غسل کے مسائل

جواب: جنبی شخص کے لیے نماز ادا کرنے سے قبل غسل کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا

‘‘اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اور طہارت اختیار کرو’’۔ (المائدہ:۶)

اور اگر پانی کی غیرموجودگی، یا پھر کسی عذر یعنی پانی استعمال کرنے میں بیماری کو ضرر ہو، یا پھر شدید سردی میں پانی استعمال کرنے سے بیماری میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہو، یا پانی گرم کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو وغیرہ کی بناپر انسان پانی استعمال کرنے سے عاجزہو تو غسل کی جگہ تیمم کرسکتا ہے، کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا (المائدہ:۶)

‘‘اور اگر تم مریض ہو یا مسافر یا تم میں سے کوئی ایک قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو، پھر تم نے بیوی سے جماع کیا ہو اور تمھیں پانی نہ ملے تو پاکیزہ اور طاہرمٹی سے تیمم کرلو’’۔

اس آیت میں دلیل ہے کہ جو مریض شخص پانی استعمال نہ کرسکتا ہو یا پھر اسے غسل کرنے سے موت کا خدشہ ہو، یا مرض زیادہ ہونے کا، یا پھر مرض سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا تو وہ تیمم کرلے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تیمم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ (المائدہ:۶)

‘‘تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس مٹی سے مسح کرو’’۔

شریعت ِ اسلامیہ کے اس حکم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (المائدہ:۶)

‘‘اللہ تعالیٰ تم پر کوئی تنگی نہیں کرنا چاہتا، لیکن تمھیں پاک کرنا چاہتا ہے، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو’’۔ (دیکھیں تبصرۃ الاحکام:۲۶/۱، اور الموسوعۃ الفقھیۃ: ۲۹۵/۳۳)

اور سیدنا عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں: ‘‘غزوہ ذاتِ سلاسل کی شدید سرد رات میں مجھے احتلام ہوگیا۔ اس لیے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہوجاؤں گا اس لیے میں نے تیمم کرکے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھا دی۔ چنانچہ اُنھوں نے اس واقعہ کا نبی کریمؐ کے سامنے ذکر کیا تو رسول کریمؐ فرمانے لگے: اے عمرو! کیا تم نے جنابت کی حالت میں ہی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی تھی؟ میں نے رسول کریمؐ کو غسل میں مانع امر کا بتایا اور کہنے لگا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا فرمان سنا ہے: وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا (النساء:۲۹) ‘‘اور تم اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والاہے’’۔

چنانچہ رسول کریمؐ مسکرانے لگے اور کچھ بھی نہ فرمایا۔ (سنن ابوداؤد:۳۳۴)

حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں: ‘‘اس حدیث میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ سردی وغیرہ کی بنا پر اگر پانی استعمال کرنے سے ہلاکت کا خدشہ ہو تو تیمم کیا جاسکتا ہے، اور اسی طرح تیمم کرنے والا شخص وضو کرنے والوں کی امامت بھی کروا سکتا ہے’’۔

اور شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کہتے ہیں: ‘‘اگر تو آپ گرم پانی حاصل کرسکیں، یا پھر پانی گرم کرسکتے ہوں یا پھر اپنے پڑوسیوں وغیرہ سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ کے لیے ایسا کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ یعنی ‘‘اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو’’۔ اس لیے آپ اپنی استطاعت کے مطابق عمل کریں، یا تو پانی گرم کرلیں یا پھر کسی سے خرید لیں، یا پھر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ جس سے آپ پانی کے ساتھ شرعی وضو کرسکیں۔ لیکن اگر آپ ایسا کرنے سے عاجز ہوں، اور شدید سردی کا موسم ہو اور اس میں آپ کو خطرہ ہو، اور نہ ہی پانی گرم کرنے کی کوئی سبیل ہو اور نہ ہی اپنے اردگرد سے گرم پانی خرید سکتے ہوں تو آپ معذور ہوں، بلکہ آپ کے لیے تیمم کرنا ہی کافی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مذکورہ فرمان ہمیں یہی بتاتا ہے اور ایک مقام پر فرمانِ باری ہے: فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ

‘‘چنانچہ اگر تمھیں پانی نہ ملے تو تم پاکیزہ مٹی سے تیمم کرو اور اپنے چہروں اور ہاتھ پر مٹی سے مسح کرو’’۔

 ‘‘اور پانی استعمال کرنے سے عاجز شخص کا حکم بھی پانی نہ ملنے والے شخص کا ہی ہے’’۔(مجموع الفتاویٰ ابن باز: ۱۹۹/۱۰، ۲۰۰)

جہاں تک آپ کے خاص سوال کا تعلق ہے تو آپ کو چاہیے کہ جتنے جسم کا آپ غسل کرسکتے ہیں، اس کاغسل کرلیں، مثلاً اگر آپ کے لیے کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو تو بازو اور ٹانگیں وغیرہ جو کچھ دھو سکتے ہیں وہ دھو لیں، اور پھر تیمم کرلیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد از جلد شفایاب کرے، اور آپ کی بیماری کو آپ کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بنائے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

ج: پورے کا پورا دین تطہیر اور تزکیے پر مبنی ہے۔ ہمارے دین کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو جسمانی، نفسی، روحانی، عقلی ، علمی ہر لحاظ سے پاک رکھا جائے۔ انسان اپنی عقل سے اس کا فیصلہ آسانی سے نہیں کر سکتا کہ یہ پاکیزگی کس درجے کی ہونی چاہیے اور کس معاملے میں کتنی ہونی چاہیے،۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں اس کے آداب اور حدود مقرر کر دیئے ہیں۔ بعض معاملات میں اتنا ہی کافی ہے کہ آپ اپنے اعضا کو دھو لیں اور بعض معاملات میں اللہ تعالیٰ نے پورے جسم کو اچھی طرح دھونا لازم کیا ہے۔ انسان چونکہ ایک حیوانی مرحلے سے گزرتا ہے اور یہ بہیمیت اس کے پورے کے پورے جسم کا حصہ بن جاتی ہے تو غسل ہی درحقیقت اس کو اس سے نکال کر صحیح انسانی سطح پر لاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورتوں کے لیے یہ لازم نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ ؓنے اس کی وضاحت کر دی تھی، بلکہ بعض صحابہ نے جب اس پر اصرار کیا تو سیدہ عائشہؓ نے اس معاملے میں بہت تنبیہ کے ساتھ توجہ دلائی کہ عورتوں کو اس کی زحمت نہیں دی گئی۔ وہ اپنی چٹیا باندھے ہوئے، اپنے بال بنائے ہوئے، اسی طرح سے پانی بہا لیں تو مقصد پورا ہو جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)