اللہ تعالیٰ کی محبت اور عذاب

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتے ہیں اسی لیے انھوں نے اپنے بندوں کو صالح فطرت دی۔ اسی لیے انہوں نے انبیا بھیجے، اسی لیے انہوں نے کتابیں نازل کیں۔لیکن اگر بندے جانتے بوجھتے اللہ کے مقابلے میں سر کشی کریں اور اللہ انھیں عذاب نہ دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ ساری آزمایش باطل ہو گئی۔ قیامت کے دن وہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وفاداری کا حق ادا کر دیا وہ بھی جنت میں چلے گئے او روہ جو اللہ کے مقابل میں سرکش ہوئے وہ بھی جنت میں چلے گئے اور وہ وہاں بیٹھ کر اہل ایمان کا ٹھٹھا اڑائیں کہ دیکھو، ایسے ہی تم مشقت اٹھاتے رہے، ہم بھی جنت میں آ گئے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ایسا کرے؟ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ وہ جس طرح محبت کرتا ہے، اسی طرح وہ عدل بھی کرتاہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایاہے ‘کتب علی نفسہ الرحمۃ لیجمعنکم الی یوم القیامۃ’ یہ میری رحمت ہے کہ میں عدل کا وہ دن لاؤں کہ جس دن اپنے بندوں کو جزا و سزا دے کر سرفرازی عطا فرماؤں۔ یہ تووفاکا حق ادا کرنے والوں کے ساتھ بے انصافی ہو گی اور اللہ بے انصافی کیسے کر سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: قرآن مجید نے مرنے کے بعدکا جو قانون بیان کیا ہے ۔اس کو سمجھ لینا چاہئے۔اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آ جائے گی ۔قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ انسانوں کی تین قسمیں ہو جائیں گی ۔یا مرتے وقت ہو جاتی ہیں ۔ایک وہ لوگ ہیں کہ جن کے سامنے حق آیا اور ہمیشہ اس کی قدر کی ۔نیکی ہی اختیار کی ۔سبقت لے گئے ۔غلطی بھی ہو گئی تو اس پر مصر نہیں ہوئے۔اوراسطرح دنیا سے رخصت ہوئے جیسے انبیا ،صالحین رخصت ہوتے ہیں ۔یعنی جن کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا ۔جیسے ابو بکر و عمر کی زندگی ہے ۔یا اللہ کی راہ میں کوئی آدمی مارا گیا ہے ۔اس نے آگے بڑھ کر اللہ کے لئے جان دے دی ہے ۔تو اس طرح کے جو لو گ ہیں ان کے بارے میں قرآن مجیدیہ کہتا ہے کہ ان کی روحانی زندگی مرنے کے فوراً بعد شروع ہو جاتی ہے قرآن یہ کہتا ہے کہ عند ربہم یرزقونیعنی اللہ کی نعمتیں ان پر ہوتی ہیں ۔اور یہ سلسلہ جاری کر دیا جاتا ہے ۔جسمانی حیات البتہ ان کو قیامت ہی میں ملے گی۔جب اٹھایا جائے گا ۔ یہ ایک روحانی زندگی ہے جو شروع ہوجاتی ہے ۔دوسرا extremeہے ۔ابو جہل ، فرعون۔یعنی جن کا اعمال نامہ واضح ہے ۔سرکشی ،عناد کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔پیغمبروں کے اورحق کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ۔صاف صاف اعلان کر دیا ۔کوئی شبہ اورابہام نہیں رہا ۔ان کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے کہ ان کے لئے ایک روحانی تعذیب شروع ہوجاتی ہے مرنے کے فوراً بعد اور جاری رہتی ہے جیسے فرعون کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ فرعون او ر اسکے اہلِ خاندان جنہوں نے سیدنا موسیٰ ؑ کے مقابلے میں سرکشی دکھائی۔ صبح شام آگ انکے سامنے پیش کی جاتی ہے ۔اور قیامت میں یردون الی اشد العذابیہ ان کے ساتھ معاملہ رہتا ہے ۔اب دونوں انتہاؤں کے درمیان ہیں۔ہم لوگ ہیں ۔جن سے غلطیاں بھی ہو گئی ہیں ۔اچھائیاں بھی ہو گئیں ہیں ۔ایمان بھی ہے اس کے ساتھ پھسل بھی جاتے ہیں ۔تو اس طرح کے لوگوں کا معاملہ بین بین ہوتا ہے ۔یعنی یہ ضروری ہے کہ پہچان پھٹک کر بتایاجائے ۔کہ خیر غالب ہے یا شر ۔تو ایسے لوگوں کو سلا دیا جاتا ہے ۔اور قیامت میں اٹھنے کے بعد میزان لگے گی ۔اتمام حجت ہوگا پھر فیصلہ ہوگا کہ کیا معاملہ ہے ؟ پھر اگر خیر کا غلبہ ہوگا تو جنت میں چلے جائیں گے ۔شر کا ہوگا تو جہنم میں چلے جائیں گے ۔تو وہ جو دوسری extreme ہے ان کے لئے عذاب ہے ۔اور جو پہلی ہے ان کے لئے ثواب ہے ۔ یہ بات ہے جو قرآن نے بیان کر دی ۔یعنی جن کا مقدمہ پیش کرنی کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ معاملہ مرنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)