تقدیر اور کمپیوٹر

جواب : میں کمپیو ٹر بالکل نہیں جانتا اس لیے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ سوال یا مثال درست ہے کہ نہیں لیکن میں ایک معلم ہوں اور بطور معلم میرا ایک تجربہ ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں مجھے اس تجربہ سے تقدیر کے مسئلے کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے ممکن ہے آپ کو بھی مدد ملے ۔
تقدیر کے لفظی معنی ہیں اندازہ ( Assesment)اللہ تعالیٰ خالق کائنات ہے ان کا اندازہ بھی مکمل ہے ہم مخلوق ہیں ہمارا اندازہ بھی نامکمل ہو تا ہے ایک بہت بڑا انجینئر جب اندازہ کرتا ہے کہ اسکی بلڈنگ کیسی ہو گی تو جتنا بڑا ماہر ہوتا ہے اتنی ہی وہ بلڈنگ اسکے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔ آپ اگر ایک اچھے معلم ہیں تو آپ کو اپنے طلبہ کی کارکردگی کا اندازہ ہو تا ہے میرا اپنے بارے میں یہ خیال ہے کہ میں اچھا معلم ہوں تو برا نہ مانیے گا کیونکہ ہر شخص اپنے بارے میں اچھا ہی خیال رکھتا ہے۔ میں اپنے بارے میں تجربہ رکھتا ہوں کہ مجھے اکثر اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ طالب علم اگرA پوزیشن میں نہیں تو Bمیں ضرور آئے گا اور وہ طالب علم کامیاب نہیں ہو گا فلاں طالب علم درمیان میں رہے گا۔ یہ اندازہ مجھے تقریباًسال کے وسط میں ہو جاتا ہے اور پچھلے تیس پینتیس سال میں کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ یہ اندازہ بالکلیہ غلط ثابت ہو ا ہو۔ جس کے بارے میں اندازہ ہو تا ہے کہ اسکی پو زیشن آئے گی عموماً کسی نا کسی اندازہ میں اسکی پو زیشن آ ہی جا تی ہے۔ یہ پو زیشن اس لئے نہیں آتی کہ میں نے ایسا اندازہ کیا تھا میرا اندازہ اسکی پوزیشن آنے کا سبب یا علت ہرگز نہیں ہوتا بلکہ طالب علم کی پو زیشن اس لیے آتی کہ اس طالب علم کی کارکردگی اچھی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا اندازہ با لکل قطعی اور سو فیصد مکمل ہو تا ہے کوئی چیز اسکے اندازہ سے باہر نہیں جاسکتی لیکن اللہ تعالیٰ کے اندازہ اور علم میں اور اللہ کے حکم اور فیصلے میں فرق ہے۔ بندہ اللہ کے حکم اور فیصلے کا پابند ہو تا ہے۔ اسکا اندازہ انسان کو مجبور نہیں کرتا کہ انسان اچھی یا بری پرفامنس دے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کی کارکردگی کیسی ہو گی۔ ماں اپنے بچے کو جانتی ہے کہ چلنا سیکھا ہے چل سکتا ہے کہ نہیں سکتا جب ماں بچے کو بلاتی ہے کہ آؤ اور اسکو چلنے کی تربیت دے رہی ہوتی ہے تو اسکو معلوم ہوتا ہے کہ کتنے قدم چل سکے گا کتنے قدم نہیں چل سکے گا۔ جب وہ اتنے قدم چل لیتاہے تو لپک کر آگے بڑھ کر اسکو پکڑ لیتی ہے تو اندازہ ہمارے آئے دن کے مشاہدے میں ہے جو عموماً صحیح ہو تے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کیا ہے ''اناکل شئی خلقناہ بقدر''(ہم نے ہر چیزکا ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے )'''وما امرنا الا واحدۃ کلمح بالبصر",(اور ہمارے حکم میں ایک لمحہ کی تا خیر اور دیر نہیں ہوتی ) اس لیے اللہ تعالیٰ کا اندازہ مکمل ہے اس لئے تقدیر کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ تقدیر انسان کو مجبور نہیں کرتی ، بلکہ تقدیر انسان کو محرک فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس اندازہ کے مطابق ڈھال لے ۔اگر اچھا استاد کلاس میں کھڑے ہو کر کہے کہ میں یہ توقع رکھتا ہو ں کہ ہر طالب علم اپنی کارکردگی بہتر بنائے اور اس کی پوزیشن یہ اور یہ آنی چاہئے۔ استاد کے اس اندازہ سے اچھے طلبہ میں ایک داعیہ پیدا ہو گا اور وہ اپنی کارکردگی بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ تقدیر کا غالباً یہی منشا ہے ورنہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف سے بعید تر ہے کہ اس نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ میں جہنمی ہو ں اور بعد میں اپنے اسی سابقہ فیصلہ کے مطابق مجھے جہنم میں بھیج دے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ میرا ہاں عدل و انصاف کے خلاف کوئی کام نہیں ہو تا " وما انا بظلا م للعبید،،ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ ''(اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم اپنے بندوں پر نہیں کرتا ) یہ ظلم تو بنیادی انسانی اوصاف کا حامل انسان بھی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی ذات تو اس سے بہت بعید ہے ۔

 

()