تزکیہ

ج: تزکیے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ خدا کے دین پر عمل کریں۔ دین اترا ہی اس لیے ہے کہ وہ آپ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تزکیہ کرے۔ جب آپ علم اور عمل دونوں میں پورے دین کو مکمل طور پر اپنا لیتے ہیں تو آپ کا مکمل تزکیہ ہو جاتا ہے۔ آپ جتنا اپناتے ہیں اس کے لحاظ سے آپ کا تزکیہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دین پر عمل کرنے کے لیے آدمی میں رغبت پیدا کرنے کے لیے یا اس کو متوجہ کرنے کے لیے بہت سے نفسیاتی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور وہ صوفیا بھی اختیار کرتے ہیں۔ جیسے ہم اپنے بچوں میں اسکول جانے کی رغبت پیدا کرتے اور ان کی سستی دور کرتے ہیں، ایسے ہی دین پر عمل کی رغبت پیدا کرنے کے لیے بھی نفسیاتی علاج معالجہ بھی ہوتا ہے اور بعض لوگ اس میں بڑا موثر طریقہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ صوفیا اگر اس کے لیے دین میں کوئی بدعت داخل نہ کریں تو یہ کوئی قابل اعتراض چیز نہیں، لیکن چونکہ وہ ان حدود کا لحاظ نہیں رکھتے، اس لیے بعض اوقات اس پر اعتراض کرنا پڑتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کا مقصود تزکیہ نفس ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی فکر اورانفرادی اور اجتماعی زندگی کو آلائشوں سے پاک کر کے ان کے عمل کو صحیح سمت میں نشوونما دی جائے ۔ اللہ نے اپنے پیغمبر اسی مقصد کے لیے بھیجے ۔ اللہ نے یہ دنیا اس اصول پر بنائی ہے کہ یہاں پر انسان پیغمبروں کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے نفس کی آلائشوں کو دور کرنے کی سعی کرے اور اپنے نفس کی تربیت کرے تا کہ جنت میں آباد ہونے کے قابل ہو جائے ۔ جنت میں آباد ہونے کے لیے بنیادی شرط ہی تزکیہ نفس ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے قد افلح من تزکی

(جاوید احمد غامدی)


جواب: سوال کے پہلے جزو کے جواب میں یہ ذہن نشین کرلیجیے کہ عربی زبان میں تزکیہ نفس کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک پاک صاف کرنا، دوسرے بڑھانا اور نشوونما دینا۔ اس لفظ کو قرآن مجید میں بھی انہی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے پس تزکیہ کا عمل دو اجزاء سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ نفس انسانی کو انفرادی طور پر اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر ناپسندیدہ صفات اور بری رسوم و عادات سے پاک صاف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ پسندیدہ صفات کے ذریعہ سے اس کو نشونما دیا جائے۔
اگر آپ قرآن مجید کو اس نقطہ نظر سے دیکھیں اور حدیث میں اور کچھ نہیں تو صرف مشکوۃ ہی پر اس خیال سے نظر ڈال لیں تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ کونسی ناپسندیدہ صفات ہیں جن کو اللہ اور رسولﷺ دور کرنا چاہتے ہیں اور وہ کونسی پسندیدہ صفات ہیں جن کو وہ افراد اور سوسائٹی میں ترقی دینا چاہتے ہیں۔ نیز قرآن و حدیث کے مطالعہ ہی سے آپ کو ان تدابیر کی بھی پوری تفصیل معلوم ہوجائے گی جو اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور اس کے رسولﷺ نے استعمال کی ہے۔
اہل تصوف میں ایک مدت سے تزکیۂ نفس کا جو مفہوم رائج ہوگیا ہے اور اس کے جو طریقے عام طور پر ان میں چل پڑے ہیں وہ قرآن وسنت کی تعلیم سے بہت ہٹے ہوئے ہیں۔
دوسرے جزو کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے تو عالم بالا کے معاملے میں صرف رسولﷺ کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انہوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دنیا میں عملاً وہ نظام حق قائم کردیں جو برائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشونما دینے والا ہو۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)