جمعہ کی اہمیت

ج- حدیث کے جو الفاظ آپ نے نقل کئے ہیں، وہ تو مجھے نہیں ملے، البتہ اس مضمون کی متعدّد احادیث مروی ہیں، ایک حدیث میں ہے:
ترجمہ:- ‘‘جس شخص نے تین جمعے محض سستی کی وجہ سے، ان کو ہلکی چیز سمجھتے ہوئے چھوڑ دئیے، اللہ تعالیٰ اس کے دِل پر مہر لگادیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘لوگوں کو جمعوں کے چھوڑنے سے باز آجانا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دِلوں پر مہر کردیں گے، پھر وہ غافل لوگوں میں سے ہوجائیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘جس شخص نے بغیر ضرورت اور عذر کے جمعہ چھوڑ دیا اس کو منافق لکھ دیا جاتا ہے، ایسی کتاب میں جو نہ مٹائی جاتی ہے، نہ تبدیل کی جاتی ہے۔’’
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:‘‘جس شخص نے تین جمعے پے درپے چھوڑ دئیے، اس نے اسلام کو پسِ پشت پھینک دیا۔’’
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا ترک کردینا بدترین گناہِ کبیرہ ہے، جس کی وجہ سے دِل پر مہر لگ جاتی ہے، قلب ماؤف ہوجاتا ہے اور اس میں خیر کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی، ایسے شخص کا شمار اللہ تعالیٰ کے دفتر میں منافقوں میں ہوتا ہے، کہ ظاہر میں تو مسلمان ہے، مگر قلب ایمان کی حلاوت اور شیرینی سے محروم ہے، ایسے شخص کو اس گناہِ کبیرہ سے توبہ کرنی چاہئے اور حق تعالیٰ شانہ سے صدقِ دِل سے معافی مانگنی چاہئے۔
اوور ٹائم کی خاطر جمعہ کی نماز چھوڑنا 

()

ج- وہاں جمعہ اگر نہیں ہوتا تو کسی اور جامع مسجد میں چلے جایا کیجئے، جمعہ چھوڑنا تو بہت بڑا گناہ ہے، تین جمعے چھوڑ دینے سے دِل پر منافقت کی مہر لگ جاتی ہے۔ محض معمولی لالچ کی خاطر اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرنا ضعفِ ایمان کی علامت اور بے عقلی کی بات ہے۔ کمپنی کے اربابِ حل و عقد کو چاہئے کہ جمعہ کی نماز کے لئے چھٹی کردیا کریں۔
بڑے گاؤں میں جمعہ فرض ہے، پولیس تھانہ ہو یا نہ ہو

 

()

س- ہمارا ایک قریہ ہے جس نام کربلا ہے، جس کی آبادی تقریباً دس ہزار پر مشتمل ہے، جس میں نو مسجدیں بھی ہیں، چار مسجدیں تو اتنی بڑی ہیں کہ ایک وقت پر تقریباً ڈیڑھ سو افراد ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، اور اس قریہ میں ضروریاتِ زندگی کا سامان ہر وقت مل سکتا ہے۔ ہائی اسکول، پرائمری اسکول، ڈاک خانہ، اسپتال، ٹیلیفون، بجلی، غرض یہ سب چیزیں موجود ہیں، مدرسہ بھی ہے، جس میں تقریباً بڑے چھوٹے تقریباً۳۰۰ طلبہ پڑھ رہے ہیں، لیکن یہاں پر جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، ہمارے یہاں سے تقریباً آٹھ میل کی مسافت پر ضلع پشین میں جمعہ کی نماز باقاعدہ ہوتی ہے۔ علمائے دین نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ یہاں پر جمعہ پڑھنا واجب ہے۔ فتویٰ جن علماء نے دیا ہے ان کے نام یہ ہیں: مفتی عبدالحق صاحب اکوڑہ خٹک، مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم کورنگی، مفتی زین العابدین فیصل آباد، مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کراچی۔ مقامی علمائے دین فتویٰ کو نہیں مانتے۔ ہمارے علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہاں پر پولیس تھانہ نہیں ہے، اور اس طرح جمعہ آس پاس گاؤں والوں پر واجب ہوجائے گا، اور اگر آپ لوگ کوئی بھی یہاں جمعہ پڑھوگے تو آس پاس کے گاؤں والے جھگڑا کریں گے۔ اب بتائیں کہ کیا اس قریہ میں جمعہ پڑھنا ضروری ہے؟

ج- اگر آپ کے مقامی علماء ، اتنے بڑے بڑے علماء کے فتویٰ کو نہیں مانتے تو مجھ طالبِ علم کی بات کب مانیں گے؟ تاہم ان سے گزارش ہے کہ اس قصبے میں جمعہ فرض ہے، اور وہ ایک اہم فرض کے تارک ہو رہے ہیں، اگر تھانہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو جھگڑے کا شبہ ہے تو اس کا حل تو بہت آسان ہے، اس سلسلے میں گورنمنٹ سے استدعا کی جاسکتی ہے کہ یہاں ایک پولیس چوکی بٹھادی جائے، بہرحال تھانے کا وہاں موجود ہونا صحتِ جمعہ کے لئے شرطِ لازم نہیں۔
 

()

ج-8 جمعہ کی نماز تو صحیح ہے، لیکن اگر امام پنج گانہ نمازیں نہ پڑھائے تو اہلِ محلہ کا فرض ہے کہ ایسے امام کو برطرف کردیں، اور کوئی ایسا امام تجویز کریں جو پانچ وقت کی نماز پڑھایا کرے، مسجد میں پانچ وقت کی اذان و جماعت مسجد کا حق ہے، اور اس حق کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے تمام اہلِ محلہ گناہگار ہیں

()

ج- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف ایک تھی، یعنی اذانِ خطبہ، دْوسری اذان جو جمعہ کا وقت ہونے پر دی جاتی ہے، اس کا اضافہ سیّدنا عثمان بن عفان خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا، قرآنِ کریم میں جمعہ کی اذان پر کاروبار چھوڑ دینے اور جمعہ کے لئے جانے کا حکم فرمایا، صحیح تر قول کے مطابق یہ حکم پہلی اذان سے متعلق ہے، لہٰذا پہلی اذان پر جمعہ کے لئے سعی واجب ہے، اور جمعہ کی تیاری کے سوا کسی اور کام میں مشغول ہونا ناجائز اور حرام ہے۔

()

ج: جمعے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سنت قائم کی ہے، وہ یہ ہے کہ امام مختصر سی ایک تقریر کرے، اس کے بعد چند لمحوں کے لیے بیٹھ جائے پھر اٹھ کر ایک دوسری تقریر کرے جس میں حضور زیادہ تر دعائیں کرتے تھے۔ یہ کل چند منٹ کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں یہ سب کچھ عربی میں ہوتا ہے یعنی عربی زبان میں ایک لکھا لکھایا خطبہ لوگ پڑھ دیتے ہیں۔ اس سے پہلے آدھ پون گھنٹے کی ایک پوری تقریر ہوتی ہے۔ یہ یہاں برصغیر کی ایجاد ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہی خطبہ دینا چاہیے اور وہ اردو زبان میں دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خطبہ متوجہ الی الناس ہوتا ہے۔ اگر آدمی نے عربی میں کچھ پڑھنا ہے تو اس کو کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھنا چاہیے، ہماری طرف منہ کر کے کیوں کھڑا ہوتا ہے۔ ہماری طرف اگر آدمی منہ کر کے کھڑا ہوا ہے تو پھر اس کو اپنی مقامی زبان میں گفتگو کرنی چاہیے اور نصیحت کرنی چاہیے۔اس میں زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے کے جو چند کلمات ہیں، وہ ابتدا میں پڑھ لے۔ اردو میں جو پہلے تقریر کی جاتی ہے یہ بس تقریر ہے، اس کا جمعے کے خطبے کی سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ عربی کے دونوں خطبے ہی اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت ہیں۔ لیکن میرے خیال میں پاکستان میں وہ اردو میں ہونے چاہییں۔

(جاوید احمد غامدی)