حضرت عمر اورقطع ید کی منسوخی

جواب:یہ بات جو حضرت عمر فاروقؓ سے منسوب ہے یہ بہت Misquote اور Misuse ہوئی ہے اوّل تو میں نے بہت تحقیق کی کہ کسی مستند کتاب میں مجھے یہ بات مل جائے لیکن کسی مستند کتاب میں یہ بات نہیں ملی۔ حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں ہے نہ اس زمانے کے مستند ترین مؤرخین یا سیرت نگاروں میں سے کسی نے یہ بات لکھی ہے۔ یہ بات بعد کے لوگوں نے لکھی ہے ۔انہوں نے بھی جو لکھا ہے اسکا مفہوم صرف یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے قحط سالی کے دنوں میں یہ حکم دیا تھا کہ چوروں کے ہاتھ کاٹنے میں جلدی نہ کریں اور یہ دیکھو کہ اس نے کسی غربت یا فکر و فاقہ کی بنیاد پر تو چوری نہیں کی۔ یہ بات اس نتیجہ سے با لکل مختلف ہے جو متجدیدین اس وقعہ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہاں سیدنا عمر کو ئی نئے بات نہیں فرما رہے ہیں بلکہ شریعت ہی کے حکم کی یادہانی کرا رہے ہیں 
شریعت کا حکم یہ ہی ہے اور اس پر تمام فقہا ء کا اتفاق ہے کہ محتاج اور فقیر شخص اگر اپنی فوری حاجت یا ضرورت کی خاطر چوری کر رہا ہے تو وہ چوری نہیں سمجھی جائے گی اور اس پر قطع ید نہیں ہو گا ایک بھوکا آدمی اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی کے گھر جا کر چوری کر لے اور وہاں سے کھانا چرا کر کھا لے اس پر قطع ید کی سزا نہیں ہو گی۔ یہ بات فقہا ء اکرام نے قرآن پاک ہی کے الفاظ سے اخذ کی ہے والسارق و السارقۃ فا قطعو ا ایدیھما جزاء بما کسبا (اورچور خواہ عور ت ہو یا مرد دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ انکی کمائی کا بدلہ ہے ) جنہوں نے چوری کے ذریعے کسب کیا ہو یعنی اس میں کمانے کی یا کسب کی نیت شامل ہو کسی فوری اور حقیقی ضرورت کی تکمیل نہ ہو ۔
ایک غریب شخص مر رہا ہے علاج کے لئے اس کے پا س رقم نہیں آج کل چھ چھ ہزار آٹھ آٹھ ہزار کا ایک معمولی انجکشن آتا ہے اگر وہ نہ لگائے تو فوری طور پر جان کا خطرہ ہے یا جو دل کے مریض ہو تے ہیں وہ درد کے وقت فورا زبان کے نیچے گولی رکھتے ہیں ورنہ گڑبڑ ہو جاتی ہے اگر ایسی صورت میں وہ شخص کہیں سے قیمتی دوائیں چرا لے اور گولی لے کر منہ میں رکھ لے تو یہ اس شدید ضرورت کے تحت آئے گا اس پر قطع ید نہیں ہو گا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے آج کل کی اصطلاح میں کہہ سکتے ہیں ایک Directive جاری کیا تھا جس میں شریعت کے اس حکم کی یا دہانی کرائی گئی تھی اور اس پر سختی سے عمل کرنے کی ہدیت کی تھی 
حضرت عمر فاروقؓ سے منسوب یہ واقعہ اگر درست ہے تو اس کا یہ ہی مفہوم ہے اس کا کوئی تعلق قرآن پاک کے کسی حکم کو منسوخ کرنے سے نہیں ہے جو حکم واضح طور پر قرآن پاک میں دیا گیا ہے اسکو حضرت عمر فاروقؓ تو کیا سارے صحابہ کو مل کر بھی تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس وا قعہ کی یہ تعبیر جو آج کل بعض لوگ کرتے ہیں اور زورو شور سے دہراتے ہیں یہ تعبیر لغو اور مہمل ہے اصل حوالہ کوئی نہیں دیتا بس ایک مبہم بات کہہ دی جاتی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے حدمنسوخ کر دی ۔ اصل مین متجدد دین یہ کہنا چاھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کو حد ساقط کرنے کا اختیار تھا تو آخر ہم میں کیا کمی ہے ہمیں یہ اختیار کیوں نہیں مل سکتا ؟
یہ استدلال میرے خیال میں صحیح نہیں ہے اور نہ کسی فقیہ نے حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے سے لیکر آج تک یہ بات کہی آج کے زمانے میں استاد عبدلقادر عودہ جو اسلام کے فوج داری قانون پر سب سے بڑے آخری مصنف ہیں وہ خود مصری عدلیہ کے اعلی منصب پر فائز رہے اور زمانے کی ضرورت سے کم واقف نہیں تھے انہوں نے بھی یہ بات نہیں لکھی

()