والدین کی نافرمانی

ج: اگر وہ آپ کو ایسی بات کہتے ہیں کہ جو دین کے خلاف ہے ، تو آپ ان کی بات معذرت کے ساتھ رد کر سکتے ہیں، باقی معاملات میں نافرمانی کی معقول وجہ ہونی چاہیے ۔ خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔ اللہ تعالی اپنی عبادت کا حکم دیتے ہیں اس کے فوراً بعد کہتے ہیں وبالوالدین احسانا ۔مشرک اور بے دین والدین کے بارے میں بھی حکم ہے کہ دنیا کے معاملات میں ان کے ساتھ بالکل دستور کا ،نیکی کا تعلق رکھا جائے ۔ہر حال میں ان کی عزت کی جائے گا ان کا احترام کیا جائے گا۔ اصل میں تو والدین کی فرمانبرداری ہی ہونی چاہیے جب تک کہ نافرمانی کی ٹھوس وجہ نہ ہواور یہ ٹھوس وجہ آپ کو اللہ کے ہاں ثابت کرنا ہوگی ۔ہوسکتا ہے جو یہاں ٹھوس ہو وہاں وہ ریت ثابت ہو۔ اس لیے اس احساس کے ساتھ والدین سے معاملہ کرنا چاہیے کہ ہم اس کے با رے میں ایک ایسی ذات کو جوابدہ ہیں جو دلوں کے بھید جانتی ہے اور اعمال کے محرکات تک سے باخبر ہے ۔ اگر والدین کوئی حکم اللہ یا اللہ کے رسول کے خلاف دے دیں تو نافرمانی ہو سکتی ہے ۔ وہ کوئی ایسی بات کہتے ہیں کہ جس کا آپ کی زندگی پر برا اثر پڑ سکتا ہے اور والدین خواہ مخواہ اس پر اصرار کر رہے ہیں ، تو شائستگی کے ساتھ معذرت کی جاسکتی ہے لیکن عام حالات میں تو ان کی فرمانبردار ی ہی ہونی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کردیںلیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے۔وارثوں کی نامزدگی اور وراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے ۔ یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اللہ اس سلسلے میں حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ  ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ   ۚ (النساء: 11)
”اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے سلسلے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں 
کے برابر ہونا  چاہیے۔“
اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کر ڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔  (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔  (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالیاوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل  طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ      ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائےگا۔لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)

 بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کر دیں ۔ لیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے ۔ وارثوں کی نامزدگی اوروراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے۔یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کرڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔  (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔  (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالی۔اوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل  طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ      ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائے گا لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)