اذان کے مسائل

ج: بالکل ضروری نہیں ، پرانے زمانے میں آواز بلند کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا ، اور اسی طرح آواز کو دائیں بائیں زیادہ دور تک پہنچانے کے لیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ ان تینوں چیزوں کی دینی حیثیت نہیں ہے۔موذن آواز بلند کرنے میں سہولت کے لیے ایسا کرتا ہے۔توبہ کے وقت کانوں کو ہاتھ لگانے والا گویا توبہ کے عہد کا اظہار کرتا ہے۔ سلام کے بعد دل پر ہاتھ رکھنا بعض لوگوں میں اظہار اخلاص کے ایک طریقہ کے طور پر رائج ہو گیا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: نہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانے سے ہی تھا ۔اصل میں ایک واقعے سے لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے ہوا یہ تھا کہ حضرتِ عمرؓ لیٹے ہوئے تھے تو موذن نے اذان دینے کے بعد ان کے پاس کھڑے ہو کے ان کو جگانے کے لئے کہا کہ .......الصلوۃ خیرمن نوم.........تو سیدنا عمرؓ کو یہ خیا ل ہو ا کہ یہ کوئی بدعت نہ بن جائے۔ تو انہوں نے کہا کہ بھئی اس کو اذان ہی میں رکھو ۔یعنی یہ کلمہ اذان کا ہے اذان ہی میں رہنا چاہئے ۔مجھے جگانے کے لئے اور الفاظ بھی بولے جاسکتے ہیں ‘‘تو اس کو اذان ہی میں رکھو’’ اس جملے کو لوگوں نے غلط سمجھ کر خیال کیا کہ پہلے نہیں تھاعمرنے کہا کہ اذان میں رکھو۔یہ غلط فہمی ہے

(جاوید احمد غامدی)


جواب:دورانِ اذان بیت الخلاء استعمال کرنے کی شرعاً ممانعت نہیں ہے، اس لیے جب اذان ہو رہی ہو تو طہارت یا قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء استعمال کیا جاسکتا ہے، ایسا کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ اگر قضائے شدیدہ نہیں ہے تو اذان کے وقت بیت الخلاء میں نہ جایا جائے اور خاموشی سے اذان سن کر اس کا جواب دیا جائے، اس طرح سنتِ نبوی پر عمل کرنے کا ثواب مل جائے گا۔ لیکن شرعاً اذان کے دوران بیت الخلاء جانا ممنوع نہیں ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری
 

(منہاج القرآن)