اقامت دین سے مراد

 جواب: یہاں چند تفاسیر کے حوالے پیش خدمت ہیں امید ہے اس سے مطلب واضح ہو جائے گا۔اضواء البیان میں ہے:‘‘اس میں اقامت دین اور عدم تفرقہ سے مراد اللہ کے ساتھ دین کو مخلص کرتے ہوئے صرف اسی کی بندگی ہے۔ (ج9، ص47)

 ‘‘قرآن میں کئی آیات آئی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حق پر عمل کرنے کی نصیحت میں ساری شریعت اس کے اصول اس کی فروع اس کا ماضی اس کا حاضر سب شامل ہیں انھی آیات میں سے یہ آیت بھی ہے (ج9،ص94)

 التسہیل لعلوم التنزیل میں ہے:

‘‘ ان اقیموا الدین سے مراد اسلام کی اقامت ہے جو اللہ کی توحید ہے، اس کی طاعت ہے اس کے رسولوں اور دار آخرت پر ایمان ہے۔ جہاں تک فروع کا تعلق ہے تو اس میں شریعتیں مختلف ہیں۔ وہ یہاں مراد نہیں ہیں۔

در المنثور میں ہے:

‘‘ابن جریر نے سدی رضی اللہ عنہ سے 'ان اقیموا الدین' کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ کہا: اس پر عمل کرو’’۔

کشاف میں ہے:

 ‘‘ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔ میں دین سے مراد اسلام کی اقامت ہے۔ جو اللہ کی توحید،اس کی اطاعت،اس کے رسولوں ، کتابوں اور یوم جزا پر ایمان اور وہ ساری چیزیں جن کو اپنا کر کوئی شخص مسلمان بنتا ہے اور شریعتیں مراد نہیں ہیں کہ وہ امتوں کی مصلحتیں ہیں ان کے احوال کے موافق چنانچہ یہ مختلف اور متفاوت ہیں۔

تفسیر سعود میں ہے:

‘‘اس کی اقامت سے مراد اس کے ارکان کو صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے، دین کی ٹیڑھ سے محفوظ رکھنا ، اس پر مسلسل عمل اور اس کے لیے محنت ہے۔’’

تفسیر بیضاوی میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین سے مراد ہے ان چیزوں پر ایمان جن کی تصدیق واجب ہے اور اللہ کے احکام کی پیروی۔’’

‘‘ان اقیموا الدین سے مراد: اللہ نے حکم دیا ہے کہ دین کے تمام ضوابط اس کے اصول اوراس کے فروع کی اقامت کرو۔ یہ اقامت وہ اپنے نفوس پر بھی کرتے ہیں اور اپنے کے علاوہ پر بھی اس کی کوشش کرتے ہیں، یعنی وہ بر و تقوی پر تعاون کرتے اور اثم وعدوان پر تعاون نہیں کرتے۔’’

تفسیر سمرقندی میں ہے:

‘‘ابو العالیہ نے کہا: ان اقیموا الدین سے مراد اللہ کی عبادت میں مخلص ہونا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دین میں موافقت کرو۔’’

تفسیر سمعانی میں ہے:

‘‘ارشاد ان اقیموا الدین کا مطلب ہے توحید پر ثابت قدم ہو جاؤ۔ کہا گیا ہے کہ اقامت دین کا مطلب ہے دین پراستقامت۔ کہا جاتا ہے اقامت دین اصل میں طاعات پر عمل اور اوامر کا امتثال ہے۔’’

طبری میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین سے شریعت پر عمل مراد لیا گیا جیسے کہ ہم نے اس سے پہلے 'اقیموا الصلاۃ' کے حوالے سے بات کی تھی۔ ’’

سدی کی رائے یہ ہے کہ دین کی اقامت کرو سے مراد ہے دین پر عمل کرو

تنویر المقیاس فی تفسیرابن عباس میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین اللہ نے تمام انبیا کو حکم دیا ہے کہ وہ دین کی اقامت کریں کہ وہ دین میں متفق رہیں۔’’

فتح القدیر میں ہے:

‘‘مجاہد نے کہا ہے کسی نبی کو اللہ نے مبعوث نہیں کیا الا یہ کہ اسے نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے اور اللہ کے اقرار کی نصیحت نہ کی ہو۔ یہ دین ہے جسے اس نے ان کے لیے مشروع کیا ہے۔’’

ابن عربی کی احکام القرآن میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ یعنی اسے قائم کرو۔ مراد یہ ہے کہ اسے دائم، جاری، محفوظ، برقرار رکھو کہ نہ اختلاف ہو نہ اضطراب۔’’

 تفسیر العز بن عبدا السلام میں ہے:

‘‘ اقیموا الدین' اس پر عمل کرو یا اس کی طرف بلاؤ۔’’

امید ہے یہ اقتباسات اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارے مفسرین اس آیت کو کیسے دیکھتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

ج: ہر آدمی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ دین سمجھے اور یہ عین ممکن ہے کہ آپ کے اور کسی کے فہم دین میں اختلاف ہو۔ اس میں open dialouge ہوتے رہنا چاہیے تاکہ بات واضح ہوتی رہے ۔ اگر کوئی آدمی یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے کچھ لوگوں کو سیاسی جد و جہد کرنی چاہیے تاکہ یہاں ایک اچھی حکومت قائم ہوجائے تو یہ دین میں ممنوع نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ یہ بات ہر ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس کے لیے جدوجہد کرے تویہ ٹھیک نہیں ہے۔دین کا پیغام پہنچانے یادینی ماحول بنانے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایک آدمی اس کے لیے دعوت کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔ کسی میں صلاحیت ہے تو وہ سیاست کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔ یہ تدبیر کے معاملات ہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی چیز کو بھی لازم نہیں کیا۔ جو چیز لازم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جائے اور دین کی بات ان پر واضح کی جائے۔اگریہ بات حکمرانوں پر واضح ہو جائے تو آپ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بغیر سیاسی جدوجہد کے حاصل ہو جائے گا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور اسی طریقے سے کام کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)