اسلام میں منافع کی حد

جواب: اس کی کوئی limit مقرر نہیں کی جا سکتی۔اسلام کا عمومی مزاج مارکیٹ اکانومی کا ہے ۔یعنی یہ اصل میں طلب اور رسد کاعمومی قانون طے کرے گا کہ کیا قیمتیں ہوں گی۔ انسان کوالبتہ اپنے ضمیرپر نگاہ رکھنا ہو گی۔اور دوسر ا یہ ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں آ پ کچھ نہیں کر سکتے۔مارکیٹ کو خراب کرنے کاحق کسی کو بھی نہیں ہے۔ سیدناعمرؓ کے زمانے میں بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا تھا ان کو کسی نے مسجد میں بیٹھے ہوئے بتایا کہ مدینے کے بازار میں ایک صاحب نے ٹوکرا کھجوروں کا رکھا ہوا ہے اوردو دو آنے بیچ رہا ہے آپ وہاں گئے اور اس سے پوچھا یہ کیا مسئلہ ہے ؟اس نے کہا کہ میرے ہاں اصل میں کھجوروں کا ایک تحفہ آیا تھا ۔ میں نے کہا کہ چلو بازار میں جاکر بیچ آتاہوں ۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ جو دکان دار خرید کر لائے ہیں چھ آنے سیر وہ شام کو گھرکیا لے کرجائیں گے؟ تم یہاں سے چلے جاؤ۔جب مارکیٹ گرے گی تو پھر بیچنا ۔تو یہ مسئلے اتنے سادہ نہیں ہوتے۔ البتہ آپ اپنے گھرکی کوئی چیز بیچ رہے ہیں ۔کار بیچ رہے ہیں اس میں آپ کہتے ہیں کہ مجھے اتنا ہی منافع کافی ہے تویہ اچھی بات ہے۔ یہ common sense کی چیز ہے دین اگر منافع کا کوئی ریٹ مقرر کر دیتا توتمدن نہیں چل سکتا تھا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب ۔وہ جہاں سے دو ہزار کی ملتی ہے آپ وہاں کیوں نہیں جاتے؟

آپ اصل میں لبرٹی میں خریداری کو اپنے لئے باعثِ عزت سمجھتے ہیں ۔آپ کے لیے یہ سٹیٹس سمبل ہے اور اس نے آپ کے اس سٹیٹس کوقائم رکھنے کے لئے اپنی دکا ن پر بہت خرچ کیا ہے ۔اس کی دکان کی good will بہت زیادہ ہے۔ اس کی دکان کا بل بہت زیادہ ہے ۔اس نے آپ کے لئے اہتمام بہت زیادہ کیا ہوا ہے۔اس کے اخراجات نکال لیں آپ کواندازہ ہو جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: میری گزارش سنیں ۔اگر تو کسی معاملے میں آ پ کو اختیار ہے ۔تو پھر ٹھیک ہے میں آ پ کو یہ نصیحت کروں گا کہ میرے بھائی آپ کے لیے اتنا منافع مناسب ہے ۔ لیکن بعض معاملات ایسے ہیں جن میں آپ اختیار نہیں ہوتا۔مارکیٹ طے کر رہی ہوتی ہے کہ کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا؟جہاں مارکیٹ طے کر رہی ہو وہاں آپ جب دو آنے گز کپڑابیچیں گے تو اگلے دن دکاندار گردن سے پکڑ کر کہیں گے بھاگ جاؤ یہاں سے۔ معیشت پوری ایک سائنس ہے۔ یہ میری یا آپ کی خواہشوں پر نہیں چلتی کسی جگہ پر تھوڑی بہت خواہش ممکن ہوتی ہے اور کہیں بالکل نہیں۔ اب تو معیشت کا یہ معاملہ ہو گیا ہے کہ آ پ کی گلی کا جو کھوکھا ہے وہ بھی عالمی بنک کے فیصلوں کے ساتھ وابستہ ہے قیمتوں کا تعین مارکیٹ اکانومی اپنے طریقے پر ہی کرے گی۔اسلام آپ کو اصولی نصیحت کرے گا کہ بھئی جہاں آپ کے ہاتھ میں کوئی اختیار ہے وہاں ظلم نہ کرو۔استحصال نہ کرو۔اس سے زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔کیسے مقرر کر سکتے ہیں۔جیسے ہی مقرر کر نے کا کام کریں گے تو اصل میں یہ مداخلت ہوجائے گی۔حضور ؐ کے زمانے میں ایک مرتبہ آپ کو یہ اطلاع دی گئی کہ قیمتیں بہت بڑھ گئیں ہیں۔مارکیٹ کی ۔۔تو آپ ؐ سے کہا گیا کہ چیزوں کے ریٹ مقرر کر دیں ۔جیسے ہمارے ہاں کر تے ہیں ۔تو حضور ؐ نے فرمایاکہ خداکے چلتے ہوئے cycleمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔البتہ میں ایک کام کرتا ہوں ۔ آپ ؐ گئے اور ہر جگہ پر جہاں مارکیٹ کے بڑے بیٹھے ہوئے تھے ۔ان کو نصیحت کی تو شام تک قیمتیں اعتدال پہ آگئیں۔دین اصل میں دعوت کا کام کرتا ہے انسان کے اخلاقی وجود کو درست کرتا ہے اور جب اخلاقی وجود درست ہوتا ہے تو انسان خود ہی یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ استحصال کر رہا ہے یا نہیں۔

 قیمتوں میں مداخلت بعض اوقات پورے نظام کو درہم برہم کر دیتی ہے ۔یہ جو آپ کی حکومتیں بھی بعض اوقات کرتی ہیں نا ؟ گندم میں اور فلا ں اور فلاں میں ۔ اس کے بھی نتائج نکلتے ہیں ۔ کچھ دیر کے بعد اور پوری اکانومی پر نکلتے ہیں ۔تو اس وجہ سے میری گزارش یہ ہے کہ یہ سادہ مسئلہ نہیں ہے ۔ میں ماہرِ معیشت نہیں ہوں ۔سادہ طالب علم ہوں ۔ان لوگوں سے ضرور سمجھئے اس کو کہ یہ قیمتیں کیسے چلتی ہیں ۔کیسے مقرر ہوتی ہیں ۔مداخلت کے کیا اثرات ہوتے ہیں ۔اس کو سمجھ کر کرنا چاہئے۔دین نے اسی وجہ سے اس طرح کے معاملات کو ہماری عقل پر چھوڑ دیا ہے ۔کہ اس پر کوئی فیصلہ کرلیا جائے۔

(جاوید احمد غامدی)