جوا اور لاٹری

جواب۔ جوا ایک معروف و معلوم چیزہے۔ اِس میں بغیر حق کے ایک آدمی کی رقم دوسرا آدمی محض اتفاق کی بنا پر حاصل کرلیتا ہے۔ جیسے آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے کو دیکھ کر کوئی یہ کہے کہ اگر یہ دائیں طرف مڑ گیا تو تم مجھے سو روپیہ دے دینا اور اگر بائیں طرف مڑا تو میں تمہیں سو روپیہ دوں گا۔ رقم کا اِس طرح کا لین دین جوا ہے۔ جوا ، لاٹری پانسہ تیر سب شیطانی کام ہیں اور حرام ہیں آج یہ نئی نئی شکلوں میں ظاہر ہو رہے ہیں، بہرحال یہ جس شکل میں بھی ظاہر ہوں، صریح حرام ہوں گے۔ آج کل اِن کی جوشکلیں رائج ہیں ، اِن میں سے بعض کو ہم سٹہ بازی ،لاٹری ، بعض انعامی سکیموں اور اِس طرح کی دوسری چیزوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ ریفل ٹکٹ وغیرہ کام عوام کی بہبود کے لیے کیے جائیں یا اُن کی بربادی کے لیے،جب یہ اصولاً جوئے کی شرائط پر پورا اترتے ہیں تو جوا ہی ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ لاٹری اور جوئے سے حاصل کیے ٹکٹ سے حج و عمرہ کرنا ناجائز ہے۔قرض لے کر حج و عمرہ کرنے کا ہمیں کہا نہیں گیا ۔ حج فرض ہی تب ہوتا ہے جب آدمی اُس کی استطاعت رکھتا ہو۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ اسلامی شریعت کا بنیادی مقصد انسانی نفس کا تزکیہ اور طہارت ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ معاشی سرگرمیاں انسانی کردار پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ایسی تمام سرگرمیاں جن سے آئینہ روح دھندلا جاتا ہو اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ایک جوئے باز کی خصوصیات پر نظر کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ

۱۔ ایک جواری کی تمام سرگرمیاں چانس کے ارد گرد گھومتی ہیں اور اس میں اس کی کوئی فنی صلاحیت یا محنت شامل نہیں ہوتی اور یہ عمل اسے بزدلی اور توہمات کی طرف لے جاتا ہے۔

۲۔ اس میں محنت کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے جس سے اس کے لیے اور اس کے خاندان کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔

۳۔ وہ خود غرضی اور کمینگی کا بھی شکار ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی زیاد ہ سے زیادہ حصول کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنس کر رہ جاتی ہے اوروہ اسی امید پر نقصان پر نقصان کرتا رہتا ہے کہ شاید اب کے مل جائے اسی شاید شاید میں زند گی ختم ہو جاتی ہے۔

۴۔ وہ اعلی اخلاقی اقدار سے بے بہر ہ ہو جاتا ہے اور زندگی کا کوئی نصب العین نہیں رہ جاتا۔

لازم نہیں کہ یہ تمام خصوصیات ایک ہی وقت میں پیدا ہوں یا کہ یہ اپنی پوری اور مکمل شکل میں ہوں لیکن بہر حال ان کا وجود ظاہر ضرور ہوتا ہے جبکہ اسلام ایسی تمام راہوں پہ قدغن لگاتا ہے جو اس قسم کی صورت حال تک پہنچا سکتی ہوں۔اور عموما اسلام حقیقی برائی کا آغاز ہونے سے بہت قبل ایک لائن کھینچ دیتا ہے تا کہ امکان کے درجے کی چیز بھی باقی نہ رہے۔

ریس میں شرط لگانا بھی جو ا ہے۔انویسٹمنٹ اور شرط بازی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ حقیقی محنت اور سرمائے کے وجود سے معاشی سرگرمی پیداہو اور اس سرگرمی کے نتیجے میں وجود میں آنے والی رقم مارکیٹ میں آئے جو معاشرے کی اجتماعی بہبود پر صرف ہولیکن ریس میں اس قسم کی کوئی صورت نہیں ہوتی ۔ دوسرے یہ کہ آپ میں ایک گھوڑے کی صلاحیت پرکھنے اور پیشنگوئی کرنے کی کتنی ہی صلاحیت کیوں نہ ہوبے یقینی کا عنصر پوری طر ح موجود رہتا ہے۔

(شہزاد سلیم)