فرعون کی لاش

جواب:قرآن مجید کی سورہ یونس میں فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیۃ، وان کثیرا من الناس عن آیاتنا لغافلون(۱۰:۹۲)پس آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں۔اس آیت کی شرح میں مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:‘‘قدرت کے انتقام کی اس عظیم نشانی کے اندر ایک دوسری عظیم نشانی یہ ظاہر ہوئی کہ فرعون کی لاش کو سمندر نے قبول نہیں کیاـــبلکہ اس کو ایک نشان عبرت بنانے کے لیے باہر پھینک دیا اور یہ لاش بعد لوگوں کو ملی بھی اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو خدائی کا مدعی تھا اس کا انجام کیا ہواـــمصرمیں لاشوں کو ممی کرکے محفوظ کرنے کا رواج تھااور ایک فرعون کی ممی کی ہوئی لاش قاہرہ کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ اس لاش کے بارے میں اثریات کے ماہرین چاہے اختلاف کریں کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے یا کسی اور کی۔ لیکن ان کے اٹکل پچو اندازوں کے مقابل میں قرآن کا یہ چودہ سو سال پہلے کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اس طرح قدرت نے اس کی لاش کو عبرت کی ایک ایسی نشانی بنا دیا جو آج کے فرعونوں کے لیے بھی محفوظ ہے لیکن دیکھنے کے لیے آنکھوں کی ضرورت ہے اور اس دنیا میں عبرت پذیر آنکھوں سے زیادہ کم یاب کوئی شے بھی نہیں۔ وانا کثیرا من الناس عن آیاتنا لغافلون میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔’’(تدبر قرآن ج۴،ص۸۴۔۸۵) مولانا وحید الدین خان نے بھی کم وبیش یہی بات لکھی ہے:‘‘خدا سے نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہے ، اس کا نمونہ دور رسالت میں بار بار انسان کے سامنے آتا تھا۔ تاہم اس قسم کے کچھ نمونے خدا نے مستقل طور پر محفوظ کر دیے ہیں تاکہ وہ بعد کے زمانہ میں بھی انسان کو سبق دیتے رہیں جبکہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا ہو۔ انھی میں سے ایک تاریخی نمونہ فرعون موسی (رعمیس ثانی)کا ہے جس کی ممی کی ہوئی لاش ماہرین اثریات کو قدیم مصری شہر تھیبس(Thebes) میں ملی تھی اور اب وہ قاہر کے میوزیم میں نمایش کے لیے رکھی ہوئی ہے۔’’ (تذکیر القرآن،ج۱،ص۵۵۵)

‘‘موجودہ زمانے میں فرعون کی لاش کا معمہ سائنس نے بھی حل کر دیا ہے ۔ اسی کی دہائی میں اسی لاش کو جو قاہرہ کے عجائب گھر میں ہے کے گلے میں پھپھوندی لگ گئی اس کو علاج کے لیے فرانس بھیجا گیا۔ ڈاکٹروں نے رپورٹ میں لکھا کہ اس کے گلے سے دریا کی مٹی نکلی ہے ۔ اخبارات میں یہ رپورٹ محفوظ ہے ۔ ادارہ سوئے حرم ’’

(مولانا طالب محسن)