نبیوں میں فضیلت

ج: سورہ بقرۃ میں بڑی تفصیل سے اللہ نے یہ بیان کیا ہے اور اس کو مسلمانوں کا کلمہ جامع قرار دیا ہے کہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ لا نفرق بین احد من رسلہ ہم اللہ کے پیغمبروں کے مابین ہر گز کوئی تفریق روا نہیں رکھتے ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پر فضیلت نہیں ہے۔ اس کا جواب بھی اللہ نے دیا ہے کہ میں نے ہر پیغمبر کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت دی ہے ، کسی کو کسی پہلو سے ، کسی کو کسی پہلو سے ۔لیکن یہ کہ کسی کوکسی پر یا سب پر مطلق فضیلت حاصل ہے اس طرح کی بات نہ قرآن نے کبھی کہی ہے نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے بیان کی ہے۔ قرآن مجید نے مثال دے کر بتایا ہے کہ سیدنا موسیؑ کو ہم نے ان معاملات میں سب نبیوں پر فضیلت دی ہے ، سیدنا مسیحؑ کو ان ان معاملات میں سب نبیوں پر فضیلت دی ہے اور خود رسول اللہ ﷺ نے اس حوالے سے جب بیان فرمایا تو یہ فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں دوسرے نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے ۔ یہی صحیح طریقہ ہے ۔اس معاملے میں ہمارے ہاں عام طور سے جہالت پائی جاتی ہے اور اس طرح کی نعتیں بن گئہیں کہ‘‘سا رے نبی تیرے در کے سوالی ’’ نہ یہ دین ہے، نہ یہ قرآن ہے، نہ یہ حدیث ہے ،نہ یہ پیغمبروں کا طریقہ ہے اور نہ مسلمانوں کا طریقہ ہے۔ہمارا جو کلمہ جامع ہے وہ یہی ہے کہ لا نفرق بین احد من رسلہ ہم اللہ کے پیغمبروں کے مابین اس طرح کی کوئی تفریق نہیں کرتے اور تلک الرسل فضلنا سے مراد بھی یہ ہی ہے کہ جو ان کی فضیلتیں اللہ نے بیان کی ہیں وہ ہر ایک کے لیے ثابت ہیں۔ہر کوئی کسی نہ پہلوسے فضیلت کاحامل ہے ۔ سب ہمارے پیغمبر ہیں اور سب ہمارے لیے یکساں قابل احترام ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)