موحد اور مشرک

ج: نہیں ،کہیں نہیں کہا اور یہ کہا بھی نہیں جا سکتا یعنی ایک گروہ اگر شرک کا اقرار نہیں کرتا تو اس کو بہرحال اہل توحید میں سے سمجھا جائے گااور اس کے شرک پر اسے متنبہ کیا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ یہ شرک ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مشرک وہ شخص ہے جو توحید کا نہیں، شرک کا عقیدہ رکھتا ہو۔ اس دنیا میں جب تک کوئی شخص خود کو توحید کے عقیدے کا علم بردار کہتا ہے ، اس وقت تک ہم محض اس کے کسی شرکیہ عمل کو اختیار کرنے کی بنا پر اسے مشرک قرار نہیں دے سکتے ۔ کسی کے دل کا معاملہ کیا ہے ؟ یہ اس کا وہ راز ہے جسے خدا ہی جانتا ہے ، ہم اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ پس زیر بحث لوگوں کے حوالے سے نکاح اور نماز دونوں ہی درست ہیں ۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: آپ کا کیا خیال ہے ؟کیا گناہ اور کفر و شرک، انجانے میں ہو سکتے ہیں۔ کیا کوئی بے جانے بوجھے چور ہو سکتا ہے یا بے جانے بوجھے حق کا منکر ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جیسے ایمان ، نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ بے جانے بوجھے نہیں ہو سکتے ، اسی طرح گناہ اور کفر و شرک ،یہ بھی بے جانے بوجھے نہیں ہو سکتے چنانچہ مجھے اس سے تو اتفاق نہیں ہے کہ انجانے میں شرک ہو سکتا ہے البتہ یہ بات ہو سکتی ہے کہ آدمی کسی غلط فہمی کی بنا پر ایک بات کوجو توحید کے منافی ہو اُسے توحید کے عین مطابق سمجھتا رہے اور اُس کے مطابق عمل کرتا رہے۔ یہ بالکل دوسری بات ہے۔ اِس آدمی کو آپ مشرک کہیے، یہ چیخ اٹھے گا۔اگر یہ آدمی اندر سے حق پرست ہے ،تو اِس کو اِس غلط فہمی پر سزا نہیں ملنی چاہیے، معافی ہی ملنی چاہیے۔اور اگر یہ حق پرست نہیں ہے تو یقیناً یہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔چنانچہ وہ لوگ جو کسی غلط فہمی کی بنا پر یا تاویل کی غلطی کی بنا پر شرکیہ اعمال میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں مشرک کہنا زیادتی ہے ۔

            مشرکین مکہ یا یہود کو جب ہم مشرک یا حق کامنکر کہتے ہیں تو قرآنِ مجید کی اطلاع کی بنا پر کہتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی اپنائے ہوئے تھے، جان بوجھ کر اپنائے ہوئے تھے۔قرآن مجید اطلاع نہ دیتا تو ہم ان کے بارے میں بھی اُسی طرح کچھ نہ کہہ سکتے، جیسے آج اپنے سامنے شرکیہ عمل میں گرفتار آدمی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر کر رہا ہے یا وہ جو کچھ کر رہا ہے، جان بوجھ کر کر رہا ہے۔البتہ خدا آج بھی اپنے بندوں پر اپنی عمومی حجت پوری کر رہا ہے اور انہیں چھانٹ چھانٹ کر الگ کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون سچا مشرک ہے اور کون غلط فہمی کی بنا پر اِس میں گرفتار ہے۔ ہم یہ بات آج نہیں جان سکتے ،ہم پر یہ قیامت ہی کو کھلے گی۔

(محمد رفیع مفتی)

 ج: خالص موحد وہ ہے، جس کے دل میں توحید ہی توحید ہو ۔ اور خالص مشرک وہ ہے، جس کے دل میں شرک ہی شرک ہو۔ مشرکینِ عرب کو اللہ نے اِس لیے مشرک قرار دیا تھا کہ اُن کے دل شرک ہی شرک تھا۔رہا وہ شخص جو ہمیں شرکیہ اعمال میں پڑا ہوا نظر آتا ہے ، اُس کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کا دل بھی شرک سے آلودہ ہے،اِس کا پورا امکان ہے کہ وہ دل سے بھی مشرک ہی ہو اور توحید کی دعوت اپنی صحیح شکل میں اگر اُس تک پہنچے بھی تو وہ اُسے قبول نہ کرے۔ لیکن اُس کے بارے میں ہم یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو ، جونہی توحید کی دعوت اپنی صحیح شکل میں اُس تک پہنچے وہ اُسے قبول کر لے ۔ ـچنانچہ ہم اُس شخص کے بارے میں جو ہمیں بس مشرکانہ اعمال ہی میں مشغول نظر آتا ہے، کیسے یہ کہہ دیں کہ اُس کا دل شرک سے لازماً اُسی طرح آلودہ ہے، جیسے مشرکینِ مکہ کا تھا اور وہ بھی خدا کے نزدیک اُسی طرح سے حقیقی مشرک ہے، جیسے مثلاً مشرکینِ مکہ تھے۔ ہو سکتا ہے وہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ نہ ہو۔ہمارا اُس کے بارے میں کوئی حتمی بات کرنا دراصل، اُس کے بارے میں خدا کے علم کو بیان کرنا ہو گا۔ قرآنِ مجید کے بیان کے مطابق جو مشرک ہو گا، وہ جہنمی ہو گا۔لیکن عمدا اورناواققی کی بناپر کیے گئے شرک میں فرق کر نا ہو گا۔ اگر ہم عمد اور غیر عمد کو یکساں قرار دیں تویہ قرآنِ مجید کی صریح نص کے خلاف ہے۔ ارشادِ باری ہے: ‘‘و لیس علیکم جناح فیما أخطاتم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم’’۔(الاحزاب ۳۳: ۵)

‘‘اور جو بات تم سے غلطی سے ہو گئی اُس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو دل کے ارادے سے کرو اُس پر مؤاخذہ ہے۔’’

(محمد رفیع مفتی)