اختلافی مسائل

دین سارے کا سارا قرآن و سنت میں محفوظ ہے ’ لیکن دنیا میں نت نئے مسائل پیش آتے رہتے ہیں جن کے متعلق قرآن و سنت میں اصولی ہدایت تو موجود ہوتی ہے لیکن براہ راست حکم نہیں ہوتا چنانچہ ایسے سب موقعوں پر حکم یہ ہے کہ قرآن و سنت میں موجود اصول کو سمجھ کر ’ نئے مسائل کے بارے میں حکم معلوم کیا جائے ۔ اس کو اجتہاد کہتے ہیں ۔ چونکہ اجتہاد انسانی عقل پر مبنی ہوتا ہے لہذا اس میں اختلاف پیدا ہونا بالکل فطری ہے مثلاً خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین کی مجلس شوریٰ میں نئے مسائل پر کئی کئی دن تک بحث ہوتی رہتی تھی ۔چنانچہ دو اہل علم جب کسی اجتہادی معاملے میں ایک دوسرے سے جدا نقطہ نظر پیش کر دیتے ہیں تو اختلاف رائے پیدا ہو جاتا ہے ۔

 اختلاف پیدا ہونے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ جب اسلام بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو کچھ اہل علم نے سوٖچا کہ دین کے کٖچھ جزئیات اور شاخوں کو ، قانونی زبان میں ، دو جمع دو کی طرح بیان کر دیا جائے ، تاکہ اس کے سمجھنے میں آسانی ہو ، ٖچنانچہ مختلف اہل علم نے اپنے اپنے طریقے پر ، کچھ اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، دین کی شرح و وضاحت کی ۔ یہاں بھی ایک دوسرے سے مختلف نقطہ نظر سامنے آیا ۔ ہم ایک نمایاں مثال کے ذریعے سے اس کی وضاحت کریں گے ۔ آج امت کے دو گروہوں میں بڑا اختلاف‘‘ رفع یدین’’کے بارے میں ہے ۔

 حنفی نماز کے شروع میں کندھے تک ہاتھ لے جا کر اور تکبیر کہہ کر نماز شروع کرتے ہیں جبکہ اہل حدیث رکو ع میں جاتے وقت رکوع سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی کندھوں تک ہاتھ لے جاتے ہیں ۔

 ہوا یہ کہ سب سے پہلے امام ابو حنیفہ ؒ کو یہ خیال آیا کہ امت بہت پھیل رہی ہے ، کہیں ایسانہ ہو کہ فہم کی کمی کی وجہ سے دین کے اندر غلط چیزیں داخل ہو جائیں چنانچہ انہوں نے ہرچیز کے لیے قاعدہ بناکر انہیں منظبط کر نا شروع کیا ۔ امام ابو حنیفہ حضورﷺ کی وفات کے ستر سال بعد پیدا ہوئے گویا انہوں نے اپنی نوجوانی میں صحابہ کرام کو دیکھا تھا ( ایسے لوگ تابعی کہلاتے ہیں )۔

 سنت کی تدوین کرتے وقت امام نے یہ اصول بنا لیا کہ سنت، چونکہ ایک عملی ( کرکے دکھانے والی) چیز ہے ، تحریر کرتے وقت یا بیان کرتے وقت یہ ممکن نہیں ہوتا کہ اس عمل کو صحیح طرح بیان کیا جائے یا تحریر کیا جائے ، اس لیے جتنے بھی ظاہری اعمال ہیں ان میں امت کامل اتفاق یاتقریباً اتفاق سے عمل کر رہی ہے ، وہی صحیح ہے چونکہ حضور ﷺ کو ایک عمل انجام دیتے ہوئے لاکھوں صحابہ ؓ نے دیکھا ، ان لاکھوں صحابہ کو کروڑوں تابعین نے دیکھا لہذا اسی طرح یہ عمل آج اس امت میں سارے مسلمان انجام دے رہے ہیں اس کو وہ تواتر کے ذریعے سے منتقلی کہتے تھے ۔

 نماز کے اصول و ضوابط بناتے وقت جب رفع یدین کا مسئلہ پیش آیا تو انہوں نے دیکھاکہ امت میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کا طریقہ رائج ہے اور وہ باقی تکبیروں کے وقت رفع یدین نہیں کرتی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ انتہائی صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے بعض اوقات تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع پر بلکہ بعض اوقات ہرتکبیر کے ساتھ یہی رفع یدین کیا ہے ۔ اس سے امام ابو حنیفہ نے یہ نتیجہ نکالا کہ حضور ﷺ عام طور پر صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے تھے ، اس لیے امت میں یہی طریقہ رائج ہے البتہ کبھی کبھی وہ دوسرے مواقع پر بھی رفع یدین کر لیا کرتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سنت جو نبی ﷺ نے جاری کی ہے وہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین ہی ہے اور اگر مزید تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کیا جائے تو کوئی حرج نہیں البتہ نبی ﷺ کا طریقہ ہونے کے باوجود یہ وہ سنت نہیں جسے نماز کا لازمی حصہ قرار دیا جائے ۔

 اما م مالک ؒ حضور ﷺ کی وفات کے تقریباً اسّی سال بعد مدینے میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے بھی فقہ کو اپنی دلچسپی کا موضوع بنالیا ۔ سنت کی تدوین کرتے وقت انہیں بھی یہ مسئلہ پیش آیا کہ مختلف روایات اور لوگوں کے عمل میں تطبیق کیسے کی جائے انہوں نے سوچا چونکہ حضور کے آخری دس سال مدینے میں گزرے ہیں اور یہاں جتنے تابعی رہتے ہیں وہ براہ راست حضورؐ کے صحابہ کی صحبت سے طویل عرصے تک فیض یاب ہوئے ہیں اس لیے دین کی جتنی خالص شکل مدینے میں موجود ہے اور کہیں نہیں ۔ چنانچہ انہوں نے یہ اصول بنا لیاکہ اہل مدینہ کا عمل سنت معلوم کرنے کے لیے معیار ہے ، کیونکہ یہ بالکل تواتر کے ساتھ حضور کے زمانے سے امام مالک کے عہد تک منتقل ہوتا چلا آرہا ہے ۔

 اس اصول کے مطابق جب امام نے رفع یدین کے مسئلے کو لیا تو انہوں نے دیکھاکہ اہل مدینہ عام طو رپر صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے ہیں چونکہ نماز ایسی سنت ہے جس کو حضور ﷺ نے روزانہ پانچ مرتبہ لوگوں کے سامنے ساری زندگی سرانجام دیا ہے ۔ درمیا ن میں کوئی ایسا وقفہ نہیں آیا جس میں لوگوں نے روزانہ پانچ وقت مسجد میں نما ز نہ پڑھی ہو ، امت کا ایمان، تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں اتنا کمزور نہیں تھا کہ اہل مدینہ ، اجتماعی طو رحضور ﷺ کی ایک سنت چھوڑ دیں ۔ دوسری طرف بعض ثقہ راویوں کی شہادت بھی موجود تھی کہ حضور نے یقینا بعض مواقع پر تکبیر تحریمہ کے علاوہ بھی رفع یدین کیا ہے چنانچہ امام مالک نے بھی امام ابو حنیفہ کی طرح یہ نتیجہ نکالا کہ حضورﷺ کے معمول کا طریقہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کا تھا ، اس لیے عام طو رپر یہی طریقہ اپنانا چاہیے البتہ دوسری تکبیروں کے ساتھ ہاتھ کندھوں تک لے جانے کی اجازت ہے ۔

 امام شافعی ؒ ۱۵۰ ھ میں مصر میں پیدا ہوئے ۔ آپ ایک طرف امام مالک کے شاگر د رشید رہے اور دوسری طر ف امام ابو حنیفہ کے شاگرد خاص اما م محمد ؒ سے بھی ایک لمبے عرصے تک فیض حاصل کیا ۔ آپ بھی ایک عظیم فقیہہ تھے ۔ آپ نے اپنے اصول میں تواتر کے بجا ئے روایات کو زیادہ اہمیت دی ۔ یہاں یہ سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ دو عظیم اہل علم یعنی اما م ابو حنیفہ اور امام مالک نے تواتر کو زیادہ اہمیت کیوں دی او ر دو عظیم اہل علم ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے روایت کو زیادہ اہمیت کیوں دی۔یہ دراصل طبیعتوں اورمزاج کا فرق ہے کچھ لوگوں کی نظر حکمت پر ہوتی ہے وہ ایک اصول کے پس پردہ حکمت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے اور اپنے سامنے کچھ اصول بنا کر ان کے مطابق آگے بڑھتے ہیں۔ اس کے برعکس، کچھ لوگوں کا رویہ الفاظ کے ظاہر پر اعتماد کا ہوتا ہے ۔ ان کے خیال میں جو کچھ موجود ہے اس کا تجزیہ کرنے کے بجائے ظاہر الفاظ پر اعتماد زیادہ صحیح ہے چونکہ امام شافعی دوسرے خیال کے حامل تھے ۔ اس لیے آپ کانقطہ نظر یہ تھا کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ مزید تکبیروں کے وقت رفع یدین کی صحیح روایات موجود ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کیا جائے اور اگر رفع یدین نہ کیا جا ئے تو تب بھی کوئی حرج نہیں ۔

 امام احمد بن حنبلؒ ۱۶۴ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے ۔ آپ ایک طرف امام ابو حنیفہ کے سب سے محبوب شاگرد امام یوسف ؒ کے شاگرد رہے اور دوسری طرف آپ براہ راست امام شافعی کے بھی شاگرد رہے ۔ آپ نے بھی اپنے سامنے یہ اصول رکھا کہ جہاں جہاں حضور کا عمل کسی روایت سے ثابت ہوتا ہے وہاں روایت کو زیادہ اہمیت دی جائے اور اس کے بالمقابل تواتر سے صرف نظر کیا جائے چنانٖچہ رفع یدین کے متعلق آپ نے یہی موقف اپنایا کہ رفع یدین کرنا چاہیے ہمارے ہاں اہل حدیث کا موقف بھی یہی ہے ۔

 دور اول کے یہ تمام عظیم اہل علم ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کو حق پر سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ۔ یہ سب ایک دوسرے سے علم حاصل کیا کرتے تھے ۔ ان میں سے ہرا یک نے کہاکہ حق تو صرف کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ہے ہم تو صرف اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کا اتباع بہتر ین طریقے پر کیسے کیا جائے ۔

 یہ ہے اس مسئلے پر اختلاف کی اصلی حقیقت ، جسے آج کے دور میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ درج بالابحث سے آپ نے اندازہ لگالیا ہو گاکہ سب کے سب اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ حضور ﷺ نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسری تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کیا بھی ہے اور چھوڑا بھی ہے گویا دونوں ہی طریقے حضور ﷺ سے ثابت شدہ ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک گروہ کے نزدیک رفع یدین کرنا زیادہ پسندیدہ ہے اور دوسر ے گروہ کے نزدیک مستقل کرنا کم پسندید ہ ہے گویا اگر کوئی فرد اتباع رسول ﷺ ہی کی خواہش میں رفع یدین نہیں کرتااور دوسرا اتباع رسول ﷺ ہی کی خواہش میں رفع یدین کرتا ہے ،تو دونوں اجروثواب کے مستحق ہیں اور اللہ دونوں پر نظر کرم فرمائیں گے ۔ ان دونوں گروہوں کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنی چاہیے کیونکہ دونوں رضائے الہی کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔

 لیکن آہستہ آہستہ، کم قسمتی سے ، مسلمانوں کے اندر ایسے ہی فروعی اختلافات پر دلوں میں سختی آنے لگی۔ان مسائل کے باعث ایک دوسرے سے نمازیں علیحدہ کی گئیں ۔ ایک دوسرے کو مارا پیٹا جانے لگا اور ایسے دلائل تراشے جانے لگے جو اس امت کو ایک دوسرے سے کاٹنے کا باعث بن گئے ۔

 مثلا رفع یدین کے حامیوں نے یہ دلیل تراشی کہ اصحاب آہستہ آہستہ حضور ﷺ کی سنتیں بھول گئے یوں رفع یدین کی سنت فراموش ہو گئی ۔ یہ دلیل اصحاب رسول پر بدترین بہتان ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم ( خاکم بدہن ) صحابہ ؓ سے بہتر مسلمان ہیں کہ ہم ان جزئیات کا خیال ان سے بھی بہتر طریقے پر رکھتے ہیں اور سنت بھی وہ جسے دن میں پانچ دفعہ کروڑوں مسلمان ، اجتماعی طور پر دہراتے ہوں۔ ذرا سوچیے تو سہی ، اگر رفع یدین حضور ﷺ کا ایساعمل ہوتا جس کو حضور نے کبھی نہ چھوڑا ہوتا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد کچھ صحابہ اس کو نماز کے دوران میں چھوڑنا شروع کر دیتے، تو کیااس پر دوسرے صحابہ کے درمیا ن اضطراب کی ایک زبردست لہر نہ اٹھتی اور پھر رفع یدین سے صحابہ ؓ کو کیا دشمنی ہو سکتی تھی کہ قیام ، رکوع ، سجود ، قعدہ اور رکعتیں تو سب متفق علیہ ہوں مگر رفع یدین کو صحابہ ؓ بھول جائیں ۔

 دوسری طرف رفع یدین نہ کرنے کے حامیوں نے یہ ستم کیا کہ اپنے حق میں موضوع اور ضعیف روایات سے استدلال شروع کیا ۔ مثلا یہ کہ جو شخص رفع یدین کرے گا اس کی نماز نہ ہو گی ۔ اب حضورؐ کے وقت میں رفع یدین کرنا یانہ کرنا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا کہ اسے سختی سے روکا جائے اور پھر یہ کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین تو سبھی کرتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتاہے کہ محض اپنے نقطہ نظر کو سہار ا دینے کیلیے یہ روایت گھڑی گئی ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک نے اپنے موقف کی بنیاد امت کے مجموعی عمل اور عملِ اہل مدینہ پر رکھی ہے ، نہ کہ روایا ت پر ۔

 چنانچہ وہی اختلاف جو دراصل کسی فعل کے افضل اور غیر افضل یعنی زیادہ پسندیدہ یا کم پسندیدہ ہونے کے بارے میں تھا اس سطح سے بڑھ کر یہاں تک آ گیا کہ رفع یدین کے حامیوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ جو رفع یدین نہیں کرتا ، اس کی نماز میں نقص لازمی آتا ہے ۔ دوسری طرف رفع یدین نہ کرنے والوں نے کہا کہ کسی صورت رفع یدین نہ کرنا چاہیے ۔ یوں اپنے اپنے موقف میں سختی لانے کی وجہ سے ، ایک حد تک گروہ بندی کی صورت حال پیدا ہو گئی ۔

 آپ یقینا یہ چاہیں گے کہ اس موضوع پر ہمارا نقطہ نظر بھی آپ کے سامنے آ جائے ۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دین میں رہنما اور لازم چیزیں قرآن و سنت ہیں۔ قرآن ہمارے لیے ہر چیز کے پرکھنے کی کسوٹی اور معیار حق و باطل ہے ۔ اسی طرح سنت وہ عملی راستہ ہے جس پر حضور ﷺ ساری زندگی کاربند رہے اور نہایت اہتمام کے ساتھ اپنی امت میں رائج کیا ۔ سنت صحابہ کرام کے کامل اجماع سے ان کے بعد لوگوں تک پہنچی ہے ۔ اس پر عمل کرناہمارے لیے لازم ہے ۔

 سنت کے علاوہ حضور نے کئی ایسے افعال بھی کیے ہیں جو اپنی جگہ نہایت پسندیدہ ہیں مگر انہیں حضور نے اپنی امت میں نہ رائج کیا اور نہ لازم کیا گویا یہ سب افعال واذکارنفل کے درجے کے ہیں ۔

 اس نقطہ نظر سے رفع یدین ایک نفل چیز ہے اس کا کبھی کبھا ر کرنا باعث اجر ہے اور اس کے نہ کرنے سے نماز میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔ رفع یدین دراصل ہے کیا چیز ؟ یہ اس عہد کا نام ہے کہ ایک انسان نے ہرطرف سے منہ موڑ کر اپنے رب کی طرف پور ی توجہ کر لی ہے اب اگر آپ ہاتھ اٹھا کر یہ عہد صرف نماز کے شروع میں کر لیتے ہیں ، تو یہ بھی کافی ہے اور اگر شدت احساس کی وجہ سے نماز کے دوران کسی بھی اللہ اکبر کہنے کے دوران پھر یہ عہد کر لیں تو تب بھی ٹھیک ہے بلکہ اگر کوئی فرد ہر اللہ اکبر کہنے کے وقت ، اپنے آپ کو یہ عہد یاد کر انے کی خاطر ہاتھ اٹھائے تو اس پر بھی کوئی اعتراض وارد نہیں کیا جا سکتا ۔ گویا، رفع یدین کرنے والے اور نہ کرنے والے دونوں ہی اللہ کے ہاں اجر و ثواب کے مستحق ہیں ۔ دونوں کی نمازیں ٹھیک ہیں ۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، کیونکہ دونوں ہی دین کی پیروی کرنا چاہتے ہیں ۔ البتہ وہ اگر اس سے آگے بڑھ کر مسئلے کو وجہ تنازع بنالیں ، اس کی بنا پر گروہ بندی کرتے ہوئے علیحدہ نام رکھنے لگیں ، تو اس صورت میں یہ لوگ صراط مستقیم سے ہٹ ایک غلط رویہ اپنا لیتے ہیں۔امت کے مختلف گروہوں کے درمیان باقی اختلافات کی نوعیت اور شدت اس مثال سے کہیں کم ہے ، جس پر ہم نے درج بالا صفحات میں روشنی ڈالی ہے (سوائے شیعہ سنی اختلافات کے) اکثرمقامات پرفرق صرف زیادہ پسندیدہ اورکم پسندیدہ کاہے،لیکن بد قسمتی سے ان اختلافات کو یوں بیان کیا جاتا ہے ، جیسے دین کی بنیادوں میں کوئی اختلاف رونما ہو گیا ہے اور اسی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نمازیں علیحدہ کر لی جاتی ہیں ۔

(ڈاکٹر محمد فاروق خان )

جواب :مان لیا جائے کہ حضور ﷺ نے اپنی عترت یا اہل بیت سے دین سیکھنے کا ہی حکم دیا ہے تو ان الفاظ کا مفہوم آخر صرف اولاد حضرت علیؓ تک ہی کیوں محدود کردیا گیا؟ اس میں ازروئے قرآن ازواج نبی بھی داخل ہیں اور ان میں آل جعفر، آل عقیل، آل عباس اور تمام بنو ہاشم بھی داخل ہیں جن پر حضور ﷺ نے صدقہ حرام کیا۔
پھر حضورﷺ نے صرف یہی نہیں فرمایا کہ ترکت فیکم الثقلین -85 بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ‘‘علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین’’ (میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر چلو) اور یہ بھی فرمایا کہ ‘‘اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم’’ (میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کسی کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے)۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ حضور ﷺ کے ایک ارشاد کو تو لیا جائے اور دوسرے ارشادات کو چھوڑ دیا جائے؟ کیوں نہ اہل بیت سے بھی علم حاصل کیا جائے اور ان کے ساتھ خلفائے راشدین اور اصحاب نبی رضی اللہ عنہم سے بھی؟عقل کسی بھی طرح یہ باور نہیں کرسکتی کہ تیئس سال کے دوران میں جو عظیم الشان کام نبی نے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی شرکت و رفاقت میں سر انجام دیا اور جسے لاکھوں آدمیوں نے اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا، اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں صرف آپ کے گھر والوں پر ہی حصر کرلیا جائے اور ان بہت سے دوسرے لوگوں کو نظر انداز کردیا جائے جو اس کام میں شریک ہوئے اور جنہوں نے اسے دیکھا۔ حالاں کہ حضور ﷺ کے گھر والوں میں سے خواتین کو اگر موقع ملا ہے تو زیادہ تر آپﷺ کی خانگی زندگی دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مردوں میں ایک حضرت علی ؓ کے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے آپ ﷺ کی رفاقت کا اتنا موقع ملا ہو جتنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، عمرؓ، عثمانؓ، ابن مسعودؓ اور دوسرے بہت سے صحابہ کرام کو ملا۔ پھر آخر محض اہل بیت ہی پر حصر کرلینے کی کونسی معقول وجہ ہے؟
اس سوال کو رد کرنے کے لیے بآلاخر ایک گروہ کو یہ کہنا پڑا کہ گنتی کے چند آدمیوں کے سوا باقی تمام صحابہ معاذ اللہ منافق تھے۔ مگر یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو۔ جسے نہ اس بات کی پروا ہو کہ تاریخ اس کی تمام خاک اندازیوں کے باوجود کس طرح اس کے قول کوجھٹلا رہی ہے اور نہ اس امر کی پروا ہو کہ اس قول سے خود سرکار رسالت مآب اور آپؐ کے مشن پر کیسا سخت حرف آتا ہے۔ کون معقول آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے ۳۲ سال تک اپنے جن رفقا پر پورا اعتماد کیا اور جنہیں ساتھ لے کر عرب کی اصلاح کا اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا وہ سب منافق تھے؟ پھر کیا حضور ﷺ ان کے نفاق سے آخر وقت تک بے خبر رہے؟ اگر یہ سچ ہے تو حضور ﷺ کی مردم شناسی و فراست مشتبہ ہوجاتی ہے اور اگر یہ غلط ہے، اور یقیناً غلط ہے تو آخر کیوں دین کا علم حاصل کرنے میں ان سب کی معلومات معتبر نہ ہوں؟
آپ کو کسی نے بالکل غلط باور کرادیا ہے کہ آئمہ اہل سنت نے مسائل دین کی تحقیق میں نہ اہل بیت سے رجوع کیا، نہ ان سے کوئی مسئلہ پوچھا اور نہ ان سے کوئی حدیث کی روایت لی۔ یہ غلطی حضرات اہل تشیع نے ضرور کی ہے کہ معلومات کے ایک ہی ذریعے (یعنی اہل بیت -85 جنہیں انہوں نے بیت مانا) پر حصر کرلیا اور دوسرے تمام ذرائع کو چھوڑ دیا۔ مگر آئمہ اہل سنت نے یہ غلطی نہیں کی۔ انہوں نے تو وہ علم بھی لیا ہے جو اہل بیت کے پاس تھا اور وہ بھی لیا جو دوسرے صحابہ کرامؓ کے پاس تھا اور پھر پوری چھان بین کے بعد اپنے طرز تحقیق کے مطابق فیصلہ کیا ہے کہ کس مسئلہ میں کون سا طریقہ زیادہ صحیح اور معتبر ہے۔مثال کے طور پر امام ابو حنیفہؒ ہی کو لیجیے۔ وہ جہاں دوسرے صحابہ کرام و تابعین سے علم حاصل کرتے ہیں وہاں امام محمد باقرؓ، امام جعفر صادق ؓ، حضرت زید بن علی بن حسینؓ اور محمد بن حنیفہ کے علم سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ یہی حال دوسرے فقہا اور محدثین کا بھی ہے۔ حدیث کی کونسی کتاب ہے جس میں بزرگان اہل بیت کی روایات نہ پائی جاتی ہوں۔لیکن یہ کہنا کہ نماز یا کوئی دوسری چیز صرف وہی لی جاتی جو امام جعفر صادق ؓ کے پاس تھی، کیوں کہ انہوں نے امام محمد باقر ؓ سے اور انہوں نے امام زید العابدین ؓ سے اور انہوں نے امام حسین ؓ سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ اور انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے اسے لیا تھا، صحیح نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اسی ذریعے پر حصر کیوں کیا جائے؟ دوسرے ہزاروں لوگ بھی تو موجود تھے جنہوں نے نمازیں پڑھتے ہوئے اور دوسرے دینی کام کرتے ہوئے سینکڑوں تابعین کو اور انہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا تھا اور ان سب نے نبیﷺ کو اپنی آنکھوں سے یہی کام کرتے دیکھا تھا۔ آخر ان کو چھوڑنے اور صرف اہل بیت سے تمسک کرنے کی کیا وجہ ہے؟ صاحب البیت ادریٰ بما فیہ کوئی آیت قرآنی یا حدیث تو نہیں ہے کہ اس کی پیروی اختیار کرکے اسی نبی کی زندگی کے بارے میں صرف اس کے گھر والوں کے علم پر انحصار کر لیا جائے جس کی زندگی کا ننانوے فیصدی حصہ گھر سے باہر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے سامنے گزرا ہے اور جس سے ہزار ہا آدمیوں کو مختلف احوال و معاملات میں کسی نہ کسی طور پر سابقہ پیش آیا ہو۔
لوگ مسائل دینی میں اختلافات کو دیکھ کر گھبرا اٹھے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ اختلافات نہ ہوتے اگر صرف اہل بیت کے علم پر اکتفا کر لیا جاتا۔ حالاں کہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ نہ اختلافات کوئی گھبرانے کی چیز ہیں اور نہ اہل بیت کے متبعین ہی اختلاف سے بچ سکے ہیں۔ آپ اگر حضرات شیعہ کے مختلف فرقوں کے عقائد اور ان کے فقہی مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ ان کے ہاں اس سے زیادہ اختلافات ہیں، جتنے اہل سنت میں پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مسلک کا ماخذ اہل بیت ہی کے علم کو قرار دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس دین کو کروڑوں انسان اختیار کریں اور جس کے مآخذ کا ہزاروں لاکھوں انسان مطالعہ کرکے غور و فکر کریں، اس کی نصوص کی تعبیر اور احکام کی تفصیل اور جزئیات کی تحقیق میں کامل اتفاق کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے۔ اختلاف تو ایسی صورت میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور اس کے رونما ہونے کو روکا نہیں جاسکتا۔ لیکن ان بے شمار اختلافات کے اندر ایک جوہری وحدت ہوتی ہے اور وہ ان اساسی عقائد و اصول اور ان بڑے بڑے احکام کی بنیاد پر ہوتی ہے جس میں سب متفق پائے جاتے ہیں۔ اگر لوگ اصل اہمیت اس بنائے وحدت کو دیں اور جزوی اختلافات کو اپنی جگہ پر رکھیں تو کوئی قباحت واقع نہیں ہوتی۔ مگر جب لوگوں کے لیے اصل اہمیت ان جزوی امور کی ہوجاتی ہے جن میں وہ آپس میں مختلف ہیں اور بنائے وحدت کو وہ خفیف سمجھنے لگتے ہیں تو پھر تفرقہ رونما ہوتا ہے۔مثلاً نماز ہی کو لیجیے اس میں بنائے وحدت یہ ہے کہ سب مسلمان اللہ واحد ہی کی عبادت کرتے ہیں، اس کے طریق ادا کا ماخذ اسی نماز کو مانتے ہیں جو نبیﷺ نے سکھائی، پانچ وقت کی نماز فرض مانتے ہیں، ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں، وضو کو اس کے لیے شرط تسلیم کرتے ہیں، رکوع، سجدہ، قیام، قعدہ کو اس کی ہیئت کے اجزا مانتے ہیں اور اس میں تلاوت قرآن مجید اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس بنائے وحدت کے بعد ان میں اختلافات کن چیزوں میں ہیں؟ ہاتھ کہاں باندھے جائیں یا کھولے جائیں۔ آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ -85 امام کے پیچھے فاتحہ پڑھیں یا نہ پڑھیں وغیرہ۔ ان جزوی امور میں جتنے بھی مختلف مذاہب ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے پاس یہ دلیل رکھتا ہے کہ اس کا طریقہ کسی نہ کسی سند کے ساتھ نبی ﷺ سے مروی ہے اور وہ اپنی سند پیش کرتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ کس کی سند ضعیف ہے اور کس کی قوی، دیکھنا یہ ہے کہ ہر ایک کے پاس آخر نبی کریم ﷺ ہی کی سند تو ہے کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ میں حضور ﷺ کے سوا کسی اور کی سند پر یہ کام کرتا ہوں۔ پھر آخر کیا مضائقہ ہے، اگر ہم ایک طریقے پر (جس پر بھی ہمارا اطمینان ہو)عمل کرتے ہوئے دوسرے کے طریقے کو بھی مبنی برحق سمجھیں اور بنائے وحدت پر متفق رہیں؟(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال ۱۷۳۱ھ، جون، جولائی ۲۵۹۱ء)
 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)