مسلکوں کی بنیاد

جواب: بعض احادیث کی تعبیر و تشریح میں اور قرآن پاک کی آیات کی تعبیر و تشریح میں بھی ایک سے زائد رائے کا امکان موجود ہے ۔صحابہؓ کے زمانے سے ایسی مثالیں موجود ہیں۔ رسولﷺ نے صحابہؓ کی ایک سے زائد تعبیروں اور ایک سے زائد توضیحات کو درست قرار دیا اور دونوں کو بیک وقت قابل قبول قرار دیا۔ اس سے پتا چلتاہے کہ اسلام میں بعض احکام ایسے دیئے گئے ہیں قرآن پاک میں بھی اور احادیث میں بھی جن کی تفسیریں اور تشریحات کی جاسکتی ہیں۔ یہ اجازت اس لئے دی گئی کہ مختلف حالات کے لحاظ سے مختلف زمانے کے متنوع تقاضوں اور لوگوں کی ضروریات کے لحاظ سے علماء اور فقہااور محدثین اس کی نئے نئے انداز سے تشریح کرسکیں ۔مثلاً قرآن پاک کی آیات میں کہ علی الموسع قدرہ وعلی المقتدرہ قدرہ ۔؛جب شوہر بیوی کانفقہ ادا کرے گا تو دولت مند اپنی استطاعت کے لحاظ سے اور غریب اور نادار اپنی استطاعت کے لحاظ سے ادا کرے گا حالانکہ مثال کے طور پر قرآن پاک کہہ سکتا تھا کہ شوہر سو درہم نفقہ دیا کرے یا ایک من گندم دیا کرے گا اس حکم کو بیان کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھا لیکن قرآن مجید میں اس طرح سے کوئی معین مقدار نہیں بتائی گئی بلکہ ایک عمومی بات بتائی جس کو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے لوگ سمجھیں اور اسکی تعبیر کریں۔ 
تعبیروں کا اختلاف اسلام کی بنیادی خصوصیات میں شامل ہے اس لئے حضور ﷺ نے اجازت دی اس کی۔ قرآن پاک میں اس کی گنجائش رکھی گئی مختلف اہل علم نے مختلف تعبیریں کیں اور جو شخص جس فقیہ کے علم اورتقویٰ پر اعتماد کرتا ہے اسکی بات مان لیتا ہے۔ اس زمانے میں جبکہ یہ سارے محدثین اور فقہا موجود تھے اس وقت بھی جن حضرات کو امام شافعی ؒ کے علم اور تقویٰ پر اعتماد تھا وہ امام شافعیؒ کے اجتہادات کو سر آنکھوں پر تسلیم کرتا تھے امام شافعیؒ اتنے اونچے درجے کے انسان تھے کہ اگر آج وہ آئیں اور ہم میں سے کوئی ان کے پاؤں چومنے کی کوشش نہ کرے تو بڑا بدبخت ہوگا۔ امام احمدبن حنبلؒ سے ہر مسلمان کو محبت اور عقیدت ہے لیکن امام احمد بن حنبل ؒ کے اجتہادات کو دنیائے اسلام میں بہت تھوڑے لوگ قبول کرتے ہیں مسلمانوں میں مشکل سے ایک فیصد لو گ ہوں گے جو فقہی معاملات میں امام احمد کی رائے اور اجتہا دپرعمل کرتے ہیں بقیہ ننانوے فیصد دوسرے فقہا کی پیروی کرتے ہیں لیکن امام احمد کے احترام میں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ تقلید سے مراد صرف یہ ہے کہ کسی شخص کے علم اور تقویٰ کی بنیاد پر اس کی بات مان کر عمل کر لیا جائے اس کو تقلید کہتے ہیں۔ امام احمد کی تقلید تھوڑے لوگوں نے کی لیکن احترام سب کرتے ہیں۔ تقلید کا تعلق احترام سے نہیں ہے احترام تو ہر صاحب علم کا ہوتا ہے۔ صحیح بخاری دنیائے اسلام میں ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے۔ اس وقت دنیائے اسلام میں امام ابو حنیفہ ؒ کی پیروی کرنے والے کم و بیش پینسٹھ فیصد مسلمان ہیں۔پوراایشیاپورا افغانستان پورا ترکی پورا مشرقی یورپ پورا ہندستان پورا پاکستان پورا بنگلہ دیش پورا چین یہ دنیائے اسلام کے تقریباً ساٹھ فیصد پینسٹھ فیصد مسلمان ہیں ۔یہ پیروی ان کے اجتہادات کی کرتے ہیں لیکن احترام سب کا کرتے ہیں۔تقلید صرف ایک صاحب علم کی رائے کو دوسرے سے بہتر جاننا ہے اس کا مطلب دوسرے صاحب علم کی توہین ہر گز نہیں۔

 

()

ج: کوئی بھی انسان جب اللہ کی کتاب پر غور کرتا ہے تو انسانوں میں عقل کے اختلاف کی وجہ آیات اور احکام کو سمجھنے میں بھی اختلافات ہو جاتے ہیں۔ اختلاف ہونا کوئی بری چیز نہیں لیکن اختلاف جب مخالفت بن جائے تو اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر ہم یہ رویہ اختیار کر لیں کہ بھائی ہم نے یہ بات سمجھی ہے ، ہمیں اس کے دلائل زیادہ وزنی لگتے ہیں، اگر آپ کوا پنی بات زیادہ مدلل لگتی ہے تو آپ اس پر عمل پیرا رہیے ۔ ہم اپنی بات کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن اس کا امکان تسلیم کرتے ہیں کہ وہ غلط بھی ہو سکتی ہے جب دلائل سے واضح ہو جائے گی ، تو غلطی مان لیں گے ۔آپ کی بات غلط تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی بات بھی صحیح ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ رویہ اختیار کر لیا جائے تو کینہ ،بغض اورقتل و غارت کاکوئی سوال نہیں۔ اصل معاملہ رویوں کی اصلاح اورتربیت کاہے۔اختلاف نہیں رک سکتا، اختلاف تو ہو گا ۔ایک عدالت دوسری عدالت سے بسا اوقات اختلاف کر رہی ہوتی ہے لیکن ایک سسٹم کے تحت معاملات چلتے رہتے ہیں ، کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔اسی طرح دینی معاملات کا معاملہ ہے ، ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اختلاف کرنے کے آداب نہیں سیکھے ۔

(جاوید احمد غامدی)