زکوۃ کے مصارف

جواب: زکوٰۃکی جو مدات قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک ’وفی الرقاب‘ (التوبۃ) ہے،یعنی گردنوں کو چھڑانے میں۔ نزولِ قرآن کے عہد میں غلامی کا رواج تھا۔ انسانوں کی گردنیں اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں۔ قرآن نے ان کی گلوخلاصی کو کارثواب قرار دیا۔ جمہور علماء و مفسرین کا خیال ہے کہ ’فی الرقاب‘ سے مراد غلام ہیں۔ چوں کہ غلامی کی یہ رسم الحمد للہ اب ختم ہوگئی ہے،اس لیے زکوٰۃ کا یہ مصرف اب باقی نہیں رہا۔اْس زمانے میں ایسے قیدی بھی پائے جاتے تھے، جو مختلف جنگوں میں گرفتار کرلیے جاتے تھے، اس لئے کتبِ فقہ میں ایک بحث یہ ملتی ہے کہ کیا زکوٰۃ قیدیوں کو چھڑانے میں صرف کی جاسکتی ہے؟ جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ قیدی کو چھڑانے میں زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی، لیکن بعض علماء، جن میں ابن عبدالحکم مالکی، قاضی ابن العربی مالکی، امام احمد(ایک روایت کے مطابق) اور علامہ ابن تیمیہ قابل ذکر ہیں، اس کی اجازت دیتے ہیں۔ادھرکچھ عرصے سے ہندوستانی مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے نوجوانوں کو بلاکسی قصور کے جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔ ان پر اتنے مقدمات لا ددیے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی میں برسوں گزر جاتے ہیں اورجیلوں سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہوپاتی۔ ان کی رہائی کے لئے قانونی چارہ جوئی کرنا، ان کے مقدمات کی پیروی کرنا، انھیں قید وبند سے چھٹکارا  دلانا اور ان کی فلاح وبہبود کے دیگر کام انجام دینا وقت کااہم تقاضا ہے۔ امت کے سربرآوردہ طبقے کو اس کی فکر کرنی چاہیے اوراس کے لیے ہرممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔کیا  ریاستی  دہشت گردی کے شکار ان اسیران کے مقدمات کی پیروی اور ان کو رہائی دلانے کی کوششوں میں زکوٰۃکی رقم خرچ کی جاسکتی ہے؟فقہائے کرام کو اس موضوع پر غور کرنا چاہئے۔ راقم کی رائے ہے کہ مذکورہ معاملہ زکوٰۃ کا مصرف بن سکتا ہے۔ قرآن نے ’وفی الرقاب‘ (گردنیں  چھڑانے میں) کی جامع تعبیر اختیار کی ہے۔ زمانہ قدیم میں اس کا انطباق غلاموں پر ہوتا تھا۔ موجودہ دور میں ہندوستان کے اسیرانِ بلا کی حالت ان سے مختلف نہیں ہے۔ان مظلومین کے سلسلے میں کرنے کے دو کام اور ہیں، جو شاید ان کے مقدمات کی پیروی سے زیادہ اہم ہیں:اول یہ کہ یہ نوجوان عام طور پر اپنے گھروں کا سہارا ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعہ معاش پر ان کے پورے خاندان کا انحصار ہوتا ہے۔ قیدوبند کی بنا پر ان کا سلسلہ معاش منقطع ہوجانے کی وجہ سے ان کے خاندان بڑی آزمائش میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ بسا اوقات ان کے افراد خانہ دانے دانے کو محتاج ہوجاتے ہیں۔ ایسے موقع پر ضروری ہے کہ متمول حضرات ان خاندانوں کی خبر گیری کریں اور ان کی معاشی کفالت کی ذمے داری لیں۔ دوم یہ کہ جیلوں میں ان نوجوانوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے، ان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں اور ان کو جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ ایسے میں ان نوجوانوں کی راحت رسانی کی بھی کوشش کرنی چاہئے، ممکن ہوتو انھیں کچھ سہولیات مثلاً پہننے کے کپڑے اور غذائی اشیاء وغیرہ پہنچائی جائیں۔ دینی لٹریچر، کتب ورسائل بھی پہنچائے جائیں، تاکہ ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہو اور ذہنی ونفسیاتی سکون بھی مل سکے۔

()

جواب:کوشش کرنی چاہیے کہ زکوٰۃ کی رقم صحیح طریقے سے مستحقین تک پہنچے۔ اسے فوراً خرچ کرنا ضروری نہیں ہے۔ مولانامجیب اللہ ندوی نے لکھاہے:
”اگر کسی نے زکوٰۃ کی نیت سے روپیہ نکال کر علیٰحدہ کردیا اور یہ ارادہ کیاکہ سال بھر کے اندر تھوڑا تھوڑا غریبوں پر خرچ کردے گا تو یہ جائز ہے۔“ 
یہی معاملہ اداروں اور جماعتوں کا ہے۔ ان کی حیثیت مستحقین کے نمائندہ اور وکیل کی ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کی جو رقم ان کے پاس جمع ہو، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمان داری کے ساتھ اور صحیح طریقے سے ان تک پہنچائیں۔ مالِ زکوٰۃ کو تقسیم کرنے کے لیے کسی ادارہ یا جماعت کے حوالے کرنے سے صاحبِ نصاب کا فرض ادا ہوجاتا ہے اور وہ بری الذمہ ہوجاتاہے۔ اب ادارہ یا جماعت کی ذمہ داری قرار پاتی ہے کہ وہ ایک نظم بناکر اسے مستحقین تک پہنچائے۔ ایک رمضان میں جمع کی گئی رقم اگلے رمضان سے قبل خرچ کردی جائے تو بہتر ہے، لیکن اگر اس میں سے کچھ بچ رہے اور اسے بعد میں خرچ کرنے کی نوبت آئے تو اس میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے۔

()


جواب:اگر وہ شخص واقعی عشر، زکوٰۃ یا صدقہ خیرات لینے کا حقدار ہے تو کوئی حرج نہیں، لے سکتا ہے اور امامت بھی کروا سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ امامت کے لیے صحیح العقیدہ اور بنیادی دینی مسائل کا جاننے والا ہونا ضروری ہے، نہ کہ دولت مند، اَن پڑھ جاہل ہونا۔باقی رہا حجام تو اس میں بھی کوئی شرعی ممانعت نہیں جو امامت کے مانع ہو۔ جو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، یہ ان کی جہالت ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 

(منہاج القرآن)