کفو

س ۔ دو ایک سوال کے جواب میں نکاح کی بابت آپ نے جو کچھ فرمایا، جس کا نچوڑ یہ ہے کہ بالغ لڑکا اور لڑکی کا نکاح ان کے والدین کی مرضی کے خلاف ان کی عدم موجودگی میں صرف اسی صورت جائز ہوگا جب دونوں لڑکا اور لڑکی، برادری، تعلیم، اخلاق، مال، عقل و شکل میں (آپ کے الفاظ میں) ہم پلہ ہوں۔ قبلہ! جہاں تک اخلاق کی بات ہے وہ تو قابلِ فہم، باقی باتیں میری ناقص عقل میں نہیں آتیں۔ میں نے اب تک تو یہی پڑھا اور سنا ہے کہ مذہبِ اسلام میں کسی عربی کو عجمی پر اور گورے کو کالے پر فوقیت حاصل نہیں، اور مسلمانوں کی حیثیت و مرتبہ کا تعین صرف تقویٰ، ایمان و اخلاق اور نیک اعمال سے ہوگا، نسل، برادری، وجاہت و دولت سے نہیں۔ اور جب یہ بات ہے تو بالغ مرد و عورت کے نکاح کے لئے مذکورہ بالا شرائط مثلاً: عقل و شکل، مال، برادری وغیرہ کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ (خواہ یہ نکاح والدین کی مرضی کے مطابق نہ ہو)۔ حضورِ والا! اگر کچھ اس پر روشنی ڈالیں تو مجھ کم علم کی اْلجھن دْور ہوجائے۔

ج ۔ جناب نے ‘‘اسلامی مساوات’’ کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے، وہ بالکل دْرست اور بجا ہے۔ اسلام کسی کو کسی پر فخر کی اجازت نہیں دیتا، نہ رنگ و نسل، عقل و شکل اور برادری یا مال کو معیارِ فضیلت قرار دیتا ہے۔ لیکن اس پر بھی غور فرمائیے کہ ‘‘نکاح’’ اس مقدس رشتے کا نام ہے جو نہ صرف زوجین کو بلکہ ان کے تمام متعلقین کو بھی بہت سے حقوق و فرائض کا پابند کرتا ہے، اور ان تمام حقوق و فرائض کی ادائیگی نہ صرف میاں بیوی کی مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی پر موقوف ہے بلکہ دونوں طرف کے اہلِ تعلق کے درمیان باہمی اْنس و احترام کو بھی چاہتی ہے ۔ادھر انسانی نفسیات کی کمزوری کا یہ عالَم ہے کہ بہت ہی کم اور شاذ و نادر ایسے حضرات ہوں گے جو صرف ‘‘اِنَّ اَکرَمَکْم عِندَ اللہِ اَتقٰکْم۔’’ کے اْصول کو رشتہ ازدواج میں کافی سمجھیں، اور ان کی نظر نہ لڑکے، لڑکی کی عقل و شکل پر جائے، نہ تعلیم و تہذیب پر، نہ رنگ و نسب پر، نہ جاہ و مال پر۔ رشتہ ازدواج چونکہ محض ایک نظریاتی چیز نہیں، بلکہ زندگی کی امتحان گاہ میں ہر لمحہ اسے عملی تجربوں سے گزرنا ہوتا ہے اور اس رشتے سے بڑھ کر (اپنے عملی آثار و نتائج کے اعتبار سے) کوئی رشتہ اتنا نازک، اتنا طویل اور ایسے وسیع تعلقات اور ذمہ داریوں کا حامل نہیں۔ اس لئے اسلام نے جو صحیح معنوں میں دِینِ فطرت ہے انسانی فطرت کی ان کمزوریوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا، اور نہ وہ ایسا کرسکتا تھا، اس لئے اس نے اپنے ‘‘اْصولِ مساوات’’ کے مطابق جہاں یہ فتویٰ دیا کہ ایک مسلمان خاتون کا نکاح، بلاتمیز رنگ و نسل، عقل و شکل اور مال و وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے، وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ اس عقد سے متاثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضامندی کے بغیر بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے، تاکہ اس عقد کے نتیجے میں ناخوشگواریوں، تلخیوں اور لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا نہ ہوجائے۔ یہ حاصل ہے اسلام میں مسئلہ کفو کی اہمیت کا۔ اس مختصر سی وضاحت کے بعد اب میں مسئلہ لکھتا ہوں۔ ایک اعلیٰ ترین خاندان کا فرد، اپنی فرشتہ سیرت اور حور شمائل صاحب زادی کا عقد اس کی رضامندی سے کسی نومسلم حبشی کے ساتھ کردیتا ہے تو اسلام نہ صرف اس کا جائز رکھتا ہے، بلکہ اسے دادِ تحسین دیتا ہے۔ یہ تو ہوا اسلام کا اْصولِ مساوات۔ اب لیجئے دْوسری صورت: کہ ایک شریف اور اعلیٰ خاندان کی لڑکی صرف اپنے جوشِ عشق میں کسی ایسے لڑکے سے نکاح کرلیتی ہے، جو حسب و نسب، عزّو شرف، دِین و تقویٰ، علم و فضل، مال و جاہ کے لحاظ سے کسی طرح بھی اس کے جوڑ کا نہیں، اور یہ عقد والدین اور اقربا کی رائے کے علی الرغم ہوتا ہے، تو چونکہ رشتہ ازدواج میاں بیوی کو دو بکریوں کی طرح باندھ دینے کا نام نہیں، بلکہ اس کے کچھ حقوق و فرائض بھی ہیں، اور اسلام یہ دیکھتا ہے کہ ان حالات میں اس مقدس رشتے کے نازک ترین حقوق اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ادا نہیں ہوسکیں گے، اس لئے والدین اور اولیاء کی رضامندی کے بغیر اسلام اس بے جوڑ عقد کو ناروا قرار دے کر ان تمام فتنوں اور لڑائی جھگڑوں کا دروازہ بند کردینا چاہتا ہے، جو اس بے جوڑ عقد کے نتیجے میں پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر جناب ان معروضات پر توجہ فرمائیں گے تو مجھے توقع ہے کہ اسلام کا دِینِ فطرت ہونا بھی آپ پر کھل جائے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)