وصیت

جواب :  شریعت میں وراثت اور وصیت دونوں کے احکام کھول کھول کر بیان کردیے گئے ہیں، اس لیے وصیت کی بنیاد پر وراثت کے احکام کو معطل نہیں کیاجاسکتا۔ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں اور غیروارث کے لیے کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت نہیں کی جاسکتی۔
صورتِ مسؤلہ میں گود لی ہوئی لڑکی اور اس کے شوہر کے حق میں صرف ایک تہائی مال و جائداد (پراپرٹی) کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ سائل کا انتقال ہونے کی صورت میں ان کی اہلیہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک چوتھائی ترکہ کی حق دار ہوں گی     (النساء:۱۲) بقیہ ترکہ عصبہ ہونے کی وجہ سے ان کے بھائیوں کو ملے گا۔

 

()

جواب: ترکہ کی تقسیم سے قبل قرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس کے بعد جو کچھ بچے گا وہ پورے کاپورا والد کاہوگا۔ والد کی موجودگی میں بھائیوں کا کچھ حصہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اگر میت صاحبِ اولاد ہوتو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیاجائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو، پوری کردی جائے اور قرض جو اس پر ہو، ادا کردیاجائے۔“
اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ ترکہ کی تقسیم وصیت کی تکمیل اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی۔
۲۔اگر میت کی اولاد ہو اور اس کے والدین بھی زندہ ہوں تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
۳۔اگر میت کی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین زندہ ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا۔
۴۔اگر میت کے بھائی بہن ہوں اور اس کے والدین بھی زندہ ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
مذکورہ بالا صورتوں میں سے موخرالذکر دو صورتوں میں باپ کے حصے کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے علماء نے یہ استنباط کیاہے کہ ان صورتوں میں باپ کاکوئی متعین حصہ نہیں ہے، بلکہ ماں کا حصہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچے وہ سب باپ کاہوگا۔
کسی شخص کے انتقال کے وقت اگر اس کے والدین زندہ ہوں اور اس کے بھائی بہن بھی ہوں تو بھائیوں بہنوں کو کچھ نہ ملے گا، پورا ترکہ ماں باپ میں تقسیم ہوجائے گا۔ اگر والدہ کا انتقال پہلے ہوچکا ہو اور والد زندہ ہوں تو وہ پورے ترکے کے مستحق ہوں گے، اس صورت میں بھی بھائیوں بہنوں کاکچھ حصہ نہ ہوگا۔

()

جواب : کوئی بھی عاقل اور بالغ عورت، اس سے قطع نظر کہ وہ شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ، یہ حق رکھتی ہے کہ آزادی سے اپنی جائیداد کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کر سکے۔ وہ چاہے تو اس سلسلے میں کسی سے مشاورت کر سکتی ہے ورنہ اس کی بھی پابندی نہیں۔اسے وصیت کرنے کا بھی حق حاصل ہے اور اسلام اس سے قطعا منع نہیں کرتا۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )

جواب: بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کردیںلیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے۔وارثوں کی نامزدگی اور وراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے ۔ یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اللہ اس سلسلے میں حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ  ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ   ۚ (النساء: 11)
”اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے سلسلے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں 
کے برابر ہونا  چاہیے۔“
اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کر ڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔  (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔  (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالیاوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل  طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ      ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائےگا۔لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)