اصطلاحات

ج: قرآن مجید میں دو طرح کی ہجرت بیان ہوئی ہے۔ ایک وہ ہجرت ہے جو اللہ کا کوئی پیغمبر اپنی قوم پر اللہ کی حجت پوری کرنے کے بعد کرتا ہے، جس کے بعد قوم پر عذاب آ جاتا ہے۔ یہ ہجرت آخری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور ختم ہو گئی۔ نہ اب کوئی پیغمبر آئے گا، نہ کسی کے ذریعے سے قوم پر حجت تمام ہو گی، نہ اس طرح کی ہجرت کرنے کا کوئی سوال پیدا ہوگا۔ ہجرت کی دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کسی ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں آپ کے لیے ایمان کے تقاضے پورے کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ آپ کو اپنے ایمان کا اظہار کرنے، نماز پڑھنے اور دین پر عمل کرنے کے لیے جان جوکھم میں ڈالنی پڑے تو اس طرح کی جگہوں پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کسی صاحب ِ ایمان کو نہیں رہنا چاہیے۔ اُس کے پاس اگر ہجرت کی کوئی جگہ ہے تو اللہ پر بھروسا کر کے اس جگہ کو چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ ہجرت قیامت تک کے لیے باقی ہے اور ہر جگہ جہاں مسلمان رہتے ہیں ان کو اپنے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ اگر ان کے لیے وہاں پر اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے تو پھر اُن کو اُس جگہ کو چھوڑ دینا چاہیے۔

‘جہاد’ بھی قرآن میں دو معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ دین کی دعوت ، جد وجہد اور سرگرمی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرنے کے لیے جہاں یہ استعمال ہوتا ہے، وہاں اس کے کچھ حدود اور کچھ شرائط ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد ظلم، عدوان ، زیادتی اور فتنے کے خلاف قیامت تک جاری رہے گا۔ اور جہاں بھی مسلمانوں کے پاس قوت ہو گی وہ ظلم کو مٹانے کے لیے جہاد کر سکتے ہیں۔

‘اقامت ِ دین’ کا مطلب ہے کہ دین کو پوری طرح اختیار کرنا ۔ یعنی دین میں اگر نماز کا حکم ہے تو نماز پڑھی جائے، اگر روزے کا حکم ہے تو روزہ رکھا جائے، اگر کوئی اور ہدایت کی گئی ہے تو اس کی پیروی کی جائے۔ دین پر پوری طرح عمل کرنے کو اقامت ِ دین کہتے ہیں۔

‘شہادت’ کا لفظ بھی قرآن میں کئی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ آپ جو عام گواہی دیتے ہیں اس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اسی طریقے سے آدمی کو جو حق بات کہنا ہوتی ہے اس کے لیے بھی شہادت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسے قرآن میں ‘کونوا قوامین بالقسط شہداء للّٰہ’استعمال ہوا ہے۔ ایک شہادت وہ ہے کہ جس کے منصب پر اللہ تعالیٰ کسی کو فائز کر دیتا ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فائز کیا گیا تھا۔ اُس وقت یہ اتمام حجت کے معنی میں ہوتی ہے۔ یعنی کسی گروہ، جماعت یا کسی فرد کو اللہ یہ حیثیت دیتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے دنیا کے اوپر حق واضح ہو جائے۔ جیسے انبیا کے ذریعے سے ہوا، جیسے صحابۂ کرام کے ذریعے سے ہوا۔ اس کے لیے ‘شہادت علی الناس’ کی اصطلاح ہے۔ گویا یہ لوگوں کے خلاف حق کی گواہی ہوتی ہے۔ یہ بھی صحابۂ کرام کے بعد اب ختم ہو گئی ہے۔ کسی اور کا اب یہ مقام نہیں ہے کہ وہ لوگوں میں اس مقام یا منصب پر کھڑا ہو۔

‘اعلائے کلمۃ اللہ’ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بات کو اونچا رکھنے کے لیے آدمی جدوجہد کرے۔

‘اسلام’ کی تعریف خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت بیان کر دی جب جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے اسلام کے بارے میں پوچھا ۔آپؐ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ گواہی دو کہ اللہ تنہا ہے، محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانو، نماز پڑھو، حج کرو، زکوٰۃ دواور روزے رکھو۔

‘تقویٰ’ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حدود کی پابندی کی جائے۔ ‘احسان’ کامطلب یہ ہے کہ دین میں کیا گیا ہر کام صحیح روح اور صحیح طریقے سے کیا جائے۔ ‘مسلم’ وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے دین کو مانتا ہے۔ ‘مومن’ وہ ہے کہ جو حقیقی ایمان رکھتا ہے۔ ‘اخلاقیات’ سے مراد وہ باتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اچھی باتیں ہونے کی حیثیت سے کرنے کو کہا ہے یا ان کے برے پہلوؤں سے روکا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)