زندگی اور موت

میرے شوہر کا انتقال دوسال قبل ہوگیاہے۔ میں ایک گرلزاسکول کی پرنسپل شپ سے وظیفہ یافتہ ہوں۔ کچھ جائیداد میرے شوہر کی موروثی ہے۔ کچھ ان کی خریدی ہوئی ہے اور کچھ جائیداد میں نے اپنی آمدنی سے بنائی ہے۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے۔ دوسرے رشتہ دار ہیں۔ میں ان تمام جائیدادوں کو شرعی اعتبار سے تقسیم کرناچاہتی ہوں۔ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔
۱۔میرے سسرصاحب اور ساس صاحبہ کا عرصہ ہوا انتقال ہوچکا ہے۔ چند ایکڑ زرعی زمین ان کے ورثہ میں تھی۔ خسر صاحب کے انتقال کے وقت ان کے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں۔ ان میں سے میرے شوہر کا حال میں انتقال ہوگیا ہے۔ اس جائیداد میں میرے شوہر کا یا میرا کیا شرعی حق بنتا ہے؟
۲۔میرے شوہر نے ایک مکان ہائوسنگ بورڈ سے قسطوں پر خریداتھا۔ ابھی تقریباً ایک لاکھ روپے ہائوسنگ بورڈ کو اور ادا کرنا ہے۔ انتقال کے وقت ان کے اکائونٹ میں تیرہ ہزار روپے تھے۔ ان کے تین بھائی اور پانچ بہنیں حیات ہیں۔ اس مکان کو فروخت کرکے اس کی شرعی تقسیم کس طرح کی جائے؟
۳۔اپنے والدین سے وراثت میں مجھے چند ایکڑ زرعی زمین ملی ہے۔ اس کے علاوہ میری آمدنی سے بنایاگیا مکان اور کچھ پلاٹ ہیں۔ میری جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ میری حیات کے بعد کاہے۔ مگر میں چاہتی ہوں کہ مستقبل میں کوئی مسئلہ یا نزاع میرے میکے اور سسرال والوں کے درمیان نہ ہو۔ فی الوقت میرے تین بھائی اور دوبہنیں حیات ہیں۔ دوبہنوں کا انتقال ہوچکاہے۔ ان کے بچے موجود ہیں۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں:
الف۔ مجھے جو زرعی زمین اپنے والدین سے ملی ہے کیا وہ پوری زمین ان کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ کرسکتی ہوں۔ فی الوقت اسے بیچنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ میری بہنوں کی زمین بھی مشترک ہے۔ کیا اس کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے؟
ب۔ میں اپنی کل جائیداد میں سے کتنا حصہ اللہ کی راہ میں دے سکتی ہوں؟

 

 کیا میں اپنی جائیدادثوابِ جاریہ کے لیے یارشتہ داروں کے حق میں وصیت کرسکتی ہوں؟
جواب: آپ قابل مبارک باد ہیں کہ آپ کو وراثت کے حکم ِ الٰہی کی اہمیت کااحساس ہے اور اپنے مرحوم شوہر کی میراث اور مملوکہ جائیداد کو شرعی اعتبار سے تقسیم کرنا چاہتی ہیں اور اپنی جائیداد کی بھی مناسب تقسیم کے لیے فکر مند ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر عطا فرماے۔ آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
۱۔ آپ کے خسر صاحب کی وفات کے وقت ان کے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں حیات تھے۔ ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد ان لوگوں کے درمیان قرآنی اصول للذکر مثل حظ الانثین ایک مرد کاحصہ دو عورتوں کے برابر کے مطابق تقسیم ہونی چاہیے۔ مذکورہ جائیداد کے پندرہ حصّے کیے جائیں۔ ہر لڑکی کو ایک حصہ اور ہر لڑکے کو دو حصے کے اعتبار سے دیاجائے۔ اس جائیداد میں سے آپ کے شوہر کا جو حصہ بنتاہے پندرہ حصوں میں سے دو حصے وہ ان کے انتقال کے بعد ان کے وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔
۲۔ میراث کی تقسیم قرض کی ادائی کے بعد عمل میں لائی جاتی ہے۔ آپ کے شوہر کے خریدے ہوئے مکان کی قیمت میں سے ابھی ایک لاکھ روپے کی قسطیں ادا کی جانی ہیں۔ اس مکان کو فروخت کرکے اس میں 
سے ایک لاکھ روپے مہیا کردے جائیں۔ بقیہ رقم میں ان کے اِکائونٹ میں موجود روپے تیرہ ہزار میںشامل کرکے اسے وارثوں کے درمیان تقسیم کیاجائے۔ آپ کے شوہر کے متعلقین میں آپ بیوی کے علاوہ تین بھائی اور پانچ بہنیں زندہ ہیں۔ قرآنی حکم کے مطابق اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیوی کا حصہ ایک چوتھائی اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ہے۔ اس اعتبار سے آپ کے شوہر کی میراث میں آپ کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ بقیہ تین حصوںکی میراث ان کے بھائی بہنوں کے درمیان جو اصطلاح فقہ میں ’عصبہ‘ کہلاتے ہیںاس طرح تقسیم ہوگی کہ ایک مرد کو دوعورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ بالفاظ دیگر بقیہ میراث کے گیارہ حصّے کیے جائیں۔ ہربہن کو ایک حصہ اور ہر بھائی کو دو حصّے دیے جائیں۔
۳۔ آپ جس جائیداد کی مالک ہیں، خواہ وہ آپ کو میراث میں ملی ہو، یا آپ نے اپنی کمائی سے حاصل کی ہو، اس میں آپ اپنی صواب دید پر جس طرح چاہیں تصّرف کرسکتی ہیں۔ البتہ اس معاملے میں چند باتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
۱۔ تقسیم میراث کا مسئلہ وفات کے بعد سے متعلق ہوتاہے۔ کسی جائیداد کامالک اپنی حیات میں اس میں سے جتنا چاہے جس کو چاہے دے سکتا ہے۔
۲۔ اپنی جائیداد کسی دوسرے کو دینے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اپنی زندگی میں کسی کو اس کامالک بنادے اسے ہبہ کہتے ہیں۔ یا یہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد میری فلاں جائیداد فلاں شخص کی ہوگی۔ یہ وصیت کہلاتی ہے۔ ہبہ کی کوئی مقدار متعین نہیں۔ آدمی جتنا چاہے کسی کو ہبہ کرسکتا ہے۔ لیکن وصیت اپنی جائیداد میں سے ایک تہائی سے زیادہ کرنا جائز نہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ  نے اپنے پورے مال کی وصیت کرنی چاہی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس سے منع فرمادیا۔ انھوں نے دریافت کیا: کیا نصف مال کی وصیت کردوں؟ آپﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا۔ انھوںنے پھر عرض کیا تو ایک تہائی مال کی؟ آپﷺنے فرمایا:ہاں ایک تہائی ٹھیک ہے اور یہ بہت ہے۔ بخاری:۲۷۴۴، مسلم: ۱۶۲۸
۳۔ ورثا میں سے کسی کے حق میں وصیت کرنی جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:اِنّ اللّٰہَ قَدْاَعْطیٰ لِکُلِّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہ‘ فلَاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ترمذی:۲۱۲۰’’اللہ نے ہرصاحب حق کا حق بیان کردیاہے۔ اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں‘‘
۴۔ ورثا کو محروم کرنے کے مقصد سے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد ٹھکانے لگادینا جائز نہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص(رض) نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اپنے پورے مال کی وصیت کرنے کی اجازت چاہی تو آپ(ص) نے انھیں ایک تہائی سے زائد وصیّت کرنے کی اجازت نہیں دی اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا:
اِنَّکَ اَنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ اَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِّنْ اَنْ تَذَرَھُمْ عَالَۃٌ یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ۔  بخاری: ۱۲۹۵، مسلم:۱۶۲۸’’تم اپنے ورثاکو مال دار چھوڑکر جائو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں غربت کی حالت میں چھوڑو اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھائیں‘‘۔
بیوی کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا
سوال: کہا جاتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب یہ بات عجیب سی لگتی ہے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب: صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مخصوص مواقع پر بڑی مصلحت کے پیش نظر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جس کی طرف اوپرسوال میں اشارہ کیاگیا ہے۔
حضرت اسماء بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے، مگر صرف تین مواقع پر ،آدمی کا اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا اس کو خوش رکھنے کے لئے، دوران جنگ جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے جھوٹ بولنا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنے کی اجازت عام حالات میں نہیں دی گئی ہے۔ جن تین مواقع کا تذکرہ احادیث بالا میں ہے وہ مخصوص اور استثنائی صورتیں ہیں۔ دورانِ جنگ جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ایسی باتیں کرے، جن سے مسلم فوج کا طاقت ور ہونا معلوم ہو، اس کا حوصلہ بڑھے اور دشمن دھوکے میں پڑجائے۔ لوگوں کے درمیان مصالحت کے لیے جھوٹ بولنے کامطلب یہ ہے کہ وہ ایک شخص کی طرف سے دوسرے تک ایسی بات پہنچائے جس سے ان کے درمیان پائی جانے والی تلخیاں دْور ہوں اور ان کے تعلقات میں خوش گواری آئے، چاہے وہ بات اس نے اس شخص سے نہ سنی ہو۔ اور بیوی سے جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اس سے زیادہ سے زیادہ محبت اور تعلق خاطر کااظہار کرے، خواہ وہ اپنے دل میں اس سے اتنی محبت نہ پاتا ہو۔ اس کا مقصد ازدواجی تعلقات میں خوش گواری پیداکرنا اور اس کو جاری رکھنا ہے۔ شوہر کا بیوی سے یا بیوی کا شوہر سے جھوٹ بولنا صرف اسی وقت جائز ہوسکتا ہے جب ان میں سے کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو یا کوئی ایسی چیز نہ وصول کررہاہو جس کا اسے حق نہ ہو۔‘‘
مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا: ’’اللہ کی قسم کھا کر کہو: کیا تم کو مجھ سے محبت ہے؟ عورت نے جواب دیا: تم نے قسم دلاکر پوچھا ہے تو میں صحیح بات کہوں گی۔ مجھے تم سے ذرا بھی محبت نہیں ہے۔ اس شخص نے غصہ میں آکر طلاق دے دی۔ حضرت عمرؓ نے اس عورت کو بلایا اور اس سے دریافت کیا: کیا تم نے اپنے شوہر سے کہا تھا کہ تمہیں اس سے محبت نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: اے امیر المومنین! اس نے مجھ سے قسم دلاکر پوچھا تھا، پھر میں جھوٹ کیسے بولتی؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس موقع پر تم کو جھوٹ بولنا چاہئے تھا۔ انہوں نے مزید فرمایا : ’’تمام خاندانوں کی بنیاد محبت پر نہیں قائم ہوتی ہے، لیکن لوگ اسلامی تعلیمات اور خاندانی روابط کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔‘‘
حضرت عمربن خطاب کے مذکورہ بالاقول میں بڑی حکمت ودانائی پائی جاتی ہے۔ وہ جوڑے بڑے خوش قسمت ہیں جن کے درمیان بھرپور سچی محبت ہو، ورنہ بہت سے جوڑے ایسے ہوتے ہیں جن کے درمیان مزاجی ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ سرپرستوں کے ذریعے وہ نکاح کے بندھن میں باندھ دیے جاتے ہیں اور کافی عرصہ ایک ساتھ رہنے کے باوجود ان کے درمیان محبت پروان نہیں چڑھتی، بلکہ ایک دوسرے سے تنافر باقی رہتاہے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک اگر دوسرے کو ناپسند کرتاہو تو بھی اسے اظہار ناپسندیدگی سے اجتناب کرناچاہئے اور خوش گوار تعلق رکھناچاہئے۔ کیوں کہ اگر اس میں ناپسندیدگی کی ایک وجہ ہوگی تو عین ممکن ہے کہ ساتھ ہی خیر کے بہت سے پہلو بھی ہوں۔ اس نے شوہروں کو مخاطب کرکے حکم دیا ہے:’’ان (یعنی بیویوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اْسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ رہی ہو۔‘‘
ازدواجی تعلقات میں خوش گواری کی بنیاد باہم اعتمادپر ہے۔ اگر کبھی اس میں دراڑ پڑجائے تو پوری زندگی اسے بحال کرناممکن نہ ہوسکے گا۔ حدیث میں بیوی سے جھوٹ بولنے کی اجازت اظہار محبت کے معاملے میں دی گئی ہے۔ اگر شوہر اس کو مستقل اپنا وتیرہ بنالے تو قوی اندیشہ ہے کہ بیوی پر جلد یا بدیر اس کی حقیقت منکشف ہوجائے گی اور وہ اس کااعتماد کھودے گا۔ اس لیے دانائی اسی میں ہے کہ ازدواجی زندگی کے عام معاملات میں جھوٹ بولنے سے احتراز کیا جائے۔

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

اسلامک فقہ اکیڈمی کا سولہواں فقہی سمینار ۳۰مارچ تا ۲،اپریل ۲۰۰۷  جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ میں منعقد ہواتھا۔ اس میں دیگر موضوعات کے ساتھ اس موضوع پر بھی غورخوض کیاگیاتھا اور یہ قراردادیں منظور کی گئی تھیں:
۱۔ اگر مریض مصنوعی آلہ تنفس پرہو، لیکن ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس نہ ہوئے ہوں اور امید ہو کہ فطری طورپر تنفس کا نظام بحال ہوجائے گا تو مریض کے ورثا کے لیے اسی وقت مشین ہٹانا درست ہوگا جب کہ مریض کی املاک سے اس علاج کو جاری
 رکھنا ممکن نہ ہو، اورنہ ورثا ان اخراجات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نہ اس علاج کو جاری رکھنے کے لیے کوئی اور ذریعہ میسّر ہو۔
۲۔اگر مریض آلہ تنفس پر ہو اور ڈاکٹروں نے مریض کی زندگی اور فطری طورپر نظام تنفس کی بحالی سے مایوسی ظاہر کردی ہوتو ورثا کے لیے جائز ہوگاکہ مصنوعی آلہ تنفس علاحدہ کردیں۔‘‘

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب :بندہ نہ تو پورے طور پر خود مختار ہے، نہ ہی پورے طور پر مجبورِ محض ہے، بلکہ اللہ نے بندے کو کچھ اختیار دیا ہے اور کچھ مجبور بھی رکھا ہے، اسی کا نام تقدیر ہے، جس کا علم ہمیں بعد میں ہوتا ہے۔ اللہ نے ہمیں عقل سمجھ اور علم دیا، حلال و حرام، جائز و ناجائز کا بتایا۔ سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے نہ کرنے کا ہمیں موقع دیا۔ ان حالات میں کسی بھی ناجائز کام کا اقدام کرنا ہماری بہت بڑی غلطی ہے اسی لیے وہ حرام ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جنت کے عوض میں ہمارے جسم کو خرید لیا ہے۔ ہم اپنے جسم کے خود مالک نہ رہے کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں۔ اسی حالت میں اپنے جسم کو خود کشی کرکے ہلاک کرنا، یہ بیجا تصرف ہے جو بلاشبہ حرام ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

بغیرغسل کے میت کی تدفین
سوال (۱): ہمارے یہاں ایک صاحب شوگر کے مریض تھے، جس کی وجہ سے ان کا ایک پیر پوری طرح سڑگیا تھا اوراس میں کیڑے پڑگئے تھے۔ ان کاانتقال ہوا تو ڈاکٹروں نے تاکید کی کہ نہلاتے وقت ان کا پیر نہ کھولا جائے اوراس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ کر غسل دیا جائے۔جب میت کوغسل دیا جانے لگا تولوگوں میں اختلاف ہوگیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پورے بدن پر پانی پہنچانا فرض ہے۔ میت پر پانی ڈالنے سے کیا نقصان ہوگا۔ لیکن گھر والوں نے ڈاکٹروں کی بات مانتے ہوئے پیر میں جہاں زخم تھا اس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ دی اوربدن کے بقیہ حصے پر پانی بہایا گیا جس طرح غسل دیا جاتا ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میت کے کسی عضومیں زخم ہونے کی وجہ سے اگراس حصے پر پانی نہ بہایا جائے توغسل ہوجائیگا؟
سوال (۲): ایک صاحب کا بری طرح ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ ان کا سر بالکل کچل گیا اوربدن کے دوسرے حصوں پر بھی شدید چوٹیں آئیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم ہوا۔ اس کے بعد نعش کو ورثاء کے حوالے کیا گیا۔ میت کوغسل دینے میں زحمت محسوس ہورہی ہے۔ کیا بغیر غسل دیے تکفین وتدفین کی جاسکتی ہے؟ سنا ہے کہ شہداء کوبغیر غسل دیے دفنایا جاسکتا تھا۔ کیا ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کوشہید مان کراسے بغیر غسل دیے نہیں دفن کیا جاسکتا؟

جواب: اصطلاح شریعت میں’ شہید‘اس شخص کو کہا جاتا ہے جوراہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے مارا جائے۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔ غزو ہ احد کے موقع پر جو مسلمان شہید ہوگئے تھے، اللہ کے رسولﷺ نے ان کے بارے میں ہدایت دی تھی: اْدفْنْوہْم فِی دِ مَاءِہِم بخاری: ۳۶۴ا، (انہیں بغیر غسل دیے دفن کردو)
احادیث میں کچھ دوسرے افراد کے لیے بھی شہید کا لفظ آیاہے۔ مثلاً جوشخص پیٹ کے کسی مرض میں وفات پائے، جسے طاعون ہوجائے، یا جوڈوب کر مرے۔ (بخاری :۶۵۳) ایک حدیث میں ہے:’’ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔‘‘ (بخاری :۲۴۸۰، مسلم :۱۴۱) ان افراد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ انہیں غسل دیا جائیگا۔
ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کسی شخص کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے، نعش مسخ ہوجائے اور کچھ اعضاء ضائع ہوجائیں تواس صورت میں غسل کا کیا حکم ہے؟ احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ اگر بدن کے اکثر اعضاموجود ہیں توغسل دیا جائے گا، ورنہ نہیں۔ شوافع اورحنابلہ کے نزدیک جسم کا کچھ بھی حصہ موجود ہوتو اسے غسل دیا جائے گا۔ اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے موقع پر ایک پرندہ کسی میت کا ایک ہاتھ اڑا لایا تھا اوراسے مکہ میں گرادیا تھا۔تب اہل مکہ نے اسے غسل دیا تھا اوراس موقع پر انہوں نے نماز جنازہ بھی ادا کی تھی۔بسا اوقات میت کا کوئی عضو سڑجاتا ہے، اسے دھونے سے انفیکشن پھیل جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگرکسی ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ اس عضو کونہ دھویا جائے تواس پر عمل کرنا چاہے اوراس عضو کو چھوڑ کر بدن کے بقیہ حصوں پر پانی بہادینا چاہیے۔ اس طرح غسل ہوجائے گا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت، ۳ا۴۲۴۲ (تغسیل المیت) ۷۷۲۲۴(شہید)

(ابو یحییٰ)

جواب۔صحیح روایات کی رو سے بروز قیامت ہر شخص کو خود اس کے اور اس کے والد کے نام سے پکارا جائے گا۔ ماں کے نام سے پکارنے کا کسی صحیح اور مستند روایت میں تذکرہ نہیں ملتا۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

ج: موت کا مرحلہ کیسا ہے ، اس کے بارے میں ہم محض قیاس ہی بیان کر سکتے ہیں ۔ ہم اس کی اصل نوعیت کو نہیں جانتے ۔ اللہ نے کسی مرحلے میں جو تکلیف رکھی ہوتی ہے اس کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں جو ہم نہیں جانتے ۔بعض اوقات تکالیف انسان کی کوتاہیوں کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ انسان کے دنیا میں آنے کا معاملہ بھی بہت تکلیف دہ ہے لیکن یہی تکلیف ہے جو ماں کے اندر وہ جذبات پیدا کرتی ہے جو بعد میں نازک لمحات میں اس کی پرورش کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔ خدا کی پوشیدہ حکمتوں کاانسان کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ۔ انسان کو اپنے بارے میں یہ جاننا چاہیے کہ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا یعنی ہمارے پاس بہت کم علم ہے ، وہ اپنی حکمتوں کو خود ہی جانتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ موت کا وقت اور جگہ طے ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ اس کے لیے کوئی ظاہری سبب پیدا کرتے ہیں،ایسا کیوں کرتے ہیں،یہ معاملات خدا کا راز ہیں اِن کی حقیقت کو ہم نہیں پا سکتے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: کوئی رسوم نہیں تھیں ۔ حضور ﷺ نے بس چند اچھی باتیں کہیں ۔کہ اس موقع کے اوپر تم بھی اللہ کو یاد کرو۔ جانے والے کو کسی چیز پر آمادہ کرنے کے بجائے اس کے سامنے اللہ کا ذکر کرتے رہو یا کوئی اچھی بات کرتے رہو۔ جس سے اللہ اس کو بھی ذکر کی توفیق دے دے۔ یہ نہیں کہا کہ ا سکے سر کے اوپر کھڑے ہو جاؤ۔میں نے دیکھا ’اللہ معاف کرے ’ایک موت کے موقع پرایک بزرگ آئے انہوں نے چھڑی پکڑی اور کہا کہ لا الہ الا للہ پڑھ لو مرنے سے پہلے، اس بیچارے کوتوہوش نہیں ہے اسوقت ۔ جان نزع میں آئی ہوئی ہے ۔تو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہئیں۔

(جاوید احمد غامدی)


جواب:مرحوم کے ترکہ سے اولاً اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات منہا کیے جائیں گے، قرض (اگر تھا تو اس کی) ادائیگی اور وصیت (اگر ہے تو اس مد میں زیادہ سے زیادہ ایک تہائی (1/3) سے اس کی) ادائیگی کے بعد بقیہ ترکہ ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
مسئلہ مذکور کی نوعیت کے مطابق ورثاء میں بیوہ اور دو بھائی شامل ہیں۔ جو بہن اور بھائی پہلے فوت ہوچکے ہیں وہ وارث نہیں رہے اور نہ ان کی اولاد ان کے حصہ کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ مرحوم کے کُل قابلِ تقسیم ترکہ سے بیوہ کو چوتھا حصہ (1/4) ملے گا کیونکہ ان کی اولاد نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِن لَّمْ یَکُن لَّکُمْ وَلَدٌ فَإِن کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُم مِّن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ.اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔النساء، 4:12
بیوہ کو چوتھا حصہ دینے کے بعد بقیہ تمام مال دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)

جواب:مذکورہ افعال کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں،یہ افعال محض جہالت ہیں،انکو چھوڑنا لاز م ہے۔
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)