ضعیف حدیث اور بدعت

جواب: بدعت وہ ہے جس کی کسی حدیث یا سنت یا حدیث میں یا حدیث کی تعبیر و تشریح میں کوئی اساس نہ ہو لیکن اگر کوئی عمل کسی حدیث کی تعبیر کی وجہ سے ہے، وہ تعبیر تو کمزور ہو سکتی ہے اور آپ اس تعبیرکو غلط بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس عمل کو بدعت نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے اگر کوئی حدیث ایسی ہے جو کمزور ہے مثلاً اسی ترمذی میں ہے جو میرے سامنے ہے جس میں پندرہ شعبان کو عبادت کرنے کا ذکر ہے ۔لیکن ضعیف حدیث ہے اکثرمحدثین اس کو ضعیف سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ حدیث ضعیف ہے اور اس کا ضعف بڑے کمزور درجہ کا ہے جو حضرات سمجھتے ہیں کہ اس کا درجہ اتنا کمزور نہیں وہ اس پر عمل کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اس لئے جو حدیث پر عمل کی نیت سے اس کام کو کررہے ہیں وہ بدعت نہیں ہے ۔
لہذا اگر کوئی پندرہ شعبان کی رات کو عبادت کرتا ہے یا دن کو روزہ رکھتا ہے تو نعوذ باللہ بدعت نہیں ہے لیکن جو پندرہ شعبان کو پھلجھڑی چلاتا ہے وہ یقیناًبدعت ہے جو سمجھتا ہے پندرہ شعبان کو حلوہ بنانا ضروری ہے وہ یقیناًبدعت ہے جو پندرہ شعبان کو چراغاں کرتا ہے وہ یقیناًبدعت کرتا ہے کیونکہ اس کو کوئی براہ راست یا بالواسطہ کسی کسی ضعیف حدیث میں بھی کہیں نہیں آیا۔ یہ فرق ہے بدعت اور غیر بدعت میں کسی چیز کا صحیح ہونایا نہ ہونا یہ الگ چیز ہے اور اس کا بدعت ہونا یا نہ ہونا الگ چیز ہے۔

 

()

جواب: کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت جانچنے کے لیے محدثین کرام نے مختلف اصول وضع کیے ہیں۔ ان کا تعلق روایت سے بھی ہے اور درایت سے بھی۔ مثلاً سند حدیث میں کسی راوی کا نام چھوٹ گیا ہو یا کسی راوی کا حافظہ کمزور ہو یا اس نے ضبط الفاظ میں تساہل سے کام لیا ہو یا اس کا اخلاق و کردار مشتبہ ہو یا وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ بولتا ہو تو اس کی روایت کو ضعیف کی اقسام میں شمار کیا گیا ہے۔ اسی طرح روایتوں کی داخلی شہادتوں سے بھی انھیں پرکھا گیا ہے۔ مثلاً کسی روایت میں لفظی یا معنوی رکاکت پائی جائے، وہ حکمت و اخلاق کی عام قدروں کے منافی ہو، حس و مشاہدہ اور عقل عام کے خلاف ہو، اس میں حماقت یا مسخرہ پن کی کوئی بات کہی گئی ہو، اس کا مضمون عریانیت یا بے شرمی کی کسی بات پر مشتمل ہو وغیرہ تو اس کا ضعیف و موضوع ہونا یقینی ہے۔حرمت سود کی شناعت بیان کرنے والی جو حدیث اوپر سوال میں نقل کی گئی ہے، اس کا موضوع ہونا کس اعتبار سے ہے؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ انداز سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر نقد درایت کے پہلو سے ہے۔ لیکن اس بنیاد پر اسے موضوع قرار دینا درست نہیں۔ ماں کی عزت و احترام انسانی فطرت میں داخل ہے۔ تما م مذاہب میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ تقدس کا رشتہ استوار ہوتا ہے، زنا و بدکاری تو دور کی بات ہے، کوئی سلیم الفطرت انسان اپنی ماں کی طرف بری نظر سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ سود کے انسانی سماج پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا شکار ہونے والوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں اور سودی کاروبار کرنے والوں کے اخلاق و کردار پر خراب اثر پڑتا ہے۔ اس کی خباثت و شناعت واضح کرنے کے لیے اسے ‘‘ماں کے ساتھ زنا’’ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں عریانیت یا ناشائستگی کی کوئی ایسی بات نہیں، جس کی بنا پر اس کو موضوع قرار دیا جائے۔ ایک زمانے میں منکرین حدیث نے یہ وتیرہ بنا لیا تھا کہ جو حدیث بھی کسی وجہ سے انھیں اچھی نہ لگے، اسے بلا تکلف موضوع قرار دے دیتے تھے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ‘‘سنت کی آئینی حیثیت’’ میں ان کا زبردست تعاقب کیا ہے اوران کے نام نہاد دعووں کا ابطال کیا ہے، جن لوگوں کے ذہنوں میں ایسے اشکالات پیدا ہوتے ہیں، جن کی ایک مثال اوپر درج سوال میں پیش کی گئی ہے، انھیں اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

()

ج: کوئی بھی انسان الہامی علم کا حامل نہیں ھوتا۔ ہم سب ہی علم اپنے والدین ، اساتذہ اورماحول سے حاصل کرتے ہیں تو جوں ہی ہمارے علم میں دلائل سے یہ بات آجائے کہ ہمارا موجود علم غلط ہے تو فوراً انسان مان لے اور اپنی غلطی درست کر لے ۔ اس میں ڈسٹرب ہونے کی کیا بات ہے ۔ صحیح بات کو قبول کر لینا اور غلط بات کو چھوڑ دیناایک امتحان ہے جس میں ہمیں کامیاب ہونے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)