تعلیمات اور عملی رویہ

جواب : میرے بھائی نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کتب مقدسہ میں تو اچھی باتیں ہی لکھی ہوئی ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ لوگ عملاً کیا کرتے ہیں۔ یقیناً ہمیں نظری گفتگو سے زیادہ اہمیت عمل کو دینی چاہیے۔ لہذا میں اس بات کی پوری حمایت کرتا ہوں۔ اور یہی ہم کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنی گفتگو کے دوران بھی واضح کیا بہت سے مسلمان معاشرے قرآن و سنت کی تعلیمات سے دور ہٹ چکے ہیں اور ہم یہی کر رہے ہیں کہ لوگوں کو دعوت دیں کہ وہ دوبارہ قرآن و سنت کی طرف لوٹ آئیں۔جہاں تک سوال کے پہلے حصے کا تعلق ہے کہ تمام مذہبی کتابوں میں اچھی باتیں ہی لکھی ہوئی ہیں تو میں اس بات سے قطعا اتفاق نہیں کرتا۔ میں آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ تمام متون مقدسہ میں اچھی باتیں ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔ میں "اسلام اور دیگر مذاہب میں عورت کا مقام" کے موضوع پر ایک لیکچر دے چکا ہوں جس میں میں نے اسلام میں عورت کے مقام کا تقابل بدھ مت، ہندو مت، عیسائیت اور یہودیت میں عورت کے مقام کے ساتھ کیا تھا۔ آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ میرا وہ لیکچر سن کر آپ خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا مذہب خواتین کو زیادہ حقوق دیتا ہے۔ اب ہمیں کرنا یہ ہے کہ ان تعلیمات پر عمل بھی کریں۔اور جزوی طور پر ان تعلیمات پر عمل کیا بھی جا رہا ہے۔بعض پہلوؤں پر عمل ہو رہا ہے اور بعض پر نہیں۔ مثال کے طور پر جہاں تک حدودکے نفاذ اور اسلامی نظامِ تعزیرات کا تعلق ہے۔ سعودی عرب میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔ الحمد للہ سعودی حکومت اس حوالے سے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ اگرچہ بعض معاملات میں وہ بھی قرآن سے دور ہٹ گئے ہیں۔ ہمیں کرنا یہ چاہیے کہ سعودی عرب کے نظامِ قانون کی مثال سامنے رکھیں، اس کا جائزہ لیں اور اگر یہ نظام مؤثر ہے تو پوری دنیا میں اس پر عمل کیا جائے۔اسی طرح اگر کسی اور معاشرے میں اسلام کے معاشرتی قانون پر عمل ہو رہا ہے تو اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے اور اگر وہ مؤثر ہے تو پوری دنیا میں اس کا نفاذ ہونا چاہیے۔ اسلامی قانون ہی بہترین قانون ہے۔ اگر ہم اس قانون پر عمل نہیں کر رہے ہیں تو یہ ہمارا قصور ہے، دین اسلام کا نہیں۔

(ڈاکٹر ذاکر نائیک )