والدین کا غلط رویہ

ج: یہ مشکل اس وقت بہت سے لوگوں کو پیش آرہی ہے اور اس کی وجہ ہمارے ہاں تربیت کا انتہائی ناقص ہونا ہے ۔تربیت کا جو نظام خاندانی ماحول میں موجود تھا وہ بھی ختم ہو گیا ۔ تربیت کے جو مواقع اساتذہ کی جانب سے ملتے تھے وہ بھی تعلیم کے کاروبار بن جانے کے بعد ختم ہو گئے۔ یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری سوسائٹی کا بھی ہے ۔اگرچہ اللہ نے والدین کا بڑا حق قائم کیا ہے اور اپنے بعد سب سے بڑا حق انہی کاقرار دیا ہے لیکن بعض اوقات والدین بھی واقعتا نہایت غلط رویے اختیار کرتے ہیں۔ایسی صورت میں کیارویہ اختیار کیا جائے یہ ایک مشکل امر ہے۔میرے خیال میں اس کو اپنے لیے امتحان سمجھنا چاہیے۔ یہ خیال کیجیے کہ اللہ نے آپ کو اسی آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔اور یہ کہ کسی انسان کے لیے امتحان اور آزمائش کا کون سا میدان ہوگا اس کا انتخاب اللہ خود ہی کرتے ہیں ۔آپ کے لیے امتحان کا یہ میدان ہی اللہ کی مشیت ہو گی ۔اگر کسی شخص کو والدین کی طرف سے یہ معاملہ پیش آ گیا ہے تواس کو بہت سلیقے کے ساتھ یہ عزم کر لینا چاہیے کہ مجھے اس میں کامیاب ہونا ہے ۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ بہت صبر سے کام لیں ۔ جتنی بات کرنی ضروری ہو اتنی بات کریں ، بے جا بحث سے گریز کریں ۔ جو بات نہیں ماننے کی اس کے بارے میں شائستگی سے بتا دیں کہ یہ ممکن نہیں ہے اور بس خاموشی اختیار کر لیں ۔ خاموشی پر اگر کوئی رد عمل ہوتا ہے تو ا سکو بھی خاموشی سے برداشت کر لیں اور اپنی طرف سے کوئی زیادتی ،کوئی بے ادبی، کوئی بدتمیزی ہر گز نہ کریں۔ اس لیے کہ آپ ایک بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں اور اس میں اللہ سے دعا بھی کرتے رہیں کہ وہ آپ کو کامیابی عطا کرے ۔

(جاوید احمد غامدی)

 بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کر دیں ۔ لیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے ۔ وارثوں کی نامزدگی اوروراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے۔یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کرڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔  (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔  (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالی۔اوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل  طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ      ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائے گا لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)