قول اور کلام

جواب :آپ نے پوچھا ہے کہ قول اور کلام میں کیا فرق ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ سوال قرآن مجیدکے حوالے سے ہے۔ اس لیے کہ خود قرآن مجید میں قرآن کے لیے کلام کا لفظ بھی آیا ہے اور قول کا لفظ بھی۔ مثلا، سورہ بقرہ کی آیت 75 کلام اللہ لفظ آیا ہے اور سورہ حاقہ کی آیت 40 میں قول کا لفظ آیا ہے۔ اہل لغت کے نزدیک کلام قول کے مقابلے میں زیادہ مکمل اور زیادہ معنی آفریں ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے لیکن قرآن مجید میں محولہ مقامات پر یہ فرق نہیں ہے۔ دونوں مقامات پر اس کی خدا سے نسبت کو نمایاں کرنا مقصود ہے۔ اصل یہ ہے کہ ان دونوں لفظوں کا اشتراک کسی کی زبان سے صادر ہونا ہے اور بعض اوقات الفاظ اسی پہلو سے استعمال ہو جاتے ہیں۔         

(مولانا طالب محسن)

جواب:صحابہ کی دین میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ ہمارے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جماعت ِصحابہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو دین کے منتقل ہونے کا ذریعہ بنی ہے۔ چنانچہ وہ دین جو ان کے اجماع سے امت کو منتقل ہوا ہے وہ امت کے لیے واجب الاتباع ہے۔ اس کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ باقی رہیں ان کی آراء یا ان کے ذریعے سے امت کو ملنے والی اخبار احاد تو ان کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے لیکن ان کو قبول کرنے کے لیے انھیں روایت درایت اور فہم کے اصولوں پر پرکھا جائے گا۔ اگر درست ہوں گی تو مان لی جائیں گی ورنہ دوسری رائے قائم کرنے کا رستہ اختیار کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ امت کے ائمہ نے اس باب میں یہی راستہ اختیار کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)