عبادات‘ زكوة

جواب:اگر میاں کی جائداد بھی ہے اور بیوی کی بھی تو دونوں کو اپنی اپنی جائداد پر زکوٰۃ دینا ہو گی۔غامدی صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق اسلام نے ہم پر درج ذیل شرح سے زکوٰۃ عائد کی ہے:
'' پیداوار،تجارت اورکاروبار کے ذرائع، ذاتی استعمال کی چیزوں اور حد نصاب سے کم سرمائے کے سوا کوئی چیزبھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ہرمال، ہر قسم کے مواشی اور ہر نوعیت کی پیداوارپر عائد ہوگی اور ہر سال ریاست کے ہر مسلمان شہر ی سے لازماً وصول کی جائے گی۔
 اس کی شرح یہ ہے:مال میں ڈھائی فی صدی سالانہ (اگر وہ مال ۲۴۶گرام چاندی کی مالیت سے زیادہ ہے)۔
پیداوار میں اگر وہ اصلاً محنت یااصلاً سرمائے سے وجود میں آئے تو ہر پیداوارکے موقع پراْس کا دس فی صد، اور اگر محنت اورسرمایہ، دونوں کے تعامل سے وجود میں آئے تو۵ فی صدی، اور دونوں کے بغیر محض عطیہ خداوندی کے طور پر حاصل ہو جائے تو ۰۲ فی صدی۔''
اس اصول کے مطابق آپ کو ان مکانوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں دینا جن میں آپ رہ رہے ہیں یا وہ آپ کے زیر استعمال ہیں۔ جو مکان کرایے پر اٹھے ہیں تو ان کے کرایے کا دس فی صد دینا ہو گا اور اگر وہ محض جائداد کی صورت میں قیمت بڑھنے پر بیچنے کے لیے روکے ہوئے ہیں تو پھر ہر سال ان کی حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد دینا ہو گا۔
زیورات پر مال کی زکوٰۃ (حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد) لگے گی۔اپنے کاروبار سے (جس میں آپ کا سرمایہ اور آپ کی محنت، دونوں صرف ہوتے ہیں اس سے) ہونے والی آمدنی اگر آپ کی حقیقی ضروریات کے بقدر رقم سے زیادہ ہے تو پھر کل آمدنی کا پانچ فی صد آپ کو دینا ہو گا۔    

 

(محمد رفیع مفتی)

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام ان مسائل کے ذیل میں کہ مذکورہ حالات میں،میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں 
-95میری شادی کو بارہ سال ہوگئے ہیں، جب شادی ہوئی تو ساس،سسر نے مجھے دکھایا کہ میرے شوہر اپنے والد کے ساتھ ان کی دکان پر سیٹ ہیں،مگر شادی کے بعد ایک سال تک دونوں نے ساتھ کام کیا،پھر گھریلو لڑائی جھگڑوں کے بعد ساس اور سسر (شوہر کے والدین)سے میرے شوہر کے تعلقات خراب ہونے کے بعد انہوں نے دکان سے نکال دیا اور کہا کہ اپنا کھاؤ،کماؤگھر ساتھ تھا مگر کھانا الگ کردیا۔میرے شوہر نے میرا سارا زیور لے لیا کہ کاروبار کروں گا یہ زیور بیچ کر،میرے والدین کا دیا ہواسارا زیور شوہر نے لے لیا اور ساس (شوہر کی والدہ)نے اپنی طرف سے جو دیا تھا،وہ زیور خود ساس نے لے لیا۔میرے چار بچے ہیں، بارہ سال سے یہ حال ہیکہ گھر ساس سے الگ ہوگیا ہے،گیارہ سال کرائے کے گھر میں رہے اب ایک سال سے سسر کے ذاتی گھر میں رہ رہے ہیں،انہوں نے ہمیں رہنے کے لیے دیا ہے، شوہر کبھی قرضہ لے کر اپنا کام کرتے ہیں جب کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے،تو سسر کے پاس چلے جاتے ہیں ان کی دکان پر کام کرنے کے لیے،پھر ان کے ساتھ سیٹنگ نہیں بنتی تو پھر قرضہ لے کر اپنا کام کرنے لگ جاتے ہیں،ہمارے گھریلو حالات تنگی میں ہی چلتے رہتے ہیں،کبھی سامان ڈھنگ سے لے آتے ہیں، کبھی روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔
-95میرے ہاتھ میں میرے ذاتی خرچے کا ایک روپیہ بھی نہیں دیتے۔
-95میری بیٹی ابھی کافی چھوٹی ہے تقریبا 9 ماہ کی ہے اور میرے پیٹ میں ہرنیا بھی ہے،جس کی وجہ سے میں کپڑے وغیرہ اور جھاڑو نہیں دے سکتی تو ماسی رکھی ہوئی ہے،جس کی تنخواہ بہت رُلا کر میرے شوہر دیتے ہیں ڈھائی تین ہزار روپے،کیا ایسی صورت میں میں زکوٰۃ کے پیسے لے کر اپنے اور اپنے بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں؟
-95میرے پاس سونے اور چاندی کا ایک تار بھی نہیں ہے،نہ ہی کوئی رقم ہے۔ہاتھ کے خرچ کے لیے میرے ماں باپ مجھے دیتے تھے،بچوں کے ساتھ سو ضروریات ہوتی ہیں،پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے،اس لیے وہ میری مدد کرتے ہیں مگر اب ان کے حالات بھی بہت خراب ہوچکے ہیں وہ بھی خرچ نہیں دے سکتے، تو کیا میں ایسی صورت میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں،کھانے کے لیے اور کپڑوں پر خرچ کر نے کے لیے استعمال کرسکتی ہوں اور میرے شوہر اگر کبھی اس میں کھالیں تو کوئی حرج تو نہیں ہے؟ جبکہ میرے بچوں کے دادا،دادی کروڑ پتی ہیں،مگر ہمارا گزارا مشکل سے ہوپاتا ہے،ساس سُسر کی گاڑی بھی ہے اور وہ گاڑی میرے شوہر بھی استعمال کرتے ہیں اور میں بھی جاتی آتی ہوں گاڑی میں،بچے دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کررہے۔
میرے پاس شادی میں آنے جانے کے لیے میرے ماں باپ نے اور ساس نے کچھ جوڑے بنا کر دییہوئے ہیں،تو کیا قیمتی جوڑوں کی موجودگی میں اور گھر میں فریج،واشنگ مشین کی موجودگی میں،میں زکوٰۃ کی مستحق ہوں؟
-95میرے میاں ظالم ہیں، بہت اذیت دیتے ہیں مثلاً:رات کو سونے نہیں دیتے،بات بات پر چکرانا،جھوٹ سچ کرنا،ٹارچر کرنا،کبھی ہاتھ بھی اٹھالیتے ہیں، ہر تھوڑے عرصہ کے بعد ماں باپ کے گھر پر بٹھانے کی دھمکی دیتے ہیں،پہلے کئی مرتبہ بٹھا بھی چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم جاؤ،میں بچوں کو اپنے پاس ہی رکھوں گا۔
-95میرے میاں خود کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے اور دکھاتے ہیں کہ میں قرض لے کر کام کررہا ہوں، یہ سب مجھے جھوٹ لگتا ہے، وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ مل کر تماشے کرتے ہیں، حالانکہ میرے سسرال کا ماحول اور میرے گھر کے حالات کو سامنے رکھا جائے تو سسرال والے چاہیں،تو میرے گھر کا خرچ دے سکتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا دوا،دارو کا خرچ بھی بڑی مشکل سے کرتے ہیں۔
-95میرے میاں اکثر جب راشن نہیں لاتے تو خود تو وہ اکیلے کبھی کبھی اپنے والدین کے ہاں کھانا پینا کرلیتے ہیں،اپنا لباس دوائی وغیرہ اور کھانا پینا اچھے سے کرلیتے ہیں،لیکن میرے لیے اور بچوں کے لیے سخت دل ہیں۔
-95میں اپنے میاں کو زکوٰۃ لینے کے بارے میں آگاہ نہیں کرسکتی،کیونکہ وہ پھر مجھے پیسے نہیں لینے دیں گے،زکوٰۃ کے پیسوں سے منع کردیں گے،اس صورت میں (کہ شوہر کو خبر نہ ہو)زکوٰۃ لینا جائز ہے؟

جواب۱۔۔جو شخص مقدارِ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی نقد قیمت کا مالک بھی نہ ہو اور اس کے پاس ضرورت سے زائد اس مالیت کی چیز بھی نہ ہو)کا مالک نہ ہو وہ مستحق زکوٰۃ ہے،چنانچہ جو مرد یا عورت مالکِ نصاب نہ ہو،اس کے لیے زکوٰۃ وغیرہ لینا درست ہے، مگر اپنے والدین،دادا، دادی،نانا، نانی،شوہر،بیوی کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی،البتہ ضرورت کی چیزوں میں داخل اشیاء مثلاً:(کپڑے،گھر کا سامان وغیرہ)زکوٰۃ لینے سے مانع نہیں ہوں گے،نیز اگر تنگی سے گزرِ اوقات ہوتے ہیں تو اس صورت میں زکوٰۃ لی جاسکتی ہے۔
لہٰذا صورت مسؤلہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر مبنی بر حقیقت ہے،تو مذکورہ حالات میں آپ کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے، نیز زکوٰۃ کی رقم کی مالک بننے کے بعد اگر شوہر کو زکوٰۃ کی رقم سے کھلایا جائے،تو اس میں حرج نہیں اسی طرح بچوں کو زکوٰۃ لے کر کھلا سکتی ہیں، بشرطیکہ جب تک آپ مستحق زکوٰۃ ہیں۔
۲۔۔ اس کے علاوہ آپ نے جو سونا اپنے شوہر کو دیا تھا،اب وہ سونا واپس کرنے سے انکار کررہا ہے اور اس کے ملنے امید نہ ہونے کی وجہ سے آپ نصاب کی مالک نہیں،لہٰذا زکوٰۃ لینے میں حرج نہیں۔
۳۔۔زکوٰۃ لینے کے لیے شوہر کو بتانا ضروری نہیں، اُن کو بتائے بغیر بھی آپ زکوٰۃ لے سکتی ہیں،تاہم چونکہ آپ مستحق ہیں اس لیے زکوٰۃ لینے کی گنجائش ہے، لیکن آپ کی ضروریات بھی(اگرچہ تنگی کے ساتھ)پوری ہورہی ہیں،اس لیے زکوٰۃ مانگنا آپ کے لیے درست نہیں،البتہ اگر آپ کو کوئی از خود زکوٰۃ دے دے تو لینے کی گنجائش ہے۔

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب: والدین کا اپنی اولاد کو اور اولاد کا اپنے والدین کو زکوٰۃ دینا درست نہیں، اسی طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے، ان کے سوا باقی رشتہ دار مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے بلکہ اس میں دگنا ثواب ہے، ایک ثواب زکوٰۃ دینے کا اوردوسرا صلہ رحمی کا۔ 
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)