دینی یا معاشی مسئلہ

ج: آخر ت کو سامنے رکھا جائے تو دینی ہے اور صرف دنیا کو سامنے رکھا جائے تو معاشی ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب :محمد اسامہ سرسری
اس سوال کا جواب اگر وہ لوگ دے رہے ہیں جنھوں نے اس میدان میں قدم ہی نہیں رکھا تو وہ عموماً یہ کہہ کر حرام ہونے کا فتوی دے دیتے ہیں کہ ان اشتہارات میں میوزک اور عریانی سے بچنا ناممکن ہے سو یہ آمدنی حرام ہے۔ میں چونکہ ایک عرصے سے اس میدان سے وابستہ ہوں اس لیے اب تک جو تحقیق کی ہے وہ پیش کردیتا ہوں کہ شاید مفتیان کرام کے کام آجائے ۔
بات یہ ہے کہ یوٹیوب پر معتدل اہل علم کی جانب سے تعلیمی، تدریسی، دینی و ادبی چینلز بنانا وقت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ساری دنیا اب ہر چیز یوٹیوب پر سیکھ رہی ہے تو اگر درست لوگوں نے یہ چیزیں پیش نہیں کی ہوں گی تو نادرست لوگ متعلمین کے استاد بنتے جائیں گے جس سے دنیا میں جہل مرکب زیادہ پھیلے گا۔تو جیسے وقت کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہل مدارس حیلہ تملیک مسلسل کرتے چلے آئے ہیں، جیسے سیاست کے میدان میں کام کرنے والے نامحرم خواتین کے ہمراہ نشست و گفتگو کو گوارہ کرلیتے ہیں، جیسے بنات کے مدارس میں نامحرم تلمیذات کی آواز سن لیتے ہیں، جیسے تبلیغی جماعت والے دیگر مسالک والوں کے ساتھ اختلاط کرلیتے ہیں تو اس میدان میں کام کرنے والوں کو بھی پیش آمدہ قباحتوں کا حل نکالنا ہوگا نہ کہ میدان سے راہِ فرار اختیار کرنا۔ 
دوسری ضرورت جوکہ پہلی سے نسبتاً کم ہے وہ معاش ہے، اللہ تعالی نے ہر انسان میں معاش کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے الگ صلاحیت رکھی ہے تو جیسے بازار میں اختلاط مرد و زن کی قباحت ہے، پروڈیکٹس میں عریانی اور تصویری قباحتوں کا انبار ہے ویسے ہی یوٹیوب پر بھی یہ قباحتیں ہیں، جیسے دیگر تاجران اپنی پیش آمدہ قباحتوں کا حل کبھی برداشت اور کبھی توبہ سے نکالتے ہیں مگر آج تک کسی نے کاروبار بندنہیں کیا اسی طرح یوٹیوب سے معاشی ضرورتیں پوری کرنے والوں کو ان قباحتوں کا حل بتانا چاہیے نہ کہ راہِ فاقہ کہ اس سے افاقہ سائل کو نہیں مسؤل ہی کو ہوتا ہے۔ ان دو ضرورتوں کے پیش نظر یوٹیوب چینل بنانا اور اس سے دینی اور ذاتی ضروریات کو پورا 
کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
اب اگر کوئی صرف دینی ضرورت پوری کرنے کے لیے چینل بناتا ہے اور چینل کو مونیٹائز نہیں کرتا تو یوٹیوب پھر بھی اس کی ویڈیوز پر نازیبا اشتہارات چلاتا ہے۔
اب یہ جانیے کہ یہاں معاشی کمائی متعدد طریقوں سے ہوتی ہے:
(1) اپنے کورسز یا پروڈیکٹس کی تشہیرسے
(2) اپنے ادارے یا برانڈ کی تشہیرسے
(3) دیگر لوگوں اور کمپنیوں کے اشتہارات
(4) یوٹیوب اشتہارات
پہلی تین صورتیں بالاتفاق جائز ہیں کیونکہ وہ ہمارے اختیار میں ہوتی ہیں تو ہم نہ ان میں میوزک ڈالتے ہیں نہ عریانی۔صرف چوتھی صورت یعنی یوٹیوب اشتہارات کی آمدنی کا مسئلہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آمدنی صرف تب حرام ہوگی جب اشتہار کسی حرام پروڈیکٹ کا ہو جیسے فلم، ڈراما، میوزک، جوا، شراب وغیرہ میں نے ایڈ فلٹر کرکے ان تمام حرام پروڈیکٹس کے اشتہارات کو بند کردیا ہے، یعنی یہ قباحت تو بآسانی ختم کی جاسکتی ہے۔رہ جاتی ہے اصل مختلف فیہ صورت کہ باقی تمام اشتہارات میں بھی تو میوزک اور عریانی ہیں اور یہ دونوں حرام ہیں تو ان کی آمدنی بھی حرام ہونی چاہیے تو اس کی تحقیق یہ ہے کہ یوٹیوب اشتہارات دیکھنے کے پیسے نہیں لیتا دیتا بلکہ جب کوئی بندہ کسی اشتہار پر کلک کرکے اس کمپنی کی ویڈیو یا ویب سائٹ پر چلا جاتاہے تب اس کا معاوضہ یوٹیوب کمپنی سے لے کر اس کی کچھ پرسنٹیج یوٹیوبر کو دیتا ہے تو معلوم ہوا کہ اشتہار میں جو میوزک اور عریانی ہے وہ مقصود فی البیع نہیں ہے، بالفرض اگر صرف اشتہار دیکھنے کے پیسے ہوں تب بھی اشتہار میں پروڈیکٹ مقصود ہوتی ہے نہ کہ میوزک یا عریانی، لہذا اسے اشتہار میں شامل کرنے والا گنہگار تو ہوگا مگر اس کا اس معاملے پر براہ راست اثر نہیں پڑ رہا تو اس معاملے کو اور اس آمدنی کو حرام کہنا سمجھ سے باہر ہے۔
جیسے میڈیکل، کاسمیٹک اور دیگر جنرل آئٹمز کے بیچنے والوں کی آمدنی ان اشیاء پر موجود عریانی کی وجہ سے حرام نہیں ہوتی۔
ایک فقہی اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ معاملہ یوٹیوبرز پر مجہول ہے، اسے پتا ہی نہیں کہ کتنے کلکس پر کتنے مل رہے تو اس جہالت کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد ہوگا، اس کا حل یہ ہے کہ یہ انٹرنیٹ سسٹم کے عرف کی وجہ سے
 مجہول کے حکم سے نکل جاتا ہے کیونکہ جہالت مفضی الی النزاع ہوتی ہے جبکہ
 یہاں ہر یوٹیوبر مطمئن ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ سب کمپیوٹر پروگرامنگ کے تحت ایک مربوط سسٹم سے چل رہا ہے۔
 

(اسامہ سرسري)