ذخيرہ اندوزي

جواب:جن چیزوں کے بارے میں ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے ان کی تعیین میں اہل علم کی مختلف آرا ہیں، چنانچہ کچھ اہل علم صرف غذائی اجناس تک محدود کرتے ہیں تو کچھ ہر ایسی چیز کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے اور جس کی عدم دستیابی کی صورت میں لوگوں کو نقصان ہو، یہ مالکی فقہائے کرام کا موقف ہے اور امام احمد سے ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے، اور یہی موقف احادیث کے ظاہر کے مطابق صحیح ہے۔
'احادیث کا ظاہر یہی بتلاتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی حرام ہے اور اس کے لیے انسانوں یا حیوانوں کی غذا میں کوئی فرق نہیں ہے، اگر کسی حدیث میں ''طعام'' یعنی انسانی غذائی جنس کے الفاظ ہیں تو یہ روایات دیگر مطلق روایات کو مقید کرنے کے لیے مناسب نہیں ہیں؛ کیونکہ یہ مطلق کے افراد میں سے کسی ایک کا صراحت کے ساتھ نام لینے کے قبیل سے ہے۔'' 
اسی طرح علامہ رملی شافعی ''أسنی المطالب'' پر حاشیہ کے صفحہ نمبر: (2/39) پر کہتے ہیں:''مناسب یہی ہے کہ ممنوعہ ذخیرہ اندوزی ہر اس کھانے اور پہننے کی چیز میں ہونی چاہیے جس کی عام طور پر ضرورت پڑتی رہتی ہے۔'' یہی موقف اس حکمت کے ساتھ بھی مناسب ہے جس کی وجہ سے ممنوعہ ذخیرہ اندوزی سے منع کیا گیا ہے، اور وہ ہے لوگوں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ، چنانچہ اسی موقف کے مطابق دائمی فتوی کمیٹی (13/184) نے بھی فتوی جاری کیا ہے کہ:''ایسی چیز کو ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو، اور اسی کو عربی میں احتکار کہتے ہیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ناجائز ذخیرہ اندوزی خطا کار ہی کرتا ہے۔) اس حدیث کو احمد، مسلم، ابو داود، نسائی، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ نیز اس ذخیرہ اندوزی سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔
لیکن اگر لوگوں کو اس چیز کی ضرورت نہ ہو، تو پھر اس وقت تک کے لیے ان چیزوں کو ذخیرہ کرنا جائز ہے جب ان کی ضرورت پڑے اور پھر لوگوں کو مہیا کر دی جائیں تا کہ لوگوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔'' 
مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق: اگر موبائل ریچارج کارڈ ذخیرہ کرنے پر لوگوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا؛ کیونکہ لوگ کسی اور ذریعے سے اپنا کام چلا سکتے ہیں تو انہیں ذخیرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ ممنوعہ ذخیرہ اندوزی میں بھی نہیں آئے گا۔
لیکن اگر اب انہیں فروخت نہ کیا جائے تو اس سے لوگوں کو نقصان ہو گا، اور متبادل
 دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سخت تکلیف ہو گی، جس کی وجہ سے معمول سے بڑھ کر انہیں زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی تو یہ حرام ذخیرہ اندوزی ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:اگر کوئی مسلمانوں کی ضروریات زندگی کی فراہمی کو مشکل بنانے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، مارکیٹ سے سارا مال اٹھا لیتا ہے اور لوگ پھر اسی سے مہنگے اور من مانے داموں خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ بلا شبہ احتکار یعنی ممنوعہ ذخیرہ اندوزی ہے، ایسے شخص کو گرفتار کرنا چاہیے اور اس عمل سے منع کرنا چاہیے۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے سائل نے ذکر کیا ہے کہ مارکیٹ میں اس کے علاوہ مال ہی نہیں ہے اور لوگوں کو اس کی ضرورت بھی ہے، لیکن یہ تاجر اکیلا ہی مارکیٹ سے سارا مال خرید لیتا ہے اور من مانی قیمت پر فروخت کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے، ذمہ داران پر لازم ہے کہ ایسے شخص کو روکیں۔ لیکن اگر یہ چیزیں ضروریات سے نہیں بلکہ سہولیات سے تعلق رکھتی ہیں اور لوگوں کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، یا پھر کسی اور بازار میں یہ چیز دستیاب ہے، یا اس چیز کا متبادل بھی بلا کسی مشقت کے دیگر جگہوں پر موجود ہے تو پھر یہ حرام نہیں ہو گا، تاہم پھر بھی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ لوگوں پر تنگی ڈالے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)