ثواب اور اجر

جواب:  کسی بھی نیک کام کرنے کے بعد آپ کو اس کا جو اجر ملتا ہے، وہ ثواب کہلاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اچھے اور بھلائی کے کام کریں۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ترغیب دینے کی غرض سے بعض مواقع پر اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان اور جمعہ کے دن کا ہے۔ ان میں آپ نیکی کرتے ہیں تو اس کا اجر آپ کو زیادہ ملتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اجر زیادہ اور کم اسی نیکی کا ہے ، جو آپ نے کی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے جو جرائم کیے ہیں، وہ بھی ختم ہوگئے۔ یہ نیکی ان فرائض کے برابر نہیں ہو گی، جن کو آپ نے پورا کرنا تھا۔ اگر کسی کے ساتھ آپ نے کوئی زیادتی کی ہو گی یا کوئی ظلم کیا ہو گا تو اس کی سزا آپ کوبھگتنا ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: جو آدمی ناجائز کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق مارتا ہے۔ اس کوجان بچانی مشکل ہو گی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی آدمی لوگوں کے حقوق نہیں دیتا تو وہاں اس کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سوائے نیکیوں کے کہ ان سے تبادلہ کر لے۔ اگر کوئی لوگوں کو تنگ کرتاہے، طرح طرح کے جرم کرتا ہے اور اس کے بعد وہ نماز پڑھتا ہے۔ نماز سے جو اجر ملتا ہے، روزے سے جو اجر ملتا ہے، اس کا ثواب حقوق العباد ادا نہ کرنے کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔ اس کی آپ کو عملی طور پر تلافی کرنی چاہیے، لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔اصل میں آپ پر کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ یہ فرائض آپ پر خدا کے حوالے سے بھی عائد ہوتے ہیں اور کچھ انسانوں کے حوالے سے بھی۔ لوگوں کی یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جنت اہلیت کے بغیر مل جائے گی، آپ پہلے اپنے آپ کو جنت میں جانے کا اہل ثابت کریں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے ساری زندگی بے شمار نمازیں پڑھی ہیں۔ کوئی لیلتہ القدر ایسی نہیں، جس میں اس نے عبادت نہیں کی، ہر سال حج کیا ہے۔لیکن ایک معصوم انسان کو قتل کر دیا ہے تو اس کا جنت میں جانے کا استحقاق ختم ہو گیا، اسی طرح ایک آدمی ظلم کرتا ہے، اس کے والد نے جو میراث چھوڑی، وہ اس کی صحیح تقسیم نہیں کرتا۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

            پہلا مسئلہ تو جنت جانے کے لیے اہل ثابت کرنا ہے۔جنت میں جانے کا اہل ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جو جنت میں جانے سے روکے۔ میں نے آپ کو دو جرائم کی مثال دی ہے۔ ان کے بارے میں قرآن مجید میں بالکل واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی آدمی جنت میں نہیں جا سکتا ۔ اسی طرح قرآن میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ وہ آدمی جو تکبر کرتا ہے اور تکبر کی تعریف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ کسی صحیح چیز کے مقابلے میں انانیت کی وجہ سے ڈٹ جاتا ہے اور لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ داخل ہو سکتا ہے، وہ جنت میں نہیں جا سکتا۔ اگر آپ لیلۃ القدر یا کسی اور رات میں بہت معافی مانگتے ہیں۔ بے شمار استغفار کرتے ہیں۔ آپ حج پر چلے جاتے ہیں، مگر آپ نے کسی کے پلاٹ پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے، جب تک آپ اسے مالک کو نہیں لوٹاتے، کیسی معافی اور کیسا ثواب؟

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  غریب آدمی کے پاس بھی اتنے ہی مواقع ہیں، جتنے امیر آدمی کے پاس ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا کلمہ منہ سے نکالنا اور راستے سے کانٹے اٹھانا بھی بہت بڑی نیکیاں ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  یہ نیکیاں الگ ہیں، مگر اس کے علاوہ بھی تو وہ کئی نیکیاں کما سکتے ہیں۔ پتا نہیں امیر آدمی زکوٰۃ، خیرات کرتا ہو، لیکن اس نے کتنے جرائم کیے ہوں، نیکی کمانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے کسی کودولت کا محتاج نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار راستے رکھے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جس نے کوئی کام محض اللہ کے لیے کیا ہو گا، اس کو صلہ ملے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس نے یہ کام کس کے لیے کیا۔ اگر کسی نے کام اللہ کے لیے کیا ہو گا تو اس کو اس کا اجر ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  اللہ تعالیٰ نے جتنی مہلت امتحان کے لیے دی ہے، اسی کی نسبت سے یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ میں وہاں پر کسی سے ظلم نہیں کروں گا، دنیا میں بھی ایسا ہی ہے کہ ایک کو ہم امتحان کے لیے دو گھنٹے دیتے ہیں او ر دوسرے کو پانچ تو اس وقت کی نسبت سے ہم پیپر کے نمبر لگاتے ہیں۔دو گھنٹے کے پیپر کے بھی سو نمبر اور پانچ گھنٹے کے پیپر کے بھی سو نمبر۔ جب ہم درست اندازہ لگا سکتے ہیں تو اللہ کے لیے کیا مشکل ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جتنی مہلت اس نے آپ کو دی، اس میں آپ نے کیا کیا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  اگر وہ اس جذبے سے کرے کہ اگر میرے والدین ہوتے تو ان کی خدمت میں اسی طریقے سے کرتا۔ خدا کا بڑا کرم ہے کہ آپ کو ارادے پر نیکی ملتی ہے۔ اگر آپ نے خیر کا ارادہ کر لیا اور موقع نہیں ملا تو ثواب ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ لوگوں کے حقوق ادا کریں اور ان کے ساتھ احسان کریں،انسانو ں کے ساتھ آپ کا اخلاقی رویہ بنیاد ی کردار ادا کرے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  یہ تو آپ کی نیت پر ہے کہ آپ نے سمجھا کہ وہ مستحق تھا، اس نے ثابت کیا کہ وہ مجرم ہے، آپ نے تو نہیں کیا۔ آپ کا اجر’ آپ کی نیت اور آپ کے ارادے پر ہے، یہ کسی دوسرے کی وجہ سے نہیں ملتا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جو ذکر و اذکار کرتا ہے، وہ اللہ تعالی کی پاکی بیان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتا ہے، اس کے ایمان کا اظہار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اجر اسے ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جواری، شرابی ہونے کی وجہ سے پہلے وہ جہنم میں جائے گا، پھر اجر ملے گا۔ پہلے تو وہ گناہ معاف ہوں گے، جنت میں جانے کے لیے پہلے ان گناہوں سے بچنا ہے۔ جو لوگ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں، ان کے لیے جنت ہے، پہلے تو آپ ان باتوں سے بچیں اور اگر کوئی کام کر بیٹھے ہیں تو توبہ کیجیے اور اگر کوئی زیادتی آپ نے کسی کے ساتھ کی ہے تو تلافی کیجیے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے بدکاری کی تو یہ تو اللہ تعالیٰ کا جرم ہے۔ اس پر معافی مانگ لے تو ہو سکتا ہے کہ وہ کریم معاف کر دے، لیکن ایک شخص نے کسی آدمی کو مار ڈالا، کسی آدمی کا مال لوٹ لیا، کسی کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اس میں صرف توبہ کام نہیں کر سکتی۔ تلافی کرنا پڑے گی۔ آپ کو اس بندے کو راضی کرنا ہو گا۔ دنیا میں راضی کرنا پڑے گا۔ اگر موقع نہیں ہے تو قیامت میں راضی کرنا ہو گا۔اور وہاں نیکیاں دے کر راضی کرنا ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ بنیادی بات لوگوں تک پہنچانی چاہیے کہ جنت میں جانے کے لیے کچھ جرائم ہیں،جن سے بچنا ضروری ہے اور کچھ نیکی کے کام ہیں جن کا کرنا ضروری ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مفسر بننا یا دین کا عالم بننا باعث اجر نہیں بلکہ باعث اجر یہ ہے کہ جس میدان کا آپ نے انتخاب کیا ہے اس میں آپ کارویہ کیا ہے؟ آپ نے کس حد تک اس کا حق ادا کیا ہے اور اس میدان میں کس حد تک اللہ کے احکام کے آگے سر نگوں کیا ہے اور اس کو کس حد تک مخلوق خداکی خدمت کے لیے استعمال کیا ہے اور کس حدتک اس کے غلط استعمال سے پرہیز کیا ہے۔ قیامت کا فیصلہ اس پر ہو گا۔ کسی انسان کوخدا نے سائنس دان بننے کی صلاحیت دی کسی کو شاعر اور ادیب بننے کی ۔تو اسی کے لحاظ سے معاملہ ہو گا۔ عالم بننا تو بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔اسی نسبت سے اتناہی بڑا امتحان ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ قیامت میں ایک ریڑھی لگانے والا یا ایک پھل بیچنے والا پیچھے رہ جائے گا اورمفسر محدث یاعالم آگے نکل جائے گا۔ ہو سکتاہے کہ یہ لوگ قیامت میں بڑے بڑے مفسرین سے آگے کھڑے ہوں۔ جتنا زیادہ علم ہو گا اسی لحاظ سے پرسش بھی زیادہ ہو گی

(جاوید احمد غامدی)