حق

ج: اس میں دو باتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ جن کاتعلق قرآن کی تعبیر ، تحقیق سے ہے ، اس میں جس کی بات آپ کو زیادہ معقول لگے ، (آپ تفاسیر بھی دیکھ سکتے ہیں) اور جو بات آپ کو معقول نظر آئے اسے آپ اختیار کر سکتے ہیں ، دوسرا پہلو اس کا مسئلے مسائل کا پہلو ہے جس کے بارے میں پوچھا گیا تھا کہ یہ بدعتیں جوعام طور پر ایجاد ہو جاتی ہیں تو ان میں پڑنے کا کوئی امکان نہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ پوچھیے اس کا ماخذ کیا ہے تو بدعت کا کبھی ماخذ نہیں ہوتا ، اس میں کوئی تاویل کا اختلاف نہیں ہوتا ،تاویل کے اختلاف میں آپ کو پورا حق ہے کہ آپ جس کی رائے کو زیادہ بہتر سمجھیں اسے قبول کر لیں لیکن بدعت میں پڑنے کا اندیشہ ختم ہوجاتا ہے اگر آپ یہ اصرار کریں کہ ہم وہی بات مانیں گے عمل کے معاملے میں جو اللہ کے پیغمبر سے ثابت ہو گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ مولانا وحیدالدین اپنی ذات میں نہ حق ہیں نہ باطل۔ اُن کی جو بات ، اُن کی کیا دنیا کے جس عالم کی بھی کوئی بات، ہمیں کتاب و سنت کے مطابق محسوس ہوتی ہے، اُسے ہم دل و جان سے قبول کرنے کے مکلف ہیں۔اور اگر اس معیار پر پوری نہیں اترتی تو نہ ماننے کے مکلف ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)