حقوق اللہ

ج: اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے ہم کو جو ہدایت دی ہے، اُس ہدایت میں کسی دوسرے کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ یہ سب سے بڑا اللہ کا حق ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے معاملے میں جس معاملے میں اس نے ہم کو آزاد چھوڑا ہے اس میں اپنی عقل کو استعمال کریں، اپنے رہنماؤں کی طرف رجوع کریں ، اس میں کوئی قانون بنائیں ۔ انفرادی اور زندگی میں کوئی طریقہ اختیار کریں، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ضابطے اور قونین اپنے دین اور شریعت میں بیان کر دیے ہیں ، اس میں کسی دوسرے کو قابل التفات نہ سجھا جائے۔ اگر آپ اسی کو سامنے رکھ لیں گے تو باقی سب حقوق بھی اس کے اندر آ جائیں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس طرح کی باتیں آدمی اس وقت کرتا ہے جب اس کو کسی بات کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا ، آپ نماز کے بارے میں یا اللہ کی عبادت کے بارے میں سب سے پہلے انسان کے ذہن کو درست کریں یعنی پہلے خدا کی سچی معرفت سے اسے آگاہ کریں ۔اصل میں ہم خدا کی معرفت اور سچی پہچان پیدا کیے بغیر بعض مطالبات سامنے رکھ دیتے تو آدمی کی سمجھ میں بات نہیں آتی۔ جب آپ مخاطب کو یہ بتائیں گے ذرا تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے غور کرو کس کی بات کر رہے ہو ، اس پروردگار کی جو تمہارا خالق ، مالک ، آقا ہے تمہارے ایک ایک سانس کو اس کی احتیاج ہے ۔ اسی مالک کی یاد دہانی کے لیے یہ نماز مقرر کی گئی ہے یہ نماز اس کی یاد دہانی کراتی ہے اور انسان پر اپنی عاجزی واضح کرتی ہے ۔ خدا کی معرفت اور اس کی بندگی کا شعور اگر پیدا ہو جائے گا تو پھر انسان کبھی نماز نہیں چھوڑے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ دونوں حقوق اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں، اللہ کا حق بھی کہ وہ ہمارا مالک ’خالق ہے اور بندوں کے حقوق بھی۔اللہ سے تو آپ معافی مانگ سکتے ہیں کہ وہ کریم ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ معاف کر دے۔ سوال یہ ہے کہ آپ بندوں کے ساتھ کیا کریں گے اور یہ بڑا نازک مسئلہ ہے۔ بندوں کا حق مارلینے کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ ہماری ساری نیکیاں ختم ہو جائیں۔ جس کے ساتھ ہم نے بد دیانتی کی ہے، جھوٹ بولا ہے، دھوکا دیا ہے، فریب دیا ہے، اس کو نقصان پہنچایا ہے، ملاوٹ کی ہے، بڑے بڑے حاجی اور نمازی جو ہیں بڑے اطمینان کے ساتھ ملاوٹ کرتے ہیں، بڑے اطمینان کے ساتھ لوگوں کو غلط چیزیں کھلاتے ہیں، فرض کریں کہ آپ نے کسی ایسی چیز میں ملاوٹ کی ہے جو لوگوں کی جان کے لیے نقصان دہ بن گئی ہے تو آپ کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم ہو گا۔ آپ دوا بناتے ہیں، دوا بناتے وقت ایسی چیز ڈال دی جو نقصان دہ ہے تو گویا آپ اس بندے کو قتل کرتے ہیں۔ اس کا مقدمہ قائم ہو گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یہ عورت بس اپنے فرائض ادا کر لیتی ہے، اس کے ہمسائے اس سے بہت خوش ہیں، عزیزوں سے بھی بہت اچھا سلوک کرتی ہے اور دوسری عورت کے متعلق کہا گیا کہ وہ بہت نمازیں پڑھتی ہے، روزے رکھتی ہے، مگر اس کے ہمسائے اس سے بہت تنگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول الذکر کو جنتی قرار دیا، اور دوسر ی کو جہنمی ۔ اس کا مطلب ہے، جو چیز فیصلہ کن ہوجاتی ہے، وہ آپ کا اخلاق ہے۔

(جاوید احمد غامدی)