رمضان الکریم

قرآن مجید میں روزے کے جو احکام بیان ہوئے ہیں، ان میں عارضی طور پر روزے کا فدیہ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ اجازت ختم کر دی گئی۔'' جو آیت 'شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ' کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے، اُس میں فدیے کی اجازت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حکم کوبعینہٖ دہرا کر اُس میں سے 'وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ،' سے 'اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ' تک کے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔ رمضان کے بعد عام دنوں میں روزہ رکھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے ، اِس لیے جب تک طبائع اِس کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہو گئیں، اللہ تعالیٰ نے اِسے لازم نہیں کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے کہ فدیے کی یہ اجازت اِس لیے ختم کردی گئی ہے کہ تم روزوں کی تعداد پوری کر و اور جو خیروبرکت اُس میں چھپی ہوئی ہے، اُس سے محروم نہ رہو۔''
اصل میں بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ رمضان گزرنے کے بعد چھوٹنے والے روزے پورے کیے جائیں 
میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ ممکن ہے اس کا کوئی حل نکل آئے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کچھ روزے چھوڑ دیا کریں اور رمضان کے بعد تعداد پوری کر لیا کریں۔علما فدیے کا آپشن اب صرف ان مریضوں کے لیے بیان کرتے ہیں جن کا مرض مستقل نوعیت کا ہواور روزے رکھنا اب ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہو۔ میرا خیال نہیں ہے کہ آپ اس نوع سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا مناسب علاج کرائیں اور جب تک ٹھیک نہ ہوں، کچھ روزے چھوڑ کر بعد میں تعداد پوری کر لیں۔آپ نے کہا کہ آپ نقاہت محسوس کرنے کی وجہ سے خوش دلی سے روزے نہیں رکھ پاتیں۔ اگر آپ یہ بات اپنے سامنے رکھیں کہ اس مشقت کو جھیلنے میں آپ کا اجر دوسرے روزے داروں سے زیادہ ہے تو یہ نفسیاتی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔

 

(طالب محسن)

جواب : جمعۃ الوداع کے لئے کوئی خصوصی عبادت شریعت نے مقرّر نہیں کی، رمضان المبارک کی ہر رات اور ہر دن ایک سے ایک اعلیٰ ہے، خصوصاً جمعہ کا دن اور جمعہ کی راتیں، اور علی الخصوص رمضان کے آخری عشرے کی راتیں، اور ان میں بھی طاق راتیں۔ ان میں تلاوت، ذکر، نوافل، اِستغفار، دْرود شریف کی جس قدر ممکن ہو کثرت کرنی چاہئے۔

(محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران)

جواب : الحمد للہ: رمضان المبارک شروع ہونے کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو رمضان المبارک آنے کی خوشخبری دیتے اور انہیں اس کا خیال رکھنے پر ابھارتے تھے.ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے پاس بابرکت مہینہ آیا ہے، اللہ تعالی نے اس کے روزے تم پر فرض کیے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور سرکش قسم کے شیاطین پابندسلاسل کر دیے جاتے ہیں، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی بھلائی اور خیر سے محروم کر دیا گیا تو وہ محروم ہے"۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :رمضان کے دوران میں شیاطین کا قید کر دیا جانا صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے۔ (بخاری )اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کے نفس میں گناہ کا داعیہ ہی سرے سے باقی نہیں رہتا۔ روزے کی حالت میں شیاطین کو وسوسہ اندازی سے روک دیا جاتا ہے` لیکن انسان اپنی نفسانی کمزوریوں کے تحت گناہ کی طرف مائل بھی ہو سکتا ہے اور اس کا مرتکب بھی۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

جواب: رمضان کے علاوہ شعبان وہ مہینہ ہے، جس میں حضوؐر روزے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کے مطابق صرف رمضان ہی ایسا مہینہ ہے، جس میں حضوؐر پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ بعض عرب ملکوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو رجب شعبان اور رمضان تینوں مہینے لگاتار روزے رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ شعبان کے کچھ متعین ایام میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

اسلامی شریعت میں یہ بات جائز نہیں کہ بغیر شرعی دلیل کے کسی بھی دن یا مہینے کو روزے یا کسی دوسری عبادت کے لیے خاص کر لیا جائے۔ کسی دن کو کسی عبادت کے لیے خاص کرنا صرف شارع یعنی اللہ کا حق ہے۔ وہی ایسا کر سکتا ہے۔ کوئی بندہ نہیں۔ اسی لیے روزوں کے لیے ہم ان ہی ایام کو مخصوص کر سکتے ہیں، جن میں حضوؐر کا عمل موجود ہو۔ مثلاً حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضوؐر جب روزہ رکھنا شروع کرتے تو ایسا لگتا کہ اب ہمیشہ رکھیں گے۔ اور جب روزہ نہیں رکھتے تو ایسا لگتا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ حضوؐرسوموار اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ہر مہینے کے تین روشن دنوں میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔تا ہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ شعبان کی کسی خاص تاریخ کو آپؐ نے روزے کے لیے مخصوص کیا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: آپ کو صرف اس چیز کا اجر ملے گا جو آپ نے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کی ہو گی۔ یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ہے۔یعنی کہ آپ نے کسی کا روزہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے افطار کروایا ہے تو اجر ملے گا۔ سیاسی افطار پارٹیوں کی رسم جن لوگوں نے قائم کی ہے، ان لوگوں کے پیش نظر نہ اجر و ثواب ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ثواب کمانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ کیا ان سیاسی افطار پارٹیوں میں ان لوگوں کو افطار پر بلایا جاتا ہے، جن کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ پہلے آپ یہ سوچیں کہ آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں یہ ایک رسم کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی افطار پارٹیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ بہتر ہے آدمی رمضان میں باہر چلا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افطار پارٹیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ آدمی کس کو انکار کرے اور کس کو انکار نہ کرے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ روزے کی اصل حقیقت گم ہو گئی ہے۔ روزہ اس لیے تھا کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں، یعنی اپنے آپ کو حدود کا پابند کریں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مجسم بن کر رہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ نے رمضان کا جو روزہ توڑا وہ عذر کی وجہ سے توڑا اس لیے اس کا کفارہ آپ کے ذمہ نہیں بلکہ صرف قضا لازم ہے اور جو روزے آپ بیماری کی وجہ سے نہیں رکھ سکیں ان کی جگہ بھی قضا روزے رکھ لیں۔ آئندہ بھی اگر آپ رمضان مبارک میں بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں تو سردیوں کے موسم میں قضا رکھ لیا کریں، اور اگر چھوٹے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان روزوں کا فدیہ ادا کردیں، ایک دن کے روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: کفارے کے ساٹھ روزے لگاتار رکھنا ضروری ہے، اگر درمیان میں ایک دن کا بھی ناغہ ہو گیا تو گزشتہ تمام روزے کالعدم ہو جائیں گے اور نئے سرے سے شروع کرکے ساٹھ روزے پورے کرنا ضروری ہوں گے۔ لیکن عورتوں کے ایام حیض کی وجہ سے جو جبری ناغہ ہوجاتا ہے وہ معاف ہے، ایام حیض میں روزے چھوڑ دے، اور پاک ہوتے ہی بغیر وقفہ کے روزہ شروع کر دیا کرے۔ یہاں تک کہ ساٹھ روزے پورے ہو جائیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س: اس مرتبہ رمضان المبارک میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا وہ یہ کہ میں روزہ سے تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو تلاوت کرنے بیٹھ گیا پانچ بجے تلاوت ختم کی اور افطاری کے سلسلے میں کام میں لگ گیا۔ واضح ہو کہ میں گھر میں اکیلا رہ رہا ہوں، سالن وغیرہ بنایا۔ حسب معمول شربت وغیرہ بنا کر رکھا۔ باورچی خانہ سے واپس آیا تو گھڑی پر ساڑھے پانچ بجے تھے۔ اب میرے خیال میں آیا کہ چونکہ روزہ پانچ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے، چالیس منٹ پر کچھ پکوڑے بنا لوں گا۔ خیر اپنے خیال کے مطابق چالیس منٹ پر باورچی خانہ میں گیا۔ پکوڑے بنانے لگا۔ پانچ بن کر پچا س منٹ پر تمام افطاری کا سامان رکھ کر میز پر بیٹھ گیا۔ مگر اذان سنائی نہ دی ایئر کنڈیشن بند کیا۔ کوئی آواز نہ آئی۔ پھر فون پر وقت معلوم کیا تو ۵۵:۵ ہو چکے تھے میں نے سمجھا اذان سنائی نہیں دی ممکن ہے مائیک خراب ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو، اور روزہ افطار کر لیا۔ پھر مغرب کی نماز پڑھی۔اس کے بعد اچانک خیال آیا کہ روزہ تو چھ بج کر پچاس منٹ پر افطار ہوتا ہے۔ بس افسوس اور پشیمانی کے سوا کیا کر سکتا تھا پھر کلی کی۔ چند منٹ باقی تھے۔ دوبارہ روزہ افطار کیا مغرب کی نماز پڑھی۔ براہِ کرم آپ مجھے اس کوتاہی کے متعلق بتائیں کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو صرف قضا واجب ہے یا کفارہ؟ اور اگر کفارہ واجب ہے تو کیا میں صحت مند ہوتے ہوئے بھی ساٹھ مسکینوں کو بطور کفارہ کھانا کھلا سکتاہوں؟

ج: آپ کا روزہ تو ٹوٹ گیا مگر چونکہ غلط فہمی کی بناء پر روزہ توڑ لیا اس لیے آپ کے ذمہ صرف قضا واجب ہے کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج: اگر خون منہ سے نکل رہا تھا۔ اس کو تھوک کے ساتھ نگل گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔ البتہ اگر خون کی مقدار تھوک سے کم ہو اور حلق میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے:

            اغنوھم فی ھذا الیوم۔

            ’’اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔‘‘

(علامہ یوسف القرضاوی)