مختلف گیمز کا حکم

جواب: کھیل کے سلسلے میں شریعت کے بنیادی اصول یہ ہیں۔ جن کھیلوں کی احادیث و آثار میں ممانعت آگئی ہے وہ ناجائز ہیں جیسے نرد،شطرنج کبوتر بازی اور جانوروں کو لڑانا ۔ جو کھیل کسی حرام و معصیت پر مشتمل ہوں وہ ا س معصیت یا حرام کی وجہ سے ناجائز ہوں گے ۔ جو کھیل فرائض اور حقوق واجبہ سے غافل کرنے والے ہوں وہ بھی ناجائز ہیں ۔جس کھیل کا کوئی مقصد نہ ہو بلا مقصد محض وقت گزاری کے لیے کھیلا جائے وہ بھی ناجائز ہوگا کیوں کہ یہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ایک لغو کام میں ضائع کرنا ہے۔ جو کھیل بدن کی ورزش، صحت اور تندرستی باقی رکھنے کے لیے یا کسی دوسری دینی و دنیوی ضرورت کے لیے یاکم از کم طبیعت کا تکان دور کرنے کیلیے ہوں اوران میں غلو نہ کیا جائے کہ انہی کو مشغلہ بنالیا جائے اور ضروری کاموں میں ان سے حرج پڑ نے لگے تو ایسے کھیل شرعاً مباح اور دینی ضرورت کے نیت سے ہوں تو ثواب بھی ہے۔

 مذکورہ بالا اصول کو سامنے رکھ کر سوال میں مذکورہ کھیلوں کا جائز ہ لیا جاسکتاہے۔سوال میں اسنوکر اور بلئیر کا تذکرہ ہے جس کی حقیقیت اور کیفیت کا ہمیں علم نہیں ہے اس لیے اس کا حکم ذکر کرنے سے گریز ہے۔ تاش:کھیلنے کو فقہاء نے منع کیا ہے اس لیے کہ اس میں ایک تو تصاویر ہوتی ہیں اور بالعموم اس سے جوا کھیلا جاتا ہے، فساق و فجار کے کھیلنے کا معمول ہے، اسی طرح انہماک بھی غیر معمولی ہوتا ہے، اس لیے تاش کھیلنا ناجائز ہے۔ہاں تعلیمی تاش جس میں حروف سے الفاظ بنائے جاتے ہیں جو بذات خود تعلیمی طور پر مفید ہے عام طور پر اس سے جوا نہیں کھیلا جاتا ہے اس لیے اگر اس میں بے جاانہماک نہ ہو تو جائز ہے۔ کیرم بورڈ: اس کھیل میں بذات خود کوئی بات ناجائز نظر نہیں؛ البتہ اس میں بعض اوقات انہماک اتنا ہوجاتا ہے جو فرائض سے غافل کردیتا ہے ایسا انہماک بالکل ممنوع ہے البتہ جسمانی یا ذہنی تھکن دور کرنے کے لیے دوسرے ممنوعات سے بچتے ہوئے اگر کچھ وقت کے لیے کھیل لیا جائے تو گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ لوڈو:کا بظاہر وہی حکم ہے جو کیرم بورڈ کا ہے بشرطیکہ کوئی اور ممنوع چیزمثلاً تصویر وغیرہ نہ ہو۔ وڈیوگیمز: جدید کھیلوں میں اس کا رواج بہت بڑھ رہا ہے اصولی طور پر یہاں بھی کھیلوں کے مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھا جائے گا وڈیوگیمز میں اگر جاندار کی تصاویر ہوں تو یہ جائز نہیں ہے۔اوراگر جاندار کی تصاویر نہ ہوں بلکہ گاڑی یا جہاز کی تصاویر وغیرہ ہو اور صرف تفریح کے لیے کھیلا جائے تو ان شرائط کیساتھ جائز ہوگا۔ اس میں جوا شامل نہ ہو۔ نماز ضائع نہ ہو۔ حقوق العباد پامال نہ ہوں ۔ پڑھائی اور ضرور ی کام متاثر نہ ہوں ۔ اسراف نہ ہو۔ مذکورہ تمام کھیل مذکورہ شرائط کے ساتھ جائز ہیں لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ان شرائط کی رعایت نہیں ہوپاتی ہے بلکہ بعض کھیل جنون کی حد تک پہنچ جاتے ہیں جیسے وڈیو گیمز وغیرہ اس لیے گو اصولی طور پر یہ جائز ہیں لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے عدم جواز تک پہنچ جاتے ہیں اس لیے اس طرح کے کھیلوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )