سورہ انفال

جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

                        ‘‘ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتیٰ یثخن فی الارض---’’(انفال ۸ : ۶۷،۶۸،۶۹) مولانا مودودی رحمہ اللہ کا ترجمہ درج ذیل ہے:

            ‘‘کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح سے کچل نہ دے۔تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے، اللہ غالب اور حکیم ہے۔اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی، پس جو کچھ مال تم نے حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔’’

            اکثر مترجمین نے اسی طرح کا ترجمہ کیا ہے۔

            لیکن مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کا ترجمہ اس سے مختلف ہے اور وہ یہ ہے :

            ‘‘ کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قیدی ہاتھ آئیں یہاں تک کہ وہ اس کے لیے ملک میں خونریزی برپا کر دے۔یہ تم ہو جو دنیا کے سرو سامان کے طالب ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے۔اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی ہے اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آ دھمکتا۔

            پس جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کو حلال اور طیب سمجھ کر کھاؤ برتو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ’’

            ان دونوں ترجموں میں کس قیامت کا فرق ہے اسے واضح کرنے کے لیے میں ان ترجموں کی وضاحت کرنے والی عبارتوں کو بریکٹوں میں لکھ کر دوبارہ انھی ترجموں کو پیش کرتا ہوں۔

            پہلا ترجمہ:‘‘کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح سے (ان کا خون بہا کر ) کچل نہ دے۔ (اے محمدؐ ، ابو بکر اور دیگر بدری صحابہ ) تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے، اللہ غالب اور حکیم ہے۔اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا (کہ تم پر عذاب نہیں آنا) تو (قیدیوں کا فدیہ وغیرہ)جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں (اے محمدؐ ، ابو بکر اور دیگر بدری صحابہ ) تم کو ( عذاب عظیم کی نوعیت کی) بڑی سزا دی جاتی، پس (ہم نے معاف کیاچنانچہ) جو کچھ مال تم نے حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔’’

            دوسرا ترجمہ:‘‘ کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قیدی ہاتھ آئیں یہاں تک کہ وہ اس (قیدی حاصل کرنے ہی ) کے لیے ملک میں خونریزی برپا کر دے۔ (اے قریش مکہ )یہ تم ہو جو دنیا کے سرو سامان کے طالب ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے۔اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو (اے قریش مکہ نبی کے ساتھ دشمنی کی )جو روش تم نے اختیار کی ہے اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آ دھمکتا۔ پس (اے مسلمانوں) جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کو حلال اور طیب سمجھ کر کھاؤ برتو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ’’

            مزید وضاحت کے لیے آپ تفہیم القرآن، تدبر قرآن اور دیگر تفاسیر دیکھ سکتے ہیں۔بنیادی فرق میں نے واضح کر دیا ہے۔اگر ہم مولانا اصلاحی کے ترجمے سے اتفاق کرتے ہیں تو اس کے مقابل آنے والی تمام احادیث کی اس ترجمے کے مطابق توجیہہ کی جائے گی۔ اگر توجیہہ ممکن نہ ہوئی تو پھر انھیں خلاف قران قرار دے کر رد کر دیا جائے گا۔

             مولانا اصلاحی نے ان آیات کے حوالے سے دیگر مفسرین سے کو ئی صرفی و نحوی اختلاف نہیں کیا بلکہ آپ نے آیات کے اسلوب بیان میں اور ان میں خطاب کا رخ متعین کرنے میں دیگر مفسرین سے اختلاف کیا ہے۔ یہ اختلاف کیا ہے ؟ اسے میں نے بریکٹوں میں درج شدہ الفاظ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)