دعائے مغفرت

جواب: والدین کی زندگی میں اولاد کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور ان کی خدمت اور خبر گیری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ قرآن وحدیث میں اس کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَقَضَی رَبّْکَ اَلَّا تَعبْدْوا اِلَّا اِیَّاہْ وَبِالوَالِدَینِ اِحسَاناً۔ (بنی اسرائیل:۳۲)

‘‘تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔’’

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی طلب میں آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کی بیعت کرناچاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا : ہاں، دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے اس شخص سے پھر سوال کیا: کیا تم اللہ سے اجر کے طالب ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں تب آپ نے فرمایا: فَارجِع اِلَیھِمَا فَاَحسِن صْحبَتَھْمَا (مسلم:۹۴۵۲) ‘‘تب اپنے والدین کے پاس واپس جاواور ان کی اچھی طرح خدمت کرو۔’’

آدمی پوری زندگی والدین کی خدمت کرتا رہے، لیکن ان کی زندگی کے آخری لمحات میں وہ کسی وجہ سے ان کے پاس نہ ہو، اس وجہ سے ان سے اپنی کوتاہیوں کی معافی نہ مانگ سکے تو کوئی حرج نہیں، ان کی دْعائیں اس کی ترقی درجات کا ذریعہ بنیں گی، لیکن اگر وہ پوری زندگی ان سے غافل رہے، ان کے حقوق ادا نہ کرے، بلکہ بات بات پر ناگواری کااظہار کرے، لیکن زندگی کے آخری لمحات میں رسم دنیا نبھانے کے لیے اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگنے بیٹھ جائے تو ایسی معافی تلافی کس کام کی؟

والدین کی وفات کے بعد اولاد کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ان کے لیے برابر دْعائے مغفرت کرے اور ان کی طرف سے وقتاً فوقتاً صدقہ وخیرات کرتا رہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘اِذَا مَاتَ الاِنسَانْ انقَطَعَ عَنہْ عَمَلْہ اِلَّا مِن ثَلَاثَ: اِلَّا مِن صَدَقَ جَارِیَ اَوعِلمٍ یّْنتَفَعْ بِہِ اَو وَلَدٍ صَالِحٍ یَدعْولَہ۔’’(مسلم: ۰۱۳۴)

‘‘جب کسی انسان کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین کاموں کا ثواب اسے بعد میں بھی ملتا رہتا ہے۔ (۱) صدقہ جاریہ (۲) علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے (۳) نیک اولاد، جو اس کے لئے دْعائے مغفرت کرتی رہے۔’’

حضرت ابن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا: ‘‘اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری ماں کاانتقال ہوگیا ہے۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا اجر ملے گا؟ آپ نے جواب دیا: ہاں، تب انہوں نے عرض :کیا میرے پاس کھجور کا ایک باغ ہے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ گواہ رہیے کہ میں نے اسے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کردیا۔’’ (ترمذی ۹۶۶، ابوداود:۴۸۸۲، نسائی:۵۵۶۳)

امام ترمذی نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ‘‘اس حدیث کی بنا پر اہل علم کی رائے ہے کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد اسے اجر وثواب ملنے کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ ہاں ،کوئی اْس کی طرف سے صدقہ کرے یا اس کے حق میں دْعا کرے تو اس کا اسے فائدہ پہنچتا ہے۔’’

()

جواب: دین اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ’۔ ‘‘جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے حقیقت میں اللہ کی اطاعت کی۔’’ آپ کی اطاعت اس لیے واجب ہے کہ آپؐ دین کے سلسلہ میں وحی کے بغیر نہیں بولتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘وما ینطق عن الہوی’ ، ‘ان ہو الا وحی یوحیٰ’ ۔ شریعت سازی کا اختیار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ دین میں ہم اپنی طرف سے کمی بیشی نہیں کر سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد’ (بخاری) ‘‘جس ے دین میں کوئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے (اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں)۔

بعض حضرات نماز جنازہ کے فوراً بعد چارپائی کے اردگرد کھڑے ہو کر اجتماعی شکل میں دعا کرتے ہیں۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں ایک بھی صحیح حدیث نہیں ملتی۔ کچھ لوگ جو علوم اسلامیہ کے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں، جنازہ کے بعد دعا کو درج ذیل آیت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں: ‘وقال ربکم ادعونی استجب لکم’ ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھ سے دعا کرو میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ حالانکہ ان لوگوں کا دعویٰ خاص ہے یعنی جنازہ کے فوراً بعد دعا کرنا، لیکن دلیل عام پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال تو اس طرح ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ زید گھر سے چلا گیا تو اس فقرے کا یہ معنی لینا کہ زید ضرور بالضرور حج بیت اللہ کے لیے گیا ہے ،کس قدر غلط ہے، اس لیے کہ حج کو جانا ایک خاص سفر ہے۔ اور زید کے گھر سے چلے جانے سے اس کے بیت اللہ شریف جانے کی دلیل ثابت نہ ہو گی۔ اگر وہ لوگ اس آیت کے عموم سے جنازہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت کرتے ہیں تو اسی آیت کے عموم کے پیش نظر درج ذیل مقامات پر بھی ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنی چاہیے۔ میت کو غسل دینے سے پہلے، پھر غسل دینے کے بعد، پھر گھر سے میت کی چارپائی رکھنے کے بعد، پھر جنازہ پڑھنے سے پہلے، پھر جنازہ پڑھنے کے بعد، تاکہ اس آیت پر مکمل عمل ہو سکے، لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ تو پتا چلا کہ درج بالا مقامات کو چھوڑ کر صرف نماز جنازہ کے بعد میت کی چارپائی پر گھیرا ڈال کر دعا کرنا سراسر من گھڑت اور دین میں ایک نئی ایجاد ہے۔

پھر ان حضرات کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ منع کی حدیث دکھائیں کہ نبیؐ نے جنازہ کے بعد دعا کرنے سے منع کیا ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس چیز کا وجود ہی نہیں ہے، اس سے منع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ حضرات جنازہ کے بعد اس حدیث سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعاء’ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ)

یہ لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

‘‘جب تم میت پر جنازہ پڑھ چکو تو اس کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرنا۔’’ اولاً اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق بقول ان کے کذاب راوی ہے۔ اہل حدیث جب مقتدی کے حق میں فاتحہ کی حدیث پیش کرتے ہیں تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں محمد بن اسحاق کذاب راوی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں ا س حدیث میں بھی تو یہی راوی ہے تو اب یہ حدیث کیسے صحیح ہو گئی؟ ثانیاً اس حدیث کا ترجمہ بھی غلط کیا جاتا ہے۔ اسی حدیث میں ‘اذا’ ظرفیہ شرطیہ ہے اور نحو کا قاعدہ ہے کہ جب ‘اذا’ شرطیہ ماضی پر آ جائے تو ماضی مستقبل کے معنی میں ہو جاتا ہے۔ (شرح جامی، ص ۲۳۶)تو اس حدیث کا صحیح معنی ہو گا ، جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھو تومیت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرو۔ چنانچہ احناف کے معتمد علیہ عالم مولانا عبد الحق دہلویؒ کا فارسی ترجمہ بالکل ہمارے ترجمہ کے عین مطابق ہے۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الجنائز مکتبہ نورانی پشاور)یہ حدیث بالکل اس حدیث کی طرح ہے جس میں نبیؐ نے فرمایا کہ ‘اذا صلیتم فاقیموا صفوفکم’ (مسلم شریف) ا س حدیث کا ترجمہ اگر اسی طرح کیا جائے جس طرح ہمارے بھائی دعا والی حدیث کا کرتے ہیں تو ترجمہ یوں ہو گا: جب تم نماز پڑھ چکو تو اپنی صفیں درست کرو۔ قارئین خود فیصلہ کریں۔ کیا یہ ترجمہ درست ہے؟ جب کہ قاعدہ کے مطابق صحیح ترجمہ یوں ہو گا: جب تم نمار پڑھنے لگو تو اپنی صفیں درست کرو۔ اسی طرح قرآن مجید میں ‘ فاذا قرأت القرآن فاستعذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم’ (اے پیغمبر جب آپ قرآن مجید کی تلاوت شروع کرنے لگیں تو اعوذ باللہ پڑھ لیا کریں۔) اگر ہمارے بھائیوں والا ترجمہ کیا جائے تو یوں ہو گا:‘‘جب تم قرآن پڑھ چکو تو اعوذ باللہ پڑھو’’۔ یہ ترجمہ عقل و نقل کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عربی گرامر کے بھی خلاف ہے۔یہ لوگ امام سرخسی کی کتاب مبسوط کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرؓ جنازہ کے بعد پہنچے تو کہا اگر تم نے مجھ سے پہلے نماز پڑھ لی ہے تو دعا میں مجھ سے آگے نہ بڑھو۔لیکن یہ روایت کسی معتبر حدیث کی کتاب میں نہیں ہے۔ اگر یہ روایت کسی معتبر کتاب میں ہوتی تواس کی سند ضرور ہوتی۔ بے سند چیز کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ یہ حضرات بیہقی کے حوالے سے ایک من گھڑت واقعہ سیدنا حضرت علی ؓ کے ذمے لگاتے ہیں کہ انھوں نے جنازہ کے بعد دعا کی۔ یہ سراسر جھوٹ ہے اور حقائق پر پردہ ڈالا گیا ہے۔ اصل واقعہ اس طرح ہے کہ سیدناعلیؓ نے ایک میت کی نماز جنازہ پڑھائی پھر جنازہ کے بعد کچھ لوگ آئے تو انھوں نے دوبارہ جنازہ پڑھا۔ اب دوبارہ جنازہ کی امامت حضرت قریظہ بن کعبؓ نے کی تو ان کے ساتھ شامل ہو کر حضرت علیؓ نے دوبارہ جنازہ پڑھا۔ چنانچہ خود امام بیہقی اس واقعہ کو اس باب کے تحت لائے ہیں کہ میت کی دوبارہ نمازہ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔ (السنن الکبریٰ، ح ۴، ص ۴۵)اس واقعہ میں تو دعا کا ذکر تک نہیں۔ پھر حضرت علی ؓ کے اس واقعہ سے ان کے اس نظریے کا بھی رد ہوتا ہے کہ دوبارہ نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔

نمازہ جنازہ کے فوراً بعد دعا کرنا فقہائے احناف کے نزدیک بھی جائز نہیں

۱۔ علامہ سراج الدین حنفی فرماتے ہیں: ‘اذا فرغ من الصلوٰۃ لا یقوم بالدعاء’۔ (فتاوی سراجیہ، ص ۲۳) جب نمازہ جنازہ سے فارغ ہو جائیں تو دعا کے واسطے نہ ٹھہریں۔

۲۔ حافظ الدین محمد بن شہاب حنفی فرماتے ہیں: ‘لا یقوم بالدعاء بعد صلوٰۃ الجنازۃ لانہ دعا مرۃ’ (فتاوی ہندیہ، ج ۱ ، ص ۴۸۳) جنازہ کے فوراً بعد دعا نہ کریں کیونکہ وہ ایک بار دعا کر چکا ہے۔

۳۔ علامہ ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں: ‘ولا یدعو بعد التسلیم’۔ (البحر الرائق ج ۲، ص ۱۸۳) نمازہ جنازہ سے سلام پھیرنے کے بعد دعا نہ کرے۔

۴۔ ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں: ‘ولا یدعو للمیت بعد صلوٰۃ الجنازۃ لانہ یشبہ الزیادۃ فی الصلوٰۃ الجنازۃ’۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، ج ۴، ص ۶۴) نماز کے بعد میت کے لیے دعا نہ کرے کیونکہ یہ نماز جنازہ میں زیادتی کے مشابہ ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ ‘‘ضیائے حدیث’’ لاہور، اپریل 2010ء)

(مولانا محمد اسماعیل بلوچ)

ج: دعا ، ان کے لیے گڑگڑا کر دعا کیجیے ۔حدیث میں آیا ہے کہ جب صالح اولاد دعا کرتی ہے تو اللہ اس کے ذریعے سے خطائیں معاف کرتے ہیں لیکن اگر کوئی خدا سے سرکشی کر کے گیا ہے تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس وقت تک درخواست کرتے رہیں جب تک کہ اللہ روک نہ دے۔ انبیا نے اپنے اسوہ سے یہی تعلیم دی ہے۔ سیدنا ابراہیم،ؑ والد کے کفر وعناد کے ظاہر ہونے کے باوجود، جب تک خدا نے منع نہیں کیا،دعا کرتے رہے ۔ حضورﷺ کو منافقین کے بارے میں کہا گیا کہ آپ ستر مرتبہ بھی دعا کریں گے تب بھی معاف نہیں کیا جائے گا تو حضور نے کہا کہ میں اکہتر مرتبہ کروں گا۔ بندے کا کام درخواست کرتے رہنا ہے جب تک کہ مالک خود ہی منع نہ کر دے ۔

(جاوید احمد غامدی)