عورت کے لیے اسلامی رہنما اصول

ج: اللہ تعالیٰ کی شریعت میں چند چیزیں اس معاملے میں زیر ِ بحث آئی ہیں۔ ایک یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ عورتوں اور مردوں کو جب کبھی ملنا پڑے، خواہ وہ گھروں میں ہوں، خواہ باہر ہوں تو انھیں کن آداب کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ وہ آداب سورۂ نور میں بیان ہوئے ہیں کہ خواتین اور مردوں کو کس طریقے سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے، اپنی نگاہیں کس طرح رکھنی چاہییں، ان میں کیسی حیا ہونی چاہیے۔ عورتوں کے لیے مزید ایک بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے سر کی اوڑھنیاں اپنے سینے پر بھی اچھی طرح لے لیں اور اپنی زینتوں کی نمایش نہ کریں۔ یہ مردوں اور عورتوں کے ملنے جلنے کے آداب ہیں۔ دوسری بات شریعت میں جو بتائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ میاں اور بیوی کے ما بین جو رشتہ قائم ہوتا ہے ، اس میں مرد کو ایک درجہ برتری حاصل ہے تاکہ گھر کا نظم و نسق چلایا جا سکے۔ پھر اس کے بعد طلاق اور نکاح کے معاملے میں حدود و اختیارات بتائے گئے ہیں، جس میں کچھ مردوں کے حقوق ہیں اور کچھ عورتوں کے حقوق ہیں۔ اس کے علاوہ باقی معاملات کو اللہ تعالیٰ نے انسانی تمدن پر چھوڑ دیا ہے۔ ان کے حالات کے لحاظ سے عورتیں اپنا کردار متعین کرتی ہیں۔ اور یہ کردار ایک تمدن میں مختلف ہو سکتا ہے اور دوسرے میں مختلف۔ تمدنی تبدیلیاں انسانی زندگی میں آتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں جو عورتوں کا کردار اشرافیہ بیان کرتی رہی ہے، وہ تو صرف ان لوگوں کے ہاں تھا کہ جن کے ہاں پانچ سات ملازم ہوتے تھے۔ وہ عام خواتین کا کردار نہیں ہے۔ ہمارے دیہات میں عورتوں کو باہر نکل کر کام کرنا پڑتا تھا۔ کھیتوں میں جا کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی تھیں۔ جانورں کو چارہ ڈالنا، ان کے لیے چارہ کاٹ کر لانا،دودھ دوہنا یہ تو کم و بیش عورتوں ہی کی ذمہ داری تھی۔ اس وجہ سے اس معاملے میں کوئی لگا بندھا اصول شریعت میں قائم نہیں کیا گیا۔ باقی تمام معاملات میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے ۔ وہ اپنے حالات کے لحاظ سے اپنا کردار خود طے کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت جو بعض چیزیں ہو رہی ہیں ، وہ اپنے اندر بعض اخلاقی قباحتیں رکھتی ہیں، بعض تمدنی نقصانات رکھتی ہیں، ان پر عقل کی روشنی میں بات کرنی چاہیے اور لوگوں کو اس کے بارے میں توجہ بھی دلانی چاہیے، لیکن شریعت کے حدود اتنے ہی ہیں جتنے بیان ہو چکے ہیں۔ یہ ملنے جلنے کے اور باہر نکلنے کے آداب ہیں، ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ عورت اپنے کاروبار کے لیے، اپنے معاملات کے لیے باہر جا سکتی ہیں۔البتہ ان آداب کا انھیں ہر جگہ لحاظ کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

چہر ے کا پردہ 
 

آپ نے نقاب کی حمایت اور اسے بدعت قرار دینے والوں کی مخالفت میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم نے پڑھا ۔ آپ نے واضح کر دیا ہے کہ نقاب کا رواج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کا چلن ہمارے سلف صالحین کے زمانے میں بھی تھا۔ اسے بدعت نہیں قراردیا جا سکتا۔اسے بدعت قراردینے والے دراصل چاہتے ہیں کہ ہماری عورتیں بھی بےنقاب ہو کر مغربی عورتوں کی طرح شمع محفل بن کر رہ جائیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت خوب لکھا ہے اور حق وانصاف کی بات کہی ہے۔لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نقاب کو لازمی اور فرض سمجھتے ہیں ان کے بہ قول عورتوں کا چہرہ کھلا رکھنا حرام ہے۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاًان عورتوں کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں جو پردہ تو کرتی ہیں لیکن چہرہ کھلا رکھتی ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ایسی عورتیں قرآن و سنت کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور چہرہ کھلا رکھنے کی وجہ سے بڑے گناہ میں مبتلا ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں پردہ واجب اور فرض ہے لیکن نقاب لگانا اور چہرے کو چھپاکر رکھنا ہمارے نزدیک بھی لازمی اور ضروری نہیں ہے ہمارے پاس اتنا علم نہیں ہے کہ ہم ان سخت گیر قسم کے لوگوں کو سمجھا سکیں۔ امید ہے کہ آپ اس موضوع پر بالتفصیل روشنی ڈالیں گے۔ 

جواب: صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے ہی سے فقہائے کرام کی اکثریت کا موقف یہ رہا ہے کہ پردے میں نقاب کا استعمال لازمی اور ضروری نہیں ہے اور یہ کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ ذیل میں میں ہر مسلک کا موقف مختصراًبیان کرتا ہوں۔
(1) امام ابو حنیفہؒ کا مسلک
احناف کی مشہور کتاب ”الاختیار التعلیل المختار“ میں اس موضوع پر یوں بحث کی گئی ہے:”کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔بشرطے کہ چہرہ اور ہاتھ دیکھنے میں کوئی جنسی لذت نہ ہو۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ پیر بھی کھلارکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ کام کاج اور گھریلو مصروفیات کی وجہ سے جس طرح ہاتھ کھلا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح پیر کا کھلا رکھنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔“
(2) امام مالکؒ کا مسلک
مالکی مسلک کی مشہور کتاب ”اقرب المسالک الی مذہب مالک“ کی عبارت کچھ یوں ہے:”غیر محرم مرد کے سامنے عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ستر میں شامل نہیں ہیں۔ اور ان کا کھلا رکھنا جائز ہے۔بشرطے کہ شہوت کی نظر نہ ہو۔“
(3) امام شافعی ؒکا مسلک
شافعی مسلک کی مشہورکتاب ”المہذب“ میں اس موضوع پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے:
”آزاد عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں عورت کو ہاتھ میں دستانہ اور چہرہ پر نقاب لگانے سے منع فرمایا ہے۔اگر چہرہ اور ہاتھ بدن کے دوسرے اعضاء کی طرح ان کا چھپانا بھی ضروری ہوتا اور اس لیے بھی کہ کام کاج کی وجہ سے ان کا کھلا رکھنا ضروری ہوتا ہے اور ان کے چھپانے میں زبردست اذیت اور پریشانی ہے۔“
(4) امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک
حنبلی مسلک کی مشہور کتاب ”المغنی“ میں کچھ اس قسم کے الفاظ ہی:”حنبلی مسلک میں اس بات پر اختلاف نہیں ہے کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنا جائز ہے البتہ ان کے علاوہ کچھ اور کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔“
یہ تو ہوئی چاروں مشہور مسالک کی رائے ان کے علاوہ بھی دوسرے مشہور اور قابل قدر علماء اور فقہاء ہیں جن کی یہی رائے ہے۔ چنانچہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ بھی عورت کے ستر سے چہرے اور ہاتھ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں جیسا کہ ان کی کتاب ”المحلیٰ“ میں درج ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”المجموع“ میں اس موضوع پر علماء کی رائے لکھتے ہوئےکہتے ہیں ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ  مالک رحمۃ اللہ علیہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بہت سارے علماء کی رائے یہ ہے کہ عورت کا پورا بدن سترہے۔ سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ یہی مسلک امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ یہ تمام علمائے کرام اپنے مسلک کی حمایت میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں انھیں میں ذیل میں مختصراً بیان کرتا ہوں۔
(1) قرآن کی آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا”اور وہ اپنی زینت و زیبائش کھلانہ رکھیں مگروہ جو خود بخود ظاہر ہو جائے“ کی تفسیر میں صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی اکثریت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے مراد چہرہ اور ہاتھ لیتی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے اس موقف کی تائید ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حدیث کرتی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں ان کے بدن پر باریک اور شفاف کپڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نگاہیں پھیر لیں اور فرمایا کہ اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو مناسب نہیں ہے کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے اور آپ نے چہرے اور ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ اس مفہوم کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔
(2) سورہ نورکی آیت وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیاہے کہ وہ اپنے ”خمار“ سے اپنے سینے کو ڈھک کر رکھیں۔”خمار“ وہ دوپٹا ہے جسےعورتیں اپنے سر پر رکھتی تھیں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ سر کے دوپٹے سے سرکے علاوہ سینے کو بھی ڈھک کر رکھیں۔ اگرچہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو انھیں سینہ کے ساتھ چہرہ چھپانے کا بھی حکم دیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں چہرے کا ذکر نہیں کیا ہےبلکہ صرف سینہ کا ذکر کیا ہے۔اس سے اس بات کی صراحت ہو جاتی ہے۔ کہ چہرہ چھپانا ضروری نہیں ہے۔
(3) سورہ نور کی آیت قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْمیں اللہ نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں یعنی خواہ مخواہ عورتوں پر نگاہیں نہ ڈالتے پھریں ۔ کسی موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بار بار کسی خوبصورت عورت کی طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا: لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ“ (ترمذی ) (ایک نظر کے بعد دوسری نظر مت ڈالو کیوں کہ پہلی نظر تو جائز ہے لیکن دوسری نہیں )
غور طلب بات یہ ہے کہ عورتیں اگر مکمل برقع پوش ہوں اور ان کے ہاتھ اور چہرے بھی نظر نہ آئیں تو پھر نگاہیں نیچی رکھنے اور ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنے کا حکم کیا معنی رکھتا ہے۔
نظر باربار ادھر اٹھتی ہے جہاں کشش ہوتی ہے۔ اور یہ کشش عورت کے چہرے میں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حکم نہیں دیا کہ تم اپنی اس کشش کو چھپا کر رکھو بلکہ مردوں کو حکم دیا کہ نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار اس پرکشش چیز کی طرف نگاہ نہ اٹھاؤ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں۔ اسی لیے مردوں کو حکم دیا گیا کہ تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار ان کی طرف نہ دیکھو ۔ اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو عورتوں کو بھی حکم دیا جاتا کہ اپنے چہرے کو چھپاکر رکھو اور ایسی صورت میں مردوں کو نظر نیچی رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا ۔
(4) اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرماتا ہے:
لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُہُنَّ ۔ (الاحزاب: 52)
”اس کے بعد تمھارے لیے عورتوں سے شادی کرنا حلال نہیں ہے اور نہ یہ حلال ہے کہ ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آؤخواہ ان عورتوں کا حسن تمھیں کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگے۔“
سوچنے کی بات ہے کہ اگر چہرہ کھلا نہ ہو تو کسی کو کیسے معلوم ہو گا کہ فلاں عورت خوبصورت ہے یا بد صورت ۔ کیوں کہ چہرے ہی سے عورت کی خوب صورتی یا بد صورتی کا حال معلوم ہوتا ہے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور عین ممکن تھا کہ اپنے حسن کی وجہ سے کوئی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آجائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اب مزید شادی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کر دیا۔
(5) دلائل اور حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں پردہ کرتی تھیں لیکن نقاب کا استعمال نہیں کرتی تھیں اور چہرہ کھلا رکھتی تھیں مثال کے طور پر چند دلیلیں پیش کر رہا ہوں۔
مسلم شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کسی عورت پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عورت اچھی لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لائے اور ان سے اپنی جنسی خواہش پوری کی اور فرمایا:
ان المرأۃ تقبل فی صورۃ شیطان و تدبر فی صورۃ شیطان فاذا رأی احدکم امرأۃ فاعجبتہ فلیات اھلہ فان ذاک یردما فی نفسہ۔ (مسلم)
”عورت شیطان کی صورت میں آتی اور جاتی ہے(اسے دیکھ کر آدمی بہکنے کی پوزیشن میں ہو جاتا ہے) پس اگر تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے اچھی لگے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس چلا جائے ۔ کیوں کہ یہ چیز اس کے دل میں جو خواہش ہے اسے ختم کر دے گی۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جس عورت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تھی اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔اور اسی وجہ سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی لگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  چونکہ انسان تھے اور بشری تقاضے کے تحت ان کے دل میں بھی جنسی خواہشیں پیدا ہوتی تھیں لیکن ایسے موقعے پر کوئی غلط قدم اٹھانے کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے پاس چلے آتے اور ان سے اپنی ضرورت پوری کرتے۔ اور یہی تعلیم آپ نے اپنی امت کو بھی دی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس طرح آپ نے اپنی امت کو غلط حرکت کی بجائے اپنی بیوی کے پاس جانے کا حکم دیا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی چہرہ ڈھک کر رکھنے کا حکم دے سکتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی کوئی ایسا حکم نہیں دیا۔
اسی طرح ایک حدیث بخاری اور مسلم کی ہے جس کی روایت حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ خود کو آپ کے حوالہ کردوں(آپ سے شادی کر لوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت کی طرف نظر اٹھائی اور دیر تک اسے دیکھتے رہے پھر نظر گھمالی۔ عورت نے سمجھ لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں اور اس کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر بھی وہ بیٹھی رہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تشریف فرما تھے۔ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو میری شادی کرادیجیے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ مسلم عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس آکر بیٹھی اور اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیر تک دیکھتے رہے  اس کا چہرہ کھلا ہونے کی وجہ سے کسی اور صحابی کو وہ عورت پسند آگئی اور انھوں نے شادی کی درخواست کر ڈالی۔
سنن نسائی کی ایک حدیث ہے جس کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سوال کرنے آئی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرا ہ تھے۔ وہ اس عورت کی طرف بار بار مڑ کر دیکھنے لگے کیوں کہ وہ خوب صورت تھی۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم با ر بار فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ دوسری طرف کر دیتے تھے۔
اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو بھرے مجمع میں چہرہ کھلا رکھنے پر یقیناً تنبیہ کرتے اور خاص کر ایسی حالت میں کہ لوگ اس کے حسن کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہو رہے تھے سنن ترمذی میں یہی روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے مذکورہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن دوسری طرف موڑدی ان کے والد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ نے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن دوسری طرف کیوں گھمائی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں نے ایک نوجوان لڑکے اور نوجوان لڑکی کو اس حالت میں دیکھا کہ شیطان انھیں بہکانے میں مصروف  تھا۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر چہرہ کھلا رکھنا جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو اس کے کھلے چہرے پر ضرور تنبیہ کرتےخاص کر ایسی حالت میں کہ شیطان ان دونوں کو بہکانے کی کوشش کر رہاتھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو چہرہ ڈھکنے کی بجائے صرف فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اپنا رخ دوسری طرف کر لیں۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام کی وجہ سے عورت سے بات کرنا ضروری ہواور شیطان کے بہکانے کا خوف نہ ہو تو اس کی طرف دیکھنا بھی جائز ہے۔
ایسی ہی ایک حدیث بخاری شریف میں ہے جس کی روایت حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز کے لیے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے قبل نماز پڑھائی پھر عورتوں کی طرف تشریف لے گئے اور انھیں نصیحتیں کیں اور فرمایا کہ عورتو! تم صدقہ دیا کرو کیوں کہ تم میں اکثریت جہنم کی ایندھن ہے۔ جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ بات سن کر ایک معزز عورت کھڑی ہوئی اور اس کے دونوں گال سرخ مائل کالے ہو رہے تھے۔ اس نے دریافت کیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں عورتوں کی اکثریت جہنم کی ایندھن کیوں بنے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ ”اس لیے کہ تم بہت زیادہ شکایتیں کرتی ہواور اپنے شوہر کی نا فرمانی کرتی ہو۔ چنانچہ عورتوں نے صدقہ کرنا شروع کیا  حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا کپڑا پھیلائےہوئے تھے اور عورتیں اپنے کان کی بالیاں اور انگوٹھیاں اتاراتار کر اس میں رکھنے لگیں۔“
اس روایت سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو حضرت جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہو سکا کہ اس عورت کے دونوں گال سرخی مائل کالے تھے۔
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم عورتیں چادر اوڑھ کر فجر کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں باجماعت ادا کرتے۔پھر نماز سے فراغت  کے بعد اپنے گھروں کو واپس آ جاتے تاریکی کی وجہ سے ہمیں کوئی پہچان نہیں پاتا تھا۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرتاریکی نہ ہوتی تو انھیں پہچان لیا جاتا اور معلوم ہو جا تا کہ کون کون سی عورتیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ کسی عورت کو اسی وقت پہچانا جاسکتا ہے جب کہ اس کا چہرہ کھلا ہوا ہو۔
یہ تمام حدیثیں ثابت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی انھیں چہرہ چھپانے کا حکم نہیں دیا اور نہ چہرہ کھلا رکھنے پر کبھی ان کی سرزنش کی۔
(6) صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چہرے پر نقاب لگانے کا رواج نہیں تھا بلکہ چہرے پر نقاب لگانے والیوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا چنانچہ ابو داؤد کی روایت ہے جس کے راوی حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن شماس ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئی اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ وہ اپنے مقتول بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی تھی۔ ایک صحابی نے حیرت سے کہا کہ تم چہرے پر نقاب لگاکر اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی ہو؟ اس عورت نے جواب دیا کہ میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے لیکن اپنی شرم نہیں کھوئی ہے۔ ابو داؤد نے یہ حدیث کتاب الجہاد میں بیان کی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کے نقاب لگانے پر تعجب تھے کیوں کہ یہ چیز معاشرے کے رواج سے ہٹی ہوئی تھی۔ اس تعجب کے اظہار پر عورت نے یہ نہیں جواب دیا کہ تم لوگ تعجب کیوں کرتے ہو۔ میں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق یہ نقاب لگایا ہے بلکہ اس نے یہ جواب دیا کہ شرم و حیا کی وجہ سے اس نے چہرہ پر نقاب ڈال لیا ہے۔ اگر نقاب لگانا اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کبھی اس کے نقاب لگانے پر نہ تعجب کرتے اور نہ اس عورت سے ایسا سوال کرتے۔
(7) اگر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت عورت کی اپنی شخصیت جانی پہچانی رہے خریدو فروخت اور دوسرے لین دین کے معاملات میں یہ ضروری ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ اس کا معاملہ ہو رہا ہو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ عورت کون ہے۔ اسی لیے تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ عدالت میں گواہی کے موقع پر عورت کا چہرہ کھلا رہنا ضروری ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ گواہی دینے والی عورت کون ہے؟
ان لوگوں کے دلائل جو چہرہ پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تلاش بسار کے باوجود چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے مجھے قرآن و حدیث سے کوئی ایسی دلیل نہ مل سکی جسے صریح اور دوٹوک کہی جا سکے۔ اور یہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ان علماء کی تعداد نہایت کم ہے جو چہرے پر نقاب کو لازمی قراردیتے ہیں یہ علماء اپنی رائے کے حق میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں ان کا بیان حسب ذیل ہے:
(1) يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ    ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ   ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ( الاحزاب: 59)
”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔“
اس آیت میں ”جلابیب“ کی تشریح کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ جلابیب اسے کہتے ہیں جس سے پورا بدن حتی کہ ہاتھ اور چہرہ بھی ڈھک  جائے اور صرف آنکھ کھلی ہو۔لیکن جلا بیب کی بہ تشریح خود ان کی اپنی تشریح ہے۔ قرآن و سنت میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری ہے۔
(2)سورہ نور آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا        ۖ میں إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا اوپری کپڑاہے۔ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں  سوائے اس کے جو خود بہ خود ظاہر ہو جاتا ہے یعنی ان کا اوپری لباس کیوں کہ اسے چھپانا ممکن نہیں ہے۔لیکن ان کی یہ تفسیر کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتی ہے کیوں کہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کا اضافہ کر کے اللہ تعالیٰ نے پردے کے حکم میں کچھ تخفیف اور آسانی عطا کرنی چاہی ہے۔ اب اگر اس سے مرد عورت کا اوپری کپڑا مراد لیا جائے تو اس میں عورتوں کے لیے کوئی آسانی نہ ہوئی اور یہ بات اللہ کے منشاء کے خلاف ہے۔ اور میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور علمائے کرام کی اکثریت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے چہرہ اور ہاتھ مراد لیتی ہے۔
(3) سورہ احزاب کی آیت وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ (اور جب ان سے کوئی شے مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو) کی تفسیر کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگنے کا مقصد اور منشایہ ہے کہ عورت کا مکمل جسم حتی کہ چہرہ اور ہاتھ بھی نہ نظر آئے۔
یہ دلیل اس لیے مناسب نہیں ہے کہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے خاص تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس پورے سیاق و سباق کی ابتدایوں کی ہے: يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کی بیویو! تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو) تمھارا رتبہ اور مقام عام عورتوں کی طرح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاص مقام کی وجہ سے ان کے لیے کچھ خاص احکام تھے مثلاً یہ کہ وہ اپنا زیادہ وقت گھر پر گزاریں انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دوسری شادی کی اجازت نہیں تھی۔ انھیں مسلمانوں کی ماؤں کا درجہ عطا کیا گیا ان ہی خاص  احکام میں سے ایک خاص حکم یہ ہے کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کچھ مانگو تو پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگو۔
(4) بخاری شریف کی حدیث ہے لَا تَنْتَقِبِ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلاَ تَلْبَسِ الْقُفَّازَيْنِ ”احرام کی حالت میں عورت نہ نقاب لگائے گی اور نہ دستانے پہنے گی۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اس زمانے میں عورتیں چہرہ نقاب اور ہاتھوں میں دستانے استعمال کرتی تھیں اور احرام کی حالت میں ان کے استعمال سے روک دیا گیا۔لیکن اس حدیث کو بہ طور دلیل پیش کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ اس زمانے میں عورتیں چہرے پر نقاب اور ہاتھوں میں دستانے پہنتی تھیں پھر بھی اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے کہ عورتوں کے لیے ان دونوں کا استعمال ضروری اور لازمی ہے۔
(5) ترمذی کی حدیث ہے: المرأة كلها عورة ”عورت مکمل ستر ہے“
اس حدیث سے علماء یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ چونکہ عورت کا مکمل جسم ستر میں داخل ہے اس لیے چہرہ اور ہاتھ سمیت مکمل جسم کو ڈھکنا لازمی ہے۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ اس حدیث کا یہ منشا نہیں ہے کہ عورت کا مکمل جسم ستر ہے اسلیے اسے مکمل طور پر چھپانا ضروری ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کا جسم اپنی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے سر تاپاکشش ہوتا ہے۔ اس حدیث میں عورت کے پورے جسم کو"عورت" کہا گیا ہے۔ عورت (ستر) کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اسے چھپانا ضروری  ہے ورنہ احرام کی حالت میں عورتوں کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا کیوں کہ جو ستر ہوتی ہے اسے کسی بھی حالت میں کھولنا جائز نہیں ہے۔
(6) چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے یہ علماء حضرات جس بات کو کثرت کے ساتھ بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ عورت کا سارا حسن اور ساری کشش اس کے چہرے میں ہوتی ہے چہرہ کھلا رہے تو باعث فتنہ ہوتا ہے۔ اس فتنہ کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ چہرہ ڈھکارہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس فتنہ کے وہم اور خوف کی وجہ سے سخت گیر قسم کے علماء نے معاشرےمیں بہت ساری ایسی چیزوں کو ناجائز قراردیا ہے جو اصلاً جائز اور حلال ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حد درجہ رحمت کی بنا پر ان چیزوں کو حلال قرار دیا ہے اور ان کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے لیکن محض فتنہ پھیلنے کے خوف سے اور احتیاط کے نام پر بعض علماء کرام نے ان حلال چیزوں پر پابندی لگا دی ہے۔ مثال کے طور پر علماء نے فتنے کے خوف سے عورتوں کومسجد میں جا کر نماز با جماعت ادا کرنے سے منع کردیاحالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ (اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو) اس کے باوجود ان علماء نے محض خیالی فتنہ کے ڈرسے انھیں مسجد جانے سے روک دیااس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں نماز سے دور ہونے لگیں۔ ان ہی علماء نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے اور تعلیم حاصل کرنے سے منع کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں جاہل اور ناکارہ ہوگئیں ۔ اب ان علماء کو ہوش آیا ہے تو انھوں نے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے کی اجازت دے دی۔ اگر پہلے ہی عورتوں پر تعلیم کا دروازہ نہ بند کردیا گیا ہوتا تو اتنی کثرت سے ہماری عورتیں جاہل اور غیر مفید بخش نہ رہتیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھام ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھا م کی وجہ سے جائز باتیں ناجائز کردی جائیں۔ فتنے کی روک تھام کے لیے اللہ کے وہ احکام اور اسلامی آداب کافی ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے۔ اپنی طرف سے مزید اور نئی نئی  بند شیں لگانا اللہ کی مرضی و منشا کے خلاف بھی ہے اور ہمارے معاشرے کے لیے مہلک اور نقصان دہ بھی۔
یہ ہیں وہ دلائل جنھیں نقاب کو لازمی قراردینے والے علماء پیش کرتے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ ان میں سے کوئی بھی دلیل اتنی مضبوط اور اتنی واضح نہیں ہےکہ اس کی بنیاد پر نقاب کو واجب قراردیا جا سکے۔ فقہی اصول ہے کہ کسی چیز کو واجب قراردینے کے لیے قرآن و سنت کی واضح اور صریح دلیل ضروری ہے۔ ان کے مقابلہ میں ان علماء کے دلائل زیادہ مضبوط اور واضح ہیں جو نقاب کو لازمی نہیں قرار دیتے ۔ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اس لیے میرا اپنا موقف بھی وہی ہے جو جمہور علماء کا ہے۔وہ یہ کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری اور واجب نہیں ہے۔ اپنے اس موقف کی تائید میں میں مزید دلائل پیش کرتا ہوں۔
(1) کسی امر کو اس وقت تک واجب العمل نہیں قراردیا جا سکتا جب تک اس کے حق میں قرآن یا حدیث کی واضح اور صریح دلیل نہ ہو محض شک کی بنیاد پریا اندیشے اور احتیاط کے نام پر کسی شے کو نہ تو واجب قراردیا جا سکتا ہے اور نہ کسی حلال چیز کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے فقہ کا اصول ہے کہ واجب صرف وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب کیا ہے اور حرام وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کسی چیز کو واجب یا حرام قرار دینے میں عجلت اور جلد بازی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ قرآن و سنت سے ثابت ہونے کے بعد ہی واجب یا حرام قراردیتے تھے۔
اسلامی فقہ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اصلاً تمام چیزیں حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے- کسی چیز کے حلال ہونے کے لیے دلیل پیش کرنا ضروری نہیں ہے کیوں کہ اصلاً یہ چیز حلال ہے بلکہ اس کے حرام ہونے کی دلیل پیش کرنا ضروری ہے جہاں تک چہرے پر نقاب لگانے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں قرآن وسنت میں کوئی ایسی واضح دلیل نہیں ہے جواسے واجب قرار دے۔ محض احتیاط اور اندیشے کی وجہ سے اسے واجب قرار دینا یا کسی حلال چیز کو ناجائز قراردینا اللہ کی منشا اور اصول فقہ دونوں کے خلاف ہے۔ لوگوں نے جب جائز اور حلال کھانوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا تو اللہ نے ان کی اس طرح سر زنش کی تھی:
قُلْ اٰۗللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَي اللہِ تَفْتَرُوْنَ۝  (یونس:59)”کہو کہ کیا اللہ نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے یا تم اللہ پر بہتان تراشی کر رہے ہو۔“
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عورتوں کی شخصیت اور ان کے امیج(Image)کو بہتر بنانے کے لیے جدو جہد کریں معاشرے میں انھیں ان کا جائز مقام دلائیں اور ان کے تعلیمی اور معاشرتی معیار کو بلند کریں تاکہ ایک طرف عورتیں ہمارے معاشرے کے لیے مفید اورکار آمد بن سکیں اور دوسری طرف دشمنان اسلام کو اسلام پر کیچڑاچھالنے کا موقع نہ مل سکے۔
(2) پرانے زمانے کے مقابلے میں آج کے ترقی یافتہ دور میں روزمرہ کی بنیادی ضرورتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ہماری عورتیں بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ گھروں سے نکل کر اپنی ضروریات کی تکمیل کریں۔ایسی حالت میں انھیں نقاب کا پابند کر کے مزید مشقتوں اور زحمتوں میں مبتلا کرنا مناسب نہیں ہے اور یہ بات اللہ کی منشا کے بھی خلاف ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین میں زحمت و مشقت نہیں رکھی ہے بلکہ حتی الامکان ہمارئے لیے آسانیاں رکھی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ       ۭ (الحج: 78)”اور ا س دین میں تمھارے لیے کوئی مشقت نہیں رکھی ہے۔“دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے:يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ  ۡ (البقرۃ: 185)
”اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ تنگی اور پریشانی نہیں چاہتا ہے۔“
اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ (مسند احمد)”میں ایسے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں جو عقیدہ میں پاک اور خالص ہے اور معاملات میں نرم ہے۔“
جو لوگ چہرہ پر نقاب کے سختی سے قائل ہیں اور وقتاً فوقتاً ان پردہ دار خواتین پر تنقید کرتے رہتے ہیں جو چہرے پر نقاب نہیں لگاتی ہیں ان سے میری گزارش ہے کہ وہ ان خواتین پر تنقید کے بجائے ایسی مسلم عورتوں کی اصلاح کی جانب دھیان دیں جو سرے سے پردہ ہی نہیں کرتی ہیں اور نت نئے فیشن کر کے بے حجابانہ گھروں سے باہر وقت گزارتی ہیں۔
آخر میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
(1) چہرہ اور ہاتھ پیر کھلا رکھنا جائز ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چہرے   پر مختلف قسم کے میک اپ کر کے اور ہاتھ پیر ناخنوں کو نیل پالش سے مزین کر کے غیر محرم مردوں کے سامنے جانے کی بھی اجازت ہے- اجازت صرف اس بات کی ہے کہ غیر محروں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر بہت ہلکی سی زیبائش کر لی جائے مثلاًآنکھوں میں سرمہ لگالیا جائے یا ہاتھ کی انگلیوں میں انگوٹھی پہن لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے غرض کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں گھر سے باہر نکلتے وقت شرعی لباس میں رہیں شریفانہ انداز اپنائیں اور الٹے سیدھے میک اپ اور فیشن کے ذریعے غیروں کو لبھانے والا انداز نہ اختیار کریں۔
(2) میں اگر یہ کہتا ہوں کہ چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو عورتیں چہرہ پر نقاب لگانا چاہتی ہیں انھیں میں نقاب لگانے سے منع کر رہا ہوں وہ اگر نقاب لگانا چاہتی ہیں تو شوق سے لگائیں۔ انھیں اس کا پورا حق حاصل ہے۔
(3) چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ عورتوں    کے چہروں کو تکا کریں۔ کیوں کہ بہر حال مردوں کو اس بات کا حکم ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اپنی نگاہیں عورتوں پر نہ ڈالیں ۔ البتہ عورتوں سے معاملات کے دوران کسی ضرورت کے تحت انھیں دیکھنا ضروری ہو تو ان پر نظر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے بہ شرطے کہ یہ نظر شہوت اور ہوس بھری نہ ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

محبت اور شادی
سوال: مجھے ایک ایسے لڑکے سے محبت ہو گئی ہے جو دین دار و بااخلاق ہے اور اس کے اندر ہر خوبی ہےجس کی ایک لڑکی تمنا کر سکتی ہے ہم محبت میں اتنی دور چلے گئے ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا ہو کر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ہماری محبت بالکل پاک ہے اور پچھلے چھے سالوں میں ہم نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جو قابل گرفت ہو اور جس پر ہمیں ندامت ہوہمیں اس کا انتظار تھا کہ لڑکا برسر روزگار ہوتو ہماری شادی ہو سکے گی کہ اچانک ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ لڑکے کے برسرروز گار ہوتے ہی اس کے گھر والوں نے یہ کہہ کر شادی سے انکار کردیا کہ ان کا خاندان میرے خاندان کے مقابلے میں کم حیثیت ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔ میں اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتی ۔ کسی اور کے ساتھ شادی کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔ کیا اس طرح سے میرا کسی کی محبت میں گرفتار ہو جانا اسلام کی نظر میں گناہ ہے؟اور کیا اسلامی شریعت میں ہماری مشکل کا کوئی حل ہے؟

جواب: میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ میں دور حاضر کے اس چلن سے بالکل متفق نہیں ہوں کہ پہلے محبت کی جائے پھر شادی کی جائے۔یہ وہ راستہ ہے جس کی ابتدا بھی نامناسب ہوتی ہےاور جس کا انجام بھی اکثر و بیشتر غیر اطمینان بخش ہوتا ہے۔مثلاًوہ محبت جو ٹیلی فون پر گفت و شنیدسے شروع ہوتی ہے یا وہ محبت جو جوانی کے جوش میں لڑکیوں کے پیچھے چکر لگانے سے شروع ہوتی ہے یہ ایسی محبت ہوتی ہےجس میں عقل اور سوجھ بوجھ کا عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔محض جذباتیت ہوتی ہےاکثر تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے لڑکے لڑکیوں میں محبت ہو جاتی ہے جن کے درمیان سماجی تفاوت ہوتا ہے یا خاندانی چپقلش ہوتی ہے یا کوئی ایسی بات ہوتی ہے جوان کی شادی کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔چونکہ اس محبت کی ابتدا جذباتیت سے ہوتی ہے اس لیے یہ لڑکے اور لڑکیاں غلطیاں اور گناہ کر بیٹھتے ہیں اس لیے کہ بہر حال وہ انسان ہیں۔ فرشتے نہیں ہیں۔میری نظر میں شادی کا افضل اور مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ طرفین خوب سوچ سمجھ کر ایک دوسرے کےبارے میں مکمل واقفیت حاصل کر کے شادی کا فیصلہ کریں۔ شادی کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کا اطمینان کر لیا جائے کہ فی الحال ایسی کوئی بات تو نہیں ہے جو آگے چل کر اس شادی کو ناکام یا شادی شدہ زندگی کو جہنم بنادے ۔ مثلاً طرفین کے درمیان کفو یعنی برابری نہ ہو یا کسی قسم کی قانونی رکاوٹ ہو وغیرہ -یہ بھی ضروری ہے کہ طرفین ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔ ایسے موقعے پر مناسب یہ ہوگا کہ لڑکا اس طرح لڑکی کو دیکھے کہ لڑکی کو اس کی خبرنہ ہوتاکہ رشتہ طے نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے جذبات مجروح نہ ہوں اور مناسب یہ ہے کہ لڑکے والے یہ رشتہ لے کر لڑکی کے گھروالوں کے پاس جائیں اور نہایت اطمینان اور تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے اس معاملے کو طے کریں۔اگر کوئی ایسی صورت حال ہوتی ہے جس کا تذکرہ سوال میں ہے طرفین کے درمیان خودبخود محبت ہو جاتی ہے اور یہ دونوں شادی کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کی اس مدت میں کوئی غلط قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو ایسی صورت حال میں گھر والوں کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں اور دوپیار کرنے والوں کو محض چھوٹے چھوٹے اسباب کی بنا پر ایک دوسرے سے جدانہ کریں اور ان کی شادی کردیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
لم يَر لِلَمُتَحَابِينَ مِثَل النَكاَح  (ابن ماجہ)”دومحبت کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔“
ذرا اس حدیث کے پس منظر پر غور کیجیے ۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس ایک یتیم بچی ہے جس سے شادی کے خواہش منددو شخص ہیں ان میں سے ایک غریب ہے اور دوسراامیر،لیکن یہ یتیم بچی غریب شخص سے محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ دو پیار کرنے والوں کے لیے شادی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ دوپیار کرنے والوں کے درمیان غریبی اور امیری کو نہ آنے دیا جائے اور ان کی مرضی کے مطابق ان کی شادی کر دی جائے  یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام ایک عملی (Practical)دین ہے کسی سے محبت ہو جانا ایک فطری بات ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ کوئی گناہ نہیں ہے نہ اسلام اس فطری جذبہ کی روک تھام چاہتا ہے بلکہ اسلام اس بات پر ابھارتا ہے کہ اس فطری جذبہ کو شرعی اور قانونی حیثیت عطا کردی جائے۔ان دونوں کو گناہوں میں ملوث نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کی شادی کردی جائے۔ بہ شرطے کہ اس شادی میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین جھوٹی شان کی وجہ سے یا حسب نسب کے چکر میں پڑ کر یا محبت کو غیر اسلامی عمل سمجھ کر دو محبت کرنے والوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں خود بھی مصیبت میں پڑتےہیں اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی تباہ کر ڈالتے ہیں۔ بعض بچے ذرا تیز قسم کے ہوتے ہیں تو وہ  والدین سے بغاوت کر کے اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جھوٹی شان اور حسب ونسب کو معیار بنانے کی بجائے دین اور بااخلاق ہونے کو معیار بنایا جائے۔ دین اور اخلاق کے معیار پر اترنےوالے رشتہ کو ٹھکرانا یقیناًبڑی بد قسمتی کی بات ہوگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ (ترمذی،ابن ماجہ)”جب تمھارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کے اخلاق اور دین داری سے تم مطمئن ہو تو اسے شادی کے لیے منتخب کرلو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں زبردست فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ “

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں- اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔
قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:
﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت و وقار اللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد وعورت میں سے ہر ایک دوسرے کا فطری طور پر محتاج ہے۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔یہی اللہ کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے۔انسانوں کے لیے بھی اور تمام کائنات کی مخلوقات کے لیے بھی، اللہ کا ارشاد ہے:وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝ (الذاريات : 49)”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔“
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام  کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کوبھی گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے ارشاد ربانی ہے:وَالّٰتِي تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاہْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ  ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْہِنَّ سَبِيْلًا       ۭ (النساء: 34)”وہ بیویاں جن کی بغاوت کا تمھیں اندیشہ ہو تو تم انھیں نصیحت کرو اور بستر سے انھیں الگ کردو اور انھیں مارو۔ پس اگر وہ مان جائیں تو پھر انھیں ستانے کا کوئی بہانہ نہ تلاش کرو۔“
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ با مرتبہ اور وسیع الظرف انسان کو زیب نہیں دیتا کہ ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے- کسی مرد کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)


جواب: حرام وحلال اور جائز وناجائز کے سلسلے میں اسلامی شریعت کی دو اُصولی باتیں ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہییں:
(1) پہلی بات یہ کہ اصولی طور پر دنیا کی ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیاہو۔کسی حلال چیزکو حلال ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے کہ اُصولی طور پر تمام چیزیں حلال ہیں۔البتہ کسی چیز کو حرام ثابت کرنے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کے بغیر کسی بھی چیز کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔حرام وہی چیز ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہو اور اس کی صراحت قرآن وحدیث میں موجود ہو۔کسی بندے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی سمجھ اور دانش کے مطابق کسی چیز کوحرام قراردے۔
اسلامی شریعت کے ان اصولوں کی روشنی میں آپ کے سوال کے سلسلے میں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا قرآن وحدیث میں کوئی ایسی واضح اور صریح دلیل موجود ہے،جو عورتوں کو سیاسی حقوق اور سرگرمیوں سے محروم کردے۔آپ پورے قرآن کو خوب سمجھ سمجھ کرپڑھ جائیے اور تمام صحیح حدیثوں کا تفصیلی مطالعہ کرجائیے مجھےیقین کامل ہے کہ قرآن وحدیث میں آپ کو ایک بھی ایسی دلیل نہیں ملےگی جس کی بنیاد پر عورتوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کیا جاسکے۔بلکہ اس کے برعکس آپ اگر قرآن وحدیث کی عمومی تعلیمات پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ عورتوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کردینا نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ مسلم معاشرے پر اس کے برے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ قرآن وحدیث کی تعلیمات پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کو فرائض وواجبات ادا کرنے کامکلف بنایا ہے،اسی طرح عورتوں کوبھی فرائض وواجبات ادا کرنے کی مکلف بنایا ہے۔اس معاملے میں دونوں برابر ہیں۔چنانچہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے کہ پانچ وقت کی نماز ادا کریں ،روزہ رکھیں ،اقامت ِدین کے لیے جدوجہد کریں،حرام چیزوں سے اجتناب کریں،حلال رزق کھائیں، بھلائیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں وغیرہ وغیرہ۔ان فرائض وواجبات میں مرد اور عورت برابر کے شریک ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نےقرآن میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا ہے بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ (تم دونوں ایک دوسرے کا حصہ اور شریک ہو) اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے: إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ (عورتیں مردوں کی شریک ہیں) اور قرآن نے جہاں جہاں يَا أَيُّهَا النَّاسُ اور يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (اے لوگو! یا اے ایمان والو) کہہ کر مخاطب کیاہے ،وہاں مردوں کی طرح عورتیں بھی مخاطب ہیں ۔ اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔قرآن نے مردوں اور عورتوں کو بیک وقت یہ حکم دیا ہے کہ دونوں مل جل کر معاشرے کی اصلاح کریں۔برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں اورنیکیوں کو عام کریں۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ     ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ     ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ     ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝ (التوبہ: 71) ”مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے“
اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے منافق مرداور منافق عورتوں کی صفت بیان کی ہے کہ منافق مرد کی طرح منافق عورتیں بھی مل جل کرمعاشرے میں فساد اوربرائیاں پھیلانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اس لیے مومن عورتوں کو بھی چاہیے کہ مومن عورتوں کے ساتھ مل کر معاشرے میں اصلاح اور بھلائی کے کام میں لگ جائیں ۔ تاریخی حقائق سےپتا چلتا ہے کہ اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے عہد کی عورتوں نے بھی اپنی ان ذمے داریوں کو بخوبی انجام دیا ہے۔چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حمایت اور موافقت میں سب سے پہلی آواز جو بلند ہوئی تھی وہ ان کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آواز تھی۔ اسلام کی سربلندی کی راہ میں سب سے پہلی شہید ہونے والی خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔متعدد صحابیات نے جنگوں اور غزوات میں شرکت کی اور وقت پڑنے پر تلوار بھی اٹھائی اورجنگ میں مشرکین وکفار کو قتل کیا۔اسلام کی نشرو اشاعت کے سلسلے میں جو ہجرت ہوتی تھی اس میں مردوں کےساتھ عورتیں بھی شریک تھیں۔آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ بعض ایسے فرائض ہیں جو صرف عورتوں کےلیے خاص ہیں اور بعض ایسے ہیں جو صرف مردوں کےلیے خاص ہیں۔لیکن عورتوں کے ساتھ صرف وہی فرائض خاص ہیں جنھیں اپنی جسمانی ساخت کی وجہ سے صرف عورتوں ہی انجام دے سکتی ہیں مثلاً حیض ونفاس یا حمل اور ولادت سے متعلق فرائض واحکام اور مردوں کے ساتھ صرف وہی فرائض خاص ہیں،جنھیں اپنی جسمانی ساخت کی وجہ سے صرف مرد ہی انجام دے سکتے ہیں،مثلاً نان ونفقہ کی ذمہ داری وغیرہ۔جو فرائض عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ فرائض جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں ان سب کی تفصیل قرآن وحدیث میں موجود ہے۔اب کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اوراپنی سمجھ کے مطابق عورتوں یا مردوں کے لیے،کسی فرض کو خاص کردے۔چونکہ سیاسی حقوق سے متعلق فرائض واحکام قرآن وحدیث میں صرف مردوں کے ساتھ خاص نہیں کیے گئے ہیں،اس لیے ہمارے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ ہم ان سیاسی حقوق کو مردوں کےساتھ خاص کرکے عورتوں کو ان سے محروم کردیں۔اور ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کہ کسی چیز کو حرام قراردینے کےلیے قرآن وحدیث کی واضح اورصریح دلیل ضروری ہے۔عورتوں پر سیاسی حقوق کو حرام قراردینے کے لیے قرآن وحدیث میں  کوئی بھی صریح اور واضح دلیل نہیں ہے۔ البتہ چند ضعیف احادیث ہیں لیکن اُن کی بنیاد پر ایک حلال چیز کو حرام نہیں کیا جا سکتا۔ خاص کر ایسے معاملے میں جس کا تعلق پورے معاشرے کے نفع ونقصان سے ہو ۔ یہ بڑے ستم کی بات ہوگی کہ ایک ضعیف حدیث پر عمل کرکے پورے مسلم معاشرہ کو نقصان پہنچایا جائے۔ضعیف حدیث کے علاوہ چند قرآنی آیات اورصحیح  حدیثیں ہیں لیکن ان کی تفسیر اور تشریح میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔اس لیے مختلف فیہ تفسیر کے ذریعہ کسی شے کو حرام قراردینا کسی صورت مناسب بات نہیں ہے۔کسی چیز کوحرام وحلال قراردینے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کے علاوہ ایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے زمانے کے حالات اور ماحول کی رعایت۔چنانچہ فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ زمانے کے بدلنے،حالات کے مختلف ہونے اور ماحول کے بدلنے سے فتوے بھی بدل جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کا زمانہ آج کی اکیسویں صدی سے بالکل مختلف تھا۔دونوں زمانوںکے حالات مختلف ہیں۔ اسی طرح مسلم ملک کا جو ماحول ہوتا ہے کسی کافر ملک کے ماحول سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ حالات کی ان تبدیلیوں سے فتوے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔اس بات پر خود  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی عمل رہا ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے آغاز میں ماحول اور ضروریات  کے لحاظ سے ایک حکم دیا اور جب ہجرت کے بعداسلام طاقت ورہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حکم سے بالکل مختلف حکم صادر فرمایا۔یہی رویہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی تھا۔حقیقت یہ ہے کہ  اسلامی شریعت اسی وجہ سے سب سے عمدہ اور بہترین شریعت ہے کہ اس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ زمانہ اور ماحول کے لحاظ سے احکام تبدیل ہوسکیں۔
ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔وہ یہ کہ دورحاضر کے سیکولر حضرات عورتوں کے مسائل میں خصوصی دلچسپی اور جوش وولولہ دکھانے گئے ہیں۔انھیں ذرا بھی عورتوں کی حق تلفی کا علم ہوتا ہے تو اپنے سارے ہتھیار لے کر میدان میں کود پڑتے ہیں اور حق تلفی کرنے والوں کے خلاف برسرپیکار ہو جاتےہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم امت نے اپنی عورتوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں اور حق تلفیاں کی ہیں۔انھیں  فتنوں کے ڈرسے تعلیم میں پیچھے رکھا۔ انھیں گھر کے اندر قید کردیا اور ان پر بے جا پابندیاں عائد کردیں۔جب یہ سیکولر حضرات مسلم عورتوں کی یہ زبوں حالی اور پسماندگی دیکھتے ہیں توا نھیں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہراگلنے کا بڑا اچھا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام عورتوں کا دشمن ہے،اور جو رویہ ہم اپنی عورتوں کےساتھ اختیار کرتے ہیں اسے دیکھ کر دنیا والے بھی فوراً یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی اسلام عورتوں کا دشمن ہے۔
 اس لیے میں اپنی اُمت کے عالموں اور دانشوروں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں۔جو غلطیاں پہلے ہوچکی ہیں ان کی تلافی کریں۔بہت سارے ایسے میدان ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنی عورتوں کو ان سے دوررکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان میں ایک سیاست کا میدان ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے میں قرآن وسنت کا صحیح حکم معلوم کریں تاکہ دوبارہ ایسی غلطی نہ ہو،جس سے ہماری امت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے اور ہم سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہ کرسکیں۔
آپ یقین کریں کہ قرآن اور صحیح حدیثوں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جوعورتوں کو سیاسی حقوق استعمال کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکتی ہو۔آج کا جو سیاسی سسٹم ہے اس میں عورتیں ووٹ دینے کا حق استعمال کرسکتی ہیں، پارلیمنٹ،اسمبلی اور شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں اور حکومت کو سیاسی مشورے دے سکتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ عام طور پر مسلمانوں کا ذہن میری اس رائے کو قبول نہیں کرے گا کیونکہ عورت کا سیاست میں حصہ لینا ان کے نزدیک گناہ عظیم ہے۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کسی بھی معاملے کو حرام اور گناہ قراردینے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح  اور صریح دلیل ضروری ہے۔محض اس وجہ سے کوئی چیز حرام نہیں ہوسکتی کہ ہمارا ذہن اسے قبول نہیں کررہا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے کون سے دلائل پیش کرتے ہیں اور کیا واقعی یہ دلائل قابل قبول ہیں؟
(1) ان کی پہلی دلیل قرآن کا یہ حکم ہے: وَقَرْنَ فى بُيُوتِكُنَّ (اور اپنے گھروں ہی میں رہا کرو) اس آیت کی روشنی میں عورتوں کا بلاوجہ گھر سے باہرنکلنا جائز نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے یہ دلیل ناقابلِ قبول ہے اس لیے کہ:
(الف) سیاق وسباق سے واضح ہے کہ اس حکم کی مخاطب عام عورتیں نہیں بلکہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں۔ اسی سیاق وسباق کی ابتدا میں اللہ ان سے فرماتا ہے کہ: يـٰنِسآءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسآءِ(اے نبی کی بیویو!تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو) اور ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو جو رتبہ ومنزلت حاصل ہے اس کالازمی تقاضا ہے کہ ان کا رہن سہن عام عورتوں کی طرح نہ ہو۔اسی بنا پر انھیں حکم دیا گیا کہ ان کا زیادہ وقت گھروں میں گزرے۔
(ب) اس حکم کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  جنگ جمل کے موقع پر گھر سے باہر بلکہ مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئیں اور انھوں نے پوری فوج کی قیادت کی۔معلوم ہوا کہ دینی واجبات کی ادائی کی خاطر گھر سے باہرنکلنا بھی ایک دینی فریضہ ہے۔
(ج) اس حکم کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ عورتیں گھرکے اندر مقید رہتی ہیں۔علماء نے انھیں مختلف ضروریات کی تکمیل کے لیے گھرسے باہرنکلنے کی اجازت دی ہے ۔ اور عورتیں ان ضروریات کی تکمیل کے لیے نکلتی ہیں۔پھر آخر سیاسی واجبات کی ادائیگی کے لیے انھیں گھر سے نکلنے سے کیوں محروم کیا جارہا ہے۔
(د) گھر کے اندر ہی رہنا اور گھر سے باہر قدم نہ نکالنا تو ایک سزاہے جسے اللہ تعالیٰ نے زنا کارعورت کے لیے تجویز کیا تھا ۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے سورہ نساء کے حوالے سے عرض کرچکے ہیں۔اگر ہم نے تمام عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت سے محروم کردیا توگویا ہم انہیں زنا کار عورت کی سزا دےرہے ہیں۔
(ہ) صورت حال یہ ہے کہ سیاسی میدان سے دین دار قسم کی عورتیں غائب ہوچکی ہیں اور ان کی جگہ وہ عورتیں اس میدان میں ہیں جنھیں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ظاہر ہے اس قسم کی دنیادار عورتیں پارلیمنٹ میں جاکر اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے کوئی کام نہیں کرسکتیں بلکہ اس کے برعکس وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔کیا اب ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ میں ہماری دین دار اور پرہیزگار قسم کی عورتیں بھی ہونی چاہییں تاکہ وہ ایک طرف مسلم عورتوں کے مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرسکیں اور دوسری طرف پوری مسلم امت کے مفاد میں کام کرسکیں۔ذرا غور کیجئے کہ ایک مسلم عورت اپنی ذاتی ضروریات کی تکمیل کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے،بازار جاسکتی ہے اور سفر کرسکتی ہے تو پوری مسلم قوم کے مفاد کے لیے گھر سے باہر کیوں نہیں نکل سکتی؟
(2) بعض لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سیاسی سرگرمیوں میں مسلم عورتوں کی شرکت کی وجہ سے مختلف فتنے جنم لے سکتے ہیں۔مثلاً بے پردگی،مردوں سے اختلاط اور کبھی مردوں کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا وغیرہ۔چونکہ یہ چیزیں حرام ہیں اس لیے سیاسی سرگرمیاں بھی حرام ہیں۔
یہ دلیل بھی کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔یہ تو محض اندیشے اور حددرجہ احتیاط والی بات ہوئی اور تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ اندیشوں اور حددرجہ احتیاط کے چکر میں پڑ کرمسلم امت نے اپنا  بڑا نقصان کیا ہے ۔ اس طرح کےاندیشے فتنوں کو دبانے کے بجائے انھیں اُبھارتے ہیں۔اگر ہم اپنی عورتوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیں گے تو مسلمانوں کا بہت سارا قیمتی ووٹ ضائع ہوجائےگا۔جواگراستعمال ہوتا تو شاید پارلیمنٹ میں کوئی اچھا مسلمان منتخب ہوکرجاتا اور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا۔اسی طرح اگر ہم اپنی عورتوں کو الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کی ممبر بننے سے روک دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں وہ عورتیں جائیں گی جنھیں دین اور مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور وہ عورتوں کے لیے ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کریں گی،جو اسلام کے خلاف ہیں۔کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ پارلیمنٹ میں ہمارے مرد اورہماری عورتیں جائیں تاکہ وہ ہمارے مفاد کے لیے کام کرسکیں۔
جہاں تک فتنوں،بے پردگی اورمردوں کے ساتھ اختلاط کی بات ہے تو میں بھی ان کے حق میں نہیں ہوں لیکن ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ پردے میں رہ کراوردوسرے اسلامی آداب کا خیال رکھتے ہوئے ہماری عورتیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں ۔ خصوصاً وہ عورتیں جو پختہ عمر کو پہنچ چکی ہیں اور بچوں کی تعلیم وتربیت سے فارغ ہوچکی ہیں اور پڑھی لکھی ہونے کے باوجود گھروں میں خالی بیٹھ کر اپناقیمتی وقت برباد کررہی ہیں۔یہ عورتیں اگر مسلمانوں کےمفاد کے لیے سیاست کے میدان میں آتی ہیں تو اس سے ایک طرف یہ فائدہ ہوگا کہ ہماری عورتوں کے مسائل اسلامی قوانین کی روشنی میں حل کیے جاسکیں گے اور دوسری طرف یہ فائدہ ہوگا کہ اس طرح ہماری عورتوں کا امیج(Image) بہتر ہوگا جو کہ فی الحال کافی خراب ہے۔
(3) ان کی تیسری دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے: لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً (وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے عورت کو اپنا حکمران بنایا۔)
اس حدیث میں یہ خبر دی گئ ہے کہ عورت کو حکمران بنانے والی قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس لیے عورتوں کو کسی قسم کا سیاسی منصب عطا کرناجائزنہیں ہے۔دوسری بات یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر"قوامیت" عطا کی ہے نہ کہ عورتوں کو مردوں پر۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ  ۭ (النساء: 34)
”مرد نگہبان ہیں عورتوں پر اس لیے اللہ نے بعض کوبعض پر فضیلت بخشی ہے اور اس لیے کہ یہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں(یعنی نان ونفقہ کی ذمے داری مردوں پر ہے)“
عورتوں کو کسی قسم کا سیاسی منصب عطا کرنے کا مطلب ہے کہ انھیں مردوں پر قوامیت عطا ہوگئی اور یہ بات اللہ کےمنشا کے خلاف ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو سیاسی حقوق سےمحروم کرنے کے لیے مذکورہ حدیث اور مذکورہ آیت کو بطور دلیل پیش کرنا سراسرغلط ہے۔کیونکہ ان دونوں میں عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کی جس قوامیت کا تذکرہ کیا ہے وہ محض خانگی زندگی تک محدود ہے۔مرد صرف اپنی فیملی اورگھر کی حدود میں نگہبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ایک عورت گھر کی نگہبان نہیں ہوسکتی اور  اس کیوجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ مرد ہی پر نان ونفقہ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ نان ونفقہ کی ذمے داری والی بات صرف گھر ہی تک محدود ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کی جس قوامیت کا اللہ نے ذکر کیا ہے ،وہ صرف گھر تک محدود ہے۔مرد اپنے گھر کے حدود میں قوام ہوتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرداپنی قوامیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی من مانی کرتا پھرے ۔ کیونکہ قرآن کی دوسری آیتوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ثابت ہے کہ اس قوامیت کےباجود شوہر کوگھریلو معاملات میں اپنی بیوی سے مشورے کی 
تا کیدکی گئی ہے۔اس لیے اس آیت سے یہ ثابت کرنابالکل غلط ہے کہ عورتوں کو سیاسی منصب عطا کرنا جائز نہیں ہے۔رہی وہ حدیث جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ عورتوں کو حکمران بنانے والی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی تو اس میں جس چیز سے خبردار کیا گیا ہے۔وہ ہے عورتوں کی ”ولایت“ ایسی حکمرانی جس میں حکمران تمام سیاہ وسپید کا مالک ہوتا ہے اور جسے ہم مطلق العنان حکمران کہتے ہیں۔حدیث کا سیاق وسباق یہ ہے کہ کسریٰ کی موت کے بعد اہل فارس نے اس کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا تھا۔اہل فارس کے کسریٰ کس قسم کے مطلق العنان حکمران ہوا کرتے تھے،سبھی جانتے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوقوم اس طرح کی مطلق العنانی عورتوں کو سونپے گی وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ دورحاضر میں جب کہ جمہوریت کا دوردورہ ہے کوئی صدر یا وزیر اعظم یاکسی قسم کاسیاسی اہلکار نہ مطلق العنان ہوتا ہے اور نہ ہی ملک کا سیاہ وسپید اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔صدر ہویا وزیر اعظم حکومت چلانے کے لیے یہ سب اپنے وزراء اور عوام سے باہمی مشورے کرتے ہیں۔حکومت پر فائز لوگوں کو ہرآن مخالف سیاسی پارٹی کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے ۔ یعنی دور حاضر میں بڑے سے بڑا سیاسی منصب مطلق العنانیت نہیں عطا کرتا ہے ۔ اس لیے اس حدیث کی بنیاد پر عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کردینا صحیح نہیں ہے۔
علاوہ ازیں بعض علمائےکرام اس حدیث کو صرف کسریٰ کی بیٹی کے ساتھ خاص مانتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صرف اہل فارس اور کسریٰ کی بیٹی کے سلسلے میں فرمائی ہے۔یہ کوئی عمومی بات نہیں ہے کہ جب جب عورتیں حکمراں بنیں گی تب تب قوم تباہ وبرباد ہوگی۔اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں بے شمار ایسی حکمران عورتوں کے واقعات درج ہیںجنھوں نے مردوں سے زیادہ حسن وخوبی سے حکومت کی اور اپنی قوم کو فلاح وبہبود سےہمکنار کیا۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری حکمران عورتوں کے لیے یہ بات کہی ہوتی تو تاریخ میں اس طرح کی کامیاب حکمران عورتوں کے واقعات درج نہ ہوتے۔قرآن نے بھی ایک ایسی حکمران عورت یعنی ملکہ سبابلقیس کا واقعہ تعریف و توصیف میں بیان کیا ہے۔ملکہ سبا بلقیس نے کمال حکمت ودانائی کے ساتھ حکومت کی اور سلیمان علیہ السلام  کےساتھ دانشورانہ معاملہ کیا حتی کہ اس نے اسلام قبول کرلیا اور اپنی قوم کو تباہی وبربادی سے بچالیا۔یہ حکمران عورت اپنی قوم کے لیے باعث تباہی نہیں بلکہ باعث فلاح ثابت ہوئی۔
ان دلیلوں کے علاوہ کچھ عقلی دلیلیں بھی پیش کی جاتی ہیں مثلاً یہ کہ عورتوں کے اندر جذباتیت زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ کسی اہم سیاسی منصب کے لیے موزوں نہیں ہوسکتیں۔عورتیں صرف انھی کاموں کے لیے موزوں ہیں جو عورتوں سے متعلق ہیں مثلاً بچے پیدا کرنا ،ان کی پرورش کرنا اور امورخانہ داری سنبھالنا وغیرہ۔اس طرح کی دلیل پیش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ایسی جذباتیت صرف عورتوں میں نہیں بلکہ بہت سارے مردوں میں بھی ہوتی ہے۔ مرد بھی جذباتی ہوتے ہیں اور جذباتی انداز میں فیصلے کرتے ہیں اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
آپ نے دیکھ لیا کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے ایک بھی ایسی دلیل نہیں ہے جسے واضح اور دوٹوک کہا جاسکے۔بلکہ یہ بات اسلام کی عمومی تعلیمات کے خلاف ہے کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے کلیتہً روک دیا جائے۔بلکہ میں تو کہوں گا کہ عورتوں کی سیاسی سرگرمیوں کو ناجائز قراردینے کے لیے قرآن وحدیث میں کسی دلیل کا نہ ہونا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے لیے سیاسی سرگرمیاں جائز ہیں۔کیونکہ اگر یہ بات ناجائز ہوتی تو قرآن وحدیث میں اس کاذکر لازماً ہوتا۔
آج کے جمہوری دور میں کسی وزیراعظم ،وزیر،پارلیمانی ممبر یاکسی بھی منصب پر فائز شخص کی ذمے داریوں کا ایک بڑا حصہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے کاموں کی نگرانی کی جائے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا جائے۔معاشرے میں جرائم اور فسادات کی روک تھام کی جائے اور اربابِ حکومت کو حکومت چلانے کےلیے مفید مشورے دیے جائیں۔اور یہ سارے کام اور ذمہ داریاں وہی ہیں جنھیں قرآن اپنی زبان میں ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“ کہتا ہے۔اور حدیث میں ان کے لیے اس طرح کے الفاظ ہیں ”الدين النصيحة“ (دین نام ہے لوگوں کے لیے خیرخواہی کا) ان ذمے داریوں کو انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ   ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (التوبہ: 71)
”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار اور رفیق ہیں۔یہ سب مل کر بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربُرائی سے روکتے ہیں۔“
اور تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد میں مردوں اور عورتوں دونوں نے مل کر یہ ذمے داریاں نبھائی ہیں۔صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے سیاسی مشورے کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشوروں پر عمل کیا اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔یہ واقعہ بھی سب جانتے ہیں کہ مسجد میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دے رہے تھے۔کسی غلطی پر ایک عورت نے بھرے مجمع میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ٹوکا۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اورفرمایا ”أصابت إمرأة وأخطأ عمر (رضی الله عنہ) “(عورت نے صحیح کہا اورعمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے غلطی ہوگئی) اس طرح کی بےشمار مثالیں تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔
جب انفرادی طور پر عورت کو سیاسی مشورے دینے اور سیاسی محاسبہ کا حق حاصل ہے تو اجتماعی حالات میں اسے حق سے محروم کردینے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عورت اگر باصلاحیت اور اس قابل ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کی خیرخواہی کے لیے بہتر طریقہ سے اپنی ذمے داریاں نبھاسکتی ہے تو اسے اس کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کو فائدہ پہنچاسکے۔اوروہ اس بات کی حقدار ہے کہ اسے کوئی سیاسی یا غیر سیاسی منصب عطا کیا جائے۔چنانچہ ان ہی صلاحیتوں کودیکھتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خاتون حضرت الشفاء بنت عبداللہ العدویہ کو بازار کانگران اور محاسب مقرر کیا تھا۔دور حاضر کے لحاظ سے اس منصب کو ایک اعلیٰ عوامی منصب کے طور پر تصور کیا جاسکتا ہے ۔بلاشبہ اگر ہم نے کسی عورت کی صلاحیتوں کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا اور یہ عورت یوں ہی گھر میں بیٹھ کر اپناقیمتی وقت برباد کرتی تو اس کا مطلب یہ ہواکہ ہم نے اس عورت کو خدا داد صلاحیتوں کو ضائع کردیا اور یہ بات کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے۔
سب سے زیادہ خطرناک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دین دار اور باصلاحیت خواتین کو ہم ہرقسم کے سیاسی اور غیر سیاسی منصب کو حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ ان مناصب پر غیر دین دار اور مغرب پرست عورتیں فائز ہوجاتی ہیں جن کے کام کرنے کاڈھنگ بالکل غیر اسلامی ہوتا ہے اور پالیسیوں کےنفاذ میں انھیں اسلامی احکام کا ذرہ برابرخیال نہیں ہوتا ہے ۔کیا اچھاہوتا کہ ان مناصب پر ہماری دین داری اور با صلاحیت عورتیں فائز ہوتیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں کام کرتیں اورایسے قوانین بتاتیں جن سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملتی۔
(1) اس سلسلے میں ایران کی پارلیمنٹ ایک روشن خیال ہے ،جہاں عورتیں پردے میں رہتے ہوئے اور مکمل اسلامی آداب کا لحاظ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی ممبر بنی ہوئی ہیں۔ اور ملک کی تعمیر وترقی میں اپنے حصہ کا کردار ادا کررہی ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
 اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا  کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
 اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا  کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردے۔بالکل غلط بات ہے یہ بات وہی کہہ سکتا ہے۔ جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ہے۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضائے رب رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے: 
فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝ (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ہے۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے   کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ۝  (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ      ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسااوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو۔ وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھروالوں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھربھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے مہر کی ذمے داری ہے۔ بیوی اور بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہے۔ اور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن اختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)