روزہ کے متعلق مسائل

ج۔رمضان المبارک کے ماہ سعید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اور اسی شوق اور محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کا قیام بھی بڑھا دیتے۔ رمضان المبارک میں درج ذیل معمولات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا حصہ ہوتے۔

1۔ کثرتِ عبادت و ریاضت

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

’’جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔‘‘

(بیہقی ، شعب الایمان۔۳۶۲۵)

2۔ سحری و افطاری

رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سحری کھانے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘ (مسلم ، کتاب الصیام۱۰۹۵)

ایک اور مقام پر حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘ (مسلم کتاب الصیام ۱۰۹۶)

3۔ قیام اللیل

رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتیں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز میں کھڑے رہنے، تسبیح و تہلیل اور ذکر الٰہی میں محویت سے عبارت ہیں۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے اسی معمول کا حصہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا 

’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس دن وہ بطن مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا۔‘‘

4۔ کثرت صدقات و خیرات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے خالی واپس نہ جاتا رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ 

عبدا للہ ابن عباس کہتے ہیں

’’جب حضرت جبریل امین آجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔‘‘

حضرت جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ محبت لے کر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ وہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں مثلاًآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جود و سخا کا بیان۔رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان۔نیک بندوں کی ملاقات پر جود و سخا اور خیرات کی زیادتی کا بیان۔قرآن مجید کی تدریس کے لئے مدارس کے قیام کا جواز۔

5۔ اعتکاف

رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف کیا۔‘‘

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

قاعدہ قانون کے مطابق سحری کا وقت طلوع فجر سے پہلے پہلے ہی ہے۔لیکن فطری بات ہے انسان کبھی کبھار لیٹ بھی ہو سکتا ہے چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے فہم و فراست ، عقل و دانش اور شعور کے شہنشاہ ، شارع علیہ السلام نے خصوصی رعایت فرمائی ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:’’ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔‘‘نوٹ: تمام بڑے بڑے محدثین نے اس حدیث کو ’’کتاب الصوم‘‘ میں نقل کیا ہے۔مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے ملا علی القاری حنفی  لکھتے ہیں:’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی (رمضان میں) صبح کی اذان سْنے ، اس حال میں کہ (سحری) کے کھانے پینے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہے ، تو کھا پی کر اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے ہاتھ سے نہ رکھے۔لہٰذا اس قدر شدت نہیں ہونی چاہیے جس طرح بعض لوگ کرتے ہیں کہ اذان شروع ہوتے ہی جو لقمہ منہ میں ہو وہ بھی باہر پھنک دیا جائے کیونکہ عام طورپر لوگ وقت ختم ہونے سے پہلے ہی سحری کھا لیتے ہیں مجبوراً ہی کوئی بالکل آخری وقت میں کھا پی رہا ہوتا ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

روزہ دار کے حلق میں غبار، عطر کی خوشبو، دھونی یا دھواں چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اگر کسی روزہ دار نے غبار یا دھویں کو قصدًا اپنے حلق میں داخل کیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جی ہاں! روزے کی حالت میں مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا جائز ہے بشرطیکہ ٹوتھ پیسٹ کے اجزا حلق سے نیچے نہ جائیں البتہ مسواک سے دانت صاف کرنا سنت ہے۔ مسواک کے سوکھے یا تر ہونے یا خشک ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

رمضان کے روزوں کی قضائ￿ واجب ہے اور اس میں وسعت رکھی گئی ہے، وقت کی کوئی قید نہیں ہے لہٰذا قضائ￿  روزے لگاتار رکھیں یا سال میں وقفے وقفے کے ساتھ، دونوں طرح جائز ہیں۔ 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ رب العزت کی خاص رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ دعاؤں کو شرف قبولیت ملتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی اور روحانی فیوضات بھی اللہ کی رحمت کا حصہ ہیں جو انسان کو صرف روزہ کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ وہ شخص بدنصیب ہے جو بغیر کسی شرعی رخصت یا مرض کے روزہ چھوڑ کر اس کی رحمت سے محروم ہو جائے، ایسے شخص کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص بغیر شرعی رخصت اور بیماری کے رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو چاہے پھر وہ زندگی بھر روزے رکھتا رہے وہ اس رمضان کے روزے کا بدل نہیں ہو سکتے۔‘‘

فقہاء کے نزدیک جس نے روزہ کی حالت میں جان بوجھ کر کھا پی لیا اس پر قضائ￿  اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔

()

جی ہاں، روزہ کی حالت میں سرمہ لگانا جائز ہے جیسا کہ حدیث پاک میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ میری آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے۔ کیا میں روزہ کی حالت میں سرمہ لگا سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  ہاں! (روزے کی حالت میں سرمہ لگا سکتے ہو)۔‘‘

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

ج۔۔جی نہیں! عیدکے دن روزہ رکھنا جائز نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نَہی رَسْولْ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَن صِیَامِ یَومَینِ : یَومِ الفِطرِ وَ یَومِ الَضحَی.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو دنوں عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘

 

()

قرآن مجید میں روزے کے جو احکام بیان ہوئے ہیں، ان میں عارضی طور پر روزے کا فدیہ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ اجازت ختم کر دی گئی۔'' جو آیت 'شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ' کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے، اُس میں فدیے کی اجازت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حکم کوبعینہٖ دہرا کر اُس میں سے 'وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ،' سے 'اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ' تک کے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔ رمضان کے بعد عام دنوں میں روزہ رکھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے ، اِس لیے جب تک طبائع اِس کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہو گئیں، اللہ تعالیٰ نے اِسے لازم نہیں کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے کہ فدیے کی یہ اجازت اِس لیے ختم کردی گئی ہے کہ تم روزوں کی تعداد پوری کر و اور جو خیروبرکت اُس میں چھپی ہوئی ہے، اُس سے محروم نہ رہو۔''
اصل میں بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ رمضان گزرنے کے بعد چھوٹنے والے روزے پورے کیے جائیں 
میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ ممکن ہے اس کا کوئی حل نکل آئے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کچھ روزے چھوڑ دیا کریں اور رمضان کے بعد تعداد پوری کر لیا کریں۔علما فدیے کا آپشن اب صرف ان مریضوں کے لیے بیان کرتے ہیں جن کا مرض مستقل نوعیت کا ہواور روزے رکھنا اب ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہو۔ میرا خیال نہیں ہے کہ آپ اس نوع سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا مناسب علاج کرائیں اور جب تک ٹھیک نہ ہوں، کچھ روزے چھوڑ کر بعد میں تعداد پوری کر لیں۔آپ نے کہا کہ آپ نقاہت محسوس کرنے کی وجہ سے خوش دلی سے روزے نہیں رکھ پاتیں۔ اگر آپ یہ بات اپنے سامنے رکھیں کہ اس مشقت کو جھیلنے میں آپ کا اجر دوسرے روزے داروں سے زیادہ ہے تو یہ نفسیاتی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔

 

(طالب محسن)

ج ۔دودھ پلانا منع نہیں پلانے والی اپنی طاقت دیکھ لے جیسے سحری کھانے کے بغیر روزہ رکھنا منع نہیں۔ روزہ دار اپنی طاقت دیکھ لے۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

جواب: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ کھول لیتے تو فرماتے: پیاس چلی گئی، رگیں تر ہوگئیں، اور انشاء اللہ اجر ثابت ہوگیا ہے، (مشکوٰۃبحوالہ ابوداؤد)’’۔ دوسری حدیث میں ہے: معاذبن زہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار فرمالیتے تو یہ دعا پڑھتے: اللٰھم لک صمت وعلیٰ رزقک افطرت۔‘‘اے اللہ! میں نے تیری رضا کے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطا کردہ پر افطار کیا’’۔

حدیث مبارک کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ افطار سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اظہار بندگی اور تشکر نعمت باری تعالیٰ کے لئے یہ دعا فرماتے۔ امام احمد رضا خان قادری فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ ملا علی القاری شارح مشکوٰۃ نے بھی یہی لکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد یہ دعا مانگتے تھے، اور ابن المبارک نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ ‘‘ای قرا بعد الافطار’’ یعنی آپ افطار کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ اور اگر کوئی شخص اس دعاء کو ‘‘قبل افطار’’ پر محمول کرتا ہے تو وہ بلا ضرورت حدیث میں تاویل کرتا ہے، یعنی اس صورت میں کلمات حدیث ‘‘اذا افطر’’ کے معنی یہ کرنا پڑیں گے کہ ‘‘ای اذا اراد الافطار’’ یعنی جب آپ افطار کا ارادہ فرماتے، اور بلاضرورت حدیث پاک میں اپنی من پسند تاویل کرنا درست نہیں ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: جی نہیں، دس سالہ بچی پر روزہ فرض نہیں ہے، البتہ وہ شوق سے نفلی روزہ رکھ سکتی ہے۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر علامات بلوغ ظاہر ہوجائیں تو اس پر بلوغت کا حکم لگایا جائے گا اور اس پر احکام شرعیہ فرض ہوجائیں گے، اور کم از کم نو سال کی عمر میں بلوغت ممکن ہے، اگر علامات ظاہر نہ ہوں تو پندرہ سال پورے ہونے پر بالغ تصور کیا جائے گا۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: یہ اطمینان کی بات ہے کہ خواتین کے علاج اور آپریشن کے لئے خواتین ڈاکٹر موجود ہیں۔ شہوت کے لئے ستر کو دیکھنا اور چھونا حرام ہے، علاج کے لئے جائز ہے اور اس سے ڈاکٹر کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بلکہ یہ انسانیت کی خدمت ہے۔ اگر کوئی خدا ترس مسلمان ڈاکٹر یہ کہے کہ مزید بچے پیدا ہونے سے عورت کی صحت یا زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو مصنوعی طریقے سے عمل تولید کی بندش جائز ہے اور شوہر کی رضا مندی ہو تو بہر صورت جائز ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: ڈاکٹر صاحبان سے ہم نے اس سلسلے میں جو معلومات حاصل کی ہیں، ان کے مطابق سانس کے مریض کے پھیپھڑے سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں تکلیف اور دشواری محسوس ہوتی ہے۔ ان ہیلر کے ذریعے ایسے کمیکلز گیس یا مائع بوندوں کی شکل میں ان کے پھیپھڑوں میں پہنچتے ہیں جن کی بناء-04 پر ان کے پھیپھڑے (LUNGS) کھل جاتے ہیں اور وہ دوبارہ آسانی سے سانس لینے لگتا ہے، تو چونکہ مریض کے بدن کے اندر ایک مادی چیز جاتی ہے لہذا ا س کا استعمال مناسب نہیں۔لیکن اگر مرض اس درجے کا ہے کہ پورے روزے کا وقت ان ھیلر کے استعمال کے بغیر مریض کے لئے گزار نا مشکل ہے تو پھر وہ معذور ہے، بربنائے عذر و بیماری روزہ نہ رکھے اور فدیہ ادا کرے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: روزے کی حالت میں سرمہ لگانے کی اجازت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ البتہ دوا کے قطرے ڈالنے کے بارے میں علماء کی آرا مختلف ہیں اور یہ اختلاف آراء اس بات پر مبنی ہے کہ آنکھ سے حلق کی طرف کوئی نالی یا سوراخ ہے یا نہیں۔ جدید طبی تحقیق یہ ہے کہ آنکھ سے حلق کی طرف نالی (ROUTE) ہے، لہذا ہم اس رائے سے متفق ہیں کہ آنکھ میں دوا کے قطرے ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: جی ہاں روزہ بدستور قائم رہے گا، جتنی جلد ہوسکے غسل واجب ادا کر کے پاک ہوجائیں تا کہ کسی وقت کی نماز قضا نہ ہو جائے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: ویسے تو لپ اسٹک مفسد صوم نہیں ہے، لیکن اگر ہونٹوں پر زبان پھرنے کی عادت ہے اور اس سے لپ اسٹک کے ذرات پیٹ میں چلے جاتے ہیں تو روزہ ٹوٹ جائے گا، لہذا احتیاط بہتر ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: جائز ہے، لیکن اگر بتی سلگا کر اسے دانستہ ناک کے قریب لے جا کر اس کا دھواں ناک کے اندر کھینچے تو دھواں اندر جانے کی صورت میں روزہ فاسد ہو جائے گا اور قضا لازم آئے گی۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اگر بیوی کا ‘‘بائی پاس’’ آپریشن ہوا ہے اور کوئی خدا ترس دین دار ڈاکٹر یہ مشورہ دیتا ہے کہ روزہ رکھنے سے مریض کا مرض بڑھنے کا اندیشہ ہے تو روزہ چھوڑ دیں اور فدیہ دیں، ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، یا اس کے مساوی نقد رقم دینا ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: روزہ، ایک محدود وقت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے عبادت کی نیت سے، کھانے، پینے اور جنسی عمل سے رک جانے کا نام ہے۔ لہٰذا جوں ہی صبح صادق شروع ہوئی، جس کا وقت انتہائے سحر کے عنوان سے آج کل ریڈیو، ٹیلی وژن، مختلف اداروں کے مطبوعہ نقشہ جات، اخبارات اور مساجد سے مشتہر ہوجاتا ہے ،اور اذانِ فجر سحری کا وقت ختم ہونے پر ہی شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا اس وقت کھانا پینا منع ہے اور اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس کی قضا لازم ہوگی۔ آپ سحری ختم ہونے کے چند منٹ بعد کھائیں یا چند گھنٹے بعد، آپ نے شریعت کی بندش کو توڑ دیا تو روزہ نہ رہا۔ ایسی صورت میں بغیر کچھ کھائے پیے روزے کی نیت کرلیا کریں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اس سلسلے میں ہمارے سامنے دو نصوص حدیث ہیں، ایک یہ کہ ‘‘الصَّومْ یَومَ یَصْومْونَ وَالفِطرْ یَومَ یْفطِرْونَ’’ یعنی تم جس مقام پر ہو اس کے مطابق روزہ رکھو یا عید مناؤ، یعنی ان کی پیروی کرو، لہٰذا اگر تمہارے تیس روزے پورے بھی ہوگئے ہیں، تب بھی اس مقام والوں کا ساتھ دو، اس مقام کی اتباع میں آپ کے لئے ابھی رمضان جاری ہے۔

دوسرا یہ کہ ماہ رمضان زیادہ سے زیادہ تیس دن کا ہوتا ہے، اگر آپ کے تیس روزے پورے ہوگئے ہیں تو آپ یہاں اب31 واں دن کا روزہ نہ رکھیں۔

جبکہ ‘‘فَمَن شَھِدَ مِنکْم الشَّھرَ فَلیَصْمہْ’،’‘‘پس تم میں سے جو اس ماہ رمضان کو پائے تو اس پر لازم ہے کہ اس کے روزے رکھے’’ والی آیت قرآنی کی رو سے آپ اس مقام پر رمضان کو پارہے تھے، لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ روزہ رکھیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ آپ کے لئے یہ رمضان 31 دن کا متحقق ہوگا، آپ کے مخصوص حالات کی بناء پر۔

اور اگر آپ یہاں سے روزہ رمضان کا آغاز کرکے سعودی عرب جائیں اور وہاں بالفرض 29 ویں رمضان کو چاند نظر آئے گا، جبکہ آپ کے ابھی اٹھائیس روزے ہوئے کیونکہ پاکستان میں رمضان ایک دن پیچھے شروع ہوا تھا، تو اب کے پاس دو راستے ہیں ‘‘الصَّومْ یَومَ یَصْومْونَ وَالفِطرْیَومَ یْفطِرْونَ’’پر عمل کرتے ہوئے روزہ نہ رکھیں اور بعد میں ایک دن کی قضا رکھیں، کیونکہ رمضان المبارک 29دن سے کم کا نہیں ہوتا۔ یا ‘‘اَکمِلْواالعِدَّۃَ’’ پر عمل کرتے ہوئے ان کے ساتھ عید نہ منائیں اور اپنے روزے مکمل کرلیں۔

()

جواب : روزے کی حالت میں ٹیسٹ کے لئے خون نکالنا مفسدِ صوم نہیں ہے، روزہ صحیح رہتا ہے، کیونکہ حدیث پاک میں ہے: ‘‘الفطر ممادخل لیس مماخرج’’، بدن میں کوئی چیز جانے سے روزہ ٹوٹتا ہے نہ کہ خارج ہونے سے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب: اْلٹی آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ البتہ اگر حاملہ عورت کی صحت کمزور ہو اور روزہ رکھنے سے زچہ و بچہ کی صحت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو اور کوئی خدا ترس دین دار ڈاکٹر یہ مشورہ دے کہ روزہ نہ رکھو تو اس صورت میں وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں لیکن بعد میں اتنے دنوں کی قضا کرنی پڑے گی۔ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صحت اچھی ہے تو روزہ رکھتی رہیں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب : نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ زبان سے کہنا شرط نہیں، مگر زبان سے کہہ لینا مستحب ہے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب : جس طرح نماز میں کلام کی نیت کی مگر بات نہ کی تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ یوں ہی روزے میں توڑنے کی نیت سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ جب تک توڑنے والی چیز نہ کرے ۔اور اگر رات میں روزہ کی نیت کی پھر پکا ارادہ کر لیا کہ نہیں رکھے گا تو وہ نیت جاتی رہی۔ اگر نئی نیت نہ کی اور دن بھر بھوکا پیاسا اور روزہ دار کی طرح رہا تو روزہ نہ ہوا۔ (در مختار وغیرہ)

(سید عمر فاران بخاری)

جواب : سحری کھانا بھی اصل میں نیت ہی ہے خواہ رمضان کے روزے کے لیے ہو یا کسی اور روزے کے لیے مگر جب سحری کھاتے وقت یہ ارادہ ہے کہ صبح کو روزہ نہ رکھوں گا۔ تو یہ سحری کھانا نیت نہیں ۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :روزہ کی حالت میں جان بوجھ کرکھانے پینے سے، نفسانی خواہش کوپوراکرنے یا جسم میں موجود منافذ (سوراخ)کے راستہ کسی دوا یا غذا کے معدے تک پہنچ جانیکی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتاہے۔ویکسنگ،تھریڈنگ ،ہئیرکٹنگ وغیرہ اشیاء جن کاسائلہ نے تذکرہ کیاہے،ان سے روزہ تونہیں ٹوٹتاالبتہ خواتین کے لیے ان چیزوں کی عام حالات میں بھی ممانعت ہے۔اس لیے روزے میں اجتناب اور بھی ضروری ہے ۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :کسی بھی کام کے عبادت ہونے کے لیے یہ ضابطہ ذہن میں رکھا جائے کہ وہ احکام اسی وقت، اسی کیفیت اورانہی شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے جن کے ساتھ اس کا ثبوت شریعت مطہرہ میں ہو، اپنی طرف سے کسی خاص وقت میں، کسی خاص کیفیت یا خاص شرائط کے ساتھ کسی کام کی انجام دہی عبادت نہیں بلکہ بدعت ہوگی۔اسی ضابطہ کے پیش نظرشرعاً جن مواقع پر روزہ رکھنے کی ترغیب یا اجازت ہے ان مواقع پر توروزہ رکھنا عبادت ہوگا، لیکن جن مواقع یا ایام میں قرون اولیٰ سے روزہ رکھنے کا ثبوت نہیں ہے، ان ایام میں اس دن کی اہمیت کے پیش اگرہم اپنی طرف سے روزہ کااہتمام شروع کردیں تو شرعاً یہ روزہ بجائے عبادت کے بدعت کے زمرہ میں آئیگا۔چنانچہ خلفائے راشدین یا کسی اورصحابی کی شہادت یا وفات کے دن روزہ رکھنے کا ثبوت قرون اولیٰ میں ہمیں نہیں ملتااس لیے اس دن مخصوص نسبت کے ساتھ روزہ رکھنے کی اجازت بھی نہیں، البتہ اگرکسی کا عام معمول ہو روزہ رکھنے کا ہو اور اس دوران کوئی ایسا دن آجاتاہے تو وہ حسبِ معمول روزہ رکھ سکتا ہے، جس کا تعلق اس دن کے ساتھ نہیں ہوگا بلکہ اس کے معمول کا حصہ ہوگا۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کرنا، حلق میں اثرات جانے کے خطرے کی وجہ سے مکروہ ہے۔ اگر حلق میں ٹوتھ پیسٹ جائے گا تو روزہ فاسد ہوجائے گا، اس لیے روزہ کے دوران ٹوتھ پیسٹ استعمال نہ کیا جائے۔

(سید عمر فاران بخاری)

سوال : مجھے چند برسوں سے یہ مرض لاحق ہے کہ روزانہ وقتاً فوقتاً میرے دانتوں سے اچانک خون نکلنے لگتا ہے۔ اور یہ کبھی تھوک کی مقدار سے کم ہوتا ہے اور کبھی تھوک کی مقدار پر غالب ۔ ایسی صورتحال پورے دن کے عام اوقات میں عموماً جب کہ نیند سے بیداری کے وقت خصوصاً زیادہ پیش آتی ہے۔ جس وقت کہ نیم بیداری کا عالم ہوتا ہے، قویٰ پوری طرح متحرک نہیں ہوتے اور خون والا تھوک پیٹ میں چلے جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔ نیز اس کے علاوہ بھی بسا اوقات ایسی صورت پیش آجاتی ہے کہ فوری طور پر تھوک پھینکا نہیں جاسکتا۔ یا خون اتنا اچانک نکلتا ہے کہ جب اس کی آمیزش والا تھوک حلق سے ہوکر پیٹ کی طرف جاتا ہے تب ہی خون کا احساس ہوتا ہے۔ الغرض یہ کہ خون کو پیٹ میں جانے سے روکنا خاصا مشقت والا کام اور کبھی کبھی تو ناممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ خون نکلنے کے درمیان اچھا خاصا وقت گزر جاتا ہے۔ یعنی نماز کے اعتبار سے تو میں معذور نہیں بنتا۔

اس مذکورہ صورتحال میں میرے روزے کا کیا حکم ہے کہ جب اس طرح خون نکلے اور میں اسے نیند کے غلبے یا اور کسی مجبوری یا اچانک و لاعلمی کی وجہ سے پھینک نہ سکوں اور اس طرح یہ حلق سے اتر جائے ؟ آیا میرا روزہ باقی رہے گا یا نہیں؟ نیز اگر باقی نہیں رہے گا تو یہ بھی مد نظر رہے کہ عموماً پورے سال میں مجھے اس مرض سے کوئی خاص افاقہ نہیں ہوتا۔ باوجود اس کے کہ میں نے اس کا مختلف معالجین سے علاج بھی کرایا ہے۔ تو اگر روزہ باقی نہ رہے تو جب بھی قضا کروں گا تو اندیشہ یہی ہے کہ اس وقت بھی یہی صورت حال ہوگی۔ نیز یہ کہ یہ مرض روزے کی حالت (یعنی کچھ نہ کھانے پینے کے وقت) نسبتاً شدت ہی اختیار کرجاتا ہے۔

جواب :صورت مسؤلہ میں جب خون تھوک پر غالب ہو اور پیٹ میں چلے جانے کا یقین ہو تو ایسی صورت میں روزہ فاسد ہوجائے گا، سائل کو جب اس مرض سے چھٹکارا مل جائے تو اس وقت ان روزوں کی قضاکرلے اور اگر شفایابی کا یقین نہ ہو تو ہر روزہ کے بدلہ میں ایک صدقۃ الفطر کی مقدار فدیہ دے دے، بعد میں اگر شفایابی ہوجاتی ہے تو پھر قضا بھی کرلے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :واضح رہے کہ اگر کسی کے ذمہ قضا روزے باقی ہوں اور اس کا انتقال ہو جائے یا وہ اس قدر بیمار ہو جائے کہ اب اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ رہے تو ایسے حد درجہ عمر رسیدہ شخص کی طرف سے اس کے قضا روزوں کا فدیہ ادا کیا جائے گا۔لیکن اگر وہ شخص حیات ہے اور بیمار تو ہے لیکن اس قدر بیمار ہے کہ وہ ایک ایک دو دو کرکے وقفہ وقفہ سے روزے رکھ سکتا ہے تو اس کے ذمے روزہ کی قضا ہی ضروری ہوگا، فدیہ ادا کرنے سے ذمہ ختم نہیں ہوگا۔ لہٰذا اگر مذکورہ شخص روزے رکھنے پر بالکل قادر نہیں اور اس کے صحت مند ہونے کا امکان بھی نہیں ہے تو ہر روزے کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار پونے دوکلو گندم فقراء و مساکین پرصدقہ کرنا واجب ہے ۔فدیہ میں صدقہ فطر کی طرح گندم کی جگہ اس کی قیمت بھی ادا کرنا جائز ہے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :اگرروزہ رکھنے سے خوداپنی یا پیٹ میں موجود بچہ کی جان کاخدشہ ہوتو حاملہ عورت کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، بعدمیں قضا کرلے لیکن صرف حمل کوبہانہ بناکرروزہ چھوڑنا درست نہیں۔صحت کو خطرہ نہ ہو تو ضرور روزہ رکھنا چاہیے ۔حمل کا بہانہ روزہ چھوڑنے کے لیے کافی نہیں جب کہ صحت اچھی ہو اور بچے کو بھی کوئی احتمال نہ ہو

(سید عمر فاران بخاری)

جواب: و اضح رہے کہ ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق مطلقاً شوگرروزے کیلیے مانع نہیں بلکہ بعض درجے کی شوگرکیساتھ روزہ رکھ سکتا ہے۔ اس لیے شوگرکے مریض کوچاہیے کہ کسی دین دار مسلمان ڈاکٹر سے رائے لے اگر وہ رائے دے کہ مریض ے حق میں روزہ رکھنا مہلک ہے تو اس کے لیے روزہ چھوڑدینے اورروزہ کے بدلے فدیہ دینے کی اجازت ہے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب : روزہ جسے عربی میں صوم کہتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں ‘‘رکنا’’ ۔قرآن کریم میں ‘‘صوم’’ کو صبر سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ ضبط نفس ، ثابت قدمی اور استقلال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک روزہ کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی نفسانی ہوا و ہوس اور جنسی خواہشوں میں بہک کر غلط راہ پر نہ پڑے اور اپنے اندر موجود ضبط اور ثابت قدمی کے جوہر کو ضائع ہونے سے بچائے۔

روزمرہ کے معمولات میں تین چیزیں ایسی ہیں جو انسانی جوہر کو برباد کرکے اسے ہوا وہوس کا بندہ بنا دیتی ہیں یعنی کھانا، پینا اور عورت مرد کے درمیان جنسی تعلقات انہی چیزوں کو اعتدال میں رکھنے اور ایک مقررہ مدت میں ان سے دور رہنے کانام روزہ ہے۔لیکن اصطلاح شریعت میں مسلمان کا بہ نیت عبادت ، صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ کی پانچ قسمیں ہیں:

1۔ فرض، 2۔ واجب، 3۔ نفل، 4۔ مکروۂ تنزیہی اور5۔  مکروۂ تحریمی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : فرض معین جیسے رمضان المبارک کے روزے جو اسی ماہ میں ادا کیے جائیں۔ اور فرض غیر معین جیسے رمضان کے روزوں کی قضا اور کفارے کے روزے ، کفار ہ خواہ روزہ توڑنے کا ہو یا کسی اور فعل کا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : واجب معین جیسے نذر و منت کا وہ روزہ جس کے لیے وقت معین کر لیا ہو اور واجب غیر معین جس کے لیے وقت معین نہ ہو۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : صوم دہر یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا۔ صوم سکوت یعنی ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے، صوم وصال کہ روزہ رکھ کر افطار نہ کرے اور دوسرے دن پھر روزہ رکھ لے۔ یہ سب مکرؤ ہ تنز یہی ہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جیسے عیدالفطر کا روزہ۔عیدالاضحی کاروزہ ۔ایام تشریق (یعنی ذی الحجہ کی ۱۱،۱۲،۳ ۱تاریخ ) کے روزے ۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : نفلی روزے جیسے عاشور ا یعنی دسویں محرم کا روزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی۔ ایام بیض یعنی ہر مہینے میں تیر ہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کا روزہ عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ ، شوال کے چھ روزے ، صوم داؤد علیہ السلام یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار۔ پیر اور جمعرات کا روزہ ۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ کا بلا عذر شرعی ترک کرنے والا سخت گناہگار اور فاسق و فاجر ہے اور عذاب جہنم کا مستحق۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : خدا و رسول ہی اس کی حکمت کو بہتر جانتے ہیں۔ ہاں بظاہر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ قمری حساب پر رکھنے میں عام مسلمانوں کو یہ فائد ہ پہنچتا ہے کہ قمری مہینہ ادل بدل کر آنے سے کل دنیا کے مسلمانوں کے لیے مساوات قائم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شمسی مہینہ روزوں کے لیے مقرر کر دیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ موسم سرما کی سہولت میں روزے رکھتے اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ گرمی کی سختی اور تکلیف میں رہا کرتے اور یہ امر عالم گیر دین اسلام کے اصول کے خلاف ہوتا کیونکہ جب نصف دنیا پر سردی کا موسم ہوتا ہے تو دوسرے نصف پر گرمی کا موسم ہوتا ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ٭سحری کھانے کی حرص اوراس میں تاخیر کرنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ سحری کیا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ’’ صحیح بخاری ( 4 / 139 )۔

٭افطاری میں جلدی کرنا

 اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ‘‘ جب تک لوگ افطاری جلدی کرتے رہیں گے ان میں خیروبھلائی موجود رہے گی ) صحیح بخاری ( 4 / 198 )۔

 ٭حدیث میں بیان کی گئی اشیا سے روزہ افطار کرنا

 انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے قبل چند رطب ( تازہ کھجور) سے افطاری کرتے اگر رطب نہ ہوتیں تو چند ایک پکی ہوئی کھجوریں کھا لیتے ، اوراگر یہ بھی نہ ہوتیں تو ایک آدھ پانی کا گھونٹ پی کر افطار کرتے تھے ۔’’ سنن ترمذی ( 3 / 79 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 922 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

٭افطاری کے وقت دعا مانگنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطاری کے وقت یہ دعا مانگا کرتے تھے :ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب افطاری کرتے تویہ دعا پڑھا کرتے تھے : ( ذھبت الظم ، وابتلت العروق ، وثبت الاجر ان شاء اللہ ) پیاس جاتی رہی اوررگیں تر ہوگئیں اورانشا اللہ اجر ثابت ہوگیا۔

٭بے ہودہ بات چیت اوراعمال سے اجتناب کرنا ۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے‘‘ تم میں سے جب کوئی روزہ سے ہو تووہ گناہ کے کام نہ کرے’’ رفث معصیت وگناہ کوکہاجاتا ہے۔اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘جوکوئی بے ہودہ باتیں اوران پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کواس کے بھوکے اورپیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1903 )۔ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ بہت سے روزہ دارایسے ہیں جنہیں بھوک کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 539 ) صحیح الترغیب ( 1 / 453 )۔

٭روزہ دار کوشور شرابا نہیں کرنا چاہیے

 کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ اگر روزہ دار سے کوئی شخص لڑائی جھگڑا کرے یا اسے گالی گلوچ دے تو اسے یہ کہنا چاہیے میرا روزہ ہے ۔’’ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1894 )۔

٭ کھانا پینے میں کمی کرنا

 ، اس لیے کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ ابن آدم کا بھرا ہوا پیٹ سب سے برا برتن ہے۔۔۔۔ ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2380 )۔

 ٭روزہ میں علم و مال میں سخاوت کرنا

صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے ، اوررمضان المبارک میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین ملتے تو آپ اوربھی زیادہ جود وسخا کرتے۔ جبریل امین ہر رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زیادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے۔ ’’صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6 )۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ٭ نفوس اورماحول کو عبادت کے لیے تیار کرنا ۔

٭ توبہ و اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے میں جلدی کرنا ۔

٭ ماہ رمضان کے آنے پر خوشی محسوس کرنا ۔ ٭روزے کو اچھے اوربہتر انداز اورپختگی سے رکھنا ۔

٭ لیلۃ القدر کی تلاش اورعبادت کرنا ۔

٭ ایک بارقرآن مجید پڑھنے کے بعد دوبارہ غوروفکر اورتدبر سے پڑھنا ۔

٭ رمضان میں عمرہ کرنا (یہ حج کے برابر ہے)

٭ کھلے دل سے صدقہ وخیرات کرنا۔

٭ رمضان المبارک میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : سفر میں روزہ نہ رکھنے کی شرط یہ ہے کہ وہ عرف یا مسافت کے لحاظ سے سفر شمار ہو۔ امت اس پر متفق ہے کہ مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے چاہے وہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا بھی ہو۔جوشخص مقیم ہونے کی صورت میں روزے کا آغاز کرے پھر دن کے دوران ہی سفر کرے تو اس کیلیے روزہ افطار کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے سفر کو رخصت کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے : جوکوئی بھی مریض یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے ۔ ہروقت سفر کرنے والے کے لیے بھی روزہ نہ رکھنا جائز ہے مثلا ڈاکیا جومسلمانوں کی مصلحت کے لیے سفر میں ہی رہتا ہے اوراسی طرح گاڑیوں کے ڈرائیور ، اورہوائی جہاز کے پائلٹ ، اورملازم حضرات اگرچہ وہ روزانہ ہی سفر پر رہتے ہوں لیکن انہیں قضامیں روزے رکھنا ہونگے ۔اسی طرح وہ ملاح بھی جس کی خشکی پر رہائش ہوروزہ افطار کر سکتا ہے لیکن وہ ملاح جس کیساتھ اس کی بیوی اورضروریات زندگی سب کشتی میں ہوں اوروہ ہر وقت سمندر میں سفر پر ہی رہتا ہو توایسا شخص نہ تو نماز قصرکرے گا اورنہ ہی روزہ افطار کرے گا۔اوراسی طرح وہ خانہ بدوش جوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہوں اپنا ٹھکانہ بدلتے ہوئے سفر میں نماز بھی قصر کرسکتے ہیں اورروزہ بھی افطار کرسکتے ہیں ، لیکن جب وہ سردیوں اورگرمیوں والے اپنے ٹھکانہ پرپہنچ جائیں تووہ نماز مکمل پڑھیں گے اورروزہ بھی رکھیں گے، چاہے وہ اپنے جانوروں کے پیچھے ہی بھاگتے پھریں۔جب کسی ملک میں وہ رمضان کی ابتدا کرکے کسی دوسرے ملک میں جائے جہاں ایک دن قبل یا بعد میں رمضان شروع ہوا ہو تو اس کا حکم بھی ان کے ساتھ ہی ہوگا وہ ان کیساتھ ہی روزہ رکھے گا اوران کے ساتھ ہی عید کریگا ، اگرچہ تیس سے بھی زیادہ روزے ہوجائیں ۔اوراگر اس کے روزے انتیس سے بھی کم ہوجائیں توعید کے بعد اسے انتیس کرنا ہوں گے کیونکہ ہجری مہینہ انتیس یوم سے کم نہیں ہوتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ہروہ مرض جس کی وجہ سے انسان صحت کی تعریف سے خارج ہوجائے اس کی وجہ سے روزہ افطار کرنا جائز ہے ،اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :

 جو کوئی مریض ہویا مسافر وہ دوسروں دنوں میں گنتی پوری کریں ۔ لیکن ہلکی پھلکی بیماری مثلا زکام ، اورسردرد ، وغیرہ کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز نہیں۔جب طبی طور پر یہ علم ہویا پھر کسی شخص کی عادت یا تجربہ کی وجہ سے یا پھر اس کا ظن غالب ہو کہ روزہ رکھنے سے مریض ہونے یا مرض میں زیادتی یا پھر مرض سے شفایابی میں تاخیر کا باعث ہوگا تواس کیلیے روزہ چھوڑنا جائز ہے بلکہ اس کے حق میں روزہ رکھنا مکروہ ہے۔اوراگرمرض زیادہ ہو تو مریض پر واجب نہیں کہ وہ رات کو روزے کی نیت نہ کرے چاہے یہ احتمال ہو کہ وہ صبح تک صحیح ہوجائے گا ،کیونکہ معتبر تو موجودہ وقت ہے نہ کہ مستقبل۔ اوراگر روزہ رکھنا اس کے لیے بے ہوشی کا سبب بنتا ہو تواسے روزہ افطار کرنے کی اجازت ہے اوراس کے بدلے وہ قضا میں روزہ رکھے گا۔ اورجب کوئی روزہ دار روزہ کی حالت میں بے ہوش ہوجائے اورمغرب سے قبل یا پھر مغرب کے بعد ہوش میں آئے تواس کا روزہ صحیح ہوگا کیونکہ اس نے روزہ رکھا تھا ، اوراگر وہ فجر سے لیکر مغرب تک بے ہوش رہے توجمہور علماء کرام کے ہاں اس کا روزہ صحیح نہیں۔اوربے ہوشی والے شخص پر جمہور علماء کے نزدیک بھی قضاء واجب ہے چاہے یہ بے ہوشی جتنی بھی طویل ہو۔بعض اہل علم کا فتوی ہے کہ : جوکوئی بے ہوش ہوجائے یا اسے کسی مصلحت کی بنا پرنیند کی دوائی دی جائے یا اسے سن کردیا جائے جس کی بنا پر اسے ہوش نہ رہے لھذا اگرتواس کی یہ حالت تین یا اس سے کم ایام ہوں تووہ سونے والے پر قیاس کرتے ہوئے قضاء کرے گا ، لیکن اگر تین ایام سے زیادہ بے ہوش رہے تو مجنون پر قیاس کرتے ہوئے قضاء نہیں کرے گا۔ جس شخص کوبہت زیادہ بھوک کمزور کردے یا شدید قسم کی پیاس نڈھال کردے جس کی بنا پر اسے ہلاک ہونے کا خدشہ ہو یا ظن غالب کی بنا پریہ خدشہ ہوکہ اس کے ہوش وحواس قائم نہیں رہیں گے تواس حالت میں وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے ، کیونکہ نفس کو بچانا واجب ہے ، لیکن جب وہم ہو تو پھر نہیں۔ لیکن صرف شدت یا تھکاوٹ اورمرض کے خوف اوراحتمال کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، اورجولوگ مشقت والے کام کرتے ہیں انہیں اپنے کام کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ رات کو ہی روزہ کی نیت کریں ،اوردن میں اگر انہیں روزہ نقصان دے اوران سے برداشت نہ ہوسکے یا پھر انہیں اپنے ہلاک ہونے کا خدشہ ہویا اس کی وجہ سے زیادہ مشقت کا شکار ہوں جس کی بنا پروہ روزہ افطار کرنے پر مجبور ہوجائیں توپھر وہ اپنی مشقت دور کرنے کے لیے افطار کرسکتے ہیں اوراتنا ہی کھائیں جوان کی قوت بحال کرے اورپھر باقی دن انہیں کھانے پینے سے پرہیز کرنا ہوگا ، اور اس دن کی بعد میں قضاء ادا کریں گے۔وہ مزدور جو لوہے وغیرہ کی بھٹیوں پر معدنیات پگھلانے کا کام کرتے ہیں جس کی بنا پر وہ روزہ برداشت نہیں کرسکتے انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کام رات کے وقت کریں ، یا پھر رمضان میں چھٹیاں حاصل کرلیں اگرچہ یہ چھٹیاں بغیر تنخواہ ہی حاصل ہوں ، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے توانہیں کوئی اورکام تلاش کرنا چاہیے جس میں دینی اوردنیاوی واجبات کوجمع کیا جاسکے ، کیونکہ جو شخص بھی اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کیلیے کوئی راستہ نکال دیتا ہے ، اوراسے رزق بھی وہاں سے دیتا ہے جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔طلاب کے لیے امتحانات ایسا عذر نہیں کہ اس کی وجہ سے روزہ افطار کرلیا جائے ، اوراسی طرح روزہ چھوڑنے میں بھی والدین کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو امتحان کی بنا پر روزہ رکھنے سے منع کریں ، اس لیے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔ جس مریض کی شفایابی کی امید ہو وہ اپنی شفایابی کا انتظار کرے اورصحت بحال ہونے کے بعد قضا میں روزے رکھے گا ، اسے فدیے میں کھانا کھلانا کافی نہیں ہوگا ، اور وہ مریض جس کی مرض دائمی ہواوراس کی شفایابی کی امید نہ ہواوراسی طرح وہ بوڑھا جوعاجز ہووہ بھی ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے جوعادی غلہ میں سے نصف صاع بنتی ہے ( موجود تول کے مطابق تقریبا ًڈیڑھ کلو چاول )۔یہ بھی جائز ہے کہ وہ سارا فدیہ اکٹھا کرے اورمہینہ کے آخر میں مساکین کو کھلائے یا پھر ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی ثقہ تنظیم کو کھانا خرید کر تقسیم کرنے پر وکیل بناتے ہوئے نقد رقم ادا کرے کہ وہ غلہ خرید کر اس کی جانب سے مساکین میں تقسیم کردیں۔وہ مریض جس نے رمضان میں روزے چھوڑے اورقضا کے لیے شفایابی کے انتظار میں تھا پھر اسے یہ علم ہوا کہ اس کا مرض دائمی ہے اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ اورشفایابی کی امید والے مرض والا مریض اگراپنی بیماری میں ہی چل بسے تواس صورت میں نہ تواس پراورنہ ہی اس کے اولیاء پر کچھ ہے ، اورایسا مریض جوکسی دائمی مرض میں مبتلاتھااوراس نے اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کا فدیہ مساکین کوادا کردیا ، لیکن کچھ مدت بعد طب میں اس کا علاج دریافت کرلیاگیا ، اوروہ اس علاج کے ذریعہ شفایاب ہوگیا تواس پر گزشتہ روزوں کی کوئی چیز واجب نہیں کیونکہ اس نے اپنے واجب کردہ کو ادا کردیا تھا۔ وہ مریض جوشفایابی حاصل کرسکنے اورقضاکی استطاعت کے باوجود بھی روزے قضا نہ رکھ سکا اوراس سے پہلے ہی فوت ہوگیا تواس کے مال سے ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا دیا جائے گا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : بوڑھا اورقریب الموت شخص جس کی تمام طاقت ختم ہوچکی ہو اورہردن وہ موت کے قریب ہورہا ہو اورکمزوری بڑھتی چلی جائے اس پرروزے رکھنے لازم نہیں ، بلکہ ان دونوں کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہیں کیونکہ روزہ رکھنے میں ان کے لیے مشقت ہے۔ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما مندرجہ ذیل آیت کے بارہ میں کہا کرتے تھے :

‘‘اوران لوگوں پرجواس کی طاقت نہیں رکھتے ان پر ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ہے ۔ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ بوڑھے مرد اورعورت کیلیے ہے جوروزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ وہ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے۔اورایسا شخص جوکسی میں تمیز ہی نہ کرسکے اوربے وقوفی کی حدتک جا پہنچے تو اس پر اوراس کے گھروالوں پر کچھ نہیں کیونکہ وہ مکلف ہی نہیں رہا ، اوراگر بعض اوقات وہ تمیز کرتا ہو اوربعض اوقات ھذیان کی حالت ہو اورعقل فاسد ہوجاتی ہو توتمیز کی حالت میں روزہ واجب ہوگا ، لیکن حالت ھذیان میں روزہ واجب نہیں۔ جودشمن سے جنگ کررہا ہو یا دشمن نے اس کے ملک کا گھیراؤ کرلیا ہو اوراسے خدشہ ہو کہ روزہ اسے لڑائی سے کمزور کردے گا تواس لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے ، چاہے وہ سفر میں نہ بھی ہو ، اور اسی طرح اگر اسے لڑائی سے قبل روزہ افطار کرنے کی ضرورت ہو تووہ افطار کرسکتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو لڑائی سے قبل فرمایا تھا :‘‘تم صبح دشمن کا مقابلہ کرنے والے ہو لھذا روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ طاقت کا باعث ہوگا توصحابہ کرام نے روزہ نہ رکھا ’’ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1120 ) طبع عبدالباقی۔ اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے اوراہل شام کو اسی کا فتوی دیا تھا کیونکہ تتاریوں نے جب شامیوں پر حملہ کیا تو شیخ الاسلام وہیں تھے اوریہی فتوی جاری کیا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : فرضی روزے میں نیت شرط ہے اوراسی طرح ہر واجبی روزے میں بھی نیت کی شرط ہے مثلا قضا ، اورکفارہ وغیرہ کے روزے اس لیے کہ حدیث میں فرمان نبوی ہے ۔

 کسی فعل پر دل کا عزم کرنا نیت کہلاتا ہے۔

نیت کے الفاظ کی ادائیگی بدعت ہے ۔

 جسے یہ علم ہوکہ صبح رمضان ہے اوروہ روزہ رکھنے کا ارادہ بھی کرے تویہی اس کی نیت ہے۔

رمضان کے روزے رکھنے والا ہررات تجدید نیت کا محتاج نہیں بلکہ رمضان کے شروع میں ہی نیت کافی ہے ، لیکن اگرسفر یا کسی مرض کی بنا پر نیت ختم کردے توپھر عذر زائل ہونے کی صورت میں اسے تجدید نیت کرنا ہوگی۔

 نفلی روزہ میں مطلقاً شرط نہیں کہ رات کو نیت کی جائے کیونکہ حدیث میں ہے :

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھرمیں داخل ہوئے اور فرمانے لگے کیا تمہارے پاس کچھ ہے تو ہم نے جواب دیا کچھ نہیں ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے پھر میں روزہ سے ہوں۔صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2 / 809 ) عبدالباقی۔

لیکن معین نفلی روزہ مثلاً یوم عرفہ ، اورعاشورا ، میں احتیاط یہ ہے کہ رات کو نیت کی جائے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : نفلی روزہ رکھنے والے کے لیے افضل اور بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ پورا کرے لیکن اگر اس کے ختم کرنے میں کوئی شرعی مصلحت پائی جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے۔ جوشخص واجب روزہ کو شروع کردے مثلاً قضا اورنذر اورکفارہ وغیرہ اسے مکمل کرنا ضروری ہے ، اوراس میں بغیر کسی عذر کے روزہ افطار کرنا جائز نہیں ، لیکن نفلی روزے میں اسے اختیارہے کہ وہ افطار کرلے یا نہ کرے حدیث میں ہے :

( نفلی روزے والا اپنے آپ کا امیر ہے چاہے وہ روزہ رکھے اورچاہے تو افطار کرلے ) مسند احمد ( 6 / 342 )

نفلی روزہ والا بغیر کسی عذر بھی روزہ افطار کرسکتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک بار روزہ سے تھے پھر بغیر کسی عذر کے کھا لیا جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث ہے : عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھرمیں آئے تو کہنے لگے کچھ کھانے کو ہے ہم نے کہا کچھ نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے میرا روزہ ہے ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے بعد میں بطور ھدیہ چوری لائی گئی ، بعدمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو میں نے کہا کہ کچھ ہدیہ آیا ہے اوراس میں سے میں نے کچھ آپ کے لیے چھپا کررکھا ہے نبی صلی اللہ علیہ کہنے لگے میں نے صبح روزہ رکھا تھا لاؤ توآپ نے وہ تناول فرمالیا۔صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1154 )

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : قیدی اورمحبوس شخص بھی اگر چاند دیکھ لے یا اسے کسی ثقہ شخص کے ذریعہ رمضان شروع ہونے کا علم ہوتواس پر بھی روزے رکھنا واجب ہیں ، لیکن اگر اسے علم نہ ہوسکے تووہ ظن غالب کے مطابق اجتھاد کرتا ہوا روزے رکھے اگر تواس کا روزہ رمضان کے موافق ہوتوجمہور علماء کے ہاں یہ روزہ ادا ہوجائے گا۔اوراگر اس کا روزہ رمضان کے بعد ہوا توجمہور فقھاء کے ہاں یہ روزہ ہوجائے گا ، اوراگر رمضان سے قبل ہوا تو کافی نہیں بلکہ اسے قضا میں روزہ رکھنا ہوگا ، اوراگر محبوس شخص کے کچھ روزے رمضان میں ہوں اورکچھ رمضان کے بعد تورمضان اوراس کے بعد رکھے ہوئے روزے کافی ہیں لیکن رمضان سے قبل رکھے گئے روزے کافی نہیں ہونگے۔اوراگر اشکال اسی طرح رہے اوراسے رمضان کا علم نہ ہوسکے تواس کے لیے یہ روزے کفائت کرجائیں گے کیونکہ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کی ہے ، اوراللہ تعالی بھی کسی کواس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب سورج کی ٹکیا غائب ہوجائے توروزے دار کا روزہ افطار ہوجاتا ہے افطاری میں افق پر سرخی باقی رہنا معتبر نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ‘‘جب اس طرف سے رات آجائے اورادھرسے دن چلا جائے اورسورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کا روزہ افطار ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1954 ) افطاری میں سنت یہ ہے کہ افطاری جلدی کی جائے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب سے قبل ہی افطاری کرتے تھے چاہے پانی پی کرہی کرلیں۔

اگر روزہ دار کو افطاری کے لیے کوئی چیز نہ مل سکے تواسے دل سے ہی افطاری کی نیت کرلینی چاہیے ۔افطاری میں وقت سے پہلے افطاری کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا قابل سزا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کونچوں کے بل لٹکا ہوا دیکھا کہ ان کی باچھیں کٹی ہوئی اوران سے خون بہہ رہا ہے ، جب ان کے بارہ میں فرشتوں سے پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ افطاری کے وقت سے قبل ہی روزہ افطارکرلیتے تھے۔

جسے یہ یقین ہوجائے یا پھر اس کا ظن غالب یا شک ہوکہ اس نے مغرب سے قبل ہی افطاری کرلی ہے تواسے ایک روزہ کی قضاء کرنا ہوگی اس لیے کہ اصل یہی ہے کہ دن باقی تھا۔

 جب طلوع فجر جو کہ مشرقی جانب ایک چوڑی سفیدی سی پھیلتی ہے ہوجائے توروزہ دار کو چاہیے کہ وہ کھانا پینا بند کردے یعنی سحری کا وقت ختم ہوجائے گا ، چاہے اس نے اذان سنی ہویا نہ سن سکے ، اوراسی طرح جب یہ علم ہو کہ مؤذن فجر کی اذان طلوع فجر سے قبل ہی کہتا ہے تو کھانا پینا بند کرنا واجب نہیں۔اوراگر مؤذن کے بارہ میں علم نہ ہو یا پھر اذانوں میں اختلاف پیدا ہوجائے اورخود بھی طلوع فجرمعلوم نہ کرسکتا ہو - جیسا کہ روشنی کی بنا پر شہروں میں ہوتا ہے - توپھر اس صورت میں اسے چھپے ہوئے کیلنڈروں کے مطابق عمل کرنا چاہیے لیکن جب ان میں بھی واضح غلطی ہو تو پھر نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : ان ممالک میں جہاں پر دن اور رات چوبیس گھنٹوں میں ہوتی ہے مسلمانوں پر روزہ رکھنا فرض ہے چاہے دن جتنا بھی لمبا ہوجائے جب تک دن اور رات میں تمیز باقی ہے وہ روزہ رکھیں ، اورجن ممالک میں دن اوررات میں تمیز ممکن نہیں وہ اپنے قریب ترین ممالک جہاں پر دن اوررات میں تمیز ہو کے مطابق عمل کریں گے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ دار کا روزہ اس وقت ٹوٹتا ہے جب اس میں تین شرطیں پائی جائیں :وہ علم رکھتا اورجاہل نہ ہو ، اسے یاد ہوبھول کرنہیں ، مختار ہو مجبور اورمضطر نہ ہو۔

٭ روزہ توڑنے والی کچھ اشیا کھانے پینے کے معنی میں آتی ہیں : مثلا ادویات ، اور کھائی جانے والی گولیاں ، اورغذائی ٹیکے ، اوراسی طرح خون لگوانا اورخون دینا۔لیکن وہ انجیکشن جو کھانے پینے کے عوض میں نہیں آتے بلکہ صرف بطور علاج استعمال ہوتے ہیں مثلا پنسلین ، اورانسولین یا پھر جسم کو نشیط رکھنے کے لیے یا وبائی امراض کے ٹیکے لگوانا یہ سب روزے کو نقصان نہیں دیتے چاہے یہ گوشت میں لگائے جائیں یا نس میں۔ لیکن احتیاط یہ ہے کہ یہ سب انجیکشن بھی رات کیوقت لگائے جائیں ۔

٭راجح یہی ہے کہ انیمہ وغیرہ کرانا اورآنکھوں اورکانوں میں قطرے ٹپکانا ، دانت نکلوانا ، اورزخموں کی مرہم پٹی کروانا ان سب سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

٭دمہ کے لیے سپرے کا استعمال روزہ کو نقصان نہیں دیتا کیونکہ یہ گیس ہوتی ہے جو صرف پھیپھڑوں میں جاتی ہے اورکھانا نہیں ، اورپھر مریض اس کا رمضان اورغیررمضان میں ہر وقت محتاج رہتا ہے ، اوراسی طرح ٹیسٹ کے لیے خون نکالنا بھی روزے کو فاسد نہیں کرتا بلکہ ضرورت کی بناپر اس سے معاف ہے۔

٭غرغرہ والی دوائی کو اگر نگلا نہ جائے تو وہ بھی روزے کو کچھ نقصان نہیں دیتی ، اورجس کے دانت میں طبی سوراخ یعنی کھوڑ بھری جائے جس کا ذائقہ حلق میں بھی محسوس ہو تویہ بھی اس کے روزے کو نقصان نہیں دیتی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : مندرجہ ذیل امور روزہ کو کوئی نقصان نہیں دیتے :

٭ کان کی صفائی۔ ناک میں قطرے ٹپکانا ، یا ناک کے لیے سپرے ، ان میں سے اگرکوئی چیز بھی حلق میں پہنچے تو اسے نگلا نہیں جائے گا۔

٭ سینہ کے امراض کے لیے زبان کے نیچے رکھی جانے والی گولیوں کا استعمال ، جب کہ حلق میں جانے والی چیز کو نگلا نہ جائے۔

٭ دانت میں کھوڑ ، داڑھ نکالنا ، دانتوں کی صفائی ، مسواک یا ٹوتھ برش کا استعمال ، لیکن حلق میں جانے والی چیز کونگلنا نہیں چاہیے بلکہ تھوک دیں۔

٭ کلی اورغرارے کرنا ، سپرے کا استعمال ان میں بھی حلق میں جانے والی چیز کو نگلا نہیں جائے۔

٭ جلدی علاج کے انجیکشن ، عضلاتی ، اور وریدی انجیکشن ، لیکن اس میں غذائی انجیکشن اورڈرپ شامل نہیں کیونکہ اس سے روزہ ختم ہوجاتا ہے۔

٭ آکسیجن گیس کا استعمال۔

 سن کرنے والی گیسیں ، جب تک مریض کوغذائی محلول نہ دیے جائیں۔

٭ جلد میں جذب ہوکر داخل ہونے والی اشیاء مثلا تیل،اورمرہم اوراسی طرح جلدی علاج کی پٹیاں جن پر کیمائی اوردوائی مواد لگا ہوتا ہے۔

٭ علاج یا تصویر کیلیے دل اوردوسرے اعضاء کی شریانوں میں باریک نالی داخل کرنا۔

٭ پیٹ کے چمڑے کے ذریعہ انتڑیوں وغیرہ کے چیک اپ کیلیے کوئی آلہ داخل کرنا یا پھر کوئی جراحی عمل کروانا۔

٭ جگر یا دوسرے اعضاء کے ٹیسٹ کے لیے نمونہ لینا ، لیکن جب اس میں کوئی محلول نہ دیا جائے۔

٭ معدہ میں کوئی آلہ داخل کرنا جب کہ اس میں کوئی محلول نہ دیا گیا ہو۔

٭ دماغ میں کوئی آلہ یا پھر علاج کے لیے مواد داخل کرنا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب کوئی کسی کوروزہ کی حالت میں بھول کرکھاتا پیتا دیکھے تواسے اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان کے عموم پر عمل کرتے ہوئے یاد دہانی کروانی چاہیے : ‘‘ تم نیکی اوربھلائی اورتقوی میں ایک دوسرے کاتعاون کیا کرو ۔’’

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘ جب میں بھول جایا کروں تو مجھے یاد دلا دیا کرو ’’۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگرکوئی شخص کسی معصوم کو بچانے کے لیے روزہ توڑنے کا محتاج ہو تووہ روزہ توڑ دے جیسا کہ غرق ہونے والوں یا پھر آگ میں پھنسے ہوئے اشخاص کو بچانا مقصود ہو۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اپنے آپ پر کنٹرول رکھنے والے شخص کے لیے اپنی بیوی سے معانقہ ، اس کا بوسہ لینا ، چھونا ، اوربار بار اسے دیکھنا جائز ہے ، اس کی دلیل صحیحین کی مندرجہ ذیل حدیث میں پائی جاتی ہے : ‘‘عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں میرا بوسہ لیتے اورمجھ سے مباشرت کرتے ، لیکن انہیں تم سے زیادہ اپنے آپ پر کنٹرول تھا۔’’ (یہاں مباشرت سے مراد بوسہ اور جسم کا ملانا مراد ہے)

لیکن جب کوئی شخص شہوت پر کنٹرول نہ کرسکتا ہو اس کے لیے بوس وکنار جائز نہیں اس لیے کہ ایسا کرنا روزے کو فاسد کردے گا ، اورانزال اورجماع جیسے کام سے رک نہیں سکے گا۔

اورشرعی قاعدہ ہے کہ جوچیز بھی کسی حرام کا وسیلہ بنے وہ چیز بھی حرام ہوتی ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر جنبی حالت میں ہی صبح ہوجائے تو روزہ صحیح ہے ۔ غسل جنابت اورحیض اورنفاس کے غسل میں طلوع فجر کے بعد تک تاخیر کرنا جائز ہے ، لیکن غسل کرنے میں جلدی کرنی چاہیے تاکہ نماز ادا کرسکے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

 جواب : اگر سوتے ہوئے روزے دار کو احتلام ہوجائے تو اس سے بالاجماع روزہ فاسد نہیں ہوگا ، بلکہ روزہ مکمل کرنا چاہیے ، اوراسی طرح غسل میں تاخیر بھی روزہ کو کوئی ضرر نہیں دے گی لیکن غسل جلدی کرنا چاہیے تا کہ نماز کی ادائیگی وقت پر ہوسکے اور فرشتے بھی اس کے قریب آسکیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جسے خود ہی قے آئے اس پرقضا نہیں ، لیکن جوعمداً قے کرے اس پر قضا ہوگی۔ دیکھیں صحیح سنن ترمذی ( 3 /89 )۔جس شخص نے حلق میں انگلی ڈال کریا پھر پیٹ دبا کر قے کی یا جان بوجھ کرکوئی کراہت والی چیز سونگھی یا قے لانے والی چیز کومسلسل دیکھتا رہے جس کی بنا پر قے آجائے تواسے قضا ادا کرنا ہوگی ، اوراگر اس پر قے غالب آگئی اورخود بخود ہی رکنے پر قضاء واجب نہیں کیونکہ اس میں اس کا ارادہ شامل نہیں ، اوراگر اس نے اسے واپس کردیا تو قضا ہوگی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر دانتوں میں پھنسی ہوئی چیز بغیرقصد کے نگلی جائے ، یا بالکل قلیل ہونے کے باعث اس میں تمیز کرنا اورچبانا مشکل تھا اسے تھوک کے تابع سمجھا جائے گا اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔اوراگر زیادہ ہو اوراس کا پھینکنا ممکن ہوتو پھینک دے اس کے پھینکنے پر کچھ نہیں لیکن اگرجان بوجھ کر نگل جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔اوراگرچبا لی یعنی جبڑے کی ورزش کے لیے حرکت دینے کے لیے کوئی چیز چبانے میں ذائقہ یا مٹھاس ہو تواس کا چبانا حرام ہے ، اوراگر حلق تک جا پہنچے تواس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب کلی کرنے کے بعد پانی نکال دیا جائے اورباقی بچنے والی نمی اور رطوبت کوئی نقصان دہ نہیں ، کیونکہ اس سے احتراز ممکن نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جسے نکسیر پھوٹ پڑے اس کا روزہ صحیح ہے ، کیونکہ یہ اس کے اختیار میں نہیں۔

اوراگر مسوڑھوں میں پیپ ہو یا مسواک کرنے سے خون نکلنا شروع ہوجائے تواسے نگلنا جائز نہیں بلکہ اسے خون تھوکنا ہوگا لیکن اگر اس کے اختیار کے بغیر حلق میں چلا جائے تواس پرکچھ لازم نہیں آتا۔

پانی صاف کرنے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کا پانی کی بھاپ سونگھنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : بغیر کسی ضرورت کے کھانا چکھنامکروہ ہے کیونکہ ایسا کرنے میں روزہ کے فاسد ہونے کا خدشہ ہے ۔ ماں کا اپنے بچے کے لیے کسی چیز کو چبا کردینے جب اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو اوراسی طرح کھانے کی پکائی چکھنے میں اوراسی طرح جب کسی چیز کی خریداری کے وقت چکھنے کی ضرورت ہو توبغیر کسی چیز کے نگلنے سے روزہ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ دارکے لیے سارا دن مسواک کرنا سنت ہے چاہے مسواک تازہ بھی ہو، روزہ کی حالت میں مسواک کرنے پر اگر مسواک کا ذائقہ وغیرہ ہو تو اس کے نگلنے یا اسے تھوک کر باقیماندہ نگلنے پرروزہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن ایسی چیز جس کا مادہ تحلیل ہونے والا ہو مثلا تازہ مسواک یا اس میں لیمون اورپودینہ کا ذائقہ ہو اسے نکال دینا چاہیے اورعمدا ًاسے نگلنا جائز نہیں ، لیکن اگر بغیر کسی قصد کے نگل لے تو اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : روزہ دار کے حلق میں اس کے اختیار کے بغیر نکسیر یا زخم کی وجہ سے خون یا پانی اورپٹرول جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اوراسی طرح اگر اس کے پیٹ میں گردوغبار یا دھواں اوردھند بغیر کسی ارادہ وقصد کے چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اوراسی طرح ایسی چیز جس سے بچنا محال ہوجیسے تھوک نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اوراسی طرح راستے کا گردوغبار اورآٹا چھانتے وقت دھوڑ وغیرہ سے نہیں ، اورعمداً تھوک جمع کرنے سے بھی صحیح قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا۔

اسی طرح حلق تک آنسو کا جانا ، یا سروغیرہ میں تیل لگانا ، اورمہندی لگانے سے حلق میں ذائقہ محسوس ہونے پر بھی روزہ کو کچھ نہیں ہوگا ، اوراسی طرح سرمہ ڈالنے اورتیل اورمہندی لگانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اوراسی طرح جلد کو ملائم کرنے والی مرہم وغیرہ سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا ، خوشبوسونگھنے اور استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں اور روزے دار کے لیے عود کی دھونی لینے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن ناک کے ذریعہ پیٹ میں نہیں لیجانی چاہیے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : بہتر یہ ہے کہ ٹوتھ پیسٹ روزے کی حالت میں استعمال نہ کی جائے ، بلکہ رات کو استعمال کرنی چاہیے کیونکہ یہ قوی نفوذ رکھتی ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب کوئی شخص غروب شمس کے گمان میں سورج غروب ہونے سے قبل ہی افطاری کرلے ، توجمہور علماء کرام کے ہاں اسے اس دن کی قضاکرنا ہوگی کیونکہ اصل یہی ہے کہ دن باقی ہے اورشک سے یقین زائل نہیں ہوتا ، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس پر قضانہیں ہوگی۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : جب طلوع فجر ہواور کسی کے منہ میں کھانا یا پانی ہو تو علماء کرام اس پر متفق ہیں کہ اسے نکال پھینکنا چاہیے ، اوراس کاروزہ صحیح ہے ، اوراسی طرح جس نے بھول کرکھا پی لیا اوریاد آنے کے وقت جوکچھ مونہہ میں ہواسے جلدی سے نکال دینے پرروزہ صحیح رہے گا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : پورے رمضان میں میاں بیوی کے اختلاط پر پابندی کا حکم تو کبھی نہیں ہوا، البتہ یہ حکم تھا کہ سونے سے پہلے پہلے کھانا پینا اور صحبت کرنا جائز ہے۔ سوجانے سے روزہ شروع ہوجائے گا، اور اگلے دن اِفطار تک روزے کی پابندی لازم ہوگی، آپ کا اشارہ غالباً اسی کی طرف ہے۔آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ صحیح ہے، اور صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اس نوعیت کا واقعہ متعدّد حضرات کو پیش آیا تھا، لیکن اس واقعے سے سیّدنا عمر یا دْوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، بلکہ ان حضرات کی ایک فضیلت اور بزرگی ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ان حضرات کو اللہ تعالیٰ نے قوّتِ قدسیہ عطا فرمائی تھی، اور وہ بتوفیقِ الٰہی ضبطِ نفس سے کام بھی لے سکتے تھے، لیکن آپ ذرا سوچئے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کوئی واقعہ نہ پیش آتا اور قانون یہی رہتا کہ عشاء کی نماز کے بعد سے کھانا پینا اور بیوی کے پاس جانا ممنوع ہے، تو بعد کی اْمت کو کس قدر تنگی لاحق ہوتی؟ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ایسے واقعات پیش آئے کہ ان کی وجہ سے پوری اْمت کے لئے آسانی پیدا ہوگئی، اس لئے یہ حضرات لائقِ ملامت نہیں، بلکہ پوری اْمت کے محسن ہیں۔جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ سورہ بقرہ کی آیت۱۸۷ہے، اس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:‘‘تم لوگوں کے لئے روزہ کی رات میں اپنی بیبیوں سے ملنا حلال کردیا گیا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ کو علم ہے کہ تم اپنی ذات سے خیانت کرتے تھے سو اللہ نے تم پر عنایت فرمادی، اور تم کو تمہاری غلطی معاف کردی ۔۔۔۔’’

قرآنِ کریم کے اصل الفاظ آپ قرآن مجید میں پڑھ لیں، آپ کو صرف اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی اس غلطی کو ‘‘اپنی ذات سے خیانت’’ کے ساتھ تعبیر کرکے فوراً ان کی توبہ قبول کرنے، ان کی غلطی معاف کرنے اور ان پر نظرِ عنایت فرمانے کا اعلان بھی ساتھ ہی فرما دیا ہے، کیا اس کے بعد ان کی یہ غلطی لائقِ ملامت ہے؟ نہیں! بلکہ یہ ان کی مقبولیت اور بزرگی کا قطعی پروانہ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : آپ کا یہ نظریہ تو صحیح نہیں کہ: ‘‘روزہ رکھ کر گناہ کرنے سے بہتر کیا یہ نہ ہوگا کہ روزہ رکھا ہی نہ جائے’’ یہ بات حکمتِ شرعیہ کے خلاف ہے۔ شریعت، روزہ رکھنے والوں سے یہ مطالبہ ضرور کرتی ہے کہ وہ اپنے روزے کی حفاظت کریں، اور جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا کھانا پینا تک چھوڑ دیا ہے تو بے لذّت گناہوں سے بھی احتراز کریں، اور اپنے روزے کے ثواب کو ضائع نہ کریں، مگر شریعت یہ نہیں کہے گی کہ جو لوگ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں وہ روزہ ہی نہ رکھا کریں۔ آپ نے جن اْمور کا تذکرہ کیا ہے یہ روزے کی رْوح کے منافی ہیں، روزہ دار کو قطعی ان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ البتہ واقعہ یہ ہے کہ رمضان مبارک کے معمولات اور روزے کے آداب کی پابندی کے ساتھ اگر ماہِ مبارک گزار دیا جائے تو آدمی کی زندگی میں انقلاب آسکتا ہے، جس کی طرف قرآنِ کریم نے لعلکم تتقون کے چھوٹے سے الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کو پرہیز کی بہت ہی تاکید فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ: ‘‘بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو رتجگے کے سوا کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔’’ایک اور حدیث میں ہے کہ:‘‘جو شخص جھوٹ بولنے اور غلط کام کرنے سے باز نہیں آتا، اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھڑانے کی کوئی ضرورت نہیں۔’’

 آپ نے لغویات کے ضمن میں سو رہنے کا بھی ذکر فرمایا ہے، لیکن روزے کی حالت میں سوتے رہنا مکروہ نہیں، اس لئے آپ کے سوال میں یہ الفاظ لائقِ اصلاح ہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اِفطار کرانے کا ثواب تو یکساں ہے، غریب کی خدمت اور عزیز کے ساتھ حسنِ سلوک کا ثواب الگ ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : غیرمعتکف کا مسجد میں سونا مکروہ ہے، جو حضرات مسجد میں جائیں وہ اِعتکاف کی نیت کرلیا کریں، اس کے بعد ان کے سونے کی گنجائش ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : حالتِ جنابت میں سحری کی تو روزہ ہوجائے گا، اور اس میں کوئی تردّد نہیں، لیکن آدمی جتنی جلدی ہوسکے پاکی حاصل کرلے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : یہ مسئلہ جو عوام میں مشہور ہے کہ ‘‘شش عید کے لئے عید کے دْوسرے دن روزہ رکھنا ضروری ہے’’ بالکل غلط ہے، عید کے دْوسرے دن روزہ رکھنا کوئی ضروری نہیں، بلکہ عید کے مہینے میں، جب بھی چھ روزے رکھ لئے جائیں، خواہ لگاتار رکھے جائیں یا متفرق طور پر، پورا ثواب مل جائے گا، بلکہ بعض اہلِ علم نے تو عید کے دْوسرے دن روزہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ مکروہ نہیں، دْوسرے دن سے بھی شروع کرسکتے ہیں۔ شوال کے چھ روزے رکھنے سے رمضان کے قضا روزے ادا نہیں ہوں گے، بلکہ وہ الگ رکھنے ہوں گے، کیونکہ یہ نفلی روزے ہیں، اور رمضان کے فرض روزے، جب تک رمضان کے قضا روزوں کی نیت نہیں کرے گا، وہ ادا نہیں ہوں گے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : سحری آخری وقت میں کھانا مستحب ہے، اور سحری کے بعد سوجانے میں اگر فجر کی جماعت فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مکروہ ہے، ورنہ نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : یہ صورت ان بے شمار لوگوں کو پیش آتی ہے جو پاکستان یا سعودی عرب وغیرہ ممالک میں رمضان شروع کرکے عید سے پہلے پاکستان یا ہندوستان میں آجاتے ہیں، ان کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان پہنچ کر یہاں کے رمضان کی گنتی پوری کریں اور اکتیسواں روزہ بھی رکھیں، یہ زائد روزہ ان کے حق میں نفل ہوگا، لیکن پاکستان اور ہندوستان کے تیسویں روزے کے دن ان کے لئے عید منانا جائز نہیں۔

ایک صورت اس کے برعکس یہ پیش آتی ہے کہ بعض لوگ پاکستان یا ہندوستان میں رمضان شروع ہونے کے بعد سعودی عرب یا دْوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں، ان کا اٹھائیسواں روزہ ہوتا ہے کہ وہاں عید ہوجاتی ہے، ان کو چاہئے کہ سعودی عرب کے مطلع کے مطابق عید کریں اور ان کا جو روزہ رہ گیا ہے اس کی قضا کریں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : کان میں پانی خودبخود داخل ہوجانے سے صحیح روایت کے مطابق روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ البتہ قصداً پانی ڈالنے کی صورت میں احتیاطاً ایک روزہ قضاء کرلینا بہتر ہے۔ روزے کی حالت میں کان میں تیل ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : دمے کے مریض کے لیے روزے کے دوران انہیلر یا وینٹولین لینے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے کیونکہ اس میں لیکویڈ دوائی ہوتی ہے جو پمپ کرنے کی صورت میں اندر جاتی ہے اور دوائی اندر جانے سے روزہ فاسدہوجاتا ہے لہٰذا سائل پر اس روزے کی قضا ہے کفارہ نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر کوئی شخص بیماری کی بنا پر روزہ نہیں رکھتا تو اس نے جتنے روزے نہیں رکھے صرف اس کی قضاہے اور اسی طرح اگر روزہ رکھ کر بیماری کی بنا پر توڑ دیا تو ایسے شخص پر بھی صرف قضا ہے کفارہ نہیں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : صورت مسؤلہ میں بیک وقت ایک روزہ میں، نفل اورفرض کی نیت نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا شوال کے چھ روزوں یا ذی الحجہ،عاشورہ کے روزوں کے ساتھ،قضا روزوں کی ادائیگی کی نیت کرناصحیح نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے قضا روزوں کو ادا کیا جائے کیونکہ ان کی ادائیگی لازم ہے،اس کے باوجود اگر کوئی ان نفلی روزوں کو رکھ لیتا ہے توثواب ملے گا۔

 نمازکاوقت داخل ہوجانے پرمرداورعورت دونوں کے لیے،داخل شدہ وقت کی نمازپڑھناجائزہے،اذان ہو جانے کا انتظارکرناضروری نہیں ہے۔البتہ مردکیلیے شرعاًیہ حکم ہے کہ مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرلیا کریں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : اگر بیماری ظاہری طور پر دائمی ہے تو ایسی صورت میں فدیہ دینے کا حکم ہے،ہر روزے کے بدلے پونے دوکلو گندم یا اس کی قیمت مستحقِ زکوٰۃ فرد کو دی جائے۔ گذشتہ سالوں کے روزوں کا فدیہ گندم کی موجودہ قیمت (پونے دو کلو گندم) کے حساب سے ادا کریں۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : کسی بھی کام کے عبادت ہونے کے لیے یہ ضابطہ ذہن میں رکھا جائے کہ وہ احکام اسی وقت، اسی کیفیت اورانہی شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے جن کے ساتھ اس کا ثبوت شریعت مطہرہ میں ہو، اپنی طرف سے کسی خاص وقت میں، کسی خاص کیفیت یا خاص شرائط کے ساتھ کسی کام کی انجام دہی عبادت نہیں بلکہ بدعت ہوگی۔اسی ضابطہ کے پیش نظرشرعاً جن مواقع پر روزہ رکھنے کی ترغیب یا اجازت ہے ان مواقع پر توروزہ رکھنا عبادت ہوگا، لیکن جن مواقع یا ایام میں قرون اولیٰ سے روزہ رکھنے کا ثبوت نہیں ہے، ان ایام میں اس دن کی اہمیت کے پیش اگرہم اپنی طرف سے روزہ کااہتمام شروع کردیں تو شرعاً یہ روزہ بجائے عبادت کے بدعت کے زمرہ میں آئیگا۔چنانچہ خلفائے راشدین یا کسی اورصحابی کی شہادت یا وفات کے دن روزہ رکھنے کا ثبوت قرون اولیٰ میں ہمیں نہیں ملتااس لیے اس دن مخصوص نسبت کے ساتھ روزہ رکھنے کی اجازت بھی نہیں، البتہ اگرکسی کا عام معمول ہو روزہ رکھنے کا اور اس دوران کوئی ایسا دن آجاتاہے تو وہ حسبِ معمول روزہ رکھ سکتا ہے، جس کا تعلق اس دن کے ساتھ نہیں ہوگا بلکہ اس کے معمول کا حصہ ہوگا۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

ج۔ زبان سے کسی چیز کا ذائقہ چکھ کر تھوک دیا تو روزہ نہیں ٹوٹا، مگر بے ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج۔ اگر خون منہ سے نکل رہا تھا، اس کو تھوک کے ساتھ نگل لیا تو روزہ ٹوٹ گیا، البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج۔ اگر حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا دْھواں خودبخود چلا گیا، یا گرد و غبار چلا گیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا، اور اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتا رہا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج۔ آنکھ میں دوائی ڈالنے یا زخم پر مرہم لگانے یا دوائی لگانے سے روزے میں کوئی فرق نہیں آتا، لیکن ناک اور کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، اور اگر زخم پیٹ میں ہو یا سر پر ہو اور اس پر دوائی لگانے سے دماغ یا پیٹ کے اندر دوائی سرایت کرجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب :میں نے یہ مسئلہ اپنے استاداورشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ تعالی سے پوچھاتوان کاجواب تھا :اسی کی امیدہے کہ اسے یہ اجرملے گا یعنی دونوں روزوں کا کیونکہ اللہ تعالی کافضل بہت وسیع ہے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں ، اورمسلمان کے لیے مشروع ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھے جس میں فضل عظیم اوربہت بڑا اجر و ثواب ہے ، کیونکہ جو شخص بھی رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزوں کا اجروثواب لکھا جاتا ہے۔ شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائدمیں یہ بھی شامل ہے کہ یہ روزے رمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اورنقص کو پورا کرتے ہیں اوراس کے عوض میں ہیں ، کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہوجاتی ہے اورگناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جوکہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے۔ اور روزقیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص نوافل سے پورا کیا جائے گا۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :درج بالا صورت میں کسی کفارے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق روزوں کی تعدادپوری کرنا ضروری ہے۔ اس لیے جو روزہ بھی کسی وجہ سے چھوٹ گیا ہو اسے رمضان کے بعدرکھا جاتا ہے۔         

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں روزے کے جو احکام بیان ہوئے ہیں، ان میں عارضی طور پر روزے کا فدیہ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ اجازت ختم کر دی گئی۔ رمضان کے بعد عام دنوں میں روزہ رکھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے ، اِس لیے جب تک طبائع اِس کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہو گئیں، اللہ تعالیٰ نے اِسے لازم نہیں کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے کہ فدیے کی یہ اجازت اِس لیے ختم کردی گئی ہے کہ تم روزوں کی تعداد پوری کر و اور جو خیروبرکت اْس میں چھپی ہوئی ہے، اْس سے محروم نہ رہو۔اصل میں بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ رمضان گزرنے کے بعد چھوٹنے والے روزے پورے کیے جائیں۔میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ ممکن ہے اس کا کوئی حل نکل آئے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کچھ روزے چھوڑ دیا کریں اور رمضان کے بعد تعداد پوری کر لیا کریں۔علما فدیے کا آپشن اب صرف ان مریضوں کے لیے بیان کرتے ہیں جن کا مرض مستقل نوعیت کا ہواور روزے رکھنا اب ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہے۔ میرا خیال نہیں ہے کہ آپ اس نوع سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا مناسب علاج کرائیں اور جب تک ٹھیک نہ ہوں، کچھ روزے چھوڑ کر بعد میں تعداد پوری کر لیں۔آپ نے کہا کہ آپ نقاہت محسوس کرنے کی وجہ سے خوش دلی سے روزے نہیں رکھ پاتیں۔ اگر آپ یہ بات اپنے سامنے رکھیں کہ اس مشقت کو جھیلنے میں آپ کا اجر دوسرے روزے داروں سے زیادہ ہے تو یہ نفسیاتی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : روزہ کی پانچ قسمیں ہیں:

فرض، واجب، نفل، مکروۂ تنز یہی اور مکروۂ تحریمی۔ فرض وواجب ہر ایک کی دو قسمیں ہیں معین، غیر معین۔ فرض معین جیسے رمضان المبارک کے روزے جو اسی ماہ میں ادا کیے جائیں۔ اور فرض غیر معین جیسے رمضان کے روزوں کی قضا اور کفارے کے روزے ، کفار ہ خواہ روزہ توڑنے کا ہو یا کسی اور فعل کا۔ واجب معین جیسے نذر و منت کا وہ روزہ جس کے لیے وقت معین کر لیا ہو اور واجب غیر معین جس کے لیے وقت معین نہ ہو۔ نفلی روزے جیسے عاشور ایعنی دسویں محرم کا روزہ ۔ ایام بیض یعنی ہر مہینے میں تیر ہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کا روزہ ۔عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ ، شوال کے۶ روزے ،پیر اور جمعرات کا روزہ ۔مکروہ تنزیہی جیسے صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنا کہ یہ یہودیوں کا سا روزہ ہے۔ صوم دہر یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا۔ صوم سکوت یعنی ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے، صوم وصال کہ روزہ رکھ کر افطار نہ کرے اور دوسرے دن پھر روزہ رکھ لے۔ مکروہ تحریمی یعنی ممنوع روزے جیسے عیدکے دن روزہ ۔(بحوالہ در مختار اور عالمگیری)

(محمد صدیق بخاری)

جواب :نیت دل کے فعل کا نام ہے ۔ دل سے ارادہ کرنے کو نیت کہتے ہیں۔زبان سے کہنا شرط نہیں اگر کہہ لے تو کوئی حرج بھی نہیں۔ اس کے لیے نہ کوئی دعا مسنون ہے اور نہ ہی کوئی خاص الفاظ ۔

(محمد صدیق بخاری)

جواب: روزے کی مقبولیت کے لیے سحری کھانا شرط نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے جس پر حضوؐر نے خود بھی عمل کیا اور لوگوں کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث نبوی ہے: تسحروا فان فی السحور برکۃ. (بخاری و مسلم)

‘‘سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔’’

اسی طرح سحری تاخیر سے کھانا بھی سنت ہے اور افطار میں جلدی کرنا بھی سنت ہے کیوں کہ اس طرح بھوک اور پیاس کی شدت کچھ کم ہو جاتی ہے اور اس طرح روزے کی مشقت میں بھی قدرے تخفیف ہوتی ہے۔ بلا شبہ دین اسلام نے عبادتوں میں حتی الامکان تخفیف اور آسانی کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ لوگوں کا دل ان عبادات کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو۔ انھیں آسانیوں میں سے حضوؐرکی یہ تاکید ہے کہ سحری تاخیر سے کھائی جائے اور افطار میں جلدی کی جائے۔ حضوؐر کی سنت کے اتباع میں فجر سے قبل اٹھنا باعث ثواب ہے ، چاہے ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی سے یہ سنت ادا کی جائے۔سحری میں ایک روحانی فائدہ بھی ہے۔ فجر سے قبل اٹھنا ایک ایسی گھڑی میں اٹھنا ہے جب اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے۔ بندے کا ایسی گھڑی میں اپنے خالق و مالک سے مناجات کرنا اورمغفرت کی دعائیں کرنابہت قیمتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ بستر پر سوتے پڑے رہنے کے برابر ہو سکتا ہے؟ ہم خود تصور کر سکتے ہیں کہ ان دونوں حالتوں میں کس قدر زمین و آسمان کا فرق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزے کی حالت میں احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس پر انسان کا بس نہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو کسی ایسے کام کا مکلف نہیں کرتا، جس پر اس کا بس نہ ہو۔ اسی طرح روزے کی حالت میں غسل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے غیر ارادی طور پر پانی اس کے کانوں سے ہوتا ہوا حلق تک پہنچ جائے یا کلی کرتے وقت حلق میں چلا جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَأْتُم بِہٖ وَلٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ.(الاحزاب:۵)

‘‘اور نادانستہ جو کام تم کرو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اس پر گرفت ضرور ہے، جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ایسے بوڑھے جنھیں روزہ رکھنے میں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھیں۔ اسی طرح وہ مریض جس کا مرض مستقل نوعیت کا ہو اور اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو، اس کے لیے بھی جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے بشرطیکہ یہ ایک ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہو یا روزے کی وجہ سے مرض میں اضافے کا خوف ہو۔ ان سبھی کے لیے رخصت کی بنیاد پر قرآن کریم کی یہ آیت ہے: یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ.(البقرۃ:۱۸۵)

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بوڑھے اور اس جیسے معذور اشخاص کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے: وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْراً فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ. (البقرہ:۱۸۴)

‘‘اور جو لوگ (مسکین کو کھلانے کی) قدرت رکھتے ہوں تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔’’

روزہ معاف ہونے کی صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ ہر ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔

حاملہ عورت اگر روزے کو اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے بھی روزے معاف ہیں کیونکہ ایک انسانی جان جو اس کے پیٹ میں ہے، اس کی حفاظت اس پر فرض ہے۔ تاہم ان روزوں کے بدلے میں وہ ان روزوں کی قضا کرے گی یا قضا کے ساتھ ساتھ مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی یا صرف کھانا ہی کافی ہے؟ اس امر میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ صرف روزوں کی قضا کرے گی۔

میری رائے یہ ہے کہ وہ عورت جو بہت تھوڑے وقفے سے حاملہ ہو جاتی ہو اس پر قضا واجب نہیں ہے کیونکہ عملاً چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس کے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ رہا خوشبو کا استعمال تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ روزے کی حالت میں خوشبو کا استعمال جائز ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب:تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مریض کے لیے روزہ معاف ہے۔ جب وہ اچھا ہو جائے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

تاہم ہر قسم کے مرض میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں جن میں روزہ رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً کمر میں یا انگلی میں درد وغیرہ۔ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں کہ روزہ رکھنا مفید ہوتا ہے مثلاً دست اور پیچش کا مرض۔ اس قسم کے امراض میں روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس مرض میں اس کی اجازت ہے جس میں روزہ رکھنے سے مرض میں اضافے کا اندیشہ ہو یا روزہ رکھنے سے شدید تکلیف ہوتی ہو۔ ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔ اگر ڈاکٹر کے مشورے کے باوجود اور تمام تکلیفوں کو سہتے ہوئے کوئی شخص روزہ رکھتا ہے، تو یہ ایک مکروہ کام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آسانی کی صورت فراہم کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ کی اس رخصت کو قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلاَ تَقْتُلُواْ اَنفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً.(النساء:۲۹)

‘‘اور اپنے آپ کو مار نہ ڈالو۔ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔’’

اب رہا یہ سوال کہ چھوٹے ہوئے روزوں کے بدلے کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مرض ہے جو وقتی ہوتا ہے اور کسی نہ کسی مرحلہ میں اس کے دور ہونے کی امید ہوتی ہے۔ اسی مرض میں اگر روزے چھوٹے ہوں تو ان کے بدلے صدقہ کرنا کافی نہیں بلکہ روزوں کی قضا واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے: فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

‘‘تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرو۔’’

دوسرا وہ مرض ہے جس کے دور ہونے کی تازیست کوئی امید نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔ بعض فقہاء مثلاً امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ کھانا کھلانے کے بجائے کسی مسکین کی مالی امداد کر دی جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ہر مسلمان شخص تمام عبادتوں کا مکلف ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھوٹ جائے تو اللہ کے نزدیک جواب دہ ہے۔ ایک عبادت ادا نہ کرنے سے دوسری عبادتیں قبول ہوں گی یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے:

۱۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ایک عبادت بھی ترک کر دی تو وہ کافر ہو گیا اور اس کی کوئی دوسری عبادت مقبول نہ ہو گی۔

۲۔ بعض کے نزدیک صرف نماز اور زکوٰۃ ترک کرنے والا کافر ہے۔

۳۔ بعض کے نزدیک صرف نماز ترک کرنے والا کافر ہے کیونکہ حضوؐر کا ارشاد ہے: بین العبدوبین الکفر ترک الصلاۃ.(مسلم)

‘‘بندے اور کفر کے درمیان نماز کاترک کرنا ہے۔’’

ان فقہاء کے نزدیک نماز ترک کرنے والے کا روزہ بھی مقبول نہ ہو گا کیونکہ وہ کافر ہے اور کافر کی عبادت مقبول نہیں ہو گی۔

۴۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان و یقین کامل رکھتا ہے کسی ایک عبادت کے ترک کردینے سے وہ کافر شمار نہیں ہو گا بشرطیکہ اس عبادت کا نہ وہ مذاق اڑاتا ہو اور نہ منکر ہو۔ اس لیے ایک عبادت ترک کرنے کی وجہ سے اس کی دوسری عبادتیں ہرگز برباد نہیں جائیں گی۔

میرے نزدیک یہی رائے زیادہ قابل ترجیح ہے۔ چنانچہ جو شخص صرف سستی اور کاہلی کی بنا پر کوئی ایک عبادت ادا نہیں کرتا ہے اور دوسری تمام عبادتیں ادا کرتا ہے، تو دوسری عبادتیں ان شاء اللہ مقبول ہوں گی۔ البتہ وہ ناقص اور ضعیف الایمان کہلائے گا اور جس عبادت میں اس نے کوتاہی کی ہے اس میں وہ گنہ گارہو گا اور اللہ کے نزدیک سزا کا مستحق ہو گا۔ بہرحال کسی ایک نیکی کے ضائع ہونے سے اس کی دوسری نیکیاں برباد نہیں ہوتیں۔ اس نے جو نیکی کی ہو گی اس کا اچھا بدلہ پائے گا اور جو برائی کی ہو گی اس کا برا بدلہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ. وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ. (الزلزال:۷۔۸)

‘‘پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزہ وہی نفع بخش اور باعث اجر و ثواب ہے، جو برائیوں سے روکے، نیکیوں پر آمادہ کرے اور نفس میں تقویٰ پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون. (البقرہ:۱۸۳)

‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے اس توقع سے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔’’

روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے روزے کو تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک رکھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے نصیب میں صرف بھوک اور پیاس ہی آئے اور روزے کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے۔ حضوؐر نے فرمایا:رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع. (نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

‘‘بعض ایسے روزے دار ہوتے ہیں کہ ان کے روزے میں سے انھیں صرف بھوک ہی نصیب ہوتی ہے۔’’

ایک دوسری حدیث میں ہے: من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ.(بخاری، احمد، اصحاب السنن)

‘‘جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا اور پینا ترک کر دے۔’’

اسی لیے ابن حزم کا قول ہے کہ جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین اپنے روزوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جس طرح کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اسی طرح گناہوں کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے: لیس الصیام من الشراب والطعام وحدہ ولکنہ من الکذب والباطل واللغو.

‘‘روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ، باطل کاموں اور لغویات سے رکنے کا نام بھی ہے۔’’

میرے نزدیک ارجح رائے یہ ہے کہ ان لغو کاموں سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ روزے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور روزہ دار روزے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ روزہ رکھنا اپنی جگہ ہے اور گناہ کے کام کرنا اپنی جگہ۔ ایک نیکی ہے اور دوسری برائی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنی چھوٹی بڑی نیکی اور برائی دونوں کا حساب و کتاب دے گا۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ذیل کی حدیث پر غور کیجیے:

 حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو میری بات نہیں مانتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں اور میں انھیں گالم گلوچ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ قیامت کے دن ان کے ساتھ میرا حساب و کتاب کیسا ہو گا؟ آپؐ نے جواب دیا ان غلاموں نے تمھاری جتنی نافرمانی اور خیانت کی ہو گی اور تم نے انھیں جتنی سزا دی ہو گی ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ اگر ان کی نافرمانی کے مقابلے میں تمھاری سزا کم ہو گی تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگر ان کی نافرمانی اور تمھاری سزا برابر ہو گی تو حساب کتاب برابر رہے گا۔ لیکن اگر تمھاری سزا ان کی نافرمانی کے مقابلے میں زیادہ ہو گی تو اسی حساب سے تمھاری بھلائی ان غلاموں کو دے دی جائے گی۔ یہ سن کر وہ صحابیؓ رونے لگے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ قرآن کی اس آیت کو پڑھو: ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئا و ان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین. (الانبیاء:۴۷)

‘‘قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔’’

 یہ سن کر صحابیؓ نے تمام غلام آزاد کر دیے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے تو اذان سنتے ہی اسے سحری کھانا چھوڑ دینا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر اس کے منہ میں نوالہ ہے تو اسے چاہیے کہ اسے اگل دے تاکہ یقینی طور پر اس کا روزہ صحیح ہو۔ تاہم اگر اسے یقین ہو یا کم از کم شک ہو کہ اذان وقت سے قبل ہو رہی ہے تو اذان سن کر کھانے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ اس بات کے یقین کے لیے کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے مختلف چیزوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلاً کیلنڈر یا گھڑی یا اس قسم کی دوسری چیزیں جو آج کل بآسانی دستیاب ہیں۔

عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے سوال کیا کہ سحری کھانے کے دوران میں اگر شک ہو کہ فجر کا وقت ہو گیا تو کیا میں سحری کھانا چھوڑ دوں؟ آپ ؓ نے جواب دیا کہ جب تک شک ہوکھاتے رہو۔ جب فجر کا یقین ہو جائے تو کھانا چھوڑ دو۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی یہی ہے۔

امام نووی کہتے ہیں کہ شوافع نے شک کی حالت میں کھاتے رہنے کا جواز درج ذیل قرآنی آیت سے اخذ کیا ہے: وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ.(البقرہ:۱۸۷)

‘‘اور راتوں کو کھاؤ پیو حتیٰ کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔’’

اس آیت میں یقین کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یقینی طور پر کچھ واضح ہو جائے۔ یعنی جب شک کی کیفیت نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ فجر کا وقت آگیا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ٹی وی ذرائع ابلاغ عامہ کا ایک حصہ ہے۔ اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور شر کا بھی۔ جس طرح دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً اخبارات و جرائد اور ریڈیو وغیرہ میں خیر و شر دونوں قسم کے پہلو ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ جو خیر ہو اس سے نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جو شر ہو اس سے اجتناب کرے، چاہے وہ روزے کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ لیکن روزے دار اور ماہ رمضان کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس مہینے میں اپنے آپ کو شر سے محفوظ رکھنے اور خیر کی سبقت لے جانے کا خاص اہتمام کرے۔ٹی وی دیکھنا فی نفسہ نہ مطلقاً حرام ہے اور نہ مطلقاً حلال۔ اس کا حرام یا حلال ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پروگرام دیکھ رہے ہیں؟ اگر یہ پروگرام بھلی باتوں پر مشتمل ہو مثلاً کوئی دینی پروگرام ہو یا نیوز کا پروگرام ہو یا کوئی مفید معلوماتی پروگرام ہو تو اس کا دیکھنا بالکل جائز ہے۔ لیکن اگر فحش قسم کے پروگرام ہوں تو ان کا دیکھنا ناجائز ہے چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا مہینہ۔ البتہ رمضان میں ان کا دیکھنا مزید باعث گناہ ہے۔ اسی طرح اگر ٹی وی دیکھنے میں اس قدر انہماک ہو کہ نماز وغیرہ سے غفلت ہو جاتی ہو تب بھی اس کا دیکھنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب شراب اورجوئے کو حرام قرار دیا تو اس کی حرمت کی علت یہ بتائی کہ یہ دونوں چیزیں انسانوں کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ فَہَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ.(المائدہ:۹۱)

‘‘شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

 جواب: تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایام حیض میں روزے اور نماز دونوں معاف ہیں تاہم روزوں کی قضا لازمی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایام حیض میں عورتیں جسمانی طور پر کمزوری، تکلیف اور تکان محسوس کرتی ہیں اور یہ اللہ کی رحمت ہے ان پر کہ اللہ نے ان ایام میں انھیں یہ آسانی عطا کی ہے۔

 ایام حیض کو موخر کرنے کی خاطر دواؤں کے استعمال کے سلسلے میں میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ فطرت کے ساتھ جنگ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تمام معاملات اپنے فطری انداز میں انجام پاتے رہیں۔ حیض کا جاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی فطرت پر عورت کی تخلیق کی ہے اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ان ایام میں ان پر روزے اور نماز معاف کیے۔ اس لیے ہم بندوں کو چاہیے کہ ہم بھی اللہ کی فطرت اور اس کے منشا کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔تاہم میں ان دواؤں کے استعمال کو ناجائز بھی نہیں قرار دیتا۔ اگر ایسی دواؤں کا وجود ہے کہ جن سے ایام حیض کو منسوخ کیا جا سکتا ہو تو ان کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ نیت صرف یہ ہو کہ روزے قضا نہ ہوں اور یہ کہ صحت پر کوئی خراب اثر نہ پڑے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: قضا روزے کسی بھی مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں شعبان اور شوال کی کوئی قید نہیں ہے۔ روایتوں میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بسا اوقات بعض قضا روزے شعبان کے مہینے میں رکھتی تھیں۔ اس لیے آپ نے جو روزے شعبان میں رکھے ہیں ان شاء اللہ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوں گے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: وہ انجکشن جن کی دوائیں معدے تک نہیں جاتیں یا بالفاظ دیگر جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا نہیں ہوتا، ان کے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔البتہ انجکشن کی وہ قسمیں جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا ہوتا ہے مثلاً گلوکوز کا پانی چڑھانا وغیرہ تو اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسی چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانے میں تھا اور نہ سلف صالحین کے دور میں۔ یہ تو عصر جدید کی ایجاد ہے۔ علماء کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس قسم کے انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ روزے کی حالت میں مریض کے لیے اس کے استعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔

اگرچہ میں دوسرے طبقے کی رائے کو قابل ترجیح سمجھتا ہوں، تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ روزے کی حالت میں اس قسم کے انجکشن سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان کی راتوں میں یہ انجکشن لیے جا سکتے ہیں اور اگر دن کے وقت اس انجکشن کا لگانا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی مریض کے لیے روزے معاف کیے ہیں۔ اس قسم کے انجکشن سے معدہ میں براہ راست کوئی غذا تو نہیں پہنچتی البتہ اس کے استعمال سے بدن میں ایک قسم کا نشاط اور قوت آجاتی ہے اور یہ بات روزے کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو روزے ہم پر فرض کیے ہیں تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم بھوک پیاس کی تکلیف کو محسوس کر سکیں۔ اگر اس قسم کے انجکشن کی عام اجازت دے دی جائے تو صاحب حیثیت حضرات اس کا استعمال عام کر دیں گے تاکہ وہ بھوک پیاس کی تکلیف کو کم سے کم کر سکیں اور یوں روزے کا ایک مقصد فوت ہو جائے گا۔

رہی بات کانوں میں تیل ڈالنے یا آنکھوں میں سرمہ لگانے کی تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے علماء کے متشدد طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ معتدل قسم کے فقہاء کا خیال ہے کہ ان کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ ان کے استعمال سے نہ معدے تک کوئی غذا پہنچتی ہے اور نہ بدن میں کوئی مقوی شے جو بدن کو تقویت بخشے۔ میرے نزدیک یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہوتیں تو حضورؐ لازمی طور ان کے بارے میں لوگوں کو بتاتے کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہیں کیونکہ ان چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانہ میں بھی تھا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث نہیں ہے جس میں حضوؐر نے ان چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: زوال شمس سے قبل مسواک کرنا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے روزے کی حالت میں بھی اور عام دنوں میں بھی۔ زوال کے بعد مسواک کرنے کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک زوال کے بعد مسواک کرنا صرف مکروہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اس لیے روزے دار کو چاہیے کہ اس پسندیدہ چیز کو برقرار رکھے اور مسواک کرکے اسے زائل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شہیدوں کو ان کے خون آلودہ کپڑوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کی تلقین ہے کیونکہ قیامت کے دن ان کے خون آلود کپڑوں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔

میری رائے یہ ہے کہ حدیث میں روزے دار کے منہ کو مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ قراردینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے برقرار بھی رکھا جائے۔ کیونکہ کسی صحابی سے مروی ہے کہ : ارایت النبی یتسوک مالا یحصی وھو صائم.

‘‘میں نے نبیؐ کو اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا کہ جس کا کوئی شمار نہیں حالانکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔’’

مسواک کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، حضوؐر کی سنت ہے اور حضوؐر نے بارہا اس کی ترغیب دی ہے۔ حدیث میں ہے: السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب

 ‘‘مسواک منہ کے لیے پاکی کا باعث اور خدا کی رضا کا موجب ہے۔’’

اسی طرح دانتوں کی صفائی کے لیے روزے کی حالت میں پیسٹ کا استعمال بھی جائز ہے۔ البتہ اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ اس کا کوئی حصہ پیٹ میں نہ چلا جائے۔ کیونکہ جو چیز پیٹ میں چلی جاتی ہے روزہ توڑنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ روزے کی حالت میں پیسٹ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسٹ کا استعمال غایت درجہ احتیاط کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کا کچھ حصہ پیٹ میں چلا جائے تو میرے نزدیک اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ جان بوجھ کر اس نے وہ چیز پیٹ میں نہیں پہنچائی بلکہ غلطی سے چلی گئی اور اللہ کے نزدیک یہ بھول چوک معاف ہے۔ حدیث میں ہے: رفع عن امتی الخطا والنسیان وما استکر ھوا علیہ.

‘‘میری امت بھول چوک کے معاملے میں اور زبردستی کوئی غلط کام کرائے جانے کے معاملے میں مرفوع القلم ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ قضا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت موجود ہے: فَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَر. (البقرہ:۱۸۵)

 ‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

البتہ مسافت کی وہ مقدار جس پر سفر کا اطلاق ہو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ آپ نے جس مقدار کا تذکرہ کیا ہے، میرا خیال ہے کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اتنی مسافت کے سفر کو نماز قصر کرنے اور روزہ قضا کرنے کے لیے کافی تصور کیا جائے۔ کیونکہ جمہور فقہاء نے ۸۴ کلومیٹر کی مقدار کو متعین کیا ہے اور ۸۱ اور ۸۴ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ حضوؐراور صحابہؓ سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انھوں نے سفر کی پیمائش میٹر یا کلومیٹر سے کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک مسافت کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک ہر اس سفر کو جسے عرف عام میں سفر کہا جا سکے، اس میں نماز کی قصر اور روزہ کی قضا جائز ہے۔

سفر کی حالت میں اس بات کا اختیار ہے کہ روزہ رکھا جائے یا اسے قضا کیا جائے۔ روایتوں میں ہے کہ صحابہؓ، حضوؐرکے ساتھ سفر پر ہوتے تھے۔ ان میں بعض روزے کی حالت میں ہوتے تھے اور بعض بغیر روزے کے ہوتے تھے۔ حضوؐر نے ان دونوں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی۔ یعنی دونوں ہی حضورؐ کی نظر میں یکساں تھے۔

 سفر اگر پر مشقت ہو اور اس میں روزہ رکھنا تکلیف دہ ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے بلکہ شاید حرام ہو کیونکہ روایت میں نبیؐ نے ایک شخص کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگ اس پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ وہ روزے کی وجہ سے بد حال تھا اور وہ مسافر بھی تھا۔ آپؐ نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ روزے سے ہے۔ آپ نے فرمایا:لیس من البر الصیام فی السفر. (بخاری)

‘‘سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔’’

سفر اگر پر مشقت نہ ہو اور روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا اور اس کی قضا کرنا دونوں ہی جائز ہے جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا۔ البتہ اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ ان دونوں صورتوں میں افضل صورت کون سی ہے؟ بعض نے روزہ رکھنے کو افضل قرار دیا ہے جبکہ بعض نے روزہ چھوڑنے کو افضل قرار دیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں میں جو سب سے آسان ہو وہی افضل ہے۔ روایت میں ہے کہ حمزہ بن عامر الاسلمیؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ میں اکثر سفر پر رہتا ہوں۔ بسا اوقات رمضان میں بھی سفر کرتا ہوں، میں نوجوان ہوں اور بہ آسانی سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں۔ میرا روزہ رکھنا زیادہ افضل اور باعث اجر ہے یا روزہ قضا کرنا؟ آپؐ نے فرمایا: أی ذلک سئت یا حمزۃ.(ابوداؤد)

 ‘‘ان دونوں میں سے جو تم چاہو اے حمزہ۔’’

 یعنی جو تمھیں آسان لگے وہی کرو اور وہی افضل ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضوؐرنے جواب دیا: ھی رخصۃ من اللہ لک فمن اخذبھا فحسن ومن احب ان یصوم فلا جناح علیہ. (نسائی)

‘‘یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے چھوٹ ہے جس نے اس چھوٹ سے فائدہ اٹھایا تو بہتر ہے اور جس نے روزہ رکھا تو کوئی حرج نہیں۔’’

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس آیت میں مسافر کے لیے روزے کی قضا کی اجازت دی ہے اس میں رخصت کی علت سفر بتائی ہے، نہ کہ سفر کی مشقت۔ اس آیت میں یہ نہیں بتایا کہ سفر میں مشقت ہو تو قضا کی رخصت ہے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف سفر کی بنا پر ہمیں یہ رخصت عطا کی ہے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ خواہ مخواہ کی باریکیوں میں پڑ کر اس رخصت کو برباد نہ کریں جو لوگ اکثر سفر میں رہتے ہیں وہ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ سفر بہ ذات خود تکلیف دہ ہوتا ہے، چاہے گاڑی کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا۔ انسان کا اپنے وطن سے دور ہونا بہ ذات خود پریشانیوں کا سبب ہے کیونکہ اس کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور انسان نفسیاتی طور پر بے چین رہتا ہے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ہمیں صرف سفر کی بنا پر یہ رخصت عطا کی ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: شافعی اور حنبلی مسلک کے لحاظ سے اگر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے آنے تک نہ ہو سکی تو ایسی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہؓ سے یہی منقول ہے۔ فدیہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ جمہور علماء کے نزدیک صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں۔

 میری رائے یہ ہے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا تو بہر حال لازمی ہے، اس سے کوئی مفر نہیں۔ البتہ فدیہ بھی ادا کر دیا تو زیادہ بہتر ہے ورنہ کوئی بات نہیں کیونکہ براہ راست حضوؐرسے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس میں فدیہ ادا کرنے کی بات ہو۔

شک کی صورت میں انسان اسی پر عمل کرے جس کا اسے یقین ہو یا کم از کم غالب گمان ہو۔ بہرحال مزید اطمینان کی خاطر زیادہ روزے رکھ لینا بہتر ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: رمضان کے علاوہ شعبان وہ مہینہ ہے، جس میں حضوؐر روزے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کے مطابق صرف رمضان ہی ایسا مہینہ ہے، جس میں حضوؐر پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ بعض عرب ملکوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو رجب شعبان اور رمضان تینوں مہینے لگاتار روزے رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ شعبان کے کچھ متعین ایام میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

اسلامی شریعت میں یہ بات جائز نہیں کہ بغیر شرعی دلیل کے کسی بھی دن یا مہینے کو روزے یا کسی دوسری عبادت کے لیے خاص کر لیا جائے۔ کسی دن کو کسی عبادت کے لیے خاص کرنا صرف شارع یعنی اللہ کا حق ہے۔ وہی ایسا کر سکتا ہے۔ کوئی بندہ نہیں۔ اسی لیے روزوں کے لیے ہم ان ہی ایام کو مخصوص کر سکتے ہیں، جن میں حضوؐر کا عمل موجود ہو۔ مثلاً حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضوؐر جب روزہ رکھنا شروع کرتے تو ایسا لگتا کہ اب ہمیشہ رکھیں گے۔ اور جب روزہ نہیں رکھتے تو ایسا لگتا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ حضوؐرسوموار اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ہر مہینے کے تین روشن دنوں میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔تا ہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ شعبان کی کسی خاص تاریخ کو آپؐ نے روزے کے لیے مخصوص کیا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور باعث برکت ہے اور اس سے روزہ میں قوت رہتی ہے۔اگر آپ نے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھایا پیا اور گیارہ بجے (یعنی شرعی نصف النہار) سے پہلے روزہ کی نیت کر لی تو آپ کا روزہ صحیح ہے قضا کی ضرورت نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج :  سورج غروب ہونے کے بعد روزہ افطار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت خیر پر رہے گی، جب تک سحری کھانے میں تاخیر اور( سورج غروب ہونے کے بعد)روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔(مسند احمد ص ۱۷۲ج۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔’’ (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔ (ترمذی، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کریں گے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ تاخیر کرتے ہیں۔’’

(ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

مگر یہ ضروری ہے کہ سورج کے غروب ہوجانے کا یقین ہو جائے تب روزہ کھولنا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  روزہ صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے۔ پس صبح صادق سے پہلے پہلے کھانے پینے کی اجازت ہے۔ اگر صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  بغیر کچھ کھائے پیئے روزے کی نیت کر لے۔سونے سے پہلے روزے کی نیت کی اور صبح صادق کے بعد آنکھ کھلی تو روزہ شروع ہو گیا۔ اب اس کو توڑنے کا اختیار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جب اس نے رات کو سونے سے پہلے روزے کی نیت کر لی تھی تو صبح صادق کے بعد اس کا روزہ (سونے کی حالت میں) شروع ہو گیا اور روزہ شروع ہونے کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟ کیونکہ روزہ رکھنے کا فیصلہ تو وہ کر چکا ہے اور اس کے اسی فیصلہ پر روزہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ اب روزہ شروع کرنے کے بعد اس کو توڑنے کا اختیار نہیں اگر رمضان کا روزہ توڑ دے گا تو اس پر قضا اورکفارہ دونوں لازم آئیں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  اگر صبح صادق ہوجانے کے بعد کھایا پیاتو روزہ نہ ہو گا خواہ اذان ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو اور اذانیں عموماً صبح صادق کے بعد ہوتی ہیں۔ اس لیے اذان کے وقت کھانے پینے والوں کا روزہ نہیں ہو گا۔ عموماً مسجدوں میں اوقات کے نقشے لگے ہوتے ہیں۔ ابتدائے فجر کا وقت دیکھ کر اس سے چار پانچ منٹ پہلے سحری کھانا بند کر دینا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نقشوں میں صبح صادق کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اس سے دوچار منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دینا چاہیے ایک دو منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو روزہ ہو جائے گا لیکن دس منٹ بعد کھانے کی صورت میں روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کھولنے کے لیے نیت شرط نہیں غالباً ‘‘افطار کی نیت’’ سے آپ کی مراد وہ دعا ہے جو روزہ کھولتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ افطار کے وقت کی دعا مستحب ہے، شرط نہیں، اگر دعا نہ کی اور روزہ کھول لیا تو روزہ بغیر کراہت کے صحیح ہے، البتہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے ، اس لیے دعا کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ بلکہ افطار سے چند منٹ پہلے خوب توجہ کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اصول یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں آدمی روزہ رکھتے وقت اور افطار کرتے وقت موجود ہو، پس جو شخص عرب ممالک سے روزہ رکھ کر کراچی آئے اس کو کراچی کے وقت کے مطابق افطار کرنا ہو گا اور جو شخص پاکستان سے روزہ رکھ کر مثلاً سعودی عرب گیا ہو اس کو وہاں کے غروب کے بعد روزہ افطار کرنا ہو گا، اس کے لیے کراچی کے غروب کا اعتبار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ دار کو جب آفتاب نظر آرہا ہو تو افطار کرنے کی اجازت نہیں ہے، طیارہ کا اعلان بھی مہمل اور غلط ہے۔ روزہ دار جہاں موجود ہو وہاں کا غروب معتبر ہے۔ پس اگر وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس بلندی سے غروبِ آفتاب دکھائی دے تو روزہ افطار کر لینا چاہیے جس جگہ کی بلندی پر جہاز پرواز کر رہا ہے وہاں کی زمین پر غروبِ آفتاب ہو رہا ہو تو جہاز کے مسافر روزہ افطار نہیں کریں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر آپ سے آپ قے آگئی تو روزہ نہیں گیا خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اور اگر خود اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کر ہوئی تو روزہ ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔اگر روزے دار اچانک بیمار ہو جائے اور اندیشہ ہو کہ روزہ نہ توڑا تو جان کا خطرہ ہے، یا بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے ایسی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے۔اسی طرح اگر حاملہ عورت کی جان کو یا بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو روزہ توڑ دینا درست ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ نے رمضان کا جو روزہ توڑا وہ عذر کی وجہ سے توڑا اس لیے اس کا کفارہ آپ کے ذمہ نہیں بلکہ صرف قضا لازم ہے اور جو روزے آپ بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکیں ان کی جگہ بھی قضا روزے رکھ لیں۔ آئندہ بھی اگر آپ رمضان مبارک میں بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں تو سردیوں کے موسم میں قضا رکھ لیا کریں، اور اگر چھوٹے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان روزوں کا فدیہ ادا کردیں، ایک دن کے روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ۱۔ رمضان شریف کے روزے ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہیں اور بغیر کسی صحیح عذر کے روزہ نہ رکھنا حرام ہے۔

۲۔ اگر نابالغ لڑکا، لڑکی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ماں باپ پر لازم ہے کہ ان کو بھی روزہ رکھوائیں۔

۳۔ جو بیمار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ رکھنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ نہ ہو اس پر بھی روزہ رکھنا لازم ہے۔

۴۔ اگر بیماری ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہویا روزہ رکھنے سے بیماری بڑھ جانے کا خطرہ ہو تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر جب تندرست ہوجائے تو بعد میں ان روزوں کی قضا اس کے ذمہ فرض ہے۔

۵۔ جو شخص اتنا ضعیف العمر ہو کہ روزہ کی طاقت نہیں رکھتا، یا ایسا بیمار ہو کہ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ صحت کی امید ہے، تو وہ روزے کا فدیہ دے دیا کرے یعنی ہر روزے کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت کسی مسکین کو دے دیا کرے یا صبح و شام ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔

۶۔ اگر کوئی شخص سفر میں ہو، اور روزہ رکھنے میں مشقت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ بھی قضا کر سکتا ہے۔ دوسرے وقت میں اس کو روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ اور اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔ اگرچہ روزہ نہ رکھنے اور بعد میں قضا کرنے کی بھی اس کو اجازت ہے۔

۷۔ عورت کو حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ مگر رمضان شریف کے بعد اتنے دنوں کی قضا اس پر لازم ہے۔

۸۔ بعض لوگ بغیر عذر کے روزہ نہیں رکھتے اور بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑدیتے ہیں اور پھر بعد میں قضا بھی نہیں کرتے، خاص طور پر عورتوں کے جو روزے ماہواری کے ایام میں رہ جاتے ہیں وہ ان کی قضا میں سستی کرتی ہیں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: امتحان کے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں، اور ایک شخص کی جگہ دوسرے کا روزہ رکھنا درست نہیں۔ نماز اور روزہ دونوں خالص بدنی عبادتیں ہیں۔ ان میں دوسرے کی نیابت جائز نہیں۔ جس طرح ایک شخص کے کھانا کھانے سے دوسرے کا پیٹ نہیں بھرتا، اسی طرح ایک شخص کے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے سے دوسرے کے ذمہ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنا درست نہیں، اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر آپ اس بیماری کی وجہ سے روزہ پورا نہیں کر سکتے تو آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور اگر چھوٹے دنوں میں آپ روزہ رکھ سکتے ہیں تو ان روزوں کی قضا لازم ہے اور اگر کسی موسم میں بھی روزہ رکھنے کا امکان نہیں تو روزوں کا فدیہ لازم ہے، تاہم جن روزوں کا فدیہ ادا کیا گیا اگر پوری زندگی میں کسی وقت بھی روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو یہ فدیہ غیر معتبر ہو گا، اور ان روزوں کی قضا لازم ہو گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر اندیشہ ہے کہ روزہ رکھا گیا تو مرض عود کر آئے گا تو آپ ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کر سکتے ہیں اور جو روزے آپ کے رہ جائیں اگر سردیوں کے دنوں میں ان کی قضا ممکن ہو تو سردیوں کے دنوں میں یہ روزے پورے کریں ورنہ روزوں کا فدیہ ادا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ تو واضح ہے کہ جب تک ایام شروع نہیں ہوں گے عورت پاک ہی شمار ہو گی۔ اور اس کو رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہو گا، رہا یہ کہ روکنا صحیح ہے یا نہیں؟ تو شرعاً روکنے پر کوئی پابندی نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ فعل عورت کی صحت کے لیے مضر ہو تو جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جو روزے رہ گئے ہوں ان کی قضا فرض ہے۔ اگر صحت و قوت اجازت دیتی ہو تو ان کو مسلسل رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو جلد سے جلد قضا کر لینا بہتر ہے ورنہ جس طرح سہولت ہو رکھ لیے جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اللہ تعالیٰ آپ کو جزا ئے خیر دے آپ نے ایک ایسا مسئلہ پوچھا ہے جس کی ضرورت تمام مسلم خواتین کو ہے اور جس میں عموماً ہماری بہنیں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتی ہیں۔ عورتوں کے جو روزے ‘‘خاص عذر’’ کی وجہ سے رہ جاتے ہیں ان کی قضا واجب ہے اور سستی و کوتاہی کی وجہ سے اگر قضا نہیں کئے تب بھی وہ مرتے دم تک ان کے ذمے رہیں گے۔ توبہ و استغفار سے روزوں میں تاخیر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن روزے معاف نہیں ہوں گے۔ وہ ذمے رہیں گے۔ ان کا ادا کرنا فرض ہے، البتہ اس تاخیر اور کوتاہی کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ جب سے آپ پر نماز روزہ فرض ہوا ہے اس وقت سے لے کر جتنے رمضانوں کے روزے رہ گئے ہوں ان کا حساب لگالیجیے اور پھر ان کو قضا کرنا شروع کیجیے۔ ضروری نہیں کہ لگاتار ہی قضا کیے جائیں بلکہ جب بھی موقع ملے قضا کرتی رہیں اور نیت یوں کیا کریں کہ سب سے پہلے رمضان کا جو پہلا روزہ میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتی ہوں اور اگر خدانخواستہ پوری عمر میں بھی پورے نہ ہوں تو وصیت کرنا فرض ہے کہ میرے ذمہ اتنے روزے باقی ہیں ان کا فدیہ میرے مال سے ادا کر دیا جائے اور اگر آپ کو یہ یاد نہیں کہ کب سے آپ کے ذمہ روزے فرض ہوئے تھے تو اپنی عمر کے دسویں سال سے روزوں کا حساب لگائیے اور ہر مہینے جتنے دنوں کے روزے آپ کے رہ جاتے ہیں اتنے دنوں کو لے کر گزشتہ تمام سالوں کا حساب لگا لیجیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  کفارے کے ساٹھ روزے لگاتار رکھنا ضروری ہے، اگر درمیان میں ایک دن کا بھی ناغہ ہو گیا تو گزشتہ تمام روزے کالعدم ہو جائیں گے اور نئے سرے سے شروع کرکے ساٹھ روزے پورے کرنا ضروری ہوں گے۔ لیکن عورتوں کے ایام حیض کی وجہ سے جو جبری ناغہ ہوجاتا ہے وہ معاف ہے، ایام حیض میں روزے چھوڑ دے، اور پاک ہوتے ہی بغیر وقفہ کے روزہ شروع کر دیا کرے۔ یہاں تک کہ ساٹھ روزے پورے ہو جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کسی نے بھولے سے کچھ کھا پی لیاتھا اور یہ سمجھ کرکہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے، قصداً کھا پی لیا تو قضا واجب ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی کو قے ہوئی، اور پھر یہ خیال کرکے کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے کچھ کھا پی لیا۔ تو اس صورت میں قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہ ہو گا لیکن اگر اسے یہ مسئلہ معلوم تھا کہ قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس کے باوجود کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں اس کے ذمہ قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س: اس مرتبہ رمضان المبارک میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا وہ یہ کہ میں روزہ سے تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو تلاوت کرنے بیٹھ گیا پانچ بجے تلاوت ختم کی اور افطاری کے سلسلے میں کام میں لگ گیا۔ واضح ہو کہ میں گھر میں اکیلا رہ رہا ہوں، سالن وغیرہ بنایا۔ حسب معمول شربت وغیرہ بنا کر رکھا۔ باورچی خانہ سے واپس آیا تو گھڑی پر ساڑھے پانچ بجے تھے۔ اب میرے خیال میں آیا کہ چونکہ روزہ پانچ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے، چالیس منٹ پر کچھ پکوڑے بنا لوں گا۔ خیر اپنے خیال کے مطابق چالیس منٹ پر باورچی خانہ میں گیا۔ پکوڑے بنانے لگا۔ پانچ بن کر پچا س منٹ پر تمام افطاری کا سامان رکھ کر میز پر بیٹھ گیا۔ مگر اذان سنائی نہ دی ایئر کنڈیشن بند کیا۔ کوئی آواز نہ آئی۔ پھر فون پر وقت معلوم کیا تو ۵۵:۵ ہو چکے تھے میں نے سمجھا اذان سنائی نہیں دی ممکن ہے مائیک خراب ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو، اور روزہ افطار کر لیا۔ پھر مغرب کی نماز پڑھی۔اس کے بعد اچانک خیال آیا کہ روزہ تو چھ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے۔ بس افسوس اور پشیمانی کے سوا کیا کر سکتا تھا پھر کلی کی۔ چند منٹ باقی تھے۔ دوبارہ روزہ افطار کیا مغرب کی نماز پڑھی۔ براہِ کرم آپ مجھے اس کوتاہی کے متعلق بتائیں کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو صرف قضا واجب ہے یا کفارہ؟ اور اگر کفارہ واجب ہے تو کیا میں صحت مند ہوتے ہوئے بھی ساٹھ مسکینوں کو بطور کفارہ کھانا کھلا سکتاہوں؟

ج: آپ کا روزہ تو ٹوٹ گیا مگر چونکہ غلط فہمی کی بناء پر روزہ توڑ لیا اس لیے آپ کے ذمہ صرف قضا واجب ہے کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو ، غسل یا کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر اس صورت میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں غرغرہ کرنا اور ناک میں زور سے پانی ڈالنا ممنوع ہے اس سے روزے کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ قوی ہے اگر غسل فرض ہو تو کلی کرے ناک میں پانی بھی ڈالے مگر روزے کی حالت میں غرغرہ نہ کرے نہ ناک میں اوپر تک پانی چڑھائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں حقہ پینے یا سگریٹ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر یہ عمل جان بوجھ کر کیا ہو تو قضا و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کوئی ایسی چیز نگل لی، جس کو بطور غذا یا دوا کے نہیں کھایا جاتا تو روزہ ٹوٹ گیا اور صرف قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  دانتوں میں گوشت کا ریشہ یا کوئی چیز رہ گئی تھی۔ اور وہ خود بخود اندر چلی گئی ، تو اگر چنے کے دانے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ جاتا رہا۔ اور اگر اس سے کم ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ اور اگر باہر سے کوئی چیز منہ میں ڈال کر نگل لی تو خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: زبان سے کسی چیز کا ذائقہ چکھ کر تھوک دیا تو روزہ نہیں ٹوٹا، مگر بے ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر خون منہ سے نکل رہا تھا۔ اس کو تھوک کے ساتھ نگل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا دھواں خود بخود چلا گیا۔ یا گرد و غبار چلاگیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اور اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتا رہا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آنکھ میں دوائی ڈالنے یا زخم پر مرہم لگانے یا دوائی لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ لیکن ناک اور کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اور اگر زخم پیٹ میں ہو یا سر پر ہو اور اس پر دوائی لگانے سے دماغ یا پیٹ کے اندر دوائی سرایت کر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ دوا آپ سحری بند ہونے سے پہلے استعمال کر سکتی ہیں۔ دوائی کھا کر خوب اچھی طرح منہ صاف کر لیا جائے پھر بھی کچھ حلق کے اندر رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ حلق سے بیرونی حصہ میں لگی ہو تو اسے حلق میں نہ لے جائیے۔ روزہ کی حالت میں اس دوا کا استعمال صحیح نہیں۔ اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ انجکشن کی دوا اگر براہِ راست معدہ یا دماغ میں نہ پہنچے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے سانس کی تکلیف میں آپ انجکشن لے سکتی ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: عذر کی وجہ سے رگ میں بھی انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ صرف طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ گلوکوز کے انجکشن کا بھی یہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو تو خون نکلنے سے ٹوٹ جائے گا اور روزے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خون حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں جب روزہ رکھنے کا ارادہ کر لیا تو نیت ہو گئی زبان سے نیت کے الفاظ کہنا کوئی ضروری نہیں دانت نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ خون حلق میں نہ گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سر پر یا بدن کے کسی اور حصہ پر تیل لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر روزہ کی حالت میں احتلام ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، روزے دار کو غسل کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ پانی نہ حلق سے نیچے اترے، اور نہ دماغ میں پہنچے، اس لیے اس کو کلی کرتے وقت غرغرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور ناک میں پانی بھی زور سے نہیں چڑھانا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ٹوتھ پیسٹ کا استعمال روزہ کی حالت میں مکروہ ہے تاہم اگر حلق میں نہ جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کلی کرکے پانی گرا دینا کافی ہے بار بار تھوکنا فضول حرکت ہے اسی طرح ناک کے نرم حصے میں پانی پہنچانے سے پانی دماغ تک نہیں پہنچتا اس سلسلہ میں بھی وہم کرنا فضول ہے۔ آپ کے وہم کا علاج یہ ہے کہ اپنے وہم پر عمل نہ کریں خواہ طبیعت میں کتنا ہی تقاضا ہو، اس طرح رفتہ رفتہ وہم کی بیماری جاتی رہے گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ کا روزہ تو نہیں ٹوٹے گا مگر گناہ میں فی الجملہ شرکت آپ کی بھی ہو گی، آپ کے منیجر صاحب اگر مسلمان ہیں تو ان کو اتنا لحاظ کرنا چاہیے کہ روزے دار سے پانی نہ منگوائیں۔ بہرحال اگروہ اپنے طرزِ عمل کو نہیں چھوڑتے تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کی نوکری چھوڑ دیں بشرطیکہ آپ کو کوئی ذریعہ معاش مل سکے ورنہ نوکری کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کہ پیٹ کی خاطر مجھے اس گناہ میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: بالغ ہونے کے بعد سے جتنے روزے آپ نے نہیں رکھے ان کی قضا لازم ہے۔ اگر بالغ ہونے کا سال ٹھیک سے یاد نہ ہو تو اپنی عمر کے تیرھویں سال سے آپ اپنے آپ کو بالغ سمجھتے ہوئے تیرھویں سال سے روزے قضا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر یاد نہ ہو کہ کس رمضان کے کتنے روزے قضا ہوئے ہیں تو اس طرح نیت کرے کہ سب سے پہلے رمضان کا پہلا روزہ جو میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتا ہوں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: درست ہے کیونکہ اس کے حق میں فرض کی قضا زیادہ ضروری اور اہم ہے، تاہم اگر فرض قضا کو چھوڑ کر نفل روزے کی نیت سے روزہ رکھا تو نفل روزہ ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: فدیہ دینے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو، اور نہ آئندہ پوری زندگی میں یہ توقع ہو کہ وہ روزہ رکھنے پر قادر ہو گا۔ آپ کی اہلیہ اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لیے ان پر ان روزوں کی قضا لازم ہے۔ خواہ سردیوں کے موسم میں رکھ لیں، فدیہ دینا ان کے لیے جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کا فدیہ صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو روزہ رکھنے پر نہ تو فی الحال قادر ہو اور نہ آئندہ توقع ہو۔ مثلاً کوئی اتنا بوڑھا ہے کہ روزے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ یا ایسا بیمار ہے کہ اس کے شفا یاب ہونے کی کوئی توقع نہیں۔ زید کی بیوی روزہ رکھ سکتی ہے۔ محض غفلت اور تساہل کی وجہ سے نہیں رکھتی۔ اس کا روزے کے بدلے فدیہ دینا صحیح نہیں۔ بلکہ روزوں کی قضا لازم ہے۔ اس نے جو پیسے کسی محتاج کو دیئے یہ خیرات کی مد میں شمار ہوں گے۔ جتنے روزے اس کے ذمہ ہیں سب کی قضا کرے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: روزے کی مقبولیت کے لیے سحری کھانا شرط نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے جس پر حضوؐر نے خود بھی عمل کیا اور لوگوں کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث نبوی ہے:

            تسحروا فان فی السحور برکۃ. (بخاری و مسلم)

            ‘‘سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔’’

            اسی طرح سحری تاخیر سے کھانا بھی سنت ہے اور افطار میں جلدی کرنا بھی سنت ہے کیوں کہ اس طرح بھوک اور پیاس کی شدت کچھ کم ہو جاتی ہے اور اس طرح روزے کی مشقت میں بھی قدرے تخفیف ہوتی ہے۔ بلا شبہ دین اسلام نے عبادتوں میں حتی الامکان تخفیف اور آسانی کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ لوگوں کا دل ان عبادات کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو۔ انھیں آسانیوں میں سے حضورﷺ کی یہ تاکید ہے کہ سحری تاخیر سے کھائی جائے اور افطار میں جلدی کی جائے۔ حضورﷺ کی سنت کے اتباع میں فجر سے قبل اٹھنا باعث ثواب ہے ، چاہے ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی سے یہ سنت ادا کی جائے۔سحری میں ایک روحانی فائدہ بھی ہے۔ فجر سے قبل اٹھنا ایک ایسی گھڑی میں اٹھنا ہے جب اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے۔ بندے کا ایسی گھڑی میں اپنے خالق و مالک سے مناجات کرنا اورمغفرت کی دعائیں کرنابہت قیمتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ بستر پر سوتے پڑے رہنے کے برابر ہو سکتا ہے؟ ہم خود تصور کر سکتے ہیں کہ ان دونوں حالتوں میں کس قدر زمین و آسمان کا فرق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزے کی حالت میں احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس پر انسان کا بس نہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو کسی ایسے کام کا مکلف نہیں کرتا، جس پر اس کا بس نہ ہو۔ اسی طرح روزے کی حالت میں غسل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے غیر ارادی طور پر پانی اس کے کانوں سے ہوتا ہوا حلق تک پہنچ جائے یا کلی کرتے وقت حلق میں چلا جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

             وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَأْتُم بِہٖ وَلٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ.(الاحزاب:۵)

            ‘‘اور نادانستہ جو کام تم کرو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اس پر گرفت ضرور ہے، جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ایسے بوڑھے جنھیں روزہ رکھنے میں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھیں۔ اسی طرح وہ مریض جس کا مرض مستقل نوعیت کا ہو اور اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو، اس کے لیے بھی جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے بشرطیکہ یہ ایک ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہو یا روزے کی وجہ سے مرض میں اضافے کا خوف ہو۔ ان سبھی کے لیے رخصت کی بنیاد پر قرآن کریم کی یہ آیت ہے:

            یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ.(البقرۃ:۱۸۵)

                        ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بوڑھے اور اس جیسے معذور اشخاص کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے:

            وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْراً فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ. (البقرہ:۱۸۴)

            ‘‘اور جو لوگ (مسکین کو کھلانے کی) قدرت رکھتے ہوں تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔’’

            روزہ معاف ہونے کی صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ ہر ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔

            حاملہ عورت اگر روزے کو اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے بھی روزے معاف ہیں کیونکہ ایک انسانی جان جو اس کے پیٹ میں ہے، اس کی حفاظت اس پر فرض ہے۔ تاہم ان روزوں کے بدلے میں وہ ان روزوں کی قضا کرے گی یا قضا کے ساتھ ساتھ مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی یا صرف کھانا ہی کافی ہے؟ اس امر میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ صرف روزوں کی قضا کرے گی۔

            میری رائے یہ ہے کہ وہ عورت جو بہت تھوڑے وقفے سے حاملہ ہو جاتی ہو اس پر قضا واجب نہیں ہے کیونکہ عملاً چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس کے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ رہا خوشبو کا استعمال تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ روزے کی حالت میں خوشبو کا استعمال جائز ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب:تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مریض کے لیے روزہ معاف ہے۔ جب وہ اچھا ہو جائے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

            وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

            ‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

            تاہم ہر قسم کے مرض میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں جن میں روزہ رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً کمر میں یا انگلی میں درد وغیرہ۔ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں کہ روزہ رکھنا مفید ہوتا ہے مثلاً دست اور پیچش کا مرض۔ اس قسم کے امراض میں روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس مرض میں اس کی اجازت ہے جس میں روزہ رکھنے سے مرض میں اضافے کا اندیشہ ہو یا روزہ رکھنے سے شدید تکلیف ہوتی ہو۔ ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔ اگر ڈاکٹر کے مشورے کے باوجود اور تمام تکلیفوں کو سہتے ہوئے کوئی شخص روزہ رکھتا ہے، تو یہ ایک مکروہ کام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آسانی کی صورت فراہم کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ کی اس رخصت کو قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

             وَلاَ تَقْتُلُواْ اَنفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً.(النساء:۲۹)

            ‘‘اور اپنے آپ کو مار نہ ڈالو۔ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔’’

            اب رہا یہ سوال کہ چھوٹے ہوئے روزوں کے بدلے کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مرض ہے جو وقتی ہوتا ہے اور کسی نہ کسی مرحلہ میں اس کے دور ہونے کی امید ہوتی ہے۔ اسی مرض میں اگر روزے چھوٹے ہوں تو ان کے بدلے صدقہ کرنا کافی نہیں بلکہ روزوں کی قضا واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے:

            فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

            ‘‘تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرو۔’’

            دوسرا وہ مرض ہے جس کے دور ہونے کی تازیست کوئی امید نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔ بعض فقہاء مثلاً امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ کھانا کھلانے کے بجائے کسی مسکین کی مالی امداد کر دی جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ہر مسلمان شخص تمام عبادتوں کا مکلف ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھوٹ جائے تو اللہ کے نزدیک جواب دہ ہے۔ ایک عبادت ادا نہ کرنے سے دوسری عبادتیں قبول ہوں گی یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے:

            ۱۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ایک عبادت بھی ترک کر دی تو وہ کافر ہو گیا اور اس کی کوئی دوسری عبادت مقبول نہ ہو گی۔

            ۲۔ بعض کے نزدیک صرف نماز اور زکوٰۃ ترک کرنے والا کافر ہے۔

            ۳۔ بعض کے نزدیک صرف نماز ترک کرنے والا کافر ہے کیونکہ حضوؐر کا ارشاد ہے:

            بین العبدوبین الکفر ترک الصلاۃ.(مسلم)

            ‘‘بندے اور کفر کے درمیان نماز کاترک کرنا ہے۔’’

            ان فقہاء کے نزدیک نماز ترک کرنے والے کا روزہ بھی مقبول نہ ہو گا کیونکہ وہ کافر ہے اور کافر کی عبادت مقبول نہیں ہو گی۔

            ۴۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان و یقین کامل رکھتا ہے کسی ایک عبادت کے ترک کردینے سے وہ کافر شمار نہیں ہو گا بشرطیکہ اس عبادت کا نہ وہ مذاق اڑاتا ہو اور نہ منکر ہو۔ اس لیے ایک عبادت ترک کرنے کی وجہ سے اس کی دوسری عبادتیں ہرگز برباد نہیں جائیں گی۔

            میرے نزدیک یہی رائے زیادہ قابل ترجیح ہے۔ چنانچہ جو شخص صرف سستی اور کاہلی کی بنا پر کوئی ایک عبادت ادا نہیں کرتا ہے اور دوسری تمام عبادتیں ادا کرتا ہے، تو دوسری عبادتیں ان شاء اللہ مقبول ہوں گی۔ البتہ وہ ناقص اور ضعیف الایمان کہلائے گا اور جس عبادت میں اس نے کوتاہی کی ہے اس میں وہ گنہ گارہو گا اور اللہ کے نزدیک سزا کا مستحق ہو گا۔ بہرحال کسی ایک نیکی کے ضائع ہونے سے اس کی دوسری نیکیاں برباد نہیں ہوتیں۔ اس نے جو نیکی کی ہو گی اس کا اچھا بدلہ پائے گا اور جو برائی کی ہو گی اس کا برا بدلہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

             فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ. وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ. (الزلزال:۷۔۸)

            ‘‘پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزہ وہی نفع بخش اور باعث اجر و ثواب ہے، جو برائیوں سے روکے، نیکیوں پر آمادہ کرے اور نفس میں تقویٰ پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

             یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون. (البقرہ:۱۸۳)

            ‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے اس توقع سے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔’’

            روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے روزے کو تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک رکھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے نصیب میں صرف بھوک اور پیاس ہی آئے اور روزے کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے۔ حضوؐر نے فرمایا:

            رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع. (نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

            ‘‘بعض ایسے روزے دار ہوتے ہیں کہ ان کے روزے میں سے انھیں صرف بھوک ہی نصیب ہوتی ہے۔’’

            ایک دوسری حدیث میں ہے:

            من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ.(بخاری، احمد، اصحاب السنن)

            ‘‘جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا اور پینا ترک کر دے۔’’

            اسی لیے ابن حزم کا قول ہے کہ جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین اپنے روزوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جس طرح کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اسی طرح گناہوں کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے:

            لیس الصیام من الشراب والطعام وحدہ ولکنہ من الکذب والباطل واللغو.

            ‘‘روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ، باطل کاموں اور لغویات سے رکنے کا نام بھی ہے۔’’

            میرے نزدیک ارجح رائے یہ ہے کہ ان لغو کاموں سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ روزے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور روزہ دار روزے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ روزہ رکھنا اپنی جگہ ہے اور گناہ کے کام کرنا اپنی جگہ۔ ایک نیکی ہے اور دوسری برائی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنی چھوٹی بڑی نیکی اور برائی دونوں کا حساب و کتاب دے گا۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ذیل کی حدیث پر غور کیجیے:

            حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو میری بات نہیں مانتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں اور میں انھیں گالم گلوچ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ قیامت کے دن ان کے ساتھ میرا حساب و کتاب کیسا ہو گا؟ آپؐ نے جواب دیا ان غلاموں نے تمھاری جتنی نافرمانی اور خیانت کی ہو گی اور تم نے انھیں جتنی سزا دی ہو گی ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ اگر ان کی نافرمانی کے مقابلے میں تمھاری سزا کم ہو گی تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگر ان کی نافرمانی اور تمھاری سزا برابر ہو گی تو حساب کتاب برابر رہے گا۔ لیکن اگر تمھاری سزا ان کی نافرمانی کے مقابلے میں زیادہ ہو گی تو اسی حساب سے تمھاری بھلائی ان غلاموں کو دے دی جائے گی۔ یہ سن کر وہ صحابیؓ رونے لگے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ قرآن کی اس آیت کو پڑھو:

            ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئا و ان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین. (الانبیاء:۴۷)

            ‘‘قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔’’

            یہ سن کر صحابیؓ نے تمام غلام آزاد کر دیے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے تو اذان سنتے ہی اسے سحری کھانا چھوڑ دینا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر اس کے منہ میں نوالہ ہے تو اسے چاہیے کہ اسے اگل دے تاکہ یقینی طور پر اس کا روزہ صحیح ہو۔ تاہم اگر اسے یقین ہو یا کم از کم شک ہو کہ اذان وقت سے قبل ہو رہی ہے تو اذان سن کر کھانے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ اس بات کے یقین کے لیے کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے مختلف چیزوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلاً کیلنڈر یا گھڑی یا اس قسم کی دوسری چیزیں جو آج کل بآسانی دستیاب ہیں۔

            عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے سوال کیا کہ سحری کھانے کے دوران میں اگر شک ہو کہ فجر کا وقت ہو گیا تو کیا میں سحری کھانا چھوڑ دوں؟ آپ ؓ نے جواب دیا کہ جب تک شک ہوکھاتے رہو۔ جب فجر کا یقین ہو جائے تو کھانا چھوڑ دو۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی یہی ہے۔

            امام نووی کہتے ہیں کہ شوافع نے شک کی حالت میں کھاتے رہنے کا جواز درج ذیل قرآنی آیت سے اخذ کیا ہے:

            وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ.(البقرہ:۱۸۷)

            ‘‘اور راتوں کو کھاؤ پیو حتیٰ کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔’’

            اس آیت میں یقین کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یقینی طور پر کچھ واضح ہو جائے۔ یعنی جب شک کی کیفیت نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ فجر کا وقت آگیا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ٹی وی ذرائع ابلاغ عامہ کا ایک حصہ ہے۔ اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور شر کا بھی۔ جس طرح دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً اخبارات و جرائد اور ریڈیو وغیرہ میں خیر و شر دونوں قسم کے پہلو ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ جو خیر ہو اس سے نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جو شر ہو اس سے اجتناب کرے، چاہے وہ روزے کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ لیکن روزے دار اور ماہ رمضان کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس مہینے میں اپنے آپ کو شر سے محفوظ رکھنے اور خیر کی سبقت لے جانے کا خاص اہتمام کرے۔ٹی وی دیکھنا فی نفسہ نہ مطلقاً حرام ہے اور نہ مطلقاً حلال۔ اس کا حرام یا حلال ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پروگرام دیکھ رہے ہیں؟ اگر یہ پروگرام بھلی باتوں پر مشتمل ہو مثلاً کوئی دینی پروگرام ہو یا نیوز کا پروگرام ہو یا کوئی مفید معلوماتی پروگرام ہو تو اس کا دیکھنا بالکل جائز ہے۔ لیکن اگر فحش قسم کے پروگرام ہوں تو ان کا دیکھنا ناجائز ہے چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا مہینہ۔ البتہ رمضان میں ان کا دیکھنا مزید باعث گناہ ہے۔ اسی طرح اگر ٹی وی دیکھنے میں اس قدر انہماک ہو کہ نماز وغیرہ سے غفلت ہو جاتی ہو تب بھی اس کا دیکھنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب شراب اورجوئے کو حرام قرار دیا تو اس کی حرمت کی علت یہ بتائی کہ یہ دونوں چیزیں انسانوں کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:

            إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ فَہَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ.(المائدہ:۹۱)

            ‘‘شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایام حیض میں روزے اور نماز دونوں معاف ہیں تاہم روزوں کی قضا لازمی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایام حیض میں عورتیں جسمانی طور پر کمزوری، تکلیف اور تکان محسوس کرتی ہیں اور یہ اللہ کی رحمت ہے ان پر کہ اللہ نے ان ایام میں انھیں یہ آسانی عطا کی ہے۔

            ایام حیض کو موخر کرنے کی خاطر دواؤں کے استعمال کے سلسلے میں میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ فطرت کے ساتھ جنگ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تمام معاملات اپنے فطری انداز میں انجام پاتے رہیں۔ حیض کا جاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی فطرت پر عورت کی تخلیق کی ہے اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ان ایام میں ان پر روزے اور نماز معاف کیے۔ اس لیے ہم بندوں کو چاہیے کہ ہم بھی اللہ کی فطرت اور اس کے منشا کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔تاہم میں ان دواؤں کے استعمال کو ناجائز بھی نہیں قرار دیتا۔ اگر ایسی دواؤں کا وجود ہے کہ جن سے ایام حیض کو منسوخ کیا جا سکتا ہو تو ان کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ نیت صرف یہ ہو کہ روزے قضا نہ ہوں اور یہ کہ صحت پر کوئی خراب اثر نہ پڑے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: قضا روزے کسی بھی مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں شعبان اور شوال کی کوئی قید نہیں ہے۔ روایتوں میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بسا اوقات بعض قضا روزے شعبان کے مہینے میں رکھتی تھیں۔ اس لیے آپ نے جو روزے شعبان میں رکھے ہیں ان شاء اللہ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوں گے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: وہ انجکشن جن کی دوائیں معدے تک نہیں جاتیں یا بالفاظ دیگر جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا نہیں ہوتا، ان کے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔البتہ انجکشن کی وہ قسمیں جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا ہوتا ہے مثلاً گلوکوز کا پانی چڑھانا وغیرہ تو اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسی چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانے میں تھا اور نہ سلف صالحین کے دور میں۔ یہ تو عصر جدید کی ایجاد ہے۔ علماء کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس قسم کے انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ روزے کی حالت میں مریض کے لیے اس کے استعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔

            اگرچہ میں دوسرے طبقے کی رائے کو قابل ترجیح سمجھتا ہوں، تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ روزے کی حالت میں اس قسم کے انجکشن سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان کی راتوں میں یہ انجکشن لیے جا سکتے ہیں اور اگر دن کے وقت اس انجکشن کا لگانا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی مریض کے لیے روزے معاف کیے ہیں۔ اس قسم کے انجکشن سے معدہ میں براہ راست کوئی غذا تو نہیں پہنچتی البتہ اس کے استعمال سے بدن میں ایک قسم کا نشاط اور قوت آجاتی ہے اور یہ بات روزے کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو روزے ہم پر فرض کیے ہیں تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم بھوک پیاس کی تکلیف کو محسوس کر سکیں۔ اگر اس قسم کے انجکشن کی عام اجازت دے دی جائے تو صاحب حیثیت حضرات اس کا استعمال عام کر دیں گے تاکہ وہ بھوک پیاس کی تکلیف کو کم سے کم کر سکیں اور یوں روزے کا ایک مقصد فوت ہو جائے گا۔

            رہی بات کانوں میں تیل ڈالنے یا آنکھوں میں سرمہ لگانے کی تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے علماء کے متشدد طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ معتدل قسم کے فقہاء کا خیال ہے کہ ان کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ ان کے استعمال سے نہ معدے تک کوئی غذا پہنچتی ہے اور نہ بدن میں کوئی مقوی شے جو بدن کو تقویت بخشے۔ میرے نزدیک یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہوتیں تو حضورؐ لازمی طور ان کے بارے میں لوگوں کو بتاتے کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہیں کیونکہ ان چیزوں کا وجود حضورؐ کے زمانہ میں بھی تھا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث نہیں ہے جس میں حضوؐر نے ان چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: زوال شمس سے قبل مسواک کرنا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے روزے کی حالت میں بھی اور عام دنوں میں بھی۔ زوال کے بعد مسواک کرنے کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک زوال کے بعد مسواک کرنا صرف مکروہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اس لیے روزے دار کو چاہیے کہ اس پسندیدہ چیز کو برقرار رکھے اور مسواک کرکے اسے زائل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شہیدوں کو ان کے خون آلودہ کپڑوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کی تلقین ہے کیونکہ قیامت کے دن ان کے خون آلود کپڑوں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔

            میری رائے یہ ہے کہ حدیث میں روزے دار کے منہ کو مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ قراردینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے برقرار بھی رکھا جائے۔ کیونکہ کسی صحابی سے مروی ہے کہ :

            ارایت النبی یتسوک مالا یحصی وھو صائم.

            ‘‘میں نے نبیؐ کو اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا کہ جس کا کوئی شمار نہیں حالانکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔’’

            مسواک کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، حضوؐر کی سنت ہے اور حضوؐر نے بارہا اس کی ترغیب دی ہے۔ حدیث میں ہے:

            السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب

            ‘‘مسواک منہ کے لیے پاکی کا باعث اور خدا کی رضا کا موجب ہے۔’’

            اسی طرح دانتوں کی صفائی کے لیے روزے کی حالت میں پیسٹ کا استعمال بھی جائز ہے۔ البتہ اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ اس کا کوئی حصہ پیٹ میں نہ چلا جائے۔ کیونکہ جو چیز پیٹ میں چلی جاتی ہے روزہ توڑنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ روزے کی حالت میں پیسٹ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسٹ کا استعمال غایت درجہ احتیاط کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کا کچھ حصہ پیٹ میں چلا جائے تو میرے نزدیک اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ جان بوجھ کر اس نے وہ چیز پیٹ میں نہیں پہنچائی بلکہ غلطی سے چلی گئی اور اللہ کے نزدیک یہ بھول چوک معاف ہے۔ حدیث میں ہے:

            رفع عن امتی الخطا والنسیان وما استکر ھوا علیہ.

            ‘‘میری امت بھول چوک کے معاملے میں اور زبردستی کوئی غلط کام کرائے جانے کے معاملے میں مرفوع القلم ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ قضا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت موجود ہے:

            فَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَر. (البقرہ:۱۸۵)

            ‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

            البتہ مسافت کی وہ مقدار جس پر سفر کا اطلاق ہو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ آپ نے جس مقدار کا تذکرہ کیا ہے، میرا خیال ہے کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اتنی مسافت کے سفر کو نماز قصر کرنے اور روزہ قضا کرنے کے لیے کافی تصور کیا جائے۔ کیونکہ جمہور فقہاء نے ۸۴ کلومیٹر کی مقدار کو متعین کیا ہے اور ۸۱ اور ۸۴ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ حضوؐراور صحابہؓ سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انھوں نے سفر کی پیمائش میٹر یا کلومیٹر سے کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک مسافت کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک ہر اس سفر کو جسے عرف عام میں سفر کہا جا سکے، اس میں نماز کی قصر اور روزہ کی قضا جائز ہے۔

            سفر کی حالت میں اس بات کا اختیار ہے کہ روزہ رکھا جائے یا اسے قضا کیا جائے۔ روایتوں میں ہے کہ صحابہؓ، حضوؐرکے ساتھ سفر پر ہوتے تھے۔ ان میں بعض روزے کی حالت میں ہوتے تھے اور بعض بغیر روزے کے ہوتے تھے۔ حضوؐر نے ان دونوں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی۔ یعنی دونوں ہی حضورؐ کی نظر میں یکساں تھے۔

            سفر اگر پر مشقت ہو اور اس میں روزہ رکھنا تکلیف دہ ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے بلکہ شاید حرام ہو کیونکہ روایت میں نبیؐ نے ایک شخص کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگ اس پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ وہ روزے کی وجہ سے بد حال تھا اور وہ مسافر بھی تھا۔ آپؐ نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ روزے سے ہے۔ آپ نے فرمایا:

            لیس من البر الصیام فی السفر. (بخاری)

            ‘‘سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔’’

            سفر اگر پر مشقت نہ ہو اور روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا اور اس کی قضا کرنا دونوں ہی جائز ہے جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا۔ البتہ اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ ان دونوں صورتوں میں افضل صورت کون سی ہے؟ بعض نے روزہ رکھنے کو افضل قرار دیا ہے جبکہ بعض نے روزہ چھوڑنے کو افضل قرار دیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں میں جو سب سے آسان ہو وہی افضل ہے۔ روایت میں ہے کہ حمزہ بن عامر الاسلمیؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ میں اکثر سفر پر رہتا ہوں۔ بسا اوقات رمضان میں بھی سفر کرتا ہوں، میں نوجوان ہوں اور بہ آسانی سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں۔ میرا روزہ رکھنا زیادہ افضل اور باعث اجر ہے یا روزہ قضا کرنا؟ آپؐ نے فرمایا:

            أی ذلک سئت یا حمزۃ.(ابوداؤد)

            ‘‘ان دونوں میں سے جو تم چاہو اے حمزہ۔’’

            یعنی جو تمھیں آسان لگے وہی کرو اور وہی افضل ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضوؐرنے جواب دیا:

            ھی رخصۃ من اللہ لک فمن اخذبھا فحسن ومن احب ان یصوم فلا جناح علیہ. (نسائی)

            ‘‘یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے چھوٹ ہے جس نے اس چھوٹ سے فائدہ اٹھایا تو بہتر ہے اور جس نے روزہ رکھا تو کوئی حرج نہیں۔’’

            یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس آیت میں مسافر کے لیے روزے کی قضا کی اجازت دی ہے اس میں رخصت کی علت سفر بتائی ہے، نہ کہ سفر کی مشقت۔ اس آیت میں یہ نہیں بتایا کہ سفر میں مشقت ہو تو قضا کی رخصت ہے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف سفر کی بنا پر ہمیں یہ رخصت عطا کی ہے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ خواہ مخواہ کی باریکیوں میں پڑ کر اس رخصت کو برباد نہ کریں جو لوگ اکثر سفر میں رہتے ہیں وہ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ سفر بہ ذات خود تکلیف دہ ہوتا ہے، چاہے گاڑی کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا۔ انسان کا اپنے وطن سے دور ہونا بہ ذات خود پریشانیوں کا سبب ہے کیونکہ اس کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور انسان نفسیاتی طور پر بے چین رہتا ہے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ہمیں صرف سفر کی بنا پر یہ رخصت عطا کی ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: شافعی اور حنبلی مسلک کے لحاظ سے اگر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے آنے تک نہ ہو سکی تو ایسی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہؓ سے یہی منقول ہے۔ فدیہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ جمہور علماء کے نزدیک صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں۔

            میری رائے یہ ہے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا تو بہر حال لازمی ہے، اس سے کوئی مفر نہیں۔ البتہ فدیہ بھی ادا کر دیا تو زیادہ بہتر ہے ورنہ کوئی بات نہیں کیونکہ براہ راست حضوؐرسے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس میں فدیہ ادا کرنے کی بات ہو۔

            شک کی صورت میں انسان اسی پر عمل کرے جس کا اسے یقین ہو یا کم از کم غالب

 گمان ہو۔ بہرحال مزید اطمینان کی خاطر زیادہ روزے رکھ لینا بہتر ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: رمضان کے علاوہ شعبان وہ مہینہ ہے، جس میں حضورؐ روزے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کے مطابق صرف رمضان ہی ایسا مہینہ ہے، جس میں حضوؐر پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ بعض عرب ملکوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو رجب شعبان اور رمضان تینوں مہینے لگاتار روزے رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ شعبان کے کچھ متعین ایام میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

            اسلامی شریعت میں یہ بات جائز نہیں کہ بغیر شرعی دلیل کے کسی بھی دن یا مہینے کو روزے یا کسی دوسری عبادت کے لیے خاص کر لیا جائے۔ کسی دن کو کسی عبادت کے لیے خاص کرنا صرف شارع یعنی اللہ کا حق ہے۔ وہی ایسا کر سکتا ہے۔ کوئی بندہ نہیں۔ اسی لیے روزوں کے لیے ہم ان ہی ایام کو مخصوص کر سکتے ہیں، جن میں حضوؐر کا عمل موجود ہو۔ مثلاً حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ جب روزہ رکھنا شروع کرتے تو ایسا لگتا کہ اب ہمیشہ رکھیں گے۔ اور جب روزہ نہیں رکھتے تو ایسا لگتا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ حضوؐرسوموار اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ہر مہینے کے تین روشن دنوں میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔تا ہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ شعبان کی کسی خاص تاریخ کو آپؐ نے روزے کے لیے مخصوص کیا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: یوم عرفہ سال کے افضل ترین دنوں میں سے ہے۔ اس کی فضیلت کے سلسلے میں متعدد صحیح احادیث حضوؐر سے مروی ہیں۔ حضوؐر نے اس دن روزہ رکھنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ حدیث ہے:

            صیام یوم عرفۃ احتسب علی اللہ تعالیٰ ان یکفر ذنوب سنتین.

            ‘‘میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔’’ہم میں سے کون ایسا ہے جو گناہوں سے پاک ہے اور اس سے خطائیں نہیں ہوتیں۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ عرفہ سے پہلے آٹھ روزے اگر نہیں رکھ سکتا تو کم از کم عرفہ کے دن ضرور روزہ رکھے اور اس کا اہتمام کرے۔ البتہ حاجیوں کے لیے یہ روزہ رکھنا مسنون نہیں ہے تاکہ خالی پیٹ ذکر و عبادت میں خلل نہ ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: یوم عاشورہ کے روزے کی فضیلت کے سلسلے میں متعدد صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث ہے:

            صوم یوم عرفۃ یکفر سنتعین ماضیۃ مستقبلۃ و صوم یوم عاشوراء یکفر سنۃ ماضیۃ.

            ‘‘یوم عرفہ کا روزہ دو سال ، ایک پچھلا اور ایک اگلا سال، کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ عاشورہ کا روزہ گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔’’

            اس حدیث سے ظاہر ہے کہ عاشورہ کا روزہ پچھلے پورے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو اس بات کا دعویٰ کر سکے کہ اس سے گناہ سرزد نہیں ہوتے۔ ہم بندوں پر یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ مختلف بہانوں سے ہمارے گناہوں کی معافی کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ تمام نیکیاں نہ صرف باعث ثواب ہوتی ہیں بلکہ گناہوں کو دھونے والی بھی ہوتی ہیں۔ قرآن میں ہے: اِنَّ الْحسنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاتِ. (ھود:۱۱۴)

            ‘‘بے شبہ نیکیاں برائیوں کو دھو ڈالتی ہیں۔’’

            اور حضورﷺ کا فرمان ہے: واتبع السئیۃ الحسنۃ تمحھا.

            ‘‘کسی برائی کے بعد کوئی نیک کام کر لیا کرو وہ اس برائی کو مٹا دے گا۔’’

            ہم بندوں کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی سعی کریں تاکہ یہ نیکیاں ہماری برائیوں کے لیے کفارہ بن سکیں۔

            بعض علماء کے نزدیک گناہ کبیرہ و صغیرہ دونوں معاف ہو جاتے ہیں کیونکہ مذکورہ بالا حدیث میں اس بات کی قید نہیں ہے کہ صرف گناہ صغیرہ ہی معاف ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض علماء کے نزدیک صرف گناہ صغیرہ ہی معاف ہوتے ہیں۔ گناہ کبیرہ براہ راست توبہ و استغفار اور حق کی ادائیگی کے بعد ہی معاف ہوتے ہیں۔ دلیل کے طور پر انھوں نے یہ حدیث پیش کی ہے:

            الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ و رمضان الی رمضان مکفرات ما بینھن اذا اجتنبت الکبائر.(مسلم)

            ‘‘پنج وقتہ نمازیں، ایک جمعے سے دوسرا جمعہ اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان۔ یہ سب گناہوں کو بخشنے والے ہیں بشرطیکہ گناہ کبیرہ سرزد نہ ہوا ہو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: جس پہلی روایت کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ بخاری اور مسلم کی صحیح حدیث ہے۔ حدیث یوں ہے کہ جب آپؐ مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے دیکھا تو آپؐ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ یہ ایک مبارک دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی تھی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہم موسیٰؑ کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپؐ نے خود روزہ رکھا اور صحابہؓ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔وہ حدیث بھی صحیح ہے جس میں آپؐ نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت اور ان کی اقتدا نہ کرنے اور ان سے مشابہت اختیار نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ تاہم ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضوؐر نے عاشورہ کا روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھا بلکہ روایتوں میں ہے کہ وہ ہجرت سے قبل بھی روزہ رکھتے تھے۔ اہل عرب بھی دور جاہلیت میں اس دن روزے کا اہتمام کرتے تھے۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ دور جاہلیت میں قریش نے ایک بڑا گناہ کیا۔ اس بات سے ان کے دل بوجھل ہو گئے۔ ان سے کہا گیا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو تمھارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔

            آپ مذکورہ بالا حدیث پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو گی کہ آپؐ نے اس دن روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھا بلکہ آپؐ نے خود اس کی وجہ بیان فرما دی کہ ہم موسیٰؑ کے زیادہ حقدار ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے تو موسیٰؑ علیہ السلام کی تعلیمات کو فراموش کر دیا لیکن میں انھیں تعلیمات کو لے کر آیا ہوں جنھیں موسیٰؑ لے کر آئے تھے۔ اس لیے ہمارا رشتہ ان سے قریب و مضبوط تر ہے اور ہمارا حق بنتا ہے کہ موسیٰؑ کی اقتدا میں ہم بھی یہ روزہ رکھیں۔ چنانچہ موسیٰؑ کی اقتدا میں (نہ کہ یہودیوں کی اقتدا میں) حضوؐر نے یہ روزہ رکھا اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔

            مدینہ آنے کے بعد آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو اس دن روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی اس میں یہ مصلحت پوشیدہ ہے کہ یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا۔ اس دور میں یہودیوں کے تالیف قلب کے لیے اور انھیں اسلام اور مسلمانوں سے قریب کرنے کے لیے آپؐ نے پسند فرمایا کہ مسلمان بھی اسی دن روزہ رکھیں۔یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہودیوں سے مشابہت ایک ایسے کام میں کی گئی جو ایک پسندیدہ اورباعث ثواب کام ہے یعنی روزہ رکھنا۔ لیکن جب اسلام کو غلبہ نصیب ہوا اور یہودیوں کی دشمنی کھل کر سامنے آئی اور صحابہؓ نے بھی حضوؐر سے ایسا ہی سوال کیا کہ ‘‘اہل کتاب سے مخالفت کے حکم کے باوجود ہم ان کی اقتدا میں یہ روزہ کیوں رکھیں؟ تب حضوؐر نے فرمایا کہ اگلے سال سے ان شاء اللہ نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھا کریں گے۔ لیکن اگلا سال آنے سے قبل حضوؐر کی وفات ہو گئی۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہودیوں کی دشمنی کھل کر سامنے آنے کے بعد حضورؐ نے بہرحال ان سے مخالفت کا ایک پہلو بیان کر دیا یعنی عاشورہ سے قبل ایک روزہ یا عاشورہ کے بعد ایک روزے کی تلقین کی تاکہ یہودیوں سے مشابہت کی صورت جاتی رہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: آپ کو قضا روزے رکھنے ہیں۔ فدیہ کی اجازت فقہا صرف اس شخص کو دیتے ہیں جس کے لیے اب بظاہر احوال زندگی بھرروزہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور باعث برکت ہے اور اس سے روزہ میں قوت رہتی ہے۔ اگر آپ نے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھایا پیا اور گیارہ بجے (یعنی شرعی نصف النہار) سے پہلے روزہ کی نیت کر لی تو آپ کا روزہ صحیح ہے قضا کی ضرورت نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سورج غروب ہونے کے بعد روزہ افطار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت خیر پر رہے گی، جب تک سحری کھانے میں تاخیر اور( سورج غروب ہونے کے بعد)روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔(مسند احمد ص ۱۷۲ج۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔’’ (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔ (ترمذی، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کریں گے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ تاخیر کرتے ہیں۔’’ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            مگر یہ ضروری ہے کہ سورج کے غروب ہوجانے کا یقین ہو جائے تب روزہ کھولنا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے۔ پس صبح صادق سے پہلے پہلے کھانے پینے کی اجازت ہے۔ اگر صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جب اس نے رات کو سونے سے پہلے روزے کی نیت کر لی تھی تو صبح صادق کے بعد اس کا روزہ (سونے کی حالت میں) شروع ہو گیا اور روزہ شروع ہونے کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟ کیونکہ روزہ رکھنے کا فیصلہ تو وہ کر چکا ہے اور اس کے اسی فیصلہ پر روزہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ اب روزہ شروع کرنے کے بعد اس کو توڑنے کا اختیار نہیں اگر رمضان کا روزہ توڑ دے گا تو اس پر قضا اورکفارہ دونوں لازم آئیں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:  اگر صبح صادق ہوجانے کے بعد کھایا پیاتو روزہ نہ ہو گا خواہ اذان ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو اور اذانیں عموماً صبح صادق کے بعد ہوتی ہیں۔ اس لیے اذان کے وقت کھانے پینے والوں کا روزہ نہیں ہو گا۔ عموماً مسجدوں میں اوقات کے نقشے لگے ہوتے ہیں۔ ابتدائے فجر کا وقت دیکھ کر اس سے چار پانچ منٹ پہلے سحری کھانا بند کر دینا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نقشوں میں صبح صادق کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اس سے دوچار منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دینا چاہیے ایک دو منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو روزہ ہو جائے گا لیکن دس منٹ بعد کھانے کی صورت میں روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کھولنے کے لیے نیت شرط نہیں غالباً ‘‘افطار کی نیت’’ سے آپ کی مراد وہ دعا ہے جو روزہ کھولتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ افطار کے وقت کی دعا مستحب ہے، شرط نہیں، اگر دعا نہ کی اور روزہ کھول لیا تو روزہ بغیر کراہت کے صحیح ہے، البتہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے ، اس لیے دعا کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ بلکہ افطار سے چند منٹ پہلے خوب توجہ کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اصول یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں آدمی روزہ رکھتے وقت اور افطار کرتے وقت موجود ہو، پس جو شخص عرب ممالک سے روزہ رکھ کر کراچی آئے اس کو کراچی کے وقت کے مطابق افطار کرنا ہو گا اور جو شخص پاکستان سے روزہ رکھ کر مثلاً سعودی عرب گیا ہو اس کو وہاں کے غروب کے بعد روزہ افطار کرنا ہو گا، اس کے لیے کراچی کے غروب کا اعتبار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ دار کو جب آفتاب نظر آرہا ہو تو افطار کرنے کی اجازت نہیں ہے، طیارہ کا اعلان بھی مہمل اور غلط ہے۔ روزہ دار جہاں موجود ہو وہاں کا غروب معتبر ہے۔ پس اگر وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس بلندی سے غروبِ آفتاب دکھائی دے تو روزہ افطار کر لینا چاہیے جس جگہ کی بلندی پر جہاز پرواز کر رہا ہے وہاں کی زمین پر غروبِ آفتاب ہو رہا ہو تو جہاز کے مسافر روزہ افطار نہیں کریں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر آپ سے آپ قے آگئی تو روزہ نہیں گیا خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اور اگر خود اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کر ہوئی تو روزہ ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔

            اگر روزے دار اچانک بیمار ہو جائے اور اندیشہ ہو کہ روزہ نہ توڑا تو جان کا خطرہ ہے، یا بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے ایسی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے۔

            اسی طرح اگر حاملہ عورت کی جان کو یا بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو روزہ توڑ دینا درست ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ نے رمضان کا جو روزہ توڑا وہ عذر کی وجہ سے توڑا اس لیے اس کا کفارہ آپ کے ذمہ نہیں بلکہ صرف قضا لازم ہے اور جو روزے آپ بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکیں ان کی جگہ بھی قضا روزے رکھ لیں۔ آئندہ بھی اگر آپ رمضان مبارک میں بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں تو سردیوں کے موسم میں قضا رکھ لیا کریں، اور اگر چھوٹے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان روزوں کا فدیہ ادا کردیں، ایک دن کے روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:        ۱۔ رمضان شریف کے روزے ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہیں اور بغیر کسی صحیح عذر کے روزہ نہ رکھنا حرام ہے۔

            ۲۔اگر نابالغ لڑکا، لڑکی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ماں باپ پر لازم ہے کہ ان کو بھی روزہ رکھوائیں۔

            ۳۔جو بیمار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ رکھنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ نہ ہو اس پر بھی روزہ رکھنا لازم ہے۔

            ۴۔ اگر بیماری ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہویا روزہ رکھنے سے بیماری بڑھ جانے کا خطرہ ہو تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر جب تندرست ہوجائے تو بعد میں ان روزوں کی قضا اس کے ذمہ فرض ہے۔

            ۵۔ جو شخص اتنا ضعیف العمر ہو کہ روزہ کی طاقت نہیں رکھتا، یا ایسا بیمار ہو کہ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ صحت کی امید ہے، تو وہ روزے کا فدیہ دے دیا کرے یعنی ہر روزے کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت کسی مسکین کو دے دیا کرے یا صبح و شام ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔

            ۶۔ اگر کوئی شخص سفر میں ہو، اور روزہ رکھنے میں مشقت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ بھی قضا کر سکتا ہے۔ دوسرے وقت میں اس کو روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ اور اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔ اگرچہ روزہ نہ رکھنے اور بعد میں قضا کرنے کی بھی اس کو اجازت ہے۔

            ۷۔ عورت کو حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ مگر رمضان شریف کے بعد اتنے دنوں کی قضا اس پر لازم ہے۔

            ۸۔ بعض لوگ بغیر عذر کے روزہ نہیں رکھتے اور بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑدیتے ہیں اور پھر بعد میں قضا بھی نہیں کرتے، خاص طور پر عورتوں کے جو روزے ماہواری کے ایام میں رہ جاتے ہیں وہ ان کی قضا میں سستی کرتی ہیں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: امتحان کے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں، اور ایک شخص کی جگہ دوسرے کا روزہ رکھنا درست نہیں۔ نماز اور روزہ دونوں خالص بدنی عبادتیں ہیں۔ ان میں دوسرے کی نیابت جائز نہیں۔ جس طرح ایک شخص کے کھانا کھانے سے دوسرے کا پیٹ نہیں بھرتا، اسی طرح ایک شخص کے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے سے دوسرے کے ذمہ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنا درست نہیں، اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر آپ اس بیماری کی وجہ سے روزہ پورا نہیں کر سکتے تو آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور اگر چھوٹے دنوں میں آپ روزہ رکھ سکتے ہیں تو ان روزوں کی قضا لازم ہے اور اگر کسی موسم میں بھی روزہ رکھنے کا امکان نہیں تو روزوں کا فدیہ لازم ہے، تاہم جن روزوں کا فدیہ ادا کیا گیا اگر پوری زندگی میں کسی وقت بھی روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو یہ فدیہ غیر معتبر ہو گا، اور ان روزوں کی قضا لازم ہو گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر اندیشہ ہے کہ روزہ رکھا گیا تو مرض عود کر آئے گا تو آپ ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کر سکتے ہیں اور جو روزے آپ کے رہ جائیں اگر سردیوں کے دنوں میں ان کی قضا ممکن ہو تو سردیوں کے دنوں میں یہ روزے پورے کریں ورنہ روزوں کا فدیہ ادا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ تو واضح ہے کہ جب تک ایام شروع نہیں ہوں گے عورت پاک ہی شمار ہو گی۔ اور اس کو رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہو گا، رہا یہ کہ روکنا صحیح ہے یا نہیں؟ تو شرعاً روکنے پر کوئی پابندی نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ فعل عورت کی صحت کے لیے مضر ہو تو جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جو روزے رہ گئے ہوں ان کی قضا فرض ہے۔ اگر صحت و قوت اجازت دیتی ہو تو ان کو مسلسل رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو جلد سے جلد قضا کر لینا بہتر ہے ورنہ جس طرح سہولت ہو رکھ لیے جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اللہ تعالیٰ آپ کو جزا ئے خیر دے آپ نے ایک ایسا مسئلہ پوچھا ہے جس کی ضرورت تمام مسلم خواتین کو ہے اور جس میں عموماً ہماری بہنیں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتی ہیں۔ عورتوں کے جو روزے ‘‘خاص عذر’’ کی وجہ سے رہ جاتے ہیں ان کی قضا واجب ہے اور سستی و کوتاہی کی وجہ سے اگر قضا نہیں کئے تب بھی وہ مرتے دم تک ان کے ذمے رہیں گے۔ توبہ و استغفار سے روزوں میں تاخیر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن روزے معاف نہیں ہوں گے۔ وہ ذمے رہیں گے۔ ان کا ادا کرنا فرض ہے، البتہ اس تاخیر اور کوتاہی کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ جب سے آپ پر نماز روزہ فرض ہوا ہے اس وقت سے لے کر جتنے رمضانوں کے روزے رہ گئے ہوں ان کا حساب لگالیجیے اور پھر ان کو قضا کرنا شروع کیجیے۔ ضروری نہیں کہ لگاتار ہی قضا کیے جائیں بلکہ جب بھی موقع ملے قضا کرتی رہیں اور نیت یوں کیا کریں کہ سب سے پہلے رمضان کا جو پہلا روزہ میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتی ہوں اور اگر خدانخواستہ پوری عمر میں بھی پورے نہ ہوں تو وصیت کرنا فرض ہے کہ میرے ذمہ اتنے روزے باقی ہیں ان کا فدیہ میرے مال سے ادا کر دیا جائے اور اگر آپ کو یہ یاد نہیں کہ کب سے آپ کے ذمہ روزے فرض ہوئے تھے تو اپنی عمر کے دسویں سال سے روزوں کا حساب لگائیے اور ہر مہینے جتنے دنوں کے روزے آپ کے رہ جاتے ہیں اتنے دنوں کو لے کر گزشتہ تمام سالوں کا حساب لگا لیجیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کفارے کے ساٹھ روزے لگاتار رکھنا ضروری ہے، اگر درمیان میں ایک دن کا بھی ناغہ ہو گیا تو گزشتہ تمام روزے کالعدم ہو جائیں گے اور نئے سرے سے شروع کرکے ساٹھ روزے پورے کرنا ضروری ہوں گے۔ لیکن عورتوں کے ایام حیض کی وجہ سے جو جبری ناغہ ہوجاتا ہے وہ معاف ہے، ایام حیض میں روزے چھوڑ دے، اور پاک ہوتے ہی بغیر وقفہ کے روزہ شروع کر دیا کرے۔ یہاں تک کہ ساٹھ روزے پورے ہو جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کسی نے بھولے سے کچھ کھا پی لیاتھا اور یہ سمجھ کرکہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے، قصداً کھا پی لیا تو قضا واجب ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی کو قے ہوئی، اور پھر یہ خیال کرکے کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے کچھ کھا پی لیا۔ تو اس صورت میں قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہ ہو گا لیکن اگر اسے یہ مسئلہ معلوم تھا کہ قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس کے باوجود کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں اس کے ذمہ قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س: اس مرتبہ رمضان المبارک میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا وہ یہ کہ میں روزہ سے تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو تلاوت کرنے بیٹھ گیا پانچ بجے تلاوت ختم کی اور افطاری کے سلسلے میں کام میں لگ گیا۔ واضح ہو کہ میں گھر میں اکیلا رہ رہا ہوں، سالن وغیرہ بنایا۔ حسب معمول شربت وغیرہ بنا کر رکھا۔ باورچی خانہ سے واپس آیا تو گھڑی پر ساڑھے پانچ بجے تھے۔ اب میرے خیال میں آیا کہ چونکہ روزہ پانچ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے، چالیس منٹ پر کچھ پکوڑے بنا لوں گا۔ خیر اپنے خیال کے مطابق چالیس منٹ پر باورچی خانہ میں گیا۔ پکوڑے بنانے لگا۔ پانچ بن کر پچا س منٹ پر تمام افطاری کا سامان رکھ کر میز پر بیٹھ گیا۔ مگر اذان سنائی نہ دی ایئر کنڈیشن بند کیا۔ کوئی آواز نہ آئی۔ پھر فون پر وقت معلوم کیا تو ۵۵:۵ ہو چکے تھے میں نے سمجھا اذان سنائی نہیں دی ممکن ہے مائیک خراب ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو، اور روزہ افطار کر لیا۔ پھر مغرب کی نماز پڑھی۔اس کے بعد اچانک خیال آیا کہ روزہ تو چھ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے۔ بس افسوس اور پشیمانی کے سوا کیا کر سکتا تھا پھر کلی کی۔ چند منٹ باقی تھے۔ دوبارہ روزہ افطار کیا مغرب کی نماز پڑھی۔

            براہِ کرم آپ مجھے اس کوتاہی کے متعلق بتائیں کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو صرف قضا واجب ہے یا کفارہ؟ اور اگر کفارہ واجب ہے تو کیا میں صحت مند ہوتے ہوئے بھی ساٹھ مسکینوں کو بطور کفارہ کھانا کھلا سکتا ہوں؟

ج: آپ کا روزہ تو ٹوٹ گیا مگر چونکہ غلط فہمی کی بناء پر روزہ توڑ لیا اس لیے آپ کے ذمہ صرف قضا واجب ہے کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو ، غسل یا کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر اس صورت میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں غرغرہ کرنا اور ناک میں زور سے پانی ڈالنا ممنوع ہے اس سے روزے کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ قوی ہے اگر غسل فرض ہو تو کلی کرے ناک میں پانی بھی ڈالے مگر روزے کی حالت میں غرغرہ نہ کرے نہ ناک میں اوپر تک پانی چڑھائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں حقہ پینے یا سگریٹ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر یہ عمل جان بوجھ کر کیا ہو تو قضا و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کوئی ایسی چیز نگل لی، جس کو بطور غذا یا دوا کے نہیں کھایا جاتا تو روزہ ٹوٹ گیا اور صرف قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: دانتوں میں گوشت کا ریشہ یا کوئی چیز رہ گئی تھی۔ اور وہ خود بخود اندر چلی گئی ، تو اگر چنے کے دانے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ جاتا رہا۔ اور اگر اس سے کم ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ اور اگر باہر سے کوئی چیز منہ میں ڈال کر نگل لی تو خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: زبان سے کسی چیز کا ذائقہ چکھ کر تھوک دیا تو روزہ نہیں ٹوٹا، مگر بے ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر خون منہ سے نکل رہا تھا۔ اس کو تھوک کے ساتھ نگل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا دھواں خود بخود چلا گیا۔ یا گرد و غبار چلاگیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اور اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتا رہا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آنکھ میں دوائی ڈالنے یا زخم پر مرہم لگانے یا دوائی لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ لیکن ناک اور کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اور اگر زخم پیٹ میں ہو یا سر پر ہو اور اس پر دوائی لگانے سے دماغ یا پیٹ کے اندر دوائی سرایت کر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ دوا آپ سحری بند ہونے سے پہلے استعمال کر سکتی ہیں۔ دوائی کھا کر خوب اچھی طرح منہ صاف کر لیا جائے پھر بھی کچھ حلق کے اندر رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ حلق سے بیرونی حصہ میں لگی ہو تو اسے حلق میں نہ لے جائیے۔ روزہ کی حالت میں اس دوا کا استعمال صحیح نہیں۔ اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ انجکشن کی دوا اگر براہِ راست معدہ یا دماغ میں نہ پہنچے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے سانس کی تکلیف میں آپ انجکشن لے سکتی ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: عذر کی وجہ سے رگ میں بھی انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ صرف طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ گلوکوز کے انجکشن کا بھی یہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو تو خون نکلنے سے ٹوٹ جائے گا اور روزے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خون حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں جب روزہ رکھنے کا ارادہ کر لیا تو نیت ہو گئی زبان سے نیت کے الفاظ کہنا کوئی ضروری نہیں دانت نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ خون حلق میں نہ گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سر پر یا بدن کے کسی اور حصہ پر تیل لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر روزہ کی حالت میں احتلام ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، روزے دار کو غسل کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ پانی نہ حلق سے نیچے اترے، اور نہ دماغ میں پہنچے، اس لیے اس کو کلی کرتے وقت غرغرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور ناک میں پانی بھی زور سے نہیں چڑھانا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ٹوتھ پیسٹ کا استعمال روزہ کی حالت میں مکروہ ہے تاہم اگر حلق میں نہ جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کلی کرکے پانی گرا دینا کافی ہے بار بار تھوکنا فضول حرکت ہے اسی طرح ناک کے نرم حصے میں پانی پہنچانے سے پانی دماغ تک نہیں پہنچتا اس سلسلہ میں بھی وہم کرنا فضول ہے۔ آپ کے وہم کا علاج یہ ہے کہ اپنے وہم پر عمل نہ کریں خواہ طبیعت میں کتنا ہی تقاضا ہو، اس طرح رفتہ رفتہ وہم کی بیماری جاتی رہے گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ کا روزہ تو نہیں ٹوٹے گا مگر گناہ میں فی الجملہ شرکت آپ کی بھی ہو گی، آپ کے منیجر صاحب اگر مسلمان ہیں تو ان کو اتنا لحاظ کرنا چاہیے کہ روزے دار سے پانی نہ منگوائیں۔ بہرحال اگروہ اپنے طرزِ عمل کو نہیں چھوڑتے تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کی نوکری چھوڑ دیں بشرطیکہ آپ کو کوئی ذریعہ معاش مل سکے ورنہ نوکری کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کہ پیٹ کی خاطر مجھے اس گناہ میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: بالغ ہونے کے بعد سے جتنے روزے آپ نے نہیں رکھے ان کی قضا لازم ہے۔ اگر بالغ ہونے کا سال ٹھیک سے یاد نہ ہو تو اپنی عمر کے تیرھویں سال سے آپ اپنے آپ کو بالغ سمجھتے ہوئے تیرھویں سال سے روزے قضا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر یاد نہ ہو کہ کس رمضان کے کتنے روزے قضا ہوئے ہیں تو اس طرح نیت کرے کہ سب سے پہلے رمضان کا پہلا روزہ جو میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتا ہوں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: درست ہے کیونکہ اس کے حق میں فرض کی قضا زیادہ ضروری اور اہم ہے، تاہم اگر فرض قضا کو چھوڑ کر نفل روزے کی نیت سے روزہ رکھا تو نفل روزہ ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: فدیہ دینے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو، اور نہ آئندہ پوری زندگی میں یہ توقع ہو کہ وہ روزہ رکھنے پر قادر ہو گا۔ آپ کی اہلیہ اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لیے ان پر ان روزوں کی قضا لازم ہے۔ خواہ سردیوں کے موسم میں رکھ لیں، فدیہ دینا ان کے لیے جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کا فدیہ صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو روزہ رکھنے پر نہ تو فی الحال قادر ہو اور نہ آئندہ توقع ہو۔ مثلاً کوئی اتنا بوڑھا ہے کہ روزے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ یا ایسا بیمار ہے کہ اس کے شفا یاب ہونے کی کوئی توقع نہیں۔ زید کی بیوی روزہ رکھ سکتی ہے۔ محض غفلت اور تساہل کی وجہ سے نہیں رکھتی۔ اس کا روزے کے بدلے فدیہ دینا صحیح نہیں۔ بلکہ روزوں کی قضا لازم ہے۔ اس نے جو پیسے کسی محتاج کو دیئے یہ خیرات کی مد میں شمار ہوں گے۔ جتنے روزے اس کے ذمہ ہیں سب کی قضا کرے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: آپ کو صرف اس چیز کا اجر ملے گا جو آپ نے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کی ہو گی۔ یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ہے۔یعنی کہ آپ نے کسی کا روزہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے افطار کروایا ہے تو اجر ملے گا۔ سیاسی افطار پارٹیوں کی رسم جن لوگوں نے قائم کی ہے، ان لوگوں کے پیش نظر نہ اجر و ثواب ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ثواب کمانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ کیا ان سیاسی افطار پارٹیوں میں ان لوگوں کو افطار پر بلایا جاتا ہے، جن کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ پہلے آپ یہ سوچیں کہ آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں یہ ایک رسم کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی افطار پارٹیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ بہتر ہے آدمی رمضان میں باہر چلا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افطار پارٹیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ آدمی کس کو انکار کرے اور کس کو انکار نہ کرے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ روزے کی اصل حقیقت گم ہو گئی ہے۔ روزہ اس لیے تھا کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں، یعنی اپنے آپ کو حدود کا پابند کریں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مجسم بن کر رہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سفر یا بیماری میں آپ نے روزہ نہیں رکھا تو سفر کے ختم ہونے کے بعد اور اسی طرح بیماری سے شفا کے بعد روزہ رکھیں۔لیکن ا گر ایسی صورت ہے کہ سفر میں ہی رہنا ہے اور یا بیماری کے جانے کا امکان ہی نہیں ہے ، تو فدیہ دے دیجیے۔ایک مسکین کا کھانا ایک روزے کے بدلے میں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور باعث برکت ہے اور اس سے روزہ میں قوت رہتی ہے۔اگر آپ نے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھایا پیا اور گیارہ بجے (یعنی شرعی نصف النہار) سے پہلے روزہ کی نیت کر لی تو آپ کا روزہ صحیح ہے قضا کی ضرورت نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سورج غروب ہونے کے بعد روزہ افطار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت خیر پر رہے گی، جب تک سحری کھانے میں تاخیر اور( سورج غروب ہونے کے بعد)روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔(مسند احمد ص ۱۷۲ج۵)ایک اور حدیث میں ہے کہ ‘‘لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔’’ (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰۃ ص ۱۷۵) ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بندوں میں سے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔(ترمذی، مشکوٰۃ ص ۱۷۵)

            مگر یہ ضروری ہے کہ سورج کے غروب ہوجانے کا یقین ہو جائے تب روزہ کھولنا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے۔ پس صبح صادق سے پہلے پہلے کھانے پینے کی اجازت ہے۔ اگر صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: بغیر کچھ کھائے پیئے روزے کی نیت کر لے۔سونے سے پہلے روزے کی نیت کی اور صبح صادق کے بعد آنکھ کھلی تو روزہ شروع ہو گیا۔ اب اس کو توڑنے کا اختیار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جب اس نے رات کو سونے سے پہلے روزے کی نیت کر لی تھی تو صبح صادق کے بعد اس کا روزہ (سونے کی حالت میں) شروع ہو گیا اور روزہ شروع ہونے کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟ کیونکہ روزہ رکھنے کا فیصلہ تو وہ کر چکا ہے اور اس کے اسی فیصلہ پر روزہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ اب روزہ شروع کرنے کے بعد اس کو توڑنے کا اختیار نہیں اگر رمضان کا روزہ توڑ دے گا تو اس پر قضا اورکفارہ دونوں لازم آئیں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر صبح صادق ہوجانے کے بعد کھایا پیاتو روزہ نہ ہو گا خواہ اذان ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو اور اذانیں عموماً صبح صادق کے بعد ہوتی ہیں۔ اس لیے اذان کے وقت کھانے پینے والوں کا روزہ نہیں ہو گا۔ عموماً مسجدوں میں اوقات کے نقشے لگے ہوتے ہیں۔ ابتدائے فجر کا وقت دیکھ کر اس سے چار پانچ منٹ پہلے سحری کھانا بند کر دینا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نقشوں میں صبح صادق کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اس سے دوچار منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دینا چاہیے ایک دو منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو روزہ ہو جائے گا لیکن دس منٹ بعد کھانے کی صورت میں روزہ نہیں ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کھولنے کے لیے نیت شرط نہیں غالباً ‘‘افطار کی نیت’’ سے آپ کی مراد وہ دعا ہے جو روزہ کھولتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ افطار کے وقت کی دعا مستحب ہے، شرط نہیں، اگر دعا نہ کی اور روزہ کھول لیا تو روزہ بغیر کراہت کے صحیح ہے، البتہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے ، اس لیے دعا کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ بلکہ افطار سے چند منٹ پہلے خوب توجہ کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اصول یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں آدمی روزہ رکھتے وقت اور افطار کرتے وقت موجود ہو، پس جو شخص عرب ممالک سے روزہ رکھ کر کراچی آئے اس کو کراچی کے وقت کے مطابق افطار کرنا ہو گا اور جو شخص پاکستان سے روزہ رکھ کر مثلاً سعودی عرب گیا ہو اس کو وہاں کے غروب کے بعد روزہ افطار کرنا ہو گا، اس کے لیے کراچی کے غروب کا اعتبار نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ دار کو جب آفتاب نظر آرہا ہو تو افطار کرنے کی اجازت نہیں ہے، طیارہ کا اعلان بھی مہمل اور غلط ہے۔ روزہ دار جہاں موجود ہو وہاں کا غروب معتبر ہے۔ پس اگر وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس بلندی سے غروبِ آفتاب دکھائی دے تو روزہ افطار کر لینا چاہیے جس جگہ کی بلندی پر جہاز پرواز کر رہا ہے وہاں کی زمین پر غروبِ آفتاب ہو رہا ہو تو جہاز کے مسافر روزہ افطار نہیں کریں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر آپ سے آپ قے آگئی تو روزہ نہیں گیا خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اور اگر خود اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کر ہوئی تو روزہ ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔اگر روزے دار اچانک بیمار ہو جائے اور اندیشہ ہو کہ روزہ نہ توڑا تو جان کا خطرہ ہے، یا بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے ایسی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے۔اسی طرح اگر حاملہ عورت کی جان کو یا بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو روزہ توڑ دینا درست ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ نے رمضان کا جو روزہ توڑا وہ عذر کی وجہ سے توڑا اس لیے اس کا کفارہ آپ کے ذمہ نہیں بلکہ صرف قضا لازم ہے اور جو روزے آپ بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکیں ان کی جگہ بھی قضا روزے رکھ لیں۔ آئندہ بھی اگر آپ رمضان مبارک میں بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں تو سردیوں کے موسم میں قضا رکھ لیا کریں، اور اگر چھوٹے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان روزوں کا فدیہ ادا کردیں، ایک دن کے روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج:        ۱۔ رمضان شریف کے روزے ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہیں اور بغیر کسی صحیح عذر کے روزہ نہ رکھنا حرام ہے۔

            ۲۔اگر نابالغ لڑکا، لڑکی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ماں باپ پر لازم ہے کہ ان کو بھی روزہ رکھوائیں۔

            ۳۔جو بیمار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور روزہ رکھنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ نہ ہو اس پر بھی روزہ رکھنا لازم ہے۔

            ۴۔ اگر بیماری ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہویا روزہ رکھنے سے بیماری بڑھ جانے کا خطرہ ہو تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر جب تندرست ہوجائے تو بعد میں ان روزوں کی قضا اس کے ذمہ فرض ہے۔

            ۵۔ جو شخص اتنا ضعیف العمر ہو کہ روزہ کی طاقت نہیں رکھتا، یا ایسا بیمار ہو کہ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ صحت کی امید ہے، تو وہ روزے کا فدیہ دے دیا کرے یعنی ہر روزے کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت کسی مسکین کو دے دیا کرے یا صبح و شام ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے۔

            ۶۔ اگر کوئی شخص سفر میں ہو، اور روزہ رکھنے میں مشقت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ بھی قضا کر سکتا ہے۔ دوسرے وقت میں اس کو روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ اور اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔ اگرچہ روزہ نہ رکھنے اور بعد میں قضا کرنے کی بھی اس کو اجازت ہے۔

            ۷۔ عورت کو حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ مگر رمضان شریف کے بعد اتنے دنوں کی قضا اس پر لازم ہے۔

            ۸۔ بعض لوگ بغیر عذر کے روزہ نہیں رکھتے اور بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑدیتے ہیں اور پھر بعد میں قضا بھی نہیں کرتے، خاص طور پر عورتوں کے جو روزے ماہواری کے ایام میں رہ جاتے ہیں وہ ان کی قضا میں سستی کرتی ہیں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: امتحان کے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں، اور ایک شخص کی جگہ دوسرے کا روزہ رکھنا درست نہیں۔ نماز اور روزہ دونوں خالص بدنی عبادتیں ہیں۔ ان میں دوسرے کی نیابت جائز نہیں۔ جس طرح ایک شخص کے کھانا کھانے سے دوسرے کا پیٹ نہیں بھرتا، اسی طرح ایک شخص کے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے سے دوسرے کے ذمہ کا فرض ادا نہیں ہوتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنا درست نہیں، اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر آپ اس بیماری کی وجہ سے روزہ پورا نہیں کر سکتے تو آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور اگر چھوٹے دنوں میں آپ روزہ رکھ سکتے ہیں تو ان روزوں کی قضا لازم ہے اور اگر کسی موسم میں بھی روزہ رکھنے کا امکان نہیں تو روزوں کا فدیہ لازم ہے، تاہم جن روزوں کا فدیہ ادا کیا گیا اگر پوری زندگی میں کسی وقت بھی روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو یہ فدیہ غیر معتبر ہو گا، اور ان روزوں کی قضا لازم ہو گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر اندیشہ ہے کہ روزہ رکھا گیا تو مرض عود کر آئے گا تو آپ ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کر سکتے ہیں اور جو روزے آپ کے رہ جائیں اگر سردیوں کے دنوں میں ان کی قضا ممکن ہو تو سردیوں کے دنوں میں یہ روزے پورے کریں ورنہ روزوں کا فدیہ ادا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ تو واضح ہے کہ جب تک ایام شروع نہیں ہوں گے عورت پاک ہی شمار ہو گی۔ اور اس کو رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہو گا، رہا یہ کہ روکنا صحیح ہے یا نہیں؟ تو شرعاً روکنے پر کوئی پابندی نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ فعل عورت کی صحت کے لیے مضر ہو تو جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ماہواری کے شروع ہوتے ہی روزہ خود ہی ختم ہو جاتا ہے، کھولیں یا نہ کھولیں۔غیر رمضان میں روزوں کی قضا ہے تراویح کی نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: جو روزے رہ گئے ہوں ان کی قضا فرض ہے۔ اگر صحت و قوت اجازت دیتی ہو تو ان کو مسلسل رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو جلد سے جلد قضا کر لینا بہتر ہے ورنہ جس طرح سہولت ہو رکھ لیے جائیں۔تمام عمر میں بھی قضا روزے پورے نہ ہوں تو اپنے مال میں سے فدیہ کی وصیت کرے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اللہ تعالیٰ آپ کو جزا ئے خیر دے آپ نے ایک ایسا مسئلہ پوچھا ہے جس کی ضرورت تمام مسلم خواتین کو ہے اور جس میں عموماً ہماری بہنیں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتی ہیں۔ عورتوں کے جو روزے ‘‘خاص عذر’’ کی وجہ سے رہ جاتے ہیں ان کی قضا واجب ہے اور سستی و کوتاہی کی وجہ سے اگر قضا نہیں کئے تب بھی وہ مرتے دم تک ان کے ذمے رہیں گے۔ توبہ و استغفار سے روزوں میں تاخیر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن روزے معاف نہیں ہوں گے۔ وہ ذمے رہیں گے۔ ان کا ادا کرنا فرض ہے، البتہ اس تاخیر اور کوتاہی کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ جب سے آپ پر نماز روزہ فرض ہوا ہے اس وقت سے لے کر جتنے رمضانوں کے روزے رہ گئے ہوں ان کا حساب لگالیجیے اور پھر ان کو قضا کرنا شروع کیجیے۔ ضروری نہیں کہ لگاتار ہی قضا کیے جائیں بلکہ جب بھی موقع ملے قضا کرتی رہیں اور نیت یوں کیا کریں کہ سب سے پہلے رمضان کا جو پہلا روزہ میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتی ہوں اور اگر خدانخواستہ پوری عمر میں بھی پورے نہ ہوں تو وصیت کرنا فرض ہے کہ میرے ذمہ اتنے روزے باقی ہیں ان کا فدیہ میرے مال سے ادا کر دیا جائے اور اگر آپ کو یہ یاد نہیں کہ کب سے آپ کے ذمہ روزے فرض ہوئے تھے تو اپنی عمر کے دسویں سال سے روزوں کا حساب لگائیے اور ہر مہینے جتنے دنوں کے روزے آپ کے رہ جاتے ہیں اتنے دنوں کو لے کر گزشتہ تمام سالوں کا حساب لگا لیجیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کفارے کے ساٹھ روزے لگاتار رکھنا ضروری ہے، اگر درمیان میں ایک دن کا بھی ناغہ ہو گیا تو گزشتہ تمام روزے کالعدم ہو جائیں گے اور نئے سرے سے شروع کرکے ساٹھ روزے پورے کرنا ضروری ہوں گے۔ لیکن عورتوں کے ایام حیض کی وجہ سے جو جبری ناغہ ہوجاتا ہے وہ معاف ہے، ایام حیض میں روزے چھوڑ دے، اور پاک ہوتے ہی بغیر وقفہ کے روزہ شروع کر دیا کرے۔ یہاں تک کہ ساٹھ روزے پورے ہو جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کسی نے بھولے سے کچھ کھا پی لیاتھا اور یہ سمجھ کرکہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے، قصداً کھا پی لیا تو قضا واجب ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی کو قے ہوئی، اور پھر یہ خیال کرکے کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے کچھ کھا پی لیا۔ تو اس صورت میں قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہ ہو گا لیکن اگر اسے یہ مسئلہ معلوم تھا کہ قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس کے باوجود کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں اس کے ذمہ قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س: اس مرتبہ رمضان المبارک میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا وہ یہ کہ میں روزہ سے تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو تلاوت کرنے بیٹھ گیا پانچ بجے تلاوت ختم کی اور افطاری کے سلسلے میں کام میں لگ گیا۔ واضح ہو کہ میں گھر میں اکیلا رہ رہا ہوں، سالن وغیرہ بنایا۔ حسب معمول شربت وغیرہ بنا کر رکھا۔ باورچی خانہ سے واپس آیا تو گھڑی پر ساڑھے پانچ بجے تھے۔ اب میرے خیال میں آیا کہ چونکہ روزہ پانچ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے، چالیس منٹ پر کچھ پکوڑے بنا لوں گا۔ خیر اپنے خیال کے مطابق چالیس منٹ پر باورچی خانہ میں گیا۔ پکوڑے بنانے لگا۔ پانچ بن کر پچا س منٹ پر تمام افطاری کا سامان رکھ کر میز پر بیٹھ گیا۔ مگر اذان سنائی نہ دی ایئر کنڈیشن بند کیا۔ کوئی آواز نہ آئی۔ پھر فون پر وقت معلوم کیا تو ۵۵:۵ ہو چکے تھے میں نے سمجھا اذان سنائی نہیں دی ممکن ہے مائیک خراب ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو، اور روزہ افطار کر لیا۔ پھر مغرب کی نماز پڑھی۔اس کے بعد اچانک خیال آیا کہ روزہ تو چھ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے۔ بس افسوس اور پشیمانی کے سوا کیا کر سکتا تھا پھر کلی کی۔ چند منٹ باقی تھے۔ دوبارہ روزہ افطار کیا مغرب کی نماز پڑھی۔ براہِ کرم آپ مجھے اس کوتاہی کے متعلق بتائیں کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو صرف قضا واجب ہے یا کفارہ؟ اور اگر کفارہ واجب ہے تو کیا میں صحت مند ہوتے ہوئے بھی ساٹھ مسکینوں کو بطور کفارہ کھانا کھلا سکتاہوں؟

ج: آپ کا روزہ تو ٹوٹ گیا مگر چونکہ غلط فہمی کی بناء پر روزہ توڑ لیا اس لیے آپ کے ذمہ صرف قضا واجب ہے کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو ، غسل یا کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر اس صورت میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں غرغرہ کرنا اور ناک میں زور سے پانی ڈالنا ممنوع ہے اس سے روزے کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ قوی ہے اگر غسل فرض ہو تو کلی کرے ناک میں پانی بھی ڈالے مگر روزے کی حالت میں غرغرہ نہ کرے نہ ناک میں اوپر تک پانی چڑھائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزہ کی حالت میں حقہ پینے یا سگریٹ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر یہ عمل جان بوجھ کر کیا ہو تو قضا و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کوئی ایسی چیز نگل لی، جس کو بطور غذا یا دوا کے نہیں کھایا جاتا تو روزہ ٹوٹ گیا اور صرف قضا واجب ہو گی۔ کفارہ واجب نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: دانتوں میں گوشت کا ریشہ یا کوئی چیز رہ گئی تھی۔ اور وہ خود بخود اندر چلی گئی ، تو اگر چنے کے دانے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ جاتا رہا۔ اور اگر اس سے کم ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ اور اگر باہر سے کوئی چیز منہ میں ڈال کر نگل لی تو خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: زبان سے کسی چیز کا ذائقہ چکھ کر تھوک دیا تو روزہ نہیں ٹوٹا، مگر بے ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر خون منہ سے نکل رہا تھا۔ اس کو تھوک کے ساتھ نگل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر حلق کے اندر مکھی چلی گئی یا دھواں خود بخود چلا گیا۔ یا گرد و غبار چلاگیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اور اگر قصداً ایسا کیا تو روزہ جاتا رہا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آنکھ میں دوائی ڈالنے یا زخم پر مرہم لگانے یا دوائی لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ لیکن ناک اور کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، اور اگر زخم پیٹ میں ہو یا سر پر ہو اور اس پر دوائی لگانے سے دماغ یا پیٹ کے اندر دوائی سرایت کر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نظر ثانی کے بعد بھی وہی مسئلہ ہے۔ فقہ کی کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ آنکھ میں ڈالی گئی دوا براہِ راست حلق یا دماغ میں نہیں پہنچتی۔ اس لیے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور کان میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(کوئی بات فقہ کی کتب میں لکھے ہونے کی وجہ سے نص قطعی نہیں بن جاتی آنکھ میں ڈالی گئی بعض ادویہ کاذائقہ واضح طور پر حلق میں محسوس ہوتا ہے ۔اس لیے مولانا مرحوم کا یہ مسئلہ محل نظر ہے ۔ قارئین عقل عام کی روشنی میں خود فیصلہ فرمائیں۔مدیر)

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: یہ دوا آپ سحری بند ہونے سے پہلے استعمال کر سکتی ہیں۔ دوائی کھا کر خوب اچھی طرح منہ صاف کر لیا جائے پھر بھی کچھ حلق کے اندر رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ حلق سے بیرونی حصہ میں لگی ہو تو اسے حلق میں نہ لے جائیے۔ روزہ کی حالت میں اس دوا کا استعمال صحیح نہیں۔ اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ انجکشن کی دوا اگر براہِ راست معدہ یا دماغ میں نہ پہنچے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے سانس کی تکلیف میں آپ انجکشن لے سکتی ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: عذر کی وجہ سے رگ میں بھی انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ صرف طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ گلوکوز کے انجکشن کا بھی یہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: وضو تو خون نکلنے سے ٹوٹ جائے گا اور روزے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خون حلق سے نیچے چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں جب روزہ رکھنے کا ارادہ کر لیا تو نیت ہو گئی زبان سے نیت کے الفاظ کہنا کوئی ضروری نہیں دانت نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ خون حلق میں نہ گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: سر پر یا بدن کے کسی اور حصہ پر تیل لگانے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر روزہ کی حالت میں احتلام ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، روزے دار کو غسل کرتے وقت اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ پانی نہ حلق سے نیچے اترے، اور نہ دماغ میں پہنچے، اس لیے اس کو کلی کرتے وقت غرغرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور ناک میں پانی بھی زور سے نہیں چڑھانا چاہیے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: ٹوتھ پیسٹ کا استعمال روزہ کی حالت میں مکروہ ہے تاہم اگر حلق میں نہ جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کلی کرکے پانی گرا دینا کافی ہے بار بار تھوکنا فضول حرکت ہے اسی طرح ناک کے نرم حصے میں پانی پہنچانے سے پانی دماغ تک نہیں پہنچتا اس سلسلہ میں بھی وہم کرنا فضول ہے۔ آپ کے وہم کا علاج یہ ہے کہ اپنے وہم پر عمل نہ کریں خواہ طبیعت میں کتنا ہی تقاضا ہو، اس طرح رفتہ رفتہ وہم کی بیماری جاتی رہے گی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: آپ کا روزہ تو نہیں ٹوٹے گا مگر گناہ میں فی الجملہ شرکت آپ کی بھی ہو گی، آپ کے منیجر صاحب اگر مسلمان ہیں تو ان کو اتنا لحاظ کرنا چاہیے کہ روزے دار سے پانی نہ منگوائیں۔ بہرحال اگروہ اپنے طرزِ عمل کو نہیں چھوڑتے تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کی نوکری چھوڑ دیں بشرطیکہ آپ کو کوئی ذریعہ معاش مل سکے ورنہ نوکری کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کہ پیٹ کی خاطر مجھے اس گناہ میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: بالغ ہونے کے بعد سے جتنے روزے آپ نے نہیں رکھے ان کی قضا لازم ہے۔ اگر بالغ ہونے کا سال ٹھیک سے یاد نہ ہو تو اپنی عمر کے تیرھویں سال سے آپ اپنے آپ کو بالغ سمجھتے ہوئے تیرھویں سال سے روزے قضا کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر یاد نہ ہو کہ کس رمضان کے کتنے روزے قضا ہوئے ہیں تو اس طرح نیت کرے کہ سب سے پہلے رمضان کا پہلا روزہ جو میرے ذمہ ہے اس کی قضا کرتا ہوں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: درست ہے کیونکہ اس کے حق میں فرض کی قضا زیادہ ضروری اور اہم ہے، تاہم اگر فرض قضا کو چھوڑ کر نفل روزے کی نیت سے روزہ رکھا تو نفل روزہ ہو گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: فدیہ دینے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو، اور نہ آئندہ پوری زندگی میں یہ توقع ہو کہ وہ روزہ رکھنے پر قادر ہو گا۔ آپ کی اہلیہ اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لیے ان پر ان روزوں کی قضا لازم ہے۔ خواہ سردیوں کے موسم میں رکھ لیں، فدیہ دینا ان کے لیے جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: روزے کا فدیہ صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو روزہ رکھنے پر نہ تو فی الحال قادر ہو اور نہ آئندہ توقع ہو۔ مثلاً کوئی اتنا بوڑھا ہے کہ روزے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ یا ایسا بیمار ہے کہ اس کے شفا یاب ہونے کی کوئی توقع نہیں۔ زید کی بیوی روزہ رکھ سکتی ہے۔ محض غفلت اور تساہل کی وجہ سے نہیں رکھتی۔ اس کا روزے کے بدلے فدیہ دینا صحیح نہیں۔ بلکہ روزوں کی قضا لازم ہے۔ اس نے جو پیسے کسی محتاج کو دیئے یہ خیرات کی مد میں شمار ہوں گے۔ جتنے روزے اس کے ذمہ ہیں سب کی قضا کرے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: روزے کی مقبولیت کے لیے سحری کھانا شرط نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے جس پر حضوؐر نے خود بھی عمل کیا اور لوگوں کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث نبوی ہے:

            تسحروا فان فی السحور برکۃ۔

(بخاری و مسلم)

            ’’سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔‘‘

            اسی طرح سحری تاخیر سے کھانا بھی سنت ہے اور افطار میں جلدی کرنا بھی سنت ہے کیوں کہ اس طرح بھوک اور پیاس کی شدت کچھ کم ہو جاتی ہے اور اس طرح روزے کی مشقت میں بھی قدرے تخفیف ہوتی ہے۔ بلا شبہ دین اسلام نے عبادتوں میں حتی الامکان تخفیف اور آسانی کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ لوگوں کا دل ان عبادات کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو۔ انھیں آسانیوں میںسے حضوؐرکی یہ تاکید ہے کہ سحری تاخیر سے کھائی جائے اور افطار میں جلدی کی جائے۔ حضوؐر کی سنت کے اتباع میں فجر سے قبل اٹھنا باعث ثواب ہے ، چاہے ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی سے یہ سنت ادا کی جائے۔

            سحری میں ایک روحانی فائدہ بھی ہے۔ فجر سے قبل اٹھنا ایک ایسی گھڑی میں اٹھنا ہے جب اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے۔ بندے کا ایسی گھڑی میں اپنے خالق و مالک سے مناجات کرنا اورمغفرت کی دعائیں کرنابہت قیمتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ بستر پر سوتے پڑے رہنے کے برابر ہو سکتا ہے؟ ہم خود تصور کر سکتے ہیں کہ ان دونوں حالتوں میں کس قدر زمین و آسمان کا فرق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزے کی حالت میں احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس پر انسان کا بس نہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو کسی ایسے کام کا مکلف نہیں کرتا، جس پر اس کا بس نہ ہو۔ اسی طرح روزے کی حالت میں غسل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے غیر ارادی طور پر پانی اس کے کانوں سے ہوتا ہوا حلق تک پہنچ جائے یا کلی کرتے وقت حلق میں چلا جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

             وَلَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَأْتُم بِہٖ وَلٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ۔(الاحزاب:۵)

            ’’اور نادانستہ جو کام تم کرو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اس پر گرفت ضرور ہے، جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔‘‘

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ایسے بوڑھے جنھیں روزہ رکھنے میں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھیں۔ اسی طرح وہ مریض جس کا مرض مستقل نوعیت کا ہو اور اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو، اس کے لیے بھی جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے بشرطیکہ یہ ایک ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہو یا روزے کی وجہ سے مرض میں اضافے کا خوف ہو۔ ان سبھی کے لیے رخصت کی بنیاد پر قرآن کریم کی یہ آیت ہے:

            یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔(البقرۃ:۱۸۵)

                        ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بوڑھے اور اس جیسے معذور اشخاص کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے:

            وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْْراً فَہُوَ خَیْْرٌ لَّہُ۔

(البقرہ:۱۸۴)

            ’’اور جو لوگ (مسکین کو کھلانے کی) قدرت رکھتے ہوں تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘

            روزہ معاف ہونے کی صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ ہر ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔

            حاملہ عورت اگر روزے کو اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے بھی روزے معاف ہیں کیونکہ ایک انسانی جان جو اس کے پیٹ میں ہے، اس کی حفاظت اس پر فرض ہے۔ تاہم ان روزوں کے بدلے میں وہ ان روزوں کی قضا کرے گی یا قضا کے ساتھ ساتھ مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی یا صرف کھانا ہی کافی ہے؟ اس امر میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ صرف روزوں کی قضا کرے گی۔

            میری رائے یہ ہے کہ وہ عورت جو بہت تھوڑے وقفے سے حاملہ ہو جاتی ہو اس پر قضا واجب نہیں ہے کیونکہ عملاً چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس کے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ رہا خوشبو کا استعمال تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ روزے کی حالت میں خوشبو کا استعمال جائز ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مریض کے لیے روزہ معاف ہے۔ جب وہ اچھا ہو جائے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

            وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ۔(البقرہ:۱۸۵)

            ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔‘‘

            تاہم ہر قسم کے مرض میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں جن میں روزہ رکھنے سے کوئی فرق نہیںپڑتا۔ مثلاً کمر میں یا انگلی میں درد وغیرہ۔ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں کہ روزہ رکھنا مفید ہوتا ہے مثلاً دست اور پیچش کا مرض۔ اس قسم کے امراض میں روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس مرض میں اس کی اجازت ہے جس میں روزہ رکھنے سے مرض میں اضافے کا اندیشہ ہو یا روزہ رکھنے سے شدید تکلیف ہوتی ہو۔ ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔ اگر ڈاکٹر کے مشورے کے باوجود اور تمام تکلیفوں کو سہتے ہوئے کوئی شخص روزہ رکھتا ہے، تو یہ ایک مکروہ کام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آسانی کی صورت فراہم کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ کی اس رخصت کو قبول کرے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

             وَلاَ تَقْتُلُواْ اَنفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً۔(النساء:۲۹)

            ’’اور اپنے آپ کو مار نہ ڈالو۔ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘

            اب رہا یہ سوال کہ چھوٹے ہوئے روزوں کے بدلے کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مرض ہے جو وقتی ہوتا ہے اور کسی نہ کسی مرحلہ میں اس کے دور ہونے کی امید ہوتی ہے۔ اسی مرض میں اگر روزے چھوٹے ہوں تو ان کے بدلے صدقہ کرنا کافی نہیں بلکہ روزوں کی قضا واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے:

            فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔(البقرہ:۱۸۵)

            ’’تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرو۔‘‘

            دوسرا وہ مرض ہے جس کے دور ہونے کی تازیست کوئی امید نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔ بعض فقہاء مثلاً امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ کھانا کھلانے کے بجائے کسی مسکین کی مالی امداد کر دی جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ہر مسلمان شخص تمام عبادتوں کا مکلف ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھوٹ جائے تو اللہ کے نزدیک جواب دہ ہے۔ ایک عبادت ادا نہ کرنے سے دوسری عبادتیں قبول ہوں گی یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے:

            ۱۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ایک عبادت بھی ترک کر دی تو وہ کافر ہو گیا اور اس کی کوئی دوسری عبادت مقبول نہ ہو گی۔

            ۲۔ بعض کے نزدیک صرف نماز اور زکوٰۃ ترک کرنے والا کافر ہے۔

            ۳۔ بعض کے نزدیک صرف نماز ترک کرنے والا کافر ہے کیونکہ حضوؐر کا ارشاد ہے:

            بین العبدوبین الکفر ترک الصلاۃ۔(مسلم)

            ’’بندے اور کفر کے درمیان نماز کاترک کرنا ہے۔‘‘

            ان فقہاء کے نزدیک نماز ترک کرنے والے کا روزہ بھی مقبول نہ ہو گا کیونکہ وہ کافر ہے اور کافر کی عبادت مقبول نہیں ہو گی۔

            ۴۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان و یقین کامل رکھتا ہے کسی ایک عبادت کے ترک کردینے سے وہ کافر شمار نہیں ہو گا بشرطیکہ اس عبادت کا نہ وہ مذاق اڑاتا ہو اور نہ منکر ہو۔ اس لیے ایک عبادت ترک کرنے کی وجہ سے اس کی دوسری عبادتیں ہرگز برباد نہیں جائیں گی۔

            میرے نزدیک یہی رائے زیادہ قابل ترجیح ہے۔ چنانچہ جو شخص صرف سستی اور کاہلی کی بنا پر کوئی ایک عبادت ادا نہیں کرتا ہے اور دوسری تمام عبادتیں ادا کرتا ہے، تو دوسری عبادتیں ان شاء اللہ مقبول ہوں گی۔ البتہ وہ ناقص اور ضعیف الایمان کہلائے گا اور جس عبادت میں اس نے کوتاہی کی ہے اس میں وہ گنہ گارہو گا اور اللہ کے نزدیک سزا کا مستحق ہو گا۔ بہرحال کسی ایک نیکی کے ضائع ہونے سے اس کی دوسری نیکیاں برباد نہیں ہوتیں۔ اس نے جو نیکی کی ہو گی اس کا اچھا بدلہ پائے گا اور جو برائی کی ہو گی اس کا برا بدلہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

             فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْْراً یَرَہُ۔ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ۔

(الزلزال:۷۔۸)

            ’’پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزہ وہی نفع بخش اور باعث اجر و ثواب ہے، جو برائیوں سے روکے، نیکیوں پر آمادہ کرے اور نفس میں تقویٰ پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

             یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔ (البقرہ:۱۸۳)

            ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے اس توقع سے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔‘‘

            روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے روزے کو تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک رکھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے نصیب میں صرف بھوک اور پیاس ہی آئے اور روزے کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے۔ حضوؐر نے فرمایا:

            رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع۔ (نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

            ’’بعض ایسے روزے دار ہوتے ہیں کہ ان کے روزے میں سے انھیں صرف بھوک ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘

            ایک دوسری حدیث میں ہے:

            من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ۔(بخاری، احمد، اصحاب السنن)

            ’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا اور پینا ترک کر دے۔‘‘

            اسی لیے ابن حزم کا قول ہے کہ جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین اپنے روزوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جس طرح کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اسی طرح گناہوں کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے:

            لیس الصیام من الشراب والطعام وحدہ ولکنہ من الکذب والباطل واللغو۔

            ’’روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ، باطل کاموں اور لغویات سے رکنے کا نام بھی ہے۔‘‘

            میرے نزدیک ارجح رائے یہ ہے کہ ان لغو کاموں سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ روزے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور روزہ دار روزے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ روزہ رکھنا اپنی جگہ ہے اور گناہ کے کام کرنا اپنی جگہ۔ ایک نیکی ہے اور دوسری برائی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنی چھوٹی بڑی نیکی اور برائی دونوں کا حساب و کتاب دے گا۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ذیل کی حدیث پر غور کیجیے:

            حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو میری بات نہیں مانتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں اور میں انھیں گالم گلوچ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ قیامت کے دن ان کے ساتھ میرا حساب و کتاب کیسا ہو گا؟ آپؐ نے جواب دیا ان غلاموں نے تمھاری جتنی نافرمانی اور خیانت کی ہو گی اور تم نے انھیں جتنی سزا دی ہو گی ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ اگر ان کی نافرمانی کے مقابلے میں تمھاری سزا کم ہو گی تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگر ان کی نافرمانی اور تمھاری سزا برابر ہو گی تو حساب کتاب برابر رہے گا۔ لیکن اگر تمھاری سزا ان کی نافرمانی کے مقابلے میں زیادہ ہو گی تو اسی حساب سے تمھاری بھلائی ان غلاموں کو دے دی جائے گی۔ یہ سن کر وہ صحابیؓ رونے لگے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ قرآن کی اس آیت کو پڑھو:

            ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئا و ان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین۔ (الانبیاء:۴۷)

            ’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔‘‘

            یہ سن کر صحابیؓ نے تمام غلام آزاد کر دیے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے تو اذان سنتے ہی اسے سحری کھانا چھوڑ دینا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر اس کے منہ میں نوالہ ہے تو اسے چاہیے کہ اسے اگل دے تاکہ یقینی طور پر اس کا روزہ صحیح ہو۔ تاہم اگر اسے یقین ہو یا کم از کم شک ہو کہ اذان وقت سے قبل ہو رہی ہے تو اذان سن کر کھانے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ اس بات کے یقین کے لیے کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے مختلف چیزوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلاً کیلنڈر یا گھڑی یا اس قسم کی دوسری چیزیں جو آج کل بآسانی دستیاب ہیں۔

            عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے سوال کیا کہ سحری کھانے کے دوران میںاگر شک ہو کہ فجر کا وقت ہو گیا تو کیا میں سحری کھانا چھوڑ دوں؟ آپ ؓ نے جواب دیا کہ جب تک شک ہوکھاتے رہو۔ جب فجر کا یقین ہو جائے تو کھانا چھوڑ دو۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی یہی ہے۔

            امام نووی کہتے ہیں کہ شوافع نے شک کی حالت میں کھاتے رہنے کا جواز درج ذیل قرآنی آیت سے اخذ کیا ہے:

            وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۔(البقرہ:۱۸۷)

            ’’اور راتوں کو کھائو پیو حتیٰ کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔‘‘

            اس آیت میں یقین کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یقینی طور پر کچھ واضح ہو جائے۔ یعنی جب شک کی کیفیت نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ فجر کا وقت آگیا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ٹی وی ذرائع ابلاغ عامہ کا ایک حصہ ہے۔ اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور شر کا بھی۔ جس طرح دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً اخبارات و جرائد اور ریڈیو وغیرہ میں خیر و شر دونوں قسم کے پہلو ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ جو خیر ہو اس سے نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جو شر ہو اس سے اجتناب کرے، چاہے وہ روزے کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ لیکن روزے دار اور ماہ رمضان کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس مہینے میں اپنے آپ کو شر سے محفوظ رکھنے اور خیر کی سبقت لے جانے کا خاص اہتمام کرے۔

            ٹی وی دیکھنا فی نفسہ نہ مطلقاً حرام ہے اور نہ مطلقاً حلال۔ اس کا حرام یا حلال ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پروگرام دیکھ رہے ہیں؟ اگر یہ پروگرام بھلی باتوں پر مشتمل ہو مثلاً کوئی دینی پروگرام ہو یا نیوز کا پروگرام ہو یا کوئی مفید معلوماتی پروگرام ہو تو اس کا دیکھنا بالکل جائز ہے۔ لیکن اگر فحش قسم کے پروگرام ہوں تو ان کا دیکھنا ناجائز ہے چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا مہینہ۔ البتہ رمضان میںان کا دیکھنا مزید باعث گناہ ہے۔ اسی طرح اگر ٹی وی دیکھنے میں اس قدر انہماک ہو کہ نماز وغیرہ سے غفلت ہو جاتی ہو تب بھی اس کا دیکھنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب شراب اورجوئے کو حرام قرار دیا تو اس کی حرمت کی علت یہ بتائی کہ یہ دونوں چیزیں انسانوں کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:

            إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء  فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ فَہَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ۔(المائدہ:۹۱)

            ’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایام حیض میں روزے اور نماز دونوں معاف ہیں تاہم روزوں کی قضا لازمی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایام حیض میں عورتیں جسمانی طور پر کمزوری، تکلیف اور تکان محسوس کرتی ہیں اور یہ اللہ کی رحمت ہے ان پر کہ اللہ نے ان ایام میں انھیں یہ آسانی عطا کی ہے۔

            ایام حیض کو موخر کرنے کی خاطر دوائوں کے استعمال کے سلسلے میں میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ فطرت کے ساتھ جنگ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تمام معاملات اپنے فطری انداز میں انجام پاتے رہیں۔ حیض کا جاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی فطرت پر عورت کی تخلیق کی ہے اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ان ایام میں ان پر روزے اور نماز معاف کیے۔ اس لیے ہم بندوں کو چاہیے کہ ہم بھی اللہ کی فطرت اور اس کے منشا کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔

            تاہم میں ان دوائوں کے استعمال کو ناجائز بھی نہیں قرار دیتا۔ اگر ایسی دوائوں کا وجود ہے کہ جن سے ایام حیض کو منسوخ کیا جا سکتا ہو تو ان کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ نیت صرف یہ ہو کہ روزے قضا نہ ہوں اور یہ کہ صحت پر کوئی خراب اثر نہ پڑے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: قضا روزے کسی بھی مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں شعبان اور شوال کی کوئی قید نہیں ہے۔ روایتوں میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بسا اوقات بعض قضا روزے شعبان کے مہینے میں رکھتی تھیں۔ اس لیے آپ نے جو روزے شعبان میں رکھے ہیں ان شاء اللہ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوں گے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: وہ انجکشن جن کی دوائیں معدے تک نہیں جاتیں یا بالفاظ دیگر جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا نہیں ہوتا، ان کے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

            البتہ انجکشن کی وہ قسمیں جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا ہوتا ہے مثلاً گلوکوز کا پانی چڑھانا وغیرہ تو اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسی چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانے میں تھا اور نہ سلف صالحین کے دور میں۔ یہ تو عصر جدید کی ایجاد ہے۔ علماء کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس قسم کے انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ روزے کی حالت میں مریض کے لیے اس کے استعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔

            اگرچہ میں دوسرے طبقے کی رائے کو قابل ترجیح سمجھتا ہوں، تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ روزے کی حالت میں اس قسم کے انجکشن سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان کی راتوں میں یہ انجکشن لیے جا سکتے ہیں اور اگر دن کے وقت اس انجکشن کا لگانا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی مریض کے لیے روزے معاف کیے ہیں۔ اس قسم کے انجکشن سے معدہ میں براہ راست کوئی غذا تو نہیں پہنچتی البتہ اس کے استعمال سے بدن میں ایک قسم کا نشاط اور قوت آجاتی ہے اور یہ بات روزے کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو روزے ہم پر فرض کیے ہیں تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم بھوک پیاس کی تکلیف کو محسوس کر سکیں۔ اگر اس قسم کے انجکشن کی عام اجازت دے دی جائے تو صاحب حیثیت حضرات اس کا استعمال عام کر دیں گے تاکہ وہ بھوک پیاس کی تکلیف کو کم سے کم کر سکیں اور یوں روزے کا ایک مقصد فوت ہو جائے گا۔

            رہی بات کانوں میں تیل ڈالنے یا آنکھوں میں سرمہ لگانے کی تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے علماء کے متشدد طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ معتدل قسم کے فقہاء کا خیال ہے کہ ان کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ ان کے استعمال سے نہ معدے تک کوئی غذا پہنچتی ہے اور نہ بدن میں کوئی مقوی شے جو بدن کو تقویت بخشے۔ میرے نزدیک یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہوتیں تو حضورؐ لازمی طور ان کے بارے میں لوگوں کو بتاتے کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہیں کیونکہ ان چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانہ میں بھی تھا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث نہیں ہے جس میں حضوؐر نے ان چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: زوال شمس سے قبل مسواک کرنا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے روزے کی حالت میں بھی اور عام دنوں میں بھی۔ زوال کے بعد مسواک کرنے کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک زوال کے بعد مسواک کرنا صرف مکروہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اس لیے روزے دار کو چاہیے کہ اس پسندیدہ چیز کو برقرار رکھے اور مسواک کرکے اسے زائل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شہیدوں کو ان کے خون آلودہ کپڑوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کی تلقین ہے کیونکہ قیامت کے دن ان کے خون آلود کپڑوں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔

            میری رائے یہ ہے کہ حدیث میں روزے دار کے منہ کو مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ قراردینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے برقرار بھی رکھا جائے۔ کیونکہ کسی صحابی سے مروی ہے کہ :

            ارایت النبی یتسوک مالا یحصی وھو صائم۔

            ’’میں نے نبیؐ کو اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا کہ جس کا کوئی شمار نہیں حالانکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔‘‘

            مسواک کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، حضوؐر کی سنت ہے اور حضوؐر نے بارہا اس کی ترغیب دی ہے۔ حدیث میں ہے:

            السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب

            ’’مسواک منہ کے لیے پاکی کا باعث اور خدا کی رضا کا موجب ہے۔‘‘

            اسی طرح دانتوں کی صفائی کے لیے روزے کی حالت میں پیسٹ کا استعمال بھی جائز ہے۔ البتہ اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ اس کا کوئی حصہ پیٹ میں نہ چلا جائے۔ کیونکہ جو چیز پیٹ میں چلی جاتی ہے روزہ توڑنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ روزے کی حالت میں پیسٹ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسٹ کا استعمال غایت درجہ احتیاط کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کا کچھ حصہ پیٹ میں چلا جائے تو میرے نزدیک اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ جان بوجھ کر اس نے وہ چیز پیٹ میں نہیں پہنچائی بلکہ غلطی سے چلی گئی اور اللہ کے نزدیک یہ بھول چوک معاف ہے۔ حدیث میں ہے:

            رفع عن امتی الخطا والنسیان وما استکر ھوا علیہ۔

            ’’میری امت بھول چوک کے معاملے میں اور زبردستی کوئی غلط کام کرائے جانے کے معاملے میں مرفوع القلم ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ قضا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت موجود ہے:

            فَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَر۔ (البقرہ:۱۸۵)

            ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔‘‘

            البتہ مسافت کی وہ مقدار جس پر سفر کا اطلاق ہو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ آپ نے جس مقدار کا تذکرہ کیا ہے، میرا خیال ہے کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اتنی مسافت کے سفر کو نماز قصر کرنے اور روزہ قضا کرنے کے لیے کافی تصور کیا جائے۔ کیونکہ جمہور فقہاء نے ۸۴ کلومیٹر کی مقدار کو متعین کیا ہے اور ۸۱ اور ۸۴ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ حضوؐراور صحابہؓ سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انھوں نے سفر کی پیمائش میٹر یا کلومیٹر سے کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک مسافت کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک ہر اس سفر کو جسے عرف عام میں سفر کہا جا سکے، اس میں نماز کی قصر اور روزہ کی قضا جائز ہے۔

            سفر کی حالت میں اس بات کا اختیار ہے کہ روزہ رکھا جائے یا اسے قضا کیا جائے۔ روایتوں میں ہے کہ صحابہؓ، حضوؐرکے ساتھ سفر پر ہوتے تھے۔ ان میں بعض روزے کی حالت میں ہوتے تھے اور بعض بغیر روزے کے ہوتے تھے۔ حضوؐر نے ان دونوں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی۔ یعنی دونوں ہی حضورؐ کی نظر میں یکساں تھے۔

            سفر اگر پر مشقت ہو اور اس میں روزہ رکھنا تکلیف دہ ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے بلکہ شاید حرام ہو کیونکہ روایت میں نبیؐ نے ایک شخص کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگ اس پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ وہ روزے کی وجہ سے بد حال تھا اور وہ مسافر بھی تھا۔ آپؐ نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ روزے سے ہے۔ آپ نے فرمایا:

            لیس من البر الصیام فی السفر۔ (بخاری)

            ’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔‘‘

            سفر اگر پر مشقت نہ ہو اور روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا اور اس کی قضا کرنا دونوں ہی جائز ہے جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا۔ البتہ اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ ان دونوں صورتوں میں افضل صورت کون سی ہے؟ بعض نے روزہ رکھنے کو افضل قرار دیا ہے جبکہ بعض نے روزہ چھوڑنے کو افضل قرار دیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں میں جو سب سے آسان ہو وہی افضل ہے۔ روایت میں ہے کہ حمزہ بن عامر الاسلمیؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ میں اکثر سفر پر رہتا ہوں۔ بسا اوقات رمضان میں بھی سفر کرتا ہوں، میںنوجوان ہوں اور بہ آسانی سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں۔ میرا روزہ رکھنا زیادہ افضل اور باعث اجر ہے یا روزہ قضا کرنا؟ آپؐ نے فرمایا:

            أی ذلک سئت یا حمزۃ۔(ابوداؤد)

            ’’ان دونوں میں سے جو تم چاہو اے حمزہ۔‘‘

            یعنی جو تمھیں آسان لگے وہی کرو اور وہی افضل ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضوؐرنے جواب دیا:

            ھی رخصۃ من اللہ لک فمن اخذبھا فحسن ومن احب ان یصوم فلا جناح علیہ۔ (نسائی)

            ’’یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے چھوٹ ہے جس نے اس چھوٹ سے فائدہ اٹھایا تو بہتر ہے اور جس نے روزہ رکھا تو کوئی حرج نہیں۔‘‘

            یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس آیت میں مسافر کے لیے روزے کی قضا کی اجازت دی ہے اس میں رخصت کی علت سفر بتائی ہے، نہ کہ سفر کی مشقت۔ اس آیت میں یہ نہیں بتایا کہ سفر میں مشقت ہو تو قضا کی رخصت ہے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف سفر کی بنا پر ہمیں یہ رخصت عطا کی ہے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ خواہ مخواہ کی باریکیوں میں پڑ کر اس رخصت کو برباد نہ کریں جو لوگ اکثر سفر میں رہتے ہیں وہ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ سفر بہ ذات خود تکلیف دہ ہوتا ہے، چاہے گاڑی کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا۔ انسان کا اپنے وطن سے دور ہونا بہ ذات خود پریشانیوں کا سبب ہے کیونکہ اس کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور انسان نفسیاتی طور پر بے چین رہتا ہے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ہمیں صرف سفر کی بنا پر یہ رخصت عطا کی ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: شافعی اور حنبلی مسلک کے لحاظ سے اگر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے آنے تک نہ ہو سکی تو ایسی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہؓ سے یہی منقول ہے۔ فدیہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ جمہور علماء کے نزدیک صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں۔

            میری رائے یہ ہے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا تو بہر حال لازمی ہے، اس سے کوئی مفر نہیں۔ البتہ فدیہ بھی ادا کر دیا تو زیادہ بہتر ہے ورنہ کوئی بات نہیں کیونکہ براہ راست حضوؐرسے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس میں فدیہ ادا کرنے کی بات ہو۔

            شک کی صورت میں انسان اسی پر عمل کرے جس کا اسے یقین ہو یا کم از کم غالب گمان ہو۔ بہرحال مزید اطمینان کی خاطر زیادہ روزے رکھ لینا بہتر ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: رمضان کے علاوہ شعبان وہ مہینہ ہے، جس میں حضوؐر روزے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کے مطابق صرف رمضان ہی ایسا مہینہ ہے، جس میں حضوؐر پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ بعض عرب ملکوں میںکچھ ایسے لوگ ہیںجو رجب شعبان اور رمضان تینوں مہینے لگاتار روزے رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ شعبان کے کچھ متعین ایام میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

            اسلامی شریعت میں یہ بات جائز نہیں کہ بغیر  شرعی دلیل کے کسی بھی دن یا مہینے کو روزے یا کسی دوسری عبادت کے لیے خاص کر لیا جائے۔ کسی دن کو کسی عبادت کے لیے خاص کرنا صرف شارع یعنی اللہ کا حق ہے۔ وہی ایسا کر سکتا ہے۔ کوئی بندہ نہیں۔ اسی لیے روزوں کے لیے ہم ان ہی ایام کو مخصوص کر سکتے ہیں، جن میں حضوؐر کا عمل موجود ہو۔ مثلاً حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضوؐر جب روزہ رکھنا شروع کرتے تو ایسا لگتا کہ اب ہمیشہ رکھیں گے۔ اور جب روزہ نہیں رکھتے تو ایسا لگتا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ حضوؐرسوموار اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ہر مہینے کے تین روشن دنوں میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔تا ہم ایسا کوئی ثبوت نہیںہے کہ شعبان کی کسی خاص تاریخ کو آپؐ نے روزے کے لیے مخصوص کیا ہو۔ (بحوالہ فتاوی یوسف القرضاوی جلد اول)

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: سادہ طریقہ ہے کہ جب آپ کو شعور ہوا ہے آپ فوراً نماز پڑھ لیں ۔ زندگی انسان کی محدود ہے ۔ کچھ پتہ نہیں کہ کب بلاوا آجائے۔ اگرآپ کی نماز رہ گئی کسی وجہ سے تو جیسے ہی آپ اس صورتحال سے نکلیں آپ فوراً نماز پڑھ لیں۔ اِلّا یہ کہ کوئی ممنوع وقت ہو اور ممنوع اوقات جو ہیں وہ دو ہی ہیں۔ یا طلوعِ آفتاب کا وقت ہے یاغروب آفتاب کا وقت۔ بس اس کو نکال لیجئے اور پھر پڑھ لیجئے۔

(جاوید احمد غامدی)

رسموں کی شریعت
سوال: چند اشکال درپیش ہیں۔ ان کے متعلق شرعی رہنمائی چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ میرے اطمینان کے لیے حسب ذیل امور پر روشنی ڈالیں گے۔
ا۔ایک مفلس مسلمان اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے۔ افلاس کے باوجود دنیا والوں کا ساتھ دینے کا بھی خواہشمند ہے، یعنی شادی ذرا تزک و احتشام سے کرے وقتی سی مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی رہنمائی کیسے کی جائے؟
ب۔ ایک مقروض مسلمان جو تمام اثاثے بیچ کر بھی قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، بیٹے بیٹیوں کی شادی کرنا چاہے تو فریق ثانی کی طرف سے ایسی شرائط سامنے آتی ہیں جو بہرحال صرفِ کثیر چاہتی ہیں تو اس کے لیے کیا راہ عمل ہے۔
ج: عموماً لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں اس کا انتظار کیا جاتا ہے کہ دوسری طرف سے نسبت کے پیغام میں پہل ہو،چنانچہ اسی انتظار میں بعض اوقات لڑکیاں جوانی کو طے کرکے بڑھاپے کی سرحد میں جا داخل ہوتی ہیں اور کنواری رہ جاتی ہیں۔ اس معاملے میں اسلام کیا کہتا ہے ؟
د: موجودہ مسلمان شادی بیاہ، پیدائش اور موت کی تقریبات پر چھٹی، چلہ، باجہ ، منگنی، جہیز اور اسی طرح چالیسواں، قل وغیرہ کی جو رسوم انجام دیتے ہیں ان کی حیثیت شریعت میں کیا ہے۔


جواب (1) ایسا شخص جو خود جانتا ہے کہ وہ اتنا خرچ کرنے کے قابل نہیں ہے۔اور محض دنیا کے دکھاوے اور اپنی غلط خواہشات کی تسکین کی خاطراپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا چاہتا ہےوہ تو جان بوجھ کر اپنے آپ کو معصیت کے گڑھے میں پھینک رہا ہے۔اپنی غلط خواہش کی وجہ سےیا تو وہ سودی قرض لے گایا کسی ہمدرد کی جیب پر ڈاکہ ڈالے گا۔اور اگر اسے قرض حسنہ مل گیا، جس کی اُمید نہیں ہے، تو ا سے مار کھائے گا۔ اور اس سلسلے میں خدا جانے کتنے جھوٹ اور کتنی بے ایمانیاں اس سے سرزد ہوگی۔ آخر ایسے شخص کو کیا سمجھایا جاسکتا ہے جو محض اپنے نفس کی غلط خواہش کی خاطر اتنے بڑے بڑے گناہ جانتے بوجھتے اپنے سر لینے پر آمادہ ہے۔
ب: ایسے شخص کو اپنےلڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان لوگوں میں کرنی چاہیےجومالی حیثیت سےاسی جیسے ہوں اور جو اس کے لیے تیار ہوں کہ اپنی چادر سے نہ وہ خود زیادہ پاؤں پھیلائیں اور نہ دوسرے کوزیادہ پاؤں پھیلانے مجبور کریں۔اپنے سے بہترمالی حالات رکھنے والوں میں شادی بیاہ کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو خوامخواہ مشکلات میں مبتلا کرنا ہے۔
ج:یہ صورت تو کچھ فطری سی ہے، لیکن اس کو حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کی لڑکی جوان اور شادی کے قابل ہو چکی ہو اور اسے کوئی مناسب لڑکا نظر آئے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے پیغام دینے میں ابتداء کرے۔ اس کی مثالیں خود صحابہ کرام میں ملتی ہیں۔ اگر یہ بات حقیقت میں کوئی ذلت کی بات ہوتی تو نبی کریمﷺ اس کو منع فرما دیتے۔
د۔ یہ سب چیزیں وہ پھندے ہیں جو لوگوں نے اپنے گلے میں خود ڈال لیے ہیں، ان میں پھنس کر ان کی زندگی اب تنگ ہوئی جارہی ہے، لیکن لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ان کو کسی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ براہ راست ان رسموں کے خلاف کچھ کہا جائے، بلکہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف دعوت دی جائے،خدا اور رسول ﷺ کے طریقے پر لوگ آجائیں۔ تو بڑی خرابیاں بھی دور ہوں گی اور یہ چھوٹی چھوٹی خرابی بھی نہ رہیں گی۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)