جدید علم کی کتاب

جواب: جدید علم کوئی ایسا علم نہیں ہے کہ اس کو ایک کتاب میں لکھا جائے۔ جدید علم تو ایک سمندر ہے اور اس کے کسی ایک فن میں مہارت پیدا کرنے کے لیے بہت کچھ محنت درکار ہے اس لئے میرے خیال میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہو سکتی جو جدید علم پر مبنی ہو اور سارا جدید علم اس میں آجائے۔ جدید علم کلام پر بھی کوئی ایک کتاب نہیں ہے مختلف کتابیں سامنے رکھنی پڑیں گئیں۔لیکن میرے خیال میں ایک بہت اچھی کتاب کبری الیقینات الکونیہ ہے یہ ڈاکٹر سعید رمضان البوطی کی تصنیف ہے شام کے بہت بڑے عالم ہیں ۔میرے خیال میں اسلام کے بنیادی عقائد کو جدید انداز میں ذاتی طور پر سمجھنے کے لئے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ اردو میں آسان کتاب میرے خیال میں علامہ شبلی کی الکلام اور علم الکلام ہے جو کہ اس موضوع پر بلاشبہ ایک اچھی کتاب ہے۔
ا

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: مولانا ادریس کاندھلوی بلا شبہ بہت بڑے عالم فاضل انسان تھے ان کے کلام پر میں کیا تبصرہ کرسکتا ہوں البتہ میں ایک عمومی اور اصولی بات عرض کر سکتا ہوں۔ مولانا ادریس کاندھلوی یا مولانا شبلی نعمانی یا مولانا محمد قاسم نانوتوی یا اس طرح کے اور اکابر کی کتابیں بہت اچھی اور بڑی فاضلانہ کتابیں ہیں۔ لیکن وہ قدیم علم کلام کو قدیم اسلوب میں بیان کرتی ہیں اس لئے وہ علم کلام کے مختص طلبہ کے لئے مفید ہیں لیکن وہ جدیدعلم کلام کے تقاضوں کو شاید اس حد تک پو رانہ کر سکیں جس حد تک کہ آج کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا ادریس کاندھلوی کی کتاب میں نے کئی بار پڑھی ہے بہت عالمانہ کتاب ہے ۔مولانا قدیم علم کلام کے بڑے ماہر تھے لیکن قدیم علم کلام کے جو اصول موضوعہ ہیں وہ آج کے اس نئے دور تعلیم یا فتہ کے لیے قابل فہم نہیں ہیں نہ آج کل کے انسان کے ذہن میں وہ سوال پیدا ہو تے ہیں اور نہ قدیم انداز کے جوابات سے وہ مطمئن ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آج کل قائد اعظم یونیورسٹی کا کوئی طالبعلم نہ وہ جوہر کوجانتا ہے اور نہ عرض کو نہ وہ حادث کی اصطلاح سے واقف ہے نہ قدیم تصور سے آشنا ہے یہ مسائل اس کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ یہ کیٹگر یزاب ختم ہو گئی ہیں آج یہ مسائل زیر بحث نہیں ہیں لٰہذا وہ علم کلام جو ان اساسا ت پر مبنی ہو وہ آج کے طالب علم کے لئے غیر مفید ہے۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)