سفارش

جواب: یہاں جس مدد کا ذکر ہے وہ مافوق الاسباب مدد ہے ۔یہ مددہم اللہ ہی سے مانگ سکتے ہیں کسی اور سے نہیں مانگ سکتے۔دنیامیں تو ہم ایک دوسر ے سے مدد چاہتے ہی ہیں ۔اگر مجھے آپ کے ساتھ کوئی کاروبار کرنا ہے یا کوئی معاملہ کرنا ہے تومیں آپ سے مدد مانگوں گا ۔مجھے پانی پینا ہے تو میں کہوں گا کسی سے بھئی مجھے پانی لا دو ۔عالم ِ اسباب میں ہم یہ مدد مانگتے ہیں ایک دوسرے سے یہ اصولی بات ہے ۔ اب رہ گئی سفارش تو سفارش اگر آپ نے کسی جائز مقصد کے لئے توجہ دلانے کے لئے کی ہے تو نیکی کا کام کیاہے ۔اگر کسی کا حق مارنے کے لئے کی ہے تو ناجائز کا م کیا ہے ۔یہ دیکھ لینا چاہئے کہ آپ کیا کرنے جارہے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : قرآن مجید نے بیان کر دیا ہے کہ جو آدمی لوگوں کا مال، لوگوں کا حق ناجائز طریقے سے کھاتا ہے، وہ اپنے لیے جہنم خریدتا ہے۔ غریبوں کے حقوق میں جب آپ خرابی پیدا کرتے ہیں تو یہ بہت بڑا جرم ہے، اس میں اللہ تعالیٰ سے بھی معاملہ کرنا ہوگا،بندے سے بھی کرنا ہوگا۔ یہ بہت سنگین جرم ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : بالکل قابل گرفت ہے، کیونکہ دوسری جانب آپ کسی کو محروم بھی تو کر رہے ہیں نا۔ جس وقت آپ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنی جگہ بنائیں گے تو آپ کسی دوسرے کو محروم کر رہے ہوں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : اس بارے میں ایک سادہ سا اصول ہے۔ جو نبی کریم ﷺ نے بڑی خوبی کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ اپنے دل سے پوچھ لیا کرو، اپنے نفس سے مشورہ لے لیا کرو۔ اخلاقی معاملات کے لیے آپ کے دل کے اندر ہی ایک واعظ موجودہوتا ہے اور وہ آپ کو بالکل ٹھیک فتویٰ دے دیتا ہے۔ ہم بہت اچھی طرح سے یہ جانتے ہوتے ہیں کہ ہم کب کسی کی واقعی مدد کر رہے ہوتے ہیں،کب ہم کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں کر رہے ہوتے ہیں؟ یہ سب کو معلوم ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں کوئی اخلاقی اصول نہیں ہوتا، وقت پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جب مجھے ایسا معاملہ پیش آئے گا تو میں بھی یہ ہی کروں گا۔ آپ کو معاملات پیش آئیں گے تو آپ بھی کریں گے۔ آپ کسی غریب آدمی کی مددتو کریں، لیکن اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ اس کی مدد کرنے سے کسی دوسرے پر ظلم نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)