مسلم معاشرت

بسنت کوئی مذہبی تہوار نہیں ہے اس کو علاقائی موسمی یا کلچرل تہوار کہہ سکتے ہیں۔ ایسے موسم ورواج بنیادی طور پر ناجائز وحرام بھی نہیں ہوتے اور سنت و واجب یا فرض بھی نہیں ہوتے جو مناتے ہیں ان کو منانے دیں اور جس کا من پسند نہ کرے وہ نہ منائے لیکن منانے والوں کو الزام نہ دیں۔
برصغیر پاک وہند میں موسم بہار کی آمد کے موقع پر بسنت منایا جاتا ہے، یہ ایک اظہار خوشی ہوتا ہے، جو بہار کے استقبال پر کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر پتنگ اڑائے جاتے ہیں یا اور بھی خوشی منانے کے طریقے اپنائے جاتے ہیں، ان میں اس وقت تک کوئی ممانعت نہیں جب تک وہ غلط رنگ نہ پکڑ جائیں۔ یعنی خوشی منانے کے جو جائز طریقے ہیں وہ اپنائے جائیں، جس میں فحاشی وعریانی یا پھر لوگوں کے جان ومال کا عدم تحفظ آ جائے اس طریقے کی مذمت کی جائے اور اس کو سرے سے ختم کیا جائے۔ مثلاً پتنگ اڑانا بنیادی طور پر حرام وناجائز نہیں ہے لیکن جب اس کو اڑانے کے لیے ایسے طریقے اپنائے جائیں جن سے لوگوں کے جان ومال محفوظ نہ ہوں پھر یہ جائز نہیں ہونگے۔ اسلام بھی اور دنیا بھر کے قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے، جیسا کہ پتنگ اڑانے کے لیے دھاتی تار استعمال کی جاتی ہے، جو لوگوں کی گردنیں کاٹ دیتی ہے، بجلی کا نقصان ہوتا ہے اور بہت سے لوگ کرنٹ لگنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اسی طرح بسنت کے موقع پر فائرنگ کرنا جو لوگوں کی موت کا سبب بنتا ہے، شراب پینا، گندی فلمیں دیکھنا اور مجرے وغیرہ سب برے کام ہیں، جن کی اجازت نہ بسنت کے موقع پر ہے نہ ہی اس کے علاوہ ایسی حرکات کی اجازت ہے۔ اس لیے ہم براہ راست بسنت کو برا بھلا کہنا شروع نہیں کر دیں گے بلکہ غور طلب بات یہ ہے کہ بنیادی طور پر بسنت کیا ہے اور اس موقع پر ہونے والے پروگرام کیا رخ اختیار کر گئے ہیں؟ تبدیلی کی ضرورت کہاں ہے؟ کیا تہوار ہی چھوڑ دیا جائے یا اس کو منانے کے لیے جو غلط طریقے آ چکے ہیں ان کو تبدیل کیا جائے ؟ اس پر غور کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ کوئی لباس انگریزی، عیسائی، ہندو یا یہودی نہیں ہوتا۔ ہر وہ لباس جو باپردہ ہو، گرمی سردی کی شدت سے بچائے اور پہنا ہوا اچھا لگے وہ اسلامی لباس ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے علاوہ کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اس لیے مذکورہ بالا شرائط پر پورا اترنے والا ہر لباس پہنا جا سکتا ہے۔اسلام ہر علاقے کے لوگوں کو اپنے ثقافتی لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے، اگر وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں۔ کیونکہ ہر علاقے، ثقافت اور کلچر کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ اسلام کسی ایک علاقے کے لیے نہیں آیا بلکہ یہ ایک آفاقی دین ہے جس نے ساری دنیا میں قابلِ قبول بننا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسلام آفاقی انداز اپنائے۔ کسی ایک علاقے کے لباس، زبان اور رسوم کو لاگو نہ کرے۔ہر دور اور ہر علاقے کے اپنے رنگ ہوتے ہیں، جو عربوں سے نہ بھی ملتے ہوں یا عہدِ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہ بھی ہوں توبھی قابلِ قبول ہیں۔اگر برِ صغیر پاک و ہند کے اکثر مسلمانوں کا لباس دیکھا جائے تو وہ شلوار قمیض ہے، جبکہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شلوار قمیض پہننے کی کوئی مستند روایت نہیں ملتی الاّ یہ کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پسند فرمایا۔ اس کے علاوہ کھانے، پینے، سواری کرنے اور دیگر بہت سی اشیاء ہم ایسی استعمال کرتے ہیں جن کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استعمال نہیں کیا۔ جیسے موبائل فون، کمپیوٹر، گاڑیاں، موٹر سائیکل، اے سی، پنکھے، کھانے پینے میں برگر، بوتل، پیزے وغیرہ اور ہزاروں ایسی اشیاجن کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔رہا لباس کا مسئلہ تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ مدینہ اور عرب علاقوں کے یہودی اور عیسائی جبّے پہنتے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر جبہ پہننے کو ناجائز اور غیر اسلامی قرار نہیں دیا بلکہ خود پہن کر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی لباس غیر اسلامی نہیں ہے جو باپردہ اور دیدہ زیب ہو۔ٹائی لباس کا حصہ ہے، مذہب کا نہیں۔ کوئی بھی اس کو عیسائیت کا حصہ نہیں سمجھتا۔ اگر ٹائی عیسائیت کی علامت ہوتی تو عیسائی اپنے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو یہ نہ پہننے دیتے اور دوسری طرف ہر ٹائی پہنے ہوئے کو عیسائی سمجھا جاتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ درست نہیں کہ پینٹ کوٹ اور ٹائی کو عیسائی لباس قرار دے دیا جائے اور ہر ٹائی لگانے والے کو عیسائی سمجھا جائے۔ جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان ہونے کے لیے کسی ایک لباس کو لازمی قرار نہیں دیا تو ہمارا بھی یہ فریضہ ہے کہ ہم امت پر تنگی نہ کریں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب: جدید علم کوئی ایسا علم نہیں ہے کہ اس کو ایک کتاب میں لکھا جائے۔ جدید علم تو ایک سمندر ہے اور اس کے کسی ایک فن میں مہارت پیدا کرنے کے لیے بہت کچھ محنت درکار ہے اس لئے میرے خیال میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہو سکتی جو جدید علم پر مبنی ہو اور سارا جدید علم اس میں آجائے۔ جدید علم کلام پر بھی کوئی ایک کتاب نہیں ہے مختلف کتابیں سامنے رکھنی پڑیں گئیں۔لیکن میرے خیال میں ایک بہت اچھی کتاب کبری الیقینات الکونیہ ہے یہ ڈاکٹر سعید رمضان البوطی کی تصنیف ہے شام کے بہت بڑے عالم ہیں ۔میرے خیال میں اسلام کے بنیادی عقائد کو جدید انداز میں ذاتی طور پر سمجھنے کے لئے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ اردو میں آسان کتاب میرے خیال میں علامہ شبلی کی الکلام اور علم الکلام ہے جو کہ اس موضوع پر بلاشبہ ایک اچھی کتاب ہے۔
ا

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: جی ہاں ،حضور ﷺ کبھی کبھی خاص طور پر گرمی کے شدید موسم میں سر اور داڑھی کے بالوں پر مہندی لگایا کرتے تھے رہی یہ بات کہ آپ کی داڑھی کی مقدار کتنی تھی اس کا کسی روایت میں کوئی متعین سائز نہیں ملتا صحابہؓ صرف اتنی روایت کرتے ہیں کہ کان کث اللحیۃ یعنی آپ کی داڑھی گھنی تھی ۔
 

()

جواب:بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآءِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْتم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔(الاحزاب، 33: 5)
آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اُن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:
عَنْ اَبِی ذَرٍّ اَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ یَقُولُ: لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَیْرِ اَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُہُ إِلَّا

کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَیْسَ لَہُ فِیہِمْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ.
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم:
عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ یَقُولُ: مَنِ ادَّعَی إِلَی غَیْرِ اَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ غَیْرُ اَبِیہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔
باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ: مَنْ انْتَسَبَ إِلَی غَیْرِ اَبِیہِ اَوْ تَوَلَّی غَیْرَ مَوَالِیہِ، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلَاءِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِینَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشبندی،سلفی، دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ضَرَبَ اللہ مَثلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَت نوحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْط
اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت اور لوط (علیہ السلام) کی عورت کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 10
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:
وَضَرَبَ اللہ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْن اور اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجہ فرعون کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 11
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:امْرَاَۃُ ابْنِ مَسْعُودٍ.
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔
اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:
ہَذِہِ زَوْجَۃُ النَّبِیِّ.یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اُن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔
لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام

ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئے بغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
(مفتی: محمد شبیر قادری)

(منہاج القرآن)

نسب تبدیل کرنا
سوال: ایک شخص جو کہ قریشی النسب ہے اور ایک مشہور بزرگ کی اولاد سے تعلق رکھتا ہے اس بزرگ کے صحیح قریشی النسب ہونے میں اس کی تمام اولاد جوکہ تقریباً چار سو نفوس پر مشتمل ہے’ متفق ہے۔ اولاد کے علاوہ علاقائی اور دیگر تمام اقوام بھی گزشتہ تین سو سال سے ان بزرگ کے صحیح قریشی النسب ہونے پر متفق چلی آرہی ہیں۔ ان بزرگ کی اولاد میں سے ساتویں اور آٹھویں پشت کے چند لوگوں نے ان بزرگ کو گیلانی سید مشہور کروانا شروع کردیا ہے اور خود بھی خودساختہ گیلانی سید بن چکے ہیں جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ خاندان کے کچھ افراد نے ان کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا تو جواباً انہوں نے اپنے آپ کو گیلانی سید ثابت کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے پیر و مرشد حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین گیلانی قادری بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب پیش کیا، لیکن ان کی جعلسازی بروقت پکڑی گئی۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے قول و فعل سے باز نہیں آرہے ان میں سے دو شخص (باپ بیٹا) ان بزرگ کی درگاہ کے خودساختہ گدی نشین بھی بن بیٹھے ہیں اور تعویذات و عملیات کا کام بھی کرتے ہیں۔ برائے کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں اپنے فتوٰی سے مستفید فرمائیں کہ ان جعلسازوں کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم نافذ ہوتا ہے؟


جواب:اسلام میں نسب تبدیل کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے پر سخت وعید بھی آئی ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَیْرِ اَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُہُ إِلَّا کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَیْسَ لَہُ فِیہِمْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ.
جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب نسبۃ الیمن إلی إسماعیل، 3: 1292، رقم: 3317، بیروت: دار ابن کثیر الیمامۃ
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان حال إیمان من رغب عن أبیہ وہو یعلم، 1: 79، رقم: 61، دار إحیاء التراث العربی
اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
وَفِی الْحَدِیثِ تَحْرِیمُ الِانْتِفَاءِ مِنَ النَّسَبِ الْمَعْرُوفِ وَالِادِّعَاءِ إِلَی غَیْرِہِ وَقَیَّدَ فِی الْحَدِیثَ بِالْعِلْمِ وَلَا بُدَّ مِنْہُ فِی الْحَالَتَیْنِ إِثْبَاتًا وَنَفْیًا لِأَنَّ الْإِثْمَ إِنَّمَا یَتَرَتَّبُ عَلَی الْعَالِمِ بِالشَّیْءِ الْمُتَعَمِّدِ لَہُ.
اس حدیث میں کسی معروف نسب سے تعلق کا دعویٰ کرکے انتفاء و اغراض مقاصد حاصل کرنا حرام ہے، اور حرام اسی وقت ہوگا جب کوئی ایسا قصداً اور جانتے ہوئے کرے، کیونکہ گناہ کا ترتب تب ہی ہوگا جب اس کو جانتے ہوئے اور قصداً کیا جائے۔عسقلانی، فتح الباری، 6: 541، بیروت: دار المعرفۃ۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایسے شخص پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ انْتَسَبَ إِلَی غَیْرِ أَبِیہِ أَوْ تَوَلَّی غَیْرَ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
ابن ماجہ، السنن، کتاب الحدود، باب من ادعی إلی غیر أبیہ أو تولی غیر موالیہ، 2: 870، رقم: 2609، بیروت: دار الفکر
درج بالا روایات سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کر اپنا نسب بدلنا اور خود کو اپنے اصلی نسب کی بجائے کسی اور سے منسوب کرنا حرام ہے۔ سوال میں مذکور شخص نے بھی اگر واقعتاً جان بوجھ کر اپنا نسب تبدیل کیا ہے تو حرام عمل کیا ہے جس پر وہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے۔ اس کی دیگر جعلسازیاں بھی قابلِ مذمت اور ناجائز ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

(منہاج القرآن)

جواب:بیٹی پر شفقت و رحمدلی اور نرمی کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو والد کا اپنے ساتھ لگانا اور اس کا سر یا رخسار کا بوسہ لینا جائز ہے، چاہے بیٹی بالغہ اور بڑی عمر کی ہو، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ فتنہ یا شہوت کا ڈر نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں ہونٹوں کا بوسہ لینا جائز نہیں یہ مستثنی ہے کیونکہ یہ صرف خاوند اور بیوی کے ساتھ مخصوص ہے، اور اس لیے بھی کہ اس سے غالبا شہوت میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:آیا مرد اپنی محرم عورت کا بوسہ لے سکتا ہے یا نہیں؟انہوں نے جواب دیا:'' جب سفر سے واپس آئے اور اسے اپنے نفس کا (شہوت) کا ڈر نہ ہو تو.
اور الاقناع میں درج ہے:'' اگر کسی کو اپنے نفس کا خطرہ نہ ہو تو سفر سے واپس آنے والے شخص کے لیے اپنی محرم عورتوں کا بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن وہ ایسا ہونٹوں پر مت کرے، بلکہ پیشانی اور سر کا بوسہ لے '' شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:
اگر کسی شخص کی بیٹی بلوغت کی عمر سے تجاوز کر جائے اور بڑی ہو جائے چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ تو کیا اس کا ہاتھ اور مونہہ وغیرہ چومنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر ان جگہوں کا بوسہ لیا جائے تو کیا حکم ہوگا؟
شیخ رحمہ اللہ کا جواب تھا:'' مرد کے لیے بغیر شہوت اپنی چھوٹی یا بڑی عمر کی بیٹی کا بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر بیٹی بڑی ہے تو پھر رخسار کا بھی بوسہ لے سکتا ہے کیونکہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے رخسار کا بوسہ لیا تھا۔
اور صحیح بخاری میں ہی روایت ہے کہ:براء رضی اللہ تعالی عنہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہجرت کے بعد ان کے گھر گئے تو ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی عائشہ لیٹی ہوئی تھی اور انہیں بخار تھا تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے باپ نے عائشہ کا رخسار چوما اور کہنے لگے: میری بیٹی تم کیسی ہو؟ ''
صحیح بخاری حدیث نمبر (3704).
 

(شیخ محمد صالح المنجد)