ربا کیا ہے؟

جواب۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پر وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔

وضاحت: اس معاملے میں کلید ی لفظ قرض ہے۔جب بھی دو فریقین کے مابین تعلق قرض خواہ اور مقروض کا ہو گا تو قرض دینے والا اگر قرض کو اس شرط سے مشروط کر دے کہ وہ ایک معین اضافہ ایک معینہ مدت کے لیے اپنے قرض پر وصول کر ے گا تو یہ اضافہ سود یا ربا کہلائے گا۔

 قرآن مجید نے جب ربا کو ممنوع قرار دیا تو اسوقت اس کے لیے کوئی نئی اصطلاح وضع نہیں کی بلکہ معاشرے میں رائج اصطلاح کو ہی استعمال کیا اور ظاہر ہے کہ اس اصطلاح کا وہاں ایک خاص مطلب تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ قرآن نے شراب ا و ر جوئے کے لیے خمر اور میسر کی اصطلاحیں استعمال کی تو وہ بھی وہی تھیں جو وہاں رائج تھیں۔اس ماحول کا ہر شخص جس طرح خمر اور میسر کی اصطلاح کا مطلب سمجھ رہا تھا اسی طرح ربا کا مطلب بھی ان پر غیر واضح نہ تھا۔ قرآن نے جب جوئے اور شراب کوممنوع قرار دیا توصرف اتنا کہا کہ یہ اب سے ممنوع ہیں اور انہیں ممنوع قرار دیتے ہوئے قرآن نے یہ وضاحت بالکل نہیں کی کہ جوئے کا مطلب یہ ہوتا ہے اور خمر کایہ۔کیونکہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ کیا ہوتی ہیں۔یہی معاملہ ربا کا تھا قرآن کے براہ راست مخاطبین اس کے مفہو م کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔جب کوئی لفظ مروجہ مفہوم سے ہٹ کر ایک نئے مطلب میں استعمال کیا جاتا ہے تو عبارت کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ یہاں ایک نئے مطلب میں استعمال ہو رہا ہے۔جس طرح کہ اقبال نے خودی کے لفظ کو ایک نیا مفہوم دیا تو سیاق و سباق سے یہ بات واضح تھی۔

            لفظ کے معنی کے تعین میں یہ بات بنیاد ی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ اہل زبان اس کو کس مفہوم میں بولتے ہیں اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کامطلب او رہے تو پھر بارِ ثبوت اس کے ذمے ہے۔مثلا اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن نے خمر کا لفظ ایک خاص قسم کی شراب کے لیے استعمال کیا ہے یا اس شراب کے لیے جو بہت زیاد ہ پی جائے تو پھر یہ بات اس کو ثابت کرنا ہوگی کیونکہ اہل زبان تو اس کو اس مفہوم میں نہیں سمجھ رہے ہوتے ۔ اسی طرح ربا کا لفظ قرآن کی ایک نئی اصطلاح نہیں ہے بلکہ اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے جو عربوں میں رائج تھا۔اور عرب میں یہ لفظ اسی مفہوم میں مستعمل تھا جیسا کہ پیچھے وضاحت ہو چکی ہے۔یہ واضح ہے کہ جب قرآن ربا کا لفظ استعمال کر تا ہے تو وہ اس کو قرض پہ ایک متعین اضافے کے لیے ہی استعمال کرتا ہے اگر وہ اس کو محض اضافے کے مفہوم میں لے رہا ہوتاتوپھر اس کا اطلاق ہر اضافے پر ہوتاجبکہ منافع بھی ایک اضافہ ہی ہے۔لیکن وہ جائز ہے۔

(آصف افتخار)