آیت کا مسلہ

جواب: آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قرآن مجید کی ایک آیت کی مراد سے متعلق ہے اور دوسرا مولوی صاحب کی رائے پر مشتمل۔ جہاں تک آیت کریمہ کا تعلق ہے تو اس میں نجات اخروی کا اصل الاصول بیان کیا گیا ہے۔ ہماری ایمانیات کی اصل صرف یہ ہے کہ ہم اس کائنات کے خالق ومالک کے وجود اور اس کے حضور جواب دہی پر ایمان رکھتے ہوں۔ کتابوں، فرشتوں اور نبیوں پر ایمان اس ایمان کے ایک تقاضے کی حیثیت سے سامنے آتاہے۔(ان تین چیزوں میں بھی اصل کی حیثیت انبیا کی ہے۔ کتابوں اور فرشتوں پر ایمان اس کے لواحق میں سے ہے) لیکن یہ تقاضا ایک ایسا تقاضا ہے جس کے پورا نہ کرنے کا نتیجہ جہنم کی صورت میں نکلتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اگر کسی شخص کو یہ واضح ہے کہ فلاں شخص خدا کا پیغمبر ہے تو اس کی نیکیاں اورخدا اور آخرت پر ایمان اکارت چلا جائے گا اگر وہ اس شخص کا خدا کا پیغمبر نہیں مانتا اور اس کی لائے ہوئے دین کو اختیار نہیں کر لیتا۔اس وضاحت سے آپ یہ بات سمجھ گئے ہوں گے کہ مولوی صاحب کی بات ادھوری ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ہر وہ نیک غیر مسلم جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کا یقین ہے وہ اگر مسلمان نہیں ہوتا تو وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اس کی ساری نیکیاں رد کر دی جائیں اور عذاب میں مبتلا کر دیا جائے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے تو اس کی تخصیص کی طرف نہیں ہے۔ جہاد سے یہاں ان کے نزدیک وہ مشقتیں اور تکالیف ہیں جو دین کی خاطر اٹھائی جارہی تھیں۔سبل سے مراد دنیا اورآخرت کی کامیابی کی راہوں کا کھلنا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ معاملہ صحابہ ہی کا زیر بحث ہے۔ لیکن جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ عام ہے۔ یہ توفیق ایزدی کا مژدہ ہے جس کا خدا کی رضا کا ہر طالب مستحق ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: یہ قانون دنیا کے بارے میں نہیں ہے، یہ قانون قیامت کے بارے میں ہے۔ آخرت میں آدمی کو اس کے اعمال کا اجر ملے گا۔ اور اس کا عمل ہی اس کے کام آئے گا۔ دنیا میں تو اللہ تعالیٰ بعض اوقات ہمیں بن مانگے اور بغیر محنت کی بھی دیتا ہے۔ دنیا میں جو ملتا ہے وہ ہماری سعی کا لازمی نتیجہ نہیں ہوتا، وہ انعام کے طور پر بھی ہوتا ہے اور آزمایش کے طور پر بھی ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآ ن نے یہ بات بڑی صراحت سے کہہ دی ہے کہ یعمشرالجن والانس الم یاتکم رسل منکم کہ اے جنو اور انسانو ! کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ میرے پیغمبر تمہارے اندر سے تمہارے پاس آئے اور یہ چیز ویسے بھی خدا کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے کہ ان کے لیے اور ہمارے لیے ا یک دوسرے کے رسول واجب الاطاعت ہوں ۔ اللہ نے قرآن مجید میں واضح کہا ہے کہ انسانوں میں انسانوں کے اندر سے پیغمبر بنا کر بھیجوں گا ۔جنات کے بارے میں قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے معاملات کو دیکھتے ہیں، ہم ان کے معاملات کونہیں دیکھ سکتے۔ اگروہ ہمارے معاملات کو دیکھتے ہیں تو ان پر اجمالی ایمان لازم ہے کہ ہمارے پیغمبروں پر بھی ایمان لائیں یعنی شریعت ان کے پیغمبروں کی ہو گی لیکن حق کا وہ انکار نہیں کرسکتے ۔یہی چیز ہے جس کو انہوں نے اپنی قوم میں بیان کیا کہ خدا کی دعوت نازل ہوئی ہے ، جس طرح پہلے تورات کی دعوت تھی ، اب قرآن کی دعوت ہے ۔اگر ہم ان کو دیکھتے تو ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے تھا ۔ قرآن میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جنوں کے لیے جنوں کے پیغمبر ہیں او رانسانوں کے لیے انسانوں کے پیغمبر ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بسم اللہ سب سورتوں کے شروع میں فصل کے لئے لکھی گئی ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا بیان ہے کہ یہ قرآن میرے نام سے پڑھ کر لوگوں کو سنایا جائے ۔یہ سورہ فاتحہ کی بھی آیت نہیں ہے۔کسی دوسری سورہ کی بھی آیت نہیں ہے ۔ سوائے ایک سورہ کے جس کے اندر آئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)