٹنے سے جسم میں سرایت کرگیا تھا۔ اسی طرح رسولؐ اللہ اسی زہر سے فوت ہوئے جو ۷ہجری میں خیبر کے موقع پر یہود نے دعوت کے بہانے سے بکری کے گوشت میں آپ کو کھلا دیا تھا۔ آپؐ کے تالو کا گوشت جس کو پنجابی میں ‘کامی’ کہتے ہیں، اس زہر کے اثر سے سیاہ پڑ گئی تھا۔ حضرت عائشہؓ کو آپؐ نے فرمایا کہ ہمیشہ مجھے اس سے دکھ رہتا ہے اور وفات کے وقت فرمایا کہ اب اس زہر کے اثر سے میری شہ رگ کٹ گئی ہے۔ اس قسم کے واقعات سے ثابت ہوا کہ لمبی بیماری تندرستی کے حکم میں ہے، ورنہ نہ حضرت ابوبکرؓ سارا مال دیتے اور نہ رسولؐ اللہ قبول فرماتے۔

اور اگر خطرناک بیماری ہو جس میں عموماً موت واقع ہوتی ہے تو اس کی پھر دو حالتیں ہیں ایک یہ کہ اس کے بعد صحت ہوجائے تو اس بیماری کے اندر تصرفات تندرستی والا ہی حکم رکھتے ہیں اور اگر اس بیماری میں موت واقع ہوگئی تو یہ مرض الموت ہے۔ چنانچہ تلخیص الحبیر اور مُحلّی ابن حزم وغیرہ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عائشہؓ کو باغ کی کھجوریں ہبہ کیں۔ حضرت عائشہؓ سے کسی وجہ سے کاٹنے میں دیر ہوگئی۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکرؓ مرض الموت سے بیمار ہوگئے جس میں موت کے آثار ظاہر ہوگئے، چونکہ ہبہ میں قبضہ شرط ہے اور بغیر قبضہ کے ہبہ نہیں ہوتا اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اے بیٹی! اگر تو میری بیماری سے پہلے قبضہ کرلیتی تو یہ تیری چیز ہوجاتی۔ اب یہ مال وارث کا ہے یعنی دوسرے وارثوں کی طرح ہی تجھے اس سے حصہ ملے گا، اب یہ ہبہ نہیں رہا اور اس کو وصیت اس لیے نہیں بنایا کہ وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔ خلاصہ یہ کہ صورتِ مسؤلہ میں دیکھنا چاہیے کہ بیماری کس قسم کی ہے، سو اسی کے مطابق فیصلہ ہوگا۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: ہندہ بقائمی ہوش و حواس صحت و تندرستی میں ہر ایک کو ہبہ کرسکتی ہے، صرف اولاد میں برابری کا حکم آیا ہے، دوسرے ورثا کے متعلق رسول اللہﷺ نے کچھ نہیں فرمایا۔ ہاں مرضِ موت میں اس کی اجازت نہیں کیونکہ مرضِ موت کا ہبہ درحقیقت وصیت ہے، ایسے ہی حدیث میں ہے کہ لاوصیۃ لوارث، یعنی وارث کے لیے وصیت نہیں۔ (ترمذی:۲۱۲۰)

ہندہ کا ہبہ مذکورہ تکمیل کو نہیں پہنچا کیونکہ ہبہ میں موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیا ہے) کا قبضہ شرط ہے جو ہبہ مذکورہ میں نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عائشہؓ کو کچھ ہبہ کیا، مگر حضرت عائشہ نے اس پر قبضہ نہ کیا، اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ بیمار ہوگئے، موت کے آثار نمودار ہوئے تو فرمایا: اے عائشہؓ! تو نے قبضہ نہیں کیا۔ اب یہ مال ترکہ میں شامل ہے اور اس میں تجھے کوئی خصوصیت حاصل نہیں۔ یہ روایت تلخیص الحبیر کتاب الہبہ میں مذکور ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہندہ کا ہبہ مکمل نہیں، اس لیے دیگر ورثاء بھی اس میں حصہ دار ہیں۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

سوال: زید کا ایک بیٹا بکر اور تین بیٹیاں ہندہ، کلثوم اورخدیجہ ہیں۔ زید اپنے لڑکے بکر کے ساتھ رہتا ہے۔ بیٹے بکر نے اپنی بہنوں اور اپنی بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنے کی غرض سے اپنے باپ زید پر ناجائز دباؤ ڈال کر کل جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ کو اپنے بیٹوں کے نام سے ہبہ بلامعاوضہ کرا لیا جس کو تقریباً آٹھ نو سال گزر گئے۔ لیکن عملاً زید اسی مکان میں بودوباش رکھتا ہے اور اس نے کبھی مکان کا تخلیہ کر کے اسے خالی نہیں کرایا۔ چند روز ہوئے کہ زید فوت ہوگیا اور اس کے وارث مذکورہ تینوں لڑکیاں اور ایک لڑکا بکر ہے۔ ہندہ نے جب اپنے بھائی بکر سے ترکہ طلب کیا تو بکر نے جواب دیا کہ والد کی جو کچھ جائیداد تھی، خود ان کے حین حیات میں ہبہ ہوچکی ہے، البتہ انہوں نے کچھ ذاتی رقم خرچ کے لیے علیحدہ رکھی ہوئی تھی، ان میں سے جو کچھ بچا ہوگا، اس میں سے تم کو حصہ مل جائے گا، سوال یہ ہے کہ:

۱- ایسا ہبہ جس سے ورثاء شرعی محروم ہوں اور وہ غیروارث کو مل جائے، کیا جائز ہے یا نہیں؟

۲- آیا بیٹیوں کو اپنے باپ کی وراثت میں سے حصہ ملے گا یا نہیں اور یہ حضرت نعمان بن بشیرؓ کے واقعہ أکل أولادک نحلت (کیا تم نے تمام اولاد کو ایسا ہی تحفہ دیا ہے؟) کے ضمن میں داخل ہے یا نہیں؟

۳- ہبہ بلاقبضہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: نعمان بن بشیرؓ کی حدیث میں صراحت ہے کہ اولاد میں عدل کرو۔ پس کسی ایک کے نام جائیداد کر دینا، چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا ہو، یہ امرحدیث کے خلاف ہے۔ زید کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ تمام جائیداد بکر کے نام کرتا اور اب بکر کو بھی اجازت نہیں کہ وہ اس جائیداد پر قبضہ کرے۔ تلخیص الحبیر میں ہے:

ان أبابکر نحل عائشۃ جذاذ عشرین وسقا فلما مرض قال ودِدت أنک حزیتیۃ أو قبضتیہ وانما ھو الیوم مال الوارث، مالک فی الموطاء عن شھاب بن عروۃ عن عائشۃ بہ وأتم منہ رواہ البیھقی من طریق ابن وھب عن مالک وغیرہ عن ابن شھاب عن حنظلۃ بن أبی سفیان عن القاسم بن محمد نحوہ وقد روی الحاکم أن النبیؐ أھدی الی النجاشی ثم قال لأم سلمۃ انی لأری النجاشی قد مات ولأری الھدیۃ التی أہدیت الیہ الا ستردد فاذا رددت الی فھی لک فکان کذلک…… الحدیث (رقم: ۱۳۲۸، ۱۳۲۹)

‘‘حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عائشہؓ کو اسّی من کھجور ہبہ کی۔ جب آپؓ بیمار ہوگئے تو فرمایا: میں چاہتا تھا کہ تو کھجوروں کو اپنے قبضہ میں کرلیتی کیونکہ آج وہ وارث کا مال ہے۔ امام مالکؒ نے اس کو موطأ میں روایت کیا ہے اور امام بیہقی ؒ نے بھی اس کو بطریق وہب، امام مالک وغیرہ سے روایت کیا ہے اور حاکمؒ نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کو ایک تحفہ بھیجا۔ پھر اُم سلمہؓ کو کہا: میں دیکھتا ہوں کہ نجاشی فوت ہوگیا ہے اور جو تحفہ میں نے اس کو بھیجا تھا، وہ ضرور لوٹا دیا جائے گا۔ پس جب وہ واپس آئے گا تو وہ تیرے لیے ہے، چنانچہ اسی طرح ہوا’’۔

ان دونوں روایتوں سے ثابت ہوا کہ ہبہ میں قبضہ ضروری ہے۔ اگر صرف ہبہ کردینے سے ہبہ مکمل ہوجاتا تو حضرت ابوبکرؓ حضرت عائشہؓ کو یہ نہ کہتے کہ ‘‘آج وہ مال وارث کا ہے’’۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُم سلمہؓ کو یہ کہتے کہ ‘‘جب واپس آئے تو وہ تیرے لیے ہے’’۔ بلکہ اس کے حق دار نجاشی کے ورثا ہوتے۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: اولاد میں سے بعض کو دینا اور بعض کو نہ دینا یہ شرعاً ناجائز، جیساکہ نعمان بن بشیرؓ والی مشہور حدیث اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔ البتہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کو کچھ ہبہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ پوتے شرعاً وراثت سے محروم ہیں۔ پس پوتوں کو جو دادا نے دیا ہے، وہی ان کا حق ہے۔ بعض بیٹوں کا ہبہ بغیر دوسرے کی رضامندی کے صحیح نہیں۔ پس جو کچھ باپ دے گیا، وہ بھی ترکہ میں شامل کرکے بدستور ترکہ /قبضہ تقسیم ہونا چاہیے۔

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

جواب: ایسا معاف کرنا دراصل ہبہ کی قسم سے ہے، اس کے خریدنے میں بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ کسی حدیث میں مجھے ہبہ کے خریدنے سے ممانعت تو یاد نہیں پڑتی، ویسے بغیر خریدنے کے رجوع کی ممانعت آئی ہے، البتہ اگر معاف کرنے والے نے اپنے بھائی پر صدقہ کی نیت کی تھی تو اسے خریدنا منع ہے۔ جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرؓ کو منع کرتے ہوئے فرمایا:

لَا تشترِہ وَ ان اعطاکہُ بدرھمٍ واحدٍ فانَّ العائِدَ فِی صدَقتہِ کالکلبِ یَعُودُ فِی قیئِہِ (صحیح بخاری: ۲۶۳۲، صحیح مسلم: ۴۱۳۹) ‘‘اگر وہ تمہیں یہ گھوڑا ایک درہم کے عوض بھی دے، تب بھی مت خریدنا کیونکہ صدقہ کرکے اسے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے اور پھر خود ہی اسے چاٹ لیتا ہے’’۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ۳؍۸۴)

( حافظ عبداللہ محدثؒ روپڑی)

ج: اس میں شریعت نے قانون سازی نہیں کی لیکن ادب کاتقاضا یہی ہے کہ آپ چاہیں تو پانی میں بہا دیں چاہیں تو جلا دیں تاکہ بے حرمتی نہ ہو ، یہ آداب کی چیز ہے ، شریعت نے کوئی پابند نہیں کیا

(جاوید احمد غامدی)

ج: عام معاشرتی تعلقات میں جو دوستی ہوتی ہے وہ آپ کسی بھی انسان سے کر سکتے ہیں ، اس پر اللہ تعالی نے کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن وہ دوستی جو اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہو وہ کسی غیر مسلم سے نہیں کرنی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وہ لوگ جو اللہ کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتے ہیں او رجان بوجھ کر حق کا انکار کرتے ہیں ، ان کے لیے ابدی ہوگی باقی کے لیے نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں ہمیشہ محققین کی ضرورت رہے گی ، یہ ایک زندہ دین ہے اس میں ہمیشہ تحقیق ہوتی رہتی ہے اور نئے مسائل پیش آتے رہتے ہیں تو ان میں رائے بھی قائم کرنا ہوتی ہے ۔اللہ کی کتاب پر بھی لوگ غور کرتے رہتے ہیں، جب تک اللہ نے یہ دنیا قائم رکھی ہوئی ہے ، محققین پیدا ہوتے رہیں گے اس میں پانچ دس سال کاکوئی سوال نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: محقق پیدا ہوتے ہیں ، بنائے نہیں جا سکتے البتہ تربیت کر کے ان کو بہتر کیا جا سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ذکر تو بیشک قرآن میں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی قرآن نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ کھلی آنکھوں سے جو آسمان آپ دیکھتے ہیں یہ ایک آسمان ہے ، باقی چھ ماورا کہیں اور ہیں، تفصیل ہم کو معلوم نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیویوں پر تادیب کا اختیار نہیں ہے بلکہ ان خواتین پر ہے کہ جو بیوی بن کررہنے سے انکار کر دیں۔ یعنی بیوی جب تک بیوی کی حیثیت سے رہے اس وقت تک آپ کو کوئی اختیار نہیں۔ قرآن نے یہ کہا ہے کہ جب وہ نشوز اختیار کریں یعنی گھر کے نظام ہی سے بغاوت کر دیں ، شوہر کو شوہر ماننے سے ہی انکار کر دیں اور جو بیوی کے تقاضے ہوتے ہیں ان کو پورا کرنے سے انحراف کریں۔ اس موقع پر قرآن نے معاملات کو درست کرنے کے لیے ایک بڑی ہی جامع ہدایت دی ہے ۔ ایک طریقہ تو علیحدگی کا ہوتا ہے لیکن یہ کوئی آسان نہیں ہوتا ، بچے ہوتے ہیں اور بسا اوقات خاندان برباد ہوجاتے ہیں ۔ قرآن نے کہا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک نصیحت کرو تاکہ یہ انحراف اور بغاوت ختم ہوجائے ۔ پھر فرمایا کہ اگر اس سے بھی بات نہیں بنتی اور بیوی گھر اور گھر کے تقدس کو پامال کر رہی ہے بغاوت کر رہی ہے تو واھجروھن فی المضاجع، پھر ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دو، ہو سکتا ہے یہ چیز ہی ان کی اصلاح کا باعث بن جائے ۔ جب اس میں بھی کچھ عرصہ گزر جائے ا ور محسوس ہو کہ یہ بھی اصلاح کا باعث نہیں بنی تو پھر اس کے بعد ان پر ہاتھ اٹھا سکتے ہو ، یہ ہے تادیب کا اختیار۔ اگر یہ نہ ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ پھر گھر کو برباد ہونے سے بچانے کا کون سا طریقہ ہے۔ جو آدمی اپنے ذوق کے لحاظ سے یہ اختیار کرنا نہیں چاہتا وہ پھر رخصت کر دے اور نتائج بھگتے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کے لیے یہ سزا تجویز فرمائی تھی اور یہ ان پر لاگو ہو گئی ۔ا س کے بارے میں دونوں باتیں ممکن ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی کہ ان کی شکل مسخ ہو گئی اور یہ بھی کہ وہ اپنے وجود میں اندر سے بالکل جانور ہو کر رہ گئے ۔ میرا رحجان یہی ہے کہ وہ physically تبدیل ہو گئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: احناف یہ کہتے ہیں کہ جب تک سایہ آدمی کے قد کے دگنے (دومثل )کے برابر نہیں ہوجاتا ، نماز کا وقت شروع نہیں ہوتا۔ اہلحدیث کہتے ہیں کہ جب سایہ ایک آدمی کے قد کے برابر ہو جائے یعنی ایک مثل ہو جائے تو وقت شروع ہو جاتا ہے اس طرح کے معاملات میں جہاں اجتہاد کااختلاف ہوتا ہے ، اللہ تعالی انسان کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کی رائے صحیح ہو لیکن میرا رحجان یہ ہے کہ جس وقت سورج غروب کی طرف مائل ہونا شروع ہو جائے ، عصر کا وقت شروع ہوتا ہے ۔ یعنی اہل حدیث حضرات سے ذرا بعد میں اور احناف سے ذرا پہلے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر صبح اٹھنے کا امکان نہیں تو پھر وتر کو ترجیح دینی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہر چیز کو تعمیم میں نہیں لینا چاہیے ۔ عام طور پر اللہ کا طریقہ یہی ہے ،البتہ وہ قادر مطلق ہے ۔ کبھی کبھی وہ اپنی حکمت کے مطابق سارے اسباب کے خلاف بھی فیصلہ فرما دیتے ہیں ۔

(محمد صدیق بخاری)

ج: جب تک شفق غائب نہیں ہو جاتی۔یہ وقت اندازاً ایک گھنٹے کے قریب ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اشرف المخلوقات کی بات افسانہ ہے ، قرآن نے یہ بات نہیں کی ۔ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے انسانوں کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ہے یعنی یہ نہیں کہ سب مخلوقات پر فضیلت دی ہے ۔ یہ نہ قرآن کا موقف ہے اور نہ پیغمبر ﷺکی بات ہے ،یہ لوگوں کی بات ہے ۔قرآن کا بیان صرف اتنا ہے کہ فضلنا علی کثیر ممن الخلق یعنی ہم نے اپنی بہت سی مخلوقات پر انسان کو فضیلت دی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کا سوال غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ اسلام میں عورتوں اور مردوں کے درمیان کوئی مطلق فضیلت کا تصور نہیں ۔نہ مرد کو عورت پر مطلق فضیلت دی گئی ہے نہ عورت کو مرد پر بلکہ اللہ تعالی نے اپنا یہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی فضلنا بعضھم علی بعض ۔ اللہ تعالی نے کچھ معاملات میں عورتوں کو اور کچھ میں مردوں کو غیر معمولی صلاحیتیں دی ہیں۔ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ گھر کا نظم و نسق چلانے کے لیے مرد کا ایک درجہ برتر ہو گا جیسے باپ کا بیٹے پرہوتا ہے تاکہ گھر کا نظم و نسق چلتا رہے ۔ گویا فضیلت ہے بیوی پر ایک درجہ ،شوہر کو، نہ کہ سارے مردوں کو ساری عورتوں پر۔جیسے اولاد پر ایک درجہ باپ کو اور ماں کو فضیلت ہوتی ہے۔یہ گھر کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک انتظامی فضیلت ہے، یہ کوئی نسلی فضیلت نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ اس ضمن میں جو روایتیں بیان کی جاتی ہیں وہ بالکل ضعیف ہیں ، ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں ۔ قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں، وہ لیلتہ القدر کے بارے میں ہے ۔ اسلام میں فضیلت کی رات لیلتہ القدر ہے جو کہ رمضان میں ہوتی ہے ۔ شب برات کے بارے میں جتنی چیزیں ہیں وہ بہت کمزور ہیں اور زیادہ تر لوگوں نے ان کو تہوار بنانے کے لیے اہمیت دے ڈالی ہے ورنہ دین میں اس رات میں عبادت یا اس طرح کی چیز کا کسی مستند ذریعہ سے کوئی سراغ نہیں ملتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کی خدمت کے لیے جو جماعتیں کام کر رہی ہیں ان میں سے جس پر بھی آپ کا اطمینان ہو یا جو آپ کے ذوق کے مطابق ہو،آپ اس کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔اگر آپ کو اطمینان نہیں تو آپ تنہا بھی حسب حیثیت دین کی خدمت کر سکتے ہیں، جماعت یا تنظیم میں شامل ہونا لازم نہیں۔لیکن خیال رہے جماعت یا تنظیم جس طرح لاز م نہیں اس طرح ممنوع بھی نہیں۔ آپ دین کی خدمت کتنی اور کس طرح کر سکتے ہیں،یہ آپ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ میں نے اپنے لیے الگ سیٹ اپ اس لیے بنایا کہ جو تنظیمیں اس وقت کام کر رہی ہیں میں محسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے جو میدان منتخب کیے ہیں، وہ میرے ذوق کے میدان نہیں ۔ میرا ذوق علم ، تحقیق اور دعوت کا ہے اور یہ چیز بہت حد تک عنقا ہو چکی ہے ۔عام طور پر سیاست کا غلبہ ہے ، اس وجہ سے میں نے اپنے آپ کو ان سے الگ ہی رکھا ہوا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس آیت کے مخاطب صحابہ کرامؓ ہیں ، آیت کو پڑھیے اسی سے واضح ہو جائے گا ۔ اس میں صحابہ کو یہ بتایا گیاہے کہ تم ایک درمیانی امت ہو ، ایک طرف رسولﷺ ہیں جنہوں نے تم پر خدا کی گواہی دی ہے اور ایک طرف دنیاکی قومیں ہیں اور درمیان میں تم کھڑے ہو تو خودآیت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ کے رسول انسانی طبیعت کے لحاظ سے کوئی نیا حکم لے کر نہیں آئے بلکہ تمدن کی تبدیلی کے لحاظ سے قوانین میں کچھ تبدیلی کرنا پڑتی ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک زمانے میں لوگوں کی معیشت زیادہ تر گلہ بانی پر مشتمل تھی تو اس میں قربانی کے احکام بہت زیادہ تھے ، جب یہ دور گزر گیا تو اس کو محدود کر دیا گیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ جس میں جذبات بہت برانگیختہ ہوتے ہیں اس وجہ سے یہ ناموزوں بات ہے ، بہتر یہی ہے کہ الگ الگ تعلیمی درسگاہوں کا انتخاب کیا جائے ۔لیکن یہ شرعاً ناجائز نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

 ج: اگر والدہ کی بات معقول وجہ پر مبنی ہے تو آپ کو اس پر توجہ دینی چاہیے ۔اگر ظلم یا خاندانی تعصب یا محض دشمنی پر مبنی ہے تو اطاعت نہیں کرنی چاہیے آپ کو بہر حال حق کا اورانصاف کا ساتھ دینا ہے ۔حق اور انصاف کے بغیر ان کی بات مانیں گے تواللہ کی نافرمانی کریں گے اور اللہ کی نافرمانی میں کسی کی طاعت نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآ ن نے یہ بات بڑی صراحت سے کہہ دی ہے کہ یعمشرالجن والانس الم یاتکم رسل منکم کہ اے جنو اور انسانو ! کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ میرے پیغمبر تمہارے اندر سے تمہارے پاس آئے اور یہ چیز ویسے بھی خدا کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے کہ ان کے لیے اور ہمارے لیے ا یک دوسرے کے رسول واجب الاطاعت ہوں ۔ اللہ نے قرآن مجید میں واضح کہا ہے کہ انسانوں میں انسانوں کے اندر سے پیغمبر بنا کر بھیجوں گا ۔جنات کے بارے میں قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے معاملات کو دیکھتے ہیں، ہم ان کے معاملات کونہیں دیکھ سکتے۔ اگروہ ہمارے معاملات کو دیکھتے ہیں تو ان پر اجمالی ایمان لازم ہے کہ ہمارے پیغمبروں پر بھی ایمان لائیں یعنی شریعت ان کے پیغمبروں کی ہو گی لیکن حق کا وہ انکار نہیں کرسکتے ۔یہی چیز ہے جس کو انہوں نے اپنی قوم میں بیان کیا کہ خدا کی دعوت نازل ہوئی ہے ، جس طرح پہلے تورات کی دعوت تھی ، اب قرآن کی دعوت ہے ۔اگر ہم ان کو دیکھتے تو ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے تھا ۔ قرآن میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جنوں کے لیے جنوں کے پیغمبر ہیں او رانسانوں کے لیے انسانوں کے پیغمبر ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ صرف اللہ کے پیغمبروں کا کام ہے کہ وہ کسی خاص موقع پر لعنت کریں اور اس طرح کی دعا کریں جس طرح کی دعا کا ذکر رسول اللہﷺ کے بارے میں سورہ آل عمران میں آیا ہے ۔ ہم حقیر انسان اس مقام پر نہیں ہوتے کہ کسی حق کے بارے میں اس درجے کے اطمینان سے کوئی بات کر سکیں ۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دلیل سے اپنی بات پیش کریں اور بہت humble طریقے سے اپنی بات پیش کرنے کے بعد خاموشی اختیار کر لیں ۔ کسی کی سمجھ میں آگئی ہے تو ٹھیک ،نہ آئے تو اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے ۔ یہ مباہلے یہ challenge اس طرح کی چیزیں کسی عام انسان کے شایان شان نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی بھی انسان جب اللہ کی کتاب پر غور کرتا ہے تو انسانوں میں عقل کے اختلاف کی وجہ آیات اور احکام کو سمجھنے میں بھی اختلافات ہو جاتے ہیں۔ اختلاف ہونا کوئی بری چیز نہیں لیکن اختلاف جب مخالفت بن جائے تو اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر ہم یہ رویہ اختیار کر لیں کہ بھائی ہم نے یہ بات سمجھی ہے ، ہمیں اس کے دلائل زیادہ وزنی لگتے ہیں، اگر آپ کوا پنی بات زیادہ مدلل لگتی ہے تو آپ اس پر عمل پیرا رہیے ۔ ہم اپنی بات کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن اس کا امکان تسلیم کرتے ہیں کہ وہ غلط بھی ہو سکتی ہے جب دلائل سے واضح ہو جائے گی ، تو غلطی مان لیں گے ۔آپ کی بات غلط تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی بات بھی صحیح ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ رویہ اختیار کر لیا جائے تو کینہ ،بغض اورقتل و غارت کاکوئی سوال نہیں۔ اصل معاملہ رویوں کی اصلاح اورتربیت کاہے۔اختلاف نہیں رک سکتا، اختلاف تو ہو گا ۔ایک عدالت دوسری عدالت سے بسا اوقات اختلاف کر رہی ہوتی ہے لیکن ایک سسٹم کے تحت معاملات چلتے رہتے ہیں ، کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔اسی طرح دینی معاملات کا معاملہ ہے ، ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اختلاف کرنے کے آداب نہیں سیکھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس بات میں حق بھی ہے اور باطل بھی۔ جب ایک قوم پندرہ بیس کروڑ کی تعداد میں ہو تو اس ساری قوم کو آپ ایک رویے پر نہیں لا سکتے ۔ اس کے کچھ قومی حقوق بھی ہوتے ہیں جن کے حصول کی وہ کوشش کرتی ہے ،اور وہ حقوق ملنے چاہیے اصل میں ایک تواز ن رہنا چاہیے ۔ اصول میں یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مسلمان وہاں اخلاقی لحاظ سے بہتر رویہ اختیار کریں اور احتجاج کی سیاست کے بجائے اپنی اہلیت کو آزمانے کی کوشش کریں توان کے لیے بہتر نتائج ہونگے ۔ لیکن ہندستان کے تناظرمیں یہ پوری بات نہیں ہے ۔قومی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد بھی ضروری ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے بعد اس طرح کا کوئی اقدام جاری نہیں رہا ۔ ہماری تاریخ اس سے خالی ہے ، بعد کے لوگوں نے جو اقدامات کیے انہوں نے کبھی بھی اسے اس کے ضمن میں نہیں جانا بلکہ جیسے فاتحین فتح کرتے ہیں ایسے ہی معاملات کو دیکھا ۔ تاریخ میں کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی کہ ہم اتمام حجت کے بعد لوگوں پر مسلط کر دیے گئے ہیں اور ہمیں یہ کام کرنا ہے ۔ اس سے یہ بالکل واضح ہے کہ اللہ کی سنت بالکل صحیح طریقے سے ظہور پذیر ہوئی ۔ جہاں تک صحابہ کرامؓ کے اعلان نہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ اعلان خود قرآن مجید کر رہا ہے ۔ البتہ قرآن کے اس اعلان کے فہم میں علوم و فنون کی تشکیل کی وجہ سے کچھ رکاوٹیں پچھلی صدیوں میں حائل ہو گئیں، ان کو دور کرنے میں ہر شخص کو کچھ نہ کچھ وقت لگ جاتا ہے ۔ یہ وقت مجھے بھی لگ گیا۔یہ بات کہ صحابہ کی خصوصی حیثیت تھی ۔ ہم خود اس سے صرف نظر کرتے رہے ورنہ یہ بات ہماری قدیم کتابوں میں اتنی وضاحت سے بیان ہوئی ہے کہ شاید ہی کوئی اور بات بیان ہوئی ہو ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک چیز خدا کا علم ہے اور ایک چیز وہ آزمائش ہے جس میں اللہ نے انسانوں کو ڈالا ہے ۔ اس آزمائش میں جس طرح اس چیز کی ضرورت ہے کہ آدمی کو ایک فطری ہدایت دے کر بھیجا جاتا ، اسی طرح اس کی بھی ضرورت ہے کہ اس کو تذکیر و نصیحت کی جائے۔ تو تذکیر و نصیحت جو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے تو یہ گویا اس کی اپنی اسکیم کا حصہ ہے ۔اس ضمن میں اللہ اپنی تخلیق کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں ۔ یہ اس فرض کا ابلاغ ہے جو خود خالق کائنات پر ان کے اس اقدام(آزمائش کے نتیجے میں عائد ہو جاتا ہے ، یہ انہیں کرنا ہی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انفرادی طور پر عبادت کرنا بہترہے ۔ اللہ کے پیغمبرﷺ نے اسی کو پسند فرمایا ہے اور زیادہ فضیلت اسی کی ہے کہ آپ اکیلے میں گھر کے کسی کونے میں عبادت کریں ۔ فرض نماز اہتمام سے مسجد میں پڑھنی چاہیے البتہ نوافل گھر ہی میں پڑھنے چاہیےں۔رسول اللہﷺ کا یہی طریقہ تھا کہ آپ عام نمازوں کے نوافل بھی ہمیشہ گھر ہی میں پڑھتے تھے ۔ حضورﷺ نے یہاں تک فرمایا اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: رحمت للعالمین ہونے سے ہرگز یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ آپ تمام مخلوقات کے نبی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے بارے میں یہ کہا گیا کہ فضلنھم علی العالمین تو کیاان کو اللہ تعالی نے جنات کے معاملے میں بھی فضیلت دی تھی ؟ اس بات کو ہمارے علما میں سے کوئی بھی نہیں مانتا کہ تما م بنی اسرائیل کو جنات پر بھی فضیلت تھی اور ان کے تمام انبیا جنات کے بھی نبی تھے ۔ عالمین کے الفاظ قرآن میں وسعت کو بیان کرنے کے لیے آتے ہیں اور بالکل موجود دنیا کے لیے آجاتے ہیں ۔وسعت بیان کرنے کے لیے یہ عربی زبان کا خاص اسلوب ہے ۔ جنات میں نبی جنات ہی میں سے آئے ہیں البتہ جنات چونکہ ہمارے انبیا سے واقف ہوتے ہیں اس لیے جس طرح ہم پر پہلے نبیوں پر ایمان لانا لازم ہے ، ایسے ہی انسانوں کے انبیا پر ان کا ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔بشرطیکہ ان تک دعوت پہنچ گئی ہو اور ان کے علم میں آ گیا ہو۔ اگر ہم بھی جنات کے نبیوں سے باخبر ہوتے تو ہم پر بھی ان پر ایمان لانا ضروری ہوتا ، اس لیے کہ حق کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ ایمان اجمالی ہوتا ہے جیسے حضرت مسیحؑ ، حضرت موسیؑ پر ہمارا ایمان ہے ۔ شریعت میں ہم محمد ﷺ کی پیروی کرتے ہیں اور مانتے سب کو ہیں ۔ یہ بات قرآن سے بالکل واضح ہے کہ نبیﷺ کی جنات سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی بلکہ اللہ کی کتاب جب انہوں نے سنی تو حضور کو وحی کے ذریعے سے یہ بات بتائی گئی ۔ اگر روایتوں میں اس کے برعکس کوئی بات بیان ہوئی ہے تو وہ قرآن کے بالکل خلاف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسلمان ہونا تو ضروری ہے اس لیے کہ اللہ کا نام لیکر اس نے ذبح کرنا ہے۔ لیکن اگر کوئی اہل کتاب میں سے بھی اللہ کا نام لیکر ذبح کرتا ہے تو اس کا ذبیحہ بھی صحیح ہو گا ۔ یہود اللہ کا نام پر ذبح کرتے ہیں آپ اس کو کھا سکتے ہیں۔ باقی جانور کو ذبح کرنے کا یہ طریقہ تمام انبیا کے ہاں موجود رہا ،اس کو تذکیہ کہتے ہیں۔اس میں ضروری ہے کہ پوری گردن نہ کاٹی جائے بلکہ اس طرح کاٹی جائے کہ زیادہ سے زیادہ تڑپ کر جانور کا خون نکل جائے ۔یہ خون سے پاک کرنے کا طریقہ ہے کیونکہ خون حرام ہے ۔ پوری گردن نہیں کاٹنی چاہیے الا یہ کہ غلطی کی وجہ سے ایسا ہو جائے ۔ صرف اللہ اکبر کہنا کافی نہیں بلکہ تذکیہ کے اس طریقے کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے ۔یہ وہ سنت ہے جسے جاری کیا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صرف وہ زیور مستثنی ہے جو عورتیں شب و روز پہنے رکھتی ہیں۔ جو گھر میں ان کے عام استعمال کا زیور ہے۔باقی سب پہ آپ زکوۃ دیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: خبث گندگی ہے اور خبائث وہ چیزیں ہیں جو انسان کو لاحق ہو سکتی ہیں۔ اس میں جنات کی اور دوسری در اندازیاں بھی شامل ہیں ، ان سب سے اللہ تعالی کی پناہ مانگی گئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تسبیح سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو تمام عیوب سے پاک قرار دیا جائے ۔ اس کے لیے سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم پڑھناچاہیے۔ یہ وہ کلمات ہیں جو پیغمبرﷺ نے ہمیں سکھائے ہیں ۔ ان کو معانی کے شعور کے ساتھ پڑھا جائے ۔یعنی اللہ ہر عیب سے پاک ہے ، ہر شرک سے پاک ہے اور وہ تنہاذات ہے جس سے مجھے اپنا تعلق رکھنا ہے تو یہ گویا خدا کو اس کی تسبیح کے ساتھ یاد کرنا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین دنیا میں مسائل ختم کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ کچھ مسائل کو پیدا کرنے کے لیے آیا ہے ، اس لیے دین سے مسائل کو حل کرنا یہ دور جدید کی بد مذاقی ہے ۔ ایک آدمی اچھی خاصی رشوت لے رہا ہوتا ہے ، کوٹھیاں کاریں ہوتی ہیں اور دین آتا ہے تو رشوت کو ممنوع قرار دے دیتا ہے تو دین مسائل پیدا کرتاہے۔ تاکہ ان مسائل کے ذریعے سے آپ کا امتحان ہو اور آپ اپنے رب کی اعلی نعمتیں جنت میں حاصل کریں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نمرود اتنا بیوقوف نہیں تھا ، بہرحال اگر وہ ایسا سوال کرتا تو اللہ اس کے اطمینان کا سامان کرتے یا اس پر اتمام حجت کرتے ۔اپنے پیغمبر کو رسوا نہ کرتے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آخر ت کو سامنے رکھا جائے تو دینی ہے اور صرف دنیا کو سامنے رکھا جائے تو معاشی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین اس لیے نہیں آیا کہ دنیا کے مسائل کو حل کرے۔دنیا کے مسائل کے حل کے لیے اللہ نے انسان کو بصیرت دی ہے وہ استعمال کرنی چاہیے ۔ دین اس لیے آیا ہے کہ جب آپ دنیا میں اپنے مسائل حل کررہے ہوں تواخلاقی تزکیہ کے بارے میں خبردار رہیں ، ایسا نہ ہو کہ آپ کے نفس پر کوئی آلائش آجائے کیونکہ قیامت میں آپ کو پاکیزہ نفس لیکر خدا کے حضور حاضر ہونا ہے ۔ دین علم اور عمل کی پاکیزگی کی دعوت ہے نہ کہ دنیا کے پیداواری اور غیر پیداواری مسائل کو حل کرنے کی دعوت ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سورہ توبہ کے بارے میں چونکہ رسول اللہﷺ کی طرف سے یہ سنت قائم ہو گئی کہ اس کے اوپر بسم اللہ نہیں لکھی گئی ، حضور نے اللہ سے اسی طرح قرآن پایا اور اسی طرح امت کے اندر چھوڑ کر گئے ، اس لیے سورہ توبہ کی تلاوت میں بسم اللہ نہ ابتدا میں پڑھنی چاہیے اور نہ ہی درمیان میں پڑھنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیوی اپنے زیورات پر خود زکوۃ ادا کرے ، اگر شوہر سمجھتا ہے تو وہ اس کی طرف سے ادا کر دے یا باپ ، بھائی ، بیٹا کوئی بھی ادا کر دے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: زکوۃ تو ایک لازمی کٹوتی ہے جو اللہ تعالی نے عائد کر دی ہے ، انفاق فی سبیل اس سے آگے کی چیز ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:خود قرآن نے یہ بتایا ہے کہ انفاق ایک بڑی نیکی ہے اور یہ اعلانیہ بھی ہوتا ہے اور بغیر ظاہر کیے بھی ہوتا ہے یعنی آدمی چھپا کر بھی کرتا ہے اور بعض اوقات اس طرح کے محرکات کے تحت اعلانیہ بھی کرتا ہے ، اصل میں نیت صحیح ہونی چاہیے یعنی مقصد کیا ہے ، مقصد لوگوں کو اپنی برتری دکھانا ہے یا کسی حکمت کے تحت ایسا کر رہے ہیں تو اس کا تعلق اس سے ہے کہ آپ کی نیت کیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دعوت اس لیے دینی چاہیے کہ آپ اللہ کے ہاں سرخرو ہو جائیں اور آپ کے پاس اللہ کے ہاں پیش کرنے کے لیے عذر ہو کہ میرے پاس جو حق تھا وہ میں نے پہنچا دیا ۔ اس کا کوئی نتیجہ ظاہر ہو یا نہ۔بعض اوقات اس کا نتیجہ اچھے معاشرے کی صورت میں نکل آئے گااور کبھی نہیں بھی نکلے گا۔ پہلے نصب العین اور ہدف کو جاننا چاہیے کہ آپ یہ کام کس لیے کر رہے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کسی آدمی سے کہیں کہ نماز پڑھو اس لیے کہ اقم الصلوۃ لذکری یعنی اللہ کی یاد کے لیے۔یہ آپ نے نماز کا صحیح مقصد بیان کر دیا اور نماز کی صحیح دعوت دے دی۔ یعنی فجر سے دن کی ابتدا کرے ، ذرا کام میں مصروف ہو تو پھر ظہر کے وقت حاضر ہو جائے ، پھر عصر کے وقت اور پھر مغرب کے وقت حاضر ہو جائے تاکہ خدا کی یاد اس کے ذہن میں ہر وقت رہے ۔ یہ تو ہوئی نماز کی اصل دعوت لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ نماز سے یہ فائد ہ ہو گا کہ بار بار وضو کرنے سے آدمی پاک رہے گا ، یا ڈسپلن پیدا ہو جائے گایا سیلف کنٹرول حاصل ہوجائے گا ، تو یہ آپ نے نماز کے ضمنی فوائد بتائے اصل مقصد اوراصل دعوت اوجھل رہی۔ جو آدمی ان ضمنی فوائد کو سامنے رکھ کر نماز پڑھے گا وہ نماز کو غارت کر ے گا۔ بالکل اسی طرح جو شخص یہ سمجھ کر دعوت دے گا کہ مجھے صالح معاشرہ پیدا کرنا ہے وہ حدود سے متجاوز ہو جائے گا ۔ اسی سے وہ سیاست بازی کا شکار ہو جائے گا ۔ لیکن جس کے سامنے یہ ہو گا کہ میں نے اپنے رب کے سامنے عذر پیش کرنا ہے ، تو وہ پھر ہر حال میں دعوت دے گا۔ صالح معاشرہ پیدا ہو یا نہ۔باقی یہ کہ صالح معاشرہ پیدا کرنے کے لیے آدمی کو کچھ نہیں کرنا چاہیے تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آدمی کو اپنے معاش کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہیے ۔ دین کا مقصد آخرت ہے ۔ خدا کا دین اس لیے آیا ہے کہ آخرت کو ایک حقیقت بنا کر آپ کو بیدار کر دے اور یہ بتا دے کہ آپ کو ایک دن اپنے مالک کے حضور پیش ہونا ہے تو ہمارے معاشرے میں لوگوں نے چیزوں کو ان کے مقصد سے ہٹا دیا ہے تو ہر چیز خراب ہو گئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ڈاکٹر حمید اللہ لاہور تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ پیرس میں ہر روز آٹھ سے نو لوگ مسلمان ہوتے ہیں ۔ سبب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کچھ معلوم نہیں۔اصل میں یہ کتاب اپنا راستہ بناتی رہتی ہے ، بدترین حالات میں بھی بناتی رہتی ہے ۔لیکن اگر اس کتاب کا پیغام پہنچانے والے اس پر عامل بھی ہوں اور مسلمانوں کی عملی زندگی اس کتاب کا عملی نمونہ ہو تو مسلمان ہونے کی شرح بہت تیز ہو جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضر میں چوبیس گھنٹے اور سفر میں تین دن حد ہے ۔ اس کے بعد آپ کو وضو کر لینا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ضروری نہیں ، پرانے زمانے میں آواز بلند کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا ، اور اسی طرح آواز کو دائیں بائیں زیادہ دور تک پہنچانے کے لیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بہترین انفاق وہ ہے جو خدا کی خوشنودی کے لیے کیا جائے ، جس کا مقصد تزکیہ حاصل کرنا ہو ۔ اس کی اعلی ترین قسم وہ ہے کہ آدمی اپنی کسی ضرورت کو روک کر کسی دوسرے کی ضرورت پوری کرے ۔ اوردوسروں کی ضروریات کو اپنی ذاتی ضرورت پر ترجیح دے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن تاریخ کی کتاب نہیں بلکہ ایک پیغمبر کے انذار کی روداد ہے جو انہوں نے ایک قوم کو پہنچائی اور اس پر اللہ کی حجت پوری کی۔ قرآن اپنے مخاطب کے لحاظ سے ہی تمثیلیں ، واقعات اورتاریخ بیان کرتا ہے جنہیں وہ سمجھ سکیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضرت ابوبکرؓ دین حنیفی اور دین ابراہیمی کے پیروکار تھے اور ایسے بہت سے لوگ تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ قرض پر منفعت کوسود کیوں کہا جاتا ہے ۔ قرض میں آپ دوسرے کو روپیہ دیتے ہیں اور جب دوسرے کو روپیہ دیتے ہیں تو وہ اس کو اس طرح استعمال نہیں کرتا جیسے مثال کے طور پر میں اس میز ا ور کرسی کو استعمال کر رہا ہوں ۔ وہ اس کو خرچ کر دیتا ہے ، یعنی وہ اس کو فنا کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد جب آپ اس سے اصل زر کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ اس کو نئے سرے سے پیدا کرکے دینا ہوتا ہے۔اور پھر ساتھ ہی جب آپ منفعت کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ ظلم ہے ۔ مکان اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا کہ وہ پورا خرچ ہوجائے یعنی فنا ہو جائے ۔بلکہ آپ مکان کو استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور اس کا کرایہ دیتے ہیں۔ جب آپ ایک رقم قرض لیتے ہیں تو آپ یقینا اس کو خرچ کریں گے ، اب اس رقم نے دوبارہ پیدا ہونا ہے اور پھر ادا ہونا ہے۔ جبکہ کرائے کے مکان میں ایسا نہیں ۔چیزوں کے استعمال کا کرایہ اور چیز ہے اور پیسہ پر سود اور چیز ہے ۔اگر استعمال کا کرایہ ختم کردیا جائے تو یہ چیز تمدن کوختم کردے گی ، آپ جہاز اور گاڑی میں بھی بیٹھنے کا کرایہ دیتے ہیں ، یہ تمام استعمال کے کرائے ہیں ، اس میں دوبارہ چیز پیدا نہیں کرنی پڑتی ۔اس لیے ان دونوں کا معاملہ یکساں نہیں ہے ، روپے ا ور چیز کے استعمال کا معاملہ بالکل الگ الگ ہے ۔چیز استعمال کے بعد بعینہ واپس ہوتی ہے جبکہ روپیہ دوبارہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جو ذمہ داریاں حکومت کی ہیں ان کے لیے حکومت کو توجہ دلانی چاہیے اور اپنی ذمہ داریوں کو خود ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں رزق حلال تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کسی مجبوری میں پھنس جائیں تو اللہ تعالی معاف فرمائیں گے۔ اور مجبوری کے بارے میں انسان کا ضمیر بتا دیتا ہے کہ وہ واقعی مجبوری ہے یا بہانے تراش رہا ہے ۔ حکومت کوا پنا کام کرنا چاہیے اور ہمیں ہر طرح کے اچھے اور برے حالات میں برائی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: خبر واحد علم حدیث کی فنی اصطلاح ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ وہ خبر جو درجہ تواتر تک نہ پہنچی ہو ۔ ایک دو تین چار روایوں کی بات کو خبر واحد کہتے ہیں۔ یہ ایک آدمی کے لیے نہیں استعمال نہیں ہوتی بلکہ ایک اصطلاح ہے اور خبر متواتر کے برخلاف استعمال ہوتی ہے اور حدیث کی تمام کتابیں اخبارواحد ہی کی کتابیں ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرے خیال سے یہ روایات ٹھیک ہیں ۔یہ شخص اصل میں ان چندلوگوں میں سے ہے جن کے قتل کا فیصلہ خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کر دیا تھا اور یہ بتا دیا تھا کہ اگر یہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان کو قتل کردیا جائے گا ۔ اشکال اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اس کو حضورﷺ کا فعل سمجھتے ہیں، یہ خدا کے حکم کے مطابق کیا گیا اور قرآن میں یہ حکم موجود ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: چار گواہوں کا تعلق بدکاری سے نہیں بلکہ ایک ایسی خاتون اور ایک ایسے مرد پر تہمت لگانے سے ہے کہ جس کے بارے میں سب مطمئن ہیں کہ ان کا کردار و اخلاق مسلم ہے ۔ ایک شخص نے اس پر تہمت لگا دی ہے تو ارشاد فرمایا کہ تہمت کا معاملہ ایسانہیں کہ آپ بات کریں اور پولیس پکڑ کر لے جائے اور مقدمہ دائر کر دے ، کم سے کم چار آدمی لائیے ، پھر مقدمہ رجسٹر ہو گا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد سزا دے دی جائے گی ، اب اس مقدمے کی تحقیق ہو گی ، اس کے بعد سزا کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو گا ۔ یہ اصل میں لوگوں کو تہمتوں سے روکنے کے لیے ہدایت کی گئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: موت کا مرحلہ کیسا ہے ، اس کے بارے میں ہم محض قیاس ہی بیان کر سکتے ہیں ۔ ہم اس کی اصل نوعیت کو نہیں جانتے ۔ اللہ نے کسی مرحلے میں جو تکلیف رکھی ہوتی ہے اس کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں جو ہم نہیں جانتے ۔بعض اوقات تکالیف انسان کی کوتاہیوں کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ انسان کے دنیا میں آنے کا معاملہ بھی بہت تکلیف دہ ہے لیکن یہی تکلیف ہے جو ماں کے اندر وہ جذبات پیدا کرتی ہے جو بعد میں نازک لمحات میں اس کی پرورش کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔ خدا کی پوشیدہ حکمتوں کاانسان کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ۔ انسان کو اپنے بارے میں یہ جاننا چاہیے کہ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا یعنی ہمارے پاس بہت کم علم ہے ، وہ اپنی حکمتوں کو خود ہی جانتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جی ہاں ، بالکل لازم ہے ، قرآن کے اسلوب سے یہی بات معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی ایسا نہیں کرتا تو اس پر مواخذہ ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تمام اخلاقی بیماریو ں سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بار بار سمجھاتا رہے کہ ان سے گریز کرنا ہے۔ آہستہ آہستہ نفس بات سننے لگتا ہے ۔ جب کبھی حسد محسوس ہو تو اللہ سے استغفار کرے اور استغفار کے ساتھ ساتھ اس آدمی کے حق میں جس سے حسد پیدا ہوا ہے دعا بھی کرے اور اگر اس کی بھلائی کے لیے کوئی کام کر سکے تو وہ بھی کر ڈالے ۔امید ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ وہ حسد سے بچ جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: علم کلام وہ علم ہے جس میں مذہب کے لیے عقلی دلائل فراہم کیے جاتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دعا ، ان کے لیے گڑگڑا کر دعا کیجیے ۔حدیث میں آیا ہے کہ جب صالح اولاد دعا کرتی ہے تو اللہ اس کے ذریعے سے خطائیں معاف کرتے ہیں لیکن اگر کوئی خدا سے سرکشی کر کے گیا ہے تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس وقت تک درخواست کرتے رہیں جب تک کہ اللہ روک نہ دے۔ انبیا نے اپنے اسوہ سے یہی تعلیم دی ہے۔ سیدنا ابراہیم،ؑ والد کے کفر وعناد کے ظاہر ہونے کے باوجود، جب تک خدا نے منع نہیں کیا،دعا کرتے رہے ۔ حضورﷺ کو منافقین کے بارے میں کہا گیا کہ آپ ستر مرتبہ بھی دعا کریں گے تب بھی معاف نہیں کیا جائے گا تو حضور نے کہا کہ میں اکہتر مرتبہ کروں گا۔ بندے کا کام درخواست کرتے رہنا ہے جب تک کہ مالک خود ہی منع نہ کر دے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک شخص نے اپنی اولاد کو عمل صالح کی تربیت دی تو اولاد کے نیک اعمال کا ثواب اس کو بھی ملے گا اور اولاد کو بھی ملے گا ۔ اولاد کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں صدقہ جاریہ بن جا تی ہیں ، انسانوں کی خدمت بھی جب تک کہ اس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے اس کا ثواب ملتا رہتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی حرج کی بات نہیں۔اس کی تعلیم خود قرآن نے دی ہے کہ جب لوگ اپنی جانوں پر ظلم ڈھالیں تو یہ حضور کے پاس آکر کہیں کہ آپﷺ بھی ہمارے لیے دعا فرمائیں ۔ خود بھی دعا کریں اور دوسروں سے بھی کہیں۔ یہ اصل میں بندگی کا اظہار ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:آدمی جب بار بار کسی کلمے کو دہراتا ہے تو اس پر توجہ ہوجاتی ہے اس وجہ سے اس کو اختیار کر لیا جاتا ہے ۔ایک روایت میں بھی یہ چیز آئی ہے اس لیے اس کو بدعت نہیں کہاجا سکت آپ چاہیں تو اس کو اختیار کر سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: امت مسلمہ اس جگہ پر پہنچی ، عرب و عجم پر اس کا اقتدار قائم ہوا ۔ قریبا ًایک ہزار تک اس کی حکومت رہی ۔ صحابہ کرام نے اس دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کی ، یہ سب ہو چکا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی نشاندہی خود اللہ تعالی نے قصہ آدم و ابلیس میں کر دی ہے ۔ انسان کے اوپر حملہ اس کی خواہشات و شہوات کے راستے سے ہو گا اس لیے اپنی خواہشات اور شہوات کو ذرا لگام دے کر رکھیے

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن کاپہلا باب سورہ فاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور مائدہ پر ختم ہوتا ہے ۔ یہ اصل میں ایک طرف یہود و نصاری پر اتمام حجت کا باب ہے اور دوسری طرف یہ صحابہ کرامؓ کی ایک نئی جماعت کے نئے مقام پر کھڑا ہونے کا باب ہے۔ اسی میں شریعت دی گئی ہے جس کی ہم کو اتباع کرنی ہے اور اسی میں دین کے بنیاد حقائق واضح کیے گئے ہیں۔اسی میں ہم سے میثاق لیا گیا ہے ۔اب ظاہر ہے کہ جب بھی اس امت کو قرآن پڑھنا ہے تو اس کے لیے مقدم یہی ہے کہ اس کو خدا کی شریعت اور اس میثاق کو جاننا چاہیے کہ جو اس نے خدا سے کیا ہے۔اور اس کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ پہلی امتوں کے ساتھ کیا ہوا اور اب اس امت کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے کیا کرنا ہے۔ اس لیے قریش کے انذار کی جو چیز ہے وہ پس منظر میں رکھی گئی ہے اور یہ چیز سامنے لائی گئی ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ عمارت میں سب سے پہلے بنیادیں رکھی جاتی ہیں لیکن عمارت بننے کے بعد وہ سب سے نیچے چلی جاتی ہیں ۔قرآن نے یہ ترتیب اس لیے الٹی ہے تا کہ اس امت کو اپنی ذمہ داریوں کی تبلیغ اور ادراک ہو جائے۔ قرآن اگر غیر مسلموں کے سامنے پیش کرنا ہو تب بھی اس کا بہترین باب یہی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود و نصاری کا دین ،ان کے مقدمات سب اسی میں زیر بحث لائے گئے ہیں۔مسلمانوں کے لیے بھی سارا دین اس میں بیان ہوا ہے اور ان سے جومیثاق لیا گیا ہے وہ بھی اسی میں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی شریعت سے ناواقف لوگ (جو یہود و نصاری نہیں) ان تک دعوت پہنچانی ہو تو تب آخری باب زیادہ موثر ہے چونکہ امت نے اس کو زیادہ سمجھنا ہے اور زیادہ پڑھنا ہے اس لیے ان دونوں گروہوں پر خدا کی حجت پوری کرنی کے لیے اس باب کو پہلے رکھا گیا اور اس کے اندر بالکل واضح حکمت محسوس ہوتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بات قرآن کے خلاف ہے۔اللہ کہتے ہیں کہ یہ میرا فیصلہ تھا اور اسی کے تحت وہ لڑنے کے لیے نکلے تھے او ریہ ایک یوم الفرقان تھا ۔دراصل پوری بات کو قرآن کی روشنی میں نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہانی بن گئی ہے ۔اس پر بہت اچھی بحث مولانا شبلیؒ نے اپنی سیرت اور مولانا اصلاحیؒ نے اپنی تفسیر میں کر دی ہے ، اس کو آپ دیکھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بعض چیزیں صرف حکمرانوں تک محدود رہتی ہیں۔ جس طرح علما اجتہاد کر کے لوگوں کو سزائیں (مثلاً چور کا ہاتھ کاٹنا ، قاتل کو قتل کرناوغیرہ)نہیں دے سکتے اسی طرح جہاد بھی نہیں کرسکتے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہرزبان ایک خاص معاشرے میں جنم لیتی ہے اور جس معاشرے میں وہ پروان چڑھتی ہے اس میں اس کی معاشرتی روایات کا پایا جانا اور بیان ہونا ناگزیر ہے ۔ اس لیے ان لوگوں کا کہنا ٹھیک ہے ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریزی کو چھوڑ دیا جائے ۔دنیا میں کوئی بھی زبان جب اس درجہ اہمیت اختیار کر جائے کہ عالمی ابلاغ کا ذریعہ بن جائے تو پھر اس سے تعلق ناگزیر ہو جاتا ہے۔انگریزی کی آج یہی صورت حال ہے ۔ اس لیے اس میں مہارت پیدا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے ساتھ جو روایات در آتی ہیں ان کے بد اثرات سے آپ اپنے دین اور اپنی روایات سے مستحکم تعلق پیدا کر کے بچ سکتے ہیں۔ہمارے ملک میں اصل زیر بحث مسئلہ یہ نہیں کہ انگریزی زبان پڑھی جائے یا نہیں ۔ اصل سوال یہ ہے کہ سرکاری اور قومی زبان کیا ہونی چاہیے ۔ اس میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اردو زبان کو ہی یہ حیثیت ملنی چاہیے ۔ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے لیکن اگر حکمران اس کے لیے تیار نہیں تو پھر انہیں چاہیے کہ وہ اس confusion کو ہمیشہ کے لیے دور کر دیں۔ یعنی اگر تواردو کو اختیار کرنا ہے تومکمل طور پر اختیار کیا جائے ورنہ بالکل چھوڑ دیا جائے ،کم از کم کوئی تو فیصلہ کن صورتحال ہو ۔ یہ تذبذب کی کیفیت قومی سطح پر اثر انداز ہو رہی ہے ، اس معاملے میں حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے تاکہ ہماری نسلیں تذبذب کا شکار نہ ہوں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بات واضح ہے کہ ابو سفیان اسلام کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے ۔اس موقع پر بھی اور بعد میں بھی وہ اپنے دل میں ایمان کی رمق کو پاتے تھے اللہ نے ایسے سب لوگوں کی حفاظت کی ہے جن کے دل میں ایمان کی کوئی بھی رمق تھی۔ یہ بات سورہ فتح میں بیان ہو گئی ہے ۔ جب حضورﷺ کو حدیبیہ سے لوٹنے کے لیے حکم دیا گیا تو اس کی وجہ اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ جن کے دلوں میں ایمان اتر چکا تھا ہم ان کو موقع دینا چاہتے تھے ۔چنانچہ یہ واقعہ ہوااور ابو سفیان ایمان لے آئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی نے مشرکین پر پابندی لگائی تھی ، لوگوں نے اس کو بڑھا کر تمام غیر مسلموں تک پھیلا دیا ۔ یہ بعد کا اجتہاد ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شرک کی وہ ساری اقسام ان میں پائی جاتی تھیں جو دنیا کی مشرک اقوام میں موجودرہی ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے آپ مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب ‘‘حقیقت شرک’’ کو پڑھ لیجیے۔ اس میں انہوں نے مشرکین کے شرک کی تمام اقسام کو بیان کر دیا ہے ۔ قرآن سے بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کے شرک اور ان کے شرک میں فرق یہ ہے کہ وہ شرک کو دین سمجھتے تھے اور اس کا اقرار کرتے تھے کہ شرک ہی صحیح دین ہے جبکہ اس وقت دنیا میں یہود ہوں یانصاری ہوں کوئی بھی شرک کا اقرار نہیں کرتا۔ مسلمان بھی اگرچہ شرکیہ عمل کرتے ہیں لیکن وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ ہم شرک کر رہے ہیں جبکہ مشرکین مکہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ شرک ہی صحیح مذہب ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہر وہ چیز جو آپ کے علم کی دسترس میں نہیں ہے وہ آپ کے لیے غیب ہے۔ علم غیب ہرایک کے لیے مختلف ہوتا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ایک چیز میری دسترس سے باہر ہو لیکن وہ آپ کی دسترس سے باہر نہ ہو تو وہ میرے لیے غیب ہے ،آپ کے لیے نہیں۔ یہ بات کہ سارے کے سارے غیب کون جانتاہے تو وہ اللہ ہی ہے ۔ انسانوں کا علم اس معاملے میں متفاوت ہوتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:کوئی فرق نہیں۔ تمام جلیل القدر اہل علم حدیث کو اسی حیثیت سے مانتے رہے ہیں جس حیثیت سے میں مانتا ہوں ۔میرے اور ان کے موقف میں اصول کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔ پیغمبر کا اسوہ جاننے کے لیے وہ بھی اسی جانب رجوع کرتے تھے اور میں بھی ۔ وہ بھی تحقیق کر کے اس کو قبول کرتے تھے میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں ۔ وہ بھی کسی روایت کو محض اس لیے قبول نہیں کرتے تھے کہ فلاں صاحب نے کتاب میں لکھی ہے ، میں بھی ایسے ہی کرتا ہوں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی حقیقت سے ہم واقف نہیں ، جس طرح عرش پر متمکن ہونے کی حیثیت ہم نہیں بتا سکتے اس طرح اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے ۔ یہ امور متشابہات میں سے ہے ۔بعض علما کہتے ہیں کہ اللہ اپنی رحمت کی تجلی آسمان دنیا پر فرماتے ہیں۔ واللہ اعلم

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بالکل ٹھیک ہے کہ کوئی ایک بات ہی درست ہو گی ، دو باتیں تو بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں لیکن آپ اس کے مکلف نہیں کہ ضرور صحیح بات تک پہنچ جائیں ۔ہم صرف اس بات کے مکلف ہیں کہ دیانتداری سے صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کریں، اگر جان لی تو جس طرح حضورﷺ نے فرمایا کہ دہرا ثواب ہے لیکن اگر جاننے میں غلطی لگ گئی تو اکہرا ثواب ہے ، مواخذہ نہیں ہو گا

(جاوید احمد غامدی)

ج: انبیا سے گناہ صادر نہیں ہوتا اور ان کی لغزش بھی نفس کی جانب سے نہیں ہوتی۔ان کی جو بات لغزش محسوس ہوتی ہے وہ بھی اصل میں حق کی حمایت مگر حدود سے زیادہ ہوتی ہے ۔یعنی اللہ کی خوشنودی پانے میں وہ بعض اوقات کسی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے حد سے بڑھ جاتے ہیں تو انکے ہاں نفس کے داعیات کے تحت لغزش نہیں ہوتی بلکہ جانب حق ہی ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میں کسی ریاست کا داعی نہیں ہوں ۔ ایک محقق ہوں، اپنی تحقیق کے مطابق جس طرح دین کو سمجھتا ہوں، اس کو بیان کر دیتا ہوں۔ جب میں اپنی تحقیق کے مطابق کسی بات پر مطمئن ہوجاتا ہوں خواہ وہ کسی دیوبندی کی ہو، اہلحدیث کی یابریلوی کی ، اسے قبول کر لیتا ہوں۔ یہی طریقہ اختیار کیجیے ۔ اس مصیبت میں پڑنے کے بجائے کہ لوگ کیا کہتے ہیں سیدھا سیدھا اپنے رب کی کتاب پڑھیے ۔ آپ دیکھیں گے کہ لوگ جتنی الجھنوں میں مبتلا کرتے ہیں وہ آپ کو کہیں نہیں ملیں گی۔البتہ کوئی مشکل پیش آئے تو کسی صاحب علم سے جس پر آپ کو اعتماد ہو پوچھ لیجیے ۔ اللہ نے آپ کو اس سے زیادہ کا مکلف نہیں کیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وہ ایک جید فقیہہ تھے ۔ہم ان کی عزت کرتے ہیں البتہ ان کی بعض آرا سے ہم کو اختلاف ہے ، وہ ہم احترام کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر کسی قومی رہنما یا عالم میں واقعی کوئی خرابی ہوتو اس کا بیان کرنا واجب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی رہنماؤں اور عالم دین کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے عیب پر پردہ ڈالا جائے کیونکہ ان سے لوگ رہنمائی لیتے ہیں دین سیکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کے اندر واقعی کوئی خرابی ہو تو اسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے تاکہ لوگ اپنے دین کے بارے میں محتاط رہیں ، یہ غیبت نہیں ہے۔ لیکن ہمیشہ صحیح بات بیان کرنی چاہیے، جس کے صحیح ہونے کے بارے میں مکمل تحقیق ہو۔ سنی سنائی باتیں کرنا معصیت ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسلمانوں کی موجودہ رسوائی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دینی تعلیمات پر بھی عمل نہیں کیا اور دنیاوی علوم کے معاملے میں بھی بے احتیاطی کی ۔ اللہ کے قانون میں یہ دونوں چیزیں ایک تواز ن میں لازم ہیں ۔ جتنا ہم دین پر عمل کریں گے اتنی ہی اللہ کی نصرت زیادہ اترے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انبیانے ان کتابوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ بعد میں لوگوں نے کیا ۔ انبیا نے اپنی زندگی میں ان کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ بعد کے لوگوں نے اس کو محفوظ نہیں رکھا۔حضورﷺ نے بھی یہ قرآن پوری حفاظت سے امت کو دیا ۔ یہ امت بھی اگراس کو ضائع کرنے پر تل جاتی اور اللہ کی طرف سے بھی اس کی حفاظت کا وعدہ نہ ہوتا،تو یہ بھی ضائع ہو جاتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ لوگوں میں رائج ہو گیا ہے ، ایسی کوئی بات نہیں ۔ قرآن کی اصطلاح میں ہرحج کوحج اکبر کہتے ہیں اورعمرے کو حج اصغر کہتے ہیں۔ جمعے کے دن کے حج کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وفات کے بعد انسان عالم برزخ میں ہوتا ہے اور کس حالت میں ہوتا ہے اس کے بارے میں ہمیں علم نہیں۔قرآن سے بس اتنی بات معلوم ہے کہ اچھے لوگوں سے اچھا معاملہ ہوتا ہے اور برے لوگوں سے برا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ حقوق و فرائض عقل عام پر مبنی ہیں۔ قران وحدیث میں ان کے حقوق و فرائض کی کوئی فہرست نہیں دی گئی۔ اللہ کا دین صرف ان امور میں مداخلت کرتا ہے جن میں کوئی غلطی کی گنجائش ہوتی ہے ۔ البتہ یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ آدمی کے لیے جو حیثیت اس کے والدین کی ہوتی ہے وہی ساس سسر کی ہوتی ہے۔ یعنی اصول یہ ہے کہ ان کو والدین جیسا احترام دینا چاہیے اور والدین کے کیا حقوق اور آداب ہیں یہ ہر شخص جانتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اپنے والدین کے ساتھ جو رویہ اختیار کرنا چاہیے وہی ساس سسر کے ساتھ کرنا چاہیے ۔ نہ ان کی ہر بات ماننا ضروری ہے نہ ان کی ہر بات سے انکار ضروری ہے ۔ معقول بات ماننی چاہیے اور نامعقول بات سے معذرت کر دینی چاہیے مگر احترام کے ساتھ ۔بد تمیزی اور بے ادبی کی ہر گز اجازت نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسی کوئی بات حضورﷺ نے نہیں فرمائی ۔ نماز کا معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ معذور ہیں تو جتنا کچھ کر سکتے ہیں کیجیے ، آخری حد یہ ہے کہ اشارے کے ساتھ پڑھتے رہیے ، اس سے بھی آدمی معذور ہو گیا ہے تو پھر اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دوسروں کے بارے میں آپ بہت زیادہ متنبہ نہ ہوں ۔ اپنے آپ کوالبتہ اس کے لیے تیار کریں کہ آپ ہر حال میں حق سننے اور تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔دوسروں کا رویہ اگر ایسا ہے کہ بات کرنے میں دشواری ہوتی ہے تو آپ نہ کریں ، البتہ نصیحت کرتے رہیے اور یہ بتاتے رہیے کہ آدمی کو سچی بات سننے کے لیے آمادہ ہونا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جادو بھی ایک علم ہے اور دوسرے علوم کی طرح جادو بھی اپنا اثر رکھتا ہے ۔ جن چیزوں کی ہم تدبیر کر سکتے ہیں ان میں اللہ کی مدد مانگتے ہوئے تدبیر کرنی چاہیے اور جن چیزوں کی تدبیر کا کوئی راستہ نہیں وہاں اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے اور اللہ سے پناہ مانگنے کے لیے قرآن اور حدیث میں بہت سی معوذات موجود ہیں ، ان کے ذریعے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ تو ایسے ہی ہے جیسے آپ پیشاب کے چھینٹوں کو شراب سے پاک کرنے کی کوشش کریں ایک حرام کام سے دوسرے حرام کام سے دور کرنے کی کوشش کو ئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جادوکودور کرنے کا صحیح ذریعہ اختیار کریں اوروہ ذریعہ اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر تو یہ کسی خیر کے موقع پر ہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس سے قرآن کا مدعا بالکل الٹ جاتا ہے تو اس سے احترازکرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلے ذبح نہیں کیا جاسکتا ۔ اس معاملے میں رسالت مآب ﷺ نے بہت سختی فرمائی ہے اور کہا ہے کہ جس نے ہماری نماز سے پہلی قربانی کر لی ، اس کی قربانی کوئی قربانی نہیں ہے ، وہ تو بس ایک جانور تھا جو اس نے ذبح کر لیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب کسی قوم کو کوئی منصب دیا جائے گا تو اسے بار بار چانس بھی دیا جائے گا ورنہ ظلم ہو جائے گا ۔ ایک منتخب قوم کی حیثیت سے بنی اسرائیل کو ذمہ داری دی گئی ، جب وہ اس پرپورے اترے تو اللہ کی عنایتیں ان کے شامل حال رہیں ، جب انہوں نے اس سے گریز کیا تو اللہ تعالی نے انہیں اس سے معزول کر دیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا تعلق معروف سے ہے ، جو چیز معروف کے مطابق باہمی رضا مندی سے طے ہو جائے ، وہ ٹھیک ہے ۔ اسی کے مطابق دوسرے کونفع دے دیجیے ۔اخراجات کا منہا کرنا بھی باہمی رضا مندی پرہے ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی اصل رقم کے مطابق منہا کیے جائیں اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کم یا زیادہ اخراجات برداشت کر لے ۔کوئی چیزایسی نہیں ہونی چاہیے جو انصاف کے خلاف ہو انسان کا ضمیر اسے بتا دیتا ہے کہ کیا انصاف کے خلاف ہے ۔ شریعت اگر ایسے معاملات میں مداخلت کرتی تو بڑی تنگی ہو جاتی ، ایسے معاملات کو انسانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے میں نبیﷺ نے کوئی چیز بطور اسوہ قائم نہیں کی ۔ اس کا تعلق تمدن اور حالات سے ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کو الگ رہنا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی کو ٹھیک طریقے سے منظم کر سکیں البتہ ماں باپ کو اگر خدمت کی ضرورت ہے تو وہ انہیں اپنے پاس رکھیں ۔ عربوں کے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی تصور نہیں تھا ، یہ ہندستان کا تصور ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:یہ بات قرآن کے ایک بنیادی اصول پر مبنی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ قرآن نے جو احکام اقتدار قائم ہونے کے بعد دیے ہیں ، ان کے بارے میں اہل علم یہ جانتے ہیں کہ وہ اقتدار کے ساتھ مشروط ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں یہ بیان ہوا ہے کہ بدکاری کرنے والوں کو سو کوڑے مارو ، وہاں یہ نہیں لکھا ہوا کہ یہ کام حکومت کرے گی لیکن چونکہ یہ حکم حضور کو اقتدار حاصل ہونے کے بعد ملا ہے ،اس لیے اس کاتعلق اہل اقتدار سے ہو گا۔ قرآن کا فہم رکھنے والے جانتے ہیں کہ کون سی بات کس سے متعلق ہے ۔ قرآن میں باقاعدہ اصرار ہے کہ جب تک اللہ کی طرف سے اذن نہیں ہوا ، جہاد کی اجازت نہیں دی گئی اور اس کا اذن نبیﷺ کو ایک باقاعدہ حکومت حاصل ہونے کے بعدملا ہے۔ پچھلی چود ہ صدیوں میں یہ بات بالکل واضح بات تھی اور کسی صاحب علم نے اس سے اختلاف نہیں کیا ، اس پر اختلاف اسی صدی کی بات ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: منکر ایک جامع تعبیر ہے بری اور ناپسندیدہ باتوں کے لیے ۔لیکن بری باتوں کے بھی درجات ہوتے ہیں۔ ان درجات میں وہ چیزیں بھی آجاتی ہیں جو گناہ ہوتی ہیں ، وہ بھی آ جاتی ہیں جوگناہ کبیرہ ہوتی ہیں اور وہ بھی جو ناشائستہ ہوتی ہیں مثلاً سڑک پر جاتے ہوئے آدمی نے تھوک دیا تو یہ ناپسندیدہ بات ہے لیکن اس پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس سے بچنا چاہیے۔ جب آپ ناشائستہ باتوں سے بچتے ہیں تو یہ آپ کو رفعت اور بلندی دیتی ہیں اور نیک باتوں کی طرف بڑھنے میں معاون ہوتی ہیں۔منکرات میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کبیرہ گناہوں تک لے جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبیﷺ نے ایسی چیزوں کو پسند نہیں کیا ،البتہ یہ حرام حلال کا مسلہ نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہیکل اصل میں ایک بڑی عمارت کو کہتے ہیں ۔ ہیکل سلیمانی یعنی وہ معبد بنی اسرائیل نے بنایا تھا وہ بڑی غیر معمولی عمارت تھی ، اس وجہ سے اس کو ہیکل کہتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز میں جو لازمی اذکار ہیں وہ اللہ کے پیغمبر نے واضح کر دیے ہیں ، باقی معاملات کو انسانوں کی عقل پر چھوڑ دیا ہے اور عقل عام وہی کہتی ہے جو امام مالک کا مذہب ہے کہ امام پڑھے گا تو سنیں گے ، خاموش ہو گا تو پڑھیں گے۔ نبیﷺ نے اس کو متعین نہیں کیا اور جن لوگوں نے اس کو حدیثوں سے متعین کرنا چاہا ہے انہوں نے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی مسائل پیدا کیے ہیں ، اس معاملے میں آزاد چھوڑا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہم ان کتب کو قرآن کی روشنی میں ریفر کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ساری کی ساری کتاب ہی بدل گئی ہے ۔ان میں اللہ کا کلام بہر حال موجود ہے لوگ تحریف وہیں کرتے رہے ہیں جہاں انہیں ضرورت ہوتی تھی ۔ ان کتب کے اندربڑی حکمت اوربڑی روحانیت موجود ہے ، اگر آپ انہیں قرآن کی روشنی میں دیکھیں تو پھر ان کاحوالہ مضر نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ضروری تو بالکل بھی نہیں بلکہ اگر وہ نہ پہنیں توزیادہ بہتر ہے۔ ان کو صرف اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر چاہیں تو سونے چاندی کے زیورات پہن سکتی ہیں کیونکہ آرائش عورت کے لیے ایک فطری چیز ہے ۔ نہ پہنیں توکوئی مضائقہ نہیں بلکہ بہترہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں۔ نماز روزے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔روزے سال میں ایک بار آتے ہیں اور نماز پڑھنے میں پانچ دس منٹ لگتے ہیں ۔ باقی سارا وقت معاشی جدوجہد کے لیے ہے۔معاش کی جدوجہد فطرت کا تقاضا ہے اور اس کے لیے اللہ نے انسان کو پوری صلاحیت دی ہے ، اسے اپنے رب سے مایوس ہونے کے بجائے اس پربھروسہ رکھنا چاہیے اور نئے نئے راستے نکالنے چاہیےں ۔ نماز روزہ اسے اللہ سے جوڑتا ہے اور اللہ سے جڑنا معاشی جدوجہد میں بھی معاون و مددگار ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ان کی یہ رائے قرآن کے بالکل خلاف ہے ۔ اجتہاد ان معاملات میں ہوتا ہے جہاں قرآن وسنت بالکل خاموش ہوتے ہیں ۔جہاں خدا نے قانون بیان کر دیا ہے وہاں سرتسلیم خم کرنا چاہیے۔ وراثت کاقانون ہی صحیح قانون ہے۔ اور صحیح معاشرت کے اندرایک فطر ی چیز بھی۔ لڑکی نے بہرحال دوسرے گھر میں جاناہوتا ہے اور ادھر سے بھی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اسے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے ۔ مردوں پر معاش کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس لیے ان کا حصہ بھی زیادہ رکھا گیا ہے ۔یہ حصہ بھی بیٹی کے معاملے میں ہے ، اس میں عورت اور مرد کی کوئی تفریق نہیں کیونکہ ماں اور باپ کا حصہ برابر ہے۔ یعنی جہاں معاش کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس حساب سے اس کاحصہ بھی زیادہ رکھا گیاہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک صاحب علم کے لیے یہ بات معلوم کرنا مشکل نہیں ہوتا ۔ قرآن مجید ، رسول اللہﷺ کا اسوہ اور مختلف مواقع اور چیزوں کے بارے میں آپ کی تاکید کی روشنی میں یہ بات بآسانی معلوم ہوجاتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ خالصتاً اجتہادی مسئلہ ہے ۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ بچے کی پیدائش میں چونکہ انسان واسطہ بنتا ہے ۔ اس لیے اس کو عقل سے کام لینا چاہیے اور ان تمام چیزوں کا لحاظ کرنا چاہیے جن کا لحاظ کوئی بھی عاقل آدمی کوئی کام کرتے ہوئے کرتا ہے ۔ کھیتی اللہ اگاتے ہیں لیکن ہر کسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی کھیتی اگانے کے بارے میں عقل سے کام لے ۔اگر وہ بے احتیاطی سے بیج پھینک آئے گا اور ضروری احتیاطوں اور تدابیر اور زمین کی صلاحیت کا لحاظ نہیں کرے گا تو وہ اپنے لیے اللہ کے قانون کے مطابق بہت سے مسائل پیدا کر لے گا۔ بچوں کی پیدائش میں بھی یہ ضروری ہے۔ پیدائش کے بارے میں یہ خیال بالکل غلط ہے کہ بچہ تو اللہ نے دینا ہے انسان کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔ انسان چونکہ واسطہ ہے اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ بیوی کی صحت ، بچے کی تربیت اور اپنی ذمہ داری کا لحاظ کرے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جسمانی اور روحانی دونوں طہارتیں مقصود ہیں لیکن اگر پانی میسر نہیں ہوتا تو پھر اس کا علامتی اظہار کیا جاتا ہے ۔جب جسمانی طہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا تو پھر روحانی حاصل کی جاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: معلم کی صحبت کا کوئی بدل نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اگر محض کتاب سے سیکھے تو اس کے اندر بہت سی خامیاں اور کوتاہیاں رہ جاتی ہیں۔ معلم کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر کسی علم میں معلم میسر نہیں ہے تو پھر آدمی بہت محنت کر کے اس کی کچھ کمی پوری کر لیتا ہے لیکن استاد استاد ہی ہوتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صحابہؓ نے ان جگہوں کواپنا مستقر بنالیا ۔ وہ کسی تبلیغی سفر پر نہیں گئے تھے۔ جہاں گئے سراپا تبلیغ تھے اور یہ کام مسلمانوں کو اس وقت بھی کرنا چاہیے مسلمان اس وقت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں ، انکے اس جذبے کو بیدار کیجیے کہ وہ گردو پیش میں اللہ کادین پہنچائیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بہنوں کی شادی اس کی ذمہ داری ہے۔لیکن بہرحال ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرنا چاہیے بیوی کو سمجھائیے کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے نہ سمجھے تو مناسب تادیب کی جا سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ انتہائی ناپسندیدہ بات ہے ۔ طب جیسے مقدس پیشے سے وابستہ افراد کا یہ کردار نہیں ہونا چاہیے ۔ ان کو میرٹ کی بنیاد پر ہر بات بتانی چاہیے ۔ نہ علم کا معاملہ کمیشن پر ہو سکتا ہے نہ صحت کا معاملہ ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی عذر ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن عذر کے بغیر اس کو اپنا معمول نہیں بنایا جا سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نہیں ،کہیں نہیں کہا اور یہ کہا بھی نہیں جا سکتا یعنی ایک گروہ اگر شرک کا اقرار نہیں کرتا تو اس کو بہرحال اہل توحید میں سے سمجھا جائے گااور اس کے شرک پر اسے متنبہ کیا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ یہ شرک ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ چیز قرآن کا براہ راست موضوع نہیں کہ وہ اس پر گفتگو کرے البتہ قرآن کے اشارات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تخلیق کے دو ادوار رہے ہیں۔ایک دور وہ ہے جس میں تمام جانداروں کی تخلیق کا عمل براہ راست زمین کے پیٹ میں ہوتا تھااور تناسل کا سلسلہ اللہ تعالی نے جاری نہیں کیا تھا۔ اس مرحلے میں بڑی بڑی مخلوقات پیداہوئی ہیں اور انسان سے ملتی جلتی مخلوقات بھی۔ ایک حیوانی وجود جس طرح ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ہے اسی طرح زمین کے پیٹ میں مختلف مراحل سے گزرتا تھا اور پھر زمین کے پیٹ کو شق کر کے باہر آجاتا تھا ۔ ایک لمبے عرصے تک تخلیق کا یہ طریقہ رہا ہے ۔ اصل میں اسی کے مطالعے نے ڈارون کو بعض ایسے مقامات میں سرگرداں کیا اور موجودہ زمانے کا علم بھی سرگرداں ہے کہ جس میں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسری مخلوق زمین کے اندر سے پھوٹ رہی ہے ۔دوسرا دور وہ ہے جس میں تناسل کا سلسلہ کر دیا گیا ۔یعنی جو پراسس زمین میں ہوتا تھا اس کو condense کر کے انسان کے ا پنے وجود میں رکھ دیا گیا ۔ پہلے مرحلے میں جو مخلوقات وجود پذیر ہوئی ہیں وہ ایک تدریجی ارتقا کے ساتھ وجود پذیر ہوئی ہیں۔ تناسل کے بعد معاملے کی نوعیت اس سے ذرا مختلف لیکن دوسرے طریقے کے ارتقا پر آگئی کہ جس میں ایک قطر ہ آب مختلف مراحل سے گزر کر ایک جیتا جاگتا انسان بن جاتا ہے ۔ میرے نزدیک یہ مراحل قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتے ہیں اور اگر اس بات کو صحیح طرح سمجھ لیا جائے تو علم جدید کی بہت سی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:ان کے حق میں دعا کیجیے ۔ دین کسی کی میراث نہیں نہ بتانے والے کی نہ سننے والے کی ۔سب کی مشترک میراث ہے۔ اگر دین بتانے والے نے اپنے رویے کے اندر تبدیلی پیدا نہیں کی تو وہ بھی آپ کی توجہ اور دعوت کا مستحق ہے ، نفرت کا نہیں۔اس کا رویہ جہنمی رویہ ہے اپنے بھائی کو جہنم سے بچانے کے لیے اس سے ہمدردی اور محبت رکھیے اور بات پہنچاتے رہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کے بارے میں دین نے کوئی قانو ن سازی نہیں کی ۔ دونوں طرح دی جا سکتی ہے ۔ اور اگر ریاست نے کوئی قانون سازی کر دی ہو تو اس کو اپنانا چاہیے جس طرح نکا ح کے بارے میں نکاح فارم وغیر ہ بنا دیا گیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب اسے دھونے کا حکم ہے، صاف کرنے کا حکم ہے اور اس کے بعد غسل کرنے کاحکم ہے تو اس کے بعد ظاہر بات ہے کہ اس کو ناپاک ہی ماننا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی مسلمان یہ حرکت کر ہی نہیں سکتا ، مسلمان کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ وہ ایسا کرے گایہ اصل میں یہ ماننا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وسیلہ عربی زبان میں قرب کو کہتے ہیں ، یہ اردو والا وسیلہ نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب تعویذوں کے پیچھے آدمی بھاگ کھڑا ہوتا ہے تو پھر اللہ سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ اس طرح کے توہمات میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اللہ سے دعا کرنی چاہیے ، یہی اصل چیز ہے اور علاج معالجہ کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کے سوال کا قرآن نے دو الفاظ میں جواب دے دیا ہے کہ پیغمبر کی اتباع کیجیے ، ان کو اپنے لیے اسوہ حسنہ بنائیے اس سے اللہ کی محبت آپ کو حاصل ہو گی اور اللہ بھی آپ سے محبت کرے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب ایک آدمی عقلی طور پر مان لیتا ہے کہ اس کائنات کا ایک پروردگار ہے اور وہ پروردگار کچھ انسانوں کو منتخب کر کے رسالت کے منصب پر فائز کر دیتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے بعد اس پروردگار پر کیسے قدغن لگائی جاسکتی ہے کہ وہ ہمارے قانون کا پابند ہو کر رہے ۔ عقل تو کہتی ہے کہ معجزات صادر ہونے چاہیےں کیونکہ خداقادر مطلق ہے۔جب خدا کو ایک قادر مطلق ہستی کی حیثیت سے مان لیا تو معجزہ اس کے نتیجے میں عقلاً ماننا چاہیے ۔ نہیں مانتا تو اس کا مطلب ہے کہ آدمی عقلاً غلط بات کر رہا ہے ، وہ ایک قادر مطلق خدا کو سرے سے مان ہی نہیں رہا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: توبہ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر گناہ کا صحیح احساس پیدا ہو ۔ ندامت کا صحیح احساس ہی توبہ کو صحیح بناتا ہے ۔ آپ یہ عزم کریں کہ مجھے بہرحال اس سے بچنے کی سعی کرنی ہے ۔ اس کے باوجود گناہ ہو جائے تو پھربھی اپنے رب سے مایوس نہ ہوں ، بار بار توبہ کرتے رہیں، اللہ ایک وقت میں اپنے بندے کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور اس کے بعد اس کو گناہوں سے بچانے کا سامان کر دیتا ہے ۔ یہ آزمائش کی زندگی ہے اور رہے گی جب تک داعیات موجود ہیں غلطی ہوتی رہے گی۔ غلطی ہو جائے تو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔ جن گناہوں کو اللہ معاف کر دیتے ہیں ، ان کو نہ صرف یہ کہ نامہ اعمال سے محو کر دیتے ہیں بلکہ ان کی جگہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ گناہ انسان کے سامنے قیامت میں نہیں آئیں گے۔ توبہ قبول ہونے کی شرط یہی ہے کہ ندامت ہو ، تلافی کا احساس ہو ۔ آدمی گناہ سے بچنے کے پورے جذبے سے کام کرے اور گناہ ہونے کے فورا بعد توبہ کرے ۔اللہ نے کہا ہے کہ توبہ ان پر قبول کرنا لازم ہے اور وہ قبول کر لیتے ہیں ۔ اس کے بعد پھر شیطان کا غلبہ ہو جائے تو یہ الگ چیز ہے لیکن توبہ اسی عزم کے ساتھ کرنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسلمان کو اپنے گردو پیش میں دین پہنچانا چاہیے ، اس میں مسلمان ہوں ان کو بھی بتانا چاہیے ا ور غیر مسلموں کو بھی بتانا چاہیے ۔ جو مسلمان باہر گئے ہوئے ہیں ان کو بھی اپنے ماحول میں اس کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مسلمان دین کی دعوت اگر کوئی اجتماعی طریقے سے پہنچانے کا بندوبست کرتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنے بہت سے انفرادی کاموں کو موثر بنا کر اجتماعی شکل دے دیتے ہیں۔ جہاں موقع ملے مسلمانوں کو یہ کام بھی کرنا چاہیے ، یہ دین کی نصرت کاکام ہو گا اور اس کو اپنے ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی انجام دینا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شق القمر کا واقعہ قرآن میں ایک واقعے کے طور پر بیان ہوا ہے ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کے زمانے میں یہ غیر معمولی معاملہ ہوا ۔ قرآن اس کو معجزے کے طور پر بیان نہیں کرتا اور تمام روایات سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں بہت اچھی بحث کی ہے ، اگر آپ کو شوق ہو تو اسے دیکھ لیں ۔اس میں انہوں نے بتا دیا ہے کہ یہ ایک واقعہ تھا۔ اس واقعے کو دلیل بنا کر اللہ تعالی نے اس بات کو واضح کیا کہ اگر یہ حادثہ ہوسکتا ہے تو پھر اس کو بعید نہیں سمجھنا چاہیے کہ اللہ ایک دن پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دے گا اور قیامت برپا ہو جائے گی ۔اس واقعے سے اصل میں قیامت پر استدلال کیا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسی قبریں جن کی پرستش کا امکان ہو ان کو تو نبیﷺ نے بالکل برابر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں یہ بات پیدا ہوئی کہ قبروں کے معاملے میں بالعموم احتیاط کی جاتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تو ہم بنا دیں گے لیکن کیا معلوم کہ کل کو وہ بزرگ بن جائے ۔اس لیے اس میں احتیاط کرنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے ،البتہ حدیث میں اس کا ذکر ہے اور بالکل قرین قیاس ہے ۔ نبیﷺ سے پوچھا گیا کہ ہم کیسے دیکھیں گے تو آپ نے فرمایا کیا چاند کو آسمان پر سب برابرنہیں دیکھتے ؟مطلب یہ ہے کہ سب دیکھ لیں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے میں ،میں فقہا کے نقطہ نظر سے متفق ہوں۔ ان کا خیا ل ہے کہ ایک خاص مدت سے پہلے پہلے کسی شرعی عذر کی وجہ سے اسقاط کروایا جا سکتا ہے ۔ وہ اس کو مطلقاً ناجائز نہیں کہتے ۔لیکن بعض فقہا کی رائے میں یہ مطلقاً ناجائز ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شریعت تو انسانی تمدن اور حالات کے لحاظ سے دی جاتی ہے۔ یعنی قانون انسانی تمدن سے بالا ہو کر نہیں دیا جا سکتا ۔ انسان کا تمدن ارتقا پذیر ہے یعنی ایک زمانے میں لوگ شکار پر گزارہ کرتے تھے پھر زرعی پیداوار کا زمانہ آیا، اب صنعتی انقلاب نے دنیا بالکل تبدیل کر دی ہے ۔ اس وجہ سے تمدن کے فرق سے شریعت میں بھی فرق کیا جائے گا ۔ یہ بنیاد ہے تمام شریعتوں میں فرق کی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی بھی ایسی چیز جس پر آدمی قابو نہ پاسکتا ہو اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب آپ ایسے کسی جذبے سے مغلوب ہو جائیں اور اس سے نکلیں تو اپنے اوپر کوئی کفارہ عائد کرلیں۔ کوئی سزا دیں اپنے آپ کو ۔ کچھ دیر بعد آپ آہستہ آہستہ خود پہ قابو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبیﷺ نے کن مواقع پر بیعت لی ہے۔اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو حضورﷺ نے لوگوں سے دین اور اسلام پر بیعت لی ہے یعنی دین کے ا حکام پر عمل کی۔ بیعت کا مطلب ہے عہد لیا ہے لوگوں سے ۔ اس کا ذکر سورہ ممتحنہ میں موجود ہے ۔رسالت مآبﷺ کو حکم دیا گیا کو جو لوگ ہجرت کر کے آرہے ہیں ،مدینے میں بسنے سے پہلے ا ن سے اس بات کا عہد لے لیا جائے کہ وہ سوسائٹی کے اندر کوئی خرابی نہیں پیدا کریں گے ۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی شخص آیا ، اس نے اسلام قبول کیا اور اس نے جانا چاہا تو حضورﷺ نے اس سے کوئی عہد لیا تو یہ عہد صرف پیغمبر لے سکتا ہے ۔ ہم سب برابر کے لوگ ہیں، ہم میں سے کوئی دوسرے کو پابند نہیں کر سکتا ۔ صرف اللہ کا پیغمبر ،اللہ کے سفیر اور نمائندے کی حیثیت سے یہ بیعت لے سکتا ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعد میں کسی صحابی نے کسی دوسرے سے یہ عہد نہیں لیا ۔یعنی خود صحابہ کرامؓ نے جو دین کا معیار ہیں، یہ بات ثابت کر دی کہ یہ بات صرف رسالت مآب ﷺ ہی کے شایان شان تھی کہ وہ عہد لے سکتے تھے لیکن وہ میرا ، آپ کا یا کسی اور کا کام ہی نہیں۔ بلکہ یہ بہت جسارت کی بات ہے کہ ہم سے کوئی شخص عہد لے ۔خدا عہد لے اپنے دین پر ، اس کا پیغمبر عہد لے دین پر، یہ بات تو ٹھیک ہے ، میں کون ہوتا ہوں ۔ مجھے توخود عہد کرنا ہے اللہ اور اس کے پیغمبر سے ۔ نبیﷺ نے اسلام اور اسلام کی تعلیمات پر جو عہد لیا ہے وہ آپﷺ کے ساتھ خاص ہے ، اس کا اختیار اب کسی اور کو نہیں اور نہ ہی اس کی جسارت کرنی چاہیے ۔ دوسری بیعت حضورﷺ نے بطور حکمران لی ہے ۔ سمع و طاعت کی بیعت ۔یہ بیعت حکمران کی حیثیت سے ہے پیغمبرانہ حیثیت سے نہیں ۔ چنانچہ آپ کے بعد آپ کے خلفا نے بھی یہ بیعت لی ۔ اب بھی ہماری حکومت اسی بیعت پر قائم ہوتی ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے نمائندے منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ اسمبلی میں جا کر اس آئین سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں،وہی چیز ہے آپ ہاتھ میں ہاتھ دیکر عہد کر لیں یا پڑھ کر حلف لے لیں ۔ حکمرانوں کو حق ہے کہ وہ اس عہدکا مطالبہ کریں اور یہ خلفائے راشدین نے بھی لیا، لے سکتے ہیں ،لازم نہیں۔ حکمران سمع و طاعت کی بیعت لے سکتا ہے کیونکہ قرآن نے اس کو مطاع قرار دیا ہے ۔ اطیعو اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم ۔اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے پیغمبر کی اطاعت کرو اور حکمرانوں کی اطا عت کرو توحکمران کو اللہ تعالی نے واجب الاطاعت قرار دیا ہے اس لیے وہ یہ اطاعت کی بیعت لے سکتا ہے جبکہ ہم میں سے کسی کو واجب الاطاعت قرار نہیں دیا جا سکتا۔بیعت کی ایک اور قسم جہاد کی بیعت ہے۔ نبیﷺ نے جب کوئی جہاد کا موقع آیا تو آپ نے جہاد کی بیعت لی یا لوگوں سے ثابت قدمی کی بیعت لی ۔ یہ مسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے ہے ۔کوئی جنگ درپیش ہو تو کسی خاص دستے کو بھیجتے وقت حکمران یہ بیعت لے سکتا ہے ۔ ان میں سے کسی مقام پر بھی ہمارے لیے بیعت کی گنجائش نہیں نکلتی تو اس وجہ سے جو لوگ ایسی بیعت کے دعوے کرتے ہیں یا ایسی بیعت لیتے ہیں ، وہ اپنے آپ کو غلط جگہ پر کھڑا کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کی اصلاح کرنی چاہیے اور انہیں بتانا چاہیے کہ آپ عام انسان ہیں اور آپ کو یہ حق حاصل نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ نے کرائے پر دینے کا ارادہ کیا ہوا ہے تو اس دوران میں وہ زکوۃ سے مستثنی رہے گی لیکن جونہی وہ کرائے پر اٹھے گی اس پر پیداوارکی زکوۃ عائد ہو جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ظاہر ہے جب آپ سود کو حرام سمجھتے ہیں اور پھر کسی کوسودی کاروبار کے لیے اپنی عمارت دیتے ہیں تو بری چیز ہے ، اس سے جو آمدن ہو گی وہ کوئی پاکیزہ آمدن نہیں ہے ، اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا تعلق حالات سے ہے ، بعض اوقات بڑی سہولت ہوتی ہے ، آدمی نکل سکتا ہے اور بعض اوقات معلوم ہوتا ہے کہ ساری صفیں ڈسٹرب ہونگی تو اس وقت بیٹھ جانا چاہیے اور نماز مکمل ہونے کے بعد وضو کر کے اپنی نماز مکمل کر لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسوہ حسنہ دین پر عمل کا نام ہے۔ دین قرآن وسنت میں بیان ہو گیا ہے ، نبیﷺ جب اس پر عمل کرتے ہیں تو عمل کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ کوئی الگ چیز نہیں ہوتی ۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ جانے کہ حضورﷺ نے کیسے عمل کیا مثلاً حضورﷺ کی نماز کیسی ہوتی تھی ، تو اس معاملے میں ہمارے سامنے ایک بہترین نمونہ آجاتا ہے ۔لیکن اس میں کوئی زائد دین بیان نہیں ہوتا ۔یہ دین پر عمل کا نمونہ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ اگر محسوس کرتے ہیں کہ پاکیزگی حاصل ہو گئی ہے اور منہ صاف ہو گیا ہے تو اتارنے کی ضرورت نہیں ۔ اگر محسوس ہوتا ہے کہ ایسا نہیں تو اتار لیجیے ۔اس میں شریعت کا کوئی واضح حکم نہیں ہے ، آپ کی اپنی کامن سینس پر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورت گھر کا نظم سنبھالے گی اور مرد باہر کا، یہ ہماری سوسائٹی کا عرف ہے ۔اس میں شریعت مداخلت نہیں کرتی ۔ ہر سوسائٹی کا اپنا ایک معروف ہوتا ہے اور اس کے تحت لوگ معاملہ انجام دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ ہوتا ہے کہ مرد باہر کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں اور خواتین گھر کی ، تو یہ تقسیم صدیوں سے چلی آرہی ہے ا لبتہ موجودہ زمانے میں مجروح ہوئی ہے کیونکہ خواتین بھی معاشی سرگرمیوں میں جانے لگی ہیں ، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے سسٹم میں بہت تغیر و تبدل ہو رہا ہے۔ یہ شریعت کا مسئلہ نہیں بلکہ سوسائٹی کے معروف کا مسئلہ ہے اور سوسائٹی کے معروفات میں اصل چیز یہ ہے کہ باہمی موافقت سے گھر چلایا جائے ۔ البتہ مرد کو چونکہ گھر چلانے کی انتظامی ذمہ داری بھی دی گئی ہے تو مرد اگر محسوس کرتا ہے کہ کھانا نہ پکانے کے اصرار سے گھر کا نظم مجروح ہو رہا ہے تو وہ عورت کو مناسب تادیب کر سکتاہے اور یاد رہے کہ تادیب کے مراحل ہیں جنہیں شریعت کی روشنی میں استعمال کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ جملہ اس ترکیب میں درست نہیں۔ اسلام نے زندگی کے بہت سے شعبوں کے بارے میں ہدایات دی ہیں ، رہنمائی فرمائی ہے لیکن مکمل ضابطہ حیات سے مراد ہے کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں مکمل نظام دیا گیا ہوگا یعنی آپ کو زندگی گزرانے کے لیے جو کچھ بھی قانون ضابطے چاہیے تھے وہ سب بیان کر دیے گئے ہیں۔لیکن حقیقت میں توایسا نہیں ہے ۔ چند اصولی باتیں بیان کرنے کے بعد صرف ان امورمیں مداخلت کی گئی ہے جن میں انسان کو رہنمائی کی ضرورت تھی اور وہ رہنمائی بھی اس پہلو سے چاہیے تھی کہ کہیں وہ علم یا عمل کی غلاظت میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ نظام بنانا انسانوں کا اپنا کام ہے اور اس معاملے میں انسانوں کودوسروں کے تجربات سے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور تمدن کے ارتقا سے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے میرے نزدیک یہ تعبیر اسلام کے لیے ایک غلط تعبیر ہے ۔ اس سے اسلام کی دعوت کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے اور اسلام کا اپنا پیغام اس کے نتیجے میں بالکل مسخ ہو گیا ہے اور عام لوگوں پر اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ گویا زندگی گزرانے کے لیے ہر چیز ہمیں لکھ کر دے دی گئی ہے ، بس اس نسخے کو استعمال کرنا ہے ، یہ بات نہیں ہے ۔قرآن مجید میں اور پیغمبروں کی جو ہدایت ہمیں ملی ہے اس کی نوعیت یہ ہے کہ انسان کو بینا پیدا کیا گیا ہے ، وہ اپنے لیے ضابطے ، قانون اور تمدنی ارتقا کے اصول بنائے ، ترقی کرے ، سوچے ، غور کرے ، دوسری قوموں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے ، آگے بڑھے ۔البتہ اگر اس کے علم و عمل کے تزکیہ میں کوئی خرابی کا اندیشہ ہے تو وہاں اللہ تعالی نے رہنمائی کر دی ہے۔چنانچہ معیشت سے متعلق سات آٹھ چیزیں بیان کر دی گئی ہیں، سیاست کے معاملے میں چار پانچ چیزیں بیان کر دی گئی ہیں ، اسی طرح چار جرائم کی سزائیں بیان کی گئی ہیں ، باقی تمام معاملات انسانوں کی عقل پر چھوڑ دیے گئے ہیں ۔ بے شمار چیزیں ہیں جن کے بارے میں ہم خود طے کرتے ہیں ، قا نون سازی کرتے ہیں مثلاً ٹریفک ہے ، اس کے معاملات آج سے دو سو سال پہلے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ آپ کو پورا پورا ضابطہ بنانا پڑتا ہے ۔ ضابطے اب موجودہ زمانے کی ضرورت ہیں ، اسی طرح سے ریاست ہے ، موجودہ زمانے میں جو procedural law ہے جس کے تحت ریاست چلتی ہے اس میں بے شمار قوانین خود بنانے پڑتے ہیں، اس میں بھی پارلیمنٹ مسلسل قوانین بناتی رہتی ہے ۔تو اسلام نے یہ نہیں کیا اور نہ اس کے بارے میں ایسا تصور قائم کرنا چاہیے، اگر وہ ایسا کرتا تو یہ خدا کا ابدی دین نہ ہوتا ۔ابدی دین یہ ایسے ہی ہو سکتا تھا کہ بنیادی چیزوں میں رہنمائی کر دے باقی اس کے بعد انسان خود اپنے لیے سب کام کرتا ہے ۔اسلام نے کوئی نظام یا ضابطہ حیات نہیں بنا کر دے دیا بلکہ زندگی گزرانے کا ایک زاویہ دیا ہے اور بنیادی رہنمائی کر دی ہے ۔ آپ یوں سمجھیں کہ راستہ تو ہم چل سکتے تھے لیکن جو موڑ ایسے آجاتے ہیں کہ جہاں تذبذب کا اندیشہ تھا، ان میں گویا ایک لالٹین نصب کر دی گئی ہے کہ رہنمائی ہو۔یہ نوعیت ہے اور اس نوعیت کو سمجھ کر دین کی طرف رجوع کیا جائے گا تو آپ صحیح جگہ پر کھڑے ہونگے اور اگر ساری چیزیں برآمد کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ غلط زاویہ ہو جائے گا۔        

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کوئی لازم نہیں نماز پڑھنے کے لیے ۔نماز الگ حکم ہے اور یہ الگ حکم ہے تو ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی کچھ یادگاریں مثلاً عصا وغیرہ اس میں محفوظ تھا۔ یہ ایک صندوق تھا جس میں یہ یادگاریں رکھ دی گئی تھیں۔ جس طرح بیت اللہ کے بارے میں ایک تقدس ہے، اسی طرح اس صندوق کے بارے میں تھا۔ اس کو قبلہ قرار دے دیا گیا تھا ۔ بنی اسرائیل جب تک سفر میں رہے اسی کو قبلہ قرار دیکر نماز پڑھ لیتے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا مطلب یہ ہے کہ قتال اور جہاد اسلامی قانون کا حصہ ہے ۔ اس کے جب مواقع پیدا ہوتے ہیں تو مسلمان تلوار اٹھاتے ہیں اوراٹھاتے رہیں گے۔ یہ چیز رک نہیں سکتی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر وقت لڑتے رہیں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ہمارے قانون کاحصہ ہے اور جب بھی کسی زمانے میں حالات کا تقاضا ہو گا مسلمان شریعت کی شرائط کے تحت جہاد کریں گے کوئی چیز اس میں مانع نہیں بن سکتی۔ یہ روایت ان لوگوں کے فتنے کااستیصال کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ جہاد کا حکم منسوخ ہو گیا ۔جہادخدا کی شریعت کے اندر موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا اور جب موقع ہو گا مسلمان اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے رہیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آخری وقت سے اگرسکرات موت مراد ہے تو اس وقت تو توبہ قبول نہیں ہوتی ،البتہ اس سے پہلے پہلے تو اللہ نے مہلت دی ہوئی ہے اور کیا معلوم وہ پروردگار غفور الرحیم کب قبول کر لے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا ممکن ہی نہیں، غیر جانبدارانہ تحقیق اسے لازمی اسلام تک پہنچائے گی ۔ اب تھوڑی دیر کو مفروضہ قائم کر لیں کہ آدمی نے واقعتا بڑی غیر جانبدار تحقیق کی اور وہ اس نتیجے کو نہیں پہنچ سکا تو پھر وہ معذور ہے اور اللہ تعالی اس کی معذوری کو قیامت میں قبول فرمائیں گے ۔کیونکہ وہ نیتوں کا حال جانتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ ترتیب خود اللہ تعالی نے دی ہے ،اس لیے اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ اللہ نے قرآن میں بتایا ہے کہ ان علینا جمعہ و قراٰنہ ۔ فاذا قراناہ فاتبع قراٰنہ کہ یہ ترتیب ہم نے دی ہے اور اس کو مرتب ہم کریں گے ، اس لیے اس کو اب کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول فطرت کا بہترین نمونہ ہوتاہے لیکن طبعی طور پر چیزوں کے بارے میں اس کی بھی پسند ناپسند ہوتی ہے مثلاً حضورﷺ ایک مرتبہ کہیں گئے تو انہوں نے گو کاگوشت پکایاہوا تھا، حضورﷺ نے کہا میں اسے پسند نہیں کرتا تو آپ نے نہیں کھائی ۔ آپ کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کھالیا۔ اس کا تعلق اصل میں طبعی مزاج سے ہے۔حرام کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے کوئی شرعاً حرام کر لیا تھا ۔مطلب یہ ہے کہ وہ کھاتے نہیں تھے ، یہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے رسالت مآبﷺ نے کسی بیوی کے لیے کہہ دیا تھا کہ اچھا میں اب شہد نہیں کھایا کروں گاتو اللہ تعالی نے کہا کہ آپ پیغمبر ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے معاملے میں وہی ہو جائے جو حضرت یعقوبؑ کے معاملے میں ہوا تھا۔اس لیے ایسا نہ کریں۔یعنی حضرت یعقوبؑ نے حرام نہیں کیا تھا ، بنی اسرائیل نے بعد میں اس کو حرام کر لیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ ہر چیز پر تنبیہہ نہیں کرتے ، وہ انسانوں کو رائے قائم کرنے کا موقع دیتے ہیں اور جب انسان پے در پے غلطی کرتے ہیں تو پھر اللہ تنبیہہ کرتے ہیں ۔ اگر اللہ پہلے ہی تنبیہات کردیں تو پھر انسان کے اندر سوچنے کا جذبہ اور آزادی فطرت ختم ہوجائے ، اللہ کا طریقہ یہی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بلی کے بارے میں اللہ کے پیغمبر نے ہم کو بتا دیا ہے باقیوں کے بارے میں ا للہ نے ہم کو عقل دی ہے آپ کو خود رائے قائم کر لینی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ دینی اصطلاحات نہیں، یہ لوگوں کے ایجاد کردہ ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ٹھیک ہے ، اس کا مضمون ہی یہ بتا رہا ہے کہ کوئی شبہ نہیں اس میں۔ ہر ہر صحابی ستارہ ہے ان کی یہ حیثیت دین نے بیان کر دی ہے کہ وہ دین کے گواہ بنائے گئے ہیں ۔ خدا نے ان کا انتخاب کیا ہے اور ان کے اتمام حجت سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو پیغمبر کے اتمام حجت سے نکلتا ہے تو صحابہ کرام ؓ کے اس مقام میں کوئی شک نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ تو حضرت مسیحؑ کو بھی معلوم نہ تھا کہ میرے بعد لوگ مجھے معبود بنا لیں گے ، اس کی کوئی ذمہ داری ان بزرگوں پر عائد نہیں ہوتی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب کوئی آدمی مسلسل حق کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے اورخود کو اللہ کے عذاب کا مستحق کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالی اس دنیا میں اس کے دل کو قبول حق کے لیے بند کر دیتے ہیں، یہ مطلب ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس بات میں کوئی وزن نہیں ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عربی کا معروف لفظ ہے اور قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے ، اس کی تاویل کرتے وقت ہمیشہ عربی مبین ہی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ حد قرآن مجید میں بیان ہو گئی ہے ۔ قرآن نے یہ بتا دیا ہے کہ اگر کوئی آدمی قرآن کے متعین عقائد سے انحراف کرے یعنی ایسے عقائد جن میں کسی دوسری تاویل کی گنجائش نہ ہو یعنی نماز پڑھنے سے انکار کردے یا زکوۃ دینے سے تواسلامی ریاست اسے غیر مسلم قرار دے سکتی ہے ، یہ سورہ توبہ میں بیان ہو گیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید نے اسراف ،تکبر اور دولت کی نمائش سے روکا ہے ۔ حضورﷺ نے اس کو سامنے رکھ کر لوگوں کو سونا اور اس طرح کی چیزیں پہننے سے منع فرمایا ، یہ پیغمبرﷺ کی تعلیم اور ہدایت ہے اور اس میں بڑی حکمت ہے ۔ اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور طرح طرح کے تاویلیں کر کے اس کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیوی کے نام کرنے کا مطلب اگریہ ہے کہ اس نے باقاعدہ اسے مالک بنا دیا تھا تو اب یہ بیوی کی میراث ہے اور یہ میراث بیوی کے وارثوں ہی میں تقسیم ہو گی اور اس میراث میں شوہر کا بھی ایک حصہ مقرر ہے جو اس کو مل جائے گا ، واپس ملنے کا کوئی سوال نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انسان کے جسم کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اس کا کیا حال ہوتا ہے لیکن اس کی اصل شخصیت کہاں جاتی ہے ، ہم نہیں جانتے ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ وہ عالم برزخ میں ہوتے ہیں وہاں لے جا کر ان کو سلادیا جاتاہے۔ قبرستان میں ہم سلام اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ایک دعا ہے ۔سلام کا جواب دینے کے بارے میں ہمارے پا س کوئی دلیل نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صالحین نماز جنازہ پڑھنے سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ نماز جنازہ تو ہو جائے گی ۔ نماز جنازہ ہر مسلمان کی پڑھ لینی چاہیے ۔ اس کے لیے احناف کا طریقہ بہت بہتر ہے۔یعنی جنازے کی عمومی دعا پڑھی جاتی ہے اللھم اغفرلحیّنا…… بس وہ پڑھ لیجیے اور اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجیے ۔ کوئی اگر اجتناب کرنا چاہے توبھی کوئی حرج نہیں ، حضورﷺ ایسا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کا جنازہ خود پڑھنے سے اجتناب کر لیتے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر تو آپ نے واقعی انہیں دے دیا اوروہ اب اس کی مالک ہیں تو مسلہ ختم ہو گیا لیکن اگر تقسیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ویسے تقسیم کر کے رکھ دیا لیکن خود بھی پہن لیا تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ دھوکہ بازی ہے ، اس سے آدمی کو پناہ مانگنی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس وہم کودور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالکل بے پروا ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیں۔ وہم کی بیماری آدمی کو دین سے دور لے جاتی ہے اور ایک ایسا آدمی بنا دیتی ہے جس سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس بات کو بالکل نہ سوچیں ، نماز پڑھیں ، جب آپ اس طرح بے پروا ہو جائیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کا وہم بھی ختم ہو جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ویسے اجازت کی ضرورت نہیں لیکن ہماری خواتین کی تربیت ایسی ہے کہ وہ بالکل اس کو برداشت نہیں کرتیں ۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ جب تک کوئی بہت ناگزیر صورت نہ ہو یہ کام نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کا بڑھاپا بالکل رسوا ہو کر رہ جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: طالبعلمانہ رویے سے مراد یہ ہے کہ آدمی ہر وقت بات سمجھنے اور ہمدری کے ساتھ سننے کے لیے تیار ہو ۔ اس پر نظر ثانی کرنے کے لیے بھی تیار ہو۔ ایک اچھے طالب علم میں یہی خصوصیات ہونی چاہیےں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ کی مخلوق سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔یعنی ماں باپ ، بہن بھائیوں ، بیوی بچوں کی محبت۔دین اس سے نہیں روکتا صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ان سے بڑھ کر ہو۔انہی رشتوں کی محبت سے تو دنیا کی رونق قائم ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انبیاؑ کی نماز کی کیا نوعیت رہی اور وہ کس طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ، اس کا کوئی ذکر ہمارے پاس تصدیق کے ساتھ موجود نہیں۔بیت المقدس تو خود بیت اللہ کے رخ پر تعمیر کیا گیا ہے ، اس کی نوعیت ایک ثانوی مسجد کی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ معاش کی جیسی بھی جدوجہد کر رہے ہیں بہرحال کچھ نہ کچھ وقت تو بچتا ہو گا ۔ جو وقت آپ تفریح وغیر ہ میں صرف کرتے ہیں اسی میں اگر ہفتے میں ایک گھنٹہ نکال سکیں تو آہستہ آہستہ آپ کے اندر شوق پیدا ہو جائے گااور وہی وقت جو آپ کو بہت تنگ لگتا تھاوہ بہت لگنے لگے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

س: اس میں ایک مغالطہ ہے جو سمجھ لینا چاہیے ۔ مسلمانوں کی حکومت اس وقت تقریبا ً۵۵ ممالک میں قائم ہے ۔ ان حکومتوں کو دین اور شریعت کا پابند بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی نئی خلافت کو قائم کرنے کی۔ آپ کسی بھی اسلامی ملک میں رہتے ہوں آپ کویہ کوشش کرنی چاہیے یعنی ہمیں اپنی حکومت کو یہ بتانا چاہیے کہ جس طرح فرد پر شریعت کی اطاعت ضروری ہے اسی طرح نظم اجتماعی پر بھی ضروری ہے اور اس آیت میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان حکومت کی صرف یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ امن امان قائم کر دے ، دفاع کا بندوبست کر دے بلکہ مسلمان حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایسا نظام قائم کرے جو بھلائی کو پھیلانے والا ہو اور برائی کے روکنے والا ہو ۔ اہل سیاست کو یہ ذمہ داری ادا کرنی چاہیے کہ وہ حکومت کو متوجہ کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل کر سکتا ہے ، اگر آدمی میں ضد اور ہٹ دھرمی نہ ہو تو انبیا کا معجزہ ایسا واضح ہوتا ہے کہ ایک سلیم الطبع آدمی اسے جادو قرار نہیں دے سکتا چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ فرعون کے خوف سے لوگ ایمان نہیں لائے لیکن جب جادوگروں نے ہمت کی تو بہت سے لوگوں کے دلوں میں ا یمان اترا ہو گا ۔ قرآن کریم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قریش کے سرداروں کے خوف کی وجہ سے مکے کے لوگ ایک عرصے تک ایمان نہیں لائے لیکن سورہ فتح میں اللہ تعالی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ دل سے مان چکے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی سے بہت زیادہ معافی اور توبہ کرنی چاہیے ۔ اللہ کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے ، اگر وہ تلف کیا ہے تو یہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے ۔ معافی مانگتا رہے لیکن یہ حقوق العباد کی چیز ہے تو قیامت کے دن معاملہ پیش ہو جائے گا ، اگر والد معاف کر دیں گے تو اللہ بھی معاف کر دے گا اور اگر معاف نہیں کریں گے تو پھر اپنی نیکیاں دے کے اور ان کی برائیاں لے کر ہی جان چھڑانی پڑے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبی اور رسول سے جانب نفس کوئی غلطی نہیں ہوتی جیسے ہم اور آپ نفس کے میلانات غالب آنے سے غلطی کر تے ہیں ۔ان سے اگر غلطی ہوتی بھی ہے تو وہ جانب حق میں ہوتی ہے۔ یعنی بعض اوقات حق کی حمیت ،غیرت اور فروغ میں مطلوب حد سے آگے بڑھ گئے ۔ان کے لیے یہ بھی غلطی شمار ہوتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صحابہ کرامؓ کوئی شک نہیں آپس میں رحمدل ہی تھے اور کفار کے مقابلے میں سخت تھے ۔ اس سختی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انہیں کفر کے حق میں رام نہیں کر سکتا تھا ۔ جنگ صفین جوہوئی وہ بھی حق کے لیے ہوئی یعنی دونوں گروں سمجھتے تھے کہ وہ حق کے لیے لڑ رہے ہیں ۔حق کے معاملے میں وہ ہمیشہ سخت رہے ۔ رحمدلی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ چور کا ہاتھ کاٹنے یازانی کو سنگسار کرنے سے انکار کر دیں ۔نبیﷺ نے بھی مجرموں کو سزائیں دی ہیں اور حق کے لیے لڑائیاں لڑی ہیں حالانکہ آپ رحمت اللعالمین تھے ۔رحمدل ہونے سے مراد ہے کہ آپس میں ان میں محبت کے تعلقات تھے ۔لیکن اگرکسی موقع پر حق کے لیے آپس میں اختلاف ہوا ہے تو وہ سخت ہی ہونا چاہیے تھا اور وہ ہوا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ریاست زکوۃ کو جبراً وصول کر سکتی ہے ۔ اسلامی ریاست میں اس کی نوعیت لازمی ٹیکس کی ہے ۔ یہ لازماً آپ کو دینا پڑے گی ورنہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرح حکومت تلوار اٹھا سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:یہ دونوں متضاد چیزیں نہیں ۔ آپ دونوں بھی کر سکتے ہیں۔بس حکمت عملی طے کرنا ہو گی اور صحیح راستہ متعین کرنا ہو گا۔ والدین جب آپ سے کہتے ہیں کہ ایسی تعلیم حاصل کیجیے کہ جس سے آپ اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے کسی بہتر جگہ پر کھڑا کر سکیں تو آپ کی بھلائی میں کہتے ہیں ۔ حفظ کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کیجیے اور اگر آپ سمجھیں کہ یہ معاملہ موخر کیا جا سکتا ہے اس سے آپ کا کوئی نقصان نہیں ہو گا تو سال دوسال موخر کر کے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا لیجیے اور اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ کام بعد میں ہو سکتا ہے تو بعد میں کر لیں۔ لیکن یہ کوئی دو متضاد چیزوں کا معاملہ نہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہے ۔ آپ نے دنیا میں رہنا ہے اس کی تیاری بھی ضروری ہے اور آخرت کی تیاری بھی ضروری ہے توازن ہی کو اختیار کرنے سے صحیح زندگی وجود میں آتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ٹھیک ہے ۔ خدا کے پیغمبر کے ہوتے ہوئے کوئی اور امامت کی کیسے جسارت کر سکتا ہے؟ البتہ ایسا ضرور ہوا کہ حضورﷺ کو کوئی معذوری لاحق ہو گئی یا آپ کو آنے میں تاخیر ہو گئی ، آپ وضو کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے یا کہیں اور مجلس میں شریک تھے تو اس میں نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا تو کسی صحابی نے کھڑے ہو کر جماعت کرادی اور جب حضورﷺ کی آہٹ بھی سنی تو انہوں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی ،تو آپ نے اشارے سے کہا کہ نہیں ایسے ہی مکمل کر لو۔ حضور کے ہوتے ہوئے کوئی جسارت نہیں کر سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حدیث رسالت مآبﷺ کی سیرت ، سوانح اورآپ کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے اور آپ سے دین کے بارے میں جو باتیں پوچھی گئی ہیں ا ن کا علم و عمل اس میں بیان ہوا ہے ۔اس وجہ سے دین میں اس کی بڑی اہمیت ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نصیب کوسمجھ لینا چاہیے ۔اللہ تعالی کی طرف سے جو چیزیں ملتی ہیں توان کے بارے میں یہ طے ہوتا ہے کہ فلاں فلاں چیز محنت کے بغیر مل جائے گی اور فلاں فلاں چیز محنت کے ساتھ ملے گی ۔چونکہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی چیز محنت کے بغیر مل جائے گی اس لیے ہمیں تو محنت بہر حال کرنی ہے ۔رزق کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ رزق کا کچھ حصہ آپ کو محنت کے بغیر ملے گا اور کچھ حصہ محنت کے ساتھ مشروط ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت لوطؑ رسول تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، اصل میں شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ٹوٹ نہ گیا ہوتو اس میں مناسب یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وضو کر لیا جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے سے تو باپ نے اپنی حیثیت کھو دی ہے اور اب وہ حترام کا مستحق نہیں رہا۔ مگر یہ بڑی بات ہے اس لیے آپ کو ہر اعتبار سے اطمینان کر لینا چاہیے ورنہ سنگین الزام ہے جس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا ہو گا۔البتہ اگر ثابت ہے تو ایسے باپ سے الگ ہو جائیے کیونکہ وہ اپنے باپ ہونے کی حیثیت ہی کھو بیٹھا ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سستی کوئی وجہ نہیں ۔ آپ اگر معقولیت سے محسوس کرتے ہیں کہ پانی اتنی دور ہے کہ آپ کے لیے زحمت کا باعث بن جائے گا تو آپ تیمم یا مسح کر سکتے ہیں ۔اصل اصول زحمت ہے ۔ دین میں کوئی خاص مسافت مقرر نہیں کی گئی اور یہ حالات کے لحاظ سے ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ مثال کے طور پر گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ کو نماز پڑھنی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ پانی ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہو لیکن وہاں جانا اور وضو کرنا گاڑی چھوٹنے کا باعث بن جائے گا تواس وجہ سے اگر دین اس کی مسافت مقرر کرتا تو یہ حالات کے خلاف معاملہ ہو جاتا۔ آپ اپنے طور پر اس کا فیصلہ کر لیجیے۔اور اس فیصلے کا جواب آپ نے اللہ کو دینا ہے۔ اگر نیک نیتی سے آپ نے کوئی اجتہاد کیا ہے اور غلط بھی کیا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کا اجر ملتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ تو پانی کا ریلا ہے ۔ اس سے بچاؤ کاطریقہ یہی ہے کہ اپنے اندر اور اپنے گھر والوں میں دینی اقدار کا صحیح شعور پیدا کیجیے ۔ جنت کی صحیح طلب پیدا کیجیے ۔ اس امر کو ذہن نشین کر لیجیے کہ روح کی پاکیزگی ہی جنت ملنے کا باعث بنے گی ۔ جتنا زیادہ آپ یہ شعور پیدا کریں گے ، اتنے زیادہ یہ اثرات کم ہوتے چلے جائیں گے ۔ اگر آپ اس کو بند کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ منفی اقدام ہو گا جس کے نتائج الٹے نکلیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شہادت کے بارے میں اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب آدمی کسی حق کی خاطر محض اللہ کی خوشنودی کے لیے جان دیتا ہے تو تبھی شہادت کے اجر کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر وہ ماں کی خدمت کے لیے ، اپنے مال کی حفاظت کے لیے جان تو دے رہا ہے لیکن کسی اور جذبے سے تویہ شہادت نہیں۔شہادت کے اجر کا تعلق آدمی کی نیت پر ہے ، کسی خاص عمل پر نہیں ۔اگر میدان جنگ میں بھی آدمی کی نیت خدا کی راہ میں جان دینے کی نہ ہو بلکہ بہادر کہلانا مطلوب ہو یا کوئی اورجذبہ ہو تو اسے بھی شہادت کا اجر نہیں ملے گا۔جس نیت کے تحت آدمی جس چیز کے لیے میدان میں اترتا ہے وہ نیت فیصلہ کرے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ‘سرزد ہو جاتا ہے’ ،ان الفاظ پر غو رکیجیے ۔ یعنی جذبات کے غلبے میں آدمی خود پر قابو نہیں پاسکا ، لیکن وہ خدا سے ڈرتا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو لیکن پھسل گیا ۔یہ سرکشی نہیں ہے ، اس کے بعد ایسا آدمی نادم ہو گا اور فوراً رب کی طرف رجوع کرے گا ، معافی مانگے گا ۔اور اللہ تعالی نے قرآن میں کہا ہے کہ جب کوئی آدمی اس طرح جذبات کے غلبے میں آکر کوئی گنا ہ کر لیتا ہے اور فوراً معافی مانگ لیتا ہے تو اللہ نے لازم کر رکھاہے کہ اس کی توبہ کو قبول کرے ۔ یہ خدا کی بڑی رحمت اور بڑا کرم ہے لیکن آدمی اگر منصوبہ بندی کر رہاہو کہ گناہ کر کے معافی مانگ لوں گا تو یہ سرکشی ہے۔ ایک چیز ہے کہ انسان سے ہو گئی اور ایک چیز ہے کہ وہ کرنے پر مصر ہو گیا۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید نے بڑا سادہ اصول بتایا ہے کہ الذین اذا انفقو لم یسرفو ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما یعنی اللہ نے آپ کو جودیا ہے ، اس حیثیت سے خرچ کیجیے جس میں نہ کہ بخل ہو نہ اسراف اعتدال اورتوازن کا رویہ ہی اصل رویہ ہے۔ یہ چیز آپ بڑی آسانی سے متعین کر لیتے ہیں، بازار میں آپ کوئی چیز خریدنے جائیں گے تو اس میں بڑی مہنگی اور بڑی سستی چیزیں بھی ہونگی تو آدمی کو ہمیشہ متوسط کاا نتخاب کرنا چاہیے۔ پیمانہ ہے وکان بین ذلک قواما۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اردو میں مروت کا مطلب ہے آدمی کے اندر لحاظ ہونا چاہیے، حیا ہونی چاہیے اور دوسروں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے ،اسے ترش رو اور انتقام کے جذبے میں نہیں جانا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ ایسا محسوس کرتے ہیں تو اجتناب کر سکتے ہیں لیکن رد عمل میں کوئی بری بات نہ کہیے ، بس اعراض کر کے چلے جائیے ۔ دینا آپ پر لازم نہیں

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز جمعہ کی کوئی قضا نہیں ہوتی ، بس آپ ظہر کی نماز پڑھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دنیا کی اصل حقیقت کی یاد دہانی روز موت کراتی ہے اور روز اٹھنے والا جنازہ بتا دیتا ہے کہ دنیا کی اصل حقیقت کیا ہے ۔ اس کے بعد بھی اگرانسان تنبہ حاصل نہیں کرتا تو آسمانی کتابیں موجود ہیں ، ان کی تذکیر کرنے والے لوگ موجود ہیں وہ بتاتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ راستہ بند ہو گیا ہے ۔ یہ دنیا عارضی ہے اور آدمی کو بہرحال اپنے رب کے سامنے جواب دینا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل لازم ہے لیکن کوئی ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ جہاں قبلہ کا تعین ممکن نہ ہوجیسے گاڑی میں یا جہاز میں تو ایسے موقع پر اللہ تعالی کی اس بات پر عمل کرنا چاہیے جدھر بھی رخ کرو گے ادھر اللہ ہی کا رخ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورتوں کے اس طرح کے معاملات میں اصولی بات جان لینی چاہیےں جس کے بعد آپ کو بہت سی چیزوں کا خود ہی جواب مل جائے گا۔ ہر وہ زیبائش جس سے دوسروں کو دھوکا دیاجاتا ہے جیسے خواتین دوسروں کے بال ساتھ ملا کر اپنے بال لمبے کر لیتی ہیں ، حضورﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ اللہ نے انسان کو جو ہئیت دی ہے اس میں کسی کمزوری یا کمی کا علاج کرنا ایک چیز ہے اور اس میں نمائش کا پہلو پیدا کر کے اسے دوسروں کے لیے فریب کا ذریعہ بناد ینا بالکل دوسری چیز ہے ۔اس کو پسند نہیں فرمایا گیا۔ اسی طرح بعض بد ہئیتی کی چیزیں عورتیں بناؤ سنگھار میں اختیار کرلیتی ہیں جیسے جسم پر نام کھدوانا ، طرح طرح کے نقش و نگار بنانا، یہ سب ناپسندیدہ ہیں۔ باقی بناؤ سنگھار کی چھوٹی موٹی چیزیں جو خواتین کرتی ہیں اس کے بارے میں کوئی حرج نہیں ۔ یعنی بناؤ سنگھار اس حدتک نہ ہو کہ ہیئت ہی تبدیل ہو جائے اور دوسروں کو دھوکا لگے یا یہ کہ بد نمائی اختیار کی جائے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بے ایمانی دوسروں کو بتادینا آپ پر واجب نہیں ۔ اگر آپ نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے تو خاموشی اختیار کیجیے ۔ اگر آپ کے پاس واضح اور قطعی ثبوت ہیں تو عدالت جائیے اور پریس سے رجوع کیجیے ۔تا ہم خود کو خواہ مخواہ نقصان میں نہ ڈالیے ۔ ان کے لیے دعا کیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سب سے پہلی چیز قومی مزاج کا تبدیل کرنا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دنیا پر ایک ہزارسال تک حکومت کرتے رہے تو اس وجہ سے فخر کی نفسیات سے ہم ابھی تک نکل نہیں پائے۔ زمینی حقائق کو بالعموم نظر انداز کرتے ہیں اور حقائق کے خلاف زندگی بسر کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے یعنی وہ چیزیں جن کو ہم موخر کر سکتے تھے ان کو خواہ مخواہ ہم نے مسئلہ بنا لیا دوسری بڑی وجہ کرپشن ہے ۔جب ایک سوسائٹی کرپٹ ہو جاتی ہے تو پھر اس پر اللہ تعالی کی طرف سے ایک سزا قرضوں کی صورت میں نافذ کر دی جاتی ہے ۔ تورات میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے یہود سے یہ کہا ہے کہ قرض میرا عذاب ہے جو میں نافذ کر دیتا ہوں کسی قوم پر۔یہ عذاب اسی وقت نازل ہوتا ہے جب کسی قوم کی اخلاقی حالت انتہائی پستی کو پہنچ جائے ۔ہمارا معاشرہ انفرادی اور اجتماعی طور پر کس اخلاقیات کو پہنچا ہوا ہے ہم سب جانتے ہیں ۔ جہاد اور قتال کی بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں لیکن معمولی معمولی اخلاقیات سے بھی ہم عاری ہیں۔ وہ چیزیں جو ہم پر نافذ ہونی چاہیےں ہم انہیں سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے جبکہ ساری دنیا پرخدائی فوجدار بن کر شریعت نافذ کرنے کے لیے ہم میں سے ہر شخص تیار ہوتا ہے۔ یہ اخلاقی انحطاط انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ یہ اخلاقی انحطاط جب تک ہم دور نہ کریں گے قرضوں کی لعنت سے چھٹکارانہیں مل سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کا مقصود ہمارے نفس کی تطہیر اور اس کا تزکیہ ہے یعنی اس کو پاک کرنا اور اسے صحیح سمت میں نشوونما دینا ۔ قیامت میں نفس کی بالیدگی اور پاکیزگی ہی جنت یاجہنم کا باعث بنے گی ۔دنیا کی زندگی میں انسان کو اس امتحان میں اسی لیے ڈالا گیا ہے کہ پرکھا جائے کہ کون نفس کو آلودہ کرتا ہے اور کو ن اس کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ نفس کو پاکیزہ رکھنے اور اس کو صحیح سمت میں نشوو نما دینے کے لیے انسان کیا کرے ؟ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے اللہ نے اپنا دین نازل کیا ہے اگرانسان دین پرصحیح فہم کے ساتھ عمل پیرا ہو تو اس کے نفس کوپاکیزگی بھی حاصل ہو گی اور بالیدگی بھی۔ لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دین پر عمل کے لیے کس طرح تیار کرے۔ یعنی یہ تو بتا دیا گیا کہ آپ مدرسہ میں جا کر انجینئرنگ سیکھ لیں لیکن سوال یہ ہے کہ مدرسہ جانے کے لیے بستر سے اٹھنا پڑے گا ، اس عمل کے لیے نفس کو کس طرح آمادہ کیا جائے ؟ یہ چیزدین کا موضوع نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے لیے اللہ تعالی نے انسان کو بہت سی صلاحیتیں اور علوم و فنون دے رکھے ہیں۔ اسکو مثال سے سمجھیے ۔ ایک آدمی قرآن سے دین اخذ کرتا ہے اور پیغمبر کی ہدایت اس کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہے ۔ اب وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو دین پہنچائے۔ تو اس کے لیے دین نے اسے کوئی خاص طریقہ نہیں بتایا۔تعلیم، تقریر، تحریر کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔اگر وہ چاہے کہ تصنیف و تالیف کا طریقہ اختیار کرنا ہے تو اسے یہ فن سیکھنا پڑے گا۔ انبیا یہ چیز بتانے کے لیے نہیں آئے ۔ یہ چیز انسان اپنے تجربے اور مشاہدے سے سیکھتا ہے ۔تصنیف و تالیف میں بڑے بڑے صاحبان فن پیدا ہو ئے ہیں۔وہ انسان ان کی تحریروں سے سیکھے گا یا پھر کسی صاحب فن کی صحبت میں رہ کر سیکھے گا۔اسی طرح ایک آدمی دین کو سمجھ لیتا ہے ، اب وہ اس کی تعلیم دینا چاہتا ہے ۔تعلیم و تدریس خود ایک فن ہے یعنی ایک آدمی خود بہت دیندار ہے لیکن اس کے دین دار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس فن سے واقف بھی ہو۔ تعلیم و تدریس کے فن میں مسلم دنیا نے بھی اور جدید مغربی دنیا نے بھی بہت سے تجربات کیے ہیں اور ہو رہے ہیں۔چنانچہ اس انسان کو یہ فن سیکھنا پڑے گا۔ یہ وہ چیز نہیں جو قرآن و سنت میں بیان ہوئی ہے۔یہی صورت حال تزکیے کی ہے ۔کہ تزکیہ حاصل تو دین سے کرنا ہے مگر اس پر خود کو آمادہ کیسے کیا جائے۔ یہ بجائے خودانسانی تجربات پر مبنی ایک فن ہے ۔یعنی یہ بات کہ انسانی نفسیات کیا ہے ، وہ کسل مندی کا شکار کیسے ہوتی ہے ، اس کے اوپر پردے کیسے پڑتے ہیں ، ان کو کیسے اتارا جاتاہے ، یہ ایک مکمل علم ہے۔اور اس بارے میں صوفیا کے علم کلام اور فلسفے سے ہزاراختلاف کے باوجود مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ صرف صوفی ہیں جو اس فن سے واقف ہیں۔ یعنی ایک بندے کو دین پر کیسے عمل پیرا کیا جائے ۔اس کے لیے انہوں نے جو ادارہ بنایا وہ خانقاہ کہلاتا ہے ۔ اسی لیے میں بھی اس پر بہت زور دیتا ہوں کہ کچھ لوگ آگے آئیں اور خانقا ہ بنائیں۔صوفیا نے دین کی جو تعبیرکی وہ سرتا سر غلط ہے مگر انہوں نے عمل کے لیے جو طریقے ایجاد کیے ا ن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ اہل علم کو خدا توفیق دے کہ وہ بھی اس کو سیکھیں اوراس کو باقاعدہ موضوع بنا کر ادارہ وجود میں لائیں۔یعنی ایسا ادارہ جس میں لوگ کچھ وقت گزاریں اور سیکھیں۔اس کی بہترین مثال آج کے دور میں تبلیغی جماعت بھی ہے۔ ان کی دینی تعبیر سے اختلاف کے باوجود اس فن میں بعض چیزیں ان سے بھی سیکھی جا سکتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات ایک ماہر فن چند چیزوں کی مشق کرا کے ، چند چیزوں کی تربیت دے کے ، آپ کو اٹھا دیتا ہے ، کسل مندی دور کر دیتا ہے ، طبیعت میں نشاط پیدا کر دیتا ہے۔ تو یہ باقاعدہ ایک کام ہے جو کرنا چاہیے۔ جب تک صوفیا کا ادارہ قائم رہا ہے ، اس وقت تک ہمارے معاشرے کو کبھی ماہرین نفسیات کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ ان کا ایک خاص انداز ہوتا تھا جس سے وہ آدمی کی تربیت کر کے آہستہ آہستہ اسے دین کے قریب لے آتے تھے ۔اس معاملے میں، میں ان کابہت قائل ہوں ۔ میرا احساس یہ ہے کہ اس کام کے لیے سوچنا بھی چاہیے اور اس کا اہتمام بھی کرنا چاہیے یہ کام مجرد دین بتانے سے نہیں ہوتا ۔ یہ ایک مخصوص تربیتی عمل اور فن ہے اور فن کا ماہر آدمی آپ کو دنوں میں تبدیل کردیتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی عبادت اور نیکی کبھی اسراف نہیں ہوتی البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں اعتدال یا توازن قائم رکھنا چاہیے۔ بعض اوقات آدمی پر کسی ایک چیز کا غلبہ ہو جاتا ہے اور وہ اس میں اعتدال اور توازن قائم نہیں رکھ پاتا تو اسے اس کی طرف متوجہ کرنا چاہیے نہ کہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ اسراف کر رہا ہے۔مسلمان کی زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں اعتدال اور توازن پر رہتا ہے۔ یعنی معاشرتی تقاضوں کو بھی بخوبی پورا کرتاہے اور عبادات کے معاملے میں بھی اعتدال کے ساتھ صحیح نہج پر قائم رہتا ہے۔ اس چیز کا ضرور لحاظ رکھنا چاہیے ، باقی نیکی اسراف نہیں ہوتی ، اعتدال او رتوازن بسا اوقات مجروح ہو جاتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بڑی غلط تعبیر ہے جو ہمارے بعض آئمہ کرتے ہیں ۔ دو صورتیں ہیں ، ایک صورت یہ کہ آپ نے کوئی وقت commit نہیں کیا یعنی یہ نہیں بتایا ہوا کہ ڈیڑھ بجے جمعہ ہو گا تو امام صاحب کی مرضی ہے کہ جب چاہیں پڑھا دیں ۔ لیکن اگر اس نے پہلے سے کوئی commitment کی ہوئی ہے کہ ڈیڑھ بجے جمعہ ہو گا تو پھر ایک سیکنڈ کی خلاف ورزی بھی حرام ہے ۔ مسلمان کی زندگی کے اندر جو بنیادی نیکیاں ہیں ان میں اللہ تعالی نے والموفون بعھدھمکو بھی شامل کیا ہے ۔ وقت کی پابندی دوسری قوموں کے لیے بہتر عمل ہو گا مگر ہمارے لیے دینی فریضہ ہے ۔ اگر وقت طے کیا گیا ہے تو کسی امام کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ایک منٹ کی بھی تاخیر کرے اور اگر غلطی ہو جائے تو سامعین سے معافی مانگے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میں آپ کا سوال الٹ کیوں نہ دوں ، مجھے احناف کے بہت سے مسائل قرآن وسنت کے مطابق لگتے ہیں ۔یعنی مثبت بات کیوں نہ کی جائے ، لوگوں کو منفی بات جاننے سے بہت دلچسپی ہوتی ہے ۔بہت تھوڑی باتیں ہیں جن میں احناف سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بات درست نہیں یعنی اللہ تعالی نے خود یہ بیان نہیں کیا کہ اس کانام اللہ ہے ۔ عربی بولنے والوں نے یہ نام رکھ دیا اور اللہ تعالی نے قبول فرما لیا ۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا کوئی نام رکھا ہوا ہے ۔ عبرانی بولنے والے ایل کہتے تھے تو اس نے وہ قبول فرما لیا۔ عربی بولنے والوں نے اللہ کہنا شروع کر دیا تو وہ قبول فرما لیا ۔ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات والا صفات کوئی تمہاری طرح نہیں کہ اسے اپنا کوئی نام رکھ کے تمیز کرانے کی ضرورت محسوس ہو ۔ البتہ جس نام سے بھی تم اس کی ذات و صفات کے لحاظ سے پکارتے ہووہ اسی کا نام ہے ۔ وللہ الاسماء الحسنی ، سارے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں۔ اللہ خود بھی ایک صفاتی نام ہی ہے لیکن یہ عربوں کے ہاں معروف ہو چکا تھا تو اللہ تعالی نے اسی کو قرآن میں اختیار کر لیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی وجہ خود قرآن نے بیان کی ہے کہ اس سے آزمائش مقصود تھی۔ یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی تو مشرکین میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان کی آزمائش ہو گئی اور بعد میں جب رخ بدلا گیا تو یہود کی آزمائش ہو گئی ، قرآن نے اس کو بیان کیا ہے کہ ہم نے یہ اس لیے کیا تھا کہ ہم دیکھیں کہ لوگ اپنے تعصبات کی پیروی کرتے ہیں یا رسول کی پیروی کرتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر صلوۃ سے مراد نماز ہی ہے ۔ بعض جگہوں پر دعا اوررحمت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔ لیکن جہاں الصلوۃ آیا ہے وہاں بالعموم نماز ہی کے لیے آیا ہے ۔ نماز میں اگر آپ نے فرض رکعات پڑھ لیں تو آپ کی نماز ہو گئی ۔ آپ مواخذے سے بچ گئے لیکن یہ کم سے کم عبادت ہے جو آپ نے کی ۔ اس سے آگے جو نفل پڑھتے ہیں وہ بڑے اجر کا باعث ہیں لیکن اگر آپ کسی وجہ سے نہیں پڑھتے تو اس پر مواخذہ نہیں ہو گا ۔ جو نفل حضورﷺ بالعموم پڑھا کرتے تھے ان کو سنت کہہ دیا جاتا ہے ۔ نماز بالکل ایسے ہی فرض کی گئی رکعات کی تعداد کے ساتھ۔ ساری امتوں میں ہمیشہ ایسے ہی رہی ہے ،رکعات اور اوقات کے ساتھ حدیثوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں مرد و خواتین کے اختلاط کے جو آداب بیان ہوئے ہیں ، اگر ان کو ملحوظ رکھا جائے تو خاتون درس دے سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں سب سے بڑا درجہ سابقون کا ہے ، سابقون کا مطلب ہے سبقت کرنے والا۔یعنی انسان کے سامنے دین کا کوئی معاملہ آیا اور اس نے اس معاملے میں سب سے آگے بڑھ کر اس کو پورا کرنے کی سعی کی ۔ جس کو ہم شہید کہتے ہیں وہ بھی یہی کرتا ہے ۔ خدا کی راہ میں جان دینے کی نوبت آگئی تو اس نے دریغ نہیں کیا ، وہ بڑھا اور اس نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ یہ بھی سبقت کا ظہور ہے ۔ شہادت اور سبقت کوئی الگ درجے نہیں ۔ سبقت ایک جامع بات ہے اور شہید بھی اصل میں السابقون ہی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ قیامت تک کے مسلمان وہ اس درجے تک پہنچ سکتے ہیں ۔قرآن کا اپنا ارشاد ہے کہ سنت من الاولین وقلیل من الآخرین ، اگرچہ تعداد میں کم ہونگے لیکن آخری زمانے میں بھی ہونگے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ خدا کی رحمت کا ظہور ہے یعنی اس نے ایسی مخلوق پیدا کی جس کو اس نے ابدی زندگی دینے کا فیصلہ کیا تو یہ اس کی صفت رحمت کا ظہور ہے۔ قرآن سے یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک سرکاری نسخہ تیار کرا کے رکھ دیا گیا ۔ حضورﷺ کے زمانے میں قرآن جمع ہو چکا تھا اور سارے کا سارا لکھا ہوا موجود تھا ۔اور صحابہ کی پوری جماعت اس کو اپنے سینوں میں لیے ہوئے تھی ۔ اس وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو کوئی نیا کام نہیں کرنا تھا تو انہوں نے ایک سرکاری نسخہ ایک انتہائی اہتمام کے ساتھ رکھوا دیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ملائکہ اللہ کی مخلوق ہیں اور قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ایک طرف ان کا امتحان کیا اور دوسری طرف انسانوں کے اوپر خود ان کے بارے میں کچھ حقائق واضح کیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آدمی کے اندر کسی بھی سعادت کو حاصل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ اس کو غلط طریقے سے حاصل کرنا شروع کر دے ۔ آپ کی نیت آپ کا جذبہ یہی آپ کے لیے اجر کا باعث بن جائے گا ۔ جب کبھی اس کا موقع شریعت کی حدود اور قیود کے مطابق پیدا ہو جائے تو ضرور جہاد کے لیے جائیے ۔ ایسا موقع نہ آئے تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ چھڑی پکڑ کر دوسروں کو مارنے نکل کھڑے ہوں ۔ شہادت کی آرزو رکھیے اور اس جذبے کے ساتھ زندگی بسر کیجیے ، امید ہے اللہ تعالی اس کو جذبے کی حد تک قبول فرما لے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شفاعت اصل میں خدا کے حضور عفوو درگزر کی درخواست ہے ۔ روز ہم اپنے والدین کے لیے یہ کام کرتے ہیں، صالحین کے لیے کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں بیان ہوا ہے یجادلون فی قوم لوط یعنی قوم لوط کے بارے میں اس نے ہمارے ساتھ مجادلہ شروع کر دیا ۔ بڑی تحسین کے موقع پر کہا ہے کوئی مذمت نہیں کی ۔ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پروردگار آپ کے بندے ہیں ، اگر ان میں سے پچاس راست باز ہونگے ، آپ تب بھی ان کو ہلاک کر دیں گے؟ یہ وہ چیز ہے جو نبیﷺ کے ذریعے سے بھی ہو گی جس شفاعت کی قرآن نفی کرتا ہے وہ شفاعت باطل ہے۔ عربی زبان میں ا لفاظ مطلقا نہیں استعمال ہوتے بلکہ دنیا کی کسی بھی زبان میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس چیز کی نفی کی گئی ہے کہ وہاں خدا کی بات پر ، خدا کے فیصلے پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہو سکے گی ، کوئی ناانصافی نہیں ہوگی ، خدا کے قانون کو باطل کرنے والی کوئی چیز نہیں ہو گی ۔کوئی حق کو باطل نہیں بنا سکے گا ، باطل کو حق نہیں بنا سکے گا ، اس کی قرآن نفی کرتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں مسجد کی دو صورتیں ہیں ، ایک وہ مسجد ہے جو کسی محلے میں باقاعدہ قائم کر دی جاتی ہے اور ایک مسجد وہ ہے جس کو مسجدالدار کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ جو مسجد بنائی گئی ہے اس سے آپ فاصلے پر ہیں اس لیے آپ نے محلے میں کہیں کوئی جگہ باقاعدہ نماز کے لیے مقرر کر دی ہے کہ یہاں نماز ہوا کرے گی ، یہ مسجد الدار ہے ۔ ایسے ہی کاروباری لوگ ہیں جن کے لیے دکانیں بند کر کے دور جانا مشکل ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بڑے بڑے پلازوں میں ایک جگہ مخصوص کر دی جاتی ہے تو جب آپ نے باقاعدہ نماز کے لیے ایک جگہ مقرر کر دی ہے اور اس میں نماز کا وقت مقرر کر دیا ہے اور اس وقت کے لحاظ سے وہاں جماعت کھڑی ہوتی ہے تو یہ مسجد الدار ہے ۔ اس میں اور محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا ایک ہی جیسا ہے ۔ اس میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن یہ بات کہ آپ اپنے دفتر میں یا کاروبار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دوچار لوگ مل کر جماعت کرالیتے ہیں تو یہ اس کے قائم مقام نہیں ہے۔ جب آپ نے نماز کی جگہ مقرر کر دی ، نماز کا وقت مقرر کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ یہاں اب باقاعدگی کے ساتھ نماز ہوا کرے گی تو یہ چیز مسجدالدار بنا دیتی ہے ، یہ آپ کر سکتے ہیں ، اس میں اور مسجد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بائبل تو اس کے ذکر سے بھری پڑی ہے ۔ نماز عبادت ہے، دعا ہے۔ الفاظ تبدیل ہو جاتے ہیں ، ایساتو نہیں ہے کہ بائبل میں نماز ہی کا لفظ لکھا ہو ۔ نماز تو فارسی زبان کا لفظ ہے ، لیکن دعا ، عبادت تو تمام انبیا کے پاس اسی طریقے سے موجود رہی ہے ۔ قرآن مجید نے اس کوبڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں بتایا ہے کہ انہوں نے نماز ہی کی تلقین کی ۔حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں بتایا ہے کہ جب انہوں نے کعبہ کو آباد کیا تو اسی مقصد کے لیے قائم کیا کہ یہاں نماز کی روایت قائم کی جائے حضرت موسیؑ کے بارے میں قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جیسے ہی ان کی قوم نے ان کو مانا تو گھروں کو قبلہ بنا کر ان کے ہاں باقاعدہ باجماعت نماز کا اہتمام کر دیا گیا ۔نماز کوئی رسول اللہﷺ سے شروع نہیں ہوئی ، تمام انبیا کی امت میں رہی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہماری طر ح اس زمانے میں گھڑیاں نہیں تھیں اورنہ نماز کے وقت کے بارے میں مسجد میں لکھا ہوتا تھا کہ اتنے بج کر اتنے منٹ پر کھڑی ہو جائے گی ۔ایک عام قیاس تھا کہ وقت ہو گیا ہے ۔ امام باہر نکل آیا تو نماز ہو جاتی تھی تو کبھی ذرا جلدی ہو گئی کبھی ذرا بعد میں ہو گئی تو ایسے ہی ہوتا تھا ۔ جس آدمی نے جو دیکھا اس نے اسی کو بیان کر دیا۔ دونوں چیزیں رہی ہیں ، تاخیر سے بھی ہوتی رہی ہے اور جلدی بھی ۔ جیسے عشا کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ عام طریقہ کیا تھا ، کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپﷺ نے کم و بیش نصف رات کے قریب نماز پڑھائی ، ایسا بھی ہوا کہ کم و بیش ثلث لیل کے قریب نماز پڑھائی ۔نمازکے لیے ایک شروع کا وقت ہے ، ایک خاتمے کا وقت ہے ۔ اس دوران میں جب آپ چاہیں پڑھ سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اصل میں حج اور غیر حج کا کوئی مسلہ نہیں ہے ، حضورﷺ نے یہ بات بیان فرمائی کہ خواتین جب بھی لمبے سفر پر جائیں تو ان کو ایک محفوظ ماحول کے اندر رہنا چاہیے اور وہ اپنے کسی محرم ، عزیز کو ساتھ لے لیں تاکہ ان کے بارے میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہو جائے ۔ اسلام چونکہ خاندانی معاشرت کا داعی ہے اور خاندانی معاشرت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک عفت و عصمت کے بارے میں سوسائٹی حساس نہ ہو ۔ اس وجہ سے یہ تاکید آپ نے فرمائی ۔ قدیم زمانے میں تو سفر اونٹوں پر ہوتا تھا ، جنگلوں میں ہوتا تھا ، صحراؤں میں ہوتا تھا ، رات کو اکیلے لیٹنا بھی ہے ، موجودہ زمانے میں سفر کی نوعیت بدل گئی ہے تو ظاہر ہے احکام کی نوعیت بھی تبدیل ہو جائے گی ۔آپ محسوس کرتے ہیں کہ ایک محفوظ صورتحال ہے ، اس میں کسی فتنے کا اندیشہ نہیں توجایا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی قانونی چیز نہیں ہے بلکہ فتنے سے بچانے کے لیے ایک ہدایت اور ایک نصیحت ہے ، جس کا جس حد تک ممکن ہو خیال رکھنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ بسا اوقات غیر معمولی طریقے سے اللہ کی نصرت نمودارہو جاتی ہے اور اپنے بندوں کی و ہ مدد کرتا رہتا ہے ۔لیکن عام طورپر ایسی بہت سی کہانیاں مبالغے پر مشتمل ہوتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بات ٹھیک ہے کہ جہاں ظلم ہو رہا ہو وہاں جہاد کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے اور بھی بہت سی باتیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ مثلاً آپ کی طاقت کیا ہے اور کیا آپ اس وقت مدد کرنے کی پوزیشن میں بھی ہیں کہ نہیں۔ اس کے بعد آپ کا ضمیر مطمئن ہو کہ ظلم ہو رہا ہے تو آپ جہاد کر سکتے ہیں ۔ جہاد فرض اس وقت ہوتا ہے کہ جہاں کہیں ظلم ہو رہا ہے وہاں دشمن کی طاقت اور آپ کی طاقت کے درمیان مناسب نسبت تناسب بھی موجود ہو ۔جنگ بدر کے زمانے میں یہ نسبت تناسب ایک اور دس کی تھی یعنی مسلمان کفار کے مقابلے میں دس گنا کم بھی ہوں تو ٹکر لے سکتے تھے لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے یہ نسبت ایک اور دو کی کر دی۔اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اب صحابہ کے اندر ایمان کی وہ کیفیت نہیں رہی تھی جو پہلے تھی۔ کیونکہ نئے ہونے والے مسلمان صحابہ کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔ چنانچہ تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود ایک شخص اپنے طور پر مطمئن ہو کہ حالات جہاد کے متقاضی ہیں اور وہ جہاد کے لیے چلا جاتا ہے تو امید ہے کہ اللہ اس کی نیت پر فیصلہ فرمائیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تو اس کا نتیجہ بھی وہی نکلتا رہا ہے ،جو نکلنا چاہیے۔ مہدی سوڈانی کے جہاد کا کیا نتیجہ نکلا ، سید احمد شہید صاحب کے جہاد کا کیا نتیجہ نکلا ، حافظ ضامن کی قیادت میں وسط ہند میں جو جہاد ہوا اس کا نتیجہ کیا نکلا، 1857 کا نتیجہ کیا نکلا ، اللہ تعالی کا قانون تو غیر متبدل ہے ، وہ اپنے طریقے پر کام کرے گا۔ آپ کو تناسب میں آنا پڑے گا۔ورنہ اللہ تعالی کے ہاں Key word جہاد نہیں ، صبر ہے اور قرآن میں یہ دونوں لفظ بڑی وسعت سے استعمال ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالی نے جتنی صبر کی تلقین کی ہے اتنی جہاد کی نہیں کی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی کو بعض اوقات اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ صبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ حکمران آئے کہاں سے ہیں ، ہمارے اندر سے ہی آئے ہیں۔ اگر ہمار ے اندر اخلاقی لحاظ سے ایسی برتری پیدا ہوجائے کہ ایسے حکمران نہ آئیں تو نہیں آئیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عوام چین سے کیوں سوتے رہیں ، وہ اٹھیں اور اٹھ کر اپنی حکومت کو توجہ دلائیں ۔اس پر حقائق واضح کریں اور اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی طرف متوجہ کریں۔پر امن احتجاج سے حکومت کو جہاد پر مجبور کریں۔ عوام اپنا کام کریں ، اس کے بعد حکومت اپنا کام کرے گی ، اگر اس کے بعد بھی حکومت بات نہیں مانتی ہے تو پھر ظاہر ہے اس کے بعد عوام کی ذمہ داری اللہ تعالی کے ہاں سے ختم ہو گئی ۔اب اللہ کے ہاں حکومت کی پکڑ ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا نہیں ہے کہ زیادہ لوگ نہیں سمجھ سکے بلکہ زیادہ لوگ تو سمجھ گئے تھورے لوگ نہیں سمجھ سکے اور وہ بھی اس زمانے میں۔ ہمارے جلیل القدر علما نے ان کا مدعا سمجھنے میں بالعموم غلطی نہیں کی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دنیا پر اتمام حجت ، جہاد کے ذریعے سے لوگوں سے جزیہ طلب کرنااور ان کو مغلوب رکھنا صحابہ سے خاص تھا ۔ ان کے خاص حقوق ان کے منصب شہادت سے پیدا ہوئے تھے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: والدین کی خدمت کی ذمہ داری آپ پر فرض ہے ۔ اس وجہ سے ان کوزکوۃ نہ دیں بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر پورا کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر کسی کے لیے اس کے ماحول میں دین پر عمل کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہو یا اس کو روکا جا رہا ہو تو اس کے لیے ہجرت کرنااچھا ہے۔ لیکن یہ بات بڑی واضح ہونی چاہیے کہ اسے ایمان بچانا مقصود ہے یا مادی فوائد کا حاصل کرنا۔ کیونکہ اجر کا معاملہ نیت پر ہے۔ لیکن ہجرت کوئی آسان چیز نہیں ہے ، آدمی کو اپنے حوصلے کا امتحان بھی لے لینا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ وہ ایک نیکی کا کام کرے اور بعد میں اس کے شدائد کو برداشت نہ کر سکے اور جو نیکی وہ یہاں کر رہا ہے اس سے بھی محروم ہو جائے۔اس کا جائزہ ضرور لے لینا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کو سزا دینے کا اختیار نہیں ہے ، آپ سمجھاسکتے ہیں۔ سزا دینے کا اختیارصرف عدالت کو ہے ۔ اگر مجھے اور آپ کو بھی سزا کا اختیار دے دیا جائے تو پھر اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ صحیح سزا دی گئی ہے یا غلط۔ اس طرح جنگل کا قانون جاری ہو جائے گا۔ہر کوئی دوسرے کو سزا دینے لگے گا اور کہے گا ہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔سزا کے لیے صرف آنکھوں سے دیکھ لینا کافی نہیں ہوتا باقی بہت سے معاملات بھی مد نظر رکھنے پڑتے ہیں۔ جب عدالت میں معاملہ جاتا ہے تو عدالت تمام معاملات ، محرکات اور واقعات کو سامنے رکھ کرفیصلہ کرتی ہے۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ آپ کے ذمے لگایا ہی نہیں کہ آپ سزا نافذکریں یہ عدالت کے ذمہ ہے تو جو چیز آپ کے ذمہ نہیں آپ خواہ مخواہ کیوں اس کو اپنے اوپر لیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:ضروری نہیں ہے لیکن نبی ﷺ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ عام طور پر اس کا اہتمام کرتے تھے ۔ اس لیے ایسا کیا جائے تو بہتر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب آپ محسوس کریں کہ وہ اپنے معاملات کو سنبھالنے کی حد کو پہنچ گیا ہے۔ یہ حد ظاہر ہے کہ مختلف لوگوں کے لحا ظ سے مختلف ہو گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ معاملہ ختم ہو گیا ۔یہ تو ایک مصیبت تھی جس سے ہمیں دوچار ہونا پڑا تھا ، جیسے آج سود کا معاملہ ہے کہ کسی کا بھی اس سے بچنا ممکن نہیں رہا الا ماشا ء اللہ۔ بالکل یہی صورت حال اس وقت لونڈیوں غلاموں کی تھی۔ جائز کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عملاً اور قانونی طور پر اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا ۔ جب تک کہ آپ کوئی متبادل صورت نہیں پیدا کر دیتے ۔ بہت سے لوگ آج کے زمانے میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ایک حکم دے دیا جاتا کہ سب آزاد ہیں تو ان کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ سارے لونڈی غلام نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نہیں تھے، بوڑھے ، اپاہج ، لولے ، لنگڑے سب قسم کے لوگ تھے ۔ان میں سے بہت سے لوگ اپنے پاؤں پر کھڑ ا ہونے کے قابل نہیں تھے اور سوسائٹی بھی اس قابل نہیں تھی کہ فوری طور پر ان کی معاش کا بندوبست کر دیا جاتا ۔ اگر ایک ہی حکم سے وہ آزاد کر دیے جاتے او ران کے مالکوں کی ذمہ داری ختم ہو جاتی تو عورتیں بدکاری کے سوا کوئی پیشہ نہ کر سکتیں اور مرد سوائے بھیک مانگنے کے اور کچھ نہ کر سکتے ۔ اس وجہ سے اس مسئلے کو تدریج اور حکمت سے ختم کیا گیا۔ یہ اسلام کی کوئی مجبوری یا ضرورت نہیں تھی ایک مسئلہ تھا اس زمانے کا جس کا حل دیا گیا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: رفع یدین کے مسئلے پر صحابہ کااجماع نہیں ہوسکا اس لیے یہ ضروری نہیں لیکن چونکہ بعض روایتوں میں اس کا ذکر ہوا ہے اس لیے اگر کوئی کرتا ہے تو اس کوبدعت ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آدمی جب بالغ نہیں ہوتا ، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں ہوتا اور وہ اپنے والد سے محروم ہو جائے تو اس کو یتیم کہا جاتا ہے

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ آدمی جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور پھر قیامت تک کے لیے ایک اوٹ ہے جس میں اس کو رکھا جاتا ہے ، عربی زبان میں اوٹ کے لیے برزخ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، اسی سے ہمارے ہاں یہ اصطلاح بن گئی کہ وہ معاملات جو آدمی پر مرنے کے بعد قیامت سے پہلے واقع ہوں گے وہ گویا عالم برزخ کے معاملات ہیں۔عالم برزخ امور متشابہات میں سے ہے جس طرح نیند کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ وہ موت نہیں ہوتی اسی طرح عالم برزخ کو بھی ایک قسم کی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ وہ اس طرح کی زندگی نہیں ہوتی جیسی اب ہے یا جیسی قیامت کے بعد ہو گی۔ لیکن ہے بہر حال زندگی۔ اس میں انبیا ، شہدا اور صالحین کا امتیاز بیا ن کیا گیا ہے اسی طرح آل فرعون کا امتیاز سزا کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی ان کو سزا ملتی ہے اور شہدا کو رزق حقیقی زندگی تو قیامت کے بعد شروع ہو گی برزخ میں جو زندگی کی نوعیت ہے اس کا ہم شعور نہیں کر سکتے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ اصل میں علما کی اصطلاح ہے اور ان موقعوں پر بولی جاتی ہے جہاں قرآن مجید نے حالات یا ضرورت کے لحاظ سے ا حکام میں کچھ تغیر و تبدل کیا ہے ۔اس کی چند موٹی موٹی مثالیں یہ ہیں ۔ نبیﷺ کو منافقین سرگوشیاں کرنے کے لیے بہت تنگ کرتے تھے تو یہ حکم دیا گیا کہ جو لوگ بھی حضورﷺ سے ملنا چاہیں وہ پہلے کچھ نہ کچھ غریبوں اور مسکینوں کو صدقہ کریں اور تنہائی کی ملاقات کے لیے اس کے بعد آئیں ۔اس پابندی سے مقصود یہ تھا کہ لوگ متنبہ ہو جائیں ۔ منافقین کے لیے مال خرچ کرنا آسان نہیں تھا ۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ پابندی ختم کردی گئی ۔ یہ دونوں آیتیں قرآن مجید میں اوپر اور نیچے ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ یہی معاملہ روزے کے ا حکام میں ہے ۔ پہلے مرحلے میں یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ اگر کسی کے رمضان میں روزے چھوٹ گئے ہوں تو چاہے تو وہ روزے رکھ لے اور چاہے توایک مسکین کو ہر روزے کے بدلے میں کھانا کھلا دے یعنی بعد میں روزے رکھنا لازم نہیں تھا ۔ بعد میں قرآن مجید نے یہ وضاحت کر دی کہ اب یہ بات ختم ہو گئی ، اب تم عادی ہو گئی ہو اور روزے سے مانوس بھی ہو گئے ہو تو اب اگر روزے چھوٹ جائیں تو بعد میں پورے کرنے پڑیں گے اور یہ بتا دیا کہ مقصود یہ ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں رمضان کے روزوں کی تعداد کم سے کم پوری ہونی چاہیے ۔ اس میں کمی نہیں ہونی چاہیے ۔ یہ ایک طرح کا تغیر و تبدل ہے ۔ اسی طرح ایک مقام پر قرآن مجید نے ہدایت فرمائی کہ وہ عورتیں جو بدکاری کرتی ہیں یعنی عادی بدکار عورتیں ہیں ، ان کو گھروں میں بند کر دیا جائے یہاں تک کہ ان کے بارے میں کوئی تفصیلی قانون اللہ تعالی نازل کر دے یا ان کا دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آجائے ۔ یہ الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ اس معاملے میں اللہ تعالی قانون سازی فرمائیں گے چنانچہ اس کے بعد بدکاری کی باقاعدہ سزا مقرر کر دی گئی اور اوباشوں کی سزا کے لیے بھی باقاعدہ احکام آگئے اور جب احکام آگئے تو اب ظاہر ہے پہلی آیت پر عمل درآمد کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ کسی سوسائٹی کے اندر ہم شریعت نافذ کریں ، اور وہاں اسی طرح کے حالات ہوں کہ جہاں ابھی قانون کا نفاذ مشکل ہوتو اس آیت سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میراث کے معاملے میں پہلے اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اپنے اعزا واقربا کے لیے وصیت کرو اور وصیت کے بارے میں فرمایا کہ یہ تم پر لازم ہے اور یہ معروف او ردستور کے مطابق ہونی چاہیے لیکن ظاہر ہے اس سے ظلم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا تھا ۔ جب لوگ نئے احکام کے عادی ہو گئے تو باقاعدہ میراث کے احکام دے کے اللہ تعالی نے حصے مقرر کر دیے اور کہا کہ یہ ہماری طرف سے مقرر کر دہ حصے ہیں ، ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔اس میں یہ فرمایا کہ یہ ہم نے خود کیوں کیا ہے کہ لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا کہ تم خود تعین نہیں کر سکتے تھے کہ کس کو زیادہ دیا جائے اور کس کو کم دیا جائے ۔یہ مشکل کام تھاتو اللہ تعالی نے خود اس معاملے میں رہنمائی فرما دی ۔ اسی طرح کا ایک معاملہ سورہ انفال میں ہے ، صحابہ کرام پر جہاد کی ذمہ داری ڈالی گئی تو فرمایا کہ ایک نسبت دس سے تم کو جہاد کرنا ہے ، اس کے بعد جب دوسرے لوگ بھی ایمان لے آئے ، مسلمانوں کی تعداد زیادہ بڑھ گئی اور ایمان کی وہ کیفیت بحیثیت مجموعی پوری جماعت میں نہیں رہی جو صحابہ کرام کی تھی تو فرمایا کہ اب اللہ تعالی نے اس معاملے میں ذمہ داری کو کم کر دیا ہے ، اب ایک نسبت دو کے ساتھ تم کو جہاد کی ذمہ داری انجام دینی چاہیے ۔تو پہلے حکم میں تغیر ہوا ۔ ظاہر ہے اگر ایمان کی وہی کیفیت اور ویسی جماعت کہیں آج بھی وجود میں آجائے ،تواللہ تعالی کی وہ نصرت بھی اسی طریقے سے ہو سکتی ہے۔ لیکن اب ہم اس کو کسی طرح بھی جان نہیں سکتے ۔ ہمارے لیے تو اب اپنے حالات ہی کے لحاظ سے فیصلہ کرنا ہو گا ۔ ایسی مثالوں کو عام طور پر ناسخ و منسوخ کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ چند مقامات ہیں جہاں پہلے ایک صورت اختیار کی گئی ہے اور پھر حالات کے مطابق اس میں تبدیلی کر دی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں یہ دونوں موجود ہیں اور اسی طرح ان کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ ان کے لیے زیادہ موزوں تعبیر یہی ہے کہ اس آیت کے حکم میں تغیر ہو گیا ، یہ تعبیر اختیار کر لی جائے تو بہت سی بحث ختم ہو جاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: زندگی میں کوئی پابندی نہیں ہے ، آپ ساری کی ساری جائیداد بیٹی کو دے دیں یا جس کو چاہیں دے دیں۔زندگی میں صرف ایک شرط ہے کہ بے انصافی نہ کریں۔زندگی میں اللہ تعالی نے کسی بندے کیلیے اپنے مال پر تصرف پر کوئی پابندی سوا اس کے نہیں لگائی کہ انصاف کے ساتھ معاملہ کیا جائے ۔مرنے کے بعد وراثت کے احکام کے مطابق ہی جائداد تقسیم ہو گی۔ اگر ایک ہی بیٹی ہے تو آدھی جائیداد اس کی ہے اور باقی آدھی اقربا میں چلی جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر کسی کی اولاد اس بنیاد ہی کو منہدم کر دے جس پر میراث کا قانون قائم ہے ، یعنی جلب منفعت تو عاق کیا جا سکتا ہے ۔اولاد سے آدمی کو جو منفعت حاصل ہوتی ہے یا والدین یا دوسرے اقربا سے حاصل ہوتی ہے ، اس کی بنیاد پر اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں نے حصوں میں فرق کیا ہے ۔ اگر فرض کیجیے کسی وقت یہ بنیاد ہی ختم ہو گئی یعنی صورتحال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ کسی منفعت کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا ۔ انسان ایک بیٹے کو نہیں اوباش کو آدمی جنم دے بیٹھا ہے تواس کو میراث سے محروم کیا جا سکتا ہے اور یہ فیصلہ اسی شخص کو کرنا ہے جس کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہے ۔اگر اس معاملے میں نزاع ہو تو معاملہ عدالت میں جا سکتا ہے اور عدالت دونوں طرف کے معاملات دیکھ کر اس میں کوئی فیصلہ دے سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وہ تو بہرحال یتیم ہی ہیں ، اس لیے کہ دوسرے والد سے یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ ان بچوں کو وہی سرپرستی فراہم کرے گا جو ان کا والد کرتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام حیا کی جو قدر قائم کرنا چاہتا ہے ، اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ شروع ہی سے الگ الگ اہتمام کیجیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن پڑھ کر پھونک دینے سے کھانا حرام نہیں ہوجاتا۔البتہ اگر کھانے کو کسی کی نذرکر دیا گیا ہے یا کسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے پھر اس کو کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: درود ابراہیمی تو رسالت مآبﷺ کا سکھایا ہوا ہے ۔ اس کو آپ پڑھیں تو کیا کہنے ہیں ۔البتہ یہ الفاظ بھی اگر کوئی عقیدے کا فساد نہ ہوتو کوئی ممنوع نہیں ہیں۔ یعنی اگر آپ حاضر و ناضر کا عقیدہ نہیں رکھتے ، محض التفات اور محبت کی وجہ سے پڑھ رہے ہیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور باعث برکت ہے اور اس سے روزہ میں قوت رہتی ہے۔اگر آپ نے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھایا پیا اور گیارہ بجے (یعنی شرعی نصف النہار) سے پہلے روزہ کی نیت کر لی تو آپ کا روزہ صحیح ہے قضا کی ضرورت نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج :  سورج غروب ہونے کے بعد روزہ افطار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت خیر پر رہے گی، جب تک سحری کھانے میں تاخیر اور( سورج غروب ہونے کے بعد)روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔(مسند احمد ص ۱۷۲ج۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔’’ (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔ (ترمذی، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کریں گے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ تاخیر کرتے ہیں۔’’

(ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

مگر یہ ضروری ہے کہ سورج کے غروب ہوجانے کا یقین ہو جائے تب روزہ کھولنا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  روزہ صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے۔ پس صبح صادق سے پہلے پہلے کھانے پینے کی اجازت ہے۔ اگر صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  بغیر کچھ کھائے پیئے روزے کی نیت کر لے۔سونے سے پہلے روزے کی نیت کی اور صبح صادق کے بعد آنکھ کھلی تو روزہ شروع ہو گیا۔ اب اس کو توڑنے کا اختیار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جب اس نے رات کو سونے سے پہلے روزے کی نیت کر لی تھی تو صبح صادق کے بعد اس کا روزہ (سونے کی حالت میں) شروع ہو گیا اور روزہ شروع ہونے کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟ کیونکہ روزہ رکھنے کا فیصلہ تو وہ کر چکا ہے اور اس کے اسی فیصلہ پر روزہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ اب روزہ شروع کرنے کے بعد اس کو توڑنے کا اختیار نہیں اگر رمضان کا روزہ توڑ دے گا تو اس پر قضا اورکفارہ دونوں لازم آئیں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  اگر صبح صادق ہوجانے کے بعد کھایا پیاتو روزہ نہ ہو گا خواہ اذان ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو اور اذانیں عموماً صبح صادق کے بعد ہوتی ہیں۔ اس لیے اذان کے وقت کھانے پینے والوں کا روزہ نہیں ہو گا۔ عموماً مسجدوں میں اوقات کے نقشے لگے ہوتے ہیں۔ ابتدائے فجر کا وقت دیکھ کر اس سے چار پانچ منٹ پہلے سحری کھانا بند کر دینا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نقشوں میں صبح صادق کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اس سے دوچار منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دینا چاہیے ایک دو منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو روزہ ہو جائے گا لیکن دس منٹ بعد کھانے کی صورت میں روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کھولنے کے لیے نیت شرط نہیں غالباً ‘‘افطار کی نیت’’ سے آپ کی مراد وہ دعا ہے جو روزہ کھولتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ افطار کے وقت کی دعا مستحب ہے، شرط نہیں، اگر دعا نہ کی اور روزہ کھول لیا تو روزہ بغیر کراہت کے صحیح ہے، البتہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے ، اس لیے دعا کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ بلکہ افطار سے چند منٹ پہلے خوب توجہ کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اصول یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں آدمی روزہ رکھتے وقت اور افطار کرتے وقت موجود ہو، پس جو شخص عرب ممالک سے روزہ رکھ کر کراچی آئے اس کو کراچی کے وقت کے مطابق افطار کرنا ہو گا اور جو شخص پاکستان سے روزہ رکھ کر مثلاً سعودی عرب گیا ہو اس کو وہاں کے غروب کے بعد روزہ افطار کرنا ہو گا، اس کے لیے کراچی کے غروب کا اعتبار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ دار کو جب آفتاب نظر آرہا ہو تو افطار کرنے کی اجازت نہیں ہے، طیارہ کا اعلان بھی مہمل اور غلط ہے۔ روزہ دار جہاں موجود ہو وہاں کا غروب معتبر ہے۔ پس اگر وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس بلندی سے غروبِ آفتاب دکھائی دے تو روزہ افطار کر لینا چاہیے جس جگہ کی بلندی پر جہاز پرواز کر رہا ہے وہاں کی زمین پر غروبِ آفتاب ہو رہا ہو تو جہاز کے مسافر روزہ افطار نہیں کریں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر آپ سے آپ قے آگئی تو روزہ نہیں گیا خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اور اگر خود اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کر ہوئی تو روزہ ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔اگر روزے دار اچانک بیمار ہو جائے اور اندیشہ ہو کہ روزہ نہ توڑا تو جان کا خطرہ ہے، یا بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے ایسی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے۔اسی طرح اگر حاملہ عورت کی جان کو یا بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو روزہ توڑ دینا درست ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ نے رمضان کا جو روزہ توڑا وہ عذر کی وجہ سے توڑا اس لیے اس کا کفارہ آپ کے ذمہ نہیں بلکہ صرف قضا لازم ہے اور جو روزے آپ بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکیں ان کی جگہ بھی قضا روزے رکھ لیں۔ آئندہ بھی اگر آپ رمضان مبارک میں بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں تو سردیوں کے موسم میں قضا رکھ لیا کریں، اور اگر چھوٹے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان روزوں کا فدیہ ادا کردیں، ایک دن کے روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ۱۔ رمضان شریف کے روزے ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہیں اور بغیر کسی صحیح عذر کے روزہ نہ رکھنا حرام ہے۔

۲۔ اگر نابالغ لڑکا، لڑکی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ماں باپ پر لازم ہے کہ ان کو بھی روزہ رکھوائیں۔

۳۔ جو بیمار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ رکھنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ نہ ہو اس پر بھی روزہ رکھنا لازم ہے۔

۴۔ اگر بیماری ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہویا روزہ رکھنے سے بیماری بڑھ جانے کا خطرہ ہو تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر جب تندرست ہوجائے تو بعد میں ان روزوں کی قضا اس کے ذمہ فرض ہے۔

۵۔ جو شخص اتنا ضعیف العمر ہو کہ روزہ کی طاقت نہیں رکھتا، یا ایسا بیمار ہو کہ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ صحت کی امید ہے، تو وہ روزے کا فدیہ دے دیا کرے یعنی ہر روزے کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت کسی مسکین کو دے دیا کرے یا صبح و شام ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔

۶۔ اگر کوئی شخص سفر میں ہو، اور روزہ رکھنے میں مشقت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ بھی قضا کر سکتا ہے۔ دوسرے وقت میں اس کو روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ اور اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔ اگرچہ روزہ نہ رکھنے اور بعد میں قضا کرنے کی بھی اس کو اجازت ہے۔

۷۔ عورت کو حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ مگر رمضان شریف کے بعد اتنے دنوں کی قضا اس پر لازم ہے۔

۸۔ بعض لوگ بغیر عذر کے روزہ نہیں رکھتے اور بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑدیتے ہیں اور پھر بعد میں قضا بھی نہیں کرتے، خاص طور پر عورتوں کے جو روزے ماہواری کے ایام میں رہ جاتے ہیں وہ ان کی قضا میں سستی کرتی ہیں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: امتحان کے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں، اور ایک شخص کی جگہ دوسرے کا روزہ رکھنا درست نہیں۔ نماز اور روزہ دونوں خالص بدنی عبادتیں ہیں۔ ان میں دوسرے کی نیابت جائز نہیں۔ جس طرح ایک شخص کے کھانا کھانے سے دوسرے کا پیٹ نہیں بھرتا، اسی طرح ایک شخص کے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے سے دوسرے کے ذمہ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنا درست نہیں، اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر آپ اس بیماری کی وجہ سے روزہ پورا نہیں کر سکتے تو آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور اگر چھوٹے دنوں میں آپ روزہ رکھ سکتے ہیں تو ان روزوں کی قضا لازم ہے اور اگر کسی موسم میں بھی روزہ رکھنے کا امکان نہیں تو روزوں کا فدیہ لازم ہے، تاہم جن روزوں کا فدیہ ادا کیا گیا اگر پوری زندگی میں کسی وقت بھی روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو یہ فدیہ غیر معتبر ہو گا، اور ان روزوں کی قضا لازم ہو گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر اندیشہ ہے کہ روزہ رکھا گیا تو مرض عود کر آئے گا تو آپ ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کر سکتے ہیں اور جو روزے آپ کے رہ جائیں اگر سردیوں کے دنوں میں ان کی قضا ممکن ہو تو سردیوں کے دنوں میں یہ روزے پورے کریں ورنہ روزوں کا فدیہ ادا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ تو واضح ہے کہ جب تک ایام شروع نہیں ہوں گے عورت پاک ہی شمار ہو گی۔ اور اس کو رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہو گا، رہا یہ کہ روکنا صحیح ہے یا نہیں؟ تو شرعاً روکنے پر کوئی پابندی نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ فعل عورت کی صحت کے لیے مضر ہو تو جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جو روزے رہ گئے ہوں ان کی قضا فرض ہے۔ اگر صحت و قوت اجازت دیتی ہو تو ان کو مسلسل رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو جلد سے جلد قضا کر لینا بہتر ہے ورنہ جس طرح سہولت ہو رکھ لیے جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اللہ تعالیٰ آپ کو جزا ئے خیر دے آپ نے ایک ایسا مسئلہ پوچھا ہے جس کی ضرورت تمام مسلم خواتین کو ہے اور جس میں عموماً ہماری بہنیں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتی ہیں۔ عورتوں کے جو روزے ‘‘خاص عذر’’ کی وجہ سے رہ جاتے ہیں ان کی قضا واجب ہے اور سستی و کوتاہی کی وجہ سے اگر قضا نہیں کئے تب بھی وہ مرتے دم تک ان کے ذمے رہیں گے۔ توبہ و استغفار سے روزوں میں تاخیر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن روزے معاف نہیں ہوں گے۔ وہ ذمے رہیں گے۔ ان کا ادا کرنا فرض ہے، البتہ اس تاخیر اور کوتاہی کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ جب سے آپ پر نماز روزہ فرض ہوا ہے اس وقت سے لے کر جتنے رمضانوں کے روزے رہ گئے ہوں ان کا حساب لگالیجیے اور پھر ان کو قضا کرنا شروع کیجیے۔ ضروری نہیں کہ لگاتار ہی قضا کیے جائیں بلکہ جب بھی موقع ملے قضا کرتی رہیں اور نیت یوں کیا کریں کہ سب سے پہلے رمضان کا جو پہلا روزہ میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتی ہوں اور اگر خدانخواستہ پوری عمر میں بھی پورے نہ ہوں تو وصیت کرنا فرض ہے کہ میرے ذمہ اتنے روزے باقی ہیں ان کا فدیہ میرے مال سے ادا کر دیا جائے اور اگر آپ کو یہ یاد نہیں کہ کب سے آپ کے ذمہ روزے فرض ہوئے تھے تو اپنی عمر کے دسویں سال سے روزوں کا حساب لگائیے اور ہر مہینے جتنے دنوں کے روزے آپ کے رہ جاتے ہیں اتنے دنوں کو لے کر گزشتہ تمام سالوں کا حساب لگا لیجیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  کفارے کے ساٹھ روزے لگاتار رکھنا ضروری ہے، اگر درمیان میں ایک دن کا بھی ناغہ ہو گیا تو گزشتہ تمام روزے کالعدم ہو جائیں گے اور نئے سرے سے شروع کرکے ساٹھ روزے پورے کرنا ضروری ہوں گے۔ لیکن عورتوں کے ایام حیض کی وجہ سے جو جبری ناغہ ہوجاتا ہے وہ معاف ہے، ایام حیض میں روزے چھوڑ دے، اور پاک ہوتے ہی بغیر وقفہ کے روزہ شروع کر دیا کرے۔ یہاں تک کہ ساٹھ روزے پورے ہو جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کسی نے بھولے سے کچھ کھا پی لیاتھا اور یہ سمجھ کرکہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے، قصداً کھا پی لیا تو قضا واجب ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی کو قے ہوئی، اور پھر یہ خیال کرکے کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے کچھ کھا پی لیا۔ تو اس صورت میں قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہ ہو گا لیکن اگر اسے یہ مسئلہ معلوم تھا کہ قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس کے باوجود کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں اس کے ذمہ قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س: اس مرتبہ رمضان المبارک میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا وہ یہ کہ میں روزہ سے تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو تلاوت کرنے بیٹھ گیا پانچ بجے تلاوت ختم کی اور افطاری کے سلسلے میں کام میں لگ گیا۔ واضح ہو کہ میں گھر میں اکیلا رہ رہا ہوں، سالن وغیرہ بنایا۔ حسب معمول شربت وغیرہ بنا کر رکھا۔ باورچی خانہ سے واپس آیا تو گھڑی پر ساڑھے پانچ بجے تھے۔ اب میرے خیال میں آیا کہ چونکہ روزہ پانچ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے، چالیس منٹ پر کچھ پکوڑے بنا لوں گا۔ خیر اپنے خیال کے مطابق چالیس منٹ پر باورچی خانہ میں گیا۔ پکوڑے بنانے لگا۔ پانچ بن کر پچا س منٹ پر تمام افطاری کا سامان رکھ کر میز پر بیٹھ گیا۔ مگر اذان سنائی نہ دی ایئر کنڈیشن بند کیا۔ کوئی آواز نہ آئی۔ پھر فون پر وقت معلوم کیا تو ۵۵:۵ ہو چکے تھے میں نے سمجھا اذان سنائی نہیں دی ممکن ہے مائیک خراب ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو، اور روزہ افطار کر لیا۔ پھر مغرب کی نماز پڑھی۔اس کے بعد اچانک خیال آیا کہ روزہ تو چھ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے۔ بس افسوس اور پشیمانی کے سوا کیا کر سکتا تھا پھر کلی کی۔ چند منٹ باقی تھے۔ دوبارہ روزہ افطار کیا مغرب کی نماز پڑھی۔ براہِ کرم آپ مجھے اس کوتاہی کے متعلق بتائیں کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو صرف قضا واجب ہے یا کفارہ؟ اور اگر کفارہ واجب ہے تو کیا میں صحت مند ہوتے ہوئے بھی ساٹھ مسکینوں کو بطور کفارہ کھانا کھلا سکتاہوں؟

ج: آپ کا روزہ تو ٹوٹ گیا مگر چونکہ غلط فہمی کی بناء پر روزہ توڑ لیا اس لیے آپ کے ذمہ صرف قضا واجب ہے کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو ، غسل یا کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر اس صورت میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں غرغرہ کرنا اور ناک میں زور سے پانی ڈالنا ممنوع ہے اس سے روزے کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ قوی ہے اگر غسل فرض ہو تو کلی کرے ناک میں پانی بھی ڈالے مگر روزے کی حالت میں غرغرہ نہ کرے نہ ناک میں اوپر تک پانی چڑھائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں حقہ پینے یا سگریٹ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر یہ عمل جان بوجھ کر کیا ہو تو قضا و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کوئی ایسی چیز نگل لی، جس کو بطور غذا یا دوا کے نہیں کھایا جاتا تو روزہ ٹوٹ گیا اور صرف قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  دانتوں میں گوشت کا ریشہ یا کوئی چیز رہ گئی تھی۔ اور وہ خود بخود اندر چلی گئی ، تو اگر چنے کے دانے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ جاتا رہا۔ اور اگر اس سے کم ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ اور اگر باہر سے کوئی چیز منہ میں ڈال کر نگل لی تو خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: زبان سے کسی چیز کا ذائقہ چکھ کر تھوک دیا تو روزہ نہیں ٹوٹا، مگر بے ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر خون منہ سے نکل رہا تھا۔ اس کو تھوک کے ساتھ نگل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا دھواں خود بخود چلا گیا۔ یا گرد و غبار چلاگیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اور اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتا رہا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آنکھ میں دوائی ڈالنے یا زخم پر مرہم لگانے یا دوائی لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ لیکن ناک اور کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اور اگر زخم پیٹ میں ہو یا سر پر ہو اور اس پر دوائی لگانے سے دماغ یا پیٹ کے اندر دوائی سرایت کر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ دوا آپ سحری بند ہونے سے پہلے استعمال کر سکتی ہیں۔ دوائی کھا کر خوب اچھی طرح منہ صاف کر لیا جائے پھر بھی کچھ حلق کے اندر رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ حلق سے بیرونی حصہ میں لگی ہو تو اسے حلق میں نہ لے جائیے۔ روزہ کی حالت میں اس دوا کا استعمال صحیح نہیں۔ اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ انجکشن کی دوا اگر براہِ راست معدہ یا دماغ میں نہ پہنچے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے سانس کی تکلیف میں آپ انجکشن لے سکتی ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: عذر کی وجہ سے رگ میں بھی انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ صرف طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ گلوکوز کے انجکشن کا بھی یہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو تو خون نکلنے سے ٹوٹ جائے گا اور روزے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خون حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں جب روزہ رکھنے کا ارادہ کر لیا تو نیت ہو گئی زبان سے نیت کے الفاظ کہنا کوئی ضروری نہیں دانت نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ خون حلق میں نہ گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سر پر یا بدن کے کسی اور حصہ پر تیل لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر روزہ کی حالت میں احتلام ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، روزے دار کو غسل کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ پانی نہ حلق سے نیچے اترے، اور نہ دماغ میں پہنچے، اس لیے اس کو کلی کرتے وقت غرغرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور ناک میں پانی بھی زور سے نہیں چڑھانا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ٹوتھ پیسٹ کا استعمال روزہ کی حالت میں مکروہ ہے تاہم اگر حلق میں نہ جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کلی کرکے پانی گرا دینا کافی ہے بار بار تھوکنا فضول حرکت ہے اسی طرح ناک کے نرم حصے میں پانی پہنچانے سے پانی دماغ تک نہیں پہنچتا اس سلسلہ میں بھی وہم کرنا فضول ہے۔ آپ کے وہم کا علاج یہ ہے کہ اپنے وہم پر عمل نہ کریں خواہ طبیعت میں کتنا ہی تقاضا ہو، اس طرح رفتہ رفتہ وہم کی بیماری جاتی رہے گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ کا روزہ تو نہیں ٹوٹے گا مگر گناہ میں فی الجملہ شرکت آپ کی بھی ہو گی، آپ کے منیجر صاحب اگر مسلمان ہیں تو ان کو اتنا لحاظ کرنا چاہیے کہ روزے دار سے پانی نہ منگوائیں۔ بہرحال اگروہ اپنے طرزِ عمل کو نہیں چھوڑتے تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کی نوکری چھوڑ دیں بشرطیکہ آپ کو کوئی ذریعہ معاش مل سکے ورنہ نوکری کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کہ پیٹ کی خاطر مجھے اس گناہ میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: بالغ ہونے کے بعد سے جتنے روزے آپ نے نہیں رکھے ان کی قضا لازم ہے۔ اگر بالغ ہونے کا سال ٹھیک سے یاد نہ ہو تو اپنی عمر کے تیرھویں سال سے آپ اپنے آپ کو بالغ سمجھتے ہوئے تیرھویں سال سے روزے قضا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر یاد نہ ہو کہ کس رمضان کے کتنے روزے قضا ہوئے ہیں تو اس طرح نیت کرے کہ سب سے پہلے رمضان کا پہلا روزہ جو میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتا ہوں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: درست ہے کیونکہ اس کے حق میں فرض کی قضا زیادہ ضروری اور اہم ہے، تاہم اگر فرض قضا کو چھوڑ کر نفل روزے کی نیت سے روزہ رکھا تو نفل روزہ ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: فدیہ دینے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو، اور نہ آئندہ پوری زندگی میں یہ توقع ہو کہ وہ روزہ رکھنے پر قادر ہو گا۔ آپ کی اہلیہ اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لیے ان پر ان روزوں کی قضا لازم ہے۔ خواہ سردیوں کے موسم میں رکھ لیں، فدیہ دینا ان کے لیے جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کا فدیہ صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو روزہ رکھنے پر نہ تو فی الحال قادر ہو اور نہ آئندہ توقع ہو۔ مثلاً کوئی اتنا بوڑھا ہے کہ روزے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ یا ایسا بیمار ہے کہ اس کے شفا یاب ہونے کی کوئی توقع نہیں۔ زید کی بیوی روزہ رکھ سکتی ہے۔ محض غفلت اور تساہل کی وجہ سے نہیں رکھتی۔ اس کا روزے کے بدلے فدیہ دینا صحیح نہیں۔ بلکہ روزوں کی قضا لازم ہے۔ اس نے جو پیسے کسی محتاج کو دیئے یہ خیرات کی مد میں شمار ہوں گے۔ جتنے روزے اس کے ذمہ ہیں سب کی قضا کرے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: روزے کی مقبولیت کے لیے سحری کھانا شرط نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے جس پر حضوؐر نے خود بھی عمل کیا اور لوگوں کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث نبوی ہے:

            تسحروا فان فی السحور برکۃ. (بخاری و مسلم)

            ‘‘سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔’’

            اسی طرح سحری تاخیر سے کھانا بھی سنت ہے اور افطار میں جلدی کرنا بھی سنت ہے کیوں کہ اس طرح بھوک اور پیاس کی شدت کچھ کم ہو جاتی ہے اور اس طرح روزے کی مشقت میں بھی قدرے تخفیف ہوتی ہے۔ بلا شبہ دین اسلام نے عبادتوں میں حتی الامکان تخفیف اور آسانی کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ لوگوں کا دل ان عبادات کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو۔ انھیں آسانیوں میں سے حضورﷺ کی یہ تاکید ہے کہ سحری تاخیر سے کھائی جائے اور افطار میں جلدی کی جائے۔ حضورﷺ کی سنت کے اتباع میں فجر سے قبل اٹھنا باعث ثواب ہے ، چاہے ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی سے یہ سنت ادا کی جائے۔سحری میں ایک روحانی فائدہ بھی ہے۔ فجر سے قبل اٹھنا ایک ایسی گھڑی میں اٹھنا ہے جب اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے۔ بندے کا ایسی گھڑی میں اپنے خالق و مالک سے مناجات کرنا اورمغفرت کی دعائیں کرنابہت قیمتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ بستر پر سوتے پڑے رہنے کے برابر ہو سکتا ہے؟ ہم خود تصور کر سکتے ہیں کہ ان دونوں حالتوں میں کس قدر زمین و آسمان کا فرق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزے کی حالت میں احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس پر انسان کا بس نہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو کسی ایسے کام کا مکلف نہیں کرتا، جس پر اس کا بس نہ ہو۔ اسی طرح روزے کی حالت میں غسل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے غیر ارادی طور پر پانی اس کے کانوں سے ہوتا ہوا حلق تک پہنچ جائے یا کلی کرتے وقت حلق میں چلا جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

             وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَأْتُم بِہٖ وَلٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ.(الاحزاب:۵)

            ‘‘اور نادانستہ جو کام تم کرو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اس پر گرفت ضرور ہے، جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ایسے بوڑھے جنھیں روزہ رکھنے میں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھیں۔ اسی طرح وہ مریض جس کا مرض مستقل نوعیت کا ہو اور اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو، اس کے لیے بھی جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے بشرطیکہ یہ ایک ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہو یا روزے کی وجہ سے مرض میں اضافے کا خوف ہو۔ ان سبھی کے لیے رخصت کی بنیاد پر قرآن کریم کی یہ آیت ہے:

            یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ.(البقرۃ:۱۸۵)

                        ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بوڑھے اور اس جیسے معذور اشخاص کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے:

            وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْراً فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ. (البقرہ:۱۸۴)

            ‘‘اور جو لوگ (مسکین کو کھلانے کی) قدرت رکھتے ہوں تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔’’

            روزہ معاف ہونے کی صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ ہر ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔

            حاملہ عورت اگر روزے کو اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے بھی روزے معاف ہیں کیونکہ ایک انسانی جان جو اس کے پیٹ میں ہے، اس کی حفاظت اس پر فرض ہے۔ تاہم ان روزوں کے بدلے میں وہ ان روزوں کی قضا کرے گی یا قضا کے ساتھ ساتھ مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی یا صرف کھانا ہی کافی ہے؟ اس امر میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ صرف روزوں کی قضا کرے گی۔

            میری رائے یہ ہے کہ وہ عورت جو بہت تھوڑے وقفے سے حاملہ ہو جاتی ہو اس پر قضا واجب نہیں ہے کیونکہ عملاً چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس کے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ رہا خوشبو کا استعمال تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ روزے کی حالت میں خوشبو کا استعمال جائز ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب:تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مریض کے لیے روزہ معاف ہے۔ جب وہ اچھا ہو جائے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

            وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

            ‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

            تاہم ہر قسم کے مرض میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں جن میں روزہ رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً کمر میں یا انگلی میں درد وغیرہ۔ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں کہ روزہ رکھنا مفید ہوتا ہے مثلاً دست اور پیچش کا مرض۔ اس قسم کے امراض میں روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس مرض میں اس کی اجازت ہے جس میں روزہ رکھنے سے مرض میں اضافے کا اندیشہ ہو یا روزہ رکھنے سے شدید تکلیف ہوتی ہو۔ ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔ اگر ڈاکٹر کے مشورے کے باوجود اور تمام تکلیفوں کو سہتے ہوئے کوئی شخص روزہ رکھتا ہے، تو یہ ایک مکروہ کام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آسانی کی صورت فراہم کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ کی اس رخصت کو قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

             وَلاَ تَقْتُلُواْ اَنفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً.(النساء:۲۹)

            ‘‘اور اپنے آپ کو مار نہ ڈالو۔ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔’’

            اب رہا یہ سوال کہ چھوٹے ہوئے روزوں کے بدلے کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مرض ہے جو وقتی ہوتا ہے اور کسی نہ کسی مرحلہ میں اس کے دور ہونے کی امید ہوتی ہے۔ اسی مرض میں اگر روزے چھوٹے ہوں تو ان کے بدلے صدقہ کرنا کافی نہیں بلکہ روزوں کی قضا واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے:

            فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

            ‘‘تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرو۔’’

            دوسرا وہ مرض ہے جس کے دور ہونے کی تازیست کوئی امید نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔ بعض فقہاء مثلاً امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ کھانا کھلانے کے بجائے کسی مسکین کی مالی امداد کر دی جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ہر مسلمان شخص تمام عبادتوں کا مکلف ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھوٹ جائے تو اللہ کے نزدیک جواب دہ ہے۔ ایک عبادت ادا نہ کرنے سے دوسری عبادتیں قبول ہوں گی یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے:

            ۱۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ایک عبادت بھی ترک کر دی تو وہ کافر ہو گیا اور اس کی کوئی دوسری عبادت مقبول نہ ہو گی۔

            ۲۔ بعض کے نزدیک صرف نماز اور زکوٰۃ ترک کرنے والا کافر ہے۔

            ۳۔ بعض کے نزدیک صرف نماز ترک کرنے والا کافر ہے کیونکہ حضوؐر کا ارشاد ہے:

            بین العبدوبین الکفر ترک الصلاۃ.(مسلم)

            ‘‘بندے اور کفر کے درمیان نماز کاترک کرنا ہے۔’’

            ان فقہاء کے نزدیک نماز ترک کرنے والے کا روزہ بھی مقبول نہ ہو گا کیونکہ وہ کافر ہے اور کافر کی عبادت مقبول نہیں ہو گی۔

            ۴۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان و یقین کامل رکھتا ہے کسی ایک عبادت کے ترک کردینے سے وہ کافر شمار نہیں ہو گا بشرطیکہ اس عبادت کا نہ وہ مذاق اڑاتا ہو اور نہ منکر ہو۔ اس لیے ایک عبادت ترک کرنے کی وجہ سے اس کی دوسری عبادتیں ہرگز برباد نہیں جائیں گی۔

            میرے نزدیک یہی رائے زیادہ قابل ترجیح ہے۔ چنانچہ جو شخص صرف سستی اور کاہلی کی بنا پر کوئی ایک عبادت ادا نہیں کرتا ہے اور دوسری تمام عبادتیں ادا کرتا ہے، تو دوسری عبادتیں ان شاء اللہ مقبول ہوں گی۔ البتہ وہ ناقص اور ضعیف الایمان کہلائے گا اور جس عبادت میں اس نے کوتاہی کی ہے اس میں وہ گنہ گارہو گا اور اللہ کے نزدیک سزا کا مستحق ہو گا۔ بہرحال کسی ایک نیکی کے ضائع ہونے سے اس کی دوسری نیکیاں برباد نہیں ہوتیں۔ اس نے جو نیکی کی ہو گی اس کا اچھا بدلہ پائے گا اور جو برائی کی ہو گی اس کا برا بدلہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

             فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ. وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ. (الزلزال:۷۔۸)

            ‘‘پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزہ وہی نفع بخش اور باعث اجر و ثواب ہے، جو برائیوں سے روکے، نیکیوں پر آمادہ کرے اور نفس میں تقویٰ پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

             یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون. (البقرہ:۱۸۳)

            ‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے اس توقع سے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔’’

            روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے روزے کو تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک رکھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے نصیب میں صرف بھوک اور پیاس ہی آئے اور روزے کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے۔ حضوؐر نے فرمایا:

            رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع. (نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

            ‘‘بعض ایسے روزے دار ہوتے ہیں کہ ان کے روزے میں سے انھیں صرف بھوک ہی نصیب ہوتی ہے۔’’

            ایک دوسری حدیث میں ہے:

            من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ.(بخاری، احمد، اصحاب السنن)

            ‘‘جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا اور پینا ترک کر دے۔’’

            اسی لیے ابن حزم کا قول ہے کہ جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین اپنے روزوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جس طرح کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اسی طرح گناہوں کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے:

            لیس الصیام من الشراب والطعام وحدہ ولکنہ من الکذب والباطل واللغو.

            ‘‘روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ، باطل کاموں اور لغویات سے رکنے کا نام بھی ہے۔’’

            میرے نزدیک ارجح رائے یہ ہے کہ ان لغو کاموں سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ روزے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور روزہ دار روزے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ روزہ رکھنا اپنی جگہ ہے اور گناہ کے کام کرنا اپنی جگہ۔ ایک نیکی ہے اور دوسری برائی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنی چھوٹی بڑی نیکی اور برائی دونوں کا حساب و کتاب دے گا۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ذیل کی حدیث پر غور کیجیے:

            حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو میری بات نہیں مانتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں اور میں انھیں گالم گلوچ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ قیامت کے دن ان کے ساتھ میرا حساب و کتاب کیسا ہو گا؟ آپؐ نے جواب دیا ان غلاموں نے تمھاری جتنی نافرمانی اور خیانت کی ہو گی اور تم نے انھیں جتنی سزا دی ہو گی ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ اگر ان کی نافرمانی کے مقابلے میں تمھاری سزا کم ہو گی تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگر ان کی نافرمانی اور تمھاری سزا برابر ہو گی تو حساب کتاب برابر رہے گا۔ لیکن اگر تمھاری سزا ان کی نافرمانی کے مقابلے میں زیادہ ہو گی تو اسی حساب سے تمھاری بھلائی ان غلاموں کو دے دی جائے گی۔ یہ سن کر وہ صحابیؓ رونے لگے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ قرآن کی اس آیت کو پڑھو:

            ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئا و ان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین. (الانبیاء:۴۷)

            ‘‘قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔’’

            یہ سن کر صحابیؓ نے تمام غلام آزاد کر دیے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے تو اذان سنتے ہی اسے سحری کھانا چھوڑ دینا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر اس کے منہ میں نوالہ ہے تو اسے چاہیے کہ اسے اگل دے تاکہ یقینی طور پر اس کا روزہ صحیح ہو۔ تاہم اگر اسے یقین ہو یا کم از کم شک ہو کہ اذان وقت سے قبل ہو رہی ہے تو اذان سن کر کھانے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ اس بات کے یقین کے لیے کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے مختلف چیزوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلاً کیلنڈر یا گھڑی یا اس قسم کی دوسری چیزیں جو آج کل بآسانی دستیاب ہیں۔

            عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے سوال کیا کہ سحری کھانے کے دوران میں اگر شک ہو کہ فجر کا وقت ہو گیا تو کیا میں سحری کھانا چھوڑ دوں؟ آپ ؓ نے جواب دیا کہ جب تک شک ہوکھاتے رہو۔ جب فجر کا یقین ہو جائے تو کھانا چھوڑ دو۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی یہی ہے۔

            امام نووی کہتے ہیں کہ شوافع نے شک کی حالت میں کھاتے رہنے کا جواز درج ذیل قرآنی آیت سے اخذ کیا ہے:

            وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ.(البقرہ:۱۸۷)

            ‘‘اور راتوں کو کھاؤ پیو حتیٰ کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔’’

            اس آیت میں یقین کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یقینی طور پر کچھ واضح ہو جائے۔ یعنی جب شک کی کیفیت نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ فجر کا وقت آگیا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے: اغنوھم فی ھذا الیوم.

            ‘‘اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تراویحـ کی نماز نہ عورتوں پر واجب ہے اور نہ مردوں پر۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت عظیم اجر و ثواب ہے۔ حدیث نبویؐ ہے: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے:

            من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفراللہ ما تقدم من ذنبہ.(بخاری،مسلم)

            ‘‘جس نے رمضان میں رات کی نمازیں ایمان اور احتساب کے ساتھ پڑھیں اللہ اس کے پچھلے گناہ بخش دے گا۔’’

            عورتوں کا اپنے گھر میں رہ کر رمضان کی راتوں کی نمازیں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ الا یہ کہ مسجدوں میں جانے سے ان کا مقصد صرف تراویح پڑھنا نہیں بلکہ دو سرے نفع بخش نیک کام ہوں مثلاً وعظ و تذکیر کے پروگرام میں شامل ہونا یا درس و تدریس کی مجلس سے استفادہ کرنا یا کسی جید قاری کی قرأت سننا تو ان حالتوں میں ان کا مسجد جا کر نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں نماز پڑھنے کے علاوہ دوسری نیکیاں بھی مقصود ہیں اور اس لیے بھی کہ آج کل مرد حضرات اپنی عورتوں کو دینی تعلیم دلانے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ اس لیے ان عورتوں کا مسجد جا کر نماز با جماعت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا، ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر وہ گھر میں بیٹھی رہیں گی تو ممکن ہے کہ انھیں نماز میں وہ رغبت نہ پیدا ہوجو مسجد میں ہوتی ہے۔

            لیکن بہر صورت عورتیں مسجدوں میں اپنے شوہروں کی اجازت ہی سے جا سکتی ہیں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکیں الا یہ کہ واقعی کوئی شرعی عذر ہو۔ حضوؐر فرماتے ہیں:

            لا تمنعوااماء اللہ مساجد اللہ. (مسلم)

            ‘‘اللہ کی باندیوں (عورتوں) کو مسجدوں سے نہ روکو۔’’

            عذر شرعی کی صورت یہ ہے کہ مثلاً شوہر بیمار ہو اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہو۔ یا گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور انھیں گھر میں تنہا چھوڑنا مناسب نہ ہو۔ وغیرہ۔

            اگر بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں اور نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں تو انھیں تراویح کی نماز کے لیے مسجد لے جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اور اتنی دیر تک بچوں کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔ بخلاف پنج وقتہ فرض نمازوں کے کہ ان کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ رہا مسئلہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر باتیں کرنے کا تو ان کا حکم بھی مردوں جیسا ہے۔ یعنی جس طرح مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مسجدوں میں اونچی آواز میں باتیں کریں اور دنیوی معاملات کے متعلق گفتگو کریں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں ہے۔

            یہاں میں ایک خاص بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ کچھ ایسے حضرات ہوتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر تکلیف دہ حد تک پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انھیں کسی صورت میں مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ آج کل مسجدوں میں عورتو ں کے لیے علیحدہ محفوظ جگہ ہوتی ہے جبکہ حضوؐر کے زمانے میں عورتوں کے لیے کوئی علیحدہ جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ان میں بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی عورتوں کو مسجد میں سرگوشیوں تک کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ وہ خود اونچی آواز وں میں باتیں کرتے ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ غیرت ایک اچھی صفت ہے لیکن اس میں حد سے تجاوزکرنا ایک ناپسندیدہ بات ہے۔ فرمان نبویؐ ہے:

            ان من الغیرۃ ما یبغضہ اللہ ورسولہ.

            ‘‘ کچھ ایسی غیرت ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور اس کا رسول بھی۔’’

            دور حاضر نے نئی زندگی کے دروازے عورتوں پر بھی وا کیے ہیں۔آج عورتیں اپنے گھروں سے نکل کر اسکول، کالج اور بازار ہر جگہ آتی جاتی ہیں۔ لیکن اس جگہ جانے سے محروم ہو گئی ہیں جو اس سرزمین پر سب سے بہتر جگہ ہے یعنی مسجد۔ میں بغیر کسی تردد کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لیے بھی مسجدوں کے دروازے کشادہ کریں۔ انھیں بھی مسجدوں میں درس و تدریس کی مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔ انھیں بھی اللہ کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عطا کریں۔ بشرطیکہ عورتیں اسی انداز میں مسجد جائیں جس طرح مسجد جانے کا حق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ٹی وی ذرائع ابلاغ عامہ کا ایک حصہ ہے۔ اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور شر کا بھی۔ جس طرح دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً اخبارات و جرائد اور ریڈیو وغیرہ میں خیر و شر دونوں قسم کے پہلو ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ جو خیر ہو اس سے نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جو شر ہو اس سے اجتناب کرے، چاہے وہ روزے کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ لیکن روزے دار اور ماہ رمضان کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس مہینے میں اپنے آپ کو شر سے محفوظ رکھنے اور خیر کی سبقت لے جانے کا خاص اہتمام کرے۔ٹی وی دیکھنا فی نفسہ نہ مطلقاً حرام ہے اور نہ مطلقاً حلال۔ اس کا حرام یا حلال ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پروگرام دیکھ رہے ہیں؟ اگر یہ پروگرام بھلی باتوں پر مشتمل ہو مثلاً کوئی دینی پروگرام ہو یا نیوز کا پروگرام ہو یا کوئی مفید معلوماتی پروگرام ہو تو اس کا دیکھنا بالکل جائز ہے۔ لیکن اگر فحش قسم کے پروگرام ہوں تو ان کا دیکھنا ناجائز ہے چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا مہینہ۔ البتہ رمضان میں ان کا دیکھنا مزید باعث گناہ ہے۔ اسی طرح اگر ٹی وی دیکھنے میں اس قدر انہماک ہو کہ نماز وغیرہ سے غفلت ہو جاتی ہو تب بھی اس کا دیکھنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب شراب اورجوئے کو حرام قرار دیا تو اس کی حرمت کی علت یہ بتائی کہ یہ دونوں چیزیں انسانوں کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:

            إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ فَہَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ.(المائدہ:۹۱)

            ‘‘شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: بخاری و مسلم کی حدیث ہے:

            من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ.

            ‘‘جس نے رمضان میں قیام لیل کا اہتمام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔’’

            اللہ تعالیٰ نے رمضان میں دن کے وقت ہم پر روزے فرض کیے اور رات کے وقت نفل نمازوں کے اہتمام کی تاکید کی تاکہ یہ عبادتیں ہمارے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی نمازیں ہیں، جن سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن میں نماز کے ارکان و شرائط اور اس کے آداب کا پورا خیال رکھا گیا ہو۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی نماز کے ارکان میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے اس شخص کو، جس نے جلدی جلدی نماز ادا کی تھی، فرمایا:

            ارجع فصل فانک لم تصل.

            ‘‘واپس جاؤ پھر نماز پڑھو کیونکہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔’’

            اس کے بعد آپ نے اسے نماز پڑھنی سکھائی کہ کس طرح ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ نمازا دا کی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:

             قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ. الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ.(المومنون:۱،۲)

            ‘‘کامیاب ہوئے وہ جو ایمان لائے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔’’

            معلوم ہوا کہ وہ نماز کامیابی کی ضامن ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ خشوع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو دل کا خشوع یعنی اس بات کا پوری طرح احساس ہو کہ نماز کے دوران میں ہم کسی ہستی کے ساتھ ہم کلام ہیں اور یہ کہ وہ ہماری تمام حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ دل کا خشوع یہ بھی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھیں سمجھ کر پڑھیں۔ ایسا نہ ہو کہ زبان پر تو اللہ کا کلام ہو اور دل کہیں اور غائب۔

            خشوع کی دوسری قسم بدن کا خشوع ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز میں احترام و ادب کا خاص خیال ہو۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا، کھٹا کھٹ رکوع و سجدہ کرنا، بار بار کھجلانا یا کپڑوں سے کھیلنا یہ سب احترام و آداب کے خلاف ہے۔

            تمام مسلمان بھائیوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ خیال کر لیں کہ ہم کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں اور کس سے ہم کلام ہیں۔ ہمیں احساس ہو کہ وہ ہستی ہمیں دیکھ رہی ہے۔ نمازیوں ادا کرنا کہ گویا ایک مشکل مرحلہ تھا جو سر ہو گیا یا بھاری بوجھ تھا جسے منزل مقصود تک پہنچا دینا نماز کی حکمت و غایت کے عین منافی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان میں بیس رکعت تراویح چند منٹوں میں ختم کر لیتے ہیں۔ قرآن جلدی جلدی اور تیز تیز پڑھتے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں نماز ختم ہو جائے۔ نہ اطمینان سے رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ اور نہ خشوع و خضوع ہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی نماز ہوئی جس کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا:

            تعرج الی السماء وھی سوداء مظلمۃ تقول لصاحبھا ضیعک اللہ کما ضیعتنی.

            ‘‘یہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اس حالت میں کہ کالی اور تاریک ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ اللہ تمھیں ضائع کرے جس طرح تم نے مجھے ضائع کر دیا۔’’

            بغیر خشوع اور اطمینان کے ساتھ تراویح پڑھنے والوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی آٹھ رکعتیں جلدی جلدی ادا کی گئی بیس رکعتوں سے بہتر اور افضل ہیں۔ اگر بیس رکعات پڑھنا مشکل ہو تو آٹھ رکعت ہی پر اکتفا کریں لیکن اطمینان اور خشوع و خضوع کا ضرور خیال کریں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں بلکہ اس کے نزدیک خضوع و خشوع کی اہمیت ہے اور یہی خشوع دراصل باعث مغفرت و رحمت ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایام حیض میں روزے اور نماز دونوں معاف ہیں تاہم روزوں کی قضا لازمی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایام حیض میں عورتیں جسمانی طور پر کمزوری، تکلیف اور تکان محسوس کرتی ہیں اور یہ اللہ کی رحمت ہے ان پر کہ اللہ نے ان ایام میں انھیں یہ آسانی عطا کی ہے۔

            ایام حیض کو موخر کرنے کی خاطر دواؤں کے استعمال کے سلسلے میں میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ فطرت کے ساتھ جنگ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تمام معاملات اپنے فطری انداز میں انجام پاتے رہیں۔ حیض کا جاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی فطرت پر عورت کی تخلیق کی ہے اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ان ایام میں ان پر روزے اور نماز معاف کیے۔ اس لیے ہم بندوں کو چاہیے کہ ہم بھی اللہ کی فطرت اور اس کے منشا کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔تاہم میں ان دواؤں کے استعمال کو ناجائز بھی نہیں قرار دیتا۔ اگر ایسی دواؤں کا وجود ہے کہ جن سے ایام حیض کو منسوخ کیا جا سکتا ہو تو ان کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ نیت صرف یہ ہو کہ روزے قضا نہ ہوں اور یہ کہ صحت پر کوئی خراب اثر نہ پڑے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: قضا روزے کسی بھی مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں شعبان اور شوال کی کوئی قید نہیں ہے۔ روایتوں میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بسا اوقات بعض قضا روزے شعبان کے مہینے میں رکھتی تھیں۔ اس لیے آپ نے جو روزے شعبان میں رکھے ہیں ان شاء اللہ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوں گے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: وہ انجکشن جن کی دوائیں معدے تک نہیں جاتیں یا بالفاظ دیگر جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا نہیں ہوتا، ان کے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔البتہ انجکشن کی وہ قسمیں جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا ہوتا ہے مثلاً گلوکوز کا پانی چڑھانا وغیرہ تو اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسی چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانے میں تھا اور نہ سلف صالحین کے دور میں۔ یہ تو عصر جدید کی ایجاد ہے۔ علماء کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس قسم کے انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ روزے کی حالت میں مریض کے لیے اس کے استعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔

            اگرچہ میں دوسرے طبقے کی رائے کو قابل ترجیح سمجھتا ہوں، تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ روزے کی حالت میں اس قسم کے انجکشن سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان کی راتوں میں یہ انجکشن لیے جا سکتے ہیں اور اگر دن کے وقت اس انجکشن کا لگانا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی مریض کے لیے روزے معاف کیے ہیں۔ اس قسم کے انجکشن سے معدہ میں براہ راست کوئی غذا تو نہیں پہنچتی البتہ اس کے استعمال سے بدن میں ایک قسم کا نشاط اور قوت آجاتی ہے اور یہ بات روزے کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو روزے ہم پر فرض کیے ہیں تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم بھوک پیاس کی تکلیف کو محسوس کر سکیں۔ اگر اس قسم کے انجکشن کی عام اجازت دے دی جائے تو صاحب حیثیت حضرات اس کا استعمال عام کر دیں گے تاکہ وہ بھوک پیاس کی تکلیف کو کم سے کم کر سکیں اور یوں روزے کا ایک مقصد فوت ہو جائے گا۔

            رہی بات کانوں میں تیل ڈالنے یا آنکھوں میں سرمہ لگانے کی تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے علماء کے متشدد طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ معتدل قسم کے فقہاء کا خیال ہے کہ ان کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ ان کے استعمال سے نہ معدے تک کوئی غذا پہنچتی ہے اور نہ بدن میں کوئی مقوی شے جو بدن کو تقویت بخشے۔ میرے نزدیک یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہوتیں تو حضورؐ لازمی طور ان کے بارے میں لوگوں کو بتاتے کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہیں کیونکہ ان چیزوں کا وجود حضورؐ کے زمانہ میں بھی تھا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث نہیں ہے جس میں حضوؐر نے ان چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: زوال شمس سے قبل مسواک کرنا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے روزے کی حالت میں بھی اور عام دنوں میں بھی۔ زوال کے بعد مسواک کرنے کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک زوال کے بعد مسواک کرنا صرف مکروہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اس لیے روزے دار کو چاہیے کہ اس پسندیدہ چیز کو برقرار رکھے اور مسواک کرکے اسے زائل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شہیدوں کو ان کے خون آلودہ کپڑوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کی تلقین ہے کیونکہ قیامت کے دن ان کے خون آلود کپڑوں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔

            میری رائے یہ ہے کہ حدیث میں روزے دار کے منہ کو مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ قراردینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے برقرار بھی رکھا جائے۔ کیونکہ کسی صحابی سے مروی ہے کہ :

            ارایت النبی یتسوک مالا یحصی وھو صائم.

            ‘‘میں نے نبیؐ کو اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا کہ جس کا کوئی شمار نہیں حالانکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔’’

            مسواک کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، حضوؐر کی سنت ہے اور حضوؐر نے بارہا اس کی ترغیب دی ہے۔ حدیث میں ہے:

            السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب

            ‘‘مسواک منہ کے لیے پاکی کا باعث اور خدا کی رضا کا موجب ہے۔’’

            اسی طرح دانتوں کی صفائی کے لیے روزے کی حالت میں پیسٹ کا استعمال بھی جائز ہے۔ البتہ اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ اس کا کوئی حصہ پیٹ میں نہ چلا جائے۔ کیونکہ جو چیز پیٹ میں چلی جاتی ہے روزہ توڑنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ روزے کی حالت میں پیسٹ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسٹ کا استعمال غایت درجہ احتیاط کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کا کچھ حصہ پیٹ میں چلا جائے تو میرے نزدیک اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ جان بوجھ کر اس نے وہ چیز پیٹ میں نہیں پہنچائی بلکہ غلطی سے چلی گئی اور اللہ کے نزدیک یہ بھول چوک معاف ہے۔ حدیث میں ہے:

            رفع عن امتی الخطا والنسیان وما استکر ھوا علیہ.

            ‘‘میری امت بھول چوک کے معاملے میں اور زبردستی کوئی غلط کام کرائے جانے کے معاملے میں مرفوع القلم ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ قضا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت موجود ہے:

            فَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَر. (البقرہ:۱۸۵)

            ‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

            البتہ مسافت کی وہ مقدار جس پر سفر کا اطلاق ہو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ آپ نے جس مقدار کا تذکرہ کیا ہے، میرا خیال ہے کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اتنی مسافت کے سفر کو نماز قصر کرنے اور روزہ قضا کرنے کے لیے کافی تصور کیا جائے۔ کیونکہ جمہور فقہاء نے ۸۴ کلومیٹر کی مقدار کو متعین کیا ہے اور ۸۱ اور ۸۴ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ حضوؐراور صحابہؓ سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انھوں نے سفر کی پیمائش میٹر یا کلومیٹر سے کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک مسافت کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک ہر اس سفر کو جسے عرف عام میں سفر کہا جا سکے، اس میں نماز کی قصر اور روزہ کی قضا جائز ہے۔

            سفر کی حالت میں اس بات کا اختیار ہے کہ روزہ رکھا جائے یا اسے قضا کیا جائے۔ روایتوں میں ہے کہ صحابہؓ، حضوؐرکے ساتھ سفر پر ہوتے تھے۔ ان میں بعض روزے کی حالت میں ہوتے تھے اور بعض بغیر روزے کے ہوتے تھے۔ حضوؐر نے ان دونوں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی۔ یعنی دونوں ہی حضورؐ کی نظر میں یکساں تھے۔

            سفر اگر پر مشقت ہو اور اس میں روزہ رکھنا تکلیف دہ ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے بلکہ شاید حرام ہو کیونکہ روایت میں نبیؐ نے ایک شخص کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگ اس پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ وہ روزے کی وجہ سے بد حال تھا اور وہ مسافر بھی تھا۔ آپؐ نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ روزے سے ہے۔ آپ نے فرمایا:

            لیس من البر الصیام فی السفر. (بخاری)

            ‘‘سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔’’

            سفر اگر پر مشقت نہ ہو اور روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا اور اس کی قضا کرنا دونوں ہی جائز ہے جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا۔ البتہ اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ ان دونوں صورتوں میں افضل صورت کون سی ہے؟ بعض نے روزہ رکھنے کو افضل قرار دیا ہے جبکہ بعض نے روزہ چھوڑنے کو افضل قرار دیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں میں جو سب سے آسان ہو وہی افضل ہے۔ روایت میں ہے کہ حمزہ بن عامر الاسلمیؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ میں اکثر سفر پر رہتا ہوں۔ بسا اوقات رمضان میں بھی سفر کرتا ہوں، میں نوجوان ہوں اور بہ آسانی سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں۔ میرا روزہ رکھنا زیادہ افضل اور باعث اجر ہے یا روزہ قضا کرنا؟ آپؐ نے فرمایا:

            أی ذلک سئت یا حمزۃ.(ابوداؤد)

            ‘‘ان دونوں میں سے جو تم چاہو اے حمزہ۔’’

            یعنی جو تمھیں آسان لگے وہی کرو اور وہی افضل ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضوؐرنے جواب دیا:

            ھی رخصۃ من اللہ لک فمن اخذبھا فحسن ومن احب ان یصوم فلا جناح علیہ. (نسائی)

            ‘‘یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے چھوٹ ہے جس نے اس چھوٹ سے فائدہ اٹھایا تو بہتر ہے اور جس نے روزہ رکھا تو کوئی حرج نہیں۔’’

            یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس آیت میں مسافر کے لیے روزے کی قضا کی اجازت دی ہے اس میں رخصت کی علت سفر بتائی ہے، نہ کہ سفر کی مشقت۔ اس آیت میں یہ نہیں بتایا کہ سفر میں مشقت ہو تو قضا کی رخصت ہے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف سفر کی بنا پر ہمیں یہ رخصت عطا کی ہے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ خواہ مخواہ کی باریکیوں میں پڑ کر اس رخصت کو برباد نہ کریں جو لوگ اکثر سفر میں رہتے ہیں وہ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ سفر بہ ذات خود تکلیف دہ ہوتا ہے، چاہے گاڑی کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا۔ انسان کا اپنے وطن سے دور ہونا بہ ذات خود پریشانیوں کا سبب ہے کیونکہ اس کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور انسان نفسیاتی طور پر بے چین رہتا ہے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ہمیں صرف سفر کی بنا پر یہ رخصت عطا کی ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر کی مقدار سال بہ سال تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک محدود اور متعین مقدار ہے جسے نبیؐ نے مقرر کیا ہے۔ یہ مقدار ایک صاع یعنی تقریباً دو کلوگرام اناج ہے۔ میرے خیال میں صدقۃ الفطر کو اناج کی صورت میں مقرر کرنے میں دو حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

            ۱۔ پہلی حکمت یہ ہے کہ اس زمانے میں عربوں ، خاص کر دیہات میں رہنے والوں کے پاس دینار و درہم (پیسوں) کے مقابلے میں اناج اور غلہ زیادہ موجود ہوتا تھا۔ بہت سارے ایسے لوگ تھے جن کے پاس غلہ اور اناج تو ہوتا تھا لیکن نقد رقم کی صورت میں ان کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ صدقۃ الفطر کو پیسوں کی صورت میں ادا کرنا ہو تاتو شاید بہت سارے لوگ پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے۔

            ۲۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ پیسوں کی قوت خرید ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ آج اگر پانچ روپے کا ایک کلو چاول مل رہا ہے، تو کل اس ایک کلو چاول کی قیمت دس روپے بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے حضوؐر نے صدقۃ الفطر کو اناج اور غلے کی صورت میں مقرر کر دیا تاکہ مقرر شدہ اناج کی پوری مقدار غریبوں تک پہنچتی رہے۔

            احناف کے نزدیک اس مقرر شدہ اناج کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ حضوؐر نے صدقۃ الفطر کے لیے اناج کی محض چند قسموں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان قسموں کے علاوہ دوسری قسموں کو بطور صدقۃ الفطر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ جس جگہ صدقۃ الفطر ادا کیا جا رہا ہے وہاں اناج کی جتنی قسمیں مستعمل ہیں، ان میں سے کسی بھی قسم سے صدقۃ الفطر نکالا جا سکتا ہے۔ چاہے گیہوں ہو یا چاول یا کھجور یا مکئی یا اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز۔

            اگر آدمی صاحب حیثیت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مقرر شدہ اناج کے علاوہ کچھ رقم ادا کرے کیونکہ اس دور میں کھانا فقط چاول یا روٹی پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ سالن کی صورت میں دوسرے لوازمات بھی ضروری ہوتے ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: شافعی اور حنبلی مسلک کے لحاظ سے اگر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے آنے تک نہ ہو سکی تو ایسی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہؓ سے یہی منقول ہے۔ فدیہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ جمہور علماء کے نزدیک صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں۔

            میری رائے یہ ہے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا تو بہر حال لازمی ہے، اس سے کوئی مفر نہیں۔ البتہ فدیہ بھی ادا کر دیا تو زیادہ بہتر ہے ورنہ کوئی بات نہیں کیونکہ براہ راست حضوؐرسے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس میں فدیہ ادا کرنے کی بات ہو۔

            شک کی صورت میں انسان اسی پر عمل کرے جس کا اسے یقین ہو یا کم از کم غالب

 گمان ہو۔ بہرحال مزید اطمینان کی خاطر زیادہ روزے رکھ لینا بہتر ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: رمضان کے علاوہ شعبان وہ مہینہ ہے، جس میں حضورؐ روزے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کے مطابق صرف رمضان ہی ایسا مہینہ ہے، جس میں حضوؐر پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ بعض عرب ملکوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو رجب شعبان اور رمضان تینوں مہینے لگاتار روزے رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ شعبان کے کچھ متعین ایام میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

            اسلامی شریعت میں یہ بات جائز نہیں کہ بغیر شرعی دلیل کے کسی بھی دن یا مہینے کو روزے یا کسی دوسری عبادت کے لیے خاص کر لیا جائے۔ کسی دن کو کسی عبادت کے لیے خاص کرنا صرف شارع یعنی اللہ کا حق ہے۔ وہی ایسا کر سکتا ہے۔ کوئی بندہ نہیں۔ اسی لیے روزوں کے لیے ہم ان ہی ایام کو مخصوص کر سکتے ہیں، جن میں حضوؐر کا عمل موجود ہو۔ مثلاً حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ جب روزہ رکھنا شروع کرتے تو ایسا لگتا کہ اب ہمیشہ رکھیں گے۔ اور جب روزہ نہیں رکھتے تو ایسا لگتا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ حضوؐرسوموار اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ہر مہینے کے تین روشن دنوں میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔تا ہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ شعبان کی کسی خاص تاریخ کو آپؐ نے روزے کے لیے مخصوص کیا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

سوال: میں نے ۱۹۹۳ء میں اپنی بیوی کو لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ایک ہی وقت میں زبانی طور پر تین طلاقیں دے دیں اور پھر تقریباً تین ماہ بعد ایک عالم کے فتویٰ کی بنا پر بیوی سے رجوع کرلیا۔ پھر اپریل ۲۰۰۶ء میں (جبکہ میں جسمانی طور پر بہت بیمار،بلڈپریشر، دلی عارضے اور شدید ڈیپریشن کی وجہ سے بہت زیادہ ہائی پوٹینسی کی گولیاں استعمال کرتا ہوں) ہمارا جھگڑا ہوا اور میری بیوی، بچوں نے بہت زیادہ پریشان کیا اور کچھ میں شدید ڈیپریشن کا شکار تھا اور دوائی بھی لی ہوئی تھی اور اس حالت میں میری ذہنی حالت بہت زیادہ متاثر تھی۔ میں نے اپنے بیوی کو اپنے خیال میں دوسری طلاق دی، لیکن میری بیوی اور بچے جو اس وقت سامنے موجود تھے، کہتے ہیں کہ میں نے طلاق نہیں دی تھی، صرف بستر الگ کرنے کا کہا تھا جبکہ بیوی کہتی ہے کہ میں نے دوسرے دن صبح کچن میں اسے طلاق دی تھی اور مجھے اس کا بالکل یاد نہیں کہ میں نے طلاق دی تھی۔ میری بیوی بھی مائیگرین (سردرد) کی دائمی مریضہ ہے۔ میری حالت بیماری اور زیادہ ادویات کے استعمال سے اس طرح کی ہوچکی ہے کہ میری یادداشت بہت کمزور ہوچکی ہے اور بعض اوقات ہاتھ میں پکڑی چیز گر جاتی ہے۔ میری بیوی نے کہا کہ تم نے طلاق دی تھی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، اگر میں نے طلاق دی تھی تو میں رجوع کرتا ہوں۔ پھر ہم نے نو دس دن بعد رجوع کرلیا۔ لیکن پھر ۱۹ جون ۲۰۰۶ء میں جبکہ بیوی پاکستان گئی ہوئی تھی، ہماری فون پر آپس میں توتکار ہوئی۔ میں نے اپنی بیوی سے کہہ رکھا تھا کہ تم نے اگر میری بات نہ مانی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور پھر میں نے اپنی بیوی کو فون پر طلاق دے دی اور میری ذہنی حالت بیماری کی وجہ سے بہت متاثر تھی اور ادویات کا بھی اثر تھا۔ میری اس صورت حال میں شریعتِ مطہرہ میں میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: صورت حال سے ظاہر ہے کہ دوسری طلاق کے وقت شوہر کا ذہنی توازن درست نہ تھا، ایسی حالت میں طلاق نہیں ہوئی۔ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں حضرت عثمانؓ سے منقول ہے: لیس لمنجنون ولا لسکران طلاق ‘‘دیوانے اور نشئی کی اطلاق قابلِ اعتبار نہیں’’۔ اور ابن عباسؓ نے کہا کہ طلاق السکران والمستکرہ لیس بجائز ‘‘نشئی اور مجبور شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی’’۔

الغرض جب شدتِ مرض کی بنا پر آدمی کے ہوش حواس قائم نہ ہوں تو طلاق شمار نہیں ہوگی۔ عقل و شعور کی مضبوطی کی صورت میں ہی طلاق واقع ہوتی ہے جبکہ محلِ بحث میں معاملہ برعکس ہے اور تیسری طلاق کا معاملہ بھی دوسری طلاق سے مختلف نظر نہیں آتا، البتہ اگر اس کا وقوع عقل و شعور سے ہوا ہے تو پھر شمار ہوگی، بہرصورت رجوع کی گنجائش موجود ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: بعض جادوگر اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ انسانوں کی صورت کو حیوانوں کی شکلوں میں تبدیل کرنے پر قادر ہیں جبکہ حقیقت ِ حال اس کے برعکس ہے۔ یوں بھی اہلِ علم نے ایسے شخص کو کافر قرار دیتا ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیرقرطبی: ۲؍۴۵۔

مومن کو جادو کے ذریعہ کوئی جادوگر ذلیل نہیں کرسکتا، مگر اس کی کوتاہی کی وجہ سے بعض دفعہ ایسی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: فجر کی جماعت کھڑی ہونے کی صورت میں صبح کی نماز کے بعد سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ سنن ترمذی میں باب ہے: ماجاء فیمن تفوتہ الرکعتان قبل افجر یصلیہما بعد صلاۃ الصبح اور سورج طلوع ہونے کے بعد بھی پڑھنا درست ہے جیساکہ سنن ترمذی میں عنوان ہے: ماجاء فی اعادتہما بعد طلوع الشمس۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: استعمال کے بعد مسواک کو دھونا ضروری نہیں اور شیطانی عمل کا کسی روایت میں ذکر نہیں۔ مسواک کے لیے بالشت کی شرط بھی ثابت نہیں۔ مٹھی میں پکڑ کر مسواک کرنے کی کہیں ممانعت وارد نہیں، نہ ہی مسواک کو لیٹ کر کرنے کی ممانعت ہے۔ مسواک کو میز وغیرہ پر رکھنے کا کوئی حرج نہیں اور اس سے کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی۔ مذکورہ آداب خود ساختہ ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ نہیں۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: مسواک کے لیے بنیادی بات یہ ہے کہ منہ کے طول و عرض میں پھر سکے۔ مسواک منہ کے لیے طہارت کا سبب ہے اور پروردگار کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: عورت کا درس بذریعہ کیسٹ وغیرہ سنا جا سکتا ہے۔ عہد ِ نبوت میں آپؐ سے مسائل دریافت کرتی تھیں، بعد میں خلفاء کا عمل بھی اس پر رہا۔ راجح مسلک کے مطابق عورت کی آواز پردہ نہیں۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: خواب کی تعبیر صرف اسلامی احکام و مسائل کے ماہر سے کرانی چاہیے اور دینی تعلیمات کے خلاف تعبیر کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

ج: جس چیز کو آپ ضبط نفس یا Self control کہتے ہیں ، وہی تو انسانیت کا شرف ہے ۔ اللہ نے انسان کو عقل کی نعمت سے نوازا ہے ، وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ خیر و شر کی کشمکش میں شر کی طرف میلان پیدا ہو رہا ہے تو وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرتا ہے ۔ انسانیت کا اصلی امتیاز یہی ہے ، اگر انسان ضبط نفس سے کام نہیں لیتا تو پھر اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ ضبط نفس انسان کو نہیں کرنا تو ذرا اس بات کو بڑھا کر دیکھیے کہ نوبت کہاں پہنچ جائے گی ، جس کے پاس طاقت ہے وہ دوسروں کے حقوق غصب کر لے گا ۔ جس قوم کو اللہ تعالی نے بہت قوت اور شان و شوکت دی ہے وہ دوسروں کو پامال کر ڈالے گی ۔ جس آدمی کو جسمانی لحاظ سے طاقتور بنایا ہے وہ ہو سکتا ہے کسی کمزور کو سڑک پر ہی نہ چلنے دے ۔اصل میں ضبط نفس کا لفظ لوگ چند خاص چیزوں کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جبکہ ضبط نفس ہر میدان میں ہے اور یہ ہی تو اصل میں انسانیت کا شرف ہے ۔ برائی صرف چند جنسی میلانات سے متعلق نہیں ہوتی ۔ ملاوٹ بھی برائی ہے ، بددیانتی بھی برائی ہے، خیانت بھی برائی ہے ، مال کی ناجائز طلب بھی برائی ہے ، مال کی ہوس بھی برائی ہے ۔ دوسروں کے حقوق تلف کرنے کے داعیات بھی برائی ہیں۔ ان ساری چیزوں میں اگر ضبط نفس کو اٹھا لیا جائے تو باقی رہ کیا جائے گا ؟ کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ پھر تو انسان جانوروں سے کام کرے گا۔ ضبط نفس میں آدمی اگر ایک اعتدال اور توازن کے ساتھ اپنی تربیت کرتا چلا جائے تو کچھ وقت کے بعد اس پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوتے البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ بعض موقعوں پر بعض لوگ کچھ ایسی پابندیاں لگا دیتے ہیں جو شریعت میں نہیں ہوتیں۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو کمال حاصل کرنے کے لیے وہ پابندیاں اختیار کرنی چاہیےں۔ مذہبی لوگ اس کا لحاظ کیے بغیر کہ نوجوانوں کو کہاں سے تربیت دینی چاہیے، کس جگہ سے ان کو شروع کرانا چاہیے ، آخری درجے کی باتیں شروع کر دیتے ہیں تو اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر نوجوانوں کو نوجوان سمجھ کر اس چیز کا شعور دیا جائے کہ ضبط نفس ہی انسانیت کا کمال ہے ، اسی سے انسان بڑا ہوتا ہے ، اسی سے انسانیت اپنی معراج کو پہنچتی ہے اور اسی سے درحقیقت دنیا میں خیر و صلاح کے سارے داعیات پیدا ہوتے ہیں تو وہ ضروربات سنیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ راستے میں چلتے ہوئے آپ نے دیکھا غالباً ابو مسعود انصاری ؓ اپنے غلام کو مار رہے تھے تو آپ نے پیچھے سے کہا کہ ابو مسعود! جتنی طاقت تم کو اپنے غلام پر حاصل ہے ، خدا کو تم پر اس سے زیادہ طاقت حاصل ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ رک گئے بلکہ ان کی زبان سے فوراً یہ نکلا کہ میں نے غلام کو آزاد کیا ۔ ایک مظلوم کے ستم کو دور کرنے کی کیا قدرو قیمت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ابو مسعود ؓ اس وقت اگر اس کو آزاد نہ کرتے تو جہنم میں جاتے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ضبط نفس کس قدر و قیمت کی چیز ہے ۔حضورﷺ کی آواز پر اس صحابی نے ضبط نفس ہی تو کیا۔ضبط نفس تو ہر حال میں ہونا چاہیے البتہ ضبط نفس کی تربیت نوجوانوں کو بڑی حکمت اور تدریج کے ساتھ دینی چاہیے۔ او راس میں بھی یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ بڑی بڑی جو خرابیاں ہیں ، ان کو پہلے موضوع بنانا چاہیے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو خود پیدا ہونے دینا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس طرح کی باتیں آدمی اس وقت کرتا ہے جب اس کو کسی بات کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا ، آپ نماز کے بارے میں یا اللہ کی عبادت کے بارے میں سب سے پہلے انسان کے ذہن کو درست کریں یعنی پہلے خدا کی سچی معرفت سے اسے آگاہ کریں ۔اصل میں ہم خدا کی معرفت اور سچی پہچان پیدا کیے بغیر بعض مطالبات سامنے رکھ دیتے تو آدمی کی سمجھ میں بات نہیں آتی۔ جب آپ مخاطب کو یہ بتائیں گے ذرا تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے غور کرو کس کی بات کر رہے ہو ، اس پروردگار کی جو تمہارا خالق ، مالک ، آقا ہے تمہارے ایک ایک سانس کو اس کی احتیاج ہے ۔ اسی مالک کی یاد دہانی کے لیے یہ نماز مقرر کی گئی ہے یہ نماز اس کی یاد دہانی کراتی ہے اور انسان پر اپنی عاجزی واضح کرتی ہے ۔ خدا کی معرفت اور اس کی بندگی کا شعور اگر پیدا ہو جائے گا تو پھر انسان کبھی نماز نہیں چھوڑے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرے عزیز ! پہلے تو چند غلط فہمیاں ہیں جن کا دورکرنا ضروری ہے۔یہ آیت جو آپ نے پڑھی ہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام کوئی مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ پر جس دین کا نزول شروع کیا تھا خواہ اس کے دس رکن تھے یا پانچ، وہ آج پورے ہو گئے۔ حضور پر کوئی نیا دین نازل نہیں ھوا تھا وہی دین جو تمام انبیا کا تھا اسی کا تسلسل تھا اسی کے بارے میں یہ بتایاجا رہا ہے کہ یہ آج پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ۔ دوسری جو غلط فہمی ہے وہ یہ ہے کہ کہ اسلام شاید ایک نظام حکومت کا نام ہے اسلام تو ایک فرد کے بندے کے ساتھ تعلق کا نام ہے ، آپ نے بحیثیت فرد کے اپنے مالک کو مالک مان لیا یہ اسلام ہے۔ جب میں توحید کو اپناتا ہوں تو اس کے لیے کسی نفاذ کی ضرورت ہے ؟ جب میں برائیوں سے اجتناب کرتا ہوں اخلاقی حدود کی پابندی کرتا ہوں تو اس کے لیے کسی حکومت کی ضرورت ہے ؟ جب میں خورو نوش کے آداب میں حرام کھانے سے بچتا ہوں تو اس کے لیے کسی حکومت کی ضرورت ہے ؟ البتہ اسلام میں چند احکام حکومت سے متعلق بھی ہیں وہ حکومتوں کو پورے کرنے چاہیے ۔ باقی سارے کا سارا دین وہ فرد سے متعلق ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ دنیا میں کوئی دور ایسا نہیں جب لوگ اس پر عمل پیرا نہ ہوں ۔ اس وقت بھی دنیا میں لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جو بغیر کسی حکومت کے اللہ کے دین پر عمل پیرا ہیں۔وہ لوگ جو ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں نہیں ہیں تو وہاں کیا وہ دین چھوڑ بیٹھے ہیں ، وہ نماز پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، وہ اللہ کے حدود کا احترام کرتے ہیں اور سارے احکام پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔تو اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلام درحقیقت فرد کے اندر پاکیزگی پیدا کرنے کی دعوت ہے اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب ہے اور ہمیشہ سے موجود ہے اور پوری شان کے ساتھ اب بھی افراد کو متاثر کررہاہے ۔اور اس اسلام کو کچھ نہیں ہوا۔ یہ اب بھی بغیر کسی مادی قوت کے دلوں میں اترتا ہے ۔یہ اب بھی انسان کے پورے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے اور اب بھی ہزاروں سینکڑوں لوگ پیدا کرتا ہے جو اپنا سب کچھ اس کے لیے چھوڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں حتی کہ مرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔تو اسلام کو اس کی دعوت کی حوالے سے دیکھیے ، سیاست تو اس کا ایک جزو ہے ۔کہیں اس پر عمل ہو گیاتو اچھی بات اور نہ ہوا تو فرد کو کیا فرق پڑتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے قدیم اسلاف سب سمجھتے ہیں کہ سنت کیا چیز ہے یعنی سنت رسول اللہﷺ اور انبیا علیہم السلام اور دین ابراہیمی کا جاری کردہ طریقہ ہے ۔ قدیم اسلاف میں تو سب کا ایک ہی موقف ہے حتی کہ ہمارے ہندستان میں جو آخری بڑے عالم ہوئے ہیں شاہ ولی اللہ انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں دین ابراہیمی کی اس روایت کو اسی طریقے سے بیان کیا ہے جیسے میں نے کیا ہے۔ سنت در حقیقت مسلمانوں کے ایک جم غفیر نے دوسرے جم غفیر کو منتقل کی ہے ، اس وجہ سے یہ کسی حدیث کی ، کسی راوی کی اور اس کی تحقیق کی ہر گز محتاج نہیں ہوتی ۔اسی کو میں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ سنت ہمیں اجماع او رعملی تواتر سے ملی ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، بالکل متفق علیہ ہے۔ اس ساری بات کو میں نے ایک فہرست کی شکل میں بیان کر دیا ہے۔ میرا Contribution یہ ہے کہ میں نے اسے بالکل متعین کر کے بیان کر دیا ہے اور جن چیزوں کو غلطی سے خلط ملط کیا جا رہا تھا ان کے اخلاط کو دور کر دیا ہے ۔ اگر کوئی مفید کام ہوا ہے تو دعا کیجیے اللہ قبول کرے اور اگر غلطی ہوئی ہے تو اللہ اس کی اصلاح کرے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: محض جنت البقیع میں دفن ہونے کی وجہ سے کوئی بخش دیا جائے گا یہ روایت تو کوئی مستند روایت نہیں ہے ۔لیکن جنت البقیع بہرحال ایک ایسا قبرستان ہے جس میں صحابہ کرام اور امہات المومنین مدفون ہیں تو اس لحاظ سے ظاہر ہے کہ اس امت کے گلہائے سر سبز مدفون ہیں ، وہ ہستیاں دفن ہیں جنہوں نے اس دنیا میں اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا بہترین نمونہ پیش کیا ۔ ہر مسلمان کے اس کے ساتھ فطری جذبات وابستہ ہیں اور ہونے بھی چاہییں۔ باقی یہ کہ جنت البقیع میں جو آدمی دفن ہو جائے گا وہ محض اس کی بنیاد پر جنت میں چلا جائے گا یہ اسلام کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے ۔جنت اور دوزخ کا فیصلہ تو قرآن نے بتا دیا ہے کہ کس بنیاد پر ہو گا اور قرآن کے ان اصولوں میں جنت البقیع میں دفن ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اسی جنت البقیع میں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے مشرکین بھی دفن ہیں کیونکہ وہ پرانا قبرستان ہے ۔ محض وہاں دفن ہونے سے کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔ جنت میں ایمان و اعمال او ر اللہ کی رحمت سے جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسلمان جہاں بھی رہتے ہوں انہیں تین چیزوں کا فوری اہتمام کرنا چاہیے ۔ ایک یہ کہ وہ مسلم کمیونٹی بنائیں کیونکہ انسان ماحول سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اپنے ماحول کے سہارے پر زندہ بھی رہتا ہے ۔ کمیونٹی کے ساتھ وابستہ ہو کر رہیں ایسی کمیونٹی جو آپ کی تہذیب ، آپ کی ثقافت ، آپ کے مذہب ، اورآپ کے خیالات سے زیادہ قریب ہو ۔ دوسرا اقدام یہ ہے کہ بغیر کسی کمپرومائز کے بچوں کی تعلیم کا مناسب بندوبست کریں۔ اگر ایسا سکول یا ادارہ نہ ہو توگھر میں بچوں کی تعلیم کا زائد بندوبست کریں۔ پا کستان کے ماحول میں تو بچہ کم از کم سکول میں ہی اللہ رسول کی کوئی بات سن لے گایااسلامیات پڑھ لے گا لیکن جہاں یہ ممکن نہیں،وہاں گھروں پربندوبست ضروری ہے۔ بچوں کو صحیح دینی تعلیم دلوانے کامناسب بندوبست کیا جائے بے شک ہفتے میں ایک بار ہی ہو یامل کر کوئی سنڈے سکول قائم کر لیا جائے۔بچوں کی ذہنی سطح کے لحاظ سے دینی نصاب بنایا جائے اورتدریج کو ملحوظ رکھا جائے۔اس بات پر خاص زور دیا جائے کہ بچے قرآن سمجھ کر پڑھ لیں۔ تیسرا بڑا اہم اقدام یہ ہے کہ مسلم روایت و تہذیب کے ساتھ وابستہ رہنے اور بچوں کووابستہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔ آپ کے شاعر، آپ کے ادیب، آپ کے علما، آپ کے سائنس دان، آپ کے فلسفی، آپ کے بڑے لوگ ان کے بارے میں بچوں کو مناسب علم دیں۔انسان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ماضی کی بڑی شخصیات کے حوالے سے اپنے آپ کو وابستہ کرنا چاہتا ہے اور وابستہ کرتا ہے اس عمل سے ہی انسان کی نفسیات بنتی ہے اور اس کے نصب العین بنتے ہیں۔اگر ہم نے اور سب کچھ بچوں کو دے دیا اور ان کو مسلم ماضی سے وابستہ نہ کیا توان کانصب العین بدل جائے گا۔ یعنی کمیونٹی بھی آپ کی بن گئی دینی تعلیم بھی دے دی لیکن شخصیات کے حوالے سے اس ماحول میں شیکسپئر کھڑا ہے ، ملٹن موجود ہے اوربرٹرنڈرسل ہے تووہ لا شعور ی طو ر پر ا ن سے وابستہ ہو گا اقبال اور غالب سے نہیں ہو گا۔ اس کو چھوٹی بات نہ سمجھیے۔ جو انسان اپنی تہذیبی ٹریڈیشن میں نہیں کھڑا ہو گا وہ نفسیات کے لحاظ سے اکھڑ جائے گا ۔ہمارے ایک پروفیسر دوست ہیں پچھلے دنوں انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں دین سکھانے کااہتمام توکمیونٹی سنٹر میں ہوتا ہے لیکن وہ اپنے گھر میں یوم اقبال ضرور مناتے ہیں ۔ یہ ہے تو بہت چھوٹی سی بات لیکن یہ بچوں کو اپنے ماضی سے وابستہ رکھتی ہے اورجو اپنے ماضی سے وابستہ رہے اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور جس درخت کی جڑیں جتنی مضبوط ہوں گی اس کے گرنے اوراکھڑنے کے امکانات اتنے ہی کم ہو ں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ان دو پہاڑیوں پر بت تھے اور مسلمان ان کی وجہ سے سعی کرنے سے ہچکچا رہے تھے تو کعبہ میں تو 365 بت تھے وہاں تومسلمانوں کو طواف کرنے سے کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی ۔ یہ محض قصہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اصل بات یہ تھی کہ صفا اور مروہ کی سعی کے بارے میں یہو دنے یہ پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ یہ کوئی مناسک حج کی چیز ہے ہی نہیں۔ اور اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ مروہ حضرت اسماعیلؑ کی قربان گاہ ہے اور یہود کے پورے لٹریچر میں اس چیز کو ہدف کی حیثیت حاصل ہے کہ حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیمؑ کا تعلق مروہ یعنی کعبہ اورمکہ سے ثابت نہیں ہونا چاہیے تو وہ اس کا پروپیگنڈہ کرتے تھے ۔قرآن نے اسی کے ضمن میں اس کاذکر کیا ہے۔ جہاں یہ آیت آئی ہے اس کے فورا ًبعد بیان ہے کہ یہ یہود اللہ کے دین کی اس طرح کی حقیقتوں کو چھپاتے ہیں اور جانتے بوجھتے چھپاتے ہیں ، یہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں اس پر یہ سوال پیدا ہوا تو قرآن نے اس کا جواب یہ دیا کہ صفا و مروہ کی سعی کوئی بری چیز نہیں ہے یہ ایک خیر کا کام ہے ، جو آدمی بھی حج و عمرہ کے لیے آئے وہ اگر اپنی طرف سے کوئی خیر کا کام کرتا ہے تو بالکل ٹھیک کرتا ہے ۔ من تطوع خیرا فان اللہ شاکر علیم کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ یہ ایک نفل عبادت ہے ۔ حضور نے یہ نفل عبادت کی ہے ایسے ہی جیسے آپ نے بڑی باقاعدگی کے ساتھ فجر کی دو رکعتیں پڑھی ہیں فرضوں سے پہلے ،تو وہ فجر کی دو رکعتیں آپ کے مسلسل پڑھنے کے باوجود بھی نفل ہی رہی ہیں فرض نہیں ہو گئیں ۔تو یہ سعی بھی نفل ہی ہے اگرچہ حضور سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور بڑی اچھی عبادت ہے کرنی چاہیے۔لیکن یہ عمرے یا حج کا لازمی رکن نہیں ہے ،بس یہ بات ملحوظ رہے۔آپ کی مکہ سے واپسی حج کے بعد ہوئی ہے اس میں حضور نے سعی نہیں کی ۔ بعض علما نے یہ سمجھا کہ شاید عمرے والی سعی کو حضور نے کافی سمجھا ہے حالانکہ آپ نے ا پنے عمل سے یہ بتا دیا یعنی پہلے کر کے اور بعد میں نہ کر کے کہ یہ نفل عبادت ہے چاہے تو کر لیں اور چاہیں تو نہ کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پامسٹری ابھی علم کے درجے تک نہیں پہنچی ، قیاسات کے درجے تک ہی ہے ۔ اس میں بہت سا کام ہوا ہے ، لوگوں نے اس پر کتابیں لکھی ہیں ، ماہرین بھی ہیں اور مختلف نوعیت کے دعوے بھی کرتے رہتے ہیں لیکن سب کچھ کو پڑھنے کے بعد یہی اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر قیاسات اور قیافے پر مبنی چیزیں ہیں۔شخصیت کے مطالعے کے بعض مفید پہلواس سے مل سکتے ہیں مگر میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ خواہ پامسٹری ہو یا کوئی او ر علم جب تک وہ سائنس کے درجے تک نہ پہنچے اس وقت تک اس میں اشتغال نہ کریں۔ورنہ آپ توہم پرست ہو جائیں گے اور یہ بجائے خود ایک بڑی بیماری ہے۔ یعنی آدمی اگر اوہام میں مبتلا ہو جائے تو اس کی عقل معطل ہو جاتی ہے اور پھر وہ اوہام کی بناپر ہی فیصلے کرنے اور رائے قائم کرنے لگ جاتا ہے ۔ ایک زمانے میں اس سے بہت دلچسپی رکھنے کے باوجود میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ ایسا نہ کریں ۔یہ آدمی کے ایمان اور اس کی شخصیت پر برا اثر ڈالتی ہے۔انسان جب اوہام میں مبتلا ہو جائے تو اپنی بہت سی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ انسان کو عقل دی گئی ہے وہ اس کو استعمال کرتا ہے ، اس سے حیرت انگیز کارنامے دکھاتا ہے ۔ اس کو اللہ پر توکل کی تعلیم دی گئی ہے ، وہ اس پر بھروسہ کرتا ہے تو اس کے ایمان میں بڑھوتری ہوتی ہے۔پامسٹری اس جیسے علوم انسان کی عقل و ایمان کو متاثر کرتے ہیں۔ انسان اگر ان سے متاثر ہو جائے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں اور اچھا عمل بھی انسان نہیں کر سکتا ۔اس کی اپنی صلاحیتیں بھی انہیں اوہام میں سرگرداں ہو کر گزر جاتی ہیں ۔ میں نے بہت سے لوگوں کودیکھا ہے ،جو ایک مرتبہ اس طرح کی چیزوں کا شکار ہو گئے ، وہ پھر معطل ہو کر رہ گئے حالانکہ اچھے بھلے عقلمند لوگ تھے۔ حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اگر ان کو رفع حاجت کے لیے جانا ہو تو پھر بھی ہاتھ دیکھ رہے ہوتے ہیں ، کہ جائیں کہ نہ ۔یہ چیزیں توہم پرستی کو جنم دیتی ہیں اورایمان و توکل کوکمزور کر تی ہیں اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دوسری چیز جو آپ نے پوچھی ہے وہ دم کر نا ہے۔ رسول اللہﷺ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاکہ جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اس میں کوئی مشرکانہ چیز نہیں ہونی چاہیے ۔آپ اللہ سے مدد مانگ کے دم کردیتے ہیں پھونک دیتے ہیں یہ اصل میں اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے ۔قرآن مجید شفا ہے ہمارے دلوں کے روگ دور کرتا ہے ، یہ ٹھیک ہے لیکن یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ قرآن دم کے لیے نہیں آیا اور نہ اس آیت کا یہ مقصد ہوتا ہے ۔اصل میں جب آپ آیت الکرسی پڑھتے ہیں تو آپ توحید کا اظہار کرتے ہیں ۔ توحید کا اظہار یا توحید پر ایمان کا اظہار یہ اصل میں اللہ کی پناہ پکڑنا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ اس کو پڑھنا چاہیے ، قرآن مجید کی آخری دو سورتیں ہیں ان کو اگر دعا کے طور پر آپ پڑھتے ہیں تو یہ بھی بہت عمدہ چیز ہے ۔حضور بھی بعض اوقات پھونک دیتے تھے ۔ آپ نے معوذات پڑھ کے دم کیا ہے ۔یہ چیزیں انسان کو نفسیاتی طور بھی اطمینان دیتی ہیں اور اس کو اللہ کی پناہ میں بھی دیتی ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی مشرکانہ چیز نہ ہو اور یہ ذہن میں ہو کہ قرآن کا اصل مقصد یہ نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

حکم ربانی

             یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ.کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ۔ (الصف۶۱:۲،۳)

            ‘‘مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے۔ خدا اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔’’

             إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْراً.(النساء۴:۱۴۵)

            ‘‘کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تم کسی کو ان کا مددگار نہ پاؤ گے۔’’

فرمانِ نبوی

            آیۃ المنافق ثلاث، اذا حدث کذب، اذا اوتمن خان و اذا وعد اخلف۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق)

            ‘‘منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے اور امانت میں خیانت کرے۔’’

            قال رجل لحذیفۃؓ: یا ابا عبداللہ! ماالنفاق؟ فقال: ان تتکلم بالاسلام ولا تعمل بہ۔(مسند الامام الربیع)

            ‘‘ایک آدمی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نفاق کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: یہ کہ تم زبان سے تو اسلامی تعلیمات کا اقرار کرو لیکن ان کے عمل نہ کرو۔’’

(جاوید احمد غامدی)

جواب: نفاق کی اصولی تعریف یہ ہے کہ دل اور زبان متفق نہ ہوں۔ اس کی دو بڑی قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔ اعتقادی نفاق ایک قسم کا کفر ہے اور عملی نفاق، فسق۔ اعتقادی نفاق کی تعریف یہ ہے کہ آدمی ایمان کا اظہار تو کرے مگر دل میں ایسا انکار رکھے جو ارادتاً ہو، یا دوسرے لفظوں میں اقرار ظاہر کرنا اور انکار چھپانا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:

             إِذَا جَاء کَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللَّہِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَاللَّہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُونَ. اتَّخَذُوا أَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوا عَن سَبِیْلِ اللَّہِ إِنَّہُمْ سَاء مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ. (المنافقون۶۳:۱،۲)

            ‘‘اے محمد! جب منافق لوگ تمھارے پاس آتے ہیں تو (ازراہ نفاق) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بے شک خدا کے پیغمبر ہیں اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کیے دیتا ہے کہ منافق (دل سے اعتقاد نہ رکھنے کے لحاظ سے ) جھوٹے ہیں۔ انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) راہِ خدا سے روک رہے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ جو کام یہ کرتے ہیں برے ہیں۔’’

            نفاق عملی یہ ہے کہ دین کے احکام کو ماننے کے باوجود ان پر دانستہ اور اختیاراً عمل نہ کیا جائے جیسا کہ قرآن حکیم نے سورہ الصف میں ان لوگوں کی نکیر کی ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہو۔

            واضح رہے کہ اعتقادی نفاق کفر کی بدترین قسم ہے اور عملی نفاق فسق کی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منافق کی نشانی یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے ، امانت میں خیانت کرتا اور وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ نیز فرمایا:

            لا الہ الا اللہ کلمۃ الف اللہ بھا قلوب المسلمین. فمن قال واتبعھا بالعمل الصالح فھو مومن ومن قالھا واتبعھا بالفجور فھو منافق.(مسند الامام ربیع)

            ‘‘یعنی لا الہ الا اللہ وہ کلمہ ہے جس سے اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو باندھ رکھا ہے پس جس نے یہ کلمہ پڑھا اور اس کے مطابق صالح اعمال کیے وہ مومن ہے اور جس نے یہ کلمہ پڑھا اور برے اعمال کیے وہ منافق ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: قنفاق کا سب سے بڑا ضرر تو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے نتیجے میں جہنم کی آگ کا عذاب ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اعتقادی نفاق کا علاج ہمیں درکار نہیں ہے کیونکہ ایک مسلمان کو مسلمان رہتے ہوئے یہ مرض لاحق نہیں ہوتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعتقادی نفاق کا حامل خود کو مریض نہیں سمجھتا اس لیے اس کو کوئی علاج بتانا بے سود اور بے معنی ہے۔ البتہ اس نفاق میں مبتلا کسی شخص کو خیرخواہی اور تبلیغ کی نیت سے بعض طریقوں سے سمجھانے اور حق کی طرف مائل کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس کا بیان ان شاء اللہ ‘آداب تبلیغ’ میں ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: عملی نفاق کی دو حالتیں ہیں۔ پہلی حالت تو یہ ہے کہ آدمی اس نفاق میں مبتلا ہو مگر کسی وجہ سے اس کے ضرر کو محسوس نہ کرتا ہو۔ دوسری حالت یہ ہے کہ اس کا شکار تو ہو لیکن اس سے رہائی پانے کی خواہش بھی رکھتا ہو۔پہلی حالت عموماً دو وجوہ سے پیش آتی ہے۔ ایک غلط عقائد اور دوسرے حب دنیا، اس کا علاج اصولاً تصحیح عقائد سے شروع ہو گا۔ ایسے شخص کی وہ غلطی دریافت کرنی چاہیے جس کی وجہ سے وہ اپنے نفاق کے نقصانات کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہو پا رہا۔ عام طور پر اس غلطی کے دو سبب ہوتے ہیں:

(۱) اللہ کی رحمت کا غلط تصور اور

(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا غلط تصور۔

سب سے پہلے یہ باور کرنا اور کرانا چاہیے کہ اللہ کی رحمت اگر آخرت میں بھی نافرمانوں پر ایسی عام ہو کہ بڑے سے بڑا نافرمان بھی بخشا جائے تو اس کا سیدھا سادا مطلب تو یہ ہوا کہ ، نعوذ باللہ، اللہ کے احکام محض مذاق تھے اور ظاہر ہے کہ یہ بات اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان کے اس قدر خلاف ہے کہ خود یہ شخص بھی رحمت کا خود ساختہ تصور رکھتا ہے، اسے قبول نہیں کر سکتا۔ دوسرے سبب کا ازالہ بھی اسی نہج پر ہو گا کہ بلا قید اور عام شفاعت رسول کریم ﷺ کی عبدیت ہی نہیں بلکہ رسالت کے بھی منافی ہے کیونکہ اگر اس طرح کی شفاعت آپﷺ کو فرمانا تھی تو آپ ﷺ کا بندگی پر اصرارکوئی معنی نہیں رکھتا اور وہ پیغام بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا جو آپ انسانوں کی اخروی نجات کے واحد ذریعے کے طور پر لے کر آئے۔ باقی رہی حب دنیا تو اس کی تعریف اور علاج نفاق کے بعد زیر بحث آئے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس معاملے میں علاج دراصل دو چیزوں کا ہو گا: ایک کسل اور دوسرے آخرت پر مطلوبہ یقین نہ ہونا۔ کسل کے علاج کا آغاز نماز با جماعت کی پابندی سے ہو گا اور رفتہ رفتہ دوسرے معاملات کا بھی احاطہ کرے گا۔ جماعت کی پابندی کسل کی دونوں قسموں یعنی ذہنی اور جسمانی کا علاج ہے۔آخرت پر مطلوبہ یقین پیدا کرنے کی بہترین تدبیر تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے جن کے قول و فعل سے اللہ کا خوف جھلکتا ہو، تاہم اگر اس طرح کی صحبت میسر نہ ہو تو آخرت سے متعلق آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ یا کوئی مستند کتاب باربار پڑھنے کی عادت ڈالی جائے۔ شروع میں اگر دل نہ لگے تو بھی یہ مطالعہ جاری رکھنا چاہیے۔ اس میں کچھ رسوخ پیدا ہو جائے تو پھر موت کو یاد رکھنے کی مشق کرنی چاہیے، یہ آخرت کے یقین کو بھی کامل کرتی ہے اور عمل کے محرکات کو بھی تقویت پہنچاتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

حکم ربانی

            وَمَا ہَذِہِ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا لَہْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوانُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ.(العنکبوت۲۹:۶۴)

            ‘‘اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل تماشا ہے۔ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ کاش وہ اس حقیقت کو جانتے!’’

             یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ.(فاطر۳۵:۵)

             ‘‘اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ قیامت برحق ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکا دینے پائے۔’’

فرمان نبوی

            ‘‘ماالدنیا فی الآخرۃ الامثل ما یجعل احدکم اصبعہ فی الیم، فلینظربما یرجع؟’’(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا، باب فناء الدنیا)‘‘آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے تو پھر دیکھو کہ وہ کتنا پانی ساتھ لاتی ہے؟’’

            ‘‘عن ابی ہریرہؓ قال: رایت سبعین من اھل الصفۃ ما منھم رجل علیہ رداء، اما ازار واما کساء قدر بطوافی اعناقھم فمنھا ما یبلغ نصف الساقین ومنھا ما یبلغ الکعبین، فیجمعہ بیدہ کراھیہ ان تری عورتہ.’’(صحیح بخاری، کتاب المساجد، باب نوم الرجال فی المسجد)

            ‘‘حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے ستر اہل صفہ کو دیکھا ان میں کسی کے پاس جسم کے اوپر کا حصہ چھپانے کے لیے چادر نہیں تھی، کسی کے پاس نچلا دھڑ ڈھانکنے کے لیے ازار (تہ بند، دھوتی، پاجامہ وغیرہ) ہوتی یا چادر جسے وہ اپنی گردنوں میں باندھ لیتے وہ کپڑا کسی کی نصف پنڈلی تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک، پس وہ اسے اپنے ہاتھ سے اکٹھا کر رکھتے کہ کہیں ان کا قابل ستر حصہ عریاں نہ ہو جائے۔’’

(جاوید احمد غامدی)

جواب: حب دنیا یہ ہے کہ دنیا اس قدر مطلوب ہو جائے کہ آدمی اس کے حصول کا ہر ذریعہ، خواہ صحیح ہو یا غلط، اختیار کر لے اور اس بارے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی واضح ناراضی اور غضب کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کی طلب اور محبت کا اللہ کی طلب اور محبت پر بداہتہً غا لب آجانا حب دنیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: حب دنیا نہ صرف یہ کہ تمام گناہوں کی جڑ ہے بلکہ اپنے شکار کو کفر، شرک اور جہنم تک پہنچا سکتی ہے جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے متعدد ارشادات سے ثابت ہوتا ہے:

            اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَفِیْ الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ.(الحدید۵۷:۲۰)

            ‘‘جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمھارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (و خواہش) ہے۔ (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے۔ پھر وہ خوب زور پر آتی ہے۔ پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ یہ(پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوتی ہے۔ اور آخرت میں(کافروں کے لیے) عذاب شدید اور( مومنوں کے لیے)خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔

             إَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُونَ لِقَاء نَا وَرَضُواْ بِالْحَیْاۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّواْ بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ آیَاتِنَا غَافِلُونَ.أُوْلَـئِکَ مَأْوَاہُمُ النُّارُ بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُونَ.(یونس۱۰:۷،۸)

            ‘‘جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اس پر مطمئن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں’’ ان کا ٹھکانا ان (اعمال) کے سبب جو وہ کرتے ہیں دوزخ ہے۔’’

            ‘‘مررسول اللہ ﷺ بشاۃ میتۃ قد القاھا اھلھا فقال والذی نفسی بیدہ للدنیا اھون علی اللہ من ھذہ علی اھلھا.’’(جامع الترمذی، ابواب الزھد ، باب ماجاء فی ھوان الدنیا علی اللہ عزواجل)‘‘نبی کریم ﷺایک مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرے جسے کوئی باہر پھینک گیا تھا اور اسے دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا کی اتنی بھی اہمیت نہیں جتنی اس مری ہوئی بکری کی اس کے مالک کے نزدیک ۔’’

            ‘‘الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر۔’’ (صحیح مسلم، کتاب الزہد، باب الدنیا سجن المؤمن)

            ‘‘دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔’’

(جاوید احمد غامدی)

جواب: نفس انسانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب کو باقی دیکھنا چاہتا ہے یعنی نفس کی طلب اور رغبت کا اصول یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب اور مرغوب سے علی الدوام واصل رہنا چاہتا ہے۔ اگر اس پر یہ بات عقلاً ہی نہیں تجربے اور مشاہدے سے بھی ثابت ہوجائے کہ یہ جس کی طلب میں سرگرداں ہے وہ خود بھی فانی ہے اور اس کو بھی فنا سے نہیں بچا سکتا تو اس صورت میں اس کی طلب و رغبت کا رخ بدل سکتا ہے۔ اور یہ اصول کہ نفس کا سب سے بڑا مطلوب بقا اور دوام راحت ہے، ایسا بدیہی امر ہے کہ کوئی شخص اس کی دلیل طلب کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ دوسری طرف یہ بھی اتنی ہی حتمی اور یقینی بات ہے کہ دنیا اور دنیا کی راحتیں خود اس کے طالب کے ساتھ فنا ہو جانے والی ہیں۔ اس تجربی صداقت کا استحضار اور اس ایمانی حقیقت کی یاد دہانی کہ آخرت اور اس کی راحتیں نہ صرف یہ کہ خود باقی رہنے والی ہیں بلکہ اپنے طالب کی مطلوبہ بقا کا بھی سامان رکھتی ہیں، حب دنیا کی گرفت کمزور کرنے کی واحد اصولی تدبیر ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مرض اتنا گہرا اور پیچیدہ ہے کہ جب تک مریض خود اس سے نکلنے کی جان توڑ کوشش، جسے اصطلاح میں مجاہدہ کہتے ہیں، نہیں کرے گا، پورا افاقہ نہیں ہو سکتا۔ اس مجاہدے کے اجزاء یہ ہیں:

(۱)       انفاق: جس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد اللہ کی راہ میں خرچ کرو(البقرہ ۲:۲۱۹)۔ شریعت نے ‘‘ضرورت’’ کے بے لچک حدود مقرر نہیں فرمائے ہیں۔ ہم معالجے کی مصلحت سے یہ تجویز کریں گے کہ بہت بنیادی ضروریات سے زیادہ مال و اسباب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دینا انفاق کا وہ درجہ ہے جس کا پسندیدہ ہونا شرعاً بھی ثابت ہے، تاہم حب دنیا کے علاج کے لیے اسے لازم سمجھنا چاہیے۔ انفاق کے اس درجے پر ایک ضابطہ اور بھی ملحوظ رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ہر وہ زائد از ضرورت چیز فوری طور پر کسی مستحق کو دے دی جائے جس کی طرف نفس میں رغبت پائی جاتی ہو۔

(۲)       گھر میں دنیا کی باتیں نہ کرنا مثلاً اولاد سے اس طرح گفتگو کہ تمھیں ڈاکٹر بنناہے یا انجینئر، مضر ہے بلکہ ان کے مستقبل پر اس طرح بات کرنی چاہیے کہ تمھیں ہر حال میں مسنون زندگی گزارنی ہے خواہ اس کا نتیجہ دنیاوی تنگی ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح آدمی کا فوری ماحول کم از کم اتنا ضرور ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے لیے دنیا کی محبت کا محرک نہ بنے۔ یہ ضابطہ رفتہ رفتہ دیگر تعلقات پر بھی عائد کرنا چاہیے۔

(۳)      موت کی یاد، قبر کا دھیان اور قبرستان میں عبرت کے حصول کے لیے آمدورفت۔

(۴)      دوستوں کی خبرگیری اور ان کی محبت بڑھانے کی تدابیر سوچنا۔ اس سے دو چیزیں میسر آئیں گی جو حب دنیا کے علاج میں نہایت مفید ہیں۔ ایک ایثار اور دوسرے انکسار۔ رفتہ رفتہ خبرگیری کے اس دائرے کو وسعت دے کر عام مسلمانوں تک پہنچا دینا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

حکم ربانی

            وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا. (الاسراء ۱۷:۳۷)‘‘اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔’’

            تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُونَ عُلُوّاً فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فَسَاداً وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ.(القصص۲۸:۸۳)

            ‘‘یہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کے لیے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں بڑائی چاہتے ہیں اور نہ فساد اور اچھا انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے۔’’

فرمانِ نبوی

            ‘‘الااخبرکم باھل النار؟ کل عتل جواظ مستکبر’’(صحیح بخاری، کتاب التفسیر و صحیح مسلم، کتاب الجنۃ ، باب النار یدخلھا الجبارون)

            ‘‘کیا میں تمھیں جہنمیوں کی خبر نہ دوں؟ ہر سرکش، بخیل اور متکبر جہنمی ہے۔’’

            ‘‘قال اللّٰہ عزوجل: العزا زاری، والکبریاء ردائی، فمن یناز عنی عذبتہ’’(صحیح مسلم، کتاب السر، باب تحریم الکبر)

            ‘‘اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ عزت میرا پہناوا ہے اور بڑائی میری چادر ہے پس جو بھی ان میں سے کوئی ایک چیز بھی مجھ سے کھینچے گا میں اسے عذاب دوں گا۔’’

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دوسروں کی تحقیر کرتے ہوئے اپنے آپ کو بڑا سمجھنا تکبر ہے۔ کسی واقعی خوبی اور فضیلت کی بنیاد پر اپنے کو بعض ایسے لوگوں سے بہتر سمجھنا جو وہی خوبی یا فضیلت یا تو سرے سے نہیں رکھتے یا مقابلتاً کم رکھتے ہیں، ممکن ہے کہ نا مناسب تو ہو مگر تکبر نہیں ہے۔ تکبر کا ایک لازمی جزو دوسروں کو حقارت سے دیکھنا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے: ‘‘الکبر بطر الحق وغمط الناس’’ (صحیح مسلم، کتاب الایمان)یعنی تکبر یہ ہے کہ آدمی جانتے بوجھتے حق بات کو رد کرے اور لوگوں کی تحقیر کرے۔

            تکبر کی دو قسمیں ہیں: ایک مطلق اور دوسرے جزوی۔ مطلق تکبر یہ ہے کہ آدمی اپنی واقعی یا فرضی خوبی کی نسبت اللہ کی طرف کیے بغیر دوسروں کو تحقیر کی نظر سے دیکھے۔ یہ تکبر شرک اور کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ جزوی تکبر میں آدمی اس خوبی کو اللہ کی دین سمجھتا ہے مگر اس کی روح سے بیگانہ ہو کر اسے دوسروں کی توہین و تحقیر کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ گویا تکبر کی ہر قسم میں دو چیزیں مشترک ہیں: خود کو بڑاجاننا اور دوسروں کی تحقیر، خواہ احساس میں ہو یا عمل میں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: (۱) اللہ کی رضا سے محرومی۔

            اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ. (النحل۱۶:۲۳)‘‘بے شک وہ (یعنی اللہ) تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔’’

            (۲) جہنم میں ہمیشگی کا عذاب۔

             قِیْلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا فَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ. (الزمر۳۹:۷۲)‘‘(اللہ کا) حکم ہو گا کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے۔ وہ کیا برا ٹھکانا ہے متکبر لوگوں کا۔’’نبی کریم ﷺنے بھی فرمایا ہے کہ متکبر جہنم کا ایندھن بنیں گے اور یہ کہ جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت سے محروم رہے گا۔ (مسند احمد بن حنبل، ج ۴،ص ۳۰۶)

            (۳) لوگوں کی نفرت کا نشانہ بننا کیونکہ متکبر کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: آدمی کو مسلمان ہوتے ہوئے بھی تکبر کی یہ بدترین قسم پیش آسکتی ہے۔ ایک مسلمان اس تکبر میں اس طرح مبتلا ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ احساس تقریباً غائب ہو جاتا ہے کہ اس کی حقیقی یا مزعومہ خوبیاں اللہ کی دین ہیں، تاہم عقلی طور پر وہ اس کا انکار نہیں کرتا۔ مرض کی اس صورت میں مریض کو ایسے ماحول یا ایسے آدمیوں کی تفصیلی صحبت اختیار کرنے کا مشورہ دیا جائے گا جو ان امور میں، جن کی بنیاد پر تکبر پیدا ہوتا ہے، اس سے بڑھے ہوئے ہوں، مثلاً ایک شخص اس بات پر تکبر میں مبتلا ہو کہ وہ بہت ذہین یا طاقتور ہے تو اسے ایسے اشخاص کے پاس بھیجا جائے گا جو اس سے کہیں زیادہ ذہین اور طاقتور ہوں۔ اس طرح اس کا اپنے بارے میں یقین جو دعویٰ بن گیا ہے، متزلزل ہو جائے گا۔ پہلے قدم پر یہی تزلزل درکار ہے۔ اسی سے فائدہ اٹھا کر اسے یہ باور کرایا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا کوئی ذریعہ عطا نہیں فرمایا جس کی بنیاد پر ہم اپنی کامل فضیلت کا کوئی حتمی فیصلہ کر سکیں۔ آگے کا معالجہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان دو اقدام کے بعد خود بخود ہوتا جائے گا۔

            ایک بات ملحوظ رہے کہ بعض لوگوں میں جو یہ مشہور ہے کہ متکبر کا علاج یہ ہے کہ اس کی تحقیر کی جائے تو یہ ہر صورت حال میں کارگر نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات تحقیر سے تکبر بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا۔ ہاں! اسی طرح کا علاج اس تکبر میں موثر ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے انکار تک جا پہنچا ہو۔ اس میں تحقیر ہی واحد راستہ ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دنیا میں ہر برائی سمجھانے سے ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن سمجھانے کے بھی کئی مدارج ہوتے ہیں۔ تکبر میں جس طرح کا سمجھانا درکار ہے وہ یہ ہے کہ اونٹ کو پہاڑ تلے لے آیا جائے یعنی اسے ایک ٹھوس تقابل میں ڈال دیا جائے جس کے نتیجے میں اس کے پاس سوائے اعتراف کمتری کے کوئی اور راستہ نہ رہے۔ یہی تکبر کے تمام معالجوں کی بنیاد ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یقینا کسی بھی معالجے کی کامیابی کی سطح برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ مختلف تدابیر کا تقاضا کرتا ہے۔ تکبر کے علاج کی تاثیر کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کے لیے چار طرح کے اعمال کی پابندی مفید اور موثر ہے۔

(۱)       جماعت کی اس طرح پابندی کی صف میں اپنے قریب والے نمازی سے بالکل جڑ کر کھڑے ہونے کی عادت ڈالی جائے۔

(۲)       وہ قرآنی آیات جو اللہ تعالیٰ کے جلال و کبریائی کا اظہار کرتی ہیں انھیں تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور ان میں سے بعض کو اپنا ورد بنایا جائے۔

(۳)      کثرت تسبیح و تحمید تاکہ علاج میں ایسا مبالغہ بھی نہ ہو جائے کہ آدمی اپنی واقعی خوبیوں کا بھی منکر ہو جائے۔

(۴)      کثرت استغفار۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: جی ہاں! جزوی تکبر کے ازالے کے لیے بھی وہی سب کچھ کرنا ہو گا جو اوپر بیان ہوا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: جی نہیں! یہ تکبر نہیں ہے کیونکہ متکبر آدمی کسی چیز کی کوشش یا خواہش نہیں کرتا، اسے تو اپنے زعم میں ہر چیز حاصل ہوتی ہے۔ سوال میں بیان کردہ صورت اگر اعتدال کے ساتھ ہو تو فطری ہے لیکن اگر اعتدال کے ساتھ نہ ہو تو حب جاہ کا پیش خیمہ ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اصولاً تکبر اور حب جاہ میں فرق ہے تاہم حب جاہ اپنی انتہاء کو پہنچ کر تکبر میں ڈھل جاتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

حکم ربانی

            اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَفِیْ الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ.(الحدید۵۷:۲۰)

            ‘‘جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمھارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (و خواہش) ہے۔ (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے۔ پھر وہ خوب زور پر آتی ہے۔ پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ یہ(پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوتی ہے۔ اور آخرت میں(کافروں کے لیے) عذاب شدید اور( مومنوں کے لیے)خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔

             أَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ.حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ.کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.کَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ ……

            ‘‘تم کو کثرت (مال و جاہ) کی طلب نے غافل کر دیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا کر دیکھیں، دیکھو تمھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا، پھر دیکھو تمھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا، دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے) ’’(التکاثر۱۰۲:۱۔۵)

فرمانِ نبوی

            ماذئبان جائعان ارسلا فی غنم بافسدلھا من حرص المرء علی المال والشرف لدینہ’’(جامع الترمذی، ابواب الزہد)

            ‘‘دوبھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں گھس جائیں اس کا اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا حب مال و جاہ انسان کے دین کا کرتے ہیں۔’’

            عن ابی موسیٰ قال: دخلت علی النبی ﷺ انا ورجلان من بنی عمی: فقال احد الرجلین، یا رسول اللہ! امرنا علی بعض ماولاک اللہ عزوجل؟ وقال الآخر مثل ذلک، فقال: انا، واللہ لا نولی علی ھذا العمل احدا سالہ، ولا احدًا حرص علیہ۔(صحیح مسلم، کتاب الامارہ)

            ‘‘حضرت ابو موسیٰؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ سے ملنے گیا جب کہ میرے ساتھ میرے دو رشتہ دار بھی تھے۔ ان دونوں نے نبی اکرم سے درخواست کی کہ انھیں مناصب دیے جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو مناصب کی حرص کرے اور ان کا مطالبہ کرے، ہم اسے یہ نہیں دیتے۔’’

(جاوید احمد غامدی)

جواب: حب جاہ کی پوری تعریف یہ ہے: بڑا بننے کی ایسی خواہش جو بندگی کی روح کے خلاف ہو اور جائز و ناجائز کی تفریق مٹا دے۔

            حب جاہ کے علاج میں بڑی مدد ان امور سے بھی مل سکتی ہے جو تکبر اور حب جاہ کے لیے بتائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ اس کے علاج میں دو اصول مستقلاً ملحوظ رکھنے چاہئیں: ایک ایثار اور دوسرے اخفائے صلاحیت۔ یہاں ایثار کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک چیز کا شرعاً اور قانوناً مستحق ہوتے ہوئے بھی اسے کسی دوسرے مستحق کے لیے چھوڑ دے اور اخفاء کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اپنی ان صلاحیتوں کو ایسے مواقع پر ظاہر نہ ہونے دے جہاں ان کے اظہار کے نتیجے میں کوئی مرتبہ و منصب حاصل ہو سکتا ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ حصول مقصود کا ذریعہ اور اس کے حصول کا استحقاق اگر شرعی جواز کے ساتھ ثابت ہوں اور ناکامی کی صورت میں بھی کامیاب ہونے والوں سے حسد یا بغض وغیرہ پیدا نہ ہو تو ہم کہیں گے کہ آگے بڑھنے کی خواہش میں اعتدال ملحوظ رہا ہے۔ اس صورت میں آگے بڑھنے کی خواہش فطری ہے اور اس سے کسی نقص و ضرر کا احتمال نہیں ہوتا۔ ان چیزوں کا نہ ہونا البتہ اعتدال کے خلاف ہے اور حب جاہ پر دلالت کرتا ہے۔

            جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ حب جاہ کی تعریف میں بڑا بننے کی خواہش کے ‘‘خلاف بندگی’’ ہونے کا کیا مطلب ہے تو اس کے دو پہلو ہیں: ایک تو یہ کہ طالب جاہ اللہ سے ایک مشروط تعلق رکھتا ہے۔ مثلاً اس کی شکر گزاری اس وقت تک ہوتی ہے جب تک تمام معاملات اس کی خواہش کے مطابق چلتے رہتے ہیں، جوں ہی کوئی چیز خلاف مرضی ہوئی یہ شخص شکایت اور شکوے تک پہنچ جاتا ہے یعنی اس کا رویہ تسلیم و رضا کے خلاف ہوتا ہے۔ دوسرا پہلوعملی ہے اور وہ یہ کہ طالب جاہ کی امیدیں اگر پوری نہ ہوں تو اس کی عبادات میں بھی خلل پڑ جاتا ہے۔ یہ حب جاہ کی ایسی یقینی نشانی ہے کہ اسے ایک کلیہ سمجھنا چاہیے۔

            خلاصہ یہ کہ بندگی کے دو اہم اجزاء ہیں: ایک ہر حال میں راضی برضا رہنا، ذہنی طور پر بھی اور طبعی طور پر بھی، دوسرے اعمال عبودیت کو ان کے بتائے ہوئے معیار کے ساتھ انجام دینا۔ طلب جاہ اگر پوری نہ ہو تو یہ دونوں چیزیں لازماً متاثر ہوتی ہیں۔ آدمی جانتے بوجھتے اللہ کی رضا سے نامطمئن ہو جاتا ہے اور اپنی امیدیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی عبادت بھی کسی نہ کسی پہلو سے متاثر ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ قابل اصلاح حالت تو ہے لیکن یہ حب جاہ نہیں ہے کیونکہ حب جاہ کا مریض اپنے عدم تسلیم و رضا کے ردعمل کو ٹھیک سمجھتا ہے جبکہ زیر نظر سوال میں آدمی شکایت یا بے اطمینانی کا احساس رکھنے کے باوجود ایک تو اس کے مقتضاء پر عمل نہیں کرتا اور دوسرے اس کی اصلاح کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا اسے مجموعی طور پر نفس کی کمزوری سے تو تعبیر کیا جائے گا لیکن حب جاہ کا نام نہیں دیا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس کا علاج یہ ہے کہ لمبی دعا مانگی جائے اور اس دعا کے بیشتر مضامین اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور آخرت کی بہتری سے متعلق ہوں۔ ان شاء اللہ اس پر مداومت سے اس کیفیت میں نمایاں بہتری کے آثار پیدا ہوں گے۔ اس کا تفصیلی بیان اس جگہ آئے گا جہاں ہم تعلق باللہ کی مضبوطی کے ذرائع پر گفتگو کریں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: فساد دین بلکہ دین کا خاتمہ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے ریوڑ کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا حب جاہ اور حب مال انسان کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ (سنن ترمذی، کتاب الزہد)

            حب جاہ کے نقصانات اور علاج کا تفصیلی بیان اس جگہ آئے گا جہاں ہم تعلق باللہ کی مضبوطی کے ذرائع پر گفتگو کریں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: شب برات کی فضیلت کے سلسلے میں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ہے، جسے صحیح قرار دیا جا سکے۔ البتہ چند احادیث کے بارے میں علماء حدیث نے کہا ہے کہ یہ صحیح تو نہیں ہیں البتہ حسن کے درجے میں ہیں۔ لیکن بعض علماء انھیں حسن بھی نہیں قرار دیتے۔ ان کے نزدیک شب برات کے سلسلے میں وارد تمام حدیثیں ضعیف ہیں۔بالفرض اگر ہم ان چند احادیث کو حسن بھی تسلیم کر لیں، تب بھی حضوؐر، صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒسے یہ روایت نہیں ملتی کہ انھوں نے شب برات کے موقع پر مسجدوں میں جمع ہو کر نمازوں اور دعاؤں کا اہتمام کیا ہو۔ جو کچھ ان روایتوں میں ہے، وہ یہ کہ حضوؐر نے اس رات دعا مانگی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ کوئی خاص اور متعین قسم کی دعا حضوؐر سے وارد نہیں ہے۔ لوگ اس رات کچھ خاص دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں بہت چھوٹا تھا تو لوگوں کی دیکھا دیکھی میں بھی اس رات نمازیں پڑھتا تھا اور دو رکعت درازی عمر کی نیت سے، دو رکعت لوگوں سے بے نیازی کی نیت سے نمازیں پڑھتا تھا، سورہ یٰسین کی قرأت کا خاص اہتمام کرتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ چیزیں ایسی ہیں کہ حضوؐر اور صحابہ کرامؓ کا ان پر عمل منقول نہیں ہے، عبادت کے معاملے میں یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ ہم اسی چیز پر توقف کریں جو حضوؐر سے منقول ہے۔ اپنی طرف سے کسی نئی چیز کی ایجاد کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے۔ علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبادات جنھیں اصطلاحاً امر تعبدی بھی کہتے ہیں ان کے ادا کرنے میں اسی وقت ثواب ہوتا ہے جب یہ عین خدا اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق ہوں نہ زیادہ نہ کم کیونکہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے اور یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے کہ وہ کس طرح اپنی عبادت کرائے۔ اس نے جس طرح عبادت کا حکم دے دیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اسی طریقے سے عبادت کریں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں ناراضی کا اظہار کرتا ہے، جو عبادات میں اپنی طرف سے نئی چیزیں ایجاد کرتے ہیں۔

            اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ام لھم شرکوا شرعوا الھم من الدین مالم یأذن م بہ اللہ.(شوریٰ:۲۱)

            ‘‘کیا انھوں نے لوگوں کے لیے دین میں ان چیزوں کو شریعت بنا لیا ہے جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا تھا۔’’ہمیں چاہیے کہ اس رات کو ہم صرف اتنا ہی کریں جتنا حضوؐر سے مروی ہے اور وہی دعائیں مانگیں جو حضورﷺ سے ماثور ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صحیح احادیث میں اس مہینے کی فضیلت سے متعلق جو کچھ آیا ہے وہ یہ کہ یہ مہینہ چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے۔ چار حرام مہینے یہ ہیں: رجب، ذوالقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ اور بے شبہ یہ چاروں مہینے اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں۔ کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ہے جس میں خاص طور پر صرف ماہ رجب کی فضیلت بیان کی گئی ہو۔ رہی وہ حدیث جس کا تذکرہ آپ نے کیا ہے یعنی ‘‘رجب اللہ کا مہینہ ہے۔ شعبان میرا مہینہ اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے’’۔ تو یہ حدیث نہ صرف ضعیف ہے بلکہ علماء حدیث نے اسے موضوع یعنی گھڑی ہوئی قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہر وہ حدیث جو اس مہینے کی فضیلت کے سلسلے میں مروی ہے کہ جس نے اس مہینے میں نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا استغفار کیا تو اسے یہ اجر ملے گا اور وہ اجر ملے گا، یہ سب گھڑی ہوئی احادیث ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ ان احادیث کے بے سند ہونے کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ ان میں مبالغے کی حد تک ثواب یا عذاب کا وعدہ ہوتا ہے۔ علماء کرام کہتے ہیں کہ اگر کسی چھوٹی نیکی پر عظیم اجر کا وعدہ ہو یا کسی چھوٹے گناہ پر بڑے عذاب کی دھمکی ہو تو یہ علامت ہے اس بات کی کہ یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے۔ ماہ رجب سے متعلق وارد احادیث بھی اسی قبیل سے ہیں۔

            امت مسلمہ کی یہ بد قسمتی ہے کہ ضعیف اور موضوع احادیث کے سہارے بہت ساری ایسی روایات ہماری ثقافت کا حصہ بن گئی ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مزید مصیبت کی بات یہ ہے کہ یہی غلط روایات اہم تر ہو کر لوگوں کی توجہ اور اہتمام کا مرکز بن گئی ہیں۔ اور جو بنیادی اسلامی تعلیمات و روایات ہیں انھیں یا تو لوگوں نے بھلا رکھا ہے یا پھر انھیں ثانوی حیثیت عطا کر رکھی ہے۔ ہماری بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ ہم رسولؐ اور ان کے صحابہ کرامؓ کا اتباع کریں اور جو باتیں بعد کے زمانوں میں غلط طور پر ترویج پا چکی ہیں ان سے اپنے دامن کو بچائے رکھیں۔

            رہی بات اسی مہینے میں روزہ رکھنے کی تو کوئی ایسی روایت نہیں ہے کہ حضوؐر نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں۔ بعض لوگ پورے رجب، شعبان اور رمضان اور اس کے علاوہ شوال کے چھ دن روزے رکھتے ہیں۔ اس طرح کا روزہ رکھنا حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ جو شخص نیکی اور اجر کا طالب ہے اسے چاہیے کہ رسوم کو چھوڑ کر حضوؐر کا اتباع کرے۔ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: یوم عرفہ سال کے افضل ترین دنوں میں سے ہے۔ اس کی فضیلت کے سلسلے میں متعدد صحیح احادیث حضوؐر سے مروی ہیں۔ حضوؐر نے اس دن روزہ رکھنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ حدیث ہے:

            صیام یوم عرفۃ احتسب علی اللہ تعالیٰ ان یکفر ذنوب سنتین.

            ‘‘میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔’’ہم میں سے کون ایسا ہے جو گناہوں سے پاک ہے اور اس سے خطائیں نہیں ہوتیں۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ عرفہ سے پہلے آٹھ روزے اگر نہیں رکھ سکتا تو کم از کم عرفہ کے دن ضرور روزہ رکھے اور اس کا اہتمام کرے۔ البتہ حاجیوں کے لیے یہ روزہ رکھنا مسنون نہیں ہے تاکہ خالی پیٹ ذکر و عبادت میں خلل نہ ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: جمہور فقہاء کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قربانی کرنا واجب ہے۔ احناف کے یہاں واجب ہے۔ فرض اور سنت کے درمیان ہے۔ اور واجب کا ترک کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔

            حدیث نبویؐ ہے: من کان لہ سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا. (حاکم عن ابی ہریرہ)

            ‘‘جو صاحب حیثیت ہے اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔’’

            ایک دوسری حدیث ہے کہ صحابہؓ نے قربانی کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا: سنۃ ابیکم ابراھیم. (ترمذی،حاکم)

            ‘‘تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے۔’’

            ان دونوں حدیثوں کی بنیاد پر کسی نے قربانی کو صاحب حیثیت کے لیے واجب قرار دیا اور کسی نے سنت قرار دیا۔ جنھوں نے اسے سنت قرار دیا ہے ان کے نزدیک صاحب حیثیت کا قربانی نہ کرنا مکروہ ہے۔

            قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے۔ عید کی نماز سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر پہلے دن قربانی کرنا ممکن نہ ہو تو دوسرے اور تیسرے دن بھی کی جا سکتی ہے۔

            قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا پڑوسیوں کے لیے اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین کے لیے۔ اگر سارے کا سارا گوشت پڑوسیوں اور غریبوں میں تقسیم کر دے تو یہ اور بھی بہتر ہے۔ البتہ تھوڑا بہت گوشت بطور برکت خود بھی کھانا چاہیے۔

            بے شبہ قربانی ایک عبادت ہے اور جیسا کہ ہم نے متعدد مقام پر کہا ہے کہ عبادت کے لیے ضروری ہے کہ اسی طریقے اور وقت پر ادا کی جائے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے متعین کر دیا ۔ قربانی بھی ایک عبادت ہے۔ اس کا بھی ایک وقت اور طریقہ متعین ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس طریقہ اور وقت کا پورا پورا خیال رکھیں۔

قربانی سے متعلق چند دوسرے سوالات

            سوال: قربانی کا وقت کون سا ہے؟ کس جانور کی قربانی کی جا سکتی ہے؟ گھر کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک قربانی ضروری ہے یا ایک قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے؟ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے یا قربانی کے پیسے کو صدقہ کر دینا۔

            جواب: قربانی حضوؐر کی سنت موکدہ ہے۔ نبیؐ نے اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے دو تندرست مینڈھے ذبح کیے تھے اور فرمایا تھا کہ ‘‘اے اللہ یہ میری طرف سے میرے گھر والوں کی طرف سے اور میری امت میں سے جن لوگوں نے قربانی نہیں کی ان لوگوں کی طرف سے ہے۔’’

            قربانی کا وقت عید کی نماز کے فوراً بعدشروع ہو جاتا ہے۔ اس سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں۔ اس سے قبل جو قربانی ہو گی اس کے بارے میں حضوؐرنے فرمایا: شاتہ شاۃ لحم.

            ‘‘اس کی بکری گوشت کھانے کی بکری ہے۔’’

            یعنی ایسی بکری محض گوشت کھانے کے لیے ہے۔ یہ قربانی تصور نہیں کی جائے گی۔ قربانی ایک عبادت ہے۔ نماز کی طرح۔ جس طرح نماز کا وقت معین ہے اسی طرح قربانی کا وقت معین ہے۔جس طرح ظہر کی نماز وقت سے قبل نہیں پڑھی جا سکتی اسی طرح وقت سے قبل قربانی نہیں ہوسکتی۔قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد سے شروع ہوکر عید کے تیسرے دن اوربعض فقہاء کے نزدیک عید کے چوتھے دن تک رہتا ہے۔ قربانی کا افضل وقت زوال تک ہے۔زوال تک قربانی نہ کی تو دوسرے دن قربانی کرنی چاہیے۔ بعض فقہاء کے نزدیک رات اور دن میں کسی بھی وقت قربانی کرنا صحیح ہے۔ میری رائے میں بہتر یہ ہو گا کہ ایک ہی دن سارے لوگ قربانی نہ کریں تاکہ ایک دم سے ضرورت سے زائد گوشت نہ جمع ہو جائے، بلکہ کچھ لوگ دوسرے دن اور کچھ تیسرے دن قربانی کریں تاکہ غریبوں کو ہر دن گوشت ملتا رہے۔

            قربانی میں اونٹ، گائے اور بکرے کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ جو جانور چوپایوں میں شمار کیے جاتے ہیں ان میں سے کسی کی بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔ ایک بکرا ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔ اونٹ اور گائے میں سات حصے لگائے جائیں گے اور ہر ایک حصہ ایک مستقل قربانی تصور کی جائے گی اور ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔ شرط یہ ہے کہ اونٹ پانچ سال سے کم کا نہ ہو۔ گائے دو سال سے کم کی نہ ہو اور بکرا ایک سال سے کم کا نہ ہو۔ قربانی کا جانور جتنا صحت مند اور تگڑا ہو اسی قدر افضل ہے کیونکہ قربانی اللہ کی خدمت میں ہدیہ ہے اور مسلمان کو چاہیے کہ بہتر سے بہتر ہدیہ اللہ کی خدمت میں پیش کرے۔ اسی لیے لاغر، لنگڑا، اندھا، کانا، ٹوٹے سینگ والا، کٹے کانوں والا یا کسی قسم کے عیب والا جانور قربانی کے لیے جائز نہیں ہے۔

            رہا یہ مسئلہ کہ قربانی زیادہ افضل ہے یا قربانی کے روپے کو صدقہ کرنا ۔ تو میری رائے یہ ہے کہ بے شبہ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ قربانی ایک عبادت ہے جس کا مقصد حضرت ابراہیمؑ کی سنت کو برقراراور زندہ رکھنا ہے۔ یہ عبادت ہمیشہ اس عظیم الشان واقعے کی یاد دلاتی رہتی ہے جب ابراہیم ؑاپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اسی کی بارگاہ میں قربانی کرنے چلے تھے۔ اپنے رب سے محبت کی یہ ایسی مثال ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پیارے بندے کو اس کا یہ صلہ دیا کہ اس کے اس فعل کو قیامت تک کے لیے یادگار بنا دیا۔ ہر قوم اپنے اہم دن مثلاً آزادی کا دن یا جنگ میں فتح کا دن وغیرہ کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ہر سال اس کا جشن مناتی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ قربانی کرکے اس عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ رکھیں۔ اس لیے قربانی کرنا ، قربانی کی قیمت کو صدقہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ افضل اور احسن ہے۔

            گھر کے تمام افراد کی طرف سے صرف ایک قربانی کا جانور کافی ہے۔ کیونکہ نبیؐ نے جب قربانی کی تو فرمایا کہ اے اللہ یہ محمد اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ہے۔ ابو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ حضوؐر کے زمانے میں ہم میں سے ہر شخص اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے صرف ایک بکری ذبح کرتا تھا۔ لیکن اس کے بعد لوگوں نے فخر و مباحات کے لیے زیادہ قربانیاں کرنی شروع کر دیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: حنبلی مسلک کے مطابق قربانی کرنے والے شخص کے لیے چاند دیکھنے کے بعد بال یا ناخن کٹوانا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ حجاج کرام احرام کی حالت میں یہ چیزیں نہیں کٹواتے۔ اس لیے اس کیفیت کو زندہ رکھنے کے لیے قربانی کرنے والے کو بھی یہ چیزیں نہیں کٹوانی چاہئیں۔البتہ راجح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا صرف مکروہ ہے۔ اگر کسی نے ناخن کٹوایا یا بال بنوا لیے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ سے مغفرت طلب کرے اور بس۔ اگر کسی شخص کو زیادہ دن تک ناخن یا بال چھوڑنے سے تکلیف ہوتی ہو اور اس نے یہ چیزیں کٹوا لیں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: یوم عاشورہ کے روزے کی فضیلت کے سلسلے میں متعدد صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث ہے:

            صوم یوم عرفۃ یکفر سنتعین ماضیۃ مستقبلۃ و صوم یوم عاشوراء یکفر سنۃ ماضیۃ.

            ‘‘یوم عرفہ کا روزہ دو سال ، ایک پچھلا اور ایک اگلا سال، کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ عاشورہ کا روزہ گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔’’

            اس حدیث سے ظاہر ہے کہ عاشورہ کا روزہ پچھلے پورے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو اس بات کا دعویٰ کر سکے کہ اس سے گناہ سرزد نہیں ہوتے۔ ہم بندوں پر یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ مختلف بہانوں سے ہمارے گناہوں کی معافی کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ تمام نیکیاں نہ صرف باعث ثواب ہوتی ہیں بلکہ گناہوں کو دھونے والی بھی ہوتی ہیں۔ قرآن میں ہے: اِنَّ الْحسنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاتِ. (ھود:۱۱۴)

            ‘‘بے شبہ نیکیاں برائیوں کو دھو ڈالتی ہیں۔’’

            اور حضورﷺ کا فرمان ہے: واتبع السئیۃ الحسنۃ تمحھا.

            ‘‘کسی برائی کے بعد کوئی نیک کام کر لیا کرو وہ اس برائی کو مٹا دے گا۔’’

            ہم بندوں کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی سعی کریں تاکہ یہ نیکیاں ہماری برائیوں کے لیے کفارہ بن سکیں۔

            بعض علماء کے نزدیک گناہ کبیرہ و صغیرہ دونوں معاف ہو جاتے ہیں کیونکہ مذکورہ بالا حدیث میں اس بات کی قید نہیں ہے کہ صرف گناہ صغیرہ ہی معاف ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض علماء کے نزدیک صرف گناہ صغیرہ ہی معاف ہوتے ہیں۔ گناہ کبیرہ براہ راست توبہ و استغفار اور حق کی ادائیگی کے بعد ہی معاف ہوتے ہیں۔ دلیل کے طور پر انھوں نے یہ حدیث پیش کی ہے:

            الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ و رمضان الی رمضان مکفرات ما بینھن اذا اجتنبت الکبائر.(مسلم)

            ‘‘پنج وقتہ نمازیں، ایک جمعے سے دوسرا جمعہ اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان۔ یہ سب گناہوں کو بخشنے والے ہیں بشرطیکہ گناہ کبیرہ سرزد نہ ہوا ہو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: جس پہلی روایت کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ بخاری اور مسلم کی صحیح حدیث ہے۔ حدیث یوں ہے کہ جب آپؐ مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے دیکھا تو آپؐ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ یہ ایک مبارک دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی تھی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہم موسیٰؑ کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپؐ نے خود روزہ رکھا اور صحابہؓ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔وہ حدیث بھی صحیح ہے جس میں آپؐ نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت اور ان کی اقتدا نہ کرنے اور ان سے مشابہت اختیار نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ تاہم ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضوؐر نے عاشورہ کا روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھا بلکہ روایتوں میں ہے کہ وہ ہجرت سے قبل بھی روزہ رکھتے تھے۔ اہل عرب بھی دور جاہلیت میں اس دن روزے کا اہتمام کرتے تھے۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ دور جاہلیت میں قریش نے ایک بڑا گناہ کیا۔ اس بات سے ان کے دل بوجھل ہو گئے۔ ان سے کہا گیا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو تمھارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔

            آپ مذکورہ بالا حدیث پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو گی کہ آپؐ نے اس دن روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھا بلکہ آپؐ نے خود اس کی وجہ بیان فرما دی کہ ہم موسیٰؑ کے زیادہ حقدار ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے تو موسیٰؑ علیہ السلام کی تعلیمات کو فراموش کر دیا لیکن میں انھیں تعلیمات کو لے کر آیا ہوں جنھیں موسیٰؑ لے کر آئے تھے۔ اس لیے ہمارا رشتہ ان سے قریب و مضبوط تر ہے اور ہمارا حق بنتا ہے کہ موسیٰؑ کی اقتدا میں ہم بھی یہ روزہ رکھیں۔ چنانچہ موسیٰؑ کی اقتدا میں (نہ کہ یہودیوں کی اقتدا میں) حضوؐر نے یہ روزہ رکھا اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔

            مدینہ آنے کے بعد آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو اس دن روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی اس میں یہ مصلحت پوشیدہ ہے کہ یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا۔ اس دور میں یہودیوں کے تالیف قلب کے لیے اور انھیں اسلام اور مسلمانوں سے قریب کرنے کے لیے آپؐ نے پسند فرمایا کہ مسلمان بھی اسی دن روزہ رکھیں۔یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہودیوں سے مشابہت ایک ایسے کام میں کی گئی جو ایک پسندیدہ اورباعث ثواب کام ہے یعنی روزہ رکھنا۔ لیکن جب اسلام کو غلبہ نصیب ہوا اور یہودیوں کی دشمنی کھل کر سامنے آئی اور صحابہؓ نے بھی حضوؐر سے ایسا ہی سوال کیا کہ ‘‘اہل کتاب سے مخالفت کے حکم کے باوجود ہم ان کی اقتدا میں یہ روزہ کیوں رکھیں؟ تب حضوؐر نے فرمایا کہ اگلے سال سے ان شاء اللہ نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھا کریں گے۔ لیکن اگلا سال آنے سے قبل حضوؐر کی وفات ہو گئی۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہودیوں کی دشمنی کھل کر سامنے آنے کے بعد حضورؐ نے بہرحال ان سے مخالفت کا ایک پہلو بیان کر دیا یعنی عاشورہ سے قبل ایک روزہ یا عاشورہ کے بعد ایک روزے کی تلقین کی تاکہ یہودیوں سے مشابہت کی صورت جاتی رہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس دن روزہ رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہے جس کے کرنے کی ترغیب کسی حدیث میں موجود ہو۔ اس سلسلہ میں بعض حدیثوں کا تذکرہ آیا ہے۔ لیکن علماء حدیث کہتے ہیں کہ ساری حدیثیں ضعیف اور موضوع یعنی گھڑی ہوئی ہیں۔ اس دن اچھے کپڑے پہننا اچھے کھانے پکانا اور سرمہ لگانا دراصل ایک بدعت ہے، جو حضرت حسینؓ کے قتل کرنے والوں نے ایجاد کی ۔ بہتر ہو گا کہ اس بدعت کا مختصر تاریخی تعارف بھی قارئین کے لیے پیش کر دوں۔

            اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اسی دسویں تاریخ کو حضرت حسینؓ شہید کیے گئے۔ چنانچہ حضرت حسینؓ کے متبعین اور چاہنے والوں نے اسی دن کو رنج و الم کا دن قرار دیا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس پورے مہینے کو ماہ ماتم بنا ڈالا۔ ہر قسم کی خوشیاں اورخوشیوں کی تقریبات اس مہینے میں اپنے اوپر حرام کر ڈالیں اور ایسے ایسے اقدامات و حرکات ایجاد کیے جو ان کے رنج وغم کو ظاہر کرسکیں۔

            ان کے برعکس وہ گروہ جس نے حضرت حسینؓ کو شہید کیا تھا انھوں نے اس دن کو خوشی اور مسرت کا دن قرار دیا اور ایسی ایسی بدعتیں ایجاد کیں جن سے مسرت کا اظہار ہو سکے۔ مسرت کے اظہار کو انھوں نے اللہ سے تقرب کا ذریعہ قرار دے دیا۔

 اس سلسلے میں انھوں نے اپنی طرف سے متعدد احادیث بھی گھڑ لیں۔

            یہ دونوں گروہ غلو اور تعصب کا شکار ہیں۔ حق یہ ہے کہ ہم تعصب کا شکار ہو کر ایسے کام نہ کریں جن کی مثال حضوؐر اور ان کے صحابہ کرامؓ کے اعمال میں نہ ملتی ہو۔ ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم حضوؐر کی اتباع کریں اور ایسے کاموں کو رواج نہ دیں جن میں اسلامی روح اور اتباع رسول کا وصف مفقود ہو۔

            انھیں غلط رواجوں میں ایک رواج یہ ہے کہ حزن و غم کے اظہار کے لیے لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ حالانکہ نہ کوئی حدیث ہے اور نہ حضوؐر اور صحابہؓ کا عمل کہ انھوں نے اس مہینے میں شادی سے منع کیا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس محرم کا مہینہ ان چار محترم مہینوں میں سے ایک ہے جن کی فضیلت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مہینہ شادی وغیرہ کے لیے زیادہ موزوں ہو۔ ویسے اسلام کی نظر میں شادی کے لیے تمام مہینے یکساں ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب۔ کلمہ طیبہ کی دعوت ہی اصل دعوت ہے یہ بات بڑی حد تک درست ہے ۔اس کلمے کو حقیقی اعتبار سے نہ پڑھنے اورسمجھنے کے نتیجے ہی میں مسلمانوں میں شرکیہ باتیں پائی جاتی ہیں۔شیطان نے شرک کی دعوت برپا کر رکھی ہے۔ عام دنیا میں تو اُس نے جو گمراہی پھیلائی ہے، وہ پھیلائی ہی ہے، مسلمانوں میں بھی اُس نے کتنے ہی لوگوں کو شرکیہ اعمال پر لگا رکھا ہے۔ ایسی صورت میں کلمے ہی کی دعوت تو اصل دعوت ہے یعنی اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی اور ان پر عمل کرنے کی دعوت۔شرک کوئی ایک ہی کی نوعیت کا نہیں ہوتا، اِس کی سینکڑوں قسمیں ہیں۔یہ کلمہ شرک کی ہر قسم کی بیخ کنی کرتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ آپ نے تقدیر و تدبیر کے باہمی ربط کے حوالے سے سوال کیا ہے۔ تدبیر سے مراد وہ کوشش اور کاوش ہے، جو بندے کے ذمے ہے، جب کہ تقدیر کا لفظ خدا کے علم اور اُس کے فیصلوں کے بارے میں بولا جاتا ہے۔جہاں تک انسان کے حوالے سے خدا کے فیصلوں کا تعلق ہے اُن میں آدمی مجبور ہوتا ہے۔ مثلاً آدمی کہاں پیدا ہو گا، اُس کے ماں باپ کون ہوں گے، اُسے کتنی عمر ملے گی وغیرہ اورجہاں تک انسان کے افعال و اعمال کے حوالے سے خدا کے علم کا معاملہ ہے، تو وہ علم انسان کے اُن افعال و اعمال سے خدا کا باخبر ہوناہے جو انسان نے خود اپنے اختیار و ارادہ سے کرنے ہوتے ہیں۔پس خدا کے فیصلوں میں جبر ہوتا ہے لیکن علم میں جبر نہیں ہوتا۔ اب آپ تدبیر و تقدیر کے باہمی ربط کی طرف آئیں ، ہماری وہ ساری تدبیریں کامیاب رہتی ہیں ، جو خدا کے کسی فیصلے سے نہیں ٹکرا تیں اور وہ سب تدبیریں ناکام رہتی ہیں ، جو خدا کے کسی فیصلے سے ٹکرا تی ہیں۔ اُس (خدا) کے بعض فیصلے ہمارے اعمال کے حوالے سے ہوتے ہیں اور بعض خود اُس کے مطلق ارادے کی بنا پر ہوتے ہیں۔بہرحال یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ خدا کے سب فیصلے انتہائی حکیمانہ ہوتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ صاف جوتے پہن کر نماز پڑھی جا سکتی ہے،اصولاً اِس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ البتہ ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے اسے آداب اور شائستگی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اِس دور میں، جب کہ دجالی تہذیب پوری طرح چھا چکی ہے اور شیطان بھی اپنے ہتھکنڈوں میں بہت کامیاب ہے تو ہمارا لائحہ عمل یہ ہونا چاہیے کہ ہم ہر ممکن حد تک یہ کوشش کریں کہ نہ تو اس تہذیب کا حصہ بنیں اور نہ شیطان کو موقع فراہم کریں کہ وہ ہمیں اپنا آلہ کار بنائے۔رہا یہ معاملہ کہ یہ کیسے ہو گا تو اس کے لیے پہلی بات یہ ہے کہ آدمی قرآن مجید کو پڑھا کرے اور اکثر پڑھا کرے۔ اُس کا عربی متن بھی اور اُس کا ترجمہ بھی، اور ممکن حد تک اُس کی آیات پر غور و فکر بھی کیا کرے۔ یہاں غور و فکر سے مراد کوئی علمی غور و فکر نہیں ہے، بلکہ وہ غور و فکر ہے جو آدمی کو عمل پر آمادہ کرتا ہے۔مثلاً آدمی اپنی زندگی میں موجود خدا کی نعمتوں پر غور و فکر کرے۔اپنی موت کے دن کو یاد کرے۔ خدا کے حضور پیشی کو دھیان میں رکھے۔ خدا کے عذاب (دوزخ) کو خیال میں لائے اور اُس کے انعام (جنت) کو یاد کرے۔ قرآن مجید کی آیات آدمی کوپے در پے اِن باتوں کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آدمی اپنا دل مسجد سے لگائے، کوشش کرے کہ پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جا کر ادا کرے۔ تیسری بات یہ ہے کہ آدمی نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھے، اُن سے نصیحت حاصل کرے اور کوشش کرے کہ اُن جیسی عادات اپنائے۔ یہ سب کرنے سے امید ہے کہ وہ شیطان سے بھی بچا رہے گا اور تہذیبی اثرات سے بھی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ دعا کو آپ جس بات کے ساتھ Confuse کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی شاید کسی Dictated یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت چل رہا ہے اور اُس طے شدہ پروگرام میں ظاہر ہے،(آپ کے خیال میں) یہ تو لکھا ہوا نہیں ہو گا کہ فلاں آدمی نے خدا سے ایک دعا بھی کرنی ہے۔ چنانچہ جب وہ آدمی دعا کرتا ہے، تو خدا کے لیے یہ مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ اگر وہ اُس کی دعا کی طرف دھیان دے ، تو وہ Dictation یا طے شدہ پروگرام مجروح ہوتا ہے اور اگر دھیان نہ دے، تو پھر بندے کا خدا سے دعا کرنا ایک بے کار عمل ٹھہرتا ہے۔ نہیں،میرے بھائی، بات ایسے نہیں ہے۔خدا اصلاً، پہلے سے کسی طے شدہ پروگرام کے تحت نہیں چل رہا۔ بلکہ بات کچھ اِس طرح سے ہے کہ اُس نے کچھ اصولی فیصلے کیے ہوئے ہیں اور کچھ قوانین بنائے ہوئے ہیں۔وہ اُن فیصلوں کی اور اُن قوانین کی پابندی ضرور کرتا ہے مگر اس کے لیے لازم نہیں۔مزید یہ ہے کہ اُس نے ہمارے لیے اپنی مرضی سے امتحان و آزمایش کی نوعیت کی بعض چیزیں طے کر رکھی ہیں۔ اور وہ اُن کے حوالے سے ہمیں آزما رہا ہے۔ چنانچہ اُس نے یہ طے نہیں کیا کہ نیکی اور بدی میں سے کسی ایک کو ہم اپنی مرضی سے اختیار کر ہی نہ سکیں۔ بلکہ اِس کے برعکس اُس نے یہ طے کیا ہے کہ ہم لازما ً نیکی اور بدی کو اپنی مرضی ہی سے اختیار کریں۔ لہذا، ہم اپنی مرضی سے نیکی کی طرف بڑھتے اور اپنی مرضی ہی سے بُرائی کو اختیار کرتے ہیں۔اِس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اللہ اپنے کمالِ علم کی بنا پر اور اپنے عالم ُالغیب ہونے کی بنا پر پہلے سے یہ جانتا ہے کہ مستقبل میں کس نے کیا کرنا ہے اور کس نے کیا نہیں کرنا۔دعا یہ ہے کہ ہم کسی معاملے میں خدا سے مدد لیتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اللہ ہماری دعا کو بعض اوقات قبول کر لیتا ہے اور بعض اوقات نہیں۔جب وہ ہماری دعا کو قبول کرتا ہے ، تو اِس سے خدا کے علم کامل کے حوالے سے کوئی نیا واقعہ رو نما نہیں ہوتا، بلکہ یہ محض اُس کے علمِ کامل ہی کی تصدیق ہوتی ہے، جس میں یہ موجود تھا کہ فلاں آدمی اپنے اختیار و ارادہ سے خدا سے دعا کرے گا اور اُس کے دعا کرنے کے نتیجے میں اللہ اُسے فلاں شے عطا کر دے گا۔مختصراََ یہ ہے کہ اللہ کا علمِ کامل اور چیز ہے اور اللہ کے طے شدہ اصول و قوانین اور امتحان کی غرض سے طے شدہ آزمایشیں اور چیز ہیں۔علمِ کامل پہلے ہی کامل ہے اس میں اضافہ محال ہے اور امتحان کی غرض سے پہلے سے طے شدہ آزمائشوں ،نعمتوں اور مصیبتوں میں کمی یا اضافہ ممکن ہے اور یہ ہوتا رہتا ہے۔اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو بہت سی دعائیں دراصل خدا سے آزمایش کی تبدیلی کی دعائیں ہوتی ہیں، آدمی اِس طرح کے الفاظ تو نہیں بولتا لیکن بات نتیجہ کے اعتبار سے ہوتی یہی ہے کہ ہمیں آفت کے ذریعے سے آزمانے کے بجائے نعمت کے ذریعہ سے آزمایا جائے۔ چنانچہ اللہ کی حکمت میں اگر آزمایش کی یہ تبدیلی موزوں ہوتی ہے تو اللہ دعا قبول کر لیتے ہیں، ورنہ نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نماز عملاً کیا ہے ، خدا کے حضور میں دل کی گہرائی سے، پورے عجز کے ساتھ کھڑے ہونا، رکوع کرنا ،سجدہ کرنا اور قعدے میں بیٹھناہے ۔ ہاں اِن سب مواقع پر ہم کچھ کلمات بھی زبان سے ادا کرتے ہیں۔ کوئی شخص اگر اِن کلمات کا مفہوم نہیں سمجھ رہا، توایسا نہیں ہے کہ اس کی نماز قبول نہیں ہورہی۔ اسے اصل اجر اس نیت اور عجز کا ملنا ہے جو اس نے پورے شعور کے ساتھ خدا کی بندگی کے لیے اختیار کیا ہے ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اُسے چاہیے کہ وہ کوشش کر کے اِن کے ترجمے سے بھی واقفیت حاصل کرے تا کہ نمازکی برکات میں اضافہ ہو۔سمجھنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے ۔ یاد رہے کہ جو اس امر سے بالکل لا پروا ہو کہ اسے نماز کے کلمات کو سمجھنا بھی ہے اس کے لیے بھی یہ امر خسارے کا باعث بن سکتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ برکت سے مراد اللہ کا کسی آدمی کے لیے اپنی نعمت (رزق وغیرہ) کو جو بظاہر کم نظر آتی ہو، اُسے اُس شخص کے لیے کافی کر دینا ہے۔ یہ کفایت کئی طریقوں سے رونما ہو سکتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ شرک کی بے شک کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی پورے علمی طریقے سے اِن کا مطالعہ کرے۔ کیونکہ شرک اپنے جس روپ، جس قسم اور جس شکل میں بھی ظاہر ہو رہا ہو، وہ درحقیقت، خدا کی صفتِ توحید کی نفی کرتاہے، آدمی کو چاہیے کہ وہ بس اِس بات کا خیال رکھے کہ وہ خدا کی صفتِ توحید کے حوالے سے کوئی غلطی تو نہیں کر رہا، یعنی خدا کے ساتھ اپنے معاملے کو خالص رکھے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنا صحیح مقام پہچانیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ اگر ہم نہ ہوتے تو فلاں فلاں انسان تو کافر ہی مر جاتے، اللہ نے اُس کی ہدایت تو بس میرے وجود پر منحصر کر رکھی تھی یا کسی کے بارے میں وہ یہ سمجھے کہ أُس کی ہدایت تو بس میرے اوپر منحصر ہے۔ ہدایت خدا کی جانب سے ملتی ہے، وہ اپنی حکمت اور اپنے علم سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ وہ ہدایت کے لیے سیکڑوں چیزوں میں سے جس کو چاہتا ہے ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اُس نے کائنات اور انسان کا اپنا وجود بھی اپنی نشانیوں سے بھر دیا ہے۔ چنانچہ کسی انسان کو یہ روا نہیں کہ وہ خود کو دوسرے کی ہدایت کا واحد ذریعہ سمجھے۔ البتہ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے اوپر دوسرے کا یہ حق سمجھنے سے بھی عاری ہو جائے کہ اُسے حق بات اور اُس پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جائے۔ ہر انسان کا دوسرے پر یہ حق ہے کہ وہ اُسے حق اور حق پر ثابت قدمی کی تلقین کرے اور بس، اُس کے حوالے سے اپنے آپ کو کوئی اہمیت نہ دینے لگ جائے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ آپ نے پوچھا ہے کہ مسلمان دنیا کے گرم خطوں ہی میں کیوں پائے جاتے ہیں۔ مسلمان اگر دنیا کے ٹھنڈے علاقوں میں پائے جاتے ، تو غالباً آپ کا سوال یہ ہوتا کہ مسلمان دنیا کے ٹھنڈے علاقوں ہی میں کیوں پائے جاتے ہیں؟ اِس کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔ قرآن و سنت اپنے اندر کوئی گرمی یاسردی کی تاثیر نہیں رکھتے کہ صرف گرم خطوں ہی کے لوگ اِس کی ہدایت سے فیض یاب ہوں۔ اِس کی وجہ سادہ تاریخی حقائق اور واقعات ہیں۔ مسلمانوں کے زوال کا تعلق قوموں کے عروج وزوال کے قانو ن سے ہے، نہ کہ علاقے سے۔آپ اس وقت ایک قوم کے دورِ زوال اور دوسری کے دورِ عروج میں کھڑے ہیں۔ کبھی بات اِس کے برعکس تھی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صورتوں میں یہ بات زیادہ بہتر بھی ہوتی ہے اور زیادہ اجر کا باعث بھی کہ آدمی اپنی دولت کو نفلی حج یا عمرہ پر صرف کرنے کے بجائے، دوسروں کی ضروریات پر صرف کر دے۔لیکن ہم کوئی ایسا اصول نہیں بنا سکتے کہ ہر آدمی کو ہر صورت میں لازماً، ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جو شخص اپنے خاندان اور اپنے ماحول میں موجود ضرور ت مندوں کی دیکھ بھال کر رہا ہو ، اُس کے لیے تو بالکل درست ہے کہ وہ نفلی حج کیا کرے۔ لیکن جو شخص اپنے خاندان اور اپنے ماحول میں موجود ضرور ت مندوں سے یکسر صرفِ نظر کرتے ہوئے محض نفلی حج و عمرہ کرنے ہی میں لگا ہوا ہے ، تو وہ یقیناً غلطی پر ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔سرکاری ڈیلی گیشن کے ذریعے پبلک فنڈ سے حج و عمرہ کرنا غلط نہیں بشرطیکہ یہ اعلانیہ ہو اور اِس پر پبلک کو اعتراض نہ ہو یعنی یہ بات اُن کے اندر معروف ہو۔ لیکن اگر اِس کو غلط سمجھا جاتا ہے اور اِس پر اعتراض کیا جاتا ہے ، تو پھر یہ غلط ہے۔ کمپنیوں کے ملازمین کا کمپنی کی طرف سے ملنے والے تعاون کی بنا پر حج کرنا بالکل درست ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ معتزلہ ، اشعریہ اور ماتریدیہ مختلف عقائد و نظریات رکھنے والے تین گروہ ہیں۔معتزلہ نے بنو امیہ کے عہدِ خلافت میں جنم لیااور خلافتِ عباسیہ میں عرصہ دراز تک یہ اسلامی فکر پر چھائے رہے۔ اِن کے نظریات اہلِ سنت سے مختلف تھے۔مثلاًخدا اِس سے پاک ہے کہ دنیا میں واقع ہونے والے حوادث اُس کی طرف منسوب کیے جائیں۔ وہ شبیہہ و نظیر سے یکسر پاک ہے۔ قیامت کے دن بھی اس کی رویت محال ہے۔ اللہ کی صفات اُس کی ذات سے غیر نہیں ہیں۔ قرآن مخلوق ہے۔ خدا بندوں کے افعال کا خالق نہیں ہے۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کی مغفرت بغیر توبہ کے نہیں ہو گی۔اِس کے علاوہ بھی وہ اپنے بعض مختلف نظریات کا اظہار کرتے تھے۔اشعریہ کا گروہ ابو الحسن علی بن اسمٰعیل الاشعری کا پیروکار تھا۔اِن کے عقاید اہلِ سنت کے عقاید کے قریب تر ہیں، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اہل سنت عقاید میں اشعری گروہ کے پیروکار ہیں۔اور یہ معتزلہ کے مقابل کا گروہ ہیں۔ماتریدیہ بھی اہل سنت ہی کے عقاید کے علمبردار ہیں ، البتہ یہ اشعریہ گروہ سے کسی قدر اختلاف رکھتے ہیں۔فقہی مسلک میں یہ امام ابو حنیفہ ؒکے پیرو کار ہیں۔جب کہ اشعریہ امام شافعیؒ کے پیرو کار ہیں۔ اہل ظاہر، داؤد ظاہری کے پیرو کار ہیں۔ اِس گروہ کے بڑے آدمیوں میں سے ابن حزم ہیں ۔ اِن میں اور اہلِ حدیث بہت حد تک مماثلت ہے۔ لیکن یہ ایک ہی گروہ نہیں ہیں۔ اب اہل حدیث تو موجود ہیں ، لیکن ظاہری نایاب ہو چکے ہیں۔ محدثین کے گروہ کو اہلِ حدیث کہا جاتا ہے اور احناف کو اہل الرائے کہا جاتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ گھریلو ملازمین، اگر زکوٰۃ کے حق دار ہوں ( اور ہمارے معاشرے میں اکثر وہ حق دار ہی ہوتے ہیں)، تو اُن کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ لیکن اِس کے عوض اُن سے ذرہ بھر اضافی کام کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ اُن سے کسی شکریے کی توقع رکھنی چاہیے، ورنہ اجر ضائع ہو سکتا ہے۔ زکوۃ کی رقم سے کپڑے وغیرہ خرید کر بھی دیے جا سکتے ہیں اور کسی اور صورت میں بھی مدد کی جا سکتی ہے ۔مثلا شادی بیاہ ،تعلیم ،دوا وغیرہ کا خرچ۔ زکوۃ بہن بھانجے اور خالہ کو دی جا سکتی ہے،جب کہ اُنھیں اِس کی ضرورت ہو۔دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ہومیو پیتھک دوا جس میں الکحل موجود ہو اُس کے بارے میں غامدی صاحب کی رائے یہ ہے کہ اُس دوا میں موجود الکحل چونکہ بطور ایک دوا محفوظ رکھنے والے محلل کے شامل کی جاتی ہے، یہ اُس میں نہ بطور غذا کے شامل کی جاتی ہے نہ بطور دوا کے، لہذا،اِس صورت میں اِسے کراہتاً گوارا کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر یہی الکحل دوا یا غذا کے طور پر استعمال کی جائے، تو اِس کا استعمال صریحاً حرام ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ معجزات کی دو قسمیں ہیں، حسی، جیسے عصا کا سانپ بن جانااور عیسٰی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا،اور معنوی، جیسے قرآنِ مجید۔ جو لوگ معجزات طلب کرتے ہیں عام طور پر اُن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں حق پوری طرح سے واضح ہوتا ہے لیکن وہ اُسے ماننا نہیں چاہتے۔ ایسے لوگوں کو جب معجزہ نظر آتا ہے تو اِس سے اُن کی عقل تو بے شک آخری درجے میں عاجز ہو جاتی ہے لیکن وہ اُسے جادو وغیرہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔کیونکہ ایمان لانے کے بعد اُنہیں اپنی زندگی یکسر تبدیل کرنا پڑتی ہے اور اپنی اندھی خواہشات کو لگام ڈالنا پڑتی ہے۔عیسٰی ؑ بن باپ ہی کے پیدا ہوئے تھے۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے۔ دیکھیں سورہ مریم کی آیت ۱۶ سے ۲۱ تک۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ امت کو ایک نظم اجتماعی کے تحت جمع کرنے کی جد و جہد کے غیر اسلامی یا غیر دینی ہونے کا کیا سوال ہے۔ دنیا میں کرنے کے بہت سے اچھے کام ہیں۔ یہ بھی اُن میں سے ایک ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے ایک دور میں اِس کی کوشش کرنا وقت کا اچھا مصرف ہو اور ایک دور میں اِس کی کوشش وقت کا ضیاع ہو۔ ہمارے اندر اِس کی خواہش دراصل، اسلام کے اُس کے شاندار ماضی کی تلاش ہے، جس میں دنیا ہمارے قدموں میں پڑی ہوتی تھی۔یہ خواہش ایک اچھی خواہش ہو سکتی ہے ۔بہرحال یہ بات تو واضح ہے کہ دین نے اِسے کوئی ٹارگٹ بنا کر ہمیں اِس کے حصول کا حکم نہیں دیا۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ مولانا وحیدالدین اپنی ذات میں نہ حق ہیں نہ باطل۔ اُن کی جو بات ، اُن کی کیا دنیا کے جس عالم کی بھی کوئی بات، ہمیں کتاب و سنت کے مطابق محسوس ہوتی ہے، اُسے ہم دل و جان سے قبول کرنے کے مکلف ہیں۔اور اگر اس معیار پر پوری نہیں اترتی تو نہ ماننے کے مکلف ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ یہ ٹھیک ہے کہ جو کچھ مقد ر میں ہو وہ مل کر رہتا ہے ۔لیکن بعض اوقات کسی چیز کے ہمیں میسر آنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری محنت کی شرط لگی ہوتی ہے اور بعض اوقات نہیں۔ جب یہ شرط لگی ہوتی ہے تو پھر وہ چیز ہماری محنت کے بعد ہی ہمیں میسر آسکتی ہے۔ دنیا میں شاید اکثر ہم اِسی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔جوچیزیں ہمیں ابھی میسر نہیں ہیں ، اُن کے بارے میں ہم یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اُن کے میسر آنے میں ہماری طرف سے محنت کرنے کی شرط لگی ہوئی ہے یا نہیں۔ لہذا ہمیں بہرحال، عام اصول اور مشاہدے کے مطابق اُن کے حصول کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ اگر وہ ہماری محنت کے ساتھ مشروط ہوئیں تو ہماری محنت کے نتیجے میں وہ ہمیں مل جائیں گی اور اگر محنت کے باوجود وہ ہمارے مقدر میں نہ ہوئیں تو وہ ہمیں محنت کے باوجود نہیں ملیں گی۔ اِسی طرح اگر وہ محنت کے بغیر ہی ہمارے مقدر میں ہوئیں تو وہ ہمیں محنت کے بغیر بھی حاصل ہو جائیں گی ،ہم خواہ اُن کے لیے محنت کریں یا نہ۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ قرآنِ مجید میں جہاں یہ بات کی گئی ہے کہ تمہارے اوپر آنے والی مصیبتیں تمہارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوتی ہیں ، وہاں یہ بات مخاطبین کے حوالے سے کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انبیا پر آنے والے مصائب اِس میں شامل نہیں ہیں۔وہ معصوم ہو تے ہیں۔ ان کے مصائب ان کی تربیت اور درجات کی بلندی کے لیے ہوتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ‘‘اللہ کی طرف سے ہونے ’’کا مطلب ہے ‘اللہ کی اجازت سے’ کسی چیز کا وقوع پذیر ہونا ہے۔ یہ الفاظ کسی چیز کے واقع ہونے کی وجہ کو بیان نہیں کر رہے ہوتے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ کسی یقینی قریب المرگ مریض کی زندگی خود سے ختم کرنے کا اختیار کسی بڑے سے بڑے رحمدل ڈاکٹر کو بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ صرف زندگی کے خالق کا حق ہے کہ وہ جب چاہے زندگی دے اور جب چاہے واپس لے لے۔وہ ارحم الراحمین ہے وہ اگر اپنے کسی بندے کے لیے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اُسے ناقابل علاج مرض میں مبتلا کر کے دنیا میں معلق رکھے، تو اُس سے بڑھ کر رحمت والا کون ہے جو اُس رحمان سے اختلاف کرنے کی جسارت کرے ۔یہ اس کی رحمت کا ایک مظہر ہو سکتا ہے کہ بندے کو دنیا میں اس تکلیف میں مبتلا کر کے آخرت میں بالکل معاف کر دے۔     اور لواحقین کو اس کی خدمت کی وجہ سے معاف کر دے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ جو ارواح پیداہی دنیا میں بھیجنے کے لیے کی گئی ہیں وہ دنیا میں ضروربھیجی جائیں گی۔ کون کس کا بیٹا ہو گا یہ خدائے جبار کے فیصلے سے ہوتا ہے۔انسان کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ یہ درست ہے کہ جس کو مرتے وقت سچے دل سے کلمہء توحید کا اقرار نصیب ہو گیا، اِن شاء اللہ اُس کی مغفرت ہو جائیگی ۔لیکن یہ نصیب اُسی کو ہوتا ہے جو اِس کے اہل ہو۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ موت کا وقت اور جگہ طے ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ اس کے لیے کوئی ظاہری سبب پیدا کرتے ہیں،ایسا کیوں کرتے ہیں،یہ معاملات خدا کا راز ہیں اِن کی حقیقت کو ہم نہیں پا سکتے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب ‘‘الحرب خدعۃ’’کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام جنگ میں بے انصافی، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی ، بات صلح کی کرنا لیکن کیے ہوئے معاہدے کو توڑ کر حملہ کر دینا اور اِس طرح کے رنگا رنگ فراڈ کرنے کا قائل ہے۔ہرگز نہیں ۔ جس نے اسلام کی تعلیمات کے بارے میں اِس طرح کا گمان کیا اُس نے دراصل، اسلام کو سمجھا ہی نہیں۔ ‘‘الحرب خدعۃ’’کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانی اخلاقیات کو برقرار رکھتے ہوئے، جنگ کے موقع پر جنگی چال چلنا ۔ اِس میں اعلانِ جنگ کے بعد حالتِ جنگ میں دشمن کو اپنے جنگی اقدام کے بارے میں ایک وہم میں ڈالا جاتا ہے اور پھر اُس کے اُس وہم کے خلاف جنگی اقدام کیا جاتا ہے۔اِس طرح کی جنگی چالیں دنیا کی ایک معروف چیز ہے۔ آپ اپنے دشمن سے ایسا نہیں کہہ سکتے کہ یار تم میرے خلاف اپنا جنگی اقدام مجھے پہلے بتا دیا کرو تا کہ میں تمہاری کسی چال میں آکر تمہارے قابو نہ آ جاؤں۔سیاسی حریف کے خلاف چالیں اکثر بیشتر صریح دھوکہ ہوتی ہیں اور یہ اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔ ویسے بھی سیاست کی چال ‘الحربُ خدعۃ ’کے تحت نہیں آتی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نماز خالصتاً اللہ تعالٰی ہی کی طرف متوجہ ہونے کا عمل ہے، اِس میں محمد ﷺ کا ذکر ان کی طرف متوجہ ہونے کے لیے نہیں بلکہ اِن کے لیے دعا مانگنے کی خاطر آتا ہے ۔اِس میں رخ خالصتاً خدا ہی کی طرف ہوتا ہے کیونکہ ہم خدا ہی سے ان کے لیے رحمت کی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں اس میں حضور کی طرف متوجہ ہونے کا کوئی پہلو موجود نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ہماری آفاقیت یہ ہے کہ ہم جس نبی کا بھی نام لیتے ہیں، اُس کے نام کے ساتھ ‘علیہ السلام ’ کے الفاظ بولتے ہیں یعنی اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔ یہ اُس نبی کا ہم پر حقِ دعا ہوتا ہے، جسے ہم ادا کرتے ہیں۔ یہ بات اِسی وجہ سے ہے کہ ہم سب نبیوں کو ماننے والے ہیں اور ہم اُن کے مابین اِس طرح سے فرق نہیں کرتے کہ ایک کو اللہ کا نبی مانیں اور دوسرے کو نہ مانیں۔درود اصل میں ہم پر نبی ﷺ کا حق ہے، اِسے ادا کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ہم نبی ﷺ کے دور میں پیدا ہوئے ہیں اور ہم اُن کی اُمت میں ہیں، ہم پر اُن کے بے شمار احسانات ہیں ۔ ہم موسٰی علیہ السلام کی اُمت نہیں ہیں، ہم اُن کی محنت سے اُس طرح مستفید بھی نہیں ہو رہے جیسے ہم نبی ﷺ کی محنت سے مستفید ہو رہے ہیں۔پس فطری طور پر ہمارا رویہ موسٰی ؑ سے بہت اچھا ہونے کے باوجود اُس رویے سے کم ہو گا جو رویہ نبی ﷺ کے ساتھ ہو گا۔اب یہود کے نبی بھی محمد ﷺ ہی ہیں۔ اُنھیں اُن پر ایمان لانا چاہیے اور اُن پر درود بھجنا چاہیے۔آفاقی ہونے کا یہ مطلب ہی نہیں کہ ہم نبی ﷺ کے اپنے اوپر احسانات کو موسٰی ؑ کے اپنے اوپر احسانات کے ہم پلہ قرار دے دیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ بے انصافی ہو گی۔جیسا کہ ماضی کے یہود پر نبی ﷺ کے احسانات نہیں ہیں۔ کیونکہ آپؐ تو اُس وقت دنیا میں تشریف ہی نہیں لائے تھے۔ اُن پر موسٰی علیہ السلام کے احسانات ہیں، کیونکہ وہ تو اُنہیں دین سکھانے کی خاطر طرح طرح کی تکلیفیں اٹھارہے تھے۔یہ ایک صاف سی بات ہے اِس میں کیا غلطی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ سائنس خدا کے جاری کردہ مادی قوانین کے مطالعے کا نام ہے۔ اِس کی بنیاد پر جو ہم اندازے لگاتے ہیں وہ دراصل، مادی دنیا میں خدا کے عام جاری کردہ اصولوں کے بارے میں ہمارے مطالعے کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر ہمارا مطالعہ درست ہو تو یہ اندازہ درست ہوتا ہے۔درست نہ ہو تو اندازہ بھی درست نہیں ھوتا۔ سائنسی مطالعہ کسی طرح بھی اللہ کے نظام میں دخل اندازی کے مترادف نہیں اور ویسے بھی ہم اللہ کے نظام میں دخل اندازی کس طرح کر سکتے ہیں؟ ہم اس کے اہل ہی نہیں۔ہم جو بھی کرتے ہیں وہ اسی کی دی ہوئی عقل اور اسی کے جاری کردہ مادی قوانین کے اندر رہ کر ہی کرتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ آپ کی معلومات درست نہیں قادیانیوں نے نئی نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی اُن مسلمانوں کی تکفیر کر دی تھی جومرزا غلام احمد کے نبی ہونے پر ایمان نہیں لاتے۔اِس واقعے کے بہت عرصہ بعدمسلمانوں نے بھی ختمِ نبوت کے عقیدے کا منکر ہونے کی بنا پر قادیانیوں کی تکفیر کر دی۔ تکفیر کرنے کے معاملے میں پہل مسلمانوں کی طرف سے نہیں قادیانیوں کی طرف سے ہوئی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ شادی ایک معاشرتی معاہدہ ہوتی ہے۔ یہ معاہدہ اپنے بہت دوررس نتائج رکھتا ہے ۔ سوسائٹی کے established اصولوں کے خلاف کھڑے ہو کر اگر ہم کوئی کام کرتے ہیں تو پھر درحقیقت سوسائٹی میں ہمارے رہنے کی جگہ نہیں رہتی۔ ہمارا خیال تو یہی ہوتا ہے کہ اگر ہم نے کوئی قدم اٹھایا ہے تو اُس کی جزا و سزا کے حقدار صرف ہم ہیں، کوئی دوسرا شخص نہیں ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ سوسائٹی ہمارے متعلقین کو بھی ہماری غلطیوں کی سزا دیتی ہے۔ سوسائٹی کے معیارات کو ٹھکرا کر کی گئی شادی سوسائٹی کو یہ موقع فراہم کر دیتی ہے کہ وہ اِس شادی کے نتیجے میں ہونے والی اولاد کواپنے معیار اور اپنے تصور کے حوالے سے مقام دے۔ تب آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی سوسائٹی اور اپنے ماحول کی زبان کو روک سکے اور اُس سے اپنی اولاد کے لیے وہ حقوق حاصل کر سکے جو اُس کے خیال میں اُس کی اولاد کو حاصل ہونے چاہیں۔ ہم سماج کے اندر رہنے پر مجبور ہیں ہمیں سماج سے اگر اختلاف کرنا ضروری محسوس ہو تو چاہیے کہ آدمی کو اپنے صریح حق پر کھڑا ہونے کا پورا یقین ہو، ورنہ وہ اپنے اندر وہ قوت ہی نہیں پائے گا، جس کے ساتھ وہ سوسائٹی سے لڑ سکے۔ لہذا اِس طرح کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرناچاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ نماز جنازہ مسجد میں نہیں بلکہ میدان میں یا کسی ایسی جگہ پر جو اِس کے لیے متعین کی گئی ہو، وہاں ادا کی جائے۔ البتہ کسی موقع پر اگر مجبوری ہو تو مسجد میں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔کسی ایک صحابی کا طرز عمل اگر ہم نبی ﷺ کے طرزِ عمل یا آپؐ کے قول سے مختلف پاتے ہیں تو اُس کی توجیہہ یہی ہو گی کہ کوئی دوسری صورت اُس وقت کسی وجہ سے ممکن نہ ہو گی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نمازِ جنازہ مردے کے لیے نبی ﷺ کی طرف سے بتائی گئی دعا ہے،اِسی لیے اِسے مسنون دعا کہتے ہیں۔ یہ نماز پڑھی ہی اِس لیے جاتی ہے کہ مردے کے حق میں نبیﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر دعا کی جائے۔ (نمازِ جنازہ کی )اِس دعا کے بعد اگر کسی اور دعا کی ضرورت ہوتی تو نبیﷺ وہ بھی ہمیں بتا دیتے۔ لیکن کسی اور دعا کا نبی ﷺ نے تو ہمیں بتایا نہیں ہے ، اب آپ بتائیے کہ ہم خود اپنی طرف سے کسی بدعت کو کیسے اختیار کر لیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ سلام پھیرنے سے پہلے بھی سجدہ سہو کیا جا سکتا اور بعد میں بھی ۔ اِس معاملے میں توسع پایا جاتا ہے۔سجدہ سہو کے بعد تشہد کادہرانا لازم نہیں ہے۔آدمی کو سجدہ سہو اگر کرنا تھا اور وہ بھول گیا اور اِدھر اُدھر کی بات چیت میں لگ گیا تو جب اُسے یاد آئے وہ سجدہ سہو کر لے، لیکن بھولنے کا یہ وقفہ مختصر ہی ہونا چاہیے۔اگر وقفہ زیادہ ہو گیا تو پھر سجدہ سہو نہ کرے اب وہ معاف ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ جوا ایک معروف و معلوم چیزہے۔ اِس میں بغیر حق کے ایک آدمی کی رقم دوسرا آدمی محض اتفاق کی بنا پر حاصل کرلیتا ہے۔ جیسے آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے کو دیکھ کر کوئی یہ کہے کہ اگر یہ دائیں طرف مڑ گیا تو تم مجھے سو روپیہ دے دینا اور اگر بائیں طرف مڑا تو میں تمہیں سو روپیہ دوں گا۔ رقم کا اِس طرح کا لین دین جوا ہے۔ جوا ، لاٹری پانسہ تیر سب شیطانی کام ہیں اور حرام ہیں آج یہ نئی نئی شکلوں میں ظاہر ہو رہے ہیں، بہرحال یہ جس شکل میں بھی ظاہر ہوں، صریح حرام ہوں گے۔ آج کل اِن کی جوشکلیں رائج ہیں ، اِن میں سے بعض کو ہم سٹہ بازی ،لاٹری ، بعض انعامی سکیموں اور اِس طرح کی دوسری چیزوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ریفل ٹکٹ وغیرہ کام عوام کی بہبود کے لیے کیے جائیں یا اُن کی بربادی کے لیے،جب یہ اصولاً جوئے کی شرائط پر پورا اترتے ہیں تو جوا ہی ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ لاٹری اور جوئے سے حاصل کیے ٹکٹ سے حج و عمرہ کرنا ناجائز ہے۔قرض لے کر حج و عمرہ کرنے کا ہمیں کہا نہیں گیا ۔ حج فرض ہی تب ہوتا ہے جب آدمی اُس کی استطاعت رکھتا ہو۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ مسجدِ نبوی میں نمازیں پڑھنا اور روضہ أقدس کی زیارت کرنا اصلاً حج کے مناسک کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ جب انسان سفر کرے تو محبت رسول کا تقاضا ہے کہ اسے مدینہ بھی جانا چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ بے ایمانی بے ایمانی ہے، چاہے بجلی چوری کرنے کی ہو یا گیس چوری کرنے کی۔قرآن و سنت اِن کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے ، ورنہ خدا کے ہاں جواب دینا ہو گا کہ ایسا کیوں کیا تھا۔رہا جواز کا مسئلہ تو یہاں کسی کو مطمئن کرنا تو بہت آسان ہے ہاں انسان یہ سوچ لے کہ کیااللہ کواس جواز سے مطمئن کر سکے گا۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اگر ہمارے ذہنوں میں قرآن مجید غالب رہتا ہے، تو بائبل کے مطالعے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عمرؓ کو منع کرنے کی وجہ غالباً اِس تاثر کو زائل کرنا تھا کہ قرآن کے ہوتے ہوئے اب کوئی اور کتاب بھی نسخہ ہدایت کی حیثیت اختیار کر سکتی ہے، کیونکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کو تورات کی باتیں بڑے تاثر کے ساتھ بتانے لگ گئے تھے، اِس صورت میں اللہ کے رسول کی طرف سے اُس تنبیہ کی ضرورت تھی، جو آپؐ نے فرمائی تھی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ علما کی تحقیق یہی ہے کہ نبی ﷺ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ویسے امی کا لفظ اہل کتاب کے مقابل میں غیر اہلِ کتاب کے لیے بولا گیا ہے۔یعنی وہ قوم جو کسی آسمانی شریعت کی حامل نہ تھی۔                               

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نہ دولت مند ہونا کوئی جرم ہے نہ اِس پر کوئی وعید سنائی گئی ہے اور نہ دولت کے حصول کی کوئی باقاعدہ کوشش دین میں کسی درجے میں کوئی مذموم بات ہے۔ اگر اسے مذموم بات مانیں تو سلیمان علیہ السلام کی اِس دعا کا کیا مطلب ہو گا جس میں آپؑ نے اللہ سے ایسی بادشاہی مانگی جیسی اُن کے بعد کسی کو بھی نہ ملے۔ دین کو اِس سے بحث ہے کہ دولت مند آدمی دولت کے نشے میں مبتلا نہ ہو ،وہ اللہ کو نہ بھولے اور وہ اُس کے سب احکام کا پابند ہو۔وہ زکوٰۃ اور صدقات دیتا ہو ۔ وہ دولت کو اللہ کا فضل سمجھتا ہو اور اللہ کے ایک حکم پر اپنی ساری دولت اللہ کی راہ میں دینے کو تیار ہو۔ اُس کے دل میں اپنی دولت سے محبت کی نسبت اللہ کی محبت کہیں زیادہ ہو۔اُس کا توکل اپنی دولت پر نہ ہو، بلکہ اللہ پر ہو۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ دین میں زیارتِ قبور کی اجازت ہے۔ اس کے لیے ہمیں کسی طریقے کا پابند نہیں کیا گیا۔ بس یہ ہے کہ آدمی کے ہاں شرک و بدعات سے شعوری گریز کا رویہ ہونا چاہیے۔آپ قبر پر جا کر ‘السلام علیکِ یا والدتی’ کہیے پھر ان کے لیے دعائے مغفرت کیجیے اور خوب کیجیے۔ماں کی قبر کو بوسہ دینا ناجائز نہیں ہے، لیکن شرک و بدعات سے بچنے کے لیے ایسی چیزوں سے گریز ہی بہتر ہے۔

والدین کی مغفرت کے لیے اولاد بار بار اور زیادہ سے زیادہ دعائے مغفرت کر سکتی ہے اور یہ کوئی چھوٹا عمل نہیں ہے یہ بہت بڑا عمل ہے۔مزید یہ ہے کہ آپ اپنی والدہ کے ان نیک ارادوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں ،جنھیں وہ اگر انھیں موقع ملتا تو ضرور پورا کرتیں۔ایصالِ ثواب نہ کوئی دینی عمل ہے اور نہ اس کا کوئی طریقہ ہے۔اگر یہ کوئی دینی عمل ہوتا تو ہم اس کا ذکر اور اس کا طریقہ قرآنِ مجید میں لکھا ہوا پاتے یا کم از کم احادیثِ شریفہ ہی میں یہ بیان ہوا ہوتا۔اور پھر یہ بھی تو ہے کہ یہ صحابہ کرام کا معروف و معلوم عمل ہوتا۔لیکن آپ دیکھیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور بالکل نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ کسی گنہگار سے گنہگار شخص کا بھی اپنی حالتِ توبہ میں دوسرے کو برائی سے منع کرنا اور نیکی کی تلقین کرنا بالکل صحیح اور درست ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر انتہائی ضروری ہے کہ آدمی کو ہر وقت حالت توبہ میں رہنا چاہیے، یعنی جس وقت بھی اس سے کوئی گناہ سرزد ہو، اُسے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ بعض لوگوں کی یہ بات کہ قرآن ایک مکمل ضابطہ ء حیات ہے، گو ہمیں قرآن کے بارے میں ایک بڑا خراجِ تحسین محسوس ہوتی ہے جس سے اس کے کامل اور مکمل ہونے کا تاثر ملتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صحیح بات نہیں ہے۔ کیسے؟

ضابطہ ء حیات کا مطلب قاعدہ، قانون اور دستور العمل ہے اور مکمل ضابطہ حیات کا مطلب ‘‘مکمل قاعدہ، قانون اور دستور العمل’’ ہے۔ اس تصور کے مطابق ضروری ہے کہ قرآن ہمیں زمانی و مکانی ہر اعتبار سے زندگی کی سینکڑوں متنوع صورتوں میں ہر سطح پر تفصیلی اور مکمل قواعد، قوانین اور دساتیر العمل دے۔ کیونکہ اس میں کسی حوالے سے بھی اگر کوئی کمی رہ گئی تو لفظ ‘‘مکمل ’’ کا استعمال بے جا ہو گا۔دیکھیں اللہ کی ذات ایک مکمل ذات ہے، خدا ہونے کے حوالے سے اس میں کوئی کمی نہیں، اسی طرح اگر وہ ہمیں کوئی مکمل ضابطہء حیات دے گا تو پھر اس میں ضابطہء حیات ہونے کے حوالے سے کسی درجے میں بھی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے، یعنی اس صورت میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں کچھ اصولوں کی روشنی میں خود سے کچٰھ قواعد، قوانین اور دساتیر العمل بنانے پڑیں۔ اب آپ یہ بتائیے کہ قرآن نے ہمیں زندگی کے کس کس معاملے میں مکمل قواعد،قوانین اور دساتیر العمل دیئے ہیں؟ آپ غور کریں اور اس بات کا جواب تلاش کریں۔ دیکھیں اس کی نشانی یہ ہوگی کہ زندگی کے جن جن معاملات میں قرآن نے مکمل ضابطہء حیات دیا ہو گا، ان سب میں کسی فقیہ کو کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہ کرنی پڑے گی۔اگر یہ بات کہی جائے کہ قرآن ایسا تو نہیں کرتا کہ وہ مکمل تفصیلی قوانین، سبھی قواعد اور پورا پورا دستور العمل بیان کرے، وہ تو صرف اصول بیان کرتا ہے ۔قوانین تو ہمیشہ فقہا کو قرآن و سنت کی روشنی میں خود سے وجود میں لانے پڑتے ہیں، تو پھر غور کیجیے ہم اس سے الگ کوئی بات نہیں کہہ رہے۔

قرآنِ مجید فرقان ہے، یعنی یہ ہدایت کے معاملے میں حق و باطل میں فرق کر دینے والی کتاب ہے۔ اس میں جو ہدایت ہے وہ سراسر حق ہے اور اس کے مقابل میں کھڑی ہونے والی ہر بات باطل ہے۔ یہ حق اور باطل دونوں کی نشان دہی کرتی ہے۔اس بات کا مطلب ہے کہ یہ کتاب آسمانی کتب کے حوالے سے اگر کوئی بات کہے تو اُنھیں اس میں موجود ہدایت کے مطابق درست کر لو، اگر فطرتِ انسانی کے بارے میں کوئی بات کہے تو اسے اس کے مطابق درست کر لو اور انسانی رویوں کے بارے میں کوئی بات کہے تو انھیں اس کے مطابق درست کر لو۔ اس میں ہر اس حوالے سے ہدایت کی بات کی گئی ہے، جس حوالے سے انسان کو تاقیامت ضرورت پیش آنی ہے۔ ہدایت کے اعتبار سے یہ ایک مکمل کتاب ہے۔ اس میں ہدایت کو بیان بھی کیا گیا ہے اور گمراہی کی نشان دہی کر کے اس سے روکا بھی گیا ہے، چنانچہ اسی حوالے سے اسے فرقان کہا گیا ہے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے، لہذا، جو شریعت اللہ تعالی نے اس سے پہلے نازل کی ہے وہ بھی قیامت تک کے لیے الہامی قانون کا حصہ ہے، دین میں اسے انبیائے کرام کی سنت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیے کہ ہماری شریعت کا ایک بڑا حصہ نزولِ قرآن سے پہلے مختلف سنن کی شکل میں، دینِ ابراہیمی کے طور پر عربوں کے ہاں موجود تھا۔ اللہ تعالی نے اس میں اپنے رسول کے ذریعے سے تجدید و اصلاح اور بعض اضافے کیے اور یوں اسے مسلمانوں کے لیے ایک مکمل شریعت بنا کر جاری کر دیا۔ پس ہماری اس شریعت کا کچھ حصہ قرآن میں موجود ہے اور کچھ سنت نبویؐ میں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اسلام کی حقیقت حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ قرآن مجید کو اپنی دعوت پر اصرار اسی بنا پر تھا کہ یہ خدا کی جانب سے ایک حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد فرمایا:‘‘لقد جاء ک الحق من ربک فلا تکونن من الممترین’’۔(یونس۱۰:۹۴)بے شک تم پر تمھارے رب کی طرف سے حق نازل ہوا ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ بننا۔

            اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا:

            ‘‘یایھا الناس قد جاء کم الرسول بالحق من ربکم فآمنوا خیرا لکم’’۔ (النساء۴:۱۷۰)اے لوگو ! تمھارے رب کی طرف سے یہ رسول تمھارے پاس حق لے کر آ گیا ہے، پس (اس پر) ایمان لاؤ، اسی میں تمھاری بہتری ہے۔کلام الہی دیکھ کر مومنین نے یہ جان لیا کہ‘‘فاما الذین اٰمنوا فیعلمون أنہ الحق من ربہم’’۔ (البقرۃ۲:۲۶)پس جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے رب کی جانب سے یہی بات حق ہے ۔

            اس کلام الہی کو سننے کے بعد اہل کتاب میں سے بعض لوگوں کے احساسات یہ تھے کہ

            واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تری اعینہم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق یقولون ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاہدین۔وما لنا لا نومن باللہ وما جاء نا من الحق ونطمع ان یدخلنا ربنا مع القوم الصالحین۔ (المائدہ ۵:۸۳،۸۴)

            اور جب یہ سنتے ہیں اس چیز کو جو رسول کی طرف اتاری گئی ہے تو تم دیکھو گے کہ حق کو پہچان لینے کے سبب سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے ، پس تو ہمیں اس کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے اور آخر ہم اللہ اور اس حق پر جو ہم تک پہنچا ہے کیوں نہ ایمان لائیں، جب کہ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیکو کاروں کے زمرے میں شامل کرے گا۔

            یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:عن ابن عباس قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم --- اللہم لک الحمد --- أنت الحق ووعدک الحق ولقاؤک حق وقولک حق والجنۃ حق والنار حق والنبیّون حق ومحمد حق والساعۃ حق ---۔(بخاری ، رقم:۱۱۲۰)ابن عباس سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا --- اے اللہ ساری حمد تیرے ہی لیے ہے --- تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تجھ سے ملاقات حق ہے، تیری بات حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، انبیا حق ہیں، محمد حق ہے اور قیامت حق ہے ----۔

            پس اُس وقت بھی مسئلہ سر تاسر دین کے حق ہونے ہی کا تھا اور آج بھی اصل بات یہی ہے کہ یہ دین حق ہے اسے قبول کرو۔

            لیکن قبولِ حق کے حوالے سے یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ کیا آدمی کو کسی حق کا حق ہونا واقعتاً معلوم ہے۔ اگر ایک حق پرست آدمی کسی غلط فہمی کی بنا پر ایک حق بات کو ناحق سمجھ رہا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کی مخالفت ہی کرے گا اور اسے کرنا بھی ایسا ہی چاہیے۔ ہمارے خیال میں ایسا آدمی اللہ تعالیٰ سے اپنی نیت کے مطابق اجر پائے گا۔ اسی طرح اگر ایک حق پرست شخص کسی ناحق بات کو حق سمجھ رہا ہے تو وہ اس کی حمایت ہی کرے گا اور ظاہر ہے اسے کرنا بھی ایسا ہی چاہیے۔چنانچہ ہمارے خیال میں یہ آدمی بھی اپنی نیت ہی کے مطابق اجر پائے گا۔

            نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

            عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تزول قدم ابن آدم یوم القیامۃ من عند ربہ حتیٰ یسئل عن خمس عن عمرہ فیما أفناہ و عن شبابہ فیم أبلاہ ومالہ من این اکتسبہ وفیم انفقہ وماذا عمل فیما علم۔ (ترمذی، رقم۲۴۱۶)نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ قیامت کے دن ابن آدم کے قدم اس کے رب کے ہاں سے ہل نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے، اس نے اپنی عمر کس کام میں کھپائی، جوانی کس کام میں گنوائی ، مال کہاں سے کمایا ، اسے کن کاموں میں خرچ کیا اور جو کچھ وہ جانتا تھا اس پر کیا عمل کیا۔

اس حدیث میں یہ بات زیر بحث مسئلے سے متعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص سے اس کے علم کے حوالے سے سوال کرے گا، یعنی جو کچھ وہ جانتا تھا اس پر کیا عمل کیا۔چنانچہ اگر ایک عیسائی جان بوجھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا منکر ہے حالانکہ اسے آپ کا سچا رسول ہونا واضح طور پر معلوم ہے، تو وہ بہت بڑے حق کا منکر ہونے کی وجہ سے خدا کی سخت ناراضی کا شکار ہو گا خواہ وہ بظاہر کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، اور اگر کسی عیسائی کو اس کے علما وغیرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گمراہی میں ڈال رکھا ہے ، مثلا یہ کہ آپ سچے نبی نہیں ہیں تو اس عیسائی کا کوئی قصور نہیں ہو گا، اسے کوئی سزا نہیں ملے گی اور اس کی نیکیاں ان شاء اللہ قبول ہوں گی بشرطیکہ اس نے مکمل خلوص سے حق کی تحقیق کر لی ہو۔وہ یہود و نصاریٰ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے، ان پر آپ نے براہِ راست اتمام حجت کر دیا تھا، انھیں اب حق کے بارے میں کسی نوعیت کا کوئی تردد نہیں تھا، چنانچہ ان کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لاتے، ان میں سے جو ایمان نہیں لائے قرآن مجید نے ان کے بارے میں وہ سخت باتیں کہی ہیں جنھیں ہم قرآن مجید میں پاتے ہیں۔ سارے زمانوں کے یہود و نصاریٰ ان آیات کے مخاطب نہیں ہیں۔

             ہماری مراد یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ سے متعلق آیات کے اصل مخاظب دور نبوی کے یہود و نصاریٰ ہیں، بعد میں آنے والے یہودی یا نصرانی اقرارِ حق یا تکذیبِ حق کے حوالے سے اس درجے پر شمار کیے جائیں گے جس پر فی الحقیقت وہ خود کھڑے ہیں۔یہی معاملہ عام لوگوں کے عقائد و اعمال کا بھی ہے، ان کے بارے میں بھی یہی دیکھا جائے گا کہ وہ کسے حق سمجھتے رہے ہیں اور اس حق کے حوالے سے انھوں نے کیا رویہ اختیار کیا ہے۔ بہرحال، اصول یہ ہے کہ اخروی کامیابی حق پرستی کے ساتھ وابستہ ہے۔ ہذا ما عندی والعلم عنداللہ۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ خاندان کا ادارہ مرد و عورت کے نکاح سے وجود میں آتا ہے۔اس ادارے کو قائم کرنے میں مرد و عورت یکساں طور پر آزاد ہوتے ہیں۔ جب یہ ادارہ قائم ہو جائے تو اس میں مرد کو خدا کی طرف سے قوام یعنی منتظم کی حیثیت دی گئی ہے، چنانچہ اس ادارے کے قیام کے بعد اسے توڑ دینے کا اختیار بھی اسی منتظم کو دیا گیا ہے۔ اگر یہ اختیار عورت کو دے دیا جاتا تو ضروری تھا کہ پھر منتظم بھی اسی کو بنایا جاتا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں کہ عورت کی گواہی اصلاً آدھی ہے، کیونکہ قرآن مجید میں گواہی کا کوئی ایسا نصاب بیان نہیں کیا گیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ مرد کی گواہی پوری ہوتی ہے اور عورت کی آدھی ، لہذا، گواہی کے حوالے سے ایک مرد دو عورتوں کے برابر ہو گا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس خاص صورت حال میں جب کہ کسی معاملے میں گواہی ثبت کرنے کے لیے ایک ہی مرد میسر ہو، ہمیں یہ تجویز دی ہے کہ ایسی صورت میں تم ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ثبت کر لو۔ ایک عورت کی بجائے دو عورتوں کی گواہی کا یہ مشورہ احتیاط کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ یعنی اس طرح کے معاملات چونکہ عورتوں کے لیے روز مرہ کی چیز نہیں ہوتے، لہذا، ان کے لیے ان میں نسیان کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کو رکھ کر اس امکان کو محدود کر لیا جائے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ اسلام اللہ کا دین ہے، کوئی انسانی فلسفہ کیسے اس کی روح کیسے قرار پا سکتا ہے؟

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ بہتر ہے کہ قرآن کا ترجمہ عربی متن کے ساتھ ہی شائع کیا اور پڑھا پڑھایا جائے۔ ہمارے نزدیک قرآن ترجمے کا نہیں بلکہ اس عربی متن کا نام ہے جو خدا نے نازل کیا تھا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ اگر اس کی کوئی دینی اہمیت سمجھی جاتی ہے تو پھر یہ بدعت ہے، کیونکہ یہ اس دین میں نہیں پائی جاتی تھی جسے امت نے صحابہ کرام کی اجماعی روایت سے حاصل کیا تھا۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب:عربی زبان میں بسم اللہ سے بَسْمَلہ کا مخفف رائج ہے لیکن اس کو کسی نے کبھی نام کے طور پر اختیار نہیں کیا۔ بسمہ کا لفظ اصل میں بِأِسْمِہِ (اس کے نام سے)ہے۔ جسے بِسْمِہِ لکھا اور بولا جا تا ہے۔غالباً بسمہ کا لفظ یہیں سے لیا گیا ہے۔ بولنے والے اسے میم کی زبر کے ساتھ بولیں گے جو غلط ہے۔اگر اس کا صحیح تلفظ رائج کیا جا سکے تو نام رکھنے میں حرج نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: حقیقت یہ ہے کہ نقش بنانے والوں کی اکثریت مشرکانہ عقائد رکھتی ہے لہذا ان کے تعویزوں میں بھی یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ان سے بچا جائے اور اپنے عقیدہ وعمل کو بہتر کرتے ہوئے اللہ تعالی کے رسولﷺ کی سکھائی ہوئی دعائیں اختیار کی جائیں۔اس صورت میں کسی تعویز کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ضروری نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے لہذا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہر نماز کے بعد ہاتھ اـٹھا کر دعا کرنا ضروری ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ہر نماز کے بعد لازماً ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا اور اسے نماز کے باقی ارکان کی طرح ضروری سمجھنا ، یہ بات درست نہیں ہاں البتہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بجائے خود درست ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب۔ تہجدکا اصل وقت آدھی رات کے بعد ہے یعنی نیند سے بیدار ہو کریہ نماز پڑھی جائے ۔البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو تہجد کے وقت اٹھ کر طاق رکعتیں نہیں پڑھ سکتے عشاکے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ آپ کی یہ اجازت اصل میں اسی نماز کے افضل وقت کے معاملے میں ایک رخصت ہے۔یعنی تہجد کی طاق نماز اگر اپنے اصل وقت پر پڑھنا ممکن نہ ہو تو نیند سے پہلے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔۔ تہجد کی نماز کی رکعتیں چونکہ یہ ایک طاق نماز ہے اس لیے تین سے کم نہیں ہوسکتیں۔ لیکن ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد کیا ہو،اس کا کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شک زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعتیں ہی پڑھی ہیں۔ لیکن آپ کا یہ عمل کسی تحدید کا ماخذ نہیں بن سکتا۔ جیسے اگر یہ متعین کر لیا جائے کہ آپ سال میں کتنے نفلی روزے رکھتے تھے اس بات کا ماخذ نہیں کہ سال میں اس تعداد سے زیادہ نفلی روزے نہیں رکھے جا سکتے۔ کیا آپ اس اصول کو متعین کرنا چاہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خیرات سے بڑھ کر خیرات بھی نہیں کی جا سکتی وغیرہ۔ نفلی عبادات میں عدم تعین ہی اصل اصول ہے اور اسی پر ساری امت کا عمل ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید میں جتنی دعائیں بیان ہوئی ہیں وہ اس طرح کے کسی بھی اسلوب سے بالکل خالی ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں وسیلہ یا واسطہ جیسی کوئی چیز موجود نہیں۔ اگر یہ دعا کرنے کا کوئی بہتر طریقہ ہوتا تو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں اس کی کئی مثالیں مل جاتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دعا کا یہ طریقہ اللہ تعالی کے بارے میـں ناقص تصور کا مظہر ہے۔ اللہ تعالی کی ذات ہر اعتبار سے غنی ہے۔ وہ کسی بھی ہستی کے ساتھ اس طرح متعلق نہیں ہے کہ وہ اس کی کمزوری ہو۔ بلکہ ہر ذات اس کے سامنے محتاج محض ہے۔دعا کرنے میں ہمیں وہ طریقے اختیار کرنے چاہیں جو اللہ کے پیغمبروں نے اختیار کیے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قضا نمازیں ادا کرنے کا یہ طریقہ کہ رمضان میں جمعۃ الوداع کے دن تمام نمازیں رہ جانے والی نمازوں کی قضا کے لیے پڑھ لی جائیں سرتاسر خود ساختہ ہے۔ اصل طریقہ یہ ہے کہ رہ جانے والی نمازوں کا اندازہ کرکے ہر نماز کے ساتھ پڑھ کر ان کی تعداد پوری کر دی جائے۔ اس عرصے میں اگر چاہیں تو سنتیں(یعنی نوافل) نہ پڑھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس نماز کے بارے میں صحیح روایات سے کوئی بات ثابت نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: گن کر اللہ کی یاد میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صرف ایک بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ ذکر ایک پوری بامعنی بات ہونی چاہیے۔کوئی اکیلا لفظ خواہ وہ قرآن مجید میں آیا ہوا اللہ کا نام ہی کیوں نہ ہو بار بار دہرانے کے لیے اختیار کرنا موزوں نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے تمام اذکار اپنی جگہ ایک مکمل بات ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آپ کا یہ مشاہدہ تو درست ہے کہ یہ کائنات کچھ متعین اصولوں پر چل رہی ہے۔ لیکن یہ نتیجہ درست نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس میں مداخلت نہیں کرتے یا وہ ان قوانین کے پابند ہیں۔ قرآن مجیدمیں مذکور اللہ تعالی کی دو صفات حی قیوم اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے آئی ہیں۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو جس آزمایش میں ڈالا ہے اس کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے کے لیے بھی ضرورت ہے کہ اللہ تعالی حسب ضرورت مداخلت کرتے رہیں۔ قوموں کے بارے میں اللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ وہ دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں ۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو دنیا کی عبادت گاہیں اجڑ کر رہ جائیں۔ اس طرح کے متعدد امور سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس دنیا کو براہ راست چلا رہے ہیں اور اس میں جس وقت اور جہاں چاہتے ہیں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ دعائیں سنتے ہیں اور انھیں قبول کرتے ہیں۔ تقدیر پر ایمان کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہم اللہ تعالی ہی کو کار فرما اور کار ساز مانیں اور اپنی تدبیر و سعی کو اصل قرار نہ دیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قربانی بے شک حج کے مناسک میں شامل ہے۔ لیکن حج کے علاوہ قربانی ایک مستقل عبادت کی حیثیت سے ہمارے دین کا حصہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قربانی کی یہ عبادت فرض نہیں کی گئی۔ لیکن اس سے اس کے مستقل عبادت ہونے کی نفی نہیں ہوتی۔ اس کی مثال اعتکاف کی عبادت ہے۔ اعتکاف بھی فرض نہیں ہے لیکن ایک الگ عبادت کی حیثیت سے ہمارے دین کا حصہ ہے۔ قربانی اللہ کے حضور میں جان کے نذرانے کا علامتی اظہار ہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ اللہ کے دین کا حصہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب: یہ بات متعین کرنے کے لیے کہ کوئی حکم دور رسالت سے متعلق ہے یا قیامت تک کے لیے عام ہے خود قرآن سے معلوم ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کے جرم وسزا سے متعلق احکام ابدی ہیں اور کسی تخصیص کا کوئی ذکر یا قرینہ قرآن مجید میں مذکور نہیں۔ شریعت کے تمام احکام قیامت تک کے لیے ہے صرف وہ احکام اس سے مستثنی ہیں جن کے بارے میں خود قرآن کی تصریحات سے واضح ہے کہ وہ وقتی تھے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اگرچہ یہ بات معمول بنانا پسندیدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ مسجد کی حاضری سے گریزکسی سبب ہی سے ہونا چاہیے۔ لیکن اگر گھر میں نماز پڑھی جارہی ہو تو جماعت کرائی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں اگر دوہی افراد ہیں تو بیوی کو کچھ پیچھے ہٹ کر دائیں طرف کھڑا ہونا چاہیے ۔ واضح رہے کہ یہ جواب کسی نص سے ماخوذ نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: انسان اپنی شخصیت کے تمام داعیات کی تکمیل کرنے میں آزاد ہے۔ البتہ خود اس کا اپنا اخلاقی وجود اس پر کچھ قدغنیں لگا دیتا ہے۔ یہی قدغنیں ہیں جو دین میں بھی بیان ہوئی ہیں اور وہاں انسان کی رہنمائی کرتی ہیں جہاں وہ خود فیصلہ کرنے میں ٹھوکر کھا سکتا ہے یا عملی صورت کی تعیین میں ناکام رہ سکتا ہے۔ تفریح انسانی شخصیت کا داعیہ ہے۔ اس پر اخلاقی قدغنیں ہیں جیسے بے حیائی، اسراف ، ضیاع وقت یا دینی یا سماجی ذمہ داریوں سے بے پراوائی وغیرہ۔تفریح کیا ہے ، یہ بات دین کا موضوع نہیں ہے ۔ البتہ یہ بات دین کے مطالعے اور مطالبات سے سمجھ میں آتی ہے کہ تفریح کے مواقع پر بھی خدا سے غفلت نہیں ہونی چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: یہ سوال جس مقدمے پر قائم ہے وہ مقدمہ ہی غلط ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی بتوں کو توڑنے سے منع نہیں کیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا ایک بڑا موضوع شرک کا خاتمہ تھا۔ بلکہ ہر پیغمبر اور نبی شرک کے استیصال ہی کے لیے مبعوث ہوتا ہے۔ اس لیے ان دوباتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ اقدام نہ کرتے تو یہ ان کے فرائض منصبی کے منافی ہوتا۔ یہ دنیا اللہ تعالی کی ہے اور اللہ تعالی کے احکامات ہی اس میں جاری ہیں۔ شرک اور آثار شرک کا خاتمہ اسی کے حکم کے تحت ہوا ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ ساری کارروائی سرزمین عرب تک محدود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضوان اللہ علیہم نے جو علاقے فتح کیے وہاں کے معبد جوں کے توں قائم رکھے۔ جس طرح بنی اسماعیل کے کسی فرد کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے عقیدہ وعمل پر قائم رہے اسے لازماً اسلام قبول کرنا تھا ورنہ اسے مار دیا جاتا اسی طرح اس کا بھی کوئی سوال نہیں تھا کہ ان کے معبد اور بت قائم رکھے جاتے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اللہ تعالی نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے اور اس میں ظاہر ہونے والے تمام معاملات اصلاً آزمایش ہی کے لیے ہوتے ہیں۔ کسی نقصان یا مصیبت کی وجہ تینوں باتیں یاان میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے یعنی گناہ کا نتیجہ ، یا تدبیر کی غلطی کا ثمرہ ، یا اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہ یہ باتیں اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن یہ پوری بات نہیں ہے ۔ پوری بات وہی ہے جو ہم نے عرض کر دی ہے کہ ان سب باتوں کے ساتھ حاوی پہلو آزمایش کا ہی ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ رسولوں کی براہ راست مخاطب قوموں کا معاملہ مختلف ہے اس لیے کہ اس میں خو داللہ تعالی بتا دیتے ہیں کہ یہ عذاب ہے۔باقی رہا معصوم بچوں کا بیماریوں یا افلاس سے مرنا تویہ والدین کی آزمایش ہے۔بچہ بے شک ایک تکلیف سے گزرا ہے لیکن یہ نہ اس کی آزمایش تھی اور نہ کسی خطا کا خمیازہ۔ ساری دنیا کی کہانی کو آخرت سے ملائے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ایسا آدمی مخاطب ہو جو آخرت کو نہیں مانتا تواس کے اس نوع کے سوالات کا جواب یہی ہے کہ خدا ، آزمایش اور آخرت کو مانے بغیر ان سوالات کا تشفی بخش جواب ممکن نہیں۔ دنیا میں جاری اصول آزمایش کا ہے عدل کا نہیں ہیں۔ اللہ تعالی اصل عدل آخرت میں قائم کرے گاالبتہ انسان کو جو اقدامات بھی دنیا میں کرنے ہیں اس کے ذمہ ہے کہ وہ ان میں عدل کو ملحوظ ر کھے ۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:آپ کا اشکال ایک نقطے پر قائم ہے۔ اگرچہ لفظ علم دست شناسی اور نجوم وغیرہ کے لیے لکھا اور بولا جاتا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت میں یہ علم نہیں ہیں۔ علم دو ہی چیزیں ہو سکتی ہیں ایک خدا کی اتاری ہوئی ہدایت کا علم اور دوسرے کائنات اور مخلوقات میں جاری قوانین کا علم۔ پہلا علم نقل کی محکم بنیاد پر قائم ہے اور دوسرا مشاہدے اور تجربے کی۔ آپ نے جس چیز کو علم قرار دیا ہے وہ ان بنیادوں سے محروم ہے۔ قرآن مجید میں جس چیز کو جبت قرار دیا گیا ہے اور اسے ایک گناہ کہا ہے ، یہ فنون اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسی شے یا وقت ( خواہ وہ ہاتھ کی لکریں ہوں یا نجوم وکواکب یا کوئی اور مادی چیز)کے ساتھ کسی غیر مرئی اثر کو متعلق کرنا جبت ہے۔ قرآن مجید نے اسے گناہ قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فنون توہم پرست معاشروں کی باقیات ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں اس طرح کی چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ان فنون سے شغف آدمی کو بے ہمت بنا دیتا ہے۔ اسے تدبیر اور سعی پر اعتماد سے محروم کر دیتا ہے۔ چنانچہ صائب بات یہی ہے کہ ان فنون سے دور ہی رہنا چاہیے۔ اگر ان کا مطالعہ بھی کریں تو محض معلومات کے لیے کریں انھیں اپنی اور اپنے لوگوں کی زندگی کا حصہ نہ بننے دیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اسلامی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تہذیب کہنا چاہیے ۔مسلمانوں کی تہذیب میں اسلام ایک عنصر کے طور پر کار فرما توہوگا لیکن ضروری نہیں کہ مسلمانوں کی تہذیب اسلام کا لازمی نتیجہ ہو مسلمانوں کی تہذیب مراکش میں ایک صورت اختیار کر سکتی ہے ۔ مصر میں دوسری اختیار کر سکتی ہے اور ہندوستان میں تیسری اختیار کر سکتی ہے ۔ تہذیب ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں مذہب ایک ضروری عنصر کی حیثیت سے کام تو کرتا ہے وہ مکمل طور پر اس کو کنڑول نہیں کرتا۔

 مسلمانوں کی تہذیب مختلف علاقوں اور مختلف ادوار میں اپنی اپنی صورت اختیار کرے گی ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی شکلیں مختلف بنائی ہیں،ایسے ہی قوموں کے مزاج مختلف ہیں ان کے علاقے مختلف ہیں ،ان کے پیداواری ذرائع مختلف ہیں ،ان کے موسمی معاملات مختلف ہیں ،ان کی آب و ہوا مختلف ہے اوران کے پیشے مختلف ہیں ۔ان سب چیزوں سے مل کر تہذیبی روایات بنتی ہیں ۔اس میں آپ کے تہوار ہیں، آپ کے رسوم ہیں ،آپ کا لباس ہے ،آپ کے اٹھنے بیٹھنے کے طریقے ہیں ۔ اسلام نے تہذیبی معاملات میں چندبنیادی اصول دیئے ہیں یعنی لباس با حیا ہونا چاہئے ۔عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہیں ہونا چاہیے اور مردوں کا عورتوں جیسا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اسلام کا تقا ضا ہے ۔ اب ہو سکتا ہے کہ لباس مراکش میں ایک صورت اختیار کرلے ، یورپ میں دوسری اور ممکن ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں ایک تیسری صورت اختیا ر کرلے۔اس لئے تہذیب تو مسلمانوں کی تہذیب ہوگی۔نہ کہ اسلام کی۔

اب رہی بات اسلامی اور مغربی تہذیب کے حلیف یا حریف ہونے کی تو میں عرض کروں گا کہ مختلف تہذیبوں کے نشوو نما میں بے شمار عوامل کا ر فرماہوتے ہیں لوگوں کے مذہبی تصورات بھی ان کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور دنیا کے بارے میں انسانوں نے جو نظریات قائم کئے ہوتے ہیں وہ بھی ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔رہن سہن اٹھنے بیٹھنے اور ملنے ملانے کے جو طریقے رواج کے طور پر صدیوں سے چلے آ رہے ہوتے ہیں ان کی جھلک بھی ہم ان میں دیکھتے ہیں موسموں کے اثرات بھی ہوتے ہیں پیشوں ’ سماجی احوال اورمذہبی تصورات کے اثرات بھی ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں کی تہذیب بھی ان سب عوامل سے مل کر بنی ہے۔ہمارے ہاں بھی یہ سارے عناصرموجود ہیں۔مذہبی تصورات بعض موقعوں پر بہت مسخ ہو چکے ہوتے ہیں مثال کے طور پر ہمارے ہاں ہی آپ دیکھ لیں کہ مذہبی تصورات میں جو خالص دینی چیزیں ہیں نماز روز ہ حج زکوۃ وہ تو کسی حد تک ہیں ہی اس کے ساتھ بہت سے رسوم اس میں شامل ہو چکے ہیں مرنے کے رسوم ہیں شادی بیاہ کے رسوم ہیں اسی طریقے سے اللہ کے راہ میں انفاق کر نے نے بھی بہت سے رسوم کی صورت اختیار کر لی ہوئی ہے۔اور جو کچھ مشرکانہ تصورات ہمار ے ہاں پیدا ہوئے ہیں ان کی روشنی میں بہت سی مذہبی چیزیں بھی وجود میں آ گئی ہیں وہ بھی تہذیب کا حصہ ہیں پھرہماری تہذیب میں ہندوستان کا جو اپنا پس منظر تھا وہ بھی شامل ہے ۔یہاں ظاہر ہے کہ ہندو تہذیب کی ایک بڑ ی تا ریخ رہی ہے اس کے عناصر بھی شامل ہو گئے۔موسموں نے بھی اس پر اپنا اثر ڈالا ہے اور پھر یہی نہیں کھانے پینے اور دوسر ی چیزوں کے معاملے میں ایران سے جو مغل آئے ہیں وہ بھی اپنے اثرات چھوڑ گئے ہیں۔یہ جو سب کچھ ہے اس کو آپ ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیب کہہ سکتے ہیں اس کے لئے اسلامی تہذیب کا لفظ بالکل نا موزوں ہے۔ اسلام ایک دین ہے ایک زاویہ نظر ہے۔ اللہ تعالی نے جو ہدایت آسمان سے نازل کی ہے اس کا نام ہے۔ اسلام کا اپنا اثر ہوتا ہے لیکن تہذیب جو کچھ بنتی ہے وہ مسلمانوں کی تہذیب ہے اور مسلمانوں کی تہذیب میں بھی پھر اگر آپ دیکھیں تو الگ الگ شیڈ ہیں۔عربوں کے ہاں ایک مختلف صورت میں نمودار ہوئی ہے اسی طرح ہمارے ہاں ایک اور صورت میں ہوئی ہے اور وسط ایشیا کے ممالک میں ایک اور صورت میں نمودارہوئی ہے۔البتہ تہذیبوں میں ایک دوامی عنصر بھی موجود ہوتا ہے اگر آپ پچھلے چودہ سو سال کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمارے ہاں بھی اپنے اپنے شیڈ کے ساتھ ایک دوامی عنصر بھی ہے اس دوامی عنصر کو علامہ اقبا ل نے اپنی ایک بڑی خوبصورت نظم میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں

عناصر اسکے ہیں روح القدس کا ذوق جمال

عجم کا حسن طبیعت عرب کا سوز دروں

 توگویا یہ وہ دوامی عنصر ہے جو مسلمانوں کی تہذیب میں کارفرما رہا ہے اور ہے ۔مغربی تہذیب کو اگر آپ اس زاویئے سے دیکھیں تو ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد میں بھی سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات ہیں اور وہ مذہب ہے جو کلیسا نے کم و بیش ایک ہزار سال تک ان کے سامنے پیش کیا ۔اس کی بڑی گہر ی روایات ہیں ۔سیدنا مسیح ؑ کی تعلیم میں محبت،شفقت ،تعلقِ خاطر،ہمدردی اور دین کی اصل روح کی طرف متوجہ ہونا یہ چیزیں بڑے زور کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔تو یہ سب چیزیں بھی ان کی تہذیب میں داخل ہوئی ہیں ۔پھروہاں سائنسی علوم کا عروج ہوا ۔اور مذہب کے خلاف دانشوروں نے بہت کچھ لکھا۔اس کے اثرات بھی ان کی تہذیبی روایت پر پڑے ہیں۔اوراب تک بڑی حد تک موجود ہیں ۔پھر اس تمدن نے ایک پورے کا پورا ڈھانچہ تشکیل دیا ہے ۔اس میں معاش کے نئے عوامل پیدا ہوئے ’اٹھنے بیٹھنے کے نئے آداب بنے ۔ انہوں نے بھی اس پر اثرڈالا اس کے بعد میڈیا کی ترقی نے کچھ اور مسائل پیدا کئے ۔انہوں نے آزادی اور حریت کوا ایک بنیادی قدر کے طور پر مانااس کے بھی کچھ اثرات ہوئے اس زاویے سے دیکھا جائے تو یوں نہیں ہے کہ ساری کی ساری مغربی تہذیب ہمارے بالکل مخالف میں کھڑی ہے ۔اس میں بہت اعلیٰ عناصر بھی ہیں ۔دوامی اہمیت کے عناصر بھی ہیں عارضی عناصر بھی ہیں ۔کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بظاہر اوپر سے نظر آرہی ہیں مگر اندر گہرا اتریں تو اس صورت میں موجود نہیں ہیں ۔تو اس وجہ سے میرے خیال میں حریف اور حلیف کی بحث کرنے کے بجائے اس کو انسانی زاوئیے سے دیکھنا چاہئے۔ انسانی تہذیبوں کا جو نشوونما ہوتا ہے اس میں یہ چیزیں اسی طرح نمودار ہو جاتی ہیں ۔ان کے درمیان نہ حریفانہ کشاکش ہونی چاہئے اور نہ حلیفانہ طریقے کے مطابق اپنے آپ کو منافق بنا لینا چاہئے۔ ہمیں اپنی جگہ’پر قائم رہتے ہوئے اور اپنی روایات کو برقراررکھتے ہوئے مکالمے کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ اپنی بات کہنے اوردوسرے کی بات سننے کا داعیہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے۔اور ان کے ساتھ ہمارا تعلق داعی اور مدعو کاہونا چاہئے ۔ ہمارے پاس ایک پیغام ہے ہمارے پاس انہیں دینے کو بہت کچھ ہے ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ ہمارے پاس جو پیغام ہے اس کے اندر قدرت نے تمھارے لئے کیا کچھ رکھا ہو اہے ۔اور ظاہر ہے کہ جب وہ ہمارے اس پیغام اور دعوت کے مدعویین ہیں تو ان کے ساتھ ہمارا رویہ حریفانہ نہیں بلکہ تربیتی ہونا چاہئے ۔آپ اگر اس زاویہ نظر سے دیکھیں گے تو پھر حریفانہ اور حلیفانہ کی بحث نہیں ہو گی بلکہ داعی اور مدعو کی بات ہو گی اور آپ ہر وہ طریقہ تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کہ جس سے آپ اپنی بات اور دعوت کو بہتر طریقے سے communicateکرسکیں۔

(جاوید احمد غامدی)

سوال: کتاب و سنت کی روشنی میں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کیا راہنمائی کرتے ہیں کہ ایک آدمی اولادِ نرینہ کی خاطر دوسری شادی کی خواہش کرتا ہے اور وہ دوسری شادی کے لیے اپنی پہلی بیوی کو بارہا منانے کی کوشش کرتا ہے اور نکاحِ ثانی سے پہلے زبانی کلامی طور پر ہر چیز اپنی پہلی بیوی کو دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور غیر مشروط طور پر ایک عدد مکان ایک کنال پر محیط، دس لاکھ روپے اور لے پالک بچے کے نام دو عدد پلاٹ پانچ پانچ مرلے اور اپنے کاروبار میں سے صوبہ سرحد کا ٹور جس کی رقم یا آمدنی کا پانچ فی صد ہر ماہ دیا کرے گاپہلی بیوی اس کی دوسری شادی پر کسی طرح بھی راضی نہ ہوئی۔ پھر اس آدمی نے پہلی بیوی کو بتائے بغیر کچھ دن بعد نکاح کر لیا۔ تو پہلی بیوی انتہائی پریشان ہوئی اور اپنے شوہر کو کیے ہوئے وعدے یاد دلانے لگی۔ بیوی کے وعدہ یاد دلانے پر شوہر نے کہا کہ تم کس چیز سے پریشان ہوتی ہو، میں آج بھی اپنے وعدے پر قائم ہوں اور ہر چیز ہبہ کرتا ہوں اشٹام پیپر لاؤ میں اس پر تحریر کر دیتا ہوں۔ چوں کہ رات کا وقت تھا، اشٹام پیپر موجود نہ تھا اس لیے ایک ڈائری پر یہ سب کچھ تحریر کر دیا گیا اور پانچ لاکھ نقد بھی ادا کردیا، کچھ عرصہ بعد اس میں سے پچاس ہزار روپیہ اس شرط پر لیا کہ اب وقتی طور پر میرے پاس مکان کے کاغذات بنوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، میں بعد میں یہ پیسے ادا کر دوں گا۔ 22-G سبزہ زار والا مکان پہلی بیوی کے نام لگوانے کے لیے کام شروع کردیا گیا۔ مختار نامہ عام بنوا لیا گیا، اسے بعد میں delayکر دیا گیا، اور سرحد ٹور کے پیسے حسب وعدہ ادا کیے جانے لگے۔ پہلے مہینوں میں دس ہزار ، سات ہزار،چھ ہزار ادا کرتے رہے پھر تقریباً ایک سال سے پیسے سات ہزار فکس کر دیے گئے۔ اب چھ ماہ سے وہ رقم بھی ادا نہیں کی۔پہلی بیوی کا جیب خرچ چار ہزار روپے مقرر تھا دوسری کے آنے پر اس کی رضا مندی سے پوچھنے کے بعد دو ہزار اس کا مقرر ہوا۔ اس مختصر سی توضیح کے بعد چند امور وضاحت طلب ہیں۔

سوال: کیا مذکورہ شخص اپنی پہلی بیوی سے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کا پابند ہے یا کہ دوسری بیوی کو بھی اتنی ہی مالیت کی اشیا لے کر دے پھر برابری اور مساوات شروع کرے؟

جواب: پہلی بیوی سے کیے گئے وعدے کی پابندی ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے: واَوْفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا۔( بنی اسرائیل: ۳۴) ‘‘اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی۔’’

دوسری بیوی کو اتنی مالیت کی اشیا لے کر دینا اور دیگر مذکورہ مالی فوائد پہنچانا ضروری نہیں کیوں کہ پہلی بیوی سے وعدے دوسری کی آمد سے پہلے کے ہیں اس لیے ان کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم دوسری سے نکاح کے بعد دونوں میں مساوات ضروری ہے۔ پہلی بیوی کو پہلے جو کچھ مل چکا ہے، وہ اسی کا استحقاق ہے، دوسری کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ اور بعد میں جو چیز بھی خریدی جائے گی اس میں دونوں بحصہ برابر شریک ہوں گی۔ اگرچہ پہلی کے پاس وہ شے موجود ہو، رضامندی سے دونوں میں رقم بھی تقسیم ہوسکتی ہے یا کوئی ایک اتنی قیمت لینا چاہے تو لے سکتی ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب۔ اُنہی دلائل کی بنا پر لے پالک سے بھی وعدہ پورا ہونا چاہیے۔ دوسری بیوی کی اولاد کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ان کی آپس میں مساوات ضروری ہے، لے پالک سے تعلق نہیں۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: بچے کی حضانت(تربیت) کی سب سے زیادہ حق دار یا ذمہ دار ماں ہوتی ہے، اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کے بعد نانی حق دار ہوا کرتی ہے، اگر وہ بھی نہیں تو خالہ۔ اس لیے کہ نانی ماں سمجھی جاتی ہے اور خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: اَلْخَا لَۃُ بِمَنْزِلَۃِالّاُمِّ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اگریہ رشتے دار نہیں تو دادی تربیت کرے گی، وہ بھی نہیں تو بہن اور اگر یہ بھی نہیں ہے تو پھوپھی ۔ اگر ان میں سے بھی کوئی تربیت کے لیے موجود نہ ہو تو بچے کی حضانت باپ کی طرف منتقل ہوگی۔موجودہ صورت میں چونکہ بچی کی نانی موجود ہے لہٰذا تربیت کی وہی حقدار ہے۔ شاہ ولی اللہ المسویٰ میں فرماتے ہیں۔:‘‘فالام وام الام اولی بالحضانۃ من الاب۔’’‘‘بچے کی تربیت کی ماں اور نانی زیادہ حق دار ہے۔’’

            پھر حضرت عمرؓ کے قصہ سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے ایک انصاری عورت کوطلاق دی تو اس سے عاصم بن عمر تولد ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے اس کو لینا چاہا تونانی رکاوٹ بن گئی ۔ پھر ابو بکرؓ نے ماں کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا۔

            بچی کا خرچہ باپ کے ذمہ ہے، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: وارزقواھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا ‘‘اور اس میں سے ان (اولاد) کو روزی دو اور لباس مہیا کرو اور ان کے لیے اچھی بات کہو۔’’

            شوہر مرحومہ کے ترکے میں سے چوتھے حصے کا حق دار ہے اور آدھے کی بیٹی ہے، باقی دیگر ورثا کے لیے اپنے اپنے حصص کے مطابق ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

                        ‘‘ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتیٰ یثخن فی الارض---’’(انفال ۸ : ۶۷،۶۸،۶۹) مولانا مودودی رحمہ اللہ کا ترجمہ درج ذیل ہے:

            ‘‘کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح سے کچل نہ دے۔تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے، اللہ غالب اور حکیم ہے۔اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی، پس جو کچھ مال تم نے حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔’’

            اکثر مترجمین نے اسی طرح کا ترجمہ کیا ہے۔

            لیکن مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کا ترجمہ اس سے مختلف ہے اور وہ یہ ہے :

            ‘‘ کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قیدی ہاتھ آئیں یہاں تک کہ وہ اس کے لیے ملک میں خونریزی برپا کر دے۔یہ تم ہو جو دنیا کے سرو سامان کے طالب ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے۔اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی ہے اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آ دھمکتا۔

            پس جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کو حلال اور طیب سمجھ کر کھاؤ برتو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ’’

            ان دونوں ترجموں میں کس قیامت کا فرق ہے اسے واضح کرنے کے لیے میں ان ترجموں کی وضاحت کرنے والی عبارتوں کو بریکٹوں میں لکھ کر دوبارہ انھی ترجموں کو پیش کرتا ہوں۔

            پہلا ترجمہ:‘‘کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح سے (ان کا خون بہا کر ) کچل نہ دے۔ (اے محمدؐ ، ابو بکر اور دیگر بدری صحابہ ) تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے، اللہ غالب اور حکیم ہے۔اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا (کہ تم پر عذاب نہیں آنا) تو (قیدیوں کا فدیہ وغیرہ)جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں (اے محمدؐ ، ابو بکر اور دیگر بدری صحابہ ) تم کو ( عذاب عظیم کی نوعیت کی) بڑی سزا دی جاتی، پس (ہم نے معاف کیاچنانچہ) جو کچھ مال تم نے حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔’’

            دوسرا ترجمہ:‘‘ کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قیدی ہاتھ آئیں یہاں تک کہ وہ اس (قیدی حاصل کرنے ہی ) کے لیے ملک میں خونریزی برپا کر دے۔ (اے قریش مکہ )یہ تم ہو جو دنیا کے سرو سامان کے طالب ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے۔اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو (اے قریش مکہ نبی کے ساتھ دشمنی کی )جو روش تم نے اختیار کی ہے اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آ دھمکتا۔ پس (اے مسلمانوں) جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کو حلال اور طیب سمجھ کر کھاؤ برتو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ’’

            مزید وضاحت کے لیے آپ تفہیم القرآن، تدبر قرآن اور دیگر تفاسیر دیکھ سکتے ہیں۔بنیادی فرق میں نے واضح کر دیا ہے۔اگر ہم مولانا اصلاحی کے ترجمے سے اتفاق کرتے ہیں تو اس کے مقابل آنے والی تمام احادیث کی اس ترجمے کے مطابق توجیہہ کی جائے گی۔ اگر توجیہہ ممکن نہ ہوئی تو پھر انھیں خلاف قران قرار دے کر رد کر دیا جائے گا۔

             مولانا اصلاحی نے ان آیات کے حوالے سے دیگر مفسرین سے کو ئی صرفی و نحوی اختلاف نہیں کیا بلکہ آپ نے آیات کے اسلوب بیان میں اور ان میں خطاب کا رخ متعین کرنے میں دیگر مفسرین سے اختلاف کیا ہے۔ یہ اختلاف کیا ہے ؟ اسے میں نے بریکٹوں میں درج شدہ الفاظ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: صحیح احادیث سے واضح طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ بعض مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی کچھ سزا دینے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا، پھر اللہ کی رحمت سے انھیں معاف کر دیا جائے گا۔ یہ وہ مؤمنین ہوں گے جن کے پاس حقیقی ایمان خواہ وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو بہرحال، موجود ہو گا۔ سورہ آل عمران کی آیت ۷۷ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قیامت کے روز بعض لوگوں کو ان کے گناہوں کی سزا دے کر پاک کیا جائے گا۔ جو لوگ دوزخ کی ابدی سزا پائیں گے وہ حقیقی کافر ، حقیقی مشرک اور حقیقی منافقین وغیرہ ہی ہوں گے۔ حقیقی مسلمان لازماً دوزخ سے بچائے جائیں گے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  پہلی بات تو یہ جان لیں کہ قرآن و حدیث رائے نہیں دیا کرتے،بلکہ حکم دیتے ہیں۔

جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو شراب کے بارے میں اس نے درج ذیل حکم دیا ہے:‘‘ اے ایمان والو، یہ شراب ، ---- سب گندے شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے الگ رہو تاکہ تم فلاح پاؤ’’۔ ( المائد ہ: ۹۰)

            احادیث میں بھی شراب کو ہر پہلو سے حرام قرار دیا گیا ہے۔

            جابر بن رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کو فتح مکہ کے دن یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب کی خریدو فروخت، سور، مردار اور بتوں کو حرام قرار دیاہے۔(بخاری، رقم:۲۰۸۲)

            انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں ابو طلحہ کے مکان میں لوگوں کا ساقی تھا (شراب پلا رہا تھا) ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے، پھر نبی ﷺ نے ایک شخص کو یہ منادی کرنے کا حکم دیا ، سن لو، شراب حرام ہو گئی ہے۔(بخاری، رقم: ۲۲۸۴)

            ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے پر ، اس کے خریدنے والے پراو رکشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لے جانے والے پر اور جس کے لیے وہ ڈھو کر لے جائی گئی ہو۔(ابو داؤد، رقم:۳۱۸۹)

            جہاں تک اس کی حد کا تعلق ہے تو قرآن میں اس کی کوئی متعین حد بیان نہیں ہوئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہیں تھی ۔ جو شخص اس جرم کے ارتکاب میں پکڑا جاتا اسے کجھور کے سونٹے وغیرہ سے یا جوتوں وغیرہ سے مارا جاتا ۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اس کی سزا چالیس کوڑے کر دی گئی ۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت کے آغاز میں اس کی سزا چالیس کوڑے ہی تھی ، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آ رہے تو آپ نے صحابہ کے مشورے سے اس سزا کو بڑھا کر اسی کوڑے کر دیا۔چنانچہ اس بنیاد پر ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ موجود ہ دور میں حکومت حالات وواقعات کے اعتبار سے اس سزا میں کوئی بھی کمی بیشی کر سکتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ مولانا مودودیؒ نے خلافت وملوکیت میں اپنی طرف سے کوئی باتیں نہیں گھڑیں، بلکہ انھوں نے تاریخ میں موجود معلومات کو اپنے فہم کے مطابق ایک خاص ترتیب اور ایک خاص زاویے سے قارئین کے سامنے رکھا ہے۔ یہ ان کا نقطہ نظر ہے ۔ اس سے علمی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے جناب معاویہؓ پر الزامات اور اصحاب رسولﷺ پر تنقید کے الفاظ سے تعبیر کرنا سرتاسر زیادتی ہو گی۔ ان کی یہ سب باتیں علمی آرا کے زمرے میں آتی ہیں اور ان میں اختلاف کی پوری گنجایش ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ہمارے علم کی حد تک یہ واقعہ مستند تاریخوں میں مذکور نہیں ہے، اگر آپ اس کا حوالہ بھیج دیں تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے اور مزید بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مجرم کے ساتھ اس نوعیت کا کوئی بھی سلوک کرنے سے اپنے ورثا کو منع کر گئے تھے، چنانچہ درایتاً بھی یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ محض میوزیکل پروگرامز کا ہونا تو کوئی حرام چیز نہیں ہے، لیکن یہ دیکھ لیں کہ اگر ان پروگراموں میں فحاشی کا پہلو موجود ہے تو پھر بے شک یہ پروگرام حرمت کے درجے میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں تک شراب serve کرنے کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے یہی رائے دی جا سکتی ہے کہ آپ ضرور کوئی دوسری ملازمت تلاش کریں، اس میں ٹھنڈے پیٹوں ملازمت کرتے چلے جانا ایمان کے منافی ہے۔ہماری اس رائے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :

وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان واتقوا اللہ، ان اللہ شدید العقاب۔ (المائدہ: ۲)

تم نیکی اور تقوی میں تعاون کرو، گناہ اور تعدی میں تعاون نہ کرواور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ سخت پاداش والا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اس مشا بہت سے مراد ان کے کسی خاص شعار کی مشابہت ہے جیسے صلیب گلے میں لٹکانا یا سکھوں کی طرز کی پگڑ ی پہننا جس سے دیکھنے والا دھوکے میں مبتلا ہو او راس قوم میں سے خیال کرے۔رہا لباس وغیر ہ کا معاملہ تو یہ اس میں نہیں آتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کی طرف سے تحفتہً آیا ہوا لباس زیب تن فرمایا ہے ، لیکن اس کو اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے اس وقت کے کلچر ہی کے لباس کو اختیار کیے رکھا۔ اسلام نے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کو مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا اور نہ ان کے لیے الگ سے کسی خاص وضع کا لباس تجویز کیا ہے۔ بلکہ لباس کے معاملے کو ہر علاقے کے رسم و رواج پر چھوڑ دیا ہے۔ البتہ دین کے حوالے سے لباس میں جو چیز ملحوظ رکھنے کی ہے وہ حیا اور ستر ہے، یعنی لباس باحیا اور ساتر ہونا چاہیے، دین اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ رہا موسم کی سختی سے بچاؤ کا معاملہ تو اس سے بچنا ایک فطری چیز ہے انسان موسم کے مطابق اپنا لباس تبدیل کرتا رہتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ عمر: اس لفظ کے اپنے کوئی معنی نہیں ہیں۔ یہ لفظِ عامر سے بدلا ہوا ہے جس کے معنی ‘‘آباد کرنے والے کے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کی تبدیلی ہے جس طرح ہمارے ہاں اصل نام بدل کر کچھ اور ہو جاتا ہے جس کے پھر کوئی معنی نہیں ہوتے۔ اور عمیر کا مطلب ہے چھوٹا عمر۔عائشہ: اس کے معنی ‘‘اچھی حالت والی ’’یا ‘‘آسودہ حال’’ کے ہیں۔مریم: یہ اصلاً غیر عربی لفظ ہے جو عربوں کے ہاں رائج ہو گیا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ سیونگ اکاؤنٹ پر منافع سود کے ذیل میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں انعامی بانڈ، پرچی سسٹم اور اس طرح کی دوسری سکیمیں جو بھی نکلی ہوئی ہیں وہ سب جوئے ہی کی اقسام ہیں۔ یہ سب چیزیں قسمت آزمائی ہیں، لہٰذا اس طرح کی چیزوں سے بچنا چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ موسیقی انسانی فطرت کا جائز اظہار ہے ، اس لیے اس کے مباح ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اسلامی شریعت میں موسیقی حرام ہے ،لیکن جب ہم اس معاملے میں قرآن وسنت اور علوم دین کے دوسرے مصادر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وسنت میں اس کی حرمت کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو ان میں متعدد صحیح اور حسن روایات موسیقی اور آلات موسیقی کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ ممانعت کی روایتیں بھی موجود ہیں، لیکن محدثین نے ان میں سے بیشتر کو ضعیف قرار دیا ہے۔ان روایتوں کے بغور مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کا سبب ان کی بعض صورتوں کا شراب، فواحش اور بعض دوسرے رذائل اخلاق سے وابستہ ہونا ہے۔ چنانچہ اس بنا پر ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ موسیقی مباحات فطرت میں سے ہے اور اسلامی شریعت اسے ہر گز حرام قرار نہیں دیتی۔ لیکن اگر اس کے اندر کوئی اخلاقی یا دینی قباحت موجود ہو تو پھر یہ بعض صورتوں میں لغو، بعض میں مکروہ اور بعض میں حرام قرار دی جائے گی۔مثال کے طور اگر کسی نعت میں مشرکانہ مضامین کے اشعار ہیں تو اس نعت کی شاعری حرام ہو گی۔البتہ، یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس میں زیادہ دلچسپی انسان کو تقویٰ کے اعتبار سے نقصان دیتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ قولی تواتر سے مراد کسی قول کا ہر زمانے میں امت کے خاطر خواہ افراد سے مسلسل قولاً روایت ہوتے رہناہے۔ اور عملی تواتر کا مطلب کسی عمل کا امت کے خاطر خواہ افراد میں مسلسل جاری رہنا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  ہر آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی بھی صحیح حدیث جو اس کی سمجھ میں نہ آئے ، اسے رد کردے۔ درایتاً رد کرنے کے بھی کچھ اصول ہیں جن کی روشنی میں صرف ایک محقق عالم ہی اس حدیث کو رد کر سکتا ہے۔ اگر کسی عام آدمی کو یہ مسئلہ پیش آئے تو اس کو کسی جید عالم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر ‘‘السلام علیکم یا ایھاالنبی’’ کہنا ہرگز شرک نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آتی تھی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی شہادت ہمیں قرآن مجید کے بہت صریح الفاظ سے بھی ملتی ہے اور حدیث شریف میں بھی اس کی گواہی موجود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی براہ راست راہنمائی میں کار دعوت سر انجام دے رہے تھے ، چنانچہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل کیا جاتا تھا وہاں حالات کی ضرورت اور وقت کے تقاضے کے مطابق اس کے علاوہ بھی وحی کی صورت میں اللہ تعالٰیٰ کی جانب سے راہنمائی فرمائی جاتی تھی۔پھر اتنی بات ہی نہیں بلکہ وہ سنت نبی جس کی بنا پر ہم نماز پڑھتے، روزہ رکھتے، زکوۃ دیتے اور حج کرتے ہیں، وہ ساری کی ساری قرآن مجید کے علاوہ آنے والی وحی کی بنیاد ہی پر ہمیں دی گئی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ بخاری میں بھی بعض غلط احادیث موجود ہیں مثلاًبخاری کی یہ حدیث کہ عمرو بن میمون کہتے ہیں :‘‘میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بندریا کو دیکھا، اس نے زنا کیا تھا اور اس کے پاس بہت سے بندر جمع تھے، (میرے سامنے) ان بندروں نے اسے سنگسار کیا، (یہ دیکھ کر) میں نے بھی ان کے ساتھ اسے سنگسار کیا۔’’(بخاری، رقم:۳۸۴۹)اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور جانور دونوں ہی یکساں طور پر انسانی شریعت کے مکلف ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اگر اپنی ذمہ داریوں اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے فرار کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس حوالے سے سارا بندوبست کرنے کے بعد کوئی شخص سیر و سیاحت پر جارہا ہے، تو یہ ایک مباح عمل ہے اس میں کوئی حرج نہیں اور دینی اعتبار سے اسے ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ نیز اگر آپ کی یہ سیاحت کوئی باقاعدہ Study Tour ہے تو اس صورت میں یہ اپنی جگہ پر ایک خیر اور بھلائی کا کام ہے۔ میرا خیال ہے کہ مسلمان آدمی کے لیے سیر و سیاحت محض ایک مباح کام ہی نہیں ہوتا بلکہ خدا کی دنیا کو غور و فکر کی نگاہ سے مشاہدہ کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے اور یہ مشاہدہ اس کے لیے خدا کی معرفت کا ذریعہ بنتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ غامدی صاحب نے قرآن مجید کی بعض آیات کی بنا پر اپنا یہ نقطہ نظر بیان کیا ہے کہ جیسے آدم علیہ السلام کو براہ راست مٹی سے بنایا گیا تھا، ایسے ہی تخلیق آدم سے پہلے مخلوقات کے براہ راست مٹی سے بننے کا ایک دور گزرا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں انسان نما کوئی مخلوق بھی بنائی گئی تھی، ایک عرصہ تک یہ مخلوق صرف مٹی سے براہ راست ہی بنتی تھی پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس میں تناسل کی صلاحیت پیدا کر دی گئی اور پھر اس کی اولاد بھی پیدا ہونے لگی، پھر ایک عرصے تک تخلیق کے یہ دونوں طریقے جاری رہے، یعنی اس مخلوق کے بعض افراد مٹی سے پیدا ہوتے تھے اور بعض تناسل کے طریقے سے پیدا ہوتے۔ اسی موقع پر براہ راست مٹی سے آدم و حوا کی تخلیق ہوئی، انھیں اللہ تعالیٰ نے انسانی سماعت و بصارت اور عقل سے نوازا اور ان میں اپنی روح بھی پھونکی ، اس کے ساتھ چونکہ ان میں اپنی نسل پیدا کرنے کی صلاحیت بھی تھی، لہذا، ان سے یہ نسل انسانی آگے چلی۔ تخلیق آدم کے بعد وہ انسان نما مخلوق ختم کر دی گئی۔ یہ نقطہ نظر درج ذیل آیات پر مبنی ہے۔(آل عمران ۳:۵۹، النسا۴: ۱ اور السجدۃ۳۲:۷،۸)

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ان تینوں چیزوں کی دینی حیثیت نہیں ہے۔موذن آواز بلند کرنے میں سہولت کے لیے ایسا کرتا ہے۔توبہ کے وقت کانوں کو ہاتھ لگانے والا گویا توبہ کے عہد کا اظہار کرتا ہے۔ سلام کے بعد دل پر ہاتھ رکھنا بعض لوگوں میں اظہار اخلاص کے ایک طریقہ کے طور پر رائج ہو گیا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اپنی زینت ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔ چنانچہ خوشبو لگا کر نکلنا بھی ممنوع ہے اور وہ قریبی اعزہ اور متعلقین ،جن کی فہرست قرآن مجید میں بیان کر دی گئی ہے، ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سامنے آرائش و زیورات اور اس طرح کی دوسری چیزوں کے اظہار پر بھی یکسر پابندی ہے۔ ‘‘الا ما ظہر منہا’’ کے الفاظ سے جو استثنا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کے زیور یا ان کی آرائش جو کہ عادۃً ظاہر ہوتی ہے،اس کے ظاہر ہونے پر گرفت نہیں ہے۔ لیکن اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ ‘‘ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کا زیور یا ان کی آرائش کا اظہار کرنے میں عورت آزاد ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ عورت کو نامحرموں کے درمیان اپنے ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کے زیور یا ان کی آرائش کا اظہار کرنے کی اجازت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ محرم اعزہ کے علاوہ لوگوں کے سامنے زیب و زینت کے ہر اظہار پر پابندی ہے، خواہ یہ جسم کے کسی بھی حصے کا ہو، حتی کہ چہرے ، ہاتھ اور پاؤں کی زینت کو بھی ارادتاً یعنی جان بوجھ کر ظاہر کرنا دین میں ممنوع ہے۔ البتہ ان حصوں کی زینت چونکہ عادتاً ظاہر ہوتی ہے اس لیے اس کے خود بخود ظاہر ہونے پر گرفت نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ طلاق ایک عمل ہے۔ جس کے لیے نیت اسی طرح شرط ہے جیسے دوسرے اعمال کے لیے شرط ہے۔ یہ عمل جب نیت سے کیا جاتا ہے ظاہر ہے کہ تبھی اس کا وقوع ہوتا ہے۔ لیکن جب طلاق کا مسئلہ عدالت میں چلا جاتا ہے تو بعض صورتوں میں وہ مجبور ہوتی ہے کہ محض ان الفاظ ہی کو دیکھے جن سے طلاق دی گئی ہے اور طلاق دینے والے کی نیت سے یکسر بے نیاز ہو کر فیصلہ کرے۔ محض وسوسے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ بعض افراد اس طرح کے وساوس اور وہموں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ لغو ہوتا ہے،دین میں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس کی پروا کرنا سخت نقصان دہ ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ دل کا خیال نیت نہیں ہوتا۔ نیت پختہ ارادے کا نام ہے۔ چنانچہ اس شخص کی طلاق کو طلاق کہا جائے گا جو فی الواقع طلاق دیتا ہے، یعنی جو یقین کے ساتھ سے اس کا ارادہ کرتا اور پھر یقین کے ساتھ اس پر عمل کرتا ہے، اگر اسے پتا چلے کہ طلاق واقع ہونے میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ فوراً اس کمی پورا کرنے کے لیے کوشاں ہو جاتا ہے۔ اسے اپنے طلاق دینے کے بارے میں خود کوئی شبہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ مکمل یقین پر کھڑا ہوتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  دین کا علم حاصل کرنے کا شوق نہایت قابلِ تحسین ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آدمی جس بات کی خواہش کرے، اسے وہ پا بھی لے۔ انسان کی زندگی کوشش سے عبارت ہے۔ انسان پر بس یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے لیے کوشش کرتا رہے۔ پھر اگر وہ اپنے ہدف کو نہ بھی پا سکے تو اسے مطمئن رہنا چاہیے کیونکہ اس نے اپنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسلمان کی زندگی گزارنے کا مکلف ٹھہرایاہے ۔ارشاد باری ہے:‘‘ ولا تموتن الا و انتم مسلمون’’یعنی تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمانی کی حالت میں۔حصول علم کی خواہش اگر پایہ تکمیل کو نہ بھی پہنچے تو کوئی بات نہیں، لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی آدمی مسلمانی کی زندگی اختیار کرنے سے ہی محروم رہ جائے۔لہذا،انسان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ مسلمانی کی زندگی اختیار کرے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  ملازمت ملنے میں اگر وقتی طور پر ناکامی بھی ہو رہی ہو تو آدمی کو گبھرانا نہیں چاہیے، بلکہ کوشش جاری رکھنا چاہیے۔ بہت سے لوگ جو اس وقت کسی نہ کسی ملازمت پر ہیں ان سے اگر پوچھ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے کتنے ہی لوگوں کو ان کی ملازمت بڑی تگ و دو سے ملی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک آیت کا ایک ہی مطلب ہے، اس کے نزدیک اس کے کئی مطالب نہیں ہوتے، چنانچہ جو شخص بھی قرآن مجید کا ترجمہ کرے یا اس کی کسی آیت کی شرح و وضاحت کرے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی ترجمہ یا ایک ہی مفہوم ،جو اس کے نزدیک درست ہو، اسے بیان کرے۔

            تاویل واحد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر انسان آیت کے اصل مطلب تک لازماً پہنچ سکتا ہے۔ قرآن مجید گو بہت صریح کلام ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی کسی آیت کے بارے میں مختلف علما کی رائے مختلف ہو سکتی ہِے، اس اختلاف کی وجہ علما کے اپنے علم کا فرق ، ان کے ہاں غور و فکر کے اصولوں کا مختلف ہونا اور اس طرح کی کئی دوسری چیزیں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی نے اس امتحان گاہ میں علما کے درمیان آرا کے اس اختلاف کو حتمی طور پر ختم کرنے کا کوئی ذریعہ پیدا نہیں کیا۔ البتہ تاویل واحد کا تصور ان علما کو اس بات سے روکتا ہے کہ وہ ایک ہی آیت کے چار چار مطلب بیان کریں، چنانچہ ان میں سے ہر ایک کو صرف وہی مطلب بیان کرنا ہو گا جو اس کے نزدیک درست ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اصولی بات یہ ہے کہ عام آدمی کو علما کی رہنمائی ہی میں چلنا چاہیے۔ ہاں علما کو چاہیے کہ انہیں جہاں اپنے امام کی رائے پر اطمینان نہ ہو، وہاں وہ دوسرے آئمہ کی آرا بھی دیکھیں اور پھر ان میں ترجیح قائم کریں۔ عام آدمی کے لیے اصولاً یہ لازم نہیں کہ وہ کسی ایک امام کی تقلید کرے، البتہ عقلاً یہ بات درست ہے کہ اسے جس امام پر اعتماد ہے، وہ اسی کی تقلید کرے، ہاں اگر کسی مسئلے میں اس امام پر اس کا اعتماد مجروح ہو جائے تو پھر یقینا اس معاملے میں اسے دوسرے امام کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس رجوع کی صورت بھی یہ ہو گی کہ وہ دوسرے مسلک کے علما کے ذریعے سے ان کے امام کی رائے جانے گا ، اگر اس رائے پر اسے اطمینان ہوا تو وہ اس پر عمل کرے گا۔

            دلیل کی بنا پر اپنے مسلک سے مختلف رائے اپنانے سے انتشار پیدا نہیں ہوتا بلکہ انتشار علم کی روشنی میں چلنے کے بجائے جہالت کے اندھیرے میں اندھا دھند بھاگنے سے پیدا ہوتا ہے۔

            اگر کسی آدمی کے نزدیک اس کے اپنے علم کی حد تک کسی مسئلے میں دو آرا یکساں صحت کی حامل ہیں، تو پھر اسے جو رائے اپنے لیے عملًا آسان لگتی ہے اسی کو اپنانا چاہیے۔ البتہ یہ بات درست نہیں ہے کہ بیک وقت دونوں آرا کو درست جانے۔ کیونکہ وہ عقلاً اس بات کو جانتا ہے کہ ایک ہی مسئلے میں بیک وقت دو مختلف آرا درست نہیں ہو سکتیں،لہذا، اس کے سامنے جب دو مختلف آرا آ جائیں تو اس کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ علما کی مدد سے اپنی استطاعت کی حد تک اپنا رجحان کسی ایک طرف قائم کرنے کی کوشش کرے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اگر ایک شخص یہ مانتا ہے کہ اسے خدا نے غض بصر کا حکم دیا ہے تو اسے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حالات کی سختی جہاں عمل کو مشکل بناتی ہے وہاں اس کے اجر کو بڑھا بھی دیتی ہے اور پھر ایسے حالات میں فرمانبردار آدمی کے لیے معافی کی گنجایش بھی بڑھ جاتی ہے۔اس زمانے میں برائی کا جو سیلاب انسان کی طرف بڑھ رہا ہے اس سے بچنے کے لیے انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کے ذکر میں اپنے آپ کو بڑھائے، اپنی موت کو یاد رکھے اور صالح لوگوں کی محفلوں کو اختیار کرے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔  بعض باتیں قابل غور ہی نہیں ہوتیں انہی میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا ہے۔ اس بات پر ہم تبھی غور کر سکتے ہیں، جب ہم خدا کے وجود کا اسی طرح احاطہ کر لیں جیسے ہم کسی مادی چیز کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ مثلاً اس پر غور کرنے لیے ہمارے پاس اس بات کا جواب ہونا چاہیے کہ خدا یقینا مخلوق ہے اور اسے بھی ایک وقت میں پیدا کیا گیا تھا، (جیسا کہ یہ ہم جانتے کہ یہ زمین و آسمان مخلوق ہیں اور یہ کسی خاص وقت میں وجود پذیر ہوئے تھے) اور پھر خدا کو ہمارے خیال و وہم کے قابو میں اسی طرح آ جانا چاہیے جیسے اس کائنات کی دوسری چیزیں آ جاتی ہیں۔لیکن اگر ہم اتنے بڑے نہیں ہیں کہ خدا کی ذات کو اپنے دامِ خیال میں لا سکیں، تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم ذات کے موضوع سے ہٹ کر ، اپنے غور و فکر کو ذرا اپنے قد کاٹھ کی چیزوں تک ہی محدود رکھیں مذہب نے خدا کے حوالے سے ہمیں جو کچھ بتایا ہے اسے آپ مثلاًسورہ اخلاص، سورہ حدید کی ابتدائی آیات، سورہ حشر کی آخری آیات میں اور قرآن مجید کے بعض دوسرے مقامات پر دیکھ سکتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ بہشتی مقبرے کا تصور لوگوں کا خود ساختہ ہے۔ یہ اگر کوئی حقیقت ہوتا، تو قدیم آسمانی مذاہب میں بھی اس کا ذکر ہوتا اور ہم قرآن مجید اور احایث نبوی میں بھی اس کا ذکر پاتے۔قادیانی حضرات چونکہ مرزا صاحب کو خدا کا نبی سمجھتے ہیں ، اس لیے وہ مرزا صاحب کے قول کو حق سمجھتے اور اس کی بنا پر اس طرح کے تصورات قائم کرتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ خواب شریعت میں نہ کوئی اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ کمی، اور نہ اب ختم نبوت کے بعد وہ دینی معلومات کا کوئی مستند ذریعہ ہو سکتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: اس سوال کے دو پہلوہیں۔ ایک پہلو خود نفس انشورنس سے متعلق ہے۔ یعنی کوئی ایسا نظام وجود میں لانا جس میں جانی یا مالی نقصان اٹھانے والوں کی بروقت مدد کی جائے ۔اس میں کوئی حرج نہیں۔دوسرا پہلو انشورنس کمپنیوں کے طریق کار سے متعلق ہے۔ اگر ان کا نظام سود ی ہے اور وہ انشورنس کرانے والے کو جو اضافی رقم دیتے ہیں یہ سود ہی ہوتا ہے تو یہ اضافی رقم ناجائز ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: ایک ادب قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا منع ہے، الا یہ کہ محض گزر جانا پیش نظر ہو۔ دوسری بات سنت سے معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ کہ مسجد میں داخل ہونے پر دو نفل رکعت پڑھی جائیں ۔باقی جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اصل میں اس رویے کا بیان ہے جو ایک بندہ مومن کو خدا کے گھر میں فطری طور پر اختیار کرنا چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید کا لازمی تقاضا ہے کہ اسے سوچ سمجھ کر پڑھا جائے۔ البتہ جو شخص بے سمجھے تلاوت کرتا ہے اس کے لیے کہ یہ بات بڑی اہم ہے کہ وہ انسان خدا کی کتاب سے متعلق رہااس اعتبار سے ثواب کی امیدرکھنی چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: بخاری میں یہ روایت سب سے پہلے کتاب الجنائز کے باب الصلوۃ علی الشہید میں نقل ہوئی ہے۔ بخاری کے ایک شارح بدر الدین عینی نے اس روایت کی سند پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سند کو صحیح ترین اسناد میں گنا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے سیاق وسباق کو سمجھنے کے لیے اس کا پورا متن سامنے رکھنا لیناچاہیے:

عن عقبۃ بن عامر أن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم خرج یوما فصلی علی أہل أحدعلی المیت ثم انصرف الی المنبر فقال إنی فرط لکم وأنا شہید علیکم وإنی واﷲ لأنظر إلی حوضی الآن وإنی أعطیت مفاتیح خزائن الأرض أو مفاتیح الأرض وإنی واﷲ ما أخاف علیکم أن تشرکوا بعدی ولکن أخاف علیکم أن تنافسوا فیہا۰

‘‘ عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے ۔ آپ نے اہل احد کے لیے نماز جنازہ پڑھی۔ پھر آپ منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا: میں تم سے آگے ہوں۔ میں تم پر گواہ ہوں۔ بخدا ، میں اس وقت اپنا حوض دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی یا دنیا کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ بخدا اپنے بعد مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ تم شرک کرو گے۔لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تم اس (دنیوی )دولت میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے۔’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایک خاص پس منظر رکھتا ہے۔ حضورﷺ نے جب مکہ میں دعوت کا آغاز کیا تھا تو آخرت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بیان کی تھی کہ انھیں ایک عظیم کامیابی حاصل ہوگی اورقیصر وکسری کی سلطنتیں ان کے زیر نگیں آجائیں گی۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں بڑے بڑے خزانے بھی ہاتھ آئیں گے۔ بدر کی فتح اس کامیابی کا نقطہ آغاز تھا۔ احد کے شہدا کی تعداد اگرچہ زیادہ تھی لیکن کامیابی کا سفر بہرحال جاری تھا۔ وہ وقت قریب نظر آرہا تھا جب مذکو رہ کامیابی واقعتا میں حاصل ہونے والی تھی۔ اسیطرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی دکھایا جا رہا تھا کہ اس دنیا سے جانے کے بعد وہ کیسے اپنے ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے حوض پر آئیں گے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ کامیابی کے نتیجے میں ان کے ساتھی ایک آزمایش سے دو چار ہوں گے۔ اس جملے میں آپ نے اپنے اسی احساس کو بیان کیا ہے۔ آپ اس حقیقت سے واقف تھے کہ وہ اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو شرک کے بارے میں پوری شدت سے متنبہ کر چکے ہیں اس لیے اس کا امکان تو نہیں کہ یہ لوگ واپس شرک کی طرف چلے جائیں گے لیکن جو(دنیوی) دولت حاصل ہوگی وہ انھیں اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ آپ نے اس خدشے کو بیان کر دیا تاکہ اہل ایمان اس کے بارے میں متنبہ رہیں۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ شرک کی نفی کا تعلق ایک خاص جماعت(یعنی صحابہ) سے ہے۔ عملًا بھی ایسا ہی ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متصل زمانے میں تو شرک راہ نہیں پا سکا لیکن بعد کے زمانوں میں بعض شرکیہ اعمال مسلمانوں کے گمراہ گروہ اختیار کرتے رہے ہیں۔باقی رہا، ہمارے ہاں فتاوی کا چلن تو اس کی وجہ فرقہ وارانہ کشمکش بھی ہے اور دعوت کی حکمت عملی سے نا آگاہی بھی۔ اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ لوگ جو غلط استدلال کی وجہ سے مشرکانہ اعمال میں مبتلا ہیں انھیں اس غلاظت سے نکالا جائے لیکن اس کا راستہ فتوی بازی نہیں بلکہ استدلال ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے انسان کو موت کے بعد کی جوابدہی سے آگاہ کرنے کے لیے نازل کیا گیا تھا۔ اس کا اصل موضوع یہی ہے۔ لہذا اس میں تخلیق کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کی قدرت اور حکمت کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے کیا گیا ہے نہ کہ زمین پر انسان کی عمر واضح کرنے کے لیے۔انسان اور کائنات کی عمر کے بارے میں اس میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ سائنس دان اس معاملے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم اس کی تردید یا تصویب کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنسی طریقوں ہی سے ڈیل کرنا چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید کا اصل ذریعہ انتقال زبانی روایت ہے۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح قرآن پڑھا اسی طرح لوگوں نے اسے یاد کر لیا اور نئے پڑھنے والے بھی انھی لوگوں سے قرآن کی عبارت کوسیکھ کر یاد کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں انھوں نے ابوالاسود الدؤلی کو مقرر کیا کہ وہ پڑھنے کی سہولت کے لیے حروف پرحرکات کی علامتیں بنا دے۔ واضح رہے کہ یہ علامتیں اس متفقہ قرات کے مطابق لگائی گئیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سکھائی تھی۔ ابو الاسود نے اس معاملے میں اپنی رائے پر کچھ نہیں کرنا تھا۔ اگر وہ اس میں اپنی رائے شامل کرتا تو امت اس کے کام کو رد کر دیتی۔ دوسرے مرحلے میں حجاج بن یوسف کو عبد الملک بن مروان نے یہ ذمہ داری دی کہ وہ ج ،ح اورد، ذ وغیرہ میں فرق کی شناخت کو مزید آسان بنائیں ۔حجاج نے اس کام کے لیے نصر بن عاصم اور حیی ین یعمر کو مقرر کیا۔ یہ صرف رسم الخط کی بہتری کا کام تھا ۔ ان دونوں کاموں کے ہونے کے متعین سال معلوم نہیں ہیں۔ ان لوگوں کی ذمہ داری قرآن کی مسلمہ قرأت اور املا کے طریقے کے بہتر کرنا تھا۔ قرآن مجید کے متن کے بارے میں اپنی کسی رائے کو ثبت کرنا نہیں تھا۔ آج کل جن علامات سے اعراب اور حروف میں فرق واضح کیا جا رہا ہے یہ اس کے بعد لیکن اسی زمانے کے ایک بڑے ماہر زبان خلیل بن احمد فراہیدی کی دریافت کردہ ہیں۔ لیکن اس سارے کی حقیقت محض رسم الخط کی بہتری سے ہے۔ اس کا متن قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔متن قرآن اسی طرح محفوظ و مامون ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: وہ تمام جماعتیں جو اپنے لیے وہی حقوق طلب کرتی ہیں جو حکومت کے حقوق ہیں(یعنی وہ حقوق جو شریعت نے صرف حکومت کے لیے خاص کیے ہیں) وہ غیر شرعی ہیں۔ البتہ وہ جماعتیں جو مسلمانوں کے علم وعمل کی اصلاح کے لیے کام کر رہی ہیں وہ بالکل شرعی ہیں۔سیاسی تفرقہ اور دینی تفرقہ کے اہداف مختلف ہیں اور دونوں ہی دین میں ممنوع ہیں۔ اختلاف رائے کی بنیاد پر بننے والی جماعتیں اصلا ًتفرقہ کے تحت نہیں آتیں البتہ بالعموم یہی اختلاف تفرقہ پر منتج ہوتا ہے۔ چنانچہ ان عوامل کے پیدا ہونے پر نظر رکھنی ضروری ہے جو علمی اختلاف کو تفرقہ بنا دیتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: مسلمان کے لیے ضروری صرف یہ ہے کہ وہ اپنے عقیدہ وعمل کی اصلاح کرے اور اپنے ماحول میں اپنی استعداد اوراستطاعت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو نیکیوں کے کرنے اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتا رہے۔ وہ مسلمان جو ان ملکوں میں رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں ہیں ان کے لیے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت کی اصلاح بھی ہونی چاہیے تو وہ تمام وہ طریقے اختیار کر سکتے ہیں جو ان کے ملکی قانون کے مطابق جائز ہیں۔ البتہ جن ملکوں میں سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت نہیں ہے ان میں طویل عرصے تک محض کلمہ حق کہنے تک کام کو محدود رکھنا پڑے گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آپ کو قضا روزے رکھنے ہیں۔ فدیہ کی اجازت فقہا صرف اس شخص کو دیتے ہیں جس کے لیے اب بظاہر احوال زندگی بھرروزہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: غیب کا علم کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے اعمال بالعموم جبت سے مشابہت اختیار کر جاتے ہیں ان سے بچنا ہی چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ یعنی آدمی نیکی کا جو بھی کام کرنا چاہے ، اس کے دل میں یہ ارادہ ہو کہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے یہ کام کر رہا ہوں ۔ نیت زبان سے کچھ کہنے کا نام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یہ جورواج ہو گیا ہے کہ نماز پڑھتے وقت یہ ضرورکہنا چاہیے کہ دو رکعت نماز فرض واسطے اللہ تعالی کے منہ طرف قبلہ شریف وغیرہ، یہ کوئی چیز نہیں ۔ دل میں ارادہ کیجیے اور بس اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دیجیے۔ زبان سے اس طرح کے کلمات کہنا نہ نماز میں کوئی چیز ہے نہ روزے میں ۔ رمضان میں روزہ رکھنے کی جو نیت بتائی جاتی ہے، وہ بھی لوگوں کے بنائے ہوئے الفاظ ہیں ۔ہرعبادت اور ہر نیکی کے کام میں آپ دل کا ارادہ کریں ، یہی کافی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: معرفت عبادت کی بنیاد ہے ۔ آپ جس کی عبادت کرر ہے ہیں، اس کو اگرپہچانا ہی نہیں تو عبادت کیا کریں گے ۔ کسی چیز کی معرفت حاصل ہو گی تو آپ اس کا حق ادا کریں گے ۔ قرآن مجید سے بھی یہی بات سمجھ آتی ہے۔کہا گیا کہ تم اپنے پروردگار کی بندگی کرو۔اب پہلے معرفت کروائی گئی کہ کون پروردگار۔بتایا گیا کہ جس نے تمہیں پیدا کیا ، تم سے پہلوں کو پیدا کیا ، جس نے زمین کو بچھونا بنایا ، جس نے آسمان کو چھت بنایا ، جس نے آسمان سے پانی برسایا اور تمہارے لیے روزی کا سامان بنایا۔ اس لیے یہ کہنا ٹھیک ہے کہ معرفت بنیاد ہے ، اس کا نتیجہ عباد ت ہے ۔یہی ترتیب ہونی چاہیے کہ پہلے پہچان ہو پھر عبادت ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارا دین کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ یہ وہی دین ہے جو سب انبیا نے پیش کیا۔اور نماز سب انبیا کے دین میں ویسے ہی موجود تھی جیسے ہمارے ہا ں ہے ،انہی اوقات کے ساتھ اور اسی اہتمام کے ساتھ ۔اسی طرح زکوۃ بھی تھی۔ حج اور عمرے کے بارے میں تو ہر شخص جانتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ایسے ہی تھا ۔ قربانی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان تمام عبادات اورمعاملات میں جہاں کوئی بدعت داخل ہو چکی تھی ، قرآن مجید نے اس کی اصلاح کر دی ، کوئی انحراف ہو گیا تھا تواس کو درست کر دیا ، کوئی چیز ضائع کر دی گئی تھی تو اس کو جاری کر دیا گیا ۔اسلام ہمیشہ سے موجودتھا۔ سیدنا ابو ذر غفاریؓ کے اسلام لانے کی جو روایت بیان ہوئی ہے اس میں انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ میں نے ابھی نبیﷺ کی بعثت کے بار ے میں سنا بھی نہیں تھا کہ میں عشا اور فجر کی نماز کا پابند ہو گیا تھا ۔ عرب بھی نماز پڑھتے تھے ، یہود بھی نماز پڑھتے تھے۔ یہود کے ہاں بالکل ایسے ہی پانچ نمازیں تھیں جیسے ہمارے ہیں البتہ انہوں نے دونمازوں کو جمع کر کے تین بنا رکھا تھا۔اصل میں پانچ ہی نمازیں تھیں ، اسی لیے قرآن نے نماز کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی صرف یہ کہا کہ نماز پڑھو ،کیونکہ نماز سے لوگ پہلے سے واقف تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فجر یا عصر کے بعد کوئی نفل نہیں پڑھے جا سکتے ،یہ اصل میں سد ذریعہ کا حکم ہے کیونکہ اس میں وہ وقت آرہا ہوتا ہے جس میں سورج نکلنے یا غروب ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے حضورﷺ نے کہا کہ احتیاط کرو کیونکہ سورج طلوع اور غروب ہوتے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے تک سورج دیوتا کی پرستش انہی اوقات میں ہوتی رہی ہے۔ آپ کو اگر پورا اطمینان ہو کہ سورج غروب نہیں ہو رہا یا طلوع نہیں ہو رہا اور آپ کوئی نفل پڑھنا چاہیں تو اس کی ممانعت نہیں ۔ خود رسول اللہﷺ کے بارے میں معلوم ہے کہ کچھ نفل ظہر کے رہ گئے تھے تو آپﷺ نے عصر کے بعد پڑھے اور ایک موقع پرجب ام المومنین غالباً ام سلمہؓ نے پوچھا تو آپ نے اس کی وضاحت کی یہ کچھ نوافل تھے جو میں پڑھ رہا تھا ۔آج کل ہمارے ہاتھ میں گھڑی ہوتی ہے اور ہم کافی اطمینان سے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سورج غروب ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا ، اس زمانے میں یہ صورت نہیں تھی اور اس کا اندیشہ ہوتا تھا کہ عبادت کرنے والے لوگ ان اوقات میں عبادت نہ کرنے لگ جائیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج : نماز میں دوطرح کے اذکار ہیں بعض متعین اوربعض غیر متعین مثلاًعربی زبان میں جو اذکار متعین اورضروری ہیں وہ اللہ اکبر ، سمع اللہ لمن حمدہ ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، سورہ فاتحہ ا ور قرآن کا کچھ حصہ ملانا ہے، باقی تمام اذکار میں آزادی ہے۔ البتہ یہ یاد رکھیں کہ یہ اذکار تسبیح یا تحمید کی قسم کے ہونے چاہیں۔( تسبیح سے مراد سبحان اللہ یا اس طرح کے کلمات ہیں اسی طرح تحمید سے مراد اللہ کا شکر اللہ کی حمد الحمد للہ جیسے کلمات ہیں)اسی طرح دعاؤں میں بھی آزادی ہے جو دعائیں بھی آپ چاہیں کر سکتے ہیں ۔ برصغیر میں علما نے عوام کی سہولت کے لیے رب اجعلنی کی دعا سکھا دی ہے لیکن یہ کوئی متعین نہیں ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی دعائیں کی جا سکتی ہیں۔ رکوع میں رسول اللہﷺ صرف سبحان ربی العظیم ہی نہیں پڑھتے تھے بلکہ بہت سی اور تسبیحات بھی کرتے تھے۔یہی صورت سجدے کی تھی۔ لیکن بہر حال وہ تسبیح ، تحمید یا دعا و مناجات ہوتی تھی۔ بعض چیزوں کے بارے میں حضور نے متنبہ بھی فرمایا ہے کہ یہ نہیں پڑھنی چاہییں۔مثلاً کہ رکوع اور سجدہ میں قرآن نہیں پڑھناچاہیے البتہ دعا کی جا سکتی ہے اور قرآن کی جو دعائیں ہیں وہ بھی ان مواقع پرکی جاسکتی ہیں۔ سبحان ربی ا لاعلی کے بجائے آپ کوئی اور ذکر کر لیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح آپ سبحان ربی العظیم کی جگہ کوئی اور چیز پڑھ لیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا بشرطیکہ وہ تسبیح یا تحمید کی نوعیت کی چیز ہو۔خود رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک صاحب نماز میں آکر ملے اور انہوں نے ربنا لک الحمد کے بعد کہا حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے کلمات کہے۔ حضورﷺ نے نماز پڑھانے کے بعد پوچھا یہ کون تھے تو وہ گھبرائے کہ شاید کوئی غلطی ہو گئی ہو لیکن جب آپ ﷺنے بار بار پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے یہ جسارت کی تھی ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیس فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کو پانے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے ۔ اس طرح گویا آپﷺ نے بتایا کہ نماز اور کس چیز کا نام ہے ، آپ اس میں دعائیں کیجیے ، حمد کیجیے تسبیح کیجیے ۔ حضور ﷺنماز میں جودعائیں مانگتے تھے وہ حدیث کی کتب میں محفوظ ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک موقع کے لیے وہ بہت سی دعائیں اور اذکار ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج : کئی وجوہ ہو سکتی ہیں ، خاص طور پر خواتین چونکہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں تو بعض اوقات اس طرح ڈر سا محسوس ہوتا ہے ۔بعض مردوں کے ساتھ بھی یہی صورت ہو جاتی ہے۔ اس کا سبب عام طور پر نفسیاتی ہوتا ہے ایمان کی کمزوری کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ایسی صورت میں بالکل گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ کچھ دیر تک جب آپ اٹھتی رہیں گی تو خودبخود ہی مانوس ہو جائیں گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز کے دو حصے ہیں ۔ ایک حصہ وہ ہے جس کو امت کے لیے جاری کر دیا گیا ہے،یعنی لازمی ہے۔ اس میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ کیاجاسکتا ہے۔ اس حصہ میں کچھ اعمال ہیں اورکچھ اذکار ہیں ۔ اعمال یہ ہیں کہ آپ رفع یدین کر کے نماز شروع کریں گے ، قیام کریں گے، رکوع میں جائیں گے ، قومے کے لیے اٹھیں گے ، دو سجدے کریں گے ، دو رکعتوں کے بعد اور آخری رکعت میں قعدے میں بیٹھیں گے ، منہ پھیر کر نماز ختم کر دیں گے ۔ یہ اعمال ہیں جو جاری کیے گئے ہیں۔ اورلازمی اذکار یہ ہیں۔ خفض و رفع پہ اللہ اکبر کہیں گے ، رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہیں گے اور نماز ختم کرتے ہوئے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہیں گے ، سورہ فاتحہ پڑھیں گے اس کے بعد قر آن ملائیں گے ۔ یہ اذکار ہیں جو جاری کر دیے گئے ہیں ۔ یہ نماز وہ نماز ہے جس میں پوری امت میں نہ کبھی اختلاف ہوا ہے اور نہ اب ہے۔ اس نماز کو جو آدمی پڑھتا ہے وہ نماز کا حق ادا کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد نماز کا اختیاری حصہ ہے جس میں بہت سی دعائیں ، تسبیح و تحمید کی جا سکتی ہے۔ ان میں کوئی پابندی نہیں حضور نے ان مواقع پر ایک سے زیادہ دعائیں اور اذکار کیے ہیں۔ تسبیح اور تحمید جہاں چاہے کر سکتے ہیں ، اسی طرح قیام میں سورہ فاتحہ اور قرآن ملانے کے بعد دعا کر سکتے ہیں ، آپ قومے میں دعا کر سکتے ہیں ، آپ دو سجدوں کے درمیان دعا کر سکتے ہیں ، یہ اختیاری حصہ ہے ، اس اختیاری حصہ میں رسول اللہﷺ سے جو چیزیں ثابت ہیں وہ سب احادیث کی کتب میں محفو ظ ہیں۔نماز کے لازمی اعمال و اذکار ہر حال میں ادا کرنے ہیں۔ ہمارے ہاں نماز کے بارے میں جو سر پھٹول ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کے لازمی اور اختیاری حصہ میں فرق نہیں سمجھا گیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی کی ذات کا کوئی تصور کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ انسانی علم کا اگر تجزیہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ہم صرف وہی باتیں جان سکتے ہیں جو ہمارے حواس کی گرفت میں آ جائیں ۔اللہ کی ذات کا توکوئی تصور قائم کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے البتہ اللہ کی صفات کا ایک تصور ہم قائم کرسکتے ہیں۔ لیکن اس طرح بھی جو تصور قائم کرنے کی کوشش کریں گے وہ ہمارا اپنا تخیلاتی ہیولا ہو گا ، اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہو گی ۔ گویا کہ ہر آدمی کا پروردگار اس کی ذہنی ساخت کے مطابق بن جائے گا ۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ اس طرح کے کسی تصور کو خدا نہیں سمجھ لینا چاہیے ۔ہمارے سامنے اللہ کی صفات کا ایک بڑا ہی تفصیلی بیان قرآن میں ہے ، بس ان صفات سے جو ہیولہ ہمارے ذہن میں بنتا ہے وہ صفاتی ہو گا ، اسی کو سامنے رکھ کر آپ یہ خیال کریں کہ آپ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں ۔ حضورﷺ نے اس مشکل کو حل کیا ہے ، جہاں یہ بات کہی ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ تم اللہ کی بندگی کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو ، نہیں دیکھ رہے، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے ، وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ پروردگار ہمیں دیکھ رہا ہے اس کا تصور قائم کرلینا چاہیے ، یہ کافی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے ہاں قضائے عمری کا جوتصور رائج ہے وہ کوئی چیز نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر کسی آدمی کی بہت سی نمازیں قضا ہو گئی ہیں اور اب اللہ نے اس کو شعور دیا ہے تو وہ نماز کیسے پڑھے ۔ اس میں اہل علم کے تین موقف ہیں ، تین موقف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ ا ور اس کے پیغمبر نے کوئی بات نہیں کہی ، جس کی بنا پر اجتہاد کیا گیا ہے اور اجتہاد کرنے والوں کی تین آرا ہو گئی ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ آپ باقاعدہ ترتیب کے ساتھ وہ نمازیں پڑھیں گے یعنی آپ یہ نیت کر کے پڑھیں گے کہ میں آج فلاں دن کی نماز پڑھ رہا ہوں ۔ دوسرا نقطہ نظر جو امام ابن تیمیہؒ کاہے وہ یہ ہے کہ آپ جو نوافل پڑھتے ہیں ان کی جگہ آپ فرض نماز کی نیت کر لیں ، اللہ وہ بھی قبول کرے گا اور نوافل کا اجر بھی دے دے گا ، وہ اجر دینے میں بہت فراخ واقع ہوا ہے ۔ تیسرا نقطہ نظر امام ابن حزمؒ کا ہے ، وہ یہ کہتے ہیں کہ کیونکہ اس میں اللہ تعالی اور اس کے پیغمبر نے کوئی قانون سازی نہیں کی تو ہمارے لیے یہی راستہ ہے کہ اللہ سے معافی مانگیں اور تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے ، آپ کو جو بات معقول لگے اس کو اختیار کر لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا ہو جاتا ہے ، بعض اوقات انسان بہت کوشش کرتا ہے مگر پھر بھی دل نہیں لگتا۔اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں ، گناہ ہو جائے ، نظر کاغلط استعمال ہو جائے یا معاملات میں کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو عام طور پر عبادت میں حلاوت نہیں رہتی۔ بحیثیت مجموعی اپنے ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔پھر بھی یہ کیفیت طاری رہے تو یہ شیطان کا دھوکہ ہوتا ہے کہ بند ہ نماز چھوڑ بیٹھے۔بس محتاط رہیے کہ کہیں نماز نہ چھوڑ بیٹھیں ۔ اڑے ہوئے دل کے ساتھ بھی نماز پڑھے ، اللہ یہ کیفیت آہستہ آہستہ دور کر دیتے ہیں۔ ایسا ہوتا رہتا ہے جیسے ہم باقی معاملات میں یکساں نہیں ہوتے کسی دن بہت اطمینان سے کام پر جاتے ہیں ، کسی دن تھکے ہوتے ہیں ایسی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں تو یہ چیزیں عبادات میں بھی ہو جاتی ہیں

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز میں قیام کرنا سنت ہے ، ہاتھ باندھے جائیں یا نہیں ، اس کا تعلق روایات سے ہے اور حضورﷺ کے بارے میں یہ روایت معلوم ہے کہ آپﷺ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے تھے ۔ اگر کسی آدمی کے نزدیک وہ روایت ثابت نہیں ہے تو وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ نماز کا لازمی جزو بس قیام ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: چاروں آئمہ میں سے کسی کی یہ رائے نہیں ہے کہ اگر فجر کی دو رکعات نہیں پڑھیں جن کو سنت کہا جاتا ہے تو نماز نہیں ہو گی ۔ یہ کسی عامی نے آپ کوبتاد یا ہو گا،کوئی عالم یہ نہیں کہہ سکتا۔ میرے نزدیک فجر کی لازمی نماز دو رکعت ہے ، اس سے پہلے جو دورکعت آپ پڑھتے ہیں وہ نفل ہیں ۔ پڑھیں گے تو بڑا اجر ملے گا ۔ اگر نہیں پڑھیں گے تو ایسا نہیں کہ نماز ہی نہیں ہو گی ۔نماز تو ہو جائے گی البتہ ایک بڑے اجر سے محرومی ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس بارے میں کوئی بات بھی مسلمانوں پر لازم نہیں کی گئی ۔آپ نماز جنازہ میں جو دعا چاہیں کر لیں ۔سورہ فاتحہ بھی ایک دعا ہے ،پڑھنا چاہتے ہیں تو پڑھ لیں ، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ یہ جوعام طور پر نماز جنازہ کے طریقے میں فرق موجود ہے یہ فقہا کی تحقیق کے نتائج میں فرق کی بنا پر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز کامقصد خود قرآن نے بیان کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نماز اس لیے لازم کی گئی ہے تاکہ خدا یاد رہے ۔ اقم الصلوۃ لذکریخدا کی یاد کو قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نمازہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ادا کی جا سکتی ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو عشا کے بعد پڑھنے کی اجازت دے دی ہے ، اگر کوئی آدمی نہیں اٹھ سکتا تو عشا کے بعد پڑھ لے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ادا کی جا سکتی ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو عشا کے بعد پڑھنے کی اجازت دے دی ہے ، اگر کوئی آدمی نہیں اٹھ سکتا تو عشا کے بعد پڑھ لے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سلام نماز کے ختم کرنے کا سنت طریقہ ہے ۔ نماز شروع کرنے کی علامت رفع یدین ہے اور ختم کرنے کی علامت سلام پھیرنا ہے ۔ شہادت کی انگلی توحید کی گواہی دینے کے لیے اٹھاتے ہیں۔ حضورﷺ نے اسی طریقے سے اٹھائی ہے ۔ یہ سنت اجماع کے ساتھ منتقل ہوئی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز اصل میں رکوع ، سجود ، قعدے ، قیام کا نام ہے ۔اس وقت ان قوموں کے ہاں اللہ کی جو کتاب تھی وہ پڑھی جاتی تھی ۔ جب قرآن نازل ہوا توسورہ فاتحہ آگئی ۔ باقی نمازکے اعمال ویسے کے ویسے ہی رہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بات یوں نہیں ہے کہ حرمین میں زوال کا وقت نہیں ہوتابلکہ بات یوں ہے کہ چونکہ زوال کے وقت یا طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت اس لیے کی گئی تھی کہ اس موقع پر آفتاب کو پوجنے والے اس کی عبادت کیاکرتے تھے۔ حرمین چونکہ توحید کا مرکز ہیں اور ان مراکز میں اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ لوگ اس بات کو گڈ مڈ کر دیں گے اس لیے بعض علماکے نزدیک اس بات کی اجازت ہے ۔ خیال رہے کہ سارے علما کا یہ موقف نہیں ہے ، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہاں بھی ان اوقات کالحاظ کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دروداللہ کے حضور میں ایک دعا ہے جو ہم حضورﷺ کے لیے کرتے ہیں ۔ کیونکہ نماز میں اللہ تعالی نے ہمیں بہت سی دعائیں کرنے کی اجازت دی ہے ، اس لیے ہم حضور ﷺ کے لیے بھی کرتے ہیں۔صحابہ کرامؓ نے حضورﷺ سے پوچھا کہ ہم آپ کے لیے بھی دعا کرنا چاہتے ہیں تو کیا طریقہ اختیار کریں ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ آپ خاموش رہے ، بار بار پوچھنے پر آپﷺ نے کہا کہ میرے لیے اس طرح دعا کیا کرو ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک رفع یدین تو وہ ہے جس سے نماز شروع ہوتی ہے ، وہ لازمی ہے ۔ اس کے بعد باقی مواقع پر آپ چاہیں تو کر لیں چاہیں تو نہ کریں ، نبی ﷺ نے کبھی کبھی کیاہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے کسی موقع پر اگر پانچوں نمازیں رہ گئی ہیں تو آپ پانچوں نمازیں اکٹھی قضا پڑ ھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اسے معمول بنا لیں اور یہ طے کر لیں کہ میں پانچوں نمازیں اکٹھی ہی ادا کرلیا کروں گا تو اس کی اجازت نہیں ہے اورنہ کوئی گنجائش ہے بلکہ گنجائش تو تین کی بھی نہیں ہے ۔پانچ نمازیں پانچوں اوقات ہی میں پڑھی جائیں گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے ہاں جیسے لوگ نماز کے بعد دعا کرتے ہیں ،یہ طریقہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں نہیں تھا ۔ لوگ انفرادی دعا کر لیتے تھے ۔ جس نے جاناہوتا تھا چلاجاتاتھا۔ اصل میں نماز کے اندر دعا کو باقاعدہ رکھا گیا ہے ۔یعنی قعدہ اصل میں دعا کی جگہ ہے ۔ نماز کے بعد جیسے ہمارے ہاں لوگ ایک معمول کے طور پردعا کرتے ہیں یا دعا کراتے ہیں یہ طریقہ حضور ﷺکے زمانے میں نہیں تھا۔ البتہ اگر متقدیوں میں سے کسی نے کہہ دیا تو آپﷺ دعا کر دیتے تھے ۔اور ایسے ہی اگر کوئی غیرمعمولی صورتحال ہوتی جس میں حضورﷺ پسند فرماتے کہ سب کو شریک کیا جائے تو سب کو شریک کر لیتے تھے لیکن عام طریقہ یہی تھا کہ نماز پڑھیے ، اپنی دعا کیجیے اور گھر جائیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ ایک بڑا پاکیزہ ذکر ہے ، حضورﷺ نے بھی اس کی بڑی تحسین فرمائی ہے ، اگر آپ کریں گے تو امید ہے کہ اللہ کے ہاں آپ کو بڑی نعمت حاصل ہو گی ۔اس کو سمجھ کر کیجیے یہ بہت پاکیزہ ذکر ہے یعنی اس میں اللہ کی توحید کی گواہی دی جاتی ہے ،اس کا شکر ادا کیا جاتا ہے اوراس کی کبریائی کا اعتراف کیا جاتا ہے اگر یہ صحیح شعور کے ساتھ ہو تو یہ ہمارے ایمان کا بہترین اظہار ہے اور اللہ سے تعلق کی بھی بہترین علامت ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز والی جگہ کوئی ایسی چیز نہ ہونی چاہیے کہ جوآپ کی توجہ کواپنی جانب مبذول کرلے اگر تصویر سے توجہ بٹتی ہے تو اسے ہٹا دیں اگر توجہ مرکوز رہتی ہے تو تصویر سے کچھ نہیں ہوتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اقامت صلوۃ کا مطلب ہے نماز کا اہتمام کرنا یعنی نماز کو اللہ کے دین کا ایک بڑا حکم سمجھ کر بڑے اہتمام سے ادا کرنا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعہ کی نماز دو رکعت فرض ہے ،یہ اگر پڑھ لی تو آپ مواخذہ سے بچ گئے۔ جمعہ سے پہلے کوئی نفل نماز حضورﷺ نے نہیں پڑھی سوائے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے ۔ جمعہ کے بعد آپﷺ کبھی دو رکعت پڑھتے تھے اور کبھی چار ۔ دو اور چار یا چار اور دو نہیں پڑھیں ۔کبھی دو اور کبھی چار ۔ یہ بات روایات میں بیان ہو گئی ہے ، بعد کے لوگوں نے کہا کہ کیونکہ کبھی چار اور کبھی دو پڑھتے تھے تو ہم دو بھی پڑھ لیتے ہیں اور چار بھی پڑھ لیتے ہیں تو انہوں نے چھ بنا دیں ۔نفل نماز ہے کوئی پڑھنا چاہے تو اچھی بات ہے لیکن حضورﷺ سے ثابت اتنا ہی ہے ۔ یہ بات کہ حکومت کے بغیر جمعہ نہیں ہوتا ،اصولاً ٹھیک ہے۔ لیکن مسلمان اب صدیوں سے حکومت کے بغیر ہی جمعہ پڑھ رہے ہیں تو اسے جاری رہنا چاہیے ۔کیونکہ جب کوئی عمل خواہ تیمم کے طریقے پر ہی کیاجاتا ہے توپھر اس میں احتیاطاً کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی آپ نے تیمم کیا اور آپ کو اطمینان تھا کہ اس وقت پانی نہیں ہے تو تیمم کر کے آپ نے نماز پڑھ لی ، اب پانی موجود ہو گیا تو احتیاطاً نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے احتیاطی ظہرکوئی چیز نہیں ہے ۔ آپ جمعہ پڑھ لیجیے بس آپ ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے ۔ یہ کام حکمرانوں کا ہے جب اللہ ان کو توفیق دے گا وہ مسجد میں آ جائیں گے ، آئیں گے تو جمعہ پڑھا دیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نمازمکروہ نہیں قضا ہو جائے گی کیونکہ آدھی رات تک ہی عشا کاوقت ہوتا ہے۔ البتہ اگر آپ اس وجہ سے سو گئے کہ بہت تھکے ہوئے تھے، تھوڑے آرام کے لیے لیٹے لیکن لیٹتے ہی اچانک آنکھ لگ گئی تو اس میں البتہ جب آپ کی آنکھ کھلے فوراًنماز پڑھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا شخص ایک کام اچھا کر رہا ہے اور ایک بہت برا ۔ جس طرح بندوں کے بارے میں جو جرائم ہیں ان سے بچنا ضروری ہے اسی طرح اللہ کے مقابلے میں بھی انسان کو سرکش نہیں ہونا چاہیے ۔نماز اللہ کے حضور حاضری ہے ، اس کا بندوں سے اچھا یا برا ہونے سے کیا تعلق ہے ؟ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی کہے کہ میں لوگوں کے ساتھ بہت اچھا معاملہ کرتا ہوں ان کی ہر ضرورت پوری کرتا ہوں لیکن ماں باپ کو گالیاں دیتا ہوں اورکہے کہ ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے ، میں ان لوگوں سے تو اچھا ہی ہوں جو ماں باپ کو گالیاں نہیں دیتے اوران کی خدمت کرتے ہیں لیکن باقی بندوں کا حق ادا نہیں کرتے …… خدا کا ایک حق ہے وہ بھی ہمارے ذمہ ہے اور بندوں کے حقوق ہیں وہ بھی ہمارے ذمہ ہیں۔ اس میں تفریق کر کے ایک دوسرے پر برتری جتانے کی کیا وجہ ہے ،دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں۔ آدمی کو عاجزبن کر ہی رہنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وتر میں دعائے قنوت پڑھنا لازم نہیں ہے ، اگر آتی ہے تو پڑھ لیجیے اچھی بات ہے ، نہیں آتی تو نہ پڑھیے ،کوئی اور دعا پڑھ لیجے ۔ اس سے نماز میں کوئی کمی نہیں واقع ہوتی ، ایک دعا ہے کریں گے تو بہت اچھی دعا ہے ، نہ کریں تو نمازالبتہ ہو جاتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں جس کا ذکر ہے وہ تو عصر کی نماز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عصر کی نماز بالخصوص جنگ کے موقع پرایسی صورت پیدا کر دیتی تھی کہ اس کے ضائع ہونے کا بڑاامکان ہوتا تھا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہر وہ نماز جوتمدن کی تبدیلی کے ساتھ ایسے موقع پر آجائے کہ جس میں آدمی بہت مشغول ہو اور نماز کے لیے اٹھنا مشکل ہو جائے تو خاص طور پر تاکید فرمائی ہے کہ اس نماز کو ضائع ہونے سے بچایاجائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر کوئی ایسا معاملہ ہو رہا ہے جس میں فوراً روکنا ضروری ہے تو آپ سبحان اللہ کہہ سکتے ہیں ۔ ہاتھ سے اشارہ کر سکتے ہیں اور اگر کوئی خطرناک صورتحال ہے تو آپ نماز توڑ دیجیے اور بچے کو متنبہ کر کے نماز پوری کر لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب آپ نکاح کرتے ہیں تو بیوی کے نان و نفقے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔مہر اس ذمہ داری کی ٹوکن منی (علامت )ہے ۔ یہ نکاح کے فوراً بعد ادا ہونا چاہیے ، اس کاطلاق سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ اس میں حق مہر صرف اس لیے لکھا جاتا ہے کہ اگر طلاق ہو گئی تو زیر بحث آئے گا ۔ یہ عورت کا حق ہے اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ فوراً اس کوادا کریں۔ یہ نکاح کا ایک لازمی جزو ہے ،اور بغیر کسی تاخیر کے فوراً ًدینا چاہیے ۔ یہ قرض ہے اور اگر ایک دن بھی تاخیر کرتے ہیں تو آپ مقروض کی موت مرتے ہیں، اس وجہ سے اس معاملے میں تاخیر اور طلاق کا کوئی سوال نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی نے قرآن میں بتا دیا ہے کہ میں نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم شعور کے ساتھ اس دنیا کی آزمائش میں پورے اترو ۔اس استحقاق کی بنیاد پر میں تم کو اپنی جنت عطا فرماؤں گا ۔ اس نے فیصلے کی بنیاد اپنے علم کی بنا پر نہیں رکھی بلکہ ہمارے عمل پر رکھی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ سوال ہمارے قومی مزاج کی صحیح عکاسی ہے۔ ہمارے لیے دین سیکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، قرآن سیکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، مسئلہ ہے تو صرف یہ کہ کسی معاملے میں اگر تسلی نہیں ہوئی تو ہم ساری چیزوں سے محروم ہو جائیں گے۔ سب سے پہلے آدمی کو اپنے اس رویے کی اصلاح کرنی چاہیے اور اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ وہ سب چیزوں کو شیطان اور ملائکہ کے خانے میں نہ ڈالے ، اختلافات کے باوجود خیر سے فائدہ اٹھائے اور اگر کسی چیز پر اطمینان نہ ہو تو اس پر گفتگو جاری رکھے ۔ فرقہ بازی اسی رویے سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے اس رویے کی اصلاح ہونی چاہیے ۔یہی رویہ بحیثیت امت ہماری بدقسمتی بن گیا ہے ۔

            نماز کے بعد اجتماعی دعا نبیﷺ سے ثابت ہی نہیں تو مانگنے کا کیا سوال ۔ یہ صرف ہندستان میں ایک روایت بن گئی ہے ۔ آج بھی ہندستان کے باہر عالم اسلام کے علما بالعموم اس طرح دعا نہیں مانگتے ۔ حضورﷺ نے کبھی محسوس کیا کہ اجتماعی دعا کی ضرورت ہے ، یا لوگوں میں سے کسی نے درخواست کر دی کہ بارش یا کسی اور کام لیے دعا کردیں ، تب آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ انفرادی دعا کیجیے ، اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اجتماعی دعا نبیﷺ کی سرے سے سنت ہے ہی نہیں ۔ یہ ہماری ہندستانی روایت ہے ، اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ دین کے معاملے میں ہمارے علم کا حال یہ ہو گیا ہوا ہے کہ جو چیزیں روایت پکڑ جاتی ہیں ان کے بارے میں کوئی جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ اصل دین کیا ہے

(جاوید احمد غامدی)

ج: لازمی ہے ، اللہ تعالی نے خود اس کو لازم کیا ہے اور اسی کے ذریعے سے ہماری نمازیں پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کے رخ پر ہو جاتی ہیں ، یہ ضروری ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پھر بیوی کو عدالت میں طلاق کا مطالبہ کرنا پڑے گا ۔ اس کا شوہر رجوع کا حق رکھتا ہے ، وہ اگر نہیں چاہتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ طلاق چاہتی ہے ۔اس کے لیے اسے عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا ، اس کے بعد طلاق واقع ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہر بچے کے معاملے میں معاشرے کو حساس ہونا چاہیے کہ وہ دین بھی سیکھے اور دنیا بھی ۔کسی معاشر ے کے لیے یہ آخری درجے کی شکاوت کی بات ہے کہ اس میں خواتین اور بچوں کو کام کرنا پڑے ۔ سوسائٹی کو کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کو کام نہ کرنا پڑے لیکن ہم انفرادی طور پر اس کو تبدیل نہیں کر سکتے اس لیے اس کا دوسراپہلویہ ہے کہ اگر ایک بچے کو ملازمت کرنا ہی ہے تو اچھا ہے کہ آپ کے ہاں کر لے ، آپ کم سے کم شفقت سے تو پیش آئیں گے ، ہو سکتا ہے اللہ آپ کو توفیق دے تو آپ اس کی تعلیم کا بندوبست بھی کر دیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضرت عمرؓ بہت زیادہ مشورہ کیا کرتے تھے بلکہ اگر اختلاف ہوتا تو باقاعدہ شوری بلا کر بھی مسائل حل کرتے تھے ۔روزمرہ کے معاملات کے لیے مہاجرین کی شوری موجود تھی ، اس کے اجلاس وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے تھے اور بڑے معاملات انصار اور مہاجرین مل کر حل کرتے تھے ۔ اس کو بالکل متناسب نمائندگی کے طور پر بلایا جاتا تھا۔ ایک موقع پر جب زمینوں کا فیصلہ ہوا تو آپؓ نے حکم جاری کیا کہ پانچ پانچ آدمی انصار کے دونوں قبیلوں میں سے آئیں اور باقی مہاجرین اس میں شریک کیے گئے تھے ۔ اگر کسی معاملے میں آپ نے اپنااجتہاد نافذ کیا اور صحابہؓ نے اس سے اختلاف نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو بھی سب صحابہ کی تائید حاصل ہو گئی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ واقعہ بہت صحت کے ساتھ ثابت نہیں ۔ اس میں واعظوں نے کچھ ایسی تفصیلات شامل کردی ہیں جو بالکل خلاف عقل ہیں ، اس لیے اس واقعے پر زیادہ توجہ نہیں دینی چاہیے تاہم اگر کوئی ایسی بات ہوئی بھی ہے اور انہوں نے دو جرائم کیے بھی تھے تو دونوں کی سزا دی جا سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جو لوگ مشرکانہ تصویریں بناتے تھے اور ان کے سامنے جا کر نذر نیاز پیش کرتے تھے ، دعائیں کرتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ یہ تصاویر ہمارے لیے نفع نقصان کا باعث بنیں گی ، اس طرح کے لوگوں کو اللہ کہیں گے کہ جن کو تم زندہ سمجھ کر پوجتے رہے ہو ان میں جان بھی ڈالو اور مجھے دکھاؤکہ ان پتھروں کی کیاحیثیت ہے ۔یہ مطلب ہے اس کا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بچوں کی تربیت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ والدین جو کچھ بچوں کو بنانا چاہتے ہیں ، گھر میں خود اس کانمونہ بنیں اور بچوں میں ہمیشہ خیر کے پہلو کو نمایاں کریں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلی بات یہ کہ مسلمان کبھی خاموش تماشائی نہیں بنے گا وہ اصلاح کرے گا ، ایک ایک کے پاس جائے گا ، ان کو خدا کا واسطہ دے گا ، لڑنے سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا ، نصیحت کرنے والا بن کر ان کادامن پکڑے گا اور ان سے کہے گا کہ آپ یہ کام نہ کریں ۔ یہ طریقہ ہر مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے ۔ جب بھی اس طرح کا معاملہ ہوتو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ کسی جتھے کے ساتھ آدمی تلوار نکال کر کھڑا ہو جائے ۔         

(جاوید احمد غامدی)

ج: نکاح اصل میں تومرد اور عورت کے درمیان ایک آزادانہ معاہدہ ہے لیکن قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ سوسائٹی کے جو معروفات ہیں ان کے مطابق ہونا چاہیے ۔ انہی معروفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح میں خاندان اور اس کے بڑے شریک ہوں تاکہ سوسائٹی کے اندر اچھی روایات پیدا ہوں ۔ اگرصورت حال یہ ہو کہ نہ باپ موجود ہے نہ بھائی موجود ہے نہ خاندان والے موجود ہیں تو یہ ایک مخدوش صورتحال ہوتی ہے ۔ ایسے میں عدالت فیصلہ کر سکتی ہے کہ یہ نکاح اصل میں نکاح ہی نہیں ہے ۔نکاح کے لیے اعلان بھی شرط ہے خفیہ نکاح کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انسان کو اعتماد رکھنا چاہیے کہ میرا مالک میری اتنی آزمائش کرے گا جتنی اس نے مجھے طاقت دی ہے ۔ جب انسان کم ظرفی کا ثبوت دیتا ہے تو آزمائش لمبی ہو جاتی ہے ، اگر وہ اپنے مالک پر اعتماد کر کے کھڑا ہو جائے تو اللہ تعالی اس کے بعد آزمائش اٹھا لیتے ہیں ۔ہمیں اپنے ضعف ایمان کیوجہ سے آزمائش ضرورت سے زیادہ سخت محسوس ہوتی ہے ۔اصل میں جو کھوٹ ہوتا ہے اس کو نکالنے کے لیے آزمائش لمبی کر دی جاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ ایک ایسے شخص کا نام ہے جس نے رسول اللہﷺ کا نامہ مبارک چاک کر دیا تھا۔اس حوالے سے مسلمانوں کے اندر فطری نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ہیں۔البتہ یہ نہیں کہاجا سکتا کہ یہ شریعت کا مسئلہ ہے۔ لیکن بہر حال ان فطری جذبات کی رعایت کی جانی چاہیے۔ اگر کوئی ناپسند کرتا ہے تو نہ رکھے لیکن شریعت نے بہر حال اسے ممنوع قرار نہیں دیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس حد تک ہے جہاں تک کہ آپ اخلاقی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرتے ۔ ہم نے آزادی کی روایت اس طرح قائم کی ہے کہ ہمارے ایک خلیفہ راشد کے خلاف تحریک چلی ، لوگ مصر سے جمع ہونے شروع ہوئے اور ملکوں ملکوں پھر کے انہوں نے اپنے ساتھی اکٹھے کیے اور مدینہ میں آکے مسجد پر قبضہ کر لیا اور خلیفہ کے مکان کا گھیراؤ کر لیا لیکن ان کے خلاف ایک تنکہ بھی نہیں اٹھایا گیا بلکہ خود خلیفۃ المسلمین نے بار بار لوگوں کو بھیجا کہ ان کو سمجھائیے ۔ دنیا میں کہیں بھی کسی ملک کے اندر اتنی آزادی نہیں دی جاتی کہ وہ وقت کے حکمران کو ہی شہید کر دیاجائے۔ بلوائیوں نے سیدنا عثمانؓ کو شہید کر دیا اور سیدنا عثمانؓ اس وقت بھی ان کے خلاف کوئی ریاستی اقدام کرنے پر راضی نہ ہوئے ، اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی ، اگر کسی حکومت نے کوئی پابندی لگائی ہے تو اس کی ذمہ داری اسلام پر نہیں عائد ہوتی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ جنت کے خدام ہیں۔بالکل نوخیزبچے ہونگے اور تربیت یافتہ ہو ں گے ۔ نوخیز ہونے کی وجہ سے ان کے اندر چستی اور مستعدی ہو گی ۔ خادم کے لیے یہ دوہی چیزیں چاہیے ہوتی ہیں تجربہ اور چستی ۔ یہ مومنین کے لیے جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعہ کی نماز میں دعا کا اصل وقت دوسرا خطبہ ہے ، ہمارے ہاں نماز کے بعد دعا کا جو رواج ہو گیا ہے یہ حضورﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: لامحدود مدت کی سزا جس غلطی پہ دی جائے جائے گی وہ حق کو جانتے بوجھتے نہ ماننا ہے ۔ یعنی آدمی سرکشی اور تکبر اختیار کرے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے حق واضح ہو گیا لیکن اس نے اپنی انانیت یا تعصبات کی بنا پر اس کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ یہ ایسا جرم ہے جس کی سزا لامحدود مدت کے لیے دی جائے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سنت رسول اللہﷺ کا وہ طریقہ ہے جسے آپ نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ، اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے قرآن مجید ہے ۔سنت بھی قرآن کی طرح بالکل متعین ، ہر شک و شبہ سے بالا اور صحابہ کے اجماع سے ملی ہے ۔حدیث رسول اللہﷺکے علم و عمل کا ریکارڈ ہے ۔ اس کے اندر ہر طرح کی چیزیں بیان ہوتی ہیں ۔ واقعات و ہدایات بھی بیان ہوتی ہیں، سوالات کے جوابات بھی بیان ہوتے ہیں ۔ حدیث کا تعلق تاریخ سے ہے اور سنت کا تعلق دین کے ماخذ سے ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کی یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ایک لحاظ سے مسلمان برادری ہیں اور ایک لحاظ سے پوری انسانیت برادری ہے۔بہت سے معاملات انسانوں کے درمیان مشترک ہیں اور جب آپ انسانوں سے معاہدہ کرتے ہیں تو وہ انسانیت کی مشترکہ اساسات پر کرتے ہیں ، اس کے بعد اسلام اور کفر کے معاملات آتے ہیں۔ اگر سچائی و دیانت اور انسانوں کے لازمی حقوق پر معاہدہ کرنا ہو تو پھر اس میں کفر و ایمان کی تقسیم نہیں کی جائے گی ۔رسول اللہﷺ نے بڑی خوبی کے ساتھ اس کو واضح کیا ۔ آپ نے نبوت سے پہلے ایک معاہدے میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے تحت جو لوگ باہر سے آتے تھے ان کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے تھے۔ جب آپ ﷺ پیغمبری کے منصب پر فائز ہوئے تو ایک موقع پر حضور ؐنے کہا کہ آج بھی اگر مجھے اس معاہدے کی دعوت دی جائے تو میں خوشدلی کے ساتھ اس پر دستخط کر دوں گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کی مشترک اساس پر مشتمل معاہدہ تھا۔ تو ہم نے جو معاہدات کیے ہیں اور یو این او کے چارٹر میں جو چیزیں لکھی ہیں ، ان میں کوئی چیز اگر شریعت کے خلاف ہے تو ہم ا س سے ضرور برأت کر سکتے ہیں لیکن میرے علم کی حد تک اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسے تمام معاملات میں شریعت کا حکم ہے کہ معروف کی پابندی کی جائے۔ سوسائٹی میں جو باتیں اچھی مانی جاتی ہیں ، مارکیٹ کے اندر جو چیزیں مسلمہ ہیں ، ان کی پیروی کیجیے ۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے ، اگر وہ مختلف معاملات میں منافع کی شرح متعین کر دیتا تو بدلتے حالات اور تمدن کے ارتقا میں بڑی تنگی پیدا ہو جاتی ۔ معروف شریعت سے پہلے ہوتا ہے یعنی آدمی کی عقل کیاکہتی ہے ، اخلاقی مسلمات کیا کہتے ہیں ، معاشرے میں کیا چیزیں اچھی سمجھی جاتی ہیں تو ان کے مطابق منافع کی شرح متعین کیجیے ۔        

(جاوید احمد غامدی)

ج: جو لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں وہ قائد اعظم سے واقف نہیں۔ قائد اعظم نے اس تقریر میں یہاں رہنے والی اقلیتوں کے حقوق بیان کیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ قانون کی نگاہ میں وہ بالکل برابر ہوں گی۔ چنانچہ انہوں نے اس کی وضاحت کر دی کہ میری بات کاتعلق مذہبی معاملات سے نہیں ہے بلکہ قانونی مساوات سے ہے ۔یہ کم وبیش ویسے ہی الفاظ ہیں جو میثاق مدینہ میں خود حضورﷺ نے یہود کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ثبت فرمائے تھے۔ اس وجہ سے میرے خیال میں ان کی بات بہت غلط سمجھی گئی ہے ۔ وہ ایک قانون پسند آدمی تھے ، انہوں نے غیر مسلموں کے حقوق بیان کیے اور بتایا کہ غیر مسلم برابر کے شہری ہیں، ان کے اور ہمارے درمیان سیاسی اور قانونی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہو گا ۔قائد اعظم کی اس تقریر کے الفاظ بالکل دین کے مطابق ہیں ، اس میں کوئی چیز دین کے خلاف نہیں ہے ۔ اس کے دو دن بعد ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے جب اس نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہاں غیر مسلموں سے اکبر کی روایات کے مطابق سلوک کیا جائے گا تو قائد اعظم نے ٹوکا اور کہا کہ نہیں بلکہ تیرہ سو سال پہلے کی محمد الرسول اللہﷺ کی روایات کے مطابق ہو گا۔تو اس طرح کے شخص کی کسی ایک بات کو لے کر سیکولر ازم نکالنے کی کوشش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک رفع یدین وہ ہے جو نماز شروع کرنے سے پہلے کیا جاتا ہے ۔ یہ حضور ﷺ سے باقاعدہ ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اتفاق ہے۔ یہ نماز کا لازمی حصہ ہے ۔ ایک رفع یدین رکوع میں جاتے یا اٹھتے وقت کیا جاتا ہے ۔ اس پر صحابہ کا بھی اتفاق نہیں ہو سکا اورامت کا بھی نہیں۔ اس لیے اس کے بغیر نماز بلاشبہ ہوجاتی ہے لیکن اگر کوئی سمجھتا ہو کہ یہ کرنا چاہیے تو یہ کوئی بدعت نہیں ، وہ کر سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبیﷺ نے بڑے ناخن رکھنے سے منع فرمایا ہے ۔ ناخن تزکیہ اور طہارت کے خلاف ہیں ۔ اسلامی اصول یہ ہے کہ جس طرح مردوں کو اپنی مونچھیں کم رکھنی چاہیں اور ناخن کاٹ کر رکھنے چاہیں، اسی طرح خواتین کو اپنے ناخن کاٹ کر رکھنے چاہیں۔ ناخنوں میں مرد یا عورتوں کا سوال نہیں ۔بڑے ناخن رکھنا دونوں کے لیے ناجائز ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ بالکل ٹھیک اور صحیح حدیث ہے ۔قرآن مجید پر مبنی ہے ۔مضمون کے لحاظ سے بھی بالکل ٹھیک ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہستی کو آ پ اللہ کے پیغمبر کی حیثیت دیتے ہوں اورپھر کسی اور سے اس سے بڑھ کر تعلقِ خاطر رکھتے ہوں یہ نہیں ہو سکتا۔پیغمبر کو پیغمبر ماننے کا تقاضا یہی ہے کہ اس سے محبت سب سے بڑھ کر ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دونوں میں آدمی بے وفائی کرتا ہے ایک میں خدا سے کرتا ہے اور دوسرے میں بیوی سے کرتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ بڑی خوبصورت ادبی تعبیر ہے اس بات کی کہ خدا کے عرفان کی جو صلاحیت اور اللہ کی صفات کا جوشعور ایک بندہ مومن کے دل میں ہوتا ہے وہ بڑی حد تک اللہ تعالیٰ کی صفات کا احاطہ کر لیتا ہے ۔ ِجبکہ زمین و آسمان اس سے عاجز ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ انسان کا بڑا شرف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ اور بھی بہت سے محققین کی رائے ہے کہ ذوا لکفل سے مراد بدھا ہے مولاناابو الکلام آزاد کابھی خیال یہ ہی تھا۔بدھا چونکہ کپل بستو کی ریاست میں پیدا ہوئے ہیں تو ان کا کہنا یہ ہے کہ ‘پ’ ‘ف’ میں بدل گئی ہے ۔ بدھا کی تعلیمات کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ اپنی اصل صورت میں موجو د نہیں ہیں اورجس صورت میں موجود ہیں اس میں توسرے سے خدا ہی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے اس لئے کوئی تبصر ہ کرنا بہت مشکل ہے ۔البتہ جو ہندوؤں کا دین ہے ۔وہ ویدو ں کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرتِ نوحؑ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: کہہ سکتے ہیں یعنی آپ اس اہتمام کے ساتھ یہ بات کر سکتے ہیں کہ پروردگار اس کے لئے سلامتی کا اہتمام کر۔اسکو ہدایت دے یہ توآ پ کی نیت پر ہے۔کوئی ممانعت نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: عربی زبان میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے مراد اچھی باتوں کی تلقین کرنا اور بری باتوں سے لوگوں کوروکنے کی کوشش کرناہے ۔تبلیغ اور دعوت کے مفہوم میں یہ قرآنِ مجید میں عام استعمال ہوا ہے۔باقی جہاں تک طاقت کے ذریعے کسی منکر کو ختم کرنے کا تعلق ہے وہ دائرہِ اختیار میں ہوگا۔یعنی باپ کو اپنے دائرہِ اختیار میں روکنا چاہئے ۔شوہر کو اپنے دائرہِ اختیار میں روکنا چاہئے۔اسی طرح کسی ادارے کے سربراہ کو اپنے دائرہِ اختیا ر میں روکنا چاہئے۔ اورحکومت کو اپنے دائرہِ اختیار میں روکنا چاہئے۔وہ جو مشہور حدیث ہے اس کا تعلق دائرہِ اختیار سے ہی ہے ۔ اگر اس کو دائرہ اختیار سے متعلق نہ کیا جائے تو پھر معاشرے میں شدید قسم کا فساد برپا ہو جائے گا۔جس کا جہاں جی چاہے گا طاقت کا استعمال شروع کر دے گا اس طرح ایک انارکی کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ہاں اگر میرا دائرہ اختیار ہے اورمیرے پاس مطلوبہ طاقت بھی ہے تو پھر میں اس کو طاقت سے روک دینے کا مکلف ہوں ۔ اب اگر یہ طاقت استعمال کرنے کا حوصلہ اور ہمت نہیں تو پھر زبان سے تلقین یا یہ بھی نہیں توپھر دل سے برا جاننا ضروری ہوگا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ سب قیاسات ہیں ۔کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ حتمی طور پر بات اسی وقت کہنی چاہئے کہ جب اسکے لئے آپ کے پاس دلائل موجود ہوں ۔بہت سے لوگ اس کی بہت سی وجوہ بیان کرتے ہیں ۔کوئی حملہ ہوا اس کے نتیجے میں غارت گری ہو گئی ۔کوئی عذاب آیا اس کے نتیجے میں غارت گری ہو گئی ۔ بعض لوگ طوفانِ نوح سے بھی ان کا تعلق جوڑتے ہیں ۔لیکن بظاہر جو کچھ ہمیں طوفان نوح کے بارے میں قدیم صحیفو ں سے معلوم ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا یہ علاقہ نہیں ہے اس کا علاقہ بالکل دوسرا ہے ۔تو کچھ ایسے قیاسات ہیں جو قرین قیاس ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ۔اچھی بات وہی ہے جو ہمارے ایک شاعر نے کہی ہے۔کہ لوگ ہڑپہ کو دیکھ تو لیتے ہیں اور وہاں سے کلچر تو منوں کے حساب سے برآمد کر لیتے ہیں مگرعبرت کی ایک چھٹانک بھی حاصل نہیں کرتے۔بہر حال عبرت کاایک مرقع ہے۔ان تہذیبوں کی تباہی کا باعث کیا چیز بنی وہ ایک تاریخی تحقیق کا معاملہ ہے کرتے رہنا چاہئے کوئی واضح بات سامنے آجا ئے گی تو پھر آپ کو اسے کہنا چاہئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: سب سے اچھی دعا اور کلمہ یہ ہے کہ آپ غصے کے مقابلے میں اپنے اندر ضبط پیدا کریں ۔اس سے بہتر کوئی دعا نہیں۔ آدمی جب غصے کا جواب غصے سے دیتا ہے تو اصل میں اس سے ساری خرابی پیدا ہوتی ہے ۔غصے کے بارے میں اصولی بات ذہن میں رکھنی چاہئے ۔کہ غصہ بعض اوقات بے وجہ بھی آجاتا ہے۔ اور بعض اوقات اس کے وجوہ اور اسباب بھی ہوتے ہیں ۔ہماری معاشرتی زندگی میں ہر شخص کے ساتھ یہی معاملہ ہے ۔ اسی طریقے سے بیوی ،شوہر کے تعلق میں بھی یہ چیزہو جاتی ہے ۔ اول تو غصہ آنا نہیں چاہئے۔آگیا ہے تو اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ غصے کا جواب آپ غصے سے نہ دیں۔یعنی آپ کا ٹھنڈا رویہ تھوڑی دیر میں معاملات کو نارمل کر دے گا۔انسان کے اندر ایک بڑا غیر معمولی داعی بیٹھا ہوا ہے ۔جیسے ہی آپ جواب میں غصے کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو وہ معاملے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔کوئی ایک فریق جب یہ طے کر لیتا ہے کہ مجھے اس معاملے کو نرم کر دینا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے بعد شیطان کی در اندازی بند ہو جاتی ہے ۔نبی ﷺ نے غصہ کرنے والے کو یہ کہا کہ دیکھو تم اپنی جگہ تبدیل کرو۔کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ۔بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ۔پانی کا کوئی گلاس قریب میں ہے تو وہ پینا شروع کر دو ۔یہ بھی ایک نفسیاتی علاج ہے ۔یعنی آدمی ذرا سی تبدیلی کرتاہے اپنے اندرتو اس کیفیت پہ قابو پانے میں اس کو آسانی ہو جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ اللہ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہئے اور خاص طور پر قرآن مجید کی وہ آیات کہ جن میں اللہ نے بڑی تعریف کی ہے ان لو گوں کی جواپنے غصے پر قابو پا لیتے ہیں ۔ان آیا ت کے ترجمے اور مفہوم کو سمجھ کرپڑھیں تو امید یہ ہے کہ آپ کو بھی غصے پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔اور شوہر کو بھی ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: نہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانے سے ہی تھا ۔اصل میں ایک واقعے سے لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے ہوا یہ تھا کہ حضرتِ عمرؓ لیٹے ہوئے تھے تو موذن نے اذان دینے کے بعد ان کے پاس کھڑے ہو کے ان کو جگانے کے لئے کہا کہ .......الصلوۃ خیرمن نوم.........تو سیدنا عمرؓ کو یہ خیا ل ہو ا کہ یہ کوئی بدعت نہ بن جائے۔ تو انہوں نے کہا کہ بھئی اس کو اذان ہی میں رکھو ۔یعنی یہ کلمہ اذان کا ہے اذان ہی میں رہنا چاہئے ۔مجھے جگانے کے لئے اور الفاظ بھی بولے جاسکتے ہیں ‘‘تو اس کو اذان ہی میں رکھو’’ اس جملے کو لوگوں نے غلط سمجھ کر خیال کیا کہ پہلے نہیں تھاعمرنے کہا کہ اذان میں رکھو۔یہ غلط فہمی ہے

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ ہمارے ہاں تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ ہم اس بات کے عادی ہی نہیں رہے کہ دوسروں کی بات بھی صحیح ہو سکتی ہے ۔اختلاف کو سلیقے سے حل کرنا ہمارا شیوہ نہیں۔ مذہب کی جزیات اور علما آئمہ کی آرا کوبھی ہم نے عین دین بنا لیا ہے ہم سمجھنے ’سمجھانے،ڈائیلاگ کرنے،بات سننے ،سنانے کے ببجائے اس میں سے فتویٰ بر آمد کرتے ہے ۔اور فتوی لگا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔یہ تربیت کا فقدان ہے ۔ اس کا اسلام یا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اسلام اور دین نے ہمیں جو تربیت دی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ سے مختلف بات کرے ، اختلاف کرے یا آپ کی کسی بات پہ تنقید کرے ۔تو سب سے بڑھ کر اس کی بات سنئے۔اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی غلطی پر ہوں اور وہ آپ کا محسن ہو اور وہ آپ کو اس غلطی سے نکالنا چاہتا ہو۔

 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:culture  کا ہم اپنی زبان میں ترجمہ ثقافت سے کرتے ہیں۔ civilization کو ہم تہذیب سے تعبیر کرتے ہیں۔اور تمدن تو خیر ہماری ہی اصطلاح ہے۔ یہ الفاظ بڑی حد تک مترادف بولے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے اندر تھوڑا تھوڑا فرق بہر حال ہے ۔وہ چیزیں جو ہمارے رہن سہن اورملنے جلنے کے آداب مقرر کرتی ہیں ۔ ان کے لئے ثقافت کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔ یعنی انسان دوسروں کے ساتھ کیسے معاملہ کرتا ہے وہ میزبانی کے کیا آداب اختیار کرتا ہے ’رہن سہن کے کیاطریقے اختیار کرتا ہے وغیرہ ۔اسے کلچریا ثقافت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔انسان کے عقائد،نظریات ،رسوم ،روایات اور ساری وہ چیزیں جو کلچر سے متعلق ہیں۔وہ سب جب مل جاتی ہیں تو ہم اس کے لئے تہذیب کا لفظ بولتے ہیں۔تہذیب گویا ایک زیادہ بڑا لفظ ہے ۔اور ثقافت اس کا ایک حصہ اورجز ہے ۔ تہذیبی روایت کے تحت جو دنیا وجود میں آتی ہے ۔اس کو تمدن کہتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: شرک کی حقیقت واضح کرنے کے لئے وہی استدلال اپنانا چاہیے جو قرآن مجید نے شرک کے بارے میں اپنایا ہے اوروہ ایک سادہ سی بات ہے کہ اس کائنا ت کا او رخود انسان کا وجود عقلی تقاضا کرتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہونا چاہئے ۔ مشرک کا معاملہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ کائنا ت کے خالق کو نہیں مانتا ۔وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہے مگر اس نے اپنے اختیارات منتقل کر دیئے ہیں۔ قرآن نے اس پر سادہ سوال کیا ہے کہ اختیارات اللہ نے منتقل کئے ہیں ۔تواللہ کی سند دکھاؤ۔ اختیارات منتقل کرنے والا خدا ہے۔آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ فلاں کو اللہ نے یہ صلاحیت دے دی ہے ،فلاں کو یہ اختیار دے دیا ہے ۔ اولاد لینی ہے تو فلاں کے پاس جانا ہے ۔ دولت لینی ہے تو فلاں دیوی کے پاس جانا ہے یا فلاں حضرت کی خدمت میں حاضر ہونا ہے ۔جب آپ یہ کہہ رہے ہیں تو گویایہ بات آپ اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں ۔ اختیار دینے کا معاملہ تو ہر حال میں اختیار دینے والے کی سند سے ثابت ہو گا۔تو قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ سند از راہ کر م پیش کرو۔یعنی اللہ تعالیٰ نے فلاں کو اختیار دیا ہے ۔تو بتا دیجئے کہ کہاں دیا ہے؟کیا کسی الہامی کتا ب میں یہ لکھا ہوا ہے یا کسی پیغمبر نے آپ کو بتایا ہے ہا تو برہانکم ان کنتم صادقین...اگر سچے ہو تو کوئی سند لے آؤ۔یہ سادہ استدلال ہے۔ شرک کے حق میں تو کوئی بات کہی نہیں جاسکتی ۔ شرک کے معنی کیا ہیں ۔شرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں، صفات میں ،حقوق میں کسی کو شریک کرنا۔تو یہ شرکت یا تو اللہ نے اس کو بخشی ہے یا نہیں بخشی۔بخشی ہے تو اللہ ہی بتائے گا کہ میں نے بخشی ہے۔میں نہیں بتا سکتا ۔یا کوئی اور نہیں بتا سکتا ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں نے جو گورنر مقرر کیا ہے فلاں صاحب کو وہ پروانہ تقرر مجھے دکھا دو۔بس بات ختم۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: انکار کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ آپ کی سمجھ میں بات نہیں آئی ۔انکار تعصب کی بنیاد پر ہوتا ہے’ ڈھٹائی کی بنیاد پر ہوتا ہے ’ضد کی بنیا د پر ہوتا ہے ’ انانیت کی بنیا د پر ہوتا ہے ’جذبات کی بنیاد پر ہوتا ہے’ خواہشات کی غلامی میں ہوتا ہے ۔ انکار کے بے شمار وجوہ ہیں۔جس انکارکو قرآن اپنی اصطلاح میں کفر کہتا ہے وہ تب ہوتا ہے جب انسان حق واضح ہو جانے کے بعد جانتے بوجھتے محض ڈھٹائی’ تعصب اور ضد سے انکار کر دے۔ا س وقت دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ جو سارے لوگ پائے جاتے ہیں ۔وہ غیر مسلم ہیں ۔کافر نہیں ہیں۔کافر وہ تب ہوں گے ۔جب یہ واضح ہو جائے گا کہ بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی محض ڈھٹائی سے انکار کر دیا ۔کافر قرآن کی اصطلاح ہے ۔ اتمام حجت کے بعد ،حق کے واضح ہو جانے کے بعد جب کوئی فرد یا جماعت اس کا انکار کرے تو پھر قرآن اسے کافر کہتاہے ۔ورنہ آدمی یہودی ہوگا ، نصرانی ہوگا ، یا کچھ اور ہو گا۔

 بنی اسرائیل پر قرآن کا اصل الزام یہ ہی ہے کہ یہ پہچان گئے ہیں۔یعرفونہم کما یعرفون ابناۂم ایسے پہچانتے ہیں کہ جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔ کوئی شبہ نہیں ہے اس معاملے میں اس کے با وجو د انکار کرتے ہیں جو قوم اس جگہ تک پہنچ گئی ہو کہ جب ان کو بتایا گیا کہ جبرائیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن لے کر آتے ہیں ۔تو انہوں نے کہا کہ اس کی تو ہمارے ساتھ سد اکی دشمنی رہی ہے ۔پہلے بھی اسی طرح یہ کام کر چکا ہے ۔تو یہ وہ سرکشی ہے جو باعث بنتی ہے کفر کا ۔آپ کے سامنے حق آگیا واضح ہوگیا آپ نہیں مان رہے ۔اس کے بعد حجت تما م ہو جاتی ہے ۔اور قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ جب تک یہ چیز نہ ہو جائے اس وقت تک ہم نہ دنیامیں عذاب دیتے ہیں نہ آخر ت میں ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ایک آدمی کی سمجھ میں بات نہیں آئی تو وہ معذور ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کے اتمام حجت کے بعد جب مشرکین عرب کے لیے آخری عذاب کا فیصلہ کیا گیا سورہ توبہ میں تو اس میں بھی ایک استثنا بیا ن ہوا ہے وان احد من المشرکین استجارک اگر کوئی ان مشرکین میں سے اتمام ِ حجت کے با وجود یہ کہتا ہے بات ابھی مجھ تک نہیں پہنچی ۔تو عذاب کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔قرآ ن کہتا ہے کہ فَاَ جِرہْ اس کو احترام کے ساتھ مہمان کے طور پر اتاریئے۔حتی یسمع کلام اللہ اور اس کے سامنے اللہ کا کلام پیش کر دیجئیثم ابلغہ ما منہپھراس کو جانے دیجئے تاکہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ کر مزید غور کر لے ۔اس کے بعد کارروائی ہوگی ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سارے لو گ کافر ہو گئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے ۔ البتہ غیر مسلم ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ تو میں نہیں جانتا کہ انسان کا لا شعور سوتے میں کیسے کام کرتا ہے کیونکہ اس معاملے میں جو بھی تحقیقات ہوئی ہیں وہ ابھی اس راز کو آشکار نہیں کر سکیں۔ لیکن لاشعورکام بہر حال کرتا ہے ۔ پچھلی صدی میں جو بڑے ماہرینِ نفسیات گزرے ہیں انہوں نے خوابو ں کا بڑی تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا ہے ۔اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ خوابوں کی کئی صورتیں ہیں ۔ عموماً ہمارا لاشعور تمثیل کی صورت میں چیزوں کو ہمارے سامنے لانا شروع کر دیتاہے۔ہماری بعض یادیں ہوتی ہیں جو تمثیل کی صور ت میں ہمارے سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بسا اوقا ت ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی خاص خیال میں غلطان ہوتے ہیں ۔تو اس خیال کی تمثیلی صورتیں بننا شروع ہو جاتی ہیں۔یعنی ڈرامائی تشکیل ہو جاتی ہے ۔

 قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ انسان کی راہنمائی کے لیے بھی یہ ذریعہ اختیار کرتے ہیں ۔ جیسے سیدنا یوسفؑ کا خواب بیان ہوا ہے۔یاجیسے بادشاہ کا خواب بیان ہوا ہے ۔یہ بھی تمثیلی صورت میں بیان ہوئے ہیں ۔سات دبلی گائیں سات موٹی گائیں ایک دوسرے کو کھار ہی ہیں۔سیدنا یوسف ؑ نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے سور ج اور چاند میرے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ان تماثیل کاپھر مصداق متعین کرنا ہوتا ہے ۔

بعض نفسیاتی بیماریاں بھی خوابوں کا باعث بن جاتی ہیں ۔اچھی نیند نہ ہونا بھی اس کی وجہ بن جاتی ہے۔

 بعض اوقات آدمی کو خود بھی واضح ہوتا ہے کہ اس کے خواب اضغاث و احلام ہیں یعنی لا شعور کا کھیل تماشا ہے جو ہم نے دیکھ لیا ہے ۔اور بعض اوقات اسے یقین سا ہوتا ہے کہ اس کا خواب کسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو ایسے میں کوئی حرج نہیں کہ اگر کسی سمجھدار آدمی سے مشورہ کر لے۔ ممکن ہے کہ وہ کوئی اچھی بات ہی بتا دے۔

(جاوید احمد غامدی)

 جواب: ایسے بچے کو تو لانا نہیں چاہئے جو لوگوں کی نماز میں خلل انداز ہو۔ سمجھدار بچوں کو لایا جا سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے نفع نقصان میں شرکت کی ہے ۔لیکن حقیقت میں تو بس نام ہی تبدیل ہوا ہے ۔ہر آدمی جوبینکنگ کو جانتا ہے اسے اس کی حقیقت اچھی طرح معلو م ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: روایات یا تفاسیر فر قہ پید ا نہیں کرتیں بلکہ فرقہ اصل میں ایک ذہنیت سے پیدا ہوتا ہے یہ آ پ چاہیں تو سائنس میں پیدا کرلیں چاہیں تو ٹیکنالوجی میں پیدا کرلیں۔

 دنیا میں ہر علم کو جب پڑھا جاتا ہے ۔تو اس کی شرح و تفسیر میں اہل علم میں اختلاف ہو جاتاہے۔ شیکسپئر’ملٹن ’علامہ اقبال ’غالب کسی کو دیکھ لیں ا ن کے اشعار کی شرح و تفسیر میں اہل علم میں بے پناہ اختلاف موجودہے۔اس اختلاف کو شائستگی سے بیان کیجیے۔کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔

کبھی اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ پر الہام ہوتا ہے ۔یہ کہئے کہ میں نے یہ بات سمجھی ہے ۔میں ایک طالب علم ہوں ۔یہ اس کے دلائل ہیں ۔دوسرے آدمی کی بات توجہ کے ساتھ سنئے ۔اگر آپ کی غلطی واضح ہو جائے تو قبول کر لیجئے۔نہ واضح ہوتو شائستگی کے ساتھ اپنی بات کہہ کے خاموش ہو جایئے۔کوئی فرقہ نہیں بنے گا ۔لیکن جس وقت آپ اپنی بات کو الہام قرار دیتے ہیں ۔اپنے بزرگوں کی بات حتمی حجت سمجھتے ہیں۔جب آپ کسی نئی چیز کو سنتے وقت فوراًآستین چڑھا لیتے ہیں ۔منہ میں کف بھر لیتے ہیں۔مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔جو آپ کے تعصبات ہیں ان سے ہٹ کے کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تویہ ایک ذہنیت ہے۔یہ ذہنیت کسی بھی علم میں پیدا ہو جائے فرقہ بن جائے گا۔

فرقہ اختلاف کرنے سے نہیں بنتا۔اختلاف تو انسانیت کا حسن ہے ۔ ایک ہے اختلاف کرنے کے لیے اختلاف کرنا ۔دوسرا یہ ہے کہ آپ واقعی کسی مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہوں۔یہ جتنی بھی سائنسی ترقی ہے اصل میں اختلاف کی پیداوار ہے ۔اگر ارسطو سے اختلا ف نہ کیا جاتا تو نیوٹن کیسے پیدا ہوتا ۔دنیا وہیں کی وہیں رکی رہتی۔اختلاف ترقی کا ذریعہ ہے۔ آپ چیزوں پہ غور کرتے ہیں تو آپ کو پہلی رائے سے اختلاف ہو جاتا ہے آپ کہتے ہیں نہیں یہ بات ٹھیک نہیں ہے ۔

اصل چیز یہ ہے کہ آپ اپنی بات بیان کیسے کرتے ہیں۔باہمی احترام کے ساتھ ایک دوسرے کا حق مان کر یا خود کو تنقیداوراختلاف سے بالاتر سمجھ کر۔ ہمارے ہاں صورتحال یہی دوسری ہے ۔لو گ کہیں گے کہ جی تحقیق ہونی چاہئے۔کوئی کر بیٹھے تو اس کا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔اجتہاد ہونا چاہئے کوئی جسارت کر بیٹھے تواس کا حقہ پانی بند ہو جاتا ہے۔

لوگوں کو اپنی آرا دلائل کے ساتھ بیان کر دینی چاہیے۔ آپ کو معقول لگے مان لیں۔معقول نہ لگے اس پر غور کرتے رہیں۔ ہر بیان کرنے والا یہ بتا دے کہ میں کوئی پیغمبر نہیں ہوں ۔مجھ پر وحی نہیں آتی۔میں سمجھتا ہوں طالب علموں کی طرح اور ہو سکتا ہے کہ مجھے غلطی لگ گئی ہو۔امام شافعی نے اس بات کو نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔کہ ہم اپنی رائے کو صحیح کہتے ہیں ۔لیکن اس میں غلطی کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔ہم دوسرے کی رائے کو غلط کہتے ہیں لیکن اس میں صحت کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔بس اگر آپ اس جگہ کھڑے ہو جائیں۔ کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔اس جگہ نہ کھڑے ہوں۔ توقرآن میں بھی فرقے پیدا ہوجائیں گے،روایت میں بھی ہو جائیں گے ، حدیث اورفقہ بلکہ ہر چیز میں ہو جائیں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: زندگی خود سے ختم کرنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ بالکل common sense کی بات ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک امتحان کے لیے بھیجا ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ جی آپ سے غلطی ہو گئی ہے ۔ واپس بلالیں ۔ورنہ میں آرہا ہوں ۔ ہے نابغاوت ؟ اس سے بڑی کوئی بغاوت نہیں ہو سکتی۔ا س وجہ سے یہ بڑا جرم ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بسم اللہ سب سورتوں کے شروع میں فصل کے لئے لکھی گئی ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا بیان ہے کہ یہ قرآن میرے نام سے پڑھ کر لوگوں کو سنایا جائے ۔یہ سورہ فاتحہ کی بھی آیت نہیں ہے۔کسی دوسری سورہ کی بھی آیت نہیں ہے ۔ سوائے ایک سورہ کے جس کے اندر آئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس معاملے میں استدلال کا طریقہ بہت سادہ ہے وہ اختیار کیجیے۔وہ یہ کہ آپ وہاں کیوں جارہے ہیں؟جانے والے سے پوچھئے۔کس لیے جارہے ہیں۔اس کا جو جواب ملے گا اس پر بات ہو گی دو جواب ہو سکتے ہیں۔ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ میں ان سے مانگنے جا رہا ہوں ۔تو اس کے تو شرک ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔دوسرا جواب یہ ہو سکتاہے کہ وہاں دعا زیادہ قبو ل ہوگی۔تو میں پوچھوں گا کہ اس کی دلیل ؟یہ بات کہ کہاں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے کون بتائے گا ۔اللہ بتائے گا یا اسکا رسولؐ بتائے گا۔بس یہ دو سادہ سوال ہیں ۔ پوچھ لیجیے۔اس کے بعد خود رائے قائم کر لیجیے۔دین بڑی سادگی کے ساتھ آپ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے نبی نے بھی بتایا ہے کہ کون کون سے مقامات ہیں ۔جب دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ۔کون کو ن سے اوقات ہیں جہاں دعا زیادہ قبو ل ہوتی ہے ۔یہ بات کہ فلاں شخص کے مزار پر دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ۔قرآن میں کس جگہ لکھا ہوا ہے ؟ حدیث میں کس جگہ لکھا ہوا ہے ؟اگر نہیں لکھا ہوا تو آپ جو یہ بات کہہ رہے ہیں وہاں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے یہ پھر خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تو کچھ نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: سادہ طریقہ ہے کہ جب آپ کو شعور ہوا ہے آپ فوراً نما ز پڑھ لیں ۔ زندگی انسان کی محدود ہے ۔ کچھ پتہ نہیں کہ کب بلاوا آجائے ۔اگرآپ کی نماز رہ گئی کسی وجہ سے تو جیسے ہی آپ اس صورتحال سے نکلیں آپ فوراً نماز پڑھ لیں ۔اِلّا یہ کہ کوئی ممنوع وقت ہو اور ممنوع اوقات جو ہیں وہ دو ہی ہیں ۔یا طلوعِ آفتاب کا وقت ہے یاغروب آفتاب کا وقت۔بس اس کو نکال لیجئے اور پھر پڑھ لیجئے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: کائنات اللہ تعالیٰ کے قوانین کے تحت چل رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ پابند تو نہیں ہو گئے ۔ قادر ہیں جب چاہیں خلاف ورزی کرلیں ۔یعنی اللہ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ میں قانون کے مطابق معاملا ت کو چلا رہا ہوں ۔سورج کو میں مشرق سے طلوع کرتا ہوں۔تو میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ مغرب سے طلوع نہ کروں۔جب چاہے گا کر دے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہاں جس مدد کا ذکر ہے وہ مافوق الاسباب مدد ہے ۔یہ مددہم اللہ ہی سے مانگ سکتے ہیں کسی اور سے نہیں مانگ سکتے۔دنیامیں تو ہم ایک دوسر ے سے مدد چاہتے ہی ہیں ۔اگر مجھے آپ کے ساتھ کوئی کاروبار کرنا ہے یا کوئی معاملہ کرنا ہے تومیں آپ سے مدد مانگوں گا ۔مجھے پانی پینا ہے تو میں کہوں گا کسی سے بھئی مجھے پانی لا دو ۔عالم ِ اسباب میں ہم یہ مدد مانگتے ہیں ایک دوسرے سے یہ اصولی بات ہے ۔ اب رہ گئی سفارش تو سفارش اگر آپ نے کسی جائز مقصد کے لئے توجہ دلانے کے لئے کی ہے تو نیکی کا کام کیاہے ۔اگر کسی کا حق مارنے کے لئے کی ہے تو ناجائز کا م کیا ہے ۔یہ دیکھ لینا چاہئے کہ آپ کیا کرنے جارہے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: حلالہ ایک حرام کام ہے ۔ اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔نبیؐ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جو اپنے آپ کو حلالے کے لئے پیش کرتاہے یہ. کرائے کا سانڈ ہے۔اتنے سخت الفاظ میں فرمایا ہے اس لئے اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کامذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔

 کسی بیوی نے یہ کام کر لیا۔ا ب جو کچھ بھی آپس میں طے کیا اس کا کسی کو علم نہیں ہوا۔تو قانون اس نکاح کو تو باطل نہیں قرار دیتا ۔اس لئے کہ دلوں کے حال اللہ جانتا ہے اور نیت میں کیا خرابی تھی اس کا فیصلہ وہ قیامت کے دن کرے گا ۔دنیا میں تو معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور کوئی خاونداگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو اسے ضرور یہ معلوم کر لینا چاہئے۔کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے کرتو معاملہ نہیں کیا گیا ۔ لیکن فرض کیجئے کہ اس نے پوچھ لیا ۔نیت معلو م کر لی ۔ اس سے جھوٹ بول دیا گیا تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ذمہ داری اس کی ہے جس نے جھوٹ بولا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ اچھی بات ہے ۔آپ جماعت کراتے ہیں۔بیگم ساتھ شریک ہو جاتی ہے تو یہ باعثِ اجر ہوگا۔لیکن جس نماز کا ثواب ستائیس گنا بیا ن ہوا ہے۔وہ جماعت کی نماز ہے۔یعنی جو مسلمانوں کے ساتھ آپ جاکر پڑھتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: گرو گوبند صاحب نے جب سکھوں کو منظم کیا توانہوں نے ان کی پانچ علامتیں قرار دے دیں۔جس میں یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں کڑا ہوتا ہے ،کرپان ہوتی ہے ۔پھر کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا ذکراس مہذب مجلس میں موزوں نہیں ۔اور یہ بال بھی انہی علامتوں میں شامل ہیں۔ عام طور پرجب کسی جماعت یا تنظیم یا کسی گروہ کو منظم کیا جاتا ہے تو ان کی امتیازی علامتیں مقرر کر دی جاتی ہیں۔

سکھ بہت باغی لوگ تھے۔اور ان کے خلاف بہت اقدامات بھی ہوتے رہے ۔ احمد شاہ ابدالی نے ان کے اوپربہت سے حملے کیے ۔بلکہ ایک موقعے کے اوپر تو اس نے اسی پنجاب میں پچیس ہزار سکھ ایک ہی دن میں مارے تھے۔پھر اورنگ زیب نے بہت دفعہ ان کا تعاقب کیا ۔او ر اس زمانے میں یہ جنگلوں میں چھپ جاتے تھے اور اس طرح ان کا بہت تعاقب کرنا پڑتا تھا ۔پھر بستیوں پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔یہ مزنگ کا چھوٹا قصبہ ہے ۔اس کی تاریخ اگر کبھی آپ پڑھیں تو کم و بیش سات آٹھ دفعہ اس کو سکھوں نے لوٹا۔غارت گری کی وجہ سے ان کے خلاف کارروایاں بھی کرنی پڑتی تھیں۔اسی وجہ سے مسلمانوں میں اور ان میں مخاصمت ہو گئی ورنہ دینی لحاظ سے وہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں سے زیادہ قریب تھے۔تو پھر گرو گوبند سنگھ صاحب نے ان کی تنظیم کی اور ان کو ایک باقاعدہ منظم گروہ میں بدلنا شروع کیا۔اس موقعے کے اوپر یہ مذہب بننا شروع ہواتو اس میں پھر کچھ علامتیں بھی بن گئیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد سب سے پہلی حقیقت جس کو بہت بحث کر کے بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے وہ یہ ہے کہ دنیا امتحا ن کی جگہ ہے ۔بس یہ سب سے بڑی حکمت ہے جو انسان جان لے ۔کہ یہ دنیا امتحان کے لئے بنی ہے ۔یہاں نعمت نہیں ملے گی۔یہاں جو کچھ ملتا ہے وہ آزمائش کے لئے ہوتا ہے ۔ یہاں تکلیف آتی ہے تو آزمائش کے لئے ۔یہاں اللہ تعالیٰ کے انعامات ہوتے ہیں تو آزمائش کے لئے۔ جب یہ بات سمجھ میں آ جائے تو پھر اس کے بعد آ پ سے آپ انسان کے اندر وہ رویہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے ۔یعنی پھر وہ جزع فزع نہیں کرتا وہ ا س کے اوپر اللہ تعالیٰ سے شکو ہ نہیں کرتا ۔وہ کوئی بے صبرے پن کا مظاہر ہ نہیں کرتا ۔       تکلیف ،مصیبت جب آتی ہے تو ظاہر ہے کہ انسان رنجیدہ خاطر بھی ہوتا ہے ۔بہت سے نازک مراحل بھی اس پر آجاتے ہیں۔لیکن بہرحال وہ ثابت قدم رہتاہے وہ موقع دیکھئے جو حضرتِ یوسفؑ کے والد پر آیا ۔انہوں نے جب اس موقعے پر اندازہ کر لیا کہ آزمائش بڑی لمبی ہے او ر شروع بھی ہو گئی ہے۔تو فرمایافصبرجمیل اب مجھے اچھے طریقے سے صبر ہی کرنا ہے ۔اور جس موقع کے اوپر کچھ تھوڑی سی بات بھی کی وہ یہ کی کہ انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ میں اپنے غم اور تکلیف کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں ۔اور کسی سے نہیں کرتا ۔تو بس یہ جگہ ہے جہاں آدمی کورہنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : یہ کوئی شریعت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ شریعت میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں کھڑا کر کے ان کو اللہ کے احکام دیئے گئے ہیں ۔اللہ کی ہدایت پہنچائی گئی ہے۔قرآن نے کہیں یہ بات نہیں کہی، کسی حدیث میں بھی یہ بات بیان نہیں ہوئی ۔اچھی عربی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ایک روایت کا بالکل غلط مدعا لوگوں نے سمجھ لیا ہے ۔حضورؐ نے جو بات کہی اگر اس کی نسبت حضور ؐ کی طرف درست ہے ۔(کیونکہ اس روایت میں یہ اضطراب بھی ہے کہ وہ حضور کی بات ہے یا ایک صحابی نے اپنا تبصر ہ اس میں شامل کر دیاہے۔)تو بھی اس میں جو بات بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عورتوں پرکم ذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔اور یہ ٹھیک ہے ۔مثال کے طور پر آپ یہ دیکھئے کہ عورت کوکمانے سے نہیں روکا ۔وہ کاروبار کرے ، کمائے لیکن اس کے اوپر گھر چلانے کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ذمہ داری جو ہے وہ مرد کی ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ نے بیا ن کر دیا ہے قرآن میں۔اسی طریقے سے عورت کے اوپر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ جب جہاد کے لئے نفیرِ عام ہو جائے تو وہ نکلے ذمہ داری نہیں ہے اس کے اوپر۔اسی طرح جمعے کے لئے آنا اسکے لئے لازم نہیں ہے ۔اس طرح مسجد کی نما ز اس کے لئے باعثِ فضیلت نہیں ہے ۔وہ گھر میں پڑھے تو زیادہ باعثِ فضیلت ہے ۔تو یہ ذمہ داری کا کم ڈالنا ہے ۔یعنی اس کے اوپر بوجھ کم ڈالا گیا ہے ۔ دنیوی معاملات کا بھی دینی معاملات کا بھی ۔عقل کے کم ہونے نہ ہونے کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔یہ بحث اگر کوئی ہوگی بھی تو یہ نفسیا ت میں ہونی چاہئے ۔یہ حیاتیا ت میں ہو نی چاہئے۔یہ ہمارے علم اور مشاہدے کی بات ہے کہ بچوں میں کتنی عقل ہوتی ہے ؟ عورتوں میں کتنی ہوتی ہے ؟ مردوں میں کتنی ہوتی ہے ؟ پاکستانیوں میں کتنی ہوتی ہے؟ امریکنوں میں کتنی ہوتی ہے ؟یہ آپ بحث کرسکتے ہیں۔ اسلام کا یہ مسئلہ نہیں ہے ۔اسلام میں تو جو بات اللہ تعالیٰ کی ہے وہ یکساں طور پر عورتوں اور مردوں کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے ۔اور یکساں تقاضے ان سے کئے گئے ہیں ذمہ داریاں البتہ ان کی الگ الگ ہیں حالات کے لحاظ سے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: سادہ بات سمجھ لیجئے کہ آپ شادی جس طرح چاہیں کریں۔اس کو اعلانیہ ہونا چاہئے۔یعنی آج شادی ہوئی ہے ۔internetپر ہوئی ہے ،ٹیلی فون پر ہوئی ہے یاسیٹلائیٹ فون پرہوئی ہے ۔یا آپ خلا میں اڑ رہے ہیں وہاں آپ نے کر لی ہے ۔بس دنیا کو پتہ چل جانا چاہئے کہ آپ نے شادی کر لی ہے ۔آج سے آپ میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں ۔ یہ ہے اصل میں اسلام کا تقاضا۔یعنی ایک مرد و عورت کے مابین شادی گویاساری دنیا کے لیے اعلان ِ عام ہے کہ اب ہم قانونی طور پر میاں بیوی ہیں۔یہ ہو جانا چاہئے۔اس کے ذرائع کے بارے میں اسلا م کو بحث نہیں ہے ۔وہ ذرائع حالات کے لحاظ سے تبدیل ہوتے رہیں گے ۔

             اس میں اصل چیزیں دو ہیں ۔اعلانیہ ہوناچاہئے اور کسی کے لئے دھوکے اور فریب کا باعث نہ ہو۔سیدھی صاف بات ۔اسی وجہ سے آپ دیکھیں کہ شادی کے موقعے کے اوپر قرآن مجید کی جوچند آیات حضور پڑھتے تھے اور اب بھی پڑھی جاتی ہیں۔اس موقعے پر نصیحت کے لئے۔ان آیات میں ایک آیت یہ ہے کہقولو قولاً سدیدا سیدھی بات کہو۔جو بھی کہنی ہے ۔سیدھی ،سچی ،صاف۔یعنی شادی کا معاملہ کوئی ہیر پھیر کا معاملہ نہیں ہے ۔ شادی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ ایک معاہدہ ہے۔جو فریقین کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے۔ اس کی بس یہ ہی دو چیزیں ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بات یہ ہے کہ سودممنوع ہے ۔کرایہ بالکل جائز ہے۔ سود صرفی چیزوں پہ ہوتا ہے ۔یعنی ایک چیز میں نے آپ کوادھار دی ،قرض دی اور وہ چیز ایسی ہے کہ اس کو لازماً فنا ہونا ہے ۔وہ استعمال نہیں کی جاسکتی۔آپ کو آٹا چاہئے۔میں دوں گا آٹا۔کیا کریں گے اسے ؟ کھائیں گے فنا ہو جائے گا ۔اب اس کو پیدا کرنا ہو گا دوبارہ۔یعنی محنت کر کے پھرگندم خریدنی ہو گی پھر آٹاپیدا ہو گا ڈیڑھ سیر۔پھر آپ میرا آٹا لوٹائیں گے۔پیسے خرچ کرنے کے لئے ہوتے ہیں یہ بھی فنا ہو جاتے ہیں۔اس کو کہتے ہیں صرفی چیزیں۔

            استعمال کی چیزیں کیا ہیں ۔یہ میز ہے ۔ آپ کو ضرورت تھی ۔شادی کرنے کی یا تقریرفرمانی تھی ۔آپ نے کہا ذرا میز دے دو استعمال کرنے کے لئے۔آپ استعمال کریں گے ۔اور استعمال کے بعدآپ میری میز اٹھا کے مجھے واپس دے دیں گے۔اس استعمال کا کرا یہ ہو تا ہے ۔

            ان صرفی چیزو ں کے اوپر قرآن کہتا ہے۔ قرآن کیا تورات بھی یہ ہی کہتی ہے کہ صرفی چیزیں جو ہیں ان میں آدمی دہری مشقت میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔اگر اس سے اس کے اوپر کچھ مانگا جائے۔ایک وہ اس چیز کو فنا کر بیٹھا ہے ۔اسے دوبارہ پیدا کرے گا ۔اور اس کے اوپر مزید جو دینا ہے وہ بھی پیدا کر کے دینا ہے تو یہ دہری مشقت ہے ۔ فرض کریں کہ آپ نے بیس لاکھ روپیہ مجھے دیا ہے ۔وہ میں نے کاروبار میں لگا لیا۔مجھے کاروبار میں نفع ہویا نقصان وہ ڈوب جائے یا کچھ بھی ہو۔مجھے اب دوبارہ کمانا ہے ۔میں نے اس سے بیٹی کی شادی کر لی ۔ بہرحال کہیں اور سے کماؤں گا تو دو ں گا آپ کو ۔میں نے مکان لیا ہے آ پ سے ۔ مکان میں میں رہ رہا ہوں ۔مالک مکان نے نوٹس دیا میں نے کہا جی دوسرا تلاش کر لیتا ہوں۔خالی کر کے دے دیا آپ کو ۔ یہاں دہر ی مشقت نہیں ہے۔ اس پر قرآن مجیدکہتا ہے کہ آپ متعین نفع نہیں لے سکتے۔یہ بات سمجھ لیجئے کہ ممنوع کیا ہے ؟ ممنوع ہے متعین نفع۔اگر مثال کے طور پر میں نے آپ کو دو لاکھ روپیہ قرض دیا ۔اور آپ سے یہ کہا کہ جی میرا قرض آپ کو ہر حال میں واپس کرنا ہے ۔واجب الادا ہے ۔آپ کاروبار کر رہے ہیں اس سے تو اگر کوئی نفع آپ کو ہوتا ہے تو آپ مجھے اس تنا سب سے دیں گے۔اس میں کوئی سود نہیں ہے۔ٹھیک ہے ۔ جائز ہے کوئی حرج نہیں۔آپ کا اصل زر محفوظ ہے ۔آپ اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں ۔ نقصان میں شریک نہیں ہیں۔انکار کر دیں اس سے۔اس میں دین کی طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ آپ کو نفع ہو نقصان ہو مجھے آپ نے اتنے فیصد دینا ہے بس!اس کو منع کیا گیا ہے ۔اسی طرح زمین کا معاملہ ہے ۔زمین میں بھی یہ ہی ہوتا ہے ۔بھئی ٹھیک ہے زمین ہے ۔زمین بیس لاکھ کی ہو سکتی ہے ۔زمین ایک کروڑ کی ہو سکتی ہے۔آپ نے اس میں ایک آدمی سے طے کر لیا کہ میں اس میں کاشت کروں گا ۔اتنے پیسے آپ کو دے دوں گا ۔فصل ہو گئی اچھی بات ہے نہیں ہوئی تو تب بھی ۔کرایہ اس کا دیجئے اس کو ۔یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ نے دکا ن کرائے پر لی ہے چلتی ہے نہیں چلتی آپ کو کرایہ بہرحال دینا ہے ۔تو بعض لوگ اس میں خوامخواہ خلطِ مبحث پیدا کرتے ہیں ۔چنانچہ ایک بڑے عالم تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ انہوں نے بہت اصرار سے یہ کتا ب لکھی ہے کہ کرایہ جو ہے یہ بھی سود ہے ۔تو طالب علموں نے سوال کیا کہ آپ مقالہ پڑھنے کے لئے جس جہاز پر آئے ہیں۔وہ کرایہ ہی تو دے کے آئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ پائلٹ کی محنت کا معاوضہ ہے۔ایسی جو باتیں ہیں ان کا پھر یہ نتیجہ نکلتا ہے ۔آپ ٹیکسی کرایہ پر دیتے ہیں ۔آ پ دیکھیں کہ کرایہ ممنوع قرار دے دیں تو تمدن ختم ہو جائے گا ۔ہم اطمینان سے جاتے ہیں کراچی جائیں۔پشاور جائیں۔تو ہوٹل میں ٹھہر جاتے ہیں۔کرایہ ہی دیتے ہیں ۔کرایہ استعمال کا ہے اس کمرے کاجس میں آپ ٹھہرتے ہیں ۔کمرہ خالی کرتے وقت آپ کو کیا کرنا ہوتا ہے ؟ کمرہ دوبارہ بنا کے دینا ہوتا ہے ؟ نہیں!لیکن پیسہ اگر آپ نے دس لاکھ روپیہ لے لیا ہے تو وہ تو بہرحال آپ نے خرچ کرنا ہے ۔اس لیے اس کے اوپر یہ فرق ہے دونوں میں ۔اور اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور باعث برکت ہے اور اس سے روزہ میں قوت رہتی ہے۔ اگر آپ نے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھایا پیا اور گیارہ بجے (یعنی شرعی نصف النہار) سے پہلے روزہ کی نیت کر لی تو آپ کا روزہ صحیح ہے قضا کی ضرورت نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سورج غروب ہونے کے بعد روزہ افطار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت خیر پر رہے گی، جب تک سحری کھانے میں تاخیر اور( سورج غروب ہونے کے بعد)روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔(مسند احمد ص ۱۷۲ج۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔’’ (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔ (ترمذی، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کریں گے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ تاخیر کرتے ہیں۔’’ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            مگر یہ ضروری ہے کہ سورج کے غروب ہوجانے کا یقین ہو جائے تب روزہ کھولنا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے۔ پس صبح صادق سے پہلے پہلے کھانے پینے کی اجازت ہے۔ اگر صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جب اس نے رات کو سونے سے پہلے روزے کی نیت کر لی تھی تو صبح صادق کے بعد اس کا روزہ (سونے کی حالت میں) شروع ہو گیا اور روزہ شروع ہونے کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟ کیونکہ روزہ رکھنے کا فیصلہ تو وہ کر چکا ہے اور اس کے اسی فیصلہ پر روزہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ اب روزہ شروع کرنے کے بعد اس کو توڑنے کا اختیار نہیں اگر رمضان کا روزہ توڑ دے گا تو اس پر قضا اورکفارہ دونوں لازم آئیں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  اگر صبح صادق ہوجانے کے بعد کھایا پیاتو روزہ نہ ہو گا خواہ اذان ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو اور اذانیں عموماً صبح صادق کے بعد ہوتی ہیں۔ اس لیے اذان کے وقت کھانے پینے والوں کا روزہ نہیں ہو گا۔ عموماً مسجدوں میں اوقات کے نقشے لگے ہوتے ہیں۔ ابتدائے فجر کا وقت دیکھ کر اس سے چار پانچ منٹ پہلے سحری کھانا بند کر دینا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نقشوں میں صبح صادق کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اس سے دوچار منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دینا چاہیے ایک دو منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو روزہ ہو جائے گا لیکن دس منٹ بعد کھانے کی صورت میں روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کھولنے کے لیے نیت شرط نہیں غالباً ‘‘افطار کی نیت’’ سے آپ کی مراد وہ دعا ہے جو روزہ کھولتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ افطار کے وقت کی دعا مستحب ہے، شرط نہیں، اگر دعا نہ کی اور روزہ کھول لیا تو روزہ بغیر کراہت کے صحیح ہے، البتہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے ، اس لیے دعا کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ بلکہ افطار سے چند منٹ پہلے خوب توجہ کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اصول یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں آدمی روزہ رکھتے وقت اور افطار کرتے وقت موجود ہو، پس جو شخص عرب ممالک سے روزہ رکھ کر کراچی آئے اس کو کراچی کے وقت کے مطابق افطار کرنا ہو گا اور جو شخص پاکستان سے روزہ رکھ کر مثلاً سعودی عرب گیا ہو اس کو وہاں کے غروب کے بعد روزہ افطار کرنا ہو گا، اس کے لیے کراچی کے غروب کا اعتبار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ دار کو جب آفتاب نظر آرہا ہو تو افطار کرنے کی اجازت نہیں ہے، طیارہ کا اعلان بھی مہمل اور غلط ہے۔ روزہ دار جہاں موجود ہو وہاں کا غروب معتبر ہے۔ پس اگر وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس بلندی سے غروبِ آفتاب دکھائی دے تو روزہ افطار کر لینا چاہیے جس جگہ کی بلندی پر جہاز پرواز کر رہا ہے وہاں کی زمین پر غروبِ آفتاب ہو رہا ہو تو جہاز کے مسافر روزہ افطار نہیں کریں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر آپ سے آپ قے آگئی تو روزہ نہیں گیا خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اور اگر خود اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کر ہوئی تو روزہ ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔

            اگر روزے دار اچانک بیمار ہو جائے اور اندیشہ ہو کہ روزہ نہ توڑا تو جان کا خطرہ ہے، یا بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے ایسی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے۔

            اسی طرح اگر حاملہ عورت کی جان کو یا بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو روزہ توڑ دینا درست ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ نے رمضان کا جو روزہ توڑا وہ عذر کی وجہ سے توڑا اس لیے اس کا کفارہ آپ کے ذمہ نہیں بلکہ صرف قضا لازم ہے اور جو روزے آپ بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکیں ان کی جگہ بھی قضا روزے رکھ لیں۔ آئندہ بھی اگر آپ رمضان مبارک میں بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں تو سردیوں کے موسم میں قضا رکھ لیا کریں، اور اگر چھوٹے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان روزوں کا فدیہ ادا کردیں، ایک دن کے روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:        ۱۔ رمضان شریف کے روزے ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہیں اور بغیر کسی صحیح عذر کے روزہ نہ رکھنا حرام ہے۔

            ۲۔اگر نابالغ لڑکا، لڑکی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ماں باپ پر لازم ہے کہ ان کو بھی روزہ رکھوائیں۔

            ۳۔جو بیمار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ رکھنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ نہ ہو اس پر بھی روزہ رکھنا لازم ہے۔

            ۴۔ اگر بیماری ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہویا روزہ رکھنے سے بیماری بڑھ جانے کا خطرہ ہو تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر جب تندرست ہوجائے تو بعد میں ان روزوں کی قضا اس کے ذمہ فرض ہے۔

            ۵۔ جو شخص اتنا ضعیف العمر ہو کہ روزہ کی طاقت نہیں رکھتا، یا ایسا بیمار ہو کہ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ صحت کی امید ہے، تو وہ روزے کا فدیہ دے دیا کرے یعنی ہر روزے کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت کسی مسکین کو دے دیا کرے یا صبح و شام ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔

            ۶۔ اگر کوئی شخص سفر میں ہو، اور روزہ رکھنے میں مشقت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ بھی قضا کر سکتا ہے۔ دوسرے وقت میں اس کو روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ اور اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔ اگرچہ روزہ نہ رکھنے اور بعد میں قضا کرنے کی بھی اس کو اجازت ہے۔

            ۷۔ عورت کو حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ مگر رمضان شریف کے بعد اتنے دنوں کی قضا اس پر لازم ہے۔

            ۸۔ بعض لوگ بغیر عذر کے روزہ نہیں رکھتے اور بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑدیتے ہیں اور پھر بعد میں قضا بھی نہیں کرتے، خاص طور پر عورتوں کے جو روزے ماہواری کے ایام میں رہ جاتے ہیں وہ ان کی قضا میں سستی کرتی ہیں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: امتحان کے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں، اور ایک شخص کی جگہ دوسرے کا روزہ رکھنا درست نہیں۔ نماز اور روزہ دونوں خالص بدنی عبادتیں ہیں۔ ان میں دوسرے کی نیابت جائز نہیں۔ جس طرح ایک شخص کے کھانا کھانے سے دوسرے کا پیٹ نہیں بھرتا، اسی طرح ایک شخص کے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے سے دوسرے کے ذمہ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنا درست نہیں، اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر آپ اس بیماری کی وجہ سے روزہ پورا نہیں کر سکتے تو آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور اگر چھوٹے دنوں میں آپ روزہ رکھ سکتے ہیں تو ان روزوں کی قضا لازم ہے اور اگر کسی موسم میں بھی روزہ رکھنے کا امکان نہیں تو روزوں کا فدیہ لازم ہے، تاہم جن روزوں کا فدیہ ادا کیا گیا اگر پوری زندگی میں کسی وقت بھی روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو یہ فدیہ غیر معتبر ہو گا، اور ان روزوں کی قضا لازم ہو گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر اندیشہ ہے کہ روزہ رکھا گیا تو مرض عود کر آئے گا تو آپ ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کر سکتے ہیں اور جو روزے آپ کے رہ جائیں اگر سردیوں کے دنوں میں ان کی قضا ممکن ہو تو سردیوں کے دنوں میں یہ روزے پورے کریں ورنہ روزوں کا فدیہ ادا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ تو واضح ہے کہ جب تک ایام شروع نہیں ہوں گے عورت پاک ہی شمار ہو گی۔ اور اس کو رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہو گا، رہا یہ کہ روکنا صحیح ہے یا نہیں؟ تو شرعاً روکنے پر کوئی پابندی نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ فعل عورت کی صحت کے لیے مضر ہو تو جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جو روزے رہ گئے ہوں ان کی قضا فرض ہے۔ اگر صحت و قوت اجازت دیتی ہو تو ان کو مسلسل رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو جلد سے جلد قضا کر لینا بہتر ہے ورنہ جس طرح سہولت ہو رکھ لیے جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اللہ تعالیٰ آپ کو جزا ئے خیر دے آپ نے ایک ایسا مسئلہ پوچھا ہے جس کی ضرورت تمام مسلم خواتین کو ہے اور جس میں عموماً ہماری بہنیں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتی ہیں۔ عورتوں کے جو روزے ‘‘خاص عذر’’ کی وجہ سے رہ جاتے ہیں ان کی قضا واجب ہے اور سستی و کوتاہی کی وجہ سے اگر قضا نہیں کئے تب بھی وہ مرتے دم تک ان کے ذمے رہیں گے۔ توبہ و استغفار سے روزوں میں تاخیر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن روزے معاف نہیں ہوں گے۔ وہ ذمے رہیں گے۔ ان کا ادا کرنا فرض ہے، البتہ اس تاخیر اور کوتاہی کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ جب سے آپ پر نماز روزہ فرض ہوا ہے اس وقت سے لے کر جتنے رمضانوں کے روزے رہ گئے ہوں ان کا حساب لگالیجیے اور پھر ان کو قضا کرنا شروع کیجیے۔ ضروری نہیں کہ لگاتار ہی قضا کیے جائیں بلکہ جب بھی موقع ملے قضا کرتی رہیں اور نیت یوں کیا کریں کہ سب سے پہلے رمضان کا جو پہلا روزہ میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتی ہوں اور اگر خدانخواستہ پوری عمر میں بھی پورے نہ ہوں تو وصیت کرنا فرض ہے کہ میرے ذمہ اتنے روزے باقی ہیں ان کا فدیہ میرے مال سے ادا کر دیا جائے اور اگر آپ کو یہ یاد نہیں کہ کب سے آپ کے ذمہ روزے فرض ہوئے تھے تو اپنی عمر کے دسویں سال سے روزوں کا حساب لگائیے اور ہر مہینے جتنے دنوں کے روزے آپ کے رہ جاتے ہیں اتنے دنوں کو لے کر گزشتہ تمام سالوں کا حساب لگا لیجیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کفارے کے ساٹھ روزے لگاتار رکھنا ضروری ہے، اگر درمیان میں ایک دن کا بھی ناغہ ہو گیا تو گزشتہ تمام روزے کالعدم ہو جائیں گے اور نئے سرے سے شروع کرکے ساٹھ روزے پورے کرنا ضروری ہوں گے۔ لیکن عورتوں کے ایام حیض کی وجہ سے جو جبری ناغہ ہوجاتا ہے وہ معاف ہے، ایام حیض میں روزے چھوڑ دے، اور پاک ہوتے ہی بغیر وقفہ کے روزہ شروع کر دیا کرے۔ یہاں تک کہ ساٹھ روزے پورے ہو جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کسی نے بھولے سے کچھ کھا پی لیاتھا اور یہ سمجھ کرکہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے، قصداً کھا پی لیا تو قضا واجب ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی کو قے ہوئی، اور پھر یہ خیال کرکے کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے کچھ کھا پی لیا۔ تو اس صورت میں قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہ ہو گا لیکن اگر اسے یہ مسئلہ معلوم تھا کہ قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس کے باوجود کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں اس کے ذمہ قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س: اس مرتبہ رمضان المبارک میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا وہ یہ کہ میں روزہ سے تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو تلاوت کرنے بیٹھ گیا پانچ بجے تلاوت ختم کی اور افطاری کے سلسلے میں کام میں لگ گیا۔ واضح ہو کہ میں گھر میں اکیلا رہ رہا ہوں، سالن وغیرہ بنایا۔ حسب معمول شربت وغیرہ بنا کر رکھا۔ باورچی خانہ سے واپس آیا تو گھڑی پر ساڑھے پانچ بجے تھے۔ اب میرے خیال میں آیا کہ چونکہ روزہ پانچ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے، چالیس منٹ پر کچھ پکوڑے بنا لوں گا۔ خیر اپنے خیال کے مطابق چالیس منٹ پر باورچی خانہ میں گیا۔ پکوڑے بنانے لگا۔ پانچ بن کر پچا س منٹ پر تمام افطاری کا سامان رکھ کر میز پر بیٹھ گیا۔ مگر اذان سنائی نہ دی ایئر کنڈیشن بند کیا۔ کوئی آواز نہ آئی۔ پھر فون پر وقت معلوم کیا تو ۵۵:۵ ہو چکے تھے میں نے سمجھا اذان سنائی نہیں دی ممکن ہے مائیک خراب ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو، اور روزہ افطار کر لیا۔ پھر مغرب کی نماز پڑھی۔اس کے بعد اچانک خیال آیا کہ روزہ تو چھ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے۔ بس افسوس اور پشیمانی کے سوا کیا کر سکتا تھا پھر کلی کی۔ چند منٹ باقی تھے۔ دوبارہ روزہ افطار کیا مغرب کی نماز پڑھی۔

            براہِ کرم آپ مجھے اس کوتاہی کے متعلق بتائیں کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو صرف قضا واجب ہے یا کفارہ؟ اور اگر کفارہ واجب ہے تو کیا میں صحت مند ہوتے ہوئے بھی ساٹھ مسکینوں کو بطور کفارہ کھانا کھلا سکتا ہوں؟

ج: آپ کا روزہ تو ٹوٹ گیا مگر چونکہ غلط فہمی کی بناء پر روزہ توڑ لیا اس لیے آپ کے ذمہ صرف قضا واجب ہے کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو ، غسل یا کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر اس صورت میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں غرغرہ کرنا اور ناک میں زور سے پانی ڈالنا ممنوع ہے اس سے روزے کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ قوی ہے اگر غسل فرض ہو تو کلی کرے ناک میں پانی بھی ڈالے مگر روزے کی حالت میں غرغرہ نہ کرے نہ ناک میں اوپر تک پانی چڑھائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں حقہ پینے یا سگریٹ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر یہ عمل جان بوجھ کر کیا ہو تو قضا و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کوئی ایسی چیز نگل لی، جس کو بطور غذا یا دوا کے نہیں کھایا جاتا تو روزہ ٹوٹ گیا اور صرف قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: دانتوں میں گوشت کا ریشہ یا کوئی چیز رہ گئی تھی۔ اور وہ خود بخود اندر چلی گئی ، تو اگر چنے کے دانے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ جاتا رہا۔ اور اگر اس سے کم ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ اور اگر باہر سے کوئی چیز منہ میں ڈال کر نگل لی تو خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: زبان سے کسی چیز کا ذائقہ چکھ کر تھوک دیا تو روزہ نہیں ٹوٹا، مگر بے ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر خون منہ سے نکل رہا تھا۔ اس کو تھوک کے ساتھ نگل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا دھواں خود بخود چلا گیا۔ یا گرد و غبار چلاگیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اور اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتا رہا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آنکھ میں دوائی ڈالنے یا زخم پر مرہم لگانے یا دوائی لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ لیکن ناک اور کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اور اگر زخم پیٹ میں ہو یا سر پر ہو اور اس پر دوائی لگانے سے دماغ یا پیٹ کے اندر دوائی سرایت کر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ دوا آپ سحری بند ہونے سے پہلے استعمال کر سکتی ہیں۔ دوائی کھا کر خوب اچھی طرح منہ صاف کر لیا جائے پھر بھی کچھ حلق کے اندر رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ حلق سے بیرونی حصہ میں لگی ہو تو اسے حلق میں نہ لے جائیے۔ روزہ کی حالت میں اس دوا کا استعمال صحیح نہیں۔ اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ انجکشن کی دوا اگر براہِ راست معدہ یا دماغ میں نہ پہنچے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے سانس کی تکلیف میں آپ انجکشن لے سکتی ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: عذر کی وجہ سے رگ میں بھی انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ صرف طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ گلوکوز کے انجکشن کا بھی یہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو تو خون نکلنے سے ٹوٹ جائے گا اور روزے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خون حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں جب روزہ رکھنے کا ارادہ کر لیا تو نیت ہو گئی زبان سے نیت کے الفاظ کہنا کوئی ضروری نہیں دانت نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ خون حلق میں نہ گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سر پر یا بدن کے کسی اور حصہ پر تیل لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر روزہ کی حالت میں احتلام ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، روزے دار کو غسل کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ پانی نہ حلق سے نیچے اترے، اور نہ دماغ میں پہنچے، اس لیے اس کو کلی کرتے وقت غرغرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور ناک میں پانی بھی زور سے نہیں چڑھانا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ٹوتھ پیسٹ کا استعمال روزہ کی حالت میں مکروہ ہے تاہم اگر حلق میں نہ جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کلی کرکے پانی گرا دینا کافی ہے بار بار تھوکنا فضول حرکت ہے اسی طرح ناک کے نرم حصے میں پانی پہنچانے سے پانی دماغ تک نہیں پہنچتا اس سلسلہ میں بھی وہم کرنا فضول ہے۔ آپ کے وہم کا علاج یہ ہے کہ اپنے وہم پر عمل نہ کریں خواہ طبیعت میں کتنا ہی تقاضا ہو، اس طرح رفتہ رفتہ وہم کی بیماری جاتی رہے گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ کا روزہ تو نہیں ٹوٹے گا مگر گناہ میں فی الجملہ شرکت آپ کی بھی ہو گی، آپ کے منیجر صاحب اگر مسلمان ہیں تو ان کو اتنا لحاظ کرنا چاہیے کہ روزے دار سے پانی نہ منگوائیں۔ بہرحال اگروہ اپنے طرزِ عمل کو نہیں چھوڑتے تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کی نوکری چھوڑ دیں بشرطیکہ آپ کو کوئی ذریعہ معاش مل سکے ورنہ نوکری کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کہ پیٹ کی خاطر مجھے اس گناہ میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: بالغ ہونے کے بعد سے جتنے روزے آپ نے نہیں رکھے ان کی قضا لازم ہے۔ اگر بالغ ہونے کا سال ٹھیک سے یاد نہ ہو تو اپنی عمر کے تیرھویں سال سے آپ اپنے آپ کو بالغ سمجھتے ہوئے تیرھویں سال سے روزے قضا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر یاد نہ ہو کہ کس رمضان کے کتنے روزے قضا ہوئے ہیں تو اس طرح نیت کرے کہ سب سے پہلے رمضان کا پہلا روزہ جو میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتا ہوں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: درست ہے کیونکہ اس کے حق میں فرض کی قضا زیادہ ضروری اور اہم ہے، تاہم اگر فرض قضا کو چھوڑ کر نفل روزے کی نیت سے روزہ رکھا تو نفل روزہ ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: فدیہ دینے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو، اور نہ آئندہ پوری زندگی میں یہ توقع ہو کہ وہ روزہ رکھنے پر قادر ہو گا۔ آپ کی اہلیہ اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لیے ان پر ان روزوں کی قضا لازم ہے۔ خواہ سردیوں کے موسم میں رکھ لیں، فدیہ دینا ان کے لیے جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کا فدیہ صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو روزہ رکھنے پر نہ تو فی الحال قادر ہو اور نہ آئندہ توقع ہو۔ مثلاً کوئی اتنا بوڑھا ہے کہ روزے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ یا ایسا بیمار ہے کہ اس کے شفا یاب ہونے کی کوئی توقع نہیں۔ زید کی بیوی روزہ رکھ سکتی ہے۔ محض غفلت اور تساہل کی وجہ سے نہیں رکھتی۔ اس کا روزے کے بدلے فدیہ دینا صحیح نہیں۔ بلکہ روزوں کی قضا لازم ہے۔ اس نے جو پیسے کسی محتاج کو دیئے یہ خیرات کی مد میں شمار ہوں گے۔ جتنے روزے اس کے ذمہ ہیں سب کی قضا کرے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: اس کی کوئی limit مقرر نہیں کی جا سکتی۔اسلام کا عمومی مزاج مارکیٹ اکانومی کا ہے ۔یعنی یہ اصل میں طلب اور رسد کاعمومی قانون طے کرے گا کہ کیا قیمتیں ہوں گی۔ انسان کوالبتہ اپنے ضمیرپر نگاہ رکھنا ہو گی۔اور دوسر ا یہ ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں آ پ کچھ نہیں کر سکتے۔مارکیٹ کو خراب کرنے کاحق کسی کو بھی نہیں ہے۔ سیدناعمرؓ کے زمانے میں بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا تھا ان کو کسی نے مسجد میں بیٹھے ہوئے بتایا کہ مدینے کے بازار میں ایک صاحب نے ٹوکرا کھجوروں کا رکھا ہوا ہے اوردو دو آنے بیچ رہا ہے آپ وہاں گئے اور اس سے پوچھا یہ کیا مسئلہ ہے ؟اس نے کہا کہ میرے ہاں اصل میں کھجوروں کا ایک تحفہ آیا تھا ۔ میں نے کہا کہ چلو بازار میں جاکر بیچ آتاہوں ۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ جو دکان دار خرید کر لائے ہیں چھ آنے سیر وہ شام کو گھرکیا لے کرجائیں گے؟ تم یہاں سے چلے جاؤ۔جب مارکیٹ گرے گی تو پھر بیچنا ۔تو یہ مسئلے اتنے سادہ نہیں ہوتے۔ البتہ آپ اپنے گھرکی کوئی چیز بیچ رہے ہیں ۔کار بیچ رہے ہیں اس میں آپ کہتے ہیں کہ مجھے اتنا ہی منافع کافی ہے تویہ اچھی بات ہے۔ یہ common sense کی چیز ہے دین اگر منافع کا کوئی ریٹ مقرر کر دیتا توتمدن نہیں چل سکتا تھا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب ۔وہ جہاں سے دو ہزار کی ملتی ہے آپ وہاں کیوں نہیں جاتے؟

آپ اصل میں لبرٹی میں خریداری کو اپنے لئے باعثِ عزت سمجھتے ہیں ۔آپ کے لیے یہ سٹیٹس سمبل ہے اور اس نے آپ کے اس سٹیٹس کوقائم رکھنے کے لئے اپنی دکا ن پر بہت خرچ کیا ہے ۔اس کی دکان کی good will بہت زیادہ ہے۔ اس کی دکان کا بل بہت زیادہ ہے ۔اس نے آپ کے لئے اہتمام بہت زیادہ کیا ہوا ہے۔اس کے اخراجات نکال لیں آپ کواندازہ ہو جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: میری گزارش سنیں ۔اگر تو کسی معاملے میں آ پ کو اختیار ہے ۔تو پھر ٹھیک ہے میں آ پ کو یہ نصیحت کروں گا کہ میرے بھائی آپ کے لیے اتنا منافع مناسب ہے ۔ لیکن بعض معاملات ایسے ہیں جن میں آپ اختیار نہیں ہوتا۔مارکیٹ طے کر رہی ہوتی ہے کہ کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا؟جہاں مارکیٹ طے کر رہی ہو وہاں آپ جب دو آنے گز کپڑابیچیں گے تو اگلے دن دکاندار گردن سے پکڑ کر کہیں گے بھاگ جاؤ یہاں سے۔ معیشت پوری ایک سائنس ہے۔ یہ میری یا آپ کی خواہشوں پر نہیں چلتی کسی جگہ پر تھوڑی بہت خواہش ممکن ہوتی ہے اور کہیں بالکل نہیں۔ اب تو معیشت کا یہ معاملہ ہو گیا ہے کہ آ پ کی گلی کا جو کھوکھا ہے وہ بھی عالمی بنک کے فیصلوں کے ساتھ وابستہ ہے قیمتوں کا تعین مارکیٹ اکانومی اپنے طریقے پر ہی کرے گی۔اسلام آپ کو اصولی نصیحت کرے گا کہ بھئی جہاں آپ کے ہاتھ میں کوئی اختیار ہے وہاں ظلم نہ کرو۔استحصال نہ کرو۔اس سے زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔کیسے مقرر کر سکتے ہیں۔جیسے ہی مقرر کر نے کا کام کریں گے تو اصل میں یہ مداخلت ہوجائے گی۔حضور ؐ کے زمانے میں ایک مرتبہ آپ کو یہ اطلاع دی گئی کہ قیمتیں بہت بڑھ گئیں ہیں۔مارکیٹ کی ۔۔تو آپ ؐ سے کہا گیا کہ چیزوں کے ریٹ مقرر کر دیں ۔جیسے ہمارے ہاں کر تے ہیں ۔تو حضور ؐ نے فرمایاکہ خداکے چلتے ہوئے cycleمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔البتہ میں ایک کام کرتا ہوں ۔ آپ ؐ گئے اور ہر جگہ پر جہاں مارکیٹ کے بڑے بیٹھے ہوئے تھے ۔ان کو نصیحت کی تو شام تک قیمتیں اعتدال پہ آگئیں۔دین اصل میں دعوت کا کام کرتا ہے انسان کے اخلاقی وجود کو درست کرتا ہے اور جب اخلاقی وجود درست ہوتا ہے تو انسان خود ہی یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ استحصال کر رہا ہے یا نہیں۔

 قیمتوں میں مداخلت بعض اوقات پورے نظام کو درہم برہم کر دیتی ہے ۔یہ جو آپ کی حکومتیں بھی بعض اوقات کرتی ہیں نا ؟ گندم میں اور فلا ں اور فلاں میں ۔ اس کے بھی نتائج نکلتے ہیں ۔ کچھ دیر کے بعد اور پوری اکانومی پر نکلتے ہیں ۔تو اس وجہ سے میری گزارش یہ ہے کہ یہ سادہ مسئلہ نہیں ہے ۔ میں ماہرِ معیشت نہیں ہوں ۔سادہ طالب علم ہوں ۔ان لوگوں سے ضرور سمجھئے اس کو کہ یہ قیمتیں کیسے چلتی ہیں ۔کیسے مقرر ہوتی ہیں ۔مداخلت کے کیا اثرات ہوتے ہیں ۔اس کو سمجھ کر کرنا چاہئے۔دین نے اسی وجہ سے اس طرح کے معاملات کو ہماری عقل پر چھوڑ دیا ہے ۔کہ اس پر کوئی فیصلہ کرلیا جائے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک زاویہ نظر سے بالکل درست ہوتی ہیں اور ایک سے نہیں۔بہت سے ایسے میدان ہیں جن میں ہماری ضرورت معلومات ہوتی ہیں ۔ کچھ ایسے میدان ہیں جن میں ہماری ضرورت غورو فکر ہوتا ہے ۔کچھ ایسے میدان ہیں جس کے اندر قوتِ متخیلہ بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے ۔تو اس وجہ سے یہ کوئی عالمی اصول نہیں ہے ۔ہر جگہ کی اپنی اہمیت ہے ۔اپنے تقاضے ہیں ۔ایک تانگے والے کو بھی کچھ نہ کچھ علم ہوتا ہے ۔اس کے ہاں کچھ اور چیزوں کی اہمیت ہوتی ہے ۔اسے پتا ہونا چاہئے کہ گھوڑا کیسے چلایا جاتا ہے آئن سٹائن کا جو میدان ہے اس میں قوتِ متخیلہ کی بڑی اہمیت ہے ۔ theoratical physicsمیں تو اصل میں ہے ہی متخیلہ۔ تو اس لئے ہر میدان کے اپنے تقاضے ہیں ۔اس میں کوئی اصول بنا کر ازراہِ کرم applyنہ کیجئے۔دنیا بڑے تنوع پر خدا نے بنائی ہے ۔تو اس نے اپنے میدان کے لحاظ سے بالکل ٹھیک بات کی تھی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: کوئی رسوم نہیں تھیں ۔ حضور ﷺ نے بس چند اچھی باتیں کہیں ۔کہ اس موقع کے اوپر تم بھی اللہ کو یاد کرو۔ جانے والے کو کسی چیز پر آمادہ کرنے کے بجائے اس کے سامنے اللہ کا ذکر کرتے رہو یا کوئی اچھی بات کرتے رہو۔ جس سے اللہ اس کو بھی ذکر کی توفیق دے دے۔ یہ نہیں کہا کہ ا سکے سر کے اوپر کھڑے ہو جاؤ۔میں نے دیکھا ’اللہ معاف کرے ’ایک موت کے موقع پرایک بزرگ آئے انہوں نے چھڑی پکڑی اور کہا کہ لا الہ الا للہ پڑھ لو مرنے سے پہلے، اس بیچارے کوتوہوش نہیں ہے اسوقت ۔ جان نزع میں آئی ہوئی ہے ۔تو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہئیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظِ ‘مخالفت’ کو اپنی لغت سے نکال دیجئے۔شائستگی کے ساتھ اپنا اختلاف بیان کر دینا چاہئے۔یعنی اسلام میں جو سب سے بڑی تربیت ہم کو دی گئی ہے ۔وہ یہ ہے کہ آپ صحیح بات دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کو نہایت دانائی’ نہایت دانش مندی کے ساتھ پہنچایئے۔اس کو جھگڑے کا موضوع نہ بنایئے۔یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہابلکہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا قرآن پاک میں ہے کہ ادعو ا الیٰ سبیل ِ ربک بالحکمۃ والموعظۃالحسنۃو جادلہم با التی ہی احسن یعنی اگر خدا کی راہ کی طرف بھی بلانا ہو تو پہلی بات یہ فرمائی کہ حکمت کے ساتھ بلاؤ۔یعنی اس کو مخالفت اورضدم ضدا کا مسئلہ نہ بناؤ۔ایسے نہ کرو کہ دوسرے کو چڑادو۔ وقت بے وقت بات کہتے رہو۔ حکمت کے ساتھ بات کرو۔دوسری بات یہ کہی کہ نصیحت کو بھی اچھے اسلوب کے ساتھ کرووموعظت الحسنۃپھر یہ کہ نصیحت کرنے کی جگہ بھی ہوتی ہے ایک نصیحت استا دکرتا ہے ۔ایک نصیحت باپ کرتا ہے ۔ ایک بڑا بھائی کرتا ہے ۔ ایک بزرگ کرتا ہے ۔تو اس کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا کہ بس نصیحت کرلو ۔نہیں۔موعظت الحسنہ یعنی پہلے کہا کہ دعوت دو حکمت کے ساتھ پھر کہا کہ نصیحت کرو تو اچھے طریقے سے ۔

 اب یہ ہے کہ بعض اوقات اختلاف ذرا بحث مباحثے میں بھی ڈھل جاتا ہے ۔یہ بھی انسانی فطرت ہے ۔تو دیکھئے اس موقع کے لیے قرآ ن کیا کہتا ہے وجادلہم یعنی اگر بحث مباحثے کی نوبت آ ہی جائے تو کر لو لیکن بالتی ہی احسن وہ بھی احسن طریقے سے ہونا چاہئے۔

اس وجہ سے مخالفت کبھی نہ کریں ۔یہ تو لفظ ہی نکال دیں ۔ بس شائستگی کے ساتھ اپنی بات کہیں اور بس۔قرآن مجید توپیغمبروں سے یہ کہتا ہے کہ اگر صورتحا ل یہ ہو کہ آگے سے دوسرا جہالت پر اتر آئے تو یہ۔ فرمایا قالو سلاماتو کہو جی صاحب سلام !ہم کسی اور وقت میں بات کر لیں گے ۔ یہ ہم کوآداب سکھائے گئے ہیں ۔ یہ تہذیب سکھائی گئی ہے ۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ہماری ساری مذہبی تربیت اس کے بالکل بر عکس کھڑی ہے ۔اس میں جب تک خاص قسم کی گالیاں نہ دے دی جائیں۔خاص طرح کی طنزو تعریض نہ کر لی جائے ۔خاص طریقے سے آستین چڑھا کے دوسرے کا گلا نہ دبا دیا جائے۔اسوقت تک لوگ مطمئن نہیں ہوتے ۔یہ صورتِ حال غلط ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے نہ کہ مخالفت کی ۔ آپ اگر دلائل کی بنیاد پر قائل ہیں کہ یہ قل وغیرہ غلط ہو رہے ہیں انہیں نہیں ہونا چاہیے تو بس حکمت’ بصیرت اور احسن طریقے سے بات پہنچاکر مطمئن ہو جائیے ۔ مخالفت کی مت ٹھانئے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: عبادت کا لفظ بڑے جامع مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔یعنی خدا کے بندے بن کر رہو۔اس احساس کے ساتھ زندگی بسر کرو کہ تم خدا کے بندے ہو۔زمیں کے حکمراں نہیں ہو ۔تمہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تم اس کی مخلوق ہو اور تمہیں اس کی اطاعت ’ بندگی اوراس کے قانون کی پیروی کرتے ہوئے زندگی گزارنی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: قرآن مجید نے مرنے کے بعدکا جو قانون بیان کیا ہے ۔اس کو سمجھ لینا چاہئے۔اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آ جائے گی ۔قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ انسانوں کی تین قسمیں ہو جائیں گی ۔یا مرتے وقت ہو جاتی ہیں ۔ایک وہ لوگ ہیں کہ جن کے سامنے حق آیا اور ہمیشہ اس کی قدر کی ۔نیکی ہی اختیار کی ۔سبقت لے گئے ۔غلطی بھی ہو گئی تو اس پر مصر نہیں ہوئے۔اوراسطرح دنیا سے رخصت ہوئے جیسے انبیا ،صالحین رخصت ہوتے ہیں ۔یعنی جن کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا ۔جیسے ابو بکر و عمر کی زندگی ہے ۔یا اللہ کی راہ میں کوئی آدمی مارا گیا ہے ۔اس نے آگے بڑھ کر اللہ کے لئے جان دے دی ہے ۔تو اس طرح کے جو لو گ ہیں ان کے بارے میں قرآن مجیدیہ کہتا ہے کہ ان کی روحانی زندگی مرنے کے فوراً بعد شروع ہو جاتی ہے قرآن یہ کہتا ہے کہ عند ربہم یرزقونیعنی اللہ کی نعمتیں ان پر ہوتی ہیں ۔اور یہ سلسلہ جاری کر دیا جاتا ہے ۔جسمانی حیات البتہ ان کو قیامت ہی میں ملے گی۔جب اٹھایا جائے گا ۔ یہ ایک روحانی زندگی ہے جو شروع ہوجاتی ہے ۔دوسرا extremeہے ۔ابو جہل ، فرعون۔یعنی جن کا اعمال نامہ واضح ہے ۔سرکشی ،عناد کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔پیغمبروں کے اورحق کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ۔صاف صاف اعلان کر دیا ۔کوئی شبہ اورابہام نہیں رہا ۔ان کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے کہ ان کے لئے ایک روحانی تعذیب شروع ہوجاتی ہے مرنے کے فوراً بعد اور جاری رہتی ہے جیسے فرعون کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ فرعون او ر اسکے اہلِ خاندان جنہوں نے سیدنا موسیٰ ؑ کے مقابلے میں سرکشی دکھائی۔ صبح شام آگ انکے سامنے پیش کی جاتی ہے ۔اور قیامت میں یردون الی اشد العذابیہ ان کے ساتھ معاملہ رہتا ہے ۔اب دونوں انتہاؤں کے درمیان ہیں۔ہم لوگ ہیں ۔جن سے غلطیاں بھی ہو گئی ہیں ۔اچھائیاں بھی ہو گئیں ہیں ۔ایمان بھی ہے اس کے ساتھ پھسل بھی جاتے ہیں ۔تو اس طرح کے لوگوں کا معاملہ بین بین ہوتا ہے ۔یعنی یہ ضروری ہے کہ پہچان پھٹک کر بتایاجائے ۔کہ خیر غالب ہے یا شر ۔تو ایسے لوگوں کو سلا دیا جاتا ہے ۔اور قیامت میں اٹھنے کے بعد میزان لگے گی ۔اتمام حجت ہوگا پھر فیصلہ ہوگا کہ کیا معاملہ ہے ؟ پھر اگر خیر کا غلبہ ہوگا تو جنت میں چلے جائیں گے ۔شر کا ہوگا تو جہنم میں چلے جائیں گے ۔تو وہ جو دوسری extreme ہے ان کے لئے عذاب ہے ۔اور جو پہلی ہے ان کے لئے ثواب ہے ۔ یہ بات ہے جو قرآن نے بیان کر دی ۔یعنی جن کا مقدمہ پیش کرنی کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ معاملہ مرنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: ہر آدمی جانتا ہوتا ہے اپنے بارے میں ۔یعنی اپنی زندگی پر نگاہ ڈال کر دیکھتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں تو ایمان ہی ایمان ہوں ۔میں تو کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں پھٹکا۔میں نے تو ہمیشہ اللہ کی آواز پر لبیک کہی ہے ۔ایسے خوش قسمت ہو تے ہونگے دنیامیں ۔تو اگر آدمی ایسا سمجھتا اپنے آپ کو پھر بھی اللہ کا شکر کرے ۔اللہ کے پیغمبرایسے ہی کرتے تھے ۔ جب لوگوں نے کہا کہ آپ تو بہت خدا کی بندگی میں وقت لگاتے ہیں تو فرمایاافلااکون عبداً شکورا؟میں خدا کا شکر گزار بندہ کیوں نہ بنوں ؟نچنت اور بے خوف تو اس میں بھی نہیں ہونا چاہئے۔

 

دوسرا یہ کہ آدمی جانتا ہی ہوتا ہے کہ اس سے لغزشیں ہوئی ہیں کوتاہیاں ہوئی ہیں ۔بہت سی جگہوں پر پاؤں پھسلا ہے۔

انبیا اور صالحین کی زندگی کے بارے میں خدا نے شہادت دے دی ہے ۔حضور ؐ کی زندگی ہے ۔ سیدنا مسیح ؑ کی زندگی ہے ۔سیدنا موسیٰ کی زندگی ہے ۔اسی طرح ابوبکروعمر کی زندگی ہے ۔صحابہ کرام میں سے بعض نمایاں شخصیتوں کی زندگی ہے۔اگر ایسی زند گی ہے تو پھر مطمئن ہو جائیے کہ ان شاء اللہ آپ کامیاب ہیں۔

البتہ اپنے آپ کو کبھی یقین مت دلائیے ۔یقین تو مرتے وقت ہی ہوگا جب فرشتے کہیں گے یا ایتھا النفس المطمئنہاس آواز کے آنے کے بعد کہنا چاہئے فضت برب الکعبہیعنی یہ کیا پتہ ہے کہ زندگی کے آخری دن انسان کیا کر بیٹھے؟تو اس لئے اس میں تو کبھی اپنے آپ کو مبتلا نہیں کرنا چاہئے۔یہ جدو جہد ہے مرتے دم تک جاری رہنی ہے ۔سیدنا علیؓ کی طرف نسبت دی جاتی ہے اس جملے کو۔ کیابات ہے اس کی ؟ جب ان کے اوپر حملہ ہواہے ۔تو اپنی زندگی پر ایک نگاہ ڈالی ۔انہوں نے کہا کہ فضت برب الکعبہرب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔تو یہ وقت ہوتاہے اصل میں کامیابی اورناکامی کے احساس کا ۔باقی دنیا کی زندگی میں کیا پتہ؟کل کیا ہونا ہے ؟

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اختلافات کی توپوری ایک دنیا ہے لیکن وہ بات جو اصلا اس کاباعث بن گئی ہے ۔وہ یہ ہے کہ ایک کے ہاں پاپائیت کا ایک پورا نظام ہے ۔اور کلیسا ہی بائبل کی تعبیر کا اصل ذمہ دار ہے ۔اور دوسروں کے ہاں اس بات پر اصرار ہے کہ ہم بھی بائبل کو پڑھ سکتے ہیں ۔اور ہم بھی اس کا مفہوم اور مدعا اخذ کر سکتے ہیں ۔اورہم بھی اس کی بنیاد کے اوپر کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: مائدہ دستر خوان کو کہتے ہیں ۔جو دستر خوان آپ عام طور پر بچھاتے ہیں ۔ آج کل تو کھانا کھانے کے لئے خیر میزیں ہو گئیں۔لیکن یہ کہ پہلے زمیں پر دستر خوان ہی بچھاتے تھے۔اس کو مائدہ کہتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: نبیﷺ کے زمانے میں تو عورتیں عموماساری نمازوں میں مسجد میں حاضر ہوتی تھیں ۔اس لئے اس کا اہتمام کیا جائے تو یہ بالکل ٹھیک ہوگا اس میں کوئی خرابی کی بات نہیں ہے ۔اور حضور ﷺ کے زمانے میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں خاص طور پر آتی تھیں۔عیدین کی نمازوں میں تو حضور نے ان خواتین کوبھی پابند کیا کہ جو ایام سے تھیں کہ وہ صرف خطبہ سننے کے لئے آجا ئیں۔لیکن آئیں ضرور۔نبی ﷺ کے زمانے میں تو طریقہ یہ تھا ۔اب ہمارے ہاں تو ظاہر ہے کہ اس کا اہتمام نہیں ہوتا ۔تاہم عام پانچ نمازوں میں حضورؐ نے یہ بات کہہ دی ہے کہ عورتیں اگر نہیں آئیں گی مسجد میں تب بھی ان کو اجر مل جائے گا ۔یعنی چونکہ ان کے اوپر لازم نہیں ہے۔ تو اس وجہ سے وہ آجائیں تواچھی بات ہے نہ آئیں گھر میں پڑھیں تب بھی ان کو مسجد کی نماز کا اجر مل جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: آپ نے وضو کر کے جرابیں پہنی ہوئی ہیں ۔پھر آپ کو وضو کی ضرورت اگر پڑتی ہے تو آپ صرف مسح کر سکتے ہیں یہ کا فی ہے ۔کوئی حرج نہیں ہے اس میں ۔جراب کی کوئی بھی قسم ہو سکتی ہے ۔چمڑے کی یا کپڑے کی ۔جب تک دنیا ہے جراب کی قسمیں بدلتی رہیں گی۔جو جراب بھی آ پ نے پہنی ہے آپ اس پہ مسح کر سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : میرے خیال میں اتنی بات ٹھیک ہے کہ یہودیوں نے حضور ﷺ پر جادو کرنے کی کوشش کی ۔نبی ﷺ نے کچھ گرانی سی محسوس کی لیکن اللہ تعالیٰ نے فوراً آپ کے لئے اہتمام کر دیا کہ اس کا اثر آپ ؐ کے اوپر نہ ہونے پائے۔میں اتنی بات کو صحیح سمجھتا ہوں ۔یہ بات کہ حضور ؐ پر جادو ہوگیا اور پھر اس کے بعد آپ ؐ یہ بھو ل جاتے تھے کہ نماز پڑھی ہے یا نہیں پڑھی؟بیویوں کے پاس گئے ہیں یا نہیں گئے۔محض افسانہ طرازی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: نمازیں آپ بالکل نہیں ملا سکتے’ بالکل بھی ۔البتہ اگر کسی موقع کے اوپر آپ محسوس کریں کہ کسی دوسری جگہ پہنچنا ہے ۔راستے میں موقع نہیں ملے گا ۔یااور مسائل ہو جائیں گے ۔تو آپ ظہر کے ساتھ ہی عصر کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔اسی طرح مغر ب کے ساتھ ہی عشا کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ایسے ہی موخر کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔یعنی ظہر کی نماز کو عصر کے ساتھ ملا کے اور مغرب کی نماز کو عشا کے ساتھ ملا کے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:ـ یہ فقہا کی اصطلاح ہے ۔کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے ۔یعنی ایسانہیں ہے کہ قرآن یا حدیث کی اصطلاح ہے فقہا ان نفلوں کو سنت ِ موکدہ کہتے ہیں جو حضور نے بڑے اہتمام سے ہمیشہ پڑھے ہوں ۔ یہ بات بھی یا د رکھئے کہ حضور ﷺاورصالحین کایہ ہمیشہ طریقہ رہا ہے ۔ اورحضورؐ نے اس کی تلقین بھی کی ہے کہ فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھئے۔اور پہلے اور بعد کے نفل یہ اپنے کمرے میں آکر پڑھئے۔گھر میں پڑھئے یہ ہی اس کا پسندیدہ طریقہ ہے ۔یعنی ان کو مسجد میں کم سے کم پڑھنا چاہئے۔یا کسی مجبوری میں پڑھیں ۔ورنہ گھر میں پڑھیں ۔بلکہ حضور ؐ نے یہاں تک فرما یا ہے کہ گھروں کو قبرستان نہ بناؤیہ جو نفل ہیں یہ گھر میں آکر پڑھا کرو۔ان کے اندر بھی بیدار ی اور ذکر اور خداکی یادکا اہتمام ہونا چاہئے۔ویسے بھی یہ نفل نماز ہے یہ جتنی آپ الگ ہوکے اللہ تعالیٰ اور اپنے درمیان کوئی بندے کو حائل کر کے نہ پڑھیں گے اتنی زیادہ آپ کے لئے باعثِ اجر ہو گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اللہ تعا لیٰ نے کچھ فیصلے تو انسان کے بارے میں کر دیئے ہیں۔ان کو انسان تبدیل نہیں کر سکتا مثلا یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کو کیا شکل و صور ت دینی ہے ۔کب پیدا کرنا ہے کن والدین کے گھر میں پیدا ہونا ہے ۔کیا صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے ؟ شاعر ہے ،ادیب ہے ،مصور ہے ،دنیا میں کوئی نیا انقلاب برپا کر ڈالے گا،سیاسی لیڈر ہے ،چکمے باز ہو جائے گا ؟یہ سارے معاملات جو کہ صلاحیت پر مبنی ہیں طے ہیں ۔دوسری چیز یہ ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے لیکن وہ ہماری دعا اور ہمارے کسب سے متعلق ہوتی ہیں ۔یعنی اگر ہم محنت کریں گے تو مل جائیں گی نہیں کریں گے تو نہیں ملیں گی۔بعض چیزیں ایسی ہیں جو مانگیں گے تو مل جائیں گی نہیں مانگیں گے تو نہیں ملیں گی۔تو اس وجہ سے یہ دونوں کام کرتے رہنا چاہئے۔جو چیزیں آپ کے لئے مقدر کر دی گئی ہیں ۔ان کو بدلنے کی کوشش نہ کیجئے ۔یعنی عورت بنا دیا گیا ہے تو مرد بننے کی کوشش نہ کریں ۔مرد بنا دیا گیا ہے تو عورت بننے کی کوشش نہ کریں ۔اس کو قرآن مجید نے بیا ن بھی کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمہارے لئے سانچہ بنا دیا ہے اس کو تبدیل کر کے ایک دوسرے کے ساتھ بدلنے کی کوشش نہ کرو اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا ۔ لیکن جن چیزوں کا تعلق کسب سے ہے ۔یعنی جن کو ہم دنیا میں کماتے ہیں اور جن میں ہم ترقی کے لئے کوشاں ہوتے ہیں، ان میں بہت سی چیزیں دعا سے متعلق ہیں۔تو اس وجہ سے جن چیزوں میں یہ معاملہ ہے ان میں اللہ سے دعا بھی کرنی چاہئے اور محنت بھی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتیں آپ کی محنت سے متعلق ہیں۔اسی طریقے سے اللہ کی بہت سی نعمتیں آ پ کی دعا سے متعلق ہیں ۔یعنی اللہ نے طے ہی یہ کیا ہوتا ہے کہ مانگیں گے تو دوں گا نہیں مانگیں تو نہیں دوں گا ۔تو اس وجہ سے مانگتے رہئے۔پتا نہیں کونسی ایسی چیز ہو جو مانگنے ہی پر ملنی ہے

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ دنیاآزمائش کے اصول پر بنائی گئی ہے ۔ اس میں جو کچھ آپ کرتے ہیں اس کا صلہ’ لازم نہیں ہے کہ آپ کو دنیا میں مل جائے ۔بعض اوقات آپ کی کوشش ناکام ہوجاتی ہے ۔کیونکہ امتحان کے لئے بنائی گئی ہے تو پہلے دن سے یہ بات سمجھ لیں جیسے ہی شعور کی عمر کو پہنچیں تو یہ سمجھ لیں کہ دنیا اصل میں عدل پر نہیں بنائی گئی ۔اس لئے کہ اگر عد ل پر بنا دی جاتی تو پھر امتحان نہیں ہوسکتا تھا ۔یہ امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے ۔ امتحان کس چیز کا ہے ؟صبر کا بھی اور شکر کا بھی ۔اللہ انتخاب کر لیتاہے کچھ کو صبر کے امتحان میں ڈالنا ہے اور کچھ کو شکر کے امتحان میں ڈالنا ہے ۔اب آپ شکر کے امتحان میں ڈالے گئے ہیں تو یہ بھی بتا دیا کہ کیسے کامیاب ہوں گے؟اللہ کی جو نعمتیں آپ کو ملی ہیں ان نعمتوں سے اپنی ذاتی،کاروباری ضرورتیں ضرور پوری کیجیے۔لیکن ان کو اپنا استحقاق نہ سمجھئے۔جو ان ضرورتوں سے زیادہ آپ کو مل گیا ہے وہ آپ کا حق نہیں ہے ۔اور یہ بتا دیا ہے کہ اگر آپ اس زائد مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے موقع کے اوپر بھی آپ خرچ نہیں کرتے تو اس مال سے آپ کے جسم کو قیامت کے دن داغ دیا جائے گا ۔یہ ایک بدترین سزا ہے جو دے دی جائے گی ۔یہ ہی دوسری چیزوں کا معاملہ ہے اگر کسی آدمی کے اوپر کوئی تکلیف یا مصیبت آگئی ہے یا اس کو کسی بیماری میں مبتلا کر دیا گیا ہے ،کوئی جنگ و جدال کا معاملہ ہوگیا ہے یا اس کو غربت نے آلیا ہے تو ایسی تمام چیزوں میں اس کے خلاف وہ جدو جہد کرے محنت کرے ۔وہ اپنے آپ کو بہتر کرنے کی کوشش کرے ۔اگر ناکامی ہوجائے تو جزع فزع نہ کرے ۔اللہ اپنے کسی بندے کا ایمان اور عمل ضائع نہیں کرتے لیکن بہرحال صبر کی ایک آزمائش ہے ۔وہ اس میں کامیاب ہوگا تو اللہ اس کو صلہ دے گااس کا قیامت میں ۔اور جنت کے بارے میں تو یہ کہا گیا ہے کہ جنت اصل میں صلہ ہی صبر کا ہے ۔کیونکہ شکر کرنے والا بھی اصل میں جب تک صبر نہیں کرتا شکر نہیں کر سکتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ قیامت کے بارے میں ہے ۔اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ قیامت میں انسان کو وہی ملے گا جس کی اسنے کوشش ہوگی۔موجودہ دنیا میں ضروری نہیں کہ ہماری ہر کوشش کامیاب ہو عام طور پر ہوتی کامیاب ہو بھی جاتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: ظفر علی خان نے قرآن مجیدکی ایک آیت کے مفہوم کو شعر میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تھوڑی سی مختلف ہے ۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں کو دنیا میں مہلت دے رکھی ہوئی ہے اور عام طور پر وہ یہ مہلت دیئے رکھتے ہیں ۔جس میں قومیں اپنے طریقے کے مطابق کام کرتی ہیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ کسی قوم پہ عذاب بھیج دے یا اس کو پکڑ لے یہ اللہ تعالیٰ اسوقت تک نہیں کرتے جب تک وہ قوم سرکشی پرآمادہ نہیں ہو جاتی ۔وہ اپنے ہاں تبدیلی کرتی ہے پھر اللہ بھی اپنے معاملے کو تبدیل کر دیتا ہے یہ مفہوم ہے آیت کا ۔.......ان اللہ لا یغیر بقومٍ حتٰی یغیرما بانفسہم...........یعنی وہ جب اپنے اند تبدیلی پیدا نہیں کر لیتے اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی وہی معاملہ ڈھیل کا قائم رکھتے ہیں دنیا کے اندر ۔اس کو انہوں نے اسطرح سے بیان کر دیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس لئے کہ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کے لئے بنی ہے ۔خدا کی سکیم یہ ہے کہ وہ امتحان کر رہا ہے ۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو کچھ نہیں ملے گا اس میں بھی آ پ کاامتحان ہے اور جو مل جائے گا اس میں بھی آپ کا امتحان ہے ۔پوچھا جائے گا کہ آپ نے دونوں صورتوں میں کیا رویہ اختیار کیا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: امتِ مسلمہ کے حال میں کوئی روشنی نظر نہیں آتی ۔تاریکی ہی تاریکی ہے ۔میرے نزدیک کسی قوم کی تقدیر بدلتی ہوئی محسوس اسوقت ہوتی ہے جس وقت اس کی لیڈر شپ کا رویہ تبدیل ہوجائے۔امت مسلمہ کی لیڈر شپ اسوقت مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک امت کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔جو لائحہ عمل اس نے امت کو دیا ہے۔اس کے نتیجے میں اگر موت واقع ہونے میں دس دن لگنے تھے تو وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ دس دن لگیں ۔میں کوئی لیڈر شپ کے رویئے میں تبدیلی نہیں دیکھ رہا ۔میرے خیال میں مذہبی رہنما ،سیاسی رہنما یہ تمام کے تما م ایک ہی بولی بو ل رہے ہیں ۔ایک ہی طرح کی گفتگو کر رہے ہیں ۔اور وہ بڑے سادہ اصول پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ وہ دنیا میں ایک ہزار سال تک حکومت کرتے رہے ہیں تو اب اللہ تعالیٰ نے کچھ دوسرے لوگوں کی طرف یہ اقتدار منتقل کر دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جلد سے جلد دو چار بم چلا کر اس کو واپس لے لیا جائے ۔یہ لائحہ عمل ہے جس کواختیار کیا گیا ہے ۔اسی کو پسند کیا جاتاہے ۔قوم کی تعمیر کیسے کرنی ہے اس کے لئے کیا جدو جہد ہونی چاہئے’ نہ یہ کسی کا مسئلہ ہے نہ کوئی اس کی دعوت دے رہا ہے ۔نہ اس کے لئے کام کر رہا ہے ۔تو اس لئے میرے خیال کے مطابق فی الحال تقدیر بدلنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔میں آپ کو کسی خواب میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا لیکن جس دن قوم کی لیڈر شپ کا attitude بدل جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ راستہ بد ل گیا ۔اب اس کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ابھی تو اکا دکا آوازیں ہیں ۔دو تین سے زیادہ لوگ نہیں ہیں امت کی لیڈر شپ میں جو صحیح بات کہہ رہے ہیں ۔جب صورتحال یہ ہو تو کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: سوال پیدا صرف اس بنا پر ہو ا کہ قرآن مجید کا مزاج پوری طرح سائل کے ذہن نشین نہ رہا ۔ اس کو تازہ مستحضر کرنے کے لئے کچھ اور سوالات ذہن کے سامنے آنے بہتر ہوں گے ۔قرآن مجید میں جانوروں کے حوالے سے گائے ،اونٹ ،بندر ،بھیڑ،بکری ،شیر اور بھیڑئیے اور ہاتھی وغیرہ کاذکر ہے ۔مگر نیولے ،بلبل، بھینس،گورخر ،گینڈے ،طوطے ،لومڑی، ریچھ اور شتر مرغ کاذکر کیوں نہیں ؟

            پھلوں میں ذکر انار ،کھجور ،انگور کا آیا ہے، مگر آم ،املی ،تربوز ،خربوزے ،سردے، سنترے کا کیوں نہیں آیا ؟

            ملکوں میں صراحت کے ساتھ نام صرف مصر، بابل،روم کا آیا ہے، عراق،افغانستان ،ایران، ہند،چین ،روس ،جاپان کا نہیں آیا ؟ اور شام و حجاز کا تذکرہ صرف اشارہ و کنایہ میں کیوں آیا ہے ؟فاتحوں اور کشور کشاؤں میں ذکر ذوالقرنین ،طالوت ،فرعون کا آیا ہے ۔داراو جولیس سیزر اور راون کے نام کیوں نہیں آئے ؟

            اسی طرح کے سوال ایک دو نہیں ، بیسیوں اورپیدا ہو سکتے ہیں ۔لیکن ایک کھلا ہوا جواب تو یہی ہے کہ مثلاً اگر کچھ اور ملکوں کے پیغمبروں کے نام بھی لے دیئے جاتے ،تو انہیں چند ملکوں کی تخصیص کیا تھی اور پھر یہ سلسلہ آخر ختم کہاں ہوتا ؟ ہند کے پیغمبروں کے نام اگر آتے توپھر چین کے کیوں نہ آتے اور جاپان کیوں محروم رہ جاتا ! اور پھر امریکا نے کیا قصور کیا تھا ؟ غرض دنیا کے ملکوں کی تعداد یوں ہی کیا کم تھی اور پھرویسے بھی تقسیم کا دور دورہ ہے ،ایک ایک ملک کے ٹکڑے ہو کر اور کتنے نئے ملک بنتے جاتے ہیں ۔اور نئے جزیرے نکلتے آتے ہیں ۔خود ہندوستان کے اندر ہی کتنے مستقل حصے ہیں ۔اب ان سب کو سمیٹنا کیونکر ممکن تھا ۔ اور پھر بعض کو لے لینا اور بعض کو چھوڑ دینا کس اصول انتخاب پر مبنی ہوتا؟

            اصل یہ ہے کہ قرآن اپنی نوعیت ہی میں دنیا کی یکتا ومنفرد کتاب اور ایک ہی وقت میں ایک عالمگیر اور آفاقی کتاب بھی ہے ، ہر ملک ہر زمانے کے لئے اور دوسری طرف اس کی مخاطب ایک متعین زمانے کی متعین قوم رہی ہے ۔یعنی شروع ساتویں صدی عیسوی کی قومِ عرب ۔

            اس کی اس دوگانہ حیثیت کو نباہنے کی کیا صورت تھی ،بجز اس کے کہ پورا اور کھلا ہوا لحاظ تو اس قوم کا رکھا جائے جو اس کے اولین اور براہِ راست مخاطب تھی ۔تشبیہات میں ،تمثیلات میں ،حکائتوں میں ،پوری رعایت قوم ِ عرب ہی کے مذاق و معلومات کی کی جائے اور اصل احکام کے سوا ،کوئی تذکرہ ضمنا ً بھی ایسا نہ آنے پائے جس سے سننے والے کسی نئی الجھن میں گرفتار ہو جائیں اور اسی کے متعلق سوال و جواب میں پڑ جائیں ،ساتھ ہی عبارت میں لچک اتنی ہو اور کلی اور اصولی اثبات ایسے امور کا بھی اشارۃً و کنایتہ کر دیا جائے ،جس سے حسب ضرورت و موقع دوسری قومیں اور آئندہ زمانے کی نسلیں مستفید ہو سکیں۔

            اس دشوار ترین حقیقت کا نباہنا آسان نہ تھا اورقرآن کے معجزہ ہونے پر یہ خود ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ قرآن نے اسی نا ممکن کو ممکن کر دکھا یا ہے ۔

ہیئت فلکیات کے سارے مسئلے اصول کے تحت میں آ جاتے ہیں ۔ چاند سورج تارے ،زمین ان سب کی ہیئت و حرکت وغیرہ سے متعلق قرآن نے ظاہری الفاظ وہی استعمال کیے ،جو عرب کے معلومات و معتقدات کے مطابق تھے ، اور ان کے خیالات کو ٹھیس نہ لگنے دی ، لیکن ساتھ ہی انہیں لفظوں اور ترکیبوں کے پیچھے ایسی وسعت بھی رکھ دی کہ وہ ہر زمانے کی تحقیق علمی کا ساتھ دے سکے ۔بلاغت قرآن کے اس اعجاز کو اگر نظر میں رکھ لیا جائے تو بہت سے سوالات جو قرآن پر آج وارد ہوتے ہیں ،از خود ساقط ہو جائیں ۔

            پیغمبروں کے تذکرے بھی اسی قبیل سے ہیں ۔قرآن نے صراحت کے ساتھ ذکرصرف انہیں کا کیا ، جن کا تعلق عرب و نواح ِعرب سے تھا۔ اور جن سے قرآن کے مخاطبین اول خوب واقف تھے اور جن کے نام سے انہیں کسی نئی الجھن یا پریشانی کا سامنا نہیں ہوسکتا تھا ۔اور باقی دنیا کے لئے اجمالاً صرف اتنا بتا دیا گیا کہ رہبرو رہنما ،ہر ملک ،ہر قوم میں بھیجے گئے ہیں اور اب چونکہ کوئی بھی حکم ِ شریعت موقوف ان لوگوں کی ہدایات پر نہیں ۔اس لئے ان کی تفصیل میں جاناخلاف حکمت ہی ہوتا ۔

            اصل سوال سے الگ عرض یہ ہے کہ قرآن مجید دعویٰ نہیں کرتا کہ ایک قوم میں نبی ورسول اصطلاحی معنیٰ میں بھیجے گئے ہیں ۔ البتہ اس نے یہ کہا ہے کہ مصلح یا ہادی یا پیغام رسانی کے وجود سے کوئی قوم محروم نہیں رہی ہے ۔اصطلاحی رسول ایک مخصوص عہدہ یا مرتبہ کا نام ہے ۔یہ ہر گز ضروری نہیں کہ اس کا وجود ہر ملک و قوم میں ہوا ہو۔

(مولانا عبدالماجد دریا آبادی )

جوابات:

(۱) اسلامی ثقافت کا بڑا دائرہ ہے ۔اس کے اندر چھوٹے چھوٹے دائرے ہر ملک کی ثقافت کے علاقائی خصوصیات کے لحاظ سے آسکتے ہیں ۔مصری اسلامی ثقافت ،ایرانی اسلامی ثقافت۔ پاکستانی اسلامی ثقافت کے معنی ہوں گے کہ وہ ہے تو اصلاً اسلامی ہی ثقافت، لیکن پاکستان کے مقامی خصوصیات سے متاثر۔

(۲) علاقائی ثقافتوں کے جتنے بھی اجزا’ اسلامیت کے منافی نہ ہوں اور اس کے اندر سمیٹے جا سکتے ہوں ، سمیٹ لیے جائیں۔اور اس طرح ہر مسلم ملک کی اسلامی ثقافت دوسرے مسلم ملک سے کسی قدر مختلف ہوگی ۔ لیکن غالب جزو مشترک ہو گا۔

(۳) اصلی اور سب سے بڑا خطرہ ہی ایک ہے ، جس سے سارا عالم دو چار ہے ۔یعنی وہی فتنہ جسے تہذیب فرنگ کہا جاتا تھا،اب سارے عالم کو محیط ہوتا جا رہا ہے۔کیا یورپ اور کیا ایشیا اور کیا افریقہ اور عالم ِ اسلام بھی کہنا چاہیے کہ پوری طرح اس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔فتنہ کا مقابلہ آسان نہیں ۔پاکستان جماعتِ اسلامی اس کام کو کہیں زیادہ قوت و کامیابی کے ساتھ انجام دے سکتی تھی ۔انتہائی قلق ہے کہ سیاسی اقتدار کے پھندے میں پھنس کر اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں ضائع کر دیں ۔

(۴) اصل و جوہر کے لحاظ سے یقینا حریف ،البتہ بعض جزئیات میں حلیف بھی بنایا جا سکتا ہے ۔

(۵) عموماً و بیشتر یہ رحجانات اسی فرنگیت کے پیدا کردہ ہیں۔فتنہ کا کہنا چاہیے کہ سب سے بڑا علم بردار گروہ مستشرقین ہے ۔اس کی نیت جو کچھ بھی ہو، بہر حال عملاً صورتحال یہ ہے کہ وہ بے شمار دولت و مال سے اور اپنے ہزار ہا ہزار کارکنوں کو لگا کر پچاسوں ،سیکڑوں ،کالج اور انسٹی ٹیوٹ اوریونیورسٹیاں ہربر اعظم میں کھلواکر اسلامیت کی جڑ براہِ راست کھوکھلی کر رہاہے ۔اس کا توڑ صرف یہ ہے کہ ہم بھی اسی قوت اور زور و تنظیم سے کام لے کر عالمی پیمانہ پر اپنے مبلغ ان سے زیادہ پیدا کریں ۔ اور تحریر،تقریربلکہ ہرمیدان میں ان سے بازی لے جائیں۔

(۶) ایک کام تو یہی ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کو دینی علمی ،تعلیمی ،تہذیبی خدمات کے لئے از سر نو زندہ کیا جائے ۔اور اس کے ذریعے سے دنیا کے ہر ہر گوشہ میں ہر علم اور ہر فن کے اندر اسلامیت کی روح داخل کر دی جائے۔ (صدق جدید 27مئی 1967)

(مولانا عبدالماجد دریا آبادی )

سوال: ایک صاحب جو اسلامی تاریخ پر عبور رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔مُصر ہیں کہ کسی دور میں بھی مسلمانوں نے معاشرتی لحاظ سے اپنے آپ کو نہ علیحدہ رکھا اور نہ تو اسلامی ثقافت و تمدن مسلمانوں کی مخصوص چیز رہی ۔ان کا ارشاد ہے کہ جب عرب مسلمان افغانستان یا صوبہ سرحد گئے ۔وہاں اپنے لباس کی جگہ شلوار وغیرہ پہننی شروع کی ۔انڈونیشیا یا ہندوستان آئے تو وہاں دھوتی باندھنی شروع کی ۔اور جب سمر قندوبخارا گئے وہاں وسط ایشیا کے صدیوں پرانے رواج کے تحت سر پر ٹوپی پہننی شروع کی ،غرض یہ کہ مسلمان جہاں گئے دوسروں کے رسم و رواج اور تمدن و ثقافت کو اپنایا یعنی ان کے نزدیک اسلامی ثقافت و تمد ن کوئی چیز نہیں ۔بلکہ عقائد کو چھوڑ کر مسلمانوں نے ہرملک کے تمدن کو اپنایا۔کیا یہ نظریہ حقائق پر مبنی ہے ۔راقم الحروف کا خیال ہے کہ فکری ، تمدنی، معاشرتی اور مذہبی تضاد نے یہاں برِ صغیر ہندو پاکستان میں مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت کو ختم نہیں کیا ۔ اور غالباً یہ ہی عظیم تضاد ان کے لیے ایک علیحدہ مطالبہ کا پیش ِ خیمہ ثابت ہوا ۔آپ اپنی محققانہ رائے گرامی سے اس معاملہ میں روشنی ڈالیں ۔

جواب: دونوں دعوے اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں ۔اور دونوں کے درمیان جو نقیض نظر آئی ہے وہ صرف ظاہری اور لفظی ہے ۔

            مغالطہ لفظ ‘‘ثقافت’’ کے دہرے مفہوم سے پیدا ہوا ہے ۔ایک ثقافت وہ ہے ،جس کا تعلق عقائد ، اخلاق ، دینیات سے ہے ۔وہ ملتِ اسلامی یا امتِ اسلامی کے ساتھ مخصوص ہے ۔خواہ وہ امت کہیں اور کسی زمانے میں ہی بنی ہو ۔بت پرستی کی ہر صورت سے گریز، بلکہ جس میں شائبہ اور شبہ بھی بت پرستی کاپا یا جائے ۔مثلاً تصویر یا شبیہ اس سے بھی گریز۔ایسے لباس سے احتیاط ،جس میں جسم کا کوئی ضروری حصہ کھلا رہ جائے ۔عورتوں کے لئے ایسے لباس کی ممانعت جو جھلی کی طرح باریک ہو ۔مرد کو ایسے لباس سے پر ہیز (مثلاً ریشم ) جس سے بڑائی یا عیش پسندی ٹپکتی ہو۔ مرد و زن کے بے تکلفانہ اختلاط کی حرمت ،بازی لگا کر کھیلنے والے کھیل تماشوں سے احتراز ،قبروں پر چڑھاوے نذرانے سے اجتناب ،یہ چند مثالیں اسلامی ثقافت کی ہیں ۔مسلمان یورپ کا ہو یا آسٹریلیا کا ، افریقہ کا ہو یا امریکا کا اور کسی دور کا بھی ،اس کی تہذیب و ثقافت کالازمی جزو اس قسم کی ساری احتیاطیں اور پابندیاں ہیں ۔ ثقافت کی دوسری قسم میں وہ چیزیں داخل ہیں ۔ جن کا تعلق عقائد ،اخلاق اور دینیات سے نہیں بلکہ تمام تر ملک کی آب و ہوا اور دوسرے رسم ورواج سے ہوتا ہے۔ مثلاً لباس کی وضع قطع، زبان اور رسم خط، علوم و فنون ، صنعتیں حرفتیں وغیرہ۔ یہاں اس دائرے میں ثقافت مقامی ہے اور اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(مولانا عبدالماجد دریا آبادی )

جواب : بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی برائی پوری طرح سے معاشرے پر غلبہ پا لے تو سوچنا چاہیے کہ اس کے عوامل کیا ہیں؟ اس کے عوامل بہت حدتک ملک کی معیشت اور اس کے معاشی ڈھانچے میں ہوتے ہیں۔ سماجی اقدار و روایات کی اس لحاظ سے بڑی حد تک دوسری پوزیشن ہوتی ہے۔ہمارے ہاں رشوت کے فروغ کے معاملے میں صرف چند اخلاقی عوامل ہی کام نہیں کر رہے، بلکہ اس کے پیچھے بہت سے سماجی اور معاشی عوامل بھی موجودہیں۔ جس طرح کا تفاوت سوسائٹی میں پیدا کر دیا گیا ہے اور جاگیر داری پس منظر نے جس طرح کی اخلاقیات پیدا کی ہیں، اس کو اگر آپ سامنے رکھیں گے تو صورت حال بڑی حد تک واضح ہو جائے گی۔ اس کے عوامل کا ٰغیر جانبدارانہ جائزہ لیا جانا چاہیے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کے پیچھے سیاسی اداروں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟اس کے پیچھے معاشی اداروں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ یہ تفاوت جو بڑھنا شروع ہوگیا ہے، جو تبدیلیاں اس کے نتیجے میں آنا شروع ہو گئی ہیں، جیسے خاندان کے خاندان اب معاشی جدوجہد میں مصروف ہونے پر مجبور کر دیے گئے ہیں، آج سے پچاس سال پہلے یہ صورت حال نہیں تھی۔ یہ عمل جتنا آگے بڑھے گا، اسی نسبت سے تفاوت دور کرنے کے لیے لوگوں کو پیسے کی ضرورت پڑے گی۔جب آپ ایک کانسٹیبل کو۲۰۰۰ دیں اور کہیں کہ چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی دو تو وہ ہمارا لحاظ نہیں کرے گا، پھر آپ کا جو پورا جاگیر دارانہ نظام ہے، پس منظر کے لحاظ سے وہ ویسے بھی اخلاقی قدروں کی نشوونما کو کچل دیتاہے۔

 لوگوں کی معاشی ضرورتیں، ان کے معاشی مسائل اور پھر جس طریقے سے انسانوں سے معاملات کیے جارہے ہیں،وہ ایک مخصوص نفسیاتی شخصیت تخلیق کرتے ہیں، اس کو جس طرح آپ معیشت کے بوجھ تلے دبا دیتے ہیں۔ اس کے بعدآسان طریقہ رشوت لینا ہے۔ آخر لوگ رشوت کیوں نہ لیں؟میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ اس کو کس طریقے سے ختم کریں گے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان عوامل کو تقویت نہ دی جائے۔ سوسائٹی بحیثیت مجموعی ان کے خلاف آگے بڑھ کر جدوجہد کرے۔جب معیشت کے نظام میں کچھ تبدیلیوں سے سیاسی اداروں میں تبدیلیاں آئیں گی، پھر کچھ تبدیلیاں آپ کے سماجی ڈھانچے میں آئیں گی، اس کے بعد ہی اخلاقی اقدار کا نعرہ کچھ موثر ہونا شروع ہوگا۔ یہ ٹھیک ہے کہ چند لوگوں کی حد تک، جن کے اندر عزم،بڑا حوصلہ اور بڑی قوت ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ اخلاقی اقدارکی پاسداری کر لیں لیکن بالعموم عوام بہت مشکل حالات میں ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : دیکھیے بات یہ ہے کہ اخلاقی معاملات کے اندر بحث کبھی نہیں کی جاتی، ان کا جواز کبھی نہیں ہوتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ ان کا علمی اور نظری سطح پر بھی کوئی جواز پیش کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور ایک چیز یہ ہے کہ ایک معاملہ ایک شخص کے لیے کیا صورت اختیار کرتا ہے۔ یعنی اگر تو محض اتنی بات ہے کہ مجھ کو فتوے دینے ہیں اور اس کے نتیجے میں رشوت ختم ہو جائے گی تو میں دے دیتا ہوں، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ فتویٰ لوگوں کے کانوں کی دیوار سے ٹکرا کر واپس آجائے گا، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یہ تو بالکل ٹھیک ہے کہ مجھے جب بھی آپ پوچھیں گے کہ کیا آدمی کو جھوٹ بولنا چاہیے تو میں کہوں گا کہ نہیں بولنا چاہیے۔ آپ کہیں گے کہ رشوت لینی چاہیے؟ تو میں کہوں گا کہ نہیں لینی چاہیے۔ اس لیے کہ رشوت ایک اخلاقی برائی ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پیش نظر کیا ہے؟ ہم یہ کام شب و روز کر رہے ہیں،اس لڑائی میں آپ ایک عام آدمی کو کم سے کم وہاں تو کھڑا کریں، جہاں وہ اس پوزیشن میں آ سکے کہ وہ یہ بات سن سکے۔ورنہ بات یہ ہے کہ اب آدمی کیا جواب دے، بعض اوقات جب لوگ پوچھتے ہیں، اپنے حالات بتاتے ہیں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کِیا جائے؟آپ کے معاشی معاملات کے اندر بھی تبدیلیاں نہیں آرہیں۔ اندازہ کیجیے کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے گورنمنٹ سکول میں چند روپے فیس تھی، ہم دیہات میں جاکر ایک ڈسپنسر کے پاس سے مکسچر لے آتے تھے اور بخار اتر جاتا تھا۔ اب ذرا تعلیمی اخراجات اور علاج معالجے کو دیکھیے کہ کیا صورتِ حال ہے؟ یعنی ایک آدمی جس کے تین چار بچے ہیں، اگر وہ اپنے بچوں کوصحیح تعلیم ہی دلوانا چاہتا ہے تو آپ اسے تنخواہ کیا دے رہے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپے دیں گے۔ میں ایک عام آدمی کی بات کر رہا ہوں، وہ اس رقم سے کیسے گھر چلائے؟

(جاوید احمد غامدی)

جواب :ایک ہی چیز ہے، یعنی ایک میں آپ روپیہ استعمال کر لیتے ہیں، دوسرے میں اثر و رسوخ استعمال کر لیتے ہیں۔دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ دونوں سے کیا کام لے رہے ہیں۔ کیا آپ کسی کا حق مار کر اپنے آپ کو ترجیح دلوا دے رہے ہیں؟ زیادہ تر یہ ہی ہوتا ہے۔ جب یہ چیز بہت پھیل جاتی ہے تو اصل میں اور چیز وجود میں آتی ہے۔ پہلے مرحلے میں لوگ رشوت اپنی جائز خواہشات پوری کرنے کے لیے لیتے ہیں، لیکن جس وقت وہ روپیہ تقسیم ہو جاتا ہے، رشوت بڑے پیمانے پر پھیل جاتی ہے تو اس کے بعد لوگوں کے منہ کو خون لگ جاتا ہے، پھر وہ کوئی جائز کام بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب ان کی آمدنی کا ایک یہی بڑا ذریعہ ہے ۔ ایک جانب آپ ان کی آمدنی کے ذرائع محدود کرتے چلے جاتے ہیں، دوسری جانب لوگوں کے درمیان ایک بڑا تفاوت پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کے لیے ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ نہ ان کے لیے تعلیم دلانا ممکن ہے، نہ ان کے لیے روٹی کمانا ممکن ہے اور نہ ہی ان کے لیے صحت کے مسائل حل کرنا ممکن ہے۔ اس صورت حال میں پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر وہ جائز کاموں کے لیے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پیسے لینے چاہئیں۔ یہ ہی ان کی آمدنی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ میرے خیال میں پہلے رشوت کی تعریف کر لیں کہ رشوت اصل میں ہے کیا چیز؟... کسی ناجائز کام کرنے کے لیے روپیہ لینا اور دینا رشوت ہے، لیکن جب آپ کا حق تھا، آپ اسے لینے کے لیے گئے تھے تو وہ آپ کو ملنا چاہیے تھا، آپ کسی پر کوئی ناجائز ترجیح قائم نہیں کر رہے تھے، تو آپ بری الذمہ ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس کو جو لت آپ نے ڈالی ہے، وہ کیا ہے؟ اور اب وہ اس کے لیے مجبور ہے،پھر مجبوری تھوڑی دیر بعد خواہش بن جاتی ہے، اس کے بعد آدمی اسی پر نہیں رکتا کہ اچھا میرے بچے بھوکے تھے تو میں نے یہ کام کر لیا۔ اب اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ میری جو کوٹھی بن گئی ہے۔ اب مجھے اس سے بڑی کوٹھی بنانی ہے۔ تو ایکcycleہے جو پورے معاشرے میں چل رہا ہے۔ آپ سو سائٹی کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ایک طرف آپ کو لوگوں کی فکر کی اصلاح کرنی چاہیے اور دوسری طرف ان کے سماجی حالات کی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : تحفے کو نبی کریم ﷺ نے بڑی خوبی کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جب کچھ لوگ اس طرح کے تحفے لے کر آئے تھے تو آپ ﷺ نے کہا کہ ان تحائف کو مسجد میں کیوں نہیں تقسیم کیا ؟ لوگوں نے جب یہ کہا کہ ہم یہ تحائف گورنر کی حیثیت سے یا فلاں حیثیت سے فلاں جگہ سے لے کر آئے تھے اور لوگوں نے یہ بطور تحفے ہمیں دیے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ تحائف تم لوگوں کو گھروں میں بیٹھے ہوئے کیوں موصول نہیں ہو گئے؟ اگر آپ کے ایسے ہی تعلقات اور روابط تھے تو گھروں میں بیٹھ جاتے اور یہ وہیں مل جاتے۔اگر کسی ذمہ داری یا کسی منصب کی وجہ سے لوگ آپ کو تحائف دیتے ہیں تو آپ کے منصب سے رعایت یا فائدہ اٹھانے کے لیے دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بے شمار ذرائع سے ملتی ہے۔ دیکھیے بات یہ ہے کہ رشوت سے منصب ملتے ہیں، اس سے ذمہ داریاں ملتی ہیں۔ رشوت سے اولاد کے لیے اچھے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اب تو اس کی اتنی قسمیں وجود میں آگئیں ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر آپ کو بیرون ملک کا دورہ مل جائے تو وہ بھی کافی ہے۔ آپ کی لائف بدل جائے گی، بلکہ میں نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض اوقات لوگ صاحب اقتدار کی دعوتیں کرتے ہیں یا کسی موقع پر بلاتے ہیں تو اس کا بھی مقصد ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک بڑے مذہبی رہنما سے کہا کہ آپ کی سیاست کا کیا حاصل؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے بزرگ ایوان اقتدار میں جانے کا تصور بھی نہیں سکتے تھے، اب ہم جب چاہیں ایوان صدر میں جا سکتے ہیں۔ تو میں نے پھر مزید گفتگو نہیں کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ سطح معلوم ہو گئی تھی۔نہ تو کوئی نصب العین ہے اور نہ معاشرے کی کوئی اصلاح مقصود ہے۔جب انسان کی سطح یہ ہوگی توا س کے بعد پھر وہ رشوت بھی لے گا۔ اس وقت تو حکومتیں بھی رشوت میں دی جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : قرآن مجید نے بیان کر دیا ہے کہ جو آدمی لوگوں کا مال، لوگوں کا حق ناجائز طریقے سے کھاتا ہے، وہ اپنے لیے جہنم خریدتا ہے۔ غریبوں کے حقوق میں جب آپ خرابی پیدا کرتے ہیں تو یہ بہت بڑا جرم ہے، اس میں اللہ تعالیٰ سے بھی معاملہ کرنا ہوگا،بندے سے بھی کرنا ہوگا۔ یہ بہت سنگین جرم ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : بالکل قابل گرفت ہے، کیونکہ دوسری جانب آپ کسی کو محروم بھی تو کر رہے ہیں نا۔ جس وقت آپ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنی جگہ بنائیں گے تو آپ کسی دوسرے کو محروم کر رہے ہوں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : اس بارے میں ایک سادہ سا اصول ہے۔ جو نبی کریم ﷺ نے بڑی خوبی کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ اپنے دل سے پوچھ لیا کرو، اپنے نفس سے مشورہ لے لیا کرو۔ اخلاقی معاملات کے لیے آپ کے دل کے اندر ہی ایک واعظ موجودہوتا ہے اور وہ آپ کو بالکل ٹھیک فتویٰ دے دیتا ہے۔ ہم بہت اچھی طرح سے یہ جانتے ہوتے ہیں کہ ہم کب کسی کی واقعی مدد کر رہے ہوتے ہیں،کب ہم کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں کر رہے ہوتے ہیں؟ یہ سب کو معلوم ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں کوئی اخلاقی اصول نہیں ہوتا، وقت پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جب مجھے ایسا معاملہ پیش آئے گا تو میں بھی یہ ہی کروں گا۔ آپ کو معاملات پیش آئیں گے تو آپ بھی کریں گے۔ آپ کسی غریب آدمی کی مددتو کریں، لیکن اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ اس کی مدد کرنے سے کسی دوسرے پر ظلم نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:  کسی بھی نیک کام کرنے کے بعد آپ کو اس کا جو اجر ملتا ہے، وہ ثواب کہلاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اچھے اور بھلائی کے کام کریں۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ترغیب دینے کی غرض سے بعض مواقع پر اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان اور جمعہ کے دن کا ہے۔ ان میں آپ نیکی کرتے ہیں تو اس کا اجر آپ کو زیادہ ملتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اجر زیادہ اور کم اسی نیکی کا ہے ، جو آپ نے کی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے جو جرائم کیے ہیں، وہ بھی ختم ہوگئے۔ یہ نیکی ان فرائض کے برابر نہیں ہو گی، جن کو آپ نے پورا کرنا تھا۔ اگر کسی کے ساتھ آپ نے کوئی زیادتی کی ہو گی یا کوئی ظلم کیا ہو گا تو اس کی سزا آپ کوبھگتنا ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: جو آدمی ناجائز کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق مارتا ہے۔ اس کوجان بچانی مشکل ہو گی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی آدمی لوگوں کے حقوق نہیں دیتا تو وہاں اس کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سوائے نیکیوں کے کہ ان سے تبادلہ کر لے۔ اگر کوئی لوگوں کو تنگ کرتاہے، طرح طرح کے جرم کرتا ہے اور اس کے بعد وہ نماز پڑھتا ہے۔ نماز سے جو اجر ملتا ہے، روزے سے جو اجر ملتا ہے، اس کا ثواب حقوق العباد ادا نہ کرنے کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔ اس کی آپ کو عملی طور پر تلافی کرنی چاہیے، لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔اصل میں آپ پر کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ یہ فرائض آپ پر خدا کے حوالے سے بھی عائد ہوتے ہیں اور کچھ انسانوں کے حوالے سے بھی۔ لوگوں کی یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جنت اہلیت کے بغیر مل جائے گی، آپ پہلے اپنے آپ کو جنت میں جانے کا اہل ثابت کریں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے ساری زندگی بے شمار نمازیں پڑھی ہیں۔ کوئی لیلتہ القدر ایسی نہیں، جس میں اس نے عبادت نہیں کی، ہر سال حج کیا ہے۔لیکن ایک معصوم انسان کو قتل کر دیا ہے تو اس کا جنت میں جانے کا استحقاق ختم ہو گیا، اسی طرح ایک آدمی ظلم کرتا ہے، اس کے والد نے جو میراث چھوڑی، وہ اس کی صحیح تقسیم نہیں کرتا۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

            پہلا مسئلہ تو جنت جانے کے لیے اہل ثابت کرنا ہے۔جنت میں جانے کا اہل ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جو جنت میں جانے سے روکے۔ میں نے آپ کو دو جرائم کی مثال دی ہے۔ ان کے بارے میں قرآن مجید میں بالکل واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی آدمی جنت میں نہیں جا سکتا ۔ اسی طرح قرآن میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ وہ آدمی جو تکبر کرتا ہے اور تکبر کی تعریف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ کسی صحیح چیز کے مقابلے میں انانیت کی وجہ سے ڈٹ جاتا ہے اور لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ داخل ہو سکتا ہے، وہ جنت میں نہیں جا سکتا۔ اگر آپ لیلۃ القدر یا کسی اور رات میں بہت معافی مانگتے ہیں۔ بے شمار استغفار کرتے ہیں۔ آپ حج پر چلے جاتے ہیں، مگر آپ نے کسی کے پلاٹ پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے، جب تک آپ اسے مالک کو نہیں لوٹاتے، کیسی معافی اور کیسا ثواب؟

(جاوید احمد غامدی)

جواب: آپ کو صرف اس چیز کا اجر ملے گا جو آپ نے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کی ہو گی۔ یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ہے۔یعنی کہ آپ نے کسی کا روزہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے افطار کروایا ہے تو اجر ملے گا۔ سیاسی افطار پارٹیوں کی رسم جن لوگوں نے قائم کی ہے، ان لوگوں کے پیش نظر نہ اجر و ثواب ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ثواب کمانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ کیا ان سیاسی افطار پارٹیوں میں ان لوگوں کو افطار پر بلایا جاتا ہے، جن کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ پہلے آپ یہ سوچیں کہ آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں یہ ایک رسم کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی افطار پارٹیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ بہتر ہے آدمی رمضان میں باہر چلا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افطار پارٹیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ آدمی کس کو انکار کرے اور کس کو انکار نہ کرے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ روزے کی اصل حقیقت گم ہو گئی ہے۔ روزہ اس لیے تھا کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں، یعنی اپنے آپ کو حدود کا پابند کریں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مجسم بن کر رہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  غریب آدمی کے پاس بھی اتنے ہی مواقع ہیں، جتنے امیر آدمی کے پاس ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا کلمہ منہ سے نکالنا اور راستے سے کانٹے اٹھانا بھی بہت بڑی نیکیاں ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  یہ نیکیاں الگ ہیں، مگر اس کے علاوہ بھی تو وہ کئی نیکیاں کما سکتے ہیں۔ پتا نہیں امیر آدمی زکوٰۃ، خیرات کرتا ہو، لیکن اس نے کتنے جرائم کیے ہوں، نیکی کمانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے کسی کودولت کا محتاج نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار راستے رکھے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جس نے کوئی کام محض اللہ کے لیے کیا ہو گا، اس کو صلہ ملے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس نے یہ کام کس کے لیے کیا۔ اگر کسی نے کام اللہ کے لیے کیا ہو گا تو اس کو اس کا اجر ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  اللہ تعالیٰ نے جتنی مہلت امتحان کے لیے دی ہے، اسی کی نسبت سے یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ میں وہاں پر کسی سے ظلم نہیں کروں گا، دنیا میں بھی ایسا ہی ہے کہ ایک کو ہم امتحان کے لیے دو گھنٹے دیتے ہیں او ر دوسرے کو پانچ تو اس وقت کی نسبت سے ہم پیپر کے نمبر لگاتے ہیں۔دو گھنٹے کے پیپر کے بھی سو نمبر اور پانچ گھنٹے کے پیپر کے بھی سو نمبر۔ جب ہم درست اندازہ لگا سکتے ہیں تو اللہ کے لیے کیا مشکل ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جتنی مہلت اس نے آپ کو دی، اس میں آپ نے کیا کیا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  اگر وہ اس جذبے سے کرے کہ اگر میرے والدین ہوتے تو ان کی خدمت میں اسی طریقے سے کرتا۔ خدا کا بڑا کرم ہے کہ آپ کو ارادے پر نیکی ملتی ہے۔ اگر آپ نے خیر کا ارادہ کر لیا اور موقع نہیں ملا تو ثواب ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ لوگوں کے حقوق ادا کریں اور ان کے ساتھ احسان کریں،انسانو ں کے ساتھ آپ کا اخلاقی رویہ بنیاد ی کردار ادا کرے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ دونوں حقوق اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں، اللہ کا حق بھی کہ وہ ہمارا مالک ’خالق ہے اور بندوں کے حقوق بھی۔اللہ سے تو آپ معافی مانگ سکتے ہیں کہ وہ کریم ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ معاف کر دے۔ سوال یہ ہے کہ آپ بندوں کے ساتھ کیا کریں گے اور یہ بڑا نازک مسئلہ ہے۔ بندوں کا حق مارلینے کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ ہماری ساری نیکیاں ختم ہو جائیں۔ جس کے ساتھ ہم نے بد دیانتی کی ہے، جھوٹ بولا ہے، دھوکا دیا ہے، فریب دیا ہے، اس کو نقصان پہنچایا ہے، ملاوٹ کی ہے، بڑے بڑے حاجی اور نمازی جو ہیں بڑے اطمینان کے ساتھ ملاوٹ کرتے ہیں، بڑے اطمینان کے ساتھ لوگوں کو غلط چیزیں کھلاتے ہیں، فرض کریں کہ آپ نے کسی ایسی چیز میں ملاوٹ کی ہے جو لوگوں کی جان کے لیے نقصان دہ بن گئی ہے تو آپ کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم ہو گا۔ آپ دوا بناتے ہیں، دوا بناتے وقت ایسی چیز ڈال دی جو نقصان دہ ہے تو گویا آپ اس بندے کو قتل کرتے ہیں۔ اس کا مقدمہ قائم ہو گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یہ عورت بس اپنے فرائض ادا کر لیتی ہے، اس کے ہمسائے اس سے بہت خوش ہیں، عزیزوں سے بھی بہت اچھا سلوک کرتی ہے اور دوسری عورت کے متعلق کہا گیا کہ وہ بہت نمازیں پڑھتی ہے، روزے رکھتی ہے، مگر اس کے ہمسائے اس سے بہت تنگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول الذکر کو جنتی قرار دیا، اور دوسر ی کو جہنمی ۔ اس کا مطلب ہے، جو چیز فیصلہ کن ہوجاتی ہے، وہ آپ کا اخلاق ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  یہ تو آپ کی نیت پر ہے کہ آپ نے سمجھا کہ وہ مستحق تھا، اس نے ثابت کیا کہ وہ مجرم ہے، آپ نے تو نہیں کیا۔ آپ کا اجر’ آپ کی نیت اور آپ کے ارادے پر ہے، یہ کسی دوسرے کی وجہ سے نہیں ملتا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جو ذکر و اذکار کرتا ہے، وہ اللہ تعالی کی پاکی بیان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتا ہے، اس کے ایمان کا اظہار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اجر اسے ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جواری، شرابی ہونے کی وجہ سے پہلے وہ جہنم میں جائے گا، پھر اجر ملے گا۔ پہلے تو وہ گناہ معاف ہوں گے، جنت میں جانے کے لیے پہلے ان گناہوں سے بچنا ہے۔ جو لوگ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں، ان کے لیے جنت ہے، پہلے تو آپ ان باتوں سے بچیں اور اگر کوئی کام کر بیٹھے ہیں تو توبہ کیجیے اور اگر کوئی زیادتی آپ نے کسی کے ساتھ کی ہے تو تلافی کیجیے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے بدکاری کی تو یہ تو اللہ تعالیٰ کا جرم ہے۔ اس پر معافی مانگ لے تو ہو سکتا ہے کہ وہ کریم معاف کر دے، لیکن ایک شخص نے کسی آدمی کو مار ڈالا، کسی آدمی کا مال لوٹ لیا، کسی کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اس میں صرف توبہ کام نہیں کر سکتی۔ تلافی کرنا پڑے گی۔ آپ کو اس بندے کو راضی کرنا ہو گا۔ دنیا میں راضی کرنا پڑے گا۔ اگر موقع نہیں ہے تو قیامت میں راضی کرنا ہو گا۔اور وہاں نیکیاں دے کر راضی کرنا ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ بنیادی بات لوگوں تک پہنچانی چاہیے کہ جنت میں جانے کے لیے کچھ جرائم ہیں،جن سے بچنا ضروری ہے اور کچھ نیکی کے کام ہیں جن کا کرنا ضروری ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: لفظ ‘‘مکرم’’ کا معنی ہے: ‘‘عزت کیا گیا’’، یعنی جس شخص کی عزت کی جائے اسے مکرم کہتے ہیں اور مکرمی کا معنی ‘‘میرے نزدیک عزت والا’’ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ولقد کرمنا بنی اٰدم (سورہ بنی اسرائیل آیت۷۰) اولادِ آدم کی عزت و تکریم کا پہلو بالخصوص ان باتوں میں ہے:عقل،فہم،گفتگوکا ملکہ،تمیز،خط تخلیق میں اعتدال۔ لٰہذا خط و کتابت میں ان دونوں لفظوں کا استعمال درست ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: اس میں شک نہیں کہ شفا دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، لیکن الشفا میڈیکل اسٹور کی ادویات کے ذریعے چونکہ اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید ہوتی ہے، اس لیے بطور تفاؤل (نیک فال) اس نام میں کوئی حرج نہیں ، نیز ایک صحابیہ کا نام بھی الشفا بنت عبداللہؓ تھا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ ‘‘شفا/الشفا’’ نام رکھنا بھی جائز ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: گھر میں پرندے پالنا جائز ہے بشرطیکہ ان کی خوراک کا طبائع کے مطابق بندوبست ہو۔ حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے بلی کو باندھے رکھا، کھانے پینے کو کچھ نہ دیا اور نہ چھوڑا کہ زمین سے وہ اپنی روزی حاصل کرے۔ اس کے سبب وہ دوزخ میں چلی گئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانور کے کھانے پینے کا انتظام ہو تو پھر گھر میں رکھنے کا کوئی حرج نہیں۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مؤنث اولاد چار لڑکیاں تھیں: حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم، حضرت فاطمۃ الزہرا رضوان اللہ علیھن اجمعین۔ اور تین یا چار یا پانچ لڑکے تھے: حضرت قاسم، حضرت عبداللہ، حضرت طیب، حضرت طاہر اور حضرت ابراہیم۔ چار اول حضرت خدیجہ (کے بطن) سے تھے اور حضرت ابراہیم، حضرت ماریہ قبطیہ (کے بطن) سے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی تھیں۔

            جو حضرات کہتے ہیں کہ آپﷺ کے چار لڑکے تھے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کا دوسرا نام طیب تھا، یہ الگ لڑکا نہیں تھا اور جو لوگ تین کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ہی کا تیسرا نام طاہر تھا۔ یہ تمام صاحبزادگان بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔ تما م صاحبزادیاں جوان ہوئیں اور ان کی شادیاں بھی ہوئیں۔

            حضرت زینبؓ کا نکاح حضرت ابوالعاص بن الربیع سے ہوا، حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کا عقد یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ سے ہوا اور حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے ہوا۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

سوال :۱۔ کیا شگون بد کوئی چیز ہے؟ کسی معین تاریخ یا دن یا مہینے کو منحوس جاننا یا کسی پرندے مثلاً کوا، الو، وغیرہ کے مکان کی چھت پر یا مکان کے اندر یا باہر قریب کے درخت پر بیٹھ کر بولنے کو منحوس خیال کرنا اور اس سے شگون بد لینا شرعاً کیسا ہے؟ بعض لوگ، بعض گھروں میں سکونت اختیار کرنے کو منحوس خیال کرتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فلاں رنگ،فلاں نشان والا گھوڑا پالنے سے گھر میں بے برکتی و تنزلی ہوتی ہے اور فلاں فلاں رنگ والے گھوڑے ’گائے’بیل باعث ِ برکت ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ گھر یا دکان کی دہلیز کا فلاں فلاں رخ رہنا باعث تنزل اور فلاں فلاں رخ رہنا باعث برکت ہے۔ بعض لوگ فلاں تاریخ، فلاں دن،فلاں ماہ میں سفر کرنے کو نا مبارک خیال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے کہ مکان،گھوڑے اورعورت میں نحوست ہوتی ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ مہربانی سے ہر ایک پر خصوصاً مکان،گھوڑے اور عورت پر مفصل روشنی ڈالیں۔

۲۔ کیا فال نیک و بد سچ ثابت ہوتی ہے اور اسلام کے نزدیک فال دیکھنا جائز ہے؟

۳۔ کیا بچے کی پیدائش پر کسی ستارہ کا اثر اس کی تقدیر و حیات پر پڑتا ہے؟ اور کیا بچے کا زائچہ لکھوانا جائز ہے؟

جواب: ۱۔ شرعاً شگون بد کوئی چیز نہیں ہے۔ یعنی بد شگونی درست اور جائز نہیں ہے ۔ پس بعض تاریخوں یا بعض مہینوں کو منحوس خیال کرنا یا بعض پرندوں کے گھر پر بیٹھ کر بولنے کو منحوس حیال کرنا یا بعض جانوروں کی سکونت کو منحوس جاننا یا کسی خاص تاریخ یا معین دن یا مہینے میں سفر کرنے کو نا مبارک سمجھنا یا گھریا دکان کی دہلیز کے فلاں رخ رہنے کو باعث تنزل اور فلاں رخ کی طرف رہنے کو باعث ترقی و برکت سمجھنا درست نہیں ہے۔ بہت سی حدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ کسی چیز میں نحوست نہیں ہے،نہ مرد میں ، نہ عورت میں ، نہ گھوڑے میں اور نہ کسی اور چیز میں اور بعض حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ عورت،مکان اور گھوڑے میں نحوست ہے۔امام مالک اور ایک گروہ کا قول انہی بعض حدیثوں کے موافق ہے ۔ یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی قضا سے یہ تینوں چیزیں ضرر و نقصان یا ہلاکت کا ظاہری سبب ہوتی ہیں۔ یعنی یہ تینوں چیزیں بذاتھا و طبعھا موثر نہیں ہیں، اور ان میں ذاتی و خلقی ، طبعی نحوست نہیں ہے،ورنہ لازم آئے گا کہ کوئی عورت یا کوئی گھوڑا یا کوئی مکان باعث خیرو برکت نہ ہو۔ بلکہ موثر حقیقی و بالذات اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ گاہے گاہے بعض عورتوں اور بعض مکانوں اور گھوڑوں کو ضرر یا ہلاکت کا سبب بنا دیتا ہے۔ یہ گروہ ان بہت سی حدیثوں کو جن سے مطلقاً نحوست کی نفی ثابت ہوتی ہے۔تاثیر بالذات اور شوم ذاتی، نحوست طبعی و خلقی کی نفی پر محمول کرتا ہے اور جن بعض حدیثوں سے نحوست کا ان تینوں چیزوں میں ہونا مذکور ہے۔ ان کو نحوست سببی عادی پر محمول کرتا ہے۔اس گروہ کے سوا باقی تمام علما کا قول ان بہت سی حدیثوں کے موافق ہے جن سے مطلقاًنفی ثابت ہوتی ہے۔ یعنی ان کا قول یہ ہے کہ کسی چیز میں شوم و نحوست نہیں ہے نہ ذاتی نہ سببی، نہ عورت میں نہ مکان میں نہ اور کسی چیز میں۔اور جن احادیث میں ان تینوں چیزوں کے اندر نحوست کا ہونا مذکور ہے۔ یہ لوگ ان کو ظاہری معنی پر محمول نہیں کرتے، بلکہ ان کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہتے ہیں کہ عورت کی نحوست یہ ہے کہ بدخلق و تند مزاج و نافرمان ہو یا اس کے بچے نہ پیدا ہوتے ہوں یا شوہر کے مزاج کے موافق نہ ہو۔ اورگھر میں نحوست ہونے سے مراد یہ ہے کہ تنگ ہو، پڑوسی اچھے نہ ہوں۔ اس جگہ کی آب و ہوا اچھی نہ ہو یا مسجد سے بہت دور واقع ہو اور گھوڑے کی نحوست یہ ہے کہ سرکش ہو، قابو میں نہ آئے۔ بہت گراں ہو، مقصد و غرض اس سے پورا نہ ہوتا ہو۔ پس کسی چیز کو اس معنی سے منحوس جاننا کہ وہ بذاتہ نفع و ضرر پہنچانے والی یا ہلاک کرنے والی ہے، قطعاً ناجائز اور حرام ہے کیوں کہ یہ شرک ہے۔ ضار حقیقی اور نافع حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے اور امام مالک ؒ وغیرہ نے جس اعتبار سے عورت،گھر،گھوڑے میں نحوست مانی ہے وہ بھی اگرچہ شرک نہیں ہے ۔ اس لیے کہ وہ بھی مؤثرحقیقی اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں۔ صرف نحوست کے قائل ہیں۔ لیکن اس بارے میں راجح مسلک جمہور علما کا ہے جو کسی چیز میں نحوست مطلقاً نہیں مانتے اورنحوست ماننے والی حدیثوں کو ظاہر پر محمول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی تاویل کرتے ہیں۔

۲۔ قصداً فال دیکھنا جیسا کہ عوام و جہلا میں مروج ہے کہ دیوان حافظ یا قرآن سے فال نکالتے اور دیکھتے ہیں، نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے نہ سلف صالحین، صحابہ و تابعین وغیرھم سے۔ پس بلا شبہ اس طرح فال دیکھنا بدعت و ممنوع ہے۔ اور بد فالی سے تو صراحتاً حدیث میں منع کیا گیا ہے۔

            البتہ نیک فال لینا شرعاً درست ہے اور حدیث سے ثابت ہے اور تفاؤل مشروع و مباح وہ ہے جو قصداً و ارادۃً نہ ہو بلکہ ابتداء ً کوئی آواز سنی اور اس کو نیک فال پر محمول کر دیا۔ جیسے گھر سے کسی کام کے لیے نکلے اور کان میں کسی کی آواز آئی۔‘‘فائز’’ یا ‘‘مفلح’’ یا ‘‘رباح’’یا ‘‘افلح’’ یا ‘‘یسار’’ یا‘‘برکت’’ یہ آواز سن کر خیال کر لیا کہ ان شا ء اللہ کام پورا ہو جائے گا یا تجارت میں نفع ہوگا، وغیرہ وغیرہ تو یہ تفاول مباح ہے، جب کہ قصداًو ارادۃً فال نکالنا اور دیکھنا غیر مباح و غیر جائز ہے۔

۳۔ کسی آیت ِقرآنی اور حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ کسی بچے کی پیدائش پر’ اس کی تقدیر و حیات پر کسی ستارہ کا اثر پڑتا ہے، یہ عقیدہ رکھنا گمراہی ہے۔ بچہ کا زائچہ لکھوانا جائز نہیں۔ ایسے شخص کو جوقرآن وسنت پر ایمان رکھتا ہو، ان لغویات و مکروہات وبدعات کا ذہن میں تصور بھی نہیں لانا چاہیے۔

(مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوریؒ)

جواب۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پر وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔

وضاحت: اس معاملے میں کلید ی لفظ قرض ہے۔جب بھی دو فریقین کے مابین تعلق قرض خواہ اور مقروض کا ہو گا تو قرض دینے والا اگر قرض کو اس شرط سے مشروط کر دے کہ وہ ایک معین اضافہ ایک معینہ مدت کے لیے اپنے قرض پر وصول کر ے گا تو یہ اضافہ سود یا ربا کہلائے گا۔

 قرآن مجید نے جب ربا کو ممنوع قرار دیا تو اسوقت اس کے لیے کوئی نئی اصطلاح وضع نہیں کی بلکہ معاشرے میں رائج اصطلاح کو ہی استعمال کیا اور ظاہر ہے کہ اس اصطلاح کا وہاں ایک خاص مطلب تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ قرآن نے شراب ا و ر جوئے کے لیے خمر اور میسر کی اصطلاحیں استعمال کی تو وہ بھی وہی تھیں جو وہاں رائج تھیں۔اس ماحول کا ہر شخص جس طرح خمر اور میسر کی اصطلاح کا مطلب سمجھ رہا تھا اسی طرح ربا کا مطلب بھی ان پر غیر واضح نہ تھا۔ قرآن نے جب جوئے اور شراب کوممنوع قرار دیا توصرف اتنا کہا کہ یہ اب سے ممنوع ہیں اور انہیں ممنوع قرار دیتے ہوئے قرآن نے یہ وضاحت بالکل نہیں کی کہ جوئے کا مطلب یہ ہوتا ہے اور خمر کایہ۔کیونکہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ کیا ہوتی ہیں۔یہی معاملہ ربا کا تھا قرآن کے براہ راست مخاطبین اس کے مفہو م کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔جب کوئی لفظ مروجہ مفہوم سے ہٹ کر ایک نئے مطلب میں استعمال کیا جاتا ہے تو عبارت کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ یہاں ایک نئے مطلب میں استعمال ہو رہا ہے۔جس طرح کہ اقبال نے خودی کے لفظ کو ایک نیا مفہوم دیا تو سیاق و سباق سے یہ بات واضح تھی۔

            لفظ کے معنی کے تعین میں یہ بات بنیاد ی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ اہل زبان اس کو کس مفہوم میں بولتے ہیں اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کامطلب او رہے تو پھر بارِ ثبوت اس کے ذمے ہے۔مثلا اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن نے خمر کا لفظ ایک خاص قسم کی شراب کے لیے استعمال کیا ہے یا اس شراب کے لیے جو بہت زیاد ہ پی جائے تو پھر یہ بات اس کو ثابت کرنا ہوگی کیونکہ اہل زبان تو اس کو اس مفہوم میں نہیں سمجھ رہے ہوتے ۔ اسی طرح ربا کا لفظ قرآن کی ایک نئی اصطلاح نہیں ہے بلکہ اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے جو عربوں میں رائج تھا۔اور عرب میں یہ لفظ اسی مفہوم میں مستعمل تھا جیسا کہ پیچھے وضاحت ہو چکی ہے۔یہ واضح ہے کہ جب قرآن ربا کا لفظ استعمال کر تا ہے تو وہ اس کو قرض پہ ایک متعین اضافے کے لیے ہی استعمال کرتا ہے اگر وہ اس کو محض اضافے کے مفہوم میں لے رہا ہوتاتوپھر اس کا اطلاق ہر اضافے پر ہوتاجبکہ منافع بھی ایک اضافہ ہی ہے۔لیکن وہ جائز ہے۔

(آصف افتخار)

جواب۔ میرا خیال ہے کہ اس آیت سے یہ استنباط درست نہیں ہے۔آیت میں زبان کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ سود کی شناعت کو مزید واضح کرنے کیلئے ہے نہ کہ اس کی اجازت کے لیے ۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ اگرکوئی یہ کہے کہ خدا کے لیے اپنی بیوی کے سامنے تو دوسری عورتوں سے چھیڑ خانی سے باز رہا کرو تو اس کامطلب یہ ہر گز نہیں کہ بیوی کی عدم موجودگی میں یہ چھیڑ خانی کر لیا کرو۔ اب قرآن کریم کی ایک مثال سے اس کو سمجھیے۔

‘‘ اور اپنی لونڈیوں کو پیشہ پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت کی زندگی کی خواہاں ہوں محض اس لیے کہ کچھ متاع دنیا تمہیں حاصل ہو جائے(۲۴۔۳۳)

اب ظاہر ہے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں رضامندی سے پیشہ کریں تو ان کو اجازت ہے ۔یہ اسلوب تو ان لوگوں کے اس فعل کی شناعت کو واضح کرنے کے لیے ہے جو لونڈیوں کو اس قبیح کام پر مجبور کرتے تھے جبکہ وہ عفت کی زندگی گزارنا چاہتی تھیں۔

قرآن نے ربا کے معنی واضح نہیں کیے او ر اس کو اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔جو لوگ قرآن کی عربی سے آشنا تھے وہ پہلے ہی سے اس سے آگاہ تھے۔اسی طرح قرآن نے خمر کے معنی بھی واضح نہیں کیے کیو نکہ یہ بھی لوگوں کو پہلے ہی سے معلو م تھے۔ قرآن نے تو صرف ان دونوں کی ممانعت کر دی۔قرآنی عربی میں ربا اس مقررہ رقم (اصل زر کے علاوہ) کوکہتے ہیں جس کامطالبہ ایک قرض دینے والا معینہ مدت کے بعد مقروض سے کرتا ہے۔مزید برآں قرآن سے یہ بھی واضح ہے کہ اُس زمانے میں بھی لوگ تجارتی مقاصد کے لیے قرض دیا کرتے تھے۔کیونکہ تجارتی مقاصد کے لیے دیے گئے قرض میں ہی مال پروان چڑھتا ہے جیسا کہ درج ذیل آیت سے واضح ہے

‘‘اور جو سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ وہ دوسروں کے مال کے اندر پروان چڑھے تو وہ اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑھتا ۔ او رجو تم زکوۃ دو گے اللہ کی رضا جوئی کے لیے تویہی لوگ ہیں جو ( اللہ کے ہاں) اپنے مال کو بڑھانے والے ہیں’’(۳۰۔۳۹)

اس لیے اگر کسی کا یہ خیا ل ہے کہ یہاں لفظ ربا کا مطلب صرف استحصالی سود ہے توبارِثبوت اس کے ذمے ہے۔درج ذیل آیت ہمارے موقف کو مزید موکد کر دیتی ہے۔

‘‘اے ایمان والو اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود تمہار ا باقی رہ گیا ہے ا س کو چھوڑ دو۔’’(۲۔۲۷۸)

‘‘ اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو فراخی تک اس کو مہلت دواور بخش دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو’’۔(۲۔۲۸۰)

درج بالا دونوں آیات ایک ہی سیاق و سباق رکھتی ہیں لہذا یہ دونوں اس بات کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں کہ صرف وہ ہی سود منع نہیں ہے جہاں مقروض تنگ دست ہو۔تنگ دستی کا بیان تو اصل میں ایک استثنا کا بیان ہے کہ اگر ایسا ہو تو۔اور آیت ۲۔۲۷۸ میں وہی سود منع کیا گیا ہے جو باہمی طور پر طے شد ہ ہو۔امام فراہی کے نزدیک اگر یہاں استثنائی صورت حال کا بیان نہ ہوتا تو ‘‘ان کان ’’کے بجائے‘‘ اذا’’استعمال ہوتا۔اس کو اس مثال سے سمجھیے فرض کریں کہ ایک پولیس آفیسر اپنے ما تحت سے یہ کہتا ہے کہ تمام ملزموں کو کل رہا کردینا اور اگر کوئی ملزم پولیس سے تعاون کرے تو اسے آج ہی رہا کردینا۔ ان دونوں جملوں کا سیاق ایک ہی ہے۔دوسرے جملے سے یہ با لکل واضح ہے کہ یہاں استثنا کا بیان ہے۔اسی طرح جب قرآن یہ کہتا ہے کہ سود میں جوبھی رہ گیا ہے اسے چھو ڑ دو اور اگر مقروض تنگی میں ہو تو اس کی فراخی تک مہلت دو۔تو واضح ہے کہ یہ دوسری بات اصل میں استثنا ہے۔دوسر ے الفاظ میں پہلی آ یت میں سود کی ممانعت کا عموم ہے اور انہی قرضوں کے لیے ہے جو لوگ تنگ دستی کی حالت میں نہیں لیتے بلکہ مال کو پروان چڑ ھانے کے لیے لیتے ہیں۔امام امین احسن اصلاحی اس آیت پہ بحث کرتے ہوئے ان الفاظ میں اس کو سمیٹتے ہیں۔

‘‘ظاہر ہے کہ مالدار لوگ اپنی ناگزیر ضروریات زندگی کے لیے مہاجنوں کی طرف رجوع نہیں کرتے رہے ہوں گے بلکہ وہ اپنے تجارتی مقاصد ہی کے لیے قرض لیتے رہے ہوں گے۔ پھر ان کے قرض اور اس زمانے کے ا ن قرضوں میں جو تجارتی اور کاروباری مقاصد سے لیے جاتے ہیں کیا فرق ہوا؟’’

چنانچہ قرآن سے یہ واضح ہوا کہ تمام اقسام کا سود ممنوع ہے او ر اس میں وہ بھی شامل ہے جو لوگ تجارتی مقاصد کے لیے لیتے ہیں او رجس میں استحصال کا کوئی پہلو نہیں ہوتا او ر نہ ہی کسی مجبور کی ضرورت سے ناجائز فائد ہ اٹھایا جاتا ہے۔

(آصف افتخار)

جواب۔ سود صرفی چیزوں پہ ہوتا ہے اور کرایہ غیر صرفی چیزوں پر ہوتا ہے۔ یعنی ایک چیز میں نے آ پ کوادھار دی اور وہ چیز ایسی ہے کہ اس کو لازماً فنا ہونا ہے۔وہ استعمال نہیں کی جاسکتی۔مثلاآپ کو آٹا چاہیے۔آپ اسے کھائیں گے اور یہ فنا ہو جائے گا اب اس کو دوبارہ پیدا کرنا ہو گا ۔یعنی محنت کر کے پھرگندم خریدنی ہو گی پھر آٹاپیدا ہو گا ۔پھر آپ اسے لوٹائیں گے۔اسی طرح پیسے بھی فنا ہو جاتے ہیں۔اس کو کہتے ہیں صرفی چیزیں۔استعمال کی چیزیں وہ ہوتی ہیں جو استعمال سے فنا نہیں ہوتیں بلکہ ویسے کی ویسے رہتی ہیں اور آپ معینہ مدت کے بعد انہیں اسی طرح لوٹا سکتے ہیں۔ مثلا یہ میز ہے ۔ آپ کو ضرورت تھی ۔آپ نے کہا ذرا میز دے دو استعمال کرنے کے لیے۔آپ استعمال کریں گے ۔اور استعمال کے بعدآپ میز اٹھا کے مجھے واپس دے دیں گے۔اس استعمال کا کرا یہ ہو تا ہے

            صرفی چیزوں میں انسان دہری مشقت میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔اگر اس سے اس کے اوپر کچھ مانگا جائے تو وہ چونکہ اس چیز کو فنا کر بیٹھتاہے۔اسے بھی دوبارہ پیدا کرکے دینا ہوتا ہے اور اس پر مزید بھی دینا ہوتا ہے تو یہ ظلم ہے ۔ فرض کریں کہ آپ نے بیس لاکھ روپیہ مجھے دیا ہے ۔وہ میں نے کاروبار میں لگا لیا۔مجھے کاروبار میں نفع ہویا نقصان، وہ ڈوب جائے یا کچھ بھی ہو۔مجھے اب اسے دوبارہ کما کر واپس کرناہے اور اس پر مزید بھی دینا ہے اس کے برعکس میں نے مکان لیا ہے آ پ سے ۔ مکان میں میں رہ رہا ہوں ۔مالک مکان نے نوٹس دیا میں نے کہا جی دوسرا تلاش کر لیتا ہوں۔خالی کر کے دے دیا ۔ یہاں دہر ی مشقت نہیں ہے۔ اسی طرح آپ ہوٹل میں ٹھہر تے ہیں توکمرے کاکرایہ ہی دیتے ہیں ۔کرایہ استعمال کا ہے اس کمرے کاجس میں آپ ٹھہرتے ہیں ۔کمرہ خالی کرتے وقت آپ کو کیا کرنا ہوتا ہے ؟ کمرہ دوبارہ بنا کے دینا ہوتا ہے ؟ نہیں!لیکن پیسہ اگر آپ نے دس لاکھ روپیہ لے لیا ہے تو وہ تو بہرحال آپ نے خرچ کرنا ہے ۔اسے دوبار ہ کما کر دینا ہوگا۔

(آصف افتخار)

جواب۔ سود لینا بہر حال ممنوع ہے مسلم ملک ہو یا غیر مسلم ملک ۔ اس کی ممانعت کی علت مسلم یا غیر مسلم ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے اند ر موجود اخلاقی قباحت ہے۔جس طرح آپ مسلم ملک میں ہوں یا غیر مسلم ملک میں آپ کو بہر حا ل دیا نتد ار ہونا چاہیے ۔اسی طرح سودسے پرہیز بھی لازم ہے چاہے آپ جہا ں بھی ہوں۔جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے ۔‘‘ حربی کافر اور مسلمان کے درمیا ن کوئی سود نہیں ہے ’’ (بیہقی) یہ حدیث صحاح ستہ میں کہیں نہیں پائی جاتی اور ویسے بھی یہ مستند نہیں ہے ۔ دوسرے یہ قرآن سے بھی متصادم ہے اس لیے اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ اسلام کی روسے قرض خواہ اور مقروض کے درمیان معاہدہ انصاف اور کسی کے استحصال پر مبنی نہ ہونا چاہیے۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک فریق کے حقوق زیادہ محفوظ ہوں تو یہ نا انصافی ہو گی۔سودی معاملات میں دونوں فریقین کے درمیان عدل اور انصاف کی قدر مفقود ہوتی ہے۔اس میں عام طور پر قرض خواہ کے حقوق کا خیال کیا جاتا ہے اور مقروض کے حقوق نظر انداز ہوتے ہیں۔یہ حقیقت کہ بعض غیر منصفانہ اقدامات سے معیشت پھل پھول رہی ہوتی ہے ٹھیک ہے لیکن یہ پھلنا پھولنا ان اقدامات کو جائز نہیں بنا دیتا۔بہت سے ایسے معاملات ہیں جو غیر اخلاقی ہیں لیکن جن سے معیشت کو فائد ہ ہوتا ہے مثلا سمگلنگ ’ منشیات وغیرہ کی تجارت’ اس فائدے کی بنا پر ان معاملات کو رائج نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ اخلاقی اقدار کو بچانا بہر حال ضروری ہے۔افریقہ اور بعض مشرق بعید کے ممالک میں غلامی اور بچوں کی سمگلنگ وغیر ہ ہو رہی ہے اور اس سے انہیں بہت معاشی فائد ہ بھی ہو رہا ہے لیکن بہر حال اس فائدے کی بنا پر اس کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ واضح ہوا کہ بظاہر بعض معاملات معاشی طور پر مفید ہو سکتے ہیں لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اخلاقی طور پر بھی درست ہوں گے۔سود اخلاقی قباحتوں کی بنا پر ممنوع ہے نہ کہ معاشی حوالوں سے ۔معاشی بہتری اور ترقی اسی وقت قابل تعریف ہو سکتی ہے جب وہ اخلاقی حدود کی پاسداری کے ساتھ ہو نہ کہ ان کو قربان کر کے ۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ میرا خیا ل ہے کہ سود کے جواز میں یہ پوری مثال ہی درست نہیں ہے۔سودی معاملات یوں کام نہیں کرتے۔اگر فریقین میں یہ پہلے سے طے ہو جائے کہ مقررہ مدت میں ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں یہ یہ جرمانہ ہو گاتو اس پر تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سود ی معاملات میں تو مقررہ مدت کے دوران میں بھی سود ادا کرنا ہوتا ہے۔ سود مقررہ مدت کے بعد سے شروع نہیں ہوتا بلکہ اس مدت کا ہی ہوتا ہے۔اس لیے ہمارے خیال میں سود کے حق میں آپ کے دوست کا یہ جوازدرست نہیں یہ سودسے متعلق نہیں بلکہ ایک جرمانے کی نوعیت کی چیز ہے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ اسلام سود کی ممانعت اس لیے کرتا ہے کہ یہ اخلاقی مفاسد کا حامل ہے۔اس لیے ایک شخص کو سود کی رقم استعمال نہیں کرنی چاہیے چاہے وہ اس کے اکاؤنٹ میں زبردستی ہی کیوں نہ کریڈٹ کر دی جائے۔بنک چارجز تو اصل میں بنک کی ان خدما ت کا معاوضہ ہے جو بنک آپ کو فراہم کرتا ہے۔اگر ان خدمات کامعاوضہ زیادہ ہے تواس کامطلب یہ نہیں کہ آپ ان کے لیے سود کی رقم استعمال کرسکتے ہیں۔یہ تو ایک طر ح سے آپ خود ہی اس رقم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ یہ رقم کسی خیراتی مقصد کے لیے استعمال کر لی جائے۔سود کی رقم اصل میں سوسائٹی کا حق ہوتا ہے جو اس سے چھینا جاتا ہے وہ اسی کو لوٹاناچاہیے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ اسلام میں سود لینا بہر حال منع ہے چاہے یہ بہبود عامہ اور خدمت خلق کے لیے ہی کیوں نہ لیا جائے۔اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی کام کو کرنے کیلئے اس کے مقاصد اور کام کو کرنے کا طریقہ کا ر دونوں ہی ٹھیک ہونے چاہییں۔یعنی مقاصداورذرائع یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔آپ کی تجویز ‘‘روبن ہڈ ’’ قسم کی ہے کہ نیک مقاصد کی تکمیل کے لیے نا پسندیدہ ذرائع استعمال کیے جائیں۔اسلام کا مقصد تزکیہ نفس ہے اور درست سمت میں سفر کرنا ہے چاہے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوں یا نہ لیکن درست راستہ کسی حال میں بھی ترک نہیں کیا جا سکتا۔مقاصد کا حصول صرف انسان کی کوشش اور محنت پر منحصر نہیں بلکہ اللہ کی منشا پر بھی ہوتا ہے۔ اگر اللہ کی منشا نہ ہو تو ہمیں ہماری کوشش کا ثمر بہر حال مل جائے گا۔اگر ہمارے پاس جائز ذرائع سے حاصل کر دہ رقم موجود نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نا جائز ذرائع سے رقم حاصل کرکے خیراتی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔جب ایک چیز ہمارے پاس ہے ہی نہیں تو ہم سے اس بارے میں مواخذہ بھی نہیں ہو گا۔قرآن مجید کی ایک مثال سے اس مسئلے کو سمجھیے۔

اسلام سے قبل عرب میں غربا کی امداد کا ایک طریقہ شراب نوشی اور جوا بھی تھا۔مخیراور فیاض حضرات محفلِ ناؤ نوش منقعد کرتے اور نشے میں جس کا اونٹ ہاتھ آتا پکڑتے اور ذبح کر ڈالتے ۔اس گوشت پر جوا کھیلتے جو شخص جوا جیت جاتا تو وہ یہ سارا گوشت غریبوں میں تقسیم کر دیتا جو اس موقع پر پہلے ہی سے وہاں جمع ہو جاتے۔شراب اور جوئے کا یہی وہ فائد ہ تھا جس کی وجہ سے لوگوں نے ان کے بارے میں استفسار کیا کہ کیا یہ واقعی ممنوع قرار پائے ہیں جب کہ ان کے کچھ فوائد بھی ہیں۔قرآن نے اس کے جواب میں یہ بتایا کہ یہ تو ایک ضمنی فائد ہ تھا یہ عمل لوگوں میں اخلاقی بگاڑ کا ذریعہ تھا۔اس لیے اس کی ممانعت کی گئی ہے۔

‘‘وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ان دونوں چیزوں کے اندر بڑ ا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائد ے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائد ے سے بڑھ کر ہے ۔’’(۲۔۲۱۹)

چنانچہ واضح ہوا کہ باوجود اس کے کہ شراب اور جوابعض فوائد کے حامل تھے انہیں منع قرار دیا گیا کیونکہ وہ اخلاقی مفاسد کے حامل تھے ۔اس لیے آپ کی پیش کردہ صورت حال میں بھی ہمارا مشورہ یہی ہے کہ آپ کوئی اور متبادل سوچیں اور اگر کوئی متبادل ممکن نہیں تو گناہ کا کام کرنے سے بہتر ہے کہ سرے سے فری ڈسپنسری کا خیال ہی ختم کر دیا جائے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ اسلام میں سود کی ممانعت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض خوا ہ اور مقروض دونوں کے حقوق ایک جیسے محفوظ نہیں ہوتے ۔قرض خواہ کو تو اس کے قرض کی واپسی کی محفوظ ضمانت ہو جاتی ہے لیکن مقروض کا اس بارے میں کوئی خیال نہیں کیا جاتا۔یہ بات اصل میں سودی معاملے کو غیر اخلاقی بنا دیتی ہے۔

تا ہم ایسے شخص کے لیے اس کا متباد ل موجو د ہے جو سود سے رقم حاصل نہیں کرنا چاہتا اور دوسرے کے ساتھ نفع نقصان کا ساتھی بھی نہیں بننا چاہتا اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا اصل زر محفوظ رہے اور وہ قرض دے کر رقم حاصل کر ے۔یہ معاہد ہ اس طرح ہو گا کہ آپ کسی کو قرض دے کر یہ معاہد ہ کریں کہ اگر تم کو اس سے نفع ہوا تو اس میں میرا حصہ ہو گا تا ہم میں نقصان میں شامل نہیں ہوں گا۔اس میں اس کو نفع ہونا شرط ہے ۔ سود اس صورت میں ہوتا ہے جب آپ یہ کہتے ہیں کہ تمہیں نفع ہویا نقصان ہو جو بھی ہو مجھے بہر حال اتنے فیصد ملنا چاہیے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ کاغذی کرنسی کا آغاز تو حالیہ صدیوں میں ہوا ہے۔اور افراط زر اور فرسودگی کا مسئلہ بھی کاغذی کرنسی کے ساتھ ہی متعلق ہے ۔ اس سے قبل بارٹر سسٹم رائج تھا یعنی اشیا کا تبادلہ اشیا سے ہوتاتھا۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ فرسودگی کا سوال ہی نہ تھا۔چنانچہ افراط زر او ر فرسودگی کی وجہ سے رقم کی قد ر میں جو کمی ہوتی ہے اسلامی حوالے سے اس کا لحاظ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے ۔ تا ہم یہ مسئلہ چونکہ فرد واحد کے اقدام سے حل نہیں ہو سکتا اس کے برعکس اس کے لیے ریاستی اقدام کی ضرورت ہے۔ اور ریاست کو اس سلسلے میں اقدام بہر حال کرنا چاہیے کہ افراط زر اور فرسودگی کی صورت میں لوگوں کی رقوم کی اصل قیمت میں جو کمی ہوتی ہے اس کی تلافی کرنی چاہیے۔ او رجب تک ریاست یہ اقدام نہیں کرتی ہم بہر حال کچھ بھی کرنے سے معذور ہیں۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ ریفل ٹکٹ جوئے کے مترادف ہیں۔ ان کے حق میں عام طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان سے حاصل شدہ رقم انسانی بہبود پر خرچ کی جاتی ہے ۔ یاد رہے جب قرآن نے جوئے کو ممنوع قرار دیا تھا تو اس وقت جوابھی انسانی بہبود کا ایک ذریعہ تھا۔مخیر حضرات ایک جگہ جمع ہوتے شراب نوشی کرتے اور جوا کھیلتے اور جیتنے والا سب کچھ غربا میں تقسیم کر دیتا۔لیکن قرآن نے اس کی ممانعت کرتے ہوئے اس کے اخلاقی فساد کو پیش نظر رکھا اور اس وقتی منفعت کو بالکل نظر انداز کر دیا کیونکہ اخلاقی بگاڑ معاشروں کیلئے بہر حال زیاد ہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ قرآن کہتا ہے

‘‘وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ان دونوں چیزوں کے اندر بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے ۔’’(۲۔۲۱۹)

ان نام نہاد انسانی بہبود کی سکیموں کا ایک بڑا اخلاقی مفسدہ یہ ہے کہ یہ معاشرے میں خود غرضی ’ موقع پرستی اور طمع پیدا کرتی ہیں۔اسلام میں انفاق کی بہت فضیلت اور اہمیت ہے لیکن وہ انفاق جو صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی طلب میں ہو نہ کہ وہ جو فریج’ ٹی وی یا وی سی آر کے حصول کے لیے ہو۔یا کسی گلوکار کی رس بھری آواز سے حظ اٹھانے کے لیے ہو۔اس طرح کی تمام سکیمیں انسانی مزاج کا رخ آخرت اور رضائے الہی سے پھیر کر ذاتی اغراض کے پورا کرنے کی طرف کر دیتی ہیں۔اور یہ عمل بالآخر معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔اس طرح کی انسانی سکیمیں بنانے اور ان کا انتظام کرنے پر لاکھوں خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ ان سے ہزاروں اکٹھا کیے جاتے ہیں جبکہ یہ انتظامی لاکھوں بھی براہ راست غربا کی بہبود پر خرچ کیے جائیں تو کہیں زیادہ فائد ہ ہو سکتا ہے۔یہ خود غرضی کی عجیب مثال ہے کہ ایک شخص جو کہ ایک میوزک شو کیلئے یا ایک میچ کیلئے ہزاروں کے ٹکٹ خرید سکتا ہے اور اس موقع پر پہننے کے لیے ہزاروں کے کپڑ ے بنوا سکتا ہے وہ اپنے کسی ہمسائے کے دکھ درد کو دور کرنے کیلئے سیکڑوں نہیں خرچ کر سکتا کیونکہ میوزک شو یا میچ میں اس کی تصویر بھی اترنا تھی اور نام بھی اخبارات میں آنا تھاجبکہ دوسر ی صورت میں کچھ بھی نہیں ہونا تھا۔اسلام یہ قدر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ لوگ اخلاص کے ساتھ اللہ کے راستے میں خرچ کریں جس میں ان کامقصود شہرت ’ دکھاوا’ نمائش یا کوئی اور ذاتی غرض نہ ہو۔ ایسے ہی لوگ ابد ی جنت کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ اس طرح کی سکیموں میں خرچ کرنے والے اپنا احسان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے غریبوں کی مدد کی جبکہ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے احسان مند ہوتے ہیں غربا کے کہ ان کی صورت میں اللہ نے انہیں انفاق کا ایک موقع فراہم کیا۔ دونوں ذہنیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اسلام یہی دوسری قسم کی ذہنیت پیدا کرنا چاہتا ہے اس لیے اس طرح کی سکیموں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔بائبل نے اس کو اس طر ح بیا ن کیا۔

‘‘خبردار اپنے راستی کے کام آدمیوں کے سامنے دکھانے کے لیے نہ کرو۔ نہیں تو تمہارے باپ کے پاس جو آسمان پر ہے تمہارے لیے کچھ اجر نہیں ہے۔پس جب تو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا۔جیسا ریا کار عبادت خانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تا کہ لوگ ان کی بڑائی کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں وہ اپنا اجر پا چکے ۔بلکہ جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے ۔تا کہ تیری خیرات پوشید ہ رہے۔اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بد لہ دے گا۔’’(متی۔۶۔۱’۴)

قرآن مجید کہتا ہے۔‘‘اے ایمان والو! احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اکارت مت کرو۔ اس شخص کی مانند جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روز آخرت پر وہ ایمان نہیں رکھتا’’ (۲۔۲۶۴)

‘اور اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر ان کو چھپاؤ اور چپکے سے غریبوں کودے دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔اور اللہ تمہارے گناہوں کو جھاڑ دے گا۔اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کی خبر رکھنے والا ہے۔’’(۲۔۲۷۱)

جب ایک میوزک شو’ یا تمنائے دید’ یا میچ کا لطف’ یا ایک فریج اور ٹی وی وغیر ہ انفاق کا باعث اور محرک ہو تو ان تمام اخلاقی اقدار کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے جنہیں اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔اور اخلاقی اقدار کی موت کا مطلب اصل میں معاشرے کی موت ہوتا ہے۔انفاق کی اصل روح کا برقراررہنا اسلامی معاشرے کا جزو لا ینفک ہے۔جسے کسی صورت قربان نہیں کیا جا سکتا۔

‘‘جو لوگ اپنے مال رات اور دن’پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں انکے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔اور نہ ان کے لیے خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔’’

(آصف افتخار)

جواب۔ سٹاک ایکسچینج اصل میں ایک منڈ ی ہے جہاں شیئرز کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔کسی کمپنی کے شیئرز خرید کر آپ اصل میں اس کے کاروبار میں حصہ دار بنتے ہیں۔اور اگر اس کمپنی کے کاروبار کی نوعیت شریعت سے متصادم نہیں ہے تو اس کا حصے دار بننے اور منافع حاصل کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اسی طر ح کسی وقت آپ اگر اپنے اس حصے کو بیچ دیتے ہیں اور اپنا اصل زر واپس لے لیتے ہیں تو یہ بھی درست ہے۔تا ہم جب معاملات شیئرز کی اس حقیقی خرید وفروخت سے آگے بڑھتے ہیں تو مسائل کا آغاز ہوتا ہے اور شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔

اصل تو یہ ہے کہ شیئرز کی قیمت کمپنی کی حقیقی معاشی کارکردگی سے وابستہ ہو۔لیکن مارکیٹ میں موجود سٹے باز جنہیں انویسٹرز کہا جاتا ہے وہ طلب و رسد میں مصنوعی بگاڑ پیدا کرکے قیمتوں کو اپنے مفاداتی طریقوں سے کنٹرول کرتے ہیں۔اور نتیجتاساری مارکیٹ ہی سٹے پر چل پڑتی ہے۔کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک کمپنی کے شیئرز کی قیمت بڑھ رہی ہوتی ہے کہ یکدم گرنا شروع ہو جاتی ہے جبکہ دوسر ی طرف ایک کمپنی کے شیئرز کی قیمت گھٹ رہی ہوتی ہے کہ یکدم بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔اس طرح یہ سٹے باز لاکھوں کا کھیل،کھیل رہے ہوتے ہیں جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور عام طور پر معاشرے کے کمزور طبقے کو ان منفی اثرات کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔۱۹۔اکتوبر ۱۹۸۷ جسے کہ بلیک منڈے کہا جاتا ہے اسی طرح کی سٹے بازی کا برا ترین دن تھا۔انویسٹرز کی بے چینی کی وجہ سے وال سٹریٹ کی مارکیٹ بری طرح کریش ہوئی۔اور ایک ہی دن میں اربوں روپیہ ڈوب گیا۔بعض اوقات وقت سے قبل ہی شیئر ز کی خریدوفروخت شروع ہو جاتی ہے یعنی کمپنی نے اصل میں ابھی شیئر ز مارکیٹ میں نہیں بیچے ہوتے۔اور عام طور پر ادھار کے سرمائے پر یہ سارا کاروبار چلتا ہے اور اندازوں میں معمولی سی غلطی دور رس اثرات مرتب کرتی ہے اور اثرات در اثرات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اور نتیجے میں ملک کی پوری معیشت متاثر ہوتی ہے۔دوسری طرف محنت کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اخلاقی و معاشی بگاڑ معاشرے میں سرایت کر جاتا ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں معاشی سرگرمی محنت اور سرمائے کے اشتراک سے اخلاقی اصولوں کی حدود میں رہتے ہوئے پروان چڑھے۔جبکہ سٹے بازی اعلی اخلاقی اقدار اور حقیقی معاشی محنت سے اجتناب کا نام ہے۔ان تمام کے پیش نظر تقوی یہی ہے کہ سٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے اجتناب کیا جائے۔کیونکہ اس سے اسلامی معاشرے کی حقیقی قدر ، انفاق بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

اسلامی ریاست ایسی قانون سازی کر سکتی ہے کہ جس کی روسے باہمی معاہدوں میں دھوکا دہی کا عنصر ختم کیا جا سکے اور فریقین کو نقصان سے بچایا جا سکے ۔جب تک ایسا قانون وجو د پذیر نہیں ہوتا یہ فرد پر ہی ہے کہ وہ ایسے معاشی معاملات سے اجتناب کرے جن سے یہ خدشہ ہو کہ وہ اس کے تزکیے اور طہارت پر اثرانداز ہوں گے۔

(آصف افتخار)

جواب۔ اسلامی شریعت کا بنیادی مقصد انسانی نفس کا تزکیہ اور طہارت ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ معاشی سرگرمیاں انسانی کردار پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ایسی تمام سرگرمیاں جن سے آئینہ روح دھندلا جاتا ہو اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ایک جوئے باز کی خصوصیات پر نظر کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ

۱۔ ایک جواری کی تمام سرگرمیاں چانس کے ارد گرد گھومتی ہیں اور اس میں اس کی کوئی فنی صلاحیت یا محنت شامل نہیں ہوتی اور یہ عمل اسے بزدلی اور توہمات کی طرف لے جاتا ہے۔

۲۔ اس میں محنت کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے جس سے اس کے لیے اور اس کے خاندان کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔

۳۔ وہ خود غرضی اور کمینگی کا بھی شکار ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی زیاد ہ سے زیادہ حصول کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنس کر رہ جاتی ہے اوروہ اسی امید پر نقصان پر نقصان کرتا رہتا ہے کہ شاید اب کے مل جائے اسی شاید شاید میں زند گی ختم ہو جاتی ہے۔

۴۔ وہ اعلی اخلاقی اقدار سے بے بہر ہ ہو جاتا ہے اور زندگی کا کوئی نصب العین نہیں رہ جاتا۔

لازم نہیں کہ یہ تمام خصوصیات ایک ہی وقت میں پیدا ہوں یا کہ یہ اپنی پوری اور مکمل شکل میں ہوں لیکن بہر حال ان کا وجود ظاہر ضرور ہوتا ہے جبکہ اسلام ایسی تمام راہوں پہ قدغن لگاتا ہے جو اس قسم کی صورت حال تک پہنچا سکتی ہوں۔اور عموما اسلام حقیقی برائی کا آغاز ہونے سے بہت قبل ایک لائن کھینچ دیتا ہے تا کہ امکان کے درجے کی چیز بھی باقی نہ رہے۔

ریس میں شرط لگانا بھی جو ا ہے۔انویسٹمنٹ اور شرط بازی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ حقیقی محنت اور سرمائے کے وجود سے معاشی سرگرمی پیداہو اور اس سرگرمی کے نتیجے میں وجود میں آنے والی رقم مارکیٹ میں آئے جو معاشرے کی اجتماعی بہبود پر صرف ہولیکن ریس میں اس قسم کی کوئی صورت نہیں ہوتی ۔ دوسرے یہ کہ آپ میں ایک گھوڑے کی صلاحیت پرکھنے اور پیشنگوئی کرنے کی کتنی ہی صلاحیت کیوں نہ ہوبے یقینی کا عنصر پوری طر ح موجود رہتا ہے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ انعامی بانڈ سے حاصل کردہ رقم از روئے اسلام جائز نہیں۔جب آپ انعامی بانڈ خریدتے ہیں تو اصل میں آپ حکومت کو رقم قرض دیتے ہیں اور حکومت اس پر آپ کوسود ادا کرتی ہے۔وہ سود سب لوگوں کو ملنے کے بجائے چند لوگوں کو اکٹھا کر کے دے دیا جاتا ہے اور اس کو انعام کا نام دے دیا جاتاہے لیکن اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔

اس کے علاوہ اس میں جوئے کی قباحت بھی موجود ہے کیونکہ اس میں آپ محنت کے بغیر صرف قسمت اور چانس پر انحصار کرتے ہیں۔

(شہزاد سلیم)

جواب: راقم نے نہ صرف اس موضوع سے متعلقہ لٹریچر کا براہ راست مطالعہ کیا ہے بلکہ ہئیر ٹرانسپلانٹیشن کے ماہرین اور بالوں کی پیوند کاری کروانے والے افرادسے بذات خود ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ بالوں کی پیوند کاری سے متعلقہ تمام مراحل کا مشاہدہ کرنے کے بعد راقم اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں کہ انسان اپنے عیب کو چھپانے کے لیے اپنی ہی جلد کے ایک حصہ کے بال دوسرے حصہ میں لگوائے۔ علاوہ ازیں اسے تغییرلخلق اللہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ انسان کی فطرتی تخلیق سر کے بالوں کے ساتھ ہے اور جس کے سر کے بال گر جائیں وہ علاج معالجہ کی راہ اختیار کرنے کا پورا شرعی حق رکھتا ہے اور بالوں کی پیوند کاری بھی ایک جدید طریق علاج ہے جو میڈیکل سائنس میں ترقی کی وجہ سے دریافت ہوا ہے اور اس کی تائید اس حدیث نبویؐ سے بھی ہوتی ہے:‘‘ما انزل اللہ داء الا انزل لہ شفاء’’ (یعنی اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی پیدا نہیں کی جس کی شفا نہ اتاری ہو۔) بالوں کی پیوند کاری کے ذریعے اگنے والے نئے بال چونکہ قدرتی بالوں کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اس لیے ان کی موجودگی میں طہارت،نماز اور حج و عمرہ وغیرہ کے حوالہ سے کوئی نیا شرعی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اس میں صرف ایک چیز قابل غور ہے اور وہ ہے اس عمل کے لیے سر پر زخم لگوانا۔ لیکن یہ بھی اس لیے جائز معلوم ہوتا ہے کہ علاج معالجہ کے لیے اس طرح کے چھوٹے موٹے زخم اور تکلیفیں دیگر امراض کے طریقہ ہائے علاج میں بھی پائی جاتی ہیں اور جب انھیں علاج کی ضرورت یا حصہ سمجھ کر جائز تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر اسے بھی جائز تسلیم کیا جانا چاہیے اور ویسے بھی جس شخص کی چند دنوں کی معمولی تکلیف کے بعد شخصیت بن جائے اور گنجے پن کی وجہ سے متاثر ہونے والی وجاہت پھر سے بحال ہو جائے، اسے نہ اتنی تکلیف کا کوئی احساس ہوتا ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لیے ایک بڑی رقم صرف کرنے کا کوئی افسوس نہوتا ہے۔

            ہئیر ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے سر پر جو بال اگائے جاتے ہیں وہ چونکہ سر کے اصل (قدرتی) بالوں کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، اس لیے طہارت کے حصول، نماز کی ادائیگی اور حج و عمرہ کے موقع پر بال کٹوانے یا منڈوانے کے حوالہ سے ان کی صورتِ حال وہی ہوگی جو قدرتی بالوں کی طرح ہوتی ہے جب کہ وگ اور ہیئر یونٹ وغیرہ استعمال کرنے کی صورت میں شرعی احکام کی نوعیت کچھ اس طرح ہوگی:

۱۔ وگ اتارنے میں آسانی ہوتی ہے اس لیے وضو میں اسے اتار کر سر کا مسح کرنا چاہیے تاہم بعض احادیث کے مطابق چونکہ عمامے اور پگڑی وغیرہ پر بھی مسح ہو جاتا ہے، اس لیے عمامے پر قیاس کرتے ہوئے وگ پر مسح کرنا بھی اسی طرح جائز قرار دیا جائے گا جس طرح مہندی لگے سر پر مسح کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ جب کہ وگ کے علاوہ ہئیر یونٹ جسے بآسانی اتارا بھی نہیں جا سکتا، اسے اتارے بغیر اس پر مسح کرنا بطریق اولیٰ جائز قرار دیا جائے گا۔

۲۔ غسل مسنون کی صورت میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچایا جائے جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے: ‘‘تحت کل شعر جنابۃ فاغسلوا الشعر’’(ہر بال کی تہہ میں جنابت (کا اثر) ہے لہٰذا بالوں کو دھویا کرو۔) اس لیے اگر وگ اور ہئیر یونٹ کی صورت یہ ہو کہ اس میں مساموں کے ذریعے ہوا ، پانی وغیرہ جلد تک پہنچنے کا امکان ہو تو پھر اسے اتارے بغیر بھی غسل کیا جا سکتا ہے اور اگر اس میں مسام نہ ہوں یا پانی کا سر کی جلد تک پہنچنا نا ممکن ہو تو پھر اسے بہر صورت اتار کر غسل کیا جائے، ورنہ غسل کے شرعی تقاضے پورے نہ ہوں گے۔ واضح رہے کہ مارکیٹ میں دستیاب ہئیر یونٹس کا راقم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ اس میں جس جھلی پر بال چپکائے گئے ہوتے ہیں، اس میں ہوا اور پانی وغیرہ کے گزرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے مسام ہوتے ہیں۔ لہٰذا انھیں اگر پہنا ہوتو پھر غسل کے لیے انہیں اتارنا ضروری نہیں۔

۳۔ حج و عمرہ کے آخر میں سر کے بال کٹوانا یا منڈوانا‘مناسک’ میں شامل ہے۔ مرد کے لیے بال کٹوانا یا منڈوانا دونوں صورتیں جائز ہیں البتہ بال کٹوانے کی نسبت منڈوانے کو افضل قرار دیا گیا ہے، جب کہ عورت کے لیے بال منڈوانا حرام ہے، اس لیے وہ صرف تھوڑے سے بال کٹوائے گی۔ ہئیر ٹرانسپلاٹینشن میں بال چونکہ قدرتی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اس لیے انھیں کٹوانے یا منڈوانے کے حوالے سے کوئی نیا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن وگ اور ہئیر یونٹ میں بال سر کا حصہ نہیں ہوتے، اس لیے انھیں اتار کر مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی کرنا چاہیے اور بال کٹوانے یا منڈوانے کے موقع پر گنجا شخص اپنے اصل گنجے سر پر استرا پھروالے، ہئیر یونٹ یا وگ وغیرہ پہن کر اس پر سے بال کٹوا دینا کافی نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم!

(حافظ مبشرحسین لاہوری)

جواب: ایک مسلمان درج ذیل صورتوں میں اپنا مسلم ملک چھوڑکر غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کر سکتا ہے۔

(۱) مسلمان طالب علموں کو شرعاً مکمل آزادی ہے کہ وہ بیرونِ ملک جا کر علم حاصل کریں۔ علم کے حصول کے لیے غیر مسلم ممالک میں جا کر غیر مسلموں سے استفادہ کرنا شرعاجائز ہے بلکہ بعض حالات میں ضروری ہو جاتا ہے مثلاً اپنے اسلامی ملک کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف اقسام کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے مسلمان طلبہ کا دوسرے ممالک میں جانا ، کیونکہ دنیا میں ایسے دور میں داخل ہو گئی ہے کہ کسی قوم کا خصوصی ٹیکنالوجی کے بغیر آزاد اور زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ حضور سرورِ کائنات نے بعض صحابہ کرام کو غیر مسلم ممالک میں ان کی زبانیں سیکھنے کے لیے بھیجا تھا۔ اورحدیث صحیح ہے کہ الحکمۃ ضالۃ المؤمنین کہ دانائی اور علم مومن کی گم شدہ متاع ہے جسے وہ تلاش کرتا رہتا ہے۔ احادیث نبویہ میں علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز ممالک میں جانے کی ترغیب دی گئی ہے۔

(۲) اگر ایک مسلمان ایسے ملک میں رہتا ہو جس میں ظلم و زیادتی کا دور دورہ ہو اور اسے بغیر کسی جرم کے اذیت پہنچائی جا رہی ہو یا قید و بند میں بلا وجہ رکھا جا رہا ہو یا اس کی جائیداد ناحق ضبط کی جا رہی ہو، ایسا شخص اگر کسی غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کرے، جہاں اس کو امن و سکون حاصل ہو تو ان مظالم سے بچنے کے لیے وہ غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کرنے کا مجاز ہے، بشرطیکہ اس کا دین و ایمان وہاں محفوظ ہو اور منکر اور فواحش اختیار نہ کرے جو اکثر غیر مسلم ممالک میں رائج ہوتے ہیں۔ اور یہ اطمینان کر لے کہ وہاں جا کر عملی زندگی میں دین کے احکام پر کاربند رہے گا اور اپنی عصمت اور پاکدامنی محفوظ رکھ سکے گا۔

(۳) اگر ایک مسلمان معاشی مشکلات کا شکار ہے اور اپنے ملک میں تلاش بسیار کے باوجود وہ نان جویں کا بھی محتاج رہے، ان حالات میں اگر اس کو کسی غیر مسلم ممالک میں کوئی جائز ملازمت مل جائے جس کی خاطر وہ وہاں رہائش اختیار کرے تو یہ اس کے لیے جائز ہے بشرطیکہ دین کے بارے میں وہاں اسے اطمینان ہو کہ محفوظ رہے گا، منکرات و فواحش سے بچ سکے گا اور ملازمت بھی جائز ہو کہ کسی حرام کام میں ملوث نہ ہو۔ اس لیے کہ حلال روزی کمانا ایک فریضہ عبادت ہے جس کے لیے شریعت نے کسی مکان اور علاقے یا شہر یا ملک کی قید نہیں لگائی، بلکہ عام اجازت دی ہے کہ جہاں چاہو اللہ کی زمین کی وسعتوں میں رزق حلال تلاش کرو۔ چنانچہ سورہ ملک کی آیت ھوالذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ والیہ النشور‘‘وہ ایسی ذات ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو مسخر کر دیا اب تم اس کے راستوں میں چلو اور خدا کی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔’’ یہ آیت رزق حلال کی تلاش تمام روئے زمین میں جائز گردانتی ہے۔

(۴) چوتھی صورت یہ ہے کہ ایک مسلمان دعوت و تبلیغ کی نیت سے غیر مسلم ملک میں چلا جائے اور وہاں معاشی گزارہ کے لیے کوئی ملازمت یا کاروبار اختیار کرکے رہائش شروع کر دے اور دعوت دین کو ہدف اور مقصد اولین سمجھ کر کاروبار کو ثانوی حیثیت دے، اس صورت میں غیر مسلم ممالک میں ایک مسلمان کا رہنا نہ صرف جائز ہے بلکہ موجب اجر و ثواب ہے۔ چنانچہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور تابعین رحم اللہ نے اسی نیک مقصد کے ارادے سے غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کی جو بعد میں ان کے فضائل و مناقب میں شمار ہونے لگی۔ اور ان کی ان کاوشوں سے دنیا میں اسلام پھیل گیا۔

            لیکن اگر کسی شخص کو اپنے ملک میں اور اپنے ہی شہر میں اس قدر معاشی وسائل و ذرائع حاصل ہوں جن سے وہ اپنے ماحول کے لوگوں کے معیار کے مطابق زندگی گزار سکتا ہواور آسودہ حال ہو تو صرف معیار زندگی کو عام ماحول سے بلند کرنے بلکہ عیاشی کی حد تک پہنچانے کی غرض سے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے کسی غیر مسلم ملک میں جا بسنا اور محض اس خاطر مسلم معاشرہ چھوڑ کر کافروں کے درمیان مستقل رہائش اختیار کرنا کراہت سے خالی نہیں بلکہ نا پسندیدہ ہے۔ اس لیے کہ اس ذہنیت کو اپنانے والا اکثر فواحش و منکرات میں ملوث ہو جاتا ہے۔ صرف اپنی دنیاوی خواہشات کی خاطر بلا ضرورت اپنی دینی اور اخلاقی حالت کو خطرے میں ڈالنا درست نہیں، اس لیے کہ تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ جو لوگ صرف عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے ایسے ممالک میں رہائش اختیارکرتے ہیں ان میں دینی حمیت کمزور پڑ جاتی ہے اور کافرانہ محرکات کے سامنے بڑی تیزی سے پگھل جاتے ہیں اور کوئی مزاحمت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حدیث شریف میں شدید ضرورت کے بغیر مشرکین کے درمیان رہنے سے منع کیا گیا ہے۔ ابو داؤد نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: من جامع المشرکین وسکن معہ فانہ مثلہ جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اس مشرک کی مانند ہے۔

            اور حضرت جریر بن عبداللہؓسے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا ‘‘میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے۔ صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: یا رسول اللہ اس کی وجہ کیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا: اسلام کی آگ اور کفر کی آگ ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں۔ تم یہ امتیاز نہیں کر سکو گے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرک کی آگ ہے۔’’ امام خطابی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘‘مختلف اہل علم نے اس قول کی تشریح مختلف طریقوں سے کی ہے۔ چنانچہ بعض اہل علم کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان اور مشرک حکم کے اعتبار سے برابر نہیں ہو سکتے، دونوں کے مختلف احکام ہیں۔ اور دوسرے اہل علم فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام اور دارالکفر کو الگ الگ کر دیا ہے لہٰذا کسی مسلمان کے لیے کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہائش اختیار کرنا جائز نہیں۔ اس لیے کہ جب مشرکین اپنی آگ روشن کریں گے اور یہ مسلمان ان کے ساتھ سکونت پذیر ہو، تو دیکھنے سے یہی خیال کریں گے کہ یہ بھی انھیں میں سے ہے۔ علماء کی اس تشریح سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان تجارت کی غرض سے بھی درالکفر جائے تو اس کے لیے بھی وہاں ضرورت سے زیادہ قیام کرنا مکروہ ہے۔

            میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو مسلمان کافروں کے درمیان رہتا ہو، اس کی اولاد یہودو نصاریٰ اور مشرکین کی اولاد کے ساتھ میل جول رکھنے سے بچ نہیں سکتی اور بچے کی فطرت نسبتاً زیادہ اثر پذیر ہوتی ہے اس لیے مسلمان بچے یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے بچوں کے عادات و اطوار اپنائیں گے۔ یہ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ جو مسلمان بچے امریکا اور یورپ میں تربیت پاتے ہیں، اخلاقی لحاظ سے یہود و نصاریٰ کے بچوں کے عین مانند ہوتے ہیں اور یہ مستقبل میں والدین کے لیے دردسر بن جاتے ہیں کیونکہ یورپی معاشرہ میں بزرگوں کی خدمت کرنے کا تصور سرے سے مفقود ہو گیا ہے۔ بوڑھے ماں باپ کی زیادہ سے زیادہ خدمت جو ان کی اولاد کرتی ہے۔ یہ ہے کہ ان کو بوڑھوں کے ہاسٹل میں داخل کرا کر ماہ بماہ فیس ادا کرنے کے لیے حاضر ہواور بس۔ اس کے برعکس مسلمان معاشرہ میں ابھی تک بزرگوں کا ایک اہم مقام موجود ہے ۔ ان کی اولاد بڑھاپے کا سہارا بن جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنا اپنا فرض بلکہ باعث فخر سمجھتی ہے۔ قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے والے تو ان کے سامنے اف تک بھی نہیں کرتے بلکہ ان کے حق میں اللہ سے رحم اور مغفرت کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ امریکا اور یورپ میں مستقل رہائش رکھ کر ایک خاندان معاشی طور پر خوشحال تو ہو سکتا ہے مگر انسانی اور اخلاقی اقدار سے وہ اور اس کی اولاد محروم ہوئی تو زندگی وبال جان بن جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب!

(مولانا فضل ربی)

جواب:   کسی مسلمان یا اہل کتاب کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت مسلمانوں کے لیے اس وقت حلال ہو گا جب وہ درج ذیل شرائط پوری کرے۔

(۱) ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ اللہ اکبر وغیرہ پڑھنا یعنی جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ضروری ہے۔ اگر اللہ کا نام نہیں لیا گیا یا اللہ کے علاوہ کوئی اور نام لیا گیا تو وہ مردار ہو جائے گا اور اس جانور کا گوشت مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہو گا۔

(۲) یہ بھی ضروری ہے کہ ٹھیک شرعی طریقہ پر گلے کی رگوں کو کاٹا جائے اور جانور کا دم مسفوح نکل کر بہہ جائے جو مردار ہے۔ اگر جانور کے گلے پر صرف کٹ لگایا گیا اور گلے میں دو بڑی خون کی نالیوں کی رگوں کو نہ کاٹا گیا اور ان رگوں سے خون باہر نکل کر بہہ نہیں گیا تو بھی اس جانور کا گوشت کھانا حلال نہیں ہو گا۔

            مسلمان تو الحمدللہ ان شرائط کی پابندی کرتا ہے، اس لیے اس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے اور اگر خدانخواستہ وہ بھی ان شرائط کی پابندی نہ کرے تو اس کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہو گا۔

            یہود و نصاریٰ جن کو قرآن میں اہل کتاب کہا گیا ہے، نزولِ قرآن کے وقت جانور ذبح کرتے وقت ان شرائط کی پابندی کرتے تھے مگر اب مشاہدہ میں یہ آیا ہے کہ ان میں سے اکثر ان شرائط کی پابندی نہیں کرتے اس لیے ان کا ذبیحہ اس وقت تک حلال نہ سمجھا جائے جب تک یہ تسلی اور اطمینان نہ کر لیا جائے کہ ان شرائط کو پورا کیا گیا ہے۔

(مولانا فضل ربی)

دین سارے کا سارا قرآن و سنت میں محفوظ ہے ’ لیکن دنیا میں نت نئے مسائل پیش آتے رہتے ہیں جن کے متعلق قرآن و سنت میں اصولی ہدایت تو موجود ہوتی ہے لیکن براہ راست حکم نہیں ہوتا چنانچہ ایسے سب موقعوں پر حکم یہ ہے کہ قرآن و سنت میں موجود اصول کو سمجھ کر ’ نئے مسائل کے بارے میں حکم معلوم کیا جائے ۔ اس کو اجتہاد کہتے ہیں ۔ چونکہ اجتہاد انسانی عقل پر مبنی ہوتا ہے لہذا اس میں اختلاف پیدا ہونا بالکل فطری ہے مثلاً خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین کی مجلس شوریٰ میں نئے مسائل پر کئی کئی دن تک بحث ہوتی رہتی تھی ۔چنانچہ دو اہل علم جب کسی اجتہادی معاملے میں ایک دوسرے سے جدا نقطہ نظر پیش کر دیتے ہیں تو اختلاف رائے پیدا ہو جاتا ہے ۔

 اختلاف پیدا ہونے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ جب اسلام بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو کچھ اہل علم نے سوٖچا کہ دین کے کٖچھ جزئیات اور شاخوں کو ، قانونی زبان میں ، دو جمع دو کی طرح بیان کر دیا جائے ، تاکہ اس کے سمجھنے میں آسانی ہو ، ٖچنانچہ مختلف اہل علم نے اپنے اپنے طریقے پر ، کچھ اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، دین کی شرح و وضاحت کی ۔ یہاں بھی ایک دوسرے سے مختلف نقطہ نظر سامنے آیا ۔ ہم ایک نمایاں مثال کے ذریعے سے اس کی وضاحت کریں گے ۔ آج امت کے دو گروہوں میں بڑا اختلاف‘‘ رفع یدین’’کے بارے میں ہے ۔

 حنفی نماز کے شروع میں کندھے تک ہاتھ لے جا کر اور تکبیر کہہ کر نماز شروع کرتے ہیں جبکہ اہل حدیث رکو ع میں جاتے وقت رکوع سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی کندھوں تک ہاتھ لے جاتے ہیں ۔

 ہوا یہ کہ سب سے پہلے امام ابو حنیفہ ؒ کو یہ خیال آیا کہ امت بہت پھیل رہی ہے ، کہیں ایسانہ ہو کہ فہم کی کمی کی وجہ سے دین کے اندر غلط چیزیں داخل ہو جائیں چنانچہ انہوں نے ہرچیز کے لیے قاعدہ بناکر انہیں منظبط کر نا شروع کیا ۔ امام ابو حنیفہ حضورﷺ کی وفات کے ستر سال بعد پیدا ہوئے گویا انہوں نے اپنی نوجوانی میں صحابہ کرام کو دیکھا تھا ( ایسے لوگ تابعی کہلاتے ہیں )۔

 سنت کی تدوین کرتے وقت امام نے یہ اصول بنا لیا کہ سنت، چونکہ ایک عملی ( کرکے دکھانے والی) چیز ہے ، تحریر کرتے وقت یا بیان کرتے وقت یہ ممکن نہیں ہوتا کہ اس عمل کو صحیح طرح بیان کیا جائے یا تحریر کیا جائے ، اس لیے جتنے بھی ظاہری اعمال ہیں ان میں امت کامل اتفاق یاتقریباً اتفاق سے عمل کر رہی ہے ، وہی صحیح ہے چونکہ حضور ﷺ کو ایک عمل انجام دیتے ہوئے لاکھوں صحابہ ؓ نے دیکھا ، ان لاکھوں صحابہ کو کروڑوں تابعین نے دیکھا لہذا اسی طرح یہ عمل آج اس امت میں سارے مسلمان انجام دے رہے ہیں اس کو وہ تواتر کے ذریعے سے منتقلی کہتے تھے ۔

 نماز کے اصول و ضوابط بناتے وقت جب رفع یدین کا مسئلہ پیش آیا تو انہوں نے دیکھاکہ امت میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کا طریقہ رائج ہے اور وہ باقی تکبیروں کے وقت رفع یدین نہیں کرتی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ انتہائی صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے بعض اوقات تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع پر بلکہ بعض اوقات ہرتکبیر کے ساتھ یہی رفع یدین کیا ہے ۔ اس سے امام ابو حنیفہ نے یہ نتیجہ نکالا کہ حضور ﷺ عام طور پر صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے تھے ، اس لیے امت میں یہی طریقہ رائج ہے البتہ کبھی کبھی وہ دوسرے مواقع پر بھی رفع یدین کر لیا کرتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سنت جو نبی ﷺ نے جاری کی ہے وہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین ہی ہے اور اگر مزید تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کیا جائے تو کوئی حرج نہیں البتہ نبی ﷺ کا طریقہ ہونے کے باوجود یہ وہ سنت نہیں جسے نماز کا لازمی حصہ قرار دیا جائے ۔

 اما م مالک ؒ حضور ﷺ کی وفات کے تقریباً اسّی سال بعد مدینے میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے بھی فقہ کو اپنی دلچسپی کا موضوع بنالیا ۔ سنت کی تدوین کرتے وقت انہیں بھی یہ مسئلہ پیش آیا کہ مختلف روایات اور لوگوں کے عمل میں تطبیق کیسے کی جائے انہوں نے سوچا چونکہ حضور کے آخری دس سال مدینے میں گزرے ہیں اور یہاں جتنے تابعی رہتے ہیں وہ براہ راست حضورؐ کے صحابہ کی صحبت سے طویل عرصے تک فیض یاب ہوئے ہیں اس لیے دین کی جتنی خالص شکل مدینے میں موجود ہے اور کہیں نہیں ۔ چنانچہ انہوں نے یہ اصول بنا لیاکہ اہل مدینہ کا عمل سنت معلوم کرنے کے لیے معیار ہے ، کیونکہ یہ بالکل تواتر کے ساتھ حضور کے زمانے سے امام مالک کے عہد تک منتقل ہوتا چلا آرہا ہے ۔

 اس اصول کے مطابق جب امام نے رفع یدین کے مسئلے کو لیا تو انہوں نے دیکھاکہ اہل مدینہ عام طو رپر صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے ہیں چونکہ نماز ایسی سنت ہے جس کو حضور ﷺ نے روزانہ پانچ مرتبہ لوگوں کے سامنے ساری زندگی سرانجام دیا ہے ۔ درمیا ن میں کوئی ایسا وقفہ نہیں آیا جس میں لوگوں نے روزانہ پانچ وقت مسجد میں نما ز نہ پڑھی ہو ، امت کا ایمان، تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں اتنا کمزور نہیں تھا کہ اہل مدینہ ، اجتماعی طو رحضور ﷺ کی ایک سنت چھوڑ دیں ۔ دوسری طرف بعض ثقہ راویوں کی شہادت بھی موجود تھی کہ حضور نے یقینا بعض مواقع پر تکبیر تحریمہ کے علاوہ بھی رفع یدین کیا ہے چنانچہ امام مالک نے بھی امام ابو حنیفہ کی طرح یہ نتیجہ نکالا کہ حضورﷺ کے معمول کا طریقہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کا تھا ، اس لیے عام طو رپر یہی طریقہ اپنانا چاہیے البتہ دوسری تکبیروں کے ساتھ ہاتھ کندھوں تک لے جانے کی اجازت ہے ۔

 امام شافعی ؒ ۱۵۰ ھ میں مصر میں پیدا ہوئے ۔ آپ ایک طرف امام مالک کے شاگر د رشید رہے اور دوسری طر ف امام ابو حنیفہ کے شاگرد خاص اما م محمد ؒ سے بھی ایک لمبے عرصے تک فیض حاصل کیا ۔ آپ بھی ایک عظیم فقیہہ تھے ۔ آپ نے اپنے اصول میں تواتر کے بجا ئے روایات کو زیادہ اہمیت دی ۔ یہاں یہ سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ دو عظیم اہل علم یعنی اما م ابو حنیفہ اور امام مالک نے تواتر کو زیادہ اہمیت کیوں دی او ر دو عظیم اہل علم ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے روایت کو زیادہ اہمیت کیوں دی۔یہ دراصل طبیعتوں اورمزاج کا فرق ہے کچھ لوگوں کی نظر حکمت پر ہوتی ہے وہ ایک اصول کے پس پردہ حکمت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے اور اپنے سامنے کچھ اصول بنا کر ان کے مطابق آگے بڑھتے ہیں۔ اس کے برعکس، کچھ لوگوں کا رویہ الفاظ کے ظاہر پر اعتماد کا ہوتا ہے ۔ ان کے خیال میں جو کچھ موجود ہے اس کا تجزیہ کرنے کے بجائے ظاہر الفاظ پر اعتماد زیادہ صحیح ہے چونکہ امام شافعی دوسرے خیال کے حامل تھے ۔ اس لیے آپ کانقطہ نظر یہ تھا کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ مزید تکبیروں کے وقت رفع یدین کی صحیح روایات موجود ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کیا جائے اور اگر رفع یدین نہ کیا جا ئے تو تب بھی کوئی حرج نہیں ۔

 امام احمد بن حنبلؒ ۱۶۴ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے ۔ آپ ایک طرف امام ابو حنیفہ کے سب سے محبوب شاگرد امام یوسف ؒ کے شاگرد رہے اور دوسری طرف آپ براہ راست امام شافعی کے بھی شاگرد رہے ۔ آپ نے بھی اپنے سامنے یہ اصول رکھا کہ جہاں جہاں حضور کا عمل کسی روایت سے ثابت ہوتا ہے وہاں روایت کو زیادہ اہمیت دی جائے اور اس کے بالمقابل تواتر سے صرف نظر کیا جائے چنانٖچہ رفع یدین کے متعلق آپ نے یہی موقف اپنایا کہ رفع یدین کرنا چاہیے ہمارے ہاں اہل حدیث کا موقف بھی یہی ہے ۔

 دور اول کے یہ تمام عظیم اہل علم ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کو حق پر سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ۔ یہ سب ایک دوسرے سے علم حاصل کیا کرتے تھے ۔ ان میں سے ہرا یک نے کہاکہ حق تو صرف کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ہے ہم تو صرف اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کا اتباع بہتر ین طریقے پر کیسے کیا جائے ۔

 یہ ہے اس مسئلے پر اختلاف کی اصلی حقیقت ، جسے آج کے دور میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ درج بالابحث سے آپ نے اندازہ لگالیا ہو گاکہ سب کے سب اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ حضور ﷺ نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسری تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کیا بھی ہے اور چھوڑا بھی ہے گویا دونوں ہی طریقے حضور ﷺ سے ثابت شدہ ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک گروہ کے نزدیک رفع یدین کرنا زیادہ پسندیدہ ہے اور دوسر ے گروہ کے نزدیک مستقل کرنا کم پسندید ہ ہے گویا اگر کوئی فرد اتباع رسول ﷺ ہی کی خواہش میں رفع یدین نہیں کرتااور دوسرا اتباع رسول ﷺ ہی کی خواہش میں رفع یدین کرتا ہے ،تو دونوں اجروثواب کے مستحق ہیں اور اللہ دونوں پر نظر کرم فرمائیں گے ۔ ان دونوں گروہوں کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنی چاہیے کیونکہ دونوں رضائے الہی کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔

 لیکن آہستہ آہستہ، کم قسمتی سے ، مسلمانوں کے اندر ایسے ہی فروعی اختلافات پر دلوں میں سختی آنے لگی۔ان مسائل کے باعث ایک دوسرے سے نمازیں علیحدہ کی گئیں ۔ ایک دوسرے کو مارا پیٹا جانے لگا اور ایسے دلائل تراشے جانے لگے جو اس امت کو ایک دوسرے سے کاٹنے کا باعث بن گئے ۔

 مثلا رفع یدین کے حامیوں نے یہ دلیل تراشی کہ اصحاب آہستہ آہستہ حضور ﷺ کی سنتیں بھول گئے یوں رفع یدین کی سنت فراموش ہو گئی ۔ یہ دلیل اصحاب رسول پر بدترین بہتان ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم ( خاکم بدہن ) صحابہ ؓ سے بہتر مسلمان ہیں کہ ہم ان جزئیات کا خیال ان سے بھی بہتر طریقے پر رکھتے ہیں اور سنت بھی وہ جسے دن میں پانچ دفعہ کروڑوں مسلمان ، اجتماعی طور پر دہراتے ہوں۔ ذرا سوچیے تو سہی ، اگر رفع یدین حضور ﷺ کا ایساعمل ہوتا جس کو حضور نے کبھی نہ چھوڑا ہوتا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد کچھ صحابہ اس کو نماز کے دوران میں چھوڑنا شروع کر دیتے، تو کیااس پر دوسرے صحابہ کے درمیا ن اضطراب کی ایک زبردست لہر نہ اٹھتی اور پھر رفع یدین سے صحابہ ؓ کو کیا دشمنی ہو سکتی تھی کہ قیام ، رکوع ، سجود ، قعدہ اور رکعتیں تو سب متفق علیہ ہوں مگر رفع یدین کو صحابہ ؓ بھول جائیں ۔

 دوسری طرف رفع یدین نہ کرنے کے حامیوں نے یہ ستم کیا کہ اپنے حق میں موضوع اور ضعیف روایات سے استدلال شروع کیا ۔ مثلا یہ کہ جو شخص رفع یدین کرے گا اس کی نماز نہ ہو گی ۔ اب حضورؐ کے وقت میں رفع یدین کرنا یانہ کرنا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا کہ اسے سختی سے روکا جائے اور پھر یہ کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین تو سبھی کرتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتاہے کہ محض اپنے نقطہ نظر کو سہار ا دینے کیلیے یہ روایت گھڑی گئی ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک نے اپنے موقف کی بنیاد امت کے مجموعی عمل اور عملِ اہل مدینہ پر رکھی ہے ، نہ کہ روایا ت پر ۔

 چنانچہ وہی اختلاف جو دراصل کسی فعل کے افضل اور غیر افضل یعنی زیادہ پسندیدہ یا کم پسندیدہ ہونے کے بارے میں تھا اس سطح سے بڑھ کر یہاں تک آ گیا کہ رفع یدین کے حامیوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ جو رفع یدین نہیں کرتا ، اس کی نماز میں نقص لازمی آتا ہے ۔ دوسری طرف رفع یدین نہ کرنے والوں نے کہا کہ کسی صورت رفع یدین نہ کرنا چاہیے ۔ یوں اپنے اپنے موقف میں سختی لانے کی وجہ سے ، ایک حد تک گروہ بندی کی صورت حال پیدا ہو گئی ۔

 آپ یقینا یہ چاہیں گے کہ اس موضوع پر ہمارا نقطہ نظر بھی آپ کے سامنے آ جائے ۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دین میں رہنما اور لازم چیزیں قرآن و سنت ہیں۔ قرآن ہمارے لیے ہر چیز کے پرکھنے کی کسوٹی اور معیار حق و باطل ہے ۔ اسی طرح سنت وہ عملی راستہ ہے جس پر حضور ﷺ ساری زندگی کاربند رہے اور نہایت اہتمام کے ساتھ اپنی امت میں رائج کیا ۔ سنت صحابہ کرام کے کامل اجماع سے ان کے بعد لوگوں تک پہنچی ہے ۔ اس پر عمل کرناہمارے لیے لازم ہے ۔

 سنت کے علاوہ حضور نے کئی ایسے افعال بھی کیے ہیں جو اپنی جگہ نہایت پسندیدہ ہیں مگر انہیں حضور نے اپنی امت میں نہ رائج کیا اور نہ لازم کیا گویا یہ سب افعال واذکارنفل کے درجے کے ہیں ۔

 اس نقطہ نظر سے رفع یدین ایک نفل چیز ہے اس کا کبھی کبھا ر کرنا باعث اجر ہے اور اس کے نہ کرنے سے نماز میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔ رفع یدین دراصل ہے کیا چیز ؟ یہ اس عہد کا نام ہے کہ ایک انسان نے ہرطرف سے منہ موڑ کر اپنے رب کی طرف پور ی توجہ کر لی ہے اب اگر آپ ہاتھ اٹھا کر یہ عہد صرف نماز کے شروع میں کر لیتے ہیں ، تو یہ بھی کافی ہے اور اگر شدت احساس کی وجہ سے نماز کے دوران کسی بھی اللہ اکبر کہنے کے دوران پھر یہ عہد کر لیں تو تب بھی ٹھیک ہے بلکہ اگر کوئی فرد ہر اللہ اکبر کہنے کے وقت ، اپنے آپ کو یہ عہد یاد کر انے کی خاطر ہاتھ اٹھائے تو اس پر بھی کوئی اعتراض وارد نہیں کیا جا سکتا ۔ گویا، رفع یدین کرنے والے اور نہ کرنے والے دونوں ہی اللہ کے ہاں اجر و ثواب کے مستحق ہیں ۔ دونوں کی نمازیں ٹھیک ہیں ۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، کیونکہ دونوں ہی دین کی پیروی کرنا چاہتے ہیں ۔ البتہ وہ اگر اس سے آگے بڑھ کر مسئلے کو وجہ تنازع بنالیں ، اس کی بنا پر گروہ بندی کرتے ہوئے علیحدہ نام رکھنے لگیں ، تو اس صورت میں یہ لوگ صراط مستقیم سے ہٹ ایک غلط رویہ اپنا لیتے ہیں۔امت کے مختلف گروہوں کے درمیان باقی اختلافات کی نوعیت اور شدت اس مثال سے کہیں کم ہے ، جس پر ہم نے درج بالا صفحات میں روشنی ڈالی ہے (سوائے شیعہ سنی اختلافات کے) اکثرمقامات پرفرق صرف زیادہ پسندیدہ اورکم پسندیدہ کاہے،لیکن بد قسمتی سے ان اختلافات کو یوں بیان کیا جاتا ہے ، جیسے دین کی بنیادوں میں کوئی اختلاف رونما ہو گیا ہے اور اسی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نمازیں علیحدہ کر لی جاتی ہیں ۔

(ڈاکٹر محمد فاروق خان )

 (۱)       عن ام الفضل بنت الحارث ان ناسا اختلفوا عندھا یوم عرفۃ فی صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال بعضھم: ھو صائم وقال بعضھم لیس بصائم فارسلت الیہ بقدح وھو واقف علی بعیرہ فشربہ (صحیح بخاری: کتاب الحج، حدیث: ۱۶۶۱، کتاب الصوم، حدیث: ۱۹۸۸، کتاب الاشربہ، حدیث:۵۶۱۸)

            ‘‘ام الفضل دختر حارث کا بیان ہے کہ عرفہ کے دن ان کے ہاں لوگوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ کی بابت اختلاف ہو گیا ۔ بعض نے کہا کہ آپؐ نے روزہ رکھا ہوا ہے اور بعض نے کہا کہ آپؐ روزہ سے نہیں تو میں نے آپؐ کی خدمت میں ایک پیالہ بھجوایا، آپؐ اس وقت اپنے اونٹ پر کھڑے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے وہ پی لیا۔’’

(۲)       عن انس بن مالک ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم دخل علی ام سلیم و فی البیت قربۃ معلقۃ فشرب من فیھا وھو قائم قال فقطعت ام سلیم فم القربہ فھو عندنا (سن دارمی: کتاب الاشربہ، باب فی الشرب قائما، حدیث : ۲۱۳۰ اور شمائل ترمذی، باب ماجاء فی صفۃ شرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسند احمد: ۳؍۱۱۹، ۶؍۳۷۶، ۴۳۱)

            ‘‘انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان کے گھر میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپؐ نے کھڑے کھڑے اس مشکیزہ کے منہ سے پانی نوش کیا۔ انسؓ کہتے ہیں کہ ام سلیمؓ نے مشکیزے کا منہ کاٹ کر بطورِ تبرک اپنے پاس رکھ لیا۔ وہ ہمارے ہاں موجود ہے۔’’

(۳)      عن عائشۃ قالت شرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قائما وقاعداً و مشیٰ حافیا و ناعلا وانصرف عن یمینہ و شمالہ (مسند احمد:۶؍۸۷)

            ‘‘ام المومنین سیدہ عائشہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر بھی پیا اور بیٹھ کر بھی۔ آپ ننگے پاؤں بھی چلے اور جوتا پہن کر بھی۔ اور نماز سے فارغ ہو کر مقتدیوں کی طرف کبھی دائیں طرف سے مڑے اور کبھی بائیں جانب سے۔’’

(۴)      عن مسلم سال اباھریرۃ عن الشرب قائما قال یا ابن اخی رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عقل راحلتہ وھی مناخۃ وانا اخذ بخطامھا او زمامھا واضعاً رجلی علی یدھا فجاء نفر من قریش فقاموا حولہ فاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باناء من لبن فشرب وھو علی راحلتہ ثم ناول الذی یلیہ عن یمینہ فشرب قائما حتی شرب القوم کلھم قیاما۔ (احمد:۲؍۲۶۰)

            ‘‘مسلم کا بیان ہے کہ انھوں نے ابوہریرہؓ سے بحالت قیام پینے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے (ابوہریرہؓ) نے فرمایا، بھتیجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی سواری کی ٹانگ کو رسی سے باندھا۔ وہ بیٹھی ہوئی تھی اور میں اس کے ایک ہاتھ (اگلی ٹانگ) پر اپنا پاؤں رکھے اس کی مہار پکڑے ہوئے تھا۔ اسی دوران کچھ قریشی لوگ آ گئے اور آپؐ کے ارد گرد کھڑے ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری کے اوپر ہی تشریف فرماتھے۔ اسی دوران آپؐ کی خدمت میں دودھ کا ایک برتن پیش کیا گیا۔ آپؐ نے دودھ نوش فرمایا اور اس کے بعد اپنی داہنی جانب کھڑے ایک آدمی کو دیا۔ اس آدمی نے کھڑے کھڑے دودھ پیا۔ یہاں تک کہ سب لوگوں نے کھڑے کھڑے دودھ پیا۔’’

(۵)      عن النزال قال اتیی علیی رضی اللہ عنہ علی باب الرحبۃ بماء فشرب قائماً فقال: ان ناسا یکرہ احدھم ان یشرب وھو قائم و انی رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فعل کما رایتمونی فعلت۔ (صحیح بخاری: کتاب الاشربہ، باب الشرب قائما، حدیث ۵۶۱۵ و شمائل ترمذی)

            ‘‘نزال کا بیان ہے کہ باب الرحبہ کے قریب سیدنا علیؓ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا تو انھوں نے کھڑے کھڑے پی لیا۔ ساتھ ہی فرمایا کہ کچھ لوگ بحالت قیام نوش کرنے کو پسند نہیں کرتے، حالانکہ میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا جیسا کہ تم نے مجھے کرتے دیکھا۔’’

(۶)       عن زادان و میسرۃ ان علیی بن ابیی طالب شرب قائما فنظر الناس الیہ کانھم انکروہ فقال ماتنظرون ان اشرب قائما فقد رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یشرب قائما، وان اشرب قاعدا فقد رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یشرب قاعدًا۔

            ‘‘زادان اور میسرہ کا بیان ہے کہ سیدنا علیؓ بن ابو طالب نے بحالت قیام پانی نوش فرمایا، لوگوں نے عجیب نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو انھوں نے فرمایا: کیا دیکھتے ہو؟ میں اگر کھڑے ہو کر پیوں تو درست ہے، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالتِ قیام نوش فرماتے دیکھا ہے اور اگر میں بیٹھ کر نوش کروں تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھے ہوئے بھی نوش فرماتے دیکھا ہے۔’’ (مسند احمد:۱؍۱۰۱، ۱۳۴، ۱۱۴، ۱۳۶)

(۷)      عن عیسیٰ بن عبداللہ بن انیس عن ابیہ قال رایت النبی ﷺ قام الی قربۃ معلقۃ فخشاثم شرب من فیھا۔ (جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی: ۳؍۱۱۴، باب ماجاء فی اختناث الاسقیۃ)

            ‘‘عبداللہ بن انیسؓ کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ ایک لٹکتے مشکیزے کی طرف اٹھے اور اس کے منہ کو الٹ کر اس سے منہ لگا کر پانی نوش فرمایا۔’’

(۸)      عن کبشۃ قالت دخل علی رسول اللہ ﷺ فشرب من فیی قربۃ معلقۃ قائما فقمت الی فیھا فقطعتہ (جامع ترمذی مع تحفہ:۳؍۱۱۴، باب ماجاء فی اختناث الاسقیۃ، سنن ابن ماجہ: کتاب الاشربہ، باب الشرب قائما، حدیث: ۳۴۲۳، مسند احمد: ۶؍۴۳۴، شمائل ترمذی: باب ماجاء صفۃ شرب رسول اللہ ﷺ)

            ‘‘کبشہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپؐ نے بحالت قیام اس کے منہ سے پانی نوش فرمایا تو میں نے اس مشکیزہ کا منہ کاٹ کر بطورِ تبرک رکھ لیا۔’’ (موارد الظمان الی زوائد ابن حبان: ص ۳۳۳، حدیث: ۱۳۷۲، کتاب الاشربہ)

            اس حدیث کو امام نوویؒ نے ریاض الصالحین (ص ۳۳۹) میں بیان کیا اور اس کی شرح میں لکھا ہے کہ ھذا الحدیث محمول علی بیان الجواز کہ یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ اس میں کھڑے ہو کر پینے کا جواز بیان ہوا ہے۔ بلکہ مزید برآں امام نوویؒ نے اس حدیث اور اس باب کی دیگر احادیث ذکر کرنے سے پہلے جو تبویب کی ہے، وہ انتہائی واضح ہے۔ وہ رقم طراز ہیں: باب کراھۃ الشرب من فم القربۃ ونحوھا و بیان انہ کراھۃ تنزیہ لا تحریم۔

            ‘‘مشکیزہ یا اس قسم کی کسی چیز کو منہ لگا کر پانی پینا مکروہ ہے، تاہم حرام نہیں۔’’

            امام نوویؒ نے اس سے آگے نیا باب بایں الفاظ قائم کیا ہے: باب بیان جواز الشرب قائما و بیان ان الاکمل والافضل الشرب قاعدا۔

            کہ ‘‘کھڑے کھڑے پانی پینے کا جواز اور بیٹھ کر پینے کے افضل ہونے کا بیان۔’’

            نیز امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں ایک حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں:

            فھذا الحدیث یدل علی ان النھی لیس للتحریم۔

            ‘‘اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھڑے ہو کر پینے کی نہی بیانِ حرمت کے لیے نہیں ۔’’

(۹)       عن عائشۃ بنت سعد بن ابی وقاص عن ابیھا النبی ﷺ کان یشرب قائما(شمائل ترمذی: باب ماجاء فی صفۃ شرب رسول اللہ ﷺ)

            ‘‘سعد بن ابی وقاصؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ کھڑے ہو کر بھی پانی وغیرہ نوش فرما لیا کرتے تھے۔’’

(۱۰)     عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال رایت رسول اللہ ﷺ ینفتل عن یمینہ و عن شمالہ و رایتہ صلی حافیا و منتعلا و رایتہ یشرب قائما و قاعدا(مسند احمد:۲؍۱۷۴، ۱۷۸، ۱۷۹، ۱۹۰، ۲۰۶، ۲۱۵، شمائل ترمذی: باب ماجاء فی شرب رسول اللہ ﷺ)

            ‘‘عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ، آپؐ نماز سے فارغ ہو کر کبھی داہنی جانب سے مڑتے اور کبھی بائیں جانب سے۔ اور میں نے آپ کو جوتے پہن کر نماز پڑھتے بھی دیکھا ہے اور جوتے اتار کر بھی۔ نیز میں نے آپ کو کھڑے ہو کرنوش فرماتے بھی دیکھا ہے اور بیٹھ کر بھی۔’’

(۱۱)      عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال رایت رسول اللہ ﷺ یشرب قائما و قاعدا (جامع ترمذی مع تحفہ:۳؍۱۱۲)

            ‘‘عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کھڑے ہو کر بھی پی لیتے تھے اور بیٹھ کر بھی۔

صحابہ کرامؓ کا عمل:

            مذکورہ بالا تمام احادیث میں رسول ﷺ کی فعلی اور تقریری احادیث سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھار بامر ضرورت کھڑے ہوکرپی لینے کی اجازت اورگنجائش ہے۔ آئیے صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل بھی دیکھ لیں:

(۱)       عن ابی جعفر القاری انہ قال رایت عبداللہ بن عمر لیشرب قائما۔ (موطا امام مالک، باب ماجاء فی شرب الرجل و ھو قائم)

            ‘‘ابو جعفر القاری کا بیان ہے، میں نے عبداللہ بن عمرؓ کو کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا۔’’

(۲)       عن ابن عمر قال کنا ناکل علی عھد رسول ﷺ و نحن نمشیی و نشرب و نحن قیام (جامع ترمذی: ابواب الاشربہ، سنن ابن ماجہ: کتاب الاطعمہ حدیث : ۳۳۰۱، سنن دارمی: کتاب الاشربہ، باب فی الشرب قائما، حدیث : ۲۱۳۱)

            ‘‘ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہدِ مبارک میں چلتے پھرتے کھا پی لیتے اور کھڑے کھڑے پی لیا کرتے تھے۔’’

(۳)      عن ابن عمر قال کنا ناکل و نحن نمشیی و نشرب قیاما علی عھد رسول اللہ ﷺ۔ (موارد الظمان الی زوائد ابن حبان: ص ۳۳۳، کتاب الاشربہ: حدیث ۱۳۲۹)

            ‘‘ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہدِ مبارک میں چلتے پھرتے کھا لیا کرتے اور کھڑے کھڑے پی لیا کرتے تھے۔’’

(۴)      عن ابن عمر قال کنا علی عھد رسول اللہ ﷺ نشرب قیاما و ناکل ونحن نسعی (مسند طیالسی (مبوب): ۱؍۳۳۳، باب ماجاء فی الشرب قائما)

            ‘‘ابن عمر کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہدِ مبارک میں کھڑے کھڑے پانی پی لیتے اور چلتے چلتے یا دوڑتے دوڑتے کھا پی لیا کرتے تھے۔’’

(۵)      عن ابن شھاب ان عائشۃ ام المومنین و سعد بن ابی وقاص کانا لا یریان یشرب الانسان وھو قائم باسا۔ (موطا امام مالک، باب ماجاء فی شرب الرجل وھوقائم)

            ‘‘ابن شہاب کا بیان ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ کھڑے کھڑے پانی پینے میں کچھ حرج نہیں سمجھتے تھے۔’’

(۶)       عن عامر بن عبداللہ بن الزبیر عن ابیہ انہ کان یشرب قائما۔

            ‘‘عبداللہ بن زبیرؓ کھڑے کھڑے پانی وغیرہ پی لیا کرتے تھے۔’’ (موطا مالک: باب ایضاً)

            مرفوع صحیح احادیث اور تعامل صحابہؓ کے ہوتے ہوئے مزید تائیدی بیان کی قطعاً ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پھر بھی قارئین کی تسلی کے لیے وضاحت کی جاتی ہے کہ کھڑے ہو کر کھانے پینے سے منع کی احادیث اور جواز کی احادیث کو جمع کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کھڑے ہو کر کھانا پینا علی الاطلاق حرام نہیں۔ تمام فقہاء محدثین نے ان احادیث سے یہی سمجھا ہے، جیسا کہ ہم حدیث نمبر ۸ کے ضمن میں امام مسلمؒ کی کچھ عبارت ذکر کرآئے ہیں۔

            نیز فتح الباری ۱۰؍۸۲ پر حافظ ابن حجرؒ نے امام مازری ؒ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

            اختلف الناس فی ھذا فذھب الجمھور الی الجواز کہ ‘‘اس مسئلہ میں لوگوں کا اختلاف ہے، البتہ جمہور کے نزدیک کھڑے کھڑے کھانا پینا جائز ہے۔’’

حافظ ابن حجرؒ مزید رقم طراز ہیں:

            ولا خلاف فی جواز الاکل قائما والذی یظھر لیی ان احادیث شربہ قائما تدل علی الجواز واحادیث النھیی تحمل علی الاستحباب والحث علی ماھو اولیٰ واکمل۔ (فتح الباری: ۱۰؍۸۳)

            ‘‘کھڑے کھڑے کھانے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ تمام احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے تو یہ سمجھ آئی ہے کہ جن احادیث میں آنحضرت ﷺ کے کھڑے ہو کر پینے کا ذکر ہے ، وہ احادیث بحالت قیام پانی وغیرہ نوش کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور جن احادیث میں کھڑے ہو کر کھانے پینے سے منع کیا گیا ہے ان کا تعلق محض استحباب سے ہے اور ان میں محض ترغیب ہے کہ بیٹھ کر کھانا پینا چاہیے۔’’

امام قسطلانیؒ رقم طراز ہیں:

            واستدل بھذہ الاحادیث علی جواز الشرب قائما و ھو مذہب الجمھور۔ (ارشاد الساری: ۸؍۳۲۹)

            ‘‘ان احادیث سے کھڑے ہو کر پینے کے جواز کا استدلال کیا گیا ہے۔ جمہورعلمائے امت کا بھی یہی موقف ہے۔’’

            اب ہم آخر میں حافظ صلاح الدین یوسف کا توضیحی اقتباس پیش کرکے اس بحث کو سمیٹتے ہیں۔

            ‘‘فوائد: ابتدا میں ذکر کردہ احادیث سے اگرچہ کھڑے کھڑے پانی پینے اورکھانے کا جواز ملا ہے۔ لیکن ان پر عمل صرف بوقت ضرورت (یا مجبوری) ہی کیا جا سکتا ہے، ورنہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، بیٹھ کر ہی کھایا پیا جائے، یہی افضل عمل ہے۔ ’’

            یہ بھی یاد رہے کہ جن احادیث میں کھڑے ہو کر کھانے پینے سے منع کیا گیا ہے، ان میں یہ حکم تحریم کے لیے نہیں بلکہ محض تنزیہ (کراہت) کے طور پر ہے۔

(پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی)

            کھڑے ہو کر پیشاب کرنا حرام نہیں ہے بشرطیکہ چھینٹوں سے بچاؤ ممکن ہو اور جن احادیث میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت ہے، وہ ضعیف ہیں جیسا کہ شیخ محمد صبحی حسن خلاق نے اسی بات کو ترجیح دی ہے (التعلیق علی السیل الجرار : ۱؍۱۹۳) جواز کے دلائل حسب ذیل ہیں:

۱۔ حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ گندگی کے ایک ڈھیر پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ (بخاری: ۲۲۴، مسلم: ۲۷۳)

۲۔ عبداللہ بن دینارؓ فرماتے ہیں کہ راء یت عبداللہ بن عمر یبول قائماً‘‘میں نے عبداللہ بن عمر ؓ کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا ہے۔(موطا :۱؍۵۰)

۳۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مسجد میں تھے کہ اِذ جآ اعرابی فقام یبول فی المسجد ایک دیہاتی نے مسجد میں آ کر کھڑے ہو کر پیشاب کر نا شروع کر دیا۔(بخاری:۲۲۰، ابو داؤد:۳۸۰، ترمذی: ۱۴۷، احمد: ۲؍۲۸۲)

             اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ بوقت ضرورت نبیؐ نے دیہاتی کو کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے منع نہیں فرمایا اور بعد میں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔اصول فقہ میں یہ بات مسلم ہے کہ ‘‘تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ لایجوز’’ ‘‘ضرورت کے وقت سے بیان ووضاحت کو موخر کردینا جائز نہیں ہے۔’’لہٰذا اگر ایسا کرنا ممنوع ہوتا تو آنحضرتﷺ اس دیہاتی کو اس عمل پر ڈانٹتے۔ البتہ اس پر یہ اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ دیہاتی کو آپؐ نے مسجد میں پیشاب سے بھی منع نہیں فرمایا، اس لیے مسجد میں پیشاب بھی جائز ہوا، لیکن یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ دیہاتی کے قضائے حاجت کے فوراً بعد آپؐ نے اس پر پانی کا ایک ڈول بہادینے کا حکم دیا۔جیسا کہ حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں:(امر النبیﷺ بذنوب من مآء فاھریق علیہ۔ ) (بخاری: ۲۲۱)

            یہ الفاظ مسجد میں پیشاب کے عدم جواز کا واضح ثبوت ہیں تاہم آپؐ نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے پر بعد میں بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جس سے کم از کم اس کے جواز کا ثبوت ضرور معلوم ہوتا ہے۔

صحابہؓ، تابعینؒ اور ائمہؒ کا نقطہ نظر

            بیشتر صحابہؓ و تابعینؒ سے بھی یہ ہی بات منقول ہے ۔ مثلاً حضرت عمر بن خطابؓ، زید بن ثابتؓ، ابن عمرؓ، سہل بن سعدؓ، انسؓ، علیؓ اور ابو ہریرہؓ سے کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ثابت ہے۔ابن سیرین ؒ اور عروہ بن زبیرؒ سے بھی اسی طرح کھڑے ہوکر پیشاب کرنا منقول ہے۔ البتہ ابن مسعودؓ، شعبیؒ اور ابراہیم بن سعدؒ نے اس عمل سے کراہت کا اظہار کیا ہے، جبکہ امام ابن منذرؒ رقم طراز ہیں کہ ‘‘بیٹھ کر پیشاب کرنا مجھے پسند ہے لیکن کھڑے ہوکر بھی جائز ہے اور یہ سب(دونوں طرح) رسولﷺسے ثابت ہے۔’’(شرح مسلم از نووی: ۱؍ ۱۳۳)

            محدث العصر شیخ البانیؒ نے ان الفاظ میں اپنے موقف کو واضح کیا ہے کہ‘‘کھڑے ہو کر پیشاب کا مکروہ نہ ہونا ہی حق ہے، کیونکہ اس کی ممانعت میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے بھی (یہ ہی) بیان کیا ہے اور مطلوب ومقصود چھینٹوں سے بچاؤ ہے۔ وہ اس قاعدے ‘‘مالایقوم الواجب الا بہ فھو واجب’’ ‘‘ جس چیز کے بغیر واجب کا قیام ممکن نہ ہو، وہ بھی واجب ہے۔’’ کی وجہ سے حالت ِ قیام یا حالت قعود میں سے جس کسی طرح سے بھی حاصل ہوجائے وہی واجب ہوگا۔’’ (اروا ء الغلیل: ۱؍ ۹۵، رقم: ۵۷)

            امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ:‘‘ کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر دونوں طرح پیشاب کرنا ثابت ہے اور ہر ایک (طریقہ) سنت سے ثابت ہے۔’’ (نیل: ۱؍ ۱۵۰) البتہ السیل الجرار میں امام شوکانیؒ کا یہ قول منقول ہے کہ ‘‘کھڑے ہو کر پیشاب کرنا حرام نہیں تو کم از کم شدید مکروہ بہرحال ضرور ہے۔( ۱؍ ۲۸) جبکہ شیخ البانیؒ اس قول پر نقد کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ‘‘یہ ایسی باتوں میں سے ہے جو قابل التفات نہیں۔’’(تمام المنۃ: ص۶۵)حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ:‘‘زیادہ ظاہر بات یہ ہی ہے کہ رسول اللہﷺ کا یہ فعل بیانِ جواز کے لیے تھا۔(یعنی اس بات کی وضاحت کے لیے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا بھی جائز ہے۔) ’’(فتح الباری:۱؍ ۳۹۴)

حاصل بحث

            چونکہ یہ عمل سنت مطہرہ سے صحیح ثابت ہے، اس لیے اگر کوئی شخص آج بھی چھینٹوں سے بچاؤ کے امکان کے ساتھ کھڑے ہوکر پیشاب کرتا ہے تو اس کے اس فعل پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی بشرطیکہ پیشاب کے چھینٹوں سے بچاؤ یقینی ہو٭ جیسا کہ علامہ عبدالرحمان مبارکپوریؒ فرماتے ہیں کہ یہ رخصت آج بھی اسی طرح موجود ہے(تحفۃ الاحوذی:۱؍۷۸)

            البتہ بعض فقہا اسے بلا عذر مکروہ کہتے ہیں اور صرف کسی عذر کی وجہ سے ہی جواز کے قائل ہیں۔(مثلاً دیکھیے فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۵۰، ردمحتار:۱؍ ۳۱) لیکن پہلا قول ہی راجح ہے۔

ممانعت کی احادیث اور ان کی استنادی حیثیت

            جن احادیث میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی صراحتاً ممانعت مروی ہے ، محدثین کے اصول جرح و تعدیل کی روشنی میں تمام ضعیف ثابت ہوتی ہیں۔ بطور مثال ان میں سے چند ایک کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے۔

۱۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ (نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یبول الرجل قائماً) رسول اللہ ﷺنے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔(ابن ماجہ:۳۰۶، بیہقی:۱؍ ۱۰۲) امام بوصیریؒ نے اسے ضعیف کہا ہے کیونکہ اس کی سند میں راوی عدی بن الفضل بالاتفاق ضعیف ہے۔(مصباح الزجاجہ:۱؍۱۱۲)شیخ البانی نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔(ضعیف ابن ماجہ: ۶۳)

۲۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ‘‘اے عمر!کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرو’’(اس فرمان کے بعد) میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔(ابن ماجہ: ۳۰۸،مستدرک حاکم: ۱؍ ۱۸۵، بیہقی:۱؍ ۱۰۲، ابن حبان: ۱۴۲۳)

            امام بوصیریؒ نے اس حدیث کو بھی ضعیف کہا ہے کیونکہ اس کی سند میں راوی عبدالکریم بالاتفاق ضعیف ہے۔ (مصباح الزجاجہ: ۱؍۱۱۲)امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ راوی محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔(ترمذی:کتاب الطہارۃ: باب: ما جاء فی النھی عن البول قائما!)حافظ ابن حجر ؒ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ (ہدی الساری: ص۴۴۲) امام نووی ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ (المجموع:۲؍ ۸۴)نیز شیخ البانیؒ بھی اس کے ضعیف ہونے کے قائل ہیں۔ (ضعیف ابن ماجہ: ۶۳ اور سلسلہ الاحادیث الضعیفۃ:۹۳۴)

ملاحظات اور ان کے جوابات

            جن احباب کے نزدیک کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز نہیں یا کم از کم مکروہ ہے، وہ مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں ، لیکن ان کا یہ استدلال درست نہیں جیسا کہ آئندہ سطور میں ان کی طرف سے پیش کر دہ ہر حدیث کے بعد اس کی وضاحت کی جارہی ہے۔

۱۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ‘‘رسول اللہ ﷺ صرف بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔’’(ترمذی:۱۲، ابن ماجہ:۳۰۷، مسند احمد: ۶؍۱۳۶، ابو عوانہ:۱؍۱۹۸، بیہقی:۱؍۱۰۱، السلسلۃ الصحیحۃ:۲۰۱)

            ابو عوانہ کی روایت میں یہ لفظ ہیں کہ ‘‘رسول اللہؐ پر جب سے قرآن نازل کیا گیا ہے، آپؐ نے کھڑے ہوکر کبھی پیشاب نہیں کیا۔’’بظاہر یہ حدیث اگرچہ ہمارے موقف کے خلاف معلوم ہورہی ہے، لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ حضرت عائشہؓ کو جوجس قدر علم تھا ، انہوں نے اتنا ہی بیان کردیا؛ چنانچہ گھر کے معاملات کا تو انہیں علم تھا لیکن گھر سے باہر کے معاملات (یعنی گندگی کے ڈھیر پر آپؐ کے پیشاب کرنے) کی انہیں اطلاع نہیں ہوئی، جیسا کہ امام شوکانیؒ اور عبدالرحمان مبارکپوریؒ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (نیل الاوطار: ۱؍۱۵۱، تحفت الاحوذی: ۱؍۷۶) شیخ البانیؒ رقم طراز ہیں کہ حضرت عائشہؓ کی حدیث نفی میں ہے جبکہ حذیفہؓ کی حدیث اثبات میں اور یہ بات اصول میں معروف ہے کہ مثبت کو نافی پر ترجیح ہوتی ہے، اس لیے دونوں طرح پیشاب کرنا جائز ودرست ہے۔ البتہ پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب واجب ہے۔(تمام المنۃ: ص۶۳، اِرواء الغلیل: ۱؍۹۵،الصحیحۃ: ۲۰۱)

۲۔ جس حدیث میں مذکور ہے کہ‘‘آپؐنے گھٹنے میں زخم کی وجہ سے کھڑے ہوکر پیشاب کیا تھا۔’’ وہ ضعیف ہے۔ (مستدرک حاکم: ۱؍ ۱۸۲، بیہقی:۱؍۱۰۱) حافظ ابن حجرؒ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ ‘‘اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس میں (مذکورہ مسئلہ کی) کفایت تھی(یعنی کھڑے ہو کر پیشاب کرنا صرف کسی عذرکی وجہ سے ہی جائز ہوتا) لیکن دار قطنی اور بیہقی نے اسے ضعیف کہا ہے۔’’(فتح الباری:۱؍ ۴۴۲)

۳۔ ایک روایت میں یہ لفظ مروی ہیں:‘‘آدمی کا کھڑے ہو کر پیشاب کرنا خطا ہے۔’’(بیہقی: ۲؍ ۲۸۵، ابن ابی شیبہ: ۱؍ ۱۲۴) شیخ البانیؒ فرماتے ہیں کہ ‘‘یہ مرفوع ثابت نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ موقوف ہے۔’’(تمام المنۃ: ۶۴، ارواء الغلیل: ۵۹)

۴۔ ایک روایت میں عمرؓ سے مروی ہے کہ ‘‘میں جب سے مسلمان ہوا ہوں، میں نے کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔’’(مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍ ۱۲۴، مسند بزار: ص۳۱زوائدہ) شیخ البانیؒ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (سلسلۃ الضعیفۃ: ۹۳۴) یہ روایت بھی ہمارے موقف کے مخالف نہیں ہے ، کیونکہ اس میں مجرد ایک صحابی کا فعل بیان ہوا ہے کہ انہوں نے کھڑے ہو کر کبھی پیشاب نہیں کیا، یہ تو بیان نہیں ہوا کہ ایسا کرنا ہی غلط ہے۔ جبکہ گزشتہ دلائل و حوالہ جات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا علیٰ الاطلاق حرام نہیں، البتہ چھینٹوں سے اجتناب بہر حال واجب ہے۔ کیونکہ جو شخص پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا، وہ ایک کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، جیسا کہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ دو قبروں کے قریب سے گزرے تو ارشاد فرمایا کہ ‘‘ان قبر والوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور ان میں سے ایک کو عذاب دیے جانے کا سبب یہ ہے کہ‘‘وہ پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔’’(مسلم: ۲۹۲، بخاری: ۲۱۶، احمد: ۱؍۲۲۵، ابو داؤد: ۲۰، ترمذی: ۷۰)

            ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا‘‘قبر کااکثر عذاب پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔’’ (احمد: ۲؍ ۳۲۶، مصنف ابن ابی شیبہ: ۱؍ ۱۳۱، مستدرک حاکم:۱؍۸۳، صحیح ابن ماجہ: ۲۷۸)

            جس عمل کی وجہ سے عذابِ قبر یقینی ہو، لا محالہ اس سے اجتناب بھی ضروری ہے۔

            اگرچہ گزشتہ دلائل کھڑے ہو کر پیشاب کے جواز کا ثبوت ہیں،لیکن یہ بات یاد رہے کہ قضائے حاجت کے لیے فطری ، طبعی اور چھینٹوں سے بچاؤ کے اعتبار سے زیادہ مناسب و سہل طریقہ بیٹھ کر ہی پیشاب کرنا ہے۔ واللہ اعلم!

(حافظ عمران ایوب لاہوری)

 ج: اصولی طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو تکلیف اور جو مصیبت بھی آتی ہے وہ ہمارے جرائم کی سزا بھی ہوسکتی ہے اور آزمائش بھی۔بعض اوقات ہماری کوتاہیوں کی سزا ہوتی ہے ،بعض موقعوں پر قدرت نے جو اسباب پیدا کیے ہیں ان کو استعمال نہ کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے ۔یہ دنیا عالم اسبا ب ہے ۔اس میں مادی اسباب کی اپنی اہمیت ہے اور اخلاقی اسباب کی اپنی۔ دونوں چیزیں سزا کاباعث بن سکتی ہیں۔ آپ نے حفظان صحت کے اصولوں کی پیروی نہیں کی ،کھانے پینے میں احتیاط نہیں برتی تو آخر کچھ نتیجہ تونکلے گا ۔ یہ چیزیں عالم اسباب میں اپنا کام کرتی ہیں۔ اسی طرح اخلاقی قوانین بھی کام کرتے ہیں ۔ آپ نے کوئی غلطی کی یااللہ تعالی کے ساتھ کوئی بدعہدی کی یا انسانوں کے ساتھ برامعاملہ کیا تو اللہ اس کی سزا بعض اوقات اس دنیا میں بھی دے دیتے ہیں ۔یہ سزا صرف اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرنے والے کو نہیں دی جاتی بلکہ سچے اہل ایمان کو بھی ان کو کسی غلطی سے نجات دلانے کے لیے دے دی جاتی ہے تاکہ وہ سزا بھگت کر اللہ کے ہاں پاک ہو کر چلے جائیں۔سزاکے پہلوکوبہرحال سامنے رکھنا چاہیے۔

 دوسری چیز یہ ہے کہ اللہ نے ایک عمومی امتحان برپا کر رکھا ہے ۔دنیا امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے اور اللہ اپنے بندوں کا امتحان لے رہا ہے۔ قرآن مجید میں اس نے واضح کر دیا ہے کہ یہ امتحان بیماریوں کے ذریعے ، جنگ و جدال کے ذریعے ’ غربت کے ذریعے ، مصیبت و مشکلات کے ذریعے لیتا ہوں۔ پھر اس امتحان کے دوسرے پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا ہے کہ بعض اوقات میں بڑی نعمتیں دے کر ،اقتدار دے کر ’ حسن دے کر ’ بے پناہ علم دے کر ’ بے پناہ دولت دے کر بھی امتحان کر تا ہوں تاکہ یہ معلوم ہو کہ بندہ اکڑتا ہے ،اس کو اپنا استحقاق سمجھتاہے یا میرا شکر گزار ہو کر رہتا ہے ۔ بعض اوقات اللہ تعالی کسی شخص کے اوپر کوئی مصیبت نازل کر کے ’ اسے دوسروں کے لیے عبرت بناتے ہیں یعنی دوسروں کے لیے گویا اس میں نصیحت کا سامان ہوتا ہے۔ بچوں پر، معصوم لوگوں پر اسی اصول کے تحت تکلیفیں آتی ہیں ’ اسکا ازالہ اللہ قیامت میں فرمائے گا۔لیکن دنیا میں لوگوں کے لیے یہ معاملہ کر دیتا ہے۔یہ بڑے بڑے پہلو ہیں۔

 اپنے احوال پر ہم کو ہر وقت غور کرتے رہنا چاہیے ۔عالم اسباب میں ہم نے جو غلطیاں کی ہوتی ہیں وہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کہاں ہم نے کیا غلطی کی ہے۔ ایسے ہی اخلاقی لحاظ سے جب انسان غلطی کرتا ہے تو اس کا ضمیر اس کو بتا دیتا ہے کہ تم نے غلطی کی ہے۔ اگر آپ کواحساس ہو جائے کہ ایسا ہوا ہے تو اللہ سے معافی مانگنی چاہیے اور ہر تکلیف کو یہ خیال کر کے قبول کرلینا چاہیے کہ میرا پروردگار میرے لیے پاکیزگی کا ساما ن کر رہا ہے ۔

رہ گئی یہ بات کہ بظاہر یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ کیا معاملہ ہے تو کوئی بات نہیں ۔ اللہ کاامتحان اور آزمائش ہو سکتی ہے۔ اس کے معاملے میں وہی رویہ اختیار کیجیے جو ایک بندہ مومن کو کرنا چاہیے یعنی جب بند ہ مومن صبر کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کے سامنے ڈال دیتا ہے اور اس طرح کی مصیبت یاتکلیف میں یہ اطمینا ن دلا دیتا ہے کہ مالک میں نے اس کو قبول کر لیا ہے ۔تو اس رویے سے بہت کم عرصے میں تکلیف ختم ہوجاتی ہے ۔یعنی اگرانسان امتحان میں پورا اترنے کا حوصلہ کر لے تو اللہ اس کے لیے اسباب پیدا کر دیتے ہیں اور اگر اس کے باوجود کوئی معاملہ نہ ہورہا ہو تو پھر یہ ہے کہ اللہ ہماری تطہیر کر رہے ہوتے ہیں۔اس پر ایمان رکھ کر اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہو جانا چاہیے ۔

 دو اور دو چار کی طرح انسانی معاملا ت میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ تکلیف اس وجہ سے آگئی ہے اور وہ تکلیف اُس وجہ سے آگئی ہے۔ انسان خود ہی اس معاملے میں اپنا جائزہ لے کر بہتر رائے قائم کر سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سود لکھنے اور گواہی دینے کے زمرے میں تویقینا آتی ہے اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ لیکن اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ سود کا کاروبار ایسے ہی پھیل چکا ہے جیسے کسی زمانے میں غلامی پھیل چکی تھی ۔ آپ یہ دیکھیے کہ اسلام نے ا س وقت غلامی کیساتھ کیا معاملہ کیا؟ ایسا معاملہ نہیں کیا کہ لوگوں کو کسی بڑی مشقت میں مبتلا کر دیاہو بلکہ بتدریج اس کی اصلاح کی ، اس کے راستے بند کیے اور وہ قوانین بنائے جن کے ذریعے سے سوسائٹی سے غلامی کاخاتمہ ہوا۔

 سود بھی ایک اخلاقی برائی ہے۔ اسلام کا اس پر اعتراض یہی ہے کہ یہ ایک اخلاقی برائی ہے ۔آپ کو قرض پر متعین منفعت لینے کا حق نہیں ہے ۔یہ چیز دوسرے کا مال غلط طور پر کھانے کے مترادف ہے ۔لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پوری معیشت کانظام ہی اس پر چل رہا ہے ۔ایسے میں جن لوگوں کو ملازمت کرنی پڑتی ہے ،ان کے لیے بھی وہی قواعد ہوں گے جومیں نے غلامی کے لیے بیان کیے۔ یعنی بتدریج اس کے خاتمے کا کام کرنا ہو گا۔ آدمی اگر بہتر ماحول میں جاسکے تو جانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے لیکن حالات کی وجہ سے ا للہ تعالی سے درگزر کی توقع بھی رکھنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہہ کر اصل میں ہم نماز سے فارغ ہوتے ہیں اور یہ بڑا پاکیزہ طریقہ ہے کہ اللہ کے حضور میں ہم گئے تھے تو اس سے واپسی کی کوئی علامت ہونی چاہیے ۔جب ہم اللہ کے حضور سے واپس آتے ہیں ’ نماز پڑھنے کے بعد ’ تو اپنے دائیں بائیں اللہ کی مخلوق کے لیے سلامتی کی دعاکرتے ہیں اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو سکتا تھا ۔

 شہادت کی انگلی اصل میں توحید کی علامت کے طور پر اٹھائی جاتی ہے۔ نماز اور اسی طرح حج بھی اصل میں علامتیں ہیں ۔ایک علامتی اظہار ہے اللہ کے ساتھ تعلق کا ۔عبادات میں اسی طرح کی علامتیں اختیار کی جاتی ہیں یہ علامتی اظہار بہت اہم ہوتا ہے۔اس کو اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ کچھ چیزوں کی حقیقت ذہن میں قائم رہے۔لوگ اپنے ملک کے جھنڈے کو سلام کرتے ہیں ’ ترانہ پڑھتے ہیں تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی جذبات کا علامتی اظہار ہے ایک symbolic expression ہے تعظیم کا ’ اورآپ کے جذبات کا ۔ نماز میں بھی ایسے ہی کیا جاتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جنات کے بارے میں تو قرآن نے ہم کو بتادیا ہے کہ وہ بھی اسی طریقے سے خیر و شر کی کشمکش میں ڈالے گئے ہیں جس طرح انسان ڈالے گئے ہیں، ان میں نیک بھی ہیں او ر برے بھی ’ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ۔چنانچہ جنوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ ان کا قیامت میں حساب ہو گا اورجزا و سزا کامعاملہ پیش آئے گا۔ فرشتوں کے بارے میں ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں بلکہ قرآن سے ا س کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی حضور ی میں رہتے ہیں ،کسی گنا ہ کا ارتکاب نہیں کرتے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کرتے اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے اس طرح کی کوئی آزمائش ،کوئی امتحان نہیں ہے جس کے بعد قیامت میں ان کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جنات کے بارے میں تو قرآن نے ہم کو بتادیا ہے کہ وہ بھی اسی طریقے سے خیر و شر کی کشمکش میں ڈالے گئے ہیں جس طرح انسان ڈالے گئے ہیں، ان میں نیک بھی ہیں او ر برے بھی ’ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ۔چنانچہ جنوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ ان کا قیامت میں حساب ہو گا اورجزا و سزا کامعاملہ پیش آئے گا۔ فرشتوں کے بارے میں ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں بلکہ قرآن سے ا س کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی حضور ی میں رہتے ہیں ،کسی گنا ہ کا ارتکاب نہیں کرتے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کرتے اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے اس طرح کی کوئی آزمائش ،کوئی امتحان نہیں ہے جس کے بعد قیامت میں ان کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جنات کے بارے میں تو قرآن نے ہم کو بتادیا ہے کہ وہ بھی اسی طریقے سے خیر و شر کی کشمکش میں ڈالے گئے ہیں جس طرح انسان ڈالے گئے ہیں، ان میں نیک بھی ہیں او ر برے بھی ’ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ۔چنانچہ جنوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ ان کا قیامت میں حساب ہو گا اورجزا و سزا کامعاملہ پیش آئے گا۔ فرشتوں کے بارے میں ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں بلکہ قرآن سے ا س کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی حضور ی میں رہتے ہیں ،کسی گنا ہ کا ارتکاب نہیں کرتے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کرتے اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے اس طرح کی کوئی آزمائش ،کوئی امتحان نہیں ہے جس کے بعد قیامت میں ان کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جنات کے بارے میں تو قرآن نے ہم کو بتادیا ہے کہ وہ بھی اسی طریقے سے خیر و شر کی کشمکش میں ڈالے گئے ہیں جس طرح انسان ڈالے گئے ہیں، ان میں نیک بھی ہیں او ر برے بھی ’ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ۔چنانچہ جنوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ ان کا قیامت میں حساب ہو گا اورجزا و سزا کامعاملہ پیش آئے گا۔ فرشتوں کے بارے میں ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں بلکہ قرآن سے ا س کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی حضور ی میں رہتے ہیں ،کسی گنا ہ کا ارتکاب نہیں کرتے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کرتے اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے اس طرح کی کوئی آزمائش ،کوئی امتحان نہیں ہے جس کے بعد قیامت میں ان کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز اصل میں رکوع و سجود ’ قعدے اورقیام کا نام ہے۔ سورہ فاتحہ یا قرآن تو اصل میں وہ اذکار ہیں جوان ارکان میں پڑھے جاتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں جو اللہ کی کتاب ہوتی تھی ،ان ارکان میں وہ پڑھی جاتی تھی۔ یہود کے ہاں نماز میں جو دعا پڑھی جاتی تھی وہ میں نے نماز کے ذکر میں لکھ دی ہے اور نصاری کے ہاں جو دعا پڑھی جاتی تھی وہ بھی لکھ دی ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو سورہ فاتحہ آگئی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ کا قانون ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی اضطرار یا مجبوری کی وجہ سے کوئی غلط کام کرتا ہے تو امید ہے اللہ اسے معاف فرما دے گا ۔لیکن اضطرار اور مجبوری کسے کہتے ہیں اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔اضطرار کی وہ کون سی نوعیت اور حالت ہوتی ہے جہاں انسان کو یہ رعایت مل سکتی ہے یہ جاننا بھی ضروری ہے ۔ انسا ن کا معاملہ اس سے ہے جو سینوں کے بھید بھی جانتاہے اور عمل کرنے کے پیچھے انسان کامحرک کیا تھا وہ بھی جانتا ہے ۔ بعض اوقات آدمی بہت معمولی باتوں کو مجبوری بنا لیتا ہے اللہ کے ہاں ا سکا راز کھل جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی نے اس آیت میں وہ بنیادی مطالبات بیان کیے ہیں جو تمام انسانوں کے لیے ضروری ہیں۔وہ ہیں اللہ کو ماننا ’ قیامت کے دن کو ماننااور نیک عمل کی بنیاد پر جوابدہی کے لیے تیار رہنا، یہی اصل دین ہے اس کو بیان کر دیا ہے ۔اب یہ بات کہ کو ن کون سے جرائم کی بنا پر انسان جہنم میں جا سکتا ہے یہ فہرست یہاں بیان نہیں کی ۔ مثال کے طو رپرجانتے بوجھتے قتل کی سزا اللہ نے ابدی جہنم بیان کی ہے اب مسلمان اللہ اور آخرت کو ماننے کے باوجود اگر قتل کر دے تو جہنم میں جائے گا۔ معلوم ہوا کہ ایمان کے باوجود ایسے جرائم ہیں کہ جن کا ارتکاب آدمی کو جہنم میں لے جا سکتا ہے ۔بالکل اسی طرح سے اگر آپ کوپتاچل گیا کہ فلاں شخص اللہ کابھیجا سچارسول ہے اور آپ نے جانتے بوجھتے انکار کر دیا ہے تویہ بھی ایسا جرم ہے کہ جس کی پاداش میں آدمی جہنم میں جا ئے گا۔البتہ سب یہودی عیسائی جنت میں جا سکتے ہیں بشرطیکہ انہوں نے جانتے بوجھتے حق کا انکار نہ کیا ہو۔ اس وقت دنیا میں جتنے عیسائی ، یہودی یا دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں ان میں سے کس کس نے جانتے بوجھتے حق کا انکا رکیا ہے،اور کو ن واقعی اشکال میں متبلا ہے اسکا فیصلہ اللہ کرے گا۔ اللہ تعالی نے جنت میں جانے کا ایک معیار بنایا ہے اس معیار پر وہ لوگوں کو پرکھے گا اور کسی نام کے بغیر دیکھے گا۔یعنی لازم نہیں کہ اس نے اپنا نام بھی مسلمان رکھا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اعلان کر دیاہے کہ مسلمان ہوں ، یہودی ہوں ، نصرانی ہوں محض اس وجہ سے کوئی جنت میں نہیں جائے گاکہ وہ مسلمان تھا یا یہودی تھا یا نصرانی تھا بلکہ اس وجہ سے جائے گاکہ ا س نے اللہ کوماناجس طرح ماننے کا حق تھا ، قیامت کو ماناجس طرح ماننے کا حق تھااور نیک عمل کی بنیاد پر اللہ کے ہاں پیشی کے لیے تیار رہا۔

جہنم میں تو انسان جرائم کی وجہ سے جائے گا اور یہ آیت یہ فہرست نہیں گنواتی ۔ سچے پیغمبر کا جانتے بوجھتے انکار بہت بڑا جرم ہے۔جیسے قتل بہت بڑا جرم ہے اس جرم کی پاداش میں انسان مسلمان کہلانے کے باوجود جہنم میں جائے گا۔ اسی سے سچے پیغمبر کا جانتے بوجھتے انکار سمجھ لیجیے ۔یا یوں سمجھیے کہ یہ آیت Positive merit بیان کرتی ہے۔ اس کو بیان نہیں کرتی کہ وہ کون کون سے جرائم ہیں جن کی وجہ سے انسان جہنم میں بھیجے جائیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی نے یہ امتحان اپنے لیے نہیں بلکہ آپ کے لیے لیا ہے تاکہ آپ کو استحقاق کی بنیاد پر اجر دے سکے۔ اگر اللہ اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کر دیتا تو آپ قیامت میں کھڑ ے ہو جاتے کہ آپ نے تواستحقاق جاننے کے لیے موقع ہی نہیں دیا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج۔ یہ دنیا انصاف کے اصول پر نہیں بلکہ امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے۔ انصاف کے اصول کے اوپر آخرت قائم ہو گی ۔ اللہ تعالی نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں نے اس کو انصاف کے اصول پر قائم نہیں کیا ، اس میں ظلم بھی ہو گا، اس میں کسی کوعبرت بھی بنایاجائے گا یہ سب معاملات ہوں گے۔ یہ امتحان کی جگہ ہے آپ ا س میں کامیاب ہونگے تو آگے انصاف آپکا منتظر ہو گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کہنے کی ضرورت کیا ہے ۔ اگر کوئی آدمی کوتاہی کر رہا ہے تو بھائی کو کوتاہی سے نکالنے کی کوشش کیجیے ، دعوت دیجیے، اس کو اللہ کاپیغام پہنچائیے او رباقی معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجیے ۔دوسروں کے بارے میں فتوے دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیوی کے نان و نفقے کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے اگر کوئی آدمی واقعی اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرتاتو حضور ؐ سے جب پوچھاگیاتو آپ ﷺنے فرمایا کہ تم اپنے خرچ کے لیے بغیر پوچھے لے سکتی ہو اس کو چوری نہیں کہاجائے گا ۔یہ خاوند کی ذمہ داری تھی۔لیکن اس کو جواز بنا کر آپ اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں اورجوجی چاہے کرنا شروع کر دیں تو اس کی ذمہ داری اللہ کے پیغمبر پر عاید نہیں ہوتی، اللہ بہر حال نیتوں کا حال جاننے والا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ لوگوں کے فہم میں تبدیلی آتی ہے۔ فہم،انسانی فہم ہے اوراس میں اختلافات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ان اختلافات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔کوئی آدمی کہتا ہے ایک واقعہ ایسے ہواتھا دوسرا تحقیق کر کے کہتا ہے نہیں ایسے ہوا تھا، اس سے آپ کے ایمان اور اخلاق میں کیا فرق پڑے گا۔تاریخی واقعات کے بارے میں دو رائے ہو سکتی ہیں اس میں گھبرانا نہیں چاہیے۔ دین بالکل واضح ہے یعنی اللہ ایک ہے ،محمد ﷺ اس کے رسول ہیں، قیامت میں اعمال کی بنیاد پرجوابدہی ہونی ہے ، خیر و شر کا شعور انسان کے اندر ودیعت کر دیا گیا ہے۔اسی طرح نماز ، روزہ، حج، زکوۃ بالکل واضح ہیں۔ہر ایک آدمی ان سے واقف ہے ۔یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کے بارے میں آدمی کو حساس ہونا چاہیے۔ باقی جو بھی واقعات بیان ہوں گے ان کے سمجھنے میں انسانوں کے مابین اختلافات ہونگے۔ آپ کوجو بات زیادہ معقول لگتی ہے اس کو قبول کر لیجیے ، جس بات کو آپ سمجھتے ہیں کہ معقول نہیں ہے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کیجیے ،اور اگر آپ محقق ہیں تو اپنی رائے کا اظہا ر کر دیجیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: التحیات میں السلام علیک ایھا النبی کے الفاظ ہمیں سکھا دیے گئے ہیں۔ اسے آپ عام زندگی میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔یہ سلام بھیجنے کا طریقہ بتایا گیا ہے اس میں حضور پر بھی سلام بھیجا گیا ہے اور سب اہل ایمان پر بھی یہ سلامتی کی دعائیں ہیں۔ اصل میں درود، سلام یہ الفاظ جب بولے جاتے ہیں تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ کوئی الگ چیزیں ہیں ۔نہیں، بلکہ سلام سلامتی کی دعاہے ، درود رحمت بھیجنے کی دعا ہے۔ اللہ کے حضور میں آپ درخواست کرتے ہیں تویہ دعائیں ہیں اور کوئی خاص عمل نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انجیل برنباس سیدنامسیحؑ کے ایک صحابی کی تصنیف ہے اور یہ حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں سے نہیں بلکہ انہی لوگوں کے ہاں سے ہوئی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد محققین نے مختلف آرا قائم کی ہیں کچھ لوگ اس کومشتبہ قرار دیتے ہیں، کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کی باتیں موجودہ اناجیل کے مقابلے میں زیادہ مستند ہیں۔ اس پر بہت اچھا مضمون مولانا سید ابو الا علی مودودی ؒ صاحب نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے سورہ صف میں غالبا اس کو آپ پڑھ لیں اس میں اس کا پس منظر بہت اچھے طریقے سے انہوں نے بیان کر دیا ہے۔ باقی جہاں تک عیسائی علماکا تعلق ہے وہ اس کو اپنی اناجیل سے الگ کر چکے ہیں ۔ ہم جب یہودیوں اور عیسائیوں سے بات کرتے ہیں تو اس کی بنیاد پر بات نہیں کر سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مخاطب اس کومانتا نہیں ہے تو اس کی بنیاد پر بات بھی اس سے نہیں ہو سکتی البتہ حصول علم کے لیے آپ اس کو پڑھیے۔ بہت سی چیزیں اس سے واضح ہوتی ہیں۔ یہ بھی اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کو بیان کرنے والے لوگوں نے بھی بہت سی اس میں تبدیلیاں کی ہیں ۔

 یوحنا عارف کامکاشفہ موجودہ بائبل کاآخری باب ہے اور اس میں ایک خواب بیان کیا گیا ہے جس میں انبیا علیہ السلام کی امتوں پر گزرنے والے حالات بیان ہوئے ہیں۔ اس میں حضور ﷺ کی بڑی واضح پیشین گوئی ہے کہ وہ صادق اور امین ہو ں گے اور اس طرح آئیں گے۔پھریہ بتایاگیاہے کہ حضور ﷺ کے ایک ہزار سال بعد پھرایک دفعہ یاجوج و ماجوج کی اقوام کی طرف دنیا کااقتدا ر منتقل ہوناشروع ہو جائے گا اور پھر انہی کے غلبے سے قیامت برپاہو جائے گی۔ یوحناعارف کے مکاشفے میں آخری حصہ خاص طور پر بہت پڑھنے کا ہے اور عیسائی علمابھی اس کو قابل اعتنا سمجھتے ہیں اور بیان بھی کرتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے وہ نام جو لوگوں نے بنا رکھے ہیں۔ جو نام اللہ نے خود بیان کیے ہیں انکومیں ناموزوں قرار دینے کی جسارت کیسے کرسکتاہوں۔ لوگوں نے کچھ نام خود سے بنا لیے ہیں۔مثلا کچھ نام ایسے ہیں جو فعل سے بنا لیے ہیں۔ عربی زبان میں یہ بات تو کہناٹھیک ہے کہ اللہ تعالی اپنے قانون کے مطابق گمراہ بھی کرتا ہے، یعنی ایک آدمی نے اللہ کی ہدایت کی قدر نہیں کی تو اللہ کاقانون یہ ہے کہ جب اللہ کی ہدایت کی قدر نہیں کی جاتی تو ایک وقت تک اللہ مہلت دیتے ہیں پھر گمراہی میں ڈال دیتے ہیں۔یہ مکمل بات ہے ۔ لیکن اس سے آپ Adjective بنا لیں گمراہ کرنے و الا توبات بہت دور چلی جاتی ہے اور یہ بنالیا گیا ہے۔ ایک مثال میں نے آپ کو دے دی ہے اسی پر باقی قیاس کرلیجیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگ اطمینان کیساتھ لوگوں سے شرکت اور مضاربت پر پیسے لیتے ہیں اور ہاتھ جھاڑ کر دکھا دیتے ہیں کہ نقصان ہو گیا ہے۔ میں تو لوگوں کو ہمیشہ کہتاہوں آپ قرض دیجیے اور یہ طے کر لیجیے کہ بھائی یہ میرا واجب الادا قرض ہے مجھے آپ بعد میں واپس کریں گے۔ اس رقم کے نقصان میں میں شریک نہیں ہوں،کیونکہ میں آپ کے فیصلوں میں بھی شریک نہیں ہوں البتہ اگرنفع ہو جائے تومجھے اس میں سے حصہ دے دیجیے گا۔ یہ سود نہیں ہے ۔ اگر نفع ہو جائے ،اس شرط کیساتھ آپ دے سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بات توآپ کر سکتے ہیں ،دینی لحاظ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ایسی چیزیں عموماً بڑی خرابیوں کا باعث بن جاتی ہیں ۔ اپنی معاشرتی اورتہذیبی روایات کے اندر معاملے کو رکھیں توخرابی کے امکانا ت بہت کم ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ بات کرنے پر اسلام نے کوئی پابندی نہیں لگائی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام نے صرف انہیں چیزوں کو تبدیل کیا جو یہود و نصاری کے ماحول اور تمدن کے لحاظ سے خاص تھیں۔ ایک چیزہوتی ہے دین اور دین نام ہے ایمان اور اخلاق کا، یہ توتبدیل نہیں ہو سکتا ۔ یہ بات تبدیل نہیں ہوسکتی کہ اللہ ایک ہے نہ یہ بات کہ اللہ اپنی ہدایت پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجتا ہے۔نہ اس بات میں تبدیلی آ سکتی ہے کہ ہم سب کو ایک دن اس کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ۔ ایمان کے معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔اخلاقی معاملات بھی ابدی ہوتے ہیں ان میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جھوٹ جھوٹ ہے ، دیانت دیانت ہے ، بد دیانتی بددیانتی ہے۔ اس معاملے میں بھی کچھ نہیں بدلتا۔ اصل دین یہی ہے باقی قانون ہوتاہے یعنی اخلاقی تقاضوں کوکچھ قواعد وضوابط کا پابند کر دیا جاتا ہے اور یہ قواعد و ضوابط تمدن کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ہونے بھی چاہییں۔ قرآن نے یہ بتادیا ہے کہ یہود ونصاری کوتمدن کے لحاظ سے جوقانون دیا گیا تھا اس کی بعض چیزیں جو انہیں کیساتھ خاص تھیں ختم کر دی گئیں، بعض میں اصلاح کر دی گئی۔ اسلام چونکہ آخری شریعت ہے۔اوراگر یہودونصاری کی اصطلاح اختیار کرلی جائے توہم کہہ سکتے ہیں کہ عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کے بعد یہ آخری عہد نامہ ہے۔ قرآن نے خود یہ بات بیان کر دی ہے کہ وہ پچھلے سارے کے سارے دین اور شریعت کا مہیمن ہے یعنی اس نے اس کو محفوظ بھی کر لیا ہے اس کی اصلاح بھی کر دی ہے اورجہاں کہیں کسی چیز میں تغیر کرناتھا وہ بھی کر دیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قدرت اللہ شہاب اصل میں ایک بڑے ادیب تھے اس لیے آپ نے ان کی چیزیں پڑھ لیں ورنہ ہمارے سب صوفیا ایسی ہی باتیں بیان کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں اسی طرح کی باتوں سے بھری پڑی ہیں۔ جتنے بڑے بڑ ے صوفیا ہیں ان کی آپ کتابیں پڑھیں تو قدرت اللہ شہاب کی باتیں ان کے سامنے ہیچ نظر آئیں گی۔ان کو معراج ہوتی ہے ، وہ اللہ سے ملاقات کرتے ہیں ، راہ چلتی چیونٹیاں ان کو اپنی باتیں بیان کرتی ہیں ، وہ دعوی کرتے ہیں کہ اگر کسی پہاڑ کی کھائی میں بھی کوئی چیونٹی چل رہی ہو اور ان کے علم میں نہ ہو تو اس کامطلب ہے کہ ان کا علم ناقص ہے ۔دنیا کانظم ونسق وہ چلاتے ہیں ، تمام تکوینی امور ان کے ذریعے سے انجام پاتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب تو بیچارے اس معاملے میں طفل مکتب ہیں دوچار باتیں انہوں نے بیان کر دی ہیں آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے ہمارے ہاں کتابیں بھری پڑی ہیں۔

 اسی زمانے میں ایک مذہبی رہنماپیدا ہوئے، انہوں نے اپنے بارے میں بڑی کرامتیں اور اسی طرح کی چیزیں بیان کیں۔جب انہوں نے بیان کیں تو ان کے ساتھیوں نے بھی بیان کرنی شروع کر دیں ، اخباروں میں بھی بہت کچھ آنے لگ گیا ۔ اس پر ہمارے ایک دوست کہنے لگے کہ میری بڑی ذہنی الجھن حل ہو گئی۔وہ کہنے لگے کہ میں بزرگوں کے محیر العقل واقعات سن کر حیران ہوتا تھاکیسے ہوئے ہونگے ، معلوم ہواایسے ہی ہوئے ہونگے جیسے ہمارے اس صاحب کے ہوئے ہیں۔بس دنیا اسی طرح چل رہی ہے آپ بھی اس کودیکھتے رہیے ۔

ہدایت کا راستہ قرآن و سنت ہے ۔ اسی کو تھام کر رکھنااصل حل ہے ۔انسان کو چاہییے کہ وہ ہمیشہ بالکل صحیح علم اور پیغمبروں کی پہنچائی ہوئی ہدایت پر قائم رہنے کی کوشش میں لگا رہے ۔مزید یہ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی پر غور کرتے رہیے ان سے کوئی ایسا دعوی ثابت نہیں حالانکہ وہ دین کو ہم سب سے زیادہ سمجھنے اور عمل کرنے والے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن نے ایسی کوئی بات نہیں کہی کہ مومنوں پر کفار غالب نہیں آ سکتے۔ غلبے کے لیے بہت سے قوانین ہیں ان کے مطابق ہی غلبہ ہوتا ہے انکے مطابق ہی شکست ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ اگر ایک آدمی مومن ہے تو ہر حال میں غلبہ پا لے گا۔ صحابہ کرام سے بڑھ کرمومن کونسی جماعت ہو سکتی ہے؟ ان کو بھی احد میں شکست سے دو چار ہونا پڑا ۔صحابہ کرام کے لیے بھی بتایاگیا ہے کہ تمہارے لیے غلبے کی بشارت صرف اس صورت میں ہے جب دشمنوں سے تمہاری مادی طاقت کم سے کم آدھی ہو۔یہ توہم مسلمان ہیں جنہوں نے فرض کر لیا ہے کہ غلیل پکڑ کر ہم امریکہ کو فتح کر لیں گے۔اس کانتیجہ کیانکلاہے پچھلے دو سو سال کی تاریخ آپ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس میں پے در پے شکست اور مایوسی ہے۔ سلطان ٹیپو کیساتھ یہی ہوا ہے، مہدی سوڈانی کیساتھ یہی ہوا، انور پاشا کیساتھ یہی ہوا ، ملا عمر کیساتھ یہی ہوا ، اسامہ بن لادن کیساتھ یہی ہورہا ہے اور مزید ابھی مسلمانوں کیساتھ یہی کچھ ہوگا۔ ہمارے خیال میں اتنا کافی ہے کہ ہاتھ میں تسبیح ہو اور منہ پر داڑھی ،غلبہ ہو جائے گا۔ایسا نہیں ہے قرآن نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ جب آپ حق پر ہونگے تو اللہ آپ کی مدد کرے گا۔ لیکن مادی اسباب صحابہ کے لیے بھی یہ کہا کہ کم سے کم نصف ہونے چاہییں۔ اس وقت ذرا اندازہ کیجیے کہ طاقت کاتوازن کیاہے اس کے بعد پھر اپنے عمل طرز عمل اور اخلاقیات کا بھی جائزہ لے لیجیے بات واضح ہو جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: رسول اللہﷺ کے تو کوئی بیٹا نہ تھا لیکن آپ کی بعض ازواج مطہرات جو بیوہ خواتین تھیں، ان کی پہلے سے اولاد تھی ، ان میں بیٹے بھی تھے اور بیٹیاں بھی تھیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ اصول پر قیاس کیا جائے گا ۔ جو قریبی اعزا موجود تھے، قرآن نے ان کا ذکر کر دیا ہے اگر اس فہرست میں کوئی دور کا عزیز شامل ہو نا چاہے تو ظاہر ہے قیاس کی بنیاد پر شامل کیا جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نیچے اتر کر نماز پڑھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں یعنی میدان جنگ میں اجازت نہیں ہے۔ ایسی صورت پیش آگئی ہے کہ جس میں اترنا ممکن نہیں ہے تو کیا کرے ۔اس صورت میں اجازت ہے کہ آپ چاہیں تو چلتے چلتے نماز پڑھ لیں اور چاہیں تو سواری ہی پر نماز پڑھ لیں ۔ اگر اس طرح کی صورت آپ کی کار اور موٹر سائیکل پر پیش آگئی ہے، کوئی ایمرجنسی کی صورتحال ہے ، کہیں آپ پھنس گئے ہیں ، اترنا ممکن نہیں ہے تو پھر پڑھ لیں لیکن یہ کہ جہاں موٹر سائیکل روکنے میں کوئی دقت نہیں ہے تو وہاں آپ اتر کر پڑھ لیں ، رسول اللہ ؐ سفر کے دوران میں بھی فرض نمازیں سواری کو روک کر جماعت کروا کر پڑھتے تھے۔ لیکن اگر میدان جنگ ہے ،کوئی اور ایسی صورتحال ہے تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے جیسے گاڑی چھوٹ رہی ہے ، کہیں سے نکلنے میں مشکل ہو رہی ہے کہیں ٹریفک جام ہو گئی ہے یا اس طرح کی صورت ہے توآپ پڑھ سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید کی ترتیب نزول کسی کوبھی نہیں معلوم نہیں ،جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ اصل میں اللہ تعالی کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ نے بڑی غلطی کر دی ہے معاذاللہ ۔ بہتریہ تھا کہ جس ترتیب سے آپ نے نازل کیا تھا اسی ترتیب سے مرتب کرتے ، جب اللہ تعالی نے خوداس کو ایک نئی ترتیب دے دی ہے اور یہ کہا ہے کہ میں نے دی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اب اس کے مطابق پڑھا جائے گا ،( انا علینا جمعہ و قرانہ فاذا قراناہ فاتبع قرانہ) قرآن یہ کہتا ہے کہ اس کو قدیم ترتیب کے ساتھ پڑھنا ناجائز ہے اب جو ترتیب اللہ نے دے دی ہے اسی کے مطابق اس کی قرات ہو گی ، کسی اور ترتیب سے نہیں پڑھا جا سکتا۔ اس صورتحال میں مجھے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ میں اللہ کومشورہ دوں۔ قرآن کو سمجھنے کی ساری حکمت موجودہ ترتیب کے اندر ہی ہے۔ اسی سے قرآن کا سارا مدعاواضح ہوتا ہے ۔ جو لوگ اس کو کوئی اور ترتیب دینا چاہتے ہیں وہ اصل میں اللہ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ سے غلطی ہوئی ، میں یہ جسارت نہیں کر سکتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں آپ نے دو بزرگوں کا ذکر ہی کیوں کیا ہے اگر یہ کا م کرنا ہی ہے تو ساری امت کو بیٹھ کر کر لینا چاہیے لیکن اس کی ضرورت کیا ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کی آخر کیا ضرورت ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہم میں سے کسی کو بھی پیغمبر نہیں بنایا ، ہم پر وحی نہیں آتی ، ہم طالبعلم لوگ ہیں اور طالب علمانہ طریقے سے دین کی جو بات سمجھتے ہیں اس کو دلائل کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں ، ہو سکتا ہے ہماری بات ٹھیک ہو اور ممکن ہے ہمیں غلطی لگ گئی ہو ۔ پیغمبروں کو بھی غلطی لگ سکتی ہے لیکن اللہ تعالی فوراً ان کی تصحیح کردیتاہے۔ وہ اگر کوئی اجتہاد کرتے ہیں اور اس میں غلطی ہو جائے تو فورا ان کو متنبہ کر دیا جاتا ہے ۔ مشہور واقعہ ہے ( مسلم اور احمد بن حنبل میں اس کی بڑی روایتیں بیان ہوئی ہیں)کہ ایک دفعہ نبی ﷺ کے گھر میں عذاب قبر کامعاملہ زیر بحث آگیا ۔کسی یہودی خاتون نے سیدہ عائشہؓ کے سامنے عذاب قبر کے بارے میں اپنا موقف بیا ن کیا کہ عذاب قبر ہوتا ہے ۔ حضورﷺ نے سختی سے تردید کر د ی۔ یہ کہہ کر باہر چلے گئے لیکن فورا ہی واپس چلے آئے اور کہا کہ مجھے متنبہ کر دیا گیا ہے کہ یہ یہودی والی بات ٹھیک ہے ، دیکھیے پیغمبر کو غلطی لگ گئی تو اللہ نے اصلاح کردی۔ پیغمبر کے ساتھ تو یہ معاملہ ہوتا ہے ہم لوگوں کے ساتھ تو یہ معاملہ نہیں ہوتا ۔ہم تو غلطی بھی کر سکتے ہیں اور ٹھیک بھی بیان کر سکتے ہیں اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس طرح کے سب طالب علم اور سب اہل علم یہ کام کرتے رہیں اور اپنے دلائل لوگوں کے سامنے رکھتے رہیں۔ دلائل کی بنیاد پر جس کی بات زیادہ معقول لگے اس کو قبول کر لیجیے ۔البتہ آپ کی یہ خواہش بہت اچھی ہے کہ ان لوگوں کے مابین بھی بات چیت ہوتی رہنی چاہیے ۔اپنی حد تک تو میں بتا سکتا ہوں کہ میرے دروازے تو ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں میں ہر بات ہر وقت کرنے کے لیے تیار ہوتا ہوں لیکن یہ کہ لوگوں کے سامنے گفتگو کر کے ہم کسی نتیجے پر پہنچ جائیں ایسا دنیا میں نہ پہلے کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی اچھا طریقہ ہو سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ لوگ آپس میں مل جل کر بات چیت کرتے رہیں او رکھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کی بات سنیں اور اپنے پیروکاروں کو بھی ہمیشہ یہی کہیں کہ ہم میں کوئی پیغمبر نہیں ، ہو سکتا ہے ہم غلطی کر رہے ہوں، جہاں آپ ہماری بات سنتے ہیں دوسروں کی بھی ضرور سنیں اور جہاں کہیں دوسروں کی بات زیادہ معقول نظر آئے اس کو قبول کر لیں۔ اس لیے کہ ہم کسی انسان کی پیروی کے مکلف نہیں ہیں بلکہ ہمارے ذمہ حق کی پیروی ہے ۔حق اپنی آخر ی شکل میں محمد ﷺ کی صورت میں دنیامیں تھا اور ان کے جانے کے بعد اب سارے انسان عام انسان ہیں ، ان پر وحی نہیں آتی، کچھ معلوم نہیں کہ کہاں غلطی کر لیں۔ اس وجہ سے میرے خیال کے مطابق اگر چند چیزیں اپنا لی جائیں کہ لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں ، ایک دوسرے کی عزت کریں ، اپنی بات کو طالبعلمانہ طریقے سے پیش کریں ، لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ دوسرے لوگوں کی بات بھی جا کر سنیں ، ان سے سوالات کریں پوچھیں تو یہ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے خیال میں جماعت سے مراد مسلمانوں کا نظم اجتماعی ہے اور اس نظم اجتماعی سے جڑ کر رہنا مذہبی ذمہ داری ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں۔ لیکن یہ کہ مسلمانوں کا ایک ہی سربراہ ہونا چاہیے یہ لازم نہیں ہے اور میرے نزدیک یہ ممکن بھی نہیں ہے اورنہ ہی ہماری مذہبی ذمہ داری ہے     

 تاریخ انسانی میں اس خواہش کے پورا ہونے کی دو ہی صورتیں نظر آتی ہیں تیسری کوئی صورت ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکی۔ ایک یہ ہے کہ کوئی سکندر اٹھے ، فتوحات شروع کرے اورانسانوں کو مارمار کر ایک حکومت قائم کرلے یا پھر یہ ہے کہ عامتہ الناس کے رائے اورمشورے سے حکومتیں قائم کی جائیں۔سکندر کی طرح کی فتوحات کا اب زمانہ نہیں رہا۔ امریکہ اس وقت سپر پاور ہے اور اس نے افغانستان اور عراق پر قبضہ بھی کیاہے لیکن اس کے باوجود اس تگ ودو میں مصروف ہے کہ وہاں مقامی حکومت بنا ئی جائے کیونکہ عالمی سطح پر قبضے والے طرز عمل کو پسند نہیں کیا جاتا۔

 دوسری صورت اقتصادی صورتحال اور معاشی عمل ہے۔ جس طرح یورپی یونین میں ہو رہا ہے اس طریقے سے بھی آہستہ آہستہ اتحاد کی شکلیں نکلتی چلی آتی ہیں۔ مثلا کسی موقع کے اوپر یورپی یونین یہ فیصلہ کرے کہ اچھا ہم ایک ہی حکومت بنا لیتے ہیں تو یہ ہوجائے گا لیکن یہ ان کی کسی مذہبی خواہش کانتیجہ نہیں ہو گابلکہ تمدنی، سیاسی اور اقصادی حالات کاارتقا ہو گا۔ کوئی امیر قوم غریبوں کو اپنے ساتھ شامل کر نا پسند نہیں کرتی ۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ برطانیہ میں جا کر آپ شہریت حاصل کرلیتے ہیں لیکن سعودی عرب میں آپ یہ بھی نہیں کر سکتے ۔، وجہ کیا ہے ، وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کو اپنی دولت میں شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آج سے سو سال پہلے یہ لوگ ترستے تھے کہ کوئی وہا ں آئے۔ اب کیا تبدیلی کیا آئی ہے صرف یہی کہ اقتصادی حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔چنانچہ اقتصاد ی حالات بھی تاریح و جغرافیے کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا اشارہ ہمیں قرآن سے بھی ملتا ہے ۔ قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تعز من تشاء وتذل من تشائمیں یہی بیان ہوا ہے کہ بادشاہی میری ہے اور میں اپنے قانون کے مطابق کبھی ایک قوم کو دیتا ہوں کبھی دوسری قوم کو دیتا ہوں یہ کا م میں کرتا رہتا ہوں ، اس آیت کو ختم کیا ہے وترزق من تشاء بغیر حساب پریعنی اس کی بنیاد اصل میں اقتصادی حالات ہوتے ہیں اللہ تعالی بے حساب دولت دیتا ہے تو وہ اقتصادی طاقت بنتی ہے اور اقتصادی قوت والا

 سپر پاور کا کردار ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں میں فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اس لیے اس طرح کے خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے ۔مسلمانوں کی اس وقت باون پچپن حکومتیں موجود ہیں دعا کیجیے وہ بہتر ہوں ، اپنی تعمیر کریں ، یہ جو بے مقصد مسائل میں الجھ کر مسلمان اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں اس سے باز آئیں ۔

ایک حکومت قائم کرنا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے ۔آپ کویادہوگا کہ خلافت راشدہ کے صرف نوے سال بعد مسلمانوں کی دو حکومتیں قائم ہو گئی تھیں یعنی بغدادمیں عباسیوں اور اندلس میں امویوں کی حکومت، دونوں حکومتیں صدیوں تک Parallel کام کرتی رہی ہیں نہ کسی نے یہ کہا کہ ان کو ایک ہو جانا چاہیے اور نہ کسی نے ان کی حرمت کا فتوی دیا۔مسلمان آج بھی اندلس پر فخرکرتے ہیں۔بغداد بھی آپ کی تاریخ ہے اوراندلس بھی آپ کی تاریخ ہے ۔

یہ مسئلہ تو لوگوں نے اس زمانے میں پیدا کر دیا ہے کیونکہ اس زمانے میں بعض ایسے مذہبی رہنما پیدا ہو گئے ہیں جو نہ اصول عمرانیات سے واقف ہیں اور نہ تاریخی ارتقا سے، نہ ہی انہیں سماجی تبدیلیوں کے قانون سے واقفیت ہے اورنہ ہی تمدن کے ارتقا سے ، نہ قوموں کے عروج و زوال کافلسفہ ان کے علم میں ہے اور نہ اقتصادی حالات کے اثرات کا، وہ اصل میں مذہبی واعظ ہیں ۔ اس طرح کی خواہشوں کو وہ دین بنا کر بیان کر تے رہتے ہیں جب کہ یہ چیزیں اللہ کی کتاب سے بالاتر ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ 50 حکومتیں آپ کی پہلے ہی ہیں کوئی دس پندرہ اور بھی قائم کر لیں توکوئی خلاف شریعت نہیں ہو گا۔البتہ مسلمانوں کی ہر حکومت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ شریعت کوبالاتر مانے ، یہ ہی اصل بات ہے اسکے علاوہ کسی اور مطالبے یا امر پر اپنی توانائی ضائع کرنے کی ضرورت سرے سے موجود نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز استخارہ نہیں بلکہ استخارہ کی دعا کہیے ، رسول اللہ ﷺ نے جس طرح اور بہت سی دعائیں سکھائی ہیں اسی طرح استخارے کی بھی دعا سکھائی ہے ۔استخارہ کیا ہوتا ہے ، کسی معاملے میں اللہ تعالی سے خیر کا پہلو طلب کرنا ۔دعا کی جاتی ہے کہ پروردگار میں اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا آپ اس معاملے میں میرے لیے جو خیر کا پہلو ہے اس کو نمایاں کر دیجیے ، یہ دعا ہے ۔جس طرح باقی دعائیں ہیں اس طرح کی یہ دعا ہے اور جس طرح باقی دعائیں آپ مانگتے ہیں ویسے ہی یہ مانگنی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: موسیقی کو دیکھا جائے گا کہ کیسی ہے ۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے اندر کوئی اخلاقی مسئلہ نہیں تو کوئی قباحت نہیں ہے او راگر کوئی اخلاقی خرابی ہے تووہ قابل مذمت ہے اس سے آدمی کو بچنا چاہیے۔ اسلام کا مقصد انسان کے ظاہرو باطن کو پاکیزہ بنانا ہے۔ جس طرح ظاہر کی پاکیزگی کے بارے میں آدمی کو حساس ہونا چاہیے اسی طرح باطن کی پاکیزگی کے بارے میں بھی آدمی کو حساس ہونا چاہیے ۔جب غیر اخلاقی چیزیں آدمی کے زیادہ اشتغال کا باعث بن جاتی ہیں تو وہ اس کی پاکیزگی پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لیے ان سے احتراز کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر آپ روح کو اس معنی میں بول رہے ہیں جس معنی میں ہم سمجھتے ہیں تو پھر اس کی غذا صرف اللہ کا ذکراور اللہ کی یاد ہے جس سے اس کو غذا ملتی ہے ، موسیقی نفس کی غذا ہے یعنی ہمارا نفس ایک جسمانی وجود بھی رکھتا ہے اور ایک باطنی وجود بھی رکھتا ہے، جسمانی وجود کے لیے انواع و اقسام کے کھانے کھلانے پڑتے ہیں اور باطنی وجود کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے لیکن جس چیز کو انسان کی روحانی شخصیت کہا جاتاہے اس کی غذا اللہ کا ذکر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ آپ نے کہاں پڑھا ہے اگر قرآن میں پڑھاہے تووہاں تواللہ نے وجہ بھی بتائی ہے وہ بھی پڑھیے۔ پوری آیت اس طرح ہے ۔الئن خفف اللہ عنکم وعلم ان فیکم ضعفا فان یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبوا مائتین وان یکن منکم الف یغلبوا الفین باذن اللہ و اللہ مع الصابرین(انفال ۶۶)

‘‘اب اللہ نے تمہارے ذمے داری ہلکی کر دی اوراس نے جان لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے سو تمہارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے اوراگر تمہارے ہزار ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پربھاری ہوں گے اوراللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے’’ ۔

 اس میں اللہ نے یہ بتایا ہے کہ اب چونکہ تمہارے اندر ایمانی ضعف آگیا ہے ، تمہاری اخلاقی حالت وہ نہیں رہی ، اس لیے اللہ نے نسبت تناسب تبدیل کر دی ہے ایمان اوربصیرت کے لحاظ سے یہ کمی اکابر صحابہ میں نہیں آئی تھی جونئے مسلمان ہو رہے تھے ان کا مسئلہ تھا۔یہ نئے آنے والے ظاہر ہے سیدنا ابوبکر ؓ یا سیدنا عمر ؓ کے درجے کے نہیں تھے ۔قرآن نے پوری بات بیان کی ہے اور اس سے یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ ایمانی طاقت کی نسبت تناسب تبدیل ہونے سے مادی طاقت کی نسبت تناسب بھی تبدیل ہوجاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ جب سو کر اٹھیں تو تہجد کی نماز کاوقت شروع ہو گیا یہ کب تک رہے گا ، فجر تک رہے گا فجر جب ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی تہجد کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور یہ سارا بہترین وقت ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں جس وقت چاہیں پڑھ لیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قربانی ایک عبادت ہے ، قربانی کا ثواب تو قربانی کرنے سے ہی ملے گا ،غریب کو پیسے دینا الگ سے ایک نیکی ہے اس کا الگ ثواب ہے۔ اس لیے آپ اس میں ادلہ بدلہ کیوں کرتے ہیں۔قربانی ایک بہت بڑی عبادت ہے یہ اصل میں اپنے آپ کو خدا کی نظر کر دینے کا علامتی اظہا ر ہے، عبادات کو عبادت سمجھ کر کیجیے۔ کل کو آپ کوکہیں گے کہ نماز کا وقت کسی اسپتال میں جا کر خدمت کے لیے دے دیا جائے ۔ عبادت عبادت ہے اور دین نام ہے عبادت کا ۔خدا کے ساتھ تعلق کے اظہار کے لیے جو عبادات مقرر کی گئی ہیں ان کو کبھی کوئی چیز معمولی نہ سمجھیں وہ اصل میں بندگی کا اظہا ر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

            افضل یہ ہے کہ پانی سے استنجا کیا جائے جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت: فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین (التوبہ:۱۰۸) اہل قبا کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ کانوا یستنجون بالماء ‘‘وہ پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے۔’’ (ابوداؤد:۱۴۴)

            پانی کے ساتھ استنجا کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا اظہارِ محبت کرتے ہوئے آیت نازل فرما دینا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پانی سے ہی استنجا کرنا افضل ہے۔

            ٭ علامہ عینیؒ رقم طراز ہیں کہ ‘‘پانی(سے استنجا کرنا) افضل ہے، کیونکہ یہ نجاست کی ذات اور اثر کو زائل کر دیتا ہے۔’’ (عمدۃ القاری:۲؍۲۷۶)

            یہاں یہ بات یاد رہے کہ پانی کے ساتھ استنجا کے افضل ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف پانی کے ساتھ ہی استنجا کرنا واجب ہے۔ شیخ امین اللہ پشاوری فرماتے ہیں کہ :‘‘ولا یجب الاستنجا بالماء کما یظنہ العوام’’(فتاویٰ الدین الخالص:۱؍۳۸۶)‘‘پانی کے ساتھ استنجا کرنا واجب نہیں ہے، جیسا کہ عوام یہ گمان رکھتے ہیں۔’’

            لہٰذا پانی کے علاوہ ڈھیلوں کا استعمال بھی مباح و درست ہے اور عہد ِرسالت میں نبیؐ اور صحابہ کرامؓ اکثر اوقات انہی سے استنجا کیا کرتے تھے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ نبیؐ نے قضائے حاجت کے لیے جاتے ہوئے حضرت ابن مسعودؓ کو تین پتھر لانے کا حکم دیا۔ (بخاری:۱۵۲)

            اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبیؐ نے پانی کے علاوہ مٹی کے ڈھیلوں سے ہی بالآخر کیوں استنجا کیا؟ یہی بات پیش نظر رکھتے ہوئے ریسرچ کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ مٹی میں نوشادر (Ammonium Chloride)اور اعلیٰ درجے کے دافع تعفن اجزا موجود ہیں۔

            ٭ ڈاکٹر ہلوک لکھتے ہیں کہ : ‘‘ڈھیلے کے استعمال نے سائنسی اور تحقیقی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے، کیونکہ مٹی کے تمام اجزا جراثیموں کے قاتل ہیں۔ جب ڈھیلے کا استعمال ہو گا تو پوشیدہ اعضا پر مٹی لگنے کی وجہ سے ان پر بیرونی طور پر لگے تمام جراثیم مر جائیں گے۔ بلکہ تحقیقات نے یہاں تک ثابت کر دیا ہے کہ مٹی کا استعمال شرم گاہ کے کینسر (Cancer of Penis) سے بچاتا ہے۔’’ (سنتِ نبویؐ اور جدید سائنس:۱؍۱۹۱)

            معلوم ہوا کہ محسن انسانیت نے پانی کے علاوہ ڈھیلوں کا حکم یونہی نہیں دیا، بلکہ اس لیے دیا کہ اس میں ا مت مسلمہ کے لیے بے شمار فوائد مضمر تھے۔ تاہم اہل علم نے پانی اور ڈھیلوں کے سوا ہر اس پاک چیز سے بھی استنجا کی اجازت دی ہے جو طہارت و نظافت میں ان کے قائم مقام ہو اور نجاست کا اثر زائل کر دے۔ امام شوکانیؒ رقم طراز ہیں کہ :‘‘(قضائے حاجت کرنے والے پر) تین ڈھیلوں یا ان کے قائم مقام کسی پاک چیز سے استنجا کرنا لازم ہے۔’’ (الدررالبھیۃ: باب قضاء الحاجۃ)

            ٭ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ‘‘شارع نے جس چیز کے استعمال کی اجازت دی ہے، اس کے ساتھ استنجا کا حکم اس لیے ہے کہ نجاست کا اثر مٹ جائے اور اس کی ذات ختم ہو جائے اور شارع نے جس چیز کے ساتھ استنجا کرنے سے منع کیا ہے وہ (اس عمل میں) کفایت کرنے والی نہیں اور جس سے منع نہیں کیا، اگر وہ چیز محترم نہ ہو اور نہ ہی اس کا استعمال مضر ہو تو وہ کفایت کر جائے گی۔’’ (السیل الجرار:۱؍۲۰۲)

            ٭نواب صدیق حسن خانؒ فرماتے ہیں: ‘‘استنجا ہر ایسی جامد، پاک، (نجاست کی) ذات کو زائل کر دینے والی چیز سے جائز ہے جو پتھر کے قائم مقام ہو اور نہ تو وہ چیز قابل احترام ہو اور نہ ہی کسی حیوان کا جز ہو، مثلاً لکڑی ، کپڑے کا ٹکڑا، اینٹ اور ٹھیکری وغیرہ۔’’ (الروضۃ الندیۃ:۱؍۱۱۰)

            ٭ امام ابن قدامہؒ بیان کرتے ہیں: ‘‘لکڑی ، کپڑا اور ہر وہ چیز جس کے ذریعے صفائی کی جا سکے، وہ (استنجا میں) پتھروں کی مانند ہی ہے، یہی صحیح مذہب ہے اور اکثر اہل علم کا قول بھی ہے۔’’ (المغنی:۱؍۲۱۳)

            ٭ سید سابق مصری رقم طراز ہیں کہ : ‘‘پتھر اور اس کے ہم معنی ہر جامد، پاک، نجاست مٹا دینے والی غیر محترم چیز سے استنجا کیا جا سکتا ہے۔’’ (فقہ السنۃ: ۱؍۲۶)

            ٭ڈاکٹر وہبہ زحیلی فرماتے ہیں کہ : ‘‘پانی یا پتھر اور اس کی مثل ہر جامد پاک، (نجاست) زائل کر دینے والی غیر محترم چیز، مثلاً (درخت کا) پتا، کپڑے کا ٹکڑا، لکڑی اور ٹھیکری وغیرہ سے استنجا ہو جاتا ہے۔’’(الفقہ الاسلامی وادلتہ:۱؍۱۹۵)

            ٭ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ‘‘اور ان رومالوں سے بھی استنجا کرنا جائز ہے جو (بطورِ خاص) اسی لیے تیار کیے جاتے ہیں۔’’(فتاویٰ الدین الخالص:۱؍۳۸۶)

            مذکورہ علما نے ان روایات سے استدلال کیا ہے جن میں یہ ذکر ہے کہ نبیؐ نے تین پتھروں کے ساتھ استنجا کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی فرمایا کہ ہڈی اور گوبر کے ساتھ استنجا نہ کیا جائے۔ (ابوداؤد:۴۱، مسلم:۱؍۲۲۳، کتاب الطہارۃ) ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کا مقصود پتھر اور اس کے قائم مقام کے ساتھ استنجا کی اجازت دینا نہ ہوتا تو آپ کبھی ہڈی اور گوبر کو بطورِ خاص مستثنیٰ نہ کرتے۔ اس استثنا سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ تمام اشیا سے استنجا کیا جا سکتا ہے۔

            ٹائلٹ پیپر ایک ایسا نرم ملائم اور لطیف کاغذ ہے جو اہل یورپ کی ایجاد ہے اور اسے خاص طور پر استنجا کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ٹائلٹ پیپرکے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن یہ یاد رہے کہ اس پیپر کی تیاری میں جو مختلف قسم کے کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں، وہ انتہائی مہلک ہیں۔ ان سے جلدی امراض (Skin Diseased) ایگزیما(Eczema)اور جلد میں رنگت کی تبدیلی کے امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس وقت تمام اہل یورپ یہی پیپر استعمال کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں اخبارات نے یہ خبر شائع کی کہ اس وقت یورپ میں شرم گاہ کے مہلک امراض خاص طور پر کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس کے سدباب کے لیے جب تحقیقی بورڈ بیٹھا تو اس بورڈ کی رپورٹ میں صرف دو چیزیں تھیں کہ ٹائلٹ پیپر کا استعمال کرنا اور پانی کا استعمال نہ کرنا۔(سنت نبوی اور جدید سائنس:۱؍۱۹۱)

            ٹائلٹ پیپر کے استعمال کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں:

            (۱) مستقل استعمال

            (۲) پانی اور مٹی کی غیر موجودگی میں استعمال

            درج بالا مضر اثرات و نتائج کی وجہ سے اسے مستقل استعمال کرنے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ تاہم اگر اس کے استعمال سے کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو یا اس کے بعد پانی استعمال کر لیا جائے یا پانی اور مٹی کی غیر موجودگی میں اسے استعمال کیا جائے تو ایسا کرنے والے پر کوئی گناہ نہ ہو گا۔ واللہ اعلم!

(حافظ عمران ایوب لاہوری)

            کموڈ سیٹ نما فلش ہے، جس پر بیٹھ کر قضائے حاجت کی جاتی ہے۔ آج کل اس کا استعمال دفاتر، ہوٹلز، ایئر پورٹس اور یونیورسٹیز سے لے کر گھروں تک عام ہوتا چلا جا رہا ہے۔

            اس کی شرعی حیثیت سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس پر بیٹھ کر قضاے حاجت کرتے ہوئے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا انتہائی مشکل ہے اور یہ بات محتاجِ دلیل نہیں کہ پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب بہرصورت واجب ہے اور یہ اصول ہے کہ جو چیز کسی واجب کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہے، وہ بھی واجب ہے، یعنی اگر پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب کموڈ سے بچنے میں ہی ہے تو کموڈ سے بچنا بھی واجب ہے۔

            تاہم اس کے جواز کی ایک صورت ہے کہ اگر اس پر بیٹھ کر قضائے حاجت کے دوران نجاست یا پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا یقینی ہو تو ہمارے علم کے مطابق کوئی اور ایسا سبب نہیں جس بنا پر اسے ناجائز قرار دیا جائے۔البتہ بہتر اور صحت بخش طریقہ وہی ہے جو فطری ہے اور جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق اگر اس فطری طریقے کے مطابق قضاے حاجت کے لیے بیٹھا جائے تو اپنڈے سائیٹس(Appendesitis)، دائمی قبض، بواسیر (Piles)، گردوں کے امراض، گیس، تبخیر اور بد ہضمی وغیرہ جیسے امراض ختم ہو جاتے ہیں۔(سنت ِنبویؐ اور جدید سائنس:۱؍۱۹۰)

            علاوہ ازیں ایک روایت میں ہے کہ حضرت سراقہ بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ :‘‘علمنا رسول اللہ فی الخلاء ان نقعد علی الیسریٰ و ننصب الیمنی۔’’‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کی تعلیم دیتے ہوئے ہمیں فرمایا کہ ‘‘ہم بائیں پاؤں پر وزن دے کر بیٹھیں اور دائیں کو کھڑا رکھیں (یعنی اس پرکم بوجھ ڈالیں)’’(بیہقی:۱؍۹۶)

            اگرچہ سنداً اس روایت میں ضعف ہے، لیکن اس میں مذکورہ طریقہ قضائے حاجت حکمت سے خالی نہیں، جیسا کہ اس روایت کی شرح کرتے ہوئے مولانا صفی الرحمن مبارک پوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

‘‘اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں پاؤں پر بیٹھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کا معدہ بائیں طرف ہوتا ہے۔ بائیں پاؤں پر بیٹھنے سے اخراجِ فضلہ میں سہولت اور آسانی ہوتی ہے۔’’(شرح بلوغ المرام:۱؍۹۳)

            لا محالہ یہ فائدہ بھی انسان کو تب ہی حاصل ہوسکتا ہے، جب وہ کموڈ پر نہیں بلکہ ٹائلٹ پر قضائے حاجت کر رہا ہو، کیونکہ کموڈ پر اس طرح بیٹھنا ممکن ہی نہیں۔

            خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قضائے حاجت کے لیے سب سے بہتر فطری طریقہ عام ٹائلٹ کا استعمال ہے، لیکن اگر کموڈ کی کہیں ضرورت پیش آجائے اور پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب ممکن ہو تو اس کا استعمال گوارا کیا جا سکتا ہے۔

(حافظ عمران ایوب لاہوری)

            یورینل اس ظرف کو کہتے ہیں جو بطورِ خاص مریضوں کے پیشاب کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جب مریض اٹھ کر ٹائلٹ تک جانے کی قوت و طاقت نہ رکھتا ہو۔ یقینا ایسی صورت میں مریض واش روم جانے کا مکلف نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنے کام کا ہی مکلف ٹھہرایا ہے جتنے کی اس میں استطاعت موجود ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے: ‘‘لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا’’ (البقرہ:۲۸۶)‘‘اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔’’ایک اور آیت میں ہے کہ :‘‘فاتقوا اللہ ما استطعتم’ (التغابن:۱۶)‘‘پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔’’اور حدیث ہے کہ ‘‘اذا امرتکم بشیی فاتوا منہ ما استطعتم’’ (بخاری:۷۲۸۸‘‘جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کر لیا کرو۔’نیز ایک صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت میں چارپائی پر ایک لکڑی سے بنے برتن میں ہی پیشاب کر لیا کرتے تھے، جیسا کہ اس حدیث میں یہ لفظ ہیں کہ :‘‘کان للنبیی قدح من عیدان تحت سریرہ یبول فیہ باللیل’’ (ابوداؤد:۲۴‘‘نبی ؐ کے پاس لکڑی کا ایک برتن تھا جسے آپ نے اپنی چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھا اور آپؐ رات کو اس میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔’’

            اس حدیث کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ:‘‘نبیؐ حالت مرض میں ایسا کیا کرتے تھے۔’’ (عون المعبود:۱؍۳۰)معلوم ہوا کہ مریض کے لیے یورینل کا استعمال مباح و جائز ہے، البتہ ہوش مند مریض کے لیے پیشاب کے بعد استنجا کرنا ضروری ہے۔ اگر پانی سے استنجا ممکن نہ ہو تو مٹی کے ڈھیلے استعمال کرے۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ٹشو پیپر سے ہی استنجا کرے۔

(حافظ عمران ایوب لاہوری)

ج: قرآن میں قیامت کی صرف ایک نشانی بیان ہوئی ہے اور وہ نشانی بائبل اور تمام الہامی صحیفوں میں بھی بیان ہوئی ہے ۔ اور وہ ہے کہ سیدنا نوحؑ کے پوتوں یاجوج اور ماجوج کی اولاد کا دنیا پر غلبہ ہو جانا۔ قرآن مجید نے یہ کہا ہے کہ غلبہ اس درجہ تک ہو جائے گا کہ من کل حدب ینسلون معلوم ہو گا کہ ہر جگہ سے وہی نکل رہے ہیں یہ شاید ابھی باقی ہے جب ہو جائے گا تو قرآن کہتا ہے کہ قیامت آجائے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب سے نماز اور قرآن یہاں آئے ہیں یہی رواج رہا ہے ۔یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ا س کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جن لوگوں نے اسلام پھیلایا ان کا خیال یہ تھا کہ جو کچھ بھی قرآن کے احکام ہیں وہ فقہ کی صورت میں نکال لیے گئے ہیں باقی ثواب کمانے کی کتاب رہ گئی ہے نہ بھی سمجھا توکیا فرق پڑتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بزرگوں کے درمیان ایک معاملہ ہوا ، آپ اس کو کیوں اچھالنا چاہتے ہیں؟ڈاکٹر اسرا ر صاحب نے اس معاملے کی پوری روداد لکھ دی ہے جس میں طرفین کا موقف بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہو گیاہے۔ اس میں انہوں نے طرفین کی خط و کتابت بھی نقل کر دی ہے اس کو دیکھ کر آپ کوئی رائے قائم کر لیجیے ۔جسطرح مجھے رائے قائم کرنے کا حق ہے اس آپ کو بھی حق حاصل ہے۔ دونوں ہمارے بزرگ ہیں اس لیے دونوں کااحترام قائم رہنا چاہیے ۔اختلاف توہو ہی جاتا ہے لیکن اس سے عزت و احترام میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اصل میں بات یہ ہے کہ والدین جب اپنی بیٹی کے گھر میں جاتے ہیں تو گھر کا قوام چونکہ ایک دوسرا شخص ہوتا ہے تو ایک فطری حجاب پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس فطری حجاب کو تبدیل کرنا مشکل ہے ۔ البتہ ہمار ے ہاں یہ بات جہالت کی حد تک پہنچ جاتی ہے تو اس کو درست کرنا چاہیے۔ جس طرح والدین اپنے آپ کو بیٹے کے گھرمیں باوقار محسوس کرتے ہیں ویسے وہ بیٹی کے گھر میں محسوس نہیں کرتے ۔ یہ ایسی چیز ہے کہ انسانی تمدن میں بڑی فطری طریقے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کو جہالت کی حد تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے ۔ والدین کے لیے بیٹیاں بھی ویسی ہی اولاد ہیں اور بیٹیوں کے لیے والدین بھی اسی طرح والدین ہیں لہذا ان کی خدمت کرنا، ان سے محبت کرنا ،ان کی کسی تکلیف میں ان کا ساتھ دینا بھی فطری بات ہے اوراگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے تو ان کو اپنے گھر میں رکھنا بھی مستحسن اقدام ہے۔ یہ جس طرح بیٹوں کا معاملہ ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی معاملہ ہے ۔ہمارے ہاں جہالت اس امر میں آڑے آ جاتی ہے تا ہم فطری حجاب بہر حال موجود رہتا ہے ۔بیٹی بہرحال ایک دوسرے گھرمیں چلی جاتی ہے اور اس کووہاں ایک نئی زندگی شروع کرنا ہوتی ہے ، وہاں وہ والدین کے لے ویسی منفعت کا باعث نہیں بن سکتی جیسے بیٹے بن سکتے ہیں اسی وجہ سے میراث میں اس کا حصہ کم رکھا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام یہ بتانے کے لیے نہیں آیا کہ تفریح کیا ہوتی ہے ۔جس طرح کھانا پینا اورجبلی و جنسی تقاضے پورے کرنا انسانی فطرت ہے ،اسی طرح تفریح بھی انسانی فطرت ہے ۔ اسلام فطرت کے معاملات کی وضاحت نہیں کرتا اس لیے کہ انسان خود ہی ان سے کما حقہ آگاہ ہوتا ہے البتہ جہاں کہیں انسان فطرت سے انحراف کرتا ہے وہاں اسلام صحیح راہ واضح کر دیتا ہے ۔

اسلام تو صرف یہ بتائے گا کہ تفریح کی وجہ سے اخلاقی حدود پامال نہیں ہونے چاہییں۔ جیسے بسنت کا معاملہ ہے ، یہاں اسلام یہ نہیں بتائے گا کہ آپ بسنت منائیں یا نہ منائیں وہ یہ بتائے گا کہ جو تفریح بھی آپ کرنا چاہتے ہیں اس میں اخلاقی حدود قائم رہنی چاہییں۔ مذہب کا دائرہ اصل میں ہے ہی یہ کہ وہ آپ کی اخلاقی تربیت کرتا ہے ۔جیسے اسلام معیشت کا کوئی نظام نہیں دیتاالبتہ یہ واضح کرے گا کہ آپ کی معاشی جدوجہد سے کوئی اخلاقی اصول قربان نہیں ہونا چاہیے۔یہی معاملہ سیاست کا ہے، انسان نظام خود بناتا ہے اسلام تو یہ واضح کرتا ہے کہ اصول یہ ہے اور اخلاقیات کا پیمانہ بہر حال ملحوظ رہے ۔اس امر کونہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ لوگوں نے کتاب لکھی ہے ‘‘ اسلام کا نظریہ جنس’’ ،‘‘ اسلام کا نظریہ تفریح’’ یہ کیا چیز ہے ؟ تفریح ایک انسانی چیز ہے اورہر جگہ اورہرمعاشرے میں وجود پذیر ہوگی۔ آپ کوصرف یہ دیکھنا ہے کہ جو کچھ بھی آپ کرنے جار ہے ہیں اس میں کوئی اخلاقی مسئلہ تو نہیں۔ بس اسلام یہاں مداخلت کرتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ ہماری روایات سے متصادم ہے۔آداب کا خیال کرنا چاہیے البتہ ممانعت کی کوئی آیت یاحدیث میر ے علم میں نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سورہ بقرۃ میں بڑی تفصیل سے اللہ نے یہ بیان کیا ہے اور اس کو مسلمانوں کا کلمہ جامع قرار دیا ہے کہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ لا نفرق بین احد من رسلہ ہم اللہ کے پیغمبروں کے مابین ہر گز کوئی تفریق روا نہیں رکھتے ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پر فضیلت نہیں ہے۔ اس کا جواب بھی اللہ نے دیا ہے کہ میں نے ہر پیغمبر کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت دی ہے ، کسی کو کسی پہلو سے ، کسی کو کسی پہلو سے ۔لیکن یہ کہ کسی کوکسی پر یا سب پر مطلق فضیلت حاصل ہے اس طرح کی بات نہ قرآن نے کبھی کہی ہے نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے بیان کی ہے۔ قرآن مجید نے مثال دے کر بتایا ہے کہ سیدنا موسیؑ کو ہم نے ان معاملات میں سب نبیوں پر فضیلت دی ہے ، سیدنا مسیحؑ کو ان ان معاملات میں سب نبیوں پر فضیلت دی ہے اور خود رسول اللہ ﷺ نے اس حوالے سے جب بیان فرمایا تو یہ فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں دوسرے نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے ۔ یہی صحیح طریقہ ہے ۔اس معاملے میں ہمارے ہاں عام طور سے جہالت پائی جاتی ہے اور اس طرح کی نعتیں بن گئہیں کہ‘‘سا رے نبی تیرے در کے سوالی ’’ نہ یہ دین ہے، نہ یہ قرآن ہے، نہ یہ حدیث ہے ،نہ یہ پیغمبروں کا طریقہ ہے اور نہ مسلمانوں کا طریقہ ہے۔ہمارا جو کلمہ جامع ہے وہ یہی ہے کہ لا نفرق بین احد من رسلہ ہم اللہ کے پیغمبروں کے مابین اس طرح کی کوئی تفریق نہیں کرتے اور تلک الرسل فضلنا سے مراد بھی یہ ہی ہے کہ جو ان کی فضیلتیں اللہ نے بیان کی ہیں وہ ہر ایک کے لیے ثابت ہیں۔ہر کوئی کسی نہ پہلوسے فضیلت کاحامل ہے ۔ سب ہمارے پیغمبر ہیں اور سب ہمارے لیے یکساں قابل احترام ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جو آدمی جس کلچر میں پیدا ہوا ہے ، انگریز ہے یا امریکی ، اگروہ مسلمان ہو گیا ہے تو آپ اس سے صرف ان باتوں کا تقاضا کریں گے جن باتوں کا تعلق آپ کے دین کے احکام سے ہے ۔ لباس کی وضع قطع دین کے احکام میں سے نہیں ہاں اگر اس میں کوئی بے حیائی ہو تو یہ دین کا مسئلہ ہے ۔ اس کے بارے میں اسے توجہ دلائی جائے گی کہ وہ اس بے حیائی کو دورکرے۔اسلام اسے اس کے قومی لباس ، یا زبان یا معاشرتی طریقوں سے نہیں ہٹاتا۔وہ ان کو اختیار کرتے ہوئے بھی اچھا مسلمان بن سکتا ہے۔ ہاں اس کے اندر وہ تبدیلیاں آنی چاہییں جو تبدیلیاں واقعتا اسلامی تہذیب کا تقاضا ہیں۔مثلاانسان کی زبان پر الحمدللہ اور ماشاء اللہ جاری ہو جانا چاہیے۔ اس کی زبان پر دعائیں آجانی چاہییں۔ نماز کے لیے تیاری اور اہتمام کا جذبہ پیدا ہوجانا چاہیے۔ایسی باتوں میں اگر کوئی چیز رکاوٹ بن رہی ہے تو اسے چھوڑنا چاہیے۔ اپنے شب وروز کے اوقات کو اسے نئے سرے سے ترتیب دینا چاہیے تاکہ اس کی زندگی نمازوں کے لحاظ سے بسرہوسکے۔اسطرح کی باتیں اسے بتانی کی ہیں۔میرے نزدیک اگر اس کے نام میں کوئی خرابی نہیں ہے تو وہ بھی تبدیل کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین عرب کے نام تبدیل نہیں کروائے البتہ کسی نام میں کوئی خرابی تھی تواسے آپ نے تبدیل کروایا ہے مثلا اگر کسی کا نام عبدالعزی ہے تو وہ تبدیل ہونا چاہیے کیونکہ یہ بت کے نا م پر رکھا گیا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر غیر مسلموں کے نام بھی پیغمبروں کے نام پر ہوتے ہیں ، امریکی اور برطانوی جو عیسائی معاشر ے ہیں ان میں یہ بات عام ہے ۔اسطرح کے نام بھی تبدیل کروانے کی ضرورت نہیں۔ضرورت توصرف اس امرکی ہوتی ہے کہ اسے اسلامی شرم وحیا نصیب ہوجائے ، روح و جسم کی پاکیزگی حاصل ہو جائے اور اخلاق وکردارمیں اللہ کی رضا منتہائے مقصود بن جائے۔اخلاق و کردار تو غیرمسلموں کے ہاں بھی ہوتاہی ہے لیکن وہاں عام طورسے اللہ مقصودنہیں ہوتا بلکہ انسانیت کی فلاح یا کوئی اور اسی طرح کا مقصد ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تعلیم ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق بنیادی حقوق سے ہے اسی طرح اپنے مذہب کی اہم باتوں پر عمل کرنے کاحق بھی بنیادی حقوق میں سے ہے ۔ اس وجہ سے میرے نزدیک فرانس کی حکومت کا یہ فیصلہ جابرانہ ہے اور اس کا اثر صرف مسلمانوں پر نہیں سکھوں پر بھی پڑ رہا ہے ۔ اس طرح کے معاملات میں باقی قوموں نے وسعت اختیار کی ہوئی ہے ان کو بھی کرنی چاہیے ۔اس مسئلے میں جواحتجاج ہو رہا ہے میں تواس کاحامی ہوں۔البتہ اس احتجاج کو تشدد کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کلچر اور تہذیب و تمدن وہ ظرف ہیں جن میں دین سماتا ہے اوریہ وہ سٹیج ہیں جہاں دین اپناظہور کرتا ہے جب بھی کوئی دین آتا ہے تو وہ غیر جانبدار یا بے جان ہوکر نہیں پڑ رہتا بلکہ وہ انسان کے وجود سے متعلق ہو تا ہے۔انسان کی شخصیت میں اس کا ظہور ہوتاہے۔اور انسان ایک کلچرل اور معاشرتی وجود ہے وہ اپنا اظہار کرتا ہے لباس میں، زبان میں ،رہن سہن کے طریقوں میں،ملنے جلنے کے آداب میں، تہواروں میں، موسموں میں ،سماجی تقریبات میں۔ دین بھی آخرکسی چیزمیں اپناظہور کرے گا اوروہ انہی چیزوں میں اپنا ظہور کرتا ہے۔ اس وجہ سے دین کاکلچر سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے سے۔دین اپنے اخلاقی اصول اور اپنے مقاصد لے کر آتا ہے ۔ دین کا مقصد پاکیزگی حاصل کرنا ہے ، اخلاق کی پاکیزگی ، کھانے پینے کی پاکیزگی ، بدن کی پاکیزگی۔ یہ پاکیزگی کاانداز آپ کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ کلچر اور تہذیب میں دین کا ظہور نہ ہو ، دین جب آئے گا تو لازماً ان کے اندر ظہور کرے گا۔آخر دین کا ظہور اور کہاں ہوگا؟ ایمان کی حد تک تووہ میرے دل و دماغ کے اندر رہتا ہے ۔ باہر جب نکلے گا تو وہ میرے وجود ، میری تہذیب، میرے تہواروں ، میرے ملنے جلنے کے طور طریقوں اور میرے رہن سہن ہی میں ظاہر ہو گا اور یہی کلچر ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کا کا م ہر شخص کیوں نہیں کر سکتا ؟ دین کا کام ایک تو وہ ہوتا ہے جو ایک عالم کرتا ہے، وہ تو ہر شخص نہیں کر سکتا ۔لیکن اسکے علاوہ بھی دین کے بہت سے کا م ہیں جو عام آدمی بھی کر سکتا ہے۔ دین کی خدمت کے کتنے ہی کا م ہیں کہ جن کو عام آدمی ہی کرتے ہیں مثلاً مسجدیں بناتے ہیں ، مدارس بناتے ہیں ، لوگوں تک بات پہنچانے کا کام کرتے ہیں ، خود علما کے دست و بازو بن جاتے ہیں ۔یہ سارے کا م ایک عام آدمی ہی کرتا ہے ۔ ہر مسلمان کو اگر اللہ تعالی توفیق دے تو جہاں اس کو یہ کوشش کرنی ہے کہ دین میں جو باتیں ماننے اور کرنے کی ہیں وہ مانے اورکرے اسی طرح یہ بھی سوچے کہ کیا میں دین کی کوئی خدمت کررہا ہوں؟ دین کی خدمت ہی نے صحابہ کو صحابہ بنایا تھا ۔ دینی عقائد و اعمال میں وہ اورہم سب مشترک ہیں ۔ہم نماز پڑھتے ہیں تو وہ بھی پڑھتے تھے ، روزہ رکھتے ہیں تو وہ بھی رکھتے تھے ،حج کرتے ہیں تو وہ بھی کرتے تھے۔تو وہ کیا چیز ہے جس نے ان کو غیر معمولی امتیاز بخشا وہ اصل میں دین کی نصرت کا غیر معمولی جذبہ ہے ۔ دین کی خدمت اور نصرت کے مواقع سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی اپنے ذوق اور صلاحیت کے لحاظ سے انتخاب کر سکتاہے ۔ آپ کاروبار، ملازمت، تجارت سب کریں اور جس طرح والدین ، اعزا و اقربا کی خدمت کرتے ہیں ایسے ہی دین کی خدمت کا بھی کوئی کام ضرور کریں۔البتہ یہ فیصلہ ہر انسان کوخود کرنا ہے کہ وہ کون سا کام کرے۔محلے کی مسجد کے انتظام و انتصرام میں شرکت بھی دین کی خدمت ہے ، دین کی تعلیم و تعلم کا اہتمام کرنا بھی دین کی خدمت ہے ، کسی صاحب علم کی دینی خدمت میں اس کے ساتھ دست و بازو بن جانا، اپناوقت اورسرمایہ خرچ کرنا یہ بھی دین کی خدمت ہے۔اس طر ح دین کی خدمت ایک عامی سے لے کر خاص تک اورایک مزدورسے لے کر صدر تک سب کر سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کے نزدیک جو دین ہے اس کا نمونہ بن کر رہیے۔ زیادہ توقع تو یہ ہی ہے کہ اسطرح کچھ کہے بغیر ہی ان پر اثر ہو گا لیکن اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ مجھے تو نماز نہیں پڑھنی ، مجھے تو جھوٹ بولنا ہے ، مجھے تو بددیانتی کرنی ہے لیکن اولادنیک ہو جائے تو پھرمحض اللہ کے کرم سے ہوجائے توہوجائے اس میں آپ کاکوئی حصہ نہیں ہوگا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کوئی اجر نہیں ملے گا۔ آپ اپنی اولاد کو جو بنانا چاہتے ہیں اسی طرح کے انسان بن کر ان کے درمیان رہیے۔ بیوی بچوں کے معاملے میں انسان کی دورخی پالیسی نہیں چل سکتی ،وہاں تو اصل میں انسان ننگا ہوتا ہے، اصل امتحان یہیں ہوتاہے ۔ میرے خیال میں والدین یا اولاد کی حد تک بہت زیادہ تبلیغ کی ضرورت نہیں ہوتی ، آپ کا وجودہی تبلیغ ہوتا ہے ، آپ کے شب وروز تبلیغ ہوتے ہیں ۔البتہ جب کبھی مناسب موقع ملے نصیحت کرنے کا تو اچھے طریقے سے نصیحت بھی کر نی چاہیے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم ایک غیر معمولی تہذیبی یلغار کے نیچے جی رہے ہیں ۔یہ عام زمانہ نہیں ہے اس میں مغربی تہذیب کی غیر معمولی یلغار ہے اور مغربی تہذیب اپنے تہذیبی پس منظر کے لحاظ سے ہم سے مختلف تہذیب ہے۔ وہ ساری کی ساری بری نہیں البتہ ہم سے مختلف ضرورہے۔ اس کی اقدار مختلف ہیں ، اس کے تقاضے مختلف ہیں ، پھر یہ کہ میڈیا نے اس کو ہمارے گھروں تک پہنچا دیا ہے ، دنیا ایک گاؤں بنتی جا رہی ہے تو اس میں تشدد کا طریقہ کارگرنہیں ہوتا۔ نہ تو یہ طریقہ اختیار کریں کہ ہر موقع پر واعظ اور مبلغ بن کر رہیں اور نہ ہی بالکل خاموش تماشائی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شیعہ حضرات قرآن کی جس آیت سے متع کے لیے استدلال کرتے ہیں ہمارے نزدیک اس کا ہرگز وہ مطلب نہیں ہے ۔قرآن نے بالکل شروع ہی میں واضح کر دیا تھا کہ بیویوں کے علاوہ کسی سے جنسی تعلق نہیں رکھا جاسکتا ۔البتہ عرب میں اس طرح کا رواج موجود تھا۔ کسی بھی سوسائٹی سے اس طرح کے رواج کو ختم کرنے میں بڑا وقت لگتا ہے ، سیدنا عمرؓ نے اپنے دور میں اسی معاملے کی باقیات کوختم کرنے کے احکامات دیے ۔اصل میں لوگوں تک بات پہنچانے کا عمل وقت لیتا ہے اور اس میں وقت لگا۔متع کی البتہ قرآن میں کوئی گنجایش نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کسی کے لیے عمرہ ادا کرنے کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ کوئی خدا کا بندہ بہت خواہش رکھتا تھاکسی وجہ سے نہیں جا سکا ، اب اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تو معذور ہو گیا ہوں تو تم میری طرف سے یہ معاملہ کر لو۔ اس کی نیت کا اجر تو ا سکو ویسے ہی مل گیاتھا اگربیٹا اسکی تکمیل کر دے گا تو بہت اچھی بات ہے ۔یہی ایک صورت ہے اسکے علاوہ کسی کے لیے نیکی کا کوئی کام کیسے کیا جاسکتا ہے؟ قرآن نے اس کو واضح کر دیا ہے۔اس کو قربانی کے معاملے سے سمجھاجا سکتا ہے ۔ اسکے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ قربانی کا گوشت اورخون اللہ تک نہیں پہنچتابلکہ دلوں کا تقوی پہنچتا ہے۔ اب جب کوئی دوسرے کی طرف سے عمرہ کرے گا تواس دوسرے کے دل کا تقوی اللہ تک کیسے پہنچے گا۔ اس نے تو کوئی ارادہ، کوئی نیت بھی نہیں کی ۔قربانی کی طرح سب نیکیوں کا یہی معاملہ ہے ان کی شکل کے پیچھے جو دلوں کاحال ہوتا ہے وہ اللہ تک پہنچتاہے ۔ خدا کے ہاں جو چیز اجر کا باعث بنتی ہے وہ اندر کا احساس اور نیت ہے۔دوسرے کا اند ر کا احساس ، نیت اور اللہ سے تعلق کی نوعیت میں کیسے لے جاؤں گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نہیں ، کبھی بھی نہیں بتانا چاہیے ، آپ جو اللہ کی راہ میں دینا چاہتے ہیں اس کی نیت رکھیے اور دیجیے۔ اس کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے چاہییں کہ دوسرے کو احساس بھی نہ ہو کہ اس کے اوپر اس طرح کوئی کرم کیا جا رہا ہے ، آپ کسی کے گھر گئے ہیں ویسے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں ،کچھ چیزیں دے دیتے ہیں ، کوئی تحفے تحائف دیتے ہیں تو اس طرح دے دینا چاہیے ، بتانا ضروری نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: زکوۃ تو وہ رقم ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے نماز کی طرح فرض کی گئی ہے ۔ صدقہ خیرات ایک آپشنل انفاق ہے ۔ خود زکوۃ بھی ایک طرح سے صدقہ ہی ہے ۔ صدقہ کوئی برا لفظ نہیں ہے ہمارے ہاں یہ اصل میں برے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔اجتماعی یا انفرادی بہبود کے لیے جو خر چ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جاتا ہے وہ صدقہ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر والد یا والدہ جن کی جائیداد تقسیم ہونی ہے ، اولاد نے ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ گویا اولاد ہی نہیں رہی تو اسے محروم کیا جا سکتا ہے ۔اولاد کی جومنفعت والدین کوحاصل ہونا تھی وہ حاصل نہیں ہورہی تو والدین بھی اس کو وراثت کی منفعت سے محروم کر سکتے ہیں۔یہ ناجائز نہیں ،کیا جا سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر وہ آپ کو ایسی بات کہتے ہیں کہ جو دین کے خلاف ہے ، تو آپ ان کی بات معذرت کے ساتھ رد کر سکتے ہیں، باقی معاملات میں نافرمانی کی معقول وجہ ہونی چاہیے ۔ خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔ اللہ تعالی اپنی عبادت کا حکم دیتے ہیں اس کے فوراً بعد کہتے ہیں وبالوالدین احسانا ۔مشرک اور بے دین والدین کے بارے میں بھی حکم ہے کہ دنیا کے معاملات میں ان کے ساتھ بالکل دستور کا ،نیکی کا تعلق رکھا جائے ۔ہر حال میں ان کی عزت کی جائے گا ان کا احترام کیا جائے گا۔ اصل میں تو والدین کی فرمانبرداری ہی ہونی چاہیے جب تک کہ نافرمانی کی ٹھوس وجہ نہ ہواور یہ ٹھوس وجہ آپ کو اللہ کے ہاں ثابت کرنا ہوگی ۔ہوسکتا ہے جو یہاں ٹھوس ہو وہاں وہ ریت ثابت ہو۔ اس لیے اس احساس کے ساتھ والدین سے معاملہ کرنا چاہیے کہ ہم اس کے با رے میں ایک ایسی ذات کو جوابدہ ہیں جو دلوں کے بھید جانتی ہے اور اعمال کے محرکات تک سے باخبر ہے ۔ اگر والدین کوئی حکم اللہ یا اللہ کے رسول کے خلاف دے دیں تو نافرمانی ہو سکتی ہے ۔ وہ کوئی ایسی بات کہتے ہیں کہ جس کا آپ کی زندگی پر برا اثر پڑ سکتا ہے اور والدین خواہ مخواہ اس پر اصرار کر رہے ہیں ، تو شائستگی کے ساتھ معذرت کی جاسکتی ہے لیکن عام حالات میں تو ان کی فرمانبردار ی ہی ہونی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سجاناہی ہے تو دنیاکو سجائیے تا کہ یہ لوگوں کے رہنے کے لیے ایک اچھی جگہ بنے۔لیکن بعض اوقات آدمی کے جذبات ہوتے ہیں ۔ان جذبات میں اگر کوئی اپنے ماں باپ ،یابھائی بہن،یا بچے کی قبر پر دو پھول رکھ دیتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔لیکن قبروں کے ساتھ اس طرح کی وابستگی اختیار کر لینا جس طرح کی ہمارے ہاں بعض لوگ اختیار کر لیتے ہیں تو یہ اسلامی مزاج کے خلاف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس طرح کی دوستی حدود کے اندر رہے گی ،یہ بہت مشکل امر ہے ۔ اس لیے کہ اللہ نے دونوں صنفوں کے مابین غیر معمولی کشش رکھی ہے اور پھر چھوٹی عمر میں انسان بہتر انتخاب کے قابل بھی نہیں ھوتا۔ایسے میں تو جو بھی قریب ہو ،جس سے بھی تعلق محسوس ہواس سے دوستی ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے اس میں احتیاط کرنی چاہیے تاکہ فتنے سے بچے رہیں۔Physical contact تو بالکل ممنوع ہے ۔دوستی سے بچنا اصل میں فتنے سے بچنے کے لیے ہے ۔ خود بری چیز نہیں ہے لیکن بری چیزوں تک لے جاتی ہے ۔ اس لیے سد ذرائع کے تحت اس سے پرہیزکرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عام لوگوں کو حدیث پڑھانے کے لیے مشکوۃ ایک اچھا انتخاب ہے ۔ جتنے بھی محدثین ہیں جیسے بخاری یا مسلم ،ان سب نے اپنے اپنے زاویے سے حدیث کی کتابیں مرتب کی ہیں۔مشکوۃمیں تمام کتابوں کا انتخاب کرلیا گیا ہے اوراس کی ترتیب بہت اچھی ہے یعنی مسئلہ پوری طرح سامنے آجاتا ہے۔ بخاری اصل میں اہل علم کی کتاب ہے ، اس لیے میرے خیال میں عوامی درس کے لیے اس کا انتخاب بہتر نہیں۔ اسی طرح مسلم ایک ہی روایت کو مختلف طریقوں سے لاتے چلے جاتے ہیں اس میں بھی مخاطب بوریت محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ مشکوۃ ایک خوبصورت انتخاب ہے۔ جو روایتیں میں چھوڑتا ہوں وہ ضعیف ہیں ۔ صاحبِ مشکوۃ نے کچھ ضعیف روایتیں بھی جمع کر دی ہیں ۔اس وجہ سے میں ان کو چھوڑ دیتا ہوں ، صحیح روایتوں کو لے لیتا ہوں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلامی شریعت کی رو سے شادی یا تو کسی مسلمان کے ساتھ ہو سکتی ہے یا اہل کتاب کے ساتھ ۔اہل کتاب کے ساتھ بھی شادی کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت اہل کتاب کی صورتحال یہ ہے کہ بہت سی حرام چیزیں ان کے ہاں حلال ہیں اور مشرکانہ چیزیں ان کے اندر داخل ہو گئی ہیں۔ایسے میں آدمی کیسے اس چیز کو گوارا کر لے گا کہ اس کے گھر میں حرام چیزیں بھی آجائیں اور مشرکانہ بھی۔اولاد کے متاثر ہونے کاخدشہ الگ سے ہوتا ہے۔ تاہم قانونی اجازت ہے۔ اہل کتاب کے علاوہ کسی اور کے ساتھ شادی ممنوع ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قدیم مذاہب میں قربانی سے پہلے قربانی کے جانور کو معبد یعنی عبادت گاہ کے سامنے پھیرے دیے جاتے تھے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بھی مروہ پر حضرت اسماعیل کی قربانی سے قبل اسیطرح کیاسعی اسی کی یاد گار ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کنواں تو وہاں پہلے ہی سے موجود تھا۔ہمارے ہاں جو قصہ بیان کیا جاتا ہے وہ اصل میں تورات میں بیان ہواہے ۔ہمارے ہاں بھی وہیں سے آیا ہے۔یہ خلاف عقل بھی ہے اور خلاف قرآن بھی۔قرآن یہ کہتا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا واقعہ جب پیش آیا، تو اس موقع پر حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی کہ اب میں اپنی اولاد کو اس وادی میں آباد کرتاہوں ۔ آباد کرنے کا ذکر ہی اس وقت ہوا ہے اور اس وقت وہ دس پندرہ سال کے تھے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اسماعیل سے پوچھا ہے کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے تو انہوں نے کہا کہ یابت افعل ما تومر تو یہ بات کوئی دودھ پیتا بچہ تو نہیں بات کر سکتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حج میں اصل میں شیطان کے خلاف جنگ کو Symbolize کیا گیا ہے۔ دنیا میں جب انسان آیا ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اب دنیا میں جاؤ تم دونوں اب ایک دوسرے کے دشمن ہوگے۔ تو شیطان ہمارے مقابل میں کھڑا ہے ، اللہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ہماری زندگی اصل میں شیطان کے خلاف شب و روز کی جنگ ہے ۔حج اس کا علامتی اظہار ہے۔آپ احرام باندھتے ہیں تو گویا دنیا سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں ۔وہ دنیا جس میں شیطان آپ کو ملوث کرنا چاہتا ہے ۔شیطان جن جگہوں سے حملہ کرتا ہے ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا حملہ جنس کے راستے سے ہوتا ہے تو تمام جنسی تعلقات ختم ہو جاتے ہیں ۔اس کے بعد گویا ایک مجاہد کی طرح پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔منی میں ڈالا پھر عرفات میں گئے ،خدا کے حضور جا کر دعائیں کیں پھر وہاں سے واپس آئے۔تو شیطان کی جو علامتیں بنائی گئی ہیں ان کو آپ مارتے ہیں ۔ اس کے بعد قربانی کرتے ہیں یعنی اپنے آپ کو اس جنگ میں پیش کر دیتے ہیں ، خدا کی نذر کر دیتے ہیں ۔یعنی گویا یہ عہد کرتے ہیں کہ اگر شیطان کے خلاف جنگ میں اللہ کے ساتھ ہو کر جان بھی دینی پڑی تو ہم یہ بھی دے دیں گے۔گویا تمثیل ہے پور ی کی پوری شیطان کے خلاف جنگ کی۔اسی کو Symbolize کر دیا گیا ہے۔حج کے مناسک کے بارے میں لوگوں نے افسانے گھڑے ہوئے ہیں۔شیطان کے بارے میں بھی ایسا ہی افسانہ ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو بہکانے کی کوشش کی۔ اصل بات یہ ہے کہ ازل سے شیطان کی اور رحمان کی جنگ ہے ، جس جنگ میں ہم زندگی بھر مصروف رہتے ہیں اور پھر اس کو Symbolize کرتے ہیں ، اس شعور کے ساتھ کہ میرے نفس میں جو شیطان پڑا ہوا ہے میں اس کو کچل کر آرہا ہوں اور خدا کے ساتھ کھڑا ہوں۔آ پ منی میں پڑاؤ ڈالتے ہیں پھر عرفات میں جاتے ہیں پھرمزدلفہ میں رات بسر کرتے ہیں،یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے فوج Move کرتی ہے ۔ پھر آکے شیطان پرحملہ کر دیتے ہیں۔ اس میں شیطان پسپا ہوتا ہے ۔پہلے بڑا شیطان پھر چھوٹا یہ اس کی پسپائی کی علامت ہے۔لوگ آتے ہیں سارے کام کرتے ہیں لیکن کوئی چیز ان پر اثر نہیں کرتی کیونکہ انہیں پتا ہی نہیں ھوتا۔ حجر اسود کا بوسہ اللہ تعالی کے ساتھ عہد کی علامت ہے۔ قدیم زمانے میں ہاتھ میں ہاتھ دیکر عہد کیا جاتا تھا تو اس کو اللہ کے ہاتھ کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اس موقع پر حضورﷺ جو دعاپڑھی ہے وہ یہی ہے کہ پروردگار میں تیرے عہد کی وفاداری کے لیے یہ کررہا ہوں۔ طواف نذر کے پھیرے ہیں ۔آپ اپنے آپ کو خدا کی نذر کر رہے ہیں ۔ حج کا جو ترانہ ہے یا ذکر ہے وہ صرف تلبیہ ہے اس کے علاوہ نہ حج کی کوئی خاص دعا ہے ،نہ خاص ذکرہے۔ جو جی چاہیں دعا کریں جو جی چاہے ذکر کریں۔لیکن دعاؤں کا ایک عجیب و غریب بوجھ لوگوں پرڈال دیا جاتا ہے۔ اس کی دعا یا ترانہ جو کچھ بھی ہے وہ صرف تلبیہ ہے اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے باقی آپ کی مرضی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں پر عذاب آیا ان کو پہلے خدا کے پیغمبروں نے توحیدکی دعوت دی۔ جب طویل دعوتی سرگرمیوں کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قوم نے بحیثیت مجموعی پیغمبر کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے تو اللہ تعالی انھیں ہلاک کر دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ پیغمبر یہ بات بھی واضح طور پر بیان کردیتے ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو اللہ تعالی اس قوم کی مہلتِ عمر ختم کر دیں گے۔اس سے واضح ہے کہ اس آسمانی آفت کو عذاب قرار دینا درست نہیں ہے۔دنیا کی تمام تکلیفیں اور تمام نعمتیں اصلاًہمارے لیے امتحان ہیں۔ کچھ بھی حالت درپیش ہو ہمیں ہرحال میں اللہ تعالی سے جڑ کر رہنا ہے اور اس کی اطاعت کرنی ہے ۔ اس کی عبادت سے روگردانی ، اسی طرح تکبر، بے صبری اور دوسرے اخلاقی رذائل سے خود کو بچانا ہے۔ہر انسان کی زندگی اور ہر معاشرے میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جو انسانوں کو غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کبھی کبھی اللہ تعالی اس طرح کاواقعہ بڑی سطح پر ظاہر کرتے ہیں ۔ پاکستان میں آنے والا زلزلہ اسی نوعیت کا واقعہ ہے۔اس میں وہ بھی آزمایش سے دوچار ہیں جو زلزلے سے متاثر ہوئے اور وہ بھی آزمایش سے دوچار ہیں جو محفوظ رہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: یہ سوال صرف اس زلزلے کے حوالے ہی سے کیوں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ گود میں ہمکتا ہوا چاند سا بچہ یتیم ہو جاتا ہے۔ نئی نویلی دلہن بیوہ ہوجاتی ہے۔ لوگ ٹی بی اور کینسر کا شکار ہوتے اور بہت سے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ سڑک کے حادثے میں اسی طرح معصوم، نیک یا بد ہر طرح کے لوگ لقمہ اجل بنتے رہتے ہیں۔ غرض کوئی آفت ایسی نہیں ہے جس میں نیک وبد ، بچے ،جوان اور بوڑھے اور مرد وعورت مبتلا نہ ہوتے ہوں۔ ان واقعات میں کیا کیا حکمتیں اور مصلحتیں پیش نظر ہوتی ہیں ہمارے لیے ان کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کو کشتی کے ٹوٹنے، نوجوان کے مرنے اور دیوار کی استواری جیسی چند مثالوں دکھا کر یہ بات واضح کی گئی تھی کہ اللہ تعالی کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔

(مولانا طالب محسن)

ج: کسی بھی آفت کے ظاہر ی اسباب کیا ہیں؟ یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ ظاہر ی اسباب کچھ بھی ہوں کسی واقعے کا ہو جانا اللہ تعالی کے اذن کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس کی قدرت میں ہے کہ وہ سمندروں اور پلیٹوں کو تھامے رکھے اور چاہے تو ان کو بے لگام کردے۔ یہی معاملہ بیماریوں، حادثات اور دوسرے نقصانات کا ہے۔ہماری سوچ دو رخ اختیار کرتی ہے ایک یہ کہ اس میں ہماری غلطی اور کوتاہی کیا تھی یا اگر آئندہ ایسا ہو تو ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالی نے ہمیں کس امتحان میں ڈالا ہے۔ یہ دونوں رخ ٹھیک ہیں اور دونوں کے اعتبار سے ہماری زندگی میں تبدیلیاں آنی

(مولانا طالب محسن)

ج: قرآن مجید میں عذاب کے ساتھ تبشیر(خوش خبری) کے فعل کے استعمال میں ایک خاص بلاغت ہے۔یہ اسلوب بالعموم ان مواقع پر اختیار کیا گیا ہے جہاں اہل کفر کی ہٹ دھرمی اور اپنے جھوٹے معبودوں پر اندھا اعتماد زیر بحث ہو۔مراد یہ ہے کہ اگر تمھیں اس حق کو قبول کرنے میں یہ چیزیں آڑے آرہی ہیں تو پھر جہنم میں ڈالے جانے کی خوش خبری لے لو۔یہ ایک اعتبار سے ان کے اندھے پن اور ھٹ دھرمی پر طنز ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: قرآن مجید میں اللہ تعالی کے چاہنے کے یہ بیانات یہ بات واضح کرنے کے لیے ہیں کہ جب اللہ تعالی کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور کسی کے بس میں نہیں ہے کہ اس کو نافذ ہونے سے روک دے۔ ان بیانات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی کے یہ فیصلے کسی اصول پر مبنی نہیں ہوتے۔ یہ فیصلے جیسا کہ قرآن مجید ہی میں بیان ہوا ہے ایک علیم وحکیم اور عادل ہستی کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ ہم اسی وجہ سے جواب دہ ہیں کہ ہمارے انجام کے بارے میں فیصلہ ہمارے اعمال ہی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ جس کے بارے میں جنت کا فیصلہ ہوا اسے جنت سے کوئی محروم نہیں کر سکتا اور جس کے بارے میں جہنم کا فیصلہ ہوا اسے کوئی بچا نہیں سکے گا۔

(مولانا طالب محسن)

ج: ہماری تمام دعائیں سنی جاتی ہیں انھیں قبول کرنے کا معاملہ سرتاسر اللہ تعالی کی حکمت پر منحصر ہے۔ جب اللہ چاہتے ہیں دعا پوری کر دیتے ہیں۔ کبھی مؤخر کردیتے ہیں اور کبھی آخرت تک ملتوی کر دیتے ہیں۔ آپ نے جو مثالیں دی ہیں۔ ان کے معاملے میں غور ایک دوسرے زاویے سے ہونا چاہیے۔ ہم طویل عرصے سے ایک خاص حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ حکمت عملی اب پوری طرح واضح ہے کہ ناکام حکمت عملی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ناکامی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ہے یا اس کا سبب کچھ اور ہے۔ ہمارے نزدیک یہ حکمت عملی غلط ہے۔ اس وقت اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اس حکمت عملی کو ترک کریں اور سارے معاملے کا جائزہ لے کر کوئی نئی حکمت عملی وضع کریں۔

(مولانا طالب محسن)

ج: آیات سجدہ پرفورا سجدہ کرنا ضروری نہیں۔ یہ سجدہ بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ امام اگر نماز میں سجدہ کرلے تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر بعد میں اکیلا سجدہ کر لے یہ بھی درست ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: قرآن مجید کسی موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مختلف مراحل میں نازل ہونے والے خدائی خطبات ہیں۔ ان میں دعوت کے مختلف مراحل پر ضروری تعلیمات کا نزول ، انذار تبشیراصلاح عقیدہ وعمل غرض کئی حوالوں سے گفتگو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان خطبات میں کئی باتیں بار بار کہی گئی ہے۔ یہ اسلوب دعوتی اور اصلاحی کام کے لیے انتہائی موثر ہے۔ اس اسلوب میں تکرار نہیں اصرار ہوتا ہے۔ مخاطب کو بار بار جھنجوڑا جاتا ہے۔ اس پر بات کئی گوشوں اور پہلوؤں سے واضح کی جاتی ہے۔ یہی اس اسلوب کی حکمت ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: نبی سے منسوب اشیا کے بارے میں امت کے دل میں تعظیم اور محبت کے جذبات کا ہونا بالکل ایک فطری امر ہے۔ لیکن خواہ مخواہ کسی چیز کو نبی سے منسوب کر دینا ایسا ہی ہے ، جیسے اس چیز کا خواہ مخواہ انکار کر دینا ، جو آپؐ سے ٹھوس ثبوت کے ساتھ منسوب ہو ۔ یہ دونوں رویے سنگین جرم ہیں۔لہذا ،ان میں شدید احتیاط کرنی چاہیے۔ تاریخی طور پر سوائے ایک موئے مبارک کے جو استنبول میں موجود ہے ، کوئی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا ۔ موئے مبارک کے بارے میں وہ ساری کہانی جو آپ نے بیان کی ہے کہ یہ بڑھتا رہتا ہے اور اس کی شاخیں بھی نمودار ہوتی ہیں اور باقاعدہ خواب کے ذریعے سے امت کے اندر اسے پھیلایا جا رہا ہے ،ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ، یہ سب کچھ ایک من گھڑت افسانہ ہے ۔ مذہب کو بگاڑنے کے لیے شیاطین نے ہمیشہ اس طرح کے افسانے گھڑے ہیں۔ صحیح مذہب انسان کے اندر انتہائی علمی رویہ پیدا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ہر چیز کی دلیل لور اس کا ثبوت دیکھا جاتا ہے ۔ مذہب چاہتا ہے کہ ہم ہر شئے کو دلیل لور اس کے ثبوت کے ساتھ مانیں ۔ اگر ہم مذہب کی اس ہدایت سے گریز کا رویہ اختیار کرتے ہیں ، تو پھر شیطان جس چیز کو چاہے گا، ہمارے سامنے دین بنا کر پیش کر دے گا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: ہماری رائے میں آپ کو لوگوں کے تبصروں اور ان کے فتووں سے بے نیاز ہو کر نماز بہرحال باجماعت ہی پڑھنی چاہیے۔جن لوگوں کو ہم مسلمان کہتے ہیں ، وہ خواہ کیسی ہی علمی غلطیوں میں مبتلا ہوں ،ان سے ہم اپنی نماز کیسے الگ کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ جب تک خدا کو الہِ واحد ،محمد ﷺ کو اس کا آخری رسول ، قرآن کو اس کی کتاب ، فرشتوں کو اس کی ایک مخلوق اور آخرت کو برحق مانتے ہیں ، اس وقت تک وہ مسلمان ہیں ۔ جب تک وہ مسلمان ہیں ، ان سے علیحدہ ہو کر نماز کیسے پڑھی جا سکتی ہے۔ رہا ان کے ہاں پائی جانے والی غلطیوں کا معاملہ، تو وہ ہمارے نزدیک بنیادی طور پر علمی غلطیاں ہیں ، خواہ وہ کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔ آپ دیکھیں ! کیا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی آرا اوراپنے تصورات ہی پر قائم رہیں گے ، خواہ وہ قرآن و سنت کے بالکل خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ ظاہر ہے ایسا کوئی بھی نہیں کہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر پیدا ہونے والا کوئی فرقہ اپنے خمیر یا کم از کم اپنے خارج کی وجہ سے ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ باطن کا معاملہ خدا کے حوالے ہے ۔ پس جن لوگوں کا آپ نے ذکر کیا ،نماز میں ان سے علیحدگی درست معلوم نہیں ہوتی۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: مشرک وہ شخص ہے جو توحید کا نہیں، شرک کا عقیدہ رکھتا ہو۔ اس دنیا میں جب تک کوئی شخص خود کو توحید کے عقیدے کا علم بردار کہتا ہے ، اس وقت تک ہم محض اس کے کسی شرکیہ عمل کو اختیار کرنے کی بنا پر اسے مشرک قرار نہیں دے سکتے ۔ کسی کے دل کا معاملہ کیا ہے ؟ یہ اس کا وہ راز ہے جسے خدا ہی جانتا ہے ، ہم اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ پس زیر بحث لوگوں کے حوالے سے نکاح اور نماز دونوں ہی درست ہیں ۔

(محمد رفیع مفتی)

ج : ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے کسی خاص گروہ نے اپنے آپ کو شرک کے ساتھ عقیدے کی سطح پر وابستہ کر رکھا ہے اور باقی اُس سے دور ہیں۔ مسلمانوں کا تو کوئی گروہ بھی اپنے آپ کو شعوری طور پر شرک کے ساتھ منسلک کرنا گوارا نہیں کرتا۔ مسلمان فرد ہو یا جماعت شرک کے تصور سے بھی نفر ت اُن کی گھٹی میں پڑی ہے۔ لہذا، یہ بات واضح رہے کہ مسلمانوں کے ہاں شرک اگر پایا جاتا ہے تو وہ خوبصورت مذہبی تصورات کے لبادے میں ہوتا ہے۔ چنانچہ سینکڑوں مسلمان اُس سے دھوکہ کھا کر اسے اپنالیتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اُن میں سے کون کون اپنی نفسیات اور اپنی ذہنیت کے اعتبار سے مشرک ہے۔ میں اِس بات کو تھوڑا سا واضح کرنا چاہتا ہوں۔ مشرک کی مثال چھنال عورت سے دی گئی ہے۔ جو خود کو اپنے خاوند تک محدود نہیں رکھتی، حالانکہ وہ اپنے خاوند کے حبالہ عقد میں ہے، اُس سے اپنے نان نفقہ کا مطالبہ کرتی ہے، لیکن وہ خاوند کے خاص حقوق میں دوسروں کو بھی شامل کرنا بالکل صحیح سمجھتی ہے اور پھر شامل کرتی بھی ہے۔ یہ عورت اپنی ذہنیت، اپنی نفسیات اور اپنے عمل میں ایک چھنال عورت ہے۔ اسی طرح مشرک وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی ذہنیت اور اپنی نفسیات میں صرف ایک خدا ہی کو اپنا خدا ماننے پر قانع نہیں رہتا ، بلکہ اوروں کو بھی خدا کے ساتھ شریک کرتا ہے۔ اُس کے نزدیک، خدا کے خاص حقوق کوئی ضروری ہے کہ صرف خدا ہی کو دیے جائیں۔ اُس کے خیال میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ سجدہ خدا کو بھی کیا جائے اور غیر خدا کو بھی، دل میں جو حیثیت خدا کو دی جائے وہی غیر خدا کو کیوں نہ دی جائے ۔ آخر اِس میں کیا حرج ہے کہ خدا کی اطاعت بھی کر لی جائے اور غیر خدا کی بھی۔ یہ ہے مشرکانہ ذہن۔ الحمد للہ مسلمانوں میں شرک کے اِس طرح کے اقرار کے ساتھ کوئی مشرک نہیں پایا جاتا۔ مسلمانوں کے ہاں جو شرک پایا جاتا ہے، وہ بہرحال، توحید ہی کے لبادے میں ہوتا ہے یا توحید ہی کے واضح اقرار کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص جو مسلمان دکھائی دیتا ہے، وہ درحقیقت، کسی کریہہ شرک میں مبتلا ہو، وہ پوری طرح سے مشرکانہ ذہنیت اور مشرکانہ نفسیات رکھتا ہو اور خدا کے ہاں جب وہ اٹھایا جائے ، تو پکے مشرک کی حیثیت سے اٹھایا جائے۔ لیکن آپ بتائیے ،اگر بالفرض وہ اِس دنیا میں اپنا عقیدہ جب بھی بیان کرنے بیٹھے، تو اُس کی ابتدا کلمہ طیبہ سے کرے اور انتہا کلمہ شہادت پر کرے، تو ہم اُسے مشرک کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اُس کی فلاں فلاں بات مشرکانہ ہے اور اُس کا فلاں فلاں عمل مشرکانہ ہے۔ لیکن اُس کے عقیدے کے بارے میں آپ بتایئے ہم توحید کے علاوہ اور کیا بیان دیں۔چنانچہ یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی ایسے گروہ یا شخص کو ہم نہ ‘ مشرک’ کہہ سکتے ہیں، نہ ‘مشرک مسلمان’ ، کیونکہ ہمارے پہلے بیان (مشرک)کے لیے اُس کی زبان سے خالص شرک کا اقرار ضروری ہے اور دوسرے بیان (مسلمان مشرک)کے لیے اُس کا زبان سے شرک اور توحید دونوں کا اقرار ضروری ہے۔ جب تک یہ بیان میسر نہ ہوں اور کلمہ شہادت اور کلمہ توحید کا اقرار موجود ہو، ہم اُسے مسلمانوں ہی میں شمار کریں گے، البتہ اُس کے غلط (شرکیہ)اعمال اور اُس کی غلط (شرکیہ) باتوں سے خود بھی بچیں گے اور اُسے بھی بچنے کو کہیں گے۔

            ایسے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، جب تک کہ وہ صحیح نماز پڑھتے ہیں، البتہ اگر اُن کے دوسرے شرکیہ اعمال کی وجہ سے جی نہ چاہے ، تو اُن کے ساتھ نماز پڑھنے سے گریز کیا جا سکتا ہے۔

            جو شخص دل سے مسلمان اور موحد ہے ، وہ اُس حقیقی شرک کو ،جومیں نے اوپر بیان کیا ہے ، شعوری طور پر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں اپنا سکتا۔اور جو شخص مشرکانہ ذہنیت رکھتا ہے، وہ اپنی اِس ذہنیت کے ساتھ ایک لمحے کے لیے بھی حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ البتہ یہ بات ہو سکتی ہے کہ ایک آدمی کسی مشرکانہ بات یا مشرکانہ عمل کو اپنی کم علمی کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک توحید ہی کی بات یا توحید ہی کا عمل سمجھتا رہے، لیکن اِس صورت میں یہ آدمی اپنی ذہنیت ،اپنی نفسیات اور اپنے داخل کے اعتبار سے مشرک شمار نہیں ہو گا، کیونکہ اِس نے کسی شرکیہ عمل کو اگر اپنایا ہے تو محض اِس لیے کہ اُسے وہ عینِ توحید محسوس ہوا ہے، ورنہ وہ اُسے ہرگز نہ اپناتا۔ ہاں عمل کے اعتبار سے بے شک یہ مشرکانہ عمل میں پڑا ہوا ہے۔اِس کی دلیل اور مثال سورۃ جن میں جنوں کا یہ قول ہے :‘‘ اور یہ کہ ہمارا یہ بے وقوف (سردار )اللہ کے بارے میں حق سے ہٹی ہوئی (شرک کی)باتیں کہتا رہا ہے، اور یہ کہ ہم نے گمان کیا کہ انسان اور جن خدا پر ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتے۔ ’’ (الجن۷۲: ۴،۵)

             اللہ کے رسولؐ نے بے شک ہم تک توحید کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا تھا۔اب اگر انسان اِس مسئلے میں ٹھوکر کھاتا ہے تو یہ انسان کا قصور ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اس سلسلے میں مجھے آپ کے ان دوست سے یہ گزارش کرنا ہے کہ انہیں شادی کی اس آگ میں نہیں اترنا چاہیے۔ ان کے جو حالات معلوم ہوئے ہیں ،ان سے پتا چلتا ہے کہ اس شادی کی وجہ محض اس خاتون سے تعلق کا قائم ہو جانا ہے۔ دل کا یہ تعلق تو کل کسی تیسری خاتون سے بھی قائم ہو سکتا ہے ، اس کے بھی گوناں گوں مسائل ہو سکتے ہیں اسے بھی اس کی ضرورت ہو سکتی ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ تھامے اور اسے ان مسائل سے نکالے اور اس کے بعد پھر کسی چوتھی خاتون کو بھی اس طرح کی مدد درکار ہو سکتی ہے۔ خیر خواہی کی یہ شکل ورست نہیں کہ آدمی دوسرے کو دلدل سے نکالنے کے لیے خود اس میں جا اتر ے۔ اس صورت میں وہ دلدل دونوں کو نگل جائے گی۔ آپ کے یہ دوست شادی شدہ ہیں اور ان کے بچے بھی ہیں ۔ بیوی اور بچوں کی ضروریات اور ان کے عام مسائل کوئی ایسے کم نہیں ہوتے کہ آدمی ان میں کسی اضافے کا طالب ہو۔ دوسری شادی کے بعد ان کی پہلی بیوی اور اس سے ہونے والے بچے جن مسائل کا شکار ہوں گے، وہ کم دکھائی نہیں دیتے۔ پھر آپ اِن کے دوسری شادی کی طرف بڑھنے کے عمل کی سنگینی کو بھی دیکھیے کہ اس میں پہلا قدم لڑکی کا گھر سے بھاگنا ہے ، کیا اس کے بعد اس کے بھائی ،اس کے رشتے دار اور اس علاقے کی پولیس ، سبھی اس لڑکی کے پیچھے پیچھے اِن صاحب کے گھر کی طرف نہ بھاگ اٹھیں گے۔ بھاگنے والیوں کی مصیبت یہی ہے کہ وہ اکیلی نہیں بھاگتیں، اپنے پیچھے بہت سے لوگوں کو بھگا لاتی ہیں۔اس صورت میں آپ کے اِن دوست کا پہلا گھر الگ سے برباد ہو گا اور نیا گھر الگ سے۔ معاشرے میں جو فتنہ و فساد برپا ہو گا اور جس غلط روی کی یہ مثال بنیں گے ،خدا کے حضور ان سب باتوں کی جواب دہی الگ سے ہو گی۔ معاملہ اگر جنونِ نافہم کا ہے تو خود کشی مقدر ہے، بس اب طریقہ ہی سوچنا ہے۔ لیکن اگر دوسروں کی اصلاح اور خیرخواہی کا دعویٰ ہے، تو پھر پہلے اپنی اصلاح اور اپنی خیرخواہی کر لینی چاہیے ۔ اِنہیں اپنی شادی کا نہیں ، صرف اُس خاتون کی شادی کا سوچنا چاہیے ، جس کی شادی ابھی نہیں ہوئی ، اِن کی شادی تو ہو چکی ہے ۔اُس خاتون کو اِنہیں یہ تلقین کرنی چاہیے کہ وہ مسائل پر جذبات سے نہیں ، عقل کی روشنی میں غور کرے۔ اس واضح موقف کو اپنانے کے بعد انہیں چاہیے کہ صبر سے کام لیں ، اُس خاتون سے رابطہ منقطع کر دیں اور خدا سے بڑے اجر کی توقع رکھیں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج : تعویز گنڈے کو نبیﷺ نے مکروہ جانا ہے۔ ابو داؤد کی کتاب الخاتم میں ایک مفصل حدیث بیان ہوئی ہے ، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی ﷺ دس فلاں فلاں چیزوں کو مکروہ جانتے تھے ،ان باتوں کی تفصیل میں سے ایک تعویز باندھنا بھی ہے۔

دین سے اس کے بارے میں ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے۔ لہذا ،اس سے بچنا چاہیے۔اس کے بعد یہ سوال اصلاً بے کار ہے کہ اس کے کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں یا نہیں۔ اثرات مرتب ہوں ،تو بھی اس سے بچنا ہے اور نہ ہوں ،تو بھی اس سے بچنا ہے

(محمد رفیع مفتی)

ج: نماز کے دوران میں اگر ہوا خارج ہو جائے، تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ یہ نماز اگر امام کی ٹوٹی ہو،تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں مقتدیوں کی نماز بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔اگر امام فوراً اپنے پیچھے سے کسی مقتدی کا ہاتھ پکڑے اور اسے اپنی جگہ پر کھڑا کر دے، تو اس صورت میں مقتدیوں کی نماز سلامت رہتی ہے۔ پہلا امام اگر چاہے تو وضو کر کے نماز میں اب مقتدی کی حیثیت سے شامل ہو سکتا ہے۔لیکن اگر امام کا وضو ٹوٹنے کے باوجود وہ نماز پڑھاتا رہتا ہے اور مقتدی یہ صورت حال جاننے کے باوجود اس کے پیچھے نماز پڑھتے رہتے ہیں تو کسی کی نماز بھی نہیں ہو گی اور یہ نماز کے ساتھ ایک مذاق ہو گا، جو کیا جا رہا ہو گا۔ اس صورت میں مقتدیوں کو اس مذاق میں ہرگز شامل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ نماز ضرور توڑ دیں اور اس کے بعد حالات کی رعایت سے،خواہ اپنی نماز جماعت کراکے پڑھ لیں یافردا ً فردا ًپڑھ لیں۔ نماز خدا کے دربار میں اس کے بندوں کی طرف سے اظہارِ عبودیت ہے۔اس میں اگر امام سے غلطی ہو رہی ہے اور وہ اس پر متنبہ نہیں ہو رہا، تو اس کا یہ حق ہے کہ اسے متنبہ کیا جائے ۔ اگر ہم اسے متنبہ نہیں کرتے ، تو ہمارا یہ رویہ اس کا حق ادا کرنے سے گریز کرنا ہے اور اگر امام نے اپنا تاثر یہ بنا رکھا ہے کہ لوگ اس کے سامنے اس کی غلطی نکالنے سے خوف کھائیں ۔ تو آپ غور کریں کہ اس امام نے یہ کیا کر رکھا ہے، سوائے اس کے کہ اپنی آخرت تباہ کرنے کا سامان کر رکھا ہے۔

خدا کی اس کائنات میں کوئی شخص اتنا بڑا نہیں کہ اس کے لیے خدا کی بات چھوٹی ہو اور اس کے لیے کوئی شخص اس صورت میں بھی چھوٹا ہو ، جب کہ اس کے پاس خدا کی کوئی ایک بات یا خدا کی شریعت کا کوئی ایک حکم موجود ہے، جو وہ اسے بتانا چاہتا ہے۔ خدا کے دربار میں کیا پیر اور کیا مرید سب برابر ہیں ۔ اس کے سامنے سب بے بس و بے کس ہیں،سب حقیر اور سب ہیچ ہیں۔ آپ نے دورِ نبوی کا یہ واقعہ تو سنا ہو گا کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نماز پڑھاتے ہوئے ، چار رکعت کے بجائے غلطی سے دو پڑھا گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو مفتدیوں میں سے ایک نے کہا کہ آپ نماز میں بھول گئے تھے یا نماز کی رکعتیں ہی کم ہو گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے ان دونوں میں سے کوئی بات نہیں ہوئی۔پھر آپ کو بتایا گیا کہ آپ بھول گئے ہیں۔چنانچہ آپ نے وہ رکعتیں جو رہ گئی تھیں وہ پڑھا دیں۔ صحابہ ؓنے اپنے اس ردیے سے ہمیں یہ درس دیا کہ کوئی شخص اس سے بالا نہیں کہ اس کی غلطی بتائی ہی نہ جائے۔میری رائے ہے کہ آپ کم از کم ایسا ضرور کریں کہ پیر صاحب کو یہ ساری صورت حال لکھ کر دے دیں ،خط میں اپنا نام آپ بے شک ظاہر نہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ پیر صاحب اپنی اصلاح کا بھی کوئی مادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔اگر انہیں اپنی اصلاح سے دلچسپی نظر آئے، تو آپ کا مقصود حاصل ہو گیااور اگر ان کے ہاں اس سے بے نیازی ہو ، تو پھر گویا پیر صاحب نے یہ اشارہ دے دیا کہ دین کے احکام ایسے اہم نہیں کہ ان پر لاگو ہوں۔ایسی صورت میں جو فیصلہ آپ کو کرنا چاہیے میرا خیال ہے کہ وہ آپ پر واضح ہی ہو گا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: معلوم نہیں یہ غلط فہمی کہاں سے پھیل گئی ہے کہ لونڈی غلاموں کا اسلام کے قانون سے کوئی تعلق ہے۔ دنیا میں جو غلاظتیں اُس وقت موجود تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو ایسا نہیں ہوا کہ اسلام نے آکر کہا ہو کہ لونڈیاں غلام بنا لو ۔ ہزاروں کی تعداد میں لونڈیاں غلام پہلے ہی سے موجود تھے ۔ دنیا کی معیشت کا انحصار ہی ان پر تھا۔ جو صورتحال اس وقت بینکاری کے نظام کو حاصل ہے معیشت میں وہی اس وقت لونڈی غلاموں کی تھی ۔ باقاعدہ بازار لگتے تھے ۔لونڈیاں بھی بکتی تھیں اور غلام بھی ۔ ان کے بارے میں دنیا میں ایک بین الاقوامی قانون جاری تھا۔ جس طرح اب بہت سے بین الاقوامی قانون جاری ہیں ۔ یہ صورتحال ہے جس میں نبیﷺنے اصلاح کی ۔جو چیزیں معاشرت میں اس درجے میں داخل ہو چکی ہوں ان پریکدم سے پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کا شعور بیدار کیا جائے ، تعلیم اور تلقین سے اس چیز کی حقیقت ان پر واضح کی جائے اور پھر ایک تدریجی طریقے سے اسے ختم کیا جائے۔ اسلام نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا بلکہ تورات نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ کتابِ استثنا پڑھیے اس کے اندر یہ مسئلہ موجود ہے ۔ اس زمانے کے لحاظ سے اللہ نے قانون دیا کہ چھ سال کے بعد لازمی طور پر غلام یا لونڈی کو رہا کر دیا جائے او راس موقع پر آدمی اپنے دروازے پر کھڑا ہو کر کہے کہ جو تم کو لے جانا ہے ،تم کو حق ہے کہ لے جاؤ۔ قرآن نے بھی یہی کام کیا ایک طرف جنگوں میں لوگوں کو لونڈی غلام بنا لینے کا رواج ختم کیا۔سورہ محمد میں یہ قانون نازل کیا کہ اب اگر کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں یا تو فدیہ دے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے یا احسان کیا جائے۔گویا نئے لوگوں کا داخلہ بند ہو گیا۔دوسری طرف جو لوگ پہلے سے موجود تھے ان کے لیے سورہ نور میں مکاتبت کا قانون بنا دیا کہ وہ اگر اپنے بارے میں یہ بات واضح کر دیں کہ عورتیں قحبہ خانے نہیں کھولیں گی اور مرد بھکاری نہیں بنیں گے تو ن سے مکاتبت کر لی جائے ۔مکاتبت یہ ہے کہ غلام اپنے آقا سے معاہد ہ کر لے کہ میں تمہیں اتنے پیسے کما کر دوں گا تو اس رقم کی ادائیگی کے بعد وہ رہا تصور ہوتا ہے۔اس بارے میں حکم دیا کہ فکاتبوھم۔ یعنی ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ مکاتبت کر کے ان کی آزادی کی راہ کھول دے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے بیت المال کو حکم دیا گیا کہ جو روپیہ تمہارے پاس ہے اگر کسی لونڈی غلام کو پاؤں پر کھڑا ہونے میں دقت ہو رہی ہو تو اس سے ان کی مدد کر دی جائے۔ اس طریقے سے جو موجود تھے ان کے لیے بھی راستہ نکال دیا گیا اور آئندہ بننے کا بھی راستہ بند کر دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ ان کے لیے پہلے سے جاری بین الاقوامی قانون کوچند اصطلاحات کر کے اس وقت تک جاری رہنے دیا ِگیا جب تک کہ یہ معاملہ وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتا۔ اسلام نے اس معاملے میں جو طریقہ اختیار کیا میرے نزدیک ہر مصلح کو وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ آج آپ کے ہاں کون نہیں مانتا کہ جہیز ایک لعنت ہے ، لیکن معاشرے میں آپ اس کو قانون کے ذریعے سے ختم کر سکتے ہیں ؟ اسی طریقے سے بینکاری کا نظام ہے ۔ ساری دنیا کا اس پر اتفاق ہے کہ سود ایک اخلاقی برائی ہے ،ماہرین معیشت بھی مانتے ہیں کہ یہ ایک اخلاقی برائی ہے۔ لیکن کیا آپ یکدم سے بنک بند کر سکتے ہیں کبھی نہیں۔لوگ چیخ اٹھیں گے اور معیشت دھڑام سے گر جائے گی۔یہ معاملہ بھی تد ریج کا متضاضی ہے۔اسلامی معاشرے میں سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ غلاموں کی گردنیں چھڑاؤ۔ جس دین نے اس بات سے اپنی دعوت کی ابتدا کی ہو اس پر اس سے بڑا الزام کیا ہو سکتا ہے کہ اس میں غلامی کی گنجایش رکھی گئی ہے۔ اصولی بات وہی ہے کہ اگر کسی معاشرے کے اندر کوئی چیز اس درجے میں پھیل چکی ہو تو پھر اس کو احمقانہ طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرض جب آپ کوواپس ملے گا تو اس وقت اس پر زکوۃ عائد ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض بجائے خود سوسائٹی کی ایک خدمت ہے ۔ آپ نے اپنے کسی بھائی کو اپنے پاس پڑے ہوئے اگر پیسے دے دیے ہیں تو یہ آپ کا اس کے اوپر احسان ہے۔ آپ اس کو اپنے پیسے استعمال کرنے کے لیے دے رہے ہیں ۔ زکوۃ کی طرح آپ نے معاشرے کی یہ خدمت کر دی ۔جب پیسے واپس آئیں گے تو پھر لازم ہے کہ آپ اس کی زکوۃ ادا کریں ۔ البتہ جو لوگ کاروباری نوعیت کے قرض لیتے ہیں جیسے بنکوں سے لوگ کروڑوں روپے کا قرض لے لیتے ہیں تو جن لوگوں نے قرض لے رکھا ہے اور وہ اس کو استعمال کر رہے ہیں تو وہ قرض کی وجہ سے زکوۃ سے مستثنی نہیں ہوں گے۔ ان کے اوپر اسی طرح زکوۃ عائد ہو گی جس طرح دوسری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ زکوۃ میں مالک بنانے کی شرط کوئی ضروری نہیں ہے ۔یہ مسئلہ اصل میں ایک آیت کا مدعا غلط سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہواہے۔ زکوۃ سے آپ ادارے بھی بنا سکتے ہیں اورنظام بھی۔تملیک کی شرط تو ایسی ہے کہ بقول ہمار ے جلیل القدر استاد کے الفاظ میں کہ اب اگر کسی لاوارث مردے کو کفن دینا ہو تو پہلے اس کو زندہ کر کے مالک بنائیں گے پھر اس کے بعد کفن دیں گے ۔تملیک کوئی چیز نہیں ہے ۔ آپ زکوۃ لوگوں کو دے بھی سکتے ہیں اوران کی بہتری کے کاموں میں بھی صرف کر سکتے ہیں ۔تملیک کی شرط نے حیلے کی بدترین قسم کو ایجاد کرنے پرمجبور کر دیا ہے۔مدارس میں حیلہ یہ کیا جاتا ہے کہ جب آپ زکوۃ کی رقم لیکر جاتے ہیں تو کہتے ہیں لے آئیے اور پھر کسی طالب علم کو اس کا مالک بناتے ہیں اور پھر اس سے اندر خانے وعدہ لے لیتے ہیں کہ تم مدرسے کو اعانت کر دو گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام کا مخاطب سب سے پہلے فرد ہے ۔ مجھے اسلام میں پورا پورا داخل ہونا ہے لہذا مجھے سود سے بچناہے۔ اور یہ بچنا کچھ مشکل نہیں ہے یعنی کوئی طاقت، کوئی قانون مجھے پابند نہیں کرتا کہ میں لوگوں سے سود کھانا شروع کر دوں ۔ رہ گئی یہ بات کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی اس کو ختم کرے۔تو اس کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے ، پورے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اور جب تک یہ نہیں ہوتا تو انفرادی طور پر سود سے بچنا جس حد تک ممکن ہو اس پر سختی سے عمل پیرا رہنا چاہیے۔

 اسلام میں بالواسطہ جرائم میں کسی آدمی کو ماخوذ نہیں کیا جاتا ۔آپ نے کسی کو قرض دیا ہے اور اس پر سود لیا ہے تو آپ مجرم ہیں ۔معاشرے میں رقم کہاں سے آتی ہے اس کے آپ ذمہ دار نہیں ہیں۔ سارا معاشرہ سود کے نظام پر چل رہا ہے یہی پیسہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے اس میں آپ ماخوذ نہیں ،آپ اپنے عمل پر ماخوذ ہیں۔ یہ کوئی قاعدہ نہیں کہ پاکستان کی حکومت نے قرض لیا ہوا ہے اور اس پر وہ سود دے رہی ہے تو آپ بھی مجرم ہو جائیں گے۔بات اس طرح نہیں ہے ، آپ نے کیا کیا ، اس کی بنیاد پر آپ کا مواخذہ ہو گا۔البتہ لوگوں کے دل و دماغ کو درست کرنے کی کوشش کرتے رہیے۔ہر فرد کو اپنے آپ کو پاکیزہ رکھنا ہے اور اپنے ماحول میں دوسروں کے لیے کوشش کرنی ہے بس یہ ہی مطالبہ ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انشورنس بذات خود بری چیز نہیں، یعنی اگر لوگوں کی مدد کا نظام قائم کیا جائے تو اس سے ا چھی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ بہت سے لوگ تھوڑاتھوڑاجمع کریں اور پھر اس کے بعد کوئی قاعدہ ضابطہ بنا کر کسی آدمی پر کوئی افتاد آجائے تو اس کو دے دیں۔ یہ اپنی جگہ پر اعلی چیز ہے ۔ اس وقت اس میں سود کی آلائش ہے یعنی چونکہ پورا سسٹم سود پر چل رہا ہے تو انشورنس بھی اس کی آلائش سے محفوظ نہیں ہے۔آپ اگر محتاط زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو اس سے بچنے کی کوشش کیجیے اور اگر کوئی مجبوری ہے تو اللہ معاف فرمائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کار فنانسنگ کے لیے بنک دونوں طریقے اختیار کررہے ہیں ۔سود کا طریقہ بھی اختیار کیا جا رہا ہے اور بعض بینک اس معاملے میں کرائے کا طریقہ بھی اختیار کرتے ہیں ۔ دونوں کے حکم بھی الگ الگ ہیں اور دونوں کی نوعیت بھی الگ الگ ہے۔ لیکن بہرحال جہاں سود کا معاملہ ہو رہا ہو وہاں سے آپ قرض لے تو سکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض لینے میں آپ سود دیتے ہیں ، سود کھاتے نہیں ہیں اور سود کھانے کو اللہ نے ممنوع قرار دیا ہے ،۔جو لوگ ان کے سٹاف کا حصہ بن کر کام کر رہے ہیں ان کی ملازمت کے بارے میں میں ہمیشہ سے کہتا ہوں کہ ایک ناپسندیدہ چیز ہے اور ایک اچھے مسلمان کو بہرحال اس سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ وہ ایک گناہ میں ان کا معاون بنتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام کہاں ہے ؟ میں کہتا ہوں کہ پوری قوت سے اگر دنیا میں کوئی چیز موجود ہے تو اسلام ہی ہے ۔ اس کے پاس کوئی حکومت نہیں ،اس کے پاس کوئی طاقت نہیں ،وہ دنیا میں سپر پاور نہیں ، اس کے باوجود لاکھوں کروڑوں دلوں پر حکومت کر رہا ہے اور آج بھی لوگ خلوت اور جلوت میں اس کے سامنے سر جھکا تے ہیں ۔ اپنے دل سے پوچھیے کیا اس میں اسلام نہیں تو پھر یہ پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے کہ اسلا م کہاں ہے؟

 

(جاوید احمد غامدی)

ج: عزت نفس ایک بڑی پاکیزہ چیز ہے یعنی آدمی اپنے آپ کو خدا کا بندہ تو سمجھتا ہے لیکن خود کو حقیر مخلوق نہیں سمجھتا ۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے عزت اور وقار کے ساتھ اپنا معاملہ کرنا ہے ۔ عزت اور وقار ایک الگ چیز ہے جبکہ انانیت اور چیز ہے ۔اس کو دوسر ے لفظوں میں تکبر سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے جب یہ پوچھا گیا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اچھا لباس پہنوں ، اچھا جوتا پہنوں تو کیایہ تکبر تونہیں ہے؟ تو آپ نے فرمایا اللہ جمیل ویحب الجمال یعنی اللہ خود بھی خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں ۔یہ کوئی بری چیز نہیں ہے ۔ تکبر اور انانیت یہ ہے کہ آدمی حق کے سامنے اکڑ جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھے۔ ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھیے ، کبھی کسی کو حقیر نہ جانیے اور اگر کسی وقت اقتدار ،دولت یا علم کے زعم میں کوئی غلط بات کر بیٹھیں تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیے اس لیے کہ مظلوم اور اللہ کے مابین کوئی حجاب نہیں ہوتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی کے ریکارڈ آفس کوقرآن لوح محفوظ کہتا ہے۔ یہ پوری سلطنت جو چل رہی ہے تو اس کا نظم و ضبط آخر کہیں سے توکنٹرول ہوتا ہے، اس کو قرآن نے لوح محفوظ سے تعبیر کیا ہے او ر یہ بتایا ہے کہ وہاں ایسا پہرہ لگا دیا گیا ہے کہ کسی کے بس میں نہیں ہے کہ وہاں دراندازی کر سکے ۔یہ محض اطلاع نہیں ہے کہ جو قرآن نے دی ہے بلکہ ایک مسئلے کے ضمن میں اسے بیان کر دیا گیا ہے ۔قریش نے جب یہ کہا کہ قرآن شیطان کا الہام ہے تو قرآن نے وہاں بڑی تفصیل کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ محمد الرسول اللہﷺ کے پاکیزہ قلب پر نازل ہوتا ہے ، جبریل امین جیسا فرشتہ ا سکو لیکر آتا ہے جو‘‘ مطاع ثم امین’’ہے، کسی کی ہمت نہیں ہے کہ دراندازی کر سکے ۔جس وقت یہ قرآن نازل ہو رہاتھا تو اس پورے عرصے کے دوران میں جو بائیس تئیس سال کا عرصہ ہے قرآن نے بتایا ہے کہ آسمان پر پہرے لگا دیے گئے اور جنا ت کو جہاں جہاں پہنچنے کی اجازت تھی وہ اجازت بھی ختم کر دی گئی ہے اور مزید یہ بتایا کہ جبریل اس کو جہاں سے لیتے ہیں وہ اللہ تعالی کا ایک محفوظ ریکارڈ آفس یعنی لوح محفوظ ہے وہاں پر کسی شیطان کی دراندازی کا کوئی امکان ہے ہی نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس پر سائنسی تحقیق کرنی چاہیے یہ کوئی مذہب کا مسئلہ نہیں ہے ۔ میرے علم کی حد تک اب تک توکوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی کہ ایسے کوئی اثرات ہوتے ہیں۔ چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے اثرات سمندروں کے مد و جزر پر ہوتے ہیں تووہ ایک سائنسی طور پر متحقق چیز ہے ۔لیکن حاملہ عورت پر ایسے کوئی اثرات ہوتے ہیں یہ کوئی سائنسی طور پر متحقق چیز نہیں ہے اور نہ ہی یہ مذہب کامسئلہ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جھوٹ کا گنا ہ نہیں ہو گا تو پھر کس چیز کا گنا ہ ہو گا ۔ چیزوں کی سیل کے معاملے میں اگرجھوٹ بولتے ہیں تو یہاں ایک اور جرم بھی شامل ہو جاتا ہے اور وہ ہے فریب۔ یہ دونوں اخلاقی جرائم اور برائیاں ہیں ان سے بچنے کی کوشش کریں اورنہیں ممکن توکوئی اور جاب تلاش کریں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی اگر اذن دیں گے تو آپ کو حق ہو گا کہ آپ اپنا کوئی حق معاف کرسکیں۔ اللہ کے اذن ہی سے ہو سکے گا اگر وہ اذن نہیں دیں گے تو کچھ نہیں ہو سکے گا۔اور اس کا اذان اس کی حکمت اور عدل کے مطابق ہی ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تقوی انسان کے اندر موجود ہے، اس کو پیدا کرنے کی نہیں بلکہ صرف اس کو آواز دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی شخصیت کے اندر دونوں خاصیتیں رکھی ہیں وہ چاہے تو اپنے آپ کو بچا کر بھی رکھ سکتاہے اور چاہے تو اپنی باگ ڈھیلی بھی چھوڑ سکتا ہے۔آپ کے اندر یہ چیز موجود ہے اس کو صرف بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔بیدار کرنے کے لیے چند چیزوں کی ضرورت ہے ۔کائنات کی حقیقت سمجھ لیں،اپنی حقیقت سمجھ لیں ، دنیا کا نظام سمجھ لیں اور اپنے انجام پر غور کر لیں جب اس چیز کا شعور آپ کے اندر پختہ ہو جائے گا تو تقوی بیدار ہونا شروع ہو جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عمر تو متعین نہیں کی جا سکتی ۔ہرایک کو اپنے حالات کے لحاظ سے اس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کوشش کیجیے کہ جلد کر لیں کیونکہ موجودہ زمانے میں عفت اور عصمت کو بچانا بہر حال مشکل امر ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یا رسول اللہ کہنے کے پیچھے محرک ہے کیا ہے یہ دیکھا جائے گا۔ ایک تو یہ ہے کہ محبت کے ساتھ بعض اوقات مخاطبت کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ اے وطن کا ش میں تجھ پر نثار ہو جاتا ۔ماں فوت ہو گئی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ اے ماں ! کا ش تو دیکھتی آج تیرا بیٹا کتنی بڑی کامیابی حاصل کر کے آیا ہے ۔ یہ درحقیقت کوئی خطاب نہیں ہوتا جس میں کوئی بات پہنچانا پیش نظر ہوتا ہے۔ یہ تو اصل میں محبت کا اسلوب ہے جو دنیا کے ہر ادب میں اختیار کیا جاتا ہے ۔اسی اصول پر حالی جیسے شخص نے جس سے بڑا موحد شاعر شاعروں میں شاید ہی کوئی ہو یہ کہا کہ:

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

 امت پہ تیر ی آکے عجب وقت پڑا ہے

اسی اصول پہ اقبال نے کہا :

نگا ہے یا رسول اللہ

اس پر کوئی اعتراض نہیں وارد ہوتا ۔لیکن یہ کہ حاضر و ناضر مان کراور خدا کی طرح ہر بات کو سننے والا مان رہے ہیں تو یہ شرک ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیعت ایک معاہدہ ہے۔ بیعت کوئی دینی یا شرعی چیز نہیں ہے ۔دنیا میں ہمیشہ سے عہد معاہدہ کرنے کا یہ طریقہ رائج رہا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وعدہ کرتے تھے ۔ ہمارے ہاں اب بھی ہاتھ اٹھا کر حلف لیتے ہیں ۔ تو یہ معاہدہ کرنے کے طریقے ہیں۔ یعنی یہ سیکولر چیز ہے اس کا دین یا مذہب سے بطورخاص کوئی تعلق نہیں ہے ۔اصل سوال یہ ہے کہ آپ دوسرے سے کس بات پر وعدہ لے رہے ہیں۔ یعنی جو عہد آپ لیں گے اس کے لحاظ سے بات کی جائے گی کہ یہ بیعت ، معاہدہ کس چیز کاہے۔بیعت اصل نہیں کس امر کے لیے بیعت کر رہے ہیں وہ اصل ہے۔ مثال کے طور پرایک شخص لوگوں سے کہتا ہے کہ میں تم سے عہد لیتا ہوں کہ تم نیک رہو گے ۔یہاں سوال کیا جائے گا کہ کیا یہ عہد لینے کا شریعت نے اسے اختیار دیا ہے۔یہ تو عمومی بات ہے اگر وہ کسی سے عہد لیتا ہے تو خود بھی اس کو بھی وعدہ کرنا چاہیے کہ وہ بھی نیک رہے گا ۔وہ اس مقامِ برتر پرآخر کیوں فائز ہو گیاہے ۔

 رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے اسلام کی بیعت لی تو وہ خدا کے نمائندہ تھے ان کو یہ حق حاصل تھا۔لیکن مجھے، آپ کو تو یہ حق حاصل نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمارے زمانے میں لوگوں نے کہاکہ میرے ساتھ سمع و طاعت کی بیعت کرو تو سمع وطاعت کا حق اللہ نے کس کو دیا ہے ،اللہ کو دیا ہے اطیعو اللہ ، رسول اللہ کو دیا ہے اطیعو ا لرسول ،اور اولی الامر کو دیا ہے ۔اطیعو اللہ و اطیعوالرسول واولی لامر منکم۔ مسلمانوں کا جس کو حکمران بنایا گیا ہے اسکو حق حاصل ہے کہ وہ ہم سے قانون کی پابندی کا عہد لے ۔اس کے علاوہ کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ میری سمع و طاعت کی بیعت کرو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن و سنت میں اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہم قبرستان جاتے ہیں اپنے جذبات کی تسکین کے لیے ، عبرت حاصل کرنے کے لیے اور یہ بات یاد رکھنے کے لیے کہ ہم کو بھی ایک دن یہیں آناہے ۔ مردے سنتے ہیں یا نہیں سنتے ، محسوس کرتے ہیں یا نہیں کرتے ، اس کے جاننے کا کوئی مستند ذر یعہ ہمارے پاس نہیں ہے اس طرح کی کوئی بات نہ قرآن میں کہی گئی ہے اور نہ ہی کسی مستند حدیث میں بیان ہوئی ہے ۔البتہ جب ہم جاتے ہیں تو یہ ہمار ے تعلق کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ قصر نماز سفر کی حالت سے مشروط ہے۔ اگر آپا دھاپی کی کیفیت ہو توقصر پڑھنی چاہیے اگر آپ اطمینان سے ٹھہرے ہوئے ہیں او رکوئی مسئلہ نہیں ہے توپوری نماز پڑھیں۔ لیکن احناف کی عمومی رائے یہی ہے کہ مجرد سفر قصر کا باعث بن جاتا ہے ۔اگر آپ اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں تو اس کے لیے 15 دن کی مدت مقرر کر رکھی ہے آپ قصر کر سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن ایک انذار کی کتاب ہے یعنی قرآن خبردار کرتا ہے ، متنبہ کرتا ہے اور بیدار کرتا ہے ۔ عربی زبان کا یہ اسلوب ہے کہ جب آپ ایک بات کی طرف بطور خاص متوجہ کرنا چاہتے ہوں تو اس طرح سے کہتے ہیں یعنی آپ کو معلوم ہوا کہ یہ کیا چیز ہے؟ آپ نے جانا کیا چیز ہے ؟آپ نے غور کیا،کیا چیز ہے؟ ہم اردو میں بھی یہ اسلوب استعمال کر تے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سفر یا بیماری میں آپ نے روزہ نہیں رکھا تو سفر کے ختم ہونے کے بعد اور اسی طرح بیماری سے شفا کے بعد روزہ رکھیں۔لیکن ا گر ایسی صورت ہے کہ سفر میں ہی رہنا ہے اور یا بیماری کے جانے کا امکان ہی نہیں ہے ، تو فدیہ دے دیجیے۔ایک مسکین کا کھانا ایک روزے کے بدلے میں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام میں پہننے کے لیے اگر کوئی لباس خاص کیا گیا ہے تو وہ حیا کا لباس ہے ۔ یہ لباس اگرموجود ہے تو پتلون اور شلوار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اسلام کا لباس اصل میں حیا کا لباس ہے ہے اس کی تلقین کرنی چاہیے اور اسی کے لیے لوگوں کو بتانا چاہیے آج کل صورتحال یہ ہے کہ یہ لباس تو اترتا جارہاہے اور لوگ پتلون ، شلوار اور پاجامے پر لڑ رہے ہیں ۔اسلام نے ان معاملات میں لوگوں کو کسی چیز کا پابند نہیں کیا ۔ آپ جس ملک میں ہیں ، جہاں رہتے ہیں ، جو حالات ہیں ، جو لباس چاہے پہنیں لیکن خدا کے لیے حیا کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے۔ شیطان اصلاً انسان پر دو ہی راستوں سے حملہ کرتا ہے ایک تو حیا ختم کر نے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرے وہ انانیت کے جذبے کو ابھارتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کے سوال کا قرآن نے نہایت واضح اور غیر مبہم جواب دے دیا ہے کہ جو اللہ سے محبت کرنا چاہتا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ اس سے محبت کرے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرا رحجان یہ ہے کہ یہ استعارے کے رنگ میں دنیا کی زندگی کی تعبیر ہے ۔یعنی جو کچھ اس دنیا میں ہمیں مادی طور پر پیش آتا ہے وہ قیامت میں روحانی طریقے سے ہمارے سامنے آجائے گا۔ دنیا کی زندگی پر اگر آپ غور کریں تو یہ پل صراط ہی تو ہے۔شریعت پرعمل بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے ۔میرے خیال میں یہ اسی کی تعبیر اور استعارہ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسلمان لڑکیوں کے لیے کسی بھی غیر مسلم سے شادی کی گنجائش نہیں ۔حقیقی مسلمان اس بات سے کبھی غافل نہیں ہو سکتا کہ اسکی اگلی نسلوں کا کیا ہو گا۔ہندو کو شوہر کی حیثیت سے قبول کرنے کا مطلب گھر میں شرک کو لانا ہے، مورتیوں کولانا ہے ۔ایک مسلمان کے لیے شرک سے بڑا گنا ہ کوئی نہیں تو ایک مسلمان لڑکی اپنے گھر میں کس طرح یہ گواراکرے گی؟اور پھر اولاد کامسئلہ ہے وہ کیا بنے گی؟ کیا مسلمان لڑکی انہیں مشرک دیکھنا گواراکرے گی؟میرے خیال میں یہ قانون سے زیادہ دل کا سوال ہے ۔ آپ شادی کر رہی ہیں کوئی پکنک منانے نہیں جا رہیں۔شادی تو عمر بھر کا فیصلہ ہوتا ہے ہزار با ر سوچنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جہاد شمشیر سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح تعلیم ، معاش اور دعوت کے میدان میں بھی۔ ہر چیز کا ایک موقع ہوتاہے۔ میرے خیال میں تعلیم کے میدان میں جہاد اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ معیشت کے میدان میں جہاد بھی اصل میں اس کے بعد ہی کامیاب ہو گا ۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں سے زیادہ جاہل قوم کوئی نہیں ہے ، مذہبی لحاظ سے بھی اور دنیوی علوم کے لحاظ سے بھی ۔ اس جہالت کو پہلے دور کرنا چاہیے۔یہ دور ہونے سے معاشی میدان میں بھی جہاد شروع ہو جائے گا ۔باقی رہ گئی یہ بات کہ آپ تلوار کب ہاتھ میں اٹھائیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے تو یہ دیکھیں کہ کس کے خلاف اٹھارہے ہیں۔ اللہ نے آپ کو صرف ظلم کے خلاف شمشیر اٹھانے کی اجازت دی ہے اور کسی چیز کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں۔ اور پھر یہ دیکھیں کہ آپ جس ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے جارہے ہیں اس کے لیے مطلوبہ ہمت اور طاقت بھی ہے ؟پہلے خود کو اس قابل کرنابھی ضروری ہے ۔ مسلمانوں کے مستقبل کا انحصار تعلیمی ترقی پر ہے۔ ان کی لیڈر شپ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اگر اس جگہ کھڑی ہو جائے کہ اب ہمیں مسلمانوں کو Educate کرنا ہے ،تو میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ نصف صدی بعد آپ کا اقتدار ہو گا لیکن اس سے پہلے کچھ نہیں ہوسکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فرشتوں کے ساتھ تو کوئی رابطہ نہیں کیا جاسکتا البتہ ان کو خود کوئی رابطہ کرنا ہو تو کر لیتے ہیں اور پوچھ کے نہیں کرتے۔ جنوں کے ساتھ لوگ رابطہ کرنے کے دعوے کرتے رہتے ہیں ۔ اس کے کسی ماہر سے مل لیجیے۔اگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم رابطہ کر لیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ جھوٹ بولتے ہوں لیکن امکان کی بہر حال نفی نہیں کی جا سکتی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل اسی طرح، جیسے اب لوگ انکار کر تے ہیں۔اللہ نے پانچ نمازوں کی صورت میں دن میں کتنی بار سجدے کا حکم دے رکھا ہے۔ بہت سے کر لیتے ہیں اور بہت سے انکار کر دیتے ہیں ۔(اگرچہ عملی انکار سہی انکار تو ہے)۔ ابلیس ہو یا انسان دونوں کو اللہ نے اختیار دے رکھا ہے۔ابلیس نے بھی ویسے ہی اختیار کا استعما ل کیا جیسے ہم کرتے ہیں ۔ غلط بھی کرتے ہیں اور صحیح بھی کرتے ہیں ۔ کتنے لوگ ہیں جن کو آپ کہیے کہ آئیے ذرا اللہ تعالی کے آگے سر جھکا دیں ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی اور آپ اگر زیادہ کہیں گے تو ہو سکتا ہے کہ سرکشی کے ساتھ کہہ دیں کہ نماز میں کیا رکھا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں گے کہ اصل میں تو حقوق العباد ادا کرنے چاہییں۔سجد ہ کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے اللہ کوکوئی سجدوں کی حاجت ہے؟ جبکہ یہی لوگ اپنے باس کے حضور بڑے ادب سے سرجھکا کر کھڑے ہونگے ۔ یہ ہے انسان کی بدقسمتی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کو جب بھی کسی جگہ جاب کرنی پڑے یا باہر جانا پڑے تو بناؤ سنگھا رکے معاملے میں بہت محتاط رہیں۔ باہر سادگی سے جائیں اور یہ بھی کوشش کریں کہ مردوں کے ساتھ خلوت میں بیٹھنا نہ ہو۔ باقی ضرورتاً ایک مجلس میں بیٹھ کر کھا پی لینا ممنوع نہیں ۔البتہ خلوت میں بیٹھنا اور زیب و زینت کو نمایاں کرنے کی کوشش کرناغلط ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ نے بڑا صحیح لفظ استعمال کیاکہ یہ کہانی ہے ۔ کہانی کو کبھی مذہب میں داخل نہیں کرنا چاہیے ۔مذہب تو سچی باتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وسیلے سے دعا مانگنے کا بھی کوئی تصور اسلام میں موجود نہیں۔جو کچھ مانگنا ہے اللہ سے براہ راست مانگیے۔ اسکے دربارمیں کوئی وسیلہ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے اور کسی کا یارا بھی نہیں ہے کہ اسکے دربار میں وسیلہ بن سکے

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ اپنے لیے ایک تلوار فراہم کر رہی ہیں۔تلوار کے اوپر چلیں گی تو پاؤں توزخمی ہو ں گے۔ پاکیزگی برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں اپنے آپ کواس خطرے میں مت ڈالیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے معاشرے میں اس طرح کی چیزیں ہمیشہ سے موجود ہیں اور شاید یہ ہمیشہ رہیں گی کیونکہ انسان مذہب کے معاملے میں بہت تساہل پسند واقع ہو اہے اور ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتا ہے ۔جب کہ حقیقی مذہب مشکل ہوتا ہے۔جب بھی کسی کے سامنے حقیقی مذہب پیش کیا جائے تو وہ زیادہ متوجہ نہیں ہوتا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح مذہب کم ہی مقبول ہوتا ہے البتہ اس میں آمیزش کردی جائے تو لاکھوں کے اجتماع کیے جا سکتے ہیں۔ دین میں دنیا کی آمیزش انسان کو لالچ کی وجہ سے متوجہ کر تی ہے ۔آپ خواتین کو بلائیے ان کو کہیے بی بی دیکھو تم کو ایک دن آخرت میں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اس جواب دہی کے لیے کچھ اخلاقی رویے اپنانے کی ضرورت ہے ، اپنے اوپر کچھ قدغنیں لگانا ضروری ہیں ، اپنے گردو پیش کے ماحول کے اندر حق کی سچی گواہ بن کر رہنا ضروری ہے ، غیبت سے ،چغلی سے، حسد سے ، تکبر سے اور اس طرح کی چیزوں سے پرہیز کرنا ضروری ہے آرائش و زیبائش میں حدود سے تجاوز کرنا غلط ہے ۔تو یہ باتیں بہت رغبت سے نہیں سنی جائیں گی بلکہ اگلی بار خواتین آنے کو بھی تیار نہیں ہوں گی حالانکہ یہ سب باتیں عین دین ہیں اور ان پر سب کا اتفاق ہے ۔ البتہ اگر آپ یہ کہیں کہ بی بی اگر تم روزانہ سورہ یسین پڑھو گی تو شوہر بالکل تمہارا تابع فرمان رہے گا ۔اب دیکھیں دو منٹ میں چہرہ کھل جائے گااور خواتین کہیں گی یہ ہوئی نا دین کی بات۔ یہ چیزیں ایسے ہی رہیں گی ۔ایک سچے مسلمان کو ایسی باتوں میں یہ رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ وہ کسی غلط کام میں شریک تو نہ ہو لیکن اپنے بھائیوں کو محبت سے توجہ دلاتا رہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میری تحقیق یہ ہے کہ یہ شکرانے کی قربانی ہے کوئی کرنا چاہے تو ضرورکرے ۔نفل عبادت ہے اور نفل نماز اور نفل روزے کی طرح ،یہ بھی جو چاہے کر سکتا ہے۔ اولاد کی پیدائش کا شکر ہے جس کا اظہار ہم قربانی جیسی عبادت کے ذریعے سے کرتے ہیں۔یہ کوئی الگ سے عباد ت نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ ایصال ثواب کرنا جائز ہے اور پہنچتا ہے۔اگر ہو تو وہ حدیث مجھے بھی بتائیے ۔حضور کی حدیث تو یہ ہے کہ جب کوئی خدا کا بندہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتاہے۔صرف تین چیزیں جاتی ہیں۔ اور وہ تین چیزیں یہ ہیں کہ اس نے اپنے پیچھے کوئی علم یا عمل کی روایت چھوڑی جس سے لوگ نفع پار ہے ہوں اس کا اجر اس کو ملتا رہے گا ۔ عمل کی کوئی روایت چھوڑی اسکو صدقہ جاریہ کہتے ہیں تو اس کا اجر اس کو ملتا رہے گا ۔ اس نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی وہ اسکے لیے دعائیں کرے گی تو اولاد کاعمل نافع ہو گا اس کے لیے ۔اور اولاد کے عمل کا نافع ہونا خود قرآن میں بھی بیان ہوا ہے ۔اولاد نماز پڑھتی ہے تو وہ نافع ہے ، روزہ رکھتی ہے وہ بھی نافع ہے ، اولاد حج کرتی ہے وہ بھی نافع ہے ۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہ قرآن پڑھ پڑھ کے مردوں کی بخشش کروائی جا سکتی ہے ،یہ بات نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے نہ حدیث میں ۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ امام شافعی کے سامنے جب اس طرح کا واقعہ ہواتو انہوں نے اس پر نہایت سخت تبصرہ کیا اور جب کسی نے سمجھانے کی کوشش کی کہ آخر نیکی ہی کا کام ہے تو انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نیکی کاایسا کام اللہ کے رسول اور صحابہ چھوڑ کے نہیں گئے کہ جو انہوں نے تو نہ کیا ہو اور تم کرنے جا رہے ہو۔ دین میں وہی کام کرنے چاہیےں جو کام پیغمبر اوران کے صحابہ نے کیے ہیں ۔ان حضرات کا عمل ایصال ثواب کے تصور سے خالی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلامی سوسائٹی لیڈر شپ سے بانجھ نہیں ہوئی ، اللہ تعالی اعلی درجے کے لوگ ہر دور میں پیدا کرتے ہیں اور ان کا ایک پورا توازن قائم رکھتے ہیں اس کا فیصلہ اس پر ہوتا ہے کہ کسی سوسائٹی میں اعلی لوگوں کی قدرومنزلت کے کیا جذبات ہیں ۔اس وقت تو عمر بن عبدالعزیز کو اڑھائی سال مل گئے تھے اب تو لوگ دس دن بھی حکومت نہیں کرنے دیں گے ۔ اللہ تو اعلی درجے کے لوگ پیدا کرتا رہتا ہے ۔مگر یہ اعلی درجے کے لوگ پروپیگنڈہ نہیں کرتے۔بس اپنا کام کرتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ایک اجتہادی مسلہ ہے یعنی یہ فیصلہ ہم کو کرنا ہے ، معقول فیصلہ یہ ہے کہ امام پڑھ رہا ہو بلند آواز سے تو سنیے اگر خاموش ہو تو پڑھیے ، جو کام ہم کو کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ حروف مقطعات جہاں ہیں وہیں ان کوہونا چاہیے۔ وہ الگ سے کوئی وظیفہ،اور کوئی ورد نہیں ہیں۔اور نہ ہی وہ اس مقصد کے لیے نازل ہوئے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حق و باطل کی جو کشمکش رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے عرب میں برپا ہوئی اس میں ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ جس میں اولاد کا رویہ بالکل اور تھا اور بیویوں کا بالکل اور ۔ وہ نہ صرف دشمنی پر ادھار کھائے بیٹھی تھیں بلکہ اپنے شرک پر اصرار بھی کر رہی تھیں۔ اس پس منظر میں اللہ تعالی نے کچھ ہدایات دی ہیں ۔یہ جوفرمایا کہ مال اور اولاد فتنہ اور آزمائش ہیں تو یہ بطور مقدمہ ہے اور بڑی بے نظیر بات ہے۔ضروری ہے کہ انسان ہمیشہ اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اللہ نے یہ دنیافرحت اور آسائش کے اصول پر نہیں بنائی بلکہ آزمائش کے اصول پر بنائی ہے ۔اصولی بات یہ ہے کہ انسان اپنی اولاداور اپنی بیویوں کو آزمائش سمجھے۔جب انسان آزمائش سمجھے گا تو اس کا رویہ بالکل دوسرا ہو جائے گا ۔پھروہ ہٹ دھرمی نہیں کرے گا ،ضد نہیں کرے گا۔ بلکہ خدا کا امتحان سمجھ کر اس کے سامنے سر جھکانے کی پوری کوشش کرے گا۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں حق و باطل کی جو کشمکش برپا ہو گئی تھی اس کشمکش میں ان عورتوں کا مشرکین سے رشتہ داری کا تعلق تھا یعنی وہ ان کی بیٹیاں اور بہنیں تھیں ۔اس پس منظر میں مسلمانوں سے یہ کہا گیا کہ کیونکہ یہ دشمنوں کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں اور بیوی بچے ہونے کی وجہ سے تمہارے ساتھ بھی تو تم اپنے ایمان کے معاملے میں محتاط رہنا۔ یعنی ایمان کے معاملے میں احتیاط سے کام لیناہے البتہ ان سے دشمنی نہیں بلکہ عفوو درگزر سے کام لینا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سیدّنا ابراہیمؑ کا یہ استفسار قرآن میں نقل ہوا ہے کہ کسی موقع پر انہوں نے پروردگار کی خدمت میں عرض کیا کہ بعث بعد الموت کے بارے میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ہو گا۔ اللہ نے ان سے پوچھاکہ آپ ایمان نہیں رکھتے ۔علم و عقل کی بنیاد پر تو ان کا ایمان تھاہی ، انہوں نے کہا کہ ایمان میں تو کوئی ترددنہیں ہے بس مشاہدے سے جو قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے اس کی خواہش ہے ۔ یہ سار ا واقعہ جس سیاق و سباق میں آیا ہے وہاں یہ زیر بحث ہے کہ اللہ حق کے سچے طالبوں کے لیے کیسے راہیں کھولتا ہے۔ یعنی آدمی اگر حق کا سچا طالب ہو تو اللہ اس کی مدد کیسے کرتے ہیں اور اگر اس کے سوالات کے پیچھے سرکشی ہو تو پھر اللہ اس کوکس مقام پر پہنچاتے ہیں ۔ سورہ بقرہ شروع سے لے کر اس مقام تک بنیادی طور پر یہ بتا رہی ہے کہ گمراہی اور ہدایت ان دونوں کوپانے کے لیے انسان کو کیا کرنا ہے۔یعنی اس بات کا قانون بیان کر رہی ہے۔اس موضوع کے خاتمے پر یہ بات آئی ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ نے جب اطمینان قلب کے لیے سوال کیا تو اس میں تردد ، سرکشی ، گریزکچھ بھی نہیں تھا۔ اس صورت حال میں اللہ نے انہیں کیسے مطمئن کیا اور جب یہی معاملہ سرکش لوگوں کے ساتھ پیش آیا جیسے نمرود تو اللہ نے وہاں کیا معاملہ کیا ۔ حق کے سچے طالب کو اللہ کیسے مطمئن کرتے ہیں اور جو آدمی حق کا سچا طالب نہ ہو بلکہ ہٹ دھرمی،ضد اور سرکشی پر کھڑا ہو تو اس کے ساتھ اللہ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ اس سارے پس منظرمیں یہ بیان ہوا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دی کہ قیامت میں لوگ پورے شعور کے ساتھ آئیں گے جس طرح کہ پرندے کہ وہ پہلے سے مانوس تھے تو دوبارہ زندگی پانے پر وہ اپنے پہلے شعور کے ساتھ آئے ۔اسی طرح انسان بھی پورے شعور کے ساتھ زندہ ہونگے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شادی بیاہ کے بار ے میں اسلامی قانون یہ ہے کہ شادی اصل میں لڑکے اور لڑکی کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ ایک مرد و عورت جب ہوش و حوا س میں یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو ماں باپ اس فیصلے کو باطل نہیں کر سکتے ۔اسلام نے اس کے لیے کوئی خاص رسوم بھی مقرر نہیں کیں۔ ایک لڑکا اور لڑکی اگر کھڑے ہو کر اعلانیہ یہ کہہ دیں کہ آج سے ہم میاں بیوی ہیں تو اس فیصلے کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔ شادی کے موقعے پر قبول کون کرتا ہے والد صاحب یا لڑکا؟یہ ڈرامہ نہیں ہوتا بلکہ اس قانونی فیصلے کا اظہار ہوتا ہے کہ قبولیت کا اختیار خدا نے کس کو دیا ہے ۔ اصلاً تو یہ اختیار لڑکے اور لڑکی کا ہے ،اصولی اور قانونی بات یہی ہے ۔اس میں کسی کو رکا وٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔البتہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہماری ایک معاشر ت اور ایک تہذیب ہے۔ اس میں ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ چونکہ ایک نیا خاندان بننا ہے لہذااس میں ماں باپ، بہن بھائی اور دوسرے قریبی اعزاواقربا بھی شریک ہوں۔ان کی شرکت ہی سے اصل میں حسن پیدا ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخر آپ لڑکی کو بیاہ کر لائیں گے تو کہاں لے جائیں گے ۔ مریخ پر تو نہیں رکھیں گے ۔ اس نے ایک خاندان کا حصہ بننا ہے ، جب خاندان کا حصہ بننا ہے تو کوشش ہونی چاہیے کہ خاندان راضی ہو کم از کم والدین ۔ خوشی کے ساتھ یہ تقریب منعقد ہو ۔اس کے بغیر معاشرت کا حسن ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ ایک قانونی اختیار ہے ایک دینی اختیار ہے اور ایک چیز ہماری معاشرت کی خوبی ہے ۔اس خوبی کو بھی برقرا ر رہنا چاہیے۔ اس کے لیے آپ احسن طریقے سے پورے گھر کو قائل کریں۔والدین بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کریں اور احسن طریقے سے رشتے کی خامی خوبی بچوں پرواضح کریں اس کے بعد فیصلہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیں۔دوسری طرف اولاد کو بھی چاہیے کہ قرآن وسنت میں والدین کی رضا اوراطاعت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے مدنظر رکھے اگر طرفین یہ چیزیں مد نظر رکھیں گے تو میرے خیال میں توازن خود بخود قائم ہو جائے گا کسی کو بھی انا کامسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز کے دو حصے ہیں ، ایک حصہ وہ ہے جس کو امت کے لیے جاری کر دیا گیا ہے جس میں نہ کوئی اختلاف کیا جاسکتا ہے اور نہ ہے ۔ اس میں کچھ اعمال ہیں اور کچھ اذکار ہیں ۔اعمال یہ ہیں کہ آپ رفع یدین کے ساتھ نماز شروع کریں گے۔ قیام کریں گے ، رکوع میں جائیں گے ، قومے کے لیے اٹھیں گے ، دو سجدے کریں گے ، دو رکعتوں کے بعد اور آخری رکعت میں قعدے میں بیٹھیں گے ۔سلام پھیر کر نماز ختم کر دیں گے ۔یہ اعمال ہیں جو جاری کیے گئے ہیں ۔اور اذکار جوجاری کیے گئے ہیں و ہ یہ ہیں کہ خفض و رفع پر اللہ اکبر کہیں گے ۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ کہیں گے اوراٹھنے پر سمع اللہ ہ لمن حمدہ کہیں گے اور نماز ختم کرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہیں گے ۔ سورہ فاتحہ پڑھیں گے اس کے بعد قرآن ملائیں گے یہ اذکار ہیں جو جاری کر دیے گئے ہیں ۔ یہ نماز وہ نماز ہے جس میں کبھی پوری امت میں اختلاف نہ ہوا ہے ، نہ ہے ۔اور اس نماز کو جو آدمی پڑھتا ہے وہ نماز کا حق ادا کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد نماز کا اختیاری حصہ ہے جس میں حضور نے ہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ اس عبادت کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے بہت سے کا م کیے جا سکتے ہیں ۔آپ دعائیں کر سکتے ہیں ۔ جو دعائیں بھی اللہ آپ کو توفیق دے ۔ آپ رکوع اور سجدے میں تسبیحات کر سکتے ہیں اوردعائیں بھی کر سکتے ہیں۔ آپ انہیں دونوں مقامات پر اللہ کے سامنے گڑ گڑا کر جو کہنا چاہتے ہیں کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ قعدے میں دعائیں کر سکتے ہیں ۔جو جی چاہے آپ دعا کر سکتے ہیں ، اس میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔تسبیح اور تحمید جس موقع پر چاہیں کر سکتے ہیں۔ اسی طرح قیام میں سورہ فاتحہ اور قرآن ملانے کے بعد دعا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔ آپ قومے میں دعا کر سکتے ہیں ، دو سجدوں کے درمیان دعا کر سکتے ہیں ۔یہ اختیاری حصہ ہے ۔لیکن جو نماز آپ کے لیے لازم ہے اس کے جو اعمال و اذکار ہر حال میں ادا کرنے ہیں وہ میں نے آپ کو بتا دیے ہیں ۔ ہمارے ہاں نماز کے بارے میں جو بحثیں ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اختیاری اور لازمی حصے میں فرق نہیں سمجھا گیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلے تو چیلنج کی نوعیت سمجھ لیجیے کہ کیا ہے ۔ مسئلہ اصل میں یہاں سے پید ا ہوا کہ قریش میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کا ایک شخص ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ خود ہی گھڑ کر یہ کلام پیش کر دیتے ہیں۔ تو قرآن مجید نے کہا کہ نہ ہی یہ شاعر ہے اور نہ ہی ادیب ۔ کہیں مشق سخن نہیں کی ، ایک عام انسان کی مانند زندگی بسرکی۔ اگر یہ بغیر کسی تیاری اور بغیر کسی پس منظر اوربغیر کسی استاد کی اصلاح کے ایسا اعلی کلام پیش کرسکتے ہیں توتم بھی اٹھو ،پیش کر دو۔ اگر اتنا ہی آسان کا م ہے توکرو لیکن تم نہیں کر سکو گے۔جس چیز کو قرآن نے اپنے لیے بڑی عظمت کی چیز قرار دیا ہے وہ قرآن مجید کی شان کلام ہے ۔ قرآن اپنے اسلوب ،اپنے ادب اور اپنی بات کے لحاظ سے ایک شاہانہ کلام ہے ۔اس لحاظ سے یہ بے مثل اور بے نظیر ہے۔ قرآن صدیوں سے دنیا میں موجود ہے اور جرمن، فرنچ، انگریزی اور عربی لکھنے والے بھی موجود ہیں۔ لیکن کوئی کلام پیش نہیں کیا جا سکا اگر کسی میں ہمت ہے تو کر دے ۔ جولوگ عام طور پر اس طرح کا دعوی کرتے ہیں وہ قرآن کی نقل کی کوشش کرتے ھیں نہ کہ قرآن کی مثل لانے کی۔اور جب نقل کی توگویا مان لیا کہ قرآن اصل ہے ۔نقل تیار کرنا اس کا مثل پیش کرنا نہیں ہوتا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے سرنڈر کر دیا اس کے سامنے یعنی آپ کے نزدیک بھی برتر اور اعلی ترین چیز یہی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مومن کا مطلب یہ ہے کہ جو ہدایت پانے اورماننے کے لیے تیار ہو۔سر کش، ہٹ دھر م نہ ہو۔ حق کا سچا طالب ہو علم و عقل سے بات سمجھ میں آجائے تو اس کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہو۔ یہ بندہ مومن ہے ایسا آدمی کو اللہ ہدایت دے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مفسر بننا یا دین کا عالم بننا باعث اجر نہیں بلکہ باعث اجر یہ ہے کہ جس میدان کا آپ نے انتخاب کیا ہے اس میں آپ کارویہ کیا ہے؟ آپ نے کس حد تک اس کا حق ادا کیا ہے اور اس میدان میں کس حد تک اللہ کے احکام کے آگے سر نگوں کیا ہے اور اس کو کس حد تک مخلوق خداکی خدمت کے لیے استعمال کیا ہے اور کس حدتک اس کے غلط استعمال سے پرہیز کیا ہے۔ قیامت کا فیصلہ اس پر ہو گا۔ کسی انسان کوخدا نے سائنس دان بننے کی صلاحیت دی کسی کو شاعر اور ادیب بننے کی ۔تو اسی کے لحاظ سے معاملہ ہو گا۔ عالم بننا تو بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔اسی نسبت سے اتناہی بڑا امتحان ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ قیامت میں ایک ریڑھی لگانے والا یا ایک پھل بیچنے والا پیچھے رہ جائے گا اورمفسر محدث یاعالم آگے نکل جائے گا۔ ہو سکتاہے کہ یہ لوگ قیامت میں بڑے بڑے مفسرین سے آگے کھڑے ہوں۔ جتنا زیادہ علم ہو گا اسی لحاظ سے پرسش بھی زیادہ ہو گی

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایمان کی کمزوری سے زیاد ہ یہ نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے ۔تہجد میں اٹھ جانا اس بات کی علامت ہے کہ انسان کاایمان کمزور نہیں ھے ۔ خواتین چونکہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں تو بعض اوقات اکیلے میں خوف آ سکتا ہے ۔اس کا ایمان کی کمزوری سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔انسان ایک کمزور مخلوق ہے اور ایک کمزور مخلوق کی حیثیت سے ایسی بہت سی صورتیں اس کو پیش آجاتی ہیں ۔اس میں گھبرانا نہیں چاہیے ۔ کچھ دیر تک جب آپ اٹھتی رہیں گی تو مانوس ہو جائیں گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبی ﷺ نے اس کو پسند نہیں کیا کہ لوگ قبریں پکی بنائیں۔نبی ﷺکی وفات حضرت عائشہ کے حجرہ میں ہوئی اور وہیں آپ کو دفن کر دیا گیا۔ عمارت وہاں پہلے سے بنی ہوئی تھی ۔ایسا نہیں ہواکہ بعد میں عمارت بنائی گئی البتہ وہ عمارت انقلابِ زمانہ کے ساتھ کمزور ہونا شروع ہوئی تو پھر دوبارہ کھڑی کر دی گئی۔ موجودہ گنبد والی عمارت ترکوں کے زمانے میں تعمیر ہوئی ۔یوں نہیں ہوا کہ باقاعدہ سے کوئی مزار بنایا گیا ہو۔ بلکہ ایک عمارت جو پہلے سے موجود تھی اس کو برقرار رکھا گیاہے ۔تو اس وجہ سے اس سے کوئی دلیل نہیں لائی جا سکتی۔، عمومی حکم وہی ہے کہ قبروں کو کچا رکھا جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس سے پہلے فرشتے جنات کے کرتوت دیکھ چکے تھے ہو سکتا ہے اس سے انہیں انسان کے بارے میں بھی یہی اندیشہ ہوا ہو۔جنات نے(قرآن میں) اپنے بارے میں جو بیان دیا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے ہاں خیر و شر کا شعور بھی ہے اور حق و باطل کی کشمکش بھی ان کے ہاں نیک بھی ہیں اور ان کے ہاں حق سے انکار کرنے والے بھی ہیں۔ ان کے ہاں سرکش بھی ہیں اوراطاعت گزار بھی۔یعنی جیسی صورت ہمیں درپیش ہے ویسی ہی انہیں درپیش ہے ۔سورہ رحمان میں قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے لیے بھی جنت ہے اور جہنم بھی ۔ گویا وہ بھی امتحان میں ڈالے گئے ہیں اور ایک دوسر ے مقام پر واضح کر دیا کہ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے ہیں اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ہیں۔اس وجہ سے فرشتوں کو اندیشہ ہواکہ یا اللہ آپ جنات کو جانتے ہیں ان کے پاس اختیار ہے، جس طرح وہ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں اس طرح انسان کے بارے میں بھی احتمال ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طرح کے لوگ ہیں ایک وہ ہیں کہ جن کا معاملہ حق پرستی کے معاملے میں بالکل واضح ہے انہوں نے حق کو اختیارکیا ، اس کے تقاضے پورے کیے اور دین میں سبقت کے ساتھ زندگی بسر کی جیسے انبیا ہیں صالحین ہیں تو ان کے لیے دنیا سے رخصت ہونے کے فورا ًبعد اللہ کی نعمتیں شروع ہو جاتی ہیں وہ اگرچہ اس جسمانی وجود کے ساتھ تو نہیں ہوتیں لیکن ہوتی ضرور ہیں۔ قرآن نے کہا ہے کہ ایک طرح کی برزخی زندگی ہوتی ہے جس کا تم شعور نہیں رکھتے ۔اس میں اللہ ان کو رزق دیتا ہے، نعمتیں دیتا ہے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے ان کی سرکشی واضح ہوتی ہے ۔وہ خدا کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں جیسے فرعون ہے ابوجہل ہے تو ان کے لیے موت کے ساتھ ہی اللہ تعالی کا عذاب شروع ہو جاتا ہے ۔جس طرح فرعون کے بارے میں قرآن میں کہاگیا کہ اسے صبح شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد درمیانی لوگ ہیں اور ظاہر ہے کہ انہی کی بڑی تعداد ہے تو ان کے بارے میں قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتاہے اور یہ آیت بھی جس کا آپ نے حوالہ دیا انہی آیات میں سے ہے کہ وہ سب سلا دیے جاتے ہیں ، قیامت میں اٹھیں گے اور پھر ان کا مقدمہ پیش ہو گا ، پھر اس مقدمے کے لحاظ سے ان کا اعمال نامہ سامنے آئے گا ۔ اس کے بعد اتمام حجت کیا جائے گا کہ جو کچھ بھی فیصلہ کیا جارہا ہے وہ بالکل مبنی برحق ہے تب ان کے بارے میں فیصلہ ہو گا تو اس میں کوئی تضاد نہیں ہے تینوں چیزیں اپنی جگہ الگ الگ ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ دنیا امتحان کے لیے بنی ہے اور اس میں اللہ نے انسان کو یہ مہلت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ حق پرستی اختیار کرتا ہے یا سرکش ہو جاتا ہے ۔ قرآن نے ذوالقرنین کے واقعے میں اس بات کو بیان کیا ہے ۔ اس کی غیر معمولی بادشاہی اور فتوحات کا نقشہ کھینچا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ہم نے اس کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ چاہے تو لوگوں کو عذاب میں مبتلا کرے چاہے ان کے لیے کرم کا باعث بن جائے۔ یعنی اللہ نے انسان کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ اپنی طاقت اور برتری کا استعمال جیسے چاہے کرے ۔ وہ انسانوں کے لیے کرم کا باعث بنتا ہے یا ان کوعذاب میں مبتلا کرتا ہے۔دونو ں راستے موجود ہیں۔ انسان کو انفرادی یا اجتماعی سطح پر جب قوت حاصل ہوتی ہے تو وہ عموماً سرکشی ، ظلم اور ناانصافی کارویہ اختیار کرتاہے۔مال و دولت اور قوت کی عمومی نفسیات یہی ہوتی ہے کہ وہ اخلاقی حدود سے بالاتر ہوجاتے ہیں۔محض اللہ کے کرم اور توفیق ہی سے انسان مال و دولت اور قوت کے ہوتے ہوئے بھی ظلم سے بچ سکتا ہے۔ انسان معصوموں پر ظلم بھی کرتاہو تو تب بھی اللہ اپنی سکیم کے تحت ہونے دیتا ہے ۔ دنیا کی سکیم کو سمجھنا چاہے کہ یہ امتحان کی جگہ ہے یہ دنیا انصاف کے اصول پر نہیں بنی بلکہ امتحان کے اصول پر بنی ہے اور آخرت میں ہر چیز کا ازالہ ہوگا۔ اگر اللہ بچوں پر بڑوں کے اور کمزوروں پر طاقتور کے ظلم کو فوراً روک دے اور نہ ہونے دے تو پھر ظاہر ہے امتحان ختم ہو جائے گا۔ جب انسان حدود سے تجاوز کر کے ظلم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا نے مہلت دے رکھی ہے تو وہ بری ا لذمہ ہو گیا ، وہ اصل میں اپنی بدبختی کا سامان کررہا ہوتا ہے ۔یعنی وہ امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے ۔

 چیچنیا میں جن لوگوں نے معصوم بچوں کو مارا ہے انہوں نے ایک غیر معمولی ظلم کاارتکاب کیا ہے ۔اسلام کے نزدیک تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہے۔کجا کہ اتنے سارے معصوم بچے؟اس کی توجیح یہ کی جاتی ہے کہ جب روس نے گروزنی پر حملہ کیا تھا تو اس وقت بھی توبچے مارے گئے تھے تو یہ ان بچوں کی مائیں ہیں جو اپنے انتقام کی آگ بجھا رہی ہیں۔یہ ایسے ہی ہے کہ فرض کیجیے اگر خدانخواستہ آپ کا بچہ اغوا ہو جائے توکیا آپ اس کے بدلے میں ہمسائے کا بچہ اغوا کر لیں گے ۔مسلمان کو تو ہر حال میں اخلاقی حدود کا پابند رہنا ہے ۔ انسان کی جان مال آبرو کو پیغمبرﷺ نے حرم کے برابر محترم قرار دیا ہے ۔اگرمسلمان بھی انتقام میں ایک معصوم کو مار دے تو اس میں اور ایک جاہل میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ نماز قضا ہو گی ۔ آدھی رات تک نمازِ عشا کا وقت ہے۔البتہ اگر آپ اس طرح سو گئے کہ بعض اوقات آدمی تھکا ہوا ہوتا ہے اور لیٹتے ہی اچانک نیند آجاتی ہے تواس میں گنجائش ہے کہ جب آپ اٹھیں وہی نماز کا وقت ہو گا ۔یعنی اس خاص صورت میں نماز قضا شمار نہ ہو گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا شخص، ایک کام اچھا کر رہاہے اورایک برا۔ اللہ کے مقابلے میں انسان کو سرکش نہیں ہونا چاہیے ۔ نماز کیا چیز ہے ، اللہ کے حضور میں حاضری ہے ۔مذکورہ صورت میں اس شخص کا رویہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی آدمی آپ کو کہے کہ میں لوگوں کی خوب خدمت کرتا ہوں البتہ ماں باپ کو روز گالیاں دیتا ہوں اورجناب میں ان لوگوں سے تو اچھا ہی ہوں جو ماں باپ کی بہت خدمت کرتے ہیں۔میں مخلوق کا تو حق نہیں مارتا، کیا فائدہ ماں باپ کی ایسی خدمت کا کہ باقی مخلوق کا تم حق مارتے رہو۔واضح بات ہے کہ ایک حق خدا کا ہے اور ایک حق بندوں کا۔ہمیں دونوں ہی ادا کرنے ہیں۔ایک کو نہ اداکر نا، اس میں برتری جتانے کا کون سا پہلو ہے ؟ انسان کو بڑا عاجز ہونا چاہیے اور یہ کہناچاہیے کہ میں اللہ کے سامنے بھی سر جھکاؤں گا اور بندوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو ں گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں جس کا ذکر ہے وہ تو عصر کی نماز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عصر کی نماز کے وقت ہی عام طور پرایسی صورت پیدا ہوتی تھی، خاص طور پر جنگ کے موقع پر،کہ جب نماز ضائع ہونے کا بڑا امکان ہوتا تھا۔تو اس پس منظر میں یہ تاکید کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہر وہ نماز جو تمدن کی تبدیلی کے ساتھ ایسے موقع پر آجائے کہ جس میں آدمی بہت مشغول ہو اور اسے نماز کے لیے اٹھنا بہت مشکل ہو تو اس کے لیے وہی نماز وسطی ہے اور خاص طور پر اس نمازکے لیے تاکید فرمائی گئی ہے کہ اس نماز کو ضائع ہونے سے بچاؤ ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی بھی انسان الہامی علم کا حامل نہیں ھوتا۔ ہم سب ہی علم اپنے والدین ، اساتذہ اورماحول سے حاصل کرتے ہیں تو جوں ہی ہمارے علم میں دلائل سے یہ بات آجائے کہ ہمارا موجود علم غلط ہے تو فوراً انسان مان لے اور اپنی غلطی درست کر لے ۔ اس میں ڈسٹرب ہونے کی کیا بات ہے ۔ صحیح بات کو قبول کر لینا اور غلط بات کو چھوڑ دیناایک امتحان ہے جس میں ہمیں کامیاب ہونے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں اولاد پر سختی کرنے کا کوئی حکم نہیں آیا ۔ قرآن اس سے خالی ہے ۔ اولاد پر سختی کرنے کا معاملہ ایک بالکل عقلی معاملہ ہے۔ ہم اپنی اولاد کی تربیت کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ محبت سے سمجھاتے ہیں ، عقلی دلائل دیتے ہیں ، اس کے شعور کو اپیل کرتے ہیں او ر کسی موقع پر سختی بھی کرتے ہیں ۔ یہ سارے ہی اخلاقی معاملات ہیں۔ کسی بچے کا سکول جانے کو جی نہیں چاہ رہاتو سختی کرنا پڑتی ہے ، بچہ اگر گالی دیتاہے تو سختی کرنی پڑتی ہے ۔تو یہ موقع محل اور حکمت عملی کی بات ہے کہ کس موقع پر انسان تربیت کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتاہے ۔سختی کرنا بھی تربیت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ کے احکام کی پیروی کرنا ہمارے ذمہ داری ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اللہ کے احکام بہت جامع ہیں اورانسان اگر صحیح طریقے سے ان کی پیروی کرے تو ساری زندگی ہی مربوط اور منظم ہو جاتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورتیں قبرستان جا سکتی ہیں لیکن اگر وہاں جاکر آداب کا لحاظ رکھیں تو۔ یعنی مغفرت کی دعا کریں ، ماتم نہ کرنے لگ جائیں یا کوئی اور اس طرح کی حرکت۔ عورتوں میں چونکہ رقت قلبی زیادہ ہوتی ہے اور نرم مزاج بھی ہوتی ہیں تو اس وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ایک زمانے میں عورتوں کو قبرستان جانے سے روک دیا تھا پھر جب تربیت ہو گئی تو آپ نے فرمایا، چلی جایا کرو اب کوئی حرج نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سب جانتے ہیں او راس کو مانتے ہیں کہ اصل میں نرم رویہ ہی خوبی کا رویہ ہے ۔ سختی اگر صحیح موقع پر ہے تو مفید ہو تی ہے لیکن ہر موقع پر مرض ہوتی ہے۔اور مرض کی اصلاح اور علاج ہونا چاہیے۔آدمی کے مزاج میں تیزی ہے اور وہ ہر موقع پر سامنے آجاتی ہے تو یہ چیز واقعتا قابل اصلاح ہے۔ کچھ لوگ تیز مزاج کے ہوتے ہیں تو ان کا جواز پیش کرتے رہنا گویا اپنی تیزی کی اور پرورش کرتے رہنا ہے ۔ ان کو چاہیے کہ وہ اسے کنٹرول کرنے کی کاوش کرتے رہیں۔ مزاج میں تیزی تربیت میں کمی اور کمزوری کی وجہ سے پیداہوتی ہے ۔ بتدریج کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں نرمی آجائے کیونکہ نرمی ہی شخصیت کا حسن ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ عربی زبان ہے اردو نہیں ۔ اقامت صلوۃ کا مطلب ہے نماز کا اہتمام کرنا یعنی نماز کو اللہ کے دین کا ایک بڑا رکن سمجھ کر پورے اہتمام سے ادا کرنا۔یہ اردو والا قائم کرنا نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میاں بیوی ایک گھر آباد کرتے ہیں اورجب گھر آباد کرتے ہیں تو ان دونوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی شخصیت کو سمجھیں۔اور یہ سمجھ کر فیصلہ کر لیں کہ دونوں کے کیا حدود ہیں اور کن حدود میں رہ کر ایک دوسرے سے معاملہ کرنا ہے ۔ بہت زیادہ توقعات اور مطالبات میں نہ پڑا جائے تو بالعموم ایک خوشگوار زندگی کی ابتدا ہوتی ہے ۔ کچھ حقوق تو وہ ہیں جو بالکل قانونی نوعیت کے ہیں ظاہرہے انہیں تو ہر حال میں ادا کرنا ہوتا ہے ۔مثلاً میاں بیو ی کے درمیان تعلق کا ایک قانونی پہلو یہ ہے کہ انہیں ایک دوسرے کو تسکین کا سامان بہم پہنچانا ہوتا ہے ۔ مرد اور عورت دونوں کو اسے اپنا فرض سمجھنا چاہیے ۔ اس کے بعد مرد کے اوپر نا ن ونفقہ کی ذمہ داری ہے جسے اس نے ہر حال میں پوراکرنا ہے ۔شوہر کی حیثیت سے اسے نرمی، شفقت ، محبت اور عفو و درگزر کا رویہ پیدا کرنا چاہیے۔ خواتین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ نے انہیں ماں بننے کا شرف دیا ہے اور اس لحاظ سے انہیں اس بات کو ترجیحاً پیش نظر رکھنا ہے۔ باقی بہت سی مصروفیا ت میں سے ان کو اس جانب زیادہ وقت دینا ہے کہ یہ ان کی فطری ذمہ داری ہے ۔اگلی نسلوں کی تربیت ان کی ذمہ داری ہے ۔ اس معاملے میں جس حد تک بھی وہ ایثار کر سکیں اتنا ہی ان کے لیے باعث شرف ہے۔ اگر ان بنیادی چیزوں کو سامنے رکھ کر معاملات کیے جائیں تو امید ہے اچھی زندگی گزرے گی ۔باقی حقوق و فرائض کی کوئی لسٹ لٹکانے سے معاملات حل نہیں ہوتے اور نہ زندگی خوشگوار گزرتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بہت گہرائی سے اگر جائزہ لیا جائے تو عام طور پر کوئی ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کی جانب اس کا رحجان زیادہ ہوتا ہے ۔ پھر رحجان ہی دنیا میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتا۔اس کے حالات اور ماحول بھی بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں ۔ان سب کے اندر ایک توازن حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس معاملے میں آپ اپنے اساتذہ، دوستوں اور ماحول سے بھی مدد لے سکتے ہیں ۔لیکن بہرحال فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک ہی بات ہے ۔ جو حلال ہے وہ طیب ہے اور جو طیب ہے وہ حلال ہے ۔پاکیزہ رزق وہی ہے جس کے اندر کوئی حرام کی آمیزش نہ ہو ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ فراڈ کرتے ہیں۔ پیسے بٹورنا اور لوگوں کو برباد کرنا ہی ان کا اصل عمل ہوتا ہے ۔ جس طرح کے دعوے وہ کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ساری تقدیر ہی ان کے ہاتھ میں دے دی ہے ۔ آپ جو چاہیں جا کر دو منٹ میں کروا کر واپس آجائیں ۔ یہ چیز تو دنیا کے اندر اللہ بھی نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ کے پاس بھی اگر آپ جائیں گے تواللہ بھی مجموعی حکمت کے لحاظ سے ہی بات مانے گا ۔ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ جو بات کہیں وہ مان لے۔ ایک کسان فصل اگا کر بیٹھا ہوا ہے او ردعا کر رہا ہے کہ پروردگار میں آپ کے دربارمیں آگیا ہوں آپ بارش نہ برسائیے گا اور دوسری جانب ہو سکتا ہے کہ کسی آدمی کو بارش کی بڑی ناگزیر ضرورت ہو وہ بھی دعا کر رہا ہے ،تو اللہ تو مجموعی حکمت کے لحاظ سے فیصلہ کرے گا۔ یہ ممکن ہے کہ ایک کسان بارش کے لیے بہت بیتاب ہو کہ مولا آج ہی برس جائے اور ایک بے چارا کٹیا والا دعا کر رہا ہو کہ مولا ابھی دو اینٹیں لگانی باقی ہیں مہلت دے دے۔ سب کی منشا کے مطابق اللہ دعائیں قبول کر ے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے لیکن عامل حضرات کے آپ اشتہارات پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ معطل ہو چکا ہے (نعوذ باللہ) اور اب آپ عامل کے دربار میں جائیں اور جو چاہیں کروا کر واپس آجائیں ۔ ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ایمان کا نقصان ہوتاہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تہذیبِ نفس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نفس کے خیالات کو کنٹرول کر کے انہیں اخلاقی حدود کا پابند کر لیں۔ اس سے آپ کا نفس مہذب ہوتا ہے۔ کیونکہ نفس کے اندر سرکشی کے میلانات رکھے گئے ہیں اور وہ حدود کراس کرنا چاہتا ہے اور جب آپ اس کو کنٹرول کرتے ہیں تو یہ چیز اس کی تہذیب ہے ۔ تہذیب ہی کے لفظ کو قرآن نے تزکیہ سے تعبیر کیا ہے یعنی پاکیزہ بنانا ، اخلاقی حدود سے آشنا کرنااور ان کا پابند بنانا۔دنیا کے اندر انسان کو اللہ نے جو علم عطا فرمایا ہے اس کی روشنی میں اپنے آپ کو منظم کرنا ، اخلاقی حدود کا پابند بنانا تہذیب نفس ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: غور و فکر ، جتنا وقت فارغ ملے اس میں اپنے دماغ کو زحمت دیجیے کہ وہ کائنات پر ،اپنے نفس پر ، اپنے احوال پر غور و فکر کا عادی بنے کیونکہ انسان جتنا اپنے ذہن کو غور و فکر کی طرف مائل کرتا ہے اتنا ہی اس کی تہذیب نفس میں اضافہ ہوتاہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ جو رائے قائم کرتے ہیں وہ بعض اوقات غلط ہو سکتی ہے ، آپ کا ایک عمومی رحجان ہوتاہے بعض اوقات آدمی چہرے مہرے سے ، بات چیت سے مستحق لگتا ہے آپ کا اطمینان ہو جاتا ہے دے دیجیے اللہ آپ کو اجر دے گا ۔ اس نے جھوٹ بولا ہے اس کی ذمہ داری اس پر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں یہ بات موجود ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یوم تبدل الارض غیر الارض والسموات اس زمین اور آسمان کو اٹھا کر ایک دوسرے زمین اور آسمان میں بدل دیا جائے گا ۔میرا خیال ہے اس کا یہی مطلب ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وہ ایک قسم کھا بیٹھے تھے جوایسی نہیں تھی کہ جس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہو۔ جب وہ صورتحال سے نکلے تو اللہ تعالی نے ان کو گویا ایک طریقہ بتا دیا کہ جس سے ان کی تسکین ہو جائے کہ انہوں نے اپنی قسم پوری کر لی ہے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے سے بھی بچ جائیں۔ یہ طریقہ وہاں اختیار کرنا چاہیے جہاں اللہ کی کسی نافرمانی اور کسی بندے کی حق تلفی کا کوئی امکان نہ ہو ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اصل میں اس دنیا کے بارے میں اللہ کی جو سکیم ہے وہ ہمارے معاشرے میں معطل کر دی گئی ہے اس وجہ سے سوالات پیدا ہو تے ہیں ۔ مثال کے طور پر عربوں کے معاشرے میں اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ بیوی نے بیوہ ہو جانے پر گھر میں بیٹھنا ہے ۔ وہ اگلے دن شادی کے لیے تیار ہوتی تھی ۔اسی لیے اللہ کو عدت کی مدت گزارنے کے بارے میں ہدایات دینی پڑیں کہ کم از کم اتنا وقت تو گزار لو۔ یہ کہنا پڑا کہ آپ نے شادی تو کرنی ہے لیکن یہ دو تین مہینے صبر کر لیں لیکن ہمارے ہاں یہ صورتحال نہیں ہے ۔ یہ ایک مسئلہ ہے اس وجہ سے بجائے اس کے کہ ساری اسکیم کو باطل کر دیا جائے ہم اپنی غلطی کی تلافی کر سکتے ہیں ۔ جب اولاد ہوتی ہے تو اصل میں جو اولاد کا ہے وہ بیوی کا ہوتا ہے وہ ماں ہوتی ہے اس وجہ سے سب کی مالک ہوتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ماں کی موجودگی میں اولاد سرکشی کرے لیکن اگر خاوند یہ خدشہ محسوس کرتا ہے تو وہ مرنے کا انتظار ہی کیوں کر رہا ہے ، اپنی زندگی میں جو دینا چاہتا ہے بیوی کو دے دے زندگی میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔ جب آپ اپنی زندگی میں فیصلہ نہیں کرتے توا للہ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی وجہ بالکل مختلف ہے ۔ اس میں یہ اصول نہیں اختیار کیا گیا کہ ضرورت کس کی زیادہ ہے ۔ اگر یہ اصول اختیار کیا جاتا تو میراث تقسیم ہی نہیں ہو سکتی تھی ۔ ضرورت کس کی زیادہ ہے اس کا توکوئی قاعدہ بنایا ہی نہیں جا سکتا ۔ اصول یہ بنایا گیا ہے کہ امکانی طور پر کس سے مادی منفعت زیادہ حاصل ہوتی ہے اس اصول پر میراث تقسیم کی گئی اور یہ اصول بالکل ٹھیک ہے کہ امکانی طور پر زیادہ منفعت انسان کو اولاد سے حاصل ہوتی ہے ، اولاد نہ ہو تو بہن بھائیوں سے ہوتی ہے ۔ بیوی کا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے آپ بیوی کو جو دینا چاہتے ہیں دنیا میں دے دیں اس میں کوئی مانع نہیں ہے ۔ ضرورت کو اصول نہیں بنایا گیا اور ضرورت کو اصول بنانا بے انصافی بن جاتی ہے اس کا طے کرنا آسان نہیں ہے۔ ضرورت تو آپ ہی جان سکتے ہیں یا مرنے والا۔ اس کے علاوہ وصیت کا حق بھی دیا ہے ضرورت کے لحاظ سے ۔ اللہ تعالی تو جب قاعدہ بنائیں گے بہت سے پہلووں کو سامنے رکھ کربنائیں گے جو یونیورسل ہو گا ۔ انہوں نے جو پہلو رکھا وہ یہ ہے کہ کس کو زیادہ منفعت حاصل ہوتی ہے بس اس اصول پر تقسیم کر دیا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اصل میں اس دنیا کے بارے میں اللہ کی جو سکیم ہے وہ ہمارے معاشرے میں معطل کر دی گئی ہے اس وجہ سے سوالات پیدا ہو تے ہیں ۔ مثال کے طور پر عربوں کے معاشرے میں اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ بیوی نے بیوہ ہو جانے پر گھر میں بیٹھنا ہے ۔ وہ اگلے دن شادی کے لیے تیار ہوتی تھی ۔اسی لیے اللہ کو عدت کی مدت گزارنے کے بارے میں ہدایات دینی پڑیں کہ کم از کم اتنا وقت تو گزار لو۔ یہ کہنا پڑا کہ آپ نے شادی تو کرنی ہے لیکن یہ دو تین مہینے صبر کر لیں لیکن ہمارے ہاں یہ صورتحال نہیں ہے ۔ یہ ایک مسئلہ ہے اس وجہ سے بجائے اس کے کہ ساری اسکیم کو باطل کر دیا جائے ہم اپنی غلطی کی تلافی کر سکتے ہیں ۔ جب اولاد ہوتی ہے تو اصل میں جو اولاد کا ہے وہ بیوی کا ہوتا ہے وہ ماں ہوتی ہے اس وجہ سے سب کی مالک ہوتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ماں کی موجودگی میں اولاد سرکشی کرے لیکن اگر خاوند یہ خدشہ محسوس کرتا ہے تو وہ مرنے کا انتظار ہی کیوں کر رہا ہے ، اپنی زندگی میں جو دینا چاہتا ہے بیوی کو دے دے زندگی میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔ جب آپ اپنی زندگی میں فیصلہ نہیں کرتے توا للہ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی وجہ بالکل مختلف ہے ۔ اس میں یہ اصول نہیں اختیار کیا گیا کہ ضرورت کس کی زیادہ ہے ۔ اگر یہ اصول اختیار کیا جاتا تو میراث تقسیم ہی نہیں ہو سکتی تھی ۔ ضرورت کس کی زیادہ ہے اس کا توکوئی قاعدہ بنایا ہی نہیں جا سکتا ۔ اصول یہ بنایا گیا ہے کہ امکانی طور پر کس سے مادی منفعت زیادہ حاصل ہوتی ہے اس اصول پر میراث تقسیم کی گئی اور یہ اصول بالکل ٹھیک ہے کہ امکانی طور پر زیادہ منفعت انسان کو اولاد سے حاصل ہوتی ہے ، اولاد نہ ہو تو بہن بھائیوں سے ہوتی ہے ۔ بیوی کا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے آپ بیوی کو جو دینا چاہتے ہیں دنیا میں دے دیں اس میں کوئی مانع نہیں ہے ۔ ضرورت کو اصول نہیں بنایا گیا اور ضرورت کو اصول بنانا بے انصافی بن جاتی ہے اس کا طے کرنا آسان نہیں ہے۔ ضرورت تو آپ ہی جان سکتے ہیں یا مرنے والا۔ اس کے علاوہ وصیت کا حق بھی دیا ہے ضرورت کے لحاظ سے ۔ اللہ تعالی تو جب قاعدہ بنائیں گے بہت سے پہلووں کو سامنے رکھ کربنائیں گے جو یونیورسل ہو گا ۔ انہوں نے جو پہلو رکھا وہ یہ ہے کہ کس کو زیادہ منفعت حاصل ہوتی ہے بس اس اصول پر تقسیم کر دیا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اٹھارہ اور ستر سال کا جو واقعہ پیش آگیا ہے اس میں تو بچی سے تعزیت کرنی چاہیے ۔ بڑی افسوس ناک بات ہے ۔ شادی کے معاملے میں مذہب یہ مداخلت تو نہیں کر تا کہ وہ عمروں کا تعین کر دے لیکن اصولی بات کہی گئی ہے کہ اس میں برابری کا لحاظ ہونا چاہیے اور یہ برابری ہر پہلو سے ہونی چاہیے یعنی عمر کے پہلو سے بھی۔فرق ہو تو معقول ہو۔اسی طرح یہ برابری مال دولت ، معاشرت ، خاندان سب میں ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کو لوگ قبول کر سکیں ۔ ستر سال کے بوڑھے میاں کو خود ہی شرم کرنی چاہیے ۔گھر بسانا ہے توبہت سی بیوہ عورتیں موجود ہیں بہت سی بڑی عمر کی عورتیں موجود ہیں ، ان سے بسایا جا سکتا ہے ۔ ایک اٹھارہ سال کی لڑکی کی زندگی تباہ کرنے کے کیا معانی ہیں۔ایسے میں وہ لڑکی کسی وقت اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کی طرف مائل ہوجائے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی ؟دین میں اصولی بات بتائی گئی ہے باقی یہ کہ عمر کو متعین تو نہیں کیا جا سکتا بعض اوقات بعض حالات میں ذرا زیادہ فرق بھی ٹھیک ہوتا ہے لیکن وہ ذرا زیادہ فرق ستر اور اٹھارہ سال کا ہر گز نہیں ہونا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وتر میں دعائے قنوت پڑھنا لازم نہیں ہے ۔ اگر آپ کو آتی ہے پڑھ لیجیے اچھی بات ہے ، نہیں آتی تو نہ پڑھیے اس سے نماز میں کوئی کمی نہیں واقع ہوتی یہ ایک دعا ہے اور دعا کی جائے تو بہت اچھی بات ہے ۔ نہ کریں تو نماز ہو جاتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلامی فقہ صرف چار مسالک تک محدودنہیں ہے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے امام صرف چار ہی نہیں یعنی ابو حنیفہ ؒ، مالکؒ ، شافعیؒ، اور احمدبن حنبلؒبلکہ ان کے علاوہ دوسرے علما اور فقہ بھی ہیں جو علمی مرتبہ میں ان چاروں کے ہم پلہ ہیں۔ مثال کے طور پر امام لیث بن سعد ہیں جو کہ امام مالک کے ہم عصر تھے ۔امام شافعی کی نظر میں امام لیث امام مالک سے بہتر فقیہ تھے۔ اسی طرح عراق میں سفیان ثوری تھے جوکہ فقہ میں امام ابوحنیفہ کی برابری کر سکتے ہیں۔ امام غزالی نے انہیں پانچواں امام تسلیم کیاہے۔ اسی طرح ان چاروں آئمہ سے قبل بھی علم و فقہ کے عمائدین پائے جاتے تھے او رجو ان اماموں کے استاد بھی تھے۔اس سے بھی قبل صحابہ کرام میں بھی فقہا موجود تھے مثلا حضرت عائشہؓ، حضرت زید بن ثابتؓ۔ درج ذیل نکات ذہن میں رکھیے تو آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔

            ۱۔ ان چاروں آئمہ نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ معصوم عن الخطاتھے اور ان سے کبھی غلطی ہو ہی نہیں سکتی ۔یہ امام قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح رائے قائم کر نے کے لیے اجتہاد کرتے تھے ۔ان کے اجتہاد کی بنیاد قرآن وسنت پر تھی نہ کہ اپنی مرضی اور خواہش پر ۔امام ابو حنیفہ کہاکر تے تھے کہ یہ میری رائے ہے اور یہ رائے میری نظر میں سب سے بہتر ہے لیکن اگر میری رائے سے بہتر کوئی رائے مجھے معلوم ہو تو میں فورا اسے قبول کر لوں گا۔امام شافعی جب عراق میں تھے تو عراق کے ماحول اوروہاں کی ضرورتوں کے مطابق ان کے فتوے ہوتے تھے لیکن جب مصر جا بسے تو مصر کے حالات اورحاجات کے مطابق ان کے فتوے عراق سے قدرے مختلف ہوتے تھے۔کسی ایک ہی مسئلے میں حضرت عمر ؓ کی جو رائے آج ہوتی تھی اگلے سال مختلف حالات کی وجہ سے انکی رائے مختلف ہوتی تھی اور جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ ایسا کیوں ہے جو آپ جواب دیتے کہ کل کا فتوی کل کے علم کے مطابق تھا اور آج کی رائے آج کے علم کے مطابق ہے ۔

            ۲۔ کسی ایک مسلک کی اتباع اور تقلید کرنا نہ فرض ہے اور نہ سنت بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ ایسی تقلید قرآن و سنت کی رو سے جائز نہیں ہے ۔

            ۳۔ اللہ نے اپنے بندوں پرصرف اپنی اوراپنے رسول کی اطاعت فرض کی ہے ۔انسان خواہ کتنا ہی بڑا عالم اور فقیہ کیوں نہ ہو اگر اس سے غلطی کاامکان ہے تو اس کی مکمل تقلید اوراتباع کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟اس طرح کی تقلید کامطلب تو یہ ہے کہ ہم نے اس عالم و فقیہ کو حضور کا درجہ دے دیا ہے۔

            ۴۔ خود ان علما و فقہا کرام نے لوگوں کو اپنی مکمل تقلید سے منع کیا ہے اور اس بات سے روکا ہے کہ اندھے بہرے ہو کر ان باتوں کو تسلیم کر لیا جائے ۔امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ نہ میری تقلید کرو نہ مالک کی نہ ثوری کی اور نہ اوزاعی کی بلکہ اس کی بات مانو جس کی بات سب نے مانی ہے یعنی حضورﷺ کی

            ۵۔ اس طرح کی مکمل تقلید کرنا اور اس کے لیے متعصب ہونا ایسی بدعت ہے جس کا صحابہ اور سلف صالحین کے دور میں رواج نہیں تھا۔اس دور میں لوگ تقلید کی بنا پر بلکہ بات کو دلیل کی بنا پر مانتے تھے ۔ ایک مسئلہ میں اگر حضرت عمر کی رائے کو مانتے تو دوسرے میں حضرت علی کی مان لیتے تھے ۔

            ۶۔ کسی مسئلہ میں کسی امام سے اختلاف کرنا ا ن کی شان میں گستاخی نہیں اور نہ اس سے ان کی علمی منزلت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔عزت و احترام کرنا اوربات ہے اور کسی رائے سے اتفاق نہ کرنا دوسری بات ہے۔کسی کی رائے سے بھر پور مخالفت کے باوجود اس کی بھر پور عزت کی جا سکتی ہے۔

            ۷۔ اماموں کی مکمل تقلید کامطلب تو انہیں صحابہ پر بھی فوقیت دیناہے ۔آخر کس بنیاد پر لوگ انکی تو تقلید کر لیتے ہیں مگر حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ کی تقلید نہیں کر سکتے ؟

            ۸۔ کوئی ضروری نہیں کہ جو رائے سب سے زیادہ مشہور ہو اور جس کے ماننے والے کثرت میں ھوں وہی رائے سب سے زیادہ صحیح بھی ہویا جس رائے کے ماننے والے اقلیت میں ھوں وہ رائے سرے سے غلط ہو کیوں کہ کسی رائے کے صحیح یا غلط ہونے کا دارومدار اس کی شہرت اور اس کے متبعین کی کثرت پر نہیں بلکہ دلیل کے مضبوط اور معتبر ہونے پر ہے ۔ورنہ کبھی دین حق نہ ہوتا کیوں کہ اس کے ماننے والے دنیا میں ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں۔

            ۹۔ فقہی اختلاف کا مطلب آپس کی دشمنی نہیں ھوتابلکہ یہ آئمہ ایک دوسرے کی امامت میں نمازپڑھتے تھے۔امام شافعی فجر کی نماز میں دعائے قنوت کو ضروری سمجھنے کے باوجود جب انہوں نے امام ابو حنیفہ کی قبر کے نزدیک نماز فجر ادا کی تو ان کے رتبہ کا احترام کرتے ہوئے فجر میں دعائے قنوت نہیں پڑھی ۔امام احمد کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ امام مالک کے نزدیک خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، کیا آپ ان کی امامت میں نماز پڑھ سکتے ہیں تو احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ امام مالک اور سعید بن مسیب کی امامت میں نماز پڑھنے سے کسے تامل ہو سکتا ہے ۔

            ۱۰۔ فقہی مسائل میں اختلافات کوئی مصیبت یا تفرقہ کی علامت نہیں بلکہ یہ تو ایک شرعی ضرورت ہے ۔یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو کسی ایک رائے کا پابند نہیں بنایا بلکہ انہیں گنجائش اور سہولت عطا کی ہے ۔عین ممکن ہے کہ کوئی فتوی حالات کے اعتبار سے ایک جگہ کے لیے موزوں ہولیکن وہی فتوی حالات کے اختلاف کی وجہ سے دوسری جگہ کے لیے موزوں نہ ہو۔خلیفہ منصور نے امام مالک سے خواہش ظاہرکی کہ تمام مسلمانوں کو کیوں نہ ان کی تصنیف موطا کا پابند بنا دیا جائے تو امام مالک نے انکارکر دیا اور کہا کہ امیر المومنین ایسا نہ کیجیے کیوں کہ مسلمان مختلف ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں ان کے حالات جدا جدا ہیں اور ان کی ضرورتیں الگ الگ ہیں۔

            ۱۱۔ تمام لوگوں کو کسی ایک ہی مسلک کا پابند بنا دینا اجتہاد کا دروازہ بند کر دینا ہے اور یہ شریعت کی رو سے ایک غلط عمل ہے ۔اس طرح کی فکر اس زمانے کی پیداوار ہے جب کہ مسلمانوں میں علمی جہالت اور پسماندگی آ گئی ہے۔البتہ وہ شخص جو قرآن و سنت اور دوسرے شرعی علوم پر عبور نہ ر کھتا ہو اسے چاہیے کہ جن مسائل میں اسے علم نہ ہو ان کے سلسلہ میں علمائے کرام کی طرف رجوع کر ے۔

کس مسلک کی پیروی کی جائے؟

            رہا یہ سوال کہ ایسا شخص کس مسلک کے عالم سے رجوع کرے اور کیا یہ جائز ہے کہ کسی ایک مسلک میں وہ حنفی مسلک کی پیروی کر ے دوسرے میں شافعی یا حنبلی مسلک کی ۔میری رائے میں اگر کوئی شخص آرام پسندی اور آسان فتوے کے چکرمیں ایسا کرتا ہے توجائز نہیں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ شخص اپنے نفس کی اتباع کر تاہے شریعت کی نہیں ۔البتہ قرآن و سنت کی بنیاد پر کسی رائے کو زیادہ قابل ترجیح سمجھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے دلائل زیادہ مضبوط ہیں تو ایسے شخص کے لیے جائز ہے کیوں کہ یہ دلیل دیکھتا ہے نہ کہ اپنا فائدہ۔ دلوں کا حال بہر حال اللہ کے علم میں ھے ۔ہمیں بہر حال اس کے حضور جوابدہ ہونا ہے ۔کسی مسئلے میں واقعی ہم نے قرآن وسنت کی زیاد ہ بہتر پیروی کے شوق میں زیادہ آرا میں دلائل کی بنیاد پر کسی رائے کا انتخاب کیا یا محض اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر ۔ یہ اللہ کے علم میں ہے۔

فقہی مسائل میں اختلافات کے اسباب

            ۱۔ شرعی احکام کا منبع و ماخذ قرآنی آیات اور حضور ﷺ کی سنت طیبہ ہے اوریہ عین فطری بات ہے کہ ان آیات یا سنت کا منشا و مفہوم متعین کرنے میں لوگ مختلف ہو جائیں۔ بعض لوگ ظاہر ی مفہوم کو ترجیح دیں اور بعض لوگ بات کے اصل مدعا و مفہوم کو۔غزوہ احزاب سے واپسی پر حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا ۔من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلا یصلین العصر الا فی بنی قریظہ۔ (بخاری و مسلم) جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ عصر کی نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی ادا کر ے۔جب سورج غروب ہونے کا وقت آیا اور صحابہ کرام بنی قریظہ نہ پہنچ سکے تو صحابہ حضورکے اس حکم کے بارے میں غور کرنے لگے ۔بعض صحابہ نے کہا کہ چونکہ حضور نے ہمیں بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے ہم وہیں جا کر نماز ادا کریں گے خواہ قضا ہی ہو جائے ۔بعض نے کہا کہ حضورﷺ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں بلکہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ ہم جلد از جلد بنی قریظہ پہنچنے کی کوشش کریں۔چنانچہ انہوں نے سورج غروب ہونے سے قبل اور بنی قریظہ پہنچنے سے قبل عصر کی نماز ادا کر لی ۔یعنی ایک فریق نے ظاہر حکم پر عمل کیا او ر دوسرے فریق نے حکم کے اصل مدعا و مقصد کو مد نظر رکھا۔جب معاملہ حضورﷺ کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے دونوں فریقوں کو درست قرار دیا۔

            ۲۔ طبعاً بعض لوگ سختی کی طرف مائل ہوتے ہیں جب کہ بعض لوگ سہل پسند ہوتے ہیں۔جیسا کہ عبداللہ بن عمر ؓ کا مزاج سختی کی طرف اور ابن عباس کا مزاج آسانی کی طرف مائل تھا۔طبیعت میں اس فرق کی بنا پر ان کے مابین فقہی مسائل میں بھی اختلاف ہے ۔عبداللہ بن عمر اپنی سخت طبیعت کی بنا پر بچوں کو بوسہ دینے سے بھی گریز کرتے تھے جبکہ ابن عباس ایسا کرنے کو ایک نیک عمل سمجھتے تھے ۔

            ۳۔ عربی زبان میں بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن میں حقیقی اور مجازی دونوں معانی کا احتمال ہوتاہے ۔بعض لوگ حقیقی مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں اوربعض مجازی مفہوم کو۔ مثلاًقرآن کے الفاظ او لامستم النساء میں لفظ لامستم میں حقیقی اور مجازی دونوں مفہوم کی گنجائش ہے ۔اس کا حقیقی مفہوم ہے ہاتھ سے چھونا اور اس کا مجاز ی مفہوم ہے بیوی سے صحبت کرنا۔جن فقہا نے اس کے حقیقی مفہوم کو ترجیح دی انکے نزدیک بیوی کو صرف ہاتھ لگا دینے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن جن کے نزدیک یہاں لفظ کا مجازی مفہوم مراد ہے ان کے نزدیک بیوی کو صرف ہاتھ سے چھو دینے سے وضونہیں ٹوٹتا۔

            ۴۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک روایت اورحدیث کسی امام کے نزدیک صحیح اورمعتبر ہوتی ہے اور وہ اس کے مطابق اپنی رائے قائم کرتا ہے جب کہ کسی دوسرے امام کے نزدیک یہ حدیث غیر معتبر اور ضعیف ہوتی ہے اور وہ اس کو اپنی دلیل نہیں بناتا ۔روایت کے معتبر ہونے یا نہ ہونے سے بھی فقہی مسائل میں اختلافا ت پیدا ہوتے ہیں۔

            ۵۔ بعض فقہا کرام فقہی مسائل میں قرآن و حدیث کے علاوہ دوسرے عوامل بھی مد نظر رکھتے ہیں۔مثلا دنیا کے بدلتے حالات ، مختلف علاقے والوں کی مختلف ضروریات اور عوامی مصلحتیں وغیرہ۔ جب کہ بعض فقہا کے نزدیک یہ عوامل معتبر نہیں ہوتے ۔

            ۶۔ بعض فقہا کے نزدیک حضور ﷺ سے قبل کی شر یعتیں بھی ہمارے لیے شریعت کی حیثیت رکھتی ہیں اور انہیں دلیل کے طو ر پر پیش کیا جا سکتا ہے جب کہ بعض کے نزدیک یہ شریعتیں ہمارے لیے معتبر نہیں۔انکے علاوہ بھی اور اسباب ہیں تفصیل کے لیے دیکھیے شاہ ولی اللہ کی ‘الانصاف فی اسباب الاختلاف’ اور شیخ علی الخفیف کی ‘ اسباب اختلاف الفقہا’۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: قرآن دراصل محمد ﷺ کی سرگزشتِ انذار ہے۔ یہ اجمال کچھ تفصیل طلب ہے۔ آپ دیکھیے !مذہب کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ خدا نے یہ کائنات آزمایش کے لیے بنائی ہے ، وہ اِس میں لوگوں کو پیدا کرتا ہے۔اُنہیں مختلف حالات میں رکھ کر آزماتا ہے۔پھر ایک دن وہ اِس دنیا کو ختم کردے گا،قیامت لائے گا اورتخت عدالت پر جلوہ افروز ہو گا۔ اُس دن وہ پروردگار عالم اِس دنیا میں آزمائے گئے لوگوں کے اعمال کا نتیجہ سنائے گا۔ یہ بات جب لوگوں کے سامنے پیش کی گئی ،تو انہوں نے اِس کا مختلف انداز سے انکار کیا ، کسی نے کوئی بہانہ تراشا اور کسی نے کوئی۔ تب پروردگار عالم نے گاہے گاہے اپنے رسولوں کے ذریعے سے، اِس دنیا پر اپنی حجت تمام کی اور اُن کے انکار کی بنا پر ، اُس قیامتِ کبریٰ سے پہلے نشانی کے طور پر ایک قیامتِ صغریٰ برپا کر دی تا کہ یہ دوسرے لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہو۔ ‘‘لنجعلہالکم تذکرۃ و تعیہا اذن واعیۃ’’(تا کہ ہم اِس واقعہ کو تمہارے لیے درسِ موعظت بنا دیں اور اُسے (سن کر )یاد رکھنے والے کان یاد رکھیں )۔ (الحاقۃ ۶۹: ۱۲) اور آخری بار یہ قیامت صغری محمد ﷺ کے زمانے میں برپا کی گئی۔

             مذہب جس قیامت کا مدعی ہے، اُسے وہ جزیرہ نمائے عرب میں برپا کر کے دکھا چکا ہے اور قرآن، اُس جزا وسزا کی سرگذشت ہے، جو محمد ﷺ نے برپا کی تھی ۔اِسے اِس زاویے سے دیکھیے اور اِس پہلو سے پڑھیے ، تو اِن شاء اللہ کوئی اشکال باقی نہ رہے گا اور اِس سے ہٹ کر دیکھیے، تو سوالات ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: آپ کا کیا خیال ہے ؟کیا گناہ اور کفر و شرک، انجانے میں ہو سکتے ہیں۔ کیا کوئی بے جانے بوجھے چور ہو سکتا ہے یا بے جانے بوجھے حق کا منکر ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جیسے ایمان ، نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ بے جانے بوجھے نہیں ہو سکتے ، اسی طرح گناہ اور کفر و شرک ،یہ بھی بے جانے بوجھے نہیں ہو سکتے چنانچہ مجھے اس سے تو اتفاق نہیں ہے کہ انجانے میں شرک ہو سکتا ہے البتہ یہ بات ہو سکتی ہے کہ آدمی کسی غلط فہمی کی بنا پر ایک بات کوجو توحید کے منافی ہو اُسے توحید کے عین مطابق سمجھتا رہے اور اُس کے مطابق عمل کرتا رہے۔ یہ بالکل دوسری بات ہے۔ اِس آدمی کو آپ مشرک کہیے، یہ چیخ اٹھے گا۔اگر یہ آدمی اندر سے حق پرست ہے ،تو اِس کو اِس غلط فہمی پر سزا نہیں ملنی چاہیے، معافی ہی ملنی چاہیے۔اور اگر یہ حق پرست نہیں ہے تو یقیناً یہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔چنانچہ وہ لوگ جو کسی غلط فہمی کی بنا پر یا تاویل کی غلطی کی بنا پر شرکیہ اعمال میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں مشرک کہنا زیادتی ہے ۔

            مشرکین مکہ یا یہود کو جب ہم مشرک یا حق کامنکر کہتے ہیں تو قرآنِ مجید کی اطلاع کی بنا پر کہتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی اپنائے ہوئے تھے، جان بوجھ کر اپنائے ہوئے تھے۔قرآن مجید اطلاع نہ دیتا تو ہم ان کے بارے میں بھی اُسی طرح کچھ نہ کہہ سکتے، جیسے آج اپنے سامنے شرکیہ عمل میں گرفتار آدمی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر کر رہا ہے یا وہ جو کچھ کر رہا ہے، جان بوجھ کر کر رہا ہے۔البتہ خدا آج بھی اپنے بندوں پر اپنی عمومی حجت پوری کر رہا ہے اور انہیں چھانٹ چھانٹ کر الگ کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون سچا مشرک ہے اور کون غلط فہمی کی بنا پر اِس میں گرفتار ہے۔ ہم یہ بات آج نہیں جان سکتے ،ہم پر یہ قیامت ہی کو کھلے گی۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: وہ غلط عمل جو مجبوری کی حالت میں کیا جاتا ہے ، اُس میں چونکہ رغبت ، ارادہ اور نیت شامل نہیں ہوتے ، لہذا، وہ تو معاف ہو سکتا ہے۔ لیکن جب کسی غلط عمل میں رغبت ، ارادہ اور نیت شامل ہو جائے ، تو پھر وہ مجبوری کی حالت میں کیا گیا عمل شمار نہیں ہو سکتا۔ پس آدمی ایسے غلط عمل پر ہونے والی گرفت کی زد میں آ سکتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: امت کے اور رسولؐ اللہ کے مابین تواتر کی واحد کڑی صحابہ ؓکرام ہیں۔ شیعہ حضرات تواتر کی اِس کڑی سے محروم ہیں ۔لہذا، اُن کے ہاں تواتر کا کیا سوال۔اُن کے مسلک میں موجود درجِ بالا خلا کی طرف اُن کی توجہ مبذول کرانی چاہیے۔ اِس کے بعد جیسے جیسے بات آگے چلے ،اُن سے بات کرنی چاہیے لیکن یہ ساری بات علما کی راہنمائی ہی میں ہونی چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: رفع یدین عملی تواتر یعنی سنت سے ثابت نہیں ہے، اگر یہ عملی تواتر سے ثابت ہوتا تو آج اِس پر کوئی بحث نہ ہوتی۔یہ مسئلہ اُس وقت سے اٹھا ہے، جب سے تواتر کے بجائے حدیث کو نماز کا اصل مبنٰی بنایا گیا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: ان نمازیوں سے مراد وہ مشرکین مکہ ہیں جو اپنا مذہبی بھرم قائم رکھنے کے لیے ریاکاری کی نماز پڑھتے تھے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اگر کچھ لوگ اپنے تصورات کو معیارِ حق بنا لیں اور دوسروں کے صحیح غلط ہونے کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیں ، تو وہ ایک فرقہ بن جاتے ہیں۔اِس حوالے سے اِس امت میں کتنے فرقے بن چکے ہیں ، یہ اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: تقلید اپنے سادہ معنوں میں وہ رویہ ہے ، جو عام آدمی کو اپنے معتمد علما کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے۔ یعنی یہ کہ وہ اُن سے دین معلوم کرے اور اُس پر عمل کرے ، اُن کے ہاں کسی غلطی کی نشان دہی ہوجائے، تو اُس معاملے میں جو صحیح بات سمجھ میں آئے اُس پر عمل کرے۔یہ تقلید تو ایک عام آدمی کے لیے بالکل صحیح رویہ ہے۔لیکن اگر کوئی آدمی کسی خاص شخص یا گروہ میں حق کو محصور یا مخصوص سمجھ لے اور اُس خاص شخص یا گروہ کے نقطہ نظر میں کسی غلطی کی نشان دہی ہو جانے کے باوجود اُسی کی پیروی پر مصر ہو ، تو یہ تقلیدِ جاہلی ہے اوریہ شرک ہے۔ اہل حدیث حضرات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو جس تقلید سے نکالنا چاہتے ہیں خو د بھی کچھ اُسی طرح کی تقلید میں گرفتار ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج :وہ شرک جو ناقابل معافی ہے وہ عقیدے کا شرک ہے۔ تکبر اور ریا شرک نہیں بلکہ یہ شرکیہ اعمال ہیں۔ ایک مومن سے ان کا صدور ممکن ہے۔لیکن یہ اعمال اگر کسی شخص کی نفسیات پر چھا جائیں اور اُس کی شخصیت کو ایک متکبر کی شخصیت بنا دیں یا ایک ریا کار کی شخصیت بنا دیں تو پھر معاملہ مختلف ہو گا۔ایسے شخص کا حقیقی مومن رہنامحال ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: انشورنس کے حوالے سے یہ گزارش ہے کہ بیمہ پالیسی میں فی نفسہ تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اِس کا سارا نظام چونکہ سود پر مبنی ہے، اِس وجہ سے اِسے اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ اِس کی ملازمت کا بھی وہی معاملہ ہے ، جو مثلاً بنک میں ملازمت کا معاملہ ہے۔آدمی کو اِس سے بچنے ہی کی کوشش کرنی چاہیے۔

             پرائز بانڈ سکیم صریح سود ہے ۔ اِس میں جس چیز کو پرائز کہا جاتا ہے، وہ دراصل، وہ سود ہوتا ہے، جو قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیا جاتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: حدیث میں جلّالہ کا گوشت کھانے سے جومنع کیا گیا ہے ، اُس سے مراد اُس جانور کا گوشت ہے، جو غلاظت کھانے کا عادی ہو جاتا ہے اور اِس وجہ سے اُس کے گوشت سے بو آنے لگتی ہے ۔ اُس کا گوشت کھانے سے منع کرنے کی وجہ بالکل فطری ہے ۔یعنی یہ کہ انسان کی فطرت اِس طرح کی بدبودار چیزیں کھانے سے گریز کرتی ہے۔شیور مرغی کا معاملہ اُس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: مسئلہ تقدیر کے حوالے سے دو طرح کی احادیث ہمارے سامنے آتی ہیں۔پہلی قسم تو وہ ہے جن کے بارے میں یہ بات صاف محسوس ہوتی ہے کہ اُن میں نبی ﷺ کی بیان کردہ اصل بات روایت ہونے سے رہ گئی ہے ۔جو الفاظ اِن روایات سے ہمارے سامنے آتے ہیں انہیں وہ شعور قبول نہیں کرتا ، جو قرآن مجید کے کسی طالب علم کو اُس سے حاصل ہوتا ہے۔اِن روایات کے علاوہ باقی رویات میں کوئی تضاد نہیں اوروہ آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں البتہ آسانی تفہیم کے لیے ان کے بھی گروپ بنائے جا سکتے ہیں۔مثلاً بعض میں علم الہی کا بیان ہے کہ اللہ تعالٰی کسی واقعے کے وقوع سے پہلے اپنے کمالِ علم کی بنا پر اُسے جانتا ہے۔اُس کا یہ کمال علم ،اُس کے کمال قدرت کی بنا پر کسی جبر کو مستلزم نہیں ہے۔اگر وہ اپنی قدرت اور اپنے علم میں کامل نہ ہوتا اور اُس کا علم ،اُس کے ذہن میں موجود طے شدہ مستقبل کا مرہون منت ہوتا تو بے شک پھر جبر لازم آتا۔ لیکن خدا کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔وہ احادیث جہاں آدمی کے اعمال اور اُس کے نیک بخت یا بد بخت ہونے کا بیان ہے،یہ بھی دراصل، خدا کے علم ہی کو بیان کرتی ہیں۔بعض احادیث خدا کی قدرت کو بیان کر تی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ خدا کی قدرت اِس کی حکمت کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ اِس بات کا انکار تو وہی کرے گا جو خدا کی صفات کے سارے معاملے کو صرف کسی ایک حدیث سے طے کرنا چاہے گا۔ وہ احادیث جہاں رزق ،زندگی اور موت وغیرہ کا ذکر ہے، ان میں دراصل، خدا کی طرف سے ملنے والی اُن نعمتوں اور تکالیف کا بیان ہے، جو خدا کی مطلق مرضی اور اُس کی لا محدود حکمت کے ساتھ انسان کی آزمایش کے لیے اُسے دی جاتی ہیں۔ظاہر ہے کہ اِس معاملے میں سارے کا سارا فیصلہ یک طرفہ طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ اُسی طرح کا ہے جیسا کہ ایک ممتحن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے امتحان دینے والے سے کون سا سوال پوچھنا ہے اور کون سا نہیں پوچھنا۔جن احادیث میں تقدیر پرغورسے منع کیا گیا ہے ان میں در اصل خدا کے لامحدود علم کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنے سے منع کیا گیا ہے ،کیونکہ یہ کوشش سراسر حماقت ہے۔‘‘وما اوتیتم من العلم الا قلیلا’’۔ انسان کا علم بہت محدود ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: آپ کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ آپ کے بھائی نے پورے شعور سے دو طلاقیں دی ہیں اور تیسری طلاق شعوراً روک رکھی ہے۔ اِس کے بعد پھر سے رجوع کر لیا ہے۔ یہ رجوع چونکہ عدت کے دوران ہی میں ہوا ہے، لہذا، نکاح ثانی کی تو ضرورت نہیں صرف یہ رجوع ہی کافی ہے۔ لیکن ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ دو طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور اب صرف تیسری کا موقع ہے۔ جونہی یہ تیسری طلاق بھی خدا نخواستہ دے دی گئی، تعلق ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گا۔آپ کا دکھ اور کرب اپنی جگہ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں انسانوں کو جب بھی ظلم کا موقع ملتا ہے، تو اُن میں سے ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں ، جو اُس موقع پر اپنی موت کو یاد رکھتے اور خدا سے ڈرتے ہیں۔آپ سوائے اِس کے کچھ بھی نہیں کر سکتیں کہ اپنے بھائی کو خدا کا خوف دلائیں۔ اگر وہ خدا کا ذرا بھی خیال نہیں کرتا، تو پھر بھی آپ اُسے خدا ہی کا خوف دلائیں۔ اِس لیے کہ ہمارے پاس اُس زبردست قہار اور اُس زورآور جبار کا خوف دلانے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ کسی کو ہم پکڑ نہیں سکتے،پکڑتا وہ خود ہے۔ہم چاہے بھائی ہوں باپ ہوں یا بیٹے ،کسی ظلم کرنے والے کو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ تم خدا کے عذاب کو آواز نہ دو۔اُس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔اُس کی رحمت ظالموں کی مخالف ہے۔ وہ ظلم کرنے والوں پر نہیں، بلکہ مظلوموں پر اور ظلم سے توبہ کرنے والوں کے لیے مہربان ہے۔ خود آپ ہرممکن حد تک اپنی مظلوم بھاوج کا ساتھ دیں۔ حالات کو بہتر کرنے کی تدابیر ضرور اختیار کریں۔ لیکن یہ تسلی رکھیں کہ اگر اُسے آخری طلاق بھی دے دی گئی ، تو اِس صورت میں اُس کے حق میں خدا کی طرف سے ضرور کوئی حکمت ہی ہو گی۔اللہ مصائب پر صبر کرنے والے کو بے پناہ اجر دیتا ہے اور اُس کے لیے آسانی کی راہیں کھولتا ہے۔ دین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اصل مسئلہ اُس کا نہیں ہے جس پر دنیا کی کوئی مصیبت آئی ہے ، بلکہ اُس کا ہے جو خدا کی گرفت میں آنے والا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اللہ کے سب صفاتی نام معرف باللام ہو کر آتے ہیں۔ یعنی اُن سے خاص ذات مراو ہوتی ہے۔ پس ‘ال’ کے بغیر یہ صفاتی نام کوئی انسان بھی رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ ایک انسان علی تو کہلا سکتا ہے، لیکن وہ العلی نہیں کہلا سکتا۔العلی صرف اور صرف خدا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: کھانے والی چیزوں میں سے حلت و حرمت کے حوالے سے جو شریعت نے حرام ٹھہرائی ہیں،وہ چار ہیں۔ مردار ، بہتا ہوا خون ، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر کیا جانے والا ذبیحہ۔یہ چیزیں تو شریعت کی طرف سے حرام کی گئی ہیں۔ اِس کے علاوہ کچھ چیزیں فطری طور پر کھانے والی نہیں ہیں۔ مثلاً بول و براز، درندے وغیرہ۔احادیث میں بعض مواقع پر اِسی فطرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خرگوش کو اِسی فطری حلت و حرمت کے حوالے سے حلال چیزوں میں شمار کیا گیا ہے اور بندر کو حرام چیزوں میں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: شیعہ امام کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے۔ مقتدی یہ نماز اپنے طریقے پر ہی ادا کرے گا۔اُن کی زائد تکبیریں اِس کے لیے زائد ہوں گی۔نمازِ جنازۃ میں کب کیا پڑھنا ہے، یہ فقہا کا استنباط ہے، اِس میں کوئی چیز نبیﷺ سے سنت یعنی لازم کی حیثیت سے ثابت نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: نمازِ تراویح کا جماعت کی شکل میں اِس طرح سے پڑھے جانا ، جیسے آج کل مساجد میں پڑھی جاتی ہے، یہ تو نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ آپ ﷺ کے پیچھے صحابہ نے رمضان میں بھی تہجد ہی کی نماز پڑھی ہے اورتراویح اصل میں تہجد ہی کی نما ز ہے ۔ تراویح آج کل جس شکل میں خصوصاً احناف کے ہاں پڑھی جاتی ہے،یعنی رکعتوں کی ایک خاص تعداد کی تعیین اور پھر اِس طرح سے عشاء کی نماز کے بعد کسی مسجد میں بس ایک ہی امام کے پیچھے پڑھنا ، اِس کی ابتد بے شک عمر فاروقؓ کی تجویز سے ہوئی ہے، البتہ عمر فاروقؓ کا اپنا عمل یہ نہیں تھا۔ وہ خود اِس میں شامل نہیں ہوتے تھے اور اِس کی جگہ وہ تہجد ہی کی نماز پڑھتے تھے۔

            سنت مؤکدہ وہ نوافل ہیں، جو نبی ﷺ نے خود بھی پڑھے اور امت کو اُن کے پڑھنے کی تلقین بھی کی اور سنتِ غیر مؤکدہ وہ نوافل ہیں جو نبی ﷺ نے خود پڑھے، لیکن امت کو اُن کے پڑھنے کی تلقین نہیں کی ۔سنتِ مؤکدہ واجب سے ملتی جلتی چیز ہرگز نہیں ہے۔ یہ وہ نوافل ہیں جنہیں پڑھنے کی نبی ﷺ نے بہت تاکید کی ہے اور اِس کا بہت اجر بیان کیا ہے۔ اِسے ترک کرنے پر گناہ نہیں ہوتا، بلکہ اِس پر ملنے والے اجر کا نقصان ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی نبی ﷺ کی اس تاکید کو ہلکا جانے اوراس کا استخفاف کرے تو گنا ہ ہو گا۔واجب احناف کی ایک اصطلاح ہے۔ وہ اِس کا اطلاق اُس عمل پر کرتے ہیں، جو قطعی الثبوت یعنی نبی ﷺ سے یقینی طور پر ثابت تو ہو، لیکن قطعی الدلالت نہ ہو، یعنی اُس کی تعبیر میں اختلاف ممکن ہو۔ چنانچہ اُن کے نزدیک ایسا عمل اپنی کسی نہ کسی تعبیر میں کیا جانا لازم ہے، اُن کے نزدیک اِس کا ترک کرنا گناہ ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

 ج: خالص موحد وہ ہے، جس کے دل میں توحید ہی توحید ہو ۔ اور خالص مشرک وہ ہے، جس کے دل میں شرک ہی شرک ہو۔ مشرکینِ عرب کو اللہ نے اِس لیے مشرک قرار دیا تھا کہ اُن کے دل شرک ہی شرک تھا۔رہا وہ شخص جو ہمیں شرکیہ اعمال میں پڑا ہوا نظر آتا ہے ، اُس کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کا دل بھی شرک سے آلودہ ہے،اِس کا پورا امکان ہے کہ وہ دل سے بھی مشرک ہی ہو اور توحید کی دعوت اپنی صحیح شکل میں اگر اُس تک پہنچے بھی تو وہ اُسے قبول نہ کرے۔ لیکن اُس کے بارے میں ہم یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو ، جونہی توحید کی دعوت اپنی صحیح شکل میں اُس تک پہنچے وہ اُسے قبول کر لے ۔ ـچنانچہ ہم اُس شخص کے بارے میں جو ہمیں بس مشرکانہ اعمال ہی میں مشغول نظر آتا ہے، کیسے یہ کہہ دیں کہ اُس کا دل شرک سے لازماً اُسی طرح آلودہ ہے، جیسے مشرکینِ مکہ کا تھا اور وہ بھی خدا کے نزدیک اُسی طرح سے حقیقی مشرک ہے، جیسے مثلاً مشرکینِ مکہ تھے۔ ہو سکتا ہے وہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ نہ ہو۔ہمارا اُس کے بارے میں کوئی حتمی بات کرنا دراصل، اُس کے بارے میں خدا کے علم کو بیان کرنا ہو گا۔ قرآنِ مجید کے بیان کے مطابق جو مشرک ہو گا، وہ جہنمی ہو گا۔لیکن عمدا اورناواققی کی بناپر کیے گئے شرک میں فرق کر نا ہو گا۔ اگر ہم عمد اور غیر عمد کو یکساں قرار دیں تویہ قرآنِ مجید کی صریح نص کے خلاف ہے۔ ارشادِ باری ہے: ‘‘و لیس علیکم جناح فیما أخطاتم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم’’۔(الاحزاب ۳۳: ۵)

‘‘اور جو بات تم سے غلطی سے ہو گئی اُس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو دل کے ارادے سے کرو اُس پر مؤاخذہ ہے۔’’

(محمد رفیع مفتی)

ج: جرم کی سزا دراصل، اُس کی شناعت اور اُس کی سنگینی کی بنا پر ہوا کرتی ہے، نہ کہ مدتِ جرم کی بنا پر۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ مدتِ جرم بھی جرم کی سنگینی میں اضافے کا باعث ہوتی ہے، لیکن جرم کی سنگینی کی واحد وجہ اُس کی مدت نہیں ہوتی ۔ بعض جرم چند لمحوں کے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے بے پناہ اثرات چھوڑتے ہیں۔ مثلاً کسی کو قتل کرنے کا جرم۔ چنانچہ اصل مسئلہ جرم کی شناعت کا ہے۔اگر کوئی شخص اپنے شفیق اور مہربان والدین کو قتل کر دیتا ہے، تو آپ بتائیے کہ اُس کے جرم کی سنگینی کس درجے کی ہے۔ ایک دوسرے پہلو پر غور کریں۔نیکی کے بدلے میں نیکی کی جائے، تو یہ خوبی ہے۔ لیکن اگر وفاکے بدلے میں بے وفائی کی جائے، ایثار کے بدلے میں لُوٹ لیا جائے،خدمت کرنے کے بدلے میں بے گار لی جائے، محبت کرنے کے بدلے میں دشمنی کی جائے، تو یہ سراسر ظلم ہو گا ، بہت بڑا ظلم۔اور اسی لحاظ سے سنگین بھی قرار پائے گا۔

            خدا انسان کا خالق بھی ہے اور رب بھی، اُس کا منعم بھی ہے اور محسن بھی۔ انسان محض اور محض خدا کے فضل کے سہارے کھڑا ہے۔انسان کے ساتھ خدا کا رویہ انتہائی احسان کرنے والے کا ہے۔ اُس کے ساتھ انسان کا معاملہ برابر کانہیں ہے۔ انسان خدا کے بل بوتے پر قائم ہے۔ وہ اُس کا سراپا محتاج ہے ۔ چنانچہ پھر انسان کی طرف سے اتنے اچھے اور اُس کی زندگی میں اتنی اہمیت رکھنے والے خدا کے ساتھ، ایک لمحے کی سرکشی بھی اپنے اندر لا محدود سنگینی رکھتی ہے۔ اِس لیے کہ یہ مخلوق کی اپنے خالق کے ساتھ سر کشی ہے۔ یہ بندے کی اپنے رب کے ساتھ سر کشی ہے اِس جرم کی شناعت ماپی ہی نہیں جا سکتی۔ انسان جب فی الواقع مجرم بن کر جرم کرتا ہے تو اُس کی اپنی جانب سے جرم زماں و مکاں کی حدوں میں محدود نہیں ہوا کرتا۔ فرعون نے اپنے ارادے اور اپنی نیت کے اعتبار سے کسی محدود وقت تک کے لیے فرعونیت اختیار نہیں کی تھی اور اپنی طرف سے اُس نے اپنی فرعونیت کا دائرہ صرف ملکِ مصر تک محدود نہیں کیا تھا ۔ اُسے خدا نے جتنا موقع دیا تھا، اُس میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا اور جتنا علاقہ دیا، اُس سب میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا تھا۔ خدا اگر اُس کے لیے مواقع اور علاقے کو لامحدود کر دیتا تو کیا خیال ہے کہ ہم اُسے آج ایک مہربان بادشاہ کے طور پر دیکھ رہے ہوتے، نہیں بالکل نہیں۔ خدا سے سرکشی اپنی اصل ہی میں زماں و مکاں سے بالا ایک لا محدود جرم ہوتا ہے۔سرکشی کرنے والا ایک خاص مدت کا تعین کر کے سرکشی نہیں کرتا۔اسے اگر مزید موقع ملتا تو وہ مزید سرکشی کرتا گویا اس کی نیت لامحدود ہی کی ہوتی ہے ۔اس لیے اس کی سزا بھی لامحدودہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: بعض احادیث میں اِس طرح کی بات آئی ہے، لیکن وہ احادیث ایک تو اتنی مستند نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ یہ اگر کوئی حدیث ہے بھی تو یہ قرآن مجید کی آیات کے خلاف کوئی مفہوم نہیں رکھتی۔ دوزخ کی ابدیت کوقرآنِ مجید کی کئی آیتیں بیان کرتی ہیں۔مثلاً :‘‘ومن یعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جہنم خٰلدین فیہا ابدا۔’’ ( الجن ۷۲:۲۳) جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے ، تو بے شک اُن کے لیے جہنم کی آگ ہو گی،جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: امت نے نماز بخاری و مسلم کی احادیث سے نہیں سیکھی، بلکہ یہ دین کے اُس عملی تواتر سے سیکھی ہے، جس پر اصل دین یعنی قرآن و سنت کھڑے ہیں۔اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ جیسے امام بخاریؒ کو میسر آنے والی کوئی صحیح حدیث قرآن کی آیت میں تبدیلی نہیں کر سکتی، اِسی طرح کوئی صحیح حدیث نماز کی اُس شکل میں اضافہ یا کمی بھی نہیں کر سکتی ، جو شکل ہمیں نبی ﷺ کی جاری کردہ سنت سے ملی ہے۔ اگر نماز اپنی اصل میں راویوں کے ذریعے سے ملنے والی احادیث پر کھڑی ہوتی، تو پھر ہماری یہ بات ٹھیک نہ تھی۔ پھر جونہی کسی راوی سے ہمیں کوئی حدیث ملتی ہم نماز کی شکل اُس حدیث کے مطابق کر لیتے۔ حدیث اور سنت کے فرق کے حوالے سے آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حدیث ہمیں راوی سے ملتی ہے اور سنت ہمیں امت (کے عملی تواتر )سے ملتی ہے، اِس لحاظ سے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔سنت دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی ﷺ نے باقاعدہ عملاً اس امت میں رائج کیا ہے اور صحابہ کو عملًا سکھایا ہے اور صحابہ نے مابعد نسلوں کو سکھایا ہے اور قرآن کی طرح نسلاً بعد نسلاً تواتر سے امت کو منتقل ہوئی ہے ۔ نماز کا طریقہ بھی عملاً اسی سنت سے منتقل ہوا ہے نہ کہ احادیث سے البتہ احادیث میں بھی اس طریقے کا ذکر موجود ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: ختم نبوت کی بے شمار حکمتیں علما نے بیا ن کی ہیں لیکن میرے خیال میں یہ سوال خدا کے باطن میں جھانکنے کی لاحاصل کوشش ہے۔ ہم بس یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے علم کے مطابق جہاں جہاں اور جب جب رسول بھجنا چاہا ہے، بھیجا ہے اور جب اُس کے نزدیک اِس کی ضرورت نہیں رہی اُس نے ختم نبوت کا اعلان کر دیا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اس کا مطلب ہے ( اُس دن ہم جہنم سے کہیں گے کہ کیا تو بھر گئی ہے اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے؟)یہ باتیں متشابہات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اِس دنیا اِن کا سمجھنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے، کیونکہ ہم اِن کی حقیقت کا کوئی علم رکھتے ہی نہیں۔ لہذا ،اِن کی کھوج کریدکرنا حماقت ہے۔اِس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔یہ راز اگر خدا نے چاہا تو انسان پر آخرت ہی میں کھلیں گے۔ ہم سچے ذریعے سے ملنے والی بات پر پورا یقین رکھتے ہیں،گو اُس کی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ نبی ﷺ کا نام سن کر اگر کوئی درود پڑھنے سے لاپروائی کرے، تو یہ غلط ہے۔ یہ دراصل، ہم پر نبی ﷺ کے ایک اہم حق کو ادا کرنے سے لاپروائی ہے۔ البتہ درود کا یہ پڑھنا نماز اور روزے کی طرح فرض نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: بہائی فرقے کا جو استدلال آپ نے لکھا ہے یہ کوئی علمی استدلال نہیں ہے، بلکہ یہ صرف ایک منطقی مغالطہ ہے جو یہ حضرات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔نبوت کے معاملے میں اِس استدلال پر آپ غور کریں۔ اِس کے مطابق ہرامت کی لازماً ایک انتہا ہوتی ہے، اُس انتہا کے بعد لازماً، ایک رسول آتاہے اور پھر وہ ایک نئی امت تشکیل دیتا ہے، جس کی پھر ایک انتہا ہو گی اور جس کے بعد پھر ایک رسول آئے گا۔ یہ استدلال متعلقہ آیات کے حوالے سے اپنے اندر کیا سقم رکھتا ہے، یہ الگ بحث ہے لیکن ایک عجیب بات آپ یہ دیکھیں کہ اِس کے نتیجے میں یہ بات ہمیشہ کے لیے طے ہو جاتی ہے کہ نہ کبھی امتوں کا پیدا ہونا اور مرنا ختم ہو گا اور نہ کبھی رسولوں کا آنا۔ نتیجتہً یہ ثابت ہوا کہ یہ دنیا ہمیشہ ہمیش کے لیے باقی رہے گی، اِس میں رسول آتے رہیں گے اور امتیں پیدا ہوتی رہیں گی۔ چنانچہ قرآن کے وہ سب بیان غلط ہوئے، جن میں اِس دنیا کے خاتمے کی خبر دی گئی ہے۔

            سورہ اعراف کی جن آیات کے حوالے سے یہ استدلال انہوں نے بیان کیا ہے ، اُن آیات میں فی نفسہ نبوت کا مسئلہ بیان ہی نہیں کیا جا رہا کہ اُس کا سلسلہ چلتا رہے گا یا کبھی بند ہو جائے گا۔ بلکہ اُن آیات میں بنی نوع آدم سے یہ کہاجا رہا ہے کہ اگر اُن کے پاس انھی میں سے رسول آئیں، یعنی اگر آئیں ،تو انہیں اُن کی بات ماننا ہو گی، وغیرہ وغیرہ۔ آپ دیکھیں کہ اِس آیت سے ہم ختم نبوت کا عقیدہ صحیح ہے یا نہیں، اِس مسئلے کو کیسے سمجھیں، یہ آیت تو اِس کے بارے میں کوئی بات کر ہی نہیں رہی۔ پھر مسئلہ یہ ہے ہے کہ ایک دوسری آیت ختمِ نبوت کے اِس مسئلے کے بارے میں باقاعدہ بات کر رہی ہے۔ اُس آیت کو ہم کیسے چھوڑیں اور اِس مسئلے کے لیے خاص اِس آیت کی طرف کیسے رجوع کریں۔مختصراً یہ کہ سورہ اعراف کی اِن آیات کا اول تو ترجمہ ہی غلط کیا گیا ہے، بالفرض محال ہم اِس ترجمے کو صحیح مان بھی لیں، تو ختم نبوت کے بارے میں یہ آیات انتہائی غیر واضح ہیں، چنانچہ ہم خاتم النبیین کی واضح آیت کے ہوتے ہوئے ، کسی دوسری طرف کیسے رجوع کر سکتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: دنیا میں نیکیوں پر دنیوی نعمتوں کی شکل میں انعام کا ملنا لازم نہیں ہے۔ خدا اگر کسی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے، تو وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن لازم نہیں ہے ۔ یہ دنیا چونکہ اصلاً، آزمایش کے لیے بنائی گئی ہے۔ لہذا، یہاں پر اگر کسی کو کوئی انعام دیا جاتا ہے تو وہ دراصل، اُس کی آزمایش ہی کے لیے ہوتا ہے، جیسا کہ ہم سورہ نمل کی آیت (۴۰) میں دیکھتے ہیں۔ فرمایا:قال ہذا من فضل ربی لیبلونی أ اشکر ام أکفر۔ یعنی ‘‘(سلیمان) نے کہا کہ یہ (تختِ بلقیس کا آ جانا) میرے رب کے فضل سے ہے،تا کہ وہ مجھے جانچے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری’’۔

(محمد رفیع مفتی)

ج۔ بے شک انسان کو اُس کا مقدر رزق ہی ملتا ہے۔البتہ کوشش کرنا فضول نہیں، کیونکہ اِس سے وہ رزق ملتا ہے، جس کا ملنا کوشش کے ساتھ ہی مقدر ہوتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: نظر بد انسانوں کے تجربے میں آنے والی ایک چیز ہے، یہ اپنے کچھ نفسیاتی اثرات رکھتی ہے۔ دین نے اِس طرح کی تمام چیزوں کے معاملے میں ہمیں خدا کی پناہ میں آنے کی تعلیم دی ہے۔ کلماتِ تعوذ سے ایک مسلمان اللہ کی حفاظت میں آتا اور اپنے لیے اُس خاص مشکل کے حوالے سے خدا کی مدد کا طالب ہوتا ہے، جس مشکل کو وہ تدبیر سے رد کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: ہو سکتا ہے آئے ہوں لیکن اس حوالے سے ہمیں قرآن و حدیث سے کوئی معلومات نہیں ملتیں اس لیے یقینی بات کہنا ممکن نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: جنات بھی انسانوں کی طرح مکلف ہیں اور اپنے اعمال کے جواب دہ ہوں گے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اذکار مسنونہ کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا صرف درست ہی نہیں ،بہت خوب ہے۔ اِن کے اصل اثرات وہ ہیں جو تقویٰ ، نیکی ، تفویض ، توکل ، صبر اور شکر وغیرہ کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: یہ اس بات کی تعبیر ہے کہ زمین زرخیز ہو تو بارش سرسبزی کا ذریعہ بنتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: صدقہ کسی ظالم خدا کو دیا جانے والاجگا ٹیکس نہیں ہے کہ وہ یہ لے اور ہم پر اپنا ظلم بند کرے اور نہ ہی رشوت ہے بلکہ صدقہ و خیرات اِس امر اور خواہش کا اظہار ہے کہ بندہ خدا کی طرف بڑھنا چاہتا ہے، اُس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُسے اُس کے گناہوں پر سزا نہ دی جائے۔اُس نے خدا کی مخلوق یعنی اپنے بھائی بندوں کے ساتھ اپنا رویہ درست کر لیا ہے ، وہ اُن کا حق پہچانتا ہے اور اُن کی ضروریات پورا کرنے میں اُن کا معاون بن گیا ہے۔لہذا خدا سے درخواست ہے کہ وہ اس کی مشکلات میں مدد فرمائے ۔صدقہ دعا کی عملی صورت ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اللہ تعالی کی ذات کا کوئی تصورقائم کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا علم محدود ہے ۔ ہم صرف انہی باتوں کا تصور کر سکتے ہیں جو یا تو ہمارے حواس کی گرفت میں آچکی ہیں یا جن کا تصور قائم کر نا ہمارے لیے ممکن ہے ۔ البتہ اللہ کی صفات کا ہم ایک تصور قائم کرتے ہیں یعنی وہ حکیم ہے ، رحمان ہے ،ر حیم ہے ، وہ اس پوری کائنات کا خالق ہے ،اس کی عظمت بے پناہ ہے، اس کی قدرت پوری کائنا ت کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس سے ہمارے سامنے ایک ایسی ہستی کاتصور آتا ہے جس کی جلالت ، جس کی شان ، جس کا مقام ، بہت بلند و بالا ہے۔ اس سے زیادہ تصور کرنے کی کوشش کریں گے تو جو بھی ہیولا بنے گا وہ ہمارا اپنا ذاتی ہیولا ہو گا اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہو گی۔ کہنے کو تو آپ کوئی بھی چیز اپنے ذہن میں قائم کر سکتے ہیں یعنی ہر آدمی کا پروردگار اس کی ذہنی ساخت کے مطابق بن جائے گا۔ لیکن اس طرح کے کسی بھی تصور کو بھی خدا نہیں کہنا چاہیے۔جوخدا ہمارے احاطہ تصور میں آ گیا وہ خدا ہی کیا ہوا۔وہ تو پھر محدود ہو گیا۔ ہمارے سامنے اللہ کی صفات کا ایک بڑا تفصیلی بیان قرآن مجید میں ہے بس ان صفات سے جو ایک ہیولا ہمارے ذہن میں بنتا ہے وہ صفاتی ہو گا اسی کو سامنے رکھ کر خیال کریں کہ آپ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں ۔ حضورﷺ نے اس مشکل کو حل کیا ہے کہ تم اللہ کی بندگی کرو اس طرح جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو وہ توبہر حال تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔چنانچہ اس کا تصور کر لینا چاہیے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔یہ بھی کافی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مطلب یہ ہے کہ اس دنیامیں کی جانے والی کوئی بھی نیکی اورکوئی بھی بدی ضائع نہیں جائے گی۔سب کاوزن ہو گا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی کو ہر برائی کا بدلہ بھگتنا ہو گا او ر ہر نیکی اس کے لیے انفرادی جزا کا سبب بنے گی بلکہ بحیثیت مجموعی میزان میں اپنا وزن ڈالے گی ۔یعنی جب آپ نے ایک پلڑ ے میں کچھ باٹ رکھنا شروع کیے تو چھٹانک بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے اور سیر بھی۔اگر آپ پلڑے سے ایک چھٹانک اٹھالیں توکوئی تو فرق واقع ہوتا ہے نا ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے وزن میں اپنا کردار ادا کر دیا۔ باقی رہی یہ بات کہ یہ میزان اور پلڑا کیا ہے یہ امور متشابہات میں سے ہے۔یہاں ہمیں بات سمجھانے کے لیے کہی گئی ہے اس کی اصل حقیقت قیامت ہی میں سامنے آئے گی۔

 کمپیوٹر کی ایجاد نے سمجھا دیا ہے کہ ایک ذرے کا وزن بھی کیا جاسکتاہے تو اللہ کے پاس کتنے حساس کمپیوٹر ہیں اس کااندازہ کون کر سکتا ہے ؟کسی بھی نیکی اورگناہ کوہلکا نہ سمجھا جائے یہ سب پلڑے کو جھکانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرے نزدیک اسلامی قانون کی رو سے مسلمانوں پر زکوۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔ البتہ بعض علما ٹیکسوں کے نفاذکو جائز قرار دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کوئی لازمی بات نہیں ہے۔ اس بات کو پسندیدہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ حضورﷺ کے زمانے میں سادہ نظام تھا اور حکومت کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر جس طرح آج ہوتا ہے پلاننگ کرنا ممکن بھی نہ تھا تو اس میں یہ چیز روا رکھی گئی یا اس کو زیادہ قابل ترجیح سمجھا گیا کہ جہاں کی زکوۃ ہے وہیں پر خرچ کی جائے۔ یہ کوئی قانونی بات نہیں ۔اب حکومت مجموعی صورت حال کو سامنے رکھ کر پلاننگ کر سکتی ہے۔ مثلاً اگر بلوچستان کی زکوۃ صرف بلو چستا ن میں اورپنجاب کی زکوۃ صرف پنجاب میں خرچ کی جائے تو کتنا عدم توازن پیدا ہو جائے گا اس لیے مجموعی نظام کو سامنے رکھ کر ہی پلاننگ کرنی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے معاشرے کے حوالے سے یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے اگر اتنی سادہ بات ہوتی تو میں جواب دیتا کہ تحریراً یا زبانی کہہ دینے کے بعد حق واپس لینااحمقانہ بات ہے۔ہمارے ہاں توایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ جس میں عورتیں اپنا حق دینے کے لیے نفسیاتی طور پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ اچھے بھلے مذہبی گھرانوں میں بھی خواتین کا میراث میں سے حصہ لینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وہ اگر اس کے بارے میں کوئی ذکر کر دیں تو اس کو محبت اور مودت کے جذبات کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور ان پر ایسا ذہنی اور نفسیاتی دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ جس میں بعض اوقات وہ بیچاری اس طرح کی تحریریں بھی لکھ دیتی ہیں اور تقریریں بھی کہہ دیتی ہیں۔ حقیقت میں بات ایسے نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں تو بیویوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے یعنی شوہر دوسرے تیسرے دن ہی اپنا مہر معاف کروا لیتے ہیں ۔اس حوالے سے میرے نزدیک ان اہل علم کی رائے بالکل ٹھیک ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی خاتون یہ کہتی ہے کہ میں نے وہ معافی واپس لے لی ہے تو اس کا مہر ادا کیا جاناچاہیے۔ یہی معاملہ میراث کا بھی ہے اگرکوئی خاتون وہ مخصوص حالات گزرنے کے بعد اپنے حق کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے حق دیا جانا چاہیے۔ یہ باتیں میں نے اصولی کہی ہیں۔اگر کوئی خاص نوعیت کا معاملہ ہے تو اسے اس کی انفرادی نوعیت کے لحاظ دیکھا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قضائے عمری کوئی چیز نہیں ہے البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر کسی آدمی کی بہت زیادہ نمازیں قضا ہو گئی ہوں اور اب اسے شعور آیا ہو تو اسے نمازیں قضاکرنی چاہیے۔ اب وہ نمازیں قضا کیسے کرے اس کے بارے میں اہل علم کے تین موقف ہیں ۔تین موقف کیوں ہیں اس لیے کہ اس میں اللہ اور اس کے پیغمبر نے کوئی بات نہیں کہی ۔ نہیں کہی تو ظاہر ہے کہ اجتہاد کیا جائے گا ۔ اجتہاد کیا تو اجتہاد کرنے والوں کی تین آرا ہو گئیں۔ ایک یہ ہے کہ آپ باقاعدہ ترتیب کے ساتھ وہ نمازیں پڑھیں گے یعنی یہ نیت کر کے پڑھیں گے کہ میں آج 19 جنوری 1901 کی نماز پڑھ رہا ہوں ۔ دوسرا نقطہ نظر جو امام ابن تیمیہ کا ہے وہ یہ ہے کہ آپ جو نوافل پڑھتے ہیں ان کی جگہ آپ فرض نماز کی نیت کرلیاکریں۔اللہ تعالی وہ بھی قبول کرے گااور نفل کا اجر بھی دے دے گا ۔ تیسرا نقطہ نظر امام ابن حزم کا ہے وہ یہ کہتے ہیں چونکہ اس میں کوئی قانون سازی اللہ اور اس کے رسول نے نہیں کی تو ہمارے لیے اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اللہ تعالی سے معافی مانگیں ۔ تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ آپ کو جو بات معقول لگے اس کو اختیار کر لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ زکوۃ صرف اڑھائی فیصد نہیں ہے ، زکوۃ مال میں اڑھائی فیصد ہے ، پیداوار میں پانچ فیصد ، دس فیصداور بیس فیصد ہے۔ پیداوار کی موجودہ زمانے میں ایسی قسمیں وجود میں آگئی ہیں جو قدیم زمانے میں نہیں تھیں ۔ زرعی پیداوار بھی پیداوار ہے اور صنعتی پیداوار بھی پیداوار ہے ، ڈاکٹر کی فیس بھی پیداوار ہے ، یہ کالجوں کی فیسیں بھی پیداوار ہے۔ پیداوار کے ذرائع لامحدود ہو گئے ہیں۔ زکوۃ مال میں اڑھائی فیصد ہے ۔ اسلام میں زکوۃ حکومت کا ٹیکس ہے جو اس نے بالجبر لے لینا ہے ۔ اسلام کااصل حکم انفاق ہے او رانفاق کے بارے میں اللہ تعالی کے مطالبہ جو کچھ ضرورت سے زیاد ہ ہے وہاں تک ہے۔ یعنی آپ کی ذاتی کاروباری ضرورتوں سے جو کچھ زیادہ آپ کے پاس موجود ہے، یہ اصلاً معاشرے کاحق ہے اور آپ کے ذمے ہے کہ معاشرے کویہ حق لوٹائیں۔ آپ کے پاس مال پڑا ہوا ہے تو امانت ہے ۔جیسے ہی انفاق کا کوئی موقع آپ کے سامنے آجائے آپ فراخدلی کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کیجیے اورقرآن یہ کہتا ہے کہ جو آدمی انفاق کا موقع پیدا ہونے کے بعد بھی اپنی ضروریات سے زائدمال اللہ کی راہ میں نہیں دیتا وہ جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اسکی سزا قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ اس کاوہ مال آگ میں تپایا جائے گااور اس سے اس کی پیٹھ کو اور اس کی پیشانی کو قیامت میں داغ دیا جائے گا ۔ اس لیے صرف یہ خیال نہ کریں کہ قرآن نے صرف اڑھائی فیصد زکوۃ عائد کی ہے ، زکوۃ بھی اڑھائی فیصد ، پانچ فیصد، دس فیصد اور بیس فیصد ہے اور یہ تو ایک لازمی ٹیکس ہے جو حکومت قانون کی قوت سے لے لے گی ۔ اصل حکم انفاق کاہے اور انفاق ہی پر قرآن نے تمام درجات کی بنیاد رکھی ہے اور جب لوگوں نے پوچھا کہ اس کی آخری حد کیا ہے تو کہا یسئلونک ما ذا ینفقون قل العفو کہ سارے مطالبات ہمارے اس زائد مال میں ہیں جو تمہاری ضرورتوں سے فاضل تمہارے پاس ہے ۔ ضرورتیں کیا ہوتی ہیں وہ ذاتی بھی ہوسکتی ہیں ، کاروباری بھی ہو سکتی ہیں ، حال اور مستقبل کی بھی ہو سکتی ہیں۔ ان کے علاوہ جوبھی مال ہے وہ آپ کے پاس اصل میں معاشرے کی امانت ہے ۔مال کے بارے میں اسلام کا قاعد ہ قانون یہ ہے کہ وہ حلال ذرائع سے کمایا گیا ہو۔ اس میں کسی پر ظلم یازیادتی نہیں ہونی چاہیے ۔اور دوسری چیز بتا دی ہے کہ جو کچھ بھی آپ نے کمالیا ہے تو اپنی ذات پر خرچ کرنے میں بھی آپ کو اسراف کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے یعنی فضول خرچی نہیں ہونی چاہیے اور تیسری بات یہ کہی ہے کہ جو ضرورتوں سے زیادہ ہے وہ معاشرے کا حق ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حج الگ چیز ہے ، عمرہ الگ چیز ہے ۔ آپ کو اللہ تعالی نے سہولت عطا فرمائی آپ نے عمرہ کر لیا ۔ اللہ توفیق دے گا تو آپ حج بھی کر لیں ۔ حج کے لیے استطاعت شرط ہے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے عمرہ کر لیں تو حج فرض ہو جائے گا ۔ قرآن نے یہ کہا ہے کہ من استطاع الیہ سبیلا آدمی کے پاس اگرجسمانی ، مالی استطاعت ہے تو اس کو حج کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا انحصار آپ کے حالات پر ہے بعض اوقات ایساہوتا ہے کہ عمرے ہی کے پیسے ہیں اوراتنا ہی وقت ہے۔ایسے میں انسان عمرے کی سعادت سے کیوں محروم رہے ۔اور اگر حج کے لیے آپ کے پاس ذرائع موجود ہیں تو پھر ضرور حج کریں حج فرض ہے اور عمرہ تو ایک نفل عبادت ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فرض نماز تو جمعہ کے دن دورکعت ہی ہے وہ آپ نے پڑھ لی تو آپ مواخذہ سے بچ گئے اور ذمہ داری اد ا ہو گئی۔ اس کے بعد نفل نمازہے جمعہ سے پہلے حضورﷺ نے کوئی نفل نہیں پڑھے سوائے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے۔ جمعے کے بعد کبھی آپ دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کبھی چار رکعت۔اب بعد کے لوگوں نے کہاکہ کبھی دو بھی پڑھ لیتے تھے اور کبھی چار بھی تو دو بھی پڑھ لیتے ہیں اور چار بھی تو انہوں نے چھ بنا دیں۔ نفل نماز ہے کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو بڑی اچھی بات ہے پڑھ لے لیکن حضور سے اتنا ہی ثابت ہے ۔ یہ بات کہ جمعہ حکومت کے بغیر نہیں ہوتا اصول میں بالکل ٹھیک ہے ۔ جب کوئی عمل آپ خواہ تیمم کے طریقے پر ہی کر لیں تو پھر اس میں احتیاطاً کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔یعنی آپ نے تیمم کیا اور آپ کو اطمینان تھا کہ اس وقت پانی نہیں ہے تو تیمم کر کے آپ نے نماز پڑھ لی اور پھر پانی میسر ہو گیا تو احتیاطا ًنماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے احتیاطی ظہر جس کو کہاجاتا ہے یہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ لوگوں کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالا جاتا ہے۔جب امت اس بات پر متفق ہو گئی ہے کہ حکمران جب تک اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ہم جمعہ پڑھتے رہتے ہیں تو یہ جمعہ ہی ہے ۔جمعہ ہی پڑھیے آپ کی ذمہ داری پوری ہو گئی ۔باقی کام حکمرانوں کاہے جب اللہ ان کو توفیق دے گا وہ مسجدوں میں جمعہ پڑھائیں گے تو اس وقت دیکھا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی صحیح روایت اس بارے میں نہیں ہے۔ لوگوں میں بس یہ بات مشہور ہو گئی ہے اور عام طور پر وہ یسین پڑھتے ہیں ۔البتہ میں نے سورہ یسین کو بہت غور سے پڑھا ہے لیکن اس میں مجھے کوئی بات مردوں سے متعلق نظر نہیں آئی۔ ساری باتیں زندوں سے متعلق ہیں تو اس وجہ سے میرا خیال یہ ہے کہ کبھی زندوں کو بٹھا کر یہ سورۃ سنانی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں زیادہ تر تعلیما ت ایسی ہیں جو قیامت تک کے لیے واجب الاتباع ہیں جبکہ کچھ وقتی نوعیت کے احکام بھی ہیں۔یہ بات قرآن سے واضح ہو جاتی ہے کہ یہ حکم صرف نبی ﷺ کے لیے ہے یا صرف آپ کی ازواج کے لیے ہے یا صرف اس دور کے مسلمانوں کے لیے ہے۔ باقی تعلیمات اوراحکام قیامت تک کے لیے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ کا بندہ بن کر رہنا ، قرآن نے اس کو بیان کر دیا ہے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔

(جاوید احمد غامدی)

 ج: والدین کے ساتھ ہر حال میں حسن سلوک کیا جائے گا اور دنیا میں ان کی اطاعت کا جو دستور ہے اسے اختیارکیا جائے گاسوائے اس کے کہ وہ دین کے بار ے میں کوئی ایسی بات منوانا چاہیں جو غلط ہو ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ مشکل اس وقت بہت سے لوگوں کو پیش آرہی ہے اور اس کی وجہ ہمارے ہاں تربیت کا انتہائی ناقص ہونا ہے ۔تربیت کا جو نظام خاندانی ماحول میں موجود تھا وہ بھی ختم ہو گیا ۔ تربیت کے جو مواقع اساتذہ کی جانب سے ملتے تھے وہ بھی تعلیم کے کاروبار بن جانے کے بعد ختم ہو گئے۔ یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری سوسائٹی کا بھی ہے ۔اگرچہ اللہ نے والدین کا بڑا حق قائم کیا ہے اور اپنے بعد سب سے بڑا حق انہی کاقرار دیا ہے لیکن بعض اوقات والدین بھی واقعتا نہایت غلط رویے اختیار کرتے ہیں۔ایسی صورت میں کیارویہ اختیار کیا جائے یہ ایک مشکل امر ہے۔میرے خیال میں اس کو اپنے لیے امتحان سمجھنا چاہیے۔ یہ خیال کیجیے کہ اللہ نے آپ کو اسی آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔اور یہ کہ کسی انسان کے لیے امتحان اور آزمائش کا کون سا میدان ہوگا اس کا انتخاب اللہ خود ہی کرتے ہیں ۔آپ کے لیے امتحان کا یہ میدان ہی اللہ کی مشیت ہو گی ۔اگر کسی شخص کو والدین کی طرف سے یہ معاملہ پیش آ گیا ہے تواس کو بہت سلیقے کے ساتھ یہ عزم کر لینا چاہیے کہ مجھے اس میں کامیاب ہونا ہے ۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ بہت صبر سے کام لیں ۔ جتنی بات کرنی ضروری ہو اتنی بات کریں ، بے جا بحث سے گریز کریں ۔ جو بات نہیں ماننے کی اس کے بارے میں شائستگی سے بتا دیں کہ یہ ممکن نہیں ہے اور بس خاموشی اختیار کر لیں ۔ خاموشی پر اگر کوئی رد عمل ہوتا ہے تو ا سکو بھی خاموشی سے برداشت کر لیں اور اپنی طرف سے کوئی زیادتی ،کوئی بے ادبی، کوئی بدتمیزی ہر گز نہ کریں۔ اس لیے کہ آپ ایک بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں اور اس میں اللہ سے دعا بھی کرتے رہیں کہ وہ آپ کو کامیابی عطا کرے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انسان کے اندر اگر مذہب نے اخلاقی تبدیلی پیدا نہیں کی تو کچھ نہیں کیا۔اخلاقی اصلاح کے بغیر نمازیں ، روزے ، حج ، زکوۃ یہ سب کچھ ضائع ہو جائے گا۔اصل امتحان یہی ہے جس میں آپ کو ڈالا گیا ہے اور اس امتحان کا سب سے بڑا میدان آپ کا گھر ہے ۔اس لیے کہ وہاں توانسان بالکل ‘‘برہنہ ’’ ہوتا ہے۔ آپ دوسروں کے سامنے تو اپنے اوپر خول چڑھا سکتے ہیں ، ان کوفریب دے سکتے ہیں مگر گھر میں یہ نہیں کر سکتے ۔بیوی بچوں کے ساتھ انسان اخلاقیات کے کس مقام پر کھڑا ہے اسی سے اس کے اخلاق کا تعین ہو گا۔اچھوں کے ساتھ اچھا ہونا کون سا اخلاق ہے اور اس میں آپ کاکیا کمال ہے۔کمال تو یہی ہے کہ بروں کے ساتھ اچھے بن کر دکھائیے ۔ قرآن نے کہاہے کہ ادفع بالتی ھی احسن یعنی آپ برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیں ۔ آپ کو اللہ نے اگر باپ کے مقام پر رکھا ہے تو اپنے مرتبے کو پہچانیے ۔ قرآن ایسے موقعوں پر کہتاہے کہ لا تنسو الفضل بینکم یعنی اپنی اس فضیلت کو مت بھولو جو اللہ نے تم کو دی ہے ۔باپ کی جگہ پر رکھاہے تو باپ تو سراپا شفقت ہستی ہوتی ہے ۔سراپا محبت ہستی ہوتی ہے ۔ آپ کو ایک دن اپنے مالک کے حضور پیش ہونا ہے اور وہاں جو سب سے بڑا امتحان ہے جس کا نتیجہ نکلنا ہے وہ آپ کے اخلاقی وجود کا امتحان ہے ۔ اس میں کامیابی کو اصل ہدف بنائیے باقی چیزوں میں کوئی کمزوری بھی رہ گئی تو امیدہے اللہ معاف کر دیں گے لیکن یہ معاملات انسانی حقوق کے ہیں اور انسانی حقوق کے معاملات کے بارے میں ایک دوسرا آدمی بھی اللہ کے سوا آپ کا گریبان پکڑنے والا موجود ہو گا ۔ کیا کریں گے وہاں جب وہ گریبان پکڑے گا اور یہ کہے گا کہ میرا حق ادا نہیں ہوا ۔ وہاں پھرآپ کو کوئی بچانے والا نہیں ہو گا ۔ ہر آدمی اپنے اعمال کردار کا جائزہ لے اور کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ میں جو اخلاقی بدتمیزیاں کرتا ہوں اس کا ازالہ یہ ہے کہ دو نفل اور پڑھ لوں گا یا دوروپے خیرات اور کر دوں گا ۔ ایسے نوافل اور ایسی خیرات اللہ منہ پر ماردیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا فیصلہ کر دیا تھا جب اس بی بی کے بارے میں پوچھا گیا کہ ہمسائے اس کے اخلاق سے تنگ ہیں لیکن نمازیں بہت پڑھتی ہے ، بڑی تہجد گزار ہے ، تو آپ نے فرمایا کہ جہنم میں جائے گی ۔تو اس وجہ سے یہ سمجھ لیجیے کہ اصل امتحان کیا ہے ، اصل امتحان یہ ہے کہ آپ نے اپنی اخلاقی پاکیزگی کا کتنا اہتمام کیاہے اور اخلاقی پاکیزگی کے لیے باہر مت جائیے اس لیے کہ باہر تو آدمی بڑا مودب، بہت شائستہ، بڑی عمدہ باتیں کرتا ہے ۔لیکن جیسے ہی گھر کے دروازے میں داخل ہو گا تو سارا لبادہ اتر جائے گا۔ اس سے بڑی کوئی منافقت نہیں ہے اس لیے سب سے پہلے اپنے گھر میں اعلی انسان بننے کی کوشش کی جائے ، آپ وہاں کامیاب ہو گئے تو سمجھیے کہ سارے میدانوں میں کامیاب ہو گئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی نے جو جانور پیدا کیے ہیں ان میں کچھ جانوردرندے کہلاتے ہیں جیسے شیر اور چیتا وغیرہ اور انسان کی فطر ت یہ ہے کہ انسان انہیں نہیں کھاتا۔یہ درندے گوشت خور ہیں۔ بعض جانور ایسے ہیں جنہیں انسان کھاتا ہے مثلاً بکری گا ئے وغیرہ یہ جانور سبزی خور ہیں۔ چنانچہ جو جانور انسان کے کھانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں وہ سبزی خور جانورہیں ۔گوشت خور جانور انسان کے کھانے کے لیے نہیں۔سور واحد جانور ہے جو بکری کی Specie (نسل) سے ہے ۔ لیکن گوشت کھاتا ہے اور سبزی بھی اس وجہ سے ا س کا معاملہ مشتبہ تھا کہ آیا یہ کھانے کا ہو گا یا نہیں۔یعنی اسے درندہ قرار دیا جائے کہ نہیں۔ اللہ نے اس کا فیصلہ کر دیا کہ یہ درندوں میں شمار ہو گا اس لیے اس کا کھانا ممنوع ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تبلیغی جماعت کے کام کو میں بڑی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور میں انہیں اللہ کے دین کے مخلص خادم سمجھتا ہوں ۔ان کے بارے میں میری رائے بری نہیں ہے۔ البتہ مجھے ان کی کچھ چیزوں کے ساتھ اختلاف ہے۔ وہ اختلاف میں ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کرتا رہتا ہوں۔ میری ایک درخواست ان سے یہ ہے کہ تبلیغ اور دعوت کی جوذمہ داری اللہ تعالی نے انسان پر ڈالی ہے وہ اپنے ماحول میں ڈالی ہے ۔اپنے مورچے کو چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کی کوئی ذمہ داری عام آدمی پر نہیں ڈالی گئی۔دوسری چیز یہ ہے کہ دعوت کی بنیاد قرآن مجید ہے یہ بات خود قرآن نے واضح کر دی ہے کہ ذکر بالقرآن من یخاف وعید یعنی جو آدمی بھی خدا کی وعید سے بچنا چاہتا ہے اس کو قرآن کے ذریعے سے نصیحت کیجیے ۔اور دعوت کے لیے بھی فرمایا کہ وجاھد بہ جھادا کبیرا یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کرو آپ کے ہاتھ میں قرآن ہونا چاہے، قرآن پڑھائیں ، قرآن سکھائیں ، یہی دین کی دعوت ہے ۔ فضائل کی کتابوں کے اندر موجود جھوٹی روایتوں ، قصے کہانیوں کو ایک طرف رکھ دیں اور اللہ کی کتاب کو ہاتھ میں پکڑیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ لوگوں کوپورا دین سکھانے کی کوشش کریں یہ تو ٹھیک ہے کہ تبلیغ میں تدریج ہوتی ہے لیکن جولوگ آپ کے قریب آجاتے ہیں وہ پھر جماعت کے چلوں ہی میں نہ پڑے رہیں ، ان کو پورا دین سکھانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔بس میری یہی گزارشات ہیں وہ میں ان کے علما سے بھی عرض کرتا رہتا ہوں اور عام آدمی سے بھی۔باقی اچھے لوگ ہیں۔موجود زمانے میں اخلاص کی بہترین تصویر ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اعمال صالحہ کے بارے میں ہم کو رسول اللہ ﷺ نے بتا دیا ہے اور قرآن نے بھی بتا دیا ہے کہ وہ کیا ہیں ۔قرآن نے تو مختلف مقامات پرخاص موضوع بنا کر بتا دیا ہے کہ کیا چیزیں اعمال صالحہ ہیں۔ ان میں جو بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ پر ایمان لائیں ، اللہ کے فرشتوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائیں ، اس کی کتابوں پر ایمان لائیں ، اللہ کی راہ میں انفاق کریں ، رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کا تعلق رکھیں ، اپنے عہد اور معاہدے پورے کریں ، جب کوئی مشکل مرحلہ آئے تو اس میں صبر کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے زندگی بسر کریں ۔ حدود الہی کی پیروی کریں ،نماز کا اہتمام کریں ، زکوۃ ادا کریں ، روزہ رکھیں ، حج کریں یہ اعمال صالح ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ بھی آپ قرآن سے دیکھ سکتے ہیں۔ ان سب میں داڑھی نہیں ہے ۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے بھی جب کسی صحابی کوجنت میں جانے والے اعمال بتائے تو ان میں داڑھی کاذکر نہیں کیا۔ لوگ آکر پوچھتے ہیں کہ حضور ہم جنت میں کیسے جائیں گے تو آپ چند چیزوں کا ذکر کرتے ہیں کہ انہیں اختیار کر لوجنت میں چلے جاؤ گے ۔وہ کہتے ہیں کہ جہنم سے کیسے بچیں گے ، آپ نے فرمایا یہ چند چیزیں ہیں ان کو اختیار کر لو جہنم سے بچ جاؤ گے ۔ جس چیز کو پیغمبر نے وہ اہمیت نہیں دی تو ہم اور آپ کون ہوتے ہیں اسے ایسی اہمیت دینے والے۔اگر اس کی یہی اہمیت تھی تو جب اونٹنی والے نے حضور کی اونٹنی پکڑ کر پوچھا تھا کہ مجھے وہ راستہ بتادیجیے جس سے میں جنت میں چلا جاؤں تو آپ کو سب سے پہلے یہ کہنا چاہیے تھا کہ داڑھی رکھ لینا ۔امتوں کا المیہ یہ ہے کہ دین کی حقیقت غائب ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اس طرح کی چیزیں بڑی اہمیت اختیار کرجاتی ہیں۔ عبادات کے بعد انسان جس اصل امتحان میں ڈالا گیا ہے وہ اس کے اخلاقی وجود کا امتحان ہے ۔ آپ کے گھر میں ، رشتہ داروں سے ، کاروبار میں کیا معاملات ہیں ، آپ کتنے سچے ، کتنے دیانتدار ہیں فیصلہ اس پر ہونا ہے نہ کہ داڑھی کے سائز پر ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہماری جماعتوں اور گروہوں میں لاکھ اختلاف سہی لیکن وہ باتیں ان اختلافی امور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں جن پر یہ تمام جماعتیں اتفاق رکھتی ہیں مثلاً ایک اللہ ، ایک رسول ، ایک قرآن ۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار باتیں ہیں جن پر امت کا اتفاق ہے۔یہ سب گروہ اور جماعتیں کم از کم اس بات پر تو متفق ہیں کہ اسلام ان کا مذہب ہے اور وہ مسلما ن ہیں، اس بات میں توکسی کوکوئی اختلاف نہیں جب کہ کافر قومیں خود کو مختلف مذاہب و ملل کا کہلانے کے باوجود اسلام دشمنی میں متفق اور متحد ہیں تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے ؟ یہودی ، عیسائی اور بت پرست سب کے سب مسلمانوں کی دشمنی میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نظریاتی اور مسلکی اختلافات میں ہی الجھے ہوئے ہیں اور بجائے دشمنوں کے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔

            رہا یہ سوال کہ اہل بدعت اور گمراہ مسلمانوں سے کیسے تعاون کیا جائے تو جواب یہ ہے کہ دین کی اصولی باتوں میں تو یہ لوگ بھی ہم سے متفق ہیں تو ان ہی باتوں کو اتفاق کی بنیاد بنایا جائے یا پھر ان باتوں کو بنیاد بنایا جائے جن میں ہم سب کا مشرکہ سیاسی ، سماجی ، یا معاشی مفاد وابستہ ہو۔

            علمائے اہل سنت نے معتزلیوں کو اہل بدعت قرار دینے کے باوجود ان کی علمی اور فکر ی کاوشوں سے استفادہ کیا ہے ۔ علامہ زمخشری کی تفسیر الکشاف تمام اہل سنت کے نزدیک ایک معتبر تفسیر ہے۔حالاں کہ مشہور ہے کہ علامہ زمخشری معتزلی تھے امام غزالی کہتے ہیں کہ میں نے فلسفیوں پر ان کی گمراہیاں واضح کرنے کے لیے کبھی معتزلیوں سے مدد حاصل کی اور کبھی کرامیوں سے ۔حالانکہ یہ دونوں گروہ بدعتی تھے۔حنفیوں ، شافعیوں یا حنبلیوں کے درمیان اختلاف ہرگز ایسا نہیں ھے کہ جس کی بنا پر ہم دشمنی پر اتر آئیں۔بلکہ میری رائے تویہ ہے کہ اس بات میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ان معتدل قسم کی غیر مسلم جماعتوں کے ساتھ بھی تعاون کیا جائے جو متشدد اورمسلم مخالف جماعتوں کے مقابلہ میں ہمیں تعاون دینا چاہتی ہوں۔ نبیﷺ نے فتح مکہ کے بعد قبیلہ ہوازن کے مشرکین کے مقابلہ میں بعض مشرکین قریش کا تعاون حاصل کیا تھا کیوں کہ رشتہ داری کی بنا پر مشرکین مکہ کے دلوں میں حضور کے لیے قبیلہ ہوازن کے مقابلہ میں نرم گوشہ تھا۔حتی کہ صفوان بن امیہ نے اسلام قبول کرنے سے قبل کہا تھا کہ ہم میں قریش کاکوئی شخص حکومت کر ے یہ اس بات سے بہتر ہے کہ قبیلہ ہوازن کا کوئی شخص ہم پر حکومت کرے ۔ذرا سورہ روم کی ابتدائی آیات پر غو رکیجیے اہل فارس اوررومیوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں رومیوں کو شکست اٹھانی پڑی ۔اہل فارس آگ پوجتے تھے اور اللہ پریقین نہیں رکھتے تھے جبکہ رومی عیسائی تھے اور اللہ پر یقین رکھتے تھے ۔ اس بنا پر صحابہ کرام کے دلوں میں ایرانیوں کے مقابلے میں رومیوں کے لیے نرم گوشہ تھا اور رومیوں کی فتح کے تمنائی تھے ۔ حالاں کہ دونوں ہی غیر مسلم قوتیں تھیں۔ لیکن رومیوں کی شکست نے انہیں غم زدہ کر دیا ۔اللہ تعالی نے انہیں خوشخبری سنائی کہ صرف چند سالوں کے بعد رومیوں اورایرانیوں کے درمیان دوبارہ جنگ ہو گی اوراس جنگ میں رومیوں کو فتح نصیب ہو گی اوران کی فتح سے مسلمانو ں کو خوشی حاصل ہو گی۔

قرآن و حدیث کی وہ دلیلیں جن کی وجہ سے مسلک کا اختلاف ہوتاہے وہ دو طرح کی ہیں۔

            ۱۔ پہلی قسم ان دلیلوں کی ہے جنہیں اصطلاحی زبان میں قطعی کہا جاتا ہے ۔ یعنی وہ دلیلیں جنکامفہوم بالکل واضح اور اٹل ہوتاہے مثلا نماز روزے حج ، توحید اورآخرت وغیر ہ کی آیات اور دلائل ۔ ان میں کسی قسم کا شک و شبہ اور ابہام نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کی تمام جماعتیں ان میں کسی قسم کااختلاف نہیں کرتیں۔

            ۲۔دوسری قسم ان دلیلوں کی ہوتی ہے جنہیں اصطلاحی زبان میں ظنی کہتے ہیں۔یعنی وہ قرآنی آیات یا احادیث جن میں ایک سے زائد مفہوم کا احتمال ہوتاہے ۔چوں کہ ان کا مفہوم بالکل اٹل اور قطعی نہیں ہوتا بلکہ ان میں کافی گنجائش ہوتی ہے اس لیے فقہائے کرام اپنی اپنی سمجھ کے لحاظ سے ان کا مفہوم متعین کرتے ہیں اوریوں مسلک کا اختلاف وجو د میں آتا ہے۔مثلا ً بعض قرآنی آیات یا احادیث میں کسی بات کاحکم ہوتاہے لیکن اسکا صیغہ ایسا ہوتا ہے کہ اس سے واجب اورفرض ہونے کا بھی مفہوم نکلتا ہے اورسنت یا نفل ہونے کا بھی۔ مثلاً یہ حدیث کہ احفوا الشوارب ووفروا اللحی مونچھیں ترشواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔اس حدیث میں مونچھیں ترشوانے اور داڑھی بڑھانے کاحکم ہے ۔بعض فقہا نے اس حکم کوفرض اور واجب پرمحمول کیا اور بعض نے سنت اور نفل پر۔چوں کہ الفاظ میں دونوں قسم کی گنجائش موجودہے اس لیے دونوں کے موقف کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔الغرض یہ کہ ظنی دلیلوں کی بنا پر مسلک کا اختلاف ایسا اختلاف ہر گز نہیں کہ جو معیوب ہو اورجس کی بنا پر آپس میں ناچاقی اور دشمنی ہو۔ہمیں چاہیے کہ اس طرح کے اختلافات سے صرف نظرکر تے ہوئے ان باتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں جن پرہم سب کا اتفاق ہے ۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: بینک میں جمع کیے ہوئے پیسے پر سود لینا حرام ہے کیوں کہ یہ سود ہے ۔سود کی تعریف یہ ہے کہ اصل مال پر جو رقم بغیر محنت یا تجارت کے لی جائے وہ سود ہے۔شیخ شلتوت نے بنک کے سود کوصرف مجبوری کی حالت میں جائز قرار دیا تھا۔عام حالات میں ان کے یہاں بھی جائز نہیں ہے۔اس پیسے کے مصرف کی بہترین شکل یہ ہو گی کہ اسے غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیا جائے یا کسی رفاہی کام میں خرچ کر دیا جائے ۔زکوۃ ادا کرنے سے حرام مال حلال نہیں ھو جاتا اس لیے زکوۃ اداکرنے سے سود جائز نہیں ہو جائے گا۔

            بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارے جمع کیے ہوئے پیسے سے بینک تجارت کرتاہے اورنفع کماتا ہے تو ہمیں بھی اس نفع سے کچھ ملنا چاہیے۔میں کہتا ہوں کہ اس نفع میں آپ بہ خوشی شریک ہو سکتے ہیں بشرطیکہ پیسہ جمع کرتے وقت آپ بینک سے یہ طے کر لیں کہ آپ بینک کی تجارت میں حصے دار کی حیثیت سے پیسے جمع کر رہے ہیں۔اوریہ کہ آپ نفع اور نقصان دونوں میں برابر کے شریک رہیں گے ۔اگر بینک اس شرط پرراضی ہو جائے تو بلا شبہ آپ نفع لے سکتے ہیں ۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: میری رائے میں بینک میں جو سودی نظام رائج ہے اسکا تعلق بینک کے سٹاف سے نہیں ہوتا سودی نظام ہمارے معا شی ڈھانچے کا جزو ہے ۔اس سے فرار ممکن نہیں۔ ایسی صورت حال میں بینک کے کسی سٹاف کے نوکری چھوڑ دینے سے اس سود ی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اسلام نے انسانی مجبوری کی مکمل رعایت کی ہے اسی مجبوری کے تحت بعض اوقات انسان بنک کی نوکر ی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ایسی حالت میں ہم اسے منع نہیں کرسکتے ۔

            (علامہ محترم کی رائے سے مجھے بصد احترام اختلاف ہے ۔ ہر شخص نے اللہ کے حضور انفرادی طور پر جوابدہ ہونا ہے ۔ہر شخص کو دیانتداری سے جائزہ لینا چاہیے کہ کیا وہ بینک کی نوکری کے بغیر کم ذرائع میں زندگی گزار سکتا ہے تو اسے بنک کی نوکر ی چھوڑ دینی چاہیے یہ ٹھیک ہے کہ اس ایک کے ملازمت چھوڑ دینے سے نظام کو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر یہ اللہ کے ہاں کہہ سکے گا کہ یا اللہ میں تو یہی کر سکتا تھا اتنا میری استطاعت میں تھا وہ میں نے کر دیا ۔امید ہے اللہ اس پر معاف فرما دیں گے ۔ہر فرد کے لیے انفراد ی طورپرجتنا ، جب اورجو قدم اٹھانا ممکن ہو(شریعت کے حدود میں اور جائز طور پر) اسے اٹھا لینا چاہیے۔نظام بدلنے کاانتظار ہمارے ذمہ نہیں۔ہمیں نظام سے پہلے اپنے انفراد ی اقدامات اور اعمال کا جوابدہ ہوناہے اگر ہم نے کوئی انفراد ی کوشش بھی نہ کی تو جوابدہی کاخطر ہ ہے۔ بہر حال یہ انفرادی فیصلہ ہے اپنے اپنے حالات کے اعتبارسے ۔اگر کوئی واقعتا اضطراری حالات میں ہے تو اس کے لیے جائز ہے مگر کیا وہ اس اضطرا ر کو اللہ کے ہاں بھی ثابت کر سکے گا یہ اہم سوال ہے ۔اس کی تیاری کر لینی چاہیے ۔بینک میں کام کرنے والا بہر حال اس نظام کامعاون ہے اور لکھنے لکھانے کے عمل میں شریک ہے اس سے بھی اللہ کے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ایک اور سوال کے جواب میں علامہ صاحب نے یہی موقف اپنایا ہے وہ سوال اور جواب درج ذیل ہے ۔ (مدیر)

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: اگر آپ واقعی اسلام سے ان کا حل مانگتے ہیں تو اسلام کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ آپ ان مغربی قوانین کے بجائے اسلامی قوانین کی طرف پیش قدمی کریں۔مغربی طرز کے بینکوں کو الوداع کہیں اور ان کی جگہ اسلامی قوانین کی بیناد پر اسلامی بینک کی داغ بیل ڈالیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد کے کیا غلطی ہے اگر پورا معاشرہ اور پورا حکومتی ڈھانچہ ہی اسلام سے منحرف ہو ایسے میں اکیلا شخص کیا کر سکتا ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ افرا د ہی معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے اگر فرد واحد ان مغربی قوانین پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا رہے اوران قوانین کے مطابق زندگی گزارتا رہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان قوانین پرراضی ہے ۔بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان قوانین کو زندہ رکھنے میں شریک کار ہے اگر موقع میسر ہو تو ان قوانین کو بدلنے کی کوشش کر نی چاہیے۔جہاں تک انشورنس کا تعلق ہے تو یہ چیز جائز ہو سکتی ہے اگر اس میں سود کی ملاوٹ نہ ہو۔ میری رائے میں سامان تجارت کی انشورنس صرف مجبوری اوراضطراری حالت ہی میں جائز ہو سکتی ہے البتہ لائف انشورنس کسی صورت میں جائز نہیں ہے ۔

تجارت میں توسیع کی خاطر بینک سے قرض لینا قطعاً حرام ہے ۔بینک سے قرض انتہائی مجبوری کی حالت ہی میں لیا جا سکتا ہے مثلاً کسی مریض کی جان پر بنی ہو،اس کے علاج کا مسئلہ ہویا بال بچے بھوک سے مجبور ہوں تو ایسی صورت میں بقد ر ضرورت قرض لیا جا سکتا ہے ۔تجارت کو فروغ دینا ایسی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے لیے حرام چیز کوجائز قرار دیا جائے ۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ حلال اور مباح چیزوں کی تجارت کی جائے۔دوسری شرط یہ ہے کہ تجارت میں دھوکا نہ دے۔تیسر ی شرط یہ ہے کہ زیادہ منافع کی غرض سے ذخیرہ اندوزی نہ کرے۔چوتھی شرط یہ ہے کہ مال فروخت کرتے وقت سچی جھوٹی قسمیں نہ کھائے۔پانچویں شرط یہ ہے کہ سامان بہت مہنگا نہ بیچا جائے یعنی جائزمنافع لیا جائے ۔چھٹی شرط یہ ہے کہ اپنے مال کی زکوۃ نکالے۔ساتویں شرط یہ ہے کہ تجارت تاجر کو دینی فرائض نماز روزہ حج صلہ رحمی وغیر ہ سے غافل نہ کرنے پائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج؛ جھوٹ بولنا گنا ہ کبیرہ ہے ۔اسلامی شریعت نے جن مجبوریوں کی بنا پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے مذاق اور تفریح کی خاطر جھوٹ اس میں شامل نہیں ھے ۔چنانچہ واضح ہوا کہ اپریل فول حرام ہے کیونکہ اس میں جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔اپریل فول میں خواہ مخواہ کسی کو تنگ کیا جاتا ہے ، دھوکے میں رکھا جاتا ہے اور اسے پریشان کیا جاتا ہے ۔ کسی مسلمان کو دھوکا دینا ، اذیت پہنچانا حرام ہے۔یہ بہت بڑ ی خیانت کی بات ہے کہ آپ کسی سے جھوٹ بولیں اور وہ آپ کوسچا سمجھ رہا ہو۔اس میں ایک ایسی روایت کی تقلید ہے جس کا تعلق نہ اسلا م سے ہے اورنہ مسلمانوں سے ۔ یہ تو کفار کا اتباع ہے اور وہ بھی ایسی چیز میں جواخلاقاً ًنہایت گری ہوئی چیز ہے ۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: گانا چاہے موسیقی کے بغیر ہو یا موسیقی کے ساتھ، قرون اولی ہی سے فقہائے اسلام کے درمیان موضوع بحث رہا ہے ۔اس بات پر تمام فقہا متفق ہیں کہ ہر وہ گانا جو فحش ، فسق وفجور اور گناہ کی باتوں پرمشتمل ہو اس کا سننا حرام ہے اور اگر اس میں موسیقی بھی شامل کر لی جائے تو اس کی تاثیر دوبالا ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح فقہا کے مابین اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ شادی بیاہ یا عید یا خوشی کے موقع پر ایسے گانے جائز ہیں جو گندے ، فحش اور نازیبا کلمات سے خالی ہوں۔متعدد احادیث سے ان کا جواز ثابت ہوتا ہے۔البتہ بعض علما کے نزدیک ہرقسم کا گانا حرام ہے چاہے وہ موسیقی کے ساتھ ہو یا بغیر موسیقی کے ۔

            میری اپنی رائے یہ ہے کہ گانا یا نغمہ بذات خود حلال ہے کیونکہ ہر چیز کی اصلیت یہ ہے کہ وہ حلا ل ہے الا یہ کہ اس کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی واضح دلیل ہو۔گانے کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی بھی دلیل قطعی نہیں ہے ۔یہ صحیح ہے کہ بعض صحابہ نے سورہ لقمان کی آیت ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذھا ھزوا میں لھو الحدیث سے مراد گانا بتایا ہے لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے ۔حضور ﷺنے ایسا نہیں فرمایا ہے ۔اسی طرح بعض علما اس آیت واذا سمعوا اللغو أعرضوا عنہ میں لغو سے مراد گانا مراد لیتے ہیں حالانکہ اس آیت میں لغو سے مراد گالم گلوچ طعن تشنیع اور احمقانہ باتیں ہیں۔آپ پوری آیت کو سیاق و سباق سے پڑھیں تو یہی مفہوم اخذ ہو گا۔اسی مفہوم کی دوسری آیت ہے واذا خاطبھم الجاہلون قالو ا سلاما۔اگر آیت میں لغو سے مراد گانا لیا جائے تو آیت یوں نہ ہوتی کہ اسے سننے کے بعد وہ اس سے دامن بچاتے ہیں بلکہ آیت یوں ہوتی کہ اس کے سننے سے دامن بچاتے ہیں۔ابن جریح سے کسی نے پوچھا کہ گانا سننا آپ کی نیکیوں میں شمار ہو گا یا برائیوں میں۔انہوں نے جواب دیا کہ اس کا شمار نہ نیکیوں میں ہو گا نہ برائیوں میں بلکہ یہ تو ان لغو چیزوں میں سے ہے جن پر اللہ گرفت نہیں فرماتا۔امام غزالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ بندے کا اس بات پر مواخذہ نہیں کرے گا کہ اس نے یوں ہی اللہ کا نام لے کر قسم کھائی تو شعر و نغمہ پر کیوں گرفت کر ے گا؟ امام غزالی کا ا شارہ اس آیت کی طرف تھا۔لا یواخذکم اللہ بااللغو فی ایمانکم۔علامہ ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہرعمل کادارومدار نیت پرہوتاہے جو شخص اللہ کی نافرمانی کی نیت سے گاناسنے گا وہ گنہ گار ہو گا اورجو شخص اس نیت سے گانا سنتا ہے کہ اس سے بدن میں چستی آئے گی اور یہ چستی اللہ کی عبادت میں معاون ثابت ہو گی تو یہ ایک نیک ارادہ ہے اور اس کا گانا سننا بھی نیک عمل میں شمار ہو گا۔ بشرطیکہ وہ گانا بذات خود بری اور فحش باتوں پر مشتمل نہ ہو۔

            رہی وہ حدیثیں جنہیں علماگانوں کی حرمت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ ساری حدیثیں ضعیف ہیں۔قاضی ابو بکر کہتے ہیں کہ نغموں اور گانوں کی حرمت سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے ۔ابن حزم کہتے ہیں کہ گانوں کی حرمت کے سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ سب موضوع احادیث ہیں۔مزید یہ کہ اس کے جائز ہونے میں متعدد احادیث موجودہیں۔بخاری مسلم میں یہ حدیث موجودہے کہ ابوبکرؓ حضرت عائشہ کے گھر میں حضور ﷺکے پاس تشریف لائے حضرت عائشہ کے پاس دو لڑکیا ں بیٹھی گانا گا رہی تھیں۔حضرت ابو بکر ؓ نے ان لڑکیوں کی سرزنش کی اس پر حضور نے فرمایا کہ چھوڑ دو اے ابو بکر کیونکہ یہ خوشی کے دن ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خوشی کے دن ہوں یا نہ ہوں گانا اپنی اصلیت یعنی جواز پر برقرار رہے گا۔لیکن یہ ضروری ہے کہ گانے میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو۔ مثلا شراب کا تذکر ہ ہویا شباب کا۔بے حیائی کی باتیں ہوں یا اللہ رسول کی گستاخی ہو۔مزید یہ کہ گانا سننے میں اسراف یعنی غلو نہ ہو۔اسلام نے اسراف کو ہر معاملے میں نا پسند فرمایا ہے ۔اس دور میں جو گانے زبان زد عام ہیں ان میں شاذ ہی ایسے ہو ں گے جوان شرائط پر پورے اترتے ہوں اس لیے ان سے پرہیز ہی بہتر ہے ۔اگر یہ احتیاط گاناسننے میں لازمی ہے تو گانے کوپیشہ بنانے میں تواور بھی احتیاط کی ضرورت ہے ۔اور فی زمانہ کسی عورت کو یہ پیشہ اختیار کرنا تو کسی طور پر بھی جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس پیشہ میں اس کی عزت ، احترام، شرافت ، شرم و حیا سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے اوراجنبی مردوں سے اختلاط تو بالکل حرام ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: کیمرے سے تصویر لینے کے سلسلے میں مصر کے سابق مفتی علامہ محمد نجیت المطیعی نے فتوی دیا ہے کہ یہ جائز ہے ۔کسی کی تصویر لینا تخلیق کرنا نہیں ہوتا جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ۔یہ توانسان کے عکس کو کاغذ کے ٹکڑے پرمحفوظ کرنے کاعمل ہے ۔اس لیے عربی زبان میں اسے عکس کہتے ہیں اورتصویر لینے والے کو عکاس کہتے ہیں۔شیخ نجیت کے اس فتوے سے متعد د علما متفق ہیں اور میرا رحجا ن بھی ا سی طرف ہے ۔چنانچہ میری رائے یہ ہے کہ تصویر لینے میں کوئی حرمت نہیں ہے بشرطیکہ وہ تصویر بذات خود حلال ہویعنی کسی برہنہ یانیم برہنہ انسان کی نہ ہو یا ایسے مناظر کی تصویر نہ ہو جو شرعا ناجائز ہیں۔

رہی فنکاروں اوراداکاروں کی تصویریں لٹکانے کی بات تو یہ چیز کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔تصویریں لٹکانے کامطلب ان کو تعظیم و تکریم سے نوازنا ہے جو صرف اللہ کے لیے خاص ہے اس طرح یہ شرک کا ایک پہلو بن جاتا ہے ۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: ٹی وی بذات خود نہ حلال ہے نہ حرام۔اس کے حلال یا حرام ہونے کا انحصار ان مقاصد پر ہے جن کی تکمیل کے لیے ٹی وی استعمال کیا جاتا ہے۔اس کی مثال تلوار جیسی ہے تلوار جہاد جیسی عظیم نیکی کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے اور کسی کاناحق گلا کاٹنے کے لیے بھی۔معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے اور لوگوں کی اخلاقی اور فکری تربیت کے لیے بھی ٹی وی کو استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کی اخلاقی اور فکر ی تباہی کے لیے بھی۔چنانچہ اس کی حلت و حرمت کاانحصار ان پروگراموں پر ہے جوآپ دیکھتے ہیں۔ ہر مسلمان کا ضمیر اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ اسے کون سے پروگرام دیکھنے چاہییں۔مثلا خبریں ، تعلیمی اورسائنسی پروگرام دیکھنا بالکل جائز ہے مگر مخرب اخلاق فلمیں ڈرامے اور ایسے پروگرام دیکھنا جن میں عریانی اور فحاشی کو نمایاں کیا جاتا ہے ظاہر ہے ناجائز ہے ۔چونکہ آج کل ٹی وی پر ایسے ہی پروگرام زیادہ تر نشر ہوتے ہیں اس لیے بعض دیندارلوگ احتیاطا اسے حرام قرار دے دیتے ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: میر ے بچے تمہارے پاس صبر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔اللہ نے بھی صبر ہی کے ذریعے مشکل حالات میں مدد لینے کی تاکید فرمائی ہے یا ایھا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلاۃ۔ساری انسانی تاریخ ایسے واقعات اورتذکروں سے بھری پڑی ہے کہ بڑے بڑے لوگوں پر بے انتہا نامساعد حالات آئے مگر انہوں نے صبرسے کام لیا۔ یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے کنویں میں پھینک دیا۔غلام بنا کر بازار میں فروخت کیا گیا۔ان پر زنا کا الزام لگا۔ جیل کی صعوبت برداشت کرنا پڑی۔لیکن آخر کا ر اللہ نے منصب وزارت سے نوازا۔ خود کشی کسی طور بھی جائز نہیں۔جان اللہ کی عطاہے اسے واپس لینے کاحق صرف اسی کوہے وہی اسکا مالک ہے ۔خود کشی کامطلب اللہ کی رحمت سے مایوس ہوناہے اوراللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی مایوس ہوتاہے ۔اس لیے آپ صبر سے کام لیں اور نماز پڑھ کر اللہ سے مدد مانگتے رہیں ۔ اللہ جلد ہی آسانی کی کوئی صورت پیدا کرے گا۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج۔ تصوف ایک ایسا نظریہ زندگی ہے جس کاوجود تقریبا سارے ہی مذاہب میں پایا جاتا ہے ۔ ہندستان میں جوگی پائے جاتے ہیں، عیسائیوں میں راہب اور یونا ن وفارس میں کچھ اور۔

            تصوف در حقیقت روحانیت کے اہتمام کانام ہے ۔تصوف کا نظریہ یہ ہے کہ روحانیت کے ذریعے انسان کی تربیت ہوتی ہے ، مادی اور جسمانی ضرورتیں روحانیت کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہیں۔ اس لیے تصوف میں جسمانی اورمادی ضرورتوں کو فراموش کیا جاتا ہے ۔اسلام نے انسانیت کو مادی اورروحانی زندگی کے درمیان توازن عطا کیا۔اسلام کی تعلیم کی رو سے انسان روح ، جسم ، اور عقل کا مجموعہ ہے اورضرور ی ہے کہ ان میں سے ہر ایک پہلو پر کماحقہ توجہ دی جائے ۔روایت ہے کہ جب حضورﷺکو خبرملی کہ حضر ت عبداللہ بن عمر و بن العاص رات رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اورسوتے نہیں ۔دن بھر روزہ رکھتے ہیں بیویوں کے پاس نہیں جاتے تو آپ نے انکو سرزنش کی ۔اسلام زندگی کے تما م پہلووں میں توازن اوراعتدال کا حکم دیتا ہے۔ اس توازن اور اعتدال کوصحابہ نے بھی قائم رکھا اور سلف صالحین نے بھی۔ اسکے بعد وہ دور آیا جب اللہ نے مسلمانوں کو خوشحالی سے نوازا ۔ان میں دولت عام ہوئی ۔مال و دولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ علم وہنر کابازار بھی گرم ہوالوگوں کا رحجان علم وعقل کیطرف زیادہ ہوا۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں مسلمانوں میں مختلف گروہ اور فرقے وجود میں آئے ۔ایگ گروہ وہ تھا جس نے مال و دولت کوخاص اہمیت دی اورزندگی کے مادی پہلووں میں گم ہو گیا ان میں زیادہ ترحکمران طبقہ اور ان کے حوار ی تھے۔دوسرا طبقہ علم و عقل کے اند ر گم ہو گیا اوراس نے بعض ایسے علوم کی بھی اختر اع کی جو عملاً اسلام سے دور تھے۔تیسرا طبقہ فقہا کا تھا جس نے دین کے قانونی پہلووں کوموضوع بنایا اور اس کی وضاحت اس طرح کی کہ باقی تمام پہلو دب کر رہ گئے۔ ایسے میں کچھ لوگ آگے آئے جنہوں نے دین کے روحانی پہلووں کوموضوع بنایااور ساری محنت روحانی اور باطنی پہلوکی ترقی کی طرف لگا دی۔یہ طبقہ صوفی کہلایا۔انکی تعلیم یہ تھی کہ انسان سب سے پہلے اپنے باطن کی اصلاح کرے نفسانی بیماریوں کو دور کرے اور دل کی دنیا کو آبا د کرے۔ان کی ساری بھاگ دوڑ اورمحنت روحانیت کی تربیت کے لیے تھی۔ ان میں سے بعض نے اللہ کے خوف کو جسمانی شباہت بھی دی جیسے حسن بصری۔بعض نے کہا کہ اعمال کی بنیاد صرف اللہ کی محبت ہے ان کاکہنا تھا کہ ہم اللہ کے دیوانے ہیں ہم نیک اعمال جنت پانے یا دوزخ سے بچنے کے لیے نہیں کرتے بلکہ اللہ کی محبت میں کر رہے ہیں۔مثلاً رابعہ عدویہ او ر ذو النون مصری۔شروع دور کے صوفی نیک و صالح تھے اورقرآن وسنت کی اتباع کرنے والے تھے فرق صرف یہ تھا کہ یہ لوگ روحانی پہلو کوزیادہ اہمیت دیتے تھے اور جسمانی پہلو کو کم۔جنید بغدادی کہا کرتے تھے کہ انسان کے لیے ہر راستہ بند ہے سوائے اس کے کہ جس نے حضورکی پیروی کی ان کے بعد وہ صوفیا آئے جنہوں نے روحانیت کے نام پر غلو کاراستہ اختیار کیا۔انہوں نے روحانیت کے نام پرمختلف فلسفے ،خرافات اور مشقیں ایجاد کیں۔اور پھر بعض نے اپنے ذوق اور وجدانی کیفیات کو ہی شریعت بنا ڈالا۔وہ کہتے ہیں کہ الھمنی ربی۔یعنی میرے دل نے میرے رب سے یہ بات کی یا میرے رب نے میرے دل میں فلا ں بات ڈالی۔ان کے مریدوں نے ان کے دل کی ان باتوں کو شریعت بنا ڈالا۔مزید ترقی ہوئی تو صوفیوں نے اپنے مریدوں کو اتنا کمتر بنا دیا کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہ رہی۔پیر نے جوکہا مرید کے لیے اس پر عمل لازم قرار پایا۔اسے یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ کیا اور کیوں کا سوال کرے۔ان نظریات نے مسلمانوں میں صوفیوں کے نام پر ایک ایسے طبقے کو جنم دیا جوعملی طور پر بالکل مفلوج طبقہ تھا۔زہد اورفقیری میں اس طبقے نے دنیا کو بالکل ترک کر دیا۔صوفیوں کایہ وہ طبقہ ہے جسے ہم گمراہ قرار دیتے ہیں۔مختصر یہ کہ صوفیوں میں ایسے بھی تھے جنہوں نے کتاب و سنت پر سختی سے عمل کیا اورکچھ ایسے بھی تھے جو راہ راست سے منحرف ہو گئے ۔ہمارے لیے صرف اتنی ہی بات قابل تقلیدہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہے ۔یعنی دنیا سے دل نہ لگانا، اسکے فتنوں سے بچنے کی کوشش کرنا، اللہ کی محبت کو دل میں جاگزیں کرنا، دل کے امراض کو دور کرنا، شیطان سے بچناوغیرہ۔تصوف کاوہ پہلو جوراہ راست سے ہٹا ہواہے یعنی کتاب وسنت سے وہ یقینا قابل مذمت ہے ۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: یہ دنیا انصاف کے اصول پر نہیں بلکہ امتحان کے اصول پر قائم کی گئی ہے ۔ انصاف کے اصول پر قائم ہونے والی دنیا قیامت کے بعدظہور پذیر ہو گی۔ اللہ تعالی نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس دنیا میں ظلم بھی ہو گا اور کسی کو عبرت بھی بنایا جائے گا ۔ اس دنیا کو امتحان سمجھ کر زندگی بسر کیجیے ،اگر آپ اس میں کامیاب ہو گئے تو اُس دنیا میں انصاف آپ کا منتظر ہو گا ۔ جن کو عبرت کانمونہ بنایا گیاہے آخرت میں ان کی تلافی کی جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نظم قرآن کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں تمام سورتیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ رکھی گئی ہیں ۔ ہر سورہ اپنا ایک خاص موضوع رکھتی ہے اور اس موضوع کے مطالب ایک خاص ترتیب کے ساتھ بیان ہوتے ہیں ۔ ہر سورۃ کی ایک تمہید ہوتی ہے اور ایک خاتمہ ہوتا ہے ۔ اس طرح ہر آیت اپنا ایک سیاق وسباق رکھتی ہے ۔ اس وجہ سے قرآن مجید ایک منظم ، مرتب اور مربوط کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔ اس کی نوعیت اقوال کے کسی ایسے مجموعے کی نہیں ہے جس کے قول کے مختلف مطالب اخذ کیے جا سکتے ہوں بلکہ اس کی نوعیت ایک ایسی منظم کتاب کی ہے جس کا ہر جملہ اپنا ایک متعین مفہوم اور طے شدہ پیغام رکھتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اقامت دین کا مفہوم ہے دین کوپوری طرح اختیار کرنا، اس کی روح اور قالب سمیت ۔ ‘‘اقامت دین’’ کے اس لفظ کے وہی معنی ہیں جو ‘‘اقامت صلوۃ’’ میں لفظ اقامت کے ہیں ۔ تاریخ اسلام کے جید علما نے ہر زمانے میں ان الفاظ کے یہی معنی بیان کیے ہیں ۔ موجودہ زمانے میں بعض اہل علم نے ان الفاظ سے مختلف معنی اخذ کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ محض غلط فہمی پر مبنی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یتیم پوتے کی وراثت کے بارے میں قرآن وسنت بالکل خاموش ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات میں بھی اس کے متعلق کوئی بات وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کی گئی ۔ اس سلسلے میں ہمارے علما نے قرآن مجید کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اجتہاد کیا ہے ۔ اس وجہ سے اگر اس میں کوئی اختلاف رائے ہو تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اسے قرآن وسنت کی تردید یا تقلید کا مسئلہ بھی نہیں بنانا چاہیے ۔ جس رائے پر اطمینان ہو اس کو اختیار کر لینا چاہیے۔ جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے تو میں میراث میں یتیم پوتے کا حق مانتا ہوں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبی کریم ﷺ سے منسوب دعائیں بلاشبہ بہت پاکیزہ دعائیں ہیں ۔لیکن یہ واضح رہے کہ ان کی حیثیت بھی اللہ کے حضور میں درخواست ہی کی ہے ۔ البتہ یہ دعائیں جن روایات میں نقل ہوئی ہیں ان میں چونکہ زیادہ تر آپ ہی کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں اس لیے اس پہلو سے یہ دعائیں بے پناہ اہمیت کی حامل ہیں کہ ان میں حضور کی زبان سے نکلے الفاظ بعینہ محفوظ ہیں۔ مزید یہ کہ ان میں چونکہ اللہ سے مانگنے کے صحیح طریقے کی رہنمائی اور توحید کا صحیح شعور ہے ، اس لیے سیکھنے سکھانے میں انہیں ترجیح حاصل ہے۔اور اسی حوالے سے یہ بچوں کو یاد کرانی چاہیں۔البتہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے یہ جلد قبول ہو جائیں گی تو ایسا نہیں ہے بلکہ دعاؤں کی قبولیت کا اللہ کے ہاں ایک ضابطہ ہے ، اس کی حکمت کے تحت ہی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کا مقصود تزکیہ نفس ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی فکر اورانفرادی اور اجتماعی زندگی کو آلائشوں سے پاک کر کے ان کے عمل کو صحیح سمت میں نشوونما دی جائے ۔ اللہ نے اپنے پیغمبر اسی مقصد کے لیے بھیجے ۔ اللہ نے یہ دنیا اس اصول پر بنائی ہے کہ یہاں پر انسان پیغمبروں کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے نفس کی آلائشوں کو دور کرنے کی سعی کرے اور اپنے نفس کی تربیت کرے تا کہ جنت میں آباد ہونے کے قابل ہو جائے ۔ جنت میں آباد ہونے کے لیے بنیادی شرط ہی تزکیہ نفس ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے قد افلح من تزکی

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے کا تعلق دین یاشریعت سے نہیں بلکہ ملکی قانون سے ہے ۔ اگر ملکی قانون میں اس کی گنجائش ہے تو آپ یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں اگر ملکی قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے تو پھر یہ طریقہ ہر گز اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔ ملکی قانون کی خلاف ورزی جس طرح نظم ریاست میں جرم ہے اسی طرح شریعت میں بھی جرم ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلامی شریعت کے مطابق کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا حتی کہ کوئی اسلامی ریاست بھی کسی کی تکفیر کا حق نہیں رکھتی وہ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ اسلام سے واضح انحراف کی صورت میں کسی شخص یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے دے ۔ دین کی اصطلاح میں کافر قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس نے ضد ، عناد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر دین کا انکار کیا ہے ۔ دین کی کامل وضاحت جس میں کسی غلطی کا کوئی شائبہ نہ ہو صرف اللہ کے پیغمبر اور ان کے تربیت یافتہ صحابہ ہی کر سکتے تھے ۔ اس وجہ سے اتمام حجت کے بعد تکفیر کا حق دین نے صرف انہی کو دیا ہے ۔ ان کے بعد دین کی کامل وضاحت چونکہ کسی فرد یا جماعت کے بس میں نہیں ہے اس لیے اب تکفیر کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے ہم لوگوں کو اب اس کی جسارت نہیں کرنی چاہیے اگر ہم کسی کے عقیدے کو باطل سمجھتے ہیں تو ہمیں پوری درد مندی ، دلائل اور حکمت کے ساتھ اسے نصیحت کرنی چاہیے، اوراس کی غلطی اس پر واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس سے زیادہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: موجودہ زمانے میں لوگوں کو اس پر تعجب کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔ مادی علوم پر کچھ دسترس حاصل کرنے کے بعد ہم ہزاروں میل دور ہونے والے عمل کو اسی وقت اپنے سامنے دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ کسی شخص کی تصویر ، گفتگو اور حرکات وسکنات بغیر کسی وقفے کے براہ راست ہم تک پہنچ رہی ہوتی ہیں ۔ کمپیوٹر کی ایجاد جو معجزے دکھا رہی ہے چند سال پہلے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ موجودہ زمانے میں جس طرح مادی علوم حیرت انگیز کارنامے انجام دے رہے ہیں ، قدیم زمانے میں اسی طرح کے کارنامے نفسی علوم کے ذریعے سے انجام دیے جاتے تھے ۔ جس طرح مادی علوم کا دین سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح نفسی علوم کا بھی دین سے کوئی تعلق نہیں ہے جو صاحب ملکہ سبا کا تخت لے کر آئے ، ان کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے کہ ‘‘ان کے پاس قانون خداوندی کا ایک علم تھا۔’’ ہو سکتا ہے کہ دور جدید کے مادی علوم بھی کبھی اس مقام پر پہنچ جائیں کہ ہمارے سامنے پڑی ہوئی چیز چشم زدن میں امریکہ اور آسٹریلیا پہنچ جائے ۔ ان صاحب کے کارنامے کی نوعیت ایسی ہی ہے جیسی ہمارے زمانے میں کسی موجد یا سائنسدان کے کسی کارنامے کی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے ۔ اس رائے کا اظہار انہوں نے ‘‘تدبر قرآن’’ میں سورہ کہف کی تفسیر میں کیا ہے ۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی رائے یہ ہے کہ وہ فرشتہ تھے ۔ اس معاملے میں ، میں اپنے جلیل القدر استاد کی رائے کے بجائے مولانا مودودی صاحب کی رائے کو صحیح سمجھتا ہوں ۔ وہ میرے نزدیک کارکنان قضا وقدر ہی میں سے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: احادیث کی تدوین صحابہ کرام کے زمانے ہی میں شروع ہو گئی تھی ۔ بعض اصحاب نے اپنے چھوٹے چھوٹے مجموعے بھی مرتب کر لیے تھے آہستہ آہستہ یہ کام ایک باقاعدہ فن کی صورت اختیار کر گیا اور تقریبا اڑھائی تین سو سال میں یہ کام منظم مجموعوں کی شکل میں مرتب ہو گیا ۔ جہاں تک اس کام کے محرکات کا تعلق ہے تو یہ بات ہم سب پر واضح ہے کہ پیغمبر ﷺ کوئی معمولی ہستی نہیں تھے ۔ جس ہستی کے جسم اطہر سے چھو کر ٹپکنے والے پانی کے قطروں کولوگ زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے ، اس کی زبان سے نکلنے والے لافانی الفاظ سے وہ کیونکر صرف نظر کر سکتے تھے ۔ لوگ تو ہم آپ جیسوں کی باتوں کو محفوظ کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ وہ ہستی تو پیغمبر کی ہستی تھی ۔ ہم جیسے تو ان کی خاک پا کے برابر بھی نہیں ہیں جو لوگ ان کے زمانے میں موجود تھے ، انہوں نے بالکل فطری طور پر آپ کے علم وعمل کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ۔ بلاشبہ انسانیت پر یہ ان کا عظیم احسان ہے ۔ آپ کے علم وعمل کی روایات کو آگے بیان کرنے میں بعض لوگ البتہ ، بے حد احتیاط کا طریقہ اختیار کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر سیدنا ابو بکر صدیق ؓ اور سیدنا عمر فاروق ؓ اس معاملے میں حد درجہ محتاط تھے یہی وجہ ہے کہ ان سے بہت کم روایات بیان ہوئی ہیں

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا انحصار آپ کی اپنی صلاحیت اور آپ کے حالات پر ہے ۔ اگر آپ یہ کام انفرادی طور پر کرنا چاہتے ہیں تو اس میں حرج کی کوئی بات نہیں ہے ۔ ہماری تاریخ میں امت کے اکابرین نے زیادہ تر انفرادی سطح پر ہی کام کیا ہے ۔ اگر آپ موجودہ جمہوری نظام میں کوئی تنظیم قائم کر کے یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو یہ بھی بالکل جائز ہے ۔ ان میں سے کوئی طریقہ نہ واجب ہے نہ فرض ہے ۔ آپ کا فیصلہ اپنی صلاحیت ، اپنے حالات اور اپنے تمدن کے لحاظ سے ہونا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں اس کے متعلق کوئی مثبت یا منفی بات بیان نہیں ہوئی ۔ اس کے ناجائز ہونے کے بارے میں بعض علما نے جو دلائل دیے ہیں ، ان میں ، میرے نزدیک کوئی دلیل بھی ایسی نہیں ہیے جس کی بنیاد پر اسے ممنوع قرار دیا جائے ۔ اس لیے اس معاملے میں خاموشی اختیار کرنی چاہیے ۔ جو شخص اس کو جائز سمجھتا ہے وہ اپنے اعضا کے عطیے کی وصیت کر سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کوئی ثابت شدہ روایت نہیں ہے ۔ ایسی بہت سی روایات فضائل کے باب میں بیان کی جاتی ہیں ۔ اور بسا اوقات اس طرح بیان ہوتی ہیں کہ دین کی اساسات کو متاثر کر دیتی ہیں اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قیامت میں فیصلہ اصلاً ایمان وعمل کی بنیاد پر ہو گا۔ یہ دیکھا جائے گا کہ ایمان انسان کے اندر کتنا جاگزیں ہے اور اس نے اس کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کیا ہے۔ فیصلے کی اصل بنیاد یہی ہے ۔ باقی سب چیزیں موثر ہو سکتی ہیں لیکن اس کے بعد۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: خود کشی کے عمل میں اللہ تعالی کی مرضی شامل نہیں ہوتی البتہ اس کا اذن شامل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے دنیا میں آزمائش کے لیے انسانوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے برائی یا ظلم کا ارتکاب کر لیتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالی یہ اجازت نہ دیتے تو آزمائش ناممکن تھی۔ ہر انسان کو اللہ تعالی نے برائی اور بھلائی کا شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالی کسی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اس صورت حال میں جب کوئی شخص خود کشی کا اقدام کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالی کا مجھے دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک بڑا سنگین جرم ہے ، اس میں خدا کی رضا کیسے شامل ہو سکتی ہے ؟

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کے بارے میں جو مسالک ، مکاتب فکر یا نقطہ ہائے نظر اس وقت موجود ہیں انہیں انسانوں ہی نے اپنے فہم کی روشنی میں قائم کیا ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر مکتبہ فکر کی ہر بات صحیح ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بات غلط ہو ۔ علم وفکر کے اعتبار سے کسی بھی انسانی کاوش کو بالکل صحیح نہیں کہا جا سکتا میں جودین آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ، اس کے بارے میں یہ دعوی ہر گز نہیں کر سکتا کہ یہ سارے کا سارا لازماً صحیح ہو گا ۔ میں نے اپنی قائم کی ہوئی بہت سی آرا سے رجوع کیا ہے ۔ اب سے پہلے کسی رائے کو میں اپنے علم وعقل کے مطابق صحیح سمجھتا تھا اور پورے یقین کے ساتھ اس کو بیان کرتا تھا ، آج میں اپنے علم وعقل کی روشنی میں اس رائے کو غلط سمجھتا ہوں ۔ میرے ایمان ویقین کا معاملہ اصل میں میرے فہم کے ساتھ وابستہ ہے ۔ اس معاملے میں صحیح رویہ یہی ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنے دل ودماغ کو کھلا رکھنا چاہیے اور اپنی رائے کے تعصب میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ مکاتب فکر کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ فلاں مکتبہ فکر حقیقت کے زیاد ہ قریب ہے ، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں مکتبہ فکر حق ہے ۔ حق کی حتمی حجت صرف اور صرف اللہ کے پیغمبر کی بات کو حاصل ہے ۔ اس کو معیار بنا کر آپ کسی بات کے رد یا قبول کا فیصلہ کر سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضور ﷺ نے جو نماز مسلمانوں کو سکھائی ، اس میں دو طرح کے امور ہیں ۔ ایک وہ امور ہیں جنہیں آپ نے سنت(لازم) کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔ یہ نماز کے لازمی اجزا ہیں اور ان میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر نمازوں کی تعداد ، ان کے اوقات ، اذان کے الفاظ، نمازوں کی رکعتیں ، قیام میں سورہ فاتحہ اور قرآن کے کچھ حصے کی تلاوت ، رکوع کا طریقہ ، سجدے کا طریقہ اور تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا وغیرہ ۔ دوسرے امور وہ ہیں جنہیں آپ نے سنت کی حیثیت سے جاری نہیں فرمایا، بلکہ کچھ اصولی ہدایات دے کر انہیں لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے ۔ مثال کے طور پر ثنا ، قعدے میں پڑھی جانے والی دعائیں ، درود ، قیام کی صورت میں ہاتھ باندھنا ، سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعدآمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند یا پست رکھنا اور تکبیریں کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانا وغیرہ ۔ پہلی نوعیت کے امور میں امت میں ہمیشہ اتفاق رہا ہے اور یہی وہ معاملات ہیں جن پر اصرار کرنا چاہیے ۔ جہاں تک دوسری نوعیت کے امور کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں ہم اپنے ذوق کے مطابق کوئی چیز اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ وہ امور ہیں جن میں علما کی آرا مختلف رہی ہیں ۔ ان اختلافات سے نماز کی اصل ہیئت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ۔ ان معاملات کو لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے ۔ چونکہ خود پیغمبرﷺ نے ان میں سے کسی چیز پر اصرار نہیں کیا ، اس لیے ہمیں بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور باعث برکت ہے اور اس سے روزہ میں قوت رہتی ہے۔اگر آپ نے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھایا پیا اور گیارہ بجے (یعنی شرعی نصف النہار) سے پہلے روزہ کی نیت کر لی تو آپ کا روزہ صحیح ہے قضا کی ضرورت نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سورج غروب ہونے کے بعد روزہ افطار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت خیر پر رہے گی، جب تک سحری کھانے میں تاخیر اور( سورج غروب ہونے کے بعد)روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔(مسند احمد ص ۱۷۲ج۵)ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔’’ (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰۃ ص ۱۷۵) ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔(ترمذی، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            مگر یہ ضروری ہے کہ سورج کے غروب ہوجانے کا یقین ہو جائے تب روزہ کھولنا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے۔ پس صبح صادق سے پہلے پہلے کھانے پینے کی اجازت ہے۔ اگر صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: بغیر کچھ کھائے پیئے روزے کی نیت کر لے۔سونے سے پہلے روزے کی نیت کی اور صبح صادق کے بعد آنکھ کھلی تو روزہ شروع ہو گیا۔ اب اس کو توڑنے کا اختیار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جب اس نے رات کو سونے سے پہلے روزے کی نیت کر لی تھی تو صبح صادق کے بعد اس کا روزہ (سونے کی حالت میں) شروع ہو گیا اور روزہ شروع ہونے کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟ کیونکہ روزہ رکھنے کا فیصلہ تو وہ کر چکا ہے اور اس کے اسی فیصلہ پر روزہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ اب روزہ شروع کرنے کے بعد اس کو توڑنے کا اختیار نہیں اگر رمضان کا روزہ توڑ دے گا تو اس پر قضا اورکفارہ دونوں لازم آئیں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر صبح صادق ہوجانے کے بعد کھایا پیاتو روزہ نہ ہو گا خواہ اذان ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو اور اذانیں عموماً صبح صادق کے بعد ہوتی ہیں۔ اس لیے اذان کے وقت کھانے پینے والوں کا روزہ نہیں ہو گا۔ عموماً مسجدوں میں اوقات کے نقشے لگے ہوتے ہیں۔ ابتدائے فجر کا وقت دیکھ کر اس سے چار پانچ منٹ پہلے سحری کھانا بند کر دینا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نقشوں میں صبح صادق کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اس سے دوچار منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دینا چاہیے ایک دو منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو روزہ ہو جائے گا لیکن دس منٹ بعد کھانے کی صورت میں روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کھولنے کے لیے نیت شرط نہیں غالباً ‘‘افطار کی نیت’’ سے آپ کی مراد وہ دعا ہے جو روزہ کھولتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ افطار کے وقت کی دعا مستحب ہے، شرط نہیں، اگر دعا نہ کی اور روزہ کھول لیا تو روزہ بغیر کراہت کے صحیح ہے، البتہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے ، اس لیے دعا کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ بلکہ افطار سے چند منٹ پہلے خوب توجہ کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اصول یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں آدمی روزہ رکھتے وقت اور افطار کرتے وقت موجود ہو، پس جو شخص عرب ممالک سے روزہ رکھ کر کراچی آئے اس کو کراچی کے وقت کے مطابق افطار کرنا ہو گا اور جو شخص پاکستان سے روزہ رکھ کر مثلاً سعودی عرب گیا ہو اس کو وہاں کے غروب کے بعد روزہ افطار کرنا ہو گا، اس کے لیے کراچی کے غروب کا اعتبار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ دار کو جب آفتاب نظر آرہا ہو تو افطار کرنے کی اجازت نہیں ہے، طیارہ کا اعلان بھی مہمل اور غلط ہے۔ روزہ دار جہاں موجود ہو وہاں کا غروب معتبر ہے۔ پس اگر وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس بلندی سے غروبِ آفتاب دکھائی دے تو روزہ افطار کر لینا چاہیے جس جگہ کی بلندی پر جہاز پرواز کر رہا ہے وہاں کی زمین پر غروبِ آفتاب ہو رہا ہو تو جہاز کے مسافر روزہ افطار نہیں کریں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر آپ سے آپ قے آگئی تو روزہ نہیں گیا خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اور اگر خود اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کر ہوئی تو روزہ ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔اگر روزے دار اچانک بیمار ہو جائے اور اندیشہ ہو کہ روزہ نہ توڑا تو جان کا خطرہ ہے، یا بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے ایسی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے۔اسی طرح اگر حاملہ عورت کی جان کو یا بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو روزہ توڑ دینا درست ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ نے رمضان کا جو روزہ توڑا وہ عذر کی وجہ سے توڑا اس لیے اس کا کفارہ آپ کے ذمہ نہیں بلکہ صرف قضا لازم ہے اور جو روزے آپ بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکیں ان کی جگہ بھی قضا روزے رکھ لیں۔ آئندہ بھی اگر آپ رمضان مبارک میں بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں تو سردیوں کے موسم میں قضا رکھ لیا کریں، اور اگر چھوٹے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان روزوں کا فدیہ ادا کردیں، ایک دن کے روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:        ۱۔ رمضان شریف کے روزے ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہیں اور بغیر کسی صحیح عذر کے روزہ نہ رکھنا حرام ہے۔

            ۲۔اگر نابالغ لڑکا، لڑکی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ماں باپ پر لازم ہے کہ ان کو بھی روزہ رکھوائیں۔

            ۳۔جو بیمار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ رکھنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ نہ ہو اس پر بھی روزہ رکھنا لازم ہے۔

            ۴۔ اگر بیماری ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہویا روزہ رکھنے سے بیماری بڑھ جانے کا خطرہ ہو تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر جب تندرست ہوجائے تو بعد میں ان روزوں کی قضا اس کے ذمہ فرض ہے۔

            ۵۔ جو شخص اتنا ضعیف العمر ہو کہ روزہ کی طاقت نہیں رکھتا، یا ایسا بیمار ہو کہ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ صحت کی امید ہے، تو وہ روزے کا فدیہ دے دیا کرے یعنی ہر روزے کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت کسی مسکین کو دے دیا کرے یا صبح و شام ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔

            ۶۔ اگر کوئی شخص سفر میں ہو، اور روزہ رکھنے میں مشقت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ بھی قضا کر سکتا ہے۔ دوسرے وقت میں اس کو روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ اور اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔ اگرچہ روزہ نہ رکھنے اور بعد میں قضا کرنے کی بھی اس کو اجازت ہے۔

            ۷۔ عورت کو حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ مگر رمضان شریف کے بعد اتنے دنوں کی قضا اس پر لازم ہے۔

            ۸۔ بعض لوگ بغیر عذر کے روزہ نہیں رکھتے اور بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑدیتے ہیں اور پھر بعد میں قضا بھی نہیں کرتے، خاص طور پر عورتوں کے جو روزے ماہواری کے ایام میں رہ جاتے ہیں وہ ان کی قضا میں سستی کرتی ہیں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: امتحان کے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں، اور ایک شخص کی جگہ دوسرے کا روزہ رکھنا درست نہیں۔ نماز اور روزہ دونوں خالص بدنی عبادتیں ہیں۔ ان میں دوسرے کی نیابت جائز نہیں۔ جس طرح ایک شخص کے کھانا کھانے سے دوسرے کا پیٹ نہیں بھرتا، اسی طرح ایک شخص کے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے سے دوسرے کے ذمہ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنا درست نہیں، اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر آپ اس بیماری کی وجہ سے روزہ پورا نہیں کر سکتے تو آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور اگر چھوٹے دنوں میں آپ روزہ رکھ سکتے ہیں تو ان روزوں کی قضا لازم ہے اور اگر کسی موسم میں بھی روزہ رکھنے کا امکان نہیں تو روزوں کا فدیہ لازم ہے، تاہم جن روزوں کا فدیہ ادا کیا گیا اگر پوری زندگی میں کسی وقت بھی روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو یہ فدیہ غیر معتبر ہو گا، اور ان روزوں کی قضا لازم ہو گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر اندیشہ ہے کہ روزہ رکھا گیا تو مرض عود کر آئے گا تو آپ ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کر سکتے ہیں اور جو روزے آپ کے رہ جائیں اگر سردیوں کے دنوں میں ان کی قضا ممکن ہو تو سردیوں کے دنوں میں یہ روزے پورے کریں ورنہ روزوں کا فدیہ ادا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ تو واضح ہے کہ جب تک ایام شروع نہیں ہوں گے عورت پاک ہی شمار ہو گی۔ اور اس کو رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہو گا، رہا یہ کہ روکنا صحیح ہے یا نہیں؟ تو شرعاً روکنے پر کوئی پابندی نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ فعل عورت کی صحت کے لیے مضر ہو تو جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ماہواری کے شروع ہوتے ہی روزہ خود ہی ختم ہو جاتا ہے، کھولیں یا نہ کھولیں۔غیر رمضان میں روزوں کی قضا ہے تراویح کی نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جو روزے رہ گئے ہوں ان کی قضا فرض ہے۔ اگر صحت و قوت اجازت دیتی ہو تو ان کو مسلسل رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو جلد سے جلد قضا کر لینا بہتر ہے ورنہ جس طرح سہولت ہو رکھ لیے جائیں۔تمام عمر میں بھی قضا روزے پورے نہ ہوں تو اپنے مال میں سے فدیہ کی وصیت کرے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اللہ تعالیٰ آپ کو جزا ئے خیر دے آپ نے ایک ایسا مسئلہ پوچھا ہے جس کی ضرورت تمام مسلم خواتین کو ہے اور جس میں عموماً ہماری بہنیں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتی ہیں۔ عورتوں کے جو روزے ‘‘خاص عذر’’ کی وجہ سے رہ جاتے ہیں ان کی قضا واجب ہے اور سستی و کوتاہی کی وجہ سے اگر قضا نہیں کئے تب بھی وہ مرتے دم تک ان کے ذمے رہیں گے۔ توبہ و استغفار سے روزوں میں تاخیر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن روزے معاف نہیں ہوں گے۔ وہ ذمے رہیں گے۔ ان کا ادا کرنا فرض ہے، البتہ اس تاخیر اور کوتاہی کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ جب سے آپ پر نماز روزہ فرض ہوا ہے اس وقت سے لے کر جتنے رمضانوں کے روزے رہ گئے ہوں ان کا حساب لگالیجیے اور پھر ان کو قضا کرنا شروع کیجیے۔ ضروری نہیں کہ لگاتار ہی قضا کیے جائیں بلکہ جب بھی موقع ملے قضا کرتی رہیں اور نیت یوں کیا کریں کہ سب سے پہلے رمضان کا جو پہلا روزہ میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتی ہوں اور اگر خدانخواستہ پوری عمر میں بھی پورے نہ ہوں تو وصیت کرنا فرض ہے کہ میرے ذمہ اتنے روزے باقی ہیں ان کا فدیہ میرے مال سے ادا کر دیا جائے اور اگر آپ کو یہ یاد نہیں کہ کب سے آپ کے ذمہ روزے فرض ہوئے تھے تو اپنی عمر کے دسویں سال سے روزوں کا حساب لگائیے اور ہر مہینے جتنے دنوں کے روزے آپ کے رہ جاتے ہیں اتنے دنوں کو لے کر گزشتہ تمام سالوں کا حساب لگا لیجیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کفارے کے ساٹھ روزے لگاتار رکھنا ضروری ہے، اگر درمیان میں ایک دن کا بھی ناغہ ہو گیا تو گزشتہ تمام روزے کالعدم ہو جائیں گے اور نئے سرے سے شروع کرکے ساٹھ روزے پورے کرنا ضروری ہوں گے۔ لیکن عورتوں کے ایام حیض کی وجہ سے جو جبری ناغہ ہوجاتا ہے وہ معاف ہے، ایام حیض میں روزے چھوڑ دے، اور پاک ہوتے ہی بغیر وقفہ کے روزہ شروع کر دیا کرے۔ یہاں تک کہ ساٹھ روزے پورے ہو جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کسی نے بھولے سے کچھ کھا پی لیاتھا اور یہ سمجھ کرکہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے، قصداً کھا پی لیا تو قضا واجب ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی کو قے ہوئی، اور پھر یہ خیال کرکے کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے کچھ کھا پی لیا۔ تو اس صورت میں قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہ ہو گا لیکن اگر اسے یہ مسئلہ معلوم تھا کہ قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس کے باوجود کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں اس کے ذمہ قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س: اس مرتبہ رمضان المبارک میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا وہ یہ کہ میں روزہ سے تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو تلاوت کرنے بیٹھ گیا پانچ بجے تلاوت ختم کی اور افطاری کے سلسلے میں کام میں لگ گیا۔ واضح ہو کہ میں گھر میں اکیلا رہ رہا ہوں، سالن وغیرہ بنایا۔ حسب معمول شربت وغیرہ بنا کر رکھا۔ باورچی خانہ سے واپس آیا تو گھڑی پر ساڑھے پانچ بجے تھے۔ اب میرے خیال میں آیا کہ چونکہ روزہ پانچ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے، چالیس منٹ پر کچھ پکوڑے بنا لوں گا۔ خیر اپنے خیال کے مطابق چالیس منٹ پر باورچی خانہ میں گیا۔ پکوڑے بنانے لگا۔ پانچ بن کر پچا س منٹ پر تمام افطاری کا سامان رکھ کر میز پر بیٹھ گیا۔ مگر اذان سنائی نہ دی ایئر کنڈیشن بند کیا۔ کوئی آواز نہ آئی۔ پھر فون پر وقت معلوم کیا تو ۵۵:۵ ہو چکے تھے میں نے سمجھا اذان سنائی نہیں دی ممکن ہے مائیک خراب ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو، اور روزہ افطار کر لیا۔ پھر مغرب کی نماز پڑھی۔اس کے بعد اچانک خیال آیا کہ روزہ تو چھ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے۔ بس افسوس اور پشیمانی کے سوا کیا کر سکتا تھا پھر کلی کی۔ چند منٹ باقی تھے۔ دوبارہ روزہ افطار کیا مغرب کی نماز پڑھی۔ براہِ کرم آپ مجھے اس کوتاہی کے متعلق بتائیں کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو صرف قضا واجب ہے یا کفارہ؟ اور اگر کفارہ واجب ہے تو کیا میں صحت مند ہوتے ہوئے بھی ساٹھ مسکینوں کو بطور کفارہ کھانا کھلا سکتاہوں؟

ج: آپ کا روزہ تو ٹوٹ گیا مگر چونکہ غلط فہمی کی بناء پر روزہ توڑ لیا اس لیے آپ کے ذمہ صرف قضا واجب ہے کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو ، غسل یا کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر اس صورت میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں غرغرہ کرنا اور ناک میں زور سے پانی ڈالنا ممنوع ہے اس سے روزے کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ قوی ہے اگر غسل فرض ہو تو کلی کرے ناک میں پانی بھی ڈالے مگر روزے کی حالت میں غرغرہ نہ کرے نہ ناک میں اوپر تک پانی چڑھائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں حقہ پینے یا سگریٹ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر یہ عمل جان بوجھ کر کیا ہو تو قضا و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کوئی ایسی چیز نگل لی، جس کو بطور غذا یا دوا کے نہیں کھایا جاتا تو روزہ ٹوٹ گیا اور صرف قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: دانتوں میں گوشت کا ریشہ یا کوئی چیز رہ گئی تھی۔ اور وہ خود بخود اندر چلی گئی ، تو اگر چنے کے دانے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ جاتا رہا۔ اور اگر اس سے کم ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ اور اگر باہر سے کوئی چیز منہ میں ڈال کر نگل لی تو خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: زبان سے کسی چیز کا ذائقہ چکھ کر تھوک دیا تو روزہ نہیں ٹوٹا، مگر بے ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر خون منہ سے نکل رہا تھا۔ اس کو تھوک کے ساتھ نگل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا دھواں خود بخود چلا گیا۔ یا گرد و غبار چلاگیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اور اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتا رہا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آنکھ میں دوائی ڈالنے یا زخم پر مرہم لگانے یا دوائی لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ لیکن ناک اور کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اور اگر زخم پیٹ میں ہو یا سر پر ہو اور اس پر دوائی لگانے سے دماغ یا پیٹ کے اندر دوائی سرایت کر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نظر ثانی کے بعد بھی وہی مسئلہ ہے۔ فقہ کی کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ آنکھ میں ڈالی گئی دوا براہِ راست حلق یا دماغ میں نہیں پہنچتی۔ اس لیے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور کان میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(کوئی بات فقہ کی کتب میں لکھے ہونے کی وجہ سے نص قطعی نہیں بن جاتی آنکھ میں ڈالی گئی بعض ادویہ کاذائقہ واضح طور پر حلق میں محسوس ہوتا ہے ۔اس لیے مولانا مرحوم کا یہ مسئلہ محل نظر ہے ۔ قارئین عقل عام کی روشنی میں خود فیصلہ فرمائیں۔مدیر)

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ دوا آپ سحری بند ہونے سے پہلے استعمال کر سکتی ہیں۔ دوائی کھا کر خوب اچھی طرح منہ صاف کر لیا جائے پھر بھی کچھ حلق کے اندر رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ حلق سے بیرونی حصہ میں لگی ہو تو اسے حلق میں نہ لے جائیے۔ روزہ کی حالت میں اس دوا کا استعمال صحیح نہیں۔ اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ انجکشن کی دوا اگر براہِ راست معدہ یا دماغ میں نہ پہنچے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے سانس کی تکلیف میں آپ انجکشن لے سکتی ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: عذر کی وجہ سے رگ میں بھی انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ صرف طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ گلوکوز کے انجکشن کا بھی یہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو تو خون نکلنے سے ٹوٹ جائے گا اور روزے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خون حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں جب روزہ رکھنے کا ارادہ کر لیا تو نیت ہو گئی زبان سے نیت کے الفاظ کہنا کوئی ضروری نہیں دانت نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ خون حلق میں نہ گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سر پر یا بدن کے کسی اور حصہ پر تیل لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر روزہ کی حالت میں احتلام ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، روزے دار کو غسل کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ پانی نہ حلق سے نیچے اترے، اور نہ دماغ میں پہنچے، اس لیے اس کو کلی کرتے وقت غرغرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور ناک میں پانی بھی زور سے نہیں چڑھانا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ٹوتھ پیسٹ کا استعمال روزہ کی حالت میں مکروہ ہے تاہم اگر حلق میں نہ جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کلی کرکے پانی گرا دینا کافی ہے بار بار تھوکنا فضول حرکت ہے اسی طرح ناک کے نرم حصے میں پانی پہنچانے سے پانی دماغ تک نہیں پہنچتا اس سلسلہ میں بھی وہم کرنا فضول ہے۔ آپ کے وہم کا علاج یہ ہے کہ اپنے وہم پر عمل نہ کریں خواہ طبیعت میں کتنا ہی تقاضا ہو، اس طرح رفتہ رفتہ وہم کی بیماری جاتی رہے گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ کا روزہ تو نہیں ٹوٹے گا مگر گناہ میں فی الجملہ شرکت آپ کی بھی ہو گی، آپ کے منیجر صاحب اگر مسلمان ہیں تو ان کو اتنا لحاظ کرنا چاہیے کہ روزے دار سے پانی نہ منگوائیں۔ بہرحال اگروہ اپنے طرزِ عمل کو نہیں چھوڑتے تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کی نوکری چھوڑ دیں بشرطیکہ آپ کو کوئی ذریعہ معاش مل سکے ورنہ نوکری کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کہ پیٹ کی خاطر مجھے اس گناہ میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: بالغ ہونے کے بعد سے جتنے روزے آپ نے نہیں رکھے ان کی قضا لازم ہے۔ اگر بالغ ہونے کا سال ٹھیک سے یاد نہ ہو تو اپنی عمر کے تیرھویں سال سے آپ اپنے آپ کو بالغ سمجھتے ہوئے تیرھویں سال سے روزے قضا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر یاد نہ ہو کہ کس رمضان کے کتنے روزے قضا ہوئے ہیں تو اس طرح نیت کرے کہ سب سے پہلے رمضان کا پہلا روزہ جو میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتا ہوں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: درست ہے کیونکہ اس کے حق میں فرض کی قضا زیادہ ضروری اور اہم ہے، تاہم اگر فرض قضا کو چھوڑ کر نفل روزے کی نیت سے روزہ رکھا تو نفل روزہ ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: فدیہ دینے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو، اور نہ آئندہ پوری زندگی میں یہ توقع ہو کہ وہ روزہ رکھنے پر قادر ہو گا۔ آپ کی اہلیہ اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لیے ان پر ان روزوں کی قضا لازم ہے۔ خواہ سردیوں کے موسم میں رکھ لیں، فدیہ دینا ان کے لیے جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کا فدیہ صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو روزہ رکھنے پر نہ تو فی الحال قادر ہو اور نہ آئندہ توقع ہو۔ مثلاً کوئی اتنا بوڑھا ہے کہ روزے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ یا ایسا بیمار ہے کہ اس کے شفا یاب ہونے کی کوئی توقع نہیں۔ زید کی بیوی روزہ رکھ سکتی ہے۔ محض غفلت اور تساہل کی وجہ سے نہیں رکھتی۔ اس کا روزے کے بدلے فدیہ دینا صحیح نہیں۔ بلکہ روزوں کی قضا لازم ہے۔ اس نے جو پیسے کسی محتاج کو دیئے یہ خیرات کی مد میں شمار ہوں گے۔ جتنے روزے اس کے ذمہ ہیں سب کی قضا کرے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب:جو شخص قرآنِ مجید کی زبان سے واقف نہیں ہے وہ لازماً ترجمہ اور تفسیر ہی کے ذریعے سے قرآنِ مجید کو سمجھے گا۔ ایسے شخص کو یہی مشورہ دینا چاہیے کہ وہ ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ تفسیروں کا بغورمطالعہ کرے۔ اس کے بعد جن آرا پر اس کا اطمینان ہو جائے انھیں وہ اختیار کر لے۔ آپ اسے اردو زبان میں نمائندہ تفسیروں کا انتخاب کر کے دیں تو یہ اس کے لیے زیادہ مفید ہو گا۔ مثال کے طور پر آپ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی بیان القرآن ، مفتی محمد شفیع صاحب کی معارف القرآن، مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کی تفہیم القرآن اور مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کی تدبرِ قرآن مطالعے کے لیے تجویز کر سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:یہ کوئی ثابت شدہ روایت نہیں ہے۔ ایسی بہت سی روایات فضائل کے باب میں بیان کی جاتی ہیں۔ اور بسااوقات اس طرح بیان ہوتی ہیں کہ دین کی اساسات کو متاثر کر دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قیامت میں فیصلہ اصلاً عمل کی بنیاد پر ہو گا۔ یہ دیکھا جائے گا کہ ایمان انسان کے اندر کتنا جاگزیں ہے اور اس نے اس کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کیا ہے۔ فیصلے کی اصل بنیاد یہی ہے۔ باقی سب چیزیں اس کے بعد مؤثر ہوتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دین کے بارے میں جو مسالک، مکاتبِ فکر یا نقطہ ہائے نظر اس وقت موجود ہیں انھیں انسانوں ہی نے اپنے فہم کی روشنی میں قائم کیا ہے۔ ان میں سے کسی مکتبِ فکر کی ضروری نہیں کہ ہر بات صحیح ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بات غلط ہو۔ علم و فکر کے اعتبار سے کسی بھی انسانی کاوش کو بالکلیہ صحیح نہیں کہا جا سکتا۔ میں جو دین آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اس کے بارے میں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کر سکتا کہ یہ سارے کا سارا لازماً صحیح ہو گا۔ میری اپنی تاریخ مجھے بتاتی ہے کہ میں نے اپنی قائم کی ہوئی بہت سی آرا سے رجوع کیا ہے۔ اب سے پہلے کسی رائے کو میں اپنے علم و عقل کے مطابق صحیح سمجھتا تھا اور پورے یقین کے ساتھ اس کو بیان کرتا تھا، آج میں اپنے علم وعقل کی روشنی میں اس رائے کو غلط سمجھتا ہوں۔ میرے ایمان و یقین کا معاملہ اصل میں میرے فہم کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس معاملے میں صحیح رویہ یہی ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنے دل و دماغ کو کھلا رکھنا چاہیے اور اپنی رائے کے تعصب میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔ چنانچہ مکاتبِ فکر کے بارے یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ فلاں مکتبِ فکر حقیقت کے زیادہ قریب ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں مکتبِ فکر سر تا سر حق ہے۔ حق کی حتمی حجت کی حیثیت صرف اورصرف اللہ کے پیغمبر کی بات کو حاصل ہے۔ اس کو معیار بنا کر آپ کسی بات کے رد یا قبول کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:جن اصحابِ علم پر آپ کو اعتماد ہے، ان سے دین سیکھیے۔جب آپ دین کو سمجھ لیں گے تو پھر آپ کی فطرت بیدار ہو گی اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کو اپنے علم اور عمل کو کن کن چیزوں سے پاک کرنا ہے۔ جہاں تک اپنے اہل و عیال کا تعلق ہے تو ان کی آخرت کے بارے میں آپ کو لازماً فکر مند ہونا چاہیے۔ ان کو تزکیہ نفس کی منزل تک پہنچانے کے لیے آپ کو جدوجہد کرنی چاہیے،لیکن اس جدوجہد کا واحد راستہ دینی تعلیم وتربیت اور صالحین کی صحبت ہے۔ دینی تعلیم خود بھی حاصل کیجیے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے بھی اس کا بندوبست کیجیے ۔ دین کے معلمین کی مجالس میں بیٹھیے اور ان لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے جنھوں نے اپنی زند گی کو دین کے سانچے میں ڈھالا ہوا ہے اپنے اہل و عیال اور احباب کو بھی صاحبِ کردار علماکی صحبت میں بیٹھنے کی ترغیب دیجیے۔ گھر والوں کو نماز کا پابند بنائیے اور ان کے دل و دماغ میں یہ شعور پیدا کیجیے کہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ اس دنیا کی زندگی بہت مختصر ہے اور یہ محض ایک آزمایش ہے۔ان کے ذہنوں میں، ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دیجیے کہ آخرت کی کامیابی صرف اور صرف انھی لوگوں کو نصیب ہو گی جو اس دنیا میں خدا کے دین کی طرف متوجہ ہوں گے اور اپنے علم و عمل کو آلایشوں سے پاک کر لیں گے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب: میرے نزدیک صرف وہی چیزیں سنت کی حیثیت رکھتی ہیں جو صحابہ کرام کے اجماع سے ہم تک منتقل ہوئی ہیں۔ ہم انھی چیزوں پر اصرار کر سکتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر لوگوں کو توجہ بھی دلا سکتے ہیں۔ جن امور میں صحابہ کرام کا اجماع نہیں ہے،انھیں نہ سنت کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے اور نہ ان پر عمل کے لیے اصرار کیا جا سکتا ہے۔ میری تحقیق کے مطابق رفع یدین بھی ان چیزوں میں شامل ہے جن پر صحابہ کا اجماع نہیں ہو سکا، اس وجہ سے میں اسے سنت نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد چاہے ساری دنیا متفق ہو کر اسے سنت قرار دینے لگے تو میرے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:یتیم پوتے کی وراثت کے بارے میں قرآن و سنت بالکل خاموش ہیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی اس کے متعلق کوئی بات وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں ہمارے علما نے قرآنِ مجید کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اجتہاد کیا ہے۔ اس لیے یہ بالکل ایک اجتہادی نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس وجہ سے اس میں اگر کوئی اختلافِ رائے ہو تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اسے قرآن و سنت کی تردید یا تقلید کا مسئلہ بھی نہیں بنانا چاہیے۔ جس رائے پر اطمینان ہو، اس کو اختیار کر لینا چاہیے۔جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے تو میں میراث میں یتیم پوتے کا حق مانتاہوں۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز مسلمانوں کو سکھائی،اس میں دو طرح کے امور ہیں۔ ایک وہ امور ہیں جنھیں آپ نے سنت کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ یہ نماز کے لازمی اجزا ہیں اور ان میں کسی تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے۔مثال کے طور پر نمازوں کی تعداد، ان کے اوقات، اذان کے الفاظ، نمازوں کی رکعتیں، قیام میں سورۂ فاتحہ اور قرآن کے کچھ حصے کی تلاوت ، رکوع کا طریقہ، سجدے کا طریقہ اور تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔
دوسرے امور وہ ہیں جنھیں آپ نے سنت کی حیثیت سے جاری نہیں فرمایا، بلکہ کچھ اصولی ہدایات دے کر انھیں لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر ثنا،قعدے میں پڑھی جانے والی دعائیں ،حضور کے لیے دعا (درود)، قیام کی صورت میں ہاتھ باندھنا، سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند یا پست رکھنااور تکبیریں کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔
پہلی نوعیت کے امور میں امت میں ہمیشہ اتفاق رہا ہے اور یہی وہ معاملات ہیں جن پر ہمیں اصرار کرنا چاہیے۔ جہاں تک دوسری نوعیت کے امور کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں ہم اپنے ذوق کے مطابق کوئی چیزبھی اختیار کر سکتے ہیں۔یہی وہ امور ہیں جن میں علما کی آرا مختلف رہی ہیں۔ ان اختلافات سے نماز کی اصل ہیئت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ان معاملات کو چونکہ خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے، اس لیے ہمیں بھی ان میں سے کسی چیز پر اصرارنہیں کرنا چاہیے 
ان معاملات کو جنھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کے طور پر جاری نہیں فرمایا یا جن کے بارے میں لوگوں کو اختیار دیا، انھیں چند مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ حضور نے دیکھا کہ ایک صحابی قعدے میں دعا کے موقع پر اس طرح کے کلمات ادا کر رہے ہیں:السلام علی اللّٰہ یعنی اللہ پر سلامتی ہو۔ حضور نے انھیں سمجھایاکہ اللہ تعالیٰ تو سراسر سلامتی ہیں۔ انسانوں کا ان کے لیے سلامتی کی دعا کرنابے ادبی کے مترادف ہے۔پھر آپ نے التحیات کے کلمات سکھائے۔ گویا ایسا نہیں ہوا کہ حضور نے ابتدائی طور پر نماز سکھاتے ہوئے التحیات سکھائی ہو، بلکہ ایک غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور سلام پیش کرنے کا صحیح اسلوب بتایا۔سورۂ فاتحہ سے پہلے ثنا پڑھنے کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ حضور امامت کرتے وقت سورۂ فاتحہ کی تلاوت سے پہلے کچھ دیر خاموش کھڑے رہتے ہیں انھوں نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی آپ نے فرمایا کہ میں نماز شروع کرتے وقت پروردگار کے حضور میں اپنی طرف سے کچھ حمد و ثنا کے کلمات پیش کرتا ہوں۔ لوگوں نے سیکھنے کی خواہش ظاہرکی تو آپ نے انھیں سبحانک اللہم وبحمدکاور اس طرح کے بعض دوسرے کلمات سکھائے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا یعنی درود بھی لوگوں نے اسی طرح سیکھا۔ا ن مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نماز کے بعض حصوں کو حضور نے سنت کے طور پر جاری نہیں فرمایا۔ ان کی حیثیت اختیاری ہے۔ ان اختیاری امور میں ہر مسلمان فطری طور پرچاہے گا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مختارات جاننے کی کوشش کرے۔ نہیں جان سکے گا تو لازماً اجتہاد کرے گا۔ اس میں ظاہر ہے کہ اختلاف ایک فطری بات ہے۔

 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:اقامتِ دین کا مفہوم ہے دین کو پوری طرح اختیار کرنا۔ یعنی دین کو اس کی روح اور اس کے قالب کے لحاظ سے اپنا لینا اقامتِ دین کے الفاظ میں لفظِ اقامت کے وہی معنی ہیں جو اقامتِ صلوٰۃ میں اس لفظ کے ہیں۔تاریخِ اسلام کے جید علما نے ہر زمانے میں ان الفاظ کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔ موجودہ زمانے میں بعض اہلِ علم نے ان الفاظ سے مختلف معنی اخذ کرنے کی جو کوشش کی ہے، وہ محض غلط فہمی پرمبنی ہے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:نظمِ قرآن کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں تمام سورتیں موضوعات کی ایک خاص ترتیب کے ساتھ رکھی گئی ہیں۔ ہر سورہ اپنا ایک خاص موضوع رکھتی ہے۔ اس موضوع کے مطالب ایک خاص ترتیب کے ساتھ بیان ہوتے ہیں۔ ہرسورہ کی ایک تمہید ہوتی ہے اور ایک خاتمہ ہوتا ہے۔ ہر آیت اپنا ایک سیاق و سباق رکھتی ہے۔ اس طرح قرآنِ مجید ایک منظم، مرتب اور مربوط کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی نوعیت اقوال کے کسی ایسے مجموعے کی نہیں ہے جس کے ہر قول کے مختلف مطالب اخذ کیے جا سکتے ہوں، بلکہ اس کی نوعیت ایک ایسی منظم کتاب کی ہے جس کا ہر جملہ اپنا ایک متعین مفہوم اور طے شدہ پیغام رکھتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: احادیث کی تدوین صحابہ کرام کے زمانے ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ بعض اصحاب نے اپنے چھوٹے چھوٹے مجموعے بھی مرتب کر لیے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ کام ایک باقاعدہ فن کی صورت اختیار کر گیا اور تقریباً ڈھائی تین سو سال میں یہ کام منظم مجموعوں کی شکل میں مرتب ہو گیا۔جہاں تک اس کام کے محرکات کا تعلق ہے تو یہ بات ہم سب پر واضح ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کوئی معمولی ہستی نہیں تھے۔جس ہستی کے جسمِ اطہر سے چھو کر ٹپکنے والے پانی کے قطروں کو لوگ زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے، اس کی زبان سے نکلنے والے لافانی الفاظ سے وہ کیونکر صرفِ نظر کر سکتے تھے۔لوگ تو ہم آپ جیسوں کی باتوں کو محفوظ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ وہ ہستی تو پیغمبر کی ہستی تھی۔ہم جیسے تو ان کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں ہیں۔ جو لوگ ان کے زمانے میں موجود تھے، انھوں نے بالکل فطری طور پر آپ کے علم و عمل کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ بلا شبہ انسانیت پر یہ ان کا عظیم احسان ہے۔ آپ کے علم و عمل کی روایات کو آگے بیان کرنے میں بعض لوگ البتہ ، بے حد احتیاط کا طریقہ اختیار کرتے تھے۔ مثال کے طور پر سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمرِ فاروق اس معاملے میں حددرجہ محتاط تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے بہت کم روایات بیان ہوئی ہیں۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:اللہ تعالیٰ اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے کوئی نئی زبان ایجاد نہیں کرتے، بلکہ جس قوم میں وہ اپنا پیغام نازل کرتے ہیں، اسی کی زبان کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ دنیا کی زبانوں میں مرد و عورت کو مشترک طور پر مخاطب کرنے کے لیے مذکر ہی کا صیغہ استعمال کیا جاتاہے۔ چنانچہ جب قرآنِ مجید یہ صیغہ استعمال کرتا ہے تو عورتیں مردوں کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔
یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ مردوں کے لیے جنت کی کچھ خاص نعمتیں ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی اسی طرح جنت کی نعمتیں ہیں جس طرح مردوں کے لیے ہیں۔ جہاں تک ازواج کا تعلق ہے تو اس کے لیے قرآن نے ازواجِ مطہرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طرفین کے لیے پاکیزہ جوڑے ہوں گے۔ اس کے بجائے اگر یہ بات کہی جاتی کہ وہاں عورتوں کو دس دس مرد ملیں گے تو آپ خود سوچیے کہ کیا یہ کوئی شایستہ اسلوب ہوتا ؟ میرا خیال ہے کہ ہماری بہنوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عفت کا لحاظ کرتے ہوئے ساری بات ایک جملے میں بیان کر دی ہے۔

 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:قرآنِ مجید نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ نکاح معاشرے کے معروف کے مطابق ہونا چاہیے۔ کسی صالح معاشرے کے اندر اس معاملے میں جو ضوابط ہیں، جو روایات ہیں،جو رسوم و رواج ہیں، انھی کے مطابق اس ذمہ داری کو انجام پانا چاہیے ۔ ہمارے معاشرے میں اس ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے نہ صرف والدین سرگرم ہوتے ہیں، بلکہ دیگر اعزہ اوراحباب بھی اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔اسی سے رشتوں میں حسن پیدا ہوتاہے، اسی سے اچھی معاشرت وجود میں آتی ہے اور یہی ہمارا معروف ہے۔اگر کسی موقع پر والدین اپنے بچوں کی ترجیحات کو یکسر نظر انداز کردیں اور ناجائز طور پر اپنی مرضی ان پر مسلط کرنا چاہیں تواس معروف کی خلاف ورزی جائز ہو سکتی ہے،لیکن اس معاملے میں غلط یا صحیح کا تعین کسی معاملے کو سامنے رکھ کرہی کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پر والدین کا موقف درست ہو اور کسی موقع پر اولاد کی بات ٹھیک ہو۔صحیح بات یہ ہے کہ اس معاملے میں اولاد اور والدین دونوں ہی کو اعتدال کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ نہ والدین کو سختی اور جبر سے کام لینا چاہیے اور نہ اولاد کونافرمانی اور انحراف کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ باہمی موافقت اور محبت سے یہ معاملہ انجام پانا چاہیے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:خود کشی کے عمل میں اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل نہیں ہوتی، بلکہ اس کا اذن شامل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آزمایش کے لیے انسانوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے برائی یا ظلم کا ارتکاب کر لیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ اجازت نہ دیتے تو آزمایش نا ممکن تھی۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے برائی اور بھلائی کا شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔اس صورتِ حال میں جب کوئی شخص خود کشی کا اقدام کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مجھے دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک بڑا سنگین جرم ہے، اس میں خدا کی رضا کیسے شامل ہو سکتی ہے؟
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:یہ بات کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا، امورِ متشابہات میں سے ہے ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب بعض روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ سعادت نصیب ہوگی۔ لیکن یہ سعادت کیسے نصیب ہو گی، اس کا ذکر روایات میں نہیں ملتا۔احادیث میں جو باتیں درج ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ایسے ہی دیکھو گے جیسے کھلے آسمان پر چاند کو دیکھتے ہو۔اس موقع پر ہماری کیفیت کیا ہو گی؟ ہماری آنکھیں اس نظارے کا کیسے تحمل کر سکیں گی؟ یہ سب باتیں امورِ متشابہات میں شامل ہیں۔ ان کے بارے میں ہمیں اپنے اندازے لگانے کے بجائے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:یہ کوئی علمی رویہ نہیں ہے۔ اگر کوئی انسان اصرار کرے کہ میں صرف انھی چیزوں کو مانوں گا جنھیں میں دیکھ سکوں یا جنھیں حواس کی گرفت میں لے سکوں تو اس کا علم انتہائی محدود ہو جائے گا۔ جہاں تک سائنس کے دعویٰ کا تعلق ہے تو اب سائنس میں بھی یہ بات نہیں رہی۔ ہائزن برگ کے قانون عدم تعین کے بعد سائنس نے بھی اپنی عاجزی کا اعتراف کر لیا ہے۔ وہ بھی اب یہ جانتے ہیں کہ انسان کی صلاحیتوں کے حدود کیا ہیں۔ انسان صرف انھی چیزوں کو نہیں مانتا جو اس کے حواس کی گرفت میں آ جاتی ہیں۔ دیکھ کر تو جانور بھی مانتے ہیں، سونگھ کر اور سن کر وہ بھی اپنے تحفظ کا سامان کرتے ہیں۔ انسان کو اللہ نے عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ عقل محسوس سے نا محسوس کا استنباط (Deduct) کرتی ہے۔ یعنی جو چیزیں ہمارے حواس کی گرفت میں آتی ہیں ان کے ذریعے سے ان چیزوں کو جان لینا،جو حواس کی گرفت میں نہیں آتیں،یہی انسان کا کمال ہے ۔اور یہ عین علمی اور عقلی طریقہ ہے۔ آپ کا سارا علم اسی پر مبنی ہے۔ اس وقت جو کچھ بھی آپ کے پاس علم ہے،جس پر انسانیت فخر کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے سامنے تھا، ہم نے اس کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کی ہے۔ یعنی ہمارے سامنے ایک چیز موجود ہوتی ہے، ہمارے سامنے کچھ مظاہر ہوتے ہیں۔ ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر عقلی طریقے سے استنباط کر لیتے ہیں کہ یہ چیز اس کے پیچھے ہو گی۔ استقرائی منطق یہیں سے پیدا ہوئی ہے کہ انسان دنیا کے اندر جو چیزیں موجود ہیں، ان کا استقرا (موازنہ) کرتا ہے، ان کو جمع کرتا ہے،پھر اس سے نتائج نکالتا ہے۔ یہ نتائج نکالنا، تجزیہ کرنا، پیچھے جھانک لینا، محسوس سے نامحسوس تک پہنچ جانا، گرتے ہوئے سیب کو دیکھ کر کشش ثقل کے تصور کا استنباط کر لینا، یہی انسانیت کا شرف ہے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب:امتِ مسلمہ کے زوال کے سبب دو ہیں: ایک یہ کہ اس کا علم و عمل پچھلے ایک ہزار سال سے بتدریج قرآنِ مجید سے غیر متعلق ہو گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ امت میں جو لوگ ذہین تھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی علمی صلاحیتیں دی تھیں، وہ بجائے اس کے کہ سائنسی علوم کو اپنا موضوع بناتے، انھوں نے فلسفے اور تصوف کو اپنا موضوع بنایا۔ اور یہ دونوں ہی بے معنی چیزیں تھیں۔ حقیقت میں یہی امت کے زوال کا سبب ہے۔
آج اس امت کی حالت بہتر کرنی ہے تو دو کام کرنے ہوں گے: ایک یہ کہ امت کو قرآنِ مجید کے معاملے میں ایجوکیٹ کیا جائے۔ یہاں تک کہ ہمارے علم و عمل پر قرآنِ مجید کی حکومت قائم ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ امتِ مسلمہ کو دنیوی علوم اور خاص طور پر سائنسی علوم کے حصول کی ترغیب دی جائے۔ اصل میں انھی امور سے غفلت برتی گئی تو ہماری امت پر زوال آیا ہے اور انھی امور کی جانب توجہ کی جائے گی تو ان شاء اللہ بہتری ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:جہاد کے بارے میں مولانا کا ایک نقطہء نظر یہ ہے کہ جہاد صرف دفاع کے لیے ہوتا ہے، اپنے اس نقطہء نظر کے حق میں انھوں نے دلائل دیے ہیں، انھیں پڑھ لیجیے، ہو سکتا ہے کہ آپ کا اطمینان ہو جائے۔ میرا ان کے استدلال پر اطمینان نہیں ہو سکا۔اس حوالے سے میرا نقطہء نظر یہ ہے کہ دفاع کے لیے جنگ سرے سے دین کا موضوع ہی نہیں ہے۔ یہ تو فطرت کا تقاضا ہے۔ جب کوئی آدمی مجھ پر چڑھ دوڑے گا تو میرا یہ فطری حق ہے کہ میں اپنا دفاع کروں۔ اس معاملے میں دین و شریعت کو کوئی حکم دینے کی ضرورت ہی نہیں۔دین میں تو ظلم و عدوان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب کہیں انسانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہو، ان پر زیادتی کی جا رہی ہو، اور خاص طور پر انھیں دین پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہو،دین پر عمل کرنا ان کے لیے جان جوکھم کاکام بنا دیا گیا ہو تو یہ فتنہ ہے، اس فتنے کے استیصال کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ دفاع کے طریقے پر بھی ہو سکتا ہے اور کسی پر حملہ کر کے بھی ہو سکتا ہے۔
 

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ خود تربیت کا نقص ہے یعنی انسانوں کی تربیت ہمارے ہاں اچھی نہیں ہوئی تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اوصاف و صفات اپنے اندر پیدا نہیں کرتے یعنی اللہ کرم فرماتا ہے رحم فرماتا ہے اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔ وہ پروردگار ہو کر معاف کرتا ہے تو بندوں کو بھی آگے بڑھ کر معاف کرنا چاہیے اور اللہ اس کو بہت پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ پیغمبروں نے اس کے بہت اعلیٰ نمونے پیش کیے ہیں تو یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سوسائٹی کے اندر لوگوں کو اس قسم کی چیزوں کا شعور بہت کم دیا گیا ہے ہمارا نظام تعلیم بھی یہ تربیت نہیں کرتا بلکہ ساری کی ساری تربیت انتقام لینے، آدمی کو کسی کونے سے لگانے اور ا س کو کسی جہنم میں گرانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہمارے نیک لوگ اتمام حجت کے منصب پر کھڑے ہوتے ہیں یعنی آدمی کو بتا دیا جائے کہ حق کیا ہے لیکن یہ دعوت کا رویہ صحیح نہیں۔ آپ کو اپنے بھائی کی اصلاح کرنی ہے مرتے دم تک۔ صرفِ نظر کر کے اس کی غلطیوں پر پردہ ڈال کر مرتے دم تک یہی صحیح رویہ ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: غلاف کعبہ سے متعلق سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھنے کی ہے کہ یہ شعائر اللہ میں داخل نہیں ہے۔ جس کسی کو بھی یہ مغالطہ ہوا ہے کہ یہ شعائر اللہ میں سے کوئی شعیرہ ہے، اس کو یہ مغالطہ اگر دیدہ و دانستہ نہیں لاحق ہوا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ محض دین اور شعائر دین سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں کسی چیز کو شعیرہ قرار دینے کا حق ہر ایرے غیرے کو نہیں ہے، بلکہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے جن چیزوں کو شعائر کی حیثیت دی ہے، ان کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔ مجھے کہیں ان کی فہرست میں غلاف کعبہ کا ذکر نہیں ملا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور بعد کے علما میں سے بھی کسی کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ انھوں نے اس کو شعائر میں سے شمار کیا ہو۔
اس کی تاریخ آغاز سے متعلق جو مواد موجود ہے، اس سے قابل اعتماد بات جو معلوم ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ بیت اللہ کو غلاف پہنانے کا رواج زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاتھوں ہوا۔ حضرت ابراہیم یا حضرت اسمٰعیل علیہم السلام کی طرف اس کی نسبت محض ایک بے تحقیق بات ہے۔ اس کی کوئی قابل ذکر سند موجود نہیں ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات منقول ہے، اس سے بھی یہی واضح ہے کہ غلاف کعبہ کو آپ نے حضرت ابراہیم یا حضرت اسمٰعیل علیہم السلام کی سنت کی حیثیت سے اختیار نہیں فرمایا، بلکہ زمانہ قبل از اسلام کی ایک ایسی یادگار کی حیثیت سے باقی رکھنا پسند فرمایا جس میں کسی دینی ضرر کا کوئی پہلو نہ تھا۔ غلاف پہنانے سے اصل مقصود کعبہ کا احترام تھا، نہ کہ غلاف کا۔ غلاف کے احترام کے معاملہ میں تو صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور تک صورت حال یہ رہی کہ پرانے غلاف جو اتارے جاتے عام لوگوں میں ان کے ٹکڑے بیع یا تقسیم کر دیے جاتے اور لوگ بلا کسی خاص امتیاز کے عورتیں، مرد اور بچے عام کپڑوں ہی کی طرح ان کو استعمال کرتے۔اس وجہ سے یہ خیال بالکل ہی بے بنیاد ہے کہ غلاف کعبہ شعائر اللہ میں سے ہے اور اس کی تعظیم بحیثیت ایک شعیرہ کے ضروری ہے۔ بس زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ عربوں نے بیت اللہ کے احترام کے پیش نظر یہ رسم اختیار کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی پہلو سے اس کو باقی رکھنا پسند فرمایا۔ اس کے اختیار کرنے میں احترام خانہ کعبہ مدنظر تھا، نہ کہ احترام غلاف۔
شعائر اللہ سے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی دین میں بڑی اہمیت و عظمت ہے، اس وجہ سے ہر چیز کا یہ درجہ نہیں ہوا کرتا کہ اس کو ایک شعیرہ کا مقام دے دیا جائے۔ شعیرہ اس چیز کو کہتے ہیں جو دین کی کسی اہم معنوی حقیقت کا مظہر اور نشان (symbol) ہو۔ اس طرح کے نشانات مقرر کرنے کا حق ہما شما کو نہیں، بلکہ صرف اللہ اور اس کے رسول کو ہے۔ ان کی تعظیم کے طریقے بھی اللہ اور رسول ہی نے بتائے ہیں۔ کسی دوسرے کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے جی سے ان کی تعظیم کے طریقے ایجاد کرے، ورنہ اس سے دین میں بڑے فتنے پیدا ہو سکتے ہیں۔ تفسیر ''تدبر قرآن'' میں 'اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ' کے تحت ہم نے جو کچھ عرض کیا ہے، قارئین اس پر ایک نظر ڈال لیں۔ اس سے ان کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو سکے گا اور یہ حقیقت بھی واضح ہو گی کہ اگر ہر شخص من مانے طور پر جس چیز کو چاہے شعائر اللہ کا درجہ دے کر لوگوں سے اس کی تعظیم کرانے لگے تو اس سے شرک و بدعت کے کیسے وسیع دروازے کھل سکتے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری رائے تو اس باب میں یہ ہے کہ غلاف کعبہ کی زیارت اور اس کے مظاہرہ و جلوس کی باتیں تو الگ رہیں، اس کو شعائر دین میں داخل کرنا ہی بجائے خود ایک بدعت ہے۔ اس بات کو یاد رکھیے کہ دین میں غلو بھی بدعت کا ایک دروازہ ہے۔ اگر ایک چیز کا وزن دین میں چھٹانک ہے تو بس اسی حد پر اس کو رہنے دیجیے۔ اگر آپ نے اس چھٹانک کو سیر بھر کر دینے کی کوشش کی تو آپ بدعت کا دروازہ کھول دیں گے۔ ادیان کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا کون شخص اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ اس قسم کے غلو نے شرک و بدعت کے جو دروازے کھولے ہیں ، شاید ہی کسی دوسری چیز نے کھولے ہوں۔
بہرحال، میرے اپنے علم کی حد تک تو غلاف کعبہ شعائر اللہ میں سے نہیں ہے، اس وجہ سے میں بجائے خود اسی بات کو دین میں ایک اضافہ یا بدعت سمجھتا ہوں کہ اس کو شعائر اللہ میں داخل کر دیا جائے۔ لیکن چلیے چھوڑیے اس قصہ کو، میں نے تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیا کہ یہ شعائر اللہ میں داخل ہے، اور بہ حکم 'مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ'* اس کی تعظیم ہر مسلمان پر واجب ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کچھ حدود و قیود مقرر ہیں یا اس باب میں ہمیں پوری چھوٹ حاصل ہے کہ ہم ان کی تعظیم اور ان کے احترام کے نام پر جو کچھ چاہیں، کر گزریں۔ جہاں تک میں نے قرآن و حدیث سے سمجھا ہے، وہ تو یہ ہے کہ جس طرح شعائر اللہ، اللہ اور رسول کے مقرر کردہ ہیں، اسی طرح ان کی تعظیم اور ان کے احترام کے آداب و شرائط بھی اللہ اور رسول ہی کے مقرر کردہ ہیں۔ اور ہمارے لیے، اگر ہم حدود دین کے اندر رہنا چاہتے ہیں، کسی حال میں بھی یہ جائز نہیں ہے کہ ہم ان آداب و شرائط سے متجاوز ہو کر ان کی تعظیم اور ان کے احترام کی نت نئی شکلیں ایجاد کریں اور ان کو شرعی حیثیت دے کر نہ صرف یہ کہ خود ان پر عمل پیرا ہوں، بلکہ دوسروں کے لیے بھی ان کو موجب سعادت دارین قرار دیں۔
میں اس حقیقت کی وضاحت ایک مثال سے کرتا ہوں۔ غلاف کعبہ کو توآج شعائر الٰہی میں داخل کیا گیا ہے، میں ایک ایسے شعیرہ کو لیتا ہوں جو حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہم السلام کے وقت سے اہم ترین شعائر دین میں داخل ہے، جس کے شعائر دین میں سے ہونے پر کتاب و سنت، دونوں ناطق ہیں اور جس کے بارے میں پوری امت کا اجماع ثابت ہے۔ میرا اشارہ ہَدی و نیاز کے ان جانوروں کی طرف ہے جو خدا کے گھر کے لیے لے جائے جائیں۔ فرض کیجیے کہ آپ کے شہر سے کچھ جانور اس مقصد سے مکہ روانہ کیے جاتے ہیں۔ کیا ان کے احترام کے نام پر ہمارے لیے یہ بات جائز ہو گی کہ پہلے ہم حضوری باغ میں سارے شہر کے مردوں اور عورتوں کے لیے ان کی زیارت کا اہتمام کریں، پھر شاہی مسجد سے علما، قاریوں، نعت خوانوں، موٹروں اور گاڑیوں کے جلو میں ان کا جلوس نکالیں، عوام کو ہدایت کریں کہ لوگ باوضو کلمہ پڑھتے ہوئے اور نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے اس جلوس کے ساتھ ساتھ چلیں، دکان داروں کو تلقین کریں کہ وہ اس جلوس پر گلاب پاشی اور عطر پاشی کریں۔ حکومت کو آمادہ کریں کہ وہ اپنے دفاتر و مدارس بند کر کے لوگوں کے لیے اس جلوس سعادت میں شریک ہونے کا موقع بہم پہنچائے اور ہوائی جہازوں سے ان جانوروں پر گل پاشی کرے، ریلوے کے محکمہ سے مطالبہ کریں کہ وہ مخصوص ڈبے تیار کرکے کراچی سے پشاور اور پشاور سے ڈھاکہ تک شہر شہر میں ان مقدس شعائر کی عوام کو زیارت کرائے؟
ممکن ہے دنیا کے کسی دین میں یہ باتیں جائز ہوں، لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، اس میں تو احترام شعائر الٰہی کی ان شکلوں کے جواز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے میں تو اپنے آپ کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہوں کہ جس طرح غلاف کعبہ کا شعائر اللہ میں داخل کرنا بدعت ہے، اسی طرح اس کے احترام و تعظیم کی وہ شکلیں بھی تمام تر بدعت ہیں جو یہاں اختیار کی گئیں۔
تعظیم شعائر الٰہی کے ان نئے علم برداروں نے اپنے پمفلٹ میں شرک و توحید کا یہ نیا فلسفہ جو پیش کیا ہے کہ جو خانہ کعبہ سے باہر شرک ہے، وہ اس کے اندر جا کر توحید بن جاتا ہے، میرے نزدیک یہ بھی دین میں ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ اگر فی الواقع بات یہی ہوتی تو ان تین سو ساٹھ بتوں کو خانہ کعبہ سے بیک بینی و دوگوش باہر نہ نکالناپڑتا جن کو عرب جاہلیت نے خانہ کعبہ کے اندر لا گھسایا تھا، بلکہ وہ بھی اس فلسفہ کی اکسیر سے اجزائے توحید و ایمان بن گئے ہوتے لیکن ہوا یہ کہ اسلام نے اپنی 'جَآءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ' کی خارا شگاف گرز سے ان کو اس طرح پاش پاش کر دیا کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ میرے نزدیک یہ فلسفہ ان کے ''حکمت عملی'' کے فلسفہ سے بھی زیادہ گمراہ کن ہے، لیکن میں اس وقت اس پر کوئی بحث کرنا نہیں چاہتا، اس لیے کہ یہاں جوکچھ ہوا وہ تو اندر کا معاملہ نہیں، بلکہ باہر کا معاملہ ہے۔ میں حیران ہوں کہ باہر کا یہ شرک اندر پہنچنے سے پہلے ہی کس طرح توحید بن گیا۔
اوپر میں نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے، ان کی ذمہ داری تو براہ راست ان حضرات ہی پر عائد ہونی چاہیے جنھوں نے اسلام میں اس نئی تعزیہ داری کے لیے یہ کچھ اہتمام کیا اور اس کو باضابطہ اپنے اقامت دین کے پروگرام میں شامل کر کے پاکستان کے ہر حصہ میں اس کی سربراہی کی۔ رہی وہ باتیں جو عوام نے کیں تو ان کے لیے عوام کو قصور وار ٹھہرانا ہمارے نزدیک ان حضرات کی بڑی زیادتی ہے۔ ہم تو عربی کی اس مشہور ضرب المثل کے قائل ہیں کہ ''جب صاحب خانہ طبلہ بجانا شروع کر دے تو گھر کے بچوں کو ناچنے اور گانے پر ملامت نہ کرو''۔ جب دین میں اتنی بدعتیں دین کے علم برداروں نے داخل کر دیں تو آخر عوام اس میں حصہ لینے کی سعادت سے کیوں محروم رہتے، انھوں نے بھی جو کچھ سمجھ میں آیا کیا۔ جو قوم مزارات اور قبروں کے آگے سجدے کرتی، منتیں مانگتی، دعائیں اور فریادیں کرتی ہے، اگر آپ نے اس دھوم دھام، اس تزک و احتشام اور اس تقدیس و احترام کے ساتھ اس کو غلاف کعبہ کی زیارت کرائی تو اس کی محرومی و بدبختی ہی تھی اگر وہ یہ کچھ نہ کرتی جو اس نے کیا۔ ہمیں تو اس بات پر ذرا بھی حیرانی نہیں ہے کہ لوگوں نے غلاف کعبہ کی گاڑی کو بوسے دیے اور اس کو سجدے کیے، اس پر پھینکے ہوئے پھولوں کی پنکھڑیوں کو تبرک اور ذریعہ شفا سمجھ کر حرزجاں بنایا، اس سے عورتوں نے اپنے برقعے اور مردوں نے اپنی چادریں چھو کر برکت اور صحت حاصل کی، اس سے بیماروں نے تندرستی، بے اولادوں نے اولاد اور ضرورت مندوں نے اپنی ضرورت مانگی، بلکہ ہمیں تو اس بات پر بھی ذرا تعجب نہیں ہوا کہ لاہور میں غلاف کعبہ کو داتا دربار میں پیش کر کے اس کی تقدیس کو دوچند کیا گیا، اور بعض شہروں میں
 اس کا باقاعدہ طواف ہوا۔ اسی طرح ہمیں نذرانے پیش کرنے پر بھی کوئی حیرانی نہیں۔ البتہ حیرانی ہے تو اس بات پر ہے کہ نذرانے کی رقم صرف پانچ ہزار ہی تک کیوں پہنچی۔ جو دریا دل قوم لاکھوں روپے مزاروں اور قبروں کے مجاوروں کے قدموں میں ڈال دیتی ہے، آخر وہ غلاف کعبہ کے مجاوروں کا حق ادا کرنے میں اپنی دریادلی کیوں بھول گئی۔
غرض ان باتوں میں سے ہمیں کسی بات پر کوئی حیرانی نہیں ہے۔ یہ جو کچھ ہوا ہر عقل مند آدمی کو معلوم تھا کہ اس پردہ کے پیچھے یہی کچھ ہو سکتا ہے اور یہی کچھ ہوگا، صرف ابلہ یا خود غرض ہی اس سے کچھ الگ اندازہ کر سکتے تھے، البتہ ایک بات پر ہمیں حیرانی ضرور ہے کہ ان حضرات نے پہلے تو بڑی شیوا بیانی اور بڑی رطب اللسانی کے ساتھ عوام کے اس جوش عقیدت، اس رکوع و سجود، اس تقبیل و استلام اور اس دعا و استرحام کی تفصیلات خود اپنے اخبارات میں چھاپیں اور خلق کو ڈاکٹر اقبال کے الفاظ میں یہ بشارت سنائی کہ
''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی''
اور اس نمی کو فراہم کرنے کا سارا کریڈٹ یہ حضرات بلاشرکت غیرے خود ہی سمیٹ لینے کے لیے بے قرار نظر آتے تھے، لیکن اب معلوم نہیں کیا حادثہ پیش آیا ہے کہ اپنی فراہم کردہ نمی کی اپجائی ہوئی فصل کو کاٹنے اور سمیٹنے کے لیے ان حضرات کے اندر وہ پہلا سا جوش و خروش نظر نہیں آ رہا ہے، بلکہ یہ اس کی ساری ذمہ داری غریب عوام پر ڈال رہے ہیں، حالاں کہ اب یہی موقع آگے بڑھ کر حوصلہ کے ساتھ کام کرنے اور کھتے بھرنے کا تھا۔
ہر زمین ہر چیز کی کاشت کے لیے موزوں نہیں ہوا کرتی۔ ایک زمانہ تک تو ہمارے یہ احباب اس زمین میں توحید کی کاشت کے لیے جدوجہد کرتے رہے، لیکن تجربہ نے ان کو بتایا کہ اس سنبل کی کاشت کے لیے یہ زمین شور ہے، البتہ غلاف کعبہ کی برکت سے ان دوستوں پر اس زمین کی نئی صلاحیتوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اب دیکھیے شرک و بدعت کی فصل اگانے اور بڑھانے میں ان کا رول کیا رہتا ہے۔ اس میدان کے دوسرے حریفوں کا ریکارڈ توڑتے ہیں یا اس میں بھی پھسڈی ثابت ہو کر 'خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ' کے مصداق ٹھہرتے ہیں۔
حکومت کو اسلامی بنانے سے پہلے معاشرے کو اسلامی بنانا ضروری ہے 
سوال: آپ نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ''حکومت اسلامی کا قیام ایک آزاد اسلامی معاشرہ کی ذمہ داری ہے''۔ اس نظریہ کا ماخذ کیا ہے، کتاب و سنت میں اس کی اصل کیا ہے اور فقہ کی تقسیم احکام میں یہ چیز کس طرح چسپاں ہوتی ہے؟
جواب: حکومت اسلامی ہو یا غیر اسلامی، بہرحال وہ ایک بالغ معاشرہ ہی سے وجود میں آتی ہے۔ معاشرہ ہی ترقی کرتے کرتے جب اپنی آزادی اور استقلال کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے تو حکومت کو جنم دیتا ہے جو ٹھیک ٹھیک اس کے مزاج کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر معاشرہ کی اٹھان جاہلی اور غیراسلامی نظریات پر ہوئی ہوتی ہے تو اس کے بطن سے غیر اسلامی طرز کی حکومت جنم لیتی ہے اور اگر معاشرہ کی اٹھان اسلامی طریقہ پر ہوئی ہوتی ہے تو اس سے ایک اسلامی حکومت وجود پذیر ہوتی ہے۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ اسلام میں احکام و قوانین کے نزول کی ترتیب و تدریج بالکل معاشرہ کے تدریجی ارتقا کے قدم بہ قدم ہے۔ معاشرہ جس رفتار سے بچپن، مراہقہ اور بلوغ کے ادوار میں داخل ہوا، اسی مناسبت سے ہر دور کے تقاضوں کے مطابق احکام و قوانین اترے۔ یہاں تک کہ ایک حکیم سے یہ حقیقت بھی مخفی نہیں ہو سکتی کہ پہلے دور کے احکام میں جو تقاضے دوسرے یا آخری دور سے متعلق مضمر تھے، وہ پہلے دور میں واضح نہیں کیے گئے، بلکہ اس وقت واضح کیے گئے جب ان کے اظہار کے لیے مناسب دور آ گیا۔ اس کے لیے توحید اور رسالت پر ایمان کے مقتضیات کے تدریجی انکشاف پر غور کرنے سے میری بات کی تصدیق ہو گی۔اسی بنیاد پر، جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا، ہمارے فقہا اجرائے حدود اور نفاذ احکام سے متعلق بہت سے معاملات میں دارالاسلام یا بہ الفاظ دیگر ایک آزاد خودمختار معاشرہ کے وجود کی شرط لگاتے ہیں اور دارالکفر میں ان کے اجرا و نفاذ کی اجازت نہیں دیتے۔ان باتوں کا حوالہ دینے سے ہمارا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے شرط اول اسلامی معاشرہ کی تعمیر ہے۔ اس زمانے میں صحیح لفظوں میں اسلامی معاشرہ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ جن ملکوں میں مسلمان ایک مظلوم و مقہور اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کا تو مسئلہ ہی خارج ازبحث ہے۔ خالص مسلمان ملکوں کا حال بھی اس زمانہ میں یہ ہے کہ جن اساسات پر اسلامی معاشرہ قائم ہوتا ہے، وہ سب ان میں منہدم اور جاہلیت کے ملبوں کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ ایسے حالات میں جو لوگ اسلامی نظام کے قیام کے خواہاں ہیں، ان کا مقدم فرض یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں پر معاشرہ کی تعمیر کی جدوجہد کریں اور اسی تدریج و ترتیب کے ساتھ اس کو آگے بڑھائیں جس تدریج و ترتیب کے ساتھ اس کو قرآن اور پیغمبر نے آگے بڑھایا تھا۔ اس بنیادی کام کے بغیر جو لوگ ''انقلاب قیادت'' اور ''حکومت الٰہیہ'' کا نعرہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ہم ان کے کام کو اسلامی نقطہ نظر سے نہ صرف بے نتیجہ، بلکہ بعض پہلوؤں سے نہایت مضر خیال کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ یا تو درخت لگائے بغیر پھل کھانا چاہتے ہیں یا اندرائن اور گلوئے نیم کی بیلوں سے انگور کے خوشے توڑنا چاہتے ہیں۔

 

(مولانا امین احسن اصلاحی)


جواب: اسلام کے احکام و قوانین پر غور کیجیے گا تو معلوم ہو گا کہ وہ بہ اعتبار ادوار تین حصوں میں تقسیم ہیں اور تینوں اپنے مزاج کے لحاظ سے الگ الگ ہیں: ایک حصہ ان احکام و تعلیمات پر مشتمل ہے جو تشکیل معاشرہ اسلامی سے متعلق ہیں۔ دوسرا حصہ عبوری دور کے احکام پر مشتمل ہے (یہی وہ حصہ ہے جس میں بعد میں حالات کی تبدیلی سے نسخ واقع ہوا)۔ تیسرا حصہ ان احکام پر مشتمل ہے جو براہ راست اسلامی حکومت سے متعلق ہیں۔ دور اول کے احکام کا مزاج قدرتی طور پر غیر سیاسی ہے۔ عبوری دور کے احکام میں آگے اور پیچھے کے دونوں دوروں کے تقاضے ملے جلے ہیں۔ تیسرے دور کے احکام اس اعتبار سے تمام تر سیاسی نوعیت کے ہیں کہ صرف ایک حکومت ہی ان کی حامل ہو سکتی ہے اور اسی کے ہاتھوں ان کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔
اسلام کے یہ احکام چونکہ اسی ترتیب کے ساتھ نازل ہوئے، اس وجہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صدر اول کے مسلمانوں کو کوئی گھپلا پیش نہیں آیا۔ احکام ٹھیک اپنی فطری ترتیب کے مطابق نازل ہوئے اور اسی ترتیب کے مطابق ان کی تبلیغ و اشاعت یا تنفیذ عمل میں آئی۔ اب اس زمانہ کے لوگوں کو یہ گھپلا پیش آ رہا ہے کہ پورا دین نازل شدہ ان کے سامنے موجود ہے اور اس کے مختلف النوع احکام کے درمیان ایسے فاصل خطوط نہیں ہیں جن کی مدد سے ایک عام آدمی ان کے درمیان امتیاز کر سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ غیرحکیم داعیوں نے یا تو معاشرے کے حالات کا لحاظ کیے بغیر محض اپنے پروگرام کو حاوی اور ہمہ گیر دکھانے کے شوق میں پورے دین کی دعوت کا نعرہ بلند کر دیا یا ابتدائی مراحل کو چھوڑ کر محض سیاسی قسمت آزمائی کے خبط میں آخری مرحلہ میں داخل ہو گئے۔ یہ صورت حال نہ صرف غیر حکیمانہ ہے، بلکہ بعض حالات میں نہایت خطرناک بھی ہے۔ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، وہاں تو ممکن ہے کہ اس بے تدبیری کا ضرر صرف اسی حد تک محدود رہے کہ اس قسم کی تمام مساعی بالکل عبث اور بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں، لیکن جہاں مسلمان خطرات میں گھری ہوئی ایک مظلوم اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں، وہاں تو یہ غلط طرزعمل نہ صرف اسلام کے خلاف ذہنوں میں (مسلموں اور غیر مسلموں، دونوں کے) شدید قسم کی الجھنیں پیدا کر دے گا، بلکہ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ اس کا ردعمل ایسی صورت میں ظاہر ہو کہ وہاں اسلام اور مسلمانوں کو شدید قسم کا نقصان پہنچ جائے۔ سوچیے کہ اگر غیر مسلموں کے کسی ملک میں کچھ مسلمان اسلام کے داعی بن کر جائیں اور اپنی دعوت کا آغاز وہ اس نکتہ سے کریں کہ ہم یہاں اسلام کی حکومت قائم کرنے یا انقلاب قیادت کے لیے آئے ہیں، تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس میں تو شبہ نہیں کہ یہ کہنا حوصلہ کا کام ہے، لیکن کیا ساتھ ہی یہ ایک حماقت کی بات نہیں ہے؟ دنیا کے بے شمار ملکوں میں مسلمانوں نے اسلام کی دعوت دی جن میں سے بہتوں میں اسلام کی حکومتیں بھی بعد میں قائم ہو گئیں، لیکن بتائیے کہ کس جگہ انھوں نے حکومت الٰہیہ کی دعوت یا انقلاب قیادت کے نعرہ سے اپنے کام کا آغاز کیا؟ ان داعیوں کے متعلق اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان کی دعوت ادھوری تھی یا ان کو پورے دین کا شعور نہیں تھا تو میں ایسے شخص کو اسلامی نظام کے شعور سے بالکل محروم خیال کرتا ہوں۔یہ نہ خیال فرمائیے کہ جس وقت ایک داعی ایک غیر اسلامی معاشرہ میں ایمان و اسلام کی بنیادی اور تعمیری دعوت شروع کرتا ہے تو وہ دین کے دوسرے اجتماعی و سیاسی مطالبات کو نظرانداز کرتا ہے یا اپنے آپ کو وہ ان کا مخاطب یا مکلف نہیں سمجھتا یا وہ ان کے نفاذ کے لیے حالات پیدا کرنے کی جدوجہد نہیں کرتا۔ وہ اپنے اسی تعمیری اور تمہیدی کام کے ساتھ یہ سارے کام کر رہا ہوتا ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ میں دین کے ان مطالبات کا مخاطب و مکلف اپنی انفرادی حیثیت میں یا اس حالت میں نہیں ہوں، جبکہ میں اپنے گردو پیش صرف کچھ منتشر افراد رکھتا ہوں، بلکہ صرف اسی صورت میں ہوں جب اس دعوت سے ایک ایسا منظم اور بااختیار معاشرہ وجود میں آ جائے جو ان مطالبات کے اجرا و تنفیذ کے لیے مؤثر اقدام کر سکے۔ اس سے پہلے کی ساری جدوجہد اس کے اسی آخری منصوبہ کی تمہید ہوتی ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ اس آخری سرحد تک پہنچنا خدا کے فضل و رحمت پر منحصر ہے۔ اس وجہ سے وہ دین کے جس مرحلہ کا کام کر رہا ہوتا ہے، اسی کے لیے پکارتا ہے اور چونکہ ہر مرحلہ کی دعوت اپنے اندر دلوں اور روحوں کے لیے ایک فطری اپیل رکھتی ہے، اس وجہ سے اگر وہ اخلاص و استقلال کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اگر چاہتا ہے تو اس کی جدوجہد کو آخری منزل تک بھی پہنچاتا ہے۔ اگر اس سے پہلے ہی اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو اس کی موت ایک مجاہد فی سبیل اللہ کی موت ہوتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے وہ ایک کامیاب آدمی ہوتا ہے، اس کو ناکام نہیں قرار دیا جا سکتا۔اور اگر وہ اپنی بے تدبیری سے یا محض سیاسی اقتدار کے حصول کے شوق میں وہ بوجھ اپنے سر پر اٹھانے یا اپنے گرد و پیش کے پراگندہ افراد کے سروں پر لادنے کی کوشش کرے جو بوجھ ایک منظم اور بااختیار اسلامی معاشرہ ہی کے اٹھانے کا ہے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں نکل سکتا کہ خود اس کی کمر بھی ٹوٹ کر رہ جائے اور دوسروں کی بھی، نیز سارے ماحول میں اسلام کی دعوت ایک خبط و جنون کا نعرہ یا ایک مذاق سمجھی جانے لگے۔
معاف کیجیے گا! آپ حضرات اگر ایک بات ٹھیک کہتے ہیں تو اس کے ساتھ اسی سانس میں دوسری بات بالکل غلط بھی کہتے ہیں۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اسلام صرف مسجد کا دین نہیں ہے، بلکہ حکومت کا بھی دین ہے، لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کہ اسلام کی دعوت ہر معاشرہ اور ہر ماحول میں حکومت الٰہیہ یا انقلاب قیادت کی دعوت سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بڑی ہی شدید غلط فہمی، بلکہ شدید قسم کی جہالت ہے جس کی جس قدر جلدی اصلاح ہو جائے اچھا ہے۔ اسی غلط نظریہ کا نتیجہ ہے کہ آج اقامت دین کے علم برداروں کا واحد نصب العین صرف حکومتی اقتدار رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اقتدار ہمارے حوالہ کرو، ہم چشم زدن میں خلافت راشدہ قائم کیے دیتے ہیں۔ اب یہ بات ان کی سمجھ میں کسی طرح نہیں آتی کہ اسلامی حکومت مطالبہ کرنے کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قدرتی نتیجہ ہے ایک صحیح قسم کے اسلامی معاشرہ کے صحت مندانہ بلوغ کا۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ راستہ بڑے صبر و ریاض کا ہے، لیکن اس کو کیا کیجیے کہ راستہ ہے یہی۔ اس کے لیے جو لوگ انتخابات کے راستہ پر اعتقاد رکھتے ہیں، مجھے ان کی سادہ لوحی پر تعجب ہوتا ہے۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں حکومت بھی نہ دی تو پھر کیا دیا۔ اس جذبہ کے تحت وہ اسلام کی بات ہی حکومتی اقتدار سے شروع کرتے ہیں۔ میں اس بات کو ایک بالکل جذباتی چیز سمجھتا ہوں۔ اسلام نے حکومت کی نہیں، بلکہ ہدایت اور نجات کی ذمہ داری لی ہے، ہاں اگر صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں آ جائے تو اس کے اوپر وہ احکام آپ سے آپ فرض ہو جاتے ہیں جو حکومت سے متعلق ہیں اور اس وقت یہ بات بالکل صحیح ہو گی کہ آپ اس کو اس کی ذمہ داریاں بتائیں۔ ننھے بچوں کے سامنے جوانی کی ذمہ داریوں پر تقریر کرنا ایک بالکل بے ہنگام بات ہے۔

 

(مولانا امین احسن اصلاحی)


جواب:علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ ہماری قوم کے اندر ایک منفرد سیرت و کردار کے لیڈر تھے۔ اگرچہ ہمیں کبھی ان کے نظریات سے پورا پورا اتفاق نہ ہو سکا، لیکن اس امر میں ہمیں کبھی شک نہیں ہوا کہ اپنی قوم کی سربلندی کے لیے ان کے دل کے اندر بڑا غیرمعمولی جوش و جذبہ تھا۔ وہ اسلام اور غلبہ کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے، اس وجہ سے اس دور میں مسلمانوں کی بے بسی پر ان کا دل بہت کڑھتا تھا۔ انھوں نے اس حیرت انگیز تضاد سے بڑا گہرا تاثر لیا کہ مسلمان قومیں اسلام کی مدعی ہیں، لیکن دنیا میں ذلیل و خوار ہیں اور مغربی قومیں اسلام کی منکر ہیں، لیکن نہ صرف مشرق کی غیرمسلم قوموں پر، بلکہ خود مسلمانوں پر بھی حاوی اور غالب ہیں۔ جب انھوں نے اس صورت حال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی نظر اس بات کی طرف گئی کہ ہم مسلمان صرف اسلام کی چند روایات کے پرستار بن کر رہ گئے ہیں اور اسلام کا اصلی کردار دنیا کی غالب قوموں نے اپنا رکھا ہے۔ ان غالب قوموں کے کردار میں سب سے زیادہ ابھری ہوئی چیز جو ان کو نظر آئی،
 وہ ان کا عسکری جوش و جذبہ اور ان کی فوجی تنظیم تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ اور ایشیا کے متعدد ملکوں میں عسکری تحریکیں بڑے زور و شور سے اٹھیں اور ستم رسیدہ ممالک کے حساس لوگوں کو ان تحریکوں نے اپیل کیا۔ علامہ مشرقی مرحوم بھی ایک نہایت حوصلہ مند انسان تھے۔ انھوں نے بھی وقت کے حالات سے بڑا گہرا اثر لیا اور اپنی قوم کے اندر عسکری تنظیم کا صور اس زور سے پھونکا کہ فی الواقع ان کی تحریک نے پورے ملک میں ایک ہلچل پیدا کر دی ان کی تحریروں اور تقریروں میں ایک خاص قسم کا زور تھا جو عسکری جوش و جذبہ رکھنے والے بوڑھوں اور جوانوں پر جادو کا اثر کرتا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے علما کے سوا ہر طبقہ کو متاثر کیا۔ ان میں عسکری تنظیم کی حیرت انگیز قابلیت تھی۔ چنانچہ انھوں نے عملاً خاک ساروں کا ایک لشکر تیار کر دیا۔ اس حقیقت کا کوئی مشکل ہی سے انکار کر سکے گا کہ ان کے ماننے والے ان کے فدائی تھے اور وہ اطاعت مطلق کی حد تک ان کی اطاعت کرتے تھے۔ اسلام کو ایک پرقوت سیاسی نظام کی حیثیت سے پیش کرنے میں بھی ان کا ایک خاص مقام ہے وہ تمام سیاسی اصطلاحیں جو آج بہت سے لوگ اسلام کا سابقہ و لاحقہ بنائے ہوئے ہیں، انھی کی اولیات میں سے ہیں! ہمیں، جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں، علامہ مرحوم کے نظریات نے کبھی اپیل نہیں کیا، لیکن ہم نے ان کو ہمیشہ اپنی دھن کا پکا سمجھا۔ وہ ریاضی میں اتنی اونچی ڈگری رکھتے تھے کہ اپنے ملک میں بھی اور اپنے ملک سے باہر بھی اس کی بڑی قیمت وصول کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے ساری زندگی ایک دوسرے ہی عشق میں گزار دی۔ کونسلوں اور اسمبلیوں کی ممبری اور وزارت و صدارت کے چکر میں بھی وہ کبھی نہیں پھنسے، حالاں کہ اس میدان میں اترتے تو ان کے لیے بڑے امکانات تھے۔ ان باتوں سے اندازہ ہو تا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کی سربلندی کے لیے جس چیز کو اپنا نصب العین قرار دے لیا تھا، اس سے انھیں کوئی چیز منحرف نہیں کر سکی۔ اپنی تحریک میں وہ کامیاب ہوئے یا نہیں، لیکن اپنی تحریک کے ساتھ وفاداری میں وہ سو فی صد کامیاب رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
٭٭٭

 

(مولانا امین احسن اصلاحی)

جواب :اسباب اپنانا اللہ تعالی پر اعتماد اور بھروسا کرنے کے منافی نہیں ہے؛ بلکہ اسباب اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے، لیکن ساتھ میں یہ عقیدہ ہونا ضروری ہے کہ نفع اور نقصان صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہی مسبب الاسباب ہے، یعنی اسباب میں تاثیر پیدا کر کے اہداف مکمل فرما دیتا ہے۔اسی طرح اسباب ایسے ہوں جن کا حقیقی معنوں میں باہمی تعلق ہو، اور اپنائے جانے والے اسباب کی کامیابی مشاہداتی، یا عرف یا شرعی ذریعے یا کسی اور انداز سے مشہور و معروف ہو۔اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اپنائے جانے والے اسباب شرعی طور پر بھی جائز ہوں؛ چنانچہ اچھے اہداف کے لیے وسائل و اسباب کا شرعاً درست ہونا بھی از بس ضروری ہے۔
اسباب اپنانے کے بعد انسان کو معتدل رہنا چاہیے، لہذا یہ درست نہیں ہے کہ کلی طور پر اسباب اپنانا ہی چھوڑ دے، اور نہ ہی کلی طور پر اسباب کے ساتھ ہی دل لگا لے، چنانچہ ہونا یہ چاہیے کہ اسباب کو اسی طرح صرف ذریعہ ہی سمجھے جیسے دیگر لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں اسباب کو ذریعہ سمجھتے ہیں، ان پر کلی اعتماد نہ کرے، بلکہ اعتماد صرف خالق باری تعالی پر ہی کرے؛ کیونکہ وہی شہنشاہ اور تمام امور کو چلانے والا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:''اسباب پر اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ: دل کلی طور پر اسباب پر بھروسا کر بیٹھے اور اسی سے امید لگائے، اسی کو سہارا سمجھے؛ حالانکہ مخلوقات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جن پر مکمل طور پر اعتماد کیا جا سکے؛ کیونکہ مخلوق تنہا کچھ بھی نہیں اور مخلوق کے حامی اور مخالفین بھی ہوتے ہیں، اس تفصیل کے بعد: اگر مسبب الاسباب ذات ان اسباب کو مؤثر نہ بنائے تو یہ اسباب غیر مؤثر ہی رہتے ہیں'' انتہی
''مجموع الفتاوی'' (8/169)
اور جہاں تک اسباب اپنانے کے ضابطوں کا معاملہ ہے تو وہ ہر معاملے کے اعتبار سے الگ ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے معمولی بیماری کے لیے احتیاط ایسے نہیں ہوتی جیسے غیر معمولی بیماری کے لیے ہوتی ہے، اسی طرح قیمتی چیز کی حفاظت ایسے نہیں ہو تی جیسے معمولی قیمت کی چیز کی ہوتی ہے، تو یہی معاملہ اسباب اپنانے کا بھی ہے۔اسی طرح تلاشِ معاش کیلیے اسباب اپنانے کا ضابطہ بیماریوں سے بچاؤ سے مختلف ہو گا، اسی طرح کھانے پینے کے لیے اسباب اپنانے کا ضابطہ حصولِ اولاد کے ضابطوں اور اسباب سے مختلف ہو گا، اسی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کیلیے اسباب بھی مختلف ہوں گے، چنانچہ ہر معاملے کے لیے اسباب مختلف اور ان کے ضابطے بھی الگ الگ ہوں گے۔اسی طرح اسباب نہ اپناتے ہوئے سستی اور کاہلی میں پڑے ہوئے شخص کے درمیان اور اسباب اپنانے کیلیے خوب تگ و دو کرنے والے میں بھی فرق ہوتا ہے، ہر ایک اپنے اپنے معاملات اور حالات کے اعتبار سے بھی مختلف ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں لوگوں کو اپنے بارے میں زیادہ جانکاری ہوتی ہے وہ اپنی عادات اور طور اطوار سے بھی اسباب اپنانے کی کیفیت جان لیتے ہیں۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:آپ نے شادی کے اخراجات میں اپنے منگیتر کا تعاون کرنے کی نیت کر کے بہت اچھا کیا ہے، تا کہ آپ کی شادی کی تکمیل جلد ہو سکے، آپ اس پر شکریہ کی مستحق ہیں اور یہ چیز دین متین اور عقل و دانشمندی کی دلیل ہے۔آپ کا اپنے منگیتر کی شادی میں تعاون کرنا اس کے دین و ایمان میں معاونت کہلاتی ہے، اور یہ عظیم الشان اطاعت میں آتا ہے، اور شریعت مطہرہ میں قابل تعریف امر ہے، اور مال خرچ کرنے کے عظیم مصرف میں شامل ہوتا ہے.ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:جب درج ذیل آیت نازل ہوئی:
اور وہ لوگ جو سونے اور چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں۔تو ایک سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ کے کسی صحابی نے کہا:سونے اور چاندی کے متعلق جو کچھ نازل کیا جا چکا ہے وہ تو نازل ہوگیا، اگر ہمیں پتہ چل جائے کہ کونسا مال اچھا ہے تو ہم وہ حاصل کریں۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ذکر کرنے والی زبان، اور شکر کرنے والا دل، اور مومنہ بیوی جو خاوند کے ایمان پر اس کی معاونت کرے ''سنن ترمذی حدیث نمبر (3094) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر (1856)۔ابن ماجہ کے یہ الفاظ ہیں:
'' تم میں سے کوئی ایک آخرت کے معاملہ میں اس کی مدد کرے ''شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اور مومنہ بیوی جو اس کے ایمان میں اس کی معاونت کرے ''
یعنی خاوند کے دین پر اس کی معاونت کرے، کہ اسے نماز روزہ اور دوسری عبادات یاد دلائے، اور اسے زنا وغیرہ دوسری حرام اشیاء سے منع کرے.دیکھیں: تحفۃ الاحوذی (8 / 390).اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شادی آدمی کے لیے اطاعت و فرمانبرداری میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے، اور اسے حرام کاموں مثلا حرام نظر اور حرام سننے سے روکتی ہے اور اسی طرح زنا کاری کے وقوع سے بھی روکتی ہے۔یہ تو ابتدائی اشیاء تھیں، لیکن آپ کو چند ایک امور کا خیال کرنا چاہیے جو درج ذیل ہیں:
 شادی کے معاملہ میں سنجیدگی اختیار کرنا اور اس کے اخراجات اور ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرنا، کیونکہ بعض لوگ مطلوبہ چیز کو حاصل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کی کوشش کرتے ہیں.
 اگر منگیتر خاوند شادی کے مسئلہ میں سنجیدہ ہے اور شادی کے کچھ اخراجات پورے کرنے سے عاجز ہے تو پھر اس کی کچھ ضروریات پوری کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلا بیوی کچھ گھریلو سامان خریدنے میں یا پھر شادی کی تقریب کے کچھ اخراجات برداشت کرنے میں شریک ہو سکتی ہے۔ منگیتر شخص اپنی منگیتر لڑکی کے لیے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے، جب تک نکاح نہیں ہوتا وہ اجنبی ہی رہے گا، اس لیے منگنی کے دوران ان کا آپس میں خلوت یا مصافحہ کرنا، یا اکٹھے باہر جانا منع ہے، بلکہ وہ بھی دوسرے اجنبی مردوں کی طرح ہی ہے۔اللہ سبحانہ و تعالی سے ہماری دعا ہے کہ وہ آپ دونوں کو ان امور کی توفیق سے نوازے جس سے اللہ راضی ہوتا ہے اور جنہیں پسند کرتا ہے، اور آپ کو نیک و صالح اولاد عطا فرمائے۔

 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:لوگوں کو خیر و بھلائی کی دعوت دیتے ہوئے اس طرح کے معاملات پیش آنا معمول کی بات ہے، تو داعیان حق اور لوگوں کو دین سکھانے والے شخص کے لئے ضروری ہے کہ صبر اور نرمی سے کام لے، اور حکمت بھرا طریقہ اپنائے۔اب آپ کے کچھ ساتھی دینی علم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ ساتھی نہیں چاہتے تو آپ دینی علم حاصل کرنے کی ترغیب رکھنے والوں کو پڑھاتے رہیں اور نیکی کے اس کام کو جاری رکھیں روکیں مت۔اب اگر کچھ لوگ حسد کریں یا جلن محسوس کریں تو خیر و بھلائی سکھانے والے کا اخلاق یہ ہوتا ہے کہ صبر کرے اور ان کی مبنی بر جہالت باتوں پر کان بھی نہ دھرے، یہ صفت قرآن کریم نے عباد الرحمن کی بتلائی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِینَ یَمْشُونَ عَلَی الْأَرْضِ ہَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَامًا 
ترجمہ: رحمان کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو وہ سلام کہہ کر چل دیتے ہیں۔ الفرقان: 63
اگر وہ برا سلوک کریں تو اس کے بدلے میں آپ ان سے اچھا سلوک کریں، تو اس سے امید ہے کہ ان کے دلوں میں موجود منفی باتیں ختم ہو جائیں، اور آپ کے اور ان کے درمیان شیطانی وسوسے جاتے رہیں۔
لیکن اگر سب کے سب ہی آپ کے درس میں نہیں بیٹھنا چاہتے تو پھر حکمت عملی یہ ہو گی کہ آپ انہیں مجبور نہ کریں؛ کیونکہ مجبور کرنے سے عام طور پر فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ اس سے ان کے دلوں میں حق بات سے نفرت پیدا ہو گی۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 اُدْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ 
ترجمہ: اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور وہ راہ راست پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔]النحل: 125
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''حکمت: یہ ہوتی ہے کہ معاملات کو ان کا حقیقی مقام دیں، اس کے لئے مناسب وقت اور مناسب الفاظ استعمال کریں اور مناسب گفتگو کریں؛ کیونکہ کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں کہ جہاں وعظ و نصیحت مناسب نہیں ہوتی، ایسے ہی بعض اوقات ایسے آتے ہیں جہاں وعظ و نصیحت مناسب نہیں ہوتی۔ایسے ہی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپ کبھی بھی کسی بھی صورت میں وعظ و نصیحت نہ کریں، بلکہ آپ انتظار کریں کہ جب وہ نصیحت قبول کرنے کے موڈ میں ہو تو پھر اسے نصیحت کریں۔'' 
لہذا اگر ملازمت کی جگہ میں آپ کے ساتھی آپ سے علم حاصل کرنے کی رغبت نہیں رکھتے تو آپ دیگر لوگوں کو تلاش کریں جو حصولِ علم اور استفادہ چاہتے ہیں۔

 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:میری رائے میں تویہ تجسس یعنی جاسوسی ہے، اورکسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کی بھی جاسوسی اورعیب تلاش کرتا پھرے، اس لیے کہ ہمارے لیے توظاہر کے علاوہ کچھ نہیں، اگرہم لوگوں کے عیب تلاش کرنا شروع کردیں اورتجسس کرنے لگیں تواس میں ہمیں بہت ہی مشکلات اورتھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے گا، اورہمارے ضمیر بھی جوکچھ ہم سنیں اور دیکھیں گے اس کی وجہ سے پریشان ہو جائیں گے۔اورجب اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان:‘‘ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو یقین جانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اوربھید نہ ٹٹولا کرو’’ الحجرات (12)۔
اس فرمان کے آخر میں فرمایا ہے کہ بھید نہ تلاش کیا کرو توہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :اوپر کی سطور میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی بنا پر آپ کی والدہ کے لیے شرعاً جائز ہے کہ وہ ملازمہ کو کھانے پکانے کا طریقہ اور کھانے کی صفات اور تیار کرنے کا طریقہ بتانے کی اجرت لیں، لیکن آپ کی والدہ کو چاہیے تھا کہ وہ اسے یہ سب کچھ سکھانے سے قبل بتا دیتی کہ وہ اس کی اجرت لے گی۔اب جبکہ حالت یہ ہے جو آپ نے سوال میں بیان کی ہے کہ ملازمہ آپ کی والدہ کی رغبت اور اختیار سے کھانا پکانا اور تیار کرنا سیکھ چکی ہے اور آپ کی والدہ نے ہی ارادتاً اس پر تعاون کیا ہے، اس لیے ملازمہ کی کاپی جس میں اس نے کھانا پکانے کے طریقہ جات لکھ رکھے ہیں آپ کی والدہ کے لیے لینی جائز نہیں؛ کیونکہ یہ ملازمہ کی ملکیت ہے، اس نے یہ کاپی اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس کا خیال رکھا اور اسے سنبھال رکھا ہے، اور آپ کی والدہ کا اسے طریقہ سکھانا تو بطور معاونت ہے۔
اس لیے آپ اسے کمزور سمجھ کر اس کا حق نہ لیں، چاہے وہ غیر مسلم ہی ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ ہے اسے ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ: (اہل مدینہ کو شدید قحط سالی کا سامنا تھا، تو انہوں نے سیدہ عائشہ کے سامنے شکایت پیش کی، تو انہوں نے کہا کہ: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر دیکھو اور اس کی چھت میں ایک کھڑکی بنا دو کہ آسمان اور آپ کی قبر کے درمیان کوئی چھت نہ ہو، تو لوگوں نے ایسا ہی کیا، پھر اتنی بارش ہوئی کہ سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے تازے ہو گئے کہ چربی سے پھٹنے لگے، اور اس سال کو ''عام فتق'' موٹاپے سے پھٹ جانے کا سال کہا گیا۔)
اس روایت کو دارمی: (1/56) نے حدیث نمبر: (92) کے تحت ذکر کیا ہے اور اس پر باب قائم کیا ہے کہ: ''باب ہے اس بارے میں کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وفات کے بعد بھی عزت سے نوازا''
لیکن یہ روایت ضعیف ہے، صحیح نہیں ہے، علامہ البانی ؒ نے اس کی وضاحت کی ہے، دیکھیے ان کی کتاب: ''التوسل'' صفحہ: (128) 
 یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر موقوف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوع نہیں ہے، چنانچہ اگر صحیح بھی ہوتی تو یہ دلیل نہیں بن سکتی؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ یہ صحابہ کرام کے اجتہادی فیصلوں میں سے ہو جو کہ صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی، اور صحابہ کرام کے اجتہادی فیصلوں پر ہمارے لیے عمل لازمی نہیں کیا گیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: ''الرد علی البکری'' میں لکھا ہے کہ:
''اور بارش کے لیے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر کھڑکی کھولنے کے بارے میں روایت بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے، نہ ہی اس کی سند ثابت ہے، اس کے جھوٹ ہونے کی دلیل میں یہی کافی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں چھت کی جانب کوئی کھڑکی تھی ہی نہیں، یعنی وہ ایسے ہی تھا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تھا، گھر کا کچھ حصہ چھتا ہوا تھا اور کچھ کھلا تھا، اور کھلی جانب سے گھر میں سورج کی روشنی بھی آتی تھیں، جیسے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب دھوپ آپ کے صحن میں ہوتی تھی، ابھی تک سایہ نہیں آیا ہوتا تھا۔ پھر یہ گھر ولید بن عبد الملک کے دور تک اسی طرح رہا، پھر جب ولید نے اپنے عہد میں مسجد کی توسیع کی تو ان گھروں کو بھی مسجد نبوی میں شامل کر لیا، تو اس وقت سے یہ حجرے مسجد نبوی میں شامل ہو گئے، اور پھر قبر مبارک والے سیدہ عائشہ کے حجرے کے اردگرد بلند دیوار بنائی، اور اس میں یہ کھڑکی رکھی گئی تا کہ صفائی ستھرائی کے لیے اگر کوئی آنا چاہیے تو یہاں سے نیچے اتر سکے، لہذا یہ کہنا کہ یہ طاقچہ سیدہ عائشہ کی زندگی میں موجود تھا تو یہ سفید جھوٹ ہے۔''
نیز اس اثر میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حاجت روائی کا مطالبہ جائز ہے، اس روایت میں ایسی کوئی بات دور یا قریب سے آپ کو نظر نہیں آئے گی، زیادہ سے زیادہ اس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد بھی آپ کا مقام بہت بلند تھا، اور یہی بات امام دارمی کے اس حدیث پر قائم کردہ باب سے عیاں ہوتی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد اطہر کی برکت، اور آپ کی اللہ تعالی کے ہاں عزت بہت بلند ہے۔ اب اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مسلمان آپ کی قبر پر آئیں اور حاجت روائی کا مطالبہ کریں، صحابہ کرام نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، زیادہ سے زیادہ ان سے جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرے کی چھت کی جانب طاقچہ کھول دیا تھا، کسی نے بھی یہ نہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہی بارش نازل کرنے کا مطالبہ کرنے لگیں، نہ ہی انہوں نے اپنی حاجت روائی کے لیے آپ سے دعائیں مانگیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ''اقتضاء الصراط المستقیم''کے صفحہ:(338) میں کہتے ہیں:
''قبروں کے پاس دعائیں مانگنے کے لیے جانا اور یہ سمجھنا کہ یہاں پر دعائیں کسی اور جگہ کے مقابلے میں زیادہ قبول ہوتی ہیں، یہ غیر شرعی کام ہے، اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بالکل اجازت نہیں دی، پھر کسی بھی صحابی، تابعی، یا مسلمانوں کے ائمہ کرام میں سے کسی نے یہ کام نہیں کیا، پھر سلف صالحین میں سے کسی نے ایسے عمل کا تذکرہ بھی نہیں کیا، بلکہ اس بارے میں جو کچھ بھی نقل کیا جاتا ہے وہ دوسری صدی ہجری کے بعد کا ہے۔
حالانکہ صحابہ کرام نے کئی بار اپنی زندگی میں قحط سالی کا سامنا کیا، اس کے علاوہ بھی انہیں سنگین نوعیت کی پریشانیوں سے گزرنا پڑا، توکیا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر آکر بارش مانگی، یا حاجت روائی کا مطالبہ رکھا؟!بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروا کر بارش طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر آ کر بارش نہیں مانگی۔بلکہ یہاں تک ذکر کیا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر سے پردہ ہٹایا تا کہ بارش ہو جائے؛ کیونکہ آپ کی قبر پر رحمت نازل ہوتی ہے سیدہ عائشہ نے آپ کے پاس بارش کی دعا نہیں فرمائی، نہ ہی قبر کے پاس جا کر حاجت روائی کا مطالبہ کیا۔'' 
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں صوفیوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سے استغاثہ، یا آپ کی ذات یا جاہ کا وسیلہ دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :جعفر صادق رحمہ اللہ کی جانب منسوب قول میں اللہ تعالی کے اس فرمان کی جانب اشارہ ہے جس میں آل فرعون کے ایک مومن کا واقعہ ہے اور وہ اپنی قوم سے کہتا ہے:فَسَتَذْکُرُونَ مَا أَقُولُ لَکُمْ وَأُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَی اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ 44فَوَقَاہُ اللَّہُ سَیِّئَاتِ مَا مَکَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ
ترجمہ: پس عنقریب تم یاد کرو گے جو میں تمہیں کہتا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں بیشک اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے 44 تو اللہ نے اسے ان کی چلی ہوئی چال بازیوں سے بچا لیا اور آل فرعون کو سخت عذاب نے پکڑ لیا۔ غافر:44 - 45
شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''اس آیت کریمہ میں واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی پر سچا توکل اور معاملات اللہ کے سپرد کر دینا ہمہ قسم کے نقصانات سے تحفظ اور بچاؤ کا ذریعہ ہے۔
چنانچہ اس آیت کریمہ میں یہ دلیل ہے کہ فرعون اور اس کی قوم نے اس ایک مومن کے خلاف چال بازی کی اور اللہ تعالی نے اسے بچا لیا، یعنی اسے ان کی چالبازیوں اور مکاریوں سے تحفظ عطا کر کے نجات دے دی، صرف اللہ تعالی پر توکل کرنے کی وجہ سے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کی وجہ سے'' ''أضواء البیان'' (7 / 96 - 97)
امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''اللہ تعالی کا فرمان: (وَأُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَی اللَّہِ) اس کا مطلب یہ ہے کہ: میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، اپنے معاملے کو اللہ کے ذمے چھوڑتا ہوں اور اسی پر توکل کرتا ہوں؛ کیونکہ وہ توکل کرنے والوں کے لیے کافی ہے'' 
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَأُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَی اللَّہِ) کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالی پر توکل کرتا ہوں اور اسی سے مدد چاہتا ہوں'' تفسیر ابن کثیر'' (7 / 146)
تمام معاملات اللہ کے سپرد کرنا اور اسی پر توکل کرنا دینی یا دنیاوی تمام امور میں مطلوب ہے۔
لیکن صحیح توکل اور سپردگی کا مطلب یہ ہے کہ: شرعی اور جائز اسباب بھی لازمی طور پر اپنائے جائیں، جیسے کہ اس بات کی طرف سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اشارہ بھی موجود ہے، آپ کہتے ہیں کہ: (ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں سواری کا گھٹنا باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹنا باندھ کر توکل کرو)یعنی اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں۔
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''واضح رہے کہ توکل کی حقیقت ایسے اسباب اپنانے کے منافی نہیں ہے جن کے ساتھ اللہ تعالی نے انسانی قدرت کے دائرے میں امور کو منسلک کیا ہوا ہے، اور اسباب اپنانا اللہ کی مخلوق میں مسلمہ قانون الہی بھی ہے کہ اللہ تعالی اسباب اپنانے والے کو نوازتا ہے، لیکن ساتھ میں توکل کا بھی حکم ہے، تو ایسی صورت میں اسباب اپنانے کیلیے جد و جہد کرنا عملی طور پر اللہ کی اطاعت ہے، جبکہ دلی طور پر توکل اس پر ایمان کا تقاضا ہے۔
انسان جو اعمال کرتا ہے ان کی تین اقسام ہیں:ان میں سے پہلی قسم ایسی عبادات ہیں جنہیں سر انجام دینے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، پھر اللہ تعالی نے ان عبادات کو جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا، تو ایسے کاموں کو کئے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن ساتھ میں توکل کرنا ضروری ہے اور ایسے نیک کاموں کیلیے اللہ تعالی سے مدد بھی مانگنی چاہیے؛ کیونکہ نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں ہے؛ اس لیے کہ وہ جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔لہذا اگر کوئی شخص اپنے ذمہ واجبات میں کمی یا کوتاہی کا شکار ہوتا ہے تو وہ دنیا و آخرت میں کوتاہی کی مقدار کے برابر شرعی اور تقدیری ہر اعتبار سے سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے'' 
بچوں کی پرورش کے حوالے سے یہ بات لازمی ہے کہ اللہ تعالی پر توکل بھی ہو اور صحیح تربیتی وسائل اور اسباب بھی اپنائے جائیں ، جیسے کہ شریعت میں بھی انہیں اپنانے کا حکم موجود ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:
(یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ)ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر سخت گیر فرشتے ہیں وہ اللہ کے دئیے ہوئے حکم کی یکسر نافرمانی نہیں کرتے، اور وہ وہی کچھ کر گزرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔التحریم:
٭٭٭

 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:صورتِ مسؤلہ میں اگر آپ کو اور آپ کی بیوی کو یہ علم تھا کہ یہ نکاح کی تقریب ہے یا نکاح کے مقصد کے لیے آپ سے دستخط لیے جا رہے ہیں اور آپ نے اس وجہ سے اس پر دستخط کیے، جیسا کہ اتنا علم اور سمجھ ہر سمجھ دار کو ہوتی ہے، اگرچہ آپ کو گوا ہوں کے بارے میں علم نہیں تھا کہ وہ کون ہیں، نیز یہ بھی یاد نہیں کہ خطبہ ہوا تھا یا نہیں،تو بھی اس صورت میں یہ نکاح منعقد ہو گیا تھا۔بظاہر جن قوموں میں یہ عرف ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے والدین یا سرپرست ان کی طرف سے ایجاب و قبول کرتے ہیں تو وہ فارم پر دستخط کے علاوہ اجمالی طور پر بتاکر وکالت حاصل کرلیتے ہیں، اور پھر مجلسِ نکاح میں سرپرست ایجاب و قبول کرتے ہیں اور خطبہ بھی ہوتاہے، البتہ لڑکے لڑکی کو اس کا علم نہیں ہوتا، اور بسا اوقات ایجاب اور قبول کے الفاظ یعنی آپ کو نکاح قبول ہے، اس قسم کے الفاظ کی ادائیگی بھی کرائی جاتی ہے، لہذا اگر یہ شرائط موجود تھیں تو پھر آپ کا نکاح مجلسِ نکاح سے ہی منعقد ہوگیا۔البتہ اگر صرف فارم پر دستخط کیے ہوں اور آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ فارم کس چیز کا ہے اور نہ ہی آپ سے ایجاب اور قبول کے الفاظ کہلوائے گئے تھے یعنی کہ یہ لڑکی آپ کو نکاح میں قبول ہے یا نہیں، پوچھا گیا تھا اور نہ ہی آپ نے یہ کہا تھا کہ یہ لڑکی مجھے نکاح میں قبول ہے تو آپ کے سرپرستوں کے ایجاب و قبول سے نکاح منعقد نہیں ہوا تھا، البتہ یہ فضولی کا کرایا گیا نکاح تھا، اس کے بعد آپ میاں بیوی نے عملًا اسے قبول کرلیا (مہر کی ادائیگی یا زن و شو کے تعلق کے ذریعے) تو یہ نکاح نافذ ہوگیا۔بہرحال اب تجدیدِ نکاح کی حاجت نہیں ہے۔ تاہم اولیاء کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کا اس طرح نکاح نہ کیا کریں، بلکہ لڑکے اور لڑکی کو بتاکر ان کی دلی رضامندی جان کر باقاعدہ شرعی احکام (سنن و آداب) کی رعایت کے ساتھ نکاح کروائیں ۔

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:کسی بھی شخص کے لیے کسی کی جاسوسی کرنے اور اس کی باتوں کو اس کی اجازت کے بغیر ریکارڈ کرنے کی شرعاً اور اخلاقاً اجازت نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص دورانِ گفتگو کسی شخص کے مالی یا جانی نقصان یا آبرو ریزی کے حوالے سے گفتگو کرے، جس کو کرنے کے بعد وہ اپنی باتوں سے بھی انکار کردیتا ہے توایسی صورت میں ضرورت کی حد تک متعلقہ فرد کی گفتگو ریکارڈ کرکے اپنے دفاع کے لیے اور متعلقہ شخص کو اپنے فعل سے باز رکھنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، تاہم اس میں بھی دو باتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
(1) صرف ان ہی لوگوں کو سنائے جنہیں سنانا ضروری ہو، عام تشہیر نہ کرے۔
(2) جس کی بات ریکارڈ ہو، اس کی پردہ دری یا تذلیل مقصود نہ ہو۔ 

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:بصورتِ مسؤلہ اگر واقعتًا والدہ کی ناراضی کی وجہ صرف وہی ہے جو سوال میں مذکور ہے، اس کے علاوہ انکے ناراض ہونے کی کوئی شرعی وجہ نہیں ہے اور آپ اپنے تئیں ان کے حقوق کی ادائیگی اور حسنِ سلوک کا پورا خیال رکھ رہے ہیں تو ان کی ناراضی عقوق الوالدین (والدین کی نافرمانی) کے زمرے میں نہیں آتی، تاہم وہ اس ناراضی کے باوجود بھی قابلِ احترام ہیں، آپ اپنی طرف سے ان کی خدمت، اطاعت اور دیگر شرعی حقوق میں بالکل کوتاہی نہ کریں، ان کے سامنے غصے یا بلند آواز سے بھی بات نہ کریں، ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتے رہیں، اور ان کے لیے مستقل یہ دعا کرتے رہیں: قُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(بنی اسرائیل:۲۴) تو عنداللہ آپ ماخوذ نہیں ہوں گے۔

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:لڑکی کے عقیقہ میں ایک چھوٹا جانور (خواہ وہ بکرا ہو یا بکری، دنبہ ہو یا دنبی، نر بھیڑ ہو یا مادہ بھیڑ) ، یا بڑے جانور میں ایک حصہ کرنا کافی ہے، لڑکی کے عقیقہ میں بکری کر نا ضروری نہیں۔
 

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)


جواب: صورتِ مسؤلہ میں اگر یہ شخص ان نئی جیسی جیکٹوں کو نئی جیکٹوں کے ساتھ ملا کر رکھے جس سے مشتری یہ سمجھے کہ یہ بالکل نئی ہے،لیکن حقیقت میں وہ استعمال شدہ ہوں ،یہ صورت دھوکا ہے، لہذا اس سے اجتناب کرناچاہیے اور بالکل غیر استعمال شدہ جیکٹ ہو کو علیحدہ اوران جیکٹوں کو جو اگرچہ کوالٹی میں بہتر ہوں، لیکن استعمال شدہ ہوں،ان کو علیحدہ رکھ کر بیچنا چاہیے، یا وضاحت کردینی چاہیے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:اصولی طور پر کاروبار میں نفع کی حد مقرر نہیں، دھوکا دیے بغیر نفع کی کوئی حد وصول کرسکتا ہے، البتہ بازاری قیمت سے غیر معمولی زیادہ قیمت وصول کرنا مناسب نہیں۔واضح رہے کہ غذائی بحران کی صورت میں حکومت کی طرف سے غذائی اجناس کی قیمت یا نفع کی شرح مقرر کرنے کی گنجائش ہے، غذا کے علاوہ دیگر چیزوں کی قیمت، نیز جب غذائی بحران نہ ہو تو غذا سے متعلقہ اشیاء کی قیمت بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی سے جو بھی طے ہوجائے جائز ہے، اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ البتہ جہاں کسی چیز کی شدید ضرورت ہو، اور بازار میں اس چیز کے نہ ہونے سے انسانی زندگی متاثر ہوتی ہو اور بیچنے والا اس کی متعارف قیمت سے بہت زیادہ وصول کرے یا اس چیز کی قیمتِ خرید کے نصف کے برابر یا اس سے زیادہ نفع رکھے تو فقہاءِ کرام نے بعض صورتوں میں اسے غبنِ فاحش کے تحت داخل کرکے ممنوع قرار دیا ہے۔ فتاوی رشیدیہ میں ہے:‘‘سوال: نفع لینا شرع میں کہاں تک جائز ہے؟جواب: نفع جہاں تک چاہے لے، لیکن کسی کو دھوکا نہ دے’’۔

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب مؤمن کی روح قبض کی جاتی ہے تو اللہ کے مرحوم بندے اس طرح آگے بڑھ کر اس سے ملتے ہیں جیسے دنیا میں کسی خوش خبری لانے والے سے ملا کرتے ہیں، پھر (ان میں سے بعض) کہتے ہیں کہ ذرا اس کو مہلت دو کہ دم لے لے؛ کیوں کہ (دنیا میں) یہ بڑے کرب میں تھا، اس کے بعد اس سے پوچھنا شروع کرتے ہیں کہ فلاں شخص کا کیا حال ہے؟ اور فلاں عورت کا کیا حال ہے کہ کیا اس نے نکاح کر لیا ہے؟ پھر اگر کسی ایسے شخص کا حال پوچھ لیں جو اس شخص سے پہلے مر چکا ہے اور اس نے کہہ دیا کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر چکا ہے تو ''انا للہ'' پڑھ کر کہتے ہیں کہ بس اس کو اس کے ٹھکانے یعنی دوزخ کی طرف لے جایا گیا، اور وہ جانے کی بری جگہ ہے اور رہنے کی بھی بری جگہ ہے، اور ارشاد فرمایا کہ تمہارے اعمال تمہارے رشتہ دار اور خاندان والوں کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، جو کہ آخرت میں ہیں، اگر عمل نیک ہوا تو خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ آپ کا فضل اور رحمت ہے، اپنی یہ نعمت اس پر پوری کیجیے اور اسی پر اس کو موت دیجیے اور ان پر گناہ گار کا عمل بھی پیش ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس کے دل میں نیکی ڈال جو تیری رضا اور قرب کا سبب ہو جائے۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ برزخ میں نیک مسلمان مرحومین کو اپنے رشتہ داروں کے انتقال کی نہ صرف یہ کہ خبر ملتی ہے، بلکہ ان سے ملاقات بھی ہوتی ہے۔ 
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:جن عبادات کے لیے جنابت سے پاک ہونا شرط ہے (مثلاً نماز، طواف، قرآنِ مجید کو چھونا، یا تلاوت کرنا اور مسجد میں داخل ہونا وغیرہ) تو ان عبادات کو حالتِ جنابت میں بجالانا جائز نہیں ہے، اور جن عبادات کے لیے پاک ہونا شرط نہیں ہے، وہ حالتِ جنابت میں بھی انجام دی جاسکتی ہیں اور وہ اعمال عنداللہ قبول بھی ہوں گے، لہٰذا جنابت کی حالت میں صدقہ و خیرات دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:نفلی روزہ تنہا رکھنا ضروری نہیں ہے، نہ ہی تنہا رکھنا منع ہے، اگر چاہے تو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے یا پے در پے کئی دن روزے رکھے دونوں صورتیں جائز ہیں، البتہ دس محرم الحرام (عاشورائکے دن) کا تنہا روزہ رکھنا مکروہ ہے، اس کے ساتھ نو محرم یا گیارہ محرم کا روزہ ملایا جائے۔
اسی طرح جمعے کے دن کو خاص کرکے موجبِ فضیلت سمجھ کر روزہ رکھنا یا اس کا التزام کرنا مکروہ ہے، لیکن جمعے کا تنہا روزہ مطلقًا ممنوع نہیں ہے۔

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:مسجد کے احاطہ میں لگے ہوئے پھل دار درخت اگر واقف یا درخت لگانے والے نے عا م لوگوں کے استعمال کے لیے لگائے ہیں تو لوگ ان درختوں کے پھلوں کو کھاسکتے ہیں، لیکن اگر یہ مسجد کی آمدنی کے لیے لگائے ہیں یا اس کی نیت معلوم نہیں ہے تو اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت مسجد کے مصارف میں صرف کرنا ضروری ہے، مسجد میں اس کی قیمت ادا کیے بغیر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:جس شخص کی امام کے ساتھ شامل ہونے سے پہلے کچھ (ایک یا زائد)رکعات رہ جائیں وہ شرعاً ‘‘مسبوق’’ کہلاتا ہے، مسبوق جب تک امام کے ساتھ ہو اس وقت تک اس کاحکم مقتدی کا ہے، اور امام کے سلام سے پہلے تک مقتدی سے جو سہو ہو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، لیکن جب مسبوق، امام کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑا ہوگا تو اس کاحکم منفرد کا ہے، اس وقت اگر کوئی ایسی غلطی کرے جس سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہو تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

 
جواب: یہ ایک مقامی رسم ہے نکاح کے منعقد ہونے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ شادی کے موقع پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے لڑکی کو مہندی لگانے اور زیب و زینت کرانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک امر مستحسن ہے، اسی طرح لڑکی کے گھر والوں کے لیے بھی اس خوشی کے موقع پر مہندی لگانے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس کے لیے تقریبات منعقد کرنا اور جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ کے لباس پہن کر ایک دُوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی ہے۔ مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، یہ بھی جاہلیت کی اور ہندو قوم کی رسم ہے۔ نیز ان رسموں میں مال کا خرچ اسراف و تبذیر کے زمرے میں آتا ہے ارشادِ خداوندی ہے: وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہ کَفُوْرًابنی إسرائیل: ۲۶-۲۷ترجمہ: ''اور(اپنے مال کو فضول اور بے موقع) مت اُڑاؤ، یقیناً بے جا اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ''۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے فرض ہیں، اگر ایک سجدہ کسی رکعت میں چھوٹ گیا اور نماز مکمل کرلی تو نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے، اگر نماز کے دوران چھوٹا ہوا سجدہ یاد آئے تو اسے کرلے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے۔صورتِ مسؤلہ میں مذکورہ شخص نے چوں کہ تیسری رکعت میں جو سجدہ رہ گیا تھا،چوتھی رکعت میں وہ سجدہ ادا کر لیا تھا تو اب اس پر لازم تھا کہ آخر میں سجدہ سہو کرتا، لیکن اس نے نہیں کیا تو وقت کے اندر تو اس نماز کا اعادہ لازم تھا، لیکن وقت کے بعد اعادہ واجب نہیں ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب : اسلام میں برتھ ڈے منانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک رسم ہے،جو غیر قوموں کی دیکھا دیکھی شروع ہو گئی ہے ۔برتھ ڈے میں اگر کوئی خرافات نہ ہوں اور نہ ہی کفار کی مشابہت ہو، بلکہ گھر والے اس مقصد کے لیے اس دن کو یاد رکھیں کہ رب کے حضور اس بات کا شکرادا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے عافیت وصحت اور عبادات کی توفیق کے ساتھ زندگی کا ایک سال مکمل فرمایا ہے اور اس کے لیے اگر منکرات سے خالی کوئی تقریب رکھ لیں یا گھر میں بچے کی خوشی کے لیے کیک یا کچھ اور بنالیں یا باہر سے لے آئیں تو اس کی گنجائش ہے۔
باقی کیک کے اجزاء اگر حلال ہوں تو وہ فی نفسہ حلال ہے، سال گرہ کا کیک ہونے کی وجہ سے وہ حرام نہیں ہوگا۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

تین طلاق کے بعد حلالہ
سوال:زید نے اپنی بیوی کو نومبر 2019 میں 3 طلاقیں زبانی بھی دیں اور دو گواہوں کے دستخط شدہ اسٹامپ پیپر پہ لکھ کے بھی دیں، درمیان میں اتنا عرصہ گزر گیا۔ زید کے چار بچے ہیں، اس نے اپنے لیے سات آٹھ جگہ رشتے دیکھ لیے، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اب سب اپنے پرائے دوست وغیرہ اس کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پہلی بیوی واپس لاؤ۔ اب دونوں کو بہت پچھتاوا ہورہا ہے اور دونوں چاہتے ہیں کہ پھر سے ہم ایک ہوجائیں، اس کے لیے شریعت کا جو بھی حکم ہے وہ ماننے کے لیے تیار ہیں۔ ان کو میں نے ساری شرائط بھی بتا دی ہیں کہ اب واپسی دوسرے بندے سے نکاح و دخول کے بغیر ممکن نہیں، وہ دونوں اس کام کے لیے بھی راضی ہیں، وہ اس طرح چاہتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو اور خاندان میں بھی کسی کو پتا نہیں کہ ان کی تین طلاقیں ہوئی ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ میرا نکاح دو تین گھنٹے کے لیے ہو جائے تو شوہر ثانی اگر دخول کے بعد طلاق دے تو کیا یہ گناہ کا عمل ہوگا؟ اور پھر مطلقہ خاتون عدت گزارنے کے بعد زوج اول کے نکاح میں آسکتی ہے؟ شوہر اول کے ساتھ دوبارہ نکاح کے لیے کیا شرائط ہوں گی؟ وہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ ہی ہمارا کام سیدھا کریں، یعنی گھر کی بات گھر میں رہے ۔ مجھے کوئی آسان طریقہ بتائیں۔


جواب: شوہر اگر اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو عورت اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے اور اس کے بعد شوہر کے لیے رجوع یا تجدیِد نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا، ہاں اگر عورت عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرے، اور اس نکاح کرانے میں پہلے شوہر کا کردار نہ ہو، اور دوسرا شوہر اس سے ہم بستری کرنے کے بعد از خود طلاق دے دے یا مرجائے تو پھر یہ عورت اس دوسرے شوہر کی عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔
لیکن اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا کہ دوسرا شخص ہم بستری کے بعد طلاق دے گا؛ تاکہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے حدیث شریف کی رو سے سخت گناہ، لعنت کا سبب اور مکروہِ تحریمی ہے۔ اسی طرح دو تین گھنٹے یا محدود مدت کے لیے نکاح کی شرط لگائی جائے تو یہ نکاح کے مقاصد کے خلاف اور شرعًا ناجائز ہے، البتہ اگر نکاح میں کوئی شرط نہ ہو اور دوسرا شخص نکاح کرتے ہوئے دل میں یہ بات چھپائے اور عقد میں اس کی تصریح نہ ہو اور نہ کوئی اجرت وغیرہ کا معاملہ طے ہو اور پہلا شوہر اس نکاح کرانے میں کردار ادا نہ کرے تو اس کی گنجائش ہوگی، اور یہ صورت حدیث میں وارد ہونے والی وعید کا مصداق نہیں ہوگی۔
ایلا

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب:ایلاء قسم کھانے کو کہتے ہیں اور شریعت میں ایلاء کامطلب یہ ہے کہ شوہراپنی بیوی سے چار ماہ یااس سے زیادہ مدت کے لیے (یا مطلقًا) صحبت نہ کرنے کی قسم کھائے۔ایلاء کی صورت میں اگر شوہرچار ماہ کے اندربیوی سے تعلقات قائم کرلیتا ہے توقسم کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کفارہ لازم ہوگا،اور کوئی طلاق واقع نہ ہوگی،البتہ اگرچارماہ گزرگئے اورشوہرنے رجوع نہ کیاتوایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔لیکن اگر شوہر بیوی سے چار ماہ یا اس سے زیادہ دور رہنے کی قسم نہیں کھاتا، بلکہ قسم کھائے بغیر علیحدہ رہتا ہے تو شرعاًیہ ''ایلاء'' شمار نہیں ہوگا، تاہم شوہر کا بیوی سے دور رہنا ، اچھا سلوک نہ کرنا، تعلق قائم نہ کرنا، نفقہ نہ دینا اور نہ ہی طلاق دینا، یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ مذکورہ شخص کو چاہیے کہ وہ اگر اپنی بیوی کو نکاح میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کے تمام حقوق ادا کرے، ورنہ ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے علیحدہ کر دے اور اگر شوہر حقوق کی ادائیگی پر راضی نہیں ہوتا تو مذکورہ خاتون کے لیے اس سے طلاق یا باہمی رضامندی سے خلع لینے کی اجازت ہے، اس سلسلے میں خاندان کے معززین اور علاقہ کے باثر لوگوں کے تعاون سے مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)


جواب: تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد کوئی خاص تسبیح یا دعا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔تسبیحِ تراویح کے نام سے جو تسبیح ہمارے ہاں معروف ہے وہ بعض فقہا نے مختلف روایات کے الفاظ کو جمع کرکے عوام الناس کی سہولت کے لیے مرتب کردی ہے؛ لہٰذا اس کو لازم نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ مطلقاً کوئی بھی دعا یا تسبیح پڑھی جا سکتی ہے اور جس طرح ہر چار رکعت کے بعد کوئی دعا پڑھ لینی چاہیے، اسی طرح 20 رکعت کے بعد اور وتر سے پہلے بھی پڑھ لینی چاہیے۔ لیکن تکلفات اور التزامات کے بغیر تسبیح کے مذکورہ کلمات (-ABسُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوتِ، سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْجَبَرُوتِ، سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِّ الَّذِی لَا یَمُوتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ، لَا إلَہَ إلَّا اللَّہُ نَسْتَغْفِرُ اللَّہَ، نَسْأَلُک الْجَنَّۃَ وَنَعُوذُ بِک مِنْ النَّارِ-BB )پڑھنے میں حرج نہیں ہے، فقہاءِ کرام نے جب اس دعا کا ذکر کیا ہے تو بغیر التزام اور غلو کے اسے کبھی پڑھ لینا چاہیے، نیز اکابر نے بھی اس کے التزام اور غلو (مثلاً بآوازِ بلند اجتماعی طور پر پڑھنے، یا اسی کو لازم سمجھنے، اس سے کم یا زیادہ نہ پڑھنے) سے منع کیا ہے، نہ کہ مطلقاً اسے پڑھنے سے۔ 
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:شریعتِ اسلامی نہایت سادہ اور آسان ہے، اس میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں۔ اسلام نے ہر عبادت میں حالات و ظروف کا خیال رکھا ہے، جیسے باجماعت نماز کی ادائیگی کا حکم ہے لیکن بارش یا قدرتی آفت وغیرہ کی صورت میں جماعت کی لزومیت ساقط ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وضو نماز کے لیے شرط ہے لیکن پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم اس کے قائم مقام ہے۔ اسی طرح تمام عبادات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے سہولت و گنجائش رکھی ہے اور یہی دین اسلام کا طرہ امتیاز بھی ہے۔ شریعت مطہرہ میں بحالت نماز چہرہ ڈھکنے کی ممانعت آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ وسَلَّمَ نَہَی عَنِ السَّدْلِ فِی الصَّلَاۃِ وَأَنْ یُغَطِّیَ الرَّجُلُ فَاہُ.بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل (کپڑا زمین تک لٹکانے) سے منع کیا ہے اور اس بات سے بھی کہ آدمی اپنا منہ ڈھانپے۔ابو داؤد، السنن، 1: 174، رقم:634
فقہاء نے اس ممانعت کو کراہت پر محمول کیا ہے اور اس ممانعت کی علت یہ بتائی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کفار اپنے چہرے کو ڈھانپا کرتے تھے، نیز مجوس بھی آگ کی عبادت کے وقت اپنے چہرہ کو ڈھانپ لیا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے دورانِ نماز چہرہ ڈھانپنے سے منع فرمایا۔ تاہم بوقت ضرورت نماز میں چہرے کا ڈھا نپنا جائز ہے۔ چنانچہ حدیث مذکور کی شرح میں ملا علی قاری فرماتے ہیں:
چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ بلاضرورت چہرہ چھپائے رہنا، اگر کوئی ضرورت پیش آجائے تو چہرہ ڈھانپنا جائز ہے۔ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 2: 636
موجودہ صورت حال میں کہ جب منہ کے ذریعہ کرونا کی بیماری پھیلنے کا خدشہ اہل فن کے ہاں متحقق و ثابت شدہ ہے، تو ایسے میں منہ پہ ماسک لگانا بالکل ویسے ہی جائز و درست ہے جیسا کہ قیام سے عاجز کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا اور بیٹھنے کی سکت نہ رکھنے والے کے لیے پہلو کے بل لیٹ کر اشاروں سے نماز ادا کرنا جائز ہے۔ یہ رخصت بوقت ضرورت بقدر ضرورت ہی رہے گی، یعنی عام حالات میں بلا عذر ناک اور منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، عذر کی صورت میں جیسے سانس کے لیے ذریعے بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہو’ تو ماسک لگا کر نماز کی ادائیگی میں مضائقہ نہیں۔نماز کی حالت میں ماسک پہننے کو بالکلیہ ممنوع قرار دینا اس سے بیماری اور ہلاکت کے خدشات کو بڑھاتا ہے اور شرعاً بیماری اور ہلاکت سے بچنا مطلوب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ.خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔البقرۃ، 2: 195نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا.اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
النساء، 4: 29اور ماسک کا نہ پہننا قتل نفس کا سبب ہو سکتا ہے۔معلوم یہ ہوا کہ ضرورت کے سبب نماز میں چہرہ ڈھانپا جا سکتا ہے، خاص کر جب صحت اور جان کے ضرر کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں ماسک کا استعمال اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔آج کل ہم جو ماسک لگاتے ہیں وہ ‘کورونا’ جیسے متعدی اور مہلک مرض سے بچنے کے لیے، جو ڈاکٹروں کے مطابق صحت وجان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، اور اکراہ کی صورت میں جان کی حفاظت کے لیے تو کفر وشرک تک کا ارتکاب شریعت نے روا رکھا ہے تو پھر اس وبا میں جان کی حفاظت کے لیے مکروہ کا ارتکاب کیوں کر جائز نہیں ہو سکتا؟ نیز یہ کہ نماز میں قبلہ کا استقبال ایک اہم شرط ہے، قبلہ رخ کیے بغیر نماز نہیں ہوگی، لیکن جب حالت جنگ ہو تو اس میں جان کی حفاظت کو مطمح نظر رکھتے ہوئے قبلہ کی شرط ساقط ہوجاتی ہے اور آدمی جس طرف بھی رخ کرکے چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح وبائی متعدی مرض ‘کورونا’ میں بھی ماسک نہ پہننا صحت اور نفس کے لیے مہلک ہو سکتا ہے، اس لیے اس کا پہننا شرعاً مطلوب ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب ۔

 

(منہاج القرآن)


جواب:عُشر دسویں حصہ کو کہتے ہیں جو زرعی پیداوار پر ادا کیا جاتا ہے اور نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ بھی اس اطلاق میں شامل ہے دراصل عُشر زکوٰۃ کی طرح ایک ایسا مقررہ حصہ ہے جو زرعی پیداوار پر دینا واجب ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُونُ اَوْ کَانَ عَثَرِیًّا الْعُشْرُ؛ وَمَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ.
وہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتا ہو یا وہ خود بخود نمی کی وجہ سے سیراب ہو جاتی ہو تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے؛ اور جسے کنوئیں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔بخاری، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب العشر فیما یسقی من ماء السمآء، وبالمآء الجاری، 2: 540، رقم: 1412
عشر چونکہ پیداوار کی زکوٰۃ کا نام ہے اس لئے اس کے مصارف بھی وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں؛ یعنی فقراء، مساکین، عاملینِ عشر، غلاموں کی آزادی، غارِمین، فی سبیل اللہ اور مسافر۔ زکوٰۃ کی طرح عشر کی جنس یا قیمت بنی ہاشم کو، حقیقی والدین یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور حقیقی اولاد یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی کو اور میاں بیوی ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے۔ اگر بہن بھائی، داماد، بہو، ساس سسر یا رشتہ دار وغیرہ مستحقِ زکوٰۃ ہوں تو ان کو عشر دیا جاسکتا ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

(منہاج القرآن)

جواب:عشر کی ادائیگی میں اصل حکم تو زرعی پیداوار میں سے مخصوص مقدار فی سبیل اللہ دینے کا ہی ہے، تاہم اگر عشر کے بقدر جنس کی قیمت دے دی جائے، تب بھی عشر ادا ہوجائے گا۔
 

(منہاج القرآن)

سبسڈی والی گندم کے آٹا کی فروخت
سوال: عرض یہ ہے کہ حکومت ملکی حالات کے تناظر میں فلور ملز کو مخصوص قیمت پر یعنی اوپن مارکیٹ سے کم ریٹ پر گندم فراہم کرتی ہے اور ساتھ میں یہ معاہدہ کرتی ہے کہ سرکاری گندم کا آٹا سرکاری ریٹ پر ایک مخصوص علاقہ میں سیل کرنا ہے۔ یہ گندم چونکہ ضلع کی آبادی کے حساب سے ہوتی ہے اور اس پر سبسیڈی صوبائی حکومت برداشت کرتی ہے جس کے بعد معاہدہ کے مطابق فلور ملز اس سرکاری گندم کا آٹا اپنے ضلع سے باہر سیل نہیں کرسکتیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ کچھ ملز کی لوکل ضلع میں سیل اور انویسٹمنٹ وغیرہ نہیں ہوتی ، لہذا ان کی مارکیٹ اور کوالٹی دیگر اضلاع میں پسند کی جاتی ہے۔ نمبر دو یہ کہ سرکاری آٹا کا ریٹ 837 روپے مقرر کیا جاتا ہے جبکہ صوبہ سے باہر یہی آٹا 1000 میں سیل ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک معاہدہ کرلینے کے بعد اپنی کاروباری مجبوری کے پیش نظر فلور ملز اگر اپنا آٹا جو کہ سرکاری ریٹ پر مقامی مارکیٹ میں سیل کرنا تھا ،اسے زیادہ ریٹ پر باہر کی مارکیٹ میں سیل کرے تو یہ اضافی نفع کس زمرے میں آتا ہے؟ جبکہ لوکل مارکیٹ میں آٹا کی شارٹیج بھی نہ ہو اور اگر مال باہر سیل نہ کریں تو کوٹہ کینسل ہونے کا خدشہ ہو (یہاں ایک بات اور بھی ہے کہ اگر آج کا مال سیل نہ ہوسکے تو اگلے دن گندم کوٹہ جوکہ نقد رقم جمع کروا کر اٹھانا ہوتا ہے اس کے لئے رقم کا بندوبست نہیں ہوپاتا اور جس دن کوٹہ نہ اٹھایا جائے وہ اگلے دن نہیں مل سکتا اس لئے بعض اوقات یہ مجبوری بھی ہوتی ہے باہر مال سیل کرنے کی) یا لوکل مارکیٹ میں آٹا کی شارٹیج ہو اس کے باوجود زیادہ نفع کی خاطر مال باہر سیل کیا جائے؟ برائے مہربانی اس کا کوئی حل بتائیں۔ مجبوری یا زیادہ نفع کی لالچ دونوں صورتوں میں ایسے نفع کا کیا مقام ہے؟

جواب:مل مالکان حکومتی کوٹہ سے جن قواعد و ضوابط کے مطابق گندم لے رہے ہیں ان کی پاسداری کرتے ہوئے آٹا فروخت کرنا لازم ہے، ورنہ ان کا عمل بددیانتی اور دھوکہ بازی کے زمرے میں آئے گا۔ حکومت مل مالکان کو گندم رعائتی قیمت پر فروخت کرتی ہے تو اس کی شرائط ہوتی ہیں، جیسے مسئلہ ہٰذا میں شرط ہے کہ آٹا صرف مخصوص ضلع میں فروخت ہوگا، اس کا مقصد یہی ہے کہ رعائت کا فائدہ عامۃ الناس کو پہنچے نہ کہ صرف مل مالکان کو۔ یہ اس معاہدہ کی بنیادی شرط ہے جس کا پاس رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ کاروباری خیانت شمار ہوگی۔
اگر مل مالکان ضلع سے باہر آٹا فروخت کرنا چاہتے ہیں یا حکومتی شرائط سے آزاد ہونا چاہتے ہیں تو اس کا حل یہ ہے کہ حکومت سے رعائتی قیمت پر گندم نہ خریدیں بلکہ اوپن مارکیٹ سے گندم خریدیں یا حکومتی معاہدے کو آٹے کی طلب و رسد یا ذخیرہ شدہ آٹے کی کمی و بیشی کے ساتھ مشروط کر لیں کہ اگر مجوزہ خاص ضلع میں آٹے کی قلت نہ ہو یا ذخیرہ (Stock) خالی کرنا ہو تو انہیں دوسرے اضلاع میں آٹا فروخت کرنے کی اجازت ہوگی۔ کاروباری معاہدہ کرنے کے بعد اس کی پاسداری ضروری ہے، ورنہ اس سے ہونے والی آمدنی جائز نہ ہوگی۔ رعائتی قیمت پر حاصل کردہ گندم کا آٹا حکومت نے جس ضلع میں فروخت کرنے کی شرط رکھی ہے اس میں آٹے کی قلت کے باوجود محض منافع خوری کی خاطر دوسرے اضلاع میں آٹا فروخت کرنا سراسر ناجائز ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)


جواب:مرحوم کے ترکہ سے اولاً اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات منہا کیے جائیں گے، قرض (اگر تھا تو اس کی) ادائیگی اور وصیت (اگر ہے تو اس مد میں زیادہ سے زیادہ ایک تہائی (1/3) سے اس کی) ادائیگی کے بعد بقیہ ترکہ ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
مسئلہ مذکور کی نوعیت کے مطابق ورثاء میں بیوہ اور دو بھائی شامل ہیں۔ جو بہن اور بھائی پہلے فوت ہوچکے ہیں وہ وارث نہیں رہے اور نہ ان کی اولاد ان کے حصہ کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ مرحوم کے کُل قابلِ تقسیم ترکہ سے بیوہ کو چوتھا حصہ (1/4) ملے گا کیونکہ ان کی اولاد نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِن لَّمْ یَکُن لَّکُمْ وَلَدٌ فَإِن کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُم مِّن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ.اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔النساء، 4:12
بیوہ کو چوتھا حصہ دینے کے بعد بقیہ تمام مال دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)


جواب:مسجد کی تعمیرِ نو کے سلسلے میں اگر بیت الخلا کی جگہ تبدیل کرنا مقصود ہے تو یہ مصالح مسجد میں سے ہے۔ ایسی صورت میں اگر نقشہ کے مطابق بیت الخلا ایسی جگہ پر آ رہی ہیں جہاں پہلے مسجد شرعی تھی تو بامر مجبوری ایسا کرنا جائز ہے۔فقہی قاعدہ ہے کہ ‘الْأُمُورُ بِمَقَاصِدِہَا’ یعنی ہرکام کی اچھائی اور برائی کا دارومدار اس کے مقصد پر ہے۔ مسئلہ ہذا میں مسجدِ شرعی کی جگہ کسی اور استعمال میں لانے کا مقصد مسجد کی اہانت یا اسے غیرآباد کرنا نہیں بلکہ یہ تغیر و تبدل مسجد میں توسیع کی غرض سے ہو رہا ہے اور مقصود نمازیوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے، اس لیے یہ جائز ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)


جواب:نمازِ وتر میں دعائے قنوت کا پڑھنا واجب ہے، اور قاعدہ یہ ہے کہ واجب کے رہ جانے پر سجدہ سہو ادا کرنا لازم ہے، سجدہ سہو سے نماز ادا ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگرکوئی شخص وتر میں سورہ فاتحہ اور تلاوت کے بعد دعائے قنوت پڑھنا بھول گیا اور رکوع میں چلاگیا تو قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر سجدہ سہو کر لے، وتر کی ادائیگی درست ہوگی۔ دعائے قنوت بھول جانے کی صورت میں سجدہ سہو کرنے کے بعد وتر لوٹانے کی ضرروت نہیں ہے۔ رکوع سے قیام کی طرف لوٹنے کی بھی حاجت نہیں۔ سجدہ سہو سے وتر کی ادائیگی ہو جائے گی۔
 

(منہاج القرآن)


جواب:نماز کے لیے ستر ڈھانپنا بنیادی شرط ہے، اگر تہبند سے ستر چھپ جائے تو اس کے ساتھ زیرجامہ وغیرہ پہنے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے۔ مطلوب ستر چھپانا ہے، جس لباس سے بھی ستر چھپ جائے اس سے شرط پوری ہو جاتی ہے اور نماز بھی ادا ہو جاتی ہے۔ اس لیے تہبند سے ستر چھپا لینے کے بعد اس کے نیچے زیرجامہ پہننا لازم نہیں ہے، زیرجامہ کے بغیر بھی نماز ہو جائے گی۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)


جواب:دورانِ اذان بیت الخلاء استعمال کرنے کی شرعاً ممانعت نہیں ہے، اس لیے جب اذان ہو رہی ہو تو طہارت یا قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء استعمال کیا جاسکتا ہے، ایسا کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ اگر قضائے شدیدہ نہیں ہے تو اذان کے وقت بیت الخلاء میں نہ جایا جائے اور خاموشی سے اذان سن کر اس کا جواب دیا جائے، اس طرح سنتِ نبوی پر عمل کرنے کا ثواب مل جائے گا۔ لیکن شرعاً اذان کے دوران بیت الخلاء جانا ممنوع نہیں ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری
 

(منہاج القرآن)


جواب:سرکاری ملازم کو حکومت کی طرف سے ملنے والی پینشن بطور احسان اور تبرع کے دی جاتی ہے، اس لیے اسے ملازم کے مالِ وراثت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کے قانون اور ضابطہ کے مطابق ملازم نے اپنی پینشن جن رشتہ داروں کے لیے مختص کی ہوتی ہے وہی اس کے مالک اور وارث ہوتے ہیں۔ دیگر رشتہ داروں کا اس پینشن کی رقم پر کوئی حق نہیں ہوتا اور نہ وہ نامزد وارث سے حصہ کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ البتہ اگر نامزد وارث اپنی خوشی اور رضا سے دوسرے رشتہ داروں کو دے تو جائز ہے۔اس لیے صورت مسئلہ میں بھائی کا حصہ تب ہی ہوگا اگر سرکاری ملازم نے اسے نامزد وارث بنایا ہے۔ ورنہ وہی وارث ہوگا جو نامزد ہے، بھائی نہیں ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)

نسب تبدیل کرنا
سوال: ایک شخص جو کہ قریشی النسب ہے اور ایک مشہور بزرگ کی اولاد سے تعلق رکھتا ہے اس بزرگ کے صحیح قریشی النسب ہونے میں اس کی تمام اولاد جوکہ تقریباً چار سو نفوس پر مشتمل ہے’ متفق ہے۔ اولاد کے علاوہ علاقائی اور دیگر تمام اقوام بھی گزشتہ تین سو سال سے ان بزرگ کے صحیح قریشی النسب ہونے پر متفق چلی آرہی ہیں۔ ان بزرگ کی اولاد میں سے ساتویں اور آٹھویں پشت کے چند لوگوں نے ان بزرگ کو گیلانی سید مشہور کروانا شروع کردیا ہے اور خود بھی خودساختہ گیلانی سید بن چکے ہیں جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ خاندان کے کچھ افراد نے ان کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا تو جواباً انہوں نے اپنے آپ کو گیلانی سید ثابت کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے پیر و مرشد حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین گیلانی قادری بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب پیش کیا، لیکن ان کی جعلسازی بروقت پکڑی گئی۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے قول و فعل سے باز نہیں آرہے ان میں سے دو شخص (باپ بیٹا) ان بزرگ کی درگاہ کے خودساختہ گدی نشین بھی بن بیٹھے ہیں اور تعویذات و عملیات کا کام بھی کرتے ہیں۔ برائے کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں اپنے فتوٰی سے مستفید فرمائیں کہ ان جعلسازوں کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم نافذ ہوتا ہے؟


جواب:اسلام میں نسب تبدیل کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے پر سخت وعید بھی آئی ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَیْرِ اَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُہُ إِلَّا کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَیْسَ لَہُ فِیہِمْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ.
جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب نسبۃ الیمن إلی إسماعیل، 3: 1292، رقم: 3317، بیروت: دار ابن کثیر الیمامۃ
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان حال إیمان من رغب عن أبیہ وہو یعلم، 1: 79، رقم: 61، دار إحیاء التراث العربی
اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
وَفِی الْحَدِیثِ تَحْرِیمُ الِانْتِفَاءِ مِنَ النَّسَبِ الْمَعْرُوفِ وَالِادِّعَاءِ إِلَی غَیْرِہِ وَقَیَّدَ فِی الْحَدِیثَ بِالْعِلْمِ وَلَا بُدَّ مِنْہُ فِی الْحَالَتَیْنِ إِثْبَاتًا وَنَفْیًا لِأَنَّ الْإِثْمَ إِنَّمَا یَتَرَتَّبُ عَلَی الْعَالِمِ بِالشَّیْءِ الْمُتَعَمِّدِ لَہُ.
اس حدیث میں کسی معروف نسب سے تعلق کا دعویٰ کرکے انتفاء و اغراض مقاصد حاصل کرنا حرام ہے، اور حرام اسی وقت ہوگا جب کوئی ایسا قصداً اور جانتے ہوئے کرے، کیونکہ گناہ کا ترتب تب ہی ہوگا جب اس کو جانتے ہوئے اور قصداً کیا جائے۔عسقلانی، فتح الباری، 6: 541، بیروت: دار المعرفۃ۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایسے شخص پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ انْتَسَبَ إِلَی غَیْرِ أَبِیہِ أَوْ تَوَلَّی غَیْرَ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
ابن ماجہ، السنن، کتاب الحدود، باب من ادعی إلی غیر أبیہ أو تولی غیر موالیہ، 2: 870، رقم: 2609، بیروت: دار الفکر
درج بالا روایات سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کر اپنا نسب بدلنا اور خود کو اپنے اصلی نسب کی بجائے کسی اور سے منسوب کرنا حرام ہے۔ سوال میں مذکور شخص نے بھی اگر واقعتاً جان بوجھ کر اپنا نسب تبدیل کیا ہے تو حرام عمل کیا ہے جس پر وہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے۔ اس کی دیگر جعلسازیاں بھی قابلِ مذمت اور ناجائز ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

(منہاج القرآن)


جواب:اگر وہ شخص واقعی عشر، زکوٰۃ یا صدقہ خیرات لینے کا حقدار ہے تو کوئی حرج نہیں، لے سکتا ہے اور امامت بھی کروا سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ امامت کے لیے صحیح العقیدہ اور بنیادی دینی مسائل کا جاننے والا ہونا ضروری ہے، نہ کہ دولت مند، اَن پڑھ جاہل ہونا۔باقی رہا حجام تو اس میں بھی کوئی شرعی ممانعت نہیں جو امامت کے مانع ہو۔ جو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، یہ ان کی جہالت ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 

(منہاج القرآن)


جواب: قرآن مجید اللہ رب العالمین کا کلام ہے جو خاتم الانبیاء جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے نازل ہوا۔ جو مصاحف میں مکتوب ہے اور تواتر کے ساتھ ہمارے پاس چلا آ رہا ہے۔ جس کی تلاوت کرنا عبادت ہے اور جس کا آغاز سورۃ الفاتحہ سے اور اختتام سورۃ الناس پر ہوتا ہے۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب: قرآن کریم کو متعدد ناموں سے موسوم کیا گیا ہے:

(1) الکتاب (2) الفرقان (3) التنزیل (4) الذکر (5) النور (6) الھدی (7) الرحمتہ (8) احسن الحدیث (9) الوحی (10) الروح (11) المبین (12) المجید (13) الحق۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مخلوق نہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب: قرآن مجید میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ یہ مقدس کتاب اسی حالت میں ہے جس حالت میں نبی آخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ 
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب: جی ہاں ! جو شخص قرآن مجید میں کمی زیادتی کا عقیدہ رکھے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ 
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب: قرآن میں تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ (دیکھئے سورۃالحجر، آیت 9)
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب: قرآن کریم میں ایک سو چودہ (114) سورتیں ہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

10- سلف صالحین کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک قرآن ختم کر لیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:قرآن کریم میں 6236 آیات ہیں۔بعض کے خیال میں 6666 ہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:قرآن کریم میں چودہ اور بعض کے نزدیک پندرہ سجدے ہیں۔ (دیکھیے ۔سنن ابی داؤد کتاب سجوداللقران)
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:قرآن کریم کی جو آیتیں یا سورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت سے پہلے اتریں ہیں وہ مکی ہیں اور جو سورتیں یا آیتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت کے بعد اتریں ہیں وہ مدنی ہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب:مدنی سورتوں کی تعداد [28]ہیں جن کے اسماء یہ ہیں: ۱۔البقرۃ ۲۔آل عمران ۳۔النساء ۴۔المائدہ ۵۔الانفال ۶۔ التوبہ۷۔الرعد۸۔الحج۹۔النور۱۰۔ الاحزاب ۱۱۔ محمد۱۲۔ الفتح ۱۳۔الحجرات ۱۴۔الرحمٰن۱۵۔الحدید۱۶۔سورۃالمجادلہ ۱۷ الحشر۱۸۔الممتحنۃ ۱۹۔ الصف ۲۰۔ الجمعہ ۲۱۔ المنافقون ۲۲۔ التغابن ۲۳۔ الطلاق ۲۴۔ التحریم ۲۵۔ الانسان ۲۶۔ البینہ۲۷۔ الزلزال۲۸۔ النصر

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:مکی سورتوں کی تعدادچھیاسی [86] ہیں اوپر ذکر کی گئی مدنی سورتوں کے علاوہ ساری سورتیں مکی ہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب:(1)ہر وہ سورت جس میں لفظ [کلا] آیا ہو۔
(2)ہر وہ سورت جس میں سجدہ آیا ہو۔
(3) ہر وہ سورت جس کے شروع میں حروف مقطعات آئے ہوں سوائے سورۃ البقرہ اور أل عمران کے۔
(4) ہر وہ سورت جس میں آدم علیہ السلام اور ابلیس کاواقعہ مذکور ہو، سوائے سورۃ البقرہ کے۔
(5)ہر وہ سورت جس میں نبیوں اور امم ماضیہ کے حالات واقعات مزکور ہوں سوائے سورۃالبقرہ کے۔

 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب:(1)جس سورت میں حدود و فرائض کا ذکر ہو۔
(2)جس سورت میں جہاد کی اجازت اور جہاد کے احکامات بیان کئے گئے ہوں۔
(3)جس سورت میں منافقین کا ذکر آیا ہو سوائے سورہ عنکبوت کے۔

 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب: قرآن کریم کی سورتوں کی چار قسمیں ہیں:
(1)طوال(2)مؤن(3) مثانی (4) مفصل
(1)طوال:سات لمبی سورتوں کو کہتے ہیں جیسے البقرہ، ال عمران،النساء ،المائدہ ،الاعراف اور ساتویں میں اختلاف ہے کہ آیا وہ الانفال یا براء ت (التوبہ) ہے جس کے درمیان بسم اللہ لا کر فصل نہیں کیا گیا ہے۔
(2) مؤن: وہ سورتیں جن کی آیات کی تعداد سو سے زیادہ یا سو کے لگ بھگ ہو۔
(3)مثانی:وہ سورتیں جن کی آیات کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہو۔
(4) مفصل)سورۃ الحجرات یا سورۃق سے لے کر آخر قرآن تک کی سب سورتوں کو مفصل کہتے ہیں۔

 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:مفصل سورتوں کا مطلب ہے جن سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ذریعہ فصل کیا گیا ہو۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

ہمارے علم کی حد تک ایسی کوئی بات نصوص شرعیہ سے ثابت نہیں ہے۔ فتویٰ کمیٹی سعودی عرب سے اس مسئلے کے بارے پوچھا گیا،تو اس نے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’ہمارے علم میں کسی جنازہ کے ہلکا یا بھاری ہونے کے اسباب محض حسی اسباب ہیں۔مثلاً میت کانحیف ہونا یا بھاری جسم کا ہونا۔ اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر جنازہ ہلکا ہو تو یہ میت کی کرامت ہے ۔ اور اگر بھاری ہو تو یہ اس کے فسق وفجور کی  علامت ہے۔تو اس کی کوئی اصل شریعت مطہرہ میں موجود نہیں ہے۔ جہاں تک جنازہ کے حرکت کا معاملہ ہے تو یہ جنازہ کے زندہ ہونے پر دلالت کرتا ہے اور اس پر کہ اس کی وفات ابھی تک نہیں ہوئی۔ پس جنازہ کو غور سے دیکھنا چاہیے اور اس بارے کسی سپیشلسٹ ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے یہاں تک کہ وہ اس کی موت کی تصدیق کر دے۔ اور جب تک اس کی موت کا یقین نہ ہو، اس وقت تک اسے دفن نہیں کرنا چاہیے۔ 

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جی ہاں خریدی جاسکتی ہے۔ کفارو مشرکین کے ساتھ بیع وشراء کرنا حرام نہیں ہے بلکہ جائز ومباح  امرہے۔اسکی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی درع ایک یہودی کے ہاں گروی رکھ کر اپنے اہل بیت کے لیے کچھ راشن اس سے خریدا تھا۔یہ روایت صحیح بخاری سمیت متعدد کتب حدیث میں موجود ہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب: جب کوئی شخص صدق دل سے معافی طلب کرے یا معذرت کرے تو اسے معاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ۔اور انہیں چاہیے کہ وہ بھی معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالی تمہیں معاف کرے اور اللہ تعالی معاف فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

آیت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں بعض حضرت ابو صدیق رضی اللہ عنہ کے ایسے رشتہ دار بھی تھے کہ جن کی وہ مالی امداد کرتے تھے۔ اس سبب سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کی مالی امداد روک دی اور انہیں معاف نہ کیا۔ جس پر آیت مبارک نازل ہوئی کہ اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو معاف نہیں کرتا تو وہ اللہ سے معافی کی امید کیسے لگائے بیٹھا ہے؟ یعنی اللہ کو تو یہ پسند ہے کہ اس کے بندوں کو معاف کیا جائے تو جو اس کے بندوں کو معاف نہیں کرتا تو معافی میں ایسے بخیل کی اللہ سے یہ کیے توقع ہے کہ وہ اسے معاف کر دے گا۔پس ان بھائی کے لیے آپ کو معاف کرنا لازم ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور امید ہے کہ اللہ کے ہاں اس میں آپ کی پکڑ نہیں ہو گی۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب :ما شاء اللہ تو اللہ کی قدرت کاملہ پر دلالت کرنے والے الفاظ ہیں یعنی جو اللہ نے چاہا یا جیسا چاہا، ویسا بنا دیا یا کر دیا۔ پس کفار بھی اللہ ہی کی مخلوق ہیں اور ان کے پاس موجود نعمتیں یا صلاحیتیں بھی اللہ ہی کی طرف سے عطا کردہ ہیں لہذا ان کے ہاں کچھ ایسا دیکھنے پر یہ کلمات کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کی ذات کے لیے تعریفی کلمات ہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:کلمہ طیبہ لاإلہ الا اللہ محمد رسول اللہ  کے بعینہ الفاظ یکجا احادیث میں کہیں درج نہیں۔ اصل میں یہ اشھد أن لا إلہ إلا اللہ وأشھدأن محمد عبدہ و رسولہ کا مخفف ہے کہ جس میں اللہ کے ایک ہونے او رمحمدﷺ کے رسول ہونے کا پورا ذکر ہے۔

احادیث میں لا إلہ کے الفاظ وارد ہیں جیساکہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:'' أمرت أن أقاتل حتی یقولوا لا إلا إلا اللہ فإذا قالوا لا إلہ إلا اللہ فقد عصموا من اموالھم و انفسھم'' 

’’میں حکم دیا گیا ہوں کہ اس وقت تک لڑائی کرتا رہوں جب تک لوگ لا إلہ إلا اللہ نہ کہہ دیں جب وہ لا إلہ إلا اللہ کہہ دیں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانوں او رمالوں کو محفوظ کرلیا۔‘‘

نبیﷺ اس حدیث میں بھی انہیں کلمہ کے توحید والے حصے کے اقرار کی بات کررہے ہیں اور ان کے الفاظ لا إلہ الا اللہ کے ہیں۔ اس طرح اگر کوئی اشھد أن لا إلہ کی جگہ پر لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ استعمال کرتا ہے تو اس میں کلمہ کا پورا مقصود او ر معانی بیان ہوجاتا ہے او راس کے جواز کی درج ذیل وجوہ ہیں:

1۔ کسی بھی زبان میں جمع کی ادائیگی کے وقت کچھ الفاظ مستور اور محذوف کئے جاتے ہیں اور عربی میں بھی اس کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جیسے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ترجمہ ’’میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے‘‘ جبکہ اس عربی عبارت میں ’’میں شروع کرتا ہوں‘‘ کی کوئی عربی نہیں لہٰذا لامحالہ شروع میں ابتدا یا اشرع کے الفاظ محذوف نکالنے پڑتے ہیں۔

اسی طرح لا إلہ إلااللہ محمد رسول اللہ میں (أشھد أن) لا إلہ إلا اللہ (وأشھد أن) محمد رسول اللہ۔

خط کشیدہ الفاظ محذوف کردیئے جاتے ہیں جو قاری اور متکلم کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کا استعمال خود قرآن نے کیا اور احادیث میں جیسا کہ اوپر حدیث گزر چکی ہے اس میں بھی محذوف حکم موجود ہے جو لفظوں میں موجود نہیں۔اس لیے صرف لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ ادا کئے جاسکتے ہیں۔ ہاں نماز میں التحیات میں یہ الفاظ بعینہ پڑھنا ضروری ہیں کیونکہ نماز میں ادا کئے گئے الفاظ مقررہ ہیں ان میں کہیں زیادتی یا کمی نہیں کی جاسکتی۔

2۔لا إلہ إلا اللہ کے مخفف ہونے اور اس کے کلمہ کی جگہ پر استعمال پر اہل علم کا اجماع ہے اہل علم کا اس پر اجماع ہے کسی سے کوئی نکیر ثابت نہیں لہٰذا اس کا استعمال مشروع ہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:تحفے میں دی گئی چیز آگے کسی اور کو تحفے میں دے دینا جائز ہے،اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے،کیونکہ تحفہ اس آدمی کی ملکیت بن جاتا ہے جسے دیا گیا ہے، اب وہ اس میں کسی بھی قسم کے تصرف کا اختیار رکھتا ہے،خواہ اسے اپنے پاس رکھے یا کسی اور کو دے دے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں کہ وہ تحفہ میں ملی چیز کو آگے تحفے میں دے دیتے تھے۔مثلاً ایک روایت میں آتا ہے کہ صحابی رضی اللہ عنہ نے بکرے کی ایک سری کسی کو تحفہ میں دی،انہوں نے کسی اور کو دے دی، اور پھر وہ سری گھومتی گھماتی پہلے صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس واپس آگئی، جس نے پہلی دفعہ دی تھی۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:گھر میں کچھوا رکھنا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ اس کی خوراک اور ماحول کا خیال رکھا جائے۔کچھوے سمیت کسی بھی چیز میں نحوست نہیں ہے۔ اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں، اس لئے کسی چیز ، کام یا دن کو منحوس سمجھنا غلط ہے۔ یہ محض توہم پرستی ہے۔ حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدہ کی تردید فرمائی گئی ہے۔ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے، جو آج مختلف طریقوں سے گھر گھر میں ہو رہا ہے ··· اِلَّا ما شاء اللہ! یہ بدعملیاں اور نافرمانیاں خدا کے قہر اور لعنت کی موجب ہیں، ان سے بچنا چاہئے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:بیٹی کا خاوند بیٹی کی ماں کے لیے محرم ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ محرمات کے بیان میں فرماتے ہیں: وَأُمَّہَاتُ نِسَائِکُم...النساء

’’اور تمہاری بیویوں کی مائیں (بھی تم پر حرام ہیں)۔‘‘

اور اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے۔ گویا بیوی کی ماں اور دادیاں خواہ وہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے، مذکورہ بالا آیت کی رو سے، سب کی سب عورت کے خاوند کے لیے حرام ہیں۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

 جواب:قرآن کی ہر سورت اور ہر آیت روحانی بیماریوں کی شفا، مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا باعث ہے، جو شخص بھی ان سے رہنمائی حاصل کرے گا اور ان پر عمل کرے گاوہ کفر، گمراہی اور عذاب الہٰی سے نجات پاجائے گا۔ رسول اللہﷺ نے دم کر نا قولاً، عملًا اور تقریر اً جائز قرار دیا ہے۔ لیکن نبیﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے مذکورہ بالا آٹھ سورتوں کو منجیات کا نام دیا ہو۔ البتہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورۃ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس سوتے وقت تین تین بار پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک مارتے، پھر ہاتھ چہرے پر اور باقی جسم پر جہاں تک ہو سکتا پھیر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ جب ابوسعدﷺ نے ایک غیر مسلم قبلہ کے سردار پر سورت الفاتحہ پڑھ کر دم کیا تو اسے بچھو کے کاٹنے سے ہونے والی تکلیف ختم ہوگئی۔ اور نبی ﷺ نے اس دم کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح سوتے وقت آیت الکرسی پڑھنے کی اجازت دی اور بتایا کہ جو شخص یہ آیت پڑھے گا، رات بھر شیطان اس کے قریب نہیں آئے گا۔ لہٰذا جو شخص سوال میں مذکورہ سورتوں ہی کو نجات دینے والی، کہتا ہے وہ جاہل بھی ہے اور بدعتی بھی اور جس نے انہیں باقی قرآن سے الگ کر کے نجات کے لیے یا حفاظت یا برکت کی نیت سے جمع کیا اس نے غلط کیا ہے کیونکہ یہ سیدنا عثمانﷺ کے مصحف کی ترتیب کے خلاف ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے اور اس لیے بھی کہ اس نے قرآن کے اکثر حصے کوچھوڑدیا اور بعض قرآن کو اس عمل کے ساتھ خاص کرلیا جس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خاص نہیں کیا۔ لہٰذا اسے اس کام سے منع کرنا چاہیے اور غلط کام کی تردید اور ازالہ کے لیے جو نسخے اس طرح کے چھپ چکے ہیں، انہیں عوام میں نہیں پھیلانا چاہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:اس آیت کریمہ میں ہارون سے مراد وہ ہارون بھی ہوسکتے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور اللہ کے نبی تھے۔اس صورت میں ہارون کی بہن کا مطلب حقیقی بہن نہیں بلکہ ان کادینی بہن ہے۔کیوں کہ بالفعل ہارون علیہ السلام اور مریم علیہ السلام  کے درمیان سینکڑوں سال کا فاصلہ ہے اور وہ دونوں حقیقی بھائی بہن ہوہی نہیں سکتے۔ لوگوں نے جو انھیں ہارون علیہ السلام کی بہن کہہ کر پکارا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ اے وہ عورت جو اس نبی صالح  علیہ السلام  کی ذریت میں سے ہے  اور جسے ہیکل سلیمانی کی دیکھ بھال اور عبادت الٰہی کی بنا پر اس نبی صالح سے ایک خاص نسبت ہے تو آخر وہ کس طرح اس بدکاری کی مرتکب ہوسکتی ہے؟یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے کہ ہیکل سلیمانی کی دیکھ بھال کا شرف ہارون علیہ السلام کی اولاد کو حاصل تھا اور مریم علیہ السلام نے بھی اپنی زندگی ہیکل سلیمانی کی دیکھ بھال کے لیے وقف کررکھی تھی۔اسی نسبت سے کہنے والوں نے انہیں ھارون کی بہن کہہ دیا۔ہارون سے مراد مریم علیہ السلام کا ہم عصر کوئی دوسرا عابدوزاہدشخص بھی ہوسکتاہے۔گویا کہ زھدوعبادت کی نسبت کے پیش نظر لوگوں نے انہیں ہارون کی بہن کہہ کر پکارا ہو۔

مسند احمد،صحیح مسلم اور ترمذی وغیرہ میں  مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل نجران کی طرف بھیجا اور وہ سب عیسائی تھے۔ان عیسائیوں نے مغیرہ بن شعبہ سے’’یا اُخت ھارون‘‘پراعتراض کیا کہ وہ ہارون کی بہن کیسے ہوسکتی ہیں حالاں کہ ان کے درمیان سینکڑوں سال کا فاصلہ ہے۔مغیرہ بن شعبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اوران لوگوں کا اعتراض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے انہیں یہ بات نہیں بتائی کہ اس زمانہ میں لوگ اپنے بچوں کا نام انبیاعلیہ السلام وصالحین کے نام پر رکھتے تھے؟اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ھارون سے مراد موسیٰ علیہ السلام  کے بھائی نہیں ہیں جیسا کہ اہل نجران نے سمجھا بلکہ ہارون سے مراد مریم علیہ السلام  کا ہی ہم عصر کوئی نیک اور عابد وزاہد شخص ہے جس کانام ہارون تھا۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

لجنہ دائمہ کے مطابق لازم نہیں ہے بلکہ افضل عمل ہے کہ سلام کا جواب بھی دے اور اس کے بعد دوبارہ تلاوت شروع کر لے۔مثلا اگر مسجد میں بیٹھ کر قرآن پڑھ رہے ہوں تو کوئی فرد آکر سب کو سلام کہے تو باقی افراد اس کا جواب دے دیں پھر قرآن پڑھنے والے کو بھی جواب دینا چاہیئے یا نہیں؟لازم نہیں ہے، افضل ہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:اگر تو کوئی شخص بطور ثواب اور غور وفکرو تدبر کی نیت سے سنتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔کیونکہ عورت کی آواز میں بذات خود پردہ نہیں ہے۔اس کی دلیل وہ آیات حجاب ہیں جن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔:یٰنِسائَ النَّبِیِّ لَستُنَّ کَأَحَدٍ مِنَ النِّسائِ  إِنِ اتَّقَیتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَیَطمَعَ الَّذی فی قَلبِہِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا (سورۃ الاحزاب)

’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو تم نرم لہجے میں بات نہ کرو، کہ جس کے دل میں روگ ہے وہ کوئی برا خیال کرنے لگے، اور ہاں قاعدے کے مطابق اچھا کلام کرو ‘‘

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورتوں کی گفتگو میں نرمی، اور لوچ نہ ہو تو وہ گفتگو بذاتہ جائز ہے،نیز نبی کریم کا طریقہ کار بھی ہمارے لئے نمونہ ہے،آپ عورتوں کے ساتھ گفتگو کرلیا کرتے تھے اور ان کو وعظ ونصیحت بھی فرمایا کرتے تھے۔اسی طرح امہات المومنین وعظ وارشاد فرمایا کرتی تھیں۔اور اگر کوئی شخص بطور لذت یا شہوت کسی خاتون کی آواز سنتا ہے تو یہ حرام عمل ہے،اس کی کسی حالت میں بھی اجازت نہیں ہے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب:دوسروں کے بارے میں خیرخواہی کے پاکیزہ جذبات کا نام محبت ہے۔ جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ محبت کی جائے، ان سے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے محبت کی جانی چاہئے۔ البتہ جن لوگوں سے نفرت کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں ان سے نفرت کرنا ضروری ہے۔ یہ الحب للہ والبغض فی اللہ کا اصول احادیث میں بیان ہوا ہے۔ مسلمان بھائی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے محبت کرنا حلاوت ایمان کا سبب ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تین خصلتیں ایسی ہیں، جن میں وہ ہوں گی وہ ایمان کی لذت اور مٹھاس محسوس کرے گا: (1) یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اسے ان کے ماسوا ہر چیز (پوری کائنات) سے زیادہ محبوب ہوں۔ (2) اور یہ کہ وہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے لیے محبت رکھے۔ (3) اور یہ کہ وہ دوبارہ کفر میں لوٹنے کو اسی طرح برا سمجھے، جیسے آگ میں ڈالے جانے کو برا سمجھتا ہے۔‘‘

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایک آدمی کسی دوسری بستی کی طرف اپنے کسی بھائی کی زیارت کے لیے نکلا تو اللہ نے اس کے راستے میں اس کی حفاظت کے لیے ایک فرشتہ بٹھا دیا، جو اُس کا انتظار کرتا رہا، جب وہ شخص اس کے پاس سے گزرا تو فرشتے نے پوچھا: تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: اس بستی میں میرا بھائی رہتا ہے اس کے پاس جا رہا ہوں۔ فرشتے نے پوچھا: کیا اس کا تم پر کوئی احسان ہے جس کی وجہ سے تم یہ تکلیف اٹھا رہے ہو اور اس کا بدلہ اتارنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ صرف اس لیے جا رہا ہوں کہ’’میں اس سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔ فرشتے نے کہا: میں تیری طرف اللہ کا فرستادہ ہوں۔ اللہ بھی تجھ سے محبت کرتا ہوں جیسے تو اس سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہے۔‘‘

اللہ کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت کرنے والے قیامت کی مشکلات سے بھی محفوظ رہیں گے، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ نصیب کریں گے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور حدیث میں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ قیامت والے دن فرمائے گا: میری عظمت و جلالت کے لیے باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا، جس دن میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔‘‘

مسلمان اگر اپنے مسلمان بھائی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہو تو وہ اپنے بھائی کو بتلا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ تاکہ دوسرا شخص بھی آگاہ ہو جائے اور وہ بھی محبت و تعاون کا ہاتھ بڑھائے، اس طرح محبت دو طرفہ ہو جائے گی۔ ابو کریمہ مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب آدمی اپنے بھائی سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ اسے بتلا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے، انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اور آدمی وہاں سے گزرا، آپ کے پاس بیٹھے ہوئے شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں یقینا اس گزرنے والے شخص سے محبت کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تو نے اسے بتایا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اسے بتا دو، چنانچہ وہ شخص (تیزی سے) اس کے پاس گیا اور اس سے کہا:’’میں تجھ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔ اس نے جواب میں کہا: اللہ تجھ سے محبت کرے جس کے لیے تو نے مجھ سے محبت کی۔‘‘

ابو ادریس خولانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں دمشق کی مسجد میں گیا (تو دیکھا) کہ ایک جوان آدمی، جس کے اگلے دانت خوب چمکیلے ہیں، کے پاس لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب وہ آپس میں کسی چیز کی بابت اختلاف کرتے ہیں تو اس کے (حل کے) لیے اس سے سوال کرتے ہیں اور اپنی رائے سے رجوع کر کے اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں، چنانچہ میں نے اس جوان کی بابت پوچھا (کہ یہ کون ہے؟) تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ (صحابی) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب اگلا دن ہوا تو میں صبح سویرے ہی مسجد میں آ گیا، لیکن میں نے دیکھا کہ جلدی آنے میں بھی وہ مجھ سے سبقت لے گئے ہیں اور میں نے انہیں (وہاں) نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ پس میں ان کا انتظار کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے۔ میں ان کے سامنے کی طرف سے ان کے پاس آیا، انہیں سلام عرض کیا اور پھر کہا:’’اللہ کی قسم! میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں، انہوں نے کہا: کیا واقعی؟ میں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم! انہوں نے کہا: کیا واقعی؟ میں نے کہا: واقعی اللہ کی قسم! پس انہوں نے مجھے میری چادر کی گوٹ (کنارے) سے پکڑا اور مجھے اپنی طرف کھینچا اور فرمایا: خوش ہو جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تباارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میری محبت واجب ہو گئی ہے ان کے لیے جو میرے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے کی ہم نشینی کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب: روزے کی مقبولیت کے لیے سحری کھانا شرط نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے جس پر حضوؐر نے خود بھی عمل کیا اور لوگوں کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث نبوی ہے:

            تسحروا فان فی السحور برکۃ۔

(بخاری و مسلم)

            ’’سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔‘‘

            اسی طرح سحری تاخیر سے کھانا بھی سنت ہے اور افطار میں جلدی کرنا بھی سنت ہے کیوں کہ اس طرح بھوک اور پیاس کی شدت کچھ کم ہو جاتی ہے اور اس طرح روزے کی مشقت میں بھی قدرے تخفیف ہوتی ہے۔ بلا شبہ دین اسلام نے عبادتوں میں حتی الامکان تخفیف اور آسانی کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ لوگوں کا دل ان عبادات کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو۔ انھیں آسانیوں میںسے حضوؐرکی یہ تاکید ہے کہ سحری تاخیر سے کھائی جائے اور افطار میں جلدی کی جائے۔ حضوؐر کی سنت کے اتباع میں فجر سے قبل اٹھنا باعث ثواب ہے ، چاہے ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی سے یہ سنت ادا کی جائے۔

            سحری میں ایک روحانی فائدہ بھی ہے۔ فجر سے قبل اٹھنا ایک ایسی گھڑی میں اٹھنا ہے جب اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے۔ بندے کا ایسی گھڑی میں اپنے خالق و مالک سے مناجات کرنا اورمغفرت کی دعائیں کرنابہت قیمتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ بستر پر سوتے پڑے رہنے کے برابر ہو سکتا ہے؟ ہم خود تصور کر سکتے ہیں کہ ان دونوں حالتوں میں کس قدر زمین و آسمان کا فرق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزے کی حالت میں احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس پر انسان کا بس نہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو کسی ایسے کام کا مکلف نہیں کرتا، جس پر اس کا بس نہ ہو۔ اسی طرح روزے کی حالت میں غسل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے غیر ارادی طور پر پانی اس کے کانوں سے ہوتا ہوا حلق تک پہنچ جائے یا کلی کرتے وقت حلق میں چلا جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

             وَلَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَأْتُم بِہٖ وَلٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ۔(الاحزاب:۵)

            ’’اور نادانستہ جو کام تم کرو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اس پر گرفت ضرور ہے، جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔‘‘

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ایسے بوڑھے جنھیں روزہ رکھنے میں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھیں۔ اسی طرح وہ مریض جس کا مرض مستقل نوعیت کا ہو اور اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو، اس کے لیے بھی جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے بشرطیکہ یہ ایک ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہو یا روزے کی وجہ سے مرض میں اضافے کا خوف ہو۔ ان سبھی کے لیے رخصت کی بنیاد پر قرآن کریم کی یہ آیت ہے:

            یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔(البقرۃ:۱۸۵)

                        ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بوڑھے اور اس جیسے معذور اشخاص کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے:

            وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْْراً فَہُوَ خَیْْرٌ لَّہُ۔

(البقرہ:۱۸۴)

            ’’اور جو لوگ (مسکین کو کھلانے کی) قدرت رکھتے ہوں تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘

            روزہ معاف ہونے کی صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ ہر ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔

            حاملہ عورت اگر روزے کو اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے بھی روزے معاف ہیں کیونکہ ایک انسانی جان جو اس کے پیٹ میں ہے، اس کی حفاظت اس پر فرض ہے۔ تاہم ان روزوں کے بدلے میں وہ ان روزوں کی قضا کرے گی یا قضا کے ساتھ ساتھ مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی یا صرف کھانا ہی کافی ہے؟ اس امر میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ صرف روزوں کی قضا کرے گی۔

            میری رائے یہ ہے کہ وہ عورت جو بہت تھوڑے وقفے سے حاملہ ہو جاتی ہو اس پر قضا واجب نہیں ہے کیونکہ عملاً چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس کے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ رہا خوشبو کا استعمال تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ روزے کی حالت میں خوشبو کا استعمال جائز ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مریض کے لیے روزہ معاف ہے۔ جب وہ اچھا ہو جائے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

            وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ۔(البقرہ:۱۸۵)

            ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔‘‘

            تاہم ہر قسم کے مرض میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں جن میں روزہ رکھنے سے کوئی فرق نہیںپڑتا۔ مثلاً کمر میں یا انگلی میں درد وغیرہ۔ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں کہ روزہ رکھنا مفید ہوتا ہے مثلاً دست اور پیچش کا مرض۔ اس قسم کے امراض میں روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس مرض میں اس کی اجازت ہے جس میں روزہ رکھنے سے مرض میں اضافے کا اندیشہ ہو یا روزہ رکھنے سے شدید تکلیف ہوتی ہو۔ ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔ اگر ڈاکٹر کے مشورے کے باوجود اور تمام تکلیفوں کو سہتے ہوئے کوئی شخص روزہ رکھتا ہے، تو یہ ایک مکروہ کام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آسانی کی صورت فراہم کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ کی اس رخصت کو قبول کرے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

             وَلاَ تَقْتُلُواْ اَنفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً۔(النساء:۲۹)

            ’’اور اپنے آپ کو مار نہ ڈالو۔ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘

            اب رہا یہ سوال کہ چھوٹے ہوئے روزوں کے بدلے کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مرض ہے جو وقتی ہوتا ہے اور کسی نہ کسی مرحلہ میں اس کے دور ہونے کی امید ہوتی ہے۔ اسی مرض میں اگر روزے چھوٹے ہوں تو ان کے بدلے صدقہ کرنا کافی نہیں بلکہ روزوں کی قضا واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے:

            فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔(البقرہ:۱۸۵)

            ’’تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرو۔‘‘

            دوسرا وہ مرض ہے جس کے دور ہونے کی تازیست کوئی امید نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔ بعض فقہاء مثلاً امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ کھانا کھلانے کے بجائے کسی مسکین کی مالی امداد کر دی جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ہر مسلمان شخص تمام عبادتوں کا مکلف ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھوٹ جائے تو اللہ کے نزدیک جواب دہ ہے۔ ایک عبادت ادا نہ کرنے سے دوسری عبادتیں قبول ہوں گی یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے:

            ۱۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ایک عبادت بھی ترک کر دی تو وہ کافر ہو گیا اور اس کی کوئی دوسری عبادت مقبول نہ ہو گی۔

            ۲۔ بعض کے نزدیک صرف نماز اور زکوٰۃ ترک کرنے والا کافر ہے۔

            ۳۔ بعض کے نزدیک صرف نماز ترک کرنے والا کافر ہے کیونکہ حضوؐر کا ارشاد ہے:

            بین العبدوبین الکفر ترک الصلاۃ۔(مسلم)

            ’’بندے اور کفر کے درمیان نماز کاترک کرنا ہے۔‘‘

            ان فقہاء کے نزدیک نماز ترک کرنے والے کا روزہ بھی مقبول نہ ہو گا کیونکہ وہ کافر ہے اور کافر کی عبادت مقبول نہیں ہو گی۔

            ۴۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان و یقین کامل رکھتا ہے کسی ایک عبادت کے ترک کردینے سے وہ کافر شمار نہیں ہو گا بشرطیکہ اس عبادت کا نہ وہ مذاق اڑاتا ہو اور نہ منکر ہو۔ اس لیے ایک عبادت ترک کرنے کی وجہ سے اس کی دوسری عبادتیں ہرگز برباد نہیں جائیں گی۔

            میرے نزدیک یہی رائے زیادہ قابل ترجیح ہے۔ چنانچہ جو شخص صرف سستی اور کاہلی کی بنا پر کوئی ایک عبادت ادا نہیں کرتا ہے اور دوسری تمام عبادتیں ادا کرتا ہے، تو دوسری عبادتیں ان شاء اللہ مقبول ہوں گی۔ البتہ وہ ناقص اور ضعیف الایمان کہلائے گا اور جس عبادت میں اس نے کوتاہی کی ہے اس میں وہ گنہ گارہو گا اور اللہ کے نزدیک سزا کا مستحق ہو گا۔ بہرحال کسی ایک نیکی کے ضائع ہونے سے اس کی دوسری نیکیاں برباد نہیں ہوتیں۔ اس نے جو نیکی کی ہو گی اس کا اچھا بدلہ پائے گا اور جو برائی کی ہو گی اس کا برا بدلہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

             فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْْراً یَرَہُ۔ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ۔

(الزلزال:۷۔۸)

            ’’پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزہ وہی نفع بخش اور باعث اجر و ثواب ہے، جو برائیوں سے روکے، نیکیوں پر آمادہ کرے اور نفس میں تقویٰ پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

             یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔ (البقرہ:۱۸۳)

            ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے اس توقع سے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔‘‘

            روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے روزے کو تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک رکھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے نصیب میں صرف بھوک اور پیاس ہی آئے اور روزے کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے۔ حضوؐر نے فرمایا:

            رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع۔ (نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

            ’’بعض ایسے روزے دار ہوتے ہیں کہ ان کے روزے میں سے انھیں صرف بھوک ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘

            ایک دوسری حدیث میں ہے:

            من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ۔(بخاری، احمد، اصحاب السنن)

            ’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا اور پینا ترک کر دے۔‘‘

            اسی لیے ابن حزم کا قول ہے کہ جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین اپنے روزوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جس طرح کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اسی طرح گناہوں کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے:

            لیس الصیام من الشراب والطعام وحدہ ولکنہ من الکذب والباطل واللغو۔

            ’’روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ، باطل کاموں اور لغویات سے رکنے کا نام بھی ہے۔‘‘

            میرے نزدیک ارجح رائے یہ ہے کہ ان لغو کاموں سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ روزے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور روزہ دار روزے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ روزہ رکھنا اپنی جگہ ہے اور گناہ کے کام کرنا اپنی جگہ۔ ایک نیکی ہے اور دوسری برائی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنی چھوٹی بڑی نیکی اور برائی دونوں کا حساب و کتاب دے گا۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ذیل کی حدیث پر غور کیجیے:

            حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو میری بات نہیں مانتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں اور میں انھیں گالم گلوچ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ قیامت کے دن ان کے ساتھ میرا حساب و کتاب کیسا ہو گا؟ آپؐ نے جواب دیا ان غلاموں نے تمھاری جتنی نافرمانی اور خیانت کی ہو گی اور تم نے انھیں جتنی سزا دی ہو گی ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ اگر ان کی نافرمانی کے مقابلے میں تمھاری سزا کم ہو گی تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگر ان کی نافرمانی اور تمھاری سزا برابر ہو گی تو حساب کتاب برابر رہے گا۔ لیکن اگر تمھاری سزا ان کی نافرمانی کے مقابلے میں زیادہ ہو گی تو اسی حساب سے تمھاری بھلائی ان غلاموں کو دے دی جائے گی۔ یہ سن کر وہ صحابیؓ رونے لگے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ قرآن کی اس آیت کو پڑھو:

            ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئا و ان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین۔ (الانبیاء:۴۷)

            ’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔‘‘

            یہ سن کر صحابیؓ نے تمام غلام آزاد کر دیے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے تو اذان سنتے ہی اسے سحری کھانا چھوڑ دینا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر اس کے منہ میں نوالہ ہے تو اسے چاہیے کہ اسے اگل دے تاکہ یقینی طور پر اس کا روزہ صحیح ہو۔ تاہم اگر اسے یقین ہو یا کم از کم شک ہو کہ اذان وقت سے قبل ہو رہی ہے تو اذان سن کر کھانے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ اس بات کے یقین کے لیے کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے مختلف چیزوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلاً کیلنڈر یا گھڑی یا اس قسم کی دوسری چیزیں جو آج کل بآسانی دستیاب ہیں۔

            عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے سوال کیا کہ سحری کھانے کے دوران میںاگر شک ہو کہ فجر کا وقت ہو گیا تو کیا میں سحری کھانا چھوڑ دوں؟ آپ ؓ نے جواب دیا کہ جب تک شک ہوکھاتے رہو۔ جب فجر کا یقین ہو جائے تو کھانا چھوڑ دو۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی یہی ہے۔

            امام نووی کہتے ہیں کہ شوافع نے شک کی حالت میں کھاتے رہنے کا جواز درج ذیل قرآنی آیت سے اخذ کیا ہے:

            وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۔(البقرہ:۱۸۷)

            ’’اور راتوں کو کھائو پیو حتیٰ کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔‘‘

            اس آیت میں یقین کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یقینی طور پر کچھ واضح ہو جائے۔ یعنی جب شک کی کیفیت نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ فجر کا وقت آگیا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے:

            اغنوھم فی ھذا الیوم۔

            ’’اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔‘‘

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تراویحـ کی نماز نہ عورتوں پر واجب ہے اور نہ مردوں پر۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت عظیم اجر و ثواب ہے۔ حدیث نبویؐ ہے: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے:

            من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفراللہ ما تقدم من ذنبہ۔(بخاری،مسلم)

            ’’جس نے رمضان میں رات کی نمازیں ایمان اور احتساب کے ساتھ پڑھیں اللہ اس کے پچھلے گناہ بخش دے گا۔‘‘

            عورتوں کا اپنے گھر میں رہ کر رمضان کی راتوں کی نمازیں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ الا یہ کہ مسجدوں میں جانے سے ان کا مقصد صرف تراویح پڑھنا نہیں بلکہ دو سرے نفع بخش نیک کام ہوں مثلاً وعظ و تذکیر کے پروگرام میں شامل ہونا یا درس و تدریس کی مجلس سے استفادہ کرنا یا کسی جید قاری کی قرأت سننا تو ان حالتوں میں ان کا مسجد جا کر نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میںنماز پڑھنے کے علاوہ دوسری نیکیاں بھی مقصود ہیں اور اس لیے بھی کہ آج کل مرد حضرات اپنی عورتوں کو دینی تعلیم دلانے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ اس لیے ان عورتوں کا مسجد جا کر نماز با جماعت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا، ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر وہ گھر میں بیٹھی رہیں گی تو ممکن ہے کہ انھیں نماز میں وہ رغبت نہ پیدا ہوجو مسجد میں ہوتی ہے۔

            لیکن بہر صورت عورتیں مسجدوں میں اپنے شوہروں کی اجازت ہی سے جا سکتی ہیں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکیں الا یہ کہ واقعی کوئی شرعی عذر ہو۔ حضوؐر فرماتے ہیں:

            لا تمنعوااماء اللہ مساجد اللہ۔

(مسلم)

            ’’اللہ کی باندیوں (عورتوں) کو مسجدوں سے نہ روکو۔‘‘

            عذر شرعی کی صورت یہ ہے کہ مثلاً شوہر بیمار ہو اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہو۔ یا گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور انھیں گھر میں تنہا چھوڑنا مناسب نہ ہو۔ وغیرہ۔

            اگر بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں اور نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں تو انھیں تراویح کی نماز کے لیے مسجد لے جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اور اتنی دیر تک بچوں کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔ بخلاف پنج وقتہ فرض نمازوں کے کہ ان کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ رہا مسئلہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر باتیں کرنے کا تو ان کا حکم بھی مردوں جیسا ہے۔ یعنی جس طرح مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مسجدوں میں اونچی آواز میں باتیں کریں اور دنیوی معاملات کے متعلق گفتگو کریں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں ہے۔

            یہاں میں ایک خاص بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ کچھ ایسے حضرات ہوتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر تکلیف دہ حد تک پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انھیں کسی صورت میں مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ آج کل مسجدوں میں عورتو ں کے لیے علیحدہ محفوظ جگہ ہوتی ہے جبکہ حضوؐر کے زمانے میں عورتوں کے لیے کوئی علیحدہ جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ان میں بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی عورتوں کو مسجد میں سرگوشیوں تک کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ وہ خود اونچی آواز وں میں باتیں کرتے ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ غیرت ایک اچھی صفت ہے لیکن اس میں حد سے تجاوزکرنا ایک ناپسندیدہ بات ہے۔ فرمان نبویؐ ہے:

            ان من الغیرۃ ما یبغضہ اللہ ورسولہ۔

            ’’ کچھ ایسی غیرت ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور اس کا رسول بھی۔‘‘

            دور حاضر نے نئی زندگی کے دروازے عورتوں پر بھی وا کیے ہیں۔آج عورتیں اپنے گھروں سے نکل کر اسکول، کالج اور بازار ہر جگہ آتی جاتی ہیں۔ لیکن اس جگہ جانے سے محروم ہو گئی ہیں جو اس سرزمین پر سب سے بہتر جگہ ہے یعنی مسجد۔ میں بغیر کسی تردد کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لیے بھی مسجدوں کے دروازے کشادہ کریں۔ انھیں بھی مسجدوں میں درس و تدریس کی مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔ انھیں بھی اللہ کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عطا کریں۔ بشرطیکہ عورتیں اسی انداز میں مسجد جائیں جس طرح مسجد جانے کا حق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ٹی وی ذرائع ابلاغ عامہ کا ایک حصہ ہے۔ اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور شر کا بھی۔ جس طرح دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً اخبارات و جرائد اور ریڈیو وغیرہ میں خیر و شر دونوں قسم کے پہلو ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ جو خیر ہو اس سے نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جو شر ہو اس سے اجتناب کرے، چاہے وہ روزے کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ لیکن روزے دار اور ماہ رمضان کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس مہینے میں اپنے آپ کو شر سے محفوظ رکھنے اور خیر کی سبقت لے جانے کا خاص اہتمام کرے۔

            ٹی وی دیکھنا فی نفسہ نہ مطلقاً حرام ہے اور نہ مطلقاً حلال۔ اس کا حرام یا حلال ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پروگرام دیکھ رہے ہیں؟ اگر یہ پروگرام بھلی باتوں پر مشتمل ہو مثلاً کوئی دینی پروگرام ہو یا نیوز کا پروگرام ہو یا کوئی مفید معلوماتی پروگرام ہو تو اس کا دیکھنا بالکل جائز ہے۔ لیکن اگر فحش قسم کے پروگرام ہوں تو ان کا دیکھنا ناجائز ہے چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا مہینہ۔ البتہ رمضان میںان کا دیکھنا مزید باعث گناہ ہے۔ اسی طرح اگر ٹی وی دیکھنے میں اس قدر انہماک ہو کہ نماز وغیرہ سے غفلت ہو جاتی ہو تب بھی اس کا دیکھنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب شراب اورجوئے کو حرام قرار دیا تو اس کی حرمت کی علت یہ بتائی کہ یہ دونوں چیزیں انسانوں کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:

            إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء  فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ فَہَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ۔(المائدہ:۹۱)

            ’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: بخاری و مسلم کی حدیث ہے:

            من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔

            ’’جس نے رمضان میں قیام لیل کا اہتمام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘

            اللہ تعالیٰ نے رمضان میں دن کے وقت ہم پر روزے فرض کیے اور رات کے وقت نفل نمازوں کے اہتمام کی تاکید کی تاکہ یہ عبادتیں ہمارے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی نمازیں ہیں، جن سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن میں نماز کے ارکان و شرائط اور اس کے آداب کا پورا خیال رکھا گیا ہو۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی نماز کے ارکان میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے اس شخص کو، جس نے جلدی جلدی نماز ادا کی تھی، فرمایا:

            ارجع فصل فانک لم تصل۔

            ’’واپس جائو پھر نماز پڑھو کیونکہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔‘‘

            اس کے بعد آپ نے اسے نماز پڑھنی سکھائی کہ کس طرح ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ نمازا دا کی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:

             قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ۔(المومنون:۱،۲)

            ’’کامیاب ہوئے وہ جو ایمان لائے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘

            معلوم ہوا کہ وہ نماز کامیابی کی ضامن ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ خشوع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو دل کا خشوع یعنی اس بات کا پوری طرح احساس ہو کہ نماز کے دوران میں ہم کسی ہستی کے ساتھ ہم کلام ہیں اور یہ کہ وہ ہماری تمام حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ دل کا خشوع یہ بھی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھیں سمجھ کر پڑھیں۔ ایسا نہ ہو کہ زبان پر تو اللہ کا کلام ہو اور دل کہیں اور غائب۔

            خشوع کی دوسری قسم بدن کا خشوع ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز میں احترام و ادب کا خاص خیال ہو۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا، کھٹا کھٹ رکوع و سجدہ کرنا، بار بار کھجلانا یا کپڑوں سے کھیلنا یہ سب احترام و آداب کے خلاف ہے۔

            تمام مسلمان بھائیوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ خیال کر لیں کہ ہم کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں اور کس سے ہم کلام ہیں۔ ہمیں احساس ہو کہ وہ ہستی ہمیں دیکھ رہی ہے۔ نمازیوں ادا کرنا کہ گویا ایک مشکل مرحلہ تھا جو سر ہو گیا یا بھاری بوجھ تھا جسے منزل مقصود تک پہنچا دینا نماز کی حکمت و غایت کے عین منافی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان میں بیس رکعت تراویح چند منٹوں میں ختم کر لیتے ہیں۔ قرآن جلدی جلدی اور تیز تیز پڑھتے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں نماز ختم ہو جائے۔ نہ اطمینان سے رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ اور نہ خشوع و خضوع ہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی نماز ہوئی جس کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا:

            تعرج الی السماء وھی سوداء مظلمۃ تقول لصاحبھا ضیعک اللہ کما ضیعتنی۔

            ’’یہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اس حالت میں کہ کالی اور تاریک ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ اللہ تمھیں ضائع کرے جس طرح تم نے مجھے ضائع کر دیا۔‘‘

            بغیر خشوع اور اطمینان کے ساتھ تراویح پڑھنے والوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی آٹھ رکعتیں جلدی جلدی ادا کی گئی بیس رکعتوں سے بہتر اور افضل ہیں۔ اگر بیس رکعات پڑھنا مشکل ہو تو آٹھ رکعت ہی پر اکتفا کریں لیکن اطمینان اور خشوع و خضوع کا ضرور خیال کریں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں بلکہ اس کے نزدیک خضوع و خشوع کی اہمیت ہے اور یہی خشوع دراصل باعث مغفرت و رحمت ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایام حیض میں روزے اور نماز دونوں معاف ہیں تاہم روزوں کی قضا لازمی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایام حیض میں عورتیں جسمانی طور پر کمزوری، تکلیف اور تکان محسوس کرتی ہیں اور یہ اللہ کی رحمت ہے ان پر کہ اللہ نے ان ایام میں انھیں یہ آسانی عطا کی ہے۔

            ایام حیض کو موخر کرنے کی خاطر دوائوں کے استعمال کے سلسلے میں میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ فطرت کے ساتھ جنگ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تمام معاملات اپنے فطری انداز میں انجام پاتے رہیں۔ حیض کا جاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی فطرت پر عورت کی تخلیق کی ہے اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ان ایام میں ان پر روزے اور نماز معاف کیے۔ اس لیے ہم بندوں کو چاہیے کہ ہم بھی اللہ کی فطرت اور اس کے منشا کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔

            تاہم میں ان دوائوں کے استعمال کو ناجائز بھی نہیں قرار دیتا۔ اگر ایسی دوائوں کا وجود ہے کہ جن سے ایام حیض کو منسوخ کیا جا سکتا ہو تو ان کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ نیت صرف یہ ہو کہ روزے قضا نہ ہوں اور یہ کہ صحت پر کوئی خراب اثر نہ پڑے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: قضا روزے کسی بھی مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں شعبان اور شوال کی کوئی قید نہیں ہے۔ روایتوں میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بسا اوقات بعض قضا روزے شعبان کے مہینے میں رکھتی تھیں۔ اس لیے آپ نے جو روزے شعبان میں رکھے ہیں ان شاء اللہ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوں گے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: وہ انجکشن جن کی دوائیں معدے تک نہیں جاتیں یا بالفاظ دیگر جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا نہیں ہوتا، ان کے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

            البتہ انجکشن کی وہ قسمیں جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا ہوتا ہے مثلاً گلوکوز کا پانی چڑھانا وغیرہ تو اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسی چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانے میں تھا اور نہ سلف صالحین کے دور میں۔ یہ تو عصر جدید کی ایجاد ہے۔ علماء کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس قسم کے انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ روزے کی حالت میں مریض کے لیے اس کے استعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔

            اگرچہ میں دوسرے طبقے کی رائے کو قابل ترجیح سمجھتا ہوں، تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ روزے کی حالت میں اس قسم کے انجکشن سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان کی راتوں میں یہ انجکشن لیے جا سکتے ہیں اور اگر دن کے وقت اس انجکشن کا لگانا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی مریض کے لیے روزے معاف کیے ہیں۔ اس قسم کے انجکشن سے معدہ میں براہ راست کوئی غذا تو نہیں پہنچتی البتہ اس کے استعمال سے بدن میں ایک قسم کا نشاط اور قوت آجاتی ہے اور یہ بات روزے کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو روزے ہم پر فرض کیے ہیں تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم بھوک پیاس کی تکلیف کو محسوس کر سکیں۔ اگر اس قسم کے انجکشن کی عام اجازت دے دی جائے تو صاحب حیثیت حضرات اس کا استعمال عام کر دیں گے تاکہ وہ بھوک پیاس کی تکلیف کو کم سے کم کر سکیں اور یوں روزے کا ایک مقصد فوت ہو جائے گا۔

            رہی بات کانوں میں تیل ڈالنے یا آنکھوں میں سرمہ لگانے کی تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے علماء کے متشدد طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ معتدل قسم کے فقہاء کا خیال ہے کہ ان کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ ان کے استعمال سے نہ معدے تک کوئی غذا پہنچتی ہے اور نہ بدن میں کوئی مقوی شے جو بدن کو تقویت بخشے۔ میرے نزدیک یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہوتیں تو حضورؐ لازمی طور ان کے بارے میں لوگوں کو بتاتے کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہیں کیونکہ ان چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانہ میں بھی تھا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث نہیں ہے جس میں حضوؐر نے ان چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: زوال شمس سے قبل مسواک کرنا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے روزے کی حالت میں بھی اور عام دنوں میں بھی۔ زوال کے بعد مسواک کرنے کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک زوال کے بعد مسواک کرنا صرف مکروہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اس لیے روزے دار کو چاہیے کہ اس پسندیدہ چیز کو برقرار رکھے اور مسواک کرکے اسے زائل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شہیدوں کو ان کے خون آلودہ کپڑوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کی تلقین ہے کیونکہ قیامت کے دن ان کے خون آلود کپڑوں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔

            میری رائے یہ ہے کہ حدیث میں روزے دار کے منہ کو مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ قراردینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے برقرار بھی رکھا جائے۔ کیونکہ کسی صحابی سے مروی ہے کہ :

            ارایت النبی یتسوک مالا یحصی وھو صائم۔

            ’’میں نے نبیؐ کو اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا کہ جس کا کوئی شمار نہیں حالانکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔‘‘

            مسواک کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، حضوؐر کی سنت ہے اور حضوؐر نے بارہا اس کی ترغیب دی ہے۔ حدیث میں ہے:

            السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب

            ’’مسواک منہ کے لیے پاکی کا باعث اور خدا کی رضا کا موجب ہے۔‘‘

            اسی طرح دانتوں کی صفائی کے لیے روزے کی حالت میں پیسٹ کا استعمال بھی جائز ہے۔ البتہ اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ اس کا کوئی حصہ پیٹ میں نہ چلا جائے۔ کیونکہ جو چیز پیٹ میں چلی جاتی ہے روزہ توڑنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ روزے کی حالت میں پیسٹ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسٹ کا استعمال غایت درجہ احتیاط کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کا کچھ حصہ پیٹ میں چلا جائے تو میرے نزدیک اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ جان بوجھ کر اس نے وہ چیز پیٹ میں نہیں پہنچائی بلکہ غلطی سے چلی گئی اور اللہ کے نزدیک یہ بھول چوک معاف ہے۔ حدیث میں ہے:

            رفع عن امتی الخطا والنسیان وما استکر ھوا علیہ۔

            ’’میری امت بھول چوک کے معاملے میں اور زبردستی کوئی غلط کام کرائے جانے کے معاملے میں مرفوع القلم ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ قضا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت موجود ہے:

            فَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَر۔ (البقرہ:۱۸۵)

            ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔‘‘

            البتہ مسافت کی وہ مقدار جس پر سفر کا اطلاق ہو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ آپ نے جس مقدار کا تذکرہ کیا ہے، میرا خیال ہے کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اتنی مسافت کے سفر کو نماز قصر کرنے اور روزہ قضا کرنے کے لیے کافی تصور کیا جائے۔ کیونکہ جمہور فقہاء نے ۸۴ کلومیٹر کی مقدار کو متعین کیا ہے اور ۸۱ اور ۸۴ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ حضوؐراور صحابہؓ سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انھوں نے سفر کی پیمائش میٹر یا کلومیٹر سے کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک مسافت کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک ہر اس سفر کو جسے عرف عام میں سفر کہا جا سکے، اس میں نماز کی قصر اور روزہ کی قضا جائز ہے۔

            سفر کی حالت میں اس بات کا اختیار ہے کہ روزہ رکھا جائے یا اسے قضا کیا جائے۔ روایتوں میں ہے کہ صحابہؓ، حضوؐرکے ساتھ سفر پر ہوتے تھے۔ ان میں بعض روزے کی حالت میں ہوتے تھے اور بعض بغیر روزے کے ہوتے تھے۔ حضوؐر نے ان دونوں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی۔ یعنی دونوں ہی حضورؐ کی نظر میں یکساں تھے۔

            سفر اگر پر مشقت ہو اور اس میں روزہ رکھنا تکلیف دہ ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے بلکہ شاید حرام ہو کیونکہ روایت میں نبیؐ نے ایک شخص کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگ اس پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ وہ روزے کی وجہ سے بد حال تھا اور وہ مسافر بھی تھا۔ آپؐ نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ روزے سے ہے۔ آپ نے فرمایا:

            لیس من البر الصیام فی السفر۔ (بخاری)

            ’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔‘‘

            سفر اگر پر مشقت نہ ہو اور روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا اور اس کی قضا کرنا دونوں ہی جائز ہے جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا۔ البتہ اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ ان دونوں صورتوں میں افضل صورت کون سی ہے؟ بعض نے روزہ رکھنے کو افضل قرار دیا ہے جبکہ بعض نے روزہ چھوڑنے کو افضل قرار دیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں میں جو سب سے آسان ہو وہی افضل ہے۔ روایت میں ہے کہ حمزہ بن عامر الاسلمیؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ میں اکثر سفر پر رہتا ہوں۔ بسا اوقات رمضان میں بھی سفر کرتا ہوں، میںنوجوان ہوں اور بہ آسانی سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں۔ میرا روزہ رکھنا زیادہ افضل اور باعث اجر ہے یا روزہ قضا کرنا؟ آپؐ نے فرمایا:

            أی ذلک سئت یا حمزۃ۔(ابوداؤد)

            ’’ان دونوں میں سے جو تم چاہو اے حمزہ۔‘‘

            یعنی جو تمھیں آسان لگے وہی کرو اور وہی افضل ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضوؐرنے جواب دیا:

            ھی رخصۃ من اللہ لک فمن اخذبھا فحسن ومن احب ان یصوم فلا جناح علیہ۔ (نسائی)

            ’’یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے چھوٹ ہے جس نے اس چھوٹ سے فائدہ اٹھایا تو بہتر ہے اور جس نے روزہ رکھا تو کوئی حرج نہیں۔‘‘

            یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس آیت میں مسافر کے لیے روزے کی قضا کی اجازت دی ہے اس میں رخصت کی علت سفر بتائی ہے، نہ کہ سفر کی مشقت۔ اس آیت میں یہ نہیں بتایا کہ سفر میں مشقت ہو تو قضا کی رخصت ہے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف سفر کی بنا پر ہمیں یہ رخصت عطا کی ہے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ خواہ مخواہ کی باریکیوں میں پڑ کر اس رخصت کو برباد نہ کریں جو لوگ اکثر سفر میں رہتے ہیں وہ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ سفر بہ ذات خود تکلیف دہ ہوتا ہے، چاہے گاڑی کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا۔ انسان کا اپنے وطن سے دور ہونا بہ ذات خود پریشانیوں کا سبب ہے کیونکہ اس کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور انسان نفسیاتی طور پر بے چین رہتا ہے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ہمیں صرف سفر کی بنا پر یہ رخصت عطا کی ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر کی مقدار سال بہ سال تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک محدود اور متعین مقدار ہے جسے نبیؐ نے مقرر کیا ہے۔ یہ مقدار ایک صاع یعنی تقریباً دو کلوگرام اناج ہے۔ میرے خیال میں صدقۃ الفطر کو اناج کی صورت میں مقرر کرنے میں دو حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

            ۱۔ پہلی حکمت یہ ہے کہ اس زمانے میں عربوں ، خاص کر دیہات میں رہنے والوں کے پاس دینار و درہم (پیسوں) کے مقابلے میں اناج اور غلہ زیادہ موجود ہوتا تھا۔ بہت سارے ایسے لوگ تھے جن کے پاس غلہ اور اناج تو ہوتا تھا لیکن نقد رقم کی صورت میں ان کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ صدقۃ الفطر کو پیسوں کی صورت میں ادا کرنا ہو تاتو شاید بہت سارے لوگ پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے۔

            ۲۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ پیسوں کی قوت خرید ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ آج اگر پانچ روپے کا ایک کلو چاول مل رہا ہے، تو کل اس ایک کلو چاول کی قیمت دس روپے بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے حضوؐر نے صدقۃ الفطر کو اناج اور غلے کی صورت میں مقرر کر دیا تاکہ مقرر شدہ اناج کی پوری مقدار غریبوں تک پہنچتی رہے۔

            احناف کے نزدیک اس مقرر شدہ اناج کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ حضوؐر نے صدقۃ الفطر کے لیے اناج کی محض چند قسموں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان قسموں کے علاوہ دوسری قسموں کو بطور صدقۃ الفطر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ جس جگہ صدقۃ الفطر ادا کیا جا رہا ہے وہاں اناج کی جتنی قسمیں مستعمل ہیں، ان میں سے کسی بھی قسم سے صدقۃ الفطر نکالا جا سکتا ہے۔ چاہے گیہوں ہو یا چاول یا کھجور یا مکئی یا اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز۔

            اگر آدمی صاحب حیثیت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مقرر شدہ اناج کے علاوہ کچھ رقم ادا کرے کیونکہ اس دور میں کھانا فقط چاول یا روٹی پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ سالن کی صورت میں دوسرے لوازمات بھی ضروری ہوتے ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: شافعی اور حنبلی مسلک کے لحاظ سے اگر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے آنے تک نہ ہو سکی تو ایسی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہؓ سے یہی منقول ہے۔ فدیہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ جمہور علماء کے نزدیک صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں۔

            میری رائے یہ ہے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا تو بہر حال لازمی ہے، اس سے کوئی مفر نہیں۔ البتہ فدیہ بھی ادا کر دیا تو زیادہ بہتر ہے ورنہ کوئی بات نہیں کیونکہ براہ راست حضوؐرسے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس میں فدیہ ادا کرنے کی بات ہو۔

            شک کی صورت میں انسان اسی پر عمل کرے جس کا اسے یقین ہو یا کم از کم غالب گمان ہو۔ بہرحال مزید اطمینان کی خاطر زیادہ روزے رکھ لینا بہتر ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: رمضان کے علاوہ شعبان وہ مہینہ ہے، جس میں حضوؐر روزے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کے مطابق صرف رمضان ہی ایسا مہینہ ہے، جس میں حضوؐر پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ بعض عرب ملکوں میںکچھ ایسے لوگ ہیںجو رجب شعبان اور رمضان تینوں مہینے لگاتار روزے رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ شعبان کے کچھ متعین ایام میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

            اسلامی شریعت میں یہ بات جائز نہیں کہ بغیر  شرعی دلیل کے کسی بھی دن یا مہینے کو روزے یا کسی دوسری عبادت کے لیے خاص کر لیا جائے۔ کسی دن کو کسی عبادت کے لیے خاص کرنا صرف شارع یعنی اللہ کا حق ہے۔ وہی ایسا کر سکتا ہے۔ کوئی بندہ نہیں۔ اسی لیے روزوں کے لیے ہم ان ہی ایام کو مخصوص کر سکتے ہیں، جن میں حضوؐر کا عمل موجود ہو۔ مثلاً حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضوؐر جب روزہ رکھنا شروع کرتے تو ایسا لگتا کہ اب ہمیشہ رکھیں گے۔ اور جب روزہ نہیں رکھتے تو ایسا لگتا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ حضوؐرسوموار اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ہر مہینے کے تین روشن دنوں میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔تا ہم ایسا کوئی ثبوت نہیںہے کہ شعبان کی کسی خاص تاریخ کو آپؐ نے روزے کے لیے مخصوص کیا ہو۔ (بحوالہ فتاوی یوسف القرضاوی جلد اول)

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: شوہر کی وفات کے بعد اس کا نام لینے یا اس کی تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے، یہ عدمِ ممانعت ہی اس امر کے جواز کی دلیل ہے۔ اس لیے بیوہ کے لیے شوہر کا نام لینا، اس کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کرنا اور اس کی تصویر دیکھنا جائز ہے۔مرحوم کی جائیداد میں سے اس کی بیوہ کو اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ بیوہ اپنے شوہر کے وصال تک اس کے نکاح میں تھی اس لیے حکمِ الٰہی کے مطابق اسے حصہ دینا لازم ہے اور یہ بیوہ کا شرعی حق ہے۔ مرحوم کی وصیت کیونکہ خلاف شریعت تھی اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی اور شخص بیوہ کو اس کے حق سے محروم کر سکتا ہے۔ اس لیے بیوہ اپنا حق لے سکتی ہے اور اس سلسلے میں قانونی مدد بھی لے سکتی ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: جمعہ کے روز کپڑے نہ دھونے کی ممانعت شریعت نے نہیں فرمائی۔ یہ اور اس طرح کی باتیں سوائے توہم پرستی کے اور کچھ نہیں۔ شریعت نے جمعہ کے روز کے جو معمولات بیان کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

جمعہ کے دن غسل کرنے کی تاکید وارد ہوئی ہے۔جمعہ کے روز صاف ستھرے اور اچھے کپڑے پہننے، خوشبو استعمال کرنے، مسواک کرنے کے بارے میں احادیث میں ذکر آیا ہے-جمعہ کے دن اور رات میں کثرت سے درود کا اہتمام کرنا بھی جمعہ کے معمولات میں سے ایک ہے۔

اگر کسی شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ جمعہ کے روز کپڑے دھونے کی ممانعت ہے، تو اسے چاہیے کہ اپنی بات کا حوالہ دے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: آپ نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں کے بیان میں تضاد پایا جا رہا ہے۔ خاوند کہتا ہے میں نے دو طلاقیں دی ہیں اور عورت کہتی ہے کہ اس نے مجھے تین طلاقیں دی ہیں کیونکہ اب گواہ بھی موجود نہیں ہے لہٰذا خاوند کی بات کو تسلیم کیا جائے گا اس کی بات کو ترجیح دی جائے گی۔الہدایۃ میں ہے۔’’اگر میاں بیوی شرط پائے جانے میں اختلاف کریں تو خاوند کی بات مانی جائے گی۔ ہاں اگر عورت اس کے خلاف ثبوت لائے تو اس کی بات مانی جائے گی۔ اس لئے کہ خاوند اصل سے دلیل لا رہا ہے اور اصل یہ ہے کہ شرط نہ پائی جائے۔ کیونکہ طلاق واقع ہونے اور ملک متع کے زوال کا انکار کر رہا ہے اور عورت اس کی دعویدار ہے۔ ہاں اگر شرط ایسی ہے جو صرف عورت کی طرف سے معلوم ہو سکتی ہے تو بات عورت کی، اس کے حق میں مانی جائے گی‘‘۔لہٰذا گواہ موجود نہیں اگر دونوں حلفاً بھی بیان کریں تو خاوند کی بات مانی جائے گی۔ باقی رہا حنفی اور شافعی ہونے کا مسئلہ اس سے یہاں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: میاں بیوی کے تعلقات اس طرح کے ہونے تو نہیں چاہیں کہ وہ ایک دوسرے سے مشورہ کیے بغیر کوئی بھی کام کریں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی ایسا شوہر ہو کہ وہ اپنی بیوی کو صدقہ خیرات کرنے سے بھی منع کرے تو ایسی صورت میں بیوی بغیر اس کی اجازت لیے صدقہ خیرات کر سکتی ہے، لیکن مناسب حد تک کرے۔ اگر کوئی زیادہ رقم صدقہ خیرات کرنا چاہے یا اپنے ماں باپ رشتہ داروں میں سے کسی حقدار پر خرچ کرنا چاہے تو خاوند سے مشورہ کیے بغیر نہ کرے تاکہ اگر وہ حساب بھی لے تو آپ کو مشکلات پیدا نہ ہوں۔

جو عورت ملازمت کر کے کماتی ہے وہ رقم تو اسی کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کو اپنا مال کسی کو دینے کے لیے خاوند سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن وہ اس کو مناسب جگہ اور مناسب حد تک استعمال کرے، درمیانہ راستہ اختیار کرے حد سے نہ بڑھے۔ لہذا مناسب تو یہی ہے کہ بیوی مشورے سے ہی صدقہ خیرات کرے، اگر خاوند کنجوس ہو تو بغیر اجازت بھی صدقہ خیرات یا ضرورت مند رشتہ داروں کی خدمت کی جا سکتی ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: آپ کے اوپر 1000 روپے قرض ہے نہ کہ لاکھ۔ اگرچہ اب 1000 روپے کی ویلیو اس وقت کے لحاظ سے کم ہو گئی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ دور میں اس وقت کا ایک ہزار لاکھ کے برابر ہے تو مبالغہ نہ ہو گا لیکن قرض جس بھی وقت میں ہو وہ اتنا ہی رہتا ہے، آپ جو ایک لاکھ روپے دے رہے ہیں یہ بھی شرعی طور پر جائز نہیں ہیں لیکن وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اپنے والدین کی خاطر احساناً اگر اس شخص کو دیں تو ٹھیک ہے ورنہ وہ شخص لاکھ کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔رہی بات زمین کی تو وہ شخص اس زمین کا حقدار نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو کوئی گواہ ہے اور نہ کوئی ثبوت، اگر وہ ثبوت لاتا ہے تو پھر وہ پلاٹ اس کا ہو گا بصورت دیگر بغیر کسی ثبوت کے آپ زمین نہ دیں۔ ہمارے معاشرے کے اندر ایسے دھوکے اور فراڈ بے شمار ہوتے ہیں۔ میت کے ورثاء کو بیوقوف بنایا  جاتا ہے کہ میت نے انہیں زمین دینے کا وعدہ کیا تھا یا فلاں چیز میرے نام کر گیا ہے۔ یہ سب فراڈ ہے۔ جب تک وہ صحیح ثبوت نہیں لاتا زمین نہ دیں اور اگر واقعی صحیح ثبوت فراہم کرتا ہے تو زمین کا وہ حقدار ہے ورنہ نہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

سوال: کچھ عرصہ پہلےمیرا محمد یوسف کی بیٹی حمیدہ سے نکاح ہوا ساتھ ہی رخصتی بھی ہو گئی لیکن ہمارے گاؤں میں امام صاحب نے کوئی تحریر یا دستحط نہیں لیے اور ہم دونوں کا شرعی اعتبار سے نکاح پڑھایا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میری بیوی حمیدہ جو کہ میرے چچا کی لڑکی ہے کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنے باپ کے گھر چلی گئی اور دو تین ماہ کے اندر اُس کا دوسرا نکاح محمد رمضان ولد محمد واحد بخش جو کہ اتحاد ٹاؤن، کراچی سے آئے تھے وہ میری بیوی کو اپنے نکاح میں لیکر چلے گئے جبکہ میں نے اُسے طلاق نہیں دی تھی۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ پڑھانے والے نکاح خواں جو کراچی سے آئے تھے۔ سید محمد شاہ نواز اخترا نہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ لڑکی طلاق شدہ نہیں ہے۔گھر کے تمام لوگوں نے اور کچھ محلے کے لوگوں نے جھوٹی گواہی دی کہ اس کو طلاق ہو گئ ہے تو اُنہوں نےگواہی پر نکاح پڑھایا۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میری بیوی جس کا نام حمیدہ ولد محمد یوسف جس کو میں نے طلاق نہیں دی اور جھوٹی گواہیوں پر اُس کا دوسرا نکاح محمد رمضان ولد محمد واحد بخش سے ہوا تو کیا نکاح اور اس سے ہونے والے بچے شریعت میں جائز ہیں یا حرام ہیں؟

جواب: اگر تو واقعی دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں بالغ لڑکے اور لڑکی نے ایجاب وقبول کیا تھا پھر تو شرعاً یہ نکاح ہو گیا لیکن اس کو تحریری صورت میں نہ لا کر امام صاحب نے ملکی قانون کی خلاف ورزی کی اور آپ دونوں پر بھی ظلم کیا۔

بقول آپ کے آپ نے اسے طلاق نہیں دی تو دوسرے شخص کے ساتھ نکاح قائم ہی نہیں ہوا۔ قرآن پاک میں ہے :

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِالنساء 4 : 24

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں)۔

یعنی نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا۔

لہذا دوسرے شخص کے ساتھ نکاح نہیں ہوا اگر وہ اکھٹے رہیں گے تو ساری عمر زنا کریں گے جب تک پہلا شوہر طلاق نہ دے دے اور عدت گزرنے کے بعد وہ دوبارہ نکاح نہ کر لیں یا پہلا شوہر وفات پا جائے پھر بھی عدت کے بعد وہ نکاح کر سکتے ہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: بتول کے معنیٰ عفت و عصمت والی کنواری کے ہیں۔ یہ سیدہ مریم اور سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہما کا لقب بھی ہے۔بتول دراصل ایسی خاتون کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے اپنی دنیاوی خواہشات کو قربان کر دے۔ جو دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا سے اَلگ رہے۔ جو اللہ کی بندگی میں اخلاص پیدا کرلے اور جس کے اعمال خالصتاً صرف خدائے بزرگ و برتر کی خوشنودی کے لیے ہوں۔

(مفتی محمد ثنا اللہ طاہر)

جواب: واجب وہ حکم شرعی ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو، اور جسے ادا کرنے کا شرع نے لازمی مطالبہ کیا ہو اس کے بجا لانے پر ثواب اور چھوڑنے پر سزا ملتی ہے البتہ فرض کے انکار سے کفر لازم آتا ہے اور واجب کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

سوال : میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ شوہر یونان میں تھا جبکہ بیوی پاکستان میں تھی، شوہر کو پاکستان آنے پر یعنی گھر آنے پر بیوی کے موبائل پہ کسی غیر محرم شخص کے میسج ملے جن کے بارے میں بیوی سے پوچھا تو اس نے جھوٹ بولتے ہوئے لا علمی کا اظہار کیا۔ کچھ دنوں بعد ساری حقیقت شوہر پر کھل جاتی ہے اور بیوی بھی خود اقرار کر لیتی ہے کہ وہ چار سال تک اپنے شوہر اور بچوں کو دھوکہ دیتی رہی ہے۔ کہتی ہے کہ ’’میں غفلت میں پڑ گئی تھی، اور آپ کو دھوکہ دیتی رہی ہوں، لیکن اب میں اللہ تعالیٰ اور آپ (شوہر) کی طرف لوٹ آئی ہوں اور اللہ سے سچی توبہ کرتی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں کہ اس کے بعد اس غلطی کو نہیں دہراؤں گی، اللہ سے مغفرت کی دعا کرتی ہوں کہ میں نے آپ کی اور اپنی جان پر ظلم کیا جو یہ گناہ کبیرہ کیا بے شک قرآن میں اس کی بہت بڑی سزا ہے، میں ہر وقت اللہ سے معافی مانگتی ہوں کہ تیری جن نعمتوں کی ناشکری کی ان کا شکر کرنے اور مجھے سچی توبہ کرنے کی توفیق دے کہ مرنے سے پہلے میں دل سے اپنی بخشش کا سامان کر سکوں۔ میں نماز پابندی سے ادا کرتی ہوں اور ہر وقت استغفار پڑھتی ہوں آپ سے التجا ہے کہ اللہ اور رسول کے واسطے اور بچوں کے واسطے مجھے معاف کر دیں‘‘۔ کیا ایسی صورت میں شوہر بیوی کو معاف کر سکتا ہے؟

جواب: مذکورہ سوال میں جو بات بیان کی گئی یہ واقعی ہی بہت بڑا گناہ ہے۔ اس عورت کو چاہیے کے وہ اللہ تعالی سے معافی مانگے، دل سے سچی توبہ کرے اور اپنے اس گناہ پر استغفار کرے، اللہ تعالی توبہ قبول کرنیوالا اور گناہ معاف فرمانے والا ہے۔

دوسری بات یہ کہ اس نے اپنے خاوند کو دھوکا دیا ہے، اپنے خاوند کی امانت میں خیانت کی ہے۔ خاوند اگر چاہے تو معاف کر سکتا ہے اور عورت اگر واقعی اپنے گناہ پر شرمندہ ہے اور توبہ کرتی ہے تو خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی خاطر اور اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اسے معاف کر دے۔ اسی میں اس کا بڑا پن ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب:عصر اور مغرب کے درمیان کھانا کھانے سے نہ تو شریعت نے کہیں منع کیا ہے، اور نہ ہی کوئی صاحبِ عقل اس طرح کی بات کر سکتا ہے۔ یہ جاہلانہ باتیں ہیں جو معاشرے میں مشہور ہو گئی ہیں، ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی۔ عصر اور مغرب کے درمیان کھانا پینا جائز ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب: ذات باری تعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے ۔کسی چیز، دن، یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بُرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی  نفع ونقصان کے اختیار کا سو فی صد یقین اللہ کی ذات سے ہونا چاہیے کہ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔(سورہ يونس، 10: 107)سورۃ شوریٰ میں ارشاد ہے:

’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔‘‘الشُّوْرٰی، 42: 30اور سورہ النساء میں فرمان ہے:

(اے انسان! اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابئ نفس کی طرف منسوب کر)۔النساء، 4: 79

درج بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی وَقْت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ اللہ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ کو ناراض کرنے کاسبب ہے اور اس طرح گناہگار فی نفسہ منحوس ہوتا ہے، کیونکہ گناہ کے سبب وہ اللہ کی امان سے نکل جاتا ہے اور مصائب و مشاکل سے مامون و محفوظ نہیں رہتا۔ درحقیقت اصل نُحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

’’چھوت لگناکوئی چیزنہیں اور بدشگونی (کی کوئی حقیقت) نہیں ہے، البتہ نیک فال مجھے پسندہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نےعرض کیا: نیک فال کیا ہے؟ حضوراکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھی بات منہ سے نکالنا یا کسی سے اچھی بات سن لینا۔‘‘

اگر کوئی شخص گھر سے کہیں جانے کے لئے نکلا اور کالی بلی نے اس کا راستہ کاٹ لیا، جسے اس نے اپنے حق میں منحوس جانا اور واپس پَلَٹ گیا یا یہ ذہن بنا لیا کہ اب مجھے کوئی نہ کوئی نقصان پہنچ کر ہی رہے گا، تو یہ بدشگونی ہے جس کی اسلام میں مُمَانَعَت ہے۔ اگرگھر سے نکلتے ہی کسی نیک شخص سے ملاقات ہوگئی جسے اُس نے اپنے لئے باعث خیر سمجھا تو یہ نیک فالی کہلاتاہے اور یہ جائزہے۔آپ اپنی سہولت کے ساتھ جس دن چاہیں کپڑے کاٹ سکتے ہیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: غلط بیانی اور دھوکہ بازی سے کیا ہوا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ نکاح کے انعقاد کے لیے متعین لڑکے اور متعین لڑکی کی رضامندی سے ایجاب و قبول ضروری ہے۔ جو لوگ ایسی دھوکہ دہی میں ملوث ہیں قرآنی نص کے مطابق وہ خدا تعالیٰ کے لعنت کے مستحق ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنے والدین اور شوہر کی طرف سے ملنے والے سامان کی حقدار وہی عورت ہوتی ہے جس کو یہ سامان ملا ہوتا ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

جواب: لکڑی یا جوتے سے رمی کرنا جائز نہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عقبہ کی صبح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لاؤ، میں چھوٹی چھوٹی سات کنکریاں چن لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا : ہاں ایسی ہی کنکریاں مارو۔ پھر فرمایا : اے لوگو! تم دین میں زیادتی سے بچو کیونکہ تم سے پہلی اُمتیں دین میں زیادتی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔

اس لئے رمی کرنے والے کو چاہئے کہ وہ راہِ اعتدال اختیار کرتے ہوئے چھوٹی کنکریاں مارے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوبیا کے دانہ کے برابر چھوٹی کنکریاں ماریں اور لوگوں سے فرمایا کہ لوبیا کے دانہ کے برابر کنکریاں حاصل کرو تاکہ جمرہ کو رمی کی جا سکے۔ لہٰذا لکڑی، جوتے یا بڑے کنکر مارنے سے گریز کرے کیونکہ ایسا کرنے سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ لکڑی، جوتا یا بڑا کنکر کسی شخص کو بھی لگ سکتا ہے اور شدید نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا ہے۔

 

(نامعلوم)

جواب: شرک کی حقیقت واضح کرنے کے لئے وہی استدلال اپنانا چاہیے جو قرآن مجید نے شرک کے بارے میں اپنایا ہے اوروہ ایک سادہ سی بات ہے کہ اس کائنا ت کا او رخود انسان کا وجود عقلی تقاضا کرتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہونا چاہئے ۔ مشرک کا معاملہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ کائنا ت کے خالق کو نہیں مانتا ۔وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہے مگر اس نے اپنے اختیارات منتقل کر دیئے ہیں۔ قرآن نے اس پر سادہ سوال کیا ہے کہ اختیارات اللہ نے منتقل کئے ہیں ۔تواللہ کی سند دکھائو۔ اختیارات منتقل کرنے والا خدا ہے۔آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ فلاں کو اللہ نے یہ صلاحیت دے دی ہے ،فلاں کو یہ اختیار دے دیا ہے ۔ اولاد لینی ہے تو فلاں کے پاس جانا ہے ۔ دولت لینی ہے تو فلاں دیوی کے پاس جانا ہے یا فلاں حضرت کی خدمت میں حاضر ہونا ہے ۔جب آپ یہ کہہ رہے ہیں تو گویایہ بات آپ اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں ۔ اختیار دینے کا معاملہ تو ہر حال میں اختیار دینے والے کی سند سے ثابت ہو گا۔تو قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ سند از راہ کر م پیش کرو۔یعنی اللہ تعالیٰ نے فلاں کو اختیار دیا ہے ۔تو بتا دیجئے کہ کہاں دیا ہے؟کیا کسی الہامی کتا ب میںیہ لکھا ہوا ہے یا کسی پیغمبر نے آپ کو بتایا ہے ہا تو برہانکم ان کنتم صادقین۔۔۔اگر سچے ہو تو کوئی سند لے آئو۔یہ سادہ استدلال ہے۔ شرک کے حق میں تو کوئی بات کہی نہیں جاسکتی ۔ شرک کے معنی کیا ہیں ۔شرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں، صفات میں ،حقوق میں کسی کو شریک کرنا۔تو یہ شرکت یا تو اللہ نے اس کو بخشی ہے یا نہیں بخشی۔بخشی ہے تو اللہ ہی بتائے گا کہ میں نے بخشی ہے۔میں نہیں بتا سکتا ۔یا کوئی اور نہیں بتا سکتا ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں نے جو گورنر مقرر کیا ہے فلاں صاحب کو وہ پروانہ تقرر مجھے دکھا دو۔بس بات ختم۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: انکار کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ آپ کی سمجھ میں بات نہیں آئی ۔انکار تعصب کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ ڈھٹائی کی بنیاد پر ہوتا ہے ‘ضد کی بنیا د پر ہوتا ہے ‘ انانیت کی بنیا د پر ہوتا ہے ‘جذبات کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ خواہشات کی غلامی میں ہوتا ہے ۔ انکار کے بے شمار وجوہ ہیں۔جس انکارکو قرآن اپنی اصطلاح میں کفر کہتا ہے وہ تب ہوتا ہے جب انسان حق واضح ہو جانے کے بعد جانتے بوجھتے محض ڈھٹائی‘ تعصب اور ضد سے انکار کر دے۔ا س وقت دنیا میںمسلمانوں کے علاوہ جو سارے لوگ پائے جاتے ہیں ۔وہ غیر مسلم ہیں ۔کافر نہیں ہیں۔کافر وہ تب ہوں گے ۔جب یہ واضح ہو جائے گا کہ بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی محض ڈھٹائی سے انکار کر دیا ۔کافر قرآن کی اصطلاح ہے ۔ اتمام حجت کے بعد ،حق کے واضح ہو جانے کے بعد جب کوئی فرد یا جماعت اس کا انکار کرے تو پھر قرآن اسے کافر کہتاہے ۔ورنہ آدمی یہودی ہوگا ، نصرانی ہوگا ، یا کچھ اور ہو گا۔

 بنی اسرائیل پر قرآن کا اصل الزام یہ ہی ہے کہ یہ پہچان گئے ہیں۔یعرفونہم کما یعرفون ابنائہم ایسے پہچانتے ہیں کہ جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔ کوئی شبہ نہیں ہے اس معاملے میں اس کے با وجو د انکار کرتے ہیںجو قوم اس جگہ تک پہنچ گئی ہو کہ جب ان کو بتایا گیا کہ جبرائیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن لے کر آتے ہیں ۔تو انہوںنے کہا کہ اس کی تو ہمارے ساتھ سد اکی دشمنی رہی ہے ۔پہلے بھی اسی طرح یہ کام کر چکا ہے ۔تو یہ وہ سرکشی ہے جو باعث بنتی ہے کفر کا ۔آپ کے سامنے حق آگیا واضح ہوگیا آپ نہیں مان رہے ۔اس کے بعد حجت تما م ہو جاتی ہے ۔اور قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ جب تک یہ چیز نہ ہو جائے اس وقت تک ہم نہ دنیامیں عذاب دیتے ہیں نہ آخر ت میں ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ایک آدمی کی سمجھ میں بات نہیں آئی تو وہ معذور ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کے اتمام حجت کے بعد جب مشرکین عرب کے لیے آخری عذاب کا فیصلہ کیا گیا سورہ توبہ میں تو اس میں بھی ایک استثنا بیا ن ہوا ہے وان احد من المشرکین استجارک اگر کوئی ان مشرکین میں سے اتمام ِ حجت کے با وجود یہ کہتا ہے بات ابھی مجھ تک نہیں پہنچی ۔تو عذاب کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔قرآ ن کہتا ہے کہ فَاَ جِرہْ  اس کو احترام کے ساتھ مہمان کے طور پر اتاریئے۔حتی یسمع کلام اللہ اور اس کے سامنے اللہ کا کلام پیش کر دیجئیثم ابلغہ ما منہپھراس کو جانے دیجئے تاکہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ کر مزید غور کر لے ۔اس کے بعد کارروائی ہوگی ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سارے لو گ کافر ہو گئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے ۔ البتہ غیر مسلم ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ تو میں نہیں جانتا کہ انسان کا لا شعور سوتے میں کیسے کام کرتا ہے کیونکہ اس معاملے میں جو بھی تحقیقات ہوئی ہیں وہ ابھی اس راز کو آشکار نہیں کر سکیں۔ لیکن لاشعورکام بہر حال کرتا ہے ۔ پچھلی صدی میں جو بڑے ماہرینِ نفسیات گزرے ہیں انہوں نے خوابو ں کا بڑی تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا ہے ۔اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ خوابوں کی کئی صورتیں ہیں ۔ عموماًہمارالاشعور تمثیل کی صورت میں چیزوں کو ہمارے سامنے لانا شروع کر دیتاہے۔ہماری بعض یادیں ہوتی ہیں جو تمثیل کی صور ت میں ہمارے سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بسا اوقا ت ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی خاص خیال میں غلطان ہوتے ہیں ۔تو اس خیال کی تمثیلی صورتیں بننا شروع ہو جاتی ہیں۔یعنی ڈرامائی تشکیل ہو جاتی ہے ۔

 قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ انسان کی راہنمائی کے لیے بھی یہ ذریعہ اختیار کرتے ہیں ۔ جیسے سیدنا یوسفؑ کا خواب بیان ہوا ہے۔یاجیسے بادشاہ کا خواب بیان ہوا ہے ۔یہ بھی تمثیلی صورت میں بیان ہوئے ہیں ۔سات دبلی گائیں سات موٹی گائیںایک دوسرے کو کھار ہی ہیں۔سیدنا یوسف ؑ نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے سور ج اور چاند میرے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ان تماثیل کاپھر مصداق متعین کرناہوتا ہے ۔

بعض نفسیاتی بیماریاں بھی خوابوں کا باعث بن جاتی ہیں ۔اچھی نیند نہ ہونا بھی اس کی وجہ بن جاتی ہے۔

 بعض اوقات آدمی کو خود بھی واضح ہوتا ہے کہ اس کے خواب اضغاث و احلام ہیںیعنی لا شعور کا کھیل تماشا ہے جو ہم نے دیکھ لیا ہے ۔اور بعض اوقات اسے یقین سا ہوتا ہے کہ اس کا خواب کسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو ایسے میں کوئی حرج نہیں کہ اگر کسی سمجھدار آدمی سے مشورہ کر لے۔    ممکن ہے کہ وہ کوئی اچھی بات ہی بتا دے۔

(جاوید احمد غامدی)

 جواب: ایسے بچے کو تو لانا نہیں چاہئے جو لوگوں کی نما ز میں خلل انداز ہو۔سمجھدار بچوں کو لایا جا سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے نفع نقصان میں شرکت کی ہے ۔لیکن حقیقت میں تو بس نام ہی تبدیل ہوا ہے ۔ہر آدمی جوبینکنگ کو جانتا ہے اسے اس کی حقیقت اچھی طرح معلو م ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: روایات یا تفاسیر فر قہ پید ا نہیں کرتیں بلکہ  فرقہ اصل میں ایک ذہنیت سے پیدا ہوتا ہے یہ آ پ چاہیں تو سائنس میں پیدا کرلیںچاہیں تو ٹیکنالوجی میں پیدا کرلیں۔

 دنیا میں ہر علم کو جب پڑھا جاتا ہے ۔تو اس کی شرح و تفسیر میں اہل علم میں اختلاف ہو جاتاہے۔ شیکسپئر‘ملٹن ‘علامہ اقبال ‘غالب کسی کو دیکھ لیںا ن کے اشعار کی شرح و تفسیر میںاہل علم میں بے پناہ اختلاف  موجودہے۔اس اختلاف کو شائستگی سے بیان کیجیے۔کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔

کبھی اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ پر الہام ہوتا ہے ۔یہ کہئے کہ میں نے یہ بات سمجھی ہے ۔میں ایک طالب علم ہوں ۔یہ اس کے دلائل ہیں ۔دوسرے آدمی کی بات توجہ کے ساتھ سنئے ۔اگر آپ کی غلطی واضح ہو جائے تو قبول کر لیجئے۔نہ واضح ہوتو شائستگی کے ساتھ اپنی بات کہہ کے خاموش ہو جایئے۔کوئی فرقہ نہیں بنے گا ۔لیکن جس وقت آپ اپنی بات کو الہام قرار دیتے ہیں ۔اپنے بزرگوں کی بات حتمی حجت سمجھتے ہیں۔جب آپ کسی نئی چیز کو سنتے وقت فوراًآستین چڑھا لیتے ہیں ۔منہ میں کف بھر لیتے ہیں۔مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔جو آپ کے تعصبات ہیں ان سے ہٹ کے کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تویہ ایک ذہنیت ہے۔یہ ذہنیت کسی بھی علم میں پیدا ہو جائے فرقہ بن جائے گا۔

فرقہ اختلاف کرنے سے نہیںبنتا۔اختلاف تو انسانیت کا حسن ہے ۔ ایک ہے اختلاف کرنے کے لیے اختلاف کرنا ۔دوسرا یہ ہے کہ آپ واقعی کسی مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہوں۔یہ جتنی بھی سائنسی ترقی ہے اصل میں اختلاف کی پیداوار ہے ۔اگر ارسطو سے اختلا ف نہ کیا جاتا تو نیوٹن کیسے پیدا ہوتا ۔دنیا وہیں کی وہیں رکی رہتی۔اختلاف ترقی کا ذریعہ ہے۔ آپ چیزوں پہ غور کرتے ہیں تو آپ کو پہلی رائے سے اختلاف ہو جاتا ہے آپ کہتے ہیں نہیں یہ بات ٹھیک نہیں ہے ۔

اصل چیز یہ ہے کہ آپ اپنی بات بیان کیسے کرتے ہیں۔باہمی احترام کے ساتھ ایک دوسرے کا حق مان کر یا خود کو تنقیداوراختلاف سے بالاتر سمجھ کر۔  ہمارے ہاں صورتحال یہی دوسری ہے ۔لو گ کہیں گے کہ جی تحقیق ہونی چاہئے۔کوئی کر بیٹھے تو اس کا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔اجتہاد ہونا چاہئے کوئی جسارت کر بیٹھے تواس کا حقہ پانی بند ہو جاتا ہے۔

لوگوں کو اپنی آرا دلائل کے ساتھ بیان کر دینی چاہیے۔ آپ کو معقول لگے مان لیں۔معقول نہ لگے اس پر غور کرتے رہیں۔ ہر بیان کرنے والا یہ بتا دے کہ میں کوئی پیغمبر نہیں ہوں ۔مجھ پر وحی نہیں آتی۔میں سمجھتا ہوں طالب علموں کی طرح اور ہو سکتا ہے کہ مجھے غلطی لگ گئی ہو۔امام شافعی نے اس بات کو نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔کہ ہم اپنی رائے کو صحیح کہتے ہیں ۔لیکن اس میں غلطی کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔ہم دوسرے کی رائے کو غلط کہتے ہیں لیکن اس میں صحت کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔بس اگر آپ اس جگہ کھڑے ہو جائیں۔ کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔اس جگہ نہ کھڑے ہوں۔ توقرآن میںبھی فرقے پیدا ہوجائیں گے،روایت میں بھی ہو جائیںگے ، حدیث اورفقہ بلکہ ہر چیز  میں ہو جائیں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: زندگی خود سے ختم کرنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ بالکل common sense کی بات ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک امتحان کے لیے بھیجا ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ جی آپ سے غلطی ہو گئی ہے ۔ واپس بلالیں ۔ورنہ میں آرہا ہوں ۔ ہے نابغاوت ؟ اس سے بڑی کوئی بغاوت نہیں ہو سکتی۔ا س وجہ سے یہ بڑا جرم ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بسم اللہ سب سورتوں کے شروع میں فصل کے لئے لکھی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا بیان ہے کہ یہ قرآن میرے نام سے پڑھ کر لوگوں کو سنایا جائے۔ یہ سورہ فاتحہ کی بھی آیت نہیں ہے۔ کسی دوسری سورہ کی بھی آیت نہیں ہے ۔ سوائے ایک سورہ کے جس کے اندر آئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس معاملے میں استدلال کا طریقہ بہت سادہ ہے وہ اختیار کیجیے۔وہ یہ کہ آپ وہاں کیوں جارہے ہیں؟جانے والے سے پوچھئے۔کس لیے جارہے ہیں۔اس کا جو جواب ملے گا اس پر بات ہو گی دو جواب ہو سکتے ہیں۔ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ میں ان سے مانگنے جا رہا ہوں ۔تو اس کے تو شرک ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔دوسرا جواب یہ ہو سکتاہے کہ وہاں دعا زیادہ قبو ل ہوگی۔تو میں پوچھوںگا کہ اس کی دلیل ؟یہ بات کہ کہاں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے کون بتائے گا ۔اللہ بتائے گا یا اسکا رسولؐ بتائے گا۔بس یہ دو سادہ سوال ہیں ۔ پوچھ لیجیے۔اس کے بعد خود رائے قائم کر لیجیے۔دین بڑی سادگی کے ساتھ آپ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے نبی نے بھی بتایا ہے کہ کون کون سے مقامات ہیں ۔جب دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ۔کون کو ن سے اوقات ہیں جہاں دعا زیادہ قبو ل ہوتی ہے ۔یہ بات کہ فلاں شخص کے مزار پر دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ۔قرآن میں کس جگہ لکھا ہوا ہے ؟ حدیث میں کس جگہ لکھا ہوا ہے ؟اگر نہیں لکھا ہوا تو آپ جو یہ بات کہہ رہے ہیں وہاں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے یہ پھر خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تو کچھ نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: سادہ طریقہ ہے کہ جب آپ کو شعور ہوا ہے آپ فوراً نماز پڑھ لیں ۔ زندگی انسان کی محدود ہے ۔ کچھ پتہ نہیں کہ کب بلاوا آجائے۔ اگرآپ کی نماز رہ گئی کسی وجہ سے تو جیسے ہی آپ اس صورتحال سے نکلیں آپ فوراً نماز پڑھ لیں۔ اِلّا یہ کہ کوئی ممنوع وقت ہو اور ممنوع اوقات جو ہیں وہ دو ہی ہیں۔ یا طلوعِ آفتاب کا وقت ہے یاغروب آفتاب کا وقت۔ بس اس کو نکال لیجئے اور پھر پڑھ لیجئے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:کائنات اللہ تعالیٰ کے قوانین کے تحت چل رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ پابند تو نہیں ہو گئے ۔ قادر ہیں جب چاہیں خلاف ورزی کرلیں ۔یعنی اللہ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ میں قانون کے مطابق معاملا ت کو چلا رہا ہوں ۔سورج کو میں مشرق سے طلوع کرتا ہوں۔تو میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ مغرب سے طلوع نہ کروں۔جب چاہے گا کر دے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہاں جس مدد کا ذکر ہے وہ مافوق الاسباب مدد ہے ۔یہ مددہم اللہ ہی سے مانگ سکتے ہیں کسی اور سے نہیں مانگ سکتے۔دنیامیں تو ہم ایک دوسر ے سے مدد چاہتے ہی ہیں ۔اگر مجھے آپ کے ساتھ کوئی کاروبار کرنا ہے یا کوئی معاملہ کرنا ہے تومیں آپ سے مدد مانگوں گا ۔مجھے پانی پینا ہے تو میں کہوں گا کسی سے بھئی مجھے پانی لا دو ۔عالم ِ اسباب میں ہم یہ مدد مانگتے ہیں ایک دوسرے سے یہ اصولی بات  ہے ۔ اب رہ گئی سفارش تو سفارش اگر آپ نے کسی جائز مقصد کے لئے توجہ دلانے کے لئے کی ہے تو نیکی کا کام کیاہے ۔اگر کسی کا حق مارنے کے لئے کی ہے تو ناجائز کا م کیا ہے ۔یہ دیکھ لینا چاہئے کہ آپ کیا کرنے  جارہے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: حلا لہ ایک حرام کام ہے ۔ اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ نبیﷺ  نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جو اپنے آپ کو حلالے کے لئے پیش کرتاہے یہ۔ کرائے کا سانڈ ہے۔اتنے سخت الفاظ میں فرمایا ہے اس لئے اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کامذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔

 کسی بیوی نے یہ کام کر لیا۔ا ب جو کچھ بھی آپس میں طے کیا اس کا کسی کو علم نہیں ہوا۔تو قانون اس نکاح کو تو باطل نہیں قرار دیتا ۔اس لئے کہ دلوں کے حال اللہ جانتا ہے اور نیت میں کیا خرابی تھی اس کا فیصلہ وہ قیامت کے دن کرے گا ۔دنیا میں تو معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور کوئی خاونداگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو اسے ضرور یہ معلوم کر لینا چاہئے۔کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے کرتو معاملہ نہیں کیا گیا ۔ لیکن فرض کیجئے کہ اس نے پوچھ لیا ۔نیت معلو م کر لی ۔ اس سے جھوٹ بول دیا گیا تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ذمہ داری اس کی ہے جس نے جھوٹ بولا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ اچھی بات ہے ۔آپ جماعت کراتے ہیں۔بیگم ساتھ شریک ہو جاتی ہے تو یہ باعثِ اجر ہوگا۔لیکن جس نماز کا ثواب ستائیس گنا بیا ن ہوا ہے۔وہ جماعت کی نماز ہے۔یعنی جو مسلمانوں کے ساتھ آپ جاکر پڑھتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: گرو گوبند صاحب نے جب سکھوں کو منظم کیا توانہوں نے ان کی پانچ علامتیں قرار دے دیں۔جس میں  یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں کڑا ہوتا ہے ،کرپان ہوتی ہے ۔پھر کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا ذکراس مہذب مجلس میں موزوں نہیں ۔اور یہ بال بھی انہی علامتوں میں شامل ہیں۔ عام طور پرجب کسی جماعت یا تنظیم یا کسی گروہ کو منظم کیا جاتا ہے تو ان کی امتیازی علامتیں مقرر کر دی جاتی ہیں۔

سکھ بہت باغی لوگ تھے۔اور ان کے خلاف بہت اقدامات بھی ہوتے رہے ۔ احمد شاہ ابدالی نے ان کے اوپربہت سے حملے کیے ۔بلکہ ایک موقعے کے اوپر تو اس نے اسی پنجاب میں پچیس ہزار سکھ ایک ہی دن میں مارے تھے۔پھر اورنگ زیب نے بہت دفعہ ان کا تعاقب کیا ۔او ر اس زمانے میں  یہ جنگلوں میں چھپ جاتے تھے اور اس طرح ان کا بہت تعاقب کرنا پڑتا تھا ۔پھر بستیوں پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔یہ مزنگ کا چھوٹا قصبہ ہے ۔اس کی تاریخ اگر کبھی آپ پڑھیںتو کم و بیش سات آٹھ دفعہ اس کو سکھوں نے لوٹا۔غارت گری کی وجہ سے ان کے خلاف کارروایاںبھی کرنی پڑتی تھیں۔اسی وجہ سے مسلمانوں میں اور ان میں مخاصمت ہو گئی ورنہ دینی لحاظ سے وہ ہندوئوں کے مقابلے میں مسلمانوں سے زیادہ قریب تھے۔تو پھر گرو گوبند سنگھ صاحب نے ان کی تنظیم کی اور ان کو ایک باقاعدہ منظم گروہ میں بدلنا شروع کیا۔اس موقعے کے اوپر یہ مذہب بننا شروع ہواتو اس میں پھر کچھ علامتیں بھی بن گئیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد سب سے پہلی حقیقت جس کو بہت بحث کر کے بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے وہ یہ ہے کہ دنیا امتحا ن کی جگہ ہے ۔بس یہ سب سے بڑی حکمت ہے جو انسان جان لے ۔کہ یہ دنیا امتحان کے لئے بنی ہے ۔یہاں نعمت نہیں ملے گی۔یہاں جو کچھ ملتا ہے وہ آزمائش کے لئے ہوتا ہے ۔ یہاں تکلیف آتی ہے تو آزمائش کے لئے ۔یہاں اللہ تعالیٰ کے انعامات ہوتے ہیں تو آزمائش کے لئے۔ جب یہ بات سمجھ میں آ جائے تو پھر اس کے بعد آ پ سے آپ انسان کے اندر وہ رویہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے ۔یعنی پھر وہ جزع فزع نہیں کرتا وہ ا س کے اوپر اللہ تعالیٰ سے شکو ہ نہیں کرتا ۔وہ کوئی بے صبرے پن کا مظاہر ہ نہیں کرتا ۔    تکلیف ،مصیبت جب آتی ہے تو ظاہر ہے کہ انسان رنجیدہ خاطر بھی ہوتا ہے ۔بہت سے نازک مراحل بھی اس پر آجاتے ہیں۔لیکن بہرحال وہ ثابت قدم رہتاہے وہ موقع دیکھئے  جو حضرتِ یوسفؑ کے والد پر آیا ۔انہوں نے جب اس موقعے پر اندازہ کر لیا کہ آزمائش بڑی لمبی ہے او ر شروع بھی ہو گئی ہے۔تو فرمایافصبرجمیل اب مجھے اچھے طریقے سے صبر ہی کرنا ہے ۔اور جس موقع کے اوپر کچھ تھوڑی سی بات بھی کی وہ یہ کی کہ انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ میں اپنے غم اور تکلیف کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں ۔اور کسی سے نہیںکرتا ۔تو بس یہ جگہ ہے جہاں آدمی کورہنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : یہ کوئی شریعت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ شریعت میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں کھڑا کر کے ان کو اللہ کے احکام دیئے گئے ہیں ۔اللہ کی ہدایت پہنچائی گئی ہے۔قرآن نے کہیں یہ بات نہیں کہی، کسی حدیث میں بھی یہ بات بیان نہیں ہوئی ۔اچھی عربی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ایک روایت کا بالکل غلط مدعا لوگوں نے سمجھ لیا ہے ۔حضورؐ نے جو بات کہی اگر اس کی نسبت حضور ؐ کی طرف درست ہے ۔(کیونکہ اس روایت میں یہ اضطراب بھی ہے کہ وہ حضور کی بات ہے یا ایک صحابی نے اپنا تبصر ہ اس میں شامل کر دیاہے۔)تو بھی اس میں جو بات بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عورتوں پرکم ذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔اور یہ ٹھیک ہے ۔مثال کے طور پر آپ یہ دیکھئے کہ عورت کوکمانے سے نہیں روکا ۔وہ کاروبار کرے ، کمائے لیکن اس کے اوپر گھر چلانے کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ذمہ داری جو ہے وہ مرد کی ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ نے بیا ن کر دیا ہے قرآن میں۔اسی طریقے سے عورت کے اوپر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ جب جہاد کے لئے نفیرِ عام ہو جائے تو وہ نکلے ذمہ داری نہیں ہے اس کے اوپر۔اسی طرح جمعے کے لئے آنا اسکے لئے لازم نہیں ہے ۔اس طرح مسجد کی نما ز اس کے لئے باعثِ فضیلت نہیں ہے ۔وہ گھر میں پڑھے تو زیادہ باعثِ فضیلت ہے ۔تو یہ ذمہ داری کا کم ڈالنا ہے ۔یعنی اس کے اوپر بوجھ کم ڈالا گیا ہے ۔ دنیوی معاملات کا بھی دینی معاملات کا بھی ۔عقل کے کم ہونے نہ ہونے کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔یہ بحث اگر کوئی ہوگی بھی تو یہ نفسیا ت میں ہونی چاہئے ۔یہ حیاتیا ت میں ہو نی چاہئے۔یہ ہمارے علم اور مشاہدے کی  بات ہے کہ بچوں میں کتنی عقل ہوتی ہے ؟ عورتوں میں کتنی ہوتی ہے ؟ مردوں میں کتنی ہوتی ہے ؟ پاکستانیوں میں کتنی ہوتی ہے؟ امریکنوں میں کتنی ہوتی ہے ؟یہ آپ بحث کرسکتے ہیں۔ اسلام کا یہ مسئلہ نہیں ہے ۔اسلام میں تو جو بات اللہ تعالیٰ کی ہے وہ یکساں طور پر عورتوں اور مردوں کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے ۔اور یکساں تقاضے ان سے کئے گئے ہیں ذمہ داریاں البتہ ان کی الگ الگ ہیںحالات کے لحاظ سے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: سادہ بات سمجھ لیجئے کہ آپ شادی جس طرح چاہیں کریں۔اس کو اعلانیہ ہونا چاہئے۔یعنی آج شادی ہوئی ہے۔ internet پر ہوئی ہے ،ٹیلی فون پر ہوئی ہے یاسیٹلائیٹ فون پرہوئی ہے ۔یا آپ خلا میں اڑ رہے ہیں وہاں آپ نے کر لی ہے ۔بس دنیا کو پتہ چل جانا چاہئے کہ آپ نے شادی کر لی ہے ۔آج سے آپ میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں ۔ یہ ہے اصل میں اسلام کا تقاضا۔یعنی ایک مرد و عورت کے مابین شادی گویاساری دنیا کے لیے اعلان ِ عام ہے کہ اب ہم قانونی طور پر میاں بیوی ہیں۔یہ ہو جانا چاہئے۔اس کے ذرائع کے بارے میں اسلا م کو بحث نہیں ہے ۔وہ ذرائع حالات کے لحاظ سے تبدیل ہوتے رہیں گے ۔

اس میں اصل چیزیں دو ہیں ۔اعلانیہ ہوناچاہئے اور کسی کے لئے دھوکے اور فریب کا باعث نہ ہو۔سیدھی صاف بات ۔اسی وجہ سے آپ دیکھیں کہ شادی کے موقعے کے اوپر قرآن مجید کی جوچند آیات حضور پڑھتے تھے اور اب بھی پڑھی جاتی ہیں۔اس موقعے پر نصیحت کے لئے۔ان آیات میں ایک آیت یہ ہے کہقولو قولاً سدیدا سیدھی بات کہو۔جو بھی کہنی ہے ۔سیدھی ،سچی ،صاف۔یعنی شادی کا معاملہ کوئی ہیر پھیر کا معاملہ نہیں ہے ۔ شادی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ ایک معاہدہ ہے۔جو فریقین کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے۔ اس کی بس یہ ہی دو چیزیں ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بات یہ ہے کہ سودممنوع ہے ۔کرایہ بالکل جائز ہے۔ سود صرفی چیزوں پہ ہوتا ہے ۔یعنی ایک چیز میں نے آ پ کوادھار دی ،قرض دی اور وہ چیز ایسی ہے کہ اس کو لازماً فنا ہونا ہے ۔وہ استعمال نہیں کی جاسکتی۔آپ کو آٹا چاہئے۔میں دوں گا آٹا۔کیا کریں گے اسے ؟ کھائیں گے فنا ہو جائے گا ۔اب اس کو پیدا کرنا ہو گا دوبارہ۔یعنی محنت کر کے پھرگندم خریدنی ہو گی پھر آٹاپیدا ہو گا ڈیڑھ سیر۔پھر آپ میرا آٹا لوٹائیں گے۔پیسے خرچ کرنے کے لئے ہوتے ہیں یہ بھی فنا ہو جاتے ہیں۔اس کو کہتے ہیں صرفی چیزیں۔

استعمال کی چیزیں کیا ہیں ۔یہ میز ہے ۔ آپ کو ضرورت تھی ۔شادی کرنے کی یا تقریرفرمانی تھی ۔آپ نے کہا ذرا میز دے دو استعمال کرنے کے لئے۔آپ استعمال کریں گے ۔اور استعمال کے بعدآپ میری میز اٹھا کے مجھے واپس دے دیں گے۔اس استعمال کا کرا یہ ہو تا ہے ۔

ان صرفی چیزو ں کے اوپر قرآن کہتا ہے۔ قرآن کیا تورات بھی یہ ہی کہتی ہے کہ صرفی چیزیں جو ہیں ان میں آدمی دہری مشقت میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔اگر اس سے اس کے اوپر کچھ مانگا جائے۔ایک وہ اس چیز کو فنا کر بیٹھا ہے ۔اسے دوبارہ پیدا کرے گا ۔اور اس کے اوپر مزید جو دینا ہے وہ بھی پیدا کر کے دینا ہے تو یہ دہری مشقت ہے ۔ فرض کریں کہ آپ نے بیس لاکھ روپیہ مجھے دیا ہے ۔وہ میںنے کاروبار میں لگا لیا۔مجھے کاروبار میں نفع ہویا نقصان وہ ڈوب جائے یا کچھ بھی ہو۔مجھے اب دوبارہ کمانا ہے ۔میں نے اس سے بیٹی کی شادی کر لی ۔ بہرحال کہیں اور سے کمائوں گا تو دو ں گا آپ کو ۔میں نے مکان لیا ہے آ پ سے ۔ مکان میں میں رہ رہا ہوں ۔مالک مکان نے نوٹس دیا میں نے کہا جی دوسرا تلاش کر لیتا ہوں۔خالی کر کے دے دیا آپ کو ۔ یہاں دہر ی مشقت نہیںہے۔ اس پر قرآن مجیدکہتا ہے کہ آپ متعین نفع نہیں لے سکتے۔یہ بات سمجھ لیجئے کہ ممنوع کیا ہے ؟ ممنوع ہے متعین نفع۔اگر مثال کے طور پر میںنے آپ کو دو لاکھ روپیہ قرض دیا ۔اور آپ سے یہ کہا کہ جی میرا قرض آپ کو ہر حال میں واپس کرنا ہے ۔واجب الادا ہے ۔آپ کاروبار کر رہے ہیںاس سے تو اگر کوئی نفع آپ کو ہوتا ہے تو آپ مجھے اس تنا سب سے دیں گے۔اس میں کوئی سود نہیں ہے۔ٹھیک ہے ۔ جائز ہے کوئی حرج نہیں۔آپ کا اصل زر محفوظ ہے ۔آپ اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں ۔ نقصان میں شریک نہیں ہیں۔انکار کر دیں اس سے۔اس میں دین کی طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ آپ کو نفع ہو نقصان ہو مجھے آپ نے اتنے فیصد دینا ہے بس!اس کو منع کیا گیا ہے ۔اسی طرح زمین کا معاملہ ہے ۔زمین میں بھی یہ ہی ہوتا ہے ۔بھئی ٹھیک ہے زمین ہے۔

زمین بیس لاکھ کی ہو سکتی ہے ۔زمین ایک کروڑ کی ہو سکتی ہے۔آپ نے اس میں ایک آدمی سے طے کر لیا کہ میں اس میں کاشت کروں گا ۔اتنے پیسے آپ کو دے دوں گا ۔فصل ہو گئی اچھی بات ہے نہیں ہوئی تو تب بھی ۔کرایہ اس کا دیجئے اس کو ۔یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ نے دکا ن کرائے پر لی ہے چلتی ہے نہیں چلتی آپ کو کرایہ بہرحال دینا ہے ۔تو بعض لوگ اس میں خوامخواہ خلطِ مبحث پیدا کرتے ہیں ۔چنانچہ ایک بڑے عالم تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ انہوں نے بہت اصرار سے یہ کتا ب لکھی ہے کہ کرایہ جو ہے یہ بھی سود ہے ۔تو طالب علموں نے  سوال کیا کہ آپ مقالہ پڑھنے کے لئے جس جہاز پر آئے ہیں۔وہ کرایہ ہی تو دے کے آئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ پائلٹ کی محنت کا معاوضہ ہے۔ایسی جو باتیں ہیں ان کا پھر یہ نتیجہ نکلتا ہے ۔آپ ٹیکسی کرایہ پر دیتے ہیں ۔آ پ دیکھیں کہ کرایہ ممنوع قرار دے دیں تو تمدن ختم ہو جائے گا ۔ہم اطمینان سے جاتے ہیں کراچی جائیں۔پشاور جائیں۔تو ہوٹل میں ٹھہر جاتے ہیں۔کرایہ ہی دیتے ہیں ۔کرایہ استعمال کا ہے اس کمرے کاجس میں آپ ٹھہرتے ہیں ۔کمرہ خالی کرتے وقت آپ کو کیا کرنا ہوتا ہے ؟ کمرہ دوبارہ بنا کے دینا ہوتا ہے ؟ نہیں!لیکن پیسہ اگر آپ نے دس لاکھ روپیہ لے لیا ہے تو وہ تو بہرحال آپ نے خرچ کرنا ہے ۔اس لیے اس کے اوپر یہ فرق ہے دونوں میں ۔اور اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ نقطۂ نظر کہ حضرت حوابہ الفاظ دیگر عورت تمام نسل انسانی کی بدبختی اور بربادی کی ذمہ دار ہے، بلاشبہ غیر اسلامی نقطۂ نظر ہے۔ اس نقطۂ نظر کا ماخذ تحریف شدہ تورات ہے جس پر یہود و نصاریٰ ایمان رکھتے ہیں اور اسی کے مطابق ان کے دانشور اور مفکرین لکھتے اور بولتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلم دانشور بھی بلا سوچے سمجھے ان کے راگ میں راگ ملاتے ہیں۔

            قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں حضرت آدمؑ اور ان کے جنت سے نکالے جانے کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس قصے سے متعلق آیتوں کو یکجا کرنے اور ان کے مطالعے سے درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:

(1) اللہ تعالیٰ نے ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھانے کا حکم بیک وقت حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ دونوں کو دیا تھا۔ اللہ کے حکم کے مطابق دونوں ہی اس بات کا مکلّف تھے کہ اس درخت کے قریب بھی نہ جائیں۔ اللہ فرماتا ہے:

وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا    ۠وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ؀ (البقرۃ: 35)

”اور ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بہ فراغت جو چاہو کھاؤ مگر تم دونوں اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے“

(2) آدمؑ کو ورغلانے والی حضرت حوا نہیں تھیں بلکہ ان دونوں کو بہکانے والا اور جنت سے نکلوانے والا شیطان تھا۔ اس سلسلے میں اللہؑ کا فرمان ملاحظہ ہو:

فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَ خْرَ جَهُمَا  مِمَّا كَانَا فِيْهِ     ۠ (البقرۃ: 36)

”مگر شیطان نے ان دونوں کو اسی درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا چھوڑا جس میں وہ تھے۔“

سورہ بقرہ کے علاوہ سورہ اعراف میں بھی اس واقعے کی تفصیل ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ؀ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَاوٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ ؀  وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ ؀ (الاعراف: 19-21)

”اور اے آدم تم اور تمہاری بیوی تم دونوں اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب تم دونوں نہ جانا ورنہ تم دونوں اپنے آپ پر بڑا ظلم کرو گے۔ چنانچہ شیطان نے ان دونوں کو بہلایا پھسلایا تا کہ ان کی جو شرم گاہیں ڈھکی ہوئی ہیں وہ کھول دے اس نے ان دونوں سے کہا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تم فرشتہ نہ بن جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی نہ عطا ہو جائے۔ اور اس نے ان دونوں سے قسمیں کھا کھا کر کہا میں تمہیں بہت خلوص کے ساتھ نصیحت کر رہا ہوں۔“

سورہ طہٰ میں بھی اس واقعہ کا تذکرہ ہے اور اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے جو تعبیر اختیار کی ہے اس کے مطابق بہکنے اور گمراہ ہونے کی پہلی ذمے داری آدمؑ پر عاید ہوتی ہے نہ کہ حضرت حوا پر اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کی سرزنش اور تنبیہ کا سارا رخ حضرت آدمؑ کی طرف ہے نہ کہ حواکی طرف۔ ملاحظہ ہو:

فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰي ؀ اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرٰى  ؀ وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَلَا تَضْحٰي ؀ فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى ؀ فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى ؀ (طہٰ: 117-121)

”پس ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدم یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، دیکھو یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے ورنہ تم بڑے بد بخت ہوگے۔ اس جنت میں تمہارے لیے یہ نعمت ہے کہ نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ ننگے ہو گے۔ نہ پیاس لگے گی اور نہ دھوپ ستائےگی۔ چنانچہ شیطان نے آدم ؑ کو بہلایاپھسلایا۔ اس نے کہا اے آدم کیا میں ہمیشگی والے درخت اور نہ ختم ہونے والی بادشاہت کا تمہیں پتا نہ بتاؤں۔ چنانچہ ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ تو ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور یہ دونوں اپنی شرم گاہوں پر جنت کےپتے ڈالنے لگے۔ آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہو گیا۔“

مذکورہ آیت میں نافرمانی اور گمراہی کی نسبت واضح طور پر آدمؑ کی طرف کی گئی ہے۔

(3) وہ جنت جس میں آدمؑ تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے اور جس کے درخت کا پھل کھانے کی وجہ سے زمین پر بھیج دیے گئے تھے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ یہ وہی جنت ہو ، جو آخرت میں نیک اور صالح بندوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس جنت میں حضرت آدمؑ تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے وہ اسی زمین کی کوئی جنت ہے اور جنت سے مراد خوبصورت باغ اور سرسبز و شاداب علاقہ ہے، کیوں کہ عربی زبان میں جنت خوبصورت باغ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں متعدد مقامات پر لفظ جنت کو ایس زمینی باغ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ قلم کی آیت:

اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ  ۚ (القلم:17)

”ہم نے ان لوگوں کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔“

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا    ۭ ؀ (الکہف: 32)

”ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ ان دو لوگوں کی جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے او رگرد کھجور کے درخت کی باڑ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خوب پھلے اور پھل دینے میں کوئی کمی نہیں کی۔“لہذا یہ ثابت ہوا کہ یہ تصور گمراہ کن ہے کہ حوا جنت سے  نکلوائے جانے کی ذمہ دار ہے -

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اسلام نے عورت کو کئی حیثیتوں سے عزت بخشی ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے ایک صنف نازک کی حیثی سے ایک ماں کی حیثیت سے ایک بیوی کی حیثیت سے ایک بیٹی کی حیثیت سے اور معاشرے کے ایک فرد کامل کی حیثیت سے۔

انسان کی حیثیت سے عورت کی عزت افزائی اس طرح کی گئی ہے کہ ذمہ داریوں اور فرائض کے معاملے میں عورت مرد کے برابر ہے۔ دونوں یکساں درجے کے ذمہ دار ہیں اور یکساں طور پر انعام یا سزا کے حق دار ہیں۔ کسی انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر تھا اور اس حکم کی نا فرمانی پر دونوں کو یکساں سزادی گئی۔

ماں کی حیثیت سے اسلام نے عورت کو جو عزت بخشی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔اسلام نے ماں کے پیروں تلے جنت قراردے کر اسے جو بلند مقام عطا کیا ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ بیوی کی حیثیت سے اس طرح عزت بخشی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

”خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي“ (ترمذی)

”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہے۔ اور میں اپنی بیوی کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔“

لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض سخت مزاج اور تشدد پسند مسلمان عورتوں کے معاملے میں بڑا ظلم کرتے ہیں۔ انھوں نے عورتوں کو ان حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے جنھیں اسلامی شریعت نے انھیں ایک انسان اور ایک عورت کی حیثیت سے عطا کیا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ ساری حق تلفیاں اور زیادتیاں دین اور مذہب کے نام پر ہوتی ہیں حالانکہ ہمارا دین اس طرح کی حق تلفیوں سے پاک ہے۔ عورتوں کو کم عقل ثابت کرنے کے لیے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ من گھڑت حدیث منسوب کردی۔ شاوروهن وخالفوهن ”ان عورتوں سے مشورہ کرو لیکن ان کے مشورے پر عمل نہ کرو۔“

یہ واضح طور پر ایک من گھڑت اور بے بنیاد حدیث ہے کیوں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی بیویوں سے مشورہ فرماتے اور ان مشوروں پر عمل بھی کیا کرتے تھے۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مشورہ کیا اور ان کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں خیرو برکت عطا کی۔

 قرآن نے جہاں جہاں واجبات و فرائض کے سلسلے میں مسلمانوں کومخاطب کیا ہے وہاں مرد وعورت دونوں یکساں طور پر مخاطب ہیں۔ اسی طرح جزاو سزا کے معاملے میں بھی دونوں برابر ہیں نماز پڑھنے کا حکم دونوں کے لیے یکساں طور پر ہے اور نماز نہ پڑھنے کی صورت میں دونوں کو ایک جیسی سزا اور پڑھنے کی صورت میں ایک جیسا انعام ملے گا۔

اسی طرح کی ایک من گھڑت اور بے بنیاد بات یہ ہے کہ عورت کی آواز پردہ ہے اور یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر اور محرم کے علاوہ کوئی دوسرا اس کی آواز سنے۔ اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ شوہر اور محرم کے علاوہ کسی اور کے ساتھ بات کرے کیوں کہ اس کی آواز پردہ ہے اس طرح کی بے بنیاد بات کرنے والوں سے میں نے اس کی دلیل پوچھی تو وہ کوئی دلیل نہیں پیش کر سکے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں اس کے برعکس بات کہی گئی ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے پردہ کی اوٹ میں بات کر سکتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں پردے کی اوٹ میں رہ کر غیر محرموں سے بات کرتی تھیں اور انھیں مفید مشورے دیتی تھیں۔مسائل کا حل بتاتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث سنائی تھیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بلا کسی رکاوٹ کے مردوں کی موجودگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر ان سے مسائل دریافت کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انھیں بڑے اطمینان سے جواب دیتے تھے اور کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس بات پر نہیں ٹوکا کہ تم مردوں کی موجودگی میں آکر کیوں باتیں کرتی ہو؟ خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی عورتوں کی آواز کو پردہ نہیں تصور کیا جاتا تھا چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ دوران خطبہ کسی عورت نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی بات پر ٹوکا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا۔ اور کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ اس عورت نے بھری مجلس میں بات کیوں کی۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  عورت کی آواز کو پردہ نہیں تصور کرتے تھے۔

سورہ قصص میں اللہ تعالیٰ نے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ واقعہ کے درمیان اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی بزرگ (غالباً نبی) کی دو بیٹیوں سے بات کی اور پانی بھرنے میں ان کی مدد کی اور ان کے ساتھ چل کر ان کے گھر بھی گئے اگر عورت کی آواز پردہ ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام کبھی ان لڑکیوں سے باتیں نہیں کرتے اور نہ ان بزرگ کی بیٹیاں ان سے بات کرنے کو پسند کرتیں ۔

حق بات یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے مردوں عورتوں سے یا عورتوں کو مردوں سے بات کرنے کی ممانعت نہیں کی ہے۔ ممانعت اس بات کی ہے کہ عورتیں مردوں سے لبھانے والے انداز میں بات کریں۔ مردوں سے بات چیت کرنا منع نہیں ہے بلکہ پیار بھرے لہجے میں اور لبھانے والے انداز میں بات کرنا منع ہے۔ “

رہی بات اس حدیث کی

”مَا تركْتُ بعْدِي فِتْنَةً هِي أَضَرُّ عَلَى الرِّجالِ مِنَ النِّسَاءِ“

”میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی دوسرا فتنہ نہیں چھوڑاہے۔“

یہاں لوگوں نے لفظ فتنہ سے یہ مفہوم اخذ کر لیا کہ عورتیں مصیبت اور فتنہ کی جڑہیں۔یا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فقرو فاقہ اور بیماری کو فتنہ قراردے کر ان سے پناہ مانگی ہے عورتیں بھی کچھ اسی قسم کا فتنہ ہیں۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ لفظ فتنہ عربی زبان میں آزمائش اور امتحان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی وہ چیز جس کے ذریعے سے کسی کی آزمائش ہو، یہ آزمائش کبھی بری چیزوں کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے ذریعے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی پریشانیوں میں مبتلا کر کے آزماتا ہے اور کبھی نعمتیں عطا کر کے آزماتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً    ۭ (الانبياء:35)

”اور ہم اچھے اور برے دونوں سے تمھاری آزمائشیں کرتے ہیں۔“

اس لیے عربی زبان میں لفظ فتنہ کبھی بری چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے لیے مثلاً مال اور اولاد اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی فتنہ قراردیا ہے۔

اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ    ۭ (التغابن:15)

”بلا شبہ تمھاری دولت اور تمھاری اولاد آزمائش کا سامان ہے۔“

یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں لیکن اللہ ان ہی نعمتوں کے ذریعے سے اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے کہ کہیں یہ بندے ان نعمتوں میں مگن ہو کر اپنے رب کو بھول تو نہیں جاتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائی میں کوتاہی تو نہیں کرتے ہیں۔اس مفہوم میں قرآن کی یہ آیت ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ   ۚ  (المنافقون: 9)

”اے مومنو!دیکھو تمھاری دولت اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔“

انسان جس طرح مال و اولاد کے ذریعے آزمایا جاتا ہے دراں حالے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ کی نعمتیں ہیں اسی طرح عورتیں اور بیویاں بھی اللہ کی نعمت ہونے کے باوجود آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ یہ عورتیں فتنہ و فساد کی جڑنہیں ہیں اور نہ برائیوں کا گہوارہ ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق نیک بیویاں اللہ کا بڑا انعام ہیں۔ اور اس انعام میں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے آزمائش رکھی ہے کہ کہیں یہ بندے عورتوں کے چکرمیں اپنے رب کو فراموش تو نہیں کر بیٹھتے۔ اسی آزمائش کی طرف درج ذیل آیت میں اشارہ ہے:

اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ ۚ (التغابن: 14)

”تمھاری بیویوں اور آل اولاد میں بھی تمھارے دشمن ہوتے ہیں پس ان سے ہو شیار رہو۔“

ایک صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مال و دولت اور عیش و عشرت کی فراوانی سے خبردار کیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے۔

”فَوَاللهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ ، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا ، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ “(بخاری و مسلم)

”بخدا مجھے تمھارے سلسلے میں فقرو فاقہ کا اندیشہ نہیں ہے۔ مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ دنیا تم پر وسیع کر دی جائے گی جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر وسیع کر دی گئی تھی۔اور تم بھی دنیا کمانے کے لیے اسی طرح ایک دوسرے کا مقابلہ کرو گے جیسا ان لوگوں نے کیا۔ اور یہ دنیا بھی تمھیں ویسے ہی برباد کردے گی جیسے اس نے ان لوگوں کو برباد کیا تھا۔“

اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غربت اور فقیری کو پسندیدہ اور مرغوب شے سمجھتے تھے اور اس کی طرف اپنی امت کو دعوت دے رہے تھے ۔ کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غربت اور فقیری سے اللہ کی پناہ مانگی ہے اور یہ بات بھی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی امت میں خوش حالی اور دولت کی فراوانی کو ناپسندیدہ شے سمجھتے تھے کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ: ”نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْءِ الصَّالِحِ“ (مسند احمد) عمدہ مال و دولت صالح شخص کے لیے کیا خوب نعمت ہے  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں ایسے بھی  تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی اور اس فراوانی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اس حدیث کا مفہوم صرف یہ ہے کہ فقرو فاقہ کے مقابلہ میں دولت کی فراوانی زیادہ بڑی آزمائش کی چیز ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس خطرے سے آگا کیا ہے کہ کہیں کوئی شخص دنیا کے عیش و عشرت میں الجھ کر آخرت کی طرف سے غافل نہ ہو جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

سوال: شرعی نقطہ نظر سے مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے اور عورتوں کا مردوں کی طرف دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ خاص کریہ امر وضاحت طلب ہے کہ عورتیں کس حد تک مردوں کو دیکھ سکتی ہیں؟ کیوں کہ میں نے بعض علماء اور مقررین کو تقریروں میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عورتوں کا مردوں کی طرف دیکھنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ چاہے یہ دیکھنا شہوت کی نظر سے ہو یا بغیر شہوت کے اس سلسلے میں دلیل کے طور پر مندرجہ ذیل حدیثیں پیش کرتے ہیں۔

(1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ عورتوں کے لیے کون سی بات بہتر ہو سکتی ہے؟ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ نہ وہ مردوں کو دیکھیں اور نہ مرد انھیں  دیکھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمدہ جواب پر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کا محبت اور پیار سے بوسہ لیا اور فرمایا کہ تم بہترین باپ کی بہترین اولاد ہو۔

 (2) اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں کہ میں اور میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے تھے کہ اس درمیان عبد اللہ ابن مکتوم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس آئے جو کہ دونوں آنکھوں سے اندھے تھے ۔ یہ بات اس زمانے کی ہے جب پردے کا حکم آچکا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں سے کہا کہ تم دونوں ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پردہ کرو ۔ ہم نے کہا کہ وہ تو اندھے ہیں۔ نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کہ تم دونوں تو اندھی نہیں ہو۔ کیا تم انھیں نہیں دیکھ رہی ہو؟ موجودہ زمانے میں زندگی کی مختلف ضرورتوں اور کچھ دوسرے اسباب کی وجہ سے مردوں اور عورتوں کا اختلاط کافی بڑھ چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ نہ مرد عورت کو دیکھے اور نہ عورت مرد کو دیکھے۔ کیا عملی طور پر یہ بات ممکن ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے غایت درجہ حکمت و مصلحت کے تحت تمام جان دار کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے بلکہ کائنات میں پائی جانے والی تمام چیزوں کو اللہ نے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے،اللہ فرماتا ہے۔

وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝ (الذاريات:49)”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنا ئے ہیں شاید کہ تم اس بات سے سبق لو۔“

اسی قانون فطرت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو بھی جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے تاکہ نسل انسانی کا سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھ دی ہے تاکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے بے تاب رہیں۔ اگر دونوں میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش نہ ہو تو شوہر اور بیوی کے درمیان کبھی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے اور نہ نسل انسانی ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہی قانون فطرت ہے اور قانون فطرت سے بغاوت کسی صورت مناسب نہیں ہے:

اللہ تعالیٰ نے جس دن آدم علیہ السلام کی تخلیق کی اسی دن ان کی پسلی سے عورت (حوا) کو بھی  بنایا۔ تاکہ وہ آدم علیہ السلام  کے لیے راحت اور سکون کا ذریعہ بن سکیں۔

پھر یہ دونوں مرد اور عورت کی صورت میں ایک ساتھ جنت میں زندگی گزارنے لگے۔ پھر اللہ کی نا فرمانی کی پاداش میں ایک ساتھ جنت سے نکال کر زمین پر بسائے گئے اس زمین پر ان دونوں کے باہمی اختلاط سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور قیامت تک مردوں اور عورتوں کے باہمی تعلقات کے نتیجے میں یہ سلسلہ رواں دواں رہے گا۔ عورت اورمرد ایک دوسرے کے لیے اس قدر ناگزیر ہیں اور ان دونوں کا رشتہ اس قدر گہراہے کہ اللہ فرماتا ہے”بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ“ یعنی تم سب (مرد اور عورت) ایک دوسرے کا حصہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی کے سارے مسائل اور ذمے داریاں ان دونوں میں مشترک ہیں اور دونوں کو مل کر یہ ذمے داریاں نبھانی ہیں یہی قانون فطرت ہے۔ اس لیے یہ تصور کرنا کہ مرد اور عورت اس طرح علیحدہ علیحدہ زندگی گزاریں کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں نا ممکن سی بات ہے۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہے جب انسان قانون فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے غیر فطری زندگی گزارنا شروع کردے تمام انسانوں سے رشتہ کاٹ کر پہاڑوں پر بس جائے اور رہبانیت کی زندگی اختیار کر لے۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ رہبانیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ”اللہ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ عیسائیوں نے خود ہی اسے ایجاد اور اختیار کیا تھا۔“چنانچہ آج بھی عیسائیوں میں دین دار لوگوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ شادی کریں اور عورتوں سے قربت اختیار کریں۔ لیکن اسلام کا نقطہ نظریہ ہے کہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے الگ ہو کر زندگی گزارنا قانون فطرت کے خلاف ہے۔ انسانی زندگی کی عمارت دونوں کے مشترکہ تعاون ہی سے کھڑی ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر دو باتوں کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کار عورت کے لیے کوڑوں کی سزا سے قبل جو سزا بتائی تھی وہ یہ تھی کہ زنا کار عورت کو گھر کے اندر اس طرح قید کر دیا جائے کہ وہ مرتے دم تک گھر سے باہر نہ نکل سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورت کا گھر کے اندر قید رہنا اور گھر سے باہر نہ نکل سکنا اس کے لیے سزا ہے اور عام حالات میں معمول کی زندگی میں اسے اس طرح گھر کے اندر قید رکھنا اس پر بڑا ظلم ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر مرد اور عورت کے درمیان ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھی ہے۔ یہ بالکل ایک فطری بات ہے اور اللہ کی فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو پرہیز گار اور پاکباز ثابت کرنے کے چکر میں یہ کہتا ہے کہ عورتوں میں اس کی دلچسپی بالکل نہیں ہے یا عورتیں اس کے لیے بالکل کشش نہیں رکھتی ہیں وہ یقیناً جھوٹا ہے۔ کیوں کہ اس کا یہ دعوی قانون فطرت کے خلاف ہے۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں میں آپ کے سوال کے جواب کی طرف آتا ہوں۔

عورت اپنے جسم کے کس کس عضو کو کھلا رکھ سکتی ہے؟ اس سلسلے میں میرا موقف وہی ہے جو علماء کی اکثریت کا ہے۔ عورت اپنا چہرہ ہتھیلی اور پیر غیر محرموں کے سامنے بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔لیکن کیا ان کھلے ہوئے اعضا کو دیکھنا جائز ہے؟

تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی نظر جائز ہے۔ اگر غلطی سے اور بغیر کسی ارادے کے ان پر نظر پڑ جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ شہوت اور لذت کی نظر سے انھیں دیکھنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ شہوت جذبات کو بھڑکاتی ہے اور گناہ پر اکساتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ :”النظرة بريد الزنا “ (نظرزنا کی پیغام بر ہوتی ہے)۔ اسی طرح علمائے کرام اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ہتھیلی پیراور چہرے کے علاوہ عورت کے دوسرے اعضاء مثلاًاس کے بال گردن پیٹھ اور پنڈلی (یہ اعضاء ہیں جنھیں عام طور پر آج کل کی عورتیں کھلا رکھتی ہیں) وغیرہ کی طرف غیر محرم کی لیے دیکھنا جائز نہیں ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے دو اصولی باتوں کا بیان ضروری ہے۔

پہلی بات یہ کہ ہنگامی حالات میں اور شدید ضرورت کے وقت ناجائز بات بھی جائز ہو جاتی ہے۔ مثلاًبھوک سے جان جانے کا خطرہ ہے تو سورکا گوشت کھانا جائز ہو جاتا ہے۔ اسی طرح علاج و معالجہ کی خاطر یا ولادت کے موقع پر عورت اپنا ستر ڈاکٹر کے سامنے کھول سکتی ہے یا فسادات اور جنگ کے موقع پر عورت کے لیے پردہ کرنا ممکن نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بے پردہ رہے دوسری یہ کہ اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو جائز چیز بھی ناجائز ہو جاتی ہے بشرطے کہ یہ اندیشہ محض خیالی اور وہمی نہ ہو جیسا کہ بعض شکی قسم کے لوگوں کو ہر وقت فتنہ کا اندیشہ لاحق رہتا ہے بلکہ واقعہ ایسی صورت حال جس میں فتنہ کا اندیشہ ہو۔ اس سلسلے میں سب سے صحیح فیصلہ خود انسان کا اپنا ضمیر کر سکتا ہے کہ کون سے حالات اس کے لیے باعث فتنہ ہیں اور کون سے نہیں ہیں ایسے وقت پر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر کی طرف رجوع کرے۔ اور اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کرے۔ فتوؤں کے چکر میں بہت زیادہ نہ رہے۔

اس سلسلہ میں علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ مرد کی ستر کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے چاہے شہوت کی نظر سے دیکھا جائے یا بغیر شہوت کے۔ لیکن مرد کی ستر کیا ہے اس سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک مرد کی ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے لیکن اس رائے کے حق میں وہ جو حدیثیں بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں ان میں کوئی بھی حدیث صحیح حدیث نہیں ہے۔بعض علماء کے نزدیک مرد کی ران ستر نہیں ہے اور اس رائے کے حق میں وہ انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض مواقع پر لوگوں کے سامنے اپنی ران کھولی ہے۔ اگر اس رائے کو اختیار کیا جائے تو کھلاڑیوں کے لیے بڑی سہولت ہو جائے گی جو عام طور پر نیکر پہن کر کھیلتے ہیں کیوں کہ یہی کھیل کا یونیفارم ہوتا ہے۔ البتہ ہم مسلمانوں کو مسلسل اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ کھیلوں کے لیے اپنے خاص یونیفارم قانونی طور پر تسلیم کرواسکیں

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے اور یہ کہ مرد کی ستر کو دیکھنا جس طرح عورتوں کے لیے جائز نہیں ہے اسی طرح مرد کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ دوسرے مرد کی ستر پر نظر کرے۔ اور جس طرح ایک مرد دوسرے مرد کا سارا جسم ستر کے علاوہ دیکھ سکتا ہے اسی طرح ایک عورت بھی ستر کے علاوہ مرد کا سارا جسم دیکھ سکتی ہے بشرطے کہ یہ دیکھنا شہوت کی نظر سے نہ ہواور اس دیکھنے میں واقعی کوئی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ یہی بیشتر فقہاء کا موقف ہے۔ اور میرا بھی یہی موقف ہےکیوں کہ بخاری شریف اور مسلم شریف کی ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت قیس کو عبد اللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا کہ وہ اندھے ہیں تم کپڑے بھی اتاردوگی تو وہ تمھیں دیکھ نہیں سکیں گے۔بخاری اور مسلم شریف کی ایک اورحدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کو اپنے کندھے پر بٹھا کر چند حبشیوں کا کھیل تماشا دکھایا جو مسجد نبوی کے اندر اپنے کرتب کا مظاہرہ کررہے تھے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مردوں کو بغیر کسی شہوت کے دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں ایسا کرنے کو کہا اگر عورتوں کے لیے مردوں کو دیکھنا جائز نہ ہوتا تو عورتوں کی طرح مردوں کے لیے بھی پردہ کرنا واجب ہو جاتاہے۔

آپ نے اپنے سوال میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے علمی نقطہ نظر سے اس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور یہ ایک من گھڑت حدیث ہے جسے کسی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔اور وہ حدیث جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اُم میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عبد اللہ بن مکتوم سے پردہ کرنے کا حکم دیا تھا اور انھیں اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ عبد اللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں یہ حدیث ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث ہے اور اس کی سند میں ایک ایسے راوی ہیں( یعنی نیہان ) جوعلم حدیث کے میدان میں غیر معروف شخصیت ہیں۔ اس لیے بخاری اور مسلم شریف کی وہ صحیح حدیثیں جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے ان کے مقابلہ میں ابو داؤد کی اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب : قرآن کی جن آیات میں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جن احادیث میں سلام کرنے کی تاکید ہے ان پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان میں مرد اور عورت کے درمیان تفریق نہیں کی گئی ہے اور ان میں مخاطب مرد اور عورت دونوں ہی ہیں مثلاً قرآن کی آیت ملاحظہ کیجیے :وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّۃٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا     ۭ (النساء: 86)”اور جب تمھیں سلام کیا جائے تو اس کا بہتر سلام کے ذریعے جواب دویا پھر ویسے ہی سلام سے جواب دو۔

اس آیت میں مخاطب مرد وعورت دونوں ہی ہیں۔اسی طرح ایک حدیث ملاحظہ کیجیے۔

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَنْ تَدْخُلُوا الجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلا تُؤمِنوا حَتى تحَابُّوا، أَوَلا أدُلُّكُمْ عَلَى شَیٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحاَبَبْتُم أفْشُوا السَّلام بَيْنَكُم“(مسلم)

قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ۔ اور اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرو گے تو آپس میں محبت بڑھے گی اپنے درمیان سلام کو رواج دو۔

اس حدیث میں بھی مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس کے مخاطب صرف مرد ہیں عورتیں نہیں ہیںاور نہ قرآن و حدیث میں ہی ایسی دلیل ملتی ہے کہ مرد عورتوں کو سلام نہیں کر سکتے یا عورتیں مردوں کے سلام کا جواب نہیں دے سکتیں بلکہ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مردوں نے عورتوں کو سلام کیا ہے اور عورتوں نے ان کے سلام کا جواب دیا ہے اس لیے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا جواب دینا اسلامی آداب میں شامل ہے۔

بخاری شریف میں ایک باب کا عنوان ہے"مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا مردوں کو سلام کرنا"اس عنوان کے ذریعے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کوجواب دینا چاہتے ہیں جو عورتوں کو سلام کرنا یا ان کا جواب دینا پسند نہیں کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رائے کے حق میں دو حدیثیں پیش کی ہیں پہلی حدیث کی روایت حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت کسی کھجور کے باغ میں ان کے لیے کھانا تیار کر کے رکھتی تھی اور نماز جمعہ کے بعد حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ ان کے پاس جاتے تھے اور انھیں سلام کرتے تھے اور وہ عورت ان کے سامنے کھانا پیش کرتی تھی۔

دوسری حدیث کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اے عائشہ یہ جبریل علیہ السلام آئے ہیں اور تمھیں سلام کہہ رہے ہیں چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے سلام کا جواب دیا۔

ترمذی میں ایک حدیث ہے حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ ہم عورتیں ایک جگہ بیٹھی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں سلام کیا۔

روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعض عورتوں کے پاس تشریف لائے اور انھیں سلام کیا اور بتایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کر تمھارے پاس آیا ہوں۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند احمد میں ایک روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یمن تشریف لے گئے ایک عورت ان کے پاس آئی اور انھیں سلام کیا۔

ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عورتوں کو سلام کیا کرتے تھے اور عورتیں بھی سلام کا جواب دیتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ہے۔اوپر میں نے صرف چند مثالیں پیش کی ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عورتوں کو سلام کرنے میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرتے تھے لیکن آج کے بعض علماء حضرات اس سے منع کرتے ہیں۔ انھیں عورتوںکے سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ اور خوف محسوس ہوتا ہے۔ ان کے مطابق احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نہ عورتوں کو سلام کیا جائے اور نہ یہ سلام کا جواب دیں۔ احناف کہتے ہیں کہ عورتیں صرف اپنے محرم مردوں کو سلام کر سکتی ہیں بعض علماء کرام کے نزدیک صرف بوڑھی عورتوں کو سلام کرنا یا ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے اور ان سب کی صرف ایک ہی دلیل ہے اور وہ ہے فتنہ کا اندیشہ پتہ نہیں اس طرح کے علماء کرام عورتوں کے معاملے میں اس قدر حساس اور محتاط کیوں واقع ہوئے ہیں کہ انھیں عورتوں کے ساتھ کسی بھی معاملے میں فتنہ کا اندیشہ ہوجاتا ہے حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا عمل ثابت کرتا ہے کہ لوگ عورتوں کے معاملے میں اس طرح کے حساس اور سخت گیر نہیں تھے اور نہ اس قدر احتیاط کے قائل تھے۔ ایک بھی ایسی روایت اور حدیث نہیں ہے جس میں اس بات کا بیان ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  عورتوں کو سلام کرنے میں کوئی حرج محسوس کرتے تھے خاص کرجب کوئی ملاقات کی غرض سے ان کے پاس جاتا یا معلم اور معالج کی حیثیت سے ان کے پاس جاتا البتہ راہ چلتے کسی عورت کو سلام کرنا مناسب نہیں ہے الایہ کہ اس سے کسی قسم کی قریبی رشتہ داری ہو یا ایسا کوئی قریبی تعلق ہو جیسا کہ استاد اور شاگرد کے درمیان ہوتا ہے۔

آپ نے اپنے سوال میں اپنے ایک استاد کا طرز عمل تحریر کیا ہے کہ وہ عورتوں کو سلام کرنا درست نہیں تصور کرتے ہیں حالانکہ یہی استاد پڑھاتےوقت آپ سے باتیں کرتے ہیں‘ آپ کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور آپ سے سوال کرتے ہیں تو محض سلام کرنے میں انھیں کون سی شرعی قباحت محسوس ہوتی ہے- جس فتنہ کے خوف سے یہ عورتوں کو سلام کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں کلاس روم کے اندر اس قسم کے فتنہ کی کہاں گنجائش ہو سکتی ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ تو باپ بیٹے یا تو باپ بیٹی کا رشتہ ہوتا ہے اور پھر کلاس روم کا ماحول انتہائی سنجیدہ اور پروقار ماحول ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی قسم کے فتنہ کا کیوں کر خوف ہو سکتا ہے۔

رہی یہ بات کہ عورتوں کی آواز ستر ہے اور مردوں کے درمیان انھیں خاموش رہنا چاہیے تاکہ ان کی آواز مردوں کے کان نہ پڑے تو یہ ایک بے بنیاد بات ہے جس کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس قرآن و حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ عورتیں غیر محرم مردوں سے بات کر سکتی ہیں لیکن ادب و احترام کے ساتھ جیسا کہ پچھلے جواب میں میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں۔

اگر کوئی یہ کہے کہ جبریل علیہ السلام تو فرشتہ تھے۔ تو اس سلسلے میں واضح رہے کہ جبریل عام طور پر مرد کی صورت میں تشریف لاتے تھے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

عورتوں اور مردوں کے باہمی اختلاط کے شرعی حدود

سوال : مخلوط طرز زندگی (عورتوں اور مردوں کا ایک ساتھ پڑھنا یاکام کرنا زندگی کے دوسرے کام انجام دینا)کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ مردوں عورتوں کے اس قسم کے اختلاط کو علماء حضرات بڑی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے ناجائز قراردیتے ہیں۔ بعض اتنے سخت گیرہیں کہ عورتوں کے گھر سے نکلنے کو بھی ناپسند کرتے ہیں حتی کہ عورتوں کا مسجد جانا بھی ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک قول نقل کرتے ہیں۔

لو علم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء بعده لمنعهن المساجد۔

اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو جاتا کہ ان کی موت کے بعد عورتوں نے کیا رویہ اختیار کر لیا تو انھیں مسجد جانے سے منع کر دیتے۔

محترم! آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ دور حاضر میں گونا گوں انسانی ضروریات کی بنا پر عورتیں گھر سے باہر قدم نکالنے پر مجبور ہیں کیوں کہ مردوں کی طرح انھیں بھی تعلیم حاصل کرنی ہے بسااوقات انھیں بھی نوکری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اور انھیں بھی حق حاصل ہے کہ دنیا کی مختلف خوشیوں اور نئی نئی ایجادات سے لطف اندوز ہوں اور یہ سب حاصل کرنے کے لیے تھوڑا یا زیادہ مردوں کے ساتھ اختلاط ضروری ہے۔ کیوں کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرنا ضروری ہے جہاں مخلوط تعلیم ہوتی ہے اور کلاس میں عام طور پر مرد اساتذہ پڑھاتے ہیں اگر نوکری کرنی ہے تو ایسی جگہ نوکری ملنا بہت زیادہ مشکل ہے جہاں صرف عورتیں ہوں۔ اس لیے مجبور اً ایسی جگہ نوکری کرنی پڑتی ہے جہاں ساتھ میں مرد حضرات بھی ہوتے ہیں اور اگر علاج کرانا ہے تو بسااوقات مرد ڈاکٹر سے علاج کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

کیا اس طرح کااختلاط اسلام کی نظر میں جائز ہے؟ اس ترقی یافتہ دور میں اورزندگی کی بے شمار ضرورتوں کے پیش نظر عورتوں کے لیے کیسے ممکن ہے کہ مردوں سے علیحدہ ہو کر ان سے بے نیاز ہو کر زندگی گزاریں اور گھر کے اندر قید ہو کر رہ جائیں خواہ اس گھر کے اندر انھیں دنیا بھر کا آرام ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

ایسا کیوں ہے کہ عورتوں کے لیے وہ سب کچھ جائز نہیں ہے جو مردوں کے لیے جائز ہے؟ مرد گھر سے باہر رہ کر کھلی اور تازہ ہوا کا مزہ لیتے ہیں اور عورت اس مزے سے محروم کر دی گئی ہے۔ مرد اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتے ہیںجب کہ عورتوں پر بے شمار پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔آخر عورتوں کے سلسلے میں اس قدر خوف اور بد گمانیاں کیوں ہیں؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی عقل اور سمجھ داری عطا کی ہے۔ اگر عورتیں غلطیاں کر سکتی ہیں تو مرد بھی غلطیاں کرتے ہیں پھر سارے مزے صرف  مرد کی جھولی میں کیوں ہیں؟

امید ہے کہ آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں گے۔

جواب : ہم مسلمانوں کی بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہم بیشتر معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔اسلام نے ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور اسی بنا پر ہمیں "امت وسط"(معتدل امت)کا خطاب دیا گیا ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ شاذونادر ہی ہم اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔بیشتر مسائل میں افراط و تفریط کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ افراط وتفریط کا معاملہ سب سے زیادہ عورتوں اور ان کے مسائل میں ہے عورتوں کے معاملے میں ہمارے یہاں عموماً دو قسم کی سوچ پائی جاتی ہے۔

پہلی قسم کی سوچ مغرب پرست لوگوں کی ہے مغربی تہذیب اور اس کی ہر ہر ادا سے مرعوب ہیں اور اسی لیے وہ اسے مکمل طور پر اختیار کر لینا چاہتے ہیں۔ مغربی تہذیب چونکہ عورتوں کی مکمل آزادی عریانیت بےلگام فیشن اور مردوں سے برابری کی علمبرداری ہے اس لیے یہ لوگ بھی اپنی عورتوں کو اسی رنگ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں خواہ اس تہذیب میں اخلاقی دیوالیہ پن اپنے عروج پر ہو۔ یہ لوگ اس بات سے انجان ہیں کہ اس بے لگام آزادی اور جنسی بے راہ روی نے مغربی سماج کو کن خطرناک مسائل دوچار کر دیا ہے حتی کہ اب ان کے مفکر ین اور مصلحین اس  سے قید آزادی پر پابندی لگانے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

اس کے بالکل برعکس دوسری سوچ ان لوگوں کی ہے جو عورتوں اور ان کی نسوانیت کے معاملے میں بڑے حساس اور سخت گیر واقع ہوئے ہیں انھیں عورتوں کی طرف سے ہر وقت فتنوں کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ عورتوں کی ذراسی بھی آزادی کو گوارا نہیں کرتے- انھوں نے عورتوں کو مختلف سماجی اور مذہبی پابندیوں میں جکڑ رکھا ہے حالانکہ دین اسلام کا ان پابندیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اسلام نے ان پابندیوں کی ہدایت کی ہے۔یہ دونوں قسم کے لوگ افراط و تفریط کا شکار اور عورت کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات سے دور ہیں۔ آپ نے اپنے سوال میں جو باتیں پوچھی ہیں آج کے دور میں عورتوں کے یہ حقیقی مسائل ہیں اور ہر عورت کے ذہن میں کم و بیش اسی قسم کے سوالات اٹھتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کا تفصیلی جواب دیا جائے۔

جہاں تک اختلاط (عورتوں اور مردوں کا ساتھ مل کر کوئی کام انجام دینا) کا تعلق ہے اس سلسلے میں اسلام کا کوئی عمومی حکم نہیں ہے کہ ہر قسم کے حالات میں اس حکم کوچسپاں کیا جا سکے بلکہ مختلف حالات اور مختلف ماحول کے لحاظ سے اس کا حکم بھی مختلف  ہے اور اس حکم سے پہلے مختلف عوامل کی رعانیت بھی ناگزیر ہے مثلاً یہ کہ اس اختلاط کی کس حد تک ضرورت ہے۔ وہ کون سے مقاصد ہیں جن کی تکمیل کے لیے یہ اختلاط ضروری ہے۔ کیا ماحول اس اختلاط کا متحمل ہو سکتا ہے اور اس اختلاط کے منفی اور مثبت اثرات کس حد تک ہو سکتے ہیں؟

اس سلسلے میں سب سے عمدہ اور قابل تقلید نمونہ بلا شبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا ہے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے۔ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے میں یہ اختلاط جائز تھا یا ناجائز اور اگر جائز تھا تو کس حد تک جائز تھا؟

عورتوں کو گھر کے اندر مقید رہنے اور  اختلاط سے دور رہنے کا جو تصور آج پایا جاتا ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں نہیں تھا چنانچہ اس زمانے میں عورتیں نہ گھروں میں قید ہو کر اور نہ مردوں سے بالکل الگ اور علیحدہ ہو کر زندگی گزارتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں پر بے جا پابندیوں کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہو ا جب مسلم امت قرآن و حدیث کی صحیح تعلیمات سے دور ہونے لگی- تعلیم کے بجائے جہالت پھیلنے لگی اور ترقی کے بجائے پسماندگی غالب آنے لگی ، جہالت و پسماندگی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

عہد نبوی میں عورتوں کی زندگی ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک تھی۔سارے معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی ان کے یہاں اعتدال تھا۔ نہ وہ گھروں میں اس طرح قید تھیں جس طرح بعض نادان قسم کے دین دار لوگ اپنی عورتوں کو رکھتے ہیں اور نہ مغرب کی عورتوں کی طرح سارا وقت گھر سے باہر رہ کر مکمل آزادی کے ساتھ گزارتی تھیں انھیں گھر سے باہر نکلنے کی آزادی تھی لیکن اخلاقی پابندیوں کے ساتھ چنانچہ عہد نبوی میں عورتیں مسجد جاکر مردوں کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انھیں مسجد آنے کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ اس زمانے میں مرد پاجامہ نہیں پہنتے تھے بلکہ کھلی ہوئی چادر باندھتے تھے جس کی وجہ سے سجدے کی حالت میں ستر نظر آنے کا اندیشہ رہتا تھا ۔ اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مسجد آنے سے منع نہیں کیا بلکہ انھیں حکم دیا کہ تم مردوں سے الگ ہو کر صف بناؤ۔ حتی کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی دیوار بھی نہیں کھڑی کی۔ شروع شروع میں مرد اور عورتیں ایک ہی دروازہ سے مسجد کے اندر جاتے تھے جس کی وجہ سے اکثر دروازے پر بھیڑ ہو جاتی تھی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے علیحدہ دروازہ بنوایا۔ آج بھی اس دروازے کو باب النساء(عورتوں کا دروازہ) کہتے ہیں۔پنج وقتہ نمازوں کی طرح جمعہ کے دن بھی عورتیں خطبہ سننے کے لیے مسجد جایا کرتی تھیں عیدوبقر عید کے موقع پر بھی عورتیں مسجد جایا کرتی تھیں اور مردوں کے ساتھ عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوتی تھیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ عید کے دن اپنی عورتوں اور جوان لڑکیوں کو گھروں سے باہر نکالوتاکہ وہ بھی کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔

عن أُمِّ عَطِيَّةَ أَمَرَنَا رسولُ اللَّه ﷺ  أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ والْأَضْحَى الْعَوَاتِقَ والْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ ويَشْهَدْنَ الْخَيْرَ ودَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ قُلْتُ  يا رسولَ اللَّهِ  إِحْدَانَا لا يكونُ لها جِلْبَابٌ قال لِتُلْبِسْهَا أُخْتُها مِنْ جِلْبَابِهَا۔ (مسلم)

اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں گھروں سے باہر نکالیں۔نوجوان لڑکیوں کو، حیض والی عورتوں کو اور پردہ نشیں عورتوں کو(بھی )حیض والی عورتیں نماز سے دور رہیں گی۔لیکن خوشیوں اور دعاؤں میں شریک ہوں گی۔ میں نے کہا کہ اے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ! کسی عورت کے پاس چادر نہیں ہوتی وہ کیسے نکلے ؟آپ نے فرمایا کہ اس کی کوئی دینی بہن اسے اپنی چادر دے دے۔‘‘

افسوس کی بات ہے کہ آج کے دور میں چند سخت گیر قسم کے علماء نے اس سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو فراموش کر دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی عورتوں کو گھر سے باہر نکال کر عید و بقر عید کی خوشیوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور یہ علماء حضرات محض وہمی اندیشوں اور فتنوں کا عذر لنگ پیش کر کے عورتوں کو گھرکے اندر بیٹھنے پر مجبور کرتے ہیں ۔

اس طرح عہد نبوی میں عورتیں گھروں سے باہر نکل کر علم حاصل کرنے کے لیے درس و تدریس کی ان مجلسوں میں شریک ہوتی تھیں جہاں مرد حضرات بھی موجود ہوتے تھے۔ حدیہ ہے کہ اس مجلس میں عورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایسے سوالات بھی پوچھتی تھیں۔ جنھیں بیان کرنے میں عورتیں عام طور پر شرماتی اور جھجکتی ہیں۔ مثلاً حیض جنابت اور احتلام کے متعلق سوالات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہ کبھی ان عورتوں کو تدریسی مجلسوں میں آنے سے منع کیا اور نہ اس قسم کے سوالات ہی سے روکا۔ بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   انصار کی عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ شرم و حیانے انھیں کبھی علم حاصل کرنے سے نہیں باز رکھا۔

عہد نبوی میں گھر سے باہر عورتوں کی سر گرمیاں اور دوڑ بھاگ صرف مسجد اور تعلیم گاہ تک محدود نہیں تھی بلکہ جہاد اور جنگ کے موقع پر بھی انھوں نے مختلف ذمےداریاں نبھائیں مثلاً زخمیوں کو سنبھالنا نرس بن کران کی مرہم پٹی کرنا انھیں کھانا پانی پیش کرنا اور وقت پڑنے پر دشمنوں پروارکرنا۔ اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں۔

غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ وَأُدَاوِي الْجَرْحَى وَأَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى (مسلم)

میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت میں سات جنگیں لڑی ہیں میں ان کے پیچھے ان کے سازو سامان کی حفاظت کرتی تھی میں ان کے لیے کھانا بناتی زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

مسلم شریف ہی کی روایت ہے کہ جنگ احد کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی پیٹھ پر مشکیزہ اٹھائے مجاہدین کو پانی پلانے کاکام انجام دے رہی تھیں۔ احد کے موقع حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی عمر کے لحاظ سے جوانی کے میدان میں قدم رکھ رہی تھیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح کی سر گرمیوں میں صرف ادھیڑ اور بوڑھی عمر کی عورتیں ہیں نہیں شریک ہوتی تھیں بلکہ نوجوان لڑکیاں بھی پیش پیش رہتی تھیں جہاد میں عورتوں کی شرکت کے بارے میں متعدد صحیح روایات ہیں اور ان سب کا یہاں بیان ممکن نہیں ہے۔

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عورتوں نے صرف اپنے شہر یا شہر سے قریبی علاقے میں رہ کر جہاد میں شرکت نہیں کی بلکہ دور دراز علاقوں میں جاکر بھی جہاد میں شریک ہوئی ہیں۔ بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے دعا کی تھی کہ سمندر میں سفر کر کے جہاد میں جائیں ۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے عہد خلافت میں اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا  جہاد کی خاطر قبر ص تشریف لے گئیں وہاں جہاد میں شریک ہوئیں اور وہیں انھوں نے وفات پائی۔

اسی طرح عہد نبوی میں عورتیں سماجی کاموں میں بھی مردوں کے ساتھ مل کر اپنے فرائض انجام دیتی تھیں۔مثلاً سماج میں برائیوں کو روکنے اور بھلائیوں کو روکنے کو فروغ دینے کا فریضہ جسے اللہ نے مردوں اور عورتوں پر یکساں طور پر فرض کیا ہے۔ اللہ کاارشاد ہے:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ   ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ۔(التوبۃ: 71)

مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ سب مل کر نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔

خلفائے راشدین کے عہد میں عورتوں کی سر گرمیاں صرف گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں تھیں اس سلسلے میں صرف ایک مثال دینا کافی ہو گا جس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ اسلام کے درخشاں دور میں عورتیں بھی مردوں کی طرح سماج میں ایک افعال کردار ادا کرتی تھیں۔حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے دور خلافت میں حضرت شفاء بنت عبد اللہ کو بازار کا نگراں مقرر کیا۔

قرآن کریم میں جابجا مختلف انبیاء و رسل کے واقعات اور ان کی حیات طیبہ کا ذکر موجود ہے۔ ان میں بعض واقعات عورتوں کے حوالہ سے بھی ہیں۔ ان واقعات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان انبیاء کے زمانے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان وہ آہنی پردہ نہیں تھا جسے دور حاضر کے مسلم معاشرہ نے کھینچ رکھا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام پوری آزادی کے ساتھ گوشہ تنہائی میں بیٹھی مریم علیہ السلام کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور ان گفتگو فرماتے تھے۔یہ واقعہ سورہ آل عمران میں موجود ہے حضرت سلیمان علیہ السلام سبا کی رانی کو اپنے یہاں دعوت دیتے ہیں اسے اپنے محل کی سیر کراتے ہیں اس سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں سبا کی رانی حضرت سلیمان علیہ السلام کی عمدہ ضیافت اچھے اخلاق اور سیاسی رعب و دبدبہ دیکھ کر اسلام قبول کر لیتی ہے۔ یہ واقعہ سورہ نمل میں موجود ہے۔

یہ سارے واقعات اللہ کے برگزیدہ نبیوں کے ہیں اور چونکہ کہیں پر بھی اللہ نے یا اس کے رسول حضرت محمداللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے اس عمل پر تنقید نہیں کیا ہے اس لیے ان نبیوں کا عمل ہمارے لیے بھی مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے۔:اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ      ۭ (الانعام:90)

یہ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ نے ہدایت عطا کی تھی تو تم بھی ان کی راہ ہدایت کی اتباع کرو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان اختلاط کوئی ناجائز اور گناہ کاکام نہیں ہے۔اسلام کسی ایسے معاشرہ کا تصور نہیں پیش کرتا جس میں مرد کسی اور وادی میں ہوں اور عورتیں کسی اور وادی میں۔ عورتوں کا دائرہ کار صرف گھر تک محدود ہواور مردوں کا دائرہ کار صرف گھر سے باہر ہو۔

مرد اور عورتیں دونوں معاشرے کا حصہ ہیں اور ان دونوں کو مل کر معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے اس لیے یہ اختلاط نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ بسااوقات یہ اختلاط ضروری ہو جاتا ہے جب کسی عظیم مقصد کا حصول مقصود ہو یا کسی بھلائی اور نیک کام کی انجام دہی میں دونوں کی مشترکہ جدو جہد اور باہمی تعاون کی ضرورت ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس اختلاط کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان کی حدوں کو ختم کردیا جائے اور تمام شرعی قواعد و ضوابط کو فراموش کر دیا جائے۔ جیسا کہ مغربی ممالک یا غیر مسلم معاشرہ میں ہوتا ہے۔ مسلم معاشرہ میں مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ شریعت کی حدوں میں رہتے ہوئے معاشرہ کی فلاح و بہبود اور اس کی ترقی و اصلاح کی خاطر مل جل کر کام کریں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان شرعی حدود کی وضاحت کردی جائے:

(1) مرد اور عورت دونوں غض بصرسے کام لیں۔ ایک دوسرے کی طرف شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں ۔ اللہ کا ارشاد ہے:قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ  ۭ (النور: 30)

مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ۔ (النور: 31)”مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

(2)عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ساتر لباس میں ہو چہرہ اور ہتھیلی کے علاوہ بدن کے سارے اعضا ڈھکے ہوئے ہوں،لباس نہ تنگ ہو کہ جسم کے نشیب و فراز کا حال معلوم ہواور نہ باریک اور شفاف ہو کہ بدن نظر آئے اور سینے پر دوپٹہ ہو۔ اللہ نے فرمایا ہے:

وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ      ۠ (النور: 31)

اور یہ عورتیں اپنی زینت و زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اس کے جوخود بہ خود ظاہر ہو جائے۔ اور انھیں چاہیے کہ اپنے سینوں پر دوپٹہ ڈال لیں۔

عورتوں کو ساتر اور شریفانہ لباس پہننے کی ہدایت اس لیے ہے تاکہ وہ اپنے لباس سے مہذب شریف اور پر وقار نظر آئیں اور اوباش قسم کے لوگ چھیڑ خانی کی جرأت نہ کرسکیں۔ اللہ کا فرمان ہے:

ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ    ۭ (الاحزاب:59)

اس طریقہ سے یہ عورتیں پہچان لی جائیں گی(یعنی نظر آئے گا کہ یہ شریف عورتیں ہیں) اور تنگ نہیں کی جائیں گی۔

(3) مردوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی آداب(Islamic Manners)کا خیال رکھیں۔

(الف) گفتگو کا انداز شریفانہ ہو اور گفتگو اخلاقی حدود کے اندررہ کر کی جائے ۔ گفتگو میں ادائیں دکھانے اور ناز ونخرے کرنے کا انداز نہ ہو۔ اللہ کا حکم ہے:اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا   ۚ  (الاحزاب:32)

اگر تم اللہ سے ڈرتی ہوتو بات کرنے میں نرمی اور گدازنہ پیدا کرو کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص تمھارے سلسلے میں کوئی لالچ کر بیٹھے اور بھلے طریقے سے بات کرو۔

(ب)ان کی چال ڈھال میں حیا اور وقار ہو۔ پھوہڑپن اور بےباکی نہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے:وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ   ۭ (النور: 31)

اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔

(ج)ایسی حرکتیں نہ کریں جن میں ناز وادا اور لبھانے والا انداز ہو۔ ایسا کرنے والیوں کی حدیث میں"ممیلات و مائلات" کہہ کر ان کی سرزنش کی گئی ہے۔

(4) ہر اس چیز سے اجتناب کریں جن میں مردوں کے لیے کشش ہو مثلاً تیز خوشبو یا شوخ رنگ کے کپڑےیا زیب وزینت وغیرہ۔

(5) تنہائی میں کسی مرد کے ساتھ نہ بیٹھیں اس طرح کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہ ہو ۔

(6) کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ بلا ضرورت مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ مردوں کے ساتھ زیادہ گھلنے ملنے سے لوگ عورتوں کے سلسلے میں باتیں بنانے لگتے ہیں اور انگلیاں اٹھاتے ہیں عورتوں کو چاہیے کہ لوگوں کو اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ ان پر شک کر سکیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب : مریض کی مزاج پرسی اور اس کی عیادت کو جانا اہم اسلامی آداب میں شامل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ متعدد احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت کو ان چند حقوق میں شمار کیا ہے جو ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں واجب ہیں مثلاً:حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ  إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ۔ (مسلم،ترمذی)
”ایک مسلم پر دوسرے مسلم کے چھ حقوق واجب ہیں۔ پوچھا گیا کہ وہ کون سے حقوق ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ جب تم کسی مسلم سے ملو تو اسے سلام کرو ،جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جب تم سے مشورہ اور نصیحت کا طالب ہو تو اسے نصیحت کرو،  جب چھینکے تو اس کے الحمدللہ کے جواب میں یرحمک اللہ کہو، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اور جب مر جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جاؤ۔“
اور صحیح حدیث ہے:
إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ۔ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ۔ (مسلم)
”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا تو تونے میری عیادت کیوں نہیں کی؟ وہ جواب دے گا کہ اے رب العالمین میں تیری عیادت کیسے کر سکتا ہوں توتو تمام جہان کا مالک ہے اللہ فرمائے گا کیا مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تم نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تجھے پتہ نہیں ہے اگر تم اس کی عیادت کو جاتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔“
ان کے علاوہ ایسی بے شمار حدیثیں ہیں۔ جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت کی ترغیب دی ہے۔ بلکہ اس کا حکم دیا ہے اور اسے اہم اسلامی آداب میں شمار کیاہے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک یہودی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستایا کرتا تھا بیمار ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی عیادت کو تشریف لے گئے اس یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
اس اہم اخلاقی فریضے کی اہمیت اس وقت دو چندہو جاتی ہے جب مریض سے کسی قسم کا قریبی تعلق ہو۔ مثلاً رشتہ داری ہو، دوستی ہو، پڑوسی ہو یا آفس میں ایک ساتھ کام کرتا ہو۔
غور طلب بات یہ ہے کہ تمام احادیث میں عیادت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے جس صیغے کا استعمال کیا ہے اس کے مخاطب مرد اور عورت دونوں ہو سکتے ہیں ۔ اور لفظ"مریض"استعمال کیا ہے جس سے مراد مریض بھی ہو سکتا ہے اور عورت مریضہ بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیادت کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو دیا ہے خواہ مریض عورت ہو یا مرد۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مریض چاہے مرد ہو یا عورت اس کی عیادت کو جانا مرد اور عورت دونوں پر واجب ہے۔اور دونوں کے حق میں یہ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے۔
 اپنی بات کی مزید تقویت کے لیے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے چند عملی نمونے پیش کرتا ہوں جن سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ مریض خواہ مرد ہو یا عورت اس کی عیادت کو جانا اسلامی آداب (Islamic Manners)میں سے ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے عملی نمونوں سے اس کی تعلیم دی ہے۔
بخاری شریف میں ایک باب کا عنوان ہے ”باب عیادۃ النساء للرجال“ (عورتوں کا مردوں کی عیادت کو جانا)اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے چند عملی نمونے پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عورتیں مردوں کی عیادت کو جا سکتی ہیں۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت پیش کی ہے کہ حضرت اُم الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ایک انصاری صحابی کی عیادت کی۔ ایک دوسری روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے والد محترم! ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کی عیادت کو تشریف لے گئیں اور ان دونوں سے دریافت کیا”کیف تجدک“ آپ کی حالت کیسی ہے؟اسی طرح اُم مبشر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض موت میں ان کی عیادت کو تشریف لے گئیں اور ان سے فرمایا کہ اے عبدالرحمٰن !میرے بیٹے کو سلام کہنا۔
ان تمام روایتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ عورتیں مردوں کی عیادت کو گئیں اور ان روایتوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عورتیں مردوں کی عیادت کو جاسکتی ہیں۔ بشرطیکہ اسلامی آداب کا خاص خیال رکھیں  مریض سے تنہائی میں نہ ملیں اور نہ بن سنورکر مریض کے پاس جائیں بلکہ بہتر یہ ہو گا کہ عورتیں گروپ کی شکل میں مریض کی عیادت کو جائیں تاکہ کسی قسم شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔
آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے کہ خوشی کے موقعوں پر آپ ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتی ہیں اور مبارکباد پیش کرتی ہیں پر ایسا کیوں ہے کہ غم اور بیماری کے موقع پر مردوں کے یہاں جانے میں آپ کھٹک محسوس کرتی ہیں؟حالانکہ خوشی سے زیادہ غم کے موقع پر مزاج پرسی کی ضرورت ہوتی ہے۔جہاں تک مردوں کا کسی مریض عورت کی عیادت کو جانے کی بات ہے تو یہ بھی شرعاً جائز ہے اور اس سلسلے میں بھی متعدد روایتیں موجود ہیں چنانچہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضباعۃ بنت الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی عیادت کو تشریف لے گئے اور گفتگو کے دوران ان سے دریافت کیا کہ ”لَعَلَّكِ أَرَدْتِ الْحَجَّ“ یعنی شاید کہ تمھارا حج کا ارادہ ہے؟ جواب میں حضرت ضباعہ نے فرمایا ”وَاللَّهِ لاَ أَجِدُنِي إِلاَّ وَجِعَةً“ یعنی بہ خدا بس تھوڑی تکلیف محسوس کر رہی ہوں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ حج کو جاؤ اور نیت کے دوران شرط باندھ لویہ نیت کر لو کہ اگر بیماری کیوجہ سے حج نہ کر سکی تو مجھ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُم السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عیادت اور مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے اور ان سے دریافت کیا کہ اے اُم السائب  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  تم کانپ کیوں رہی ہو؟ اُم السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہا  نے جواب دیا کہ بخار آگیا ہے۔ برا ہواس بخار کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخارکو برا بھلا مت کرو کیوں کہ اس سے انسان کے گناہ دھلتے ہیں۔ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ اُم العلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں کہ میں بیمار تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  میری عیادت کو تشریف لائے۔بخاری شریعت کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عیادت کو تشریف لے گئے جب کہ وہ مرض الموت میں مبتلا تھیں اور ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت دے دی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس اندر تشریف لے گئے اور ان سے ان کی خیریت دریافت کی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اچھی ہی ہوں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ آپ اچھی ہو جائیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور صرف آپ ہی ہیں جو کنوارا پن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آئیں اور آپ کی بے گناہی کا اعلان آسمان سے نازل ہوا۔
ان تمام متواتر اور صحیح روایتوں کی روشنی میں یہ بات بہ آسانی کہی جا سکتی ہے کہ مرد حضرات بیمار عورتوں کی عیادت کو جاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ اسلامی آداب کا خاص خیال رکھا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عملی نمونوں کو پڑھنے اور سننے کے بعد مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کی عیادت کے لیے جانے کو کیسے ناجائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا محض اس وجہ سے کہ ہمارے معاشرہ کی روایت اس کے خلاف ہے یا ہمارے معاشرہ میں اسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: بلا شبہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور چونکہ قرآن و سنت میں اس سلسلے میں کوئی واضح حکم نہیں ہے اس لیے کسی یقینی رائے تک پہنچنا نہایت مشکل کام ہے۔ تاہم ایک بالغ نظرفقیہ کی ذمے داری ہے کہ قرآن و سنت کی جملہ تعلیمات اور احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی رائے اختیار کرے جس کا مقصد اللہ کو خوش کرنا ہو انسان کو نہیں۔
آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں  دو ایسی باتیں بتانا چاہتا ہوں جن پر تمام فقہاء متفق ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اگر شہوت اور جنسی لذت کی خاطر عورتوں سے مصافحہ کیا جائے یا اس عمل میں کسی بڑے فتنے کا حقیقی اندیشہ ہو تو یہ عمل شریعت کی نظر میں جائز نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت بوڑھی عورت یا بہت چھوٹی لڑکی سے مصافحہ کرنا جائز ہے کیوں کہ اس میں کوئی شہوت نہیں ہوتی- اسی طرح بہت بوڑھے مرد کا کسی بھی عمر کی عورت سے مصافحہ کرنا جائز ہے۔کیوں کہ یہ بوڑھا کسی بھی جنسی لذت یا شہوت سے خالی ہوتا ہے۔
روایتوں میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بوڑھی عورتوں سے مصافحہ کیا کرتے تھے۔ یہ بھی روایتوں میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک بوڑھی عورت کو اپنے یہاں بہ طور خادمہ رکھا- وہ بوڑھی عورت ان کی خدمت کرتی تھی بسااوقات انھیں خود سے لپٹاتی تھی اور ان کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی تھی۔ اور یہ سارا عمل قرآن کے خلاف نہیں تھا کیوں کہ قرآن نے بوڑھی عورتوں کو وہ رخصت دی ہے جوجوان عورتوں کو نہیں دی ہے:
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَہُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍؚبِزِيْنَۃٍ     ۭ وَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّہُنَّ    ۭوَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ (النور:60)
”اور جو عورتیں جوانی سے گزر چکی ہوں۔ جنھیں نکاح کی امید نہ ہو وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔ تاہم وہ حیا داری برتیں تو ان کے حق میں بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا جانتا ہے“
اسی طرح وہ بوڑھے مرد جن کی جنسی حس ختم ہو چکی ہے یا وہ چھوٹے بچے جن کے اندر جنسی حس ابھی بیدار نہیں ہوئی ہے ان کے سامنے عورتوں کو زینت و زیبائش کر کے آنے کی اجازت دی گئی ہے:
اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْہَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ  ۠ (النور: 31)
”یا وہ زیردست مرد جو شہوت نہیں رکھتے ہیں یا وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے ہیں۔“
یہ وہ صورتیں ہیں جن پر علماء کرام متفق ہیں کہ ان صورتوں میں عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز ہے۔ ان کےعلاوہ دوسری صورتوں میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں بحث و تحقیق کی جائے۔
وہ فقہائے کرام جن کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ عورتیں غیر محرموں کے سامنے اپنا چہرہ اور ہتھیلی بھی ڈھک کر رکھیں ان کے نزدیک عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ جب ہتھیلی چھپانا ضروری ہے تو اس کی طرف دیکھنا ہی جائز نہیں ہے اور جب ان کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے۔تو مصافحہ کرنا بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہو سکتا ۔ کیوں کہ مصافحہ کی صورت میں ہاتھ کا ہاتھ سے لمس ہوتا ہے۔ لیکن ان فقہائے کرام کی تعداد تھوڑی ہےاکثریت ان فقہائے کرام کی ہے جو غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھولنے کو جائز قراردیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہاتھ کھولنا تو جائز ہے لیکن کیا مصافحہ کرنا بھی جائز ہے اگر یہ مصافحہ لذت کی خاطر نہیں بلکہ سماجی روایات کی وجہ سے کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے قرآن وسنت میں ابھی تک کوئی ایسی واضح دلیل نہیں ملی جو اس طرح کے مصافحے کو ناجائز قراردے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ یہ عمل باعث فتنہ ہے اور اس فتنے کی وجہ سے اسی عمل کو جائز نہیں ہونا چاہیے ۔ لیکن یہ عمل اس وقت باعث فتنہ ہو سکتا ہے جب مصافحہ جنسی لذت کی خاطر کیا جائے اور ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جنسی لذت کی خاطر مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر مصافحہ جنسی لذت کی خاطر نہیں بلکہ رسم و رواج کی وجہ سے اور روایتی انداز میں کیا جائے تو اس میں کسی قسم کے فتنہ کی گنجائش نہیں ہوتی ہے تو کیا پھر بھی یہ مصافحہ ناجائز قرار دیا جائے گا؟
بعض علمائے کرام عورتوں سے مصافحہ کو ناجائز قراردینے کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے مردوں اور عورتوں دونوں سے بیعت کی تھی کیوں کہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا تھا جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں اس کا بیان ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی تھی جب کہ عورتوں سے محض زبانی طور پر بیعت کی اور ان سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا بیعت کے وقت عورتوں سے ہاتھ نہ ملانا اس بات کی واضح دلیل نہیں ہے کہ عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں  ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے کام محض اس وجہ سے نہیں کیے کہ یہ کام جائز ہونے کے باوجود ذاتی طور پر آپ کو پسند نہیں تھے۔ مثلاً بنجو کھانا آپ کو پسند نہیں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہیں کھاتے تھے حالانکہ اس کا کھانا حلال ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچی پیاز اور کچا لہسن نہیں کھاتے تھے حالانکہ یہ دونوں چیزیں حلال ہیں۔ محض آپ کا ذاتی عمل تھا اور ہم اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ ہم بھی ان چیزوں کو ناپسند کرکے نہ کھائیں ۔ اسی طرح عورتوں سے بیعت کے وقت ہاتھ ملانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند محسوس ہوا اور آپ نے ہاتھ نہیں ملایا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بھی اس بات کے پابند ہیں کہ ہم اسے ناپسند کریں اور عورتوں سے ہاتھ نہ ملائیں ۔ البتہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول سے بھی اسے منع کرایا ہوتا تو اور بات تھی۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول سے منع نہیں کیا ہے۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی تسلیم شدہ اور متفق علیہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کے موقع پر عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ چنانچہ حضرت اُم عطیہ انصاریہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی اور بیعت کے موقع پر عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔ یہ روایت صحیح ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور طبری رحمۃ اللہ علیہ میں موجود ہے۔
یہ صحیح ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر عورتوں سے جو بیعت کی تھی اس میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قسم کھا کر فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیعت کے موقع پر عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ البتہ اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی اور بیعت کے متعلق فرماتی ہیں کہ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کے وقت عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔
بعض علمائے کرام عورتوں سے مصافحہ کو
نا جائز قرار دینے کے لیے یہ حدیث بھی بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں۔”لَأنْ يُطعَنَ في رأسِ أحدِكم بمِخيَطٍ من حديدٍ خيرٌ لهُ مِنْ أن يَمَسَّ امرأةً لا تَحِلُّ لهُ “
”تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی چبھوئی جائے بہتر ہے اس بات سے کہ وہ کسی ایسی عورت سے”مس“ ہو جائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔“
یہ حدیث بھی عورتوں سے مصافحہ کو ناجائز قراردینے کے لیے دلیل نہیں بن سکتی کیوں کہ علمائے حدیث نے اس حدیث کو صراحت کے ساتھ صحیح نہیں قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے قدیم علماء نے اس حدیث کو کبھی بہ طور دلیل نہیں پیش کیا ہے۔ اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس حدیث میں جس چیز سے خبردار کیا گیا ہے وہ ہے عورتوں سے’’مس‘‘ کرنا اور ’’مس‘‘ کا مفہوم بدن کے کسی حصہ کا محض چھوجانا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں لفظ"مس"دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
(الف) جماع اور ہم بستری کے معنی میں مثلاً سورہ آل عمران کی یہ آیت :
قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ وَلَدٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ   ۭ(آل عمران: 47)
”مجھے بچہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے حالانکہ کسی مرد نے مجھے مس نہیں کیا ہے (میرے ساتھ ہم بستری نہیں کی ہے)“
ظاہر ہے کہ صرف چھوجانے سے عورت حاملہ نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے اس آیت میں ”مس“ سے مراد ہے ہم بستری کرنا، اور اسی طرح قرآن میں جہاں جہاں لفظ مس استعمال ہوا ہے وہاں اس کا یہی مفہوم ہے:
(ب)ہم بستری سے پہلے جوحرکتیں ہوتی ہیں مثلاً بوسہ لینا گلے لگانا اور جسم سے لگا کربھیجنا وغیرہ قرآن کے ”الفاظ“ ”اَوْ لَا مَسْتُمُ النِّسَاءَ“ کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے یہی مفہوم اخذ کیا ہے۔
الغرض قرآن و حدیث میں کوئی ایسی واضح اور صریح دلیل نہیں ہے جو جسم کے کسی حصے سے محض چھو جانے کوناجائز قراردے۔ بلکہ اس کے برعکس ایسی دلیلیں پائی جاتی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ عورت اور مرد کا ہاتھ محض چھوجانا کوئی قابل گرفت عمل نہیں ہے۔ بشرطیکہ یہ شہوت اور جنسی لذت کی خاطر نہ ہو اور نہ اس میں کسی قسم کا فتنہ ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر کریں تو معلوم ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ عورتوں کے ہاتھ میں گیا ہے۔ اگر یہ کام ناجائز ہوتا تو ہر عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہر گز سر زد نہ ہوتا۔چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ” اگر مدینہ کی ایک لونڈی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی تو جہاں چاہے لے جاتی ۔“ یہی حدیث مسند احمد میں بھی ہے اور اس کے الفاظ یوں ہیں۔”مدینہ کی کوئی لونڈی اگر آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑا تے اور وہ جہاں چاہتی لے جاتی۔“
علامہ حافظہ ابن حجر بخاری شریف کی مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر حددرجہ تواضع اور انکساری تھی کہ اگر لونڈی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہیں لے جانا چاہتی تو آپ تو اضعاً اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے اوراس کے ساتھ چل دیتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لونڈی کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کا ہاتھ پکڑنا جائز ہے۔ بشرطیکہ یہ شہوت اور جنسی لذت کی خاطر نہ ہو یا اس میں کسی قسم کا فتنہ نہ ہو۔ اگر یہ کام جنسی لذت کی خاطر ہو یا اس عمل میں کسی فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر یہ عمل ناجائز قرارپائے گا۔
مذکورہ حدیث سے بھی زیادہ واضح اور صریح ہے جو کہ بخاری اور مسلم کی حدیث ہے وہ یہ کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ اور عبادہ الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیوی یعنی اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے گھر پر قیلولہ فرمایا اور ان کی گود میں سو گئے اور وہ آپ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی رہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مہمان اپنے میزبان کے گھر میں اس کی اجازت سے قیلولہ کر سکتا ہے اور یہ کہ عورت اپنے محرم اور اجنبی مہمان کی خدمت کر سکتی ہے۔ اسے کھانا پانی دے سکتی ہے اور اس کے آرام کا انتظام کر سکتی ہے۔
چونکہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی ہے اس لیے عام طور پر یہ حدیث پڑھ کر وہ لوگ بڑی مشکل میں پڑجاتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ذرا سخت گیر واقع ہوئے ہیں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غیر محرم عورت کی گود میں سر کیسے رکھا اور اپنے بالوں میں ان کی انگلیوں سے کنگھا کروایا اور پھر سوگئے۔جان چھڑانے کے لیے یہ لوگ یہ تاویل کرتے ہیں کہ اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی رضاعی ماں یا خالہ تھیں۔ اور بعض یہ تاویل کرتے ہیں۔ کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا دوسروں کے لیے یہ عمل جائز نہیں ہے بعض یہ تاویل کرتے ہیں کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے جذبات پر بہت زیادہ قابو تھا اس لیے آپ کے لیے یہ عمل جائز تھا ۔
یہ تمام تاویلیں ناقابل قبول ہیں۔ چنانچہ علامہ حافظ ابن حجر قاضی عیاض اور دیگر بزرگ علماء ان تاویلوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں یا خالہ ہونا کسی بھی حوالہ سے ثابت نہیں ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا کیوں کہ اس عمل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص ثابت کرنے کے لیے کوئی واضح دلیل چاہیے لیکن اس کے لیے کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے اس لیے ہم محض اپنی مرضی سے کسی عمل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص نہیں کر سکتے۔اور یہ کہنا بھی کافی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نفسانی خواہشات پر بہت زیادہ قابوتھا اس لیے یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز تھا۔ کیوں کہ خواہشوں پر قابو پانے کی وجہ سے کوئی ناجائز عمل جائز نہیں ہو سکتا ہے اور اس لیے بھی کہ اگر خواہشات پر قابو پانے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے یہ عمل جائز تھا تو پھر یہ عمل ان کی امت میں سے ہر اس شخص کے لیے جائز ہونا چاہیے جسے اپنی خواہشات پر قابو ہو۔ اس لیے تاویلوں کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو جائز قراردینا نا مناسب اقدام ہے۔زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ ہم بغیر کسی تاویل کے ہی تسلیم کر لیں کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کا عمل کیا اس لیے یہ عمل جائز ہے۔ بغیر کسی شہوت کے کسی عورت سے مصافحہ کرنے کا جواز اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی اس حدیث سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے جس کا تذکرہ ہم اوپر کر آئے ہیں اور جس میں اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں کہ کسی بیعت کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔
ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر کسی شہوت اور جنسی لذت کے کسی عورت سے ہاتھ ملانا اور مصافحہ کرنا شرعاً جائز ہے۔ خاص کر ایسی صورت حال میں کہ دونوں کے درمیان کوئی قریبی رشتہ داری ہو اور دونوں عرصہ کے بعد ملے ہوں یا عیدوبقرعیدوغیرہ کا موقع ہو۔
لیکن مناسب یہ ہو گا کہ مصافحہ کا جواز صرف ضرورت کی حد تک محدود ہو۔ اسی وقت مصافحہ کیا جائے جب اس کی شدید ضرورت ہو مثلاً یہ کہ مصافحہ نہ کرنے کی صورت میں کدورت اور دشمنی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ جیسا کہ آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے۔ اور مناسب یہ ہوگا کہ عورتوں سے مصافحہ کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ البتہ اگر ان کی طرف سے پہل ہو تو پھر مصافحہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مصافحے کے جواز کا میرا یہ فتوی اس شخص کے لیے ہے جس کے لیے مصافحہ کرنا ناگزیر ہو جائے۔ جیسا کہ سوال کرنے والے نے اپنی حالت لکھی ہے اور ایسے شخص کو مصافحہ کرتے ہوئے یہ نہیں محسوس کرنا چاہیے کہ وہ کوئی خلاف شرع کام کر رہا ہے۔ اور نہ کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے اس عمل کو خلاف شرع قراردے کیوں کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور اجتہادی مسائل میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اور میں نے نہایت ایمان داری کے ساتھ اور تمام دلائل کی روشنی میں اجتہاد کر کے اپنی یہ رائے قائم کی ہے۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)

 اگر عورت کی جسمانی ساخت پر غورکیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورت کا سب سے عظیم کام اور اس کی سب سے نمایاں ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس طرح تعلیم وتربیت کرے کہ مستقبل میں یہ بچے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں رول ادا کر سکیں۔اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں تو پھر ان کی بہتر اور مکمل تربیت سے زیادہ نفع بخش کام اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خالق کائنات نے بھی عورت کو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے اس ذمے داری کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے۔ مستقبل کا تعلق خواہ دنیا وی بہبود سے ہو یا آخرت کی فلاح و کامرانی سے عورت اگر اپنے بچوں کی اس رخ پر تربیت کرتی ہے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ عورت کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور آرام دہ بنانے کی بھر پورسعی کرے۔ اپنے شوہر اور بچوں کو راحت اور سکون پہنچانے کے لیے کام کرے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر سے باہر جا کر نوکری کرنے کی گنجائش عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے کہ گھر سے باہر نکل کر عورتوں کا نوکری کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ جب شریعت نے یہ چیزحرام نہیں کی ہے۔ تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک حلال چیز کو حرام قراردے۔ ویسے بھی اسلامی فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اصولی طور پر حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں قرآن و حدیث میں واضح طور پر حرام قراردیا گیا ہے اس لیے اصولی طور پر یہ چیز جائز اور حلال ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کا نوکری کرنا جائز ہے بلکہ اگر وہ مطلقہ یا بیوہ ہے اور آمدنی کے سارے راستے اس پر بند ہوں تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اگر وہ نوکری یاجاب کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے تو اسے چاہیے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے ملازمت کر لے۔ تاکہ وہ تمام رسوائیوں سے محفوظ رہے بعض حالات میں شوہر کی موجودگی میں بھی عورت کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ مثلاً شوہر کی آمدنی اخراجات کے لیے ناکافی ہو یا عورت کے بوڑھے ماں باپ ہوں اور چھوٹے چھوٹے بھائی بہن ہوں وغیرہ۔ان حالات میں اسے ملازمت کا اختیار ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:
قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ          ۫  وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ۝ (القصص: 23)
”انھوں نے کہا ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں۔“
باپ چونکہ بوڑھے تھے اس لیے گھر سے باہر جا کر پانی بھرنے اور دوسرے کام کرنے کی ذمے داری ان دونوں جوان بیٹیوں پر تھی ۔ یہ بوڑھے باپ جیسا کہ دوسرے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے اللہ کے نبی تھے۔
اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی صاحبزادی حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر سے باہر نکل کر اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھیں گھوڑوں کی مالش کرتی تھیں ان کے لیے دانے کوٹتی تھیں اور دور کسی باغ سے یہ دانے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ امت مسلمہ تعلیم اور دوسری ترقیوں کے میدان میں کافی پیچھے رہ گئی ہے اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہماری مسلم عورتوں میں بھی ڈاکٹر ہوں، نرس ہوں، لیکچرر اور پروفیسر ہوں، عورتیں بیمار ہوتی ہیں تو مسلمان لیڈی ڈاکٹرنہ ملنے کی وجہ سے مجبوراًمرد ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اسکول اور کالج میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے غیر مسلم اساتذہ اور لیکچررہوتے ہیں۔ جن سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کی تربیت اسلامی انداز میں کریں گے۔ غرض کہ دور حاضر میں بہت سارے ایسے پرو فیشن(Profession)ہیں جن میں مسلم عورتوں کی شدید قلت ہے۔ اس قلت کی وجہ سے مسلم معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری عورتیں بھی ان شعبوں میں آئیں۔ بہر کیف ضرورت اور حالات کے مطابق عورت کا نوکری کرنا جائز اور حلال ہے لیکن اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے:
(1) یہ ضروری ہے کہ نوکری میں کوئی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز اور غلط ہو۔ مثلاً کسی کنوارے لڑکے کے یہاں خادمہ کی نوکری کرنا یا کسی شخص کی پرسنل سکریٹری بننا کیوں کہ تنہائی میں کسی غیر مرد کے ساتھ وقت گزارنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ڈانس اور گانے وغیرہ کی نوکری ہویا ایر ہوسٹس کی نوکری کرنا کیوں کہ غیر شرعی لباس پہننا اور شراب پیش کرنا اور تنہائی میں غیر مردوں کے ساتھ رہنا اس نوکری کے لازمی اجزا ہیں اسی طرح ہر وہ نوکری جس میں کوئی غیر شرعی کام ہو جائز نہیں ہے:
(2)  یہ ضروری ہے کہ نوکری کرتے ہوئے عورت تمام اخلاقی اور اسلامی آداب کا خیال رکھے۔
(3) یہ ضروری ہے کہ اس کی نوکری کرنے سے اس کی دوسری اولین اور زیادہ اہم ذمے داریاں متاثر نہ ہوں۔ مثلاً بچوں کی نگہداشت اور امور خانہ داری میں غفلت نہ ہو یا اس کی نوکری کی وجہ سے گھر کا سکون و آرام غارت نہ ہو۔ کیوں کہ بچوں کی نگہداشت اور گھر کے ماحول کو پر سکون بنانا عورت کی اولین ذمے داری ہے۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)

 اگر عورت کی جسمانی ساخت پر غورکیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورت کا سب سے عظیم کام اور اس کی سب سے نمایاں ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس طرح تعلیم وتربیت کرے کہ مستقبل میں یہ بچے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں رول ادا کر سکیں۔اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں تو پھر ان کی بہتر اور مکمل تربیت سے زیادہ نفع بخش کام اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خالق کائنات نے بھی عورت کو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے اس ذمے داری کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے۔ مستقبل کا تعلق خواہ دنیا وی بہبود سے ہو یا آخرت کی فلاح و کامرانی سے عورت اگر اپنے بچوں کی اس رخ پر تربیت کرتی ہے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ عورت کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور آرام دہ بنانے کی بھر پورسعی کرے۔ اپنے شوہر اور بچوں کو راحت اور سکون پہنچانے کے لیے کام کرے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر سے باہر جا کر نوکری کرنے کی گنجائش عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے کہ گھر سے باہر نکل کر عورتوں کا نوکری کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ جب شریعت نے یہ چیزحرام نہیں کی ہے۔ تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک حلال چیز کو حرام قراردے۔ ویسے بھی اسلامی فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اصولی طور پر حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں قرآن و حدیث میں واضح طور پر حرام قراردیا گیا ہے اس لیے اصولی طور پر یہ چیز جائز اور حلال ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کا نوکری کرنا جائز ہے بلکہ اگر وہ مطلقہ یا بیوہ ہے اور آمدنی کے سارے راستے اس پر بند ہوں تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اگر وہ نوکری یاجاب کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے تو اسے چاہیے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے ملازمت کر لے۔ تاکہ وہ تمام رسوائیوں سے محفوظ رہے بعض حالات میں شوہر کی موجودگی میں بھی عورت کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ مثلاً شوہر کی آمدنی اخراجات کے لیے ناکافی ہو یا عورت کے بوڑھے ماں باپ ہوں اور چھوٹے چھوٹے بھائی بہن ہوں وغیرہ۔ان حالات میں اسے ملازمت کا اختیار ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:
قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ          ۫  وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ۝ (القصص: 23)
”انھوں نے کہا ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں۔“
باپ چونکہ بوڑھے تھے اس لیے گھر سے باہر جا کر پانی بھرنے اور دوسرے کام کرنے کی ذمے داری ان دونوں جوان بیٹیوں پر تھی ۔ یہ بوڑھے باپ جیسا کہ دوسرے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے اللہ کے نبی تھے۔
اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی صاحبزادی حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر سے باہر نکل کر اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھیں گھوڑوں کی مالش کرتی تھیں ان کے لیے دانے کوٹتی تھیں اور دور کسی باغ سے یہ دانے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ امت مسلمہ تعلیم اور دوسری ترقیوں کے میدان میں کافی پیچھے رہ گئی ہے اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہماری مسلم عورتوں میں بھی ڈاکٹر ہوں، نرس ہوں، لیکچرر اور پروفیسر ہوں، عورتیں بیمار ہوتی ہیں تو مسلمان لیڈی ڈاکٹرنہ ملنے کی وجہ سے مجبوراًمرد ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اسکول اور کالج میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے غیر مسلم اساتذہ اور لیکچررہوتے ہیں۔ جن سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کی تربیت اسلامی انداز میں کریں گے۔ غرض کہ دور حاضر میں بہت سارے ایسے پرو فیشن(Profession)ہیں جن میں مسلم عورتوں کی شدید قلت ہے۔ اس قلت کی وجہ سے مسلم معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری عورتیں بھی ان شعبوں میں آئیں۔ بہر کیف ضرورت اور حالات کے مطابق عورت کا نوکری کرنا جائز اور حلال ہے لیکن اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے:
(1) یہ ضروری ہے کہ نوکری میں کوئی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز اور غلط ہو۔ مثلاً کسی کنوارے لڑکے کے یہاں خادمہ کی نوکری کرنا یا کسی شخص کی پرسنل سکریٹری بننا کیوں کہ تنہائی میں کسی غیر مرد کے ساتھ وقت گزارنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ڈانس اور گانے وغیرہ کی نوکری ہویا ایر ہوسٹس کی نوکری کرنا کیوں کہ غیر شرعی لباس پہننا اور شراب پیش کرنا اور تنہائی میں غیر مردوں کے ساتھ رہنا اس نوکری کے لازمی اجزا ہیں اسی طرح ہر وہ نوکری جس میں کوئی غیر شرعی کام ہو جائز نہیں ہے:
(2)  یہ ضروری ہے کہ نوکری کرتے ہوئے عورت تمام اخلاقی اور اسلامی آداب کا خیال رکھے۔
(3) یہ ضروری ہے کہ اس کی نوکری کرنے سے اس کی دوسری اولین اور زیادہ اہم ذمے داریاں متاثر نہ ہوں۔ مثلاً بچوں کی نگہداشت اور امور خانہ داری میں غفلت نہ ہو یا اس کی نوکری کی وجہ سے گھر کا سکون و آرام غارت نہ ہو۔ کیوں کہ بچوں کی نگہداشت اور گھر کے ماحول کو پر سکون بنانا عورت کی اولین ذمے داری ہے۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)

 حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں رائج شدہ نقاب یا برقع کو بدعت کہنا اور یہ دعوی کرنا کہ اسلامی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے علمی اعتبار سے اس دعوی میں کوئی سچائی نہیں ہے بلکہ حقائق کی غلط عکاسی ہے۔دراصل نقاب کا استعمال بدن کے ساتھ ساتھ چہرہ اور ہاتھ چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ ورنہ پردہ بغیر نقاب کے بھی ہو سکتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پردہ میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ صحابہ کرام کے دور ہی سے اس بات پر اختلاف رہا کہ چہرہ اور ہاتھ چھپانا بھی ضروری ہے یا نہیں - فقہائے کرام کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھ کو چھپانا ضروری نہیں ہے۔
اسی طرح علمائے کرام مندرجہ ذیل آیت میں لفظ ”جلابیب“ کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ اس سے کون سا لباس مراد ہے۔ وہ آیت کریمہ یہ ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ  ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ  ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ( الاحزاب: 59)
”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر جلابیب ڈال لیا کریں۔ اس طرح ان کی پہچان واضح رہے گی اور لوگ انھیں تنگ نہیں کریں گے۔ اوراللہ  مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“
بعض علمائے کرام کے نزدیک جلا بیب وہ لباس ہے جو بدن کے ساتھ چہرہ اور ہاتھ کو بھی چھپائے اور اکثریت کی رائے یہ ہے کہ جلابیب کے دائرے میں چہرے اور ہاتھ کو چھپانا نہیں آتا میرا موقف یہ ہے کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ضروری نہیں ہے یہی موقف عرب و عجم کے جمہور علماء کا ہے البتہ سعودی عرب اور ہندوستان و پاکستان کے علماء اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا لازمی ہے۔سعودی عرب کے علماء میں سر فہرست مرحوم شیخ عبد اللہ بن باز ہیں اور ہندو پاک میں سر فہرست مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہیں انھوں نے اپنی کتاب "پردہ" میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ چہرہ کا چھپانا ضروری ہے۔ سلف صالحین میں بھی ایسے قابل قدر علماء کرام موجود تھے جو پردہ میں چہرہ کا چھپانا ضروری تصور کرتے تھے کیوں کہ عورت کاحسن اس کے چہرے سے مترشح ہوتا ہے اور چہرہ کھلا رکھنا باعث فتنہ ہو سکتا ہے۔ اس موقف کے پیش نظر نقاب کا استعمال پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہو تا ہے۔ چونکہ چہرہ چھپانا اس کا کھلا رکھنا ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لیے ہر صاحب رائے کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے۔ اگر کسی کا موقف یہ ہے کہ چہرہ چھپانا لازمی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے اور کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے غلط یا گمراہ یا بدعت قراردے۔
جو عورتیں چہرہ چھپانے کے حق میں ہیں اور سمجھتی ہیں کہ نقاب لگا کر ہی پردہ کا اہتمام ہو سکتا ہے تو انھیں اس رائے کے اختیار اور اس کے مطابق عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اگر ہم انھیں اس آزادی سے محروم کر دیں گے تو شریعت کی نظر میں ایک غلط اقدام ہوگا۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی عورت چہرہ چھپانا ضروری نہیں سمجھتی ہے اس کے باوجود محض اختیاطاًاپنا چہرہ چھپاتی ہے اور نقاب لگاتی ہے تو ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اسے عمل سے منع کر دیں۔
حیرت ہے ان علماء پر جو نقاب کو بدعت قراردینے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ سلف صالحین کے زمانے سے ہی اس نقاب کا رواج ہے اور عورتیں شریعت کا حکم سمجھ کر یہ نقاب لگاتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نقاب کی آڑ میں نقاب لگانے والیوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور نقاب کی مخالفت کی جاتی ہے۔ حالانکہ نقاب بہرحال ایک خالص اسلامی لباس ہے اور ان عورتوں کو کچھ نہیں کہا جاتا ہے جو تنگ اور مختصر کپڑے پہن کراور چہرے پر ہزار قسم کے میک اپ کر کے کالجوں یونیورسٹیوں اور بازاروں میں دندناتی پھرتی ہیں۔اس غیر اسلامی لباس کی انھیں ہمارے معاشرے میں پوری آزادی ہے اور کوئی بھی ان پر تنقید کرنے کی جرأت نہیں کرتا ہے اور اگر جرأت کرے تو دقیانوسی کٹرپنتھی اور نہ جانے کیا کیا سمجھا جاتا ہےحالانکہ اس طرح کے غیر شرعی لباس زیب تن کرنے والیوں پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

چہر ے کا پردہ 
 

آپ نے نقاب کی حمایت اور اسے بدعت قرار دینے والوں کی مخالفت میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم نے پڑھا ۔ آپ نے واضح کر دیا ہے کہ نقاب کا رواج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کا چلن ہمارے سلف صالحین کے زمانے میں بھی تھا۔ اسے بدعت نہیں قراردیا جا سکتا۔اسے بدعت قراردینے والے دراصل چاہتے ہیں کہ ہماری عورتیں بھی بےنقاب ہو کر مغربی عورتوں کی طرح شمع محفل بن کر رہ جائیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت خوب لکھا ہے اور حق وانصاف کی بات کہی ہے۔لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نقاب کو لازمی اور فرض سمجھتے ہیں ان کے بہ قول عورتوں کا چہرہ کھلا رکھنا حرام ہے۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاًان عورتوں کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں جو پردہ تو کرتی ہیں لیکن چہرہ کھلا رکھتی ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ایسی عورتیں قرآن و سنت کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور چہرہ کھلا رکھنے کی وجہ سے بڑے گناہ میں مبتلا ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں پردہ واجب اور فرض ہے لیکن نقاب لگانا اور چہرے کو چھپاکر رکھنا ہمارے نزدیک بھی لازمی اور ضروری نہیں ہے ہمارے پاس اتنا علم نہیں ہے کہ ہم ان سخت گیر قسم کے لوگوں کو سمجھا سکیں۔ امید ہے کہ آپ اس موضوع پر بالتفصیل روشنی ڈالیں گے۔ 

جواب: صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے ہی سے فقہائے کرام کی اکثریت کا موقف یہ رہا ہے کہ پردے میں نقاب کا استعمال لازمی اور ضروری نہیں ہے اور یہ کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ ذیل میں میں ہر مسلک کا موقف مختصراًبیان کرتا ہوں۔
(1) امام ابو حنیفہؒ کا مسلک
احناف کی مشہور کتاب ”الاختیار التعلیل المختار“ میں اس موضوع پر یوں بحث کی گئی ہے:”کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔بشرطے کہ چہرہ اور ہاتھ دیکھنے میں کوئی جنسی لذت نہ ہو۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ پیر بھی کھلارکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ کام کاج اور گھریلو مصروفیات کی وجہ سے جس طرح ہاتھ کھلا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح پیر کا کھلا رکھنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔“
(2) امام مالکؒ کا مسلک
مالکی مسلک کی مشہور کتاب ”اقرب المسالک الی مذہب مالک“ کی عبارت کچھ یوں ہے:”غیر محرم مرد کے سامنے عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ستر میں شامل نہیں ہیں۔ اور ان کا کھلا رکھنا جائز ہے۔بشرطے کہ شہوت کی نظر نہ ہو۔“
(3) امام شافعی ؒکا مسلک
شافعی مسلک کی مشہورکتاب ”المہذب“ میں اس موضوع پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے:
”آزاد عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں عورت کو ہاتھ میں دستانہ اور چہرہ پر نقاب لگانے سے منع فرمایا ہے۔اگر چہرہ اور ہاتھ بدن کے دوسرے اعضاء کی طرح ان کا چھپانا بھی ضروری ہوتا اور اس لیے بھی کہ کام کاج کی وجہ سے ان کا کھلا رکھنا ضروری ہوتا ہے اور ان کے چھپانے میں زبردست اذیت اور پریشانی ہے۔“
(4) امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک
حنبلی مسلک کی مشہور کتاب ”المغنی“ میں کچھ اس قسم کے الفاظ ہی:”حنبلی مسلک میں اس بات پر اختلاف نہیں ہے کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنا جائز ہے البتہ ان کے علاوہ کچھ اور کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔“
یہ تو ہوئی چاروں مشہور مسالک کی رائے ان کے علاوہ بھی دوسرے مشہور اور قابل قدر علماء اور فقہاء ہیں جن کی یہی رائے ہے۔ چنانچہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ بھی عورت کے ستر سے چہرے اور ہاتھ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں جیسا کہ ان کی کتاب ”المحلیٰ“ میں درج ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”المجموع“ میں اس موضوع پر علماء کی رائے لکھتے ہوئےکہتے ہیں ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ  مالک رحمۃ اللہ علیہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بہت سارے علماء کی رائے یہ ہے کہ عورت کا پورا بدن سترہے۔ سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ یہی مسلک امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ یہ تمام علمائے کرام اپنے مسلک کی حمایت میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں انھیں میں ذیل میں مختصراً بیان کرتا ہوں۔
(1) قرآن کی آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا”اور وہ اپنی زینت و زیبائش کھلانہ رکھیں مگروہ جو خود بخود ظاہر ہو جائے“ کی تفسیر میں صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی اکثریت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے مراد چہرہ اور ہاتھ لیتی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے اس موقف کی تائید ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حدیث کرتی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں ان کے بدن پر باریک اور شفاف کپڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نگاہیں پھیر لیں اور فرمایا کہ اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو مناسب نہیں ہے کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے اور آپ نے چہرے اور ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ اس مفہوم کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔
(2) سورہ نورکی آیت وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیاہے کہ وہ اپنے ”خمار“ سے اپنے سینے کو ڈھک کر رکھیں۔”خمار“ وہ دوپٹا ہے جسےعورتیں اپنے سر پر رکھتی تھیں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ سر کے دوپٹے سے سرکے علاوہ سینے کو بھی ڈھک کر رکھیں۔ اگرچہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو انھیں سینہ کے ساتھ چہرہ چھپانے کا بھی حکم دیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں چہرے کا ذکر نہیں کیا ہےبلکہ صرف سینہ کا ذکر کیا ہے۔اس سے اس بات کی صراحت ہو جاتی ہے۔ کہ چہرہ چھپانا ضروری نہیں ہے۔
(3) سورہ نور کی آیت قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْمیں اللہ نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں یعنی خواہ مخواہ عورتوں پر نگاہیں نہ ڈالتے پھریں ۔ کسی موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بار بار کسی خوبصورت عورت کی طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا: لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ“ (ترمذی ) (ایک نظر کے بعد دوسری نظر مت ڈالو کیوں کہ پہلی نظر تو جائز ہے لیکن دوسری نہیں )
غور طلب بات یہ ہے کہ عورتیں اگر مکمل برقع پوش ہوں اور ان کے ہاتھ اور چہرے بھی نظر نہ آئیں تو پھر نگاہیں نیچی رکھنے اور ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنے کا حکم کیا معنی رکھتا ہے۔
نظر باربار ادھر اٹھتی ہے جہاں کشش ہوتی ہے۔ اور یہ کشش عورت کے چہرے میں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حکم نہیں دیا کہ تم اپنی اس کشش کو چھپا کر رکھو بلکہ مردوں کو حکم دیا کہ نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار اس پرکشش چیز کی طرف نگاہ نہ اٹھاؤ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں۔ اسی لیے مردوں کو حکم دیا گیا کہ تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار ان کی طرف نہ دیکھو ۔ اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو عورتوں کو بھی حکم دیا جاتا کہ اپنے چہرے کو چھپاکر رکھو اور ایسی صورت میں مردوں کو نظر نیچی رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا ۔
(4) اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرماتا ہے:
لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُہُنَّ ۔ (الاحزاب: 52)
”اس کے بعد تمھارے لیے عورتوں سے شادی کرنا حلال نہیں ہے اور نہ یہ حلال ہے کہ ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آؤخواہ ان عورتوں کا حسن تمھیں کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگے۔“
سوچنے کی بات ہے کہ اگر چہرہ کھلا نہ ہو تو کسی کو کیسے معلوم ہو گا کہ فلاں عورت خوبصورت ہے یا بد صورت ۔ کیوں کہ چہرے ہی سے عورت کی خوب صورتی یا بد صورتی کا حال معلوم ہوتا ہے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور عین ممکن تھا کہ اپنے حسن کی وجہ سے کوئی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آجائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اب مزید شادی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کر دیا۔
(5) دلائل اور حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں پردہ کرتی تھیں لیکن نقاب کا استعمال نہیں کرتی تھیں اور چہرہ کھلا رکھتی تھیں مثال کے طور پر چند دلیلیں پیش کر رہا ہوں۔
مسلم شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کسی عورت پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عورت اچھی لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لائے اور ان سے اپنی جنسی خواہش پوری کی اور فرمایا:
ان المرأۃ تقبل فی صورۃ شیطان و تدبر فی صورۃ شیطان فاذا رأی احدکم امرأۃ فاعجبتہ فلیات اھلہ فان ذاک یردما فی نفسہ۔ (مسلم)
”عورت شیطان کی صورت میں آتی اور جاتی ہے(اسے دیکھ کر آدمی بہکنے کی پوزیشن میں ہو جاتا ہے) پس اگر تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے اچھی لگے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس چلا جائے ۔ کیوں کہ یہ چیز اس کے دل میں جو خواہش ہے اسے ختم کر دے گی۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جس عورت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تھی اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔اور اسی وجہ سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی لگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  چونکہ انسان تھے اور بشری تقاضے کے تحت ان کے دل میں بھی جنسی خواہشیں پیدا ہوتی تھیں لیکن ایسے موقعے پر کوئی غلط قدم اٹھانے کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے پاس چلے آتے اور ان سے اپنی ضرورت پوری کرتے۔ اور یہی تعلیم آپ نے اپنی امت کو بھی دی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس طرح آپ نے اپنی امت کو غلط حرکت کی بجائے اپنی بیوی کے پاس جانے کا حکم دیا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی چہرہ ڈھک کر رکھنے کا حکم دے سکتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی کوئی ایسا حکم نہیں دیا۔
اسی طرح ایک حدیث بخاری اور مسلم کی ہے جس کی روایت حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ خود کو آپ کے حوالہ کردوں(آپ سے شادی کر لوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت کی طرف نظر اٹھائی اور دیر تک اسے دیکھتے رہے پھر نظر گھمالی۔ عورت نے سمجھ لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں اور اس کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر بھی وہ بیٹھی رہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تشریف فرما تھے۔ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو میری شادی کرادیجیے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ مسلم عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس آکر بیٹھی اور اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیر تک دیکھتے رہے  اس کا چہرہ کھلا ہونے کی وجہ سے کسی اور صحابی کو وہ عورت پسند آگئی اور انھوں نے شادی کی درخواست کر ڈالی۔
سنن نسائی کی ایک حدیث ہے جس کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سوال کرنے آئی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرا ہ تھے۔ وہ اس عورت کی طرف بار بار مڑ کر دیکھنے لگے کیوں کہ وہ خوب صورت تھی۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم با ر بار فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ دوسری طرف کر دیتے تھے۔
اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو بھرے مجمع میں چہرہ کھلا رکھنے پر یقیناً تنبیہ کرتے اور خاص کر ایسی حالت میں کہ لوگ اس کے حسن کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہو رہے تھے سنن ترمذی میں یہی روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے مذکورہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن دوسری طرف موڑدی ان کے والد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ نے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن دوسری طرف کیوں گھمائی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں نے ایک نوجوان لڑکے اور نوجوان لڑکی کو اس حالت میں دیکھا کہ شیطان انھیں بہکانے میں مصروف  تھا۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر چہرہ کھلا رکھنا جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو اس کے کھلے چہرے پر ضرور تنبیہ کرتےخاص کر ایسی حالت میں کہ شیطان ان دونوں کو بہکانے کی کوشش کر رہاتھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو چہرہ ڈھکنے کی بجائے صرف فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اپنا رخ دوسری طرف کر لیں۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام کی وجہ سے عورت سے بات کرنا ضروری ہواور شیطان کے بہکانے کا خوف نہ ہو تو اس کی طرف دیکھنا بھی جائز ہے۔
ایسی ہی ایک حدیث بخاری شریف میں ہے جس کی روایت حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز کے لیے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے قبل نماز پڑھائی پھر عورتوں کی طرف تشریف لے گئے اور انھیں نصیحتیں کیں اور فرمایا کہ عورتو! تم صدقہ دیا کرو کیوں کہ تم میں اکثریت جہنم کی ایندھن ہے۔ جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ بات سن کر ایک معزز عورت کھڑی ہوئی اور اس کے دونوں گال سرخ مائل کالے ہو رہے تھے۔ اس نے دریافت کیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں عورتوں کی اکثریت جہنم کی ایندھن کیوں بنے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ ”اس لیے کہ تم بہت زیادہ شکایتیں کرتی ہواور اپنے شوہر کی نا فرمانی کرتی ہو۔ چنانچہ عورتوں نے صدقہ کرنا شروع کیا  حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا کپڑا پھیلائےہوئے تھے اور عورتیں اپنے کان کی بالیاں اور انگوٹھیاں اتاراتار کر اس میں رکھنے لگیں۔“
اس روایت سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو حضرت جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہو سکا کہ اس عورت کے دونوں گال سرخی مائل کالے تھے۔
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم عورتیں چادر اوڑھ کر فجر کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں باجماعت ادا کرتے۔پھر نماز سے فراغت  کے بعد اپنے گھروں کو واپس آ جاتے تاریکی کی وجہ سے ہمیں کوئی پہچان نہیں پاتا تھا۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرتاریکی نہ ہوتی تو انھیں پہچان لیا جاتا اور معلوم ہو جا تا کہ کون کون سی عورتیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ کسی عورت کو اسی وقت پہچانا جاسکتا ہے جب کہ اس کا چہرہ کھلا ہوا ہو۔
یہ تمام حدیثیں ثابت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی انھیں چہرہ چھپانے کا حکم نہیں دیا اور نہ چہرہ کھلا رکھنے پر کبھی ان کی سرزنش کی۔
(6) صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چہرے پر نقاب لگانے کا رواج نہیں تھا بلکہ چہرے پر نقاب لگانے والیوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا چنانچہ ابو داؤد کی روایت ہے جس کے راوی حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن شماس ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئی اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ وہ اپنے مقتول بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی تھی۔ ایک صحابی نے حیرت سے کہا کہ تم چہرے پر نقاب لگاکر اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی ہو؟ اس عورت نے جواب دیا کہ میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے لیکن اپنی شرم نہیں کھوئی ہے۔ ابو داؤد نے یہ حدیث کتاب الجہاد میں بیان کی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کے نقاب لگانے پر تعجب تھے کیوں کہ یہ چیز معاشرے کے رواج سے ہٹی ہوئی تھی۔ اس تعجب کے اظہار پر عورت نے یہ نہیں جواب دیا کہ تم لوگ تعجب کیوں کرتے ہو۔ میں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق یہ نقاب لگایا ہے بلکہ اس نے یہ جواب دیا کہ شرم و حیا کی وجہ سے اس نے چہرہ پر نقاب ڈال لیا ہے۔ اگر نقاب لگانا اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کبھی اس کے نقاب لگانے پر نہ تعجب کرتے اور نہ اس عورت سے ایسا سوال کرتے۔
(7) اگر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت عورت کی اپنی شخصیت جانی پہچانی رہے خریدو فروخت اور دوسرے لین دین کے معاملات میں یہ ضروری ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ اس کا معاملہ ہو رہا ہو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ عورت کون ہے۔ اسی لیے تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ عدالت میں گواہی کے موقع پر عورت کا چہرہ کھلا رہنا ضروری ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ گواہی دینے والی عورت کون ہے؟
ان لوگوں کے دلائل جو چہرہ پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تلاش بسار کے باوجود چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے مجھے قرآن و حدیث سے کوئی ایسی دلیل نہ مل سکی جسے صریح اور دوٹوک کہی جا سکے۔ اور یہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ان علماء کی تعداد نہایت کم ہے جو چہرے پر نقاب کو لازمی قراردیتے ہیں یہ علماء اپنی رائے کے حق میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں ان کا بیان حسب ذیل ہے:
(1) يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ    ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ   ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ( الاحزاب: 59)
”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔“
اس آیت میں ”جلابیب“ کی تشریح کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ جلابیب اسے کہتے ہیں جس سے پورا بدن حتی کہ ہاتھ اور چہرہ بھی ڈھک  جائے اور صرف آنکھ کھلی ہو۔لیکن جلا بیب کی بہ تشریح خود ان کی اپنی تشریح ہے۔ قرآن و سنت میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری ہے۔
(2)سورہ نور آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا        ۖ میں إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا اوپری کپڑاہے۔ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں  سوائے اس کے جو خود بہ خود ظاہر ہو جاتا ہے یعنی ان کا اوپری لباس کیوں کہ اسے چھپانا ممکن نہیں ہے۔لیکن ان کی یہ تفسیر کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتی ہے کیوں کہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کا اضافہ کر کے اللہ تعالیٰ نے پردے کے حکم میں کچھ تخفیف اور آسانی عطا کرنی چاہی ہے۔ اب اگر اس سے مرد عورت کا اوپری کپڑا مراد لیا جائے تو اس میں عورتوں کے لیے کوئی آسانی نہ ہوئی اور یہ بات اللہ کے منشاء کے خلاف ہے۔ اور میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور علمائے کرام کی اکثریت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے چہرہ اور ہاتھ مراد لیتی ہے۔
(3) سورہ احزاب کی آیت وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ (اور جب ان سے کوئی شے مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو) کی تفسیر کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگنے کا مقصد اور منشایہ ہے کہ عورت کا مکمل جسم حتی کہ چہرہ اور ہاتھ بھی نہ نظر آئے۔
یہ دلیل اس لیے مناسب نہیں ہے کہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے خاص تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس پورے سیاق و سباق کی ابتدایوں کی ہے: يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کی بیویو! تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو) تمھارا رتبہ اور مقام عام عورتوں کی طرح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاص مقام کی وجہ سے ان کے لیے کچھ خاص احکام تھے مثلاً یہ کہ وہ اپنا زیادہ وقت گھر پر گزاریں انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دوسری شادی کی اجازت نہیں تھی۔ انھیں مسلمانوں کی ماؤں کا درجہ عطا کیا گیا ان ہی خاص  احکام میں سے ایک خاص حکم یہ ہے کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کچھ مانگو تو پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگو۔
(4) بخاری شریف کی حدیث ہے لَا تَنْتَقِبِ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلاَ تَلْبَسِ الْقُفَّازَيْنِ ”احرام کی حالت میں عورت نہ نقاب لگائے گی اور نہ دستانے پہنے گی۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اس زمانے میں عورتیں چہرہ نقاب اور ہاتھوں میں دستانے استعمال کرتی تھیں اور احرام کی حالت میں ان کے استعمال سے روک دیا گیا۔لیکن اس حدیث کو بہ طور دلیل پیش کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ اس زمانے میں عورتیں چہرے پر نقاب اور ہاتھوں میں دستانے پہنتی تھیں پھر بھی اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے کہ عورتوں کے لیے ان دونوں کا استعمال ضروری اور لازمی ہے۔
(5) ترمذی کی حدیث ہے: المرأة كلها عورة ”عورت مکمل ستر ہے“
اس حدیث سے علماء یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ چونکہ عورت کا مکمل جسم ستر میں داخل ہے اس لیے چہرہ اور ہاتھ سمیت مکمل جسم کو ڈھکنا لازمی ہے۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ اس حدیث کا یہ منشا نہیں ہے کہ عورت کا مکمل جسم ستر ہے اسلیے اسے مکمل طور پر چھپانا ضروری ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کا جسم اپنی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے سر تاپاکشش ہوتا ہے۔ اس حدیث میں عورت کے پورے جسم کو"عورت" کہا گیا ہے۔ عورت (ستر) کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اسے چھپانا ضروری  ہے ورنہ احرام کی حالت میں عورتوں کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا کیوں کہ جو ستر ہوتی ہے اسے کسی بھی حالت میں کھولنا جائز نہیں ہے۔
(6) چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے یہ علماء حضرات جس بات کو کثرت کے ساتھ بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ عورت کا سارا حسن اور ساری کشش اس کے چہرے میں ہوتی ہے چہرہ کھلا رہے تو باعث فتنہ ہوتا ہے۔ اس فتنہ کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ چہرہ ڈھکارہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس فتنہ کے وہم اور خوف کی وجہ سے سخت گیر قسم کے علماء نے معاشرےمیں بہت ساری ایسی چیزوں کو ناجائز قراردیا ہے جو اصلاً جائز اور حلال ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حد درجہ رحمت کی بنا پر ان چیزوں کو حلال قرار دیا ہے اور ان کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے لیکن محض فتنہ پھیلنے کے خوف سے اور احتیاط کے نام پر بعض علماء کرام نے ان حلال چیزوں پر پابندی لگا دی ہے۔ مثال کے طور پر علماء نے فتنے کے خوف سے عورتوں کومسجد میں جا کر نماز با جماعت ادا کرنے سے منع کردیاحالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ (اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو) اس کے باوجود ان علماء نے محض خیالی فتنہ کے ڈرسے انھیں مسجد جانے سے روک دیااس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں نماز سے دور ہونے لگیں۔ ان ہی علماء نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے اور تعلیم حاصل کرنے سے منع کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں جاہل اور ناکارہ ہوگئیں ۔ اب ان علماء کو ہوش آیا ہے تو انھوں نے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے کی اجازت دے دی۔ اگر پہلے ہی عورتوں پر تعلیم کا دروازہ نہ بند کردیا گیا ہوتا تو اتنی کثرت سے ہماری عورتیں جاہل اور غیر مفید بخش نہ رہتیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھام ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھا م کی وجہ سے جائز باتیں ناجائز کردی جائیں۔ فتنے کی روک تھام کے لیے اللہ کے وہ احکام اور اسلامی آداب کافی ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے۔ اپنی طرف سے مزید اور نئی نئی  بند شیں لگانا اللہ کی مرضی و منشا کے خلاف بھی ہے اور ہمارے معاشرے کے لیے مہلک اور نقصان دہ بھی۔
یہ ہیں وہ دلائل جنھیں نقاب کو لازمی قراردینے والے علماء پیش کرتے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ ان میں سے کوئی بھی دلیل اتنی مضبوط اور اتنی واضح نہیں ہےکہ اس کی بنیاد پر نقاب کو واجب قراردیا جا سکے۔ فقہی اصول ہے کہ کسی چیز کو واجب قراردینے کے لیے قرآن و سنت کی واضح اور صریح دلیل ضروری ہے۔ ان کے مقابلہ میں ان علماء کے دلائل زیادہ مضبوط اور واضح ہیں جو نقاب کو لازمی نہیں قرار دیتے ۔ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اس لیے میرا اپنا موقف بھی وہی ہے جو جمہور علماء کا ہے۔وہ یہ کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری اور واجب نہیں ہے۔ اپنے اس موقف کی تائید میں میں مزید دلائل پیش کرتا ہوں۔
(1) کسی امر کو اس وقت تک واجب العمل نہیں قراردیا جا سکتا جب تک اس کے حق میں قرآن یا حدیث کی واضح اور صریح دلیل نہ ہو محض شک کی بنیاد پریا اندیشے اور احتیاط کے نام پر کسی شے کو نہ تو واجب قراردیا جا سکتا ہے اور نہ کسی حلال چیز کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے فقہ کا اصول ہے کہ واجب صرف وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب کیا ہے اور حرام وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کسی چیز کو واجب یا حرام قرار دینے میں عجلت اور جلد بازی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ قرآن و سنت سے ثابت ہونے کے بعد ہی واجب یا حرام قراردیتے تھے۔
اسلامی فقہ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اصلاً تمام چیزیں حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے- کسی چیز کے حلال ہونے کے لیے دلیل پیش کرنا ضروری نہیں ہے کیوں کہ اصلاً یہ چیز حلال ہے بلکہ اس کے حرام ہونے کی دلیل پیش کرنا ضروری ہے جہاں تک چہرے پر نقاب لگانے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں قرآن وسنت میں کوئی ایسی واضح دلیل نہیں ہے جواسے واجب قرار دے۔ محض احتیاط اور اندیشے کی وجہ سے اسے واجب قرار دینا یا کسی حلال چیز کو ناجائز قراردینا اللہ کی منشا اور اصول فقہ دونوں کے خلاف ہے۔ لوگوں نے جب جائز اور حلال کھانوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا تو اللہ نے ان کی اس طرح سر زنش کی تھی:
قُلْ اٰۗللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَي اللہِ تَفْتَرُوْنَ۝  (یونس:59)”کہو کہ کیا اللہ نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے یا تم اللہ پر بہتان تراشی کر رہے ہو۔“
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عورتوں کی شخصیت اور ان کے امیج(Image)کو بہتر بنانے کے لیے جدو جہد کریں معاشرے میں انھیں ان کا جائز مقام دلائیں اور ان کے تعلیمی اور معاشرتی معیار کو بلند کریں تاکہ ایک طرف عورتیں ہمارے معاشرے کے لیے مفید اورکار آمد بن سکیں اور دوسری طرف دشمنان اسلام کو اسلام پر کیچڑاچھالنے کا موقع نہ مل سکے۔
(2) پرانے زمانے کے مقابلے میں آج کے ترقی یافتہ دور میں روزمرہ کی بنیادی ضرورتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ہماری عورتیں بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ گھروں سے نکل کر اپنی ضروریات کی تکمیل کریں۔ایسی حالت میں انھیں نقاب کا پابند کر کے مزید مشقتوں اور زحمتوں میں مبتلا کرنا مناسب نہیں ہے اور یہ بات اللہ کی منشا کے بھی خلاف ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین میں زحمت و مشقت نہیں رکھی ہے بلکہ حتی الامکان ہمارئے لیے آسانیاں رکھی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ       ۭ (الحج: 78)”اور ا س دین میں تمھارے لیے کوئی مشقت نہیں رکھی ہے۔“دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے:يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ  ۡ (البقرۃ: 185)
”اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ تنگی اور پریشانی نہیں چاہتا ہے۔“
اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ (مسند احمد)”میں ایسے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں جو عقیدہ میں پاک اور خالص ہے اور معاملات میں نرم ہے۔“
جو لوگ چہرہ پر نقاب کے سختی سے قائل ہیں اور وقتاً فوقتاً ان پردہ دار خواتین پر تنقید کرتے رہتے ہیں جو چہرے پر نقاب نہیں لگاتی ہیں ان سے میری گزارش ہے کہ وہ ان خواتین پر تنقید کے بجائے ایسی مسلم عورتوں کی اصلاح کی جانب دھیان دیں جو سرے سے پردہ ہی نہیں کرتی ہیں اور نت نئے فیشن کر کے بے حجابانہ گھروں سے باہر وقت گزارتی ہیں۔
آخر میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
(1) چہرہ اور ہاتھ پیر کھلا رکھنا جائز ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چہرے   پر مختلف قسم کے میک اپ کر کے اور ہاتھ پیر ناخنوں کو نیل پالش سے مزین کر کے غیر محرم مردوں کے سامنے جانے کی بھی اجازت ہے- اجازت صرف اس بات کی ہے کہ غیر محروں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر بہت ہلکی سی زیبائش کر لی جائے مثلاًآنکھوں میں سرمہ لگالیا جائے یا ہاتھ کی انگلیوں میں انگوٹھی پہن لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے غرض کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں گھر سے باہر نکلتے وقت شرعی لباس میں رہیں شریفانہ انداز اپنائیں اور الٹے سیدھے میک اپ اور فیشن کے ذریعے غیروں کو لبھانے والا انداز نہ اختیار کریں۔
(2) میں اگر یہ کہتا ہوں کہ چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو عورتیں چہرہ پر نقاب لگانا چاہتی ہیں انھیں میں نقاب لگانے سے منع کر رہا ہوں وہ اگر نقاب لگانا چاہتی ہیں تو شوق سے لگائیں۔ انھیں اس کا پورا حق حاصل ہے۔
(3) چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ عورتوں    کے چہروں کو تکا کریں۔ کیوں کہ بہر حال مردوں کو اس بات کا حکم ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اپنی نگاہیں عورتوں پر نہ ڈالیں ۔ البتہ عورتوں سے معاملات کے دوران کسی ضرورت کے تحت انھیں دیکھنا ضروری ہو تو ان پر نظر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے بہ شرطے کہ یہ نظر شہوت اور ہوس بھری نہ ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: بلا شبہ جہالت اور کم علمی ایک بڑا مرض ہے اور اس سے بھی بڑا مرض یہ ہے کہ جاہل اپنے آپ کو عالم تصور کرے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے نام نہاد روشن خیال لوگ پائے جاتے ہیں۔ جنھوں نے دنیوی علوم تو حاصل کر رکھے ہیں لیکن قرآن وسنت اور شریعت کے سلسلے میں ان کا علم صفر ہے۔ اس کے باوجود دینی معاملات و مسائل میں وہ اپنی جاہلانہ رائے دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حد تو یہ ہے کہ قرآن و سنت کا علم نہ ہونے کے باوجود اپنی رائے کو برحق اور قرآن و سنت کے مطابق قراردیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو فقط نام کے مسلمان ہیں اور ان کے کام غیر مسلموں جیسے ہیں۔ چونکہ اسلام اور اسلامی احکام میں انہیں کوئی خاص دلچسپی اور رغبت نہیں ہے اس لیے غیر مسلموں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ لوگ بہت سارے شرعی احکام کو بدل دینا چاہتے ہیں 
مہر کی حیثیت قرآن وسنت سے ثابت ہے اور اس پر تمام امت کا مکمل اتفاق ہے۔ مہر ایک ایسی حقیقت ہے جسے سب جانتے اور قبول کرتے ہیں۔ البتہ اس کی حکمت و مصلحت سے بعض لوگ ناواقف ہیں اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے۔
(1) مہر عورت کے لیے باعث ذلت نہیں بلکہ اس کے برعکس باعث عزت و شرف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں پر فرض کیا ہے کہ نکاح کے وقت عورتوں کو مہر ادا کریں ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت ایک پسندیدہ چیز ہے جسے پانے کے لیے مرد کوشاں اور سرگرداں رہتا ہے اور اپنی اس پسندیدہ چیز کو حاصل کرنے کے لیے اپنی دولت اور پیسے خرچ کرتا ہے۔یہ تو عورت کے لیے بہت عزت کی بات ہے کہ وہ مرد کی مرغوب و پسندیدہ چیزہے۔ عورت کے لیے ذلت کی بات یہ ہے کہ وہ مرد کو حاصل کرنے کے لیے پیسے خرچ کرے۔بعض ملکوں مثلاً ہندوستان میں مرد نہیں بلکہ عورت اپنے شوہر کو حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتی ہے جہیز کے نام پر مرد منہ مانگی قیمت وصول کرتا ہے۔ عورت مرد کو حاصل کرنے کے لیے پیسے خرچ کرے یہ چیز اس کے لیے باعث رسوائی و ذلت ہے۔
(2) مہر کی ادائی محض اظہار الفت و محبت کے لیے ہوتی ہے۔ یہ عورت کے جسم کی قیمت اور معاوضہ نہیں ہے۔ اس کی حیثیت تحفہ(Gift)کی ہے جو مرد اپنی خوشی سے اپنی جان عزیز کو عطا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اللہ فرماتا ہے وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃٍ    ۭ (النساء: 4) ”اور عورتوں کو ان کے مہر بہ طور عطیہ کرو۔“
اس آیت میں مہر کو عطیہ اور تحفہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(3) مہر فرض کر کے ہمیں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ شادی بیاہ کوئی کھیل نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ انسان اپنے روزمرہ کے کاموں میں بہت ساری کارروائیوں کے لیے فیس ادا کرتا ہے تاکہ اسے ان کار روائیوں کی اہمیت کا احساس رہے۔ اسی طرح شادی بیاہ ایک اہم اور سنجیدہ کارروائی ہے جس میں فیس کی ادائی لازمی ہے تاکہ اس کی اہمیت کا پاس و لحاظ رہے۔
(4) چونکہ فیملی کی سطح پر اللہ تعالیٰ نے شوہر کو گھر کا نگہبان اور ذمہ دار مقرر کیا ہے اور بیوی پر اسے ایک درجہ فضیلت عطا کی ہے اس لیے مرد کے لیے ضروری قراردیا گیا کہ گھر کے نان و نفقہ کا ذمے دار بھی وہی ہو اور اپنی دولت کا ایک حصہ مہر کے طور پر اپنی بیوی کو عطا کرے کیوں کہ اس شادی کی وجہ سے بیوی پر اسے فضیلت عطا کی گئی ہے۔مہر کی ان حکمتوں اور مصلحتوں کے ساتھ ساتھ مہر سے متعلق چند باتوں کا ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے:
(1) مہر کی ادائی فرض ہے لیکن اسلام نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ مہر کی رقم میں مبالغہ آرائی سے پرہیز کیا جائے اور اسے کم سے کم رکھا جائے تاکہ مردوں کے لیے یہ چیز باعث مشقت نہ بن جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد أكثرهن بركة أقلهن صداقًا (عورتوں میں سب سے بابرکت وہ ہیں جن کا مہر سب سے کم ہے) سے یہی ثابت ہوتا ہے۔خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کو محض چند درہم مہر ادا کیے۔ اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے موقع پر جو قلیل مہر مقرر کیا تھا وہ محض ایک زرہ پر مشتمل تھا۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کی شادیوں کے موقع پر مہر مقرر کیا کہ وہ اپنی بیویوں کو قرآن کی تعلیم دیں
(2) مغرب زدہ لوگوں کی یہ سوچ غلط ہے کہ مہر عورت کے جسم اور جنسی لذت کا معاوضہ ہے۔ کیوں کہ شادی کے بعد صرف شوہر اپنی بیوی سے جنسی لذت نہیں اٹھاتا ہے بلکہ بیوی بھی اپنے شوہر کے جسم سے جنسی لذت اٹھاتی ہے۔ شادی کے بعد دونوں ہی ایک دوسرے سے جنسی لذت اٹھاتے ہیں لیکن مہر صرف مرد ادا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہر جنسی لذت کا معاوضہ نہیں ہے۔
(3) یہ سوچنا غلط ہے کہ شادی کا مقصد صرف جنسی لذت کا حصول ہے۔ جنسی لذت کا حصول شادی کے بہت سارے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔ اس لیے مہر کو اس نظر سے دیکھنا کہ یہ چیز جنسی لذت کا معاوضہ ہے ایک غلط سوچ ہے شادی کا مقصد جہاں جنسی لذت کا حصول ہے وہیں اس کے دوسرے مقاصد بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً    ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۝ (الروم: 21)
”اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور اس نے تمھارے درمیان محبت و رحمت کا جذبہ پیدا کیا۔ بلا شبہ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غورو فکر کرتے ہیں۔“البتہ اسلام جنسی لذت کے حصول کو ایک گندا اور گھناؤ ناعمل نہیں قراردیتا ہے بلکہ اسلام کی نظر میں حلال طریقہ سے جنسی لذت حاصل کرنا بھی ایک کار ثواب ہے جیسا کہ بعض حدیثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی وضاحت کی ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

محبت اور شادی
سوال: مجھے ایک ایسے لڑکے سے محبت ہو گئی ہے جو دین دار و بااخلاق ہے اور اس کے اندر ہر خوبی ہےجس کی ایک لڑکی تمنا کر سکتی ہے ہم محبت میں اتنی دور چلے گئے ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا ہو کر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ہماری محبت بالکل پاک ہے اور پچھلے چھے سالوں میں ہم نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جو قابل گرفت ہو اور جس پر ہمیں ندامت ہوہمیں اس کا انتظار تھا کہ لڑکا برسر روزگار ہوتو ہماری شادی ہو سکے گی کہ اچانک ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ لڑکے کے برسرروز گار ہوتے ہی اس کے گھر والوں نے یہ کہہ کر شادی سے انکار کردیا کہ ان کا خاندان میرے خاندان کے مقابلے میں کم حیثیت ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔ میں اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتی ۔ کسی اور کے ساتھ شادی کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔ کیا اس طرح سے میرا کسی کی محبت میں گرفتار ہو جانا اسلام کی نظر میں گناہ ہے؟اور کیا اسلامی شریعت میں ہماری مشکل کا کوئی حل ہے؟

جواب: میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ میں دور حاضر کے اس چلن سے بالکل متفق نہیں ہوں کہ پہلے محبت کی جائے پھر شادی کی جائے۔یہ وہ راستہ ہے جس کی ابتدا بھی نامناسب ہوتی ہےاور جس کا انجام بھی اکثر و بیشتر غیر اطمینان بخش ہوتا ہے۔مثلاًوہ محبت جو ٹیلی فون پر گفت و شنیدسے شروع ہوتی ہے یا وہ محبت جو جوانی کے جوش میں لڑکیوں کے پیچھے چکر لگانے سے شروع ہوتی ہے یہ ایسی محبت ہوتی ہےجس میں عقل اور سوجھ بوجھ کا عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔محض جذباتیت ہوتی ہےاکثر تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے لڑکے لڑکیوں میں محبت ہو جاتی ہے جن کے درمیان سماجی تفاوت ہوتا ہے یا خاندانی چپقلش ہوتی ہے یا کوئی ایسی بات ہوتی ہے جوان کی شادی کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔چونکہ اس محبت کی ابتدا جذباتیت سے ہوتی ہے اس لیے یہ لڑکے اور لڑکیاں غلطیاں اور گناہ کر بیٹھتے ہیں اس لیے کہ بہر حال وہ انسان ہیں۔ فرشتے نہیں ہیں۔میری نظر میں شادی کا افضل اور مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ طرفین خوب سوچ سمجھ کر ایک دوسرے کےبارے میں مکمل واقفیت حاصل کر کے شادی کا فیصلہ کریں۔ شادی کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کا اطمینان کر لیا جائے کہ فی الحال ایسی کوئی بات تو نہیں ہے جو آگے چل کر اس شادی کو ناکام یا شادی شدہ زندگی کو جہنم بنادے ۔ مثلاً طرفین کے درمیان کفو یعنی برابری نہ ہو یا کسی قسم کی قانونی رکاوٹ ہو وغیرہ -یہ بھی ضروری ہے کہ طرفین ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔ ایسے موقعے پر مناسب یہ ہوگا کہ لڑکا اس طرح لڑکی کو دیکھے کہ لڑکی کو اس کی خبرنہ ہوتاکہ رشتہ طے نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے جذبات مجروح نہ ہوں اور مناسب یہ ہے کہ لڑکے والے یہ رشتہ لے کر لڑکی کے گھروالوں کے پاس جائیں اور نہایت اطمینان اور تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے اس معاملے کو طے کریں۔اگر کوئی ایسی صورت حال ہوتی ہے جس کا تذکرہ سوال میں ہے طرفین کے درمیان خودبخود محبت ہو جاتی ہے اور یہ دونوں شادی کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کی اس مدت میں کوئی غلط قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو ایسی صورت حال میں گھر والوں کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں اور دوپیار کرنے والوں کو محض چھوٹے چھوٹے اسباب کی بنا پر ایک دوسرے سے جدانہ کریں اور ان کی شادی کردیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
لم يَر لِلَمُتَحَابِينَ مِثَل النَكاَح  (ابن ماجہ)”دومحبت کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔“
ذرا اس حدیث کے پس منظر پر غور کیجیے ۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس ایک یتیم بچی ہے جس سے شادی کے خواہش منددو شخص ہیں ان میں سے ایک غریب ہے اور دوسراامیر،لیکن یہ یتیم بچی غریب شخص سے محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ دو پیار کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ دوپیار کرنے والوں کے درمیان غریبی اور امیری کو نہ آنے دیا جائے اور ان کی مرضی کے مطابق ان کی شادی کر دی جائے  یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام ایک عملی (Practical)دین ہے کسی سے محبت ہو جانا ایک فطری بات ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ کوئی گناہ نہیں ہے نہ اسلام اس فطری جذبہ کی روک تھام چاہتا ہے بلکہ اسلام اس بات پر ابھارتا ہے کہ اس فطری جذبہ کو شرعی اور قانونی حیثیت عطا کردی جائے۔ان دونوں کو گناہوں میں ملوث نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کی شادی کردی جائے۔ بہ شرطے کہ اس شادی میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین جھوٹی شان کی وجہ سے یا حسب نسب کے چکر میں پڑ کر یا محبت کو غیر اسلامی عمل سمجھ کر دو محبت کرنے والوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں خود بھی مصیبت میں پڑتےہیں اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی تباہ کر ڈالتے ہیں۔ بعض بچے ذرا تیز قسم کے ہوتے ہیں تو وہ  والدین سے بغاوت کر کے اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جھوٹی شان اور حسب ونسب کو معیار بنانے کی بجائے دین اور بااخلاق ہونے کو معیار بنایا جائے۔ دین اور اخلاق کے معیار پر اترنےوالے رشتہ کو ٹھکرانا یقیناًبڑی بد قسمتی کی بات ہوگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ (ترمذی،ابن ماجہ)”جب تمھارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کے اخلاق اور دین داری سے تم مطمئن ہو تو اسے شادی کے لیے منتخب کرلو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں زبردست فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ “

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں- اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔
قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:
﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت و وقار اللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد وعورت میں سے ہر ایک دوسرے کا فطری طور پر محتاج ہے۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔یہی اللہ کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے۔انسانوں کے لیے بھی اور تمام کائنات کی مخلوقات کے لیے بھی، اللہ کا ارشاد ہے:وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝ (الذاريات : 49)”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔“
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام  کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کوبھی گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے ارشاد ربانی ہے:وَالّٰتِي تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاہْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ  ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْہِنَّ سَبِيْلًا       ۭ (النساء: 34)”وہ بیویاں جن کی بغاوت کا تمھیں اندیشہ ہو تو تم انھیں نصیحت کرو اور بستر سے انھیں الگ کردو اور انھیں مارو۔ پس اگر وہ مان جائیں تو پھر انھیں ستانے کا کوئی بہانہ نہ تلاش کرو۔“
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ با مرتبہ اور وسیع الظرف انسان کو زیب نہیں دیتا کہ ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے- کسی مرد کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)


جواب: اسی طرح کی غلط بیانی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے بعض لوگ اسلامی شریعت کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں اسلامی شریعت پر اعتراض کرنے سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ اسلامی شریعت سے خاطر خواہ واقفیت حاصل کریں۔ اگر انھیں اس کی واقفیت نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ قرآن و سنت کا مطالعہ کریں تاکہ اسلامی شریعت کا صحیح صحیح علم ہو سکے۔ مصیبت یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ قرآن و حدیث کا مطالعہ کم کرتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے یا کسی مسلمان کے غلط رویے کو دیکھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہی اسلامی شریعت ہے اور پھر اسلامی شریعت پرسیدھے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں 
اس اعتراض سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ شادی اور طلاق سے متعلق قرآن و حدیث کے احکام کا مطالعہ کر لیتے اور جان لیتے کہ اس سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے۔
اسلام کی نظر میں شادی ایک مضبوط اور مستحکم بندھن ہے اور اس بندھن کی بنیاد باہمی الفت و محبت پر ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے تعان سے پرسکون زندگی گزاریں۔یہ وہ مضبوط رشتہ ہے جو دو خاندانوں کی مستقل دوڑ بھاگ گفت و شنید شادی کی تقریبات مہر کی ادائی اور نہ جانے کن کن مرحلوں کے بعد وجود میں آتا ہے ظاہر ہے اس قدر مضبوط رشتے کو توڑ دینا کوئی قابل تعریف بات ہے اور نہ کوئی  آسان بات کہ جب جی چاہا اسے ختم کر دیا  نہ تو شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بنیاد پر اس رشتہ کو ختم کردے اور نہ بیوی ہی کو اس کا حق دیا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردےبالکل غلط بات ہے -یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔ اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضا رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے:فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝ (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے  کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ۝  (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ      ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے۔اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ انصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسا اوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی  پوراحق  دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور مردوں  کو حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھرولواں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھر بھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں- اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے‘ مہر کی ذمے داری ہے‘بیوی بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہےاور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن ختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)


جواب: حرام وحلال اور جائز وناجائز کے سلسلے میں اسلامی شریعت کی دو اُصولی باتیں ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہییں:
(1) پہلی بات یہ کہ اصولی طور پر دنیا کی ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیاہو۔کسی حلال چیزکو حلال ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے کہ اُصولی طور پر تمام چیزیں حلال ہیں۔البتہ کسی چیز کو حرام ثابت کرنے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کے بغیر کسی بھی چیز کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔حرام وہی چیز ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہو اور اس کی صراحت قرآن وحدیث میں موجود ہو۔کسی بندے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی سمجھ اور دانش کے مطابق کسی چیز کوحرام قراردے۔
اسلامی شریعت کے ان اصولوں کی روشنی میں آپ کے سوال کے سلسلے میں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا قرآن وحدیث میں کوئی ایسی واضح اور صریح دلیل موجود ہے،جو عورتوں کو سیاسی حقوق اور سرگرمیوں سے محروم کردے۔آپ پورے قرآن کو خوب سمجھ سمجھ کرپڑھ جائیے اور تمام صحیح حدیثوں کا تفصیلی مطالعہ کرجائیے مجھےیقین کامل ہے کہ قرآن وحدیث میں آپ کو ایک بھی ایسی دلیل نہیں ملےگی جس کی بنیاد پر عورتوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کیا جاسکے۔بلکہ اس کے برعکس آپ اگر قرآن وحدیث کی عمومی تعلیمات پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ عورتوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کردینا نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ مسلم معاشرے پر اس کے برے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ قرآن وحدیث کی تعلیمات پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کو فرائض وواجبات ادا کرنے کامکلف بنایا ہے،اسی طرح عورتوں کوبھی فرائض وواجبات ادا کرنے کی مکلف بنایا ہے۔اس معاملے میں دونوں برابر ہیں۔چنانچہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے کہ پانچ وقت کی نماز ادا کریں ،روزہ رکھیں ،اقامت ِدین کے لیے جدوجہد کریں،حرام چیزوں سے اجتناب کریں،حلال رزق کھائیں، بھلائیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں وغیرہ وغیرہ۔ان فرائض وواجبات میں مرد اور عورت برابر کے شریک ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نےقرآن میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا ہے بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ (تم دونوں ایک دوسرے کا حصہ اور شریک ہو) اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے: إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ (عورتیں مردوں کی شریک ہیں) اور قرآن نے جہاں جہاں يَا أَيُّهَا النَّاسُ اور يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (اے لوگو! یا اے ایمان والو) کہہ کر مخاطب کیاہے ،وہاں مردوں کی طرح عورتیں بھی مخاطب ہیں ۔ اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔قرآن نے مردوں اور عورتوں کو بیک وقت یہ حکم دیا ہے کہ دونوں مل جل کر معاشرے کی اصلاح کریں۔برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں اورنیکیوں کو عام کریں۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ     ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ     ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ     ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝ (التوبہ: 71) ”مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے“
اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے منافق مرداور منافق عورتوں کی صفت بیان کی ہے کہ منافق مرد کی طرح منافق عورتیں بھی مل جل کرمعاشرے میں فساد اوربرائیاں پھیلانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اس لیے مومن عورتوں کو بھی چاہیے کہ مومن عورتوں کے ساتھ مل کر معاشرے میں اصلاح اور بھلائی کے کام میں لگ جائیں ۔ تاریخی حقائق سےپتا چلتا ہے کہ اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے عہد کی عورتوں نے بھی اپنی ان ذمے داریوں کو بخوبی انجام دیا ہے۔چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حمایت اور موافقت میں سب سے پہلی آواز جو بلند ہوئی تھی وہ ان کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آواز تھی۔ اسلام کی سربلندی کی راہ میں سب سے پہلی شہید ہونے والی خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔متعدد صحابیات نے جنگوں اور غزوات میں شرکت کی اور وقت پڑنے پر تلوار بھی اٹھائی اورجنگ میں مشرکین وکفار کو قتل کیا۔اسلام کی نشرو اشاعت کے سلسلے میں جو ہجرت ہوتی تھی اس میں مردوں کےساتھ عورتیں بھی شریک تھیں۔آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ بعض ایسے فرائض ہیں جو صرف عورتوں کےلیے خاص ہیں اور بعض ایسے ہیں جو صرف مردوں کےلیے خاص ہیں۔لیکن عورتوں کے ساتھ صرف وہی فرائض خاص ہیں جنھیں اپنی جسمانی ساخت کی وجہ سے صرف عورتوں ہی انجام دے سکتی ہیں مثلاً حیض ونفاس یا حمل اور ولادت سے متعلق فرائض واحکام اور مردوں کے ساتھ صرف وہی فرائض خاص ہیں،جنھیں اپنی جسمانی ساخت کی وجہ سے صرف مرد ہی انجام دے سکتے ہیں،مثلاً نان ونفقہ کی ذمہ داری وغیرہ۔جو فرائض عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ فرائض جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں ان سب کی تفصیل قرآن وحدیث میں موجود ہے۔اب کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اوراپنی سمجھ کے مطابق عورتوں یا مردوں کے لیے،کسی فرض کو خاص کردے۔چونکہ سیاسی حقوق سے متعلق فرائض واحکام قرآن وحدیث میں صرف مردوں کے ساتھ خاص نہیں کیے گئے ہیں،اس لیے ہمارے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ ہم ان سیاسی حقوق کو مردوں کےساتھ خاص کرکے عورتوں کو ان سے محروم کردیں۔اور ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کہ کسی چیز کو حرام قراردینے کےلیے قرآن وحدیث کی واضح اورصریح دلیل ضروری ہے۔عورتوں پر سیاسی حقوق کو حرام قراردینے کے لیے قرآن وحدیث میں  کوئی بھی صریح اور واضح دلیل نہیں ہے۔ البتہ چند ضعیف احادیث ہیں لیکن اُن کی بنیاد پر ایک حلال چیز کو حرام نہیں کیا جا سکتا۔ خاص کر ایسے معاملے میں جس کا تعلق پورے معاشرے کے نفع ونقصان سے ہو ۔ یہ بڑے ستم کی بات ہوگی کہ ایک ضعیف حدیث پر عمل کرکے پورے مسلم معاشرہ کو نقصان پہنچایا جائے۔ضعیف حدیث کے علاوہ چند قرآنی آیات اورصحیح  حدیثیں ہیں لیکن ان کی تفسیر اور تشریح میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔اس لیے مختلف فیہ تفسیر کے ذریعہ کسی شے کو حرام قراردینا کسی صورت مناسب بات نہیں ہے۔کسی چیز کوحرام وحلال قراردینے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کے علاوہ ایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے زمانے کے حالات اور ماحول کی رعایت۔چنانچہ فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ زمانے کے بدلنے،حالات کے مختلف ہونے اور ماحول کے بدلنے سے فتوے بھی بدل جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کا زمانہ آج کی اکیسویں صدی سے بالکل مختلف تھا۔دونوں زمانوںکے حالات مختلف ہیں۔ اسی طرح مسلم ملک کا جو ماحول ہوتا ہے کسی کافر ملک کے ماحول سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ حالات کی ان تبدیلیوں سے فتوے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔اس بات پر خود  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی عمل رہا ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے آغاز میں ماحول اور ضروریات  کے لحاظ سے ایک حکم دیا اور جب ہجرت کے بعداسلام طاقت ورہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حکم سے بالکل مختلف حکم صادر فرمایا۔یہی رویہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی تھا۔حقیقت یہ ہے کہ  اسلامی شریعت اسی وجہ سے سب سے عمدہ اور بہترین شریعت ہے کہ اس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ زمانہ اور ماحول کے لحاظ سے احکام تبدیل ہوسکیں۔
ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔وہ یہ کہ دورحاضر کے سیکولر حضرات عورتوں کے مسائل میں خصوصی دلچسپی اور جوش وولولہ دکھانے گئے ہیں۔انھیں ذرا بھی عورتوں کی حق تلفی کا علم ہوتا ہے تو اپنے سارے ہتھیار لے کر میدان میں کود پڑتے ہیں اور حق تلفی کرنے والوں کے خلاف برسرپیکار ہو جاتےہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم امت نے اپنی عورتوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں اور حق تلفیاں کی ہیں۔انھیں  فتنوں کے ڈرسے تعلیم میں پیچھے رکھا۔ انھیں گھر کے اندر قید کردیا اور ان پر بے جا پابندیاں عائد کردیں۔جب یہ سیکولر حضرات مسلم عورتوں کی یہ زبوں حالی اور پسماندگی دیکھتے ہیں توا نھیں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہراگلنے کا بڑا اچھا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام عورتوں کا دشمن ہے،اور جو رویہ ہم اپنی عورتوں کےساتھ اختیار کرتے ہیں اسے دیکھ کر دنیا والے بھی فوراً یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی اسلام عورتوں کا دشمن ہے۔
 اس لیے میں اپنی اُمت کے عالموں اور دانشوروں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں۔جو غلطیاں پہلے ہوچکی ہیں ان کی تلافی کریں۔بہت سارے ایسے میدان ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنی عورتوں کو ان سے دوررکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان میں ایک سیاست کا میدان ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے میں قرآن وسنت کا صحیح حکم معلوم کریں تاکہ دوبارہ ایسی غلطی نہ ہو،جس سے ہماری امت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے اور ہم سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہ کرسکیں۔
آپ یقین کریں کہ قرآن اور صحیح حدیثوں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جوعورتوں کو سیاسی حقوق استعمال کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکتی ہو۔آج کا جو سیاسی سسٹم ہے اس میں عورتیں ووٹ دینے کا حق استعمال کرسکتی ہیں، پارلیمنٹ،اسمبلی اور شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں اور حکومت کو سیاسی مشورے دے سکتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ عام طور پر مسلمانوں کا ذہن میری اس رائے کو قبول نہیں کرے گا کیونکہ عورت کا سیاست میں حصہ لینا ان کے نزدیک گناہ عظیم ہے۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کسی بھی معاملے کو حرام اور گناہ قراردینے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح  اور صریح دلیل ضروری ہے۔محض اس وجہ سے کوئی چیز حرام نہیں ہوسکتی کہ ہمارا ذہن اسے قبول نہیں کررہا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے کون سے دلائل پیش کرتے ہیں اور کیا واقعی یہ دلائل قابل قبول ہیں؟
(1) ان کی پہلی دلیل قرآن کا یہ حکم ہے: وَقَرْنَ فى بُيُوتِكُنَّ (اور اپنے گھروں ہی میں رہا کرو) اس آیت کی روشنی میں عورتوں کا بلاوجہ گھر سے باہرنکلنا جائز نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے یہ دلیل ناقابلِ قبول ہے اس لیے کہ:
(الف) سیاق وسباق سے واضح ہے کہ اس حکم کی مخاطب عام عورتیں نہیں بلکہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں۔ اسی سیاق وسباق کی ابتدا میں اللہ ان سے فرماتا ہے کہ: يـٰنِسآءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسآءِ(اے نبی کی بیویو!تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو) اور ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو جو رتبہ ومنزلت حاصل ہے اس کالازمی تقاضا ہے کہ ان کا رہن سہن عام عورتوں کی طرح نہ ہو۔اسی بنا پر انھیں حکم دیا گیا کہ ان کا زیادہ وقت گھروں میں گزرے۔
(ب) اس حکم کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  جنگ جمل کے موقع پر گھر سے باہر بلکہ مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئیں اور انھوں نے پوری فوج کی قیادت کی۔معلوم ہوا کہ دینی واجبات کی ادائی کی خاطر گھر سے باہرنکلنا بھی ایک دینی فریضہ ہے۔
(ج) اس حکم کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ عورتیں گھرکے اندر مقید رہتی ہیں۔علماء نے انھیں مختلف ضروریات کی تکمیل کے لیے گھرسے باہرنکلنے کی اجازت دی ہے ۔ اور عورتیں ان ضروریات کی تکمیل کے لیے نکلتی ہیں۔پھر آخر سیاسی واجبات کی ادائیگی کے لیے انھیں گھر سے نکلنے سے کیوں محروم کیا جارہا ہے۔
(د) گھر کے اندر ہی رہنا اور گھر سے باہر قدم نہ نکالنا تو ایک سزاہے جسے اللہ تعالیٰ نے زنا کارعورت کے لیے تجویز کیا تھا ۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے سورہ نساء کے حوالے سے عرض کرچکے ہیں۔اگر ہم نے تمام عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت سے محروم کردیا توگویا ہم انہیں زنا کار عورت کی سزا دےرہے ہیں۔
(ہ) صورت حال یہ ہے کہ سیاسی میدان سے دین دار قسم کی عورتیں غائب ہوچکی ہیں اور ان کی جگہ وہ عورتیں اس میدان میں ہیں جنھیں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ظاہر ہے اس قسم کی دنیادار عورتیں پارلیمنٹ میں جاکر اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے کوئی کام نہیں کرسکتیں بلکہ اس کے برعکس وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔کیا اب ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ میں ہماری دین دار اور پرہیزگار قسم کی عورتیں بھی ہونی چاہییں تاکہ وہ ایک طرف مسلم عورتوں کے مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرسکیں اور دوسری طرف پوری مسلم امت کے مفاد میں کام کرسکیں۔ذرا غور کیجئے کہ ایک مسلم عورت اپنی ذاتی ضروریات کی تکمیل کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے،بازار جاسکتی ہے اور سفر کرسکتی ہے تو پوری مسلم قوم کے مفاد کے لیے گھر سے باہر کیوں نہیں نکل سکتی؟
(2) بعض لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سیاسی سرگرمیوں میں مسلم عورتوں کی شرکت کی وجہ سے مختلف فتنے جنم لے سکتے ہیں۔مثلاً بے پردگی،مردوں سے اختلاط اور کبھی مردوں کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا وغیرہ۔چونکہ یہ چیزیں حرام ہیں اس لیے سیاسی سرگرمیاں بھی حرام ہیں۔
یہ دلیل بھی کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔یہ تو محض اندیشے اور حددرجہ احتیاط والی بات ہوئی اور تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ اندیشوں اور حددرجہ احتیاط کے چکر میں پڑ کرمسلم امت نے اپنا  بڑا نقصان کیا ہے ۔ اس طرح کےاندیشے فتنوں کو دبانے کے بجائے انھیں اُبھارتے ہیں۔اگر ہم اپنی عورتوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیں گے تو مسلمانوں کا بہت سارا قیمتی ووٹ ضائع ہوجائےگا۔جواگراستعمال ہوتا تو شاید پارلیمنٹ میں کوئی اچھا مسلمان منتخب ہوکرجاتا اور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا۔اسی طرح اگر ہم اپنی عورتوں کو الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کی ممبر بننے سے روک دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں وہ عورتیں جائیں گی جنھیں دین اور مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور وہ عورتوں کے لیے ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کریں گی،جو اسلام کے خلاف ہیں۔کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ پارلیمنٹ میں ہمارے مرد اورہماری عورتیں جائیں تاکہ وہ ہمارے مفاد کے لیے کام کرسکیں۔
جہاں تک فتنوں،بے پردگی اورمردوں کے ساتھ اختلاط کی بات ہے تو میں بھی ان کے حق میں نہیں ہوں لیکن ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ پردے میں رہ کراوردوسرے اسلامی آداب کا خیال رکھتے ہوئے ہماری عورتیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں ۔ خصوصاً وہ عورتیں جو پختہ عمر کو پہنچ چکی ہیں اور بچوں کی تعلیم وتربیت سے فارغ ہوچکی ہیں اور پڑھی لکھی ہونے کے باوجود گھروں میں خالی بیٹھ کر اپناقیمتی وقت برباد کررہی ہیں۔یہ عورتیں اگر مسلمانوں کےمفاد کے لیے سیاست کے میدان میں آتی ہیں تو اس سے ایک طرف یہ فائدہ ہوگا کہ ہماری عورتوں کے مسائل اسلامی قوانین کی روشنی میں حل کیے جاسکیں گے اور دوسری طرف یہ فائدہ ہوگا کہ اس طرح ہماری عورتوں کا امیج(Image) بہتر ہوگا جو کہ فی الحال کافی خراب ہے۔
(3) ان کی تیسری دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے: لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً (وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے عورت کو اپنا حکمران بنایا۔)
اس حدیث میں یہ خبر دی گئ ہے کہ عورت کو حکمران بنانے والی قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس لیے عورتوں کو کسی قسم کا سیاسی منصب عطا کرناجائزنہیں ہے۔دوسری بات یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر"قوامیت" عطا کی ہے نہ کہ عورتوں کو مردوں پر۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ  ۭ (النساء: 34)
”مرد نگہبان ہیں عورتوں پر اس لیے اللہ نے بعض کوبعض پر فضیلت بخشی ہے اور اس لیے کہ یہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں(یعنی نان ونفقہ کی ذمے داری مردوں پر ہے)“
عورتوں کو کسی قسم کا سیاسی منصب عطا کرنے کا مطلب ہے کہ انھیں مردوں پر قوامیت عطا ہوگئی اور یہ بات اللہ کےمنشا کے خلاف ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو سیاسی حقوق سےمحروم کرنے کے لیے مذکورہ حدیث اور مذکورہ آیت کو بطور دلیل پیش کرنا سراسرغلط ہے۔کیونکہ ان دونوں میں عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کی جس قوامیت کا تذکرہ کیا ہے وہ محض خانگی زندگی تک محدود ہے۔مرد صرف اپنی فیملی اورگھر کی حدود میں نگہبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ایک عورت گھر کی نگہبان نہیں ہوسکتی اور  اس کیوجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ مرد ہی پر نان ونفقہ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ نان ونفقہ کی ذمے داری والی بات صرف گھر ہی تک محدود ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کی جس قوامیت کا اللہ نے ذکر کیا ہے ،وہ صرف گھر تک محدود ہے۔مرد اپنے گھر کے حدود میں قوام ہوتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرداپنی قوامیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی من مانی کرتا پھرے ۔ کیونکہ قرآن کی دوسری آیتوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ثابت ہے کہ اس قوامیت کےباجود شوہر کوگھریلو معاملات میں اپنی بیوی سے مشورے کی 
تا کیدکی گئی ہے۔اس لیے اس آیت سے یہ ثابت کرنابالکل غلط ہے کہ عورتوں کو سیاسی منصب عطا کرنا جائز نہیں ہے۔رہی وہ حدیث جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ عورتوں کو حکمران بنانے والی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی تو اس میں جس چیز سے خبردار کیا گیا ہے۔وہ ہے عورتوں کی ”ولایت“ ایسی حکمرانی جس میں حکمران تمام سیاہ وسپید کا مالک ہوتا ہے اور جسے ہم مطلق العنان حکمران کہتے ہیں۔حدیث کا سیاق وسباق یہ ہے کہ کسریٰ کی موت کے بعد اہل فارس نے اس کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا تھا۔اہل فارس کے کسریٰ کس قسم کے مطلق العنان حکمران ہوا کرتے تھے،سبھی جانتے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوقوم اس طرح کی مطلق العنانی عورتوں کو سونپے گی وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ دورحاضر میں جب کہ جمہوریت کا دوردورہ ہے کوئی صدر یا وزیر اعظم یاکسی قسم کاسیاسی اہلکار نہ مطلق العنان ہوتا ہے اور نہ ہی ملک کا سیاہ وسپید اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔صدر ہویا وزیر اعظم حکومت چلانے کے لیے یہ سب اپنے وزراء اور عوام سے باہمی مشورے کرتے ہیں۔حکومت پر فائز لوگوں کو ہرآن مخالف سیاسی پارٹی کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے ۔ یعنی دور حاضر میں بڑے سے بڑا سیاسی منصب مطلق العنانیت نہیں عطا کرتا ہے ۔ اس لیے اس حدیث کی بنیاد پر عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کردینا صحیح نہیں ہے۔
علاوہ ازیں بعض علمائےکرام اس حدیث کو صرف کسریٰ کی بیٹی کے ساتھ خاص مانتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صرف اہل فارس اور کسریٰ کی بیٹی کے سلسلے میں فرمائی ہے۔یہ کوئی عمومی بات نہیں ہے کہ جب جب عورتیں حکمراں بنیں گی تب تب قوم تباہ وبرباد ہوگی۔اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں بے شمار ایسی حکمران عورتوں کے واقعات درج ہیںجنھوں نے مردوں سے زیادہ حسن وخوبی سے حکومت کی اور اپنی قوم کو فلاح وبہبود سےہمکنار کیا۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری حکمران عورتوں کے لیے یہ بات کہی ہوتی تو تاریخ میں اس طرح کی کامیاب حکمران عورتوں کے واقعات درج نہ ہوتے۔قرآن نے بھی ایک ایسی حکمران عورت یعنی ملکہ سبابلقیس کا واقعہ تعریف و توصیف میں بیان کیا ہے۔ملکہ سبا بلقیس نے کمال حکمت ودانائی کے ساتھ حکومت کی اور سلیمان علیہ السلام  کےساتھ دانشورانہ معاملہ کیا حتی کہ اس نے اسلام قبول کرلیا اور اپنی قوم کو تباہی وبربادی سے بچالیا۔یہ حکمران عورت اپنی قوم کے لیے باعث تباہی نہیں بلکہ باعث فلاح ثابت ہوئی۔
ان دلیلوں کے علاوہ کچھ عقلی دلیلیں بھی پیش کی جاتی ہیں مثلاً یہ کہ عورتوں کے اندر جذباتیت زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ کسی اہم سیاسی منصب کے لیے موزوں نہیں ہوسکتیں۔عورتیں صرف انھی کاموں کے لیے موزوں ہیں جو عورتوں سے متعلق ہیں مثلاً بچے پیدا کرنا ،ان کی پرورش کرنا اور امورخانہ داری سنبھالنا وغیرہ۔اس طرح کی دلیل پیش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ایسی جذباتیت صرف عورتوں میں نہیں بلکہ بہت سارے مردوں میں بھی ہوتی ہے۔ مرد بھی جذباتی ہوتے ہیں اور جذباتی انداز میں فیصلے کرتے ہیں اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
آپ نے دیکھ لیا کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے ایک بھی ایسی دلیل نہیں ہے جسے واضح اور دوٹوک کہا جاسکے۔بلکہ یہ بات اسلام کی عمومی تعلیمات کے خلاف ہے کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے کلیتہً روک دیا جائے۔بلکہ میں تو کہوں گا کہ عورتوں کی سیاسی سرگرمیوں کو ناجائز قراردینے کے لیے قرآن وحدیث میں کسی دلیل کا نہ ہونا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے لیے سیاسی سرگرمیاں جائز ہیں۔کیونکہ اگر یہ بات ناجائز ہوتی تو قرآن وحدیث میں اس کاذکر لازماً ہوتا۔
آج کے جمہوری دور میں کسی وزیراعظم ،وزیر،پارلیمانی ممبر یاکسی بھی منصب پر فائز شخص کی ذمے داریوں کا ایک بڑا حصہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے کاموں کی نگرانی کی جائے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا جائے۔معاشرے میں جرائم اور فسادات کی روک تھام کی جائے اور اربابِ حکومت کو حکومت چلانے کےلیے مفید مشورے دیے جائیں۔اور یہ سارے کام اور ذمہ داریاں وہی ہیں جنھیں قرآن اپنی زبان میں ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“ کہتا ہے۔اور حدیث میں ان کے لیے اس طرح کے الفاظ ہیں ”الدين النصيحة“ (دین نام ہے لوگوں کے لیے خیرخواہی کا) ان ذمے داریوں کو انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ   ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (التوبہ: 71)
”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار اور رفیق ہیں۔یہ سب مل کر بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربُرائی سے روکتے ہیں۔“
اور تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد میں مردوں اور عورتوں دونوں نے مل کر یہ ذمے داریاں نبھائی ہیں۔صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے سیاسی مشورے کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشوروں پر عمل کیا اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔یہ واقعہ بھی سب جانتے ہیں کہ مسجد میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دے رہے تھے۔کسی غلطی پر ایک عورت نے بھرے مجمع میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ٹوکا۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اورفرمایا ”أصابت إمرأة وأخطأ عمر (رضی الله عنہ) “(عورت نے صحیح کہا اورعمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے غلطی ہوگئی) اس طرح کی بےشمار مثالیں تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔
جب انفرادی طور پر عورت کو سیاسی مشورے دینے اور سیاسی محاسبہ کا حق حاصل ہے تو اجتماعی حالات میں اسے حق سے محروم کردینے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عورت اگر باصلاحیت اور اس قابل ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کی خیرخواہی کے لیے بہتر طریقہ سے اپنی ذمے داریاں نبھاسکتی ہے تو اسے اس کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کو فائدہ پہنچاسکے۔اوروہ اس بات کی حقدار ہے کہ اسے کوئی سیاسی یا غیر سیاسی منصب عطا کیا جائے۔چنانچہ ان ہی صلاحیتوں کودیکھتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خاتون حضرت الشفاء بنت عبداللہ العدویہ کو بازار کانگران اور محاسب مقرر کیا تھا۔دور حاضر کے لحاظ سے اس منصب کو ایک اعلیٰ عوامی منصب کے طور پر تصور کیا جاسکتا ہے ۔بلاشبہ اگر ہم نے کسی عورت کی صلاحیتوں کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا اور یہ عورت یوں ہی گھر میں بیٹھ کر اپناقیمتی وقت برباد کرتی تو اس کا مطلب یہ ہواکہ ہم نے اس عورت کو خدا داد صلاحیتوں کو ضائع کردیا اور یہ بات کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے۔
سب سے زیادہ خطرناک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دین دار اور باصلاحیت خواتین کو ہم ہرقسم کے سیاسی اور غیر سیاسی منصب کو حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ ان مناصب پر غیر دین دار اور مغرب پرست عورتیں فائز ہوجاتی ہیں جن کے کام کرنے کاڈھنگ بالکل غیر اسلامی ہوتا ہے اور پالیسیوں کےنفاذ میں انھیں اسلامی احکام کا ذرہ برابرخیال نہیں ہوتا ہے ۔کیا اچھاہوتا کہ ان مناصب پر ہماری دین داری اور با صلاحیت عورتیں فائز ہوتیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں کام کرتیں اورایسے قوانین بتاتیں جن سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملتی۔
(1) اس سلسلے میں ایران کی پارلیمنٹ ایک روشن خیال ہے ،جہاں عورتیں پردے میں رہتے ہوئے اور مکمل اسلامی آداب کا لحاظ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی ممبر بنی ہوئی ہیں۔ اور ملک کی تعمیر وترقی میں اپنے حصہ کا کردار ادا کررہی ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کردیںلیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے۔وارثوں کی نامزدگی اور وراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے ۔ یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اللہ اس سلسلے میں حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ  ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ   ۚ (النساء: 11)
”اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے سلسلے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں 
کے برابر ہونا  چاہیے۔“
اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کر ڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔  (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔  (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالیاوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل  طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ      ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائےگا۔لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)

پردہ اور پسند کی شادی
سوال: اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا بجز اس کے کہ صبر وشکر کر کے بیٹھ جائیں۔اول یہ کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی جس کا ایک خاص ذوق ہے اور جو اپنے دوست منتخب کرنے میں ان سے ایک خاص اخلاق اور ذوق کی توقع رکھتا ہے، فطرتاً اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ شادی کے لیے ساتھی بھی اپنی مرضی سے منتخب کرے۔ لیکن اسلامی پردے کے ہوتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنے بلکہ اس کے لیے وہ قطعاً دوسروں یعنی ماں یا خالہ وغیرہ کے دست نگر ہوتے ہیں۔ ہماری قوم کی تعلیمی حالت ایسی ہے کہ والدین عموماً اَن پڑھ اور اولاد تعلیم یافتہ ہوتی ہے اس لیے والدین سے یہ توقع رکھنا کہ موزوں رشتہ ڈھونڈ لیں گے ایک عبث توقع ہے۔ اس صورتحال سے ایک ایسا شخص جو اپنے مسائل خود حل کرنے اور خود سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو سخت مشکل میں پڑ جاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک لڑکی جو گھر سے باہر نہ نکلنے کی پابند ہو وہ کیونکر ایسی وسعت نظر، فراست اور عقل عام کی مالک ہو سکتی ہے کہ بچوں کی بہترین تربیت کر سکے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بیدار کر دے، اس کو تو دنیا کے معاملات کا صحیح علم ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اتنی ہی تعلیم بھی حاصل کر لے جتنی ایک بے پردہ لڑکی نے حاصل کی ہوتی ہے تو بھی اس کی ذہنی سطح کم ہوگی کیونکہ اسے اپنے علم کو عملی طور پر پرکھنے کا کوئی موقع ہی حاصل نہیں۔ امید ہے آپ اس مسئلہ پر روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں گے۔

جواب: آپ نے اسلامی پردے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے اولاً تو وہ ایسی خرابیاں نہیں ہیں کہ اس کی بناء پر آدمی لاینحل مشکلات میں مبتلا ہو جائے اور ثانیاً حیاتِ دنیوی میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی نہ پائی جاتی ہو۔ لیکن کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ اس کے صرف ایک یا دو پہلوؤں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر اس میں مصالح کو غلبہ حاصل ہے یا مفاسد کو۔ یہی اصول پردے کے بارے میں اختیار کیا جائے گا۔ اسلامی پردہ آپ کی رائے میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے لیکن فقط یہ مشکل کہ اس کی پابندی سے آدمی کو شادی کے لیے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی، پردے کی افادیت کو کم یا اس کی پابندی کو ترک کرنے کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ بلکہ اگر ہر لڑکے کو لڑکی کے انتخاب اور ہر لڑکی کو لڑکے کے انتخاب کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو اس سے اس قدر قبیح نتائج برآمد ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر خاندانی نظام جو کہ معاشرے کی مضبوطی اور پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اور ایک موہومہ مشکل کو حل کرتے کرتے بے شمار حقیقی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے۔
آپ کا یہ خیال کہ باپردہ لڑکی وسعت نظر اور فراست سے بے بہرہ ہوتی ہے درست نہیں ہے۔ اور اگر اسے بالفرض درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس میں پردے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک لڑکی باپردہ رہ کر بھی علم و فن میں کمال پیدا کرسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں پردے سے باہر ہو کر بھی ایک لڑکی علم و عقل اور فراست و بصیرت سے کوری رہ سکتی ہے۔ البتہ بے پردہ لڑکی کو یہ فوقیت ضرور ہوگی کہ وہ معلومات کے لحاظ سے چاہے وسیع النظر نہ ہو لیکن تعلقات کے لحاظ سے اس کی نگاہیں ضرور پھیل جائیں گی۔ ایسی حالت میں اگر موزوں ترین رفیقِ حیات کی تلاش میں کامیابی ہو بھی جائے تب بھی جو نگاہیں وسعت کی عادی ہو چکی ہوں انہیں سمیٹ کر ایک مرکز تک محدود رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
سوال: (۲) آپ کا جواب ملا۔ مگر مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ آپ نے اسے بالکل معمولی مسئلہ قرار دیا۔ کامیاب شادی کی تمنا تو ایک جائز خواہش ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا، جن کی وجہ سے ایک شخص کے لیے اپنی پسند کی لڑکی چننے کا راستہ بند ہو جائے میں انسانی مسرت اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے مضر سمجھتا ہوں اور دینِ فطرت کے منافی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ہمارے مروجہ طریقے کے مطابق عورت زیادہ سے زیادہ گھر کی منتظم ہوتی ہے اور خاوند کی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، لیکن دو افراد کے اپنے آپ کو پوری طرح ایک دوسرے کے حوالے کرنے اور زندگی کے فرائض ایک بار کی بجائے خوشی خوشی پورا کرنے کے جو امکانات اپنی پسند اور ذوق کی شادی کر لینے میں ہوتے ہیں وہ اس صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ اپنی پسند اور بصیرت استعمال کیے بغیر کسی دوسرے کے انتخاب پر شادی کر لی جائے۔
میرا خیال ہے کہ ایک نوجوان محض جنسی تسکین کا خواہش مند نہیں ہوتا، وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی کے لیے کچھ قربانی کرے، کسی سے محبت کرے، کسی کی خوشی کا خیال رکھے اور کوئی اس کی خوشی پر خوش ہو۔ اس جذبے کے فطری نکاس کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے اس نے تعلیم، اطوار، کردار اور دوسری خوبیوں کی بناء پر اپنی طبیعت کے مطابق حاصل کیا جائے (حقیقی محبت کسی کی باطنی خوبیوں کے دیکھنے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کہ شکل دیکھ لینے سے) اور یہ بات ناممکنات میں ہے کہ پہلے تو کسی کی شادی کرا دی جائے اور پھر اس سے مطالبہ کیا جائے کہ اب اسے ہی چاہو اور یوں جیسے تم نے اس کو خود پسند کیا ہے۔ اس فطری محبت کا راستہ بند کر لینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ اپنے لیے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔
پردے کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں ان میں حقیقتاً کردار دیکھ کر تلاش کرنا ممکن نہیں۔ لڑکے کے باپ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لڑکی کا پتہ چلاسکے، لڑکی کی والدہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ لڑکے کے متعلق براہ راست کچھ اندازہ لگا سکے۔ کیونکہ پردے کی وجہ سے ان افراد میں بھی تعلق اور آزادانہ گفتگو ناممکن ہے۔ (خود لڑکے اور لڑکی کا ملنا تو ایک طرف رہا) بڑی سے بڑی آزادی جو اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی شکل دیکھ لے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کی شکل چند سیکنڈ دیکھ لینے سے کیا ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے، اب تو تمام علماء نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ تمدنی ضروریات پوری کرنے کے لیے علم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے ضروری ہے۔ لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی کام کر سکتی ہیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پابندی کریں یا علم حاصل کریں۔ پردے کی پابند ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ طبقات الارض، آثار قدیمہ، انجینئرنگ اور تمام ایسے علوم جن میں سروے اور دور دراز سفر کی ضرورت ہوتی ہے، ان علوم کے لیے خواتین کس طرح کام کر سکتی ہیں جب کہ محرم کے بغیر عورت کا تین دن سے زائد کی مسافت پر نکلنا بھی منع ہے۔ اب کیا ہر جگہ وہ اپنے ساتھ محرم کو لیے لیے پھرے گی؟
یہ علوم تو ایک طرف رہے، میں تو ڈاکٹری اور پردے کو بھی ایک دوسرے کی ضد سمجھتا ہوں۔ اول تو ڈاکٹری کی تعلیم ہی جو جسمانیات کی نگاہیں پھیلا دینے والی معلومات سے پُر ہوتی ہے، حیا کے اس احساس کو ختم کر دینے کے لیے کافی ہے جس کی مشرقی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے، خواہ وہ ڈاکٹری پردے ہی میں سیکھی جائے اور پڑھانے والی تمام خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ دوم ڈاکٹر بننے پر ایک خاتون کو مریضوں کے لواحقین سے روابط کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے غیر مردوں سے بات چیت پر قدغن لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس کے پیش نظر اگر ہم خواتین کو ڈاکٹر بننے سے روکتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے گھروں کی مریض خواتین کے ہر مرض کے علاج کے لیے مرد ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی اور رائج الوقت نظریہ حیا کے مطابق یہ تو اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جائے گا۔
جناب عالی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان معاشرتی اور تمدنی الجھنوں کا اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے کیا حل ہے؟

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)


جواب: آپ کا دوسرا خط ملا۔ شادی کے معاملے میں آپ نے جو الجھن بیان کی ہے وہ اپنی جگہ درست ہی سہی، اس کا حل کورٹ شپ کے سوا اور کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس تفصیل کے ساتھ رفیقِ زندگی بنانے سے پہلے لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کے اوصاف، مزاج، عادات، خصائل اور ذوق و ذہن سے واقف ہونے کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں ایسی تفصیلی واقفیت دوچار ملاقاتوں میں، اور وہ بھی رشتہ داروں کی موجودگی میں حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے مہینوں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، تنہائی میں بات چیت کرنا، سیر تفریح، سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اور بے تکلف دوستی کی حد تک تعلقات پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ کیا واقعی آپ یہی چاہتے ہیں کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان اس اختلاط کے مواقع بہم پہنچنے چاہئیں۔ آپ کے خیال میں ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر ان معصوم فلسفیوں کا فی صدی تناسب کیا ہوگا جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ صرف رفیق زندگی کی تلاش میں مخلصانہ تحقیقاتی روابط قائم کریں گے۔ اور اس دوران میں شادی ہونے تک اس طبعی جذب و اجذاب کو قابو میں رکھیں گے جو خصوصیت کے ساتھ نوجوانی کی حالت میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے اپنے اندر رکھتے ہیں؟ بحث برائے بحث اگر آپ نہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ شاید دو تین فی صدی سے زیادہ ایسے لوگوں کا اوسط ہماری آبادی میں نہ نکلے گا۔ باقی اس امتحانی دور ہی میں فطرت کے تقاضے پورے کر چکے ہوں گے اور وہ دو تین فیصدی جو اس سے بچ نکلیں گے وہ بھی اس شبہ سے نہ بچ سکیں گے کہ شاید وہ باہم ملوث ہو چکے ہوں۔
پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی جو اس تلاش و تحقیق کے لیے باہم خلا ملا کریں گے وہ لازماً ایک دوسرے کو رفاقت کے لیے منتخب ہی کر لیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ ۲۰ فیصدی دوستیوں کا نتیجہ نکاح کی صورت میں برآمد ہو۔ ۸۰ فیصدی یا کم ازکم ۵۰ فیصدی کو دوسرے یا تیسرے تجربے کی ضرورت لاحق ہوگی۔ اس صورت میں ان ’’تعلقات‘‘ کی کیا پوزیشن ہوگی جو دوران تجربہ میں آئندہ نکاح کی امید پر پیدا ہو گئے تھے اور ان شبہات کے کیا اثرات ہوں گے جو تعلقات نہ ہونے کے باوجود ان کے متعلق معاشرے میں پیدا ہو جائیں گے؟
پھر آپ یہ بھی مانیں گے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ان مواقع کے دروازے کھولنے کے بعد انتخاب کا میدان لامحالہ بہت وسیع ہو جائے گا ایک ایک لڑکے کے لیے صرف ایک ہی ایک لڑکی مطمع نظر نہ ہو گی جس پر وہ اپنی نگاہ انتخاب مرکوز کر کے تحقیق و امتحان کے مراحل طے کرے گا اور علی ہذا القیاس لڑکیوں میں سے بھی ہر ایک کے لیے ایک ہی ایک لڑکا امکانی شوہر کی حیثیت سے زیر امتحان نہ ہوگا۔ بلکہ شادی کی منڈی میں ہر
 طرف ایک سے ایک جاذب نظر مال موجود ہوگا جو امتحانی مراحل سے گزرتے ہوئے ہر لڑکے اور ہر لڑکی کے سامنے بہتر انتخاب کے امکانات پیش کرتا رہے گا۔ اس وجہ سے اس امر کے امکانات روز بروز کم ہوتے جائیں گے کہ ابتداً جو دو فرد ایک دوسرے سے آزمائشی ملاقاتیں شروع کریں وہ آخر وقت تک اپنی اس آزمائش کو نباہیں اور بالآخر ان کی آزمائش شادی پر منتج ہو۔اس کے علاوہ یہ ایک فطری امر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ جو رومانی طرز کا کورٹ شپ کرتے ہیں ان میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے روشن پہلو ہی دکھاتے ہیں۔ مہینوں کی ملاقاتوں اور گہری دوستی کے باوجود ان کے کمزور پہلو ایک دوسرے کے سامنے پوری طرح نہیں آتے  اس دوران میں شہوانی کشش اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے شادی کر لینا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لیے دونوں ایک دوسرے سے ایسے ایسے پیمان وفا باندھتے ہیں، اتنی محبت اور گرویدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ شادی کے بعد معاملات کی زندگی میں وہ عاشق و معشوق کے اس پارٹ کو زیادہ دیر تک کسی طرح نہیں نباہ سکتے، یہاں تک کہ جلدی ہی ایک دوسرے سے مایوس ہو کر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ کیونکہ دونوں ان توقعات کو پورا نہیں کرسکتے جو عشق و محبت کے دور میں انہوں نے باہم قائم کی تھیں اور دونوں کے سامنے ایک دوسرے کے وہ کمزور پہلو آجاتے ہیں جو معاملات کی زندگی ہی میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔ عشق و محبت کے دور میں کبھی نہیں کھلتے۔
اب آپ ان پہلوؤں پر بھی غور کر کے دیکھ لیں۔ پھر آپ مسلمانوں کے موجودہ طریقے کی مزعومہ قباحتوں اور اس کورٹ شپ کے طریقے کی قباحتوں کے درمیان موازنہ کر کے خود فیصلہ کریں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کون سی قباحتیں زیادہ قابل قبول نظر آتی ہیں۔ اگر اس کے بعد بھی آپ کورٹ شپ ہی کو زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں تو مجھ سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس اسلام کے ساتھ آپ اپنا تعلق رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں جو اس راستے پر جانے کی اجازت دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔ یہ کام آپ کو کرنا ہو تو کوئی دوسرا معاشرہ تلاش
 کریں۔ اسلام سے سرسری واقفیت بھی آپ کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس دین کی حدود میں ’’کامیاب شادی‘‘ کا وہ نسخہ استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جسے آپ مباح کرنا چاہتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کے متعلق آ پ نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں بھی کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ فطرت نے عورت اور مرد کے دائرہ کار الگ رکھے ہیں۔ اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دینے کے لیے عورت کو جس بہتر سے بہتر تعلیم کی ضرورت ہے وہ اسے ضرور ملنی چاہیے اور اسلامی حدود میں وہ پوری طرح دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عورت کے لیے ایسی علمی و ذہنی ترقی بھی ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے جو عورت کو اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دیتے ہوئے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس معاملہ میں کوئی انتظامات نہ کرنا مسلمانوں کی کوتاہی ہے نہ کہ اسلام کی۔ لیکن وہ تعلیم جو مرد کے دائرہ کار کے لیے عورت کو تیار کرے عورت ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے آپ میری کتاب ’’پردہ‘‘ کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۵، عدد۴۔ جنوری ۱۹۶۱ء)

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

جواب: اس سوال کے ساتھ سائل نے پوری تفصیل کے ساتھ فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں، لہٰذا پہلے ہم ان دلائل کو یہاں نقل کردیتے ہیں:
(۱) حنفیہ کا استدلال حسب ذیل آیات اور احادیث سے ہے:
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں، پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو جو کچھ وہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے کریں، اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔‘‘
 (البقرہ۔ 234)
’’پھر اگر (تیسری بار شوہر نے بیوی کو) طلاق دے دی، تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الا یہ کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے‘‘۔
(البقرہ۔ 230)
’’پھر تم ان عورتوں کو اس سے مت روکو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ بھلے طریقے سے باہم رضامند ہوجائیں‘‘۔
(البقرہ۔ 232)
’’نافع ابن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حقدار ہے، اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حقدار ہے‘‘۔ (نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
ابی سلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرے باپ نے میرا نکاح ایک مرد سے کردیا ہے اور میں اسے ناپسند کرتی ہوں۔ آپ نے باپ سے فرمایا کہ نکاح کا اختیار تمہیں نہیں ہے اور لڑکی سے فرمایا کہ جاؤ جس سے تمہارا جی چاہے نکاح کرلو۔(نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
مالک نے عبدالرحمٰن سے، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حفصہ بنت عبدالرحمٰن کا منذر ابن زبیر سے نکاح کردیا۔ اس وقت عبدالرحمٰن شام میں تھے۔ جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے کہ کیا میری رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ تب حضرت عائشہؓ نے منذر ابن زبیر سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ جس معاملے کو آپ نے طے کردیا ہے، میں اس کی تردید نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ حفصہ منذر کے پاس ہی رہیں اور یہ طلاق نہ تھی۔
ابوداؤد اور نسائی نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا شوہر دیدہ عورت پر ولی کو کچھ اختیار حاصل نہیں ہے۔
نسائی اور احمد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول! میرے باپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ میرا بیاہ صرف اس لیے کردیا ہے کہ میرے ذریعے سے اسے ذلت سے نکالے۔ آپ ﷺ نے نکاح کی تنسیخ و استقرار کا حق لڑکی کو دے دیا۔ لڑکی نے کہا، میرے والد نے جو کچھ کیا ہے، میں اسے جائز قرار دیتی ہوں، میری خواہش صرف یہ ہے کہ عورتیں جان لیں کہ باپوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
(۲) اہل حدیث حضرات اپنی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کرتے ہیں:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے … پس اگر جھگڑا ہو تو جس عورت کا ولی نہ ہو تو سلطان اس کا ولی ہے۔
’’ ابو موسیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے، اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا جس عورت کا نکاح ولی یا حکام نہ کریں، اس کا نکاح باطل ہے۔
عکرمہ ابن خالد سے روایت ہے کہ ایک شوہر دیدہ عورت نے اپنا معاملہ ایک ایسے شخص کے سپرد کردیا جو اس کا ولی نہ تھا اور اس شخص نے عورت کا نکاح کردیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے نکاح کرنے اور کرانے والوں کو کوڑوں کی سزا دی اور نکاح منسوخ کردیا۔
’’حضرت علیؓ نے فرمایا جس عورت نے بھی اپنے ولی کے اذن کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ بلا اجازت ولی کوئی نکاح نہیں‘‘۔
امام شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ ، حضرت عمرؓ ، شریح اور مسروق نے فرمایا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔
ان دلائل پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی کا مسلک بالکل غلط ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دیئے ہیں؟ یا ایک حکم دوسرے حکم کو منسوخ کرتا ہے؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشا ٹھیک طور پر متحقق ہوسکتا ہے؟ پہلی شق تو صریحاً باطل ہے۔ کیوں کہ شریعت کا پورا نظام شارع کی حکمت کا ملہ پر دلالت کر رہا ہے اور حکیم سے متضاد احکام کا صدور ممکن نہیں ہے۔ دوسری شق بھی باطل ہے کیوں کہ نسخ کا کوئی مثبت یا منفی موجود نہیں ہے۔ اب صرف تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور ہمیں اس کی تحقیق کرنی چاہیے۔ میں دونوں طرف کے دلائل جمع کرکے شارع کا جو منشا سمجھ رہا ہوں وہ یہ ہے۔
۱۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیائے عورت۔ اسی بنا پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔
۲۔ بالغہ عورت (باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر یا اس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہوسکتا، خواہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضامندی نہ ہو، اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہوسکے۔
۳۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں، اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں  اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے، شارع نے اس کے نکاح کے لیے اس کی اپنی مرضی کے ساتھ اس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرلے، اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔
۴۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کرے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا، نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو نکاح نا منظور ہے تو عدالت اسے باطل قرار دے گی۔
۵۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اسکا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ ولی منظور کر لے تو نکاح برقرار رہے گا، نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔ اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بنا پر اس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہ کرتا ہو تو یہ نکاح فسخ کردیا جائے گا اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا ، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھہرادیا جائے گا اور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

جواب: عام طور پر ادلے بدلے کے نکاح کا جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے، وہ دراصل اسی شغار کی تعریف میں آتا ہے جس سے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے۔ شغار کی تین صورتیں ہیں اور وہ سب ناجائز ہیں۔
ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کے بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔
دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو مگر دونوں کے برابر برابر مہر (مثلاً ۵۰، ۵۰ ہزار روپیہ) مقرر کئے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کرلیا جائے۔ دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔
تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے گی، شریعت کے خلاف ہوگی۔ پہلی صورت کے ناجائز ہونے پر تو تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ البتہ باقی دو صورتوں کے معاملہ میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ لیکن مجھے دلائل شرعیہ کی بنا پر یہ اطمینان حاصل ہے کہ یہ تینوں صورتیں شغار ممنوع کی تعریف میں آتی ہیں اور تینوں صورتوں میں اس معاشرتی فساد کے اسباب یکساں طور پر موجود ہیں جن کی وجہ سے شغار کو منع کیا گیا ہے۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

کیا جن انسانوں ہی کی ایک قسم ہے
سوال: یہ بات غالباً آپ کے علم میں ہو گی کہ قرآن کے بعض نئے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں جن و انس سے مراد دو الگ الگ قسم کی مخلوق نہیں ہے بلکہ جنوں سے مراد دیہاتی اور انسانوں سے مراد شہری لوگ ہیں ۔ آج کل ایک کتاب ’’ابلیس و آدم‘‘ زیر مطالعہ ہے۔ اس میں دیگر جملہ دور ازکار تاویلات سے قطع نظر ایک جگہ استدلال قابل غور معلوم ہوا۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’سورہ اعراف (۷) کی آیت میں بنی آدم سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئیں گے اور سورہ انعام (۶) کی آیت میں جن و انس کے گروہ سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئے تھے۔ قرآن کریم میں جنات (آتشیں مخلوق) کے کسی رسول کا ذکر نہیں۔ تمام رسولوں کے متعلق حصر سے بیان کیا ہے کہ وہ انسان بنی آدم تھے اور انسانوں میں سے مردتھے۔ اس لیے جب ’’گروہ جن و انس‘‘ سے کہا گیا کہ تم میں سے (مِنْکُمْ) رسول آئے تھے، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’گروہ جن و انس‘‘ سے مقصود بنی آدم ہی کی دو جماعتیں ہیں۔ اس سے انسانوں سے الگ کوئی اور مخلوق مراد نہیں ہے‘‘۔ براہ کرم واضح کریں کہ یہ استد لال کہاں تک صحیح ہے۔ اگر جن کوئی دوسری مخلوق ہے اور اس میں سے رسول نہیں مبعوث ہوئے تو پھر مِنْکُمْ کے خطاب میں وہ کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟


جواب: جنوں کے بارے میں آیت أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْاالزمر39، 71 کی نقل کردہ تفسیر سے آپ کے ذہن میں جو الجھن پیدا ہوگئی ہے، اس کو آپ خود حل کر سکتے ہیں، اگر دو باتوں پر غور کریں۔
اول یہ کہ اگر دو گروہوں کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے خطاب کیا جا رہا ہو اور کوئی ایک چیز ان میں سے کسی ایک کے متعلق ہو، تو اس مجموعی خطاب کی صورت میں کیا اس چیز کو پورے مجموعہ کی طرف منسوب کرنا غلط ہے؟ اگر کسی عبارت میں اسے مجموعے کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو تو کیا اس سے یہ استد لال کرنا صحیح ہو گا کہ یہ سرے سے دو گروہوں کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک گروہ ہے؟ فرض کیجیے کہ ایک مدرسے میں کئی کلاسیں ہیں قصور ان میں سے ایک کلاس نے کیا ہے، مگر ہیڈ ماسٹر تادیباً تمام کلاسوں کو اکٹھا کر کے ان سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اے مدرسے کے بچو! تم میں سے کچھ لڑکوں نے یہ قصور کیا ہے‘‘ تو کیا اس سے استد لال کیا جا سکتا ہے کہ اس مدرسے میں سرے سے کلاسیں ہیں ہی نہیں بلکہ ایک ہی کلاس پائی جاتی ہے؟ اگر یہ استد لال صحیح نہیں ہے تو نقل کردہ استد لال بھی صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جن اور انس کے مجموعے کو خطاب فرما رہا ہے۔ مجموعے میں سے ایک گروہ کے اندر انبیا آئے ہیں۔ لیکن انبیا نے تبلیغ دین دونوں گروہوں میں کی ہے اور ان پر ایمان لانے کے لیے دونوں گروہ مکلف ہیں۔ اس لیے دونوں گروہوں سے مجموعی خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ تم میں سے انبیا آئے ہیں۔ محض اس طرز خطاب سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں گروہ الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب قرآن مجید متعدد مقامات پر صاف صاف یہ بتا چکا ہے کہ جن اور انس دو بالکل الگ قسم کی مخلوق ہیں، تو پھر محض أَلَمْ يَأْتِكُمْ سے یہ مفہوم نکالنا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا کہ جن بھی انسانوں ہی میں سے ہیں۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات کو لیجیے:
(۱) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ( 26 ) وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ( 27 ) (الحجر27:15۔26)
’’ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی پختہ مٹی سے پیدا کیا اور اس سے پہلے جنوں کو ہم نے آگ کی لپٹ سے پیدا کیا تھا‘‘۔
(۲) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ( 14 ) وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ ( 15 ) (الرحمٰن : 15:55۔14)
’’انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہوئی پختہ مٹی سے پیدا کیا اور جنوں کو آگ کی لپٹ سے‘‘۔
(۳) وَجَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاء الْجِنَّ (الانعام100:6)
’’اور لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے جن شریک ٹھہرالیے‘‘۔
(۴) وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ (الجن6:72 )’’اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے‘‘۔
(۵) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ( الکہف 50:18)
’’اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ سجدہ کرو آدم کو تو انہوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا اور وہ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کرگیا‘‘۔
(۶) قَالَ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (الاعراف12:7)
’’اس نے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے‘‘۔
(۷) يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ (الاعراف27:7)
’’اے بنی آدم ! شیطان ہر گز تمہیں اس طرح فتنے میں نہ ڈالنے پائے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا  وہ اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
(۸) يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء (النساء1:4)
’’اے انسانو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں ایک متنفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیں‘‘۔
(۹) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ( 28 ) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ ( 29 ) فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ( 30 ) إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ( 31 ) (الحجر  31:15۔28)
’’اور جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے پختہ گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ تو جب میں اسے پورا پورا بنادوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ پس ملائکہ سب کے سب سجدہ ریز ہوگئے۔ بجز ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا‘‘۔
ان آیات سے چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:
اول یہ کہ انسان، بشر، الناس اور بنی آدم قرآن میں ہم معنی الفاظ ہیں۔ اولاد آدم کے سوا قرآن مجید کسی انسانی مخلوق کا قطعاً ذکر نہیں کرتا۔ اس کی رو سے نہ کوئی انسان آدم سے پہلے موجود تھا اور نہ آدم کی اولاد کے ما سوا دنیا میں کبھی انسان پایا گیا ہے یا اب پایا جاتا ہے۔ یہ نوع آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی ہی سے پیدا ہوئی ہے اور اس کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے۔
دوم، یہ کہ جن ایک دوسری نوع ہے جس کا مادہ تخلیق ہی نوع انسانی سے مختلف ہے۔ نوع انسانی مٹی سے بنی ہے اور نوع جن آگ سے، یا آگ کی پھونک سے۔
سوم، یہ کہ نوع جن انسان کی تخلیق سے پہلے موجود تھی۔ اس نوع کے نمائندہ فرد کو نوع انسانی کے پہلے فرد کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس نے انکار کر دیا تھا۔ اس کا استدلال یہ تھا کہ میں من حیث النوع اس سے افضل ہوں کیوں کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور یہ مٹی سے بنایا گیا ہے۔
چہارم، یہ کہ جن ایسی مخلوق ہے جو انسان کو دیکھ سکتی ہے مگر انسان اس کو نہیں دیکھ سکتا۔
پنجم، یہ کہ مشرکین اپنی جہالت کی بنا پر اس مخلوق کو خدا کا شریک ٹھہراتے اور اس کی پناہ مانگا کرتے تھے۔
کیا اتنی تصریحات کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ محض أَلَمْ يَأْتِكُمْ مِّنْکُمْ کا خطاب جنوں اور انسانوں کو ایک نوع قرار دینےکے لیے کافی ہے؟ آخر وہ کون سے دیہاتی یا جنگلی یا پہاڑی انسان ہیں جو اولاد آدم سے خارج ہیں اور مٹی کے بجائے آگ سے پیدا کیے گئے ہیں؟ جو آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے پائے جاتے تھے جنہیں انسان نہیں دیکھ سکتا اور وہ انسان کو دیکھ سکتے ہیں؟ جنہیں مشرک انسانوں نے کبھی اپنا معبود بنایا ہے اور اللہ کا شریک ٹھہرا کر ان سے تعوذ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بے تکی تاویلیں صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو قرآن مجید کی پیروی کرنے کے بجائے اس سے اپنے خیالات کی پیروی کرانا چاہتے ہیں۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)


جواب: سوال کے پہلے جزو کے جواب میں یہ ذہن نشین کرلیجیے کہ عربی زبان میں تزکیہ نفس کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک پاک صاف کرنا، دوسرے بڑھانا اور نشوونما دینا۔ اس لفظ کو قرآن مجید میں بھی انہی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے پس تزکیہ کا عمل دو اجزاء سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ نفس انسانی کو انفرادی طور پر اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر ناپسندیدہ صفات اور بری رسوم و عادات سے پاک صاف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ پسندیدہ صفات کے ذریعہ سے اس کو نشونما دیا جائے۔
اگر آپ قرآن مجید کو اس نقطہ نظر سے دیکھیں اور حدیث میں اور کچھ نہیں تو صرف مشکوۃ ہی پر اس خیال سے نظر ڈال لیں تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ کونسی ناپسندیدہ صفات ہیں جن کو اللہ اور رسولﷺ دور کرنا چاہتے ہیں اور وہ کونسی پسندیدہ صفات ہیں جن کو وہ افراد اور سوسائٹی میں ترقی دینا چاہتے ہیں۔ نیز قرآن و حدیث کے مطالعہ ہی سے آپ کو ان تدابیر کی بھی پوری تفصیل معلوم ہوجائے گی جو اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور اس کے رسولﷺ نے استعمال کی ہے۔
اہل تصوف میں ایک مدت سے تزکیۂ نفس کا جو مفہوم رائج ہوگیا ہے اور اس کے جو طریقے عام طور پر ان میں چل پڑے ہیں وہ قرآن وسنت کی تعلیم سے بہت ہٹے ہوئے ہیں۔
دوسرے جزو کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے تو عالم بالا کے معاملے میں صرف رسولﷺ کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انہوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دنیا میں عملاً وہ نظام حق قائم کردیں جو برائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشونما دینے والا ہو۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)


جواب: آپ نے جن بڑے بڑے ’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطہ نظر اس مسئلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرہ سے بچایا جائے۔
جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا بھی عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو، وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کردیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گاؤ پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہوجائیں گے اور گائے کے تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے رہتے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا کہ ’’ُاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْل‘‘۔ پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کرلیں،لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اسی لیے ہندوستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھالے اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلہ کو اختیار کیا جو ہمارا ہے اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ہم میں سے ہے‘‘۔ یہ’’ہمارا ذبیحہ کھایا‘‘ دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام و قیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

خدا کے حضور دعا میں ہاتھ اٹھانا
سوال: مقامی حلقوں میں میرے خلاف بعد نماز ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ یہاں بہت زیادہ آبادی ایک ایسے مسلک کی پیروکار ہے جن کا امتیازی شعار ہی یہ ہے کہ دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔ یہ حضرات میرے خلاف اپنے اعتراض میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَخُفْیَۃ کے ارشاد کا تقاضا یہی ہے کہ دعا میں حد درجہ اخفا برتا جائے۔ بخلاف اس کے ہاتھ اٹھانے سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ بدیں وجہ دعا میں ہاتھ اٹھانا قرآن کے منشا کے خلاف ہے۔ نیز احادیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے کبھی اس کا التزام کیا ہو۔ اب عوام کو دلائل سے تو کچھ مطلب نہیں ہوتا وہ لکیر کی فقیری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چنانچہ مجھے صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ میں ان کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس حکم کے نافذ کرنے والوں میں بعض حضرات خوب اچھے تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ خیر یہ جاہلیت کے کرشمے ہیں۔ مجھے صرف مذکورۃ الصدر آیت کی روشنی میں اصل مسئلے کو سمجھائے۔‘‘؟


جواب: ان حضرات سے دریافت کیجیے کہ اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَخُفْیَۃ(اپنے رب کو پکارو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے) کا اگر وہی تقاضا ہے جو آپ لوگ سمجھتے ہیں تو یہ نماز کے لیے بلند آواز سے اذان، پھر اعلانیہ مسجدوں میں لوگوں کا مجتمع ہونا، پھر جماعت سے نماز پڑھنا، پھر نماز میں جہری قرات کرنا، یہ سب کچھ بھی تو پھر اس آیت کے خلاف قرار پائے گا۔ نماز اصل میں تو ایک دعا ہی ہے۔ اگر دعا کے لیے اخفا ایسا ہی لازمی ہے اظہار کی کوئی شکل اس میں ہونی ہی نہ چاہیے، تو ظاہر ہے کہ نماز باجماعت کی پوری صورت ہی اس کے خلاف ہے۔
پھر جو کچھ یہ حضرات فرماتے ہیں وہ حدیث کے بھی خلاف ہے۔ حدیث میں ہم کو نبی کریمﷺ کی یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب دعا مانگی جائے تو ہاتھ اٹھا کر مانگی جائے اور دعا سے فارغ ہو کر چہرے پر ہاتھ مل لیے جائیں۔ابو داؤد، ترمذی اور بیہقی میں اس مضمون کی متعدد روایات موجود ہیں۔ایک حدیث میں حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ:
اِنَّ رَبَّکُمْ حَییٌ کَرِیْمٌ یَسْتَحْی مِنْ عَبْدِہٖ اِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ اَنْ یَرُدَّھُمَا صِفْراً۔
تمہارا رب بڑا باحیا اور کریم ہے۔ بندہ جب اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ اس کو خالی ہاتھ واپس کردے۔
دوسری روایت میں حضرت عمرؓـ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب دعا مانگتے تھے تو ہاتھ اٹھا کر مانگتے تھے اور اس کے بعد اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔ حاکم نے مستدرک میں حضرت علی کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا اللہ کے آگے عاجزی اور مسکنت کے اظہار کے لیے ہے۔
اس میں شک نہیں کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں۔ اس بنا پر بعض علماء نے اس طریقے کو بدعت ٹھہرایا ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیاجائے، اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے اور اگر کبھی کبھی قصداً اس کو ترک بھی کر دیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ خدا سے دعا مانگنا بجائے خود تو کسی حال میں برا فعل نہیں ہوسکتا۔

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

رسموں کی شریعت
سوال: چند اشکال درپیش ہیں۔ ان کے متعلق شرعی رہنمائی چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ میرے اطمینان کے لیے حسب ذیل امور پر روشنی ڈالیں گے۔
ا۔ایک مفلس مسلمان اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے۔ افلاس کے باوجود دنیا والوں کا ساتھ دینے کا بھی خواہشمند ہے، یعنی شادی ذرا تزک و احتشام سے کرے وقتی سی مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی رہنمائی کیسے کی جائے؟
ب۔ ایک مقروض مسلمان جو تمام اثاثے بیچ کر بھی قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، بیٹے بیٹیوں کی شادی کرنا چاہے تو فریق ثانی کی طرف سے ایسی شرائط سامنے آتی ہیں جو بہرحال صرفِ کثیر چاہتی ہیں تو اس کے لیے کیا راہ عمل ہے۔
ج: عموماً لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں اس کا انتظار کیا جاتا ہے کہ دوسری طرف سے نسبت کے پیغام میں پہل ہو،چنانچہ اسی انتظار میں بعض اوقات لڑکیاں جوانی کو طے کرکے بڑھاپے کی سرحد میں جا داخل ہوتی ہیں اور کنواری رہ جاتی ہیں۔ اس معاملے میں اسلام کیا کہتا ہے ؟
د: موجودہ مسلمان شادی بیاہ، پیدائش اور موت کی تقریبات پر چھٹی، چلہ، باجہ ، منگنی، جہیز اور اسی طرح چالیسواں، قل وغیرہ کی جو رسوم انجام دیتے ہیں ان کی حیثیت شریعت میں کیا ہے۔


جواب (1) ایسا شخص جو خود جانتا ہے کہ وہ اتنا خرچ کرنے کے قابل نہیں ہے۔اور محض دنیا کے دکھاوے اور اپنی غلط خواہشات کی تسکین کی خاطراپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا چاہتا ہےوہ تو جان بوجھ کر اپنے آپ کو معصیت کے گڑھے میں پھینک رہا ہے۔اپنی غلط خواہش کی وجہ سےیا تو وہ سودی قرض لے گایا کسی ہمدرد کی جیب پر ڈاکہ ڈالے گا۔اور اگر اسے قرض حسنہ مل گیا، جس کی اُمید نہیں ہے، تو ا سے مار کھائے گا۔ اور اس سلسلے میں خدا جانے کتنے جھوٹ اور کتنی بے ایمانیاں اس سے سرزد ہوگی۔ آخر ایسے شخص کو کیا سمجھایا جاسکتا ہے جو محض اپنے نفس کی غلط خواہش کی خاطر اتنے بڑے بڑے گناہ جانتے بوجھتے اپنے سر لینے پر آمادہ ہے۔
ب: ایسے شخص کو اپنےلڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان لوگوں میں کرنی چاہیےجومالی حیثیت سےاسی جیسے ہوں اور جو اس کے لیے تیار ہوں کہ اپنی چادر سے نہ وہ خود زیادہ پاؤں پھیلائیں اور نہ دوسرے کوزیادہ پاؤں پھیلانے مجبور کریں۔اپنے سے بہترمالی حالات رکھنے والوں میں شادی بیاہ کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو خوامخواہ مشکلات میں مبتلا کرنا ہے۔
ج:یہ صورت تو کچھ فطری سی ہے، لیکن اس کو حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کی لڑکی جوان اور شادی کے قابل ہو چکی ہو اور اسے کوئی مناسب لڑکا نظر آئے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے پیغام دینے میں ابتداء کرے۔ اس کی مثالیں خود صحابہ کرام میں ملتی ہیں۔ اگر یہ بات حقیقت میں کوئی ذلت کی بات ہوتی تو نبی کریمﷺ اس کو منع فرما دیتے۔
د۔ یہ سب چیزیں وہ پھندے ہیں جو لوگوں نے اپنے گلے میں خود ڈال لیے ہیں، ان میں پھنس کر ان کی زندگی اب تنگ ہوئی جارہی ہے، لیکن لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ان کو کسی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ براہ راست ان رسموں کے خلاف کچھ کہا جائے، بلکہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف دعوت دی جائے،خدا اور رسول ﷺ کے طریقے پر لوگ آجائیں۔ تو بڑی خرابیاں بھی دور ہوں گی اور یہ چھوٹی چھوٹی خرابی بھی نہ رہیں گی۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
 اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا  کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
 اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا  کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردے۔بالکل غلط بات ہے یہ بات وہی کہہ سکتا ہے۔ جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ہے۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضائے رب رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے: 
فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝ (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ہے۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے   کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ۝  (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ      ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسااوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو۔ وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھروالوں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھربھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے مہر کی ذمے داری ہے۔ بیوی اور بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہے۔ اور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن اختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کر دیں ۔ لیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے ۔ وارثوں کی نامزدگی اوروراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے۔یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کرڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔  (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔  (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالی۔اوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل  طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ      ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائے گا لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)

معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے وہبی ہونے کامطلب نہیں سمجھا گیا اسی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوا ہے نیز آیات الہیٰ کے مشاہدے سے حق کی جستجو کرنا اور فلسفیانہ قیاس آرائیوں سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنا ایک دوسرے کا ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے۔یہ چیز بھی سائل کے لیے غلط فہمی کی موجب ہوئی ہے۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام وحی آنے سے پہلے جو علم رکھتے تھے اس کی نوعیت عام انسانوں سے مختلف نہ ہوتی تھی۔ ان کے پاس نزول وحی سے پہلے کوئی ایسا ذریعہ علم نہ ہوتا تھا جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہ ہو۔چناچہ فرمایا: مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ ( الشوری ۔ 52) ’’تم کچھ نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی (الضحٰی7:) ’’اور اللہ نے تم کو نا واقفِ راہ پایا، پھر تمہیں راستہ بتایا۔‘‘
اس کے ساتھ قرآن ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نبوت سے پہلے علم و معرفت کے انہی عام ذرائع سے،جو دوسرے انسانوں کو بھی حاصل ہیں، ایمان بالغیب کی منزل طے کرچکے ہوتے تھے۔ وحی آکر جو کرتی تھی وہ بس یہ تھا کہ پہلے جن حقیقتوں پر ان کا دل گواہی دیتا تھا، اب انہی کے متعلق وحی یقینی اور قطعی شہادت دے دیتی تھی کہ وہ حق ہیں، اور انہی صداقتوں کا عینی مشاہدہ کرادیا جاتا تھا تاکہ وہ پورے وثوق سے دنیا کے سامنے ان کی گواہی دے سکیں۔ یہ مضمون سورۃ ہود میں بار بار بہ تکرار بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ پہلے نبی کریمﷺ کے متعلق فرمایا:۔
اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَیَتْلُوْہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ وَمِن قَبْلِہِ کِتٰبُ مُوْسٰی إَمَامًا وَرَحْمَۃً ( ہود: 17)پھرکیا وہ شخص جو پہلے اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر تھا۔ (یعنی عقلی و فطری ہدایت پر) اس کے بعد خدا کی طرف سے ایک گواہ بھی اس کے پاس آ گیا (یعنی قرآن)۔ اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی رہنما اور رحمت کے طور پر موجود تھی(کیا وہ اس صداقت کے بارے میں شک کرسکتا ہے؟)پھر اس کے بعد یہی مضمون رکوع۳ میں حضرت نوح ؑ کی زبان سے ادا ہوتا ہے:
یٰـقَوْمِ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیَ وَآتَانِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ اَنُلْزِمُکُمُوْہَا وَاَنْتُمْ لَہَا کَارِہُوْنَ(ہود:28)
اے میری قوم کے لوگوں! غور تو کرو، اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر تھا، اور اس کے بعد اس نے اپنی طرف سے مجھ کو رحمت(وحی و نبوت) سے بھی نوازا، اور وہ چیز تم کو نظر نہیں آتی، تو اب کیا ہم زبردستی اسے تمہارے سرچپک دیں ؟ پھر اسی مضمون کو چھٹے رکوع میں حضرت صالح ؑ اور آٹھویں رکوع میں حضرت شعیب ؑ دہراتے ہیں۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وحی کے ذریعہ سے حقیقت کا براہ راست علم پانے سے پہلے انبیاء علیہم السلام مشاہدے اور غورو فکر کی فطری قابلیتوں کو صحیح طریقے پر استعمال کرکے (جسے اوپر کی آیات میں بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ سے تعبیر کیا گیا ہے) توحید و معاد کی حقیقتوں تک پہنچ جاتے تھے۔ اور ان کی یہ رسائی وہبی نہیں بلکہ کسبی ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ انہیں علم وحی عطا کرتا تھا، اور یہ چیز کسبی نہیں بلکہ وہبی ہوتی تھی۔
یہ مشاہدہ آثار اور غورو فکر، اور عقل عام (Common Sense) کا استعمال ان قیاس آرائیوں اور اس خرص و تخمین (Speculation) سے بالکل ایک مختلف چیز ہے جس کا ارتکاب فلاسفہ کیا کرتے ہیں۔یہ تو وہ چیز ہے جس پر قرآن مجید ہر انسان کو خود آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بار بار اس سے کہتا ہے کہ آنکھیں کھول کر خدا کی قدرت کے آثار کو دیکھو اور ان سے صحیح نتیجہ اخذ کرو۔سائل نے اپنے سوال میں جس آیت کی تفسیر کے متعلق اپنے شک کا اظہار کیا ہے خود اسی کے ماقبل و مابعد کا مضمون اگر وہ پڑھیں تو دیکھیں گے کہ وہاں بھی مقصود کلام یہی بتانا ہے کہ آیات الٰہی کے مشاہدے سے ایک غیر متعصب طالب حق کس طرح حقیقت تک پہنچ جاتا ہے۔(ترجمان القرآن جلد۲۵۔ عدد ۱، ۲ ،۳ ،۴)

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

آپ کا مطلب غالباً یہ ہے کہ ہر قوم صرف اسی دعوت پر ایمان لانے کی مکلف ہونی چاہئے جو اس کی اپنی زبان میں دی گئی ہو۔ دوسری کسی زبان میں آئی ہوئی دعوت، اگرچہ وہ حق ہو، اگر چہ وہ من جانب اللہ ہو، اگرچہ وہ ترجموں، تفسیروں، تشریحوں اور عملی نمونوں کے ذریعہ سے آپ تک پہنچ جائے پھر بھی وہ واجب الاتباع نہ ہونی چاہئے کیونکہ وہ آپ کی زبان میں نہیں بھیجی گئی ہے۔ اگر یہی آپ کا مطلب ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو مذکورہ بالا آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے سے پیدا ہوگئی ہے۔ آیت کا مقصد دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب کسی قوم میں کوئی رسول بھیجا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ رسول خاص اسی قوم کے لیے ہو یا تمام دنیا کے لیے، بہر حال اس نے اپنے اولین مخاطب لوگوں کو ان کی اپنی زبان ہی میں خطاب کیا ہے تاکہ وہ اس کی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان کو یہ حجت پیش کرنے کا موقع نہ ملے کہ ’’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کے لیے لازماً الگ ایک مستقل نبی ہی آنا چاہئے جو اس کو اس کی اپنی زبان ہی میں خطاب کرے۔اور نہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایک قوم کو دوسری قوم کے اہل ایمان اس کی اپنی زبان میں قابل فہم طریقہ سے خدائی تعلیم پہنچادیں، تب بھی وہ محض اس بنا پر اسے رد کردینے میں حق بجانب ہو کہ نبی خود براہ راست خدا کی کتاب اس کی زبان میں لے کر نہیں آیا ہے۔ یہ بات نہ اس آیت میں کہی گئی ہے اور نہ اس کے الفاظ میں ایسی کوئی گنجائش ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے۔آخر کون سی معقول وجہ اس بات کے لیے پیش کی جاسکتی ہے کہ جس شخص کو قرآن کی تعلیم کا لب لباب اس کی مادری زبان میں واضح طور پر پہنچ گیا ہو وہ اس پر ایمان لانے میں حق بجانب ہو؟
عربی قرآن تو صرف عربوں کے لیے ہونا  چاہیے

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

آپ کے جن سکھ دوست نے یہ اعتراض کیا ہے وہ اگر اپنے تخیل کو تھوڑی حرکت اور دیتے تو اس سے بڑھ کر وہ یہ سوال بھی کرسکتے تھے کہ قرآن کا ایک ایک نسخہ براہ راست ایک ایک انسان کے پاس خدا نے کیوں نہ بھیجا؟ کیونکہ جب وہ قادر مطلق ہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔دراصل یہ لوگ اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں فرمایا ہے جس سے دنیا کے اس انتظام کو بدلنے کی ضرورت پیش آئے جو اپنی فطری رفتار پر چل رہا ہے۔ انسانوں میں زبا ن کا اختلاف اور اس بناپر نوع انسانی میں چھوٹے اور بڑے حلقے بن جانا ایک فطری چیز ہے۔ جو خوداللہ تعالیٰ ہی کی مشیت کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس میں بے شمار مصلحتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرنا چاہتا وہ اگر قادر مطلق ہے تو اس ساتھ وہ حکیم بھی ہے،اس کی سلطنت کا نظا م اٹل قوانین پر چل رہا ہےانہیں قوانین کے تحت قوموں کی زبانوں اور ان کی روایات میں تنوع نمودار ہوتا ہے اگر اس پرانٹو کی قسم کی کوئی زبان اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کی جاتی تب بھی وہ نہ تو قوموں کی مادری زبان بن سکتی تھی نہ اس کے ادب سے قلو ب متاثر ہو سکتے تھے، اور نہ لوگ اس کی ادبی نزاکتوں کو محسوس (Appreciate) کر سکتے تھے، الا یہ کہ قوموں کی مادری زبانوں کو اللہ تعالیٰ فوق الفطری سے مٹادیتا ہے  اور فوق الفطرت طریقے ہی سے اس اسپرانٹو کو زبردستی تمام قوموں کی زبان بنادیتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک کام اس کے دوسرے کام کو مٹانے کے لیے نہیں ہوتا،اس وجہ سے انسانی زبان کے سابق فطری نظام کو برقرار رکھتے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا کام انجام دیا ہے۔
یہ اعتراض کہ عربی میں قرآن شریف صرف عربوں کے لیے مفید ہوسکتا تھاہے، اسی صورت میں صحیح ہوسکتا ہےجب کہ اللہ نے صرف اپنی کتاب نازل کی ہوتی۔لیکن امر واقعہ یہ کہ اللہ نے اپنی کتاب کے ساتھ رہنما بھی پیدا کیا۔ اس رہنما نے پہلے انسانوں کی ایک قوم کو جس کی زبان میں کتاب نازل ہوئی تھی، خطاب فرمایا اور اس قوم کو تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس نظام کے سانچے میں ڈھال دیا جو کتاب کے منشاء کے مطابق تھا۔ پھر اس قوم کے سپرد یہ خدمت کی کہ وہ دنیا کی دوسری قوموں کو نبی کی قائم مقام بن کر اسی طرح خطاب کرے اور اسی طرح تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے جس میں پہلے وہ خود ڈھالی گئی تھی۔ پھر جو جو قومیں اس طر یقے سے اس اثر کو قبول کرتی جائیں وہ دوسری قوموں کے لیے یہی خدمت انجام دیں۔ یہ اس تعلیم کو عام کرنے کی فطری راہ تھی اور دنیا میں جس تحریک نے بھی عالمگیر دعوت کا کام انجام دیا ہے، خواہ وہ خدا پرستانہ ہو یا کسی دوسری نوعیت کی، بہر حال اس نے فطرتاً یہی راہ اختیار کی ہے۔اگر یہ اصول تسلیم کرلیا جائے کہ کوئی کتاب صرف اسی قوم کے لیے مفید ہے جس کی زبان میں یہ لکھی گئی ہو تو پھر دنیا کی علمی تاریخ کو غلط تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر تو انسانی تصنیفات کو بھی زبانوں کے لحاظ سے قوموں کے لیے مخصوص کردینا ہوگا اور ترجمہ اور بین الاقوامی تبلیغ کے تمام دوسرے ذرائع کے فائدے سے انکار کردینا ہوگا۔ حالانکہ یہی چیزیں ہیں جن کے بل پر بڑی بڑی تحریکوں کی دعوت اور بڑی بڑی انقلابی شخصیتوں کے پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلتے رہے ہیں۔ پھر محمدﷺ کی پیش کردہ کتاب ہی نے کیا قصور کیا ہے کہ محض عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اسے عرب قوم کے لیے مخصوص اور محدود کردیا جائے۔اگر کوئی شخص اس چیز سے مطمئن نہ ہو اور برابر اپنے اس اصرار پر قائم رہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اسی طرح اللہ کو کام کرنا چاہئے تھا تو اسے اپنی رائے پر جمے رہنے کا اختیار حاصل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسے ایسے سوالات کو سدراہ بنا کر اگر ایک شخص ایک کتاب یا ایک پیغام سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا تو نقصان کس کا ہے؟ یہ رویہ طالبان حق و صداقت کا نہیں ہوتا۔ وہ تو جگہ جگہ ٹوہ لگاتے پھرتے ہیں کہ سچائی کی روشنی کہاں ہے اور کہاں سے ملتی ہے۔ اگر آدمی دنیا کی ہر کتاب، ہر پیغام اور ہر تعلیم کے مقابلہ میں دل و دماغ پر کسی نہ کسی قسم کا قفل چڑھالے تو پھر وہ ایک قدم بھی زندگی کی سیدھی راہ پر نہیں چل سکتا۔(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال۶۴ھ، جولائی، اکتوبر۴۴ء 

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

ختم نبوت
سوال: میرے ایک دوست ہیں جو مجھ سے بحث کیا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے ایک رشتہ دار جو مرزائی ہیں ان کو اپنی جماعت کی دعوت دیتے ہیں مگر وہ میرے دوست ان کے سوال کا جواب پوری طرح نہیں دے سکتے۔انہوں نے مجھ سے ذکر کیا۔ میں خود تو جواب نہ دے سکا۔ البتہ میں نے ایک صاحب علم سے اس کا جواب پوچھا۔ مگر کوئی ایسا جواب نہ ملا جس سے کہ میری اپنی ہی تسلی ہوجاتی۔ اس لیے اب آپ سے پوچھتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مرزائی حضرات لفظ ’’خاتم‘‘ کے معنی نفی کمال کے لیتے ہیں نفی جنس کے نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خاتم کا لفظ کہیں بھی نفی جنس کے ساتھ استعمال نہیں ہوا اگر ہوا ہو تو مثال کے طور پر بتایا جائے۔ ان کا چیلنج ہے کہ جو شخص عربی لغت میں خاتم کے معنی نفی جنس کے دکھادے اس کو انعام ملے گا۔ نفی کمال کی دو مثالیں وہ یہ دیتے ہیں کہ مثلاً کسی کو خاتم الاولیاء کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولایت اس پر ختم ہوگئی، بلکہ حقیقی مطلب یہ ہوتا ہے کہ ولایت کا کمال اس پر ختم ہوا۔ اقبال کے اس فقرے کو بھی وہ نظیر میں پیش کرتے ہیں:آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاں آباد میں اس کے بعد کوئی شاعر پیدا نہیں ہوا، بلکہ یہ ہے کہ وہ جہاں آباد کا آخری باکمال شاعر تھا۔اسی قاعدے پر وہ خاتم النبیین کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ نبی کریمﷺ پر کمالات نبوت ختم ہوگئے نہ یہ کہ خود نبوت ہی ختم ہوگئی۔

آپ کا عندیہ نامہ مورخہ۳ مارچ ۵۰ء مجھے یہاں یکم اپریل کو ملا۔ جواب میں مزید تاخیر اس لیے ہوئی کہ میرے پاس خط لکھنے کا کاغذ نہ تھا امید ہے کہ میری مجبوری کو پیش نظر رکھ کر تاخیر جواب سے درگزر فرمائیں گے۔
قرآن مجید کی کسی آیت کے متعلق اگر کوئی سوال پیدا ہو تو سب سے پہلے خود قرآن ہی سے اس کا مفہوم معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے بعد تحقیق کرنا چاہئے کہ کوئی حدیث صحیح بھی اس کی توضیح کرتی ہے یا نہیں۔ اگر ان دونوں ذرائع سے کوئی جواب نہ ملے (جس کا امکان بہت ہی کم ہے) تو البتہ کسی دوسرے ذریعہ کی طرف رجوع کرنا درست ہو سکتا ہے۔
ختم نبوت کا ذکر سورۃ احزاب میں آیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ عرب میں منہ بولے بیٹے کو بالکل بیٹے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ وہ حقیقی بیٹے کی طرح میراث پاتا تھا۔ منہ بولے باپ کی بیوی اور بیٹیوں سے اسی طرح خلا ملا رکھتا تھا جس طرح ماں بیٹے اور بھائی بہنوں میں ہوا کرتا ہے اور متبٰنی بن جانے کے بعد وہ ساری حرمتیں اس کے اور منہ بولے باپ کے درمیان قائم ہوجاتی تھیں جو نسبی رشتے کی بنا پر قائم ہوا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس رسم کو توڑنا چاہتا تھا۔ اس نے پہلے حکم دیا کہ ’’منہ سے کسی کو بیٹا کہہ دینے سے کوئی شخص حقیقی بیٹا نہیں ہوجاتا۔‘‘ (سورۃ احزاب، آیت ۴۔۵) لیکن دلوں میں صدیوں کے رواج کی وجہ سے حرمت کا جو تخیل بیٹھا ہوا تھا وہ آسانی سے نہیں نکل سکتا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اس رسم کو عملاً توڑ دیا جائے۔ اتفاق سے اسی زمانہ میں یہ واقعہ پیش آگیا کہ حضرت زیدؓ نے (جو نبی کریمﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے) حضرت زینب کو (جو ان کے نکاح میں تھیں) طلاق دے دی۔ نبی کریم ﷺ نے محسوس فرمایا کہ یہ موقع ہے اس سخت قسم کی جاہلی رسم کو توڑنے کا، جب تک آپ خود اپنے متبٰنی کی مطلقہ بیوی سے نکاح نہ کریں گے متبٰنی کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھنے کا جاہلی تخیل نہ مٹ سکے گا۔ لیکن آپ یہ بھی جانتے تھے کہ مدینہ کے منافقین اور اطراف مدینہ کے یہود اور مکہ کے کفار اس فعل پر ایک طوفان عظیم برپا کردیں گے اور آپ کو بد نام کرنے اور اسلام کو رسوا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ اس لیے آپ عملی اقدام کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود ہچکچا رہے تھے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا اور آپ نے حضرت زینبؓ کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ اس پر جیسا کہ اندیشہ تھا اعتراضات اور بہتان طرازی اور افترا پردازی کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور خود مسلمان عوام کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ انہی اعتراضات اور وسوسوں کو دور کرنے کے لیے سورۃ احزاب کے پانچویں رکوع کی (آیات۳۷۔۴۰ )نازل ہوئیں۔ان آیات میں پہلے تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ نکاح ہمارے حکم سے ہوا ہے اور اس لیے ہوا ہے کہ مومنوں کے لیے اپنے متبٰنی لڑکوں کی بیوہ اور مطلقہ بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ایک نبی کا یہ کام نہیں کہ اللہ کا حکم بجا لانے میں وہ کسی کے خوف سے ہچکچائے۔ اسکے بعد اس بحث کو ختم اس بات پر فرماتا ہے کہ:’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘
اس موقع پر یہ فقرہ جو ارشاد فرمایا گیا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معترضین کے جواب میں تین دلائل دینا چاہتا ہے:
اول یہ کہ نکاح بجائے خود قابل اعتراض نہیں ہے، کیونکہ جس شخص کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا گیا ہے وہ محمدﷺ کا واقعی بیٹا نہ تھا اور آپ اس کے حقیقی باپ نہ تھے۔
دوسرے، اگر تم کو یہ شبہ ہو کہ نکاح جائز ہی سہی مگر اس کا کرنا کیا ضرو ر ی تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ محمدﷺ کے لیے اس جائز کام کو کرنا فی الواقع ضروری تھا کیونکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور رسول کو لازم ہے کہ وہ خدا کے قانون کو عملاً جاری کرے اور جو چیزیں بے جا رسوم کے طور پر حرام کردی گئی ہیں ان کی حرمت توڑ دے۔
تیسرے، یہ کام اس لیے اور بھی ضروری تھا کہ محمدﷺ محض نبی ہی نہیں بلکہ آخری نبی ہیں۔ اگر اب آپ کے ہاتھوں یہ جاہلانہ رسم نہ ٹوٹی تو پھر قیامت تک نہ ٹوٹ سکے گی۔ آپ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے کہ جو کسرآپ سے چھوٹ جائے اسے وہ آکر پورا کردے۔
اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ اس سلسلہ بیان میں ختم کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ اگر اسے نفی کمال کے معنی میں لیا جائے تو یہاں یہ لفظ بالکل ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ موقع و محل صاف تقاضا کررہا ہے کہ یہاں اس کے معنی سلسلہ نبوت کے قطعی انقطاع ہی کے ہونے چاہئیں اس سیاق و سباق میں یہ کہنے کا آخر مطلب ہی کیا ہو سکتا ہے۔ کہ محمدﷺ نے یہ شادی اس لیے کی ہے کہ نبوت کے کمالات ان پر ختم ہو چکے ہیں۔ یہ بات کہی گئی ہوتی تو معترضین فوراً پلٹ کر کہتے کہ خوب ہے یہ کمال نبوت جو ایک عورت سے شادی کرنے کا تقاضا کرتا ہے!
اس کے بعد حدیث کو دیکھیے۔ نبی کریم ﷺ نے خود ختم نبوت کی جو تشریح فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’میری اور انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک محل تھا جس کی عمارت بہت حسین بنادی گئی تھی مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ اب وہ جگہ میں نے آکر بھر دی ہے اور عمارت مکمل ہوگئی ہے۔‘‘یہ بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے۔ آپ کو مشکوۃ باب فضائل سیدالمرسلین میں مل جائے گی۔ اس تشریح کی رو سے نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔ آخری اینٹ کی جگہ بھی بھر چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی نئی اینٹ آکر کہاں لگے گی؟ عمارت کے اندر یا اس کے باہر؟
اس کے بعد لغت کی طرف آیئے۔عربی زبان کی کسی مستند لغت کو اٹھا کر لفظ ختم کے معنی دیکھ لیجیے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جو تاویل میں نے اوپر قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان کی ہے، عربی زبان بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ ختم کے اصل معنی مہرلگانے، بند کرنے اور کسی چیز کا سلسلہ منقطع کر دینے کے ہیں۔ ختم الاناء کے معنی ہیں’’برتن کا منہ بند کردیا۔‘‘ختم العمل کے معنی ہیں ’’کام پورا کرکے اس سے فارغ ہوگیا‘‘۔ختم الکتاب کے معنی ہیں خط پورا کرکے اس پر مہر لگادی۔ خود قرآن میں منکرین حق کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ختم اللہ علٰی قلوبھم۔ ’’خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘یعنی ان کے دل قبول حق کے لیے بند کردیے گئے ہیں، نہ ایمان ان کے اندر جا سکتا ہے، نہ کفر ان میں سے نکل سکتا ہے۔ پس حضور اکرمﷺ کو خاتم النبیین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کا سلسلہ مکمل کرکے آپ کو اس پر مہر کے طور پر نصب کردیا ہے۔ اب اس سلسلہ میں کوئی نیا نبی داخل نہیں ہو سکتا۔(نیو سنٹرل جیل ملتان۶؍اپریل۵۰ء)

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

ختم نبوت کے خلاف قادیانیوں کی ایک اور دلیل
سوال: ’’تفہیم القرآن‘‘ (سورہ آل عمران صفحہ ۲۶۸، ع۔۹)، آیت وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ …الخ کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ نمبر ۶۹ یوں درج کیا ہے کہ ’’یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ حضرت محمدؐ سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی امت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن نہ قرآن میں، نہ حدیث میں، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمدؐ سے ایسا عہد لیا گیا ہو، یا آپؐ نے اپنی امت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو‘‘۔اس عبارت کا مطالعہ کرنے کے بعد دل میں یہ بات آئی کہ بے شک محمد ﷺ نے تو نہیں فرمایا، لیکن خود قرآن مجید میں سورہ احزاب میں اس میثاق کا ذکر یوں آتا ہے:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ…الخ
یہاں لفظ ’’مِنْکَ‘‘ کے ذریعے نبیﷺ سے خطاب ہے۔ میثاق وہی ہے جس کا ذکر سورہ آل عمران میں ہوچکا ہے۔ ہر دو سورتوں یعنی آل عمران اور الاحزاب کی مذکورہ بالا آیات میں میثاق کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی میثاق جو دوسرے انبیا سے لیا گیا تھا، محمد رسول اللہ ﷺ سے بھی لیا گیا ہے۔
دراصل یہ سوال احمدیوں کی ایک کتاب پڑھنے سے پیدا ہوا ہے جس میں ان دونوں سورتوں کی محولہ بالا آیات کی تفسیر ایک دوسرے کی مدد سے کی گئی ہے اور لفظ ’’منک‘‘ پر بڑی بحث درج ہے۔

 

آیت وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ (الاحزاب:۱) سے قادیانی حضرات جو استدلال کرتے ہیں، وہ اگر مبنی بر اخلاص ہے تو ان کی جہالت پر استدلال کرتا ہے اور اگر قصداً دھوکہ دینے کی نیت سے ہے تو یہ ان کی ضلالت پر دلیل ہے۔وہ ایک مضمون تو سورہ آل عمران کی آیت وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ سے لیتے ہیں جس میں انبیاء اور ان کی امتوں سے کسی آنے والے نبی کی پیروی کا عہد لیا گیا ہے، اور دوسرا مضمون سورۃ احزاب کی مذکورہ بالا آیت سے لیتے ہیں جس میں دوسرے انبیاء کے ساتھ نبیﷺ سے بھی ایک عہد لیے جانے کا ذکر ہے۔ پھر دونوں کو جوڑ کر اس سے یہ تیسرا مضمون خود بنا ڈالتے ہیں کہ نبیﷺ سے بھی کسی آنے والے نبی پر ایمان لانے اور اس کی تائید و نصرت کرنے کا عہد لیا گیا تھا۔ حالاں کہ جس آیت میں آنے والے نبی پر ایمان لانے کے میثاق کا ذکر ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ عہد ہم نے محمدؐ سے بھی لیا ہے اور جس آیت میں محمدؐ سے ایک عہد لیے جانے کا ذکر ہے، اس میں کوئی تصریح اس امر کی نہیں ہے کہ یہ عہد کسی آنے والے نبی کی پیروی کا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ان دو مختلف مضمونوں کو جوڑ کر ایک تیسرا مضمون جو قرآن مجید میں کہیں نہ تھا، کس دلیل سے پیدا کرلیا؟
اس کے لیے اگر ہوسکتی تھی تو تین دلیلیں ہوسکتی تھیں:
یا تو نبیﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کرکے اعلان فرمایا ہوتا کہ ’’لوگو! اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ عہد لیا ہے کہ میرے بعد جو نبی آئے، اس پر میں ایمان لاؤں اور اس کی تائیدونصرت کروں، لہٰذا میرے متبع ہونے کی حیثیت سے تم بھی اس کا عہد کرو‘‘… مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کے پورے ذخیرے میں اس مضمون کا کہیں نام و نشان تک نہیں، بلکہ الٹی بکثرت روایات ایسی موجود ہیں جن سے یہ مضمون نکلتا ہے کہ حضور ؐ پر سلسلہ نبوت ختم ہوگیا اور آپؐ کے بعد اب کوئی نبی پیدا ہونے والا نہیں ہے۔ کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ نبیﷺ سے ایک ایسا اہم میثاق لیاگیاہوتا اور آپؐ نے اسے یوں نظر انداز کردیا ہوتا، اور الٹی ایسی باتیں فرمائی ہوتیں جن سے حجت پکڑ کر آپ ﷺ کی امت کا سواد اعظم خدا کے کسی فرستادہ نبی پر ایمان لانے سے محروم رہ جاتا۔
دوسری دلیل اس مضمون کو پیدا کرنے کے لیے یہ ہوسکتی تھی کہ قرآن مجید میں انبیا اور ان کی امتوں سے بس ایک ہی میثاق لیے جانے کا ذکر ہوتا، یعنی یہ کہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لانا۔ اس کے سوا کسی اور میثاق کا پورے قرآن مجید میں کہیں ذکر ہی نہ ہوتا۔ اس صورت میں یہ استدلال کیا جاسکتا تھا کہ سورہ احزاب والی آیت میثاق میں بھی لا محالہ یہی میثاق مراد ہوگا … لیکن اس دلیل کے لیے بھی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ایک نہیں بلکہ متعدد میثاقوں کا ذکر آیا ہے مثلاً سورہ بقرہ رکوع ۱۰ میں بنی اسرائیل سے اللہ کی بندگی اور والدین سے حسن سلوک اور آپس کی خوں ریزی سے پرہیز وغیرہ کا میثاق لیا جاتا ہے۔ سورہ آل عمران رکوع ۱۹ میں تمام اہل کتاب سے اس بات کا میثاق لیا جاتا ہے کہ خدا کی جو کتاب تمہارے حوالے کی گئی ہے، اس کی تعلیمات کو چھپاؤ گے نہیں بلکہ اس کی اشاعت عام کرو گے۔ سورہ اعراف رکوع ۲۱ میں بنی اسرائیل سے عہد لیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے نام پر حق کے سوا کوئی بات نہ کہیں گے، اور اللہ کی دی ہوئی کتاب کو مضبوط ہاتھوں سے تھامیں گے اور اس کی تعلیمات کو یاد رکھیں گے۔ سورہ مائدہ رکوع میں محمد عربی ﷺ کے پیروؤں کو ایک میثاق یاد دلایا جاتا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اور وہ یہ ہے کہ ’’تم اللہ سے سمع و طاعت کا عہد کرچکے ہو‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر سورہ احزاب والی آیت میں میثاق کے مضمون کی تصریح کے بغیر مجرد میثاق کا ذکر آیا تھا تو اس خلا کو ان بہت سے میثاقوں میں سے کسی ایک سے بھرنے کی بجائے بالخصوص سورہ آل عمران رکوع ۹ والے میثاق ہی سے کیوں بھرا جائے؟ اس ترجیح کے لیے خود ایک دلیل درکار ہے جو کہیں موجود نہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ دونوں جگہ چوں کہ نبیوں سے میثاق لینے کا ذکر ہے، اس لیے ایک آیت کی تشریح دوسری آیت سے کرلی گئی تو میں عرض کروں گا کہ دوسرے جتنے میثاق بھی انبیا کی امتوں سے لیے گئے ہیں، وہ براہ راست کسی امت سے نہیں لیے گئے بلکہ انبیا کے واسطے ہی سے لیے گئے ہیں اور آخر قرآن مجید میں بصیرت رکھنے والا کون شخص اس بات سے نا واقف ہے کہ ہر نبی سے کتاب اللہ کو مضبوط تھامنے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔
تیسری دلیل یہ ہوسکتی تھی کہ سورہ احزاب کا سیاق و سباق یہ بتا رہا ہوتا کہ یہاں میثاق سے مراد آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل ہی برعکس ہے۔ سیاق و سباق تو الٹا اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ یہاں یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے۔ سورہ احزاب شروع ہی اس فقرے سے ہوتی ہے کہ : ’’اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں سے نہ دبو، اور جو وحی تمہارا رب بھیجتا ہے، اسی کے مطابق عمل کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو‘‘۔ اس کے بعد یہ حکم سنایا جاتا ہے کہ جاہلیت کے زمانے سے متبنیٰ بنانے کا جو طریقہ چلا آرہا ہے، اس کو اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام اوہام اور رسموں کو توڑ ڈالو۔ اس کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ غیر خونی رشتوں میں سے بڑھ کر ایک ہی رشتہ ایسا ہے جو خونی رشتوں سے بڑھ کر حرمت والاہے ، اور وہ ہے نبی اور مومنین کا رشتہ، جس کی بنا پر نبی کی بیویاں ان کی ماؤں کی طرح ان پر حرام ہیں، ورنہ باقی تمام معاملات میں رحمی اور خونی رشتے ہی اللہ کی کتاب کی رو سے حرمت اور استحقاق وراثت کے لیے اولیٰ وانسب ہیں۔ یہ احکام فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نبیﷺ کو وہ میثاق یاد دلاتا ہے جو اس نے تمام انبیا سے ہمیشہ کیا ہے اور ان کی طرح آپ ﷺ سے بھی لیا ہے۔ اب ہر معقول آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس سلسلہ کلام میں آخرکس مناسبت سے ایک آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق یاد دلایا جاسکتا تھا؟ یہاں تو اگر یاد دلایا جاسکتا تھا تو وہی میثاق یاد دلایا جاسکتا تھا جو خدا کی کتاب کو مضبوط تھامنے اور اس کے احکام کو یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے اور دنیا میں ان کا اظہار کرنے کے لیے تمام انبیا علیہم السلام سے لیا گیا ہے۔ پھر آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو صاف صاف حکم دیتا ہے کہ آپ خود اپنے متبنیٰ زیدؓ، بن حارثہ کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرکے جاہلیت کے اس وہم کو توڑ دیں جس کی بنا پر لوگ منہ بولے بیٹے کو بالکل صلبی بیٹے کی طرح سمجھتے ہیں اور جب کفار و منافقین اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو علی الترتیب تین جواب دیتا ہے:
(۱) اول تو محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں کہ اس کی مطلقہ بیوی ان پر حرام ہوتی۔
(۲) اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ وہ ان کے لیے حلال تھی بھی تو اس سے نکاح کرنا کیا ضروری تھا تو یہ اس لیے ضروری تھا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں جس کا کام یہی ہے کہ جس چیز کو اللہ مٹانا چاہتا ہے،اسے خود آگے بڑھ کر مٹائے۔
(۳) اور مزید برآں ان کو ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ محض رسول ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم النبیین ہیں، اگر وہ جاہلیت کی ان رسموں کو مٹا کر نہ جائیں گے تو پھر کوئی ایسا نبی آنے والا نہیں ہے جو انہیں مٹائے۔
اس مضمون لاحق کو اگر کوئی شخص سابق کے ساتھ ملا کر پڑھے تو وہ چین کے ساتھ یہ کہہ دے گا کہ اس سیاق و سباق میں جو میثاق نبیﷺ کو یاد دلایا گیا ہے، اس سے مراد اور جو میثاق بھی ہو، بہرحال کسی آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق ہر گز نہیں ہوسکتا۔دیکھ لیجیے، آیت زیر بحث سے قادیانوں کے بیان کردہ معنی لینے کے لیے یہی تین دلیلیں ہوسکتی تھیں اور یہاں ان میں سے ہر دلیلان کےمدعا کے لیے غیر مفید، بلکہ الٹی ان کے خلاف ہے۔اب اگر ان کے پاس کوئی چوتھی دلیل ہو تو وہ ان سے دریافت کیجیے اور ان تینوں دلیلوں کا جواب بھی ان سے لیجیے۔ ورنہ یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں کہ اس آیت سے جو معنی انہوں نے لیے ہیں، وہ یا تو جہالت کی بنا پر نکالے ہیں، یا پھر خدا سے بے خوف ہوکر خلق خدا کو گمراہ کرنے کے لیے نکالے ہیں۔ بہرحال ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر مرزا صاحب نبی تھے تو آخر کیا معاملہ ہے کہ ابھی ان کے صحابہ کا دور بھی ختم نہیں ہوا ہے اور ان کی ساری امت اس وقت تابعین اور تبع تابعین پر مشتمل ہے۔ پھر بھی حال یہ ہے کہ کتاب اللہ سے ان کی امت میں علی الاعلان ایسے غلط استدلال کیے جاتے ہیں اور پوری امت میں ایک بھی اس جہالت یا ناخدا ترسی کے خلاف بلند نہیںہوتی۔(ترجمان القرآن۔ رمضان  ،  شوال ۱۳۷۱ھ ، جون، جولائی ۱۹۵۲ء  )

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

 نبی کے معصوم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرشتوں کی طرح اس سے بھی خطا کا امکان سلب کر لیا گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ نبی اول تو دانستہ نافرمانی نہیں کرتا اور اگر اس سے غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو اللہ اس کو اس غلطی پر قائم نہیں رہنے دیتا۔پھر یہ بات بھی لائق غور ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جو نافرمانی سرزد ہوئی تھی وہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے سے پہلے کی ہے اور قبل نبوت کسی نبی کو وہ عصمت حاصل نہیں ہوتی جو نبی ہونے کے بعد ہوا کرتی ہے۔نبی ہونے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ایک بہت بڑا گناہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا۔ چنانچہ جب فرعون نے ان کو اس فعل پر ملامت کی تو انہوں نے بھرے دربار میں اس بات کا اقرار کیا کہَ فَعَلْتُہَا اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّالِّیْنَ (الشعرء۔20) یعنی یہ فعل مجھ سے اس وقت سرزد ہوا تھا جب راہ ہدایت مجھ پر کھلی نہ تھی۔
مختصراً یہ بات اصولی طور پر سمجھ لیجیے کہ نبی کی معصومیت فرشتے کی سی معصومیت نہیں ہے کہ اسے خطا اور غلطی اور گناہ کی قدرت ہی حاصل نہ ہو۔ بلکہ وہ اس معنی میں ہے کہ نبوت کے ذمہ دارانہ منصب پر سرفراز
 کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ بطور خاص اس کی نگرانی و حفاظت کرتا ہے،اور اسے غلطیوں سے بچاتا ہے، اور اگر کوئی چھوٹی موٹی لغزش اس سے سرزد ہوجاتی ہے تو وحی کے ذریعہ سے فوراً اس کی اصلاح کردیتا ہے تاکہ اس کی غلطی ایک پوری امت کی گمراہی کی موجب نہ بن جائے۔(ترجمان القرآن۔ رجب ، شوال ۶۳ھ؍ جولائی، اکتوبر۴۴ء)

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

شریعت میں مسجد کے لیے کوئی خاص طرز تعمیر مقرر نہیں ہے، اس لیے کسی خاص طرز پر مسجد بنانا نہ فرض ہے نہ ممنوع۔ صاحب مضمون کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ جس طور پر حضورﷺ نے مسجد نبوی ابتداء ً تعمیر فرمائی تھی، تمام مساجد ہمیشہ کے لیے اسی طرز پر تعمیر ہونی چاہییں۔ مختلف مسلمان ملکوں میں مساجد کی تعمیر کے لیے ہمیشہ سے مختلف ڈیزائن اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں جس قاعدے کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مسجد کی شکل عام عمارت سے اتنی مختلف ہو اور اپنے ملک یا علاقے میں ایسی جانی پہچانی ہو کہ اس علاقے یا ملک کا ہر شخص دور سے اس کو دیکھ کر یہ جان لے کہ یہ مسجد ہے اور اسے نماز کے وقت مسجد تلاش کرنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے۔ اسی قاعدے کے مطابق دنیا کے مختلف ملکوں میں مسجد کا ایک خاص طرزِ تعمیر ہوتا ہے اور اس کے لیے ایسی نمایاں علامات رکھی جاتی ہیں جو ان ملکوں میں مسجد کی امتیازی علامات ہونے کی حیثیت سے معروف ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی مساجد کا بالعموم ایک طرزِ تعمیر رائج ہے۔ اس کو بدل کر بالکل ایک نرالا طرز تعمیر رائج کرنا اور اس کے لیے مسجد نبوی کے ابتدائی طرز سے استدلال کرنا خواہ مخواہ کی اپچ
 ہے۔رہا منبر، تو یہ ثابت ہے کہ نبیﷺ نے خود مسجد نبوی میں لکڑی کا منبر بنوایا تھا تاکہ خطبہ دیتے وقت بڑے مجمع میں خطیب سب لوگوں کو نظر آسکے۔
محراب مسجدوں میں تین مصلحتوں سے رکھی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ آگے چونکہ صرف امام کھڑا ہوتا ہے اس لیے تھوڑی سی جگہ اس کے لیے زائد بنادی جاتی ہے تاکہ محض ایک آدمی کے لیے پوری ایک صف کی جگہ خالی نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ محراب کی وجہ سے امام کی آواز پیچھے کی صفوں تک پہنچنے میں سہولت ہوتی ہے۔ تیسری مصلحت یہ ہے کہ محراب بھی مسجد کی امتیازی علامات میں سے ہے۔ کسی عمارت کو آپ پشت کی طرف سے بھی دیکھیں تو اس میں محراب آگے نکلی دیکھ کر فوراً پہچان جائیں گے کہ یہ مسجد ہے۔ یہی مصلحت مسجد پر مینار وغیرہ بنانے کی بھی ہے۔

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

ADFASDFASDFASDF

()

جواب:مذکورہ افعال کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں،یہ افعال محض جہالت ہیں،انکو چھوڑنا لاز م ہے۔
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب :آدمی جب کسی حکومت کے ماتحت رہتا ہے،تو اس کے جائز قوانین کی پاسداری اس پر لازم ہوتی ہے،ان قوانین کی خلاف ورزی کرنا شرعاً اور اخلاقا ً جرم ہے،اور اس سے عزت و مال کو بھی خطرہ ہوتا ہے، جبکہ شریعت میں اپنی عزت و مال کو خطرہ میں ڈالنا عقلمندی کی بات نہیں ہے۔لہذا صورت مسؤلہ میں حکومت کی طرف سے ممنوعہ اشیاء کی خرید و فروخت کے لئے رشوت دینا جائز نہیں ہے۔

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام ان مسائل کے ذیل میں کہ مذکورہ حالات میں،میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں 
-95میری شادی کو بارہ سال ہوگئے ہیں، جب شادی ہوئی تو ساس،سسر نے مجھے دکھایا کہ میرے شوہر اپنے والد کے ساتھ ان کی دکان پر سیٹ ہیں،مگر شادی کے بعد ایک سال تک دونوں نے ساتھ کام کیا،پھر گھریلو لڑائی جھگڑوں کے بعد ساس اور سسر (شوہر کے والدین)سے میرے شوہر کے تعلقات خراب ہونے کے بعد انہوں نے دکان سے نکال دیا اور کہا کہ اپنا کھاؤ،کماؤگھر ساتھ تھا مگر کھانا الگ کردیا۔میرے شوہر نے میرا سارا زیور لے لیا کہ کاروبار کروں گا یہ زیور بیچ کر،میرے والدین کا دیا ہواسارا زیور شوہر نے لے لیا اور ساس (شوہر کی والدہ)نے اپنی طرف سے جو دیا تھا،وہ زیور خود ساس نے لے لیا۔میرے چار بچے ہیں، بارہ سال سے یہ حال ہیکہ گھر ساس سے الگ ہوگیا ہے،گیارہ سال کرائے کے گھر میں رہے اب ایک سال سے سسر کے ذاتی گھر میں رہ رہے ہیں،انہوں نے ہمیں رہنے کے لیے دیا ہے، شوہر کبھی قرضہ لے کر اپنا کام کرتے ہیں جب کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے،تو سسر کے پاس چلے جاتے ہیں ان کی دکان پر کام کرنے کے لیے،پھر ان کے ساتھ سیٹنگ نہیں بنتی تو پھر قرضہ لے کر اپنا کام کرنے لگ جاتے ہیں،ہمارے گھریلو حالات تنگی میں ہی چلتے رہتے ہیں،کبھی سامان ڈھنگ سے لے آتے ہیں، کبھی روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔
-95میرے ہاتھ میں میرے ذاتی خرچے کا ایک روپیہ بھی نہیں دیتے۔
-95میری بیٹی ابھی کافی چھوٹی ہے تقریبا 9 ماہ کی ہے اور میرے پیٹ میں ہرنیا بھی ہے،جس کی وجہ سے میں کپڑے وغیرہ اور جھاڑو نہیں دے سکتی تو ماسی رکھی ہوئی ہے،جس کی تنخواہ بہت رُلا کر میرے شوہر دیتے ہیں ڈھائی تین ہزار روپے،کیا ایسی صورت میں میں زکوٰۃ کے پیسے لے کر اپنے اور اپنے بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں؟
-95میرے پاس سونے اور چاندی کا ایک تار بھی نہیں ہے،نہ ہی کوئی رقم ہے۔ہاتھ کے خرچ کے لیے میرے ماں باپ مجھے دیتے تھے،بچوں کے ساتھ سو ضروریات ہوتی ہیں،پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے،اس لیے وہ میری مدد کرتے ہیں مگر اب ان کے حالات بھی بہت خراب ہوچکے ہیں وہ بھی خرچ نہیں دے سکتے، تو کیا میں ایسی صورت میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں،کھانے کے لیے اور کپڑوں پر خرچ کر نے کے لیے استعمال کرسکتی ہوں اور میرے شوہر اگر کبھی اس میں کھالیں تو کوئی حرج تو نہیں ہے؟ جبکہ میرے بچوں کے دادا،دادی کروڑ پتی ہیں،مگر ہمارا گزارا مشکل سے ہوپاتا ہے،ساس سُسر کی گاڑی بھی ہے اور وہ گاڑی میرے شوہر بھی استعمال کرتے ہیں اور میں بھی جاتی آتی ہوں گاڑی میں،بچے دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کررہے۔
میرے پاس شادی میں آنے جانے کے لیے میرے ماں باپ نے اور ساس نے کچھ جوڑے بنا کر دییہوئے ہیں،تو کیا قیمتی جوڑوں کی موجودگی میں اور گھر میں فریج،واشنگ مشین کی موجودگی میں،میں زکوٰۃ کی مستحق ہوں؟
-95میرے میاں ظالم ہیں، بہت اذیت دیتے ہیں مثلاً:رات کو سونے نہیں دیتے،بات بات پر چکرانا،جھوٹ سچ کرنا،ٹارچر کرنا،کبھی ہاتھ بھی اٹھالیتے ہیں، ہر تھوڑے عرصہ کے بعد ماں باپ کے گھر پر بٹھانے کی دھمکی دیتے ہیں،پہلے کئی مرتبہ بٹھا بھی چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم جاؤ،میں بچوں کو اپنے پاس ہی رکھوں گا۔
-95میرے میاں خود کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے اور دکھاتے ہیں کہ میں قرض لے کر کام کررہا ہوں، یہ سب مجھے جھوٹ لگتا ہے، وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ مل کر تماشے کرتے ہیں، حالانکہ میرے سسرال کا ماحول اور میرے گھر کے حالات کو سامنے رکھا جائے تو سسرال والے چاہیں،تو میرے گھر کا خرچ دے سکتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا دوا،دارو کا خرچ بھی بڑی مشکل سے کرتے ہیں۔
-95میرے میاں اکثر جب راشن نہیں لاتے تو خود تو وہ اکیلے کبھی کبھی اپنے والدین کے ہاں کھانا پینا کرلیتے ہیں،اپنا لباس دوائی وغیرہ اور کھانا پینا اچھے سے کرلیتے ہیں،لیکن میرے لیے اور بچوں کے لیے سخت دل ہیں۔
-95میں اپنے میاں کو زکوٰۃ لینے کے بارے میں آگاہ نہیں کرسکتی،کیونکہ وہ پھر مجھے پیسے نہیں لینے دیں گے،زکوٰۃ کے پیسوں سے منع کردیں گے،اس صورت میں (کہ شوہر کو خبر نہ ہو)زکوٰۃ لینا جائز ہے؟

جواب۱۔۔جو شخص مقدارِ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی نقد قیمت کا مالک بھی نہ ہو اور اس کے پاس ضرورت سے زائد اس مالیت کی چیز بھی نہ ہو)کا مالک نہ ہو وہ مستحق زکوٰۃ ہے،چنانچہ جو مرد یا عورت مالکِ نصاب نہ ہو،اس کے لیے زکوٰۃ وغیرہ لینا درست ہے، مگر اپنے والدین،دادا، دادی،نانا، نانی،شوہر،بیوی کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی،البتہ ضرورت کی چیزوں میں داخل اشیاء مثلاً:(کپڑے،گھر کا سامان وغیرہ)زکوٰۃ لینے سے مانع نہیں ہوں گے،نیز اگر تنگی سے گزرِ اوقات ہوتے ہیں تو اس صورت میں زکوٰۃ لی جاسکتی ہے۔
لہٰذا صورت مسؤلہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر مبنی بر حقیقت ہے،تو مذکورہ حالات میں آپ کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے، نیز زکوٰۃ کی رقم کی مالک بننے کے بعد اگر شوہر کو زکوٰۃ کی رقم سے کھلایا جائے،تو اس میں حرج نہیں اسی طرح بچوں کو زکوٰۃ لے کر کھلا سکتی ہیں، بشرطیکہ جب تک آپ مستحق زکوٰۃ ہیں۔
۲۔۔ اس کے علاوہ آپ نے جو سونا اپنے شوہر کو دیا تھا،اب وہ سونا واپس کرنے سے انکار کررہا ہے اور اس کے ملنے امید نہ ہونے کی وجہ سے آپ نصاب کی مالک نہیں،لہٰذا زکوٰۃ لینے میں حرج نہیں۔
۳۔۔زکوٰۃ لینے کے لیے شوہر کو بتانا ضروری نہیں، اُن کو بتائے بغیر بھی آپ زکوٰۃ لے سکتی ہیں،تاہم چونکہ آپ مستحق ہیں اس لیے زکوٰۃ لینے کی گنجائش ہے، لیکن آپ کی ضروریات بھی(اگرچہ تنگی کے ساتھ)پوری ہورہی ہیں،اس لیے زکوٰۃ مانگنا آپ کے لیے درست نہیں،البتہ اگر آپ کو کوئی از خود زکوٰۃ دے دے تو لینے کی گنجائش ہے۔

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب:جو لطیفے جھوٹ یا کسی طبقہ یا قوم پر طنز یا کسی اور خلاف شرع امر پر مشتمل ہوں ان کا کسی کو میسیج کرنا یا کسی کو سنانا،اور اسی طرح جو واقعہ انسان کے ساتھ پیش نہ آیا ہو اس کو اس طرح بیان کرنا یا لکھنا کہ دوسرے کو گمان ہونے لگے کہ یہ واقعہ بیان کرنے والے کے سا تھ پیش آیا ہے تو یہ سب جھوٹ میں شامل ہے، اور مذکورہ بالاا مور کا کرنے والا اس وعید ‘‘ویل لمن یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم’’ کے تحت داخل ہے، البتہ اگر کوئی میسیج یا تحریر یا بیان ایسے واقعہ اور لطیفہ پر مشتمل ہو کہ جس سے عبرت یا اچھا سبق ملتا ہو اور اسے سننے اور پڑھنے والے کو یہ معلوم ہوتا ہو کہ اس کا کردار فرضی ہے تو ایسے واقعہ یا لطیفہ کو بیان کرنا یا لکھنا یا کسی کو ایس ایم ایس کرناجائز ہے، اس لیے کہ سلف صالحین کی تحریرات میں اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں، جیسے شیخ سعدی اور مولانا رومی۔ رحمہما اللہ۔ کی حکایات وغیرہ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب:واضح رہے کہ والد کے انتقال کے بعد بیٹوں پر لازم ہے کہ والد کی بیٹیوں (اپنی بہنوں) کو وراثت کا پورا پورا حق ان کے حوالے کریں، تقسیم سے قبل بہنوں کااپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ کرنا درست نہیں، اسی طرح بھائیوں کا بہن کو ان کا حق اس وجہ سے نہ دینا کہ ہم آپ کے حصے کی دیکھ بھال کریں گے، یا آپ کو حج کرائیں گے، یہ بھی درست نہیں، اس طرح ہبہ کرنے، دیکھ بھال یا حج کے وعدے سے بہنوں کا حقِ میراث ساقط نہ ہو گا، بلکہ زندگی میں بہنوں کو بذاتِ خود اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کو اپنی والدہ کے حصے کے مطالبہ کا حق حاصل ہو گا، نیز بھائیوں نے بہنوں کے حقِ میراث کے بدلے جو ان کو حج کرایا یا نقدی وغیرہ دی اس کی مالیت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی درست نہیں، لہٰذا بھائیوں کو بہنوں کا حق میراث دینے پر اس مالیت کے واپس لینے کا حق حاصل ہے۔البتہ میراث تقسیم ہوجانے کے بعد اگر کوئی بہن اپنے حصے پر مکمل قبضہ کرکے اپنی خوشی ورضا مندی سے (نہ کہ علاقے کے رسم ورواج یا دباؤ سے) اپنا حق اپنے بھائیوں کوہبہ کر دے یا دیکھ بھال کے لیے دے دے تو یہ جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے واضح اور صاف طور پر اپنے کلام میں میراث کے احکام کو بیان فرمادیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان احکامات پر عمل کرنے والوں کے لیے بشارت اورابدی سعادت اور ان احکام پر عملنہ کرنے والوں کے لیے عذاب کو بھی بیان فرما دیا، اب جس مسلمان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی عظمت، آخرت کی جواب دہی اور دوسروں کا حق دبانے پر ملنے والے دنیا وآخرت کے عذاب کا یقین ہو گا وہ تو ہر گز ان احکام سے روگردانی نہیں کرے گا، بلکہ وہ ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا دے گا۔باقی جن مسلمانوں نے غفلت کی چادر اوڑھ کر حرص وہوس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے اور آخرت کی ابدی وحقیقی زندگی ان کے سامنے نہیں، یہی لوگ ہیں جو ماں بہن کے حقِ میراث میں غبن کرتے ہیں او راپنی حلال کمائی کو بھی حرام بناتے ہیں۔
وراثت میں ملا ہوا مال اطیب الاموال (پاکیزہ اموال میں سے سب سے پاکیزہ مال) کہلاتا ہے، کیوں کہ اس میں انسان کے کسب وعمل کو دخل نہیں، جو شخص اس تقسیم میں قانونِ الہی کی مخالفت کرتاہے وہ کئی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب وقہر کا مورد ہوتا ہے، اول: یہ کہ شاہی انعام جس کا حق دار کو پہنچانا اس کے ذمے تھا اس میں خیانت کی، دوسرے: حق دار کو اس کے حق سے محروم کرکے ظلم کیا، تیسرے،یہ ظلم جو وراثت میں ہوتا ہے نسلوں تک چلتا ہے، اور اس کا وبال اس شخص پر ہوتا ہے جس نے اول اس میں خیانت کی۔خلاصہ یہ کہ بھائیوں کا مظلوم بہنوں کو ان کا حقِ میراث نہ دینا ظلم عظیم ہے، اور صرف زبانی کلامی معاف کرالینا بھی شرعاً معتبر نہیں او راسی طرح بہنوں کا بھائیوں کے قطع تعلق اور طعن وتشنیع کے ڈر سے بادل ناخواستہ محض زبانی اپنا حصہ معاف کرنے کا بھی کوئی اعتبار نہیں، غرضیکہ حرام کو حلال بنانے اور بے زبان مظلوم بہنوں کا حصہ? میراث دبانے کے لیے جو بھی چالیں چلی جاتی ہیں وہ سب شرعاً مردود اور باطل ہیں۔
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

والد صاحب کو مکان خریدنے کے لیے بلانیت آدھی رقم دینے اوراس مکان کی ملکیت واستحقاق کا حکم
سوال :کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم جس مکان میں رہتے ہیں یہ 1995ء میں خریدا تھا پانچ لاکھ چالیس ہزارمیں،تین لاکھ میرے والد صاحب نے اور دو لاکھ پچاس ہزار میں نے دیے تھے، اس وقت ہم تین بھائی تھے، بڑا بھائی پی آئی اے میں، دوسرا نیوی میں اور میں گورنمنٹ سروس کرتا تھا، میں پارٹ ٹائم بھی کرتا اور دونوں کاموں کی تنخواہ بھی پوری اپنے والدین کو دیتا تھااورکچھ پیسے بچاکر بیسیاں ڈالتا تھا، جب یہ رقم میں نے گھر کی خریداری میں اپنے والد کو دی تھی مبلغ ڈھائی لاکھ، او راب میرا بھائی والد صاحب کے جیتے جی مکان میں پورا حصہ مانگ رہا ہے، جب کہ والد صاحب نے کہا ہے کہ آدھے مکان کا حق دار فیاض ہے اور آدھا میرا ہے، اس آدھے میں تین بیٹے اور چاربیٹیاں حصے دار ہیں، جناب دین اسلام اور شریعت میں جو ہے اس حساب سے فتوی دیں تاکہ کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے مطابق مسئلہ بھی حل ہو جائے، اس وقت مکان کی قیمت تقربیاً پچاس سے ساٹھ لاکھ روپے تک ہے۔

جواب: صورتِ مسؤلہ میں آپ نے اپنے والد صاحب کو اپنی والدہ صاحبہ کے کہنے پر قرض یا شرکت وغیرہ کی صراحت کیے بغیر جو رقم دی ہے اس کی شرعی حیثیت ‘‘تبرع اوراحسان’’ کی ہے، اس لیے مذکورہ مکان صرف آپ کے والد صاحب ہی کی ملکیت ہے، آپ کے والد صاحب کے محض کہہ دینے سے آپ آدھے مکان کے مالک نہیں ہوں گے او راسی طرح دوسرے آدھے مکان میں آپ کے تین بھائیوں اور چار بہنوں کی بھی ملکیت ثابت نہیں ہو گی، آپ کے والد صاحب کو چاہیے کہ جس بیٹے اور بیٹی کو جتنا حصہ دینا چاہے تو وہ اس پر فروخت کردے، نیز آپ کے بھائی کا بلاوجہ والد صاحب کی زندگی میں مکان سے حصہ مانگنا ہر گز درست نہیں۔ 
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب: والدین کا اپنی اولاد کو اور اولاد کا اپنے والدین کو زکوٰۃ دینا درست نہیں، اسی طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے، ان کے سوا باقی رشتہ دار مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے بلکہ اس میں دگنا ثواب ہے، ایک ثواب زکوٰۃ دینے کا اوردوسرا صلہ رحمی کا۔ 
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب:دس ذوالحجہ سے پہلے یا قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر صاحب قربانی کا انتقال ہوجائے تو قربانی ساقط ہوجائے گی اور وہ جانور وارثوں کا ہوگا۔لہٰذا صورت مسؤلہ میں یہ جانور وارثوں کا ہے۔ ان پر مرحوم کی طرف سے اس کا ذبح کرنا واجب نہیں، البتہ تمام وارثوں کی رضامندی سے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کردیں تو زیادہ بہتر ہے۔ 
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب تلاش کے بعد بھی ہمیں سوال میں مذکور: '' مجھ پر درود بھیجنے کے علاوہ تمام اعمال قبول یا مسترد ہو سکتے ہیں '' حدیث کے اثرات نہیں ملے؛ کیونکہ ہماری تلاش کے مطابق اس حدیث کو محدثین، مفسرین اور فقہائے کرام میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اس مفہوم کی کوئی اور حدیث بھی صحیح احادیث میں سے ہمیں نہیں ملی۔
غالب گمان یہی ہے کہ یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف جھوٹی منسوب کی گئی ہے، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ حدیث دورِ حاضر میں ہی گھڑی گئی ہو، ویسے بھی اس حدیث میں باطل اور غلط مفہوم پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ بات ٹھیک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام افضل ترین عبادات اور قرب الہی کے مؤثر ذرائع میں سے ایک ہے، لیکن پھر بھی یہ عمل دیگر تمام اعمال کی طرح قبولیت اور رد دونوں میں سے کسی ایک کا حامل ہے۔
 سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: آپ بتلائیں کہ: ایک شخص جہاد میں شریک اس لیے ہوتا ہے کہ اسے اجر اور شہرت دونوں ملیں، تو اسے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ تو اس شخص نے یہی سوال تین بار دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ہر بار یہی فرماتے: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی بندے سے وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالصتاً اسی کے لیے کیا گیا ہو، اور رضائے الہی کے لیے ہو) سنن نسائی: (3140)
اس حدیث کو البانی نے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنے والوں کے درود کو مسترد اس لیے کر دیا جاتا ہے کہ درود پڑھتے ہوئے ان کی نیت ریا کاری اور شہرت کی ہوتی ہے، یا پھر ان کے درود میں بدعتی الفاظ پائے جاتے ہیں، یا پھر عدم قبولیت کا کوئی اور سبب درود پڑھنے والے میں موجود ہوتا ہے، جبکہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ:إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ
 ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی متقین لوگوں سے قبول فرماتا ہے۔المائدۃ: 27

(شیخ محمد صالح المنجد)

خلع اور طلاق میں فرق
 سوال:میں نے اپنے خاوند کو حق مہر واپس کر دیا ہے اور اس سے خلع مانگا ہے، تو اس شخص نے حق مہر وصول کر کے مجھے شکریہ کہا، اور کہنے لگا کہ: اللہ آپ کو جزائے خیر دے، اب آپ آزاد ہیں، آپ کہیں بھی جا سکتی ہیں، تو میں مکان سے چلی گئی اور اپنی بہن کے ساتھ رہنے لگی، وہاں میں تقریباً 2 ماہ رہی اور پھر بیمار ہونے کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئی، تو پڑوسیوں نے اللہ انہیں جزائے خیر دے، میرا اور میرے بچوں کا بہت خیال کیا۔ اسی دوران میں امید سے تھی اور زچگی کا وقت بھی قریب ہی تھا تو مجھے اس شخص کی کال آئی اور کہنے لگا کہ وہ میرا اور اپنے بچے کا حال دریافت کرنا چاہتا ہے، پھر بعد میں اس نے مجھے یہ بھی کہا کہ: ہم اب بھی نکاح کے بندھن میں ہیں؛ کیونکہ خلع طلاق نہیں ہوتا۔ ہم نے امام مسجد سے بھی بات کی تو امام مسجد نے کہا کہ: آپ طلاق یافتہ ہیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا آنے والے بچے کا عقیقہ کرنے کے لیے ہمارے لیے نئے سرے سے نکاح کرنا لازمی ہے؟ یا پھر ہم الگ الگ رہتے ہوئے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں؟

جواب:

خلع طلاق نہیں ہوتا، یہ فسخ نکاح ہے، نیز خلع کے بعد دوبارہ رجوع کے لیے نیا نکاح کرنا لازم ہے۔فسخ نکاح اور طلاق کے درمیان مزید فرق یہ ہے کہ: فسخ نکاح حق طلاق میں شمار نہیں ہوتا، چنانچہ اگر آپ اپنے خاوند کے پاس دوبارہ چلی جاتی ہیں تو پھر بھی ان کے پاس طلاق کے تین حق باقی ہیں۔چنانچہ اگر آپ کا خاوند کبھی آپ کو طلاق دے بھی دے، اور آپ کی عدت ختم ہو جائے اور خاوند نیا نکاح کر کے آپ کو اپنے عقد میں لے لے تو پھر اس کے پاس صرف دو طلاق کا حق ہو گا۔
ہر وہ لفظ جس میں بیوی کی طرف سے معاوضہ دے کر جدائی ہو تو وہ خلع شمار ہوتا ہے۔اور اگر خاوند طلاق خلع کے ساتھ دیتا ہے، مثلاً: وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں اس شرط پر طلاق دیتا ہوں کہ تم مجھے میرا حق مہر لوٹا دو، تو راجح موقف کے مطابق فسخ نکاح ہو گا، یعنی خلع اور فسخ نکاح ہی شمار ہو گا چاہے خاوند اس کے ساتھ طلاق کا لفظ ہی کیوں نہ استعمال کرے۔
دوم:آپ دونوں بچے کی پیدائش پر خوشی منا سکتے ہیں اور جدا، جدا رہتے ہوئے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں، تاہم اس خوشی کو منانے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا واجب نہیں ہے، لیکن واضح رہے کہ آپ کے اس بچے کا والد تمام احکامات میں آپ کے لیے ایک اجنبی شخص ہے۔ہم آپ کو آپ کے سابقہ خاوند کی طرف رجوع کرنے سے قبل مشورہ دیں گے کہ استخارہ کریں اور اچھی طرح غور و خوض کر لیں؛ چنانچہ اگر آپ رجوع کرنے کو مناسب سمجھیں تو تجدید نکاح کے لیے یہ بہت ہی مناسب وقت ہے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:عورت اپنے محرم رشتہ داروں اور خواتین کے سامنے بالوں کو کھولے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور چاہے اکیلی بھی ہو تو تب بھی کوئی حرج نہیں، یہ بات تو اہل علم کے ہاں متفقہ طور پر مسلمہ ہے، مسلمان خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے لے کر اب تک اس پر عمل پیرا ہیں۔یہ دعوی کرنا کہ عورت اگر اپنے بالوں کو گھر میں کھولتی ہے تو شیطان اس کے بالوں سے کھیلتا ہے، تو یہ جھوٹا دعوی ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث یا اقوال سلف میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے، اس لیے یہ دعویٰ کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی ایسی بات کو لوگوں کے درمیان بیان کرنا جائز ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا
 ترجمہ: ایسی بات کے پیچھے مت لگ جس کے متعلق تجھے علم نہیں ہے؛ یقیناً سماعت، بصارت، اور دل ان تمام چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ] الإسراء :36[شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے درج ذیل سوال پوچھا گیا:جب کوئی مؤذن نماز کے لیے اذان دے، اور کسی عورت کے بال اپنے ذاتی گھر میں یا اہل خانہ کے ساتھ، یا پڑوسیوں کے گھر میں ہوتے ہوئے کھلے ہوں، وہاں پر اسے محرم مردوں اور خواتین کے علاوہ کوئی اور نہ دیکھ رہا ہو تو کیا یہ حرام عمل ہے؟ اور جب تک اذان ہوتی رہے گی اس وقت تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے؟تو انہوں نے جواب دیا:یہ بات صحیح نہیں ہے، چنانچہ اگر عورت کو کوئی اجنبی نہ دیکھ رہا ہو تو اسے بال کھولے رکھنے کی اجازت ہے چاہے مؤذن اذان دے رہا ہو، تاہم عورت جب نماز ادا کرے گی تو پھر اپنے چہرے کے علاوہ مکمل جسم کو ڈھانپے گی، نماز کی حالت میں متعدد اہل علم نے اپنی ہتھیلیوں اور قدموں کو بھی کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ انہیں بھی ڈھانپ لے، صرف چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب اس کے آس پاس اجنبی لوگ نہ ہوں، چنانچہ اگر اجنبی لوگ موجود ہوں گے تو اس پر چہرہ بھی ڈھانپ کر رکھنا لازمی ہے؛ کیونکہ اجنبی لوگوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں، صرف خاوند اور محرم مردوں کے سامنے جائز ہے۔'' 
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:مصیبت رفع کرنے کی غرض سے اللہ تعالی سے دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ افضل ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں آزمائشوں سے عافیت مانگنے کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (دشمن سے جنگ کی تمنا مت کرو، بلکہ اللہ تعالی سے عافیت مانگو) اس حدیث کو امام بخاری: (7237) اور مسلم: (1742) نے روایت کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مریض کی عیادت کرتے تو دعا فرمایا کرتے تھے: اللَّہُمَّ أَذْہِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ، فَأَنْتَ الشَّافِی، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا یعنی: یا اللہ! لوگوں کے پروردگار بیماری دور کر دے، اور شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے بنا کوئی شفا نہیں، یا اللہ! ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری نہ چھوڑے۔اس دعا کو ترمذی: (3565) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ایسے ہی ایک بار سیدنا عثمان بن ابو عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم میں درد کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا: (اپنے جسم کی درد والی جگہ پر ہاتھ رکھو اور تین بار کہو: بسم اللہ، بسم اللہ، بسم اللہ۔ پھر سات بار کہو: { أَعُوذُ بِاللَّہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ}یعنی: میں اللہ تعالی کی ذات اور قدرت کی پناہ چاہتا ہوں اس بیماری سے جو مجھ میں ہے یا جس کا مجھے خدشہ ہے۔) مسلم: (2202)پھر اللہ تعالی نے بھی تمام انبیائے کرام کے بارے میں بیان کیا کہ انہوں نے بھی اللہ تعالی سے تکلیف رفع کرنے کی دعائیں کی ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّی مَسَّنِی الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ]83[ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ ترجمہ: ایوب نے جب اپنے پروردگار کو پکارا کہ: مجھے تکلیف پہنچی ہے، اور تو ہی رحم کرنے والا ہے ]83[تو ہم نے ان کی دعا قبول کی۔ ]الأنبیاء:38، 84اسی طرح سیدنا یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:وَذَا النُّونِ إِذْ ذَہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنتُ مِنْ الظَّالِمِینَ ]87[ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنْ الْغَمِّ وَکَذَلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ ترجمہ: مچھلی والے کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیے اور خیال کیا کہ ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے! بالا آخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہو گیا۔ تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا اور ہم نے اسے غم سے نجات دی، اور اسی طرح ہم مومنین کو نجات دیتے ہیں۔ ]الأنبیاء:87، 88۔جب بھی کوئی پریشانی ہو تو دعا کی جائے اور بار بار کی جائے، اور اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مصیبت رفع کرنے کی دعا اور صبر کرنے میں کوئی تعارض ہے ہی نہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہی ہمیں دعا کرنے کا کہا کہ ہم اس کے سامنے پوری طرح گڑگڑا کر دعائیں کریں، ہمارا دعا کرنا بھی اللہ تعالی کی عبادت ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ: تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔]غافر:60[
اسی نے ہمیں صبر کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور صبر کرنے پر ڈھیروں اجر و ثواب کا وعدہ بھی کیا اور فرمایا:إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ترجمہ: یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔ ]غافر: 60 پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اللہ تعالی سے دعا مانگی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ صبر کرنے والے ہیں، اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر سب سے زیادہ راضی رہنے والے ہیں، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرنا صبر کے منافی نہیں ہے؛ کیونکہ صبر در حقیقت اپنے آپ کو تقدیری فیصلوں پر ناراضی سے بچانے کا نام ہے۔اس لیے اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ انسان دعا اور صبر دونوں عبادات بیک وقت کرے، بلکہ یہ افضل ترین کیفیت ہے؛ کیونکہ یہی کیفیت ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:اگر معاملہ ایسے ہی جیسے آپ نے ذکر کیا ہے تو آپ کو اپنے اس عمل پر اجر نہیں ملے گا؛ کیونکہ آپ نے یہ رقم دیتے ہوئے رضائے الہی کو مد نظر نہیں رکھا، آپ نے تو اپنے مدیر سے ڈرتے ہوئے چندہ دیا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ: (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، یقیناً ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔)
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:جس چیز کا نقصان دہ ہونا ثابت ہو جائے تو اسے کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا ترجمہ: اپنی جانوں کو قتل مت کرو؛ یقیناً اللہ تعالی تم پر نہایت مہربان ہے۔النساء: 29ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچاؤ اور نہ ہی کسی دوسرے کو نقصان پہنچاؤ) اس حدیث کو احمد، اور ابن ماجہ: (2341) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔جب یہ بات ثابت ہو کہ کوئی بھی کھانے یا پینے کی چیز جسم کو یقینی طور پر نقصان پہنچاتی ہے تو اسے کھانا یا پینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر محض گمان یا بے دلیل دعویٰ ہی ہو تو پھر اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔کھانے پینے کی چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعاً۔ ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز بنائی ہے۔]البقرۃ:29[
اس لیے کسی بھی چیز کے بارے میں حرام ہونے کا موقف صحیح اور واضح دلیل کے بغیر نہیں اپنایا جا سکتا، چنانچہ محض گمان یا شبہات سے کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔پھر اگر یہ بات ثابت ہو کہ ان مشروبات کی زیادہ مقدار جسم کو نقصان پہنچاتی ہے، اور اسی نقصان کی وجہ سے اس پر حرام ہونے کا حکم لگے تو پھر اس کی وہی مقدار حرام ہو گی جو نقصان دہ ہو، چنانچہ ان مشروبات کی قلیل مقدار حرام نہیں ہو گی، اہل علم یہ اصول ذکر کرتے ہیں کہ: ''جس چیز کی کثیر مقدار نقصان دہ ہو تو اس کی قلیل مقدار حلال ہوتی ہے۔''
اگر کوئی شخص ذاتی احتیاط کے طور پر ان مشروبات کو نہیں پینا چاہتا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس کے لیے ان مشروبات کو واضح دلیل کی صورت میں ہی حرام کہنا ممکن ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:جن چیزوں کے بارے میں ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے ان کی تعیین میں اہل علم کی مختلف آرا ہیں، چنانچہ کچھ اہل علم صرف غذائی اجناس تک محدود کرتے ہیں تو کچھ ہر ایسی چیز کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے اور جس کی عدم دستیابی کی صورت میں لوگوں کو نقصان ہو، یہ مالکی فقہائے کرام کا موقف ہے اور امام احمد سے ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے، اور یہی موقف احادیث کے ظاہر کے مطابق صحیح ہے۔
'احادیث کا ظاہر یہی بتلاتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی حرام ہے اور اس کے لیے انسانوں یا حیوانوں کی غذا میں کوئی فرق نہیں ہے، اگر کسی حدیث میں ''طعام'' یعنی انسانی غذائی جنس کے الفاظ ہیں تو یہ روایات دیگر مطلق روایات کو مقید کرنے کے لیے مناسب نہیں ہیں؛ کیونکہ یہ مطلق کے افراد میں سے کسی ایک کا صراحت کے ساتھ نام لینے کے قبیل سے ہے۔'' 
اسی طرح علامہ رملی شافعی ''أسنی المطالب'' پر حاشیہ کے صفحہ نمبر: (2/39) پر کہتے ہیں:''مناسب یہی ہے کہ ممنوعہ ذخیرہ اندوزی ہر اس کھانے اور پہننے کی چیز میں ہونی چاہیے جس کی عام طور پر ضرورت پڑتی رہتی ہے۔'' یہی موقف اس حکمت کے ساتھ بھی مناسب ہے جس کی وجہ سے ممنوعہ ذخیرہ اندوزی سے منع کیا گیا ہے، اور وہ ہے لوگوں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ، چنانچہ اسی موقف کے مطابق دائمی فتوی کمیٹی (13/184) نے بھی فتوی جاری کیا ہے کہ:''ایسی چیز کو ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو، اور اسی کو عربی میں احتکار کہتے ہیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ناجائز ذخیرہ اندوزی خطا کار ہی کرتا ہے۔) اس حدیث کو احمد، مسلم، ابو داود، نسائی، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ نیز اس ذخیرہ اندوزی سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔
لیکن اگر لوگوں کو اس چیز کی ضرورت نہ ہو، تو پھر اس وقت تک کے لیے ان چیزوں کو ذخیرہ کرنا جائز ہے جب ان کی ضرورت پڑے اور پھر لوگوں کو مہیا کر دی جائیں تا کہ لوگوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔'' 
مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق: اگر موبائل ریچارج کارڈ ذخیرہ کرنے پر لوگوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا؛ کیونکہ لوگ کسی اور ذریعے سے اپنا کام چلا سکتے ہیں تو انہیں ذخیرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ ممنوعہ ذخیرہ اندوزی میں بھی نہیں آئے گا۔
لیکن اگر اب انہیں فروخت نہ کیا جائے تو اس سے لوگوں کو نقصان ہو گا، اور متبادل
 دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سخت تکلیف ہو گی، جس کی وجہ سے معمول سے بڑھ کر انہیں زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی تو یہ حرام ذخیرہ اندوزی ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:تسمیہ پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، نیز سورت کے آغاز سے تلاوت کرے تو تب بھی بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، لہذا سورت فاتحہ کے آغاز میں نمازی تسمیہ پڑھے گا، جبکہ فاتحہ کے بعد والی قرائت اگر سورت توبہ کے علاوہ کسی اور سورت کے آغاز سے ہو تو تسمیہ پڑھے گا، وگرنہ نہیں پڑھے گا، چنانچہ اگر آغاز تلاوت درمیان سورت سے ہو تو بسم اللہ پڑھنا مستحب نہیں ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:اگر کوئی مسلمانوں کی ضروریات زندگی کی فراہمی کو مشکل بنانے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، مارکیٹ سے سارا مال اٹھا لیتا ہے اور لوگ پھر اسی سے مہنگے اور من مانے داموں خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ بلا شبہ احتکار یعنی ممنوعہ ذخیرہ اندوزی ہے، ایسے شخص کو گرفتار کرنا چاہیے اور اس عمل سے منع کرنا چاہیے۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے سائل نے ذکر کیا ہے کہ مارکیٹ میں اس کے علاوہ مال ہی نہیں ہے اور لوگوں کو اس کی ضرورت بھی ہے، لیکن یہ تاجر اکیلا ہی مارکیٹ سے سارا مال خرید لیتا ہے اور من مانی قیمت پر فروخت کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے، ذمہ داران پر لازم ہے کہ ایسے شخص کو روکیں۔ لیکن اگر یہ چیزیں ضروریات سے نہیں بلکہ سہولیات سے تعلق رکھتی ہیں اور لوگوں کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، یا پھر کسی اور بازار میں یہ چیز دستیاب ہے، یا اس چیز کا متبادل بھی بلا کسی مشقت کے دیگر جگہوں پر موجود ہے تو پھر یہ حرام نہیں ہو گا، تاہم پھر بھی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ لوگوں پر تنگی ڈالے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:بیٹی پر شفقت و رحمدلی اور نرمی کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو والد کا اپنے ساتھ لگانا اور اس کا سر یا رخسار کا بوسہ لینا جائز ہے، چاہے بیٹی بالغہ اور بڑی عمر کی ہو، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ فتنہ یا شہوت کا ڈر نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں ہونٹوں کا بوسہ لینا جائز نہیں یہ مستثنی ہے کیونکہ یہ صرف خاوند اور بیوی کے ساتھ مخصوص ہے، اور اس لیے بھی کہ اس سے غالبا شہوت میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:آیا مرد اپنی محرم عورت کا بوسہ لے سکتا ہے یا نہیں؟انہوں نے جواب دیا:'' جب سفر سے واپس آئے اور اسے اپنے نفس کا (شہوت) کا ڈر نہ ہو تو.
اور الاقناع میں درج ہے:'' اگر کسی کو اپنے نفس کا خطرہ نہ ہو تو سفر سے واپس آنے والے شخص کے لیے اپنی محرم عورتوں کا بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن وہ ایسا ہونٹوں پر مت کرے، بلکہ پیشانی اور سر کا بوسہ لے '' شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:
اگر کسی شخص کی بیٹی بلوغت کی عمر سے تجاوز کر جائے اور بڑی ہو جائے چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ تو کیا اس کا ہاتھ اور مونہہ وغیرہ چومنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر ان جگہوں کا بوسہ لیا جائے تو کیا حکم ہوگا؟
شیخ رحمہ اللہ کا جواب تھا:'' مرد کے لیے بغیر شہوت اپنی چھوٹی یا بڑی عمر کی بیٹی کا بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر بیٹی بڑی ہے تو پھر رخسار کا بھی بوسہ لے سکتا ہے کیونکہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے رخسار کا بوسہ لیا تھا۔
اور صحیح بخاری میں ہی روایت ہے کہ:براء رضی اللہ تعالی عنہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہجرت کے بعد ان کے گھر گئے تو ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی عائشہ لیٹی ہوئی تھی اور انہیں بخار تھا تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے باپ نے عائشہ کا رخسار چوما اور کہنے لگے: میری بیٹی تم کیسی ہو؟ ''
صحیح بخاری حدیث نمبر (3704).
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :مان لیا جائے کہ حضور ﷺ نے اپنی عترت یا اہل بیت سے دین سیکھنے کا ہی حکم دیا ہے تو ان الفاظ کا مفہوم آخر صرف اولاد حضرت علیؓ تک ہی کیوں محدود کردیا گیا؟ اس میں ازروئے قرآن ازواج نبی بھی داخل ہیں اور ان میں آل جعفر، آل عقیل، آل عباس اور تمام بنو ہاشم بھی داخل ہیں جن پر حضور ﷺ نے صدقہ حرام کیا۔
پھر حضورﷺ نے صرف یہی نہیں فرمایا کہ ترکت فیکم الثقلین -85 بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ‘‘علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین’’ (میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر چلو) اور یہ بھی فرمایا کہ ‘‘اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم’’ (میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کسی کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے)۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ حضور ﷺ کے ایک ارشاد کو تو لیا جائے اور دوسرے ارشادات کو چھوڑ دیا جائے؟ کیوں نہ اہل بیت سے بھی علم حاصل کیا جائے اور ان کے ساتھ خلفائے راشدین اور اصحاب نبی رضی اللہ عنہم سے بھی؟عقل کسی بھی طرح یہ باور نہیں کرسکتی کہ تیئس سال کے دوران میں جو عظیم الشان کام نبی نے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی شرکت و رفاقت میں سر انجام دیا اور جسے لاکھوں آدمیوں نے اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا، اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں صرف آپ کے گھر والوں پر ہی حصر کرلیا جائے اور ان بہت سے دوسرے لوگوں کو نظر انداز کردیا جائے جو اس کام میں شریک ہوئے اور جنہوں نے اسے دیکھا۔ حالاں کہ حضور ﷺ کے گھر والوں میں سے خواتین کو اگر موقع ملا ہے تو زیادہ تر آپﷺ کی خانگی زندگی دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مردوں میں ایک حضرت علی ؓ کے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے آپ ﷺ کی رفاقت کا اتنا موقع ملا ہو جتنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، عمرؓ، عثمانؓ، ابن مسعودؓ اور دوسرے بہت سے صحابہ کرام کو ملا۔ پھر آخر محض اہل بیت ہی پر حصر کرلینے کی کونسی معقول وجہ ہے؟
اس سوال کو رد کرنے کے لیے بآلاخر ایک گروہ کو یہ کہنا پڑا کہ گنتی کے چند آدمیوں کے سوا باقی تمام صحابہ معاذ اللہ منافق تھے۔ مگر یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو۔ جسے نہ اس بات کی پروا ہو کہ تاریخ اس کی تمام خاک اندازیوں کے باوجود کس طرح اس کے قول کوجھٹلا رہی ہے اور نہ اس امر کی پروا ہو کہ اس قول سے خود سرکار رسالت مآب اور آپؐ کے مشن پر کیسا سخت حرف آتا ہے۔ کون معقول آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے ۳۲ سال تک اپنے جن رفقا پر پورا اعتماد کیا اور جنہیں ساتھ لے کر عرب کی اصلاح کا اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا وہ سب منافق تھے؟ پھر کیا حضور ﷺ ان کے نفاق سے آخر وقت تک بے خبر رہے؟ اگر یہ سچ ہے تو حضور ﷺ کی مردم شناسی و فراست مشتبہ ہوجاتی ہے اور اگر یہ غلط ہے، اور یقیناً غلط ہے تو آخر کیوں دین کا علم حاصل کرنے میں ان سب کی معلومات معتبر نہ ہوں؟
آپ کو کسی نے بالکل غلط باور کرادیا ہے کہ آئمہ اہل سنت نے مسائل دین کی تحقیق میں نہ اہل بیت سے رجوع کیا، نہ ان سے کوئی مسئلہ پوچھا اور نہ ان سے کوئی حدیث کی روایت لی۔ یہ غلطی حضرات اہل تشیع نے ضرور کی ہے کہ معلومات کے ایک ہی ذریعے (یعنی اہل بیت -85 جنہیں انہوں نے بیت مانا) پر حصر کرلیا اور دوسرے تمام ذرائع کو چھوڑ دیا۔ مگر آئمہ اہل سنت نے یہ غلطی نہیں کی۔ انہوں نے تو وہ علم بھی لیا ہے جو اہل بیت کے پاس تھا اور وہ بھی لیا جو دوسرے صحابہ کرامؓ کے پاس تھا اور پھر پوری چھان بین کے بعد اپنے طرز تحقیق کے مطابق فیصلہ کیا ہے کہ کس مسئلہ میں کون سا طریقہ زیادہ صحیح اور معتبر ہے۔مثال کے طور پر امام ابو حنیفہؒ ہی کو لیجیے۔ وہ جہاں دوسرے صحابہ کرام و تابعین سے علم حاصل کرتے ہیں وہاں امام محمد باقرؓ، امام جعفر صادق ؓ، حضرت زید بن علی بن حسینؓ اور محمد بن حنیفہ کے علم سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ یہی حال دوسرے فقہا اور محدثین کا بھی ہے۔ حدیث کی کونسی کتاب ہے جس میں بزرگان اہل بیت کی روایات نہ پائی جاتی ہوں۔لیکن یہ کہنا کہ نماز یا کوئی دوسری چیز صرف وہی لی جاتی جو امام جعفر صادق ؓ کے پاس تھی، کیوں کہ انہوں نے امام محمد باقر ؓ سے اور انہوں نے امام زید العابدین ؓ سے اور انہوں نے امام حسین ؓ سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ اور انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے اسے لیا تھا، صحیح نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اسی ذریعے پر حصر کیوں کیا جائے؟ دوسرے ہزاروں لوگ بھی تو موجود تھے جنہوں نے نمازیں پڑھتے ہوئے اور دوسرے دینی کام کرتے ہوئے سینکڑوں تابعین کو اور انہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا تھا اور ان سب نے نبیﷺ کو اپنی آنکھوں سے یہی کام کرتے دیکھا تھا۔ آخر ان کو چھوڑنے اور صرف اہل بیت سے تمسک کرنے کی کیا وجہ ہے؟ صاحب البیت ادریٰ بما فیہ کوئی آیت قرآنی یا حدیث تو نہیں ہے کہ اس کی پیروی اختیار کرکے اسی نبی کی زندگی کے بارے میں صرف اس کے گھر والوں کے علم پر انحصار کر لیا جائے جس کی زندگی کا ننانوے فیصدی حصہ گھر سے باہر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے سامنے گزرا ہے اور جس سے ہزار ہا آدمیوں کو مختلف احوال و معاملات میں کسی نہ کسی طور پر سابقہ پیش آیا ہو۔
لوگ مسائل دینی میں اختلافات کو دیکھ کر گھبرا اٹھے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ اختلافات نہ ہوتے اگر صرف اہل بیت کے علم پر اکتفا کر لیا جاتا۔ حالاں کہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ نہ اختلافات کوئی گھبرانے کی چیز ہیں اور نہ اہل بیت کے متبعین ہی اختلاف سے بچ سکے ہیں۔ آپ اگر حضرات شیعہ کے مختلف فرقوں کے عقائد اور ان کے فقہی مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ ان کے ہاں اس سے زیادہ اختلافات ہیں، جتنے اہل سنت میں پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مسلک کا ماخذ اہل بیت ہی کے علم کو قرار دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس دین کو کروڑوں انسان اختیار کریں اور جس کے مآخذ کا ہزاروں لاکھوں انسان مطالعہ کرکے غور و فکر کریں، اس کی نصوص کی تعبیر اور احکام کی تفصیل اور جزئیات کی تحقیق میں کامل اتفاق کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے۔ اختلاف تو ایسی صورت میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور اس کے رونما ہونے کو روکا نہیں جاسکتا۔ لیکن ان بے شمار اختلافات کے اندر ایک جوہری وحدت ہوتی ہے اور وہ ان اساسی عقائد و اصول اور ان بڑے بڑے احکام کی بنیاد پر ہوتی ہے جس میں سب متفق پائے جاتے ہیں۔ اگر لوگ اصل اہمیت اس بنائے وحدت کو دیں اور جزوی اختلافات کو اپنی جگہ پر رکھیں تو کوئی قباحت واقع نہیں ہوتی۔ مگر جب لوگوں کے لیے اصل اہمیت ان جزوی امور کی ہوجاتی ہے جن میں وہ آپس میں مختلف ہیں اور بنائے وحدت کو وہ خفیف سمجھنے لگتے ہیں تو پھر تفرقہ رونما ہوتا ہے۔مثلاً نماز ہی کو لیجیے اس میں بنائے وحدت یہ ہے کہ سب مسلمان اللہ واحد ہی کی عبادت کرتے ہیں، اس کے طریق ادا کا ماخذ اسی نماز کو مانتے ہیں جو نبیﷺ نے سکھائی، پانچ وقت کی نماز فرض مانتے ہیں، ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں، وضو کو اس کے لیے شرط تسلیم کرتے ہیں، رکوع، سجدہ، قیام، قعدہ کو اس کی ہیئت کے اجزا مانتے ہیں اور اس میں تلاوت قرآن مجید اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس بنائے وحدت کے بعد ان میں اختلافات کن چیزوں میں ہیں؟ ہاتھ کہاں باندھے جائیں یا کھولے جائیں۔ آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ -85 امام کے پیچھے فاتحہ پڑھیں یا نہ پڑھیں وغیرہ۔ ان جزوی امور میں جتنے بھی مختلف مذاہب ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے پاس یہ دلیل رکھتا ہے کہ اس کا طریقہ کسی نہ کسی سند کے ساتھ نبی ﷺ سے مروی ہے اور وہ اپنی سند پیش کرتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ کس کی سند ضعیف ہے اور کس کی قوی، دیکھنا یہ ہے کہ ہر ایک کے پاس آخر نبی کریم ﷺ ہی کی سند تو ہے کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ میں حضور ﷺ کے سوا کسی اور کی سند پر یہ کام کرتا ہوں۔ پھر آخر کیا مضائقہ ہے، اگر ہم ایک طریقے پر (جس پر بھی ہمارا اطمینان ہو)عمل کرتے ہوئے دوسرے کے طریقے کو بھی مبنی برحق سمجھیں اور بنائے وحدت پر متفق رہیں؟(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال ۱۷۳۱ھ، جون، جولائی ۲۵۹۱ء)
 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

جواب :محمد اسامہ سرسری
اس سوال کا جواب اگر وہ لوگ دے رہے ہیں جنھوں نے اس میدان میں قدم ہی نہیں رکھا تو وہ عموماً یہ کہہ کر حرام ہونے کا فتوی دے دیتے ہیں کہ ان اشتہارات میں میوزک اور عریانی سے بچنا ناممکن ہے سو یہ آمدنی حرام ہے۔ میں چونکہ ایک عرصے سے اس میدان سے وابستہ ہوں اس لیے اب تک جو تحقیق کی ہے وہ پیش کردیتا ہوں کہ شاید مفتیان کرام کے کام آجائے ۔
بات یہ ہے کہ یوٹیوب پر معتدل اہل علم کی جانب سے تعلیمی، تدریسی، دینی و ادبی چینلز بنانا وقت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ساری دنیا اب ہر چیز یوٹیوب پر سیکھ رہی ہے تو اگر درست لوگوں نے یہ چیزیں پیش نہیں کی ہوں گی تو نادرست لوگ متعلمین کے استاد بنتے جائیں گے جس سے دنیا میں جہل مرکب زیادہ پھیلے گا۔تو جیسے وقت کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہل مدارس حیلہ تملیک مسلسل کرتے چلے آئے ہیں، جیسے سیاست کے میدان میں کام کرنے والے نامحرم خواتین کے ہمراہ نشست و گفتگو کو گوارہ کرلیتے ہیں، جیسے بنات کے مدارس میں نامحرم تلمیذات کی آواز سن لیتے ہیں، جیسے تبلیغی جماعت والے دیگر مسالک والوں کے ساتھ اختلاط کرلیتے ہیں تو اس میدان میں کام کرنے والوں کو بھی پیش آمدہ قباحتوں کا حل نکالنا ہوگا نہ کہ میدان سے راہِ فرار اختیار کرنا۔ 
دوسری ضرورت جوکہ پہلی سے نسبتاً کم ہے وہ معاش ہے، اللہ تعالی نے ہر انسان میں معاش کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے الگ صلاحیت رکھی ہے تو جیسے بازار میں اختلاط مرد و زن کی قباحت ہے، پروڈیکٹس میں عریانی اور تصویری قباحتوں کا انبار ہے ویسے ہی یوٹیوب پر بھی یہ قباحتیں ہیں، جیسے دیگر تاجران اپنی پیش آمدہ قباحتوں کا حل کبھی برداشت اور کبھی توبہ سے نکالتے ہیں مگر آج تک کسی نے کاروبار بندنہیں کیا اسی طرح یوٹیوب سے معاشی ضرورتیں پوری کرنے والوں کو ان قباحتوں کا حل بتانا چاہیے نہ کہ راہِ فاقہ کہ اس سے افاقہ سائل کو نہیں مسؤل ہی کو ہوتا ہے۔ ان دو ضرورتوں کے پیش نظر یوٹیوب چینل بنانا اور اس سے دینی اور ذاتی ضروریات کو پورا 
کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
اب اگر کوئی صرف دینی ضرورت پوری کرنے کے لیے چینل بناتا ہے اور چینل کو مونیٹائز نہیں کرتا تو یوٹیوب پھر بھی اس کی ویڈیوز پر نازیبا اشتہارات چلاتا ہے۔
اب یہ جانیے کہ یہاں معاشی کمائی متعدد طریقوں سے ہوتی ہے:
(1) اپنے کورسز یا پروڈیکٹس کی تشہیرسے
(2) اپنے ادارے یا برانڈ کی تشہیرسے
(3) دیگر لوگوں اور کمپنیوں کے اشتہارات
(4) یوٹیوب اشتہارات
پہلی تین صورتیں بالاتفاق جائز ہیں کیونکہ وہ ہمارے اختیار میں ہوتی ہیں تو ہم نہ ان میں میوزک ڈالتے ہیں نہ عریانی۔صرف چوتھی صورت یعنی یوٹیوب اشتہارات کی آمدنی کا مسئلہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آمدنی صرف تب حرام ہوگی جب اشتہار کسی حرام پروڈیکٹ کا ہو جیسے فلم، ڈراما، میوزک، جوا، شراب وغیرہ میں نے ایڈ فلٹر کرکے ان تمام حرام پروڈیکٹس کے اشتہارات کو بند کردیا ہے، یعنی یہ قباحت تو بآسانی ختم کی جاسکتی ہے۔رہ جاتی ہے اصل مختلف فیہ صورت کہ باقی تمام اشتہارات میں بھی تو میوزک اور عریانی ہیں اور یہ دونوں حرام ہیں تو ان کی آمدنی بھی حرام ہونی چاہیے تو اس کی تحقیق یہ ہے کہ یوٹیوب اشتہارات دیکھنے کے پیسے نہیں لیتا دیتا بلکہ جب کوئی بندہ کسی اشتہار پر کلک کرکے اس کمپنی کی ویڈیو یا ویب سائٹ پر چلا جاتاہے تب اس کا معاوضہ یوٹیوب کمپنی سے لے کر اس کی کچھ پرسنٹیج یوٹیوبر کو دیتا ہے تو معلوم ہوا کہ اشتہار میں جو میوزک اور عریانی ہے وہ مقصود فی البیع نہیں ہے، بالفرض اگر صرف اشتہار دیکھنے کے پیسے ہوں تب بھی اشتہار میں پروڈیکٹ مقصود ہوتی ہے نہ کہ میوزک یا عریانی، لہذا اسے اشتہار میں شامل کرنے والا گنہگار تو ہوگا مگر اس کا اس معاملے پر براہ راست اثر نہیں پڑ رہا تو اس معاملے کو اور اس آمدنی کو حرام کہنا سمجھ سے باہر ہے۔
جیسے میڈیکل، کاسمیٹک اور دیگر جنرل آئٹمز کے بیچنے والوں کی آمدنی ان اشیاء پر موجود عریانی کی وجہ سے حرام نہیں ہوتی۔
ایک فقہی اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ معاملہ یوٹیوبرز پر مجہول ہے، اسے پتا ہی نہیں کہ کتنے کلکس پر کتنے مل رہے تو اس جہالت کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد ہوگا، اس کا حل یہ ہے کہ یہ انٹرنیٹ سسٹم کے عرف کی وجہ سے
 مجہول کے حکم سے نکل جاتا ہے کیونکہ جہالت مفضی الی النزاع ہوتی ہے جبکہ
 یہاں ہر یوٹیوبر مطمئن ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ سب کمپیوٹر پروگرامنگ کے تحت ایک مربوط سسٹم سے چل رہا ہے۔
 

(اسامہ سرسري)

جواب:اسلام کے قانون وراثت کو اس کے درست تناظر میں آپ دیکھیں گی تو آپ کو یہ کسی پہلو سے بھی بے انصافی پر مبنی نہیں لگے گا بلکہ عین فطری اور عقلی قانون محسوس ہوگا۔ اس لیے پہلے اسلام کے قانون وراثت کی اساسات کو سمجھ لیجیے۔
اسلام کے قانون وراثت کی دو بنیادی اساسات ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قانون اسلام کے اس معاشرتی تصور پر مبنی ہے جو خاندان کے نظام پر قائم ہے۔ اس میں ماں باپ ہر طرح کی قربانی دے کر بچے کو پالتے ہیں۔ بھائی بہن ہر اچھے برے میں اس کا ساتھ دینے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کی شادی ہوجاتی ہے۔ اس سے یقینا ً نئے رشتے پیدا ہوتے ہیں۔ ان رشتوں میں بیوی کا رشتہ بڑا اہم ہے۔ اس بیوی سے انسان کی اولاد ہوتی ہے۔ جو اصل میں ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری اٹھانے کے اخلاقی اور دینی طور پر پابند ہوتے ہیں۔ بتدریج یہی رشتے اس کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔چنانچہ اس پس منظر میں اصل وارث اولاد ہے۔ لیکن ان سے قبل بیوی، ماں اور باپ ہر ایک کا ایک متعین حصہ بھی مقرر کیا گیا ہے جو اس انسان کے قریب ترین رشتے ہیں۔ اولاد اگر نہ ہو تو پھر مرنے والے کے بہن بھائی اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھر یہ بھائی بہن ہی ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہر اچھے برے میں اس انسان کا ساتھ
 دیں۔اسلام کے قانون وراثت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو نظرانداز ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام مرنے والے کو وصیت کا حق بھی دیتا ہے اور یہ حق بھی دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کسی کے نام کر دے۔ چنانچہ اگر کسی نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ اس کے بھائی بہن اس کا ساتھ نہیں دے رہے اور بیوی ہی اس کی تنہا غمخوار ہے تو اسے یہ حق ہے کہ وہ اپنی کل جائیداد بیوی کے نام کر دے۔ اس میں کوئی چیز بھی مانع نہیں ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں راستے کھلے رکھے ہیں۔ ایک طرف کسی نے اگر زندگی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ کرکے لواحقین کے دل میں باہمی اختلاف پیدا ہونے کا امکان ختم کر دیا کہ کسی کو کم یا زیادہ حصہ ملنے کی شکایت ہو۔ دوسری طرف انھوں نے انسان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ صورتحال دیکھ کر اپنی جائیداد کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے۔ چنانچہ ایسی ہر صورتحال میں جہاں انسان اپنے خاص حالات میں یہ محسوس کر رہا ہو کہ کسی نے حق ادا نہیں کیا یا کسی نے بہت زیادہ کیا ہے تو وہ اپنی زندگی میں جو چاہے فیصلہ کر دے۔وہ فیصلہ نہیں کرے گا تو بہرحال اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی نافذ ہوگا۔
اس تفصیل کے بعد اس خاص معاملے میں اسلامی قانون شریعت میں عرض کر دیتا ہوں کہ اگر اولاد نہ ہو تو عورت کو اپنے شوہر کے ترکے میں سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔ والدین میں سے ہر ایک کو ایک بٹا چھ حصہ ملے گا۔ مرنے والے کے بھائی بہن اس کی اولاد کی جگہ لے لیں گے اور کل ترکے کو اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر بھائی کا حصہ بہن سے دوگنا ہوگا۔

()