تقد یر

ج:تقدیر،مقدر اور قسمت یہ تینوں الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ ان سے مراد انسان کے بارے میں خدا کے فیصلے ہیں۔ خدا کے بعض فیصلوں میں انسان مجبور ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ وہ کہاں پیدا ہو گا، اس کے ماں باپ کون ہوں گے، اسے کتنی عمر ملے گی وغیرہ، وغیرہ۔ البتہ خدا کے بعض فیصلوں میں وہ اپنے افعال و اعمال کا ارادہ کرنے کی حد تک آزاد ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور اسے ان پر نیکی یا بدی ملتی ہے۔تقدیر کو اس طرح بیان کرنا کہ ''ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو ہمارے مقدر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے'' یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ شاید ہم مجبور محض ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہم بے جان پتلیاں ہیں جنھیں خدا جس طرح چاہتا ہے، نچاتا ہے۔ وہی ہم میں سے کسی کو جبراً قاتل بناتا ہے اور کسی کو جبراً مقتول، وہی کسی کو جبراً نیک بناتا ہے اور کسی کو جبراً بد۔ چنانچہ پھر اس سے کوئی شخص یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہونے والے جرائم اور اچھے اعمال کا ذمہ دار صرف خدا ہے، انسان تو معصوم ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ ہم جو اعمال بھی سر انجام دیتے ہیں، خدا کی اجازت کے ساتھ اپنی مرضی سے انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس لیے صالح کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے مطابق استعمال کرتے ہوئے، نیک کام کیا ہوتا ہے اور اس لیے مجرم کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے خلاف استعمال کرکے برا کام کیا ہوتا ہے۔البتہ، اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا خدا مستقبل کو جانتا ہے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہاں بالکل اسے آیندہ ہونے والے سارے واقعات اور حالات کا پتا ہے، کیونکہ وہ عالم الغیب ہے، وہ زمانے کے وجود میں آنے سے پہلے اسے پوری تفصیلات کے ساتھ جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا آیندہ ہونے والے واقعات خدا کے جبر سے بالکل اسی طرح وجود پذیر ہوتے ہیں، جیسے اس کا علم ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب ہو گا کہ نہیں، بلکہ جن چیزوں کو وہ جبراً ایک خاص طریقے پر کرنا چاہتا ہے، صرف انھیں وہ جبراً کرتا ہے اور جنھیں اختیار و ارادہ کی آزادی دیتا ہے، وہ اسی کے اذن سے، اپنے اختیار و ارادہ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔البتہ خدا کا علم دونوں کے بارے میں غلطی سے پاک ہوتا ہے۔جن مواقع کے حوالے سے خدا نے یہ فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ انسان اپنے لیے اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے جس چیز کو طلب کرے گا، وہ اسے دے دی جائے گی، ان مواقع پر انسان کی تدبیر ہی سے اس کی تقدیر بنتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب : قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا نظام تدبیر پر قائم ہے۔ تقدیر اگرچہ اس تدبیر کے ساتھ بھی چلتی ہے اور اس کے خلاف بھی اور الگ راہ بھی نکالتی اور پیدا کرتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس جو سرا ہے وہ تدبیر اور دعا کا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ تقدیر کیا ہے۔ ہمارے علم میں تقدیر اس وقت آتی ہے جب وہ ماضی بن چکی ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رکھتے کہ اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے تدبیر اور محنت کریں اور کامیابی کے لیے دعا کریں۔ اگر کامیابی ہو تو شکر ادا کریں اور اگر ناکامی ہو تو اپنی تدبیر ہی کی خامیوں کی اصلاح کریں۔ یہ اس دنیا کی حقیقت ہے اور اس کے مطابق ہر پیغمبر نے زندگی بسر کی ہے۔ کوئی کھیت ہل چلائے بغیر نہیں اگتا۔ اور نہ ہل چلانا کامیاب کھیت اگنے کی ضمانت ہے۔ اس لیے ہل چلانا بھی ضروری ہے اور دعا کرنا بھی۔ تقدیر کا عقیدہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا نام نہیں۔ اس بات کو ماننے کا نام ہے کہ اس دنیا کا نظام اصل میں اللہ کے ہاتھ میں ہے ہماری تدبیر اسی نظام کا حصہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اصلاً یہ دنیا تدبیر پر چل رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت تدبیر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی تدبیر کی کامیابی اور ناکامی میں ایک حصہ تدبیر کے حسن وقبح کا ہوتاہے لیکن اصل چیز خدا کی تائید یا عدم تائید ہے۔ کھیتی کی مثال دیکھیے۔ اگر کسان ہل نہیں جوتے گا، بیج نہیں ڈالے گااور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرے گا تو کوئی پیداوار نہیں آئے گی۔ لیکن جب وہ یہ سب کچھ کرتا ہے تو اس کھیتی کی کامیابی کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔کسان کی تدبیر کے دائرے سے باہر کے امکانات کی موافقت بھی ضروری ہے۔مثلا موسم اور دوسری آفات کا نہ ہونا۔ چنانچہ صحیح تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی توفیق ہی سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ناکامی پیش آئے تو دونوں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک یہ کہ تدبیر میں کیا کمی رہ گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کو کیا آزمایش کرنا پیش نظر تھی۔ ہم اگرچہ پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی عمل کے جو نتائج نکلے ہیں ان میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مایوسی اور بے ہمتی کا شکار ہونے کے بجائے نئے عزم سے اور بہتر تدبیر کے ساتھ نئی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔باقی رہا تقدیر کا معاملہ تو رزق کے معاملے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو کم اور کسی کو بے حساب رزق دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالی یہ فیصلہ کسی حکمت ہی کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صحیح تدبیر کریں اللہ تعالی کے ساتھ بندگی اور توکل کے تعلق کو قائم رکھیں اور جو کچھ نتائج نکلیں کامیابی کی صورت میں اسے شکر کی آزمایش سمجھیں اور ناکامی کی صورت میں اسے صبر کی آزمایش کے طور پر دیکھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس معاملے میں صحیح چیز کو جاننا چاہیے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو پہلے سے طے ہوتی ہیں مثلاً مجھے کہاں پیدا ہونا تھا ، میری شکل و صورت کیا ہو گی، مجھے کیا صلاحیتیں دی جائیں گی۔ قدرت کے نظام نے مجھے ایک خاص ملک میں پیدا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے میرے لیے ایک شکل و صورت اور صلاحیتوں کی نوعیت منتخب کر لی۔ ان کے بارے میں بھی فیصلہ ہو گیا۔ اب اس کے بعد میرا اخلاقی وجود ہے اور ان صلاحیتوں کی نشو و نما دینے کے میدان ہیں، جن میں مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو الگ الگ سمجھ لینا چاہیے۔ اس کے لیے کسی فلسفی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ ہماری روزہ مرہ کی زندگی اور ہماری عقل عام اس کا فیصلہ کر رہی ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کون سی چیزیں ایسی ہیں، جو قدرت کے فیصلے کے نتیجے میں ہم کوملی ہیں اور کون سی چیزیں ہیں جن میں ہم کواختیار دیا گیا ہے۔ہم نے کبھی اپنے کسی ملازم کا اس بات پر احتساب نہیں کیا ہے کہ اس کی ناک بڑی اور کان چھوٹے کیوں ہیں۔ یہ چیزیں تو وہ قدرت کی طرف سے لے کر آیا ہے۔ لیکن جس وقت وہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے، قاعدے کے خلاف معاملہ کرتا ہے، غبن کرتا ہے، خیانت کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، بددیانتی کرتا ہے، اس وقت ہم اس کا محاسبہ کرتے ہیں کیونکہ یہ اختیار کی چیز ہے۔ انسان اگر اپنے دل سے پوچھے تو دل ٹھیک فتویٰ دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کہاں وہ مجبور ہے اور کہاں مختار ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نصیب کوسمجھ لینا چاہیے ۔اللہ تعالی کی طرف سے جو چیزیں ملتی ہیں توان کے بارے میں یہ طے ہوتا ہے کہ فلاں فلاں چیز محنت کے بغیر مل جائے گی اور فلاں فلاں چیز محنت کے ساتھ ملے گی ۔چونکہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی چیز محنت کے بغیر مل جائے گی اس لیے ہمیں تو محنت بہر حال کرنی ہے ۔رزق کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ رزق کا کچھ حصہ آپ کو محنت کے بغیر ملے گا اور کچھ حصہ محنت کے ساتھ مشروط ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: ظفر علی خان نے قرآن مجیدکی ایک آیت کے مفہوم کو شعر میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تھوڑی سی مختلف ہے ۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں کو دنیا میں مہلت دے رکھی ہوئی ہے اور عام طور پر وہ یہ مہلت دیئے رکھتے ہیں ۔جس میں قومیں اپنے طریقے کے مطابق کام کرتی ہیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ کسی قوم پہ عذاب بھیج دے یا اس کو پکڑ لے یہ اللہ تعالیٰ اسوقت تک نہیں کرتے جب تک وہ قوم سرکشی پرآمادہ نہیں ہو جاتی ۔وہ اپنے ہاں تبدیلی کرتی ہے پھر اللہ بھی اپنے معاملے کو تبدیل کر دیتا ہے یہ مفہوم ہے آیت کا ۔.......ان اللہ لا یغیر بقومٍ حتٰی یغیرما بانفسہم...........یعنی وہ جب اپنے اند تبدیلی پیدا نہیں کر لیتے اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی وہی معاملہ ڈھیل کا قائم رکھتے ہیں دنیا کے اندر ۔اس کو انہوں نے اسطرح سے بیان کر دیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسئلہ تقدیر کے حوالے سے دو طرح کی احادیث ہمارے سامنے آتی ہیں۔پہلی قسم تو وہ ہے جن کے بارے میں یہ بات صاف محسوس ہوتی ہے کہ اُن میں نبی ﷺ کی بیان کردہ اصل بات روایت ہونے سے رہ گئی ہے ۔جو الفاظ اِن روایات سے ہمارے سامنے آتے ہیں انہیں وہ شعور قبول نہیں کرتا ، جو قرآن مجید کے کسی طالب علم کو اُس سے حاصل ہوتا ہے۔اِن روایات کے علاوہ باقی رویات میں کوئی تضاد نہیں اوروہ آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں البتہ آسانی تفہیم کے لیے ان کے بھی گروپ بنائے جا سکتے ہیں۔مثلاً بعض میں علم الہی کا بیان ہے کہ اللہ تعالٰی کسی واقعے کے وقوع سے پہلے اپنے کمالِ علم کی بنا پر اُسے جانتا ہے۔اُس کا یہ کمال علم ،اُس کے کمال قدرت کی بنا پر کسی جبر کو مستلزم نہیں ہے۔اگر وہ اپنی قدرت اور اپنے علم میں کامل نہ ہوتا اور اُس کا علم ،اُس کے ذہن میں موجود طے شدہ مستقبل کا مرہون منت ہوتا تو بے شک پھر جبر لازم آتا۔ لیکن خدا کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔وہ احادیث جہاں آدمی کے اعمال اور اُس کے نیک بخت یا بد بخت ہونے کا بیان ہے،یہ بھی دراصل، خدا کے علم ہی کو بیان کرتی ہیں۔بعض احادیث خدا کی قدرت کو بیان کر تی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ خدا کی قدرت اِس کی حکمت کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ اِس بات کا انکار تو وہی کرے گا جو خدا کی صفات کے سارے معاملے کو صرف کسی ایک حدیث سے طے کرنا چاہے گا۔ وہ احادیث جہاں رزق ،زندگی اور موت وغیرہ کا ذکر ہے، ان میں دراصل، خدا کی طرف سے ملنے والی اُن نعمتوں اور تکالیف کا بیان ہے، جو خدا کی مطلق مرضی اور اُس کی لا محدود حکمت کے ساتھ انسان کی آزمایش کے لیے اُسے دی جاتی ہیں۔ظاہر ہے کہ اِس معاملے میں سارے کا سارا فیصلہ یک طرفہ طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ اُسی طرح کا ہے جیسا کہ ایک ممتحن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے امتحان دینے والے سے کون سا سوال پوچھنا ہے اور کون سا نہیں پوچھنا۔جن احادیث میں تقدیر پرغورسے منع کیا گیا ہے ان میں در اصل خدا کے لامحدود علم کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنے سے منع کیا گیا ہے ،کیونکہ یہ کوشش سراسر حماقت ہے۔‘‘وما اوتیتم من العلم الا قلیلا’’۔ انسان کا علم بہت محدود ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: خود کشی کے عمل میں اللہ تعالی کی مرضی شامل نہیں ہوتی البتہ اس کا اذن شامل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے دنیا میں آزمائش کے لیے انسانوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے برائی یا ظلم کا ارتکاب کر لیتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالی یہ اجازت نہ دیتے تو آزمائش ناممکن تھی۔ ہر انسان کو اللہ تعالی نے برائی اور بھلائی کا شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالی کسی شخص پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اس صورت حال میں جب کوئی شخص خود کشی کا اقدام کرتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالی کا مجھے دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک بڑا سنگین جرم ہے ، اس میں خدا کی رضا کیسے شامل ہو سکتی ہے ؟

(جاوید احمد غامدی)