کفر کسے کہتے ہیں؟

جواب: انکار کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ آپ کی سمجھ میں بات نہیں آئی ۔انکار تعصب کی بنیاد پر ہوتا ہے’ ڈھٹائی کی بنیاد پر ہوتا ہے ’ضد کی بنیا د پر ہوتا ہے ’ انانیت کی بنیا د پر ہوتا ہے ’جذبات کی بنیاد پر ہوتا ہے’ خواہشات کی غلامی میں ہوتا ہے ۔ انکار کے بے شمار وجوہ ہیں۔جس انکارکو قرآن اپنی اصطلاح میں کفر کہتا ہے وہ تب ہوتا ہے جب انسان حق واضح ہو جانے کے بعد جانتے بوجھتے محض ڈھٹائی’ تعصب اور ضد سے انکار کر دے۔ا س وقت دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ جو سارے لوگ پائے جاتے ہیں ۔وہ غیر مسلم ہیں ۔کافر نہیں ہیں۔کافر وہ تب ہوں گے ۔جب یہ واضح ہو جائے گا کہ بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی محض ڈھٹائی سے انکار کر دیا ۔کافر قرآن کی اصطلاح ہے ۔ اتمام حجت کے بعد ،حق کے واضح ہو جانے کے بعد جب کوئی فرد یا جماعت اس کا انکار کرے تو پھر قرآن اسے کافر کہتاہے ۔ورنہ آدمی یہودی ہوگا ، نصرانی ہوگا ، یا کچھ اور ہو گا۔

 بنی اسرائیل پر قرآن کا اصل الزام یہ ہی ہے کہ یہ پہچان گئے ہیں۔یعرفونہم کما یعرفون ابناۂم ایسے پہچانتے ہیں کہ جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔ کوئی شبہ نہیں ہے اس معاملے میں اس کے با وجو د انکار کرتے ہیں جو قوم اس جگہ تک پہنچ گئی ہو کہ جب ان کو بتایا گیا کہ جبرائیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن لے کر آتے ہیں ۔تو انہوں نے کہا کہ اس کی تو ہمارے ساتھ سد اکی دشمنی رہی ہے ۔پہلے بھی اسی طرح یہ کام کر چکا ہے ۔تو یہ وہ سرکشی ہے جو باعث بنتی ہے کفر کا ۔آپ کے سامنے حق آگیا واضح ہوگیا آپ نہیں مان رہے ۔اس کے بعد حجت تما م ہو جاتی ہے ۔اور قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ جب تک یہ چیز نہ ہو جائے اس وقت تک ہم نہ دنیامیں عذاب دیتے ہیں نہ آخر ت میں ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ایک آدمی کی سمجھ میں بات نہیں آئی تو وہ معذور ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کے اتمام حجت کے بعد جب مشرکین عرب کے لیے آخری عذاب کا فیصلہ کیا گیا سورہ توبہ میں تو اس میں بھی ایک استثنا بیا ن ہوا ہے وان احد من المشرکین استجارک اگر کوئی ان مشرکین میں سے اتمام ِ حجت کے با وجود یہ کہتا ہے بات ابھی مجھ تک نہیں پہنچی ۔تو عذاب کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔قرآ ن کہتا ہے کہ فَاَ جِرہْ اس کو احترام کے ساتھ مہمان کے طور پر اتاریئے۔حتی یسمع کلام اللہ اور اس کے سامنے اللہ کا کلام پیش کر دیجئیثم ابلغہ ما منہپھراس کو جانے دیجئے تاکہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ کر مزید غور کر لے ۔اس کے بعد کارروائی ہوگی ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سارے لو گ کافر ہو گئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے ۔ البتہ غیر مسلم ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: انکار کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ آپ کی سمجھ میں بات نہیں آئی ۔انکار تعصب کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ ڈھٹائی کی بنیاد پر ہوتا ہے ‘ضد کی بنیا د پر ہوتا ہے ‘ انانیت کی بنیا د پر ہوتا ہے ‘جذبات کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ خواہشات کی غلامی میں ہوتا ہے ۔ انکار کے بے شمار وجوہ ہیں۔جس انکارکو قرآن اپنی اصطلاح میں کفر کہتا ہے وہ تب ہوتا ہے جب انسان حق واضح ہو جانے کے بعد جانتے بوجھتے محض ڈھٹائی‘ تعصب اور ضد سے انکار کر دے۔ا س وقت دنیا میںمسلمانوں کے علاوہ جو سارے لوگ پائے جاتے ہیں ۔وہ غیر مسلم ہیں ۔کافر نہیں ہیں۔کافر وہ تب ہوں گے ۔جب یہ واضح ہو جائے گا کہ بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی محض ڈھٹائی سے انکار کر دیا ۔کافر قرآن کی اصطلاح ہے ۔ اتمام حجت کے بعد ،حق کے واضح ہو جانے کے بعد جب کوئی فرد یا جماعت اس کا انکار کرے تو پھر قرآن اسے کافر کہتاہے ۔ورنہ آدمی یہودی ہوگا ، نصرانی ہوگا ، یا کچھ اور ہو گا۔

 بنی اسرائیل پر قرآن کا اصل الزام یہ ہی ہے کہ یہ پہچان گئے ہیں۔یعرفونہم کما یعرفون ابنائہم ایسے پہچانتے ہیں کہ جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔ کوئی شبہ نہیں ہے اس معاملے میں اس کے با وجو د انکار کرتے ہیںجو قوم اس جگہ تک پہنچ گئی ہو کہ جب ان کو بتایا گیا کہ جبرائیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن لے کر آتے ہیں ۔تو انہوںنے کہا کہ اس کی تو ہمارے ساتھ سد اکی دشمنی رہی ہے ۔پہلے بھی اسی طرح یہ کام کر چکا ہے ۔تو یہ وہ سرکشی ہے جو باعث بنتی ہے کفر کا ۔آپ کے سامنے حق آگیا واضح ہوگیا آپ نہیں مان رہے ۔اس کے بعد حجت تما م ہو جاتی ہے ۔اور قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ جب تک یہ چیز نہ ہو جائے اس وقت تک ہم نہ دنیامیں عذاب دیتے ہیں نہ آخر ت میں ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ایک آدمی کی سمجھ میں بات نہیں آئی تو وہ معذور ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کے اتمام حجت کے بعد جب مشرکین عرب کے لیے آخری عذاب کا فیصلہ کیا گیا سورہ توبہ میں تو اس میں بھی ایک استثنا بیا ن ہوا ہے وان احد من المشرکین استجارک اگر کوئی ان مشرکین میں سے اتمام ِ حجت کے با وجود یہ کہتا ہے بات ابھی مجھ تک نہیں پہنچی ۔تو عذاب کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔قرآ ن کہتا ہے کہ فَاَ جِرہْ  اس کو احترام کے ساتھ مہمان کے طور پر اتاریئے۔حتی یسمع کلام اللہ اور اس کے سامنے اللہ کا کلام پیش کر دیجئیثم ابلغہ ما منہپھراس کو جانے دیجئے تاکہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ کر مزید غور کر لے ۔اس کے بعد کارروائی ہوگی ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سارے لو گ کافر ہو گئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے ۔ البتہ غیر مسلم ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)