جمعہ

ج- ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے افضل ہے، اور سال کے دنوں میں عرفہ کا دن سب سے افضل ہے، اور عرفہ جمعہ کے دن ہو تو نور علیٰ نور ہے، ایسا دن افضل الایام شمار ہوگا۔

()

ج-جمعہ کے دن کی فضلیت یہ ہے کہ یہ دن ہفتے کے سارے دنوں کا سردار ہے، ایک حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر دن جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے، جمعہ کا دن ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کو جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن ان کو جنت سے نکالا (اور دْنیا میں) بھیجا گیا۔ اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اور اسی دن ان کی وفات ہوئی۔ بہت سی احادیث میں یہ مضمون ہے کہ جمعہ کے دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اس پر بندہ مومن جو دْعا کرے وہ قبول ہوتی ہے، جمعہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے دْرود پڑھنے کا حکم آیا ہے۔ یہ تمام احادیث مشکوٰۃ شریف میں ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں جمعہ کی فضیلت آئی ہے۔ اس سکھ نے جو سوال کیا تھا، اس کا جواب یہ تھا کہ یوں تو ہمارے مذہب میں کسی دن کی بھی چھٹی کرنا ضروری نہیں، لیکن اگر ہفتے میں ایک دن چھٹی کرنی ہو تو اس کے لئے جمعہ کے دن سے بہتر کوئی دن نہیں، کیونکہ یہودی ہفتے کے دن کو معظم سمجھتے ہیں، اور اس دن چھٹی کرتے ہیں، عیسائی اتوار کو لائقِ تعظیم جانتے ہیں اور اس دن چھٹی کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو جمعہ کے افضل ترین دن کی نعمت عطا فرمائی ہے، اور اس کو سیّد الایام بنایا ہے، اس لئے یہ دن اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو عبادت کے لئے مخصوص کردیا جائے اور اس دن عام کاروبار نہ ہو۔

()

ج- حدیث کے جو الفاظ آپ نے نقل کئے ہیں، وہ تو مجھے نہیں ملے، البتہ اس مضمون کی متعدّد احادیث مروی ہیں، ایک حدیث میں ہے:
ترجمہ:- ‘‘جس شخص نے تین جمعے محض سستی کی وجہ سے، ان کو ہلکی چیز سمجھتے ہوئے چھوڑ دئیے، اللہ تعالیٰ اس کے دِل پر مہر لگادیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘لوگوں کو جمعوں کے چھوڑنے سے باز آجانا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دِلوں پر مہر کردیں گے، پھر وہ غافل لوگوں میں سے ہوجائیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘جس شخص نے بغیر ضرورت اور عذر کے جمعہ چھوڑ دیا اس کو منافق لکھ دیا جاتا ہے، ایسی کتاب میں جو نہ مٹائی جاتی ہے، نہ تبدیل کی جاتی ہے۔’’
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:‘‘جس شخص نے تین جمعے پے درپے چھوڑ دئیے، اس نے اسلام کو پسِ پشت پھینک دیا۔’’
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا ترک کردینا بدترین گناہِ کبیرہ ہے، جس کی وجہ سے دِل پر مہر لگ جاتی ہے، قلب ماؤف ہوجاتا ہے اور اس میں خیر کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی، ایسے شخص کا شمار اللہ تعالیٰ کے دفتر میں منافقوں میں ہوتا ہے، کہ ظاہر میں تو مسلمان ہے، مگر قلب ایمان کی حلاوت اور شیرینی سے محروم ہے، ایسے شخص کو اس گناہِ کبیرہ سے توبہ کرنی چاہئے اور حق تعالیٰ شانہ سے صدقِ دِل سے معافی مانگنی چاہئے۔
اوور ٹائم کی خاطر جمعہ کی نماز چھوڑنا 

()

س- ہمارا ایک قریہ ہے جس نام کربلا ہے، جس کی آبادی تقریباً دس ہزار پر مشتمل ہے، جس میں نو مسجدیں بھی ہیں، چار مسجدیں تو اتنی بڑی ہیں کہ ایک وقت پر تقریباً ڈیڑھ سو افراد ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، اور اس قریہ میں ضروریاتِ زندگی کا سامان ہر وقت مل سکتا ہے۔ ہائی اسکول، پرائمری اسکول، ڈاک خانہ، اسپتال، ٹیلیفون، بجلی، غرض یہ سب چیزیں موجود ہیں، مدرسہ بھی ہے، جس میں تقریباً بڑے چھوٹے تقریباً۳۰۰ طلبہ پڑھ رہے ہیں، لیکن یہاں پر جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، ہمارے یہاں سے تقریباً آٹھ میل کی مسافت پر ضلع پشین میں جمعہ کی نماز باقاعدہ ہوتی ہے۔ علمائے دین نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ یہاں پر جمعہ پڑھنا واجب ہے۔ فتویٰ جن علماء نے دیا ہے ان کے نام یہ ہیں: مفتی عبدالحق صاحب اکوڑہ خٹک، مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم کورنگی، مفتی زین العابدین فیصل آباد، مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کراچی۔ مقامی علمائے دین فتویٰ کو نہیں مانتے۔ ہمارے علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہاں پر پولیس تھانہ نہیں ہے، اور اس طرح جمعہ آس پاس گاؤں والوں پر واجب ہوجائے گا، اور اگر آپ لوگ کوئی بھی یہاں جمعہ پڑھوگے تو آس پاس کے گاؤں والے جھگڑا کریں گے۔ اب بتائیں کہ کیا اس قریہ میں جمعہ پڑھنا ضروری ہے؟

ج- اگر آپ کے مقامی علماء ، اتنے بڑے بڑے علماء کے فتویٰ کو نہیں مانتے تو مجھ طالبِ علم کی بات کب مانیں گے؟ تاہم ان سے گزارش ہے کہ اس قصبے میں جمعہ فرض ہے، اور وہ ایک اہم فرض کے تارک ہو رہے ہیں، اگر تھانہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو جھگڑے کا شبہ ہے تو اس کا حل تو بہت آسان ہے، اس سلسلے میں گورنمنٹ سے استدعا کی جاسکتی ہے کہ یہاں ایک پولیس چوکی بٹھادی جائے، بہرحال تھانے کا وہاں موجود ہونا صحتِ جمعہ کے لئے شرطِ لازم نہیں۔
 

()

ج-8 جمعہ کی نماز تو صحیح ہے، لیکن اگر امام پنج گانہ نمازیں نہ پڑھائے تو اہلِ محلہ کا فرض ہے کہ ایسے امام کو برطرف کردیں، اور کوئی ایسا امام تجویز کریں جو پانچ وقت کی نماز پڑھایا کرے، مسجد میں پانچ وقت کی اذان و جماعت مسجد کا حق ہے، اور اس حق کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے تمام اہلِ محلہ گناہگار ہیں

()

ج- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف ایک تھی، یعنی اذانِ خطبہ، دْوسری اذان جو جمعہ کا وقت ہونے پر دی جاتی ہے، اس کا اضافہ سیّدنا عثمان بن عفان خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا، قرآنِ کریم میں جمعہ کی اذان پر کاروبار چھوڑ دینے اور جمعہ کے لئے جانے کا حکم فرمایا، صحیح تر قول کے مطابق یہ حکم پہلی اذان سے متعلق ہے، لہٰذا پہلی اذان پر جمعہ کے لئے سعی واجب ہے، اور جمعہ کی تیاری کے سوا کسی اور کام میں مشغول ہونا ناجائز اور حرام ہے۔

()

ج- جمعہ کے دن مردوں کے لئے جمعہ کی نماز ظہر کے قائم مقام ہے، اس لئے وہ صرف جمعہ پڑھیں گے، ظہر نہیں پڑھیں گے۔ عورتوں پر جمعہ کی نماز فرض نہیں، ان کو حکم ہے کہ وہ اپنے گھر پر صرف ظہر کی نماز پڑھیں، اور اگر کوئی عورت مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کی یہ نمازِ جمعہ بھی ظہر کے قائم مقام ہوگئی۔ خلاصہ یہ کہ جمعہ اور ظہر دونوں کو ادا کرنے کا حکم نہیں، بلکہ جس نے جمعہ پڑھ لیا، اس کی ظہر ساقط ہوگئی۔

()

ج: نماز جمعہ کی کوئی قضا نہیں ہوتی ، بس آپ ظہر کی نماز پڑھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سنت قائم کی ہے، وہ یہ ہے کہ امام مختصر سی ایک تقریر کرے، اس کے بعد چند لمحوں کے لیے بیٹھ جائے پھر اٹھ کر ایک دوسری تقریر کرے جس میں حضور زیادہ تر دعائیں کرتے تھے۔ یہ کل چند منٹ کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں یہ سب کچھ عربی میں ہوتا ہے یعنی عربی زبان میں ایک لکھا لکھایا خطبہ لوگ پڑھ دیتے ہیں۔ اس سے پہلے آدھ پون گھنٹے کی ایک پوری تقریر ہوتی ہے۔ یہ یہاں برصغیر کی ایجاد ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہی خطبہ دینا چاہیے اور وہ اردو زبان میں دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خطبہ متوجہ الی الناس ہوتا ہے۔ اگر آدمی نے عربی میں کچھ پڑھنا ہے تو اس کو کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھنا چاہیے، ہماری طرف منہ کر کے کیوں کھڑا ہوتا ہے۔ ہماری طرف اگر آدمی منہ کر کے کھڑا ہوا ہے تو پھر اس کو اپنی مقامی زبان میں گفتگو کرنی چاہیے اور نصیحت کرنی چاہیے۔اس میں زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے کے جو چند کلمات ہیں، وہ ابتدا میں پڑھ لے۔ اردو میں جو پہلے تقریر کی جاتی ہے یہ بس تقریر ہے، اس کا جمعے کے خطبے کی سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ عربی کے دونوں خطبے ہی اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت ہیں۔ لیکن میرے خیال میں پاکستان میں وہ اردو میں ہونے چاہییں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز جمعہ کی کوئی قضا نہیں ہوتی ، بس آپ ظہر کی نماز پڑھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعہ کی نماز دو رکعت فرض ہے ،یہ اگر پڑھ لی تو آپ مواخذہ سے بچ گئے۔ جمعہ سے پہلے کوئی نفل نماز حضورﷺ نے نہیں پڑھی سوائے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے ۔ جمعہ کے بعد آپﷺ کبھی دو رکعت پڑھتے تھے اور کبھی چار ۔ دو اور چار یا چار اور دو نہیں پڑھیں ۔کبھی دو اور کبھی چار ۔ یہ بات روایات میں بیان ہو گئی ہے ، بعد کے لوگوں نے کہا کہ کیونکہ کبھی چار اور کبھی دو پڑھتے تھے تو ہم دو بھی پڑھ لیتے ہیں اور چار بھی پڑھ لیتے ہیں تو انہوں نے چھ بنا دیں ۔نفل نماز ہے کوئی پڑھنا چاہے تو اچھی بات ہے لیکن حضورﷺ سے ثابت اتنا ہی ہے ۔ یہ بات کہ حکومت کے بغیر جمعہ نہیں ہوتا ،اصولاً ٹھیک ہے۔ لیکن مسلمان اب صدیوں سے حکومت کے بغیر ہی جمعہ پڑھ رہے ہیں تو اسے جاری رہنا چاہیے ۔کیونکہ جب کوئی عمل خواہ تیمم کے طریقے پر ہی کیاجاتا ہے توپھر اس میں احتیاطاً کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی آپ نے تیمم کیا اور آپ کو اطمینان تھا کہ اس وقت پانی نہیں ہے تو تیمم کر کے آپ نے نماز پڑھ لی ، اب پانی موجود ہو گیا تو احتیاطاً نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے احتیاطی ظہرکوئی چیز نہیں ہے ۔ آپ جمعہ پڑھ لیجیے بس آپ ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے ۔ یہ کام حکمرانوں کا ہے جب اللہ ان کو توفیق دے گا وہ مسجد میں آ جائیں گے ، آئیں گے تو جمعہ پڑھا دیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعہ کی نماز میں دعا کا اصل وقت دوسرا خطبہ ہے ، ہمارے ہاں نماز کے بعد دعا کا جو رواج ہو گیا ہے یہ حضورﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فرض نماز تو جمعہ کے دن دورکعت ہی ہے وہ آپ نے پڑھ لی تو آپ مواخذہ سے بچ گئے اور ذمہ داری اد ا ہو گئی۔ اس کے بعد نفل نمازہے جمعہ سے پہلے حضورﷺ نے کوئی نفل نہیں پڑھے سوائے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے۔ جمعے کے بعد کبھی آپ دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کبھی چار رکعت۔اب بعد کے لوگوں نے کہاکہ کبھی دو بھی پڑھ لیتے تھے اور کبھی چار بھی تو دو بھی پڑھ لیتے ہیں اور چار بھی تو انہوں نے چھ بنا دیں۔ نفل نماز ہے کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو بڑی اچھی بات ہے پڑھ لے لیکن حضور سے اتنا ہی ثابت ہے ۔ یہ بات کہ جمعہ حکومت کے بغیر نہیں ہوتا اصول میں بالکل ٹھیک ہے ۔ جب کوئی عمل آپ خواہ تیمم کے طریقے پر ہی کر لیں تو پھر اس میں احتیاطاً کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔یعنی آپ نے تیمم کیا اور آپ کو اطمینان تھا کہ اس وقت پانی نہیں ہے تو تیمم کر کے آپ نے نماز پڑھ لی اور پھر پانی میسر ہو گیا تو احتیاطا ًنماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے احتیاطی ظہر جس کو کہاجاتا ہے یہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ لوگوں کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالا جاتا ہے۔جب امت اس بات پر متفق ہو گئی ہے کہ حکمران جب تک اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ہم جمعہ پڑھتے رہتے ہیں تو یہ جمعہ ہی ہے ۔جمعہ ہی پڑھیے آپ کی ذمہ داری پوری ہو گئی ۔باقی کام حکمرانوں کاہے جب اللہ ان کو توفیق دے گا وہ مسجدوں میں جمعہ پڑھائیں گے تو اس وقت دیکھا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: جمعہ کے روز کپڑے نہ دھونے کی ممانعت شریعت نے نہیں فرمائی۔ یہ اور اس طرح کی باتیں سوائے توہم پرستی کے اور کچھ نہیں۔ شریعت نے جمعہ کے روز کے جو معمولات بیان کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

جمعہ کے دن غسل کرنے کی تاکید وارد ہوئی ہے۔جمعہ کے روز صاف ستھرے اور اچھے کپڑے پہننے، خوشبو استعمال کرنے، مسواک کرنے کے بارے میں احادیث میں ذکر آیا ہے-جمعہ کے دن اور رات میں کثرت سے درود کا اہتمام کرنا بھی جمعہ کے معمولات میں سے ایک ہے۔

اگر کسی شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ جمعہ کے روز کپڑے دھونے کی ممانعت ہے، تو اسے چاہیے کہ اپنی بات کا حوالہ دے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)