کرایہ دار

جواب : کرایہ کے مکان وغیرہ میں اصلاح و مرمت کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے اس لیے کہ کرایہ دار نفع وصول کرتا ہے اور اس نفع کے عوض وہ اجرت دیتاہے اس لیے کرایہ کے سامان میں اگر کوئی خرابی ہوتی ہے اس کی ذمہ داری مالک کے اوپر ہوتی ہے۔تاہم اگر دونوں باہم مشورہ سے یہ طے کرلیں کہ کرایہ کے سامان میں اصلاح و مرمت کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی اور جن چیزوں کی اصلاح کی بات کی گئی ہے وہ متعین بھی ہے تواس طرح کی شرط لگانا درست ہے اور خراب ہونیکی صورت میں اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی۔تاہم مذکورہ مسئلہ میں جو خرابی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری مالک پر ہوگی کرایہ دار پر نہیں ہوگی اس لیے کہ کرایہ دار پر اصلاح و مرمت کی ذمہ ڈالنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر کرایہ دار کی کوتاہی اور غلطی سے سامان خراب ہوا تو اس کی اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی جب کی یہاں پر جو سامان خراب ہوا ہے اس میں کرایہ دار کی کوئی غلطی نہیں ہے اس لیے ان چیزوں کی اصلاح کی ذمہ داری مالک مکان پر ہوگی۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

ج: ظاہر ہے جب آپ سود کو حرام سمجھتے ہیں اور پھر کسی کوسودی کاروبار کے لیے اپنی عمارت دیتے ہیں تو بری چیز ہے ، اس سے جو آمدن ہو گی وہ کوئی پاکیزہ آمدن نہیں ہے ، اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بات یہ ہے کہ سودممنوع ہے ۔کرایہ بالکل جائز ہے۔ سود صرفی چیزوں پہ ہوتا ہے ۔یعنی ایک چیز میں نے آپ کوادھار دی ،قرض دی اور وہ چیز ایسی ہے کہ اس کو لازماً فنا ہونا ہے ۔وہ استعمال نہیں کی جاسکتی۔آپ کو آٹا چاہئے۔میں دوں گا آٹا۔کیا کریں گے اسے ؟ کھائیں گے فنا ہو جائے گا ۔اب اس کو پیدا کرنا ہو گا دوبارہ۔یعنی محنت کر کے پھرگندم خریدنی ہو گی پھر آٹاپیدا ہو گا ڈیڑھ سیر۔پھر آپ میرا آٹا لوٹائیں گے۔پیسے خرچ کرنے کے لئے ہوتے ہیں یہ بھی فنا ہو جاتے ہیں۔اس کو کہتے ہیں صرفی چیزیں۔

            استعمال کی چیزیں کیا ہیں ۔یہ میز ہے ۔ آپ کو ضرورت تھی ۔شادی کرنے کی یا تقریرفرمانی تھی ۔آپ نے کہا ذرا میز دے دو استعمال کرنے کے لئے۔آپ استعمال کریں گے ۔اور استعمال کے بعدآپ میری میز اٹھا کے مجھے واپس دے دیں گے۔اس استعمال کا کرا یہ ہو تا ہے ۔

            ان صرفی چیزو ں کے اوپر قرآن کہتا ہے۔ قرآن کیا تورات بھی یہ ہی کہتی ہے کہ صرفی چیزیں جو ہیں ان میں آدمی دہری مشقت میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔اگر اس سے اس کے اوپر کچھ مانگا جائے۔ایک وہ اس چیز کو فنا کر بیٹھا ہے ۔اسے دوبارہ پیدا کرے گا ۔اور اس کے اوپر مزید جو دینا ہے وہ بھی پیدا کر کے دینا ہے تو یہ دہری مشقت ہے ۔ فرض کریں کہ آپ نے بیس لاکھ روپیہ مجھے دیا ہے ۔وہ میں نے کاروبار میں لگا لیا۔مجھے کاروبار میں نفع ہویا نقصان وہ ڈوب جائے یا کچھ بھی ہو۔مجھے اب دوبارہ کمانا ہے ۔میں نے اس سے بیٹی کی شادی کر لی ۔ بہرحال کہیں اور سے کماؤں گا تو دو ں گا آپ کو ۔میں نے مکان لیا ہے آ پ سے ۔ مکان میں میں رہ رہا ہوں ۔مالک مکان نے نوٹس دیا میں نے کہا جی دوسرا تلاش کر لیتا ہوں۔خالی کر کے دے دیا آپ کو ۔ یہاں دہر ی مشقت نہیں ہے۔ اس پر قرآن مجیدکہتا ہے کہ آپ متعین نفع نہیں لے سکتے۔یہ بات سمجھ لیجئے کہ ممنوع کیا ہے ؟ ممنوع ہے متعین نفع۔اگر مثال کے طور پر میں نے آپ کو دو لاکھ روپیہ قرض دیا ۔اور آپ سے یہ کہا کہ جی میرا قرض آپ کو ہر حال میں واپس کرنا ہے ۔واجب الادا ہے ۔آپ کاروبار کر رہے ہیں اس سے تو اگر کوئی نفع آپ کو ہوتا ہے تو آپ مجھے اس تنا سب سے دیں گے۔اس میں کوئی سود نہیں ہے۔ٹھیک ہے ۔ جائز ہے کوئی حرج نہیں۔آپ کا اصل زر محفوظ ہے ۔آپ اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں ۔ نقصان میں شریک نہیں ہیں۔انکار کر دیں اس سے۔اس میں دین کی طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ آپ کو نفع ہو نقصان ہو مجھے آپ نے اتنے فیصد دینا ہے بس!اس کو منع کیا گیا ہے ۔اسی طرح زمین کا معاملہ ہے ۔زمین میں بھی یہ ہی ہوتا ہے ۔بھئی ٹھیک ہے زمین ہے ۔زمین بیس لاکھ کی ہو سکتی ہے ۔زمین ایک کروڑ کی ہو سکتی ہے۔آپ نے اس میں ایک آدمی سے طے کر لیا کہ میں اس میں کاشت کروں گا ۔اتنے پیسے آپ کو دے دوں گا ۔فصل ہو گئی اچھی بات ہے نہیں ہوئی تو تب بھی ۔کرایہ اس کا دیجئے اس کو ۔یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ نے دکا ن کرائے پر لی ہے چلتی ہے نہیں چلتی آپ کو کرایہ بہرحال دینا ہے ۔تو بعض لوگ اس میں خوامخواہ خلطِ مبحث پیدا کرتے ہیں ۔چنانچہ ایک بڑے عالم تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ انہوں نے بہت اصرار سے یہ کتا ب لکھی ہے کہ کرایہ جو ہے یہ بھی سود ہے ۔تو طالب علموں نے سوال کیا کہ آپ مقالہ پڑھنے کے لئے جس جہاز پر آئے ہیں۔وہ کرایہ ہی تو دے کے آئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ پائلٹ کی محنت کا معاوضہ ہے۔ایسی جو باتیں ہیں ان کا پھر یہ نتیجہ نکلتا ہے ۔آپ ٹیکسی کرایہ پر دیتے ہیں ۔آ پ دیکھیں کہ کرایہ ممنوع قرار دے دیں تو تمدن ختم ہو جائے گا ۔ہم اطمینان سے جاتے ہیں کراچی جائیں۔پشاور جائیں۔تو ہوٹل میں ٹھہر جاتے ہیں۔کرایہ ہی دیتے ہیں ۔کرایہ استعمال کا ہے اس کمرے کاجس میں آپ ٹھہرتے ہیں ۔کمرہ خالی کرتے وقت آپ کو کیا کرنا ہوتا ہے ؟ کمرہ دوبارہ بنا کے دینا ہوتا ہے ؟ نہیں!لیکن پیسہ اگر آپ نے دس لاکھ روپیہ لے لیا ہے تو وہ تو بہرحال آپ نے خرچ کرنا ہے ۔اس لیے اس کے اوپر یہ فرق ہے دونوں میں ۔اور اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ سود صرفی چیزوں پہ ہوتا ہے اور کرایہ غیر صرفی چیزوں پر ہوتا ہے۔ یعنی ایک چیز میں نے آ پ کوادھار دی اور وہ چیز ایسی ہے کہ اس کو لازماً فنا ہونا ہے۔وہ استعمال نہیں کی جاسکتی۔مثلاآپ کو آٹا چاہیے۔آپ اسے کھائیں گے اور یہ فنا ہو جائے گا اب اس کو دوبارہ پیدا کرنا ہو گا ۔یعنی محنت کر کے پھرگندم خریدنی ہو گی پھر آٹاپیدا ہو گا ۔پھر آپ اسے لوٹائیں گے۔اسی طرح پیسے بھی فنا ہو جاتے ہیں۔اس کو کہتے ہیں صرفی چیزیں۔استعمال کی چیزیں وہ ہوتی ہیں جو استعمال سے فنا نہیں ہوتیں بلکہ ویسے کی ویسے رہتی ہیں اور آپ معینہ مدت کے بعد انہیں اسی طرح لوٹا سکتے ہیں۔ مثلا یہ میز ہے ۔ آپ کو ضرورت تھی ۔آپ نے کہا ذرا میز دے دو استعمال کرنے کے لیے۔آپ استعمال کریں گے ۔اور استعمال کے بعدآپ میز اٹھا کے مجھے واپس دے دیں گے۔اس استعمال کا کرا یہ ہو تا ہے

            صرفی چیزوں میں انسان دہری مشقت میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔اگر اس سے اس کے اوپر کچھ مانگا جائے تو وہ چونکہ اس چیز کو فنا کر بیٹھتاہے۔اسے بھی دوبارہ پیدا کرکے دینا ہوتا ہے اور اس پر مزید بھی دینا ہوتا ہے تو یہ ظلم ہے ۔ فرض کریں کہ آپ نے بیس لاکھ روپیہ مجھے دیا ہے ۔وہ میں نے کاروبار میں لگا لیا۔مجھے کاروبار میں نفع ہویا نقصان، وہ ڈوب جائے یا کچھ بھی ہو۔مجھے اب اسے دوبارہ کما کر واپس کرناہے اور اس پر مزید بھی دینا ہے اس کے برعکس میں نے مکان لیا ہے آ پ سے ۔ مکان میں میں رہ رہا ہوں ۔مالک مکان نے نوٹس دیا میں نے کہا جی دوسرا تلاش کر لیتا ہوں۔خالی کر کے دے دیا ۔ یہاں دہر ی مشقت نہیں ہے۔ اسی طرح آپ ہوٹل میں ٹھہر تے ہیں توکمرے کاکرایہ ہی دیتے ہیں ۔کرایہ استعمال کا ہے اس کمرے کاجس میں آپ ٹھہرتے ہیں ۔کمرہ خالی کرتے وقت آپ کو کیا کرنا ہوتا ہے ؟ کمرہ دوبارہ بنا کے دینا ہوتا ہے ؟ نہیں!لیکن پیسہ اگر آپ نے دس لاکھ روپیہ لے لیا ہے تو وہ تو بہرحال آپ نے خرچ کرنا ہے ۔اسے دوبار ہ کما کر دینا ہوگا۔

(آصف افتخار)

جواب: بات یہ ہے کہ سودممنوع ہے ۔کرایہ بالکل جائز ہے۔ سود صرفی چیزوں پہ ہوتا ہے ۔یعنی ایک چیز میں نے آ پ کوادھار دی ،قرض دی اور وہ چیز ایسی ہے کہ اس کو لازماً فنا ہونا ہے ۔وہ استعمال نہیں کی جاسکتی۔آپ کو آٹا چاہئے۔میں دوں گا آٹا۔کیا کریں گے اسے ؟ کھائیں گے فنا ہو جائے گا ۔اب اس کو پیدا کرنا ہو گا دوبارہ۔یعنی محنت کر کے پھرگندم خریدنی ہو گی پھر آٹاپیدا ہو گا ڈیڑھ سیر۔پھر آپ میرا آٹا لوٹائیں گے۔پیسے خرچ کرنے کے لئے ہوتے ہیں یہ بھی فنا ہو جاتے ہیں۔اس کو کہتے ہیں صرفی چیزیں۔

استعمال کی چیزیں کیا ہیں ۔یہ میز ہے ۔ آپ کو ضرورت تھی ۔شادی کرنے کی یا تقریرفرمانی تھی ۔آپ نے کہا ذرا میز دے دو استعمال کرنے کے لئے۔آپ استعمال کریں گے ۔اور استعمال کے بعدآپ میری میز اٹھا کے مجھے واپس دے دیں گے۔اس استعمال کا کرا یہ ہو تا ہے ۔

ان صرفی چیزو ں کے اوپر قرآن کہتا ہے۔ قرآن کیا تورات بھی یہ ہی کہتی ہے کہ صرفی چیزیں جو ہیں ان میں آدمی دہری مشقت میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔اگر اس سے اس کے اوپر کچھ مانگا جائے۔ایک وہ اس چیز کو فنا کر بیٹھا ہے ۔اسے دوبارہ پیدا کرے گا ۔اور اس کے اوپر مزید جو دینا ہے وہ بھی پیدا کر کے دینا ہے تو یہ دہری مشقت ہے ۔ فرض کریں کہ آپ نے بیس لاکھ روپیہ مجھے دیا ہے ۔وہ میںنے کاروبار میں لگا لیا۔مجھے کاروبار میں نفع ہویا نقصان وہ ڈوب جائے یا کچھ بھی ہو۔مجھے اب دوبارہ کمانا ہے ۔میں نے اس سے بیٹی کی شادی کر لی ۔ بہرحال کہیں اور سے کمائوں گا تو دو ں گا آپ کو ۔میں نے مکان لیا ہے آ پ سے ۔ مکان میں میں رہ رہا ہوں ۔مالک مکان نے نوٹس دیا میں نے کہا جی دوسرا تلاش کر لیتا ہوں۔خالی کر کے دے دیا آپ کو ۔ یہاں دہر ی مشقت نہیںہے۔ اس پر قرآن مجیدکہتا ہے کہ آپ متعین نفع نہیں لے سکتے۔یہ بات سمجھ لیجئے کہ ممنوع کیا ہے ؟ ممنوع ہے متعین نفع۔اگر مثال کے طور پر میںنے آپ کو دو لاکھ روپیہ قرض دیا ۔اور آپ سے یہ کہا کہ جی میرا قرض آپ کو ہر حال میں واپس کرنا ہے ۔واجب الادا ہے ۔آپ کاروبار کر رہے ہیںاس سے تو اگر کوئی نفع آپ کو ہوتا ہے تو آپ مجھے اس تنا سب سے دیں گے۔اس میں کوئی سود نہیں ہے۔ٹھیک ہے ۔ جائز ہے کوئی حرج نہیں۔آپ کا اصل زر محفوظ ہے ۔آپ اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں ۔ نقصان میں شریک نہیں ہیں۔انکار کر دیں اس سے۔اس میں دین کی طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ آپ کو نفع ہو نقصان ہو مجھے آپ نے اتنے فیصد دینا ہے بس!اس کو منع کیا گیا ہے ۔اسی طرح زمین کا معاملہ ہے ۔زمین میں بھی یہ ہی ہوتا ہے ۔بھئی ٹھیک ہے زمین ہے۔

زمین بیس لاکھ کی ہو سکتی ہے ۔زمین ایک کروڑ کی ہو سکتی ہے۔آپ نے اس میں ایک آدمی سے طے کر لیا کہ میں اس میں کاشت کروں گا ۔اتنے پیسے آپ کو دے دوں گا ۔فصل ہو گئی اچھی بات ہے نہیں ہوئی تو تب بھی ۔کرایہ اس کا دیجئے اس کو ۔یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ نے دکا ن کرائے پر لی ہے چلتی ہے نہیں چلتی آپ کو کرایہ بہرحال دینا ہے ۔تو بعض لوگ اس میں خوامخواہ خلطِ مبحث پیدا کرتے ہیں ۔چنانچہ ایک بڑے عالم تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ انہوں نے بہت اصرار سے یہ کتا ب لکھی ہے کہ کرایہ جو ہے یہ بھی سود ہے ۔تو طالب علموں نے  سوال کیا کہ آپ مقالہ پڑھنے کے لئے جس جہاز پر آئے ہیں۔وہ کرایہ ہی تو دے کے آئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ پائلٹ کی محنت کا معاوضہ ہے۔ایسی جو باتیں ہیں ان کا پھر یہ نتیجہ نکلتا ہے ۔آپ ٹیکسی کرایہ پر دیتے ہیں ۔آ پ دیکھیں کہ کرایہ ممنوع قرار دے دیں تو تمدن ختم ہو جائے گا ۔ہم اطمینان سے جاتے ہیں کراچی جائیں۔پشاور جائیں۔تو ہوٹل میں ٹھہر جاتے ہیں۔کرایہ ہی دیتے ہیں ۔کرایہ استعمال کا ہے اس کمرے کاجس میں آپ ٹھہرتے ہیں ۔کمرہ خالی کرتے وقت آپ کو کیا کرنا ہوتا ہے ؟ کمرہ دوبارہ بنا کے دینا ہوتا ہے ؟ نہیں!لیکن پیسہ اگر آپ نے دس لاکھ روپیہ لے لیا ہے تو وہ تو بہرحال آپ نے خرچ کرنا ہے ۔اس لیے اس کے اوپر یہ فرق ہے دونوں میں ۔اور اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔

(جاوید احمد غامدی)