حب جاہ

حکم ربانی

            اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَفِیْ الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ.(الحدید۵۷:۲۰)

            ‘‘جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمھارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (و خواہش) ہے۔ (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے۔ پھر وہ خوب زور پر آتی ہے۔ پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ یہ(پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوتی ہے۔ اور آخرت میں(کافروں کے لیے) عذاب شدید اور( مومنوں کے لیے)خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔

             أَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ.حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ.کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.کَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ ……

            ‘‘تم کو کثرت (مال و جاہ) کی طلب نے غافل کر دیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا کر دیکھیں، دیکھو تمھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا، پھر دیکھو تمھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا، دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے) ’’(التکاثر۱۰۲:۱۔۵)

فرمانِ نبوی

            ماذئبان جائعان ارسلا فی غنم بافسدلھا من حرص المرء علی المال والشرف لدینہ’’(جامع الترمذی، ابواب الزہد)

            ‘‘دوبھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں گھس جائیں اس کا اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا حب مال و جاہ انسان کے دین کا کرتے ہیں۔’’

            عن ابی موسیٰ قال: دخلت علی النبی ﷺ انا ورجلان من بنی عمی: فقال احد الرجلین، یا رسول اللہ! امرنا علی بعض ماولاک اللہ عزوجل؟ وقال الآخر مثل ذلک، فقال: انا، واللہ لا نولی علی ھذا العمل احدا سالہ، ولا احدًا حرص علیہ۔(صحیح مسلم، کتاب الامارہ)

            ‘‘حضرت ابو موسیٰؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ سے ملنے گیا جب کہ میرے ساتھ میرے دو رشتہ دار بھی تھے۔ ان دونوں نے نبی اکرم سے درخواست کی کہ انھیں مناصب دیے جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو مناصب کی حرص کرے اور ان کا مطالبہ کرے، ہم اسے یہ نہیں دیتے۔’’

(جاوید احمد غامدی)

جواب: حب جاہ کی پوری تعریف یہ ہے: بڑا بننے کی ایسی خواہش جو بندگی کی روح کے خلاف ہو اور جائز و ناجائز کی تفریق مٹا دے۔

            حب جاہ کے علاج میں بڑی مدد ان امور سے بھی مل سکتی ہے جو تکبر اور حب جاہ کے لیے بتائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ اس کے علاج میں دو اصول مستقلاً ملحوظ رکھنے چاہئیں: ایک ایثار اور دوسرے اخفائے صلاحیت۔ یہاں ایثار کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک چیز کا شرعاً اور قانوناً مستحق ہوتے ہوئے بھی اسے کسی دوسرے مستحق کے لیے چھوڑ دے اور اخفاء کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اپنی ان صلاحیتوں کو ایسے مواقع پر ظاہر نہ ہونے دے جہاں ان کے اظہار کے نتیجے میں کوئی مرتبہ و منصب حاصل ہو سکتا ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ حصول مقصود کا ذریعہ اور اس کے حصول کا استحقاق اگر شرعی جواز کے ساتھ ثابت ہوں اور ناکامی کی صورت میں بھی کامیاب ہونے والوں سے حسد یا بغض وغیرہ پیدا نہ ہو تو ہم کہیں گے کہ آگے بڑھنے کی خواہش میں اعتدال ملحوظ رہا ہے۔ اس صورت میں آگے بڑھنے کی خواہش فطری ہے اور اس سے کسی نقص و ضرر کا احتمال نہیں ہوتا۔ ان چیزوں کا نہ ہونا البتہ اعتدال کے خلاف ہے اور حب جاہ پر دلالت کرتا ہے۔

            جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ حب جاہ کی تعریف میں بڑا بننے کی خواہش کے ‘‘خلاف بندگی’’ ہونے کا کیا مطلب ہے تو اس کے دو پہلو ہیں: ایک تو یہ کہ طالب جاہ اللہ سے ایک مشروط تعلق رکھتا ہے۔ مثلاً اس کی شکر گزاری اس وقت تک ہوتی ہے جب تک تمام معاملات اس کی خواہش کے مطابق چلتے رہتے ہیں، جوں ہی کوئی چیز خلاف مرضی ہوئی یہ شخص شکایت اور شکوے تک پہنچ جاتا ہے یعنی اس کا رویہ تسلیم و رضا کے خلاف ہوتا ہے۔ دوسرا پہلوعملی ہے اور وہ یہ کہ طالب جاہ کی امیدیں اگر پوری نہ ہوں تو اس کی عبادات میں بھی خلل پڑ جاتا ہے۔ یہ حب جاہ کی ایسی یقینی نشانی ہے کہ اسے ایک کلیہ سمجھنا چاہیے۔

            خلاصہ یہ کہ بندگی کے دو اہم اجزاء ہیں: ایک ہر حال میں راضی برضا رہنا، ذہنی طور پر بھی اور طبعی طور پر بھی، دوسرے اعمال عبودیت کو ان کے بتائے ہوئے معیار کے ساتھ انجام دینا۔ طلب جاہ اگر پوری نہ ہو تو یہ دونوں چیزیں لازماً متاثر ہوتی ہیں۔ آدمی جانتے بوجھتے اللہ کی رضا سے نامطمئن ہو جاتا ہے اور اپنی امیدیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی عبادت بھی کسی نہ کسی پہلو سے متاثر ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ قابل اصلاح حالت تو ہے لیکن یہ حب جاہ نہیں ہے کیونکہ حب جاہ کا مریض اپنے عدم تسلیم و رضا کے ردعمل کو ٹھیک سمجھتا ہے جبکہ زیر نظر سوال میں آدمی شکایت یا بے اطمینانی کا احساس رکھنے کے باوجود ایک تو اس کے مقتضاء پر عمل نہیں کرتا اور دوسرے اس کی اصلاح کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا اسے مجموعی طور پر نفس کی کمزوری سے تو تعبیر کیا جائے گا لیکن حب جاہ کا نام نہیں دیا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس کا علاج یہ ہے کہ لمبی دعا مانگی جائے اور اس دعا کے بیشتر مضامین اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور آخرت کی بہتری سے متعلق ہوں۔ ان شاء اللہ اس پر مداومت سے اس کیفیت میں نمایاں بہتری کے آثار پیدا ہوں گے۔ اس کا تفصیلی بیان اس جگہ آئے گا جہاں ہم تعلق باللہ کی مضبوطی کے ذرائع پر گفتگو کریں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: فساد دین بلکہ دین کا خاتمہ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے ریوڑ کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا حب جاہ اور حب مال انسان کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ (سنن ترمذی، کتاب الزہد)

            حب جاہ کے نقصانات اور علاج کا تفصیلی بیان اس جگہ آئے گا جہاں ہم تعلق باللہ کی مضبوطی کے ذرائع پر گفتگو کریں گے۔

(جاوید احمد غامدی)