الکحل کی حرمت کی اصل علت

جواب :آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ مغرب میں قانونی طور پر کسی فرد کے کسی عمل کو ممنوع ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں ہے جب تک وہ فعل دوسروں کے جسم وجان کے لیے ضرر رساں یاان کے کسی حق کو تلف کرنے کا باعث نہ ہو۔اس کے برعکس اسلام میں وہ تمام چیزیں بھی ممنوع ہیں جو انسان کے اخلاقی وجود کے منافی ہیں۔ شراب کوسورہ بقرہ کی آیت ۲۱۹میں اثم یعنی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ‘اثم’ کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘اثم کا لفظ…………اخلاقی مفاسد اور گناہوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ج۱، ص۵۱۴)اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت ۹۰میں اسے ‘رجس’ گندگی اور عمل شیطان قرار دیا گیا ہے۔ یہ آیت بھی شراب کی اخلاقی قباحت ہی کو واضح کرتی ہے۔سورہ نساء کی آیت ۴۳ سے واضح ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت کا اصل باعث اس کا نشہ آور ہونا ہے۔ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ جب تم نشے میں ہو تو نماز نہ پڑھو۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ شراب کی حرمت کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس آیت میں نشے اور جنابت دونوں کو نماز کے لیے مانع قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے اشتراک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ‘‘نشہ اور جنابت دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرکے اور دونوں کو یکساں مفسد نماز قرار دے کر قرآن نے اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ دونوں حالتیں نجاست کی ہیں، بس فرق یہ ہے کہ نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی۔ شراب کو قران نے جو ‘رجس’ کہا ہے یہ اس کی وضاحت ہو گئی۔’’ (تدبر قرآن، ج۲، ص۳۰۲)میں نے قرآن کا منشا بیان کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسلام کا نقطہ نظر آپ کے سامنے آگیا ہو گا۔ لیکن مغرب میں پہلے اس اصول کو منوانا ضروری ہے کہ انسان کے اخلاقی وجود کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ جب تک یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی قرآن کا یہ موقف ان کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔

(مولانا طالب محسن)