چہرے کا پردہ

جواب: دیکھئے چہرے کے پردے کے بارے میں شروع سے ایک گفتگو چلی آرہی ہے جس میں صحابہ اور تابعین کے زمانے سے بحث ہورہی ہے قرآن پاک کی جس آیت میں آیا ہے کہ پردہ کرو اس میں آیا ہے کہ الا ماظھر منھا سوائے اس کے کہ جوظاہر ہو ۔ فقہا، محدثین، صحابہ،تابعین ، اور تبع تابعین کی ایک بہت بڑی کا کہنا ہے کہ الا ماظھر منھا یعنی سوائے اس کے جو ظاہر ہو جائے اس میں جسم کی ساخت اور قدوقامت شامل ہے جس کو نہیں چھپایا جاسکتا۔جب ایک خاتون نکل کر کہیں جائے گی تو لوگ دیکھ لیں گے کہ دبلی ہے پتلی ہے موٹی ہے بھاری ہے تو یہ ظاہر ہوجائے گا اور جسم کی ساخت کا بھی اندازہ ہوجائے گا تو یہ تو نہیں چھپایا جاسکتا اس لئے اس میں یہ شامل ہے باقی سب چیزیں چھپانی چاہیں ۔کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اس میں جسم کے وہ اعضاء بھی شامل ہیں جن کا بعض اوقات کھولناضروری ہو تا ہے ۔ 
مثلاًکسی کام کے لئے خاتون جارہی ہے سفر پر جارہی ہے تو ہاتھ کھلا ہوگا پاؤں کھلے ہوں گے کسی مزدوری کے لیے ضرورت پڑی تو ہاتھ کھولنا پڑے گا اس میں کچھ لوگ چہرے کھولنے کو شامل سمجھتے ہیں اس لئے کہ چہرے کا پردہ واجب ہے کہ اس میں اختلاف شروع سے چلا آرہا ہے اس لئے کچھ لوگ جو چہرے کے پردے کھولنے کو بھی شامل سمجھتے ہیں ان میں امام احمد بن حنبل ؒ اورسعودی علماء شامل ہیں وہ ہر حال میں چہرے کے پردے کو لازمی سمجھتے ہیں ۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چہرے کا پردہ عام حالات میں تو کرنا چاہیے لیکن اگر کسی خاتون کو کوئی ناگزیر ضرورت ایسی پیش آجائے جس میں وہ وقتی یا مستقل طور پر چہرے کھولنے پر مجبور ہو تو چہرہ ہاتھ اور پاؤں کھولنے کی اجازت ہے ۔
تیسرا نقطہ نظریہ ہے جو مجھے بھی ذاتی طور پر دلائل وغیرہ دیکھ کر درست معلوم ہوتاہے لیکن آپ کا جو جی چاہیے وہ آپ اختیار کریں وہ ہے کہ چہرے کا ڈھکنا تو افضل اور عزیمت ہے لیکن کھولنا کی اجازت ہے چہرہ کھولنا رخصت ہے اگر وہ خاتون یہ سمجھتی ہیں کہ چہرہ نہ کھولنا سے اس کے لئے مشکلات ہیں تو وہ کھول سکتی ہیں ۔
اور یہ مسائل بعض اوقات یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں پیش آتے ہیں جہاں ہماری بہت سی بہنوں کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور باہر جانا پڑتا ہے وہاں کے ماحول میں ان کو سر ڈھانکنے کی اجازت بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے تو چہرے کے ڈھانکنے کی پابندی بھی اگر لازم کر دی جائے تو ان کے لئے شاید مشکل ہو جائے اس لئے جہاں حالات ناگزیر یا مشکل ہوں تو میرے خیال میں چہرہ کھول سکتی ہیں ۔

 

()

 اگر عورت کی جسمانی ساخت پر غورکیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورت کا سب سے عظیم کام اور اس کی سب سے نمایاں ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس طرح تعلیم وتربیت کرے کہ مستقبل میں یہ بچے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں رول ادا کر سکیں۔اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں تو پھر ان کی بہتر اور مکمل تربیت سے زیادہ نفع بخش کام اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خالق کائنات نے بھی عورت کو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے اس ذمے داری کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے۔ مستقبل کا تعلق خواہ دنیا وی بہبود سے ہو یا آخرت کی فلاح و کامرانی سے عورت اگر اپنے بچوں کی اس رخ پر تربیت کرتی ہے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ عورت کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور آرام دہ بنانے کی بھر پورسعی کرے۔ اپنے شوہر اور بچوں کو راحت اور سکون پہنچانے کے لیے کام کرے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر سے باہر جا کر نوکری کرنے کی گنجائش عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے کہ گھر سے باہر نکل کر عورتوں کا نوکری کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ جب شریعت نے یہ چیزحرام نہیں کی ہے۔ تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک حلال چیز کو حرام قراردے۔ ویسے بھی اسلامی فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اصولی طور پر حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں قرآن و حدیث میں واضح طور پر حرام قراردیا گیا ہے اس لیے اصولی طور پر یہ چیز جائز اور حلال ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کا نوکری کرنا جائز ہے بلکہ اگر وہ مطلقہ یا بیوہ ہے اور آمدنی کے سارے راستے اس پر بند ہوں تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اگر وہ نوکری یاجاب کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے تو اسے چاہیے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے ملازمت کر لے۔ تاکہ وہ تمام رسوائیوں سے محفوظ رہے بعض حالات میں شوہر کی موجودگی میں بھی عورت کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ مثلاً شوہر کی آمدنی اخراجات کے لیے ناکافی ہو یا عورت کے بوڑھے ماں باپ ہوں اور چھوٹے چھوٹے بھائی بہن ہوں وغیرہ۔ان حالات میں اسے ملازمت کا اختیار ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:
قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ          ۫  وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ۝ (القصص: 23)
”انھوں نے کہا ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں۔“
باپ چونکہ بوڑھے تھے اس لیے گھر سے باہر جا کر پانی بھرنے اور دوسرے کام کرنے کی ذمے داری ان دونوں جوان بیٹیوں پر تھی ۔ یہ بوڑھے باپ جیسا کہ دوسرے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے اللہ کے نبی تھے۔
اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی صاحبزادی حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر سے باہر نکل کر اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھیں گھوڑوں کی مالش کرتی تھیں ان کے لیے دانے کوٹتی تھیں اور دور کسی باغ سے یہ دانے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ امت مسلمہ تعلیم اور دوسری ترقیوں کے میدان میں کافی پیچھے رہ گئی ہے اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہماری مسلم عورتوں میں بھی ڈاکٹر ہوں، نرس ہوں، لیکچرر اور پروفیسر ہوں، عورتیں بیمار ہوتی ہیں تو مسلمان لیڈی ڈاکٹرنہ ملنے کی وجہ سے مجبوراًمرد ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اسکول اور کالج میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے غیر مسلم اساتذہ اور لیکچررہوتے ہیں۔ جن سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کی تربیت اسلامی انداز میں کریں گے۔ غرض کہ دور حاضر میں بہت سارے ایسے پرو فیشن(Profession)ہیں جن میں مسلم عورتوں کی شدید قلت ہے۔ اس قلت کی وجہ سے مسلم معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری عورتیں بھی ان شعبوں میں آئیں۔ بہر کیف ضرورت اور حالات کے مطابق عورت کا نوکری کرنا جائز اور حلال ہے لیکن اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے:
(1) یہ ضروری ہے کہ نوکری میں کوئی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز اور غلط ہو۔ مثلاً کسی کنوارے لڑکے کے یہاں خادمہ کی نوکری کرنا یا کسی شخص کی پرسنل سکریٹری بننا کیوں کہ تنہائی میں کسی غیر مرد کے ساتھ وقت گزارنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ڈانس اور گانے وغیرہ کی نوکری ہویا ایر ہوسٹس کی نوکری کرنا کیوں کہ غیر شرعی لباس پہننا اور شراب پیش کرنا اور تنہائی میں غیر مردوں کے ساتھ رہنا اس نوکری کے لازمی اجزا ہیں اسی طرح ہر وہ نوکری جس میں کوئی غیر شرعی کام ہو جائز نہیں ہے:
(2)  یہ ضروری ہے کہ نوکری کرتے ہوئے عورت تمام اخلاقی اور اسلامی آداب کا خیال رکھے۔
(3) یہ ضروری ہے کہ اس کی نوکری کرنے سے اس کی دوسری اولین اور زیادہ اہم ذمے داریاں متاثر نہ ہوں۔ مثلاً بچوں کی نگہداشت اور امور خانہ داری میں غفلت نہ ہو یا اس کی نوکری کی وجہ سے گھر کا سکون و آرام غارت نہ ہو۔ کیوں کہ بچوں کی نگہداشت اور گھر کے ماحول کو پر سکون بنانا عورت کی اولین ذمے داری ہے۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)

 اگر عورت کی جسمانی ساخت پر غورکیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورت کا سب سے عظیم کام اور اس کی سب سے نمایاں ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس طرح تعلیم وتربیت کرے کہ مستقبل میں یہ بچے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں رول ادا کر سکیں۔اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں تو پھر ان کی بہتر اور مکمل تربیت سے زیادہ نفع بخش کام اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خالق کائنات نے بھی عورت کو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے اس ذمے داری کے لیے نہایت موزوں بنایا ہے۔ مستقبل کا تعلق خواہ دنیا وی بہبود سے ہو یا آخرت کی فلاح و کامرانی سے عورت اگر اپنے بچوں کی اس رخ پر تربیت کرتی ہے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ عورت کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور آرام دہ بنانے کی بھر پورسعی کرے۔ اپنے شوہر اور بچوں کو راحت اور سکون پہنچانے کے لیے کام کرے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر سے باہر جا کر نوکری کرنے کی گنجائش عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے کہ گھر سے باہر نکل کر عورتوں کا نوکری کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ جب شریعت نے یہ چیزحرام نہیں کی ہے۔ تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک حلال چیز کو حرام قراردے۔ ویسے بھی اسلامی فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اصولی طور پر حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں قرآن و حدیث میں واضح طور پر حرام قراردیا گیا ہے اس لیے اصولی طور پر یہ چیز جائز اور حلال ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کا نوکری کرنا جائز ہے بلکہ اگر وہ مطلقہ یا بیوہ ہے اور آمدنی کے سارے راستے اس پر بند ہوں تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اگر وہ نوکری یاجاب کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے تو اسے چاہیے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے ملازمت کر لے۔ تاکہ وہ تمام رسوائیوں سے محفوظ رہے بعض حالات میں شوہر کی موجودگی میں بھی عورت کو نوکری کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ مثلاً شوہر کی آمدنی اخراجات کے لیے ناکافی ہو یا عورت کے بوڑھے ماں باپ ہوں اور چھوٹے چھوٹے بھائی بہن ہوں وغیرہ۔ان حالات میں اسے ملازمت کا اختیار ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:
قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ          ۫  وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ۝ (القصص: 23)
”انھوں نے کہا ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں۔“
باپ چونکہ بوڑھے تھے اس لیے گھر سے باہر جا کر پانی بھرنے اور دوسرے کام کرنے کی ذمے داری ان دونوں جوان بیٹیوں پر تھی ۔ یہ بوڑھے باپ جیسا کہ دوسرے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے اللہ کے نبی تھے۔
اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی صاحبزادی حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر سے باہر نکل کر اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھیں گھوڑوں کی مالش کرتی تھیں ان کے لیے دانے کوٹتی تھیں اور دور کسی باغ سے یہ دانے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جب کہ امت مسلمہ تعلیم اور دوسری ترقیوں کے میدان میں کافی پیچھے رہ گئی ہے اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہماری مسلم عورتوں میں بھی ڈاکٹر ہوں، نرس ہوں، لیکچرر اور پروفیسر ہوں، عورتیں بیمار ہوتی ہیں تو مسلمان لیڈی ڈاکٹرنہ ملنے کی وجہ سے مجبوراًمرد ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اسکول اور کالج میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے غیر مسلم اساتذہ اور لیکچررہوتے ہیں۔ جن سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کی تربیت اسلامی انداز میں کریں گے۔ غرض کہ دور حاضر میں بہت سارے ایسے پرو فیشن(Profession)ہیں جن میں مسلم عورتوں کی شدید قلت ہے۔ اس قلت کی وجہ سے مسلم معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری عورتیں بھی ان شعبوں میں آئیں۔ بہر کیف ضرورت اور حالات کے مطابق عورت کا نوکری کرنا جائز اور حلال ہے لیکن اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے:
(1) یہ ضروری ہے کہ نوکری میں کوئی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز اور غلط ہو۔ مثلاً کسی کنوارے لڑکے کے یہاں خادمہ کی نوکری کرنا یا کسی شخص کی پرسنل سکریٹری بننا کیوں کہ تنہائی میں کسی غیر مرد کے ساتھ وقت گزارنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ڈانس اور گانے وغیرہ کی نوکری ہویا ایر ہوسٹس کی نوکری کرنا کیوں کہ غیر شرعی لباس پہننا اور شراب پیش کرنا اور تنہائی میں غیر مردوں کے ساتھ رہنا اس نوکری کے لازمی اجزا ہیں اسی طرح ہر وہ نوکری جس میں کوئی غیر شرعی کام ہو جائز نہیں ہے:
(2)  یہ ضروری ہے کہ نوکری کرتے ہوئے عورت تمام اخلاقی اور اسلامی آداب کا خیال رکھے۔
(3) یہ ضروری ہے کہ اس کی نوکری کرنے سے اس کی دوسری اولین اور زیادہ اہم ذمے داریاں متاثر نہ ہوں۔ مثلاً بچوں کی نگہداشت اور امور خانہ داری میں غفلت نہ ہو یا اس کی نوکری کی وجہ سے گھر کا سکون و آرام غارت نہ ہو۔ کیوں کہ بچوں کی نگہداشت اور گھر کے ماحول کو پر سکون بنانا عورت کی اولین ذمے داری ہے۔

 

(علامہ یوسف القرضاوی)

 حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں رائج شدہ نقاب یا برقع کو بدعت کہنا اور یہ دعوی کرنا کہ اسلامی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے علمی اعتبار سے اس دعوی میں کوئی سچائی نہیں ہے بلکہ حقائق کی غلط عکاسی ہے۔دراصل نقاب کا استعمال بدن کے ساتھ ساتھ چہرہ اور ہاتھ چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ ورنہ پردہ بغیر نقاب کے بھی ہو سکتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پردہ میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ صحابہ کرام کے دور ہی سے اس بات پر اختلاف رہا کہ چہرہ اور ہاتھ چھپانا بھی ضروری ہے یا نہیں - فقہائے کرام کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھ کو چھپانا ضروری نہیں ہے۔
اسی طرح علمائے کرام مندرجہ ذیل آیت میں لفظ ”جلابیب“ کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ اس سے کون سا لباس مراد ہے۔ وہ آیت کریمہ یہ ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ  ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ  ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ( الاحزاب: 59)
”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر جلابیب ڈال لیا کریں۔ اس طرح ان کی پہچان واضح رہے گی اور لوگ انھیں تنگ نہیں کریں گے۔ اوراللہ  مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“
بعض علمائے کرام کے نزدیک جلا بیب وہ لباس ہے جو بدن کے ساتھ چہرہ اور ہاتھ کو بھی چھپائے اور اکثریت کی رائے یہ ہے کہ جلابیب کے دائرے میں چہرے اور ہاتھ کو چھپانا نہیں آتا میرا موقف یہ ہے کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ضروری نہیں ہے یہی موقف عرب و عجم کے جمہور علماء کا ہے البتہ سعودی عرب اور ہندوستان و پاکستان کے علماء اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا لازمی ہے۔سعودی عرب کے علماء میں سر فہرست مرحوم شیخ عبد اللہ بن باز ہیں اور ہندو پاک میں سر فہرست مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہیں انھوں نے اپنی کتاب "پردہ" میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ چہرہ کا چھپانا ضروری ہے۔ سلف صالحین میں بھی ایسے قابل قدر علماء کرام موجود تھے جو پردہ میں چہرہ کا چھپانا ضروری تصور کرتے تھے کیوں کہ عورت کاحسن اس کے چہرے سے مترشح ہوتا ہے اور چہرہ کھلا رکھنا باعث فتنہ ہو سکتا ہے۔ اس موقف کے پیش نظر نقاب کا استعمال پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہو تا ہے۔ چونکہ چہرہ چھپانا اس کا کھلا رکھنا ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لیے ہر صاحب رائے کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے۔ اگر کسی کا موقف یہ ہے کہ چہرہ چھپانا لازمی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے اور کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے غلط یا گمراہ یا بدعت قراردے۔
جو عورتیں چہرہ چھپانے کے حق میں ہیں اور سمجھتی ہیں کہ نقاب لگا کر ہی پردہ کا اہتمام ہو سکتا ہے تو انھیں اس رائے کے اختیار اور اس کے مطابق عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اگر ہم انھیں اس آزادی سے محروم کر دیں گے تو شریعت کی نظر میں ایک غلط اقدام ہوگا۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی عورت چہرہ چھپانا ضروری نہیں سمجھتی ہے اس کے باوجود محض اختیاطاًاپنا چہرہ چھپاتی ہے اور نقاب لگاتی ہے تو ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اسے عمل سے منع کر دیں۔
حیرت ہے ان علماء پر جو نقاب کو بدعت قراردینے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ سلف صالحین کے زمانے سے ہی اس نقاب کا رواج ہے اور عورتیں شریعت کا حکم سمجھ کر یہ نقاب لگاتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نقاب کی آڑ میں نقاب لگانے والیوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور نقاب کی مخالفت کی جاتی ہے۔ حالانکہ نقاب بہرحال ایک خالص اسلامی لباس ہے اور ان عورتوں کو کچھ نہیں کہا جاتا ہے جو تنگ اور مختصر کپڑے پہن کراور چہرے پر ہزار قسم کے میک اپ کر کے کالجوں یونیورسٹیوں اور بازاروں میں دندناتی پھرتی ہیں۔اس غیر اسلامی لباس کی انھیں ہمارے معاشرے میں پوری آزادی ہے اور کوئی بھی ان پر تنقید کرنے کی جرأت نہیں کرتا ہے اور اگر جرأت کرے تو دقیانوسی کٹرپنتھی اور نہ جانے کیا کیا سمجھا جاتا ہےحالانکہ اس طرح کے غیر شرعی لباس زیب تن کرنے والیوں پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

چہر ے کا پردہ 
 

آپ نے نقاب کی حمایت اور اسے بدعت قرار دینے والوں کی مخالفت میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم نے پڑھا ۔ آپ نے واضح کر دیا ہے کہ نقاب کا رواج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کا چلن ہمارے سلف صالحین کے زمانے میں بھی تھا۔ اسے بدعت نہیں قراردیا جا سکتا۔اسے بدعت قراردینے والے دراصل چاہتے ہیں کہ ہماری عورتیں بھی بےنقاب ہو کر مغربی عورتوں کی طرح شمع محفل بن کر رہ جائیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت خوب لکھا ہے اور حق وانصاف کی بات کہی ہے۔لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نقاب کو لازمی اور فرض سمجھتے ہیں ان کے بہ قول عورتوں کا چہرہ کھلا رکھنا حرام ہے۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاًان عورتوں کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں جو پردہ تو کرتی ہیں لیکن چہرہ کھلا رکھتی ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ایسی عورتیں قرآن و سنت کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور چہرہ کھلا رکھنے کی وجہ سے بڑے گناہ میں مبتلا ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں پردہ واجب اور فرض ہے لیکن نقاب لگانا اور چہرے کو چھپاکر رکھنا ہمارے نزدیک بھی لازمی اور ضروری نہیں ہے ہمارے پاس اتنا علم نہیں ہے کہ ہم ان سخت گیر قسم کے لوگوں کو سمجھا سکیں۔ امید ہے کہ آپ اس موضوع پر بالتفصیل روشنی ڈالیں گے۔ 

جواب: صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے زمانے ہی سے فقہائے کرام کی اکثریت کا موقف یہ رہا ہے کہ پردے میں نقاب کا استعمال لازمی اور ضروری نہیں ہے اور یہ کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ ذیل میں میں ہر مسلک کا موقف مختصراًبیان کرتا ہوں۔
(1) امام ابو حنیفہؒ کا مسلک
احناف کی مشہور کتاب ”الاختیار التعلیل المختار“ میں اس موضوع پر یوں بحث کی گئی ہے:”کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔بشرطے کہ چہرہ اور ہاتھ دیکھنے میں کوئی جنسی لذت نہ ہو۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ پیر بھی کھلارکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ کام کاج اور گھریلو مصروفیات کی وجہ سے جس طرح ہاتھ کھلا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح پیر کا کھلا رکھنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔“
(2) امام مالکؒ کا مسلک
مالکی مسلک کی مشہور کتاب ”اقرب المسالک الی مذہب مالک“ کی عبارت کچھ یوں ہے:”غیر محرم مرد کے سامنے عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ستر میں شامل نہیں ہیں۔ اور ان کا کھلا رکھنا جائز ہے۔بشرطے کہ شہوت کی نظر نہ ہو۔“
(3) امام شافعی ؒکا مسلک
شافعی مسلک کی مشہورکتاب ”المہذب“ میں اس موضوع پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے:
”آزاد عورت کا پورا بدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں عورت کو ہاتھ میں دستانہ اور چہرہ پر نقاب لگانے سے منع فرمایا ہے۔اگر چہرہ اور ہاتھ بدن کے دوسرے اعضاء کی طرح ان کا چھپانا بھی ضروری ہوتا اور اس لیے بھی کہ کام کاج کی وجہ سے ان کا کھلا رکھنا ضروری ہوتا ہے اور ان کے چھپانے میں زبردست اذیت اور پریشانی ہے۔“
(4) امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک
حنبلی مسلک کی مشہور کتاب ”المغنی“ میں کچھ اس قسم کے الفاظ ہی:”حنبلی مسلک میں اس بات پر اختلاف نہیں ہے کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنا جائز ہے البتہ ان کے علاوہ کچھ اور کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔“
یہ تو ہوئی چاروں مشہور مسالک کی رائے ان کے علاوہ بھی دوسرے مشہور اور قابل قدر علماء اور فقہاء ہیں جن کی یہی رائے ہے۔ چنانچہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ بھی عورت کے ستر سے چہرے اور ہاتھ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں جیسا کہ ان کی کتاب ”المحلیٰ“ میں درج ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”المجموع“ میں اس موضوع پر علماء کی رائے لکھتے ہوئےکہتے ہیں ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ  مالک رحمۃ اللہ علیہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بہت سارے علماء کی رائے یہ ہے کہ عورت کا پورا بدن سترہے۔ سوائے اس کے چہرے اور ہاتھ کے۔ یہی مسلک امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ یہ تمام علمائے کرام اپنے مسلک کی حمایت میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں انھیں میں ذیل میں مختصراً بیان کرتا ہوں۔
(1) قرآن کی آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا”اور وہ اپنی زینت و زیبائش کھلانہ رکھیں مگروہ جو خود بخود ظاہر ہو جائے“ کی تفسیر میں صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی اکثریت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے مراد چہرہ اور ہاتھ لیتی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے اس موقف کی تائید ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حدیث کرتی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں ان کے بدن پر باریک اور شفاف کپڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نگاہیں پھیر لیں اور فرمایا کہ اے اسماء عورت جب بالغ ہو جائے تو مناسب نہیں ہے کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے اور آپ نے چہرے اور ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ اس مفہوم کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔
(2) سورہ نورکی آیت وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیاہے کہ وہ اپنے ”خمار“ سے اپنے سینے کو ڈھک کر رکھیں۔”خمار“ وہ دوپٹا ہے جسےعورتیں اپنے سر پر رکھتی تھیں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ سر کے دوپٹے سے سرکے علاوہ سینے کو بھی ڈھک کر رکھیں۔ اگرچہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو انھیں سینہ کے ساتھ چہرہ چھپانے کا بھی حکم دیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں چہرے کا ذکر نہیں کیا ہےبلکہ صرف سینہ کا ذکر کیا ہے۔اس سے اس بات کی صراحت ہو جاتی ہے۔ کہ چہرہ چھپانا ضروری نہیں ہے۔
(3) سورہ نور کی آیت قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْمیں اللہ نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں یعنی خواہ مخواہ عورتوں پر نگاہیں نہ ڈالتے پھریں ۔ کسی موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بار بار کسی خوبصورت عورت کی طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا: لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ“ (ترمذی ) (ایک نظر کے بعد دوسری نظر مت ڈالو کیوں کہ پہلی نظر تو جائز ہے لیکن دوسری نہیں )
غور طلب بات یہ ہے کہ عورتیں اگر مکمل برقع پوش ہوں اور ان کے ہاتھ اور چہرے بھی نظر نہ آئیں تو پھر نگاہیں نیچی رکھنے اور ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنے کا حکم کیا معنی رکھتا ہے۔
نظر باربار ادھر اٹھتی ہے جہاں کشش ہوتی ہے۔ اور یہ کشش عورت کے چہرے میں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حکم نہیں دیا کہ تم اپنی اس کشش کو چھپا کر رکھو بلکہ مردوں کو حکم دیا کہ نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار اس پرکشش چیز کی طرف نگاہ نہ اٹھاؤ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں۔ اسی لیے مردوں کو حکم دیا گیا کہ تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور بار بار ان کی طرف نہ دیکھو ۔ اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو عورتوں کو بھی حکم دیا جاتا کہ اپنے چہرے کو چھپاکر رکھو اور ایسی صورت میں مردوں کو نظر نیچی رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا ۔
(4) اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرماتا ہے:
لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُہُنَّ ۔ (الاحزاب: 52)
”اس کے بعد تمھارے لیے عورتوں سے شادی کرنا حلال نہیں ہے اور نہ یہ حلال ہے کہ ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آؤخواہ ان عورتوں کا حسن تمھیں کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگے۔“
سوچنے کی بات ہے کہ اگر چہرہ کھلا نہ ہو تو کسی کو کیسے معلوم ہو گا کہ فلاں عورت خوبصورت ہے یا بد صورت ۔ کیوں کہ چہرے ہی سے عورت کی خوب صورتی یا بد صورتی کا حال معلوم ہوتا ہے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور عین ممکن تھا کہ اپنے حسن کی وجہ سے کوئی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آجائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اب مزید شادی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کر دیا۔
(5) دلائل اور حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں پردہ کرتی تھیں لیکن نقاب کا استعمال نہیں کرتی تھیں اور چہرہ کھلا رکھتی تھیں مثال کے طور پر چند دلیلیں پیش کر رہا ہوں۔
مسلم شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کسی عورت پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عورت اچھی لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لائے اور ان سے اپنی جنسی خواہش پوری کی اور فرمایا:
ان المرأۃ تقبل فی صورۃ شیطان و تدبر فی صورۃ شیطان فاذا رأی احدکم امرأۃ فاعجبتہ فلیات اھلہ فان ذاک یردما فی نفسہ۔ (مسلم)
”عورت شیطان کی صورت میں آتی اور جاتی ہے(اسے دیکھ کر آدمی بہکنے کی پوزیشن میں ہو جاتا ہے) پس اگر تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے اچھی لگے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس چلا جائے ۔ کیوں کہ یہ چیز اس کے دل میں جو خواہش ہے اسے ختم کر دے گی۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جس عورت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تھی اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔اور اسی وجہ سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی لگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  چونکہ انسان تھے اور بشری تقاضے کے تحت ان کے دل میں بھی جنسی خواہشیں پیدا ہوتی تھیں لیکن ایسے موقعے پر کوئی غلط قدم اٹھانے کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے پاس چلے آتے اور ان سے اپنی ضرورت پوری کرتے۔ اور یہی تعلیم آپ نے اپنی امت کو بھی دی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس طرح آپ نے اپنی امت کو غلط حرکت کی بجائے اپنی بیوی کے پاس جانے کا حکم دیا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی چہرہ ڈھک کر رکھنے کا حکم دے سکتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی کوئی ایسا حکم نہیں دیا۔
اسی طرح ایک حدیث بخاری اور مسلم کی ہے جس کی روایت حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ خود کو آپ کے حوالہ کردوں(آپ سے شادی کر لوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت کی طرف نظر اٹھائی اور دیر تک اسے دیکھتے رہے پھر نظر گھمالی۔ عورت نے سمجھ لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں اور اس کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر بھی وہ بیٹھی رہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تشریف فرما تھے۔ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو میری شادی کرادیجیے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ مسلم عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس آکر بیٹھی اور اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیر تک دیکھتے رہے  اس کا چہرہ کھلا ہونے کی وجہ سے کسی اور صحابی کو وہ عورت پسند آگئی اور انھوں نے شادی کی درخواست کر ڈالی۔
سنن نسائی کی ایک حدیث ہے جس کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سوال کرنے آئی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرا ہ تھے۔ وہ اس عورت کی طرف بار بار مڑ کر دیکھنے لگے کیوں کہ وہ خوب صورت تھی۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم با ر بار فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ دوسری طرف کر دیتے تھے۔
اگر چہرہ چھپانا ضروری ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو بھرے مجمع میں چہرہ کھلا رکھنے پر یقیناً تنبیہ کرتے اور خاص کر ایسی حالت میں کہ لوگ اس کے حسن کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہو رہے تھے سنن ترمذی میں یہی روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے مذکورہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن دوسری طرف موڑدی ان کے والد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ نے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن دوسری طرف کیوں گھمائی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں نے ایک نوجوان لڑکے اور نوجوان لڑکی کو اس حالت میں دیکھا کہ شیطان انھیں بہکانے میں مصروف  تھا۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر چہرہ کھلا رکھنا جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو اس کے کھلے چہرے پر ضرور تنبیہ کرتےخاص کر ایسی حالت میں کہ شیطان ان دونوں کو بہکانے کی کوشش کر رہاتھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو چہرہ ڈھکنے کی بجائے صرف فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اپنا رخ دوسری طرف کر لیں۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام کی وجہ سے عورت سے بات کرنا ضروری ہواور شیطان کے بہکانے کا خوف نہ ہو تو اس کی طرف دیکھنا بھی جائز ہے۔
ایسی ہی ایک حدیث بخاری شریف میں ہے جس کی روایت حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز کے لیے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے قبل نماز پڑھائی پھر عورتوں کی طرف تشریف لے گئے اور انھیں نصیحتیں کیں اور فرمایا کہ عورتو! تم صدقہ دیا کرو کیوں کہ تم میں اکثریت جہنم کی ایندھن ہے۔ جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ بات سن کر ایک معزز عورت کھڑی ہوئی اور اس کے دونوں گال سرخ مائل کالے ہو رہے تھے۔ اس نے دریافت کیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں عورتوں کی اکثریت جہنم کی ایندھن کیوں بنے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ ”اس لیے کہ تم بہت زیادہ شکایتیں کرتی ہواور اپنے شوہر کی نا فرمانی کرتی ہو۔ چنانچہ عورتوں نے صدقہ کرنا شروع کیا  حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا کپڑا پھیلائےہوئے تھے اور عورتیں اپنے کان کی بالیاں اور انگوٹھیاں اتاراتار کر اس میں رکھنے لگیں۔“
اس روایت سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا چہرہ کھلا ہوا تھا جبھی تو حضرت جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہو سکا کہ اس عورت کے دونوں گال سرخی مائل کالے تھے۔
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم عورتیں چادر اوڑھ کر فجر کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں باجماعت ادا کرتے۔پھر نماز سے فراغت  کے بعد اپنے گھروں کو واپس آ جاتے تاریکی کی وجہ سے ہمیں کوئی پہچان نہیں پاتا تھا۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرتاریکی نہ ہوتی تو انھیں پہچان لیا جاتا اور معلوم ہو جا تا کہ کون کون سی عورتیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ کسی عورت کو اسی وقت پہچانا جاسکتا ہے جب کہ اس کا چہرہ کھلا ہوا ہو۔
یہ تمام حدیثیں ثابت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی انھیں چہرہ چھپانے کا حکم نہیں دیا اور نہ چہرہ کھلا رکھنے پر کبھی ان کی سرزنش کی۔
(6) صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چہرے پر نقاب لگانے کا رواج نہیں تھا بلکہ چہرے پر نقاب لگانے والیوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا چنانچہ ابو داؤد کی روایت ہے جس کے راوی حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن شماس ہیں کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئی اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ وہ اپنے مقتول بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی تھی۔ ایک صحابی نے حیرت سے کہا کہ تم چہرے پر نقاب لگاکر اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی ہو؟ اس عورت نے جواب دیا کہ میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے لیکن اپنی شرم نہیں کھوئی ہے۔ ابو داؤد نے یہ حدیث کتاب الجہاد میں بیان کی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کے نقاب لگانے پر تعجب تھے کیوں کہ یہ چیز معاشرے کے رواج سے ہٹی ہوئی تھی۔ اس تعجب کے اظہار پر عورت نے یہ نہیں جواب دیا کہ تم لوگ تعجب کیوں کرتے ہو۔ میں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق یہ نقاب لگایا ہے بلکہ اس نے یہ جواب دیا کہ شرم و حیا کی وجہ سے اس نے چہرہ پر نقاب ڈال لیا ہے۔ اگر نقاب لگانا اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کبھی اس کے نقاب لگانے پر نہ تعجب کرتے اور نہ اس عورت سے ایسا سوال کرتے۔
(7) اگر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت عورت کی اپنی شخصیت جانی پہچانی رہے خریدو فروخت اور دوسرے لین دین کے معاملات میں یہ ضروری ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ اس کا معاملہ ہو رہا ہو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ عورت کون ہے۔ اسی لیے تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ عدالت میں گواہی کے موقع پر عورت کا چہرہ کھلا رہنا ضروری ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ گواہی دینے والی عورت کون ہے؟
ان لوگوں کے دلائل جو چہرہ پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تلاش بسار کے باوجود چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے مجھے قرآن و حدیث سے کوئی ایسی دلیل نہ مل سکی جسے صریح اور دوٹوک کہی جا سکے۔ اور یہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ان علماء کی تعداد نہایت کم ہے جو چہرے پر نقاب کو لازمی قراردیتے ہیں یہ علماء اپنی رائے کے حق میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں ان کا بیان حسب ذیل ہے:
(1) يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ    ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ   ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ( الاحزاب: 59)
”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔“
اس آیت میں ”جلابیب“ کی تشریح کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ جلابیب اسے کہتے ہیں جس سے پورا بدن حتی کہ ہاتھ اور چہرہ بھی ڈھک  جائے اور صرف آنکھ کھلی ہو۔لیکن جلا بیب کی بہ تشریح خود ان کی اپنی تشریح ہے۔ قرآن و سنت میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری ہے۔
(2)سورہ نور آیت وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا        ۖ میں إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا اوپری کپڑاہے۔ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں  سوائے اس کے جو خود بہ خود ظاہر ہو جاتا ہے یعنی ان کا اوپری لباس کیوں کہ اسے چھپانا ممکن نہیں ہے۔لیکن ان کی یہ تفسیر کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتی ہے کیوں کہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کا اضافہ کر کے اللہ تعالیٰ نے پردے کے حکم میں کچھ تخفیف اور آسانی عطا کرنی چاہی ہے۔ اب اگر اس سے مرد عورت کا اوپری کپڑا مراد لیا جائے تو اس میں عورتوں کے لیے کوئی آسانی نہ ہوئی اور یہ بات اللہ کے منشاء کے خلاف ہے۔ اور میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور علمائے کرام کی اکثریت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے چہرہ اور ہاتھ مراد لیتی ہے۔
(3) سورہ احزاب کی آیت وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ (اور جب ان سے کوئی شے مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو) کی تفسیر کرتے ہوئے یہ علماء فرماتے ہیں کہ پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگنے کا مقصد اور منشایہ ہے کہ عورت کا مکمل جسم حتی کہ چہرہ اور ہاتھ بھی نہ نظر آئے۔
یہ دلیل اس لیے مناسب نہیں ہے کہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے خاص تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس پورے سیاق و سباق کی ابتدایوں کی ہے: يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کی بیویو! تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو) تمھارا رتبہ اور مقام عام عورتوں کی طرح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاص مقام کی وجہ سے ان کے لیے کچھ خاص احکام تھے مثلاً یہ کہ وہ اپنا زیادہ وقت گھر پر گزاریں انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دوسری شادی کی اجازت نہیں تھی۔ انھیں مسلمانوں کی ماؤں کا درجہ عطا کیا گیا ان ہی خاص  احکام میں سے ایک خاص حکم یہ ہے کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کچھ مانگو تو پردے کی اوٹ میں رہ کر مانگو۔
(4) بخاری شریف کی حدیث ہے لَا تَنْتَقِبِ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلاَ تَلْبَسِ الْقُفَّازَيْنِ ”احرام کی حالت میں عورت نہ نقاب لگائے گی اور نہ دستانے پہنے گی۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اس زمانے میں عورتیں چہرہ نقاب اور ہاتھوں میں دستانے استعمال کرتی تھیں اور احرام کی حالت میں ان کے استعمال سے روک دیا گیا۔لیکن اس حدیث کو بہ طور دلیل پیش کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ اس زمانے میں عورتیں چہرے پر نقاب اور ہاتھوں میں دستانے پہنتی تھیں پھر بھی اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے کہ عورتوں کے لیے ان دونوں کا استعمال ضروری اور لازمی ہے۔
(5) ترمذی کی حدیث ہے: المرأة كلها عورة ”عورت مکمل ستر ہے“
اس حدیث سے علماء یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ چونکہ عورت کا مکمل جسم ستر میں داخل ہے اس لیے چہرہ اور ہاتھ سمیت مکمل جسم کو ڈھکنا لازمی ہے۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ اس حدیث کا یہ منشا نہیں ہے کہ عورت کا مکمل جسم ستر ہے اسلیے اسے مکمل طور پر چھپانا ضروری ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کا جسم اپنی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے سر تاپاکشش ہوتا ہے۔ اس حدیث میں عورت کے پورے جسم کو"عورت" کہا گیا ہے۔ عورت (ستر) کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اسے چھپانا ضروری  ہے ورنہ احرام کی حالت میں عورتوں کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا کیوں کہ جو ستر ہوتی ہے اسے کسی بھی حالت میں کھولنا جائز نہیں ہے۔
(6) چہرے پر نقاب ڈالنے کو لازمی قراردینے کے لیے یہ علماء حضرات جس بات کو کثرت کے ساتھ بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ عورت کا سارا حسن اور ساری کشش اس کے چہرے میں ہوتی ہے چہرہ کھلا رہے تو باعث فتنہ ہوتا ہے۔ اس فتنہ کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ چہرہ ڈھکارہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس فتنہ کے وہم اور خوف کی وجہ سے سخت گیر قسم کے علماء نے معاشرےمیں بہت ساری ایسی چیزوں کو ناجائز قراردیا ہے جو اصلاً جائز اور حلال ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حد درجہ رحمت کی بنا پر ان چیزوں کو حلال قرار دیا ہے اور ان کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے لیکن محض فتنہ پھیلنے کے خوف سے اور احتیاط کے نام پر بعض علماء کرام نے ان حلال چیزوں پر پابندی لگا دی ہے۔ مثال کے طور پر علماء نے فتنے کے خوف سے عورتوں کومسجد میں جا کر نماز با جماعت ادا کرنے سے منع کردیاحالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ (اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو) اس کے باوجود ان علماء نے محض خیالی فتنہ کے ڈرسے انھیں مسجد جانے سے روک دیااس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں نماز سے دور ہونے لگیں۔ ان ہی علماء نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے اور تعلیم حاصل کرنے سے منع کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عورتیں جاہل اور ناکارہ ہوگئیں ۔ اب ان علماء کو ہوش آیا ہے تو انھوں نے عورتوں کو اسکول اور کالج جانے کی اجازت دے دی۔ اگر پہلے ہی عورتوں پر تعلیم کا دروازہ نہ بند کردیا گیا ہوتا تو اتنی کثرت سے ہماری عورتیں جاہل اور غیر مفید بخش نہ رہتیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھام ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فتنے کی روک تھا م کی وجہ سے جائز باتیں ناجائز کردی جائیں۔ فتنے کی روک تھام کے لیے اللہ کے وہ احکام اور اسلامی آداب کافی ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے۔ اپنی طرف سے مزید اور نئی نئی  بند شیں لگانا اللہ کی مرضی و منشا کے خلاف بھی ہے اور ہمارے معاشرے کے لیے مہلک اور نقصان دہ بھی۔
یہ ہیں وہ دلائل جنھیں نقاب کو لازمی قراردینے والے علماء پیش کرتے ہیں اور آپ نے دیکھا کہ ان میں سے کوئی بھی دلیل اتنی مضبوط اور اتنی واضح نہیں ہےکہ اس کی بنیاد پر نقاب کو واجب قراردیا جا سکے۔ فقہی اصول ہے کہ کسی چیز کو واجب قراردینے کے لیے قرآن و سنت کی واضح اور صریح دلیل ضروری ہے۔ ان کے مقابلہ میں ان علماء کے دلائل زیادہ مضبوط اور واضح ہیں جو نقاب کو لازمی نہیں قرار دیتے ۔ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اس لیے میرا اپنا موقف بھی وہی ہے جو جمہور علماء کا ہے۔وہ یہ کہ چہرے پر نقاب ڈالنا ضروری اور واجب نہیں ہے۔ اپنے اس موقف کی تائید میں میں مزید دلائل پیش کرتا ہوں۔
(1) کسی امر کو اس وقت تک واجب العمل نہیں قراردیا جا سکتا جب تک اس کے حق میں قرآن یا حدیث کی واضح اور صریح دلیل نہ ہو محض شک کی بنیاد پریا اندیشے اور احتیاط کے نام پر کسی شے کو نہ تو واجب قراردیا جا سکتا ہے اور نہ کسی حلال چیز کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے فقہ کا اصول ہے کہ واجب صرف وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب کیا ہے اور حرام وہی چیزیں ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کسی چیز کو واجب یا حرام قرار دینے میں عجلت اور جلد بازی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ قرآن و سنت سے ثابت ہونے کے بعد ہی واجب یا حرام قراردیتے تھے۔
اسلامی فقہ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اصلاً تمام چیزیں حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جنھیں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے- کسی چیز کے حلال ہونے کے لیے دلیل پیش کرنا ضروری نہیں ہے کیوں کہ اصلاً یہ چیز حلال ہے بلکہ اس کے حرام ہونے کی دلیل پیش کرنا ضروری ہے جہاں تک چہرے پر نقاب لگانے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں قرآن وسنت میں کوئی ایسی واضح دلیل نہیں ہے جواسے واجب قرار دے۔ محض احتیاط اور اندیشے کی وجہ سے اسے واجب قرار دینا یا کسی حلال چیز کو ناجائز قراردینا اللہ کی منشا اور اصول فقہ دونوں کے خلاف ہے۔ لوگوں نے جب جائز اور حلال کھانوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا تو اللہ نے ان کی اس طرح سر زنش کی تھی:
قُلْ اٰۗللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَي اللہِ تَفْتَرُوْنَ۝  (یونس:59)”کہو کہ کیا اللہ نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے یا تم اللہ پر بہتان تراشی کر رہے ہو۔“
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عورتوں کی شخصیت اور ان کے امیج(Image)کو بہتر بنانے کے لیے جدو جہد کریں معاشرے میں انھیں ان کا جائز مقام دلائیں اور ان کے تعلیمی اور معاشرتی معیار کو بلند کریں تاکہ ایک طرف عورتیں ہمارے معاشرے کے لیے مفید اورکار آمد بن سکیں اور دوسری طرف دشمنان اسلام کو اسلام پر کیچڑاچھالنے کا موقع نہ مل سکے۔
(2) پرانے زمانے کے مقابلے میں آج کے ترقی یافتہ دور میں روزمرہ کی بنیادی ضرورتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ہماری عورتیں بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ گھروں سے نکل کر اپنی ضروریات کی تکمیل کریں۔ایسی حالت میں انھیں نقاب کا پابند کر کے مزید مشقتوں اور زحمتوں میں مبتلا کرنا مناسب نہیں ہے اور یہ بات اللہ کی منشا کے بھی خلاف ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین میں زحمت و مشقت نہیں رکھی ہے بلکہ حتی الامکان ہمارئے لیے آسانیاں رکھی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ       ۭ (الحج: 78)”اور ا س دین میں تمھارے لیے کوئی مشقت نہیں رکھی ہے۔“دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے:يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ  ۡ (البقرۃ: 185)
”اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ تنگی اور پریشانی نہیں چاہتا ہے۔“
اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ (مسند احمد)”میں ایسے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں جو عقیدہ میں پاک اور خالص ہے اور معاملات میں نرم ہے۔“
جو لوگ چہرہ پر نقاب کے سختی سے قائل ہیں اور وقتاً فوقتاً ان پردہ دار خواتین پر تنقید کرتے رہتے ہیں جو چہرے پر نقاب نہیں لگاتی ہیں ان سے میری گزارش ہے کہ وہ ان خواتین پر تنقید کے بجائے ایسی مسلم عورتوں کی اصلاح کی جانب دھیان دیں جو سرے سے پردہ ہی نہیں کرتی ہیں اور نت نئے فیشن کر کے بے حجابانہ گھروں سے باہر وقت گزارتی ہیں۔
آخر میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
(1) چہرہ اور ہاتھ پیر کھلا رکھنا جائز ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چہرے   پر مختلف قسم کے میک اپ کر کے اور ہاتھ پیر ناخنوں کو نیل پالش سے مزین کر کے غیر محرم مردوں کے سامنے جانے کی بھی اجازت ہے- اجازت صرف اس بات کی ہے کہ غیر محروں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر بہت ہلکی سی زیبائش کر لی جائے مثلاًآنکھوں میں سرمہ لگالیا جائے یا ہاتھ کی انگلیوں میں انگوٹھی پہن لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے غرض کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں گھر سے باہر نکلتے وقت شرعی لباس میں رہیں شریفانہ انداز اپنائیں اور الٹے سیدھے میک اپ اور فیشن کے ذریعے غیروں کو لبھانے والا انداز نہ اختیار کریں۔
(2) میں اگر یہ کہتا ہوں کہ چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو عورتیں چہرہ پر نقاب لگانا چاہتی ہیں انھیں میں نقاب لگانے سے منع کر رہا ہوں وہ اگر نقاب لگانا چاہتی ہیں تو شوق سے لگائیں۔ انھیں اس کا پورا حق حاصل ہے۔
(3) چہرے پر نقاب لگانا ضروری نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ عورتوں    کے چہروں کو تکا کریں۔ کیوں کہ بہر حال مردوں کو اس بات کا حکم ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اپنی نگاہیں عورتوں پر نہ ڈالیں ۔ البتہ عورتوں سے معاملات کے دوران کسی ضرورت کے تحت انھیں دیکھنا ضروری ہو تو ان پر نظر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے بہ شرطے کہ یہ نظر شہوت اور ہوس بھری نہ ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

پردہ اور پسند کی شادی
سوال: اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا بجز اس کے کہ صبر وشکر کر کے بیٹھ جائیں۔اول یہ کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی جس کا ایک خاص ذوق ہے اور جو اپنے دوست منتخب کرنے میں ان سے ایک خاص اخلاق اور ذوق کی توقع رکھتا ہے، فطرتاً اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ شادی کے لیے ساتھی بھی اپنی مرضی سے منتخب کرے۔ لیکن اسلامی پردے کے ہوتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنے بلکہ اس کے لیے وہ قطعاً دوسروں یعنی ماں یا خالہ وغیرہ کے دست نگر ہوتے ہیں۔ ہماری قوم کی تعلیمی حالت ایسی ہے کہ والدین عموماً اَن پڑھ اور اولاد تعلیم یافتہ ہوتی ہے اس لیے والدین سے یہ توقع رکھنا کہ موزوں رشتہ ڈھونڈ لیں گے ایک عبث توقع ہے۔ اس صورتحال سے ایک ایسا شخص جو اپنے مسائل خود حل کرنے اور خود سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو سخت مشکل میں پڑ جاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک لڑکی جو گھر سے باہر نہ نکلنے کی پابند ہو وہ کیونکر ایسی وسعت نظر، فراست اور عقل عام کی مالک ہو سکتی ہے کہ بچوں کی بہترین تربیت کر سکے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بیدار کر دے، اس کو تو دنیا کے معاملات کا صحیح علم ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اتنی ہی تعلیم بھی حاصل کر لے جتنی ایک بے پردہ لڑکی نے حاصل کی ہوتی ہے تو بھی اس کی ذہنی سطح کم ہوگی کیونکہ اسے اپنے علم کو عملی طور پر پرکھنے کا کوئی موقع ہی حاصل نہیں۔ امید ہے آپ اس مسئلہ پر روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں گے۔

جواب: آپ نے اسلامی پردے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے اولاً تو وہ ایسی خرابیاں نہیں ہیں کہ اس کی بناء پر آدمی لاینحل مشکلات میں مبتلا ہو جائے اور ثانیاً حیاتِ دنیوی میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی نہ پائی جاتی ہو۔ لیکن کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ اس کے صرف ایک یا دو پہلوؤں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر اس میں مصالح کو غلبہ حاصل ہے یا مفاسد کو۔ یہی اصول پردے کے بارے میں اختیار کیا جائے گا۔ اسلامی پردہ آپ کی رائے میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے لیکن فقط یہ مشکل کہ اس کی پابندی سے آدمی کو شادی کے لیے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی، پردے کی افادیت کو کم یا اس کی پابندی کو ترک کرنے کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ بلکہ اگر ہر لڑکے کو لڑکی کے انتخاب اور ہر لڑکی کو لڑکے کے انتخاب کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو اس سے اس قدر قبیح نتائج برآمد ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر خاندانی نظام جو کہ معاشرے کی مضبوطی اور پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اور ایک موہومہ مشکل کو حل کرتے کرتے بے شمار حقیقی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے۔
آپ کا یہ خیال کہ باپردہ لڑکی وسعت نظر اور فراست سے بے بہرہ ہوتی ہے درست نہیں ہے۔ اور اگر اسے بالفرض درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس میں پردے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک لڑکی باپردہ رہ کر بھی علم و فن میں کمال پیدا کرسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں پردے سے باہر ہو کر بھی ایک لڑکی علم و عقل اور فراست و بصیرت سے کوری رہ سکتی ہے۔ البتہ بے پردہ لڑکی کو یہ فوقیت ضرور ہوگی کہ وہ معلومات کے لحاظ سے چاہے وسیع النظر نہ ہو لیکن تعلقات کے لحاظ سے اس کی نگاہیں ضرور پھیل جائیں گی۔ ایسی حالت میں اگر موزوں ترین رفیقِ حیات کی تلاش میں کامیابی ہو بھی جائے تب بھی جو نگاہیں وسعت کی عادی ہو چکی ہوں انہیں سمیٹ کر ایک مرکز تک محدود رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
سوال: (۲) آپ کا جواب ملا۔ مگر مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ آپ نے اسے بالکل معمولی مسئلہ قرار دیا۔ کامیاب شادی کی تمنا تو ایک جائز خواہش ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا، جن کی وجہ سے ایک شخص کے لیے اپنی پسند کی لڑکی چننے کا راستہ بند ہو جائے میں انسانی مسرت اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے مضر سمجھتا ہوں اور دینِ فطرت کے منافی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ہمارے مروجہ طریقے کے مطابق عورت زیادہ سے زیادہ گھر کی منتظم ہوتی ہے اور خاوند کی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، لیکن دو افراد کے اپنے آپ کو پوری طرح ایک دوسرے کے حوالے کرنے اور زندگی کے فرائض ایک بار کی بجائے خوشی خوشی پورا کرنے کے جو امکانات اپنی پسند اور ذوق کی شادی کر لینے میں ہوتے ہیں وہ اس صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ اپنی پسند اور بصیرت استعمال کیے بغیر کسی دوسرے کے انتخاب پر شادی کر لی جائے۔
میرا خیال ہے کہ ایک نوجوان محض جنسی تسکین کا خواہش مند نہیں ہوتا، وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی کے لیے کچھ قربانی کرے، کسی سے محبت کرے، کسی کی خوشی کا خیال رکھے اور کوئی اس کی خوشی پر خوش ہو۔ اس جذبے کے فطری نکاس کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے اس نے تعلیم، اطوار، کردار اور دوسری خوبیوں کی بناء پر اپنی طبیعت کے مطابق حاصل کیا جائے (حقیقی محبت کسی کی باطنی خوبیوں کے دیکھنے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کہ شکل دیکھ لینے سے) اور یہ بات ناممکنات میں ہے کہ پہلے تو کسی کی شادی کرا دی جائے اور پھر اس سے مطالبہ کیا جائے کہ اب اسے ہی چاہو اور یوں جیسے تم نے اس کو خود پسند کیا ہے۔ اس فطری محبت کا راستہ بند کر لینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ اپنے لیے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔
پردے کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں ان میں حقیقتاً کردار دیکھ کر تلاش کرنا ممکن نہیں۔ لڑکے کے باپ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لڑکی کا پتہ چلاسکے، لڑکی کی والدہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ لڑکے کے متعلق براہ راست کچھ اندازہ لگا سکے۔ کیونکہ پردے کی وجہ سے ان افراد میں بھی تعلق اور آزادانہ گفتگو ناممکن ہے۔ (خود لڑکے اور لڑکی کا ملنا تو ایک طرف رہا) بڑی سے بڑی آزادی جو اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی شکل دیکھ لے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کی شکل چند سیکنڈ دیکھ لینے سے کیا ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے، اب تو تمام علماء نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ تمدنی ضروریات پوری کرنے کے لیے علم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے ضروری ہے۔ لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی کام کر سکتی ہیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پابندی کریں یا علم حاصل کریں۔ پردے کی پابند ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ طبقات الارض، آثار قدیمہ، انجینئرنگ اور تمام ایسے علوم جن میں سروے اور دور دراز سفر کی ضرورت ہوتی ہے، ان علوم کے لیے خواتین کس طرح کام کر سکتی ہیں جب کہ محرم کے بغیر عورت کا تین دن سے زائد کی مسافت پر نکلنا بھی منع ہے۔ اب کیا ہر جگہ وہ اپنے ساتھ محرم کو لیے لیے پھرے گی؟
یہ علوم تو ایک طرف رہے، میں تو ڈاکٹری اور پردے کو بھی ایک دوسرے کی ضد سمجھتا ہوں۔ اول تو ڈاکٹری کی تعلیم ہی جو جسمانیات کی نگاہیں پھیلا دینے والی معلومات سے پُر ہوتی ہے، حیا کے اس احساس کو ختم کر دینے کے لیے کافی ہے جس کی مشرقی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے، خواہ وہ ڈاکٹری پردے ہی میں سیکھی جائے اور پڑھانے والی تمام خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ دوم ڈاکٹر بننے پر ایک خاتون کو مریضوں کے لواحقین سے روابط کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے غیر مردوں سے بات چیت پر قدغن لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس کے پیش نظر اگر ہم خواتین کو ڈاکٹر بننے سے روکتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے گھروں کی مریض خواتین کے ہر مرض کے علاج کے لیے مرد ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی اور رائج الوقت نظریہ حیا کے مطابق یہ تو اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جائے گا۔
جناب عالی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان معاشرتی اور تمدنی الجھنوں کا اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے کیا حل ہے؟

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)


جواب: آپ کا دوسرا خط ملا۔ شادی کے معاملے میں آپ نے جو الجھن بیان کی ہے وہ اپنی جگہ درست ہی سہی، اس کا حل کورٹ شپ کے سوا اور کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس تفصیل کے ساتھ رفیقِ زندگی بنانے سے پہلے لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کے اوصاف، مزاج، عادات، خصائل اور ذوق و ذہن سے واقف ہونے کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں ایسی تفصیلی واقفیت دوچار ملاقاتوں میں، اور وہ بھی رشتہ داروں کی موجودگی میں حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے مہینوں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، تنہائی میں بات چیت کرنا، سیر تفریح، سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اور بے تکلف دوستی کی حد تک تعلقات پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ کیا واقعی آپ یہی چاہتے ہیں کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان اس اختلاط کے مواقع بہم پہنچنے چاہئیں۔ آپ کے خیال میں ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر ان معصوم فلسفیوں کا فی صدی تناسب کیا ہوگا جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ صرف رفیق زندگی کی تلاش میں مخلصانہ تحقیقاتی روابط قائم کریں گے۔ اور اس دوران میں شادی ہونے تک اس طبعی جذب و اجذاب کو قابو میں رکھیں گے جو خصوصیت کے ساتھ نوجوانی کی حالت میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے اپنے اندر رکھتے ہیں؟ بحث برائے بحث اگر آپ نہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ شاید دو تین فی صدی سے زیادہ ایسے لوگوں کا اوسط ہماری آبادی میں نہ نکلے گا۔ باقی اس امتحانی دور ہی میں فطرت کے تقاضے پورے کر چکے ہوں گے اور وہ دو تین فیصدی جو اس سے بچ نکلیں گے وہ بھی اس شبہ سے نہ بچ سکیں گے کہ شاید وہ باہم ملوث ہو چکے ہوں۔
پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی جو اس تلاش و تحقیق کے لیے باہم خلا ملا کریں گے وہ لازماً ایک دوسرے کو رفاقت کے لیے منتخب ہی کر لیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ ۲۰ فیصدی دوستیوں کا نتیجہ نکاح کی صورت میں برآمد ہو۔ ۸۰ فیصدی یا کم ازکم ۵۰ فیصدی کو دوسرے یا تیسرے تجربے کی ضرورت لاحق ہوگی۔ اس صورت میں ان ’’تعلقات‘‘ کی کیا پوزیشن ہوگی جو دوران تجربہ میں آئندہ نکاح کی امید پر پیدا ہو گئے تھے اور ان شبہات کے کیا اثرات ہوں گے جو تعلقات نہ ہونے کے باوجود ان کے متعلق معاشرے میں پیدا ہو جائیں گے؟
پھر آپ یہ بھی مانیں گے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ان مواقع کے دروازے کھولنے کے بعد انتخاب کا میدان لامحالہ بہت وسیع ہو جائے گا ایک ایک لڑکے کے لیے صرف ایک ہی ایک لڑکی مطمع نظر نہ ہو گی جس پر وہ اپنی نگاہ انتخاب مرکوز کر کے تحقیق و امتحان کے مراحل طے کرے گا اور علی ہذا القیاس لڑکیوں میں سے بھی ہر ایک کے لیے ایک ہی ایک لڑکا امکانی شوہر کی حیثیت سے زیر امتحان نہ ہوگا۔ بلکہ شادی کی منڈی میں ہر
 طرف ایک سے ایک جاذب نظر مال موجود ہوگا جو امتحانی مراحل سے گزرتے ہوئے ہر لڑکے اور ہر لڑکی کے سامنے بہتر انتخاب کے امکانات پیش کرتا رہے گا۔ اس وجہ سے اس امر کے امکانات روز بروز کم ہوتے جائیں گے کہ ابتداً جو دو فرد ایک دوسرے سے آزمائشی ملاقاتیں شروع کریں وہ آخر وقت تک اپنی اس آزمائش کو نباہیں اور بالآخر ان کی آزمائش شادی پر منتج ہو۔اس کے علاوہ یہ ایک فطری امر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ جو رومانی طرز کا کورٹ شپ کرتے ہیں ان میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے روشن پہلو ہی دکھاتے ہیں۔ مہینوں کی ملاقاتوں اور گہری دوستی کے باوجود ان کے کمزور پہلو ایک دوسرے کے سامنے پوری طرح نہیں آتے  اس دوران میں شہوانی کشش اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے شادی کر لینا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لیے دونوں ایک دوسرے سے ایسے ایسے پیمان وفا باندھتے ہیں، اتنی محبت اور گرویدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ شادی کے بعد معاملات کی زندگی میں وہ عاشق و معشوق کے اس پارٹ کو زیادہ دیر تک کسی طرح نہیں نباہ سکتے، یہاں تک کہ جلدی ہی ایک دوسرے سے مایوس ہو کر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ کیونکہ دونوں ان توقعات کو پورا نہیں کرسکتے جو عشق و محبت کے دور میں انہوں نے باہم قائم کی تھیں اور دونوں کے سامنے ایک دوسرے کے وہ کمزور پہلو آجاتے ہیں جو معاملات کی زندگی ہی میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔ عشق و محبت کے دور میں کبھی نہیں کھلتے۔
اب آپ ان پہلوؤں پر بھی غور کر کے دیکھ لیں۔ پھر آپ مسلمانوں کے موجودہ طریقے کی مزعومہ قباحتوں اور اس کورٹ شپ کے طریقے کی قباحتوں کے درمیان موازنہ کر کے خود فیصلہ کریں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کون سی قباحتیں زیادہ قابل قبول نظر آتی ہیں۔ اگر اس کے بعد بھی آپ کورٹ شپ ہی کو زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں تو مجھ سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس اسلام کے ساتھ آپ اپنا تعلق رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں جو اس راستے پر جانے کی اجازت دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔ یہ کام آپ کو کرنا ہو تو کوئی دوسرا معاشرہ تلاش
 کریں۔ اسلام سے سرسری واقفیت بھی آپ کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس دین کی حدود میں ’’کامیاب شادی‘‘ کا وہ نسخہ استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جسے آپ مباح کرنا چاہتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کے متعلق آ پ نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں بھی کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ فطرت نے عورت اور مرد کے دائرہ کار الگ رکھے ہیں۔ اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دینے کے لیے عورت کو جس بہتر سے بہتر تعلیم کی ضرورت ہے وہ اسے ضرور ملنی چاہیے اور اسلامی حدود میں وہ پوری طرح دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عورت کے لیے ایسی علمی و ذہنی ترقی بھی ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے جو عورت کو اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دیتے ہوئے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس معاملہ میں کوئی انتظامات نہ کرنا مسلمانوں کی کوتاہی ہے نہ کہ اسلام کی۔ لیکن وہ تعلیم جو مرد کے دائرہ کار کے لیے عورت کو تیار کرے عورت ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے آپ میری کتاب ’’پردہ‘‘ کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۵، عدد۴۔ جنوری ۱۹۶۱ء)

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)